Search is not available for this dataset
url
stringclasses
3 values
heading
stringclasses
3 values
content
stringclasses
3 values
ID
float64
0
3.39k
URL
stringlengths
29
308
Content
stringlengths
1
517k
Title
stringlengths
2
256
null
null
null
395
https://www.urduzone.net/rooh-laraz-jate-hae-complete-urdu-story/
منگنی کے بعد میں بہت پریشان تھی۔ امی اور خالہ بھی آزردہ تھیں، مگر ابو کے آگے کسی کی نہ چلی۔ انہوں نے دانش کی بجائے میرا رشتہ محب خان سے کردیا۔ میں لڑکی تھی، دکھ سہنا، اور کچھ نہ کہنا ہم بے زبانوں کی گھٹی میں پڑا تھا۔ دانش کا براحال تھا، جبکہ وہ ابو کا پیارا بھتیجا تھا اور میرا رشتہ اسی سے طے کیا جانا تھا۔ والد کا خواب تھا کہ دانش آفیسر بنے، ان کے اصرار پر وہ کیڈٹ بھرتی ہوگیا لیکن سال بعد اکیڈمی چھوڑ کرگھر آگیا، سبھی نے سمجھایا مگر اس نے کسی کی نہ سنی کہا کہ اکیڈمی کے چار سال مکمل کرنا اس کے بس کی بات نہیں۔ اس کا خواب تو مصور بننا ہے۔ اس جواب پر والد صاحب ناراض ہوگئے۔ صاف کہہ دیا کہ تم نے روشن مستقبل کی راہ سے فرار اختیار کرلیا ہے تویاد رکھنا کہ میں اب تمہیں اپنا داماد بھی نہ بناؤں گا۔ دانش کاشوق تھا کہ وہ آرٹسٹ بنے، پینٹنگ عمدہ بناتا تھا، اس کا رحجان مصوری کی جانب تھا، اس نے اپنے والد اور چچا کی خواہش کے برعکس ایک آرٹ کالج میں داخلہ لے لیا۔ وہ سمجھ رہاتھا کہ چچا اس سے والہانہ پیار کرتے ہیں، یہ وقتی غصہ ہے جلد ہی مان جائیں گے لیکن ابو نے مان کر نہ دیا اور میری منگنی اپنے ایک کزن کے بیٹے محب سے کر دی، جس نے مقابلے کا امتحان پاس کیا اور آفیسر ہوگیاتھا۔ محب سے میری منگنی کے بعد دانش نے ہنسنا بولنا، کھانا پینا چھوڑ دیا۔ میں بھی اس رشتے پر خوش نہ تھی، دانش کی جدائی کے خیال سے دل ڈوبا جاتا تھا۔ دانش کی والدہ امی کی سگی بہن تھیں، ہم سب ایک گھر میں رہتے تھے، میری منگنی ہوگئی تو میں نے دانش کے کمرے میں جانا چھوڑ دیا، اس سے بات چیت بھی کم کردی۔ اس بات کا اسے قلق تھا مگر میں کیا کرتی، والدہ کا یہی حکم تھا وہ نہیں چاہتی تھیں کہ دانش کو میری طرف سے غلط فہمی رہے اور میری شادی کے موقعے پر کوئی مسئلہ کھڑا ہوجائے۔ ایک گھر میں رہتے ہوئے جب میں نے اس سے ترک کلام کیا تو وہ بے چین ہوگیا، ہرروز کھڑکی سے ایک پرچہ میرے کمرے کے اندر ڈال جاتا، جس پر کوئی درد بھرا شعر لکھا ہوتا میں پرچہ پڑھ کر پھاڑ دیتی، مگر جواب نہ دیتی، جانتی تھی اگر ایک بار جواب دیا تو یہ سودا مہنگا پڑ جائے گا، وہ روز جواب کی امید باندھ لے گا۔ میں نے امی کو بتادیا تھا کہ آپ کا بھانجا اتنا نڈر ہے، روز المیہ اشعار لکھتا ہے کسی دن کسی کے ہاتھ یہ پرچہ لگ گیا، ابو کو پتا چلا تو برا ہوگا۔امی نے دانش کو سمجھایا بیٹا تم خود کو سنبھالو تمہارے تایا کی جو مرضی ہوتی ہے ہم وہی کرتے ہیں تم نے حقیقت سے سمجھوتہ نہ کیا تو گھر میں بد مزگی پیدا ہوگی اور ہمارا خاندان بکھر جائے گا۔ امی کی بات سن کر وہ خاموش رہا، مگر دل پر اسے قابو نہ تھا، ایک ہفتہ بعد پھر وہی پرچے بازی شروع کردی والد صاحب نے میری شادی کی بہت جلد تاریخ رکھ دی۔ میں نے سوچا کہ فی الحال دانش کو اس کے حال پر چھوڑ دوں، وہ اپنا اس طرح غم غلط کررہا ہے، کچھ کہا تو کہیں کوئی غلط عمل نہ کر گزرے۔ کچھ دنوں بعد اس نے میرے لئے ایک نئی پریشانی پیدا کردی۔ پرچوں پر لکھتا، اگر جواب نہ دیا تو بھوک ہڑتال کردوں گا۔ پھر واقعی اس نے بھوک ہڑتال کردی۔ تین روز دانش نے کچھ نہ کھایا تو میں نے اسے سمجھایا کہ دیکھو تمہاری اس قسم کی حرکتوں سے سوائے پریشانی کے کچھ حاصل نہ ہوگا تم تو پریشان ہوہی، مجھے کیوں پریشان کرتے ہو۔ تو کیا تم اپنی منگنی سے خوش ہو خوش ہوں یا نہیں اب یہ ایک لاحاصل سوال ہے۔ ابو تمہاری زندگی بنانا چاہتے تھے اور تم اکیڈمی سے بھاگ آئے، اب ان کا ارادہ بدل نہیں سکتا اور میں والد کے سامنے ڈٹ نہیں سکتی، منہ زوری نہیں دکھا سکتی۔ وہ جو چاہتے ہیں اس کی اطاعت کرنی ہے اسی میں ہماری بھلائی ہے ۔ اس نے کہا اے کاش وقت تھم جائے ، تمہاری شادی کا دن کبھی نہ آئے چاہتی تومیں بھی یہی تھی کہ یہ دن نہ آئے لیکن وقت کوکون روک سکتا ہے۔ میرے آنسو بھی نہ روک سکے، وہ دن آہی گیا۔ میرے والدین بہت خوش تھے کہ نکمے لڑکے دانش کی جگہ ان کو ایک سرکاری آفیسر مل گیا ہے۔ مایوں سے ایک دن قبل دانش میرے پاس آیا اور آخری بار بات کی۔ اس نے کہا وعدہ کرو جب بھی میکے آؤ گی مجھ سے بات ضرور کروگی مجھ سے بات بند مت کرنا، ورنہ دل کا بوجھ اتنا بڑھ جائے گا کہ اس بوجھ کو سہہ نہ سکوں گا۔ گھبرا کر میں نے وعدہ کرلیا میں ضرور تم سے بات کیا کروں گی فکر مت کرو لیکن تم بھی وعدہ کرو کہ کبھی مجھے خط نہ لکھو گے، کیونکہ یہ خط میری زندگی کو برباد کرنے کا سبب بن سکتے ہیں یہ آخری وعدہ کرکے ہم دونوں جدا ہوئے تھے۔ میری شادی ہوگئی، بابل کے گھر سے خانیوال آگئی۔ سسرال والے بہت اچھے لوگ تھے۔ محب آفیسر تھے۔ وہ بہت نفیس انسان تھے۔ اصول پسند اور نرم گفتار، جو ملتا، ان کا گرویدہ ہوجاتا۔ وہ مجھ سے بہت محبت کرتے تھے۔ اس قدر خیال رکھتے کہ کسی اور کے تصور سے اب اپنے آپ سے شرمندگی محسوس ہوتی، سوچتی جب اللہ تعالیٰ نے اتنا اچھا پیار کرنے والا خوش شکل شریک زندگی عطا کیا ہے تو کیوں نہ اس انعام کی قدر کروں۔ اپنے شوہر سے بے وفائی کا تو سوچ بھی نہ سکتی تھی، جو دل وجاں سے مجھ پر نثار ہوتے تھے۔ سچ کہتی ہوں کہ جتنی محبت، محب نے مجھے دی، شاید ہی کسی عورت کو اس کے خاوند سے ملی ہو۔ محب کی شدید محبت کو دیکھتے ہوئے مجبور ہوگئی کہ ماضی کی یادوں کو بھلا دوں اور کلی طور پر ان کی ہوکر رہوں میں نے دانش کو بھلا دیا، مگر وہ دیوانہ مجھے نہ بھلا سکا، وہ میرا شدت سے انتظار کرتا کہ میں میکے آؤں گی اور وہ مجھے دیکھے گا، ایک نظر کا دیدار ہی بس اس کی زندگی تھا۔ خانیوال سے میرا شہر دور نہ تھا۔ پھر بھی میکے جانے سے کترانے لگی، تاکہ دانش کو صبر آجائے، جب میکے جاتی تو وہاں بڑے والہانہ انداز سے آجاتا، جہاں میںبیٹھی ہوتی۔ یہ بات میرے والدین کو اچھی نہ لگتی، وہ نہیں چاہتے تھے کہ ان کی بیٹی کی پرسکون زندگی میں اس جذباتی اور بے وقوف لڑکے کی وجہ سے کوئی خلل پڑجائے۔ بے شک محب کودانش کے جذبات کا علم نہ تھا، مجھ پر شک بھی نہیں کرتے تھے، میرے میکے آتے تو سبھی سے کھلے دل سے ملتے، کسی کا والہانہ انداز دوسرے کی نگاہوں سے زیادہ دنوں تک چھپا نہیں رہ سکتا۔ ایک روز عید کے موقع پر امی نے میری اور محب کی دعوت کی۔ ہم پہنچے تو دانش نے کالج سے چھٹی کرلی اور فوراً ہماری طرف آگیا۔ محب نے اس کے ساتھ خوش دلی سے بات کی، چاہئے تھا کہ وہ دعا سلام کرکے چلاجاتا لیکن نہیں گیا بلکہ ڈٹ کر ہم سب کے درمیان بیٹھ گیا۔ ابو نے اس بات کو محسوس کیا اور کہا بیٹا تم کیوں یہاں بیٹھ کر وقت ضائع کررہے ہو۔ جاؤ جاکر اپنی پڑھائی کرو ابو کے اس طرح ٹوکنے پر دانش نے اپنی سخت بے عزتی محسوس کی۔ میں جانتی تھی وہ صرف مجھے دیکھنے کے لئے آتا ہے، مجھے دیکھ کر اس کو سکون مل جاتا تھا، لیکن والد صاحب کے خیال میں اس کے دل میں وہ مرض تھا کہ جس کا علاج کسی کے پاس نہیں تھا۔ وہ نہیں چاہتے تھے کسی دن ان کی پوزیشن داماد کی نظروں میں خراب ہو محض اس احمق لڑکے کی بے وقوفی کی وجہ سے۔ جب اس پر ابو نے اپنے گھر آنے پر پابندی لگادی تو وہ سخت مضطرب رہتے لگا۔ اس نے امی سے کہا خالہ میں کسی بری نیت سے نہیں آتا ہمارا ایک ہی گھر ہے جب نسترن آتی ہے تو اسے ایک نظر دیکھ لیتا ہوں مجھے سکون مل جاتا ہے۔ غلطی آپ لوگوں کی ہے، ہم دونوں کو پہلے ہمارے بچپن میں ایک دوسرے سے منسوب کیا اور پھر اچانک تایا ابو نے اپنا فیصلہ بدل لیا۔ یہ نہ سوچا کہ ہمارے دلوں پر کیا گزرے گی۔ امی کو دکھ توتھا لیکن اس کی حوصلہ افزائی کرنا نہ چاہتی تھیں۔ انہوں نے کہا تمہیں مصور بننا تھا تواب مصور بنو باقی باتیں بھلا کراپنے مقصد کی طرف دھیان دو۔ خالہ مصور بننا غلط تو نہیں، یہ ایک اعزاز کی بات ہے اور میں آپ کو ایک بڑا مصور بن کر دکھاؤں گا۔ دیکھنا میری ایک پینٹنگ لاکھوں میں بکے گی۔ اللہ تمہیں کامیاب کرے بیٹا جب تم منزل کو پالو گے تو سب تمہاری توقیر کریں گے، ابھی تو تم منزل سے بہت دور ہو ناحق وقت کا زیاں کرکے اپنی منزل کھوٹی کررہے ہو۔ امی کا لیکچر سن کر وہ اور مایوس ہوگیا، جیسے اسے کسی غمگسار کی ضرورت ہو اور کوئی اس کا ندیم نہ رہا ہو ۔ تمام وقت اپنے کمرے میں پڑا رہتا۔ اس کی یہ کیفیت دیکھ کر میں نے میکے جانا ہی ترک کردیا ، سوچا بیاہتا ہوچکی ہوں، اب اس کا مجھے یوں ایک نظر دیکھنے کی خواہش کرنا بھی گناہ ہے۔ میرے دیدار سے اس کو سکون نہیں ملتا، اندر کی آگ اور سوا ہوجاتی ہے۔ یہ ادراک شاید اس کو نہ تھا، مجھے تو تھا۔ اس سے بات چیت ترک کرچکی تھی جب امی نے ڈانٹ دیاتو وہ ہرطرف سے مایوس ہوگیا، اس کا عجیب فلسفہ تھا کہ تم سے ایک دولمحے بات کرتا ہوں، بھلا بات کرلینے سے تمہارا کیا جاتا ہے، جبکہ مجھ کو قرار آجاتا ہے۔ میں نے سمجھایا کہ اب ہوش میں آجاؤ ورنہ عمر بھر میری شکل نہ دیکھ سکوگے، تم جس کو قرار سمجھتے ہو وہ قرار نہیں بلکہ بے قراری ہے، جوتمہیں اور بے چین کرتی ہے۔ مجھے اپنے کزن پرترس بھی آتا کیونکہ اس کا خود پر بس نہ تھا۔ آخری حل بس یہی تھا کہ اپنی ازدواجی زندگی بچانے کی خاطر میکے سے مکمل ناتا توڑ لوں۔ آناجانا بالکل ترک کردوں، محب کہتے بھی تم کتنی سنگدل ہوگئی ہو، اپنے والدین، بہنوں سے ملنے نہیں جاتیں، وہ کیا سوچیں گے آپ کے ہوتے، مجھے اور کسی کی چاہت نہیں ہے میں جواب دیتی۔ جب سال بھر میکے نہ گئی تو مجھ کو دیکھے بنادانش کی حالت غیر ہوگئی تھی، وہ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر ایک روز خود ہمارے گھر چلا آیا، اس نے میرے دیور سے دوستی کرلی۔ اس کا جنون روز بہ روز بڑھ رہا تھا شاید اسے اپنے آپ پر قابو نہ رہا تھا۔ وہ میرے دیور سے ملنے آتا اور دوتین روز ٹھہر جاتا امی ابو کو علم نہ تھا کہ وہ میرے گھر تک پہنچ گیا ہے، اللہ جانے کیا چاہتا تھا، میں دنیا داری کی خاطر بس اس سے سلام ودعا کرلیتی، مگر دور رہتی۔ ہماری ساس کہتیںتمہارا چچا زاد آیا ہے، بھئی کچھ خاطر مدارات کرو، کھانا وغیرہ ڈھنگ کا پکاؤ، تب میں ملازمہ کو ہدایت کردیتی کہ مہمان کوکوئی اچھی سی ڈش بناکر دینا لیکن اس سے بے رخٰی برقرار رکھی تاکہ دیور کے کمرے تک ہی وہ محدود رہے۔ ایک دوبار منع کیا کہ یہاں مت آیا کرو، لیکن دانش نے سنی ان سنی کردی، لگتا تھا کہ میری بربادی کا آغاز ہوچکا ہے۔ وہ کسی کی بات مانتا تھا اور نہ سنتا تھا۔ اس بار جب آیا تودوتین دن ہمارے گھر پڑا رہا، میں نے اسے دور سے سلام کیا اور کوئی بات نہ کی، مگر پریشان تھی کہ یہ کیوں آگیا ہے۔ اپنی پریشانی گھر والوں پر ظاہر بھی نہ کرسکتی تھی۔ سوچا امی جان کوفون کروں کہ یہ جلد جلد میرے گھر آنے لگا ہے۔ پھر خیال آیا وہ گھبرا کرکہیں ابو سے نہ کہیں اور وہ یہاں آکر اس کی بے عزتی کریں تو کوئی بات ابھی میرے سسرال والوں پر عیاں نہیں وہ کھل جائے گی۔ میں دانش کی اس جنونی کیفیت سے بھی ڈرتی تھی، جس کی وجہ سے وہ میرے گھر آجاتا تھا۔ ابھی تک تو اس کے آنے کو میرے سسرال والوں نے کوئی خاص اہمیت نہ دی تھی لیکن کسی بھی وقت اس کی کوئی حرکت کوئی دوسرا رخ بھی اختیار کرسکتی تھی سوچاکہ امی کو بتانے سے بہتر ہے ایک بار اور اسے سمجھانے کی کوشش کروں، میری بات پھر بھی سن لے گا امی ابو سے تو سخت برہم تھا وہ۔ اس روز محب کی رات کی ڈیوٹی تھی ۔ وہ سرشام گھر سے چلے گئے، آدھی رات کے وقت کسی نے میرے کمرے کی کھڑکی کے پٹ کو اپنی انگلی سے ہلکا سے بجایا، سمجھ گئی یہ دانش ہے۔ بات کرناچاہتا ہے اپنے کمرے سے نکلی اور اسے کہا کہ دانش تم ہوش میںتو ہو کیوں رات گئے کھڑکی بجا رہے ہو، میرے دیور یا سسر کی آنکھ کھل گئی تو کیا سوچیں گے، کیوں میرا گھر تباہ کرنے پر تلے ہو آخر تم میرے گھر آتے ہی کیوں ہو۔ کیا یہ چاہتے ہو کہ محب مجھے طلاق د ے دے یا مجھے رسواکرنا چاہتے ہو۔ کہنے لگا آخری بار آیا ہوں، ایک بار میری بات سن لو پھر کبھی نہیں آؤں گا سمجھ گئی کہ بات کیے بنا ٹلنے والا نہیں، کہا کہ لان میں چل کربات کرلو یہاں سب اپنے کمروں میں سو رہے ہیں، کسی کی آنکھ کھل گئی تو برا ہوگا۔ ہلکی سردیوں کاموسم اور چاندنی رات تھی، مجھے خوف آرہاتھا لیکن بات کرنابھی ضروری تھا ہم لان میں پڑی کرسیوں پر آمنے سامنے بیٹھ گئے، اس نے کہا کہ میرے پاس تمہارے چند خطوط ہیں تم کودینے آیاہوں ملک سے باہر جارہا ہوں، تمہاری امانت دینا تھی، تبھی آگیا ہوں اب کبھی نہ آؤں گا۔ شکر یہ لیکن یہ خطوط تم خود بھی تلف کرسکتے تھے۔ اس طرح تو شاید مجھ سے خوف آتا رہتا اور یقین نہ کرتیں کہ میں نے تلف کردیئے ہیں، ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ آہٹ ہوئی۔ محب نجانے کیوں اور کیسے رات کی ڈیوٹی چھوڑ کرگھر کے اندر آچکے تھے۔ گیٹ کی چابی ان کے پاس رہتی تھی جب چاہے کھول کر اندر آسکتے تھے کسی کو ڈسٹرب نہ کرتے۔ سچ تویہ ہے کہ دانش کواس قدر افسردہ دیکھ کر اس دم میں بھی افسردہ ہوچکی تھی لیکن ابھی اس نے خطوط مجھے لوٹائے بھی نہ تھے کہ محب کے قدموں کی آہٹ پر وہ گیراج میں کھڑی سسر صاحب کی گاڑی کی اوٹ میں ہوکر دیوار والی جانب فرش پریوں اکٹروں بیٹھ گیا کہ نظر نہیں آرہاتھا ۔ وہاں سے گزرتے ہوئے محب نے اس کو نہیں دیکھا لیکن مجھے لان سے برآمدے کی جانب جاتے دیکھ لیا۔ پوچھا، اس وقت لان میں کیا کرنے گئی تھیں میں سردی سے کپکپا رہی تھی۔ مجھے کمرے میں گرمی لگ رہی تھی کچھ گھٹن محسوس ہورہی تھی تو باہر چلی آئی تھی۔ انہوں نے میری بات کا اعتبار کرلیا اور مزید کوئی سوال نہ کیا۔ بولے آج میٹنگ تھی جلد ختم ہوگئی اپنی ڈیوٹی معاون کو سونپ کرچلا آیا، طبیعت کچھ ٹھیک نہیں لگ رہی آپ سو جائیے نیند لیں گے توصبح طبیعت ٹھیک ہوجائے گی، اللہ جانے میں نے اپنے خوف اور لرزتی آواز پر اس وقت کیسے قابو پایا تھا۔ اللہ نے میرا پردہ رکھنا تھا سو رکھ لیا۔ زندگی میں ایک بڑا طوفان جوآنے والا تھا، رب العزت نے مجھے اس سے بچا کر میری عزت بھی رکھ لی تھی، اگر وہ گیراج سے گزرتے ہوئے دانش کا سایہ بھی دیکھ لیتے توسوچتی ہوں کیسی تباہی آجاتی۔ آج بھی اس بھیانک رات کا دھیان آتا ہے تو میری روح لرز جاتی ہے۔ سوچتی ہوں شاید اس وجہ سے مجھے اللہ نے رسوائی سے بچایا کہ میری نیت نیک تھی۔ کوئی برا ارادہ دل میں نہ تھا، بلکہ اپنے شوہر کی محبت بچانے کے لئے ہی میں نے دانش سے بات کرنے کا خطرہ مول لیا تھا۔ یہ واقعہ دانش کے دل وذہن پربھی گہرے نقوش چھوڑگیا۔ اسے واقعی مجھ سے محبت تھی تبھی تواس روز کے بعد کبھی میرے گھر نہیں آیا، گھر آنا تو کیا کبھی سامنے بھی نہیں آیا، اس نے اپنا گھر اپنا ملک تک چھوڑ دیا۔ اللہ جانے کس حال میں اس کی زندگی بسر ہورہی ہے، میں نے کبھی یہ جاننے کی کوشش نہیں کی اسے گئے بیس برس سے اوپر گزر چکے ہیں، سنا ہے کبھی کبھی اپنی والدہ سے فون پربات کرلیتا ہے لیکن خاندان کے باقی افراد کو اس نے یکسر فراموش کردیا ہے۔ ن خانیوال
null
null
null
null
396
https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-32/
ایک نیا کھیل کھیل لے تو تیری آتما شانت ہوجائے گی۔ کیا کھیل ہوگا وہ تو پورنا بن گیا ہے، میرے ساتھ رہ کر جاپ کر شنکھا میں تجھے بنا دوں گا پھر تو کھنڈولا بن جا۔ جب کھنڈولا بن جائے تو کھنڈولا شکتی مجھے دان کردینا۔ جیسے میں نے تجھے پورنا شکتی دی۔ میں کھنڈولا بن جائوں گا تو شنکھا رہ جائے گا۔ میرا چیلا بن کر ساتھ رہنا۔ ہم دونوں مل کر سنسار کو ٹیڑھا کردیں گے۔ دیکھ بالکا اب تو تیتر ہے، نہ بٹیر۔ اپنے دھرم سے نکالا جا چکا ہے اور پورن لاگ تیرے شریر میں رینگ رہا ہے۔ جب تک یہ پورن لاگ تیرے شریر میں ہے، اپنے دھرم سے تو تیرے سارے ناتے ٹوٹ گئے مگر یہ شکتی ابھی تیری ہے۔ اندرسبھا کی سات پورنیاں تیری داسیاں ہیں۔ بائولے وہ سات کنواریاں ہیں جو تیرے ساتھ اپنی سہاگ پوجا کا انتظار کررہی ہیں۔ تیری اور تک رہی ہیں اور تو انہیں بھول کر اس چارپائی پر پڑا ہوا ہے۔ تجھے ایک آسانی ہے۔ وہ کیا ابھی تو مسلمان بنا ہوا ہے، بنا رہ، کوئی ہرج نہیں ہے۔ اس طرح مسلمانوں کو تجھ پر شک نہ ہوگا جس طرح دھرم ہوا کرتا ہے، کرتا رہ، کوئی نہیں سوچے گا تو شنکھا ہے اور جب تو کسی مسلمان لڑکے سے کہے گا کہ وہ تیرا اتنا سا کام کردے کہ تیرے پتلے کو کسی مزار تک پہنچا دے تو وہ تجھے مسلمان سمجھ کر انکار نہ کرے گا۔ تو کھنڈولا بن جائے گا اور میں تجھے بتائوں گا کہ تو اپنی شکتی مجھے کیسے دے سکتا ہے۔ میں بھوریا چرن کو دیکھتا رہا۔ پھر میں نے کہا۔ تو قابل رحم ہے بھوریا چرن۔ کیسے تیری زندگی بھی اسی کوشش میں گزر گئی۔ ہاں مجھے بڑا گھاٹا ہوا ہے۔ جو قوتیں تجھے حاصل ہیں بھوریا تو انہی میں خوش کیوں نہیں رہتا۔ میں نے پوچھا۔ وجہ ہے اس کی۔ کیا بتادوں تجھے بتانے میں کوئی حرج ہے حرج تو بہت بڑا ہے۔ کیا تو کھنڈولا شکتی مجھے کبھی نہ دے گا۔ کھنڈولا شکتی میرے پاس کہاں ہے، میں وہ جاپ کبھی نہیں کرسکوں گا کہ میں شنکھا بن جائوں کیونکہ کیونکہ میرا دل ایک مسلمان کا دل ہے۔ میں نے آہ بھر کر کہا۔ ہاں یہیں تو مار کھائی ہے میں نے تیرا دل ہی تو قبضے میں نہیں آیا۔ تو اگر تیار ہوجائے تو تیرے سارے جاپ میں کروں تیرے لیے اور تجھے شنکھا شکتی دے دوں۔ مگر اس کے بعد تجھے ہی سب کچھ کرنا ہوگا۔ تو وجہ بتا رہا تھا بھوریا چرن۔ دل سے تو مسلمان ہے نا ہاں اپنے دھرم کی سوگند کھا سکتا ہے کہ اگر اس شرط پر تو کھنڈولا بن جائے تو وہ شکتی اپنے قبضے میں نہیں رکھے گا، مجھے دے دے گا میری قسم پر تو یقین کرلے گا ہاں کرلوں گا۔ جب میں اپنے دین ہی سے ہٹ جائوں گا تو وہ قسم میرے لیے بے معنی ہوجائے گی۔ تو بائولا ہے۔ اگر نہ ہوتا تو تو سن بائولے کھنڈولا امر ہوتا ہے۔ وہ اپنا شریر بدل سکتا ہے۔ جب اس کے بدن کی طاقت ختم ہونے لگتی ہے تو وہ اپنی پسند کا کوئی بھی شریر تلاش کرسکتا ہے۔ اپنی آتما اس شریر کو دے کر دوبارہ جی سکتا ہے۔ اس طرح اسے صدیوں کا جیون مل جاتا ہے۔ یہ ہے کھنڈولا شکتی جو نہ شنکھا میں ہے اور نہ کسی اور کالی شکتی میں تجھے ایک بات اور بتائوں ضرور بتا۔ مذاق اڑا رہا ہے میرا نہیں تو بتا۔ پورنا شکتی سے تو اپنے ماتا، پتا کو پا سکتا ہے۔ تیرے بیر تجھے ان کے پاس لے جاسکتے ہیں، انہیں تیرے پاس لا سکتے ہیں مگر تجھے اس کے لیے ایک کام کرنا ہوگا۔ میں نے تجھے پورنا بناتے ہوئے یہ نکتہ اپنے پاس رکھا تھا۔ کیا میں نے بے چین ہوکر پوچھا۔ پاگل سمجھتا ہے مجھے۔ اس بیچ بڑا وقت خرچ کیا ہے میں نے تجھ پر ایسے ہی میں نے تجھے پورنا بھگت نہیں بنا لیا۔ اپنے ماتا، پتا کے سوا سنسار میں کچھ نہیں مانتا۔ اپنوں کی کوئی آرزو تیرے من میں نہیں ہے اور میں نے تیری اس بات پر خاص نگاہ رکھی ہے۔ پورنا شکتی میں یہ تھوڑا میں نے اپنے پاس رکھا ہے۔ بیروں کو بلا کر دیکھ لے۔ ان سے پوچھ لے، سارے کام کردیں گے تیرے، یہ نہ کر پائیں گے۔ اس کے لیے تجھے ایک جاپ کرنا ہوگا اور وہ شکتی تجھے اس سے ملے گی۔ وہ جاپ کیا ہے بتا دوں گا تجھے بتا دوں گا پہلے اور بہت سی باتیں ہیں۔ ویسے سب تیرے کام کی ہیں۔ جاپ تجھے وہ طاقت دے دے گا کہ تو اپنے ماتا، پتا کو اپنے پاس بلا لے یا خود ان کے پاس پہنچ جا۔ ان کے سامنے تو مسعود احمد ہی بنے رہنا۔ بہن کی شادی ایسے کرنا جیسے کسی راج کماری کی شادی ہوتی ہے۔ ماتا، پتا کو راج کرا دینا۔ سب کچھ تیرے ہاتھ میں ہوگا اور جب تیرا یہ کام ہوجائے تو پھر تو میرا کام کردینا۔ بول راضی ہے وہ جاپ کیا ہوگا ایسے نہیں بالک پہلے ہاں یا نہ میں جواب دے۔ کہیں تو مٹھی میں آ ہماری، تیری بھی تو کوئی کل رہے ہمارے ہاتھ میں اسی کل کو گھماتے رہے ہیں ابھی تک تو نے ہمارے پھیر میں پڑ کر اپنے دھرم کی شکتی حاصل کرلی تھی اور آگے بڑھتا چلا جارہا تھا۔ تیرے ماما کا چکر دے کر ہم نے بڑی مشکل سے تیری وہ شکتی توڑی اور تجھ سے تیرے من کی شانتی چھیننے کے لیے تجھے اتنی بڑی شکتی دان کی۔ کچھ تو ہمارے ہاتھ رہنے دے۔ اگر تو مجھے یہ بتا دے کہ مجھے یہ جاپ کیسے کرنا ہوگا تو میں تجھے جواب دے سکتا ہوں۔ بتا بھی دیں تجھے تو اکیلے کچھ نہ کرسکے گا۔ ہماری ضرورت تو رہے گی تجھے اچھا سن ایک پائل کی کھوپڑی حاصل کرنا ہوگی۔ تجھے اس کھوپڑی پر جاپ کرنا پڑے گا۔ پائل کی کھوپڑی ہاں یہ کیا ہوتا ہے وہ لوگ جو ماں کے پیٹ سے پیروں کے بل پیدا ہوتے ہیں، پائل کہلاتے ہیں۔ انسان میں نے کہا۔ تو اور کیا بلی، کتے وہ ہنس پڑا۔ یہ کھوپڑی مجھے کہاں سے ملے گی سنسار میں ہزاروں پائل مل جاتے ہیں۔ ان میں سے کسی کی کھوپڑی کاٹنی ہوگی۔ پائل میں تجھے تلاش کردوں گا۔ مجھے چکر آگیا۔ کسی انسان کا خون اس کی کھوپڑی کاٹنی ہوگی اور اور ذہن میں ایک چھناکا سا ہوا۔ اس کے بعد مجھے میرے ماں، باپ ملیں گے۔ بالکل ہی بے دین ہوکر سخت غصہ آگیا۔ دیوانوں کی طرح اٹھا اور ایک زور دار لات بھوریا چرن کو رسید کردی۔ وہ بے خبر بیٹھا تھا، اچھل کر دور جا گرا۔ خاصی چوٹ لگی تھی اسے میں آگے بڑھا تو وہ اچھل کر سیدھا ہوگیا۔ اس نے خونی نظروں سے مجھے دیکھا اور پھر اچانک اس کے گال پھول گئے۔ وہ سانسیں کھینچنے لگا اور اس کے بدن میں غبارے کی طرح ہوا بھرنے لگی۔ اس کی آنکھیں غضبناک ہوتی جارہی تھیں مگر اس وقت میرے بیر ظاہر ہونے لگے۔ لنگڑے لولے، ٹوٹے پھوٹے وہ روتے پیٹتے میرے گرد اکٹھے ہوگئے۔ ان کے بین کرنے کی آوازیں ابھر رہی تھیں۔ شما کردے شنکھا معاف کردے شنکھا اسے نقصان نہ پہنچا۔ ہم سب ختم ہوجائیں گے۔ ہم تیری پھلواری ہیں شنکھا ہمیں نہ اجاڑ۔ سب دہائی دے رہے تھے، رو پیٹ رہے تھے اور کان پڑی آواز نہ سنائی دے رہی تھی۔ عجیب منظر تھا۔ بھوریا چرن اپنے بدن میں مسلسل ہوا بھر رہا تھا اور پھولتا چلا جا رہا تھا۔ اس کا قد بھی بلند ہوگیا تھا اور بدن کا پھیلائو بے پناہ ہوگیا تھا۔ میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس طرح وہ کیا کرے گا مگر میرے بیروں کی سمجھ میں آ رہا تھا۔ وہ بُری طرح بے چین تھے۔ حلق پھاڑ پھاڑ کر رو رہے تھے۔ اِدھر سے اُدھر بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ کبھی زمین پر گرتے بھوریا چرن کے پیروں پر سر رگڑتے۔ پھر اُٹھ کر اِدھر اُدھر بھاگنے لگتے۔ بھوریا چرن کا حجم اتنا بڑھ چکا تھا کہ اب وہ بہت بڑا گولا نظر آنے لگا تھا۔ کمبخت پھٹ ہی جائے تو اچھا ہے۔ دفعتاً میرے سارے بیر دھاڑتے ہوئے مجھ پر آ گرے۔ اتنی بڑی تعداد تھی کہ میں ان کے نیچے دَب کر رہ گیا۔ میرا دَم گھٹنے لگا ان کے جسموں سے سخت سڑاند اُٹھ رہی تھی۔ میں انہیں پرے دھکیلنے کی کوشش کر رہا تھا لیکن پوری فوج نے حملہ کیا تھا۔ انہیں ہٹانا ممکن نہیں ہوا اورمیرے حواس جواب دینے لگے۔ خاص طور سے ان کے جسموں سے اُٹھنے والی بدبو نے مجھ سے ہوش چھین لیے تھے۔ میں بے ہوش ہوگیا۔ ہوش آیا تو صبح ہو چکی تھی۔ اندر کا دروازہ بند تھا۔ اسی جگہ زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اُٹھا۔ پورا بدن دُکھ رہا تھا۔ رات کے سارے واقعات یاد آگئے پتہ نہیں کیا ہوا۔ وہ مردود کہاں گیا۔ بڑا عجیب لالچ دیا تھا اس نے۔ بڑی مشکل سے چلتا ہوا چارپائی تک آیا اور بیٹھ گیا۔ بھوریا چرن کی ساری باتیں یاد آ رہی تھیں۔ کیسا انوکھا تصور تھا۔ کمبخت دائمی زندگی چاہتا تھا۔ ناممکن ہے۔ یہ ہو نہیں سکتا۔ کم از کم میرا دل تو نہیں تسلیم کرتا تھا۔ موت اور زندگی تو صرف ایک ہی طاقت کے ہاتھ میں ہے۔ اس نے انسان کو بہت کچھ دے دیا ہے اور اسی بہت کچھ نے انسان کو حقیقتوں سے بہت دُور کر دیا ہے۔ کالا جادو ہو، پیلا جادو ہو یا سائنس کا جادو، ٹھیک ہے اس سے کچھ بھی کر لو مگر نمود، اور موت، یہ اس نے اپنے پاس محفوظ رکھے ہیں۔ جسے بھیجا جائے وہی آتا ہے اور جسے بلایا جائے اسے جانا پڑتا ہے۔ اگر دائمی زندگی ممکن ہوتی تو یہ افراسیاب اور سامری بھی سوئٹزرلینڈ یا سنگاپور میں عیش کر رہے ہوتے یا ان جیسے دُوسرے نمرود، شداد اور فرعون بھی۔ مگر سب غائب ہوگئے۔ جدید سائنس ٹیسٹ ٹیوب بے بی پیش کرتی ہے۔ سائنس سے تو بہت کچھ ملا ہے۔ مگر دینے والے ہاتھ کوئی اور ہی ہیں۔ اس ضمن میں ایک دلچسپ واقعہ یاد آگیا۔ دربار خواجہ حضرت معین الدین چشتی اجمیری رحمتہ اللہ علیہ کے سامنے ایک سوالی بیٹھا نعرے لگا رہا تھا۔ خواجہ دس ہزار چاہئیں۔ خواجہ دس ہزار ہی لوں گا۔ ایک پیسہ کم نہیں لوں گا۔ دس ہزار دے دے خواجہ ایک دولت مند آدمی نے اس سوالی کو دیکھا، سنا اور مسکراتا ہوا آگے بڑھ گیا۔ واپسی میں اس نے پھر اسے وہی نعرہ لگاتے ہوئے سنا۔ ہنسا اور بولا۔ توکب سے ایک ہی رَٹ لگائے ہوئے ہے۔ کیا تو احمق نہیں ہے۔ یہ رقم تجھے آخر ملے گی کہاں سے۔ مگر میں تجھے یہ رقم دے سکتا ہوں۔ لے اور بھاگ جا بلاوجہ یہاں سر کھپا رہا ہے۔ اس نے جیب سے دس ہزار نکال کر سوالی کو دے دیئے۔ اس نے رقم گنی جیب میں رکھی زور سے قہقہہ لگایا اور بولا۔ واہ خواجہ خوب دلائی۔ بڑے موذی سے دِلائی اور بھاگ گیا۔ تو حیات دائمی ایک تصور تو ہو سکتا ہے چشمۂ حیواں اور آب حیات دلکش افسانے تو ہو سکتے ہیں مگر ان تک انسانی پہنچ ممکن نہیں۔ اور پھرکائنات کی تخلیق کا ایک ایک پہلو رمز رکھتا ہے۔ زندگی تو ایک روشن صبح ہے جدوجہد اور ضروری امور نمٹانے کے لیے اور موت دن بھر کی تھکن کے بعد سکون بخش اور تھکن اُتارنے والی رات۔ کوئی کب تک جاگتا رہے گا۔ آخر تھکے گا اور نیند کی خواہش کرے گا۔ نہ جانے یہ حیات دائمی کی ہوس کیوں جنم لیتی ہے۔ دروازے پر ہونے والی ہلکی سی آواز نے خیالات کا طلسم توڑ دیا دیکھا تو زیب النسا بیگم تھیں۔ جھانکا اور غڑاپ سے اندر ہوگئیں۔ کچھ دیر کے بعد دونوں میاں بیوی نمودار ہوئے۔ زیب النسا کے ہاتھوں میں ٹرے تھی جن سے تازہ کباب، پراٹھوں اور انڈے کی خوشبو اُڑ رہی تھی۔ بڑے احترام سے ناشتہ میرے سامنے رکھا گیا اور شاہد علی نے گڑگڑاتے ہوئے کہا۔ حضور، مرشد۔ ناشتہ تناول فرما لیجئے اے بھائی، اے بھائی، ہوش میں آ میرے بھائی، بے کار باتوں سے گریز کر، یہ کیا ہوگیا۔ میں نے شاہد علی کو دیکھتے ہوئے کہا، وہ نیچے جھکا اور اس نے میرے پائوں پکڑ لیے۔ پہچان نہیں سکا تھا مرشد، میری آنکھوں میں بھلا اتنی بینائی کہاں، معاف کر دیجئے، اگر کوئی گستاخی ہوئی ہے تو، آپ نے تو ہم پر احسان کر ڈالا دھت تیرے کی۔ اس کا مقصد ہے کہ یہاں سے بھی آب و دانہ اُٹھ گیا۔ میں نے افسوس بھرے لہجے میں کہا۔ حضور مسعود شاہ صاحب ناشتہ کر لیجئے۔ اس بار زیب النسا نے کہا۔ آیا تو تھا آپ کی خدمت کرنے، اگر ذرا عزت مل جاتی تو آپ کو محبت سے بھابی کہنا شروع کر دیتا، لیکن یہاں بھی رزق راس نہیں آیا۔ میاں شاہد علی کوئی نوکری دو گے ہمیں، یا اپنا راستہ ناپیں۔ حضور کے قدموں کی برکت کو تاحیات حاصل کرنے کیلئے تیار ہوں، میری مجال کہ ایسے مرشد کامل کو نوکری دوں، حضور کہیں نہیں جانے دوںگا اب آپ کو، کہیں نہیں جانے دوں گا اور اگر آپ نے جانے کی بات کی تو سر پھوڑ لوں گا آپ کے سامنے، جان دے دوں گا۔ آپ نے جو احسان مجھ پر کر ڈالا، آہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس طرح سرِ راہ بھی کوئی مل جاتا ہے، حقیقت ہے کہ پہچاننے والی نگاہ ہونی چاہیے۔ تو تم نے مجھے پہچان لیا اب بھی نہ پہچانوں گا حضور، جو کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا ہوں اس کے بعد بھی اندھا بنا رہوں، آپ کی شان میں گستاخی کروں۔ اچھا بھائی تمہاری مرضی، نوکری نہیں دو گے نا تم ہمیں حضور کیا نوکری چاہتے ہیں اور پھر میری مجال کہ نوکری دوں۔ وہ بولا اور میں ہنس پڑا۔ یہی سب کچھ ہو رہا ہے، کہیں بھی میرا آب و دانہ نہیں ہے، اب یہ حضرت مجھے مرشد بنا بیٹھے ہیں، مرے پر سو دُرّے، یہاں بھی گناہوں کا بوجھ اُٹھائوں، مرشد کہلوائوں، ایک لمحے کے لیے تو جی چاہا کہ کوئی ہرج نہیں ہے، بیٹھ جائوں دھونی مار کر اور گزاروں عیش سے، اب یہ دُنیا اپنی پسند ہی سے کسی کو عزت دے سکتی ہے تو کیا کروں آخر، مجمع لگا لوں اپنے گرد، لوگوں کے مسائل حل کروں، کھائوں پیوں، عیش کروں، لیکن لیکن کیا یہ بھی کوئی زندگی ہوگی۔ فریب اور جعلسازی، گندے علوم کا سہارا لے کر ان تمام لوگوں کی طرح پیٹ بھرنا، جو ایمان کو بیچ دیتے ہیں، نہیں ایسا نہیں کروں گا، اس کے لیے شاہد علی کا گھر ہی کیا ضروری ہے۔ یہ جو گندی رُوحیں میرے اردگرد بکھری ہوئی ہیں انہیں اشارہ کر دوں تو کیا سے کیا نہیں بنا دیں گی یہ، نہیں۔ ایسے نہیں جیوں گا، کچھ بھی ہو جائے، بھوریا چرن تو نے اپنے جیسی ہر کوشش کرلی، مگر جوتے ہی کھائے میرے ہاتھوں اور عزم ہے میرا کہ تیری دی ہوئی کسی شے کو کبھی قبول نہیں کروں گا اور تجھے جوتے ہی مارتا رہوں گا۔ کباب کی خوشبو ناک میں پہنچی تو بھوک چمک اُٹھی، میں نے مسکراتے ہوئے ناشتہ اپنے سامنے سرکا لیا اور کہا دیکھو بھائی شاہد علی تم مجھے ملازم بنا کر یہاں لائے تھے، دھرم ایمان سے میں یہی ہوں اور یہی بننا چاہتا ہوں، جو کچھ تم کہہ رہے ہو وہ صرف تمہارا اپنا معاملہ ہے، میں نے تم سے اس دھوکے میں کچھ نہیں طلب کیا، سمجھ رہے ہو نا میری بات۔ میں نے یہ نہیں کہا کہ میں مرشد کامل ہوں، بزرگ ہوں، پیر ہوں، فقیر ہوں، اب بھی تم سے یہی الفاظ کہتا ہوں، ایک عام آدمی ہوں بھائی، دو روٹیوں کا دھندا دے دو مجھے، محنت کر کے کمائوں گا کھائوں گا اور خوش رہوں گا، یہ سب کچھ جو تم کر رہے ہو اس میں میرا کوئی قصور نہیں ہے شاہ صاحب آپ ناشتہ تو کیجئے، ہماری خوش بختی ہوگی۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے اور یقینا تم لوگ میرے ساتھ ناشتے میں شریک نہیں ہو گے ہم یہ جرأت نہیں کر سکتے۔ زیب النسا نے ہاتھ جوڑ کر کہا اور میں ناشتے پر پل پڑا۔ کیا عمدہ ناشتہ ملا تھا طویل عرصے کے بعد، گھریلو قسم کا، خوب کھایا، ڈٹ کر کھایا اور پھر ہنستا ہوا بولا۔ آخر تم پر مصیبت کیا نازل ہوئی ہے شاہ صاحب کیا اب آپ یہ خوشخبری ہمیں نہیں دیں گے کہ وہ مصیبت ہم پر سے ٹل چکی ہے۔ شاہد علی نے کہا، اور میں کسی سوچ میں ڈُوب گیا۔ پھر میں نے آہستہ سے کہا۔ ہاں شاہد علی، میری چند باتیں گرہ سے باندھ لو، بالکل بے فکر ہو کر اب اپنے باغ میں کام شروع کرائو، جو مصیبت تھی وہ واقعی ٹل گئی ہے۔ وہ ایک گندی اور خبیث رُوح تھی جس نے تمہارے ہاتھوں نجات پائی۔ اب یہ پتہ نہیں کہ اسے وہاں قید کس نے کیا تھا لیکن آزادی اسے تمہارے ہی ہاتھوں ملی اور اس کے بعد وہ جو گندگی نہ پھیلاتی کم تھا لیکن بھاگ گئی اور اب وہ تمہاری جانب رُخ نہیں کرے گی۔ مزدوروں کو نئے سرے سے اکٹھا کرو، میرے خیال میں اب وہاں کوئی ایسا واقعہ رُونما نہیں ہوگا اور زیب النسا وہ بھی اس کے زیرِ اثر تھی، ظاہر ہے وہ تمہارے گھر تک پہنچ چکا تھا اور اسے کچھ نہ کھ کرنا ہی تھا اب نہیں آئے گا، اطمینان رکھو اور اس کے باوجود آپ یہ کہہ رہے ہیں حضور شاہ صاحب کہ میں آپ کی خدمت نہ کروں آپ کے لیے۔ آپ کے لیے بس بس اس سے آگے کی باتیں رہنے دو تو تمہاری بڑی مہربانی ہوگی ہم نے تو یہی سوچا تھا کہ یار چلو تھوڑے بہت عرصے یہاں کی نوکری میں زندگی گزار لو، مگر ہماری تقدیر میں ہی نہیں ہے یہ سب کچھ آپ کا ہے شاہ صاحب، آپ کی برکت رہے گی تو مجھے بھی دن دونی رات چوگنی ترقی ملے گی۔ میں خاموش ہوگیا۔ اب بھلا اس سے زیادہ کیا کہتا اس سے لیکن طے یہ کر لیا تھا کہ فوراً ہی یہاں سے نکل بھاگوں گا، میں ان ڈرامہ بازیوں میں نہیں پڑ سکتا تھا۔ چنانچہ یہی ہوا حالانکہ بعد میں بھی دونوں میاں بیوی نے مجھے آرام سے رہنے کی پیشکش کی، اندر بڑے اہتمام سے میرے لیے کمرہ سجایا، سب کچھ خاموش آنکھوں سے دیکھتا رہا اور اس کے بعد جیسے ہی شاہدعلی اپنی گاڑی لے کر باہر نکلا میں بھی پیچھے ہی پیچھے نکل آیا اور اس کے بعد میرے لیے یہ ضروری تھا کہ یہ بستی چھوڑ دوں، سفر کے لیے ظاہر ہے اور کوئی ذریعہ نہیں تھا لیکن پیدل چلتا رہا اور تقریباً ایک گھنٹے کے بعد ایک چھوٹی سی پگڈنڈی سے ایک بس اُچھلتی کودتی آگے بڑھتی نظر آئی، میں نے ہاتھ کے اشارے سے روکا تو بس رُک گئی اور میں اس میں سوار ہوگیا۔ کہاں جارہی ہے یہ بس میں نے سوال کیا۔ تمہیں کہاں جانا ہے جہاں یہ بس جارہی ہے۔ میں نے بس کے کنڈکٹر کو جواب دیا۔ تو پھر نکالو ڈھائی روپیہ۔ اس نے ہاتھ پھیلا کر کہا۔ پیسے تھوڑے بہت میرے پاس موجود تھے، میں نے ڈھائی روپیہ نکال کر بس کنڈکٹر کو دے دیا اور جب اس نے مجھے ٹکٹ دیا تو مجھے پتہ چلا کہ بس کہاں جا رہی ہے۔ بس جلیسر جا رہی تھی۔ جلیسر کیا ہے، کون سی جگہ ہے، وہاں کی آبادی کتنی ہے، کتنا بڑا شہر ہے مجھے کچھ معلوم نہیں تھا لیکن کوئی ہرج بھی نہیں تھا۔ اب تو ساری دُنیا ہی وسیع ہے میرے سامنے، جلیسر تک کا سفر طے ہوا، راستہ کچا ہی تھا اور مزہ آ گیا تھا۔ سفر کرتے ہوئے بدن کی چولیں ہل گئی تھی۔ شام کو تقریباً ساڑھے سات بجے بس نے جلیسر پر اُتارا۔ اچھی خاصی آبادی تھی۔ ٹھیک ٹھاک ہی شہر تھا، میں نیچے اُتر کر احمقوں کی طرح اِدھر اُدھر دیکھنے لگا، نہ کوئی پتہ، نہ کوئی ٹھکانہ لیکن خدا کی زمین وسیع ہے بس جدھر منہ اُٹھا چلتا چلا گیا۔ اور پھر میں نے بہت سے لوگوں کو دیکھا۔ کھیتوں کی پگڈنڈیوں سے گزر گزر کر ایک ہی سمت جا رہے تھے، کچھ ایسا انداز تھا ان کا، جیسے کسی خاص جگہ جا رہے ہوں، چنانچہ میں پیچھے پیچھے چل پڑا اور تھوڑے ہی فاصلے کے بعد مجھے ایک جگمگاتی جگہ نظر آئی۔ یہ کوئی بہت بڑی عمارت تھی، جس میں خوب صورت گنبد بنے ہوئے تھے، وسیع و عریض احاطے میں پھیلی ہوئی تھی اور اس کے سامنے جو پتھر کی سل پر ایک کتبہ نظر آ رہا تھا جس پر کچھ اشعار کے ساتھ لکھا ہوا تھا۔ درگاہ سیّد ابراہیم شاہ صاحب۔ میرے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، میں تو راندۂ درگاہ تھا، پتہ نہیں اس درگاہ کے احاطے میں مجھے جگہ ملے گی یا نہیں۔ لوگ جوق در جوق آگے بڑھ رہے تھے، ویسے کوئی باقاعدہ میلہ وغیرہ نہیں تھا۔ بس درگاہ کے اندر روشنیاں ہو رہی تھیں اور درگاہ شریف کے مجاور اِدھر سے اُدھر آ جارہے تھے۔ سیاہ رنگ کے لباسوں میں ملبوس، لمبے لمبے بالوں والے، میں ذرا فاصلے پر ہی رُک گیا۔ اطراف میں نیچی اُونچی جھاڑیاں اُبھری ہوئی تھیں اور ان جھاڑیوں کے آس پاس لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ اندر مکمل خاموشی طاری تھی۔ بڑا وقار، بڑا جلال تھا درگاہ شریف کا میرے دل سے دُعا نکلی کہ کسی بھی بزرگ کے طفیل میری مشکل حل ہو جائے آہ میری مشکل حل ہو جائے۔ میں وہیں بیٹھا رہا، رات کو تقریباً گیارہ ساڑھے گیارہ بجے تک لوگ درگاہ شریف میں آتے جاتے رہے، پھر درگاہ کے دروازے بند ہوگئے اور تمام لوگ واپس چلے گئے، بس احاطے کے دُوسری جانب مجاور نظر آرہے تھے، جو اپنے اپنے مشاغل میں مصروف تھے، میں جھاڑیوں کے پاس خاموش بیٹھا پیاسی نگاہوں سے درگاہ شریف کا کتبہ دیکھتا رہا اور میرے ذہن میں نجانے کیا کیا تصورات اُبھرتے رہے۔ درگاہ شریف کے بائیں حصے میں ایک چھوٹا سا دروازہ کھلا ہوا تھا جس سے کبھی کبھی کوئی باہر نکل آتا تھا اور کسی کام سے شہری آبادی کی جانب چل پڑتا تھا۔ میرے ذہن میں نجانے کیا سمائی۔ آہستہ آہستہ اُٹھا اور چھوٹے دروازے کی جانب چل پڑا، ابھی میں چھوٹے دروازے سے کوئی دو گز کے فاصلے پر تھا کہ دفعتاً مجھے سانپ کی پھنکار سنائی دی۔ میں چونک کر رُکا۔ چھوٹے دروازے کے عین سامنے طباق جیسے چوڑے پھن کا مالک بھنورے کی سی رنگت لیے خوب موٹے چمکدار جسم کا سانپ پھن پھیلائے کنڈلی مارے بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی ننھی چمکدار آنکھوں میں نفرت کی سرخی جھلک رہی تھی۔ میرے قدم رُک گئے۔ راستہ بند ہے میں نے پوچھا اور پھر گردن جھکائے وہاں سے پلٹ پڑا۔ یہ تو ہونا چاہئے تھا۔ اپنے گندے وجود کو میں اس پاک درگاہ میں کیسے لے جا سکتا تھا۔ میں تو غلاظت کی پوٹ تھا۔ بے دلی سے وہاں سے پلٹا اور ایک گھنے درخت کے نیچے جا بیٹھا۔ درخت کے موٹے تنے سے میں نے پشت لگا لی تھی۔ آنکھیں بند کر کے بیٹھ گیا۔ دماغ میں سنسناہٹ ہو رہی تھی اپنی حالت زار پر رونا آ رہا تھا مگر اتنے آنسو بہہ چکے تھے کہ اب ان کی گنجائش نہیں رہی تھی۔ زیادہ دیر نہیں گزری تھی کہ اچانک پتھر کا ایک ٹکڑا سینے پر آ کر لگا اور میں نے گھبرا کر آنکھیں کھول دیں۔ کالے بھجنگ رنگ کا ایک لمبا تڑنگا آدمی میرے سامنے بے لباس کھڑا ہوا تھا۔ رات کی تاریکی کے باوجود اس کی آنکھیں گہری سرخ چمک رہی ہیں۔ تخت شاہی تیرے باپ کا ہے۔ ہماری سلطنت پر قبضہ جمانے کی فکر میں ہے بھولتو کہیں کا، ہٹ جا اِدھر سے نہیں تو کھوپڑی رنگین کر دوں گا۔ اس نے جھک کر دوسرا پتھر اُٹھا لیا۔ ہٹ جاتا ہوں، ہٹ جاتا ہوں۔ مگر کہاں جائوں۔ بتا تو دو۔ ابے ہٹ وہاں سے غلیظ ناپاک، تجھے تو میں ایسی جگہ پہنچائوں گا جہاں تیری نک چٹی ہو جائے پٹ پٹی کا ترنگا۔ میں درخت کے نیچے سے ہٹ گیا۔ وہ شخص میری جگہ جا بیٹھا اور اس نے آنکھیں بند کرلیں۔ میں کچھ فاصلے پر کھلے آسمان تلے جا بیٹھا۔ چاروں طرف ہو کا عالم طاری تھا۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ بدن دُکھ گیا۔ بیٹھے بیٹھے تو لیٹ گیا۔ آنکھیں بند ہوگئیں مگر نیند نہیں آئی تھی۔ اچانک قریب ہی سرسراہٹ سنائی دی اور میں نے چونک کر آنکھیں کھول دیں جو کچھ دیکھا اسے دیکھ کر دَم ہی نکل گیا۔ اس خوفناک شخص کا چہرہ دو فٹ کے فاصلے پر تھا۔ آنکھیں مجھے گھور رہی تھیں، دفعتاً اس نے میرے منہ پر تھوک دیا اور پھر قہقہے لگاتا ہوا وہاں سے بھاگ گیا۔ ایک بار پھر اُٹھ کر بیٹھ گیا۔ چہرے پر تھوک کی نمی تھی مگر میں نے اسے صاف نہیں کیا۔ یہ چہرہ اسی قابل ہے۔ میں نے دل میں سوچا رات نہ جانے کیسے گزری، پھر صبح ہوگئی، شاید سو گیا تھا۔ اُٹھ کر بیٹھ گیا چند لوگ میری طرف آ رہے تھے۔ ایک کے ہاتھ میں کچھ تھا۔ کھانا کھائو گے میاں صاحب۔ انہوں نے پوچھا۔ ہاں، بھائی ہاں۔ میں نے جواب دیا۔ لو ہاتھ دھو لو۔ دُوسرے نے پانی سے بھرا لوٹا سامنے کر دیا۔ ہاتھ دھوئے۔ پوریاں، حلوہ اور ترکاری تھی۔ کھا کر خدا کا شکر ادا کیا۔ انہوں نے مجھے پانی پلایا اور پھر برتن اُٹھا کر چلے گئے۔ درگاہ کی طرف سناٹا تھا۔ کچھ اور وقت گزر گیا۔ دُھوپ چلچلانے لگی، درخت میرے سامنے تھا مگر دوبارہ اس کے نیچے جانے کی ہمت نہ کرسکا۔ پھر درگاہ کے عقبی حصے سے شور اُٹھا۔ بچوں کا شور تھا۔ میں نے دن کی روشنی میں اسی بے لباس شخص کو دیکھا۔ بے تحاشا دوڑتا آ رہا تھا۔ دس بارہ بچّے اس کے پیچھے دوڑ رہے تھے اور پاگل ہے۔ پاگل ہے کا شور مچا رہے تھے۔ وہ اسے پتھر بھی مار رہے تھے۔ دفعتاً وہ میرے قریب آ کر رُک گیا اس نے غور سے مجھے دیکھا پھر ہنس پڑا۔ بچّے کچھ فاصلے پر آ کھڑے ہوئے تھے اور شریر نظروں سے ہمیں دیکھ رہے تھے۔ اس نے بچوں کی طرف دیکھا اور بولا۔ اسے بھی مارو یہ بھی اپنا بھائی ہے، مارو۔ ہی ہی ہی۔ بچوں نے میری طرف بھی پتھر اُچھالنے شروع کر دیئے۔ وہ ہنستا ہوا درخت کے تنے کے پیچھے جا چھپا تھا۔ کئی پتھر میرے بدن کے مختلف حصوں پر لگے اور ایک سر پر آنکھ کے بالکل قریب اور پیشانی پھٹ گئی۔ خون بھل بھل کر کے بہنے لگا اور میں نے زخم پر ہاتھ رکھ لیا۔ بچّے خون دیکھ کر ڈر گئے اور سب وہاں سے بھاگ گئے۔ میں پیشانی پر ہاتھ رکھے بیٹھا رہا۔ خون زمین پر گرتا رہا مگر دُوسری آنکھ سے میں نے کچھ اور بھی دیکھا۔ میرے خون میں زندگی تھی، ہاں میں نے اچھی طرح دیکھا تھا۔ خوب اچھی طرح۔ وہ ننھی ننھی مکڑیاں تھیں جو میرے خون میں کلبلا رہی تھیں اور خون سے نکل نکل کر اِدھر اُدھر رینگ رہی تھیں۔ مگر چند انچ چلنے کے بعد وہ چرمرا کر رہ جاتی تھیں۔ جب تک خون ہوا سے خشک نہ ہوگیا یہ تماشا جاری رہا۔ بچّے توغائب ہوگئے تھے مگر وہ درخت کے پیچھے موجود تھا۔ کچھ دیر کے بعد وہ درخت کے پیچھے سے نکل کر میرے پاس آ بیٹھا۔ اس نے دونوں ہاتھ پیچھے کئے ہوئے تھے۔ وہ سرگوشی کے عالم میں بولا۔ ایک سو اکہتّر کہاں گئے، ایں ایک سو اکہتّر کہاں گئے۔ کچھ پتہ ہے ان کا میں کچھ نہ سمجھ سکا۔ آنکھ پر رینگ کر آنے والا خون صاف کیا اور اسے دیکھ کر مسکرانے لگا۔ ہاتھ دکھائوں اپنے، دیکھ۔ اس نے دونوں ہاتھ سامنے کر دیئے۔ ان میں پتھر دبے ہوئے تھے۔ اس نے دونوں پتھر میرے سر پر دے مارے اور میرے حلق سے دل خراش چیخیں نکل گئیں۔ دو گہرے زخم اور لگے تھے اور ان سے خون اُبل رہا تھا۔ وہ اُٹھ کر بھاگ گیا۔ مجھے زور سے چکر آیا اور میں بے ہوش ہوگیا۔ اسپتال کے بستر پرہوش آیا تھا۔ سر پر پٹیاں بندھی ہوئی تھیں۔ نرسیں آ جا رہی تھیں، کچھ دیر کے بعد ہی اندازہ ہوگیا کہ وہ اسپتال ہے۔ پھر ایک نرس نے گزرتے ہوئے مجھے ہوش میں دیکھا اور زور سے چیخی۔ سسٹر ملہوترہ۔ تیرا پیشنٹ ہوش میں آ گیا۔ میں ڈاکٹر کو بتا دوں۔ دُوسری آواز آئی۔ کچھ دیر کے بعد ایک نرس ہی آئی۔ اس نے پورا بازو کھول کر ایک انجکشن لگایا اور بولی۔ کیسی طبیعت ہے ٹھیک ہوں۔ تمہارے سر میں زخم کیسے لگے۔ کس نے مارا ہے بچوں نے۔ کسی کی رپورٹ کرائو گے۔ نہیں سسٹر۔ وہ بچّے تھے۔ اوکے، میں ڈاکٹر کو بول دوں۔ تمہیں پولیس والے لائے تھے۔ وہ تمہارا بیان لینا چاہتے ہیں۔ پولیس والوں کو میں نے کوئی خاص بیان نہیں دیا ابھی تک میں ان سے خوفزدہ رہتا تھا۔ کچھ دیر کے بعد مجھے اسپتال سے رُخصت کر دیا گیا۔ چھوٹی چھوٹی گلیاں، چھوٹے بازار، چلتا رہا۔ درگاہ کے سامنے سے گزرا اور ایک آہ بھر کر آگے بڑھ گیا۔ یہاں میری جگہ نہیں تھی۔ میں ناپاک تھا کسی کا کیا قصور۔ مجھے خود اس کا خیال رکھنا چاہیے۔ مارے مارے پھرنے کی عادت ہوگئی تھی۔ تانگے چل رہے تھے ، بسیں بھی نظر آ رہی تھیں مگر میں پیدل چل پڑا۔ کوئی کمزوری نہیں پیدا ہوئی تھی حالانکہ کافی خون بہا تھا۔ لباس پر بھی جمے ہوئے خون کے دھبّے نظر آ رہے تھے۔ اس راستے سے ہٹ گیا جس پر لوگ آتے جاتے نظر آ رہے تھے۔ بہت دُور نکل آیا ایک کھیت نظر آیا جس میں کچریاں بکثرت پڑی ہوئی تھیں۔ کھیت میں گھس کر بہت سی کچریاں اُٹھائیں اور کنارے بیٹھ کر کھانے لگا۔ پیٹ کا جہنم سرد کرنے کے بعد وہاں سے بھی آگے بڑھ گیا۔ جنگل بیابان، درخت اُڑتے ہوئے پرندے، دوڑتے ہوئے ہرن۔ کہیں کہیں چھوٹے درندے بھی نظر آ جاتے تھے۔ وہ بھی کوئی درندہ ہی تھا۔ زمین کے سوراخ سے نکلا تھا۔ مجھ سے دس گز کے فاصلے پر رُک کر غرّانے لگا۔ اس کی آنکھوں میں بھوک تھی۔ پھر اس نے وحشیانہ انداز میں مجھ پر چھلانگ لگائی لیکن دوبارہ زمین پر نہ آ سکا۔ فضا میں ہی اس کی چندھیاں بکھر گئی تھیں۔ خون اور ہڈیوں کا ملغوبہ زمین پر آ رہا۔ پھر وہی خاموشی یہ منظر دُوسری بار نگاہوں میں آیا تھا۔ میں جانتا تھا کہ درندے کو ہلاک کرنے والا کون ہے۔ مگر ایک تیز ٹیس کے ساتھ ایک اور احساس ذہن میں جاگا تھا۔ وہاںدرگاہ شریف کے پاس یہ پلید نہ آ سکے تھے۔ اس شخص کو پتھر مارنے سے نہ روک سکے تھے اور اور اس نے کہا تھا کہ ایک سو اکہتّر کہاں گئے۔ کچھ پتہ ہے ان کا۔ ظاہر ہے یہ گندے اس جگہ نہ جا سکے تھے۔ ورنہ جس طرح بھی سہی انہوں نے بھوریا چرن تک سے مجھے بچایا تھا۔ اس خیال نے ذہن میں نہ جانے کیا کیا خیالات پیدا کر دیئے بعد کے سفر میں میں انہیں محسوس کرتا رہا۔ پھر دو دن اور دو راتوں کے بعد ایک بہت بڑا شہر نظر آیا۔ پتہ چلا کہ اس کا نام ہاتھرس ہے۔ یہاں کچھ وقت گزارا اور پھر ریل میں بیٹھ گیا کچھ عجیب سی کیفیت ہوگئی تھی۔ ہر عمل سے رغبت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ خاموش رہنے کو جی چاہتا تھا۔ جس ڈبے میں بیٹھا ہوا تھا اس میں ایک ہندو خاندان بھی سفر کر رہا تھا۔ ایک فربہ جسم کا مالک معمر شخص ایک معمر خاتون دو نوجوان لڑکیاں، ایک نوجوان لڑکا۔ دو ملازم قسم کے لوگ۔ معمر شخص نے کئی بار مجھے دیکھا تھا لیکن کچھ بولا نہیں تھا۔ البتہ تھوڑی تھوڑی دیر کے بعد وہ مجھے دیکھنے لگتا تھا۔ پھر ٹکٹ چیکر آ گیا۔ میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے بھائی۔ میں نے اسے جواب دیا۔ کوئی بات نہیں، اگلے اسٹیشن پر پولیس موجود ہے۔ ٹکٹ چیکر نے بھی اطمینان سے کہا۔ ارے ارے، کیسی باتیں کرتے ہو بھائی، آدمی آدمی کو دیکھنا چاہئے، لو کتنے پیسے بنتے ہیں تمہارے، ٹکٹ مجھ سے لے لو۔ اسی معمر شخص نے کہا اور جیب سے نوٹ نکال کر ٹکٹ چیکر کو دے دیئے، ٹکٹ چیکر نے مجھ سے پوچھا۔ کہاں جائو گے میں نے گھبرا کر معمر شخص کو دیکھا تو معمر شخص نے جلدی سے کہا۔ دِلّی اور اس کے بعد ٹکٹ چیکر میرا ٹکٹ بنا کر چلا گیا۔ میں شکرگزار نگاہوں سے معمر شخص کو دیکھنے لگا، وہ اپنی جگہ سے اُٹھا اور میرے قریب آ بیٹھا،کہنے لگا۔ بہت دیر سے تمہیں دیکھ رہا تھا سوامی مہاراج، ایسی جانی پہچانی صورت لگ رہی تھی کہ بتا نہیں سکتا، پھر یاد آیا کہ میں نے تمہیں کہاں دیکھا تھا۔ میں سوالیہ نگاہوں سے اس شخص کو دیکھنے لگا، وہ بولا ڈاکٹر بھلّا جی کو جانتے ہو نا میں نے یاد کیا تو ڈاکٹر بھلّا مجھے یاد آ گیا۔ وہ شخص جس نے اس لڑکی کو مردہ قرار دے دیا تھا جو بعد میں ٹھیک ہوگئی تھی۔ میں نے گردن ہلائی تو معمر شخص مسکرا کر بولا۔ بھلّا میرا جوائی ہے۔ میری بیٹی بیاہی ہے اس سے اور ان دنوں میں بھی وہیں موجود تھا جب تم نے ایک لڑکی کے زندہ ہونے کی بات کی تھی اور وہ زندہ ہوگئی تھی۔ بھلّا نے مجھے پوری کہانی یں نے اس سے کہا کہ بھائی ذرا مجھے بھی اس مہان پُرش کی صورت دکھا دے، سو اس نے دُور ہی سے مجھے تمہیں دکھایا تھا۔ کیا تم اس بات سے انکار کرو گے کہ تم وہ نہیں ہو میں آہستہ سے ہنس دیا پھر میں نے کہا۔ آپ کا نام کیا ہے مہاراج اوم پرکاش۔ اس شخص نے جواب دیا۔ آپ نے صرف اتنی سی بات پر میرا ٹکٹ بنوا لیا۔ اس کا ذکر مت کرو، بھلا مجھے یہ بات معلوم نہیں ہے کیا کہ اتنا بڑا کام کرنے کے بعد بھی تم نے فقیروں کی طرح ان لوگوں کی دولت ٹھکرا دی، میری مراد فقیروں سے یہ ہے کہ وہ فقیر جو کسی کی دولت پر نگاہ نہیں کرتے، ہاتھ پھیلانے والے فقیروں کی بات نہیں کر رہا میں دولت۔ میں نے پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ ہاں مہاراج میں جانتا ہوں، بھلا آپ جیسوں کے لیے یہ کاغذ کے ٹکڑے کیا حیثیت رکھتے ہیں، بھگوان نے آپ کو دُوسری ہی شکتی دی ہے، ویسے میں نے آپ کا دلّی کا ٹکٹ بنوا لیا ہے، آپ کو کہیں اور تو نہیں جانا نہیں بس یہی کہہ سکتا ہوں پرکاش جی مہاراج کہ دُنیا سچ مچ ہی گول ہے، دلّی بھی آ چکا ہوں ارے اب پھر دلّی جا رہا ہوں۔ چلیں ٹھیک ہے، تقدیر جہاں لے جائے، وہی جگہ غنیمت ہے۔ گویا آپ دلّی نہیں جا رہے تھے، پھر کہاں جانے کا ارادہ تھا آپ سے جھوٹ نہیں بول رہا، بس ریل میں بیٹھ گیا تھا۔ سوچا تھا کہ جدھر ریل جائے گی، چلا جائوں گا۔ اوم پرکاش جی ہنس پڑے۔ پھر بولے تو پھر ایسا کریں کاشی جی چلیں، بڑی بڑھیا جگہ ہے، میں اپنے اس چھوٹے سے خاندان کے ساتھ کاشی ہی جا رہا ہوں، وہاں تھوڑے دن رہوں گا اور اس کے بعد واپس چلا آئوں گا، میرا اصلی گھر آگرے میں ہے۔ آپ کا بہت بہت شکریہ، میں آپ کے ساتھ جا کر کیا کروں گا۔ آپ کی مرضی ہے، دیکھ لیں کاشی جی بھی اگر کوئی خاص کام نہیں ہے تو، سنسار کو دیکھنا چاہئے۔ اوم پرکاش جی بولے۔ اوم پرکاش جی آپ کو پتہ ہے کہ میرے پاس ریل کا ٹکٹ لینے کے لیے پیسے نہیں تھے اور آپ کہہ رہے ہیں کہ آپ کے ساتھ گھومنے پھرنے چلوں دیکھو مہاراج، نام کیا ہے آپ کا، خیر نام کچھ بھی ہو بات یہ ہے کہ ہر چیز پیسے ہی سے تعلق نہیں رکھتی۔ اس وقت مجھے آپ سے عقیدت ہو گئی تھی، مگر وقت ہی نہیں مل سکا، کہا تو تھا میں نے اپنے داماد سے کہ مجھے ملا بھی دو۔ مگر اس نے بتایا کہ آپ کسی اور کام سے جا رہے ہیں۔ میری خوشی ہوگی کہ اگر آپ میرے ساتھ بنارس چلیں۔ میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا پھر آہستہ سے کہا۔ بھلّا جی نے آپ کو یہ نہیں بتایا تھا کہ میرا دھرم کیا ہے۔ بتایا تھا، کہا تھا آپ مسلمان ہیں اوہ اس کا مطلب ہے کہ آپ کو معلوم ہے مگر اس کے باوجود آپ مجھے اپنی مقدس یاترا پر لے جا رہے ہیں۔ اوم پرکاش کے ہونٹوں پر مسکراہٹ پھیل گئی، انہوں نے کہا۔ میں نے آٹھ سال لندن میں پڑھ کر گزارے ہیں۔ تین سال تک ذاتی طور پر ریسرچ کرتا رہا ہوں۔ دین دھرم کے بارے میں بس ایک ہی بات پتہ چلی۔ کیا میں نے دلچسپی سے پوچھا۔ سارے دھرم انسان پر انسان کے حق کے بارے میں بتاتے ہیں۔ وہ جو سب سے بڑا ہے کسی انسان سے کچھ نہیں مانگتا، نہ اسے ضرورت ہے۔ دھرم کے ساتھ اگر صورتیں الگ الگ ہو جاتیں تو ہم مان لیتے کہ سارے دھرم الگ الگ ہیں۔ مگر صورتیں تو ایک جیسی ہیں پھر بات کیا ہے تم بھی اپنے پیدا کرنے والے کو پکارتے ہو۔ اسے پیار سے اللہ کہتے ہو، ہم اسے بھگوان کہہ کر بلا لیتے ہیں۔ اسے بُرا تو نہ لگتا ہوگا۔ جاری ہے
null
null
null
null
397
https://www.urduzone.net/god-father-episode-3/
جونی قدرے بے یقینی سے ڈون کی طرف دیکھنے لگا۔ اسے بھی صحیح طور پر معلوم نہیں تھا کہ اس کا گاڈ فادر واقعی یہ کام کرانے کی طاقت رکھتا ہے یا نہیں حالانکہ وہ ڈون کے بیٹوں ہی کی طرح اس کے بہت قریب رہا تھا اور ڈون نے اسے تقریباً بیٹے جیسی ہی حیثیت دے رکھی تھی۔ مگر بہت سی باتیں اس کے بھی علم میں نہیں تھیں۔ تاہم ایک بات اسے یقینی طور پر معلوم تھی کہ گاڈ فادر کبھی ایسے کام کا وعدہ نہیں کرتا جو وہ نہ کرسکتا ہو۔ وہ کبھی ایسا کوئی دعویٰ نہیں کرتا تھا جسے وہ پورا کرکے نہ دکھا سکتا ہو۔ میں آپ کو بتا چکا ہوں کہ وہ شخص امریکا کے صدر ریڈگر۔جے۔ ہوور کا ذاتی دوست ہے۔ جونی نے گویا ڈون کو یاد دلایا۔ اس کے سامنے کوئی اونچی آواز میں بات بھی نہیں کرسکتا۔ لیکن وہ بہرحال ایک بزنس مین ہے۔ ڈون بولا۔ میں اسے ایک ایسی پیشکش کروں گا جسے وہ رد نہیں کرسکے گا۔ اب بہت تاخیر ہوچکی ہے۔ جونی بولا۔ تمام معاہدے سائن ہوچکے ہیں۔ ایک ہفتے میں شوٹنگ شروع ہونے والی ہے، اب یہ کام ناممکن ہے۔ تم باہر باغ میں واپس جائو اور دعوت سے لطف اندوز ہو۔ یہ کام تم مجھ پر چھوڑ دو اور سب کچھ بھول جائو۔ ڈون نے اٹھ کر اسے کمرے سے باہر کی طرف دھکیلتے ہوئے کہا۔ وہ جا چکا تو ڈون ایک بار پھر ہیگن کی طرف متوجہ ہوا جو اپنی میز پر بیٹھا کاغذ پر ضروری پوائنٹس نوٹ کررہا تھا۔ گہری سانس لیتے ہوئے اس نے پوچھا۔ اب اور کیا کرنا ہے سولوزو سے آپ کی ملاقات کو میں ٹالتا آرہا ہوں۔ وہ آپ سے ملنے کیلئے بضد ہے جبکہ آپ فی الحال اس سے ملنا مناسب نہیں سمجھ رہے۔ اب اسے مزید ٹالنا بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اس کے بارے میں کیا کرنا ہے ڈون نے کندھے اچکاتے ہوئے کہا۔ اب میں شادی سے فارغ ہوچکا ہوں، کسی بھی روز اس سے ملاقات رکھ لو۔ ڈون کے اس جواب سے ہیگن کو دو باتوں کا اندازہ ہوگیا۔ ایک یہ کہ سولوزو جس کام کے سلسلے میں ڈون سے ملنا چاہتا تھا، اس کے بارے میں ڈون کا جواب انکار میں ہوگا۔ دوسری بات یہ کہ انکار میں جواب دینے کیلئے ڈون اس ملاقات کو شادی کے بعد تک کیلئے ٹالتا آرہا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ اس کے انکار سے بدمزگی پیدا ہونے کا امکان تھا۔ چنانچہ ہیگن نے محتاط لہجے میں پوچھا۔ کیا میں مینزا سے کہہ دوں کہ وہ کچھ آدمیوں کو اس گھر میں رہنے کیلئے بھیج دے اس کی کیا ضرورت ہے ڈون نے بے نیازی سے کہا۔ یہ درست ہے کہ شادی سے پہلے میں نے اس سے اس لئے ملاقات نہیں کی تھی کہ میں اس تقریب پر ناخوشگواری کا معمولی سا سایہ بھی پڑنے نہیں دینا چاہتا تھا۔ دوسرے میں ملاقات سے پہلے اندازہ کرنا چاہتا تھا کہ وہ کیا بات کرنا چاہتا ہے۔ اب مجھے اندازہ ہوگیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ وہ ہمارے ساتھ شامل ہونے کی کوئی تجویز لے کر آئے گا۔ اور آپ انکار کردیں گے ہیگن نے تصدیق چاہی۔ ڈون نے اثبات میں سر ہلایا تو ہیگن بولا۔ لیکن میرے خیال میں اسے کوئی حتمی جواب دینے سے پہلے ہم سب لوگوں کو پوری فیملی کو ایک بار بیٹھ کر اس معاملے پر تبادلۂ خیال کرلینا چاہئے۔ اگر تمہاری یہ رائے ہے تو ایسا کرلیں گے۔ ڈون مسکرایا۔ لیکن ہم یہ کام تمہارے لاس اینجلس سے واپس آنے کے بعد کریں گے۔ پہلے تم جونی والے معاملے کو سلجھانے کیلئے لاس اینجلس جائو گے۔ میں چاہتا ہوں تم کل ہی چلے جائو اور فلمی دنیا کے اس اُچکّے سے ملو جس سے جونی بہت مرعوب ہے۔ کیا نام بتایا تھا جونی نے اس کا ہاں جیک والز تم جیک والز سے مل کر مسئلہ حل کرو اور سولوزو سے کہہ دو کہ جب تم لاس اینجلس سے واپس آئو گے تب میں اس سے ملوں گا اور کچھ ہیگن ہموار لہجے میں بولا۔ اسپتال سے فون آیا تھا ڈینڈو اب قریب المرگ ہے۔ ڈاکٹروں کا خیال ہے کہ وہ آج کی رات مشکل سے گزار پائے گا۔ وہ چند گھنٹوں کا مہمان ہے۔ انہوں نے اس کی فیملی کو بھی بلا لیا ہے تاکہ وہ لوگ آخری لمحات اس کے قریب گزار سکیں۔ ڈینڈو، ڈون کا وہ پرانا وکیل تھا جس کی جگہ ہیگن کام کررہا تھا۔ فی الحال اس کے پاس قانونی مشیر کا یہ عہدہ عارضی طور پر تھا۔ ڈینڈو کی موت کے بعد ہی اس کے مستقل ہونے کی امید تھی لیکن اس معاملے میں ہیگن کے ذہن میں کچھ شکوک وشبہات تھے۔ اس نے سنا تھا کہ اس عہدے پر کسی ایسے شخص کو ہی رکھا جاسکتا تھا جو بہت گھاگ، شاطر اور تجربہ کار ہو اور جس کی رگوں میں اطالوی خون دوڑ رہا ہو۔ ہیگن صرف پینتیس سال کا تھا اور وہ اطالوی بھی نہیں تھا۔ ڈون نے ابھی تک اس سلسلے میں کوئی واضح اشارہ نہیں دیا تھا۔ میری بیٹی کب رخصت ہورہی ہے ڈون نے کچھ سوچتے ہوئے پوچھا۔ کچھ دیر بعد کیک کٹنے والا ہے۔ اس کے آدھ پون گھنٹے بعد وہ اپنے شوہر کے ساتھ رخصت ہوجائے گی۔ ہیگن نے جواب دیا اور اس کے ساتھ ہی اسے گویا ایک ضروری بات یاد آگئی۔ اس نے پوچھا۔ کیا آپ کے داماد کو فیملی میں کوئی اہم پوزیشن دی جائے گی ہرگز نہیں۔ ڈون نے میز پر ہاتھ مار کر اتنے سخت لہجے میں جواب دیا کہ ہیگن حیران رہ گیا۔ اسے فیملی کے کاروبار اصل معاملات اور دوسری اہم باتوں کی ہوا بھی نہیں لگنی چاہئے۔ بس اس کیلئے کسی اچھے ذریعہ معاش کا بندوبست کردینا جس سے وہ آرام و آسائش سے زندگی گزار سکے۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں اور یہ بات سنی، فریڈ اور مینزا کو بھی بتا دینا۔ پھر ایک لمحے کے توقف کے بعد ڈون بولا۔ میرے تینوں بیٹوں سے کہہ دو کہ ہم سب ڈینڈو سے الوداعی ملاقات کیلئے اسپتال جائیں گے۔ وہ ہمارا بہت اہم اور باعزت ساتھی تھا۔ ہم اس کیلئے نیک تمنائوں کا اظہار کریں گے اور پورے احترام سے الوداع کہیں گے۔ فریڈ سے کہنا کہ جانے کیلئے بڑی گاڑی نکالے اور جونی سے کہنا کہ اگر وہ بھی ہمارے ساتھ چلے تو مجھے خوشی ہوگی۔ پھر ہیگن کی آنکھوں میں سوال دیکھ کر وہ بولا۔ تمہیں ہمارے ساتھ جانے کی ضرورت نہیں۔ تمہارے پاس وقت نہیں ہوگا۔ تمہیں آج رات ہی لاس اینجلس جانے کی تیاری کرنی ہوگی لیکن تم اسپتال سے میری واپسی کا انتظار ضرور کرلینا۔ تمہارے جانے سے پہلے میں تمہیں کچھ ضروری باتیں سمجھانا چاہتا ہوں۔ گاڑی کس وقت نکلوائوں ہیگن نے پوچھا۔ جب کونی اور تمام مہمان رخصت ہوجائیں۔ ڈون نے جواب دیا۔ مجھے امید ہے کہ ڈینڈو میرا انتظار ضرور کرے گا۔ وہ مجھ سے ملاقات کئے بغیر اس دنیا سے رخصت نہیں ہوگا۔ سینیٹر کا فون آیا تھا۔ ہیگن نے بتایا۔ وہ شادی میں شرکت نہ کرسکنے پر معذرت کررہا تھا اور کہہ رہا تھا کہ آپ اس کی مجبوری سمجھ گئے ہوں گے۔ شاید اس کا اشارہ ایف بی آئی کے ان دو آدمیوں کی طرف تھا جو باہر گاڑیوں کے نمبر نوٹ کررہے تھے۔ بہرحال، اس نے خصوصی قاصد کے ذریعے شادی کا تحفہ بھجوا دیا تھا۔ ڈون نے سر ہلانے پر اکتفا کیا۔ اس نے ہیگن کو بتانا ضروری نہیں سمجھا کہ درحقیقت اس نے خود ہی احتیاطاً سینیٹر کو شادی میں آنے سے منع کردیا تھا۔ اس نے کیا تحفہ بھیجا ہے اس نے پوچھا۔ چاندی کا ایک ڈنر سیٹ ہے جو نوادرات میں شمار ہوتا ہوگا۔ اس کی قیمت سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ سینیٹر نے اسے تلاش کرنے اور منتخب کرنے میں اپنا بہت قیمتی وقت صرف کیا ہوگا۔ پھر ہیگن خوشدلی سے مسکراتے ہوئے بولا۔ اس قسم کی چیزیں برے وقت کیلئے بھی اچھا سہارا ہوتی ہیں، ہزاروں ڈالر میں بک جاتی ہیں۔ ڈون ایک اہم تحفے کا ذکر سن کر خوش نظر آنے لگا تھا۔ اس کے ساتھ ہی اسے اس بات کی بھی خوشی تھی کہ سینیٹر جیسا اہم آدمی اس کے خاص وفاداروں میں تھا۔ ٭ ٭ ٭ جونی کو باغ میں مہمانوں کے سامنے گاتے دیکھ کر مائیکل کی منگیتر کے حیران رہ گئی تھی۔ تم نے مجھے بتایا ہی نہیں کہ اتنا بڑا اسٹار بھی تمہاری فیملی کا اتنا اچھا جاننے والا ہے وہ مائیکل سے بولی۔ اب میں ضرور تم سے شادی کرلوں گی۔ کیا تم اس سے ملنا چاہتی ہو مائیکل نے پوچھا۔ نہیں۔ کے بولی۔ کوئی زمانہ تھا کہ میں اس کی دیوانی تھی۔ تین سال میں اس کے عشق میں مبتلا رہی۔ جب یہ کلب میں گایا کرتا تھا تو میں صرف اس کا گانا سننے نیویارک آتی تھی اور اسے داد دینے کیلئے گلا پھاڑ کر چیختی تھی۔ پھر کے نے جونی کو اندر جاتے دیکھا تو بولی۔ اب یہ مت کہنا کہ اتنا بڑا اسٹار بھی تمہارے والد کے پاس کوئی درخواست لے کر آیا ہوگا۔ وہ میرے والد کا گاڈ سن ہے اور اگر اس کے سر پر میرے والد کا ہاتھ نہ ہوتا تو یہ اتنا بڑا اسٹار ہرگز نہ بنتا۔ انہوں نے اسے نہ جانے کس کس موقع پر کس کس مصیبت سے بچایا ہے۔ ٭ ٭ ٭ رات کے پچھلے پہر ٹام ہیگن اپنی بیوی کو خداحافظ کہہ کر لاس اینجلس جانے کیلئے ایئرپورٹ کی طرف روانہ ہوا۔ خصوصی ذرائع سے اس کیلئے ہنگامی طور پر سیٹ کا انتظام ہوا تھا۔ رات کے تین بجے ڈینڈو کا اسپتال میں انتقال ہوگیا تھا۔ اسپتال سے واپس آکر ڈون نے ہیگن کو بتا دیا تھا کہ اب وہ اس کا مستقل قانونی مشیر ہے۔ یوں اس نے اس روایت کو توڑ دیا تھا کہ اس کے قانونی مشیر کو خالصتاً اطالوی ہونا چاہیے۔ ہیگن دوغلی نسل کا تھا۔ وہ جرمن آئرش تھا۔ ڈون نے اسے رخصت کرنے سے قبل جیک والز سے ملاقات کے بارے میں ضروری ہدایات دی تھیں اور بہت سی باتیں اس پر بھی چھوڑ دی تھیں۔ اس معاملے کو صحیح انداز میں نمٹانا ڈون کے وکیل کے طور پر اس کی قابلیت اور اہلیت کا امتحان تھا۔ جن دو لڑکوں نے بونا سیرا کی بیٹی پر ظلم کیا تھا، ان کے سلسلے میں پال گیٹو کو مینزا کے توسط سے ہدایات دی گئی تھیں۔ گیٹو کو اس مقصد کیلئے دو آدمیوں کا بندوبست کرنا تھا جنہیں اصل بات سے بے خبر رکھا جانا تھا حتیٰ کہ انہیں یہ بھی خبر نہ ہو کہ ان کی خدمات درحقیقت کون حاصل کررہا تھا۔ اس قسم کے کاموں میں انہی احتیاطوں کی وجہ سے کبھی بات ڈون کی ذات تک نہیں پہنچتی تھی۔ اگر کبھی پولیس کے ہتھے چڑھ جانے یا کسی اور وجہ کے باعث بیچ کی کوئی کڑی غداری کرجاتی تب بھی ڈون یا اس کے خاص آدمیوں کو کوئی نقصان نہیں پہنچ سکتا تھا کیونکہ اس کڑی کو زنجیر کی باقی کڑیوں کے بارے میں کچھ پتا نہیں ہوتا تھا۔ ٹام ہیگن پہلی بار ذرا مشکل قسم کے کام پر لاس اینجلس روانہ ہوتے وقت معمولی سا نروس تھا لیکن اسے یہ بھی معلوم تھا کہ اس معاملے کو صحیح طرح ہینڈل کرنے پر فیملی میں اس کی عزت اور توقیر میں بے حد اضافہ ہوگا۔ جیک والز کے بارے میں تمام ضروری معلومات جمع کرلی گئی تھیں۔ وہ ہالی وڈ کے تین اہم ترین پروڈیوسرز اور اسٹوڈیو مالکان میں سے ایک تھا۔ بیسیوں اسٹارز اس کیلئے طویل معاہدوں کے تحت کام کررہے تھے۔ اس میں شک نہیں تھا کہ صدر امریکا سے اس کے مراسم تھے۔ وہ وہائٹ ہائوس میں کئی بار ڈنر کرچکا تھا اور ایک بار صدر اس کے ہالی وڈ والے گھر میں ضیافت پر آچکے تھے۔ سی آئی اے کے سربراہ سے بھی اس کے مراسم تھے۔ تاہم یہ سب باتیں ٹام ہیگن یا ڈون کیلئے زیادہ متاثر کن نہیں تھیں کیونکہ یہ درحقیقت رسمی قسم کے تعلقات تھے۔ والز کی اپنی کوئی ٹھوس سیاسی حیثیت نہیں تھی۔ ویسے بھی وہ ایک تند مزاج آدمی تھا اور ڈون کا کہنا تھا کہ تند مزاج آدمیوں کے دوست کم اور دشمن زیادہ ہوتے ہیں۔ والز کو اپنی طاقت اور اثر و رسوخ کا بہت زعم تھا اور وہ موقع بے موقع اس کا اظہار بھی کرتا رہتا تھا۔ طیارہ جب لاس اینجلس کے ایئرپورٹ پر اترا تو صبح کا اجالا نمودار ہورہا تھا۔ ہیگن اس ہوٹل میں پہنچا جہاں وہ فون پر اپنے لئے کمرہ ریزرو کرا چکا تھا۔ لباس تبدیل کرکے اس نے ناشتہ کیا اور اطمینان سے اخبار پڑھنے بیٹھ گیا۔ دراصل وہ سستا رہا تھا۔ اپنے اعصاب کو سکون دے رہا تھا اور اپنے آپ کو والز سے ملاقات کیلئے تیار کررہا تھا۔ والز سے دس بجے اس کی ملاقات طے تھی۔ ملاقات کیلئے والز سے وقت حاصل کرنا زیادہ مشکل ثابت نہیں ہوا تھا۔ اسٹوڈیو ورکرز کی سب سے بڑی اور طاقتور یونین کا صدر گوف، ڈون کا عقیدت مند تھا۔ ڈون نے اسے فون پر ہدایت کردی تھی کہ وہ والز سے ہیگن کی ملاقات کا وقت طے کرا دے اور یہ بات بھی والز کے کان میں ڈال دے کہ اگر اس ملاقات کے نتائج ہیگن کیلئے خوش کن نہ ہوئے تو والز کے اسٹوڈیو میں ورکرز کی ہڑتال بھی ہوسکتی ہے۔ اس کال کے ایک گھنٹے بعد گوف نے ہیگن کو فون کرکے بتایا کہ صبح دس بجے والز سے اس کی ملاقات طے ہوگئی ہے تاہم اس نے یہ بھی بتایا کہ اس کی طرف سے ممکنہ ہڑتال کی مبہم دھمکی سن کر والز زیادہ متاثر نہیں ہوا تھا۔ ملاقات کا دس بجے کا وقت بھی کچھ اچھی علامت نہیں تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ والز نے اسے اتنی اہمیت نہیں دی تھی کہ کھانے پر مدعو کرتا۔ شاید ڈون کی شہرت ابھی اس تک نہیں پہنچی تھی کیونکہ ڈون شہرت حاصل کرنے کا قائل ہی نہیں تھا۔ وہ تو خود کو حتی الامکان غیر معروف ہی رکھ کر کام کرنے کا قائل تھا۔ نیویارک سے باہر کے لوگ اس کے بارے میں بہت کم جانتے تھے یا پھر سرے سے جانتے ہی نہیں تھے تاہم ہر جگہ ضرورت کے وقت ڈون کا کوئی نہ کوئی پرانا رابطہ نکل آتا تھا۔ ہیگن کے اندازے درست نکلے۔ والز نے اسے ملاقات کے وقت سے آدھا گھنٹہ زائد انتظار کرایا تاہم ہیگن نے برا نہیں منایا۔ والز کا استقبالیہ کمرہ جہاں بیٹھ کر وہ انتظار کررہا تھا، نہایت شاندار، آرام دہ اور آراستہ تھا۔ اس وسیع کمرے میں دوسری طرف کائوچ پر ایک بچی اور ایک عورت بیٹھی تھی۔ بچی کی عمر گیارہ بارہ سال کے قریب تھی تاہم وہ بڑی عورتوں کی طرف پرتکلف لباس میں تھی۔ ہیگن نے اپنی زندگی میں اس سے زیادہ خوبصورت بچی نہیں دیکھی۔ اس کے بال سنہرے ریشمیں اور آنکھیں شفاف نیلی تھیں۔ بھرے بھرے سرخ ہونٹ یاقوت سے تراشیدہ لگ رہے تھے۔ عورت محافظ کی طرح بچی کے ساتھ تھی۔ وہ یقیناً اس کی ماں تھی کیونکہ اس کے چہرے میں بچی کی کچھ مشابہت تھی تاہم وہ لومڑی کی طرح چالاک، موقع پرست اور لالچی معلوم ہوتی تھی۔ بچی فرشتہ صورت تھی جبکہ ماں کوئی عیار بلا معلوم ہوتی تھی۔ اس نے چند لمحے بڑی نخوت اور تکبر سے ہیگن کو گھورا شاید اس کا خیال تھا کہ ہیگن نظر چرا لے گا مگر جب ہیگن نے ایسا نہیں کیا تو وہ خود دوسری طرف دیکھنے لگی۔ ہیگن کا دل چاہ رہا تھا کہ اٹھ کر اس کی ناک پر ایک گھونسہ رسید کردے۔ آخرکار ایک عورت آئی اور ہیگن کو اپنی رہنمائی میں کئی دفاتر کے سامنے سے گزار کر والز کے آفس میں لے گئی جو ایک پرتعیش اپارٹمنٹ کی طرح تھا۔ ہیگن ان تمام دفاتر اور ان میں کام کرنے والوں کو دیکھ کر کچھ متاثر ہوا لیکن دل ہی دل میں وہ یہ بھی سوچ رہا تھا کہ شاید ان دفاتر میں کام کرنے والے بیشتر لوگ درحقیقت فلموں میں کام کرنے آئے تھے اور چانس کے منتظر تھے۔ والز ایک لحیم شحیم اور مضبوط آدمی تھا جس کی قدرے ابھری ہوئی توند کو خوبصورتی سے سلے ہوئے سوٹ نے چھپا لیا تھا۔ ہیگن اس کی پوری زندگی کی کہانی سے واقف ہوچکا تھا۔ دس سال کی عمر میں والز، ایسٹ سائڈ کے علاقے میں بیئر کے خالی بیرل ایک ٹھیلے پر جمع کرکے کباڑی کے ہاتھ بیچنے جاتا تھا۔ بیس سال کی عمر میں وہ اپنے باپ کا ہاتھ بٹانے لگا جو گارمنٹ فیکٹری میں ورکر تھا۔ تیس سال کی عمر تک وہ کچھ رقم جمع کرچکا تھا۔ اس نے نیویارک چھوڑ دیا اور ہالی وڈ آکر اپنی رقم فلموں کے کاروبار میں لگا دی۔ اڑتالیس سال کی عمر تک وہ بہت بڑا فلم پروڈیوسر بن گیا لیکن اس کی شخصیت کا اکھڑ پن اور کرختگی برقرار رہی۔ وہ ایک تند خو، اجڈ اور گنوار سا آدمی تھا۔ پیٹھ پیچھے لوگ اس کا ذکر کچھ زیادہ عزت سے نہیں کرتے تھے۔ وہ اپنا غصہ زیادہ تر چھوٹے اور کمزور لوگوں پر نکالتا تھا۔ پچاس سال کی عمر میں اس نے کھانے، پہننے اور اچھی محفلوں میں اٹھنے بیٹھنے کے آداب سیکھنے کیلئے باقاعدہ کچھ لوگوں کی خدمات حاصل کیں جس سے اس کی شخصیت اور انداز و اطوار کچھ سنور تو گئے لیکن اصلیت بہرحال مکمل طور پر نہیں چھپ سکی۔ اب بھی کسی نہ کسی موقع پر اس کی اصل شخصیت کی جھلک نظر آتی رہتی تھی۔ جب اس کی بیوی کا انتقال ہوا تو اس نے ایک ایسی اداکارہ سے شادی کرلی جو دنیا بھر میں مشہور تھی لیکن اداکاری چھوڑنا چاہتی تھی۔ اس سے شادی کرکے اداکارہ نے اداکاری چھوڑ دی۔ اب والز ساٹھ سال کی عمر کو پہنچ چکا تھا اور فلمسازی وغیرہ کے علاوہ اس کے مشاغل وہی تھے جو اکثر بڑے دولت مندوں کے ہوتے ہیں۔ اس کی بیٹی نے ایک انگریز لارڈ سے شادی کی تھی اور بیٹے نے ایک اطالوی شہزادی سے اخباری کالموں میں اکثر اس کا تذکرہ ہوتا رہتا تھا۔ کچھ عرصے سے اس کی دلچسپی اپنے اصطبل میں بہت بڑھ گئی تھی جس میں اس نے بہت اعلیٰ نسل کے ریس کے گھوڑے جمع کئے تھے۔ اخبار نویس گویا اپنا فرض سمجھ کر اس کی سرگرمیوں اور مشاغل کے بارے میں کچھ نہ کچھ لکھتے رہتے تھے۔ پچھلے دنوں ایک بار پھر اس وقت اس کا تذکرہ اخبارات میں جلی سرخیوں کے ساتھ ہوا تھا جب اس نے انگلینڈ کا ایک نہایت مشہور ریس کا گھوڑا خرطوم چھ لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔ ان دنوں ایک گھوڑے کی یہ قیمت ناقابل یقین تھی۔ اس قیمت پر یہ گھوڑا خریدنے کے بعد والز نے یہ اعلان کرکے لوگوں کو مزید حیرت زدہ کردیا تھا کہ وہ اس گھوڑے کو ریس میں دوڑانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ اسے ریس سے ریٹائر کررہا تھا اور اپنے اصطبل میں صرف افزائش نسل کیلئے رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے قدرے خوش خلقی سے ہیگن کا استقبال کیا تاہم اس کا چہرہ اب بھی اس کی شخصیت کی کرختگی کا پتا دیتا تھا۔ شاید اس نے اپنے بڑھاپے کو چھپانے کیلئے چہرے پر کچھ کرایا ہوا بھی تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے چہرے کی کھال کو لٹکنے سے بچانے کیلئے بہت اونچے ہنرمندوں نے کچھ کوششیں کی تھیں۔ ان باتوں سے قطع نظر وہ بہت توانا آدمی لگتا تھا۔ ڈون کارلیون کی طرح اس کی شخصیت اور حرکات و سکنات سے بھی حاکمیت جھلکتی تھی۔ لگتا تھا کہ وہ اپنی سلطنت پر حکمرانی کرنا خوب جانتا ہے۔ ہیگن نے تمہید میں وقت ضائع نہیں کیا اور براہ راست مطلب کی بات پر آگیا۔ اس نے بتایا کہ وہ ایک طاقتور آدمی کا نمائندہ ہے اور وہ طاقتور آدمی جونی کا دوست، مہربان اور مربی ہے۔ اس نے جونی پر ایک چھوٹی سی عنایت کرنے کی درخواست کی ہے اور کہا ہے کہ اگر اس کی درخواست پر عمل ہوگیا تو وہ زندگی بھر ممنون رہے گا اور اگر کبھی والز کو اس سے کوئی کام پڑا تو اسے مایوسی نہیں ہوگی۔ پھر ہیگن نے درخواست کی نوعیت بھی بیان کردی یعنی جونی کو اس فلم میں کاسٹ کرلیا جائے جس کی شوٹنگ اگلے ہفتے شروع ہورہی تھی۔ تمہارا طاقتور دوست میرے کس کام آسکتا ہے والز نے پوری بات سننے کے بعد چبھتے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ ہیگن نے اس کے لہجے کے تیکھے پن کو نظرانداز کرتے ہوئے ملائمت سے کہا۔ آپ کے اسٹوڈیو میں ورکرز کی ایک ہڑتال متوقع ہے۔ میرے باس جو میرے دوست اور محسن بھی ہیں، اس ہڑتال کو رکوا سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ آپ کا ایک اہم اسٹار جو پہلے چرس پیتا تھا، اب ترقی کرکے ہیروئن پینے لگا ہے۔ اسے فلموں میں کاسٹ کرکے آپ کروڑوں ڈالر کماتے تھے، اب بھی اس کے نام پر آپ کی خاصی دولت دائو پر لگی ہوئی ہے لیکن وہ روزبروز ناکارہ ہورہا ہے۔ کام کے قابل نہیں رہا ہے۔ میرے باس ایسا انتظام کردیں گے کہ آپ کے اس ہیرو کو کہیں سے ہیروئن نہیں ملے گی اور وہ یہ عادت چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا۔ اس کے علاوہ بھی اگر آپ کو مستقبل میں کبھی کوئی مسئلہ درپیش ہوا تو آپ صرف ایک فون کردیجئے گا، مسئلہ حل ہوجائے گا۔ والز کچھ اس طرح اس کی باتیں سن رہا تھا جیسے اس کے سامنے کوئی چھوٹا بچہ بیٹھا بڑی بڑی گپیں ہانک رہا ہو۔ جب وہ بولا تو اس کی آواز میں کھردرا پن تھاجو یقیناً اس کے ماضی کا آئینہ دار تھا۔ تم مجھے دھمکانے کی کوشش کررہے ہو ہرگز نہیں۔ ہیگن نے ہموار لہجے میں کہا۔ میں صرف ایک دوست کا پیغام لے کر آیا ہوں جس کی درخواست قبول کرنے میں تمہارا کوئی نقصان نہیں ہے۔ تب شاید والز نے کوشش کرکے اپنے چہرے پر غصے اور برہمی کے تاثرات پید کئے اور میز پر ہیگن کی طرف جھکتے ہوئے پھنکارنے کے سے انداز میں بولا۔ ٹھیک ہے اب میں تم سے صاف صاف باتیں کرتا ہوں۔ سنو تم اچھی طرح سن لو اور جو بھی تمہارا باس ہے، اسے بھی جاکر بتا دو کہ جونی کو اس فلم میں ہرگز کام نہیں ملے گا خواہ مافیا کے کتنے ہی کیڑے، مکوڑے اپنے بلوں سے نکل کر میرے پاس آجائیں۔ پھر وہ کرسی سے ٹیک لگا کر ذرا پھیل کر بیٹھتے ہوئے استہزائیہ لہجے میں بولا۔ شاید تم نے کبھی جے۔ایڈگر ہوور کا نام سنا ہو یہ صاحب اتفاق سے امریکا کے صدر ہوتے ہیں۔ وہ میرے قریبی دوست ہیں۔ اگر میں ان سے ذکر کردوں کہ مجھ پر دبائو ڈالا جارہا ہے تو تم لوگوں کو پتا بھی نہیں چلے گا کہ کیا چیز آکر تم سے ٹکرائی اور تمہیں فنا کرگئی۔ ہیگن نے نہایت صبر و تحمل سے والز کی بات سنی۔ والز کی حیثیت کو دیکھتے ہوئے اسے امید تھی کہ اگر وہ ایسی کوئی بات کرے گا بھی تو ذرا سلیقے سے اور موثر انداز میں کرے گا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اتنا سطحی اور اجڈ سا آدمی اتنے اونچے مقام پر پہنچ سکتا تھا۔ یہ خیال آنے پر ہیگن کچھ اور بھی سوچنے لگا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ فلمی دنیا میں پیسہ کمانا زیادہ مشکل نہیں تھا۔ ڈون اس سے کہتا رہتا تھا کہ سرمایہ کاری کیلئے نئے میدان تلاش کئے جائیں جہاں سے منافع کی توقع ہو۔ وہ سوچ رہا تھا کہ واپس جاکر ڈون سے ذکر ضرور کرے گا کہ فلمی دنیا میں بھی سرمایہ کاری کرنی چاہئے۔ جب وہاں والز جیسا جاہل اور اجڈ آدمی اتنا کامیاب ہوسکتا ہے تو وہ لوگ کیوں نہیں ہوسکتے وہ والز کے اندازگفتگو پر ذرّہ بھر غصے میں نہیں آیا کیونکہ ڈون نے اسے یہی سکھایا تھا۔ کبھی غصے میں نہ آئو، کبھی کسی کو دھمکی نہ دو، اسے دلیل سے سمجھانے کی کوشش کرو۔ اس کیلئے ضروری تھا کہ توہین آمیز انداز گفتگو کا اثر دل پر نہ لیا جائے۔ اس نے ایک بار ڈون کو ایک بہت بڑے بدمعاش اور گروہ باز کے سامنے میز پر بیٹھ کر مسلسل آٹھ گھنٹے تک سمجھانے کی کوشش کرتے دیکھا تھا۔ ڈون اس بدمعاش کو اپنے کچھ طور طریقے ٹھیک کرنے کیلئے کہہ رہا تھا مگر اس نے ڈون کی بات ماننے کے بجائے کئی بار اس کی توہین کر ڈالی۔ اس کے باوجود ڈون کی پیشانی پر بل نہیں آیا تھا اور وہ اسے سمجھانے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ آٹھ گھنٹے بعد آخرکار وہ اٹھ کھڑا ہوا تھا اور اس نے بے بسی آمیز انداز میں ہاتھ پھیلاتے ہوئے صرف اتنا کہا۔ بھئی اس آدمی کو دلیل سے قائل کرنا ممکن نہیں۔ پھر وہ لمبے لمبے ڈگ بھرتا کمرے سے نکل گیا تھا۔ تب اس بدمعاش کا چہرہ دہشت سے سفید پڑ گیا تھا۔ آخری جملہ ادا کرتے وقت ڈون کے لہجے میں کوئی ایسی بات تھی جسے محسوس کرکے بدمعاش کی ساری اکڑفوں ہوا ہوگئی تھی۔ اس نے ڈون کو کمرے میں واپس بلانے کیلئے قاصد دوڑائے تھے لیکن اس کی منت خوشامد بھی ڈون کو کمرے میں واپس نہیں لا سکی تھی۔ اس کے بعد ان دونوں کے درمیان صلح کا معاہدہ تو ہوگیا لیکن اس کے دو ماہ بعد اس بدمعاش کو اس وقت کسی نے گولی مار دی تھی جب وہ ایک باربر شاپ میں بال کٹوا رہا تھا۔ چنانچہ ہیگن نے نئے سرے سے ملائمت سے والز کو سمجھانا شروع کیا۔ تم نے شاید میرا کارڈ توجہ سے نہیں دیکھا۔ میں ایک وکیل ہوں۔ میں اتنا احمق نہیں ہوسکتا کہ لوگوں کو دھمکیاں دیتا پھروں۔ کیا میں نے ایک لفظ بھی ایسا کہا ہے جس میں کوئی دھمکی پوشیدہ ہو میں مزید یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر جونی کو فلم میں کاسٹ کرنے کیلئے تمہاری کوئی شرط ہے تو وہ بتا دو۔ ہم اسے پوری کرنے کی کوشش کریں گے۔ ویسے اتنے چھوٹے سے کام کے عوض میں پہلے ہی خاصے بڑے فائدے کی پیشکش کرچکا ہوں جبکہ وہ کام خود تمہارے اپنے لئے بھی فائدے کا ہے۔ تم خود اعتراف کرچکے ہو کہ جونی اس کردار کیلئے موزوں ترین آدمی ہے اور اگر ایسا نہ ہوتا تو تم سے یہ درخواست نہ کی جاتی۔ اگر تمہیں خطرہ ہے کہ جونی کو لینے سے فلم نقصان دہ ثابت ہوسکتی ہے تو میرے باس فلم کیلئے پورا بجٹ اپنے پاس سے دے دیں گے۔ وہ ہر کام کا نقصان برداشت کرلیں گے۔ بہرحال میں یہ واضح کردوں کہ ہم تمہیں مجبور ہرگز نہیں کررہے۔ ہمیں معلوم ہے کہ تمہارے منہ سے ایک بار انکار نکل جائے تو پھر وہ انکار ہی رہتا ہے۔ ہمیں صدر ہوور سے تمہاری دوستی کے بارے میں بھی علم ہے اور ہماری نظر میں تمہاری بڑی عزت ہے۔ ہم جو بھی درخواست کررہے ہیں، جو بھی بات چیت کررہے ہیں، نہایت عزت و احترام سے کررہے ہیں۔ سرمایہ کاری کے ذکر پر والز کے چہرے پر قدرے نرمی کے آثار نمودار ہوئے اور وہ بولا۔ تمہاری اطلاع کیلئے بتا دوں کہ اس فلم کا بجٹ پانچ ملین ڈالر کا ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ ہیگن سرسری سے لہجے میں بولا۔ میرے باس کے بہت سے دوست ہیں جو ان کے مشورے پر اس سے زیادہ سرمایہ کسی پروجیکٹ میں لگانے کیلئے تیار رہتے ہیں۔ والز پہلی بار اس معاملے کو سنجیدگی سے لینے کیلئے آمادہ نظر آیا۔ وہ ہیگن کے کارڈ پر نظر ڈالتے ہوئے بولا۔ میں نیویارک کے زیادہ تر بڑے وکیلوں کو جانتا ہوں لیکن میں نے کبھی تمہارا نام نہیں سنا۔ آخر تم ہو کون میں زیادہ بڑی بڑی کمپنیوں کیلئے کام نہیں کرتا۔ میرا بس ایک ہی کلائنٹ ہے، وہی میرا باس بھی ہے۔ ہیگن نے خشک لہجے میں کہا اور اٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے مصافحے کیلئے والز کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ والز نے مصافحہ کرلیا۔ دروازے کی طرف دو قدم بڑھنے کے بعد ہیگن پلٹا جیسے اسے کچھ یاد آگیا ہو۔ مجھے معلوم ہے تمہیں آئے دن بہت سے ایسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے جو اپنے آپ کو بہت اہم ظاہر کرنے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ وہ اہم ہوتے نہیں۔ ہمارا معاملہ اس کے بالکل الٹ ہے۔ تم ہمارے بارے میں معلومات کرلو، اس کے بعد اگر تم اپنے فیصلے پر نظرثانی کرنا چاہو تو میرے ہوٹل میں مجھ سے رابطہ کرلینا۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد وہ پھر بولا۔ میرے باس تمہارے لئے کچھ ایسے کام بھی کرسکتے ہیں جو شاید صدر امریکا کو بھی مشکل لگیں۔ والز آنکھیں سکیڑے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ شاید اب وہ بات کی گہرائی کو کچھ کچھ سمجھ رہا تھا۔ ہیگن نے نہایت شائستگی سے مزید کہا۔ برسبیل تذکرہ میں ذاتی طور پر تمہاری فلمسازی کی صلاحیتوں کا بڑا معترف ہوں۔ تمہاری بنائی ہوئی سبھی فلمیں مجھے اچھی لگی ہیں۔ اسی لگن اور توجہ سے کام جاری رکھو۔ ہمارے ملک کو اچھی چیزوں کی ضرورت ہے۔ پھر وہ دروازہ کھول کر باہر آگیا۔ اس شام ہیگن کو ہوٹل میں والز کی سیکرٹری کا فون آیا۔ اس نے بتایا کہ ایک گھنٹے بعد ایک کار اسے لینے آئے گی۔ کار میں اسے مسٹر والز کے اس مکان پر جانا ہوگا جو ایک دیہی علاقے میں واقع تھا۔ ہیگن کو وہاں والز کے ساتھ ڈنر کرنا تھا۔ کار میں یہ سفر تقریباً تین گھنٹے کا تھا۔ سیکرٹری نے یہ بتاتے ہوئے والز کو تسلی بھی دے دی کہ کار میں بھی کھانے، پینے اور موسیقی وغیرہ سننے کا انتظام ہے۔ اس لئے سفر بوریت میں نہیں گزرے گا۔ اس کے بعد سیکرٹری بولی۔ مسٹر والز نے مشورہ دیا ہے کہ آپ اپنا بیگ ساتھ لیتے آئیں کیونکہ رات کو آپ کو فارم ہائوس میں ہی قیام کرنا ہوگا۔ صبح مسٹر والز آپ کو نیویارک واپسی کیلئے خود ایئرپورٹ پہنچا دیں گے۔ ہیگن کو معلوم ہوچکا تھا کہ والز خود اپنے ذاتی جہاز میں فارم ہائوس گیا تھا۔ اگر وہ ہیگن کو وہاں ڈنر پر مدعو کرنا چاہتا تھا تو اپنے ساتھ جہاز میں بھی لے جاسکتا تھا۔ نہ جانے اس نے ایسا کیوں نہیں کیا تھا کہ اسے کار کے ذریعے بلوانے کا بندوبست کیا تھا جو زیادہ زحمت کا کام تھا۔ اسے اس بات پر بھی حیرت تھی کہ والز کو کیسے معلوم ہوا کہ وہ کل صبح کی پرواز سے نیویارک جانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ امکان یہی نظر آرہا تھا کہ والز نے اس کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے پرائیویٹ سراغرسانوں کی خدمات حاصل کی ہوں گی۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ ڈون کارلیون کے بارے میں جان چکا ہوگا اور اب ذرا سنجیدگی سے بات کرنے کیلئے تیار ہوگا۔ بہرحال ہیگن نے سیکرٹری کا شکریہ ادا کیا اور بتادیا کہ ایک گھنٹے بعد وہ چلنے کیلئے تیار ہوگا۔ اسے اب امید کی کرن نظر آرہی تھی۔ شاید والز اتنا گنوار اور موٹے دماغ کا نہیں تھا۔ جتنا ہیگن نے آج صبح محسوس کیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ والز کا فارم ہائوس دیہی طرز کی کسی فلمی حویلی سے مشابہہ تھا۔ اس کی حدود میں باغات، اصطبل اور دو رویہ درختوں سے ڈھکے ہوئے راستے بھی شامل تھے۔ گھوڑوں کے چرنے کیلئے سبزہ زار بھی تھے۔ ہر چیز سجی، سنوری اور سلیقے سے آراستہ تھی۔ صفائی ستھرائی اور آرائش کو دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ ہر چیز کی کتنی عمدگی سے دیکھ بھال کی جاتی تھی۔ والز نے ایک ایسے برآمدے میں ہیگن کا استقبال کیا جو ایئرکنڈیشنڈ تھا اور جس کی ایک دیوار شیشے کی تھی۔ وہ اب آرام دہ لباس میں تھا۔ امارت اور آسودگی کا ایک نادیدہ ہالہ اس کی شخصیت کے گرد زیادہ روشن محسوس ہورہا تھا۔ اس کا رویہ صبح کے مقابلے میں بہت بہتر تھا۔ وہ دوستانہ انداز میں ہیگن کے کندھے پر ہاتھ رکھتے ہوئے بولا۔ ڈنر میں ابھی کچھ دیر ہے۔ آئو تب تک میں تمہیں اپنے ریس کے گھوڑے دکھاتا ہوں۔ وہ اصطبلوں کی طرف چل دیا۔ راستے میں والز بولا۔ میں نے تمہارے بارے میں معلومات کرائی تھی ہیگن تم نے مجھے پہلے ہی بتا دیا ہوتا کہ تمہارا باس ڈون کارلیون ہے۔ میں سمجھا تھا کہ تم کوئی تھرڈ کلاس قسم کے وکیل ہو اور شاید کسی تھرڈ کلاس بدمعاش کی نمائندگی کرتے ہو۔ جونی کی زیادہ تر واقفیت ایسے ہی لوگوں سے ہے۔ اب ہمیں یہاں کی فضا سے لطف اندوز ہونا چاہئے۔ کام کی بات ہم ڈنر کے بعد کرلیں گے۔ پھر وہ ہیگن کو ریس کے گھوڑوں کے بارے میں اپنے منصوبے بتانے لگا۔ اسے یقین تھا کہ ان منصوبوں پر عملدرآمد کے بعد اس کے اصطبل امریکا کے بہترین اصطبل شمار ہوں گے جہاں ریس کے اعلیٰ ترین گھوڑوں کی افزائش اور پرورش ہوگی۔ اصطبل فائر پروف تھے، حفظان صحت کے اصولوں پر عملدرآمد کا وہاں بہترین انتظام تھا۔ گندگی کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ پرائیویٹ سراغرساں ان کی حفاظت اور نگرانی کرتے تھے۔ ہیگن کو بہت سے گھوڑے دکھانے اور ان کے شجرئہ نسب کے بارے میں بتانے کے بعد والز اسے آخری اسٹال کے سامنے لے گیا جس کی بیرونی دیوار پر چمکتی ہوئی ایک خوبصورت نیم پلیٹ نصب تھی جس پر پیتل کے حروف میں خرطوم لکھا تھا۔ ہیگن کو گھوڑوں کے بارے میں کچھ زیادہ معلومات نہیں تھیں لیکن اس اسٹال میں کھڑے گھوڑے کو ظاہری طور پر دیکھ کر ہی ہیگن کو تسلیم کرنا پڑا کہ وہ ایک غیر معمولی اور نہایت خوبصورت گھوڑا تھا۔ وہ پورا سیاہ تھا اور اس کی جلد ریشم سے بنی معلوم ہوتی تھی۔ صرف اس کی پیشانی پر ہیرے کی سی ساخت کا ایک سفید نشان تھا۔ اس کی بڑی بڑی بھوری آنکھوں میں گویا چراغ روشن تھے۔ وہ آنکھیں قیمتی پتھروں کی طرح جھلملا رہی تھیں تاہم قیمتی پتھروں میں زندگی کی ایسی بھرپور چمک نہیں ہوسکتی تھی جیسی ان آنکھوں میں تھی۔ یہ دنیا بھر میں ریس کا عظیم ترین گھوڑا ہے۔ والز کے لہجے میں دنیا بھر کا فخر سمٹ آیا تھا۔ اسے میں نے انگلینڈ میں چھ لاکھ ڈالر میں خریدا تھا۔ مجھے امید ہے کہ کسی رئیس زادے نے بھی اپنے دور میں اس قیمت کا گھوڑا نہیں خریدا ہوگا۔ میں نے اسے ریس کیلئے نہیں لیا ہے، میں اس سے افزائش نسل کا کام لوں گا اور اسی کے ذریعے میرے اصطبل ریس کے گھوڑوں کے سلسلے میں دنیا کے بہترین اصطبل شمار ہوں گے۔ وہ گھوڑے کی ریشمیں ایال میں انگلیاں پھیرتے ہوئے اسی طرح لاڈ پیار سے اس کا نام لے کر نیچی آواز میں اسے پکارنے لگا جس طرح باپ اپنے کمسن بیٹوں کو پکارتے ہیں۔ گھوڑا بھی اپنی حرکات و سکنات سے گویا اس کے پیار کا جواب پیار سے دے رہا تھا۔ آخر کار وہ ڈنر کیلئے حویلی میں لوٹ آئے۔ ڈنر تین ویٹرز سرو کررہے تھے اور ایک بٹلر انہیں ہدایات دے رہا تھا تاہم ہیگن کے خیال میں کھانا بہت اعلیٰ معیار کا نہیں تھا۔ والز شاید اب اکیلا رہتا تھا اور اسے کھانوں کے معیار کی کچھ زیادہ پروا نہیں تھی۔ کھانے کے بعد جب وہ آرام سے بیٹھ گئے اور انہوں نے ہوانا کے بہترین سگار سلگا لئے تو ہیگن نے ملائمت سے پوچھا۔ تو پھر تم جونی کو فلم میں کاسٹ کررہے ہو یا نہیں نہیں۔ والز نے بلا تامل جواب دیا۔ میں چاہوں بھی تو ایسا نہیں کرسکتا کیونکہ تمام معاہدے سائن ہوچکے ہیں۔ اگلے ہفتے شوٹنگ شروع ہوجائے گی، اب میں فلم کے معاملات میں کوئی تبدیلی نہیں لاسکتا۔ مسٹر والز ہیگن نے قدرے مضطربانہ لہجے میں کہا۔ سب سے اوپر والے آدمی اور مالک و مختار سے بات اسی امید پر کی جاتی ہے کہ وہ جو چاہے کرسکتا ہے۔ اپنے پروجیکٹ میں جو تبدیلی چاہے، لا سکتا ہے۔ والز خشک لہجے میں بولا۔ مجھے معلوم ہے کہ مجھے اسٹوڈیو میں ورکرز کی ہڑتال کے خطرے کا سامنا کرنا پڑے گا۔ مزدور لیڈر گوف نے مجھے اس کا اشارہ دے دیا ہے اور جس وقت وہ یہ بات کررہا تھا، کوئی سنتا تو سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میں اس خبیث کو خفیہ طور پر ایک لاکھ ڈالر سالانہ اس بات کے دیتا ہوں کہ وہ ورکرز کو ہڑتال سے باز رکھے۔ مجھے یہ یقین نہیں ہے کہ تم میرے اس نیم زنانہ قسم کے ہیرو کو ہیروئن پینے سے باز رکھ سکتے ہو جس کا تم نے صبح ذکر کیا تھا اور مجھے اب اس کی کوئی پروا بھی نہیں ہے۔ جہاں تک کسی فلم کیلئے سرمایہ کاری کرنے کی تمہاری پیشکش کا تعلق ہے تو اس کی بھی میری نظر میں ذرّہ بھر اہمیت نہیں۔ میں اپنی فلمیں خود اپنے سرمائے سے بنا سکتا ہوں۔ جونی کو میں کسی بھی حال میں اپنی فلم میں کاسٹ نہیں کرسکتا کیونکہ مجھے اس سے نفرت ہے۔ اپنے باس سے کہنا کہ آئندہ کبھی کوئی کام ہو تو مجھے ضرور یاد کرے۔ ہیگن کو حیرت کا جو جھٹکا لگا تھا، اس نے اس کا اظہار نہیں ہونے دیا۔ وہ سمجھنے سے قاصر تھا کہ اگر والز کو یہی کچھ کہنا تھا تو اس نے اسے اتنے اہتمام سے اتنی دور کیوں بلایا تھا۔ کوئی بات ضرور تھی۔ دل ہی دل میں والز کو گالیاں دیتے ہوئے اس نے بظاہر ملائمت سے کہا۔ مسٹر والز میرا خیال ہے کہ تم صورتحال کی نزاکت کو سمجھ نہیں رہے ہو۔ ڈون کارلیون، جونی کے گاڈ فادر ہیں۔ یہ ایک بہت ہی قریبی اور روحانی قسم کا رشتہ ہے۔ اطالوی ازراہ مذاق کہا کرتے ہیں کہ دنیا میں زندگی گزارنا اتنا مشکل کام ہے کہ انسان کی دیکھ بھال کیلئے اس کے دو باپ ہونے چاہئیں۔ اس مذاق کی کوکھ سے گاڈ فادر کے نہایت سنجیدہ رشتے نے جنم لیا ہے۔ اطالوی جسے اپنا مربی، سرپرست اور ایک قسم کا روحانی باپ سمجھ لیتے ہیں، اسے اپنا گاڈ فادر کہتے ہیں۔ جونی کے گاڈ فادر ڈون کارلیون ہیں اور چونکہ جونی کے گاڈ فادر ڈون کارلیون ہیں اور چونکہ جونی کا حقیقی باپ مر چکا ہے۔ اس لئے مسٹر کارلیون اور بھی زیادہ گہرائی سے جونی کو اپنی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور ڈون کارلیون ایک بہت حساس انسان بھی ہیں۔ جو انسان ایک بار ان کی کوئی درخواست قبول کرنے سے انکار کردے، اسے وہ زندگی میں پھر کبھی کوئی کام نہیں بتاتے۔ والز نے کندھے اچکائے۔ سوری لیکن میرا جواب بہرحال وہی رہے گا جو میں دے چکا ہوں لیکن اب تم آئے ہوئے ہو تو ہم کسی نہ کسی معاملے پر تو تعاون کی بات کرلیں۔ یہ بتائو کہ اسٹوڈیو میں ورکرز کی ہڑتال رکوانے کیلئے مجھے کتنی رقم خرچ کرنی پڑے گی میں اسی وقت نقد ادائیگی کرسکتا ہوں۔ تب ہیگن کی کم ازکم ایک الجھن دور ہوگئی۔ اس کی سمجھ میں آگیا کہ جب جونی کے بارے میں والز اپنے انکار پر قائم تھا تو اس نے اسے اتنی دور بلانے اور اس کے ساتھ اتنا وقت گزارنے کی زحمت کیوں کی تھی۔ وہ اصل میں صرف یہی بات کرنا چاہتا تھا جو اب اس کی زبان پر آئی تھی۔ وہ ڈون کارلیون سے خوف زدہ نہیں تھا۔ اسے اپنے بارے میں یقین تھا کہ اسے نقصان پہنچانا کسی کے بس کی بات نہیں۔ اسے صرف ایک بات کا اندازہ نہیں تھا کہ ڈون کی نظر میں اپنے وعدے کی کیا اہمیت تھی۔ ڈون نے جونی سے وعدہ کرلیا تھا کہ وہ والز کی فلم میں کاسٹ ہوگا۔ ڈون نے آج تک کسی سے کوئی ایسا وعدہ نہیں کیا تھا جسے وہ پورا نہ کرسکا ہو۔ ہیگن پرسکون لہجے میں بولا۔ تم شاید جان بوجھ کر میری بات کا غلط مطلب لے رہے ہو۔ تم مجھے کسی ایسے آدمی کا نمائندہ قرار دینے کی کوشش کررہے ہو جو لوگوں کو ڈرا دھمکا کر رقم وصول کرتا ہے۔ مسٹر کارلیون نے ہڑتال رکوانے کی جو بات کی تھی، وہ صرف دوستانہ بنیادوں پر اپنے تعلقات استعمال کرتے ہوئے یہ کام انجام دینے کی بارے میں تھی اور اس کے جواب میں تم سے بھی ایک چھوٹی سی مہربانی کی درخواست کی گئی تھی۔ یہ صرف اپنے اثرورسوخ اور اختیارات کے دوستانہ تبادلے کی بات تھی لیکن لگتا ہے تم ہر شخص کی درخواست کے پیچھے اس کا کوئی مقصد تلاش کرنے کے عادی ہو۔ تم نے میری بات کو صحیح طور پر سمجھا ہی نہیں اور میرا خیال ہے تم غلطی کررہے ہو۔ والز ایک بار پھر گویا جان بوجھ کر اشتعال میں آگیا۔ میں سب کچھ بہت اچھی طرح سمجھ رہا ہوں۔ اپنی بات منوانے کا مافیا کا یہی اسٹائل ہے۔ بظاہر مافیا کے لوگ بڑی میٹھی میٹھی باتیں کررہے ہوتے ہیں، اپنے مخاطب کو مکھن لگا رہے ہوتے ہیں لیکن درحقیقت وہ دھمکیاں دے رہے ہوتے ہیں۔ میں ایک بار پھر تمہیں صاف صاف بتا دوں کہ جونی کو کبھی میری فلم میں کام نہیں ملے گا۔ حالانکہ مجھے اعتراف ہے کہ وہ اس کردار کیلئے موزوں ترین آدمی ہے لیکن اس فلم سے اسے فلمی دنیا میں دوسرا جنم مل جائے گا اور میں اسے دوبارہ زندہ کرنا نہیں بلکہ دھکے دے کر فلم انڈسٹری سے باہر نکالنا چاہتا ہوں کیونکہ اس نے اس لڑکی کو مجھ سے چھینا تھا جس پر پانچ سال تک میں نے پیسہ پانی کی طرح بہایا تھا، اسے مستقبل کی سپر اسٹار بنانے کیلئے ہر شعبہ زندگی کے بہترین لوگوں سے ٹریننگ دلوائی تھی۔ تم پھر کہو گے کہ شاید میں صرف مالی فائدے، نقصان کو نظر میں رکھتا ہوں اس لئے میں مالی نقصان کی بات چھوڑ دیتا ہوں۔ مجھے جذباتی طور پر بھی جو نقصان پہنچا ہے، اس کی تلافی نہیں ہوسکتی۔ میرے دنیا کی معروف ترین عورتوں کے ساتھ تعلقات رہے ہیں لیکن اس لڑکی میں کچھ ایسی خوبیاں تھیں کہ میں اس کا دیوانہ تھا اور میں اسے نہ جانے کیا سے کیا بنا دیتا لیکن وہ احمق لڑکی جونی کی خوبصورت شخصیت اور اس کی میٹھی میٹھی باتوں کے طلسم میں گرفتار ہوکر اپنی پرتعیش زندگی اور شاندار مستقبل پر لات مار کر چلی گئی اور اس کتیا کی بچی کو جونی سے چند رنگین راتوں کے سوا کچھ نہیں ملا۔ اس واقعے سے جو کچھ ہوا، سو ہوا لیکن میری پوزیشن بڑی مضحکہ خیز ہوکر رہ گئی اور میں جس مقام پر ہوں، میری جو حیثیت ہے، اسے سامنے رکھتے ہوئے میں مضحکہ خیز نظر آنا افورڈ نہیں کرسکتا مسٹر ہیگن کیا بات تمہاری سمجھ میں آگئی ہیگن اور ڈون کارلیون کی دنیا میں یہ احمقانہ باتیں تھیں، بچکانہ اندازفکر تھا لیکن اس نے یہ کہنے کے بجائے ملائمت سے کہا۔ تم جتنا جہاں دیدہ ہوجانے کے بعد انسان کو اس قسم کی باتوں کو دل پر نہیں لینا چاہئے۔ تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ مسٹر کارلیون، جونی کو کتنا عزیز رکھتے ہیں۔ اس سے کیا ہوا وعدہ ان کی نظر میں بہت اہم ہے بلکہ مسٹر کارلیون جس سے بھی جو وعدہ کرلیتے ہیں، وہ ان کی نظر میں بہت اہم ہوتا ہے۔ چاہے بات کتنی ہی معمولی ہو۔ ڈون کارلیون کبھی اپنے دوستوں کو شرمندہ نہیں ہونے دیتے۔ والز اچانک اٹھ کھڑا ہوا اور برہمی سے بولا۔ میں نے تمہاری باتیں بہت سن لی ہیں۔ میں بدمعاشوں کا حکم نہیں مانتا، بدمعاش میرا حکم مانتے ہیں۔ میں چاہوں تو ابھی یہ فون اٹھا کر صرف چند سیکنڈ بات کروں تو تمہاری کم ازکم آج کی رات جیل میں گزرے گی اور اگر تمہاری مافیا کے اس سردار نے کوئی بدمعاشی دکھانے کی کوشش کی تو اسے پتا چل جائے گا کہ میں کوئی تر نوالا نہیں ہوں۔ اسے اندازہ بھی نہیں ہوسکے گا کہ اس پر کیا آفت ٹوٹی جو اسے فنا کر گئی۔ اس مقصد کیلئے اگر مجھے وہائٹ ہائوس میں بھی اپنا اثرورسوخ استعمال کرنا پڑا تو میں کروں گا۔ ایک بار پھر وہ شخص ہیگن کو بہت ہی احمق لگا اور ایک بار پھر وہ حیرت سے سوچے بغیر نہیں رہ سکا کہ اتنا احمق شخص اتنی بڑی حیثیت کا حامل کیونکر ہوگیا تھا اس مقام پر اور اس عمر کو پہنچ کر بھی وہ بچکانہ انا، سفلی جذبات اور مالی نفع، نقصان کی جنگ میں الجھا ہوا تھا۔ اصل پیغام اس کے موٹے دماغ تک پہنچ ہی نہیں رہا تھا۔ ڈنر اور میرے ساتھ ایک اچھی شام گزارنے کا شکریہ آخر ہیگن نے کہا۔ کیا کچھ دیر بعد میرے لئے سواری کا انتظام ہوجائے گا میں ایئر پورٹ جانا چاہتا ہوں۔ معذرت چاہتا ہوں کہ رات یہاں نہیں گزار سکوں گا۔ مسٹر کارلیون کی خواہش ہوتی ہے کہ اگر کوئی بری خبر ہو تو وہ انہیں جلد ازجلد سنا دی جائے۔ کچھ دیر بعد وہ تیار ہوکر اپنا بیگ لے کر شیشے کی دیوار والے برآمدے میں آگیا۔ وہ اپنے لئے کار کا انتظار کررہا تھا۔ باہر خوبصورت درختوں سے آراستہ طویل و عریض احاطے میں فلڈ لائٹس کی وجہ سے تیز روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ دور درختوں کے پاس ایک شاندار لیموزین کھڑی تھی لیکن ہیگن کو بتایا گیا تھا کہ اس کیلئے دوسری کار آئے گی۔ اسی اثنا میں اس نے حویلی کے کسی اور دروازے سے دو عورتوں کو نکل کر اس طرف جاتے دیکھا۔ اس نے ذرا توجہ سے دیکھا تو اسے احساس ہوا کہ ان میں سے ایک دراصل گیارہ بارہ سال کی بچی تھی جسے اس نے صبح والز کے اسٹوڈیو کے استقبالیہ کمرے میں دیکھا تھا۔ اس کے ساتھ وہی عورت تھی جس کے بارے میں ہیگن کا اندازہ تھا کہ وہ بچی کی ماں تھی۔ اس کی تصدیق یوں بھی ہوگئی کہ بڑی سی گاڑی تک پہنچنے کیلئے انہیں خم دار راستے پر تھوڑا سا گھومنا پڑا اور یوں ان کے چہرے ہیگن کی طرف ہوگئے۔ تیز روشنی میں وہ انہیں صاف دیکھ سکتا تھا جبکہ وہ خود لائٹ آن کئے بغیر برآمدے میں بیٹھا تھا۔ وہ دونوں شاید شیشے کی دیوار کے پار اسے نہیں دیکھ سکتی تھیں۔ ہیگن نے جو کچھ دیکھا اور محسوس کیا، وہ اس جیسے آدمی کی رگوں میں بھی ایک لمحے کو خون منجمد کردینے کیلئے کافی تھا۔ عورت نے درحقیقت بچی کو سہارا دے رکھا تھا۔ اس کے باوجود وہ بھیڑ کے کسی نوزائیدہ بچے کی طرح چل رہی تھی۔ اس کی ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ وہ قدم رکھ کہیں رہی تھی اور پڑ کہیں رہا تھا۔ اس کے بھرے بھرے ہونٹوں کی لپ اسٹک بری طرح پھیل گئی تھی اور اس کی آنکھیں کچھ اس طرح پھٹی پھٹی سی تھیں جیسے وہ کوئی دہشت ناک خواب دیکھ کر جاگی ہو۔ ہیگن کو عورت کے ہونٹ ہلتے نظر آرہے تھے۔ وہ شاید لڑکی کو نیچی آواز میں صحیح طرح چلنے اور اپنے آپ کو سنبھالنے کی ہدایات دے رہی تھی لیکن لڑکی سے صحیح طرح چلا ہی نہیں جارہا تھا۔ کار کے قریب وہ دونوں ایک لمحے کیلئے رکیں۔ عورت نے پلٹ کر عجیب سے انداز میں حویلی کی طرف دیکھا۔ اس کی آنکھوں میں فاتحانہ چمک تھی جیسے اس نے کوئی بڑا کارنامہ انجام دے دیا ہو۔ کوئی بہت بڑا مرحلہ سر کرلیا ہو اور کوئی بہت بڑی کامیابی اسے سامنے نظر آرہی ہو۔ وہ عورت اس لمحے ہیگن کو عورت نہیں، ایک گدھ محسوس ہوئی جو اپنی بچی کی عزت اور معصومیت کی لاش کو نوچ نوچ کر کھا رہی تھی۔ اس ایک لمحے میں سب کچھ ہیگن کی سمجھ میں آگیا۔ کسی مقصد کیلئے ماں نے اپنی نوخیز بچی کو سیڑھی بنایا تھا اور اس عمر میں والز کے اندر شیطان نے ایک نیا جنم لیا تھا۔ وہ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ بڑی سی سیاہ کار انہیں لے کر خاموشی سے رخصت ہوگئی۔ اس کا تاریک وجود دوسری بہت سی تاریکیاں اپنے اندر چھپائے رات کی تاریکی میں مدغم ہوگیا۔ ہیگن نے زندگی میں بہت کچھ دیکھا تھا لیکن اس لمحے وہ بھی حیرت، دکھ اور تاسف سے سوچتا رہ گیا۔ یہ ہے وہ ہالی وڈ جس کے لوگ خواب دیکھتے ہیں اور جونی اس جنگل سے چمٹے رہنے کیلئے بضد ہے اب اس کی سمجھ میں یہ بھی آگیا کہ والز اسے اپنے ذاتی جہاز میں ساتھ لے کر یہاں کیوں نہیں آیا تھا۔ جہاز میں اس کے ساتھ یقیناً وہ ماں بیٹی آئی تھیں۔ چند لمحے بعد دوسری کار ہیگن کو لینے آگئی۔ اس نے دل ہی دل میں والز کو خداحافظ کہا اور برآمدے سے نکل کر اس میں بیٹھ گیا۔ جاری ہے
null
null
null
null
398
https://www.urduzone.net/musavvir-episode-4/
نینا نے بچیوں کو کھانا کھلا کر سلا دیا۔ اس نے بے دلی سے پنیر کا ایک سینڈوچ کھایا اور کافی پی۔ اس کا ذہن ابھی تک مصروف تھا۔ ایرچ نے اسے کبھی نہیں بتایا تھا کہ اس کے والدین کے درمیان طلاق ہوچکی تھی۔ شاید وہ اس تلخ حقیقت کو دہرانا نہیں چاہتا تھا۔ بچیاں سوچکی تھیں۔ اس کا دل گھر میں نہیں لگ رہا تھا۔ وہ تھوڑی دیر کے لئے آفس چلی گئی۔ منیجر کلائیڈ کام میں مصروف تھا۔ اسے دیکھ کر وہ کچھ مضطرب سا ہوا لیکن پھر اس نے خود کو سنبھال لیا۔ نینا نے اس سے پوچھا کہ اس کا کوئی خط تو نہیں آیا اسے یہاں آئے دو مہینے ہوچکے تھے۔ اس نے اپنی دوست کو خط لکھا تھا، اس کا اب تک جواب آجانا چاہئے تھا۔ کلائیڈ نے بتایا کہ اس کے نام ایک خط اور دو پوسٹ کارڈ آئے تھے، جو اس نے ایرچ کو دے دیئے تھے۔ نینا نے کلائیڈ پر تو کچھ ظاہر نہیں کیا لیکن اسے حیرت ہوئی کہ ایرچ نے اسے ڈاک نہیں دی تھی۔ اس بات نے اسے اور پریشان کردیا۔ کیا ایرچ اسے یہاں سب سے کاٹ کر رکھنا چاہتا تھا وہ واپس گھر آگئی۔ ایلسا جانے کے لئے تیار تھی۔ وہ اسے دیکھ کر بولی۔ مسز ایرچ بچیاں ابھی تک سو رہی ہیں، میں کل ذرا دیر سے آئوں گی۔ کیوں خیریت نینا نے پوچھا۔ مسٹر ایرچ یہاں آئے تھے، جب آپ بچیوں کے ساتھ باہر تھیں، انہوں نے مجھے خریداری کے لئے لسٹ دی ہے۔ میں کل مارکیٹ سے وہ چیزیں لے آئوں گی۔ کون سی چیزیں گروسری وغیرہ نینا یہ کہتے کہتے رہ گئی کہ وہ خود مارکیٹ جاکر خریداری کرسکتی ہے تو پھر ایرچ نے ایلسا سے خریداری کے لئے کیوں کہا ہے۔ ایلسا چلی گئی تو اس نے دراز میں دیکھا جہاں چابیاں رکھی رہتی تھیں، وہاں گاڑی کی چابی نہیں تھی۔ وہ دھک سے رہ گئی۔ کیا ایرچ کو پتا چل گیا تھا کہ وہ کیون سے ملنے گئی تھی، اسی لئے اس نے گاڑی کی چابی غائب کردی تھی کہ وہ کہیں نہ جاسکے۔ وہ بری طرح پریشان ہوئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ کیرولین نے ایرچ کے باپ سے کیوں طلاق لی تھی۔ کیا وہ بھی ایرچ کی طرح ملکیت کے خبط میں مبتلا تھا۔ کیا اس کا انجام بھی کیرولین جیسا ہونے والا تھا جو اس کی ہمشکل تھی اور شاید اسی وجہ سے ایرچ نے ایک مہینے کے اندر اسے سوچنے سمجھنے کا موقع دیئے بغیر، اس سے شادی کرلی تھی۔ نینا کی کیفیت کسی جال میں پھنسے ہوئے پنچھی کی سی تھی۔ اس کا کہیں دل نہیں لگ رہا تھا، اسے گھر کی دیواریں جیسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہی تھیں۔ وہ بچیوں کے کمرے میں آگئی۔ دونوں بچیاں بڑے سکون سے سو رہی تھیں۔ ان کے سرخ بال تکیے پر بکھرے ہوئے تھے۔ دونوں بہت پیاری لگ رہی تھیں۔ نینا چند لمحے ان کی طرف بغور دیکھتی رہی۔ یہ دونوں ننھی منی گڑیاں کتنی پیاری لگ رہی ہیں اچانک ایک آواز بالکل اس کے کان کے قریب سنائی دی۔ نینا ڈر کر اچھل پڑی۔ اس کے منہ سے چیخ نکلتے نکلتے رہ گئی۔ تب ایک استخوانی بازو اس کی کمر کے گرد حمائل ہوگیا۔ ہم ان بچیوں سے اتنا پیار کیوں کرتے ہیں نینا نے دیکھا کہ وہ رونیکا تھی۔ اس کی خالی خالی آنکھوں میں پانی تیر رہا تھا، اس کا چہرہ بے تاثر تھا۔ اس سے نگاہ ملتے ہی وہ خودکلامی کے انداز میں بولی۔ اوہ کیرولین نینا، رونیکا کو کمرے سے باہر لے آئی کہ کہیں بچیاں نہ جاگ جائیں۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی باہر آگئی۔ اس کا ہاتھ ابھی تک نینا کی کمر میں حمائل تھا۔ ایک کپ چائے پیتے ہیں۔ نینا نے کہا۔ اس کا ذہن اسی میں الجھا ہوا تھا کہ وہ گھر میں داخل کیسے ہوئی تھی، جبکہ دروازہ لاک تھا۔ کیا اس کے پاس کوئی دوسری چابی تھی چائے پیتے ہوئے وہ مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی جس سے دور جنگل کا منظر بھی نظر آتا تھا۔ آئرن کو یہ جنگل بہت اچھے لگتے تھے میں اس کو منع بھی کرتی تھی، مگر وہ اپنی شرارتوں سے باز نہیں آتی تھی۔ وہ سارے درختوں پر منٹوں میں چڑھ جاتی تھی اور اسے بڑ کے درخت پر بیٹھ کر کتابیں پڑھنا بہت پسند تھا۔ پھر اس نے نینا کی طرف دیکھا۔ اب اس کی آنکھوں میں پہچان تھی۔ تم کیرولین تو نہیں ہو اس نے جیسے تصدیق چاہی۔ ہاں میں نینا ہوں، میں کیرولین نہیں ہوں۔ اوہ آئی ایم سوری دراصل مجھ پر پرانی کیفیت طاری ہوگئی تھی۔ میں سو کر اٹھی تو مجھے لگا کہ مجھے کام پر آنے میں دیر ہوگئی ہے۔ کیرولین کو یہ اچھا نہیں لگے گا۔ تمہارے پاس چابی ہے نہیں میرے پاس چابی نہیں۔ دروازہ کھلا تھا، میں اس سے اندر آگئی۔ نینا کو یقین تھا کہ دروازہ لاک تھا لیکن اس نے رونیکا سے بحث نہیں کی۔ وہ اپنی رو میں کہتی جارہی تھی۔ میں اوپر گئی تھی کہ بستر ٹھیک کردوں لیکن سارا کام تو ہوچکا تھا۔ پھر میں نے کیرولین کو وہاں کھڑے دیکھا لیکن وہ تم تھیں۔ پھر وہ فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ اوہ مجھے یہاں نہیں آنا چاہئے تھا، ایرچ بہت ناراض ہوگا۔ پلیز تم اسے نہ بتانا۔ نہ ہی کلائیڈ سے کچھ کہنا۔ مجھ سے وعدہ کرو تم نہیں بتائو گی اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ نہیں تم تسلی رکھو، میں انہیں نہیں بتائوں گی۔ تم بہت اچھی ہو، کیرولین کی طرح اس کی طرح ہی خوبصورت ہو۔ خداوند تمہیں اپنی حفاظت میں رکھے، تمہارے ساتھ کوئی ایسی بات نہ ہو جس طرح کیرولین کے ساتھ ہوئی۔ وہ اکثر کہتی تھی کہ کوئی خطرناک بات ہونے والی ہے۔ وہ چلنے کے لئے اٹھ گئی۔ اس نے بوسیدہ سوئٹر پہن رکھا تھا جو شدید سردی کے لئے ناکافی تھا۔ تم کوٹ کیوں نہیں پہنتیں باہر تو بہت سردی ہے۔ نینا نے اسے ٹوکا۔ میرا کوٹ نہ جانے کہاں گم ہوگیا ہے۔ میری چیزیں اکثر اِدھر اُدھر ہوجاتی ہیں۔ وہ بولی۔ اچھا ٹھہرو یہ میرا کوٹ پہن لو۔ نینا نے اپنا بھاری کوٹ الماری سے نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ رونیکا نے زیادہ پس و پیش نہیں کی اور کوٹ پہن کر بولی۔ یہ کوٹ بہت اچھا ہے اور قیمتی بھی ہے۔ تم اسے رکھ لو، یہ اب تمہارا ہے۔ شکریہ اچھا مجھے بتائو کیا میں بچیوں کے لئے سوئٹر بنوں ہاں ضرور نینا نے کہا۔ رونیکا نے کچن کا دروازہ کھولا اور باہر نکل گئی۔ باہر تیز اور ٹھنڈی ہوا میں وہ لہراتی ہوئی اپنے گھر کی طرف چلی گئی۔ ٭ ٭ ٭ ایرچ کو کاٹیج میں گئے کافی دن ہوگئے تھے۔ اس کی غیر موجودگی میں وقت گزارنا کافی مشکل لگ رہا تھا۔ دن بہت لمبے ہوگئے تھے۔ اب تو بچیاں بھی پوچھنے لگی تھیں کہ ڈیڈی کہاں چلے گئے ہیں اتنے سے دنوں میں وہ اس سے اتنی مانوس ہوگئی تھیں کہ انہیں اس کی کمی شدت سے محسوس ہونے لگی تھی، حالانکہ کیون کے بارے میں انہوں نے کبھی ایسے ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا، جبکہ وہ ان کا حقیقی باپ تھا۔ اس بوریت سے گھبرا کر نینا نے سوچا کہ اسے گھڑ سواری سیکھ لینا چاہئے تاکہ فارغ وقت کا کچھ تو مصرف ہو۔ جوئی اسے گھڑسواری کا ابتدائی سبق دینے کے لئے بڑی خوشی سے تیار ہوگیا۔ نینا کو لگا کہ گھڑ سواری بہت دلچسپ کام ہے۔ وہ پہلی بار گھوڑے کی پشت پر بیٹھی تھی۔ اسے گھڑ سواری سیکھنے کے لئے مشق کی ضرورت تھی۔ اس نے مارک کو اس طرف آتے ہوئے دیکھا۔ وہ یقیناً ایرچ کے زخمی گھوڑے کو دیکھنے کے لئے آیا تھا۔ ہیلو تم پہلی بار گھوڑے پر سوار ہوئی ہو ہاں اس لحاظ سے تو تمہاری کارکردگی بہت اچھی ہے۔ وہ بولا۔ میں نے سوچا کہ بلاوجہ وقت ضائع نہیں کرنا چاہئے۔ ایرچ یہ دیکھ کر بہت حیران ہوگا کہ میں نے گھڑ سواری سیکھ لی ہے۔ میرا خیال ہے شاید نہیں، وہ تمہیں دیکھ رہا تھا۔ دیکھ رہا تھا نینا حیران ہوئی۔ ہاں تقریباً آدھا گھنٹے جنگل سے اب وہ کہاں ہے وہ تھوڑی دیر کے لئے گھر گیا تھا، پھر واپس کاٹیج میں چلا گیا۔ عجیب ہے ایرچ جب سے اپنی تصویروں کی نمائش کے بعد گھر آیا ہے، کاٹیج میں ہی رہ رہا ہے۔ ایک بار میری غیرموجودگی میں گھر آیا تھا ایلسا کو خریداری کی لسٹ دینے کے لئے، میرے لئے تنہائی کا یہ وقت گزارنا مشکل ہے میں نے ماضی میں بہت مصروف وقت گزارہ ہے۔ ہر وقت لوگوں سے میرا رابطہ رہتا تھا۔ دوست، احباب اور ساتھ کام کرنے والوں کا ایک ہجوم ہوتا تھا اور اب یہ اتنی بڑی تبدیلی ہے کہ یہاں کسی سے کوئی تعلق ہی نہیں رہا۔ تنہائی ہے یا میں اگر دونوں بچیاں نہ ہوں تو میرے لئے وقت گزارنا بہت مشکل ہوجائے۔ چلو کچھ دیر انتظار کرلو شاید وہ کل پرسوں تک اپنا کام ختم کرکے گھر آجائے۔ مارک نے کہا اور واپس چلا گیا۔ نینا گھر آئی تو ایلسا اس کے انتظار میں تھی۔ تانیہ اور روتھ دونوں قالین پر بیٹھی ڈرائنگ کررہی تھیں۔ ڈیڈی ہمارے لئے نئی ڈرائنگ کاپیاں اور رنگ لائے ہیں۔ دونوں خوشی سے بولیں۔ مسٹر ایرچ نے آپ کے لئے پیغام دیا ہے۔ ایلسا نے میز کی طرف اشارہ کیا۔ نینا نے محسوس کیا کہ ایلسا کی آنکھوں میں تجسس ہے۔ نینا نے وہ لفافہ اٹھا کر اپنی جیب میں ڈال لیا۔ ایلسا چلی گئی تو نینا نے جیب سے لفافہ نکالا۔ اس میں ایرچ نے بڑے بڑے لفظوں میں صرف ایک جملہ لکھا تھا۔ تمہیں انتظار کرنا چاہئے تھا کہ میں تمہارے ساتھ گھڑ سواری کرتا۔ نینا کاغذ ہاتھ میں تھامے اسے دیکھتی رہ گئی۔ ممی ممی کیا ہوا روتھ اس کی جیکٹ کھینچتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ آپ پریشان ہیں نینا نے چونک کر بچی کے پریشان چہرے کی طرف دیکھا۔ تانیہ بھی اس کے ساتھ کھڑی تھی اور رونے والی ہورہی تھی۔ نینا نے جلدی سے کاغذ اپنی جیب میں ڈال لیا اور خود کو سنبھال کر دونوں کو پیار کرتے ہوئے بولی۔ نہیں نہیں میں ٹھیک ہوں بالکل بظاہر وہ بچیوں کی خاطر خود کو نارمل ظاہر کررہی تھی لیکن دل ہی دل میں وہ پریشان تھی کہ ایرچ اسے بالکل تنہا کردینا چاہتا ہے۔ اس نے اسے چرچ کی میٹنگ میں جانے دیا نہ مارکیٹ نہ وہ چاہتا ہے کہ وہ گاڑی استعمال کرے۔ یہاں تک کہ وہ یہ بھی نہیں چاہتا کہ وہ اس کی غیر موجودگی میں گھڑ سواری سیکھے۔ اس کا احساس ملکیت روزبروز بڑھتا جارہا تھا جیسے چاہتا ہو کہ وہ ہر شے سے لاتعلق ہوکر اس کے انتظار میں ہاتھ باندھے بیٹھی رہے۔ اتنی جلدی کوئی فیصلہ کرنا بھی آسان نہیں تھا کہ وہ ایرچ کو کوئی نفسیاتی ریض قرار دے یا اس کی کوئی اور وجہ تلاش کرے، خود کو کس طرح تسلی دے یا اس کا کیا حل نکالے پریشانی مستقل اس کا پیچھا کررہی تھی۔ اس نے کچھ وقت بچیوں کے ساتھ گزارہ۔ شام ہونے والی تھی، وہ انہیں کھلونوں میں مصروف کرکے پورچ میں چلی آئی۔ جھولا ہوا کے ساتھ آہستہ آہستہ ہل رہا تھا۔ مگر نینا اس جھولے پر نہیں بیٹھنا چاہتی تھی۔ اسے کیرولین کی وہ پینٹنگ یاد تھی جس میں وہ جھولے پر بیٹھی غروب آفتاب کا نظارہ کررہی تھی۔ ڈوبتے سورج اور شفق کے شنگرفی اور سنہری رنگوں میں اس کا چہرہ بہت حسین معلوم ہورہا تھا۔ ایرچ درست کہتا تھا۔ یہ تصویر اس کا شاہکار تھی اسی لئے وہ اس کو فروخت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ آسمان پر کاسنی، نارنجی، سنہری اور گلابی رنگ بکھر کر ہر لمحہ ایک نیا نقش بنا رہے تھے۔ نینا کچھ دیر کھڑی غروب آفتاب کے اس دلکش منظر کو تکتی رہی، یہاں تک کہ شام کے ملگجے سائے زمین پر اترنے لگے۔ سارے رنگ یکدم غائب ہوگئے اور صرف سرمئی رنگ باقی رہ گیا۔ وہ گھر جانے کے لئے پلٹی تو اس کی نگاہ جنگل پر پڑی۔ یوں لگا جیسے کوئی اسے دیکھ کر فوراً درخت کے پیچھے چھپ گیا۔ نینا کو اپنی ذاتی زندگی میں یہ مداخلت پسند نہیں آئی۔ اس نے تیز لہجے میں پکارا۔ کون ہے وہاں یوں لگا جیسے جھاڑیوں میں کوئی حرکت ہوئی ہو۔ نینا نے پھر سوال کیا۔ کون ہے وہ پورچ کی سیڑھیاں اتر کر جنگل کی طرف بڑھی۔ اسی وقت ایرچ درخت کی اوٹ سے نکل کر اس کی جانب دوڑا۔ نینا ٹھٹھک گئی۔ اس سے اجتناب برتتے ہوئے اس نے جیب سے کاغذ کا وہ ٹکڑا نکالا جو دن کو ایرچ اس کے لئے چھوڑ کر گیا تھا۔ یہ کیا ہے اوہ ڈارلنگ وہ ہنسا۔ یہ ایک مذاق تھا، تم نے اسے سچ کیوں سمجھ لیا اس نے کاغذ کا پرزہ اس کے ہاتھ سے لے کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے ہوا میں اڑا دیا۔ لو یہ بات ختم نینا نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ مسلسل مسکرا رہا تھا اور لگاوٹ بھری باتیں کرتا اس کے ساتھ گھر کی طرف چل پڑا تھا۔ نینا کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ وہ ایک ہفتے بعد گھر آیا تھا۔ اس دوران جو باتیں اس کے دل میں پلتی رہی تھیں، ان کا کیا کرے انہیں بھول جائے اور خود کو اس لمحہ موجود کے حوالے کردے جس میں وہ ایک محبت کرنے والے شوہر کے روپ میں اس کے بہت قریب تھا۔ ایرچ کے آنے سے گھر کی فضا یکدم جاگ اٹھی۔ ہر طرف رونق اور چہل پہل نظر آنے لگی۔ بچیاں اس کی آواز سن کر ڈیڈی ڈیڈی پکارتی دوڑی چلی آئیں۔ اس نے دونوں کو ایک ساتھ اٹھا لیا اور پیار بھرے لہجے میں بولا۔ اب ہم گھڑ سواری شروع کریں گے تو کتنا مزہ آئے گا۔ بچیوں نے تالیاں بجا کر پرجوش انداز میں خوشی کا اظہار کیا۔ نینا ان کے خوشی سے دمکتے چہرے دیکھ کر سب کچھ بھول گئی۔ اسے بچیوں کی خوشی عزیز تھی۔ وہ ان کی زندگی بنانا چاہتی تھی۔ اس کی خاطر اسے کچھ پریشانی برداشت کرنا پڑے تو وہ اس کے لئے تیار تھی۔ اس نے ڈنر میں بہت اہتمام کیا۔ ساری چیزیں ایرچ کی پسند کی بنائیں۔ وہ بھری پری میز دیکھ کر بولا۔ یقین جانو کاٹیج میں اکیلے کام کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ تم سب سے علیحدہ رہنا واقعی بہت مشکل تھا۔ ہم سب بھی تمہاری بہت کمی محسوس کررہے تھے۔ تانیہ اور روتھ باربار تمہارے بارے میں پوچھتی تھیں۔ نینا نے بتایا۔ روتھ ان کی طرف متوجہ ہوئی۔ ممی کیا آپ ان ڈیڈی کو دوسرے ڈیڈی سے زیادہ چاہتی ہیں نینا سٹپٹا گئی۔ یہ روتھ نے کس قسم کا سوال کردیا تھا۔ تم یہ کیوں پوچھ رہی ہو روتھ نے ایرچ کی طرف اشارہ کیا۔ کیونکہ یہ ڈیڈی مجھ سے پوچھ رہے تھے کہ کیا میں اپنے پہلے ڈیڈی سے زیادہ انہیں چاہتی ہوں ایرچ میں نے بچیوں سے کبھی اس قسم کی بات نہیں کی۔ نینا نے قدرے ناگواری سے کہا۔ میں ذرا دیکھنا چاہتا تھا کہ وہ اسے بھول گئی ہیں یا نہیں پھر اس نے بغور اس کی طرف دیکھا اور بولا۔ اور تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے وہ اسے کوئی جواب دیئے بغیر بچیوں کو لے کر اوپر چلی گئی۔ انہیں نہلا کر بستر میں لٹا کر وہ نیچے آئی تو ایرچ کافی بنا چکا تھا۔ اس نے ٹرے میں پیالیاں رکھیں اور بولا۔ آئو کھڑکی کے سامنے بیٹھ کر کافی کے مزے لیتے ہیں۔ میں نے بہت اچھی کافی بنائی ہے۔ نینا نے ایک نگاہ ایرچ پر ڈالی۔ اس کا سفید سوئٹر اس کے سنہری بالوں کے ساتھ بہت جچ رہا تھا۔ نینا سوچنے لگی۔ وہ خوبصورت ہے، اسمارٹ ہے، ایک کامیاب مصور ہے۔ کسی بیوی کو اس کے علاوہ اور کیا چاہئے۔ اتنی خوبیاں تو شاید ہی کسی میں یکجا ہوں۔ وہ ابھی اپنی اپنی نشستوں پر بیٹھے بھی نہیں تھے کہ فون کی گھنٹی بجی۔ ایرچ نے اشارہ کیا کہ وہ دیکھے فون پر کون ہے۔ نینا نے اٹھ کر فون اٹھایا اور اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ دوسری طرف کیون تھا۔ ایرچ کا اس پر ردعمل نہ جانے کیا ہوگا۔ اس نے بمشکل خود کو سنبھالا اور اپنے لہجے کو نارمل کرتے ہوئے بولی۔ میں ٹھیک ہوں کیون اس نے جان بوجھ کر اس کا نام لیا تاکہ کیون پر واضح ہو جائے کہ وہ کچھ چھپا نہیں رہی۔ نینا مجھے یقین نہیں آرہا کہ مجھے جاب مل گئی ہے۔ بالآخر میری صلاحیتوں کو پہچان لیا گیا ہے۔ بہت جلد تم دیکھو گی کہ میرا نام سب کی زبان پر ہوگا میں یہ سب سے پہلے تمہیں بتا رہا ہوں۔ ایرچ اپنی جگہ سے اٹھا اور اس نے اپنا کان اس کے ساتھ لگا دیا۔ یہ بہت اچھی خبر ہے لیکن کیون دیکھو تمہیں یہاں فون نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے راستے الگ ہوچکے ہیں۔ ایرچ گھر پر ہیں، انہیں تمہارا یہاں رابطہ کرنا بالکل پسند نہیں۔ تم میری بات غور سے سنو۔ میں جب چاہوں گا، کال کردوں گا اور اپنے اس بجو کو بتا دو کہ بچیوں کو گود لینے کے سارے کاغذات پھاڑ دے۔ میں اس کے خلاف عدالت میں جارہا ہوں۔ روتھ اور تانیہ میری بیٹیاں ہیں۔ میں انہیں اس پاگل شخص کے حوالے نہیں کرسکتا۔ مجھے ملازمت مل گئی ہے، میں اپنے انداز میں ان کی تربیت کروں گا۔ مجھے یقین ہے کہ تانیہ بہت اچھی اداکارہ بنے گی۔ اچھا پھر بات کریں گے۔ میری ایک ضروری کال آرہی ہے۔ اس نے فون بند کردیا۔ نینا نے بھی ریسیور رکھ دیا۔ اس کے دل میں ہول سے اٹھ رہے تھے۔ یہ کیون کیا کرنا چاہ رہا تھا۔ ایرچ کے اثرورسوخ کے سامنے اس کی ایک نہیں چلے گی۔ اس نے پریشان سے لہجے میں کہا۔ کیا وہ معاہدہ منسوخ کروا سکتا ہے کوشش کرکے دیکھ لے، منہ کی کھائے گا۔ وہ حقارت بھرے لہجے میں بولا۔ پھر تھوڑے توقف کے بعد بولا۔ میں نے تم سے پہلے بھی کہا تھا نینا کہ اگر تم دو سال پہلے اس پر کورٹ میں بچوں کے خرچے کا مقدمہ کردیتیں تو یہ اسی وقت پیچھے ہٹ جاتا، خواہ مخواہ تمہارے ساتھ تعلق نہ جوڑتا پھرتا۔ نینا خاموش رہی، لیکن اس کے اندر پریشانی گھر کر گئی۔ وہ اس بات سے گھبرا رہی تھی کہ بچیوں کے معاملے پر کیون اور ایرچ کا جھگڑا کہیں ان کے سکون کو برباد نہ کردے۔ اس کے لئے وہاں بیٹھنا محال ہوگیا۔ وہ ایرچ سے مخاطب ہوئی۔ میں سونے جارہی ہوں۔ کیا آج رات تم ٹھہرو گے ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ وہ بولا۔ نینا اپنے بیڈ روم کی طرف چل پڑی۔ ابھی وہ زینے کے قریب ہی پہنچی تھی کہ ایرچ نے پکارا۔ نینا نینا نے پلٹ کر دیکھا۔ کیا بات ہے وہ قریب آیا۔ اب اس کے چہرے پر کچھ دیر پہلے کی درشتی اور سرد مہری نہیں تھی۔ وہ ملائمت سے بولا۔ میں جانتا ہوں کہ اس میں تمہارا کوئی قصور نہیں کہ کیون نے یہاں فون کیا ہے۔ تم یقین رکھو کہ اس کی وجہ سے ہمارے درمیان کوئی بدمزگی نہیں ہوگی۔ لیکن پھر بھی تم اس سے انکار بھی نہیں کرسکتے کہ ایسا ہوتا ہے۔ نینا نے شکوہ کیا۔ تم فکر نہ کرو۔ اگلے چند روز میں تمہاری یہ شکایت بھی دور ہوجائے گی۔ میری بات سمجھنے کی کوشش کرو نینا جب بھی یہ دن آتے ہیں، میں بہت ڈپریشن میں چلا جاتا ہوں۔ میری ماں مجھ سے کہا کرتی تھی کہ وہ میری سالگرہ پر ہمیشہ میرے ساتھ ہوگی لیکن میری سالگرہ پر ہی وہ ہمیشہ کے لئے مجھ سے جدا ہوگئی۔ میرا کتنا بڑا نقصان ہوا، شاید کوئی بھی اندازہ نہیں کرسکتا۔ دیکھو ایرچ بس اب تم اس صدمے سے باہر نکلو اس حقیقت کو تسلیم کرلو کہ مرے ہوئے لوگ واپس نہیں آتے۔ اس بات کو پچیس سال گزر چکے ہیں۔ یہ ایک المیہ ضرور ہے لیکن زندگی بھر اسے گلے سے لگانے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ پلیز اس طرح خود کو دوسروں سے الگ تھلگ نہ رکھو۔ مجھے صحیح معنوں میں اپنی شریکِ حیات بنائو، اپنے ہر دکھ سکھ میں مجھے شریک کرو مجھے اپنے ساتھ اسٹوڈیو لے کر جائو، اپنے دوستوں کو گھر بلائو، ان کے ساتھ کچھ وقت گزارو مجھے بھی زندگی کی گہماگہمی میں حصہ لینے دو۔ مجھے گاڑی چلانے دو کہ میں شاپنگ کروں۔ بچیوں کو فلم پر لے کر جائوں، یہاں لوگوں کے ساتھ میل جول رکھوں۔ تم چاہتی ہو کہ تمہیں کیون سے ملنے میں آسانی ہو ایرچ نے بڑی سہولت سے کہہ دیا۔ ایرچ مجھے جانے دو۔ نینا نے برہمی سے کہا۔ غصے اور صدمے سے وہ کانپ رہی تھی، جب وہ اپنے بیڈ روم میں آئی۔ اس کا مطلب تھا کہ ایرچ کے دل میں اب بھی اس کے لئے بداعتمادی تھی۔ اس کا ذہن ہزاروں پریشان کن اندیشوں کی آماجگاہ بنا ہوا تھا۔ اس نے کتاب پڑھنے کی کوشش کی لیکن اس میں بھی اس کا دل نہیں لگا، بالآخر کہیں رات گئے اسے بڑی بے چین سی نیند آئی۔ وہ صبح بھی تنہا ہی اٹھی۔ اس کا مطلب تھا کہ ایرچ واپس چلا گیا تھا یا کسی اور بیڈ روم میں سویا تھا۔ وہ بچیوں کو ناشتہ کروا کر فارغ ہی ہوئی تھی کہ ایرچ زینہ اتر کر نیچے آیا۔ نینا سمجھ تو گئی کہ وہ اپنی ماں کیرولین کے بیڈ روم میں سویا ہوگا مگر اس نے ظاہر نہیں کیا۔ وہ نیچے آیا۔ اس نے اپنا بھاری کوٹ پہن رکھا تھا۔ وہ بغیر کسی تمہید کے بولا۔ میں کاٹیج جارہا ہوں، کچھ کام اب بھی ادھورا ہے۔ ایرچ جمعے کو ضرور واپس آجانا ہم تمہاری سالگرہ منائیں گے۔ میں نے مارک اور ایملی کو بھی بلایا ہے۔ نینا نے محتاط سے لہجے میں کہا کہ کہیں وہ ناراض نہ ہوجائے۔ وہ اس کی بات نظرانداز کرکے بولا۔ نینا کیا تمہیں مجھ سے محبت ہے ہاں نینا نے اثبات میں گردن کو جنبش دی۔ کبھی مجھے چھوڑ کر تو نہیں جائو گی نہیں ایسا کبھی نہیں ہوگا۔ میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جائوں گی۔ ماما کیرولین بھی ایسے ہی کہتی تھی۔ وہ جیسے خود سے بولا۔ اور گڈبائے کہہ کر چلا گیا۔ نینا سوچنے لگی کہ کیا اسے ایرچ کو کسی ماہر نفسیات سے مشورہ کرنے کے بارے میں کہنا چاہئے۔ اپنی ماں کی موت اور سالگرہ کا دن اکٹھا ہونے کی وجہ سے وہ ذہنی طور پر بہت الجھ گیا تھا۔ اسے اس کیفیت سے باہر آنا چاہئے تھا جس نے اس کی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب کئے تھے۔ لیکن اس کو اس پر آمادہ کرنا بہت مشکل تھا، شاید وہ اس بات کو بھی پسند نہیں کرے گا کہ اسے نفسیاتی مریض کہا جارہا ہے تو اسے کس طرح رضامند کیا جائے کیا اسے اس کے بچپن کے دوست ڈاکٹر مارک کی مدد حاصل کرنی چاہئے وہ اس بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگی۔ اسے یہ تجویز بہتر معلوم ہوئی کہ اسے مارک سے بات کرنی چاہئے۔ ٭ ٭ ٭ خلاف توقع ایرچ ڈنر والے روز گھر آگیا اور اس کے ساتھ مل کر ڈنر کی تیاری کرواتا رہا۔ اس کا موڈ کافی بہتر تھا۔ کسی طرح کی الجھن میں گرفتار معلوم نہیں ہوتا تھا۔ وہ اسے مارک اور اس کی مشترکہ دوست ایملی کے بارے میں بتا رہا تھا۔ ایک وقت تھا جب ایملی کے والدین بڑی شدت سے چاہتے تھے کہ میں اور ایملی شادی کرلیں۔ ایملی کے والد یہاں بینک کے پریذیڈنٹ ہیں۔ ظاہر ہے انہیں میری مالی حیثیت کا علم تھا۔ اور تم کیا چاہتے تھے نینا نے پوچھا۔ مجھے ایملی میں دلچسپی نہیں تھی، اس لئے میں کوئی ایسی صورتحال پیدا کرنا نہیں چاہتا تھا جو کسی کے لئے تکلیف دہ ہو۔ میں ایک مکمل خاتون کے انتظار میں تھا۔ وہ معنی خیز لہجے میں بولا۔ تو تمہیں اپنی من پسند خاتون ملی ہاں کیوں نہیں۔ وہ اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔ لیکن نینا کو اعتبار نہیں آیا۔ یہ بات کبھی اس کے دل سے نہیں نکلی تھی کہ ایرچ نے اس لئے اس سے شادی کی تھی کہ اس کی شکل اس کی ماں سے بہت ملتی تھی جسے وہ ٹوٹ کر چاہتا تھا۔ تھوڑی دیر میں مہمان آگئے۔ مارک اپنے بہترین سوٹ میں تھا اور بہت اسمارٹ لگ رہا تھا۔ ایملی بھی ایک خوبصورت خاتون تھی لیکن لئے دیئے انداز والی ایسی خاتون جو آسانی سے بے تکلف نہیں ہوتی۔ وہ تنقیدی نگاہوں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ تعارف کے بعد وہ مسکراتے ہوئے بولی۔ تمہیں معلوم ہے نینا کہ میں نے واپس جاکر سب کو رپورٹ دینی ہے کہ ایرچ کی بیوی کیسی ہے میری ماں نے تو مجھے پورے بیس سوالات دیئے ہیں جن کے جوابات اسے درکار ہیں۔ ابھی نینا نے کوئی جواب نہیں دیا تھا کہ وہ دوبارہ بولی۔ دراصل تم اب تک یہاں کسی سے بھی نہیں ملیں۔ نینا کے بجائے ایرچ نے جواب دیا۔ اگر ہم دو ماہ کے لئے ہنی مون پر چلے گئے ہوتے تو شاید کسی کو بھی اتنا تجسس نہ ہوتا لیکن نینا چاہتی تھی کہ ہم ہنی مون فارم پر منائیں، اس کی خوبصورتیوں کو دریافت کریں اور ان سے خوشی حاصل کریں۔ نینا کچھ نہ بولی۔ اس نے یہ نہیں کہا تھا اور نہ ہی ایسا چاہا تھا مگر اب وہ ایرچ کو جھٹلا بھی نہیں سکتی تھی۔ زیادہ تر گفتگو ایرچ ہی کرتا رہا۔ نینا نے بہت کم حصہ لیا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ایرچ اپنی مرضی کی گفتگو کرنا چاہتا ہے۔ نینا بہت بے چینی محسوس کررہی تھی، لیکن اپنے چہرے کے تاثرات سے اس کا اظہار نہیں ہونے دے رہی تھی۔ اس نے کھانا لگایا تو ایرچ نے اس کی مدد کی۔ کھانا کھاتے ہوئے مارک بولا۔ لو ایملی تم اپنی ممی کو یہ تو بتا سکتی ہو کہ نینا بہت اچھا کھانا پکاتی ہے۔ ہاں کھانا واقعی بہت اچھا ہے۔ ایملی نے کہا اور تھوڑے توقف کے بعد استفسار کیا۔ تم نے اتنا اچھا کھانا پکانا کہاں سے سیکھا میں نے اپنی دادی سے سیکھا ہے۔ نینا نے بتایا۔ دروازے پر ہلکی سی دستک کے بعد دروازہ کھلا۔ سب نے دروازے کی طرف دیکھا۔ ایرچ بولا۔ یہ اس وقت کون ہوسکتا ہے ایک بھاری جسم کا لمبا تڑنگا شخص اندر داخل ہوا۔ اس نے دروازے کے سامنے رک کر کہا۔ میں شیرف وینڈل ہوں۔ کیا میں اندر آسکتا ہوں آپ اندر تو آ ہی چکے ہیں۔ فرمایئے ہم آپ کی کیا خدمت کرسکتے ہیں ایرچ نے نیم مزاحیہ لہجے میں کہا۔ معاف کیجئے مسٹر ایرچ کیا میں آپ کی بیگم سے کچھ سوالات کرسکتا ہوں ہمارے ساتھ کافی میں شریک ہوجائو اور سوالات بھی پوچھ لو۔ میں معذرت خواہ ہوں مسٹرایرچ مجھے یہ سوالات تنہائی میں کرنا ہوں گے۔ اس نے کہا۔ مگر ایسی کیا بات ہے، آپ یہیں کیوں نہیں سوالات کرلیتے نینا نے محسوس کیا کہ اس کی ہتھیلیاں پسینے میں بھیگ رہی ہیں۔ اسے یونہی شک ہوا کہ کیون نے بچیوں کی حوالگی کے لئے عدالت کی مدد حاصل کرلی ہے۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ وہ بچیوں کی جدائی کبھی برداشت نہیں کرسکتی تھی۔ وہ شیرف کے ساتھ دوسرے کمرے میں آئی تو اس نے پوچھا۔ مسز ایرچ کیا آپ کسی کیون کو جانتی ہیں اس کے لہجے سے نینا چونکی۔ اس کے ہونٹوں سے بے ساختہ نکلا۔ کیوں کیا اس کو کوئی حادثہ پیش آگیا ہے آپ نے آخری بار اسے کہاں دیکھا تھا شاید ایک شاپنگ سینٹر میں مجھے اچھی طرح یاد نہیں۔ کیا وہ آپ کے بچوں کا باپ ہے ہاں وہ میرا سابقہ شوہر اور میرے بچوں کا باپ ہے۔ آپ نے آخری بات اس سے کب کی تھی سترہ تاریخ کو رات نو بجے فون پر نینا کا پیمانہ صبر لبریز ہوگیا۔ پلیز آخر بات کیا ہے، آپ پہیلیاں کیوں بجھوا رہے ہیں شیرف غور سے اس کے چہرے کی طرف مسلسل دیکھتا ہوا بولا۔ پیر کی دوپہر کو جب وہ تھیٹر پر ایک ریہرسل کررہا تھا تو اس کو ایک فون کال موصول ہوئی۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو بتایا کہ اس کی سابقہ بیوی، بچوں کے سلسلے میں اس سے بات کرنا چاہتی ہے۔ وہ اپنے ایک ساتھی اداکار کی گاڑی لے کر روانہ ہوا، یہ وعدہ کرکے کہ وہ صبح تک واپس آجائے گا مگر چار روز گزر چکے ہیں، اس کا کچھ پتا نہیں۔ وہ اداکار جس کی گاڑی لے کرگیا تھا، اپنی نئی گاڑی کے لئے پریشا ن ہے، کیونکہ گاڑی خریدے اسے صرف ایک ماہ ہوا تھا۔ کیا آپ کا مطلب ہے کہ آپ نے اسے نہیں بلایا نہیں بالکل نہیں نینا نے پورے یقین سے کہا۔ اس نے آپ کو فون کیوں کیا تھا وہ بچوں کے بارے میں بات کرنا چاہتا تھا۔ وہ اس معاہدے کو ختم کرنا چاہتا تھا جو اس کے اور میرے موجودہ شوہر کے درمیان ہوا تھا جس کی رو سے وہ بچوں سے دستبردار ہوچکا تھا۔ پیر کی دوپہر کو آپ اور آپ کا شوہر کہاں تھے میرے شوہر اپنے اسٹوڈیو میں ایک تصویر مکمل کررہے تھے، میں یہاں اکیلی تھی۔ آپ نے فون پر کسی سے بات کی نہیں میں جلد سو گئی تھی۔ تو گویا آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ نے اپنے سابقہ شوہر کو فون کرکے نہیں بلایا نہیں ہرگز نہیں میرے شوہر اسے پسند نہیں کرتے تو میں اسے یہاں کیوں بلائوں گی۔ نینا نے زور دے کر کہا۔ آپ اس کو جلد ازجلد تلاش کریں تاکہ معاملہ صاف ہوجائے۔ ہاں ہم نے اپنے لوگوں کو اس مہم پر لگا دیا ہے۔ جیسے ہی کوئی خبر ملے گی، ہم آپ سے رابطہ کریں گے۔ اتنا کہہ کر وہ رخصت ہوگیا۔ ایرچ نے مارک اور ایملی سے ہاتھ ملایا اور نینا کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ مجھے افسوس ہے کہ ہماری یہ شام تھوڑی بدمزگی پر ختم ہوئی، لیکن جب آپ کسی ایسی خاتون کے ساتھ شادی کرتے ہیں جس کا ماضی بھی اس کے ساتھ لگا ہوا ہو تو پھر ایسا اتفاق ہو ہی جاتا ہے۔ ٭ ٭ ٭ اگلی صبح بھی وہ تنہا تھی۔ صبح کی چائے پی رہی تھی کہ دروازے پر ہلکا سا کھٹکا ہوا۔ نینا نے چونک کر دیکھا۔ اوہ کیا میں نے تمہیں ڈرا دیا رونیکا اندر آگئی۔ تیز ہوا سے اس کے بال بکھرے ہوئے تھے۔ رونیکا یہ دروازہ تو لاک تھا، کیا تمہارے پاس چابی ہے کہ تم کھول کر اندر آگئیں ہاں مجھے میری چابی مل گئی ہے۔ میری چابی کہیں گم ہوگئی ہے، مل نہیں رہی۔ کہیں یہ چابی میری تو نہیں تمہاری چابی تمہارے کوٹ کی جیب میں تھی۔ ہم نے اس چابی کو نہیں نکالا اور کوٹ تمہیں واپس کردیا تھا۔ نہیں میرا نہیں خیال کہ تم نے کوٹ واپس کیا ہے۔ کلائیڈ کو یہ بات پسند نہیں تھی کہ میں تمہارا کوٹ لوں اس لئے وہ خود کوٹ واپس کرنے آیا تھا۔ کچھ دن پہلے میں نے تمہیں وہ پہنے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ اچھا دکھائو تمہاری چابی کہاں ہے رونیکا نے اپنے لمبے بوسیدہ سوئٹر کی جیب میں ہاتھ ڈال کر چابیوں کا گچھا نکالا۔ یہ کلائیڈ کی چابیاں تھیں جو بحیثیت منیجر کے اس کے پاس رہتی تھیں۔ اگر ایرچ کو پتا چلے کہ رونیکا تمام چابیاں اس طرح لئے پھرتی ہے تو وہ بے ہوش ہوجائے۔ اس نے تنبیہ کے انداز میں اس سے کہا۔ رونیکا یہ بری بات ہے۔ تمہیں کلائیڈ کی چابیاں اپنے ساتھ نہیں رکھنی چاہئیں۔ ہاں میں اس کو واپس کردوں گی۔ اس نے جلدی سے چابیاں جیب میں ڈال لیں۔ نینا نے پیالی میں اس کے لئے چائے نکالی اور بولی۔ آئو چائے پیو۔ وہ کرسی پر بیٹھ گئی اور اس نے اپنی بغل میں سے ایک پیکٹ نکالا اور کچھ ہچکچا کر اسے کھولا۔ اس میں دو نیلے رنگ کے سوئٹر تھے۔ ان کی اسٹرا بری کی شکل کی جیبوں پر اس نے بڑی خوبصورت کڑھائی کی تھی۔ ان کے سائز دونوں بچیوں کے لئے بالکل ٹھیک لگ رہے تھے۔ یہ تو بہت خوبصورت ہیں رونیکا یہ رنگ بھی دیکھو، کتنا اچھا ہے میں چاہتی تھی کہ پہلے تم سے رنگ پسند کروا لوں مگر میں یہاں آئی تو تم کہیں جارہی تھیں۔ اس لئے میں نے تمہیں روکنا مناسب نہیں سمجھا۔ رونیکا عجیب انٹ شنٹ بولتی رہتی تھی۔ بھلا رات گئے اس نے کہاں جانا تھا۔ اس نے موضوع بدلنے کے لئے کہا۔ مجھے ہمیشہ سے سلائی اور بنائی سیکھنے کا شوق تھا لیکن وقت نہیں ملا کیا تم مجھے سکھا سکتی ہو یہاں میرے پاس کافی وقت ہوتا ہے۔ ہاں ہاں کیوں نہیں بڑے شوق سے پھر وہ چلنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ میں ساری ضروری چیزیں جمع کرکے پھر آئوں گی کسی دوپہر کو یہ بالکل پرانے وقتوں کی طرح ہوگا۔ کیرولین کو بھی یہ سب نہیں آتا تھا، مگر اس کو اس دلچسپی تھی۔ میں نے ہی اسے سکھایا تھا۔ اس سے اس نے کتنی ہی چیزیں بنائی تھیں۔ یہی ایرچ کا باپ چاہتا تھا کہ وہ تصویریں بنانا چھوڑ کر اس قسم کے گھریلو کام کرے مگر وہ یہ نہیں کرنا چاہتی تھی اور پھر وہ حادثے کا شکار ہوگئی۔ اتنا کہہ کر وہ باہر نکل گئی۔ ٭ ٭ ٭ دو یا تین دن بعد ایرچ خلاف توقع دن چڑھے گھر آگیا۔ بچیاں اسے دیکھ کر نہال ہوگئیں۔ وہ دونوں کے ہاتھ پکڑ کر بولا۔ آئو ذرا میں دیکھوں کہ تم نے کتنی گھڑ سواری سیکھی ہے۔ دونوں کچھ عرصے سے گھڑ سواری کی باقاعدہ مشق کررہی تھیں۔ انہوں نے اس میں کافی مہارت حاصل کرلی تھی۔ دونوں خوشی سے اچھلتی ہوئی اس کے ہمراہ چل پڑیں۔ نینا بھی ان کے ساتھ تھی۔ بچیوں کے ساتھ ایرچ کا یہ لگائو جیسے وہ ان کا حقیقی باپ ہو، نینا کے لئے بڑی تقویت کا باعث تھا۔ وہ اپنی بچیوں کی خوشی کی خاطر ایرچ کا ہر قصور معاف کرسکتی تھی۔ جوئی نے بچیوں کے گھوڑوں کو تیار کردیا تھا۔ اس نے انہیں سوار ہونے میں مدد دی۔ وہ دونوں بڑی خود اعتمادی سے ایک ساتھ سواری کرتی ہوئی دور تک نکل گئیں۔ ایرچ نے اس کا بازو تھاما۔ دیکھا میری ننھی شہزادیاں کتنی خوبصورتی سے گھڑ سواری کرتی ہیں ہاں اب انہیں کافی مہارت ہوگئی ہے۔ نینا نے کہا۔ تھوڑی دیر میں بچیاں واپس آگئیں اور ایرچ سے پوچھنے لگیں کہ انہوں نے کیسی سواری کی۔ ایرچ مزاحیہ انداز میں انہیں بتانے لگا کہ انہوں نے کیا کیا غلطی کی ہے۔ وہ اس کی باتوں پر کھلکھلا کر ہنسنے لگیں۔ اسی وقت ایک کار روش طے کرتی پورچ میں آن کھڑی ہوئی۔ نینا دھک سے رہ گئی۔ وہ شیرف کی سرکاری گاڑی تھی۔ کیا انہیں کیون کے بارے میں کوئی سراغ مل گیا تھا۔ اس بات نے اس کے دل میں کھلبلی سی مچا دی لیکن وہ خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کررہی تھی۔ کسی طرح کی بے چینی کا اظہار نہیں ہونے دے رہی تھی۔ ایرچ نے بھی شیرف کی گاڑی دیکھ لی تھی۔ وہ اس کے استقبال کے لئے آگے بڑھا۔ شیرف کے چہرے پر سنجیدگی تھی۔ اس نے ایرچ کو بتا دیا کہ وہ نینا سے اکیلے میں بات کرنا چاہتا ہے۔ ایرچ نے بچیوں کو سنبھال لیا اور شیرف اس کے ساتھ لائبریری میں آگیا۔ ایک نشست پر بیٹھتے ہوئے بولا۔ مسز ایرچ آپ کا سابقہ شوہر ابھی تک لاپتا ہے۔ پولیس کا خیال ہے کہ جس طرح وہ گیا ہے، اس کا سامان اور ایک بڑی رقم اس کے کمرے میں موجود ہے۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس نے کوئی منصوبہ بندی نہیں کی۔ اس کے ساتھیوں کا خیال ہے کہ اتنی اچھی ملازمت چھوڑنے کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ میں آپ سے علیحدگی میں بات کرلوں۔ بہتر ہوگا کہ آپ ہمیں حقائق سے آگاہ کردیں۔ یہی آپ کے لئے مناسب ہے، ورنہ تفتیش شروع ہوگئی تو حقائق منظرعام پر آہی جائیں گے۔ آپ مجھے یہ بتایئے کہ کیا آپ نے مسٹر کیون کو فون کیا تھا نہیں بالکل نہیں وہ تھیٹر سے ساڑھے پانچ بجے چلا تھا۔ اسے نو بجے تک یہاں پہنچ جانا چاہئے تھا۔ اس روز آپ اس تمام عرصے میں کہاں تھیں میں اپنے بیڈ روم میں تھی اور اتفاق سے میں نو بجے سو گئی تھی۔ میری کمر میں درد تھا۔ یعنی آپ کہہ رہی ہیں کہ آپ کیون سے نہیں ملیں نہیں نینا نے پریقین لہجے میں کہا۔ تھیٹر والوں کا کہنا ہے کہ انہیں کسی خاتون کی کال موصول ہوئی تھی، آپ کے نام سے تو کیا کوئی ایسی خاتون ہے جو آپ کا نام استعمال کرسکتی ہے مسٹر شیرف میرا کیون کی گمشدگی سے کوئی تعلق نہیں۔ آپ اس کا الزام مجھ پر کیوں تھوپ رہے ہیں میں آپ پر کوئی الزام نہیں لگا رہا۔ میں چاہتا ہوں کہ آپ سب کچھ سچ بتا دیں۔ یہ آپ کے حق میں بہتر ہوگا، بجائے اس کے کہ بعد میں کوئی پریشانی ہو۔ میرے پاس ایسے کوئی حقائق نہیں ہیں مسٹر شیرف نینا کرسی دھکیل کر اٹھ کھڑی ہوئی اور لائبریری کا دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔ ایرچ بچیوں کے ساتھ کچن میں تھا۔ وہ انہیں سینڈوچ بنا کر دے رہا تھا۔ وہ تینوں مزے لے لے کر سینڈوچز کھا رہے تھے۔ نینا نے دیکھا کہ میز پر اس کے لئے کوئی پلیٹ موجود نہیں تھی۔ اس نے ایرچ کو مخاطب کیا۔ ایرچ شیرف جارہے ہیں۔ ایرچ اٹھ کر چلا گیا۔ نینا نے فریج سے دودھ کا ایک گلاس لیا اور بچیوں کے پاس بیٹھ گئی۔ وہ بہت کمزوری محسوس کررہی تھی۔ چاہتی تھی کہ جلد سو جائے۔ ایرچ واپس نہیں آیا۔ شاید وہ وہیں سے اپنے کاٹیج چلا گیا تھا۔ نینا اگلے دن خود کو کچھ بہتر محسوس کررہی تھی۔ اس نے اٹھ کر بچیوں کے ساتھ مل کر ناشتہ کیا۔ تب تک ایلسا صفائی کرنے کے لئے آگئی۔ وہ بچیوں کے کمرے میں انہیں کتاب پڑھ کر سنانے لگی کہ معلوم ہوا باہر شیرف آیا ہوا ہے اور اس سے ملنا چاہتا ہے۔ نینا کے دل میں کھدبد سی ہونے لگی۔ نہ جانے وہ آج اس کے خلاف کون سے الزامات لے کر آیا تھا۔ وہ ہر بار کیون کی گمشدگی کو اس کے ساتھ جوڑنا چاہتا تھا۔ اس کے رویئے سے معلوم ہوتا تھا کہ وہ اس پر شک کررہا ہے۔ وہ اس سے ملنے کے لئے باہر آئی تو اس کا دل بیٹھا جارہا تھا۔ وہ قریب آیا اور رسمی گفتگو کے بعد بولا۔ ہمیں ایک فون کال کے ذریعے پتا چلا تھا کہ کیون یہاں آیا تھا اور اس نے آپ کے گھر کا پتا پوچھا تھا۔ نینا خود کو نارمل رکھنے کی کوشش کررہی تھی لیکن اس کا دل ڈوبا جارہا تھا۔ شیرف کی گفتگو جاری تھی۔ لہٰذا ہم نے آپ سے رابطہ کرنے سے پہلے یہ سراغ لگانے کی کوشش کی کہ اگر وہ یہاں آیا تھا تو کہاں جاسکتا تھا۔ ہمیں معلوم ہے کہ اگر یہاں کوئی اجنبی آئے اور آپ کے گھر کا گیٹ اسے نظر نہ آئے تو آنے والا موڑ سیدھا دریا کے کنارے تک جاتا ہے، کیونکہ رات کو یہاں کافی اندھیرا ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے وہ تیزی سے آگے نکل گیا ہو۔ جب ہم نے تفتیش کی تو ہمیں ایک سفید گاڑی دریا کے کنارے نظر آئی۔ وہ برف سے ڈھکی ہوئی تھی، اسی لئے شاید کسی کو نظر نہیں آئی۔ ہم نے گاڑی کو باہر نکالا۔ نینا کی آنکھوں کے سامنے کیون کا چہرہ لہرا گیا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اسے کیا بتانے والا ہے۔ لاش کی حالت کافی بگڑ چکی تھی لیکن اس کے لائسنس اور لباس سے شناخت کرلی گئی کہ وہ کیون کی لاش ہے۔ نینا کے اندر خاموش فریاد جاری تھی۔ سرخ بالوں والا کیون جو اپنے لباس اور انداز سے بڑا ایکٹر نظر آنا چاہتا تھا، اس کی معصوم بچیوں کو کیا علم کہ وہ باپ کے رشتے سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے محروم ہوچکی ہیں۔ اس نے بولنے کی کوشش کی لیکن اس کے ہونٹوں سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔ شیرف نے اپنی بات جاری رکھی۔ اب ہمیں ضرورت ہے کہ آپ جتنی جلد ہوسکے، کیون کی لاش کو شناخت کرلیں۔ اوہ خدایا کیا یہ وقت بھی آنا تھا نینا دل ہی دل میں پریشان ہورہی تھی مگر بول نہیں پاتی تھی۔ مسز ایرچ آپ اپنے لئے کوئی وکیل بھی مقرر کرلیں۔ کیوں بمشکل ایک لفظ نینا کے ہونٹوں سے نکلا۔ کیونکہ مسٹر کیون کی موت کے حوالے سے کچھ پہلوئوں پر آپ سے تفتیش کی جائے گی۔ آپ کا ہر جواب نوٹ کیا جائے گا جو آپ کے خلاف بھی استعمال ہوسکتا ہے۔ میرا اس میں کوئی ہاتھ نہیں مسٹر شیرف میں آپ کے ہر سوال کا جواب دوں گی۔ نینا نے بڑی جرأت سے کہا۔ اگر آپ راضی ہیں تو ہمیں اس وقت آپ سے چند سوالات کرنے ہیں۔ جاری ہے
null
null
null
null
399
https://www.urduzone.net/haye-yeh-bechargi-teen-auratien-teen-kahaniyan/
میں ایک بڑے ادارے میں کام کرتی تھی کہ بیٹے نے امریکا بلوا لیا۔ مجھے ملازمت کو خیرباد کہنا پڑا۔ کافی عرصے کے بعد پاکستان آنا ہوا تو ایک روز اس خاتون سے اتفاقیہ ملاقات ہوگئی جس کی کہانی رقم کررہی ہوں۔ اتوار کا دن تھا۔ آج پکانے کو جی نہ چاہا تو بہو نے کہا کیوں نہ باہر جاکر کچھ ہلکا پھلکا کھانا کھا لیں۔ ہم کھانا کھانے ایک معیاری ہوٹل میں آگئے۔ ابھی ہم نے کھانے کا آرڈر کیا ہی تھا کہ ایک خستہ حال عورت ہال میں گھس آئی اور منیجر سے جھگڑنے لگی۔ اگرچہ ہم دور بیٹھے تھے تاہم عورت کے جھگڑنے والے انداز کو دیکھ کر مجھے اس معاملے میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ آواز پوری طرح کانوں میں نہیں پہنچ پا رہی تھی، تبھی جذبۂ تجسس سے مجبور ہوکر میں کائونٹر کے پاس چلی گئی۔ وہ عورت بوسیدہ لباس میں ملبوس تھی۔ کافی عمر رسیدہ تھی اور منیجر سے تکرار کر رہی تھی کہ مجھے کھانا پیک کرکے دو۔ عورت کے چہرے کے نقوش بتا رہے تھے کسی اچھے خاندان سے تعلق ہے مگر حلیہ بتا رہا تھا کہ بچاری کے سارے سہارے غربت نے نگل لیے ہیں۔ بڑی بی کو کھانا کسی نے نہ دیا بلکہ دھتکار دی گئی تو وہ غصے میں آگئی۔ کم بخت نے کہا تھا دو وقت کا کھانا لے جانا، اب وہ بھی بند کردیا ہے۔ بتائو میرا گزارہ کیسے ہوگا۔ ہمارے مال پر یہ عیش کرے اور ہم بھوکے رہیں میں نے منیجر کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ وہ خجالت سے بولا۔ یہ پگلی ہے۔ اس نے گارڈ کو خشمگیں نگاہوں سے گھور کر کہا۔ کیسے اندر آئی ہے نکالو اسے۔ گارڈ ہچکچا رہا تھا۔ لوگ کھانا کھا رہے تھے اور وہ بوڑھی عورت کے ساتھ بدتمیزی سے پیش نہیں آسکتا تھا۔ اگر اُسے دھکے دیئے جاتے تو اس کے شور کرنے پر سارے کسٹمرز متوجہ ہوجاتے، ہوٹل کا ماحول خراب ہوجاتا۔ مجھے اس غریب پر ترس آگیا۔ مفلسی نے جسے کہیں کا نہ رکھا تھا۔ میں نے منیجر سے کہا۔ اسے کھانا دے دو اور رقم میرے بل میں شامل کردو، میں ادا کردوں گی۔ یہ روز آجاتی ہے میڈم ایک دن کی بات نہیں ہے۔ غربت کا نہیں تو کم ازکم عمر رسیدگی کا ہی خیال کرو۔ اس طرح دھتکارنا ٹھیک نہیں ہے۔ اس نے بیرے کو بلا کر کہا۔ اسے کھانا پیک کرکے دے دو۔ پھر مجھ سے مخاطب ہوا۔ اور بھی تو ہوٹل ہیں، یہ اکیلا ہوٹل تو نہیں ہے، پھر ہم ملازم ہیں یہاں میڈم، مجبور ہیں اور اس نے عادت بنا لی ہے۔ کھانا مل جاتا ہے نا، جب نہیں ملے گا تو کسی اور طرف جائے گی۔ یہ سن کر وہ آگ بگولہ ہوگئی۔ میں بھکارن نہیں ہوں، اپنے ہوٹل سے کھانا لیتی ہوں۔ کیا کہا میرے کان کھڑے ہوگئے۔ ہاں یہ ہوٹل میرا ہے، میں مالک ہوں اس کی، دو وقت کا کھانا بھی میرا حق نہیں ہے کیا اماں کیا کہہ رہی ہو میں حیرت میں ڈوب گئی۔ لگا واقعی یہ پاگل ہے۔ منیجر بولا۔ میں نے کہا نا یہ پاگل ہے، روز یہی کہتی ہے۔ کھانا دو، کھانا دو، یہ ہوٹل میرا ہے۔ اب آپ ہی بتایئے کیا کریں ایسے پاگلوں کا۔ دھکے دینے کی بجائے کھانا دینا پڑتا ہے ورنہ لوگ ہمیں ہی برا بھلا کہیں گے۔ اتنے میں بیرا کھانے کا ڈبہ لے آیا۔ بڑھیا کے ہاتھ میں تھما کر بولا۔ اب جائو اور شور نہ مچائو۔ سنو سیٹھ کا حکم ہے کہ کھانا لینا ہو تو پچھلی طرف سے لے لینا جدھر کچن ہے۔ ادھر نظر آئیں تو دھکے دے کر نکال دیں گے۔ وہ بڑبڑائی۔ دیکھ لوں گی تیرے سیٹھ کو۔ میں کوئی بھکارن نہیں، اپنا حق لینے آتی ہوں۔ گھر میں بچے بھوکے بیٹھے ہوں تو کیا کروں، اپنے ہوٹل سے کھانا بھی نہ لوں میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور باہر لے آئی۔ اماں ادھر آئو میرے ساتھ اور مجھے بتائو کیا قصہ ہے وہ بولی۔ سڑک پر کیا بتائوں، بات سننا چاہتی ہو تو میرے گھر آجائو۔ گھر کہاں ہے تمہارا اماں جی زیادہ دور نہیں ہے۔ میں نے سڑک سے ہی بہو کو فون کردیا کہ تم کھانا کھانے کے بعد بچوں کو لے کر گھر چلی جانا، میں تھوڑی دیر بعد آجائوں گی۔ میں نے اپنی گاڑی میں اس کے ساتھ جانا مناسب نہ سمجھا اور ٹیکسی لے کر اس عورت کے ہمراہ اس کے گھر آگئی۔ وہ ایک بوسیدہ مکان تھا۔ دو جھلنگے پلنگ اور دو کرسیاں جو پرانے وقتوں کی تھیں، ایک ٹوٹی پھوٹی میز اور صوفہ اتنا پرانا کہ اس کا رنگ روپ اُڑ چکا تھا۔ اس نے مجھے اسی صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ فرش پر میلی سی دری بچھی تھی جس پر دو کمسن لڑکے بیٹھے تھے۔ کہنے لگی۔ یہ دونوں میرے نواسے ہیں، بیٹی کو بیوہ ہوئے سات سال ہوچکے ہیں، تب یہ بہت چھوٹے تھے جب باپ کے سائے سے محروم ہوئے۔ اسی وقت اس کی دونوں بیٹیاں برابر والے کمرے سے آگئیں اور مجھے سلام کرکے ایک طرف بیٹھ گئیں۔ بڑی ان بچوں کی ماں تھی جبکہ دوسری بیس بائیس برس کی لگتی تھی اور غیر شادی شدہ تھی۔ میں نے سب پر گہری نگاہ ڈال کر سوال کیا۔ تمہارا کوئی بیٹا نہیں ہے ماں ہے تو لیکن وہ جیل میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہے۔ اور یہ ہوٹل کا کیا قصہ ہے یہ ہوٹل میرے شوہر کا ہے۔ وہ کافی مالدار تھے اور ہم عیش وآرام سے رہا کرتے تھے۔ بڑی بیٹی کی شادی کرنے کے بعد وہ وفات پا گئے اور پھر بیٹی بھی ان کی وفات کے پانچ سال بعد بیوہ ہوکر میرے پاس آگئی۔ ان دنوں بیٹا سال کا تھا۔ اسے کسی بات کی عقل نہ تھی کہ باپ کا کاروبار، گھربار کی ذمہ داری سنبھالتا۔ باپ کے مرتے ہی اس نے اسکول جانا بھی چھوڑ دیا اور شفیق جو اب ہوٹل کا مالک بنا بیٹھا ہے، اس نے ہمدردی کا جال ہمارے گرد پھیلایا تو میں نے اعتبار کرکے اسے اپنا سچا غمگسار سمجھ لیا۔ یہ شفق کون ہے میرے داماد کا دوست ہے۔ جب میرا داماد نثار حیات تھا، یہ اس کا بھائی بنا ہوا تھا اور اس کے ہمراہ ہمارے گھر آتا تھا۔ نثار کہا کرتا تھا۔ اماں یہ بہت اچھا لڑکا ہے۔ میری خواہش ہے کہ تم شاہینہ کی شادی اس سے کردو۔ اس نے اپنی چھوٹی بیٹی کی طرف اشارہ کرکے کہا۔ یہ ان دنوں سولہ برس کی بمشکل ہوگی۔ میں اپنے مرحوم داماد سے کہتی تھی۔ کچھ دن سوچنے دو، ابھی شاہینہ بھی چھوٹی ہے، اسے میٹرک کرلینے دو، پھر فیصلہ کروں گی۔ نثار کی زندگی کم تھی۔ اس کی وفات کے بعد ہم تینوں کے سر سے مردوں کا سایہ اٹھ گیا اور یہ دونوں بچے یتیم ہوگئے تو شفیق ہم سے ہمدردی جتلانے آنے لگا۔ بچے اسے چچا کہتے تھے اور وہ کہتا تھا کہ میں مرحوم نثار کا بھائی بنا تھا تو اب بھی اس کا بھائی بن کر دکھائوں گا۔ ان بچوں کا حقیقی چچا بن کر دکھائوں گا۔ بس بیٹی وہ ہمارے چھوٹے موٹے مسئلے حل کرتا اور ہم اس کا انتظار کرتے کہ شفیق آئے تو ہمارے کام ہوں جو ہم عورتیں نہ کرسکتی تھیں۔ میرا خیال تھا کہ میں شاہینہ کی شادی شفیق سے کردوں گی۔ داماد کی صورت میں بیٹا مل جائے گا جبکہ میرا اپنا بیٹا ریحان تو اس لائق نہ تھا کہ ہمارے کام آتا۔ وہ باپ کے مرتے ہی ہمارے ہاتھوں سے نکلنے لگا۔ اسکول چھوڑ کر آوارہ گردی میں لگ گیا۔ میں شفیق سے کہتی۔ تم میرے بیٹے ہو، تم کسی طرح ریحان کو دوبارہ تعلیم کی طرف راغب کرو۔ یہ کچھ پڑھ لکھ جائے گا تو ہمارے کنبے کو سنبھالے گا۔ شفیق تسلی دیتا۔ اماں تم فکر نہ کرو، سب کچھ مجھ پر چھوڑ دو۔ میں اس کو راہ راست پر لے آئوں گا۔ اسے دوبارہ اسکول میں داخل کرائوں گا۔ تمہارے سب خواب میں پورے کروں گا۔ بیٹا ہوں میں تمہارا، مجھ پر بھروسہ کرو۔ بیٹی یوں اس شخص نے پہلے ہمارے دلوں میں گھر کیا اور پھر ہمارے گھر میں گھس بیٹھا۔ میں نے ہوٹل کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا تو اس نے ہوٹل کو سنبھالنے کا بھی ذمہ اٹھانے کی ہامی بھر لی۔ سوچا کہ یہ کچھ دے گا تو ہم معاشی بحران سے بچ جائیں گے۔ ہوٹل بند ہوگیا تو پھر کیا کھائیں گے اور گزارہ کیسے ہوگا۔ ریحان کو کنٹرول کرنے کی بجائے اس نے اسے بری راہ پر لگا دیا۔ وہ نشہ کرنے اور جوا کھیلنے لگا اور یہ گھر کا سربراہ بن گیا۔ شروع میں ہوٹل کی ساری کمائی میرے سامنے رکھ دیتا اور کہتا۔ اماں گزارے کے لائق رقم مجھے تم خود اپنے ہاتھوں سے دے دیا کرو۔ میں تنخواہ سمجھ کر رکھ لوں گا۔ شروع میں یہ ہمارے ہوٹل کا منیجر بنا لیکن منیجر کی آڑ میں وہ سیاہ سفید کا مالک بن بیٹھا۔ میں اس کو اپنے ہونے والے داماد کی حیثیت سے اہمیت دیتی رہی، بعد میں چالاکی سے ہمارا ہوٹل اور تین مکانات جو میرے شوہر کی محنت کی کمائی کے بنے تھے، اپنے قبضے میں لے لیے۔ میرا بیٹا جوان ہوا۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ اپنے باپ کا سرمایہ اور وراثت سنبھالتا لیکن وہ نشے میں غرق تھا۔ شفیق اسے جتنا وہ مانگتا، روپیہ دے دیتا۔ اسے محنت کرکے کمانے کی کیا ضرورت تھی۔ نشہ تو ویسے بھی انسان کو ناکارہ اور اس کی غیرت و حمیت کو ختم کردیتا ہے۔ ایک روز شراب کے نشے میں ایک شخص سے جھگڑا ہوگیا اور جھگڑے میں اس آدمی کی جان چلی گئی۔ کیا ہوا، کیسے ہوا، کسی نے ہمیں تفصیل نہ بتائی۔ شفیق نے اتنا بتایا کہ اماں نشے کی حالت میں تیرے بیٹے کا کسی سے جھگڑا ہوا اور وہ آدمی لڑائی میں مر گیا تو ریحان کو پولیس پکڑ کر لے گئی۔ یہ سنتے ہی میرے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ میں نے شفیق کی منت سماجت کی کہ کچھ بھی کرو، چاہے میری ساری جمع پونجی لے لو۔ ہوٹل، گھر، مکان سب تمہارے نام کردوں گی۔ میرے بیٹے کو کسی صورت سزا سے بچا لو۔ اس کے لیے کوئی اچھا وکیل کرو کہ اسے سزائے موت نہ ہو۔ شفیق نے اس معاملے کو اپنے ہاتھ میں لے لیا۔ کیس چلنے لگا۔ ایک وقت آیا کہ میرے پاس کیس کی پیروی کے لیے پیسہ نہ رہا تو شفیق نے کہا کہ ہوٹل اور جائداد کے کاغذات دے دو، بینک میں گروی رکھ کر قرضہ لیتے ہیں کیونکہ کیس پر ابھی بہت خرچا ہونا ہے۔ بیٹے کو سزائے موت سے بچانا ہے تو روپیہ پانی کی طرح بہانا ہوگا۔ میں بیٹے کی محبت میں مری جاتی تھی۔ جیسا یہ کہتا، کرتی تھی۔ اس نے مختلف کاغذات پر دستخط کرائے۔ آخرکار کیس ختم ہوگیا۔ ریحان کو سزائے موت تو نہ ہوئی لیکن عمرقید ہوگئی۔ وہ اب سلاخوں کے پیچھے زندگی کے دن کاٹ رہا ہے اور یہ ہمارے ہوٹل اور جائداد کا مالک بن گیا ہے۔ آج میرے پاس کوئی کمانے والا نہیں ہے۔ ایک بیٹی بیوہ جو دو کم سن بچوں کے ساتھ میرے کندھوں کا بوجھ ہے اور دوسری بن بیاہی جوان ہے، اس کا بوجھ بھی مجھ بوڑھی کے کندھوں پر ہے۔ زمانے کے خوف سے ان کو گھر سے باہر بھی قدم نہیں نکالنے دیتی۔ یہ گھر میں ہی تھوڑی بہت سلائی کرتی ہیں تو دونوں بچوں کی فیسں دینا ممکن ہوتی ہے لیکن کھانے کے لالے پڑے رہتے ہیں، اسی لئے اپنے ہوٹل سے کھانا لینے جاتی ہوں۔ ہم پانچ بندوں نے پیٹ بھرنا ہوتا ہے۔ تم ہی کہو، میں پگلی یا بھکارن ہوں یا یہ چور، لٹیرا شفیق غاصب ہے جو اب مالک بنا بیٹھا ہے۔ مجھے میری بیٹی سے شادی کا جھانسا بھی دیتا رہا اور شادی کسی امیر گھرانے کی لڑکی سے کرلی۔ اب کہتا ہے کھانا لینا ہو تو ہوٹل کے پچھلے دروازے سے کچن کی طرف سے لے جایا کرو۔ وہاں جو خانساماں ہیں، وہ دھتکارتے ہیں کہ روز آجاتی ہو۔ ہمارا سیٹھ منع کرتا ہے، نوکر ہماری شکایت کردیتے ہیں کہ ہم کھانا چُراتے ہیں۔ بس ایسی اوٹ پٹانگ باتیں کرکے میری بے عزتی کرتے ہیں۔ اب میں سامنے والے در سے اندر جاتی ہوں۔ گارڈ روکتا ہے، کبھی منیجر دھمکاتا ہے اور بیرے لوگوں کو کہتا ہے کہ یہ بھکارن عورت پاگل ہے۔ یہ بتاتے ہوئے وہ بیچاری زاروقطار رونے لگی، ساتھ اس کی دونوں بیٹیاں بھی رو پڑیں اور دوپٹے کے پلوئوں سے آنسو پونچھنے لگیں۔ اماں تم نے ایک غیر شخص پر اتنا کیوں بھروسہ کرلیا جو تمہارا رشتے میں کچھ نہیں لگتا تھا یہ تمہاری غلطی ہے، تمہیں اتنا بھروسہ کسی غیر آدمی پر نہ کرنا چاہیے تھا۔ بیٹی بھروسہ نہ کرتی تو کیا کرتی۔ جب سر پر اپنے مرد کا سایہ نہ ہو تو ایسے ہمدرد ہی ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہوتے ہیں۔ کوئی بھائی، دیور نہ تھا۔ کس سے اپنے مسائل حل کرواتی۔ یہ ہمارے گھر پہلے سے آتا تھا۔ اپنے بچوںکی طرح عزیز تھا۔ ہم عورتیں تنہا تھیں، اس پر اعتماد کیا۔ میں نے سوچا تھا کہ میرے بے سہارا خاندان کو سہارا مل جائے گا اور میرے سر سے چھوٹی بیٹی کا بوجھ بھی اتر جائے گا۔ کیا جانتی تھی کہ اس کی محض میری جائداد پر نظر ہے۔ میں اس آسرے پر لٹی کہ میرے اکلوتے بیٹے کو یہ کیس لڑ کر پھانسی کے پھندے سے بچا لے گا، تب مجھے لٹنے کا بالکل احساس نہ تھا۔ بس ایک ہی خیال کہ میرا بچہ بچ جائے گا۔ میں خود کو اس کی احسان مند محسوس کرتی تھی۔ وہ کہتا تھا تمہارا لڑکا بری ہوکر گھر آجائے گا۔ میں شاہینہ سے شادی کرلوں گا۔ قسمت میں یہی لکھا تھا جسے اپنا سمجھ کر سرمایہ سونپا، اس نے دغا کی۔ بیٹا بھی عمرقید کی نذر ہوگیا اور میرے پلے بھی کچھ نہ رہا۔ آج یہ میرے شوہر کے ہوٹل کا مالک بنا بیٹھا ہے۔ کسی سے فریاد کروں تو جھوٹی سچی رسیدیں دکھا کر کہتا ہے کہ اتنے سال اس کو خرچہ دیا۔ اس کے بیٹے کے لیے وکیل کئے، ان کی بھاری فیسیں دیں، کیس پر ہزاروں کا خرچہ اٹھا۔ آخر یہ سب کس نے کیا۔ آج اپنے ہوٹل سے بچوں کے لیے کھانا لینے جاتی ہوں تو یہ دھتکارتے ہیں۔ بتائو یہ کہاں کا انصاف ہے اس مظلوم عورت کی داستان سن کر میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ اتنا ہی کہہ سکی۔ اماں جی واقعی یہ دنیا اتنی ہی ظالم ہے۔ کسی مفلس کے رہنے کی یہ جگہ نہیں ہے۔ یہاں صرف طاقتور ہی رہ سکتے ہیں۔ الف ملتان
null
null
null
null
400
https://www.urduzone.net/kab-hoge-subha-teen-auratien-teen-kahaniyan/
آج جب دودھ والا سو روپے کلو کے حساب سے دودھ دے کر گیا تو بہو نے کہا۔ یہ دودھ ہے کہ سفید پانی ہے۔ دیکھئے دسیوں بار دودھ والے سے کہا ہے بھائی، ہم پر نہیں تو ہمارے بچوں پر رحم کرو جن کی یہ بنیادی غذا ہے۔ یہ تم دودھ کے نام پر کیا دے جاتے ہو مگر اس کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔ شبانہ بیٹی، تم اس دودھ والے کو بدل کیوں نہیں دیتیں کسی اور کو لگا لیتے ہیں۔ اماں جی کئی بدلے ہیں مگر سبھی دودھ کے نام پر زہر بیچ رہے ہیں اور ہم لینے پر مجبور ہیں۔ کیا کریں چائے نہ پئیں، کیا بچوں کو نہ دیں جن کی یہ ابتدائی غذا ہے۔ ابھی یہ بات ہورہی تھی کہ ہماری ملازمہ پروین آگئی۔ میں نے پوچھا۔ پروین تم کہاں تھیں، اتنے دن بعد آئی ہو وہ دکھیاری روہانسی ہوکر بولی۔ اماں جی آپ کو بتایا تو تھا کہ میرے چھوٹے بچے کو جلاب لگے ہیں۔ ٹھیک نہیں ہوا کیا ابھی تک کیسے ہوتا اماں۔ ڈاکٹر کہتا تھا ڈبے کا دودھ دو، وہ بہت مہنگا ہے، ہم نہیں خرید سکتے تھے۔ میں دکان والا یہی دودھ دیتی تھی۔ وہ بیچارا فوت ہوگیا، اسی وجہ سے کام پر نہیں آسکی۔ آہ بیچاری پروین میرے دل سے ٹھنڈی آہ نکلی۔ سارا دن دوسروں کے گھروں کا کام کرکے بچوں کا پیٹ پال رہی تھی۔ اپنے سات ماہ کے بچے سے ہاتھ دھو بیٹھی۔ اسہال کی بیماری نے معصوم کی جان لے لی آخر۔ ماں کا دودھ بچے کی اصل غذا ہے۔ جب اصل دودھ ملتا نہیں تو اپنا دودھ چھڑا کر یہ سفید زہر اسے کیوں پلاتی تھیں بہو نے تاسف سے کہا۔ بیگم صاحب گھر گھر بچے کو ساتھ نہیں لے جاسکتی تھی اور بنگلوں پر صبح کام کیلئے نکلتی تو شام سات بجے گھر جانا نصیب ہوتا۔ بچہ سارا دن بھوکا تو نہیں رہ سکتا تھا میری ساس دکان سے دودھ لا کر پلا دیتی تھیں مگر بچہ مسلسل دستوں کی بیماری کب تک سہہ سکتا تھا، آخر اپنے خالق کے پاس چلا گیا۔ پروین تم لوگ اپنا گائوں چھوڑ کر کیوں شہر آجاتے ہو اپنے معصوم بچوں کو یہ سفید زہر پلوانے گائوں میں دودھ تو صحیح مل جاتا ہے۔ پیٹ کی خاطر بی بی۔ وہاں نہ گھر ہے نہ مکان اور نہ روزی روٹی۔ اس پیٹ کی آگ کی خاطر ہی تو ہم دربدر ہیں۔ یہاں کام تو مل جاتا ہے۔ وہ سچ کہہ رہی تھی لیکن پاکستان بنانے والوں نے یہ سوچا نہ ہوگا کہ وقت گزرنے کے ساتھ لوٹ مار کرنے والوں نے اس پاک سرزمین کا کیا حشر کردینا ہے۔ مجھے وہ دن یاد آگیا جب میں نے اپنے گائوں سے ہجرت کی تھی۔ آگ اور خون کے دریا کو پار کیا تھا۔ آہ کیسا ہولناک سفر تھا وہ۔ ستمبر کا مہینہ تھا۔ مشرقی پنجاب کے بعد اب دہلی کی باری تھی۔ بلوائی محلے اُجاڑتے، ہر چیز کو آگ لگاتے چڑھے چلے آرہے تھے۔ یہ بلوائی ہمارے در پر بھی آپہنچے۔ والد اور والدہ کو ان کے کمرے میں قتل کردیا۔ میں نے ان کی چیخیں سنیں تو اپنے کمرے سے نکل کر زینے کے ذریعے چھت پر آگئی۔ بری طرح کانپ رہی تھی۔ چھت پر کاٹھ کباڑ پڑا تھا۔ میں اس کی اوٹ میں چھپ گئی اور خالی بوریاں اپنے اوپر ڈال لیں۔ شام سات سے اوپر کا سمے تھا۔ سورج ڈوب رہا تھا اور رات کا اندھیرا پھیل چکا تھا۔ میں دم سادھے تھی۔ جان گئی تھی کہ یہ بلوائی اب میری جان ہی نہیں عزت بھی لے کر ٹلیں گے۔ اتنے میں بلوائی چھت پر پہنچ گئے جیسے ان کو کسی نے مخبری کردی تھی کہ اس گھر میں ایک جوان لڑکی بھی رہتی ہے۔ وہ میری تلاش میں اوپر آئے تھے۔ سردی کافی تھی، بارش بھی ہوچکی تھی۔ اب ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی۔ مجھے سانس روکے دیر ہوگئی تھی اور یہ تھے کہ جانے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ سارا گھر دیکھ لیا یا تو نکل بھاگی ہے یا پھر ادھر کہیں چھپی ہے۔ کسی نے کہا۔ سر میں درد کی شدید لہر کے ساتھ ناک میں سنسناہٹ ہوئی اور باوجود ضبط کے چھینک آگئی۔ بس پھر کیا تھا جیسے ان کو خزانے کا سراغ مل گیا ہو۔ قہقہہ مار کر ایک دوسرے کے ہاتھ پر ہاتھ مار کر بولے۔ لو جی مل گئی جس کو کھوج رہے تھے۔ وہ تیزی سے میری جانب آئے اور بھیگی ہوئی بوریاں جو میں نے اپنے اوپر ڈال رکھی تھیں، کھینچ لیں۔ میں اب کانپتی، لرزتی ان کے سامنے تھی۔ دوسرے نے ٹارچ کی روشنی مجھ پر ڈالی۔ ہیر ہے ہیر کیوں وڈے سردار جی آہو چلو ہن تھلے۔ گاڑی میں ڈالو اسے، چلتے ہیں جتھے دار کے پاس پیش کریں گے، اس ہیر کو تو انعام ملے گا۔ ان میں سے ایک نے میری کلائی پکڑی اور لے چلا۔ باہر ہولناکی کا راج تھا۔ تمام علاقے میں لوٹ مار، قتل و غارت گری، جوان لڑکیوں کا اغوا آٹھ نو بجے تک بڑے زوروشور سے جاری رہا۔ اس کے بعد چیخ و پکار، گولیاں چلنے اور بم پھٹنے کی آوازوں میں کمی واقع ہوگئی۔ بلوائی جو مجھے لے چلے تھے، تعداد میں چار تھے۔ دو آگے گاڑی میں اور دو پچھلی نشست پر تھے۔ مجھے عقبی نشست والوں نے اپنے درمیان بٹھا لیا تھا۔ خوف سے سسکیاں حلق میں پھنسی تھیں اور آنسو گالوں پر بہتے جارہے تھے۔ایک جگہ دیکھا کہ انسانوں کا سیلاب عورت، مرد، بچے جو کچھ ہاتھ لگا ساتھ لیے ایک قافلے کی شکل میں چلے جاتے تھے۔ عید گاہ پر ایک لمبا چوڑا سکھ کھڑا تھا۔ انہوں نے گاڑی اس کے پاس روک کر کہا۔ بادشاہو یہ بڑی دیر بعد ملی اسی لئے لیٹ ہوگئے۔ یہ چھت پر چھپی ہوئی تھی۔ میں زاروقطار رو رہی تھی مگر ان ظالموں کو مجھ پر رحم نہ آیا۔ اس شخص نے جس کو یہ جتھے دار کہہ رہے تھے، بڑی للچائی نظروں سے مجھے دیکھ کر کہا۔ یہاں سب کام پروگرام کے مطابق چل رہا ہے، بس کچھ کام ابھی باقی ہے۔ جو میرے ساتھ تھے، ان میں سے دو گاڑی سے اتر گئے۔ بولے۔ جو کام باقی ہے، اسے ہم دیکھ لیتے ہیں، آپ اس کڑی کو لے کر چلیں۔ جتھے دار نے مجھے اپنی کار میں ڈالا اور دو مسلح کارندے میرے دائیں بائیں بیٹھ گئے۔ کار اب تیزی سے عید گاہ روڈ پر دوڑ رہی تھی۔ جونہی سڑک طیبہ کالج کی طرف مڑی، میں سمجھ گئی مجھے بھٹیاری محل کی طرف لے جارہے ہیں۔ آگے وہ جگہ آگئی جو کافی سنسان تھی اور یہاں ان لوگوں کے کیمپ لگے ہوئے تھے۔ کالج کے موڑ پر ایک نوجوان کھڑا ملا۔ دراز قد، چوڑے شانے، مردانہ وجاہت ایسی کہ اعلیٰ گھرانے کا فرد لگا۔ کلائی پر برساتی ڈالے تھا کہ بارش چند گھنٹے قبل ہوچکی تھی۔ یہاں بجلی غائب تھی اور بجلی ٹھیک کرنے والے آدمی کھمبے پر چڑھے ہوئے تھے۔ بجلی کے کچھ تار بھی ٹوٹے ہوئے سڑک پر گرے نظر آرہے تھے۔ گاڑی کی لائٹ تاروں پر پڑی تو بلوائیوں میں سے ایک بولا۔ اوئے یہ بھی کوئی وقت ہے بجلی ٹھیک کرنے کا۔ اب ہم سامنے والی سڑک پر کیسے نکلیں۔ یہاں تو تار پڑے ہیں۔ تبھی اس نے تاروں کے پاس کھڑے اس آدمی کو اشارہ کیا جو کلائی پر برساتی ڈالے تھا۔ تم ادھر کیوں کھڑے ہو، کیا نام ہے تمہارا نام نہ بتا کر کہا۔ میری ڈیوٹی ہے تبھی کھڑا ہوں۔ مُسلا لگتا ہے، ذرا اتر کر دیکھو تو۔ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھے ہوئے شخص نے کہا تو اس کے ساتھ والا شخص اتر گیا۔ ہاتھ میں تلوار تھی۔ اوئے نام بتا، ڈیوٹی بتا۔ وہ بولا۔ ہم سرکاری ڈیوٹی پر ہیں، بجلی کی سپلائی بحال کرنے آئے ہیں۔ تم کو نام سے کیا کام نام کیوں نہیں بتا رہا سکھ نے تلوار گھمائی۔ وہ شخص ڈرا نہیں اور نہ بھاگا بلکہ برساتی زور سے گھما کر حملہ آور کے منہ پر ماری کہ وہ لڑکھڑا گیا اور تلوار اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ نوجوان نے لپک کر تلوار اٹھا لی اور ایسا وار کیا کہ وہ زخمی ہوکر دور جاگرا۔ اب میرے پاس بیٹھا دوسرا شخص کار سے اتر پڑا۔ اس نوجوان نے چیتے کی سی پھرتی سے اس پر بھی وار کردیا۔ ایک دلخراش چیخ منہ سے نکلی اور وہ تار پر جاگرا۔ تار میں کرنٹ تھا۔ کرنٹ لگتے ہی وہ ختم ہوگیا۔ اب ایک باقی بچ گیا تھا اور یہ جتھے دار تھا۔ وہ گالیاں دیتا گاڑی سے اترا۔ نوجوان نے اسے بھی ٹھکانے لگا دیا اور کار میں جھانکا۔ تم کو یہ بلوائی لے جارہے تھے نوجوان نے ٹارچ کی روشنی مجھ پر ڈالی۔ میں جواب دینے کے لائق کب تھی۔ خوف، غم اور بے یقینی کے کرب سے ریزہ ریزہ ہوئی مسلسل رو رہی تھی۔ سمجھ گیا تمہیں یہ ساتھ لے جارہے تھے۔ شاید اللہ نے تمہاری مدد کے لیے مجھے یہاں بھیجا تھا۔ یہ کہہ کر اس نے گاڑی کا اسٹیئرنگ سنبھال لیا۔ بلوائی زخمی تھے یا مرچکے تھے، نہیں معلوم ان کو سڑک پر پڑا چھوڑ کر اس نے گاڑی کو بھگایا۔ اب ہمیں محفوظ جگہ کی تلاش تھی۔ وہ موتیا کھان کا چکر کاٹ کر جھنڈے والی سڑک پر آگیا۔ یہاں شہر کی نسبت کچھ امن تھا۔ اس نوجوان نے کہا۔ میرا نام سلیمان احمد ہے۔ جہاں تک مجھے معلوم ہے بلوائیوں کے حملوں کی وجہ سے شہر میں کوئی جگہ محفوظ نہیں۔ چاہو تو میں تمہیں تمہارے گھر پہنچا سکتا ہوں۔ یہ بات سن کر غم سے میرا کلیجہ کٹنے لگا۔ بمشکل اتنا کہہ پائی۔ والدین کو انہوں نے مار دیا ہے، گھر لٹ گیا ہے، اب وہاں کوئی نہیں ہے۔ اچھا پھر مہاجر کیمپ چلتے ہیں، وہاں مرد، عورت اور بچے ہوں گے لیکن چاہتا ہوں کہ رات کا ایک پہر اور گزر جائے۔ شاید اس میں آگے جانے کی اس وقت ہمت نہ تھی۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد اس نے ہائی کمشنر کے دفتر کا رخ کرلیا جہاں بہت سی گاڑیاں کھڑی تھیں۔ اس نے وہاں کار لگا دی۔ اس وقت میرا سر درد سے پھٹا جارہا تھا۔ اس کا بھی تھکن سے برا حال تھا۔ بولا۔ گاڑی میں ہی کچھ دیر آرام کرلیتے ہیں، صبح سوچیں گے کیا کرنا ہے۔ نیند کس کافر کو آنی تھی، مجھ پر تو خوف کے بادل چھائے تھے۔ پچھلی نشست پر مُردہ سی پڑی تھی اور وہ آگے والی نشست پر ٹیک لگائے خاموش بیٹھا تھا۔ صبح کے آثار نمودار ہوگئے، روشنی کی چادر آہستہ آہستہ پھیلنے لگی۔ یہ کیسا سویرا تھا کہ آنکھوں میں والدین کے چہرے اور کانوں میں ان کی چیخیں باقی رہ گئی تھیں۔ اب نہ کوئی اپنا تھا اس دنیا میں اور نہ کوئی گھردر رہا تھا۔ میرا بھی اس دنیا میں کوئی نہیں رہا ہے۔ سلیمان نے کہا۔ صبح ہورہی ہے لیکن ہماری زندگی میں ڈھیر سارا اندھیرا ہے۔ ان لوگوں نے بہت لوٹ مار کی ہوگی۔ میں دیکھتا ہوں۔ وہ کار سے اتر کر ڈکی کی طرف چلا گیا۔ اس کو کھولا۔ ایک بیگ میں رقم اور زیورات اور کچھ سوٹ کیس رکھے ہوئے تھے۔ اس نے سوٹ کیس کھول کر ایک مردانہ اور ایک زنانہ جوڑا نکالا۔ مجھے جوڑا دے کر کہا کہ ابھی پوری طرح روشنی نہیں ہوئی، میں ذرا دور جاتا ہوں، تم گاڑی میں کپڑے بدل لو اور اوپر یہ شال لپیٹ لو ورنہ سردی سے مر جائو گی۔ میں ننگے پائوں تھی لیکن اسے بتانے کی مجھ میں ہمت نہ تھی کہ میرے پیروں میں جوتے نہیں ہیں۔ وہ کچھ فاصلے پر کھڑا ہوگیا۔ میرے کپڑے، بوریاں اپنے اوپر ڈالنے سے خراب اور گیلے ہوچکے تھے۔ بے حد سردی لگ رہی تھی۔ جوڑا بدلنے میں ہی عافیت جانی۔ جلدی جلدی گاڑی میں کپڑے تبدیل کرکے اس کی دی ہوئی شال لپیٹ لی۔ اب کچھ جان میں جان آئی مگر کمزوری کی وجہ سے بیٹھا نہ جاتا تھا۔ سامنے ایک چائے کا ہوٹل کھلا ہوا تھا۔ وہ جاکر وہاں سے چائے لے آیا۔ چائے پیتے ہی مجھے چکر آنا بند ہوگئے اور اس کے بھی اوسان بحال ہوگئے۔ سچ ہے حالات جو بھی ہوں، بھوک انسان کی سب سے بڑی کمزوری ہے۔ صبح کی روشنی پوری طرح اجاگر ہوگئی، دن نکل آیا تھا۔ ہائی کمشنر کے دفتر کے اندر اور باہر ایک ہجوم جمع تھا۔ یہ سب نئے وطن جانے کے لیے بے چین تھے۔سلیمان نے کہا۔ بی بی تم دھیان سے بیٹھنا اور ڈرنا نہیں۔ میں ابھی دفتر کے اندر سے ہوکر آتا ہوں۔ سلیمان کے جاتے ہی کسی نے کار کی کھڑکی کا شیشہ کھٹکھٹایا۔ یہ ایک سپاہی تھا۔ اس نے پوچھا۔ بی بی کیا آپ اس کار میں پاکستان جارہی ہیں کون ہے آپ کے ساتھ میں خوف زدہ ہوگئی۔ بے اختیار منہ سے نکل گیا۔ میرا گھر والا ہے، وہ دفتر کے اندر گیا ہے، ابھی واپس آجائے گا، پوچھ لینا۔ تھوڑی دیر میں سلیمان آگیا۔ میں نے سپاہیوں کی جانب اشارہ کیا۔ یہ دو تھے اور اسلحہ ان کے پاس تھا۔ انہوں نے سلیمان سے کہا۔ ہم بڑی مشکل سے بھاگ کر یہاں تک آئے ہیں، اگر آپ پاکستان جارہے ہیں تو ہمیں ساتھ لے لیں، آپ کی راستے بھر حفاظت کریں گے۔ سلیمان نے ان پر بھروسہ کرلیا اور ساتھ بٹھا لیا۔ ساتھ بٹھانے سے پہلے مجھ سے پوچھا۔ تم نے ان کو کیا بتایا تھا میرے بارے میں کہ کون ہوں جھجکتے ہوئے جواب دیا۔ ڈر گئی تھی اس لیے آپ کو گھر والا کہہ دیا۔ چلو جو تمہاری زبان سے اللہ نے کہلوایا، اچھا ہی ہوگا۔ ان میں سے ایک ڈرائیور تھا۔ سلیمان نے کہا۔ بھائی قادر پہلے جامع مسجد چلو، نماز ادا کرلیں پھر اللہ پر توکل کرکے اسی کار سے پاکستان چلتے ہیں۔ جامع مسجد پر مجھ سے کہا۔ اگر اجازت ہو تو آپ کا محرم بن کر ساتھ چلوں۔ یہ احسن ہوگا اور ہم دونوں ایک مقدس رشتے میں بندھ کر سفر کا آغاز کریں گے۔ ہمارا ایک دوسرے کے سوا اب اس دنیا میں کوئی نہیں ہے۔ میں نے اقرار میں سر جھکا دیا۔ سلیمان نے امام صاحب کو احوال بتا کر نکاح کے لیے استدعا کی۔ انہوں نے مجھ سے میری رضامندی جاننے کی خاطر چند ضروری سوالات کیے اور نکاح پڑھا دیا۔ اب میں کسی اجنبی کے ہمراہ نہیں بلکہ اپنے شوہر کے ہمراہ نئے وطن کی طرف جارہی تھی۔ ایک بجے انبالہ پہنچے۔ سامنے جب سروسز کلب نظر آیا، ہمارے ڈرائیور نے محفوظ جگہ دیکھ کر گاڑی روک دی۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد تقریباً دو بجے انبالہ سے نکل گئے۔ اللہ کا شکر کہ کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا البتہ لاتعداد لاشیں راستے میں پڑی نظر آئیں۔ ایسے مناظر کہ میں آنکھیں بند کرلیتی تھی۔ گائوں کے گائوں جلے ہوئے نظر آئے۔ تمام راستے میں اللہ کو یاد کرتی رہی۔ امرتسر پر رسمی پوچھ گچھ کی گئی اور پھر واہگہ بارڈر کراس کرنے کی اجازت مل گئی۔ جب پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوئے تو بے اختیار اس سرزمین پر سر رکھ دینے کو جی چاہا۔ اللہ کے حضور بخیریت پہنچ جانے پر شکرانے کے سجدے کرنے کو دل مچلنے لگا کہ جان سے زیادہ عزت آبرو کے بچ جانے کی خوشی تھی۔ آگ اور خون کے دریا سے نکل کر کس طرح بخیر وطن آئے، یقین نہ آتا تھا۔ بس اللہ تعالیٰ کی مدد شامل حال تھی کہ زندہ سلامت تھے۔ آج اس سفر کو یاد کرتی ہوں تو آنکھیں نیر بہانے لگتی ہیں کہ یہ وہ پاکستان تو نہیں جس کا خواب قائداعظم نے اور علامہ اقبال نے دیکھا تھا۔ آج اس پاک سرزمین کو کرپشن، بدعنوانی، بددیانتی اور بدنظمی نے کیسا تارتار کیا ہے کہ ہر شخص فقروفاقہ میں مبتلا نظر آتا ہے۔ اللہ ہم سب پر اپنی رحمتیں نازل کرے۔ ش۔ت کراچی
null
null
null
null
401
https://www.urduzone.net/dewana-complete-urdu-story/
اسکول کا اولڈ اسٹوڈنٹ ڈے تھا۔ اسکول کی انتظامیہ کی دعوت پر بہت سے پرانے طالب علم اسکول میں جمع ہوئے تھے۔ سب ایک دوسرے کو دیکھ کر حیران ہورہے تھے کہ سب کتنے بدل گئے تھے۔ سب نے زندگی کے مختلف شعبے اختیار کرلئے تھے۔ ایک دوسرے کے ساتھ اسی بارے میں بھی بات کررہے تھے۔ اپنی چھوٹی چھوٹی تقریروں میں اپنا تعارف کراتے ہوئے پرانی خوشگوار یادوں کو تازہ کیا تھا۔ بہت سے پرانے ہم جماعت جن میں تعلق ٹوٹ چکا تھا، ان سب نے ایک دوسرے کے فون نمبر لے لئے تھے تاکہ رابطہ بحال رہ سکے۔ تھوڑے سے ورائٹی پروگرام اور کھانے کے بعد سب آہستہ آہستہ رخصت ہونے لگے۔ کیٹ بھی واپس جانے کے لئے اپنی گاڑی کا دروازہ کھول ہی رہی تھی کہ ایک شخص قریب آیا جو قدرے نروس سا لگتا تھا۔ کیٹ میں ڈونے ریبل ہوں میرا خیال ہے کہ تم نے مجھے پہچانا نہیں۔ کیٹ نے غور سے اس کی طرف دیکھا اور رسمی سے لہجے میں بولی۔ میرا خیال ہے کہ تم بہت بدل گئے ہو، ورنہ میں ضرور تمہیں پہچان لیتی اب تم نے نام بتایا تو مجھے یاد آگیا ہے۔ کیسے ہو تم سب ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے نا ہاں میں ٹھیک ہوں میں اسی امید پر یہاں آیا تھا کہ تم سے ملاقات کرسکوں گا۔ تمہیں دیکھ کر مجھے بہت خوشی ہوئی ہے تم آج کل کہاں رہتی ہو میں یہاں اپنے شوہر کے ساتھ ایک ہوٹل میں ٹھہری ہوئی ہوں، ہمارا آگے جانے کا بھی پروگرام ہے۔ کیٹ نے گفتگو ختم کرنے کے انداز میں کہا۔ اچھا اچھا اس ہوٹل میں مجھے بھی وہیں جانا ہے، تم مجھے وہاں تک لفٹ دے سکتی ہو پلیز اس طرح راستے میں ہمیں بات کرنے کا موقع بھی مل جائے گا۔ تقریب میں سارا وقت تم لوگوں میں گھری رہیں، میں تم سے کوئی بات ہی نہیں کرسکا۔ اچھا کیٹ نے تھوڑے تذبذب سے کہا۔ چلو پھر جلدی سے آجائو۔ اس کے چہرے پر خوشی کی لہر دوڑ گئی۔ وہ تقریباً بھاگ کر دوسرے دروازے تک آیا اور دروازہ کھول کر برابر والی سیٹ پر بیٹھ گیا۔ کیٹ الجھن کا شکار تھی۔ رات اس کی اپنے شوہر مائیکل سے کسی بات پر تلخ کلامی ہوگئی تھی۔ اسے احساس تھا کہ وہ کچھ زیادہ ہی جذباتی ہوگئی تھی۔ صبح وہ ابھی سو رہی تھی کہ مائیکل چلا گیا تھا اور اسے بات کرنے کا موقع نہیں ملا تھا۔ وہ اس وقت یہ سوچنا چاہتی تھی کہ مائیکل کے ساتھ ہونے والی اس تلخی کا ازالہ کس طرح کیا جائے، مگر اب یہ شخص خواہ مخواہ ہی اس کے ساتھ بیٹھ گیا تھا حالانکہ وہ اسے اچھی طرح جانتی بھی نہیں تھی۔ صرف اسے اتنا ہی یاد تھا کہ وہ بھی ان کا کلاس فیلو تھا، مگر کلاس کا کوئی نمایاں یا قابل لڑکا نہیں تھا۔ کچھ دیر دونوں کے درمیان خاموشی رہی۔ کیٹ کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس سے کیا بات کرے۔ وہ بھی شاید ایسی ہی کیفیت سے دوچار تھا مگر پھر پہل اسی نے کی۔ کیٹ کیا تم نے مجھے بالکل نہیں پہچانا ہاں شاید کیٹ نے غیر واضح جواب دیا۔ تم مجھے سالانہ کنسرٹ میں ملی تھیں تو تم نے بتایا تھا کہ تم شادی کررہی ہو اور دوسرے شہر جاکر رہو گی پھر تم مختلف شہروں میں رہتی رہی ہو میں ہمیشہ تمہارے بارے میں باخبر رہتا ہوں۔ مجھے سب پتا ہے کہ تم کہاں کتنا عرصہ رہی ہو۔ اچھا کیٹ کو حیرت ہوئی اور اسے کچھ عجیب سا بھی لگا۔ تمہیں مختلف شہروں میں رہنا اچھا لگتا ہے اس نے باتوں باتوں میں اپنا ہاتھ کیٹ کے گھٹنے پر رکھ دیا۔ اے مسٹر خبردار یہ میرا گھٹنا ہے۔ کیٹ نے بظاہر بے ضرر لہجے میں کہا لیکن اسے اس کی یہ بے تکلفی پسند نہیں آئی تھی۔ مجھے معلوم ہے کہ تمہیں مختلف شہروں میں رہنا پسند نہیں۔ وہ بولا اور اس نے ہاتھ ہٹا لیا۔ کیٹ نے ایک نگاہ اس پر ڈالی۔ اس نے بڑے فریم کا سیاہ چشمہ لگا رکھا تھا جس سے اس کا آدھا چہرہ چھپ گیا تھا۔ اس کے ہونٹ بھنچے ہوئے تھے۔ سامنے ہی ہوٹل کے بورڈ نظر آنے لگے تھے۔ دیکھو گاڑی کو آخر تک لے جائو۔ میں تمہیں بتاتا ہوں کہ مجھے کہاں اترنا ہے۔ اس نے پھر اس کے گھٹنے پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔ اس بار اس کی گرفت سخت تھی۔ اچانک کیٹ کو احساس ہوا کہ اس کے ہاتھ میں کوئی ایسی چیز ہے جو اس کے گھٹنے میں چبھ رہی ہے۔ اس نے آنکھ کے گوشے سے اس طرف دیکھا اور دھک سے رہ گئی۔ ڈونے کے ہاتھ میں پستول تھا۔ وہ مدھم لہجے میں کہہ رہا تھا۔ میں اس کو استعمال بھی کرسکتا ہوں۔ اسٹیئرنگ وہیل پر کیٹ کے ہاتھوں میں لرزش تھی۔ وہ پچھتا رہی تھی کہ اس نے اس شخص کو لفٹ کیوں دی تھی۔ جس طرح وہ کہہ رہا تھا، وہ اس طرف گاڑی موڑ تو رہی تھی لیکن اس کا ذہن بڑی تیزی سے سوچ رہا تھا کہ اسے کیا کرنا چاہئے۔ کیا وہ گاڑی کو کہیں ٹکرا دے یا شیشہ اتار کر شور مچا دے۔ کیٹ کوئی ایسی ویسی حرکت نہ کرنا۔ میرے پستول میں چھ گولیاں ہیں، تمہارے لئے ایک کافی ہوگی، میں باقی گولیاں ضائع نہیں کروں گا۔ وہ سامنے جو وین کھڑی ہے، گاڑی اس کے برابر پارک کردو۔ کیٹ کو مجبوراً اس کی بات پر عمل کرنا پڑا۔ وہ ساتھ ساتھ ہدایات دے رہا تھا۔ اب دروازہ کھول کر باہر نکلو تم میرے نشانے پر ہو خبردار چیخنا مت کیٹ باہر نکلی، وہ اس کے بازو پر ہاتھ رکھے ہوئے باہر نکلا۔ اس نے گاڑی کی چابی نکال کر پھینک دی پھر اس نے تیزی کے ساتھ کیٹ کو آگے دھکیلا اور ساتھ کھڑی ہوئی سلیٹی رنگ کی وین کا دروازہ کھولا۔ ایک ہی ہاتھ سے اس نے کیٹ کو اٹھا کر وین میں ڈال دیا اور فوراً ہی اس کے پیچھے اندر آگیا۔ وین کا دروازہ بند ہوگیا۔ ڈونے تم یہ کیا کررہے ہو ہم کلاس فیلو ہیں، دوست ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ بات لفظ اس کے منہ میں ہی رہے۔ اس نے ایک ہاتھ سے اسے پچھلی سیٹ پر دھکیل دیا۔ اس نے کیٹ کی کلائیوں میں ہتھکڑیاں ڈال دیں۔ کیٹ نے مزاحمت کرنے کی کوشش کی لیکن اس نے ایک رومال اس کے چہرے پر رکھ دیا۔ وہ بے سدھ سی ہوگئی۔ اسے کچھ پتا نہیں چل رہا تھا کہ وہ کہاں ہے، اس کے ساتھ کیا ہورہا ہے۔ ٭ ٭ ٭ مائیکل واپس ہوٹل آیا تو اس کے ذہن میں بھی کیٹ کے ساتھ ہونے والی بدمزگی تھی۔ وہ ٹھیک کہتی تھی کہ انہیں خانہ بدوشوں کی طرح شہر شہر نہیں پھرنا چاہئے تھا۔ انہیں کسی ایک شہر میں اپنا گھر بنانا چاہئے جس کے آنگن میں ان کے پیارے پیارے بچے کھیلیں۔ مائیکل نے اپنی کمپنی سے بات کی تھی۔ انہوں نے یقین دلایا تھا کہ وہ اگلے سال اسے ہیڈ آفس میں ایک مستقل سیٹ دے دیں گے تاکہ وہ ایک ہی شہر میں رہ سکے۔ وہ کیٹ کو یہ خوشخبری سنا کر منا لینا چاہتا تھا لیکن جب وہ اپنے کمرے میں داخل ہوا تو اسے یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ کیٹ ابھی تک نہیں لوٹی تھی۔ کمرے میں خاموشی پھیلی ہوئی تھی لیکن کیٹ کے وجود کا احساس ہوتا تھا۔ وہ ہوٹل کے کمرے میں بھی ایک گھریلو پن پیدا کردیتی تھی۔ گلدان میں تازہ پھول سجے تھے۔ اس کے نزدیک چھوٹے سے سنہری فریم میں ان کی شادی کی تصویر تھی۔ بیڈ کے ساتھ رکھی ہوئی میز پر وہ کتابیں رکھی تھیں، جو کیٹ پڑھنے کے لئے ہمراہ لے آئی تھی۔ ڈریسنگ ٹیبل پر تمام سامان ترتیب سے رکھا تھا اور الماری میں لباس ہینگروں پر لٹکے ہوئے تھے۔ اسے کیٹ کی یہ صفائی ستھرائی اور ترتیب ہمیشہ ہی بہت پسند تھی۔ جب سے ان کی شادی ہوئی تھی، وہ ہوٹلوں میں رہتے آئے تھے، جنہیں کیٹ اپنے سگھڑ پن سے گھر میں ڈھال دیتی تھی۔ مائیکل یہی سوچ رہا تھا کہ کیٹ کے آنے تک وہ نہا دھو کر تیار ہوجائے تاکہ وہ اسے ایک بہت اچھے ڈنر پر یہ خوشخبری سنا سکے۔ اس کے ساتھ مل کر یہ سوچے کہ انہیں کہاں گھر بنانا چاہئے۔ ساڑھے چھ بج چکے تھے۔ اس نے اخبار بھی دیکھ لیا تھا۔ ٹی وی کھلا تھا لیکن اس کی توجہ اس طرف نہیں تھی۔ وہ کیٹ کے بارے میں ہی سوچ رہا تھا، پھر آٹھ بج گئے، ساڑھے آٹھ ہوئے۔ اب اسے غصہ آنے لگا۔ یقیناً کیٹ ابھی تک اس سے ناراض تھی۔ اس نے ڈنر باہر کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا، مگر اسے اطلاع تو کرنی چاہئے تھی۔ اس کا موبائل بھی بند تھا۔ جب نو بجے تو مائیکل نے کیٹ کی ایڈریس بک کو کھنگالا اور اس کی ایک کلاس فیلو کو فون کیا جس کے بارے میں اسے معلوم تھا کہ وہ تقریب میں ضرور جائے گی۔ اس نے بتایا کہ کیٹ تو پانچ بجے ہی چلی گئی تھی۔ اب مائیکل فکرمند ہوا۔ اسے معلوم تھا کہ کیٹ کی عادت لمبی ناراضی پالنے کی نہیں تھی۔ وہ جلد صلح پر آمادہ ہوجاتی تھی لیکن آج نہ جانے کیا بات تھی کہ وہ واپس نہیں آئی تھی، نہ ہی اس نے اطلاع ہی دی تھی۔ کہیں اس کے ساتھ کوئی حادثہ نہ ہوگیا ہو۔ یہ خیال آتے ہی اس کی پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ اس نے پولیس کو فون ملایا۔ ٭ ٭ ٭ کیٹ ہوشیار ہوئی تو ہتھکڑیاں اس کی کلائیوں میں چبھ رہی تھیں، بیڑیاں ٹخنوں کے ساتھ رگڑ کھا رہی تھیں، اس کے منہ میں بھی کچھ ٹھنسا ہوا تھا، جس کی وجہ سے اسے سانس لینا دشوار ہورہا تھا۔ اس نے سر جھٹک کر خود کو صورتحال سے روشناس کرایا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ شخص اس کے ساتھ اس طرح کا سلوک کیوں کررہا تھا۔ آخر وہ چاہتا کیا تھا۔ وین کسی نامعلوم منزل کی طرف جارہی تھی۔ ڈرائیور کی سیٹ اسکرین کے پیچھے تھی، اس لئے وہ اس کو دیکھ نہیں سکتی تھی۔ اس نے وین پر ایک نگاہ دوڑائی تو اسے لگا کہ وہ غیر معمولی کشادہ ہے۔ اس میں چھوٹا سا ایک کاٹ تھا، جس پر وہ دراز تھی۔ وین میں تاریکی تھی۔ وہ اس میں ایک میز بھی دیکھ رہی تھی۔ جب کوئی گاڑی قریب سے گزرتی تھی تو وہ میز پر پڑے ہوئے مختلف اوزار بھی دیکھ سکتی تھی۔ وہ سوچنے لگی کہ ڈونے ان اوزاروں کے ساتھ کیا کرتا ہے۔ سڑک ناہموار تھی جس سے وین کو جھٹکے لگ رہے تھے۔ وہ پریشانی سے ایک ایک لمحہ گنتی رہی کہ یہ شخص کب اس خوفناک سفر کو تمام کرتا ہے۔ پھر اس نے ڈرائیونگ سیٹ کے درمیان لگی ہوئی اسکرین ایک طرف ہٹائی اور بولا۔ لو ہم گھر پہنچ گئے۔ وہ دروازہ کھول کر باہر نکلا اور اس نے پچھلا دروازہ کھولا۔ کیٹ گھبرا کر ایک طرف سمٹ گئی۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر اس کے منہ میں ٹھنسا ہوا کپڑا نکالا، جس نے اس کی سانس روک رکھی تھی۔ اسے شدید کھانسی کا دورہ پڑ گیا۔ ڈونے نے آگے بڑھ کر اسے اٹھنے میں مدد دی، اس کو سہارا دے کر نیچے اتارا۔ کیٹ کی ٹانگیں سن ہوچکی تھیں، اس سے کھڑا نہیں ہوا جارہا تھا۔ اس نے پوری آنکھیں کھول کر چاروں طرف نگاہ دوڑائی۔ وہ ایک ویران سا فارم ہائوس تھا جس کے چاروں طرف کوئی آبادی نہیں تھی، کیونکہ اسے ایک بھی روشنی یا کوئی کھڑکی نظر نہیں آرہی تھی۔ ایک گندے سے پورچ میں ایک زنگ آلود جھولا لگا ہوا تھا۔ جگہ جگہ گھاس بڑھی ہوئی تھی اور خودرو بیلیں درختوں پر چڑھی ہوئی تھیں۔ گھنے درختوں کی وجہ سے سورج کی روشنی کم ہوگئی تھی۔ چاروں طرف ایک پراسرار سی ملگجی روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ ڈونے اس کے ساتھ چلتا ہوا رہائش گاہ تک آگیا۔ اس نے دروازہ کھولا اور کیٹ کو اندر لے آیا۔ اس نے بٹن دبا کر چھت پر لگی ہوئی لائٹ جلائی۔ اچانک روشنی ہوجانے سے کیٹ کی آنکھیں بند ہوگئیں۔ اس نے پلکیں جھپکا کر دیکھنے کی کوشش کی کہ اس کے اردگرد کیا ہے۔ وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا جس کے ایک کونے میں پیانو رکھا تھا، جس کا روغن جگہ جگہ سے اکھڑا ہوا تھا۔ وہاں ایک کائوچ اور کرسی بھی موجود تھی جو کثرت استعمال سے بدرنگ اور بوسیدہ ہوچکی تھیں۔ فرش کے درمیان میں پڑے ہوئے قالین کی حالت بھی زیادہ بہتر نہیں تھی۔ ایک کونے میں کتابوں کا شیلف رکھا تھا، جس میں اسکول نوٹ بکس بے ترتیبی سے پڑی تھیں۔ دیکھو ڈونے نے کہا اور کیٹ کو دوسری دیوار کی طرف گھما دیا۔ وہ یہ دیکھ کر دنگ رہ گئی کہ پوری دیوار پر اس کی وہ تصویر لگی تھی جو کالج سے رخصت ہونے پر لی گئی تھی۔ چھت سے ایک گندا سا پوسٹر لٹکا ہوا تھا جس پر بڑے بڑے بھدے حروف میں لکھا ہوا تھا۔ گھر آنا مبارک ہو پیاری کیٹ ٭ ٭ ٭ سراغ رساں جمی ہوٹل پہنچا تو مائیکل اس کا انتظار کررہا تھا۔ وہ اس پر برہم تھا کہ اس نے آنے میں اتنی دیر کیوں کردی تھی۔ وہ بے حد پریشان تھا کہ کیٹ ابھی تک گھر کیوں نہیں آئی تھی۔ سراغ رساں نے اطمینان سے ایک کرسی پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ دیکھو تمہاری بیوی کو غائب ہوئے ابھی چوبیس گھنٹے نہیں ہوئے، تمہارا اس کے ساتھ کوئی جھگڑا تو نہیں ہوا تھا ہاں ہمارے درمیان کچھ تلخی تو ہوئی تھی لیکن اتنی بھی نہیں کہ وہ ناراض ہوکر گھر ہی نہ آئے۔ مائیکل نے کہا۔ میرا خیال ہے کہ وہ اپنا غصہ ٹھنڈا کرنے کے لئے کہیں ڈنر کرنے کے لئے رک گئی ہوگی۔ اگر وہ آئندہ چوبیس گھنٹے تک واپس نہ آئی تو ہم اس کی باقاعدہ رپورٹ بنائیں گے آپ ہمیں اپنی بیوی کی ایک تصویر دے دیں۔ جمی نے کہا۔ مائیکل نے فریم سے تصویر نکال کر اس کو دے دی اور وہ رخصت ہوگیا لیکن کچھ ہی دیر بعد وہ پھر اس کے دروازے پر دستک دے رہا تھا۔ مائیکل دروازہ کھول کر بولا۔ مسٹر جمی خیریت ہے آپ کی بیوی کی گاڑی پارکنگ کے آخری سرے پر کھڑی ہے اور چابیاں باہر زمین پر گری ہوئی ہیں۔ جمی نے جیسے دھماکا کیا۔ مائیکل ابھی اس دھچکے سے سنبھلا نہیں تھا کہ فون کی گھنٹی بجی۔ جمی بھی اندر آگیا۔ ہیلو مائیکل مجھے افسوس ہے کہ مجھے یہ کرنا پڑا مجھے سوچنے کے لئے وقت چاہئے۔ میں نے کار، پارکنگ میں چھوڑ دی ہے۔ بس ہمارا ساتھ یہیں تک تھا۔ اب طلاق ہی ہمارے مسئلے کا حل ہے۔ کیٹ نے بڑی تیزی سے کہا۔ مائیکل کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ پریشانی سے بولا۔ کیٹ تم یہ فیصلہ جذبات میں آکر کررہی ہو دیکھو میری بات سنو۔ لیکن فون بند ہوچکا تھا۔ جمی نے تسلی کے انداز میں کہا۔ گھبرائو نہیں یار یہ عورتیں ایسے ہی الٹے سیدھے فیصلے کرتی ہیں، بغیر سوچے سمجھے میری دوسری شادی بھی بالکل اسی انداز میں ٹوٹی تھی۔ لیکن اس کی تمام چیزیں یہاں ہیں۔ کپڑے، میک اپ کا سامان وہ بھلا اس کپڑوں میں جو وہ پہنے ہوئے تھی، سب کچھ کس طرح چھوڑ سکتی ہے۔ گھریلو جھگڑوں میں ایسا ہونا کوئی تعجب کی بات نہیں مسٹر مائیکل ہم اس واقعے کو بطور گھریلو جھگڑے کے ہی درج کریں گے۔ وہ اس سے ہاتھ ملا کر چلا گیا۔ مائیکل فون کے قریب بیٹھا رہا۔ اس امید پر کہ کیٹ پھر فون کرے گی۔ شاید وہ اپنا ارادہ بدل لے گی وہ پھر رابطہ کرے گی، لیکن رات ہوگئی اور کیٹ کی طرف سے کوئی فون نہیں آیا۔ آخر مایوس ہوکر وہ اٹھ گیا اور کپڑے تبدیل کرکے بستر پر گر پڑا۔ اس نے ٹیلیفون کو قریب رکھ لیا تھا کہ پہلی گھنٹی پر ہی ریسیور اٹھا لے۔ ٭ ٭ ٭ ڈونے نے ریسیور کیٹ کے ہاتھ سے چھین کر رابطہ منقطع کردیا۔ کیٹ کا جی چاہ رہا تھا چیخ چیخ کر روئے۔ مائیکل کی آواز نے اسے بہت جذباتی کردیا تھا لیکن ڈونے کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی۔ وہ مسکرا کر کہہ رہا تھا۔ بہت خوب تم نے اس احمق شخص کو بالکل ٹھیک جواب دیا۔ اس نے فون کروانے سے پہلے کیٹ کو دھمکی دی تھی کہ اگر وہ فون نہیں کرے گی تو وہ مائیکل کو شوٹ کردے گا۔ تم جانتی ہو کیٹ جب سے تم لوگ ہوٹل میں آکر ٹھہرے تھے، میں دو مرتبہ تمہارے کمرے میں گیا ہوں میں اس ہوٹل میں کام کرنے جاتا رہتا ہوں۔ کمرے کی چابی بنوا لینا کچھ اتنا زیادہ مشکل نہیں۔ ڈونے نے بتایا۔ کیٹ حیرت اور پریشانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ اسے بیڈ روم میں لے گیا۔ جس میں فضول سے فرنیچر کے ساتھ ایک ڈبل بیڈ تھا جس پر شوخ پھولوں کی بیڈ شیٹ بچھی ہوئی تھی۔ وہ بڑے فخر سے بولا۔ میں نے سیلز گرل سے پوچھا تھا کہ خواتین کیسی بیڈ شیٹ پسند کرتی ہیں تو اس نے مجھے یہ لینے کا مشورہ دیا۔ پھر اس نے ڈریسنگ ٹیبل کی طرف اشارہ کیا جہاں کنگھی، برش اور دوسری چیزیں پڑی ہوئی تھیں۔ یہ دیکھو یہ بالکل ویسی ہی ہیں جیسی تمہاری ہوٹل میں تھیں۔ پھر اس نے الماری کھولی۔ یہ دیکھو تمہارے نئے لباس ان کا سائز وہی ہے جو تم نے ہوٹل میں رکھے ہوئے تھے۔ میں نے انہیں بڑے شوق سے خریدا ہے، امید ہے تمہیں یہ سب بہت پسند آئیں گے اور نیچے کے خانے میں دیکھو میں تمہارے لئے جوتے بھی لایا ہوں، یہ بھی تمہارا سائز ہے۔ اس میں ہر طرح کے فیشن ایبل جوتے ہیں۔ میں چاہتا ہوں کہ میری بیوی بہترین کپڑے پہنے اور بہت خوبصورت لگے۔ پریشان کیٹ کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ڈونے میں تمہاری بیوی نہیں بن سکتی۔ مگر تمہیں بننا ہوگا۔ میں جانتا ہوں کہ تم بھی مجھ سے شادی کرنا چاہتی تھیں۔ جس طرح میں تم سے شادی کرنے کا خواہاں تھا مائیکل پتا نہیں کیوں راستے میں آگیا تھا۔ کیٹ نے سر جھٹک کر اِدھر اُدھر دیکھا کہ اس پاگل شخص سے کس طرح جان چھڑائے کہ اچانک اس کی نگاہ اس زنجیر پر پڑی جو ایک کونے میں لپیٹ کر رکھی ہوئی تھی۔ اس کا ایک سرا بیڈ کے قریب تھا اور دوسرا سرا دھات کی ایک پلیٹ کے ساتھ جڑا ہوا تھا جو دیوار میں لگی ہوئی تھی۔ اس کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ ڈونے بھی اس کی نگاہ کے تعاقب میں دیکھ رہا تھا۔ وہ بے حد مستعد تھا اور ہر بات کا خیال رکھ رہا تھا۔ وہ بہت نرمی سے بولا۔ تم پریشان نہ ہو کیٹ میں نے ہر کمرے میں یہ انتظام کررکھا ہے۔ میں نہیں چاہتا کہ تم مجھے چھوڑ کر کہیں چلی جائو پھر دن کو مجھے کام پر بھی تو جانا ہوگا، تب لائونج میں تم بہت آرام سے رہوگی۔ تمہیں کسی قسم کی کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ کیٹ کے ہونٹوں سے ایک لفظ نہیں نکل رہا تھا۔ نہ ہی کچھ سمجھ میں آرہا تھا کہ اس تمام صورتحال کا مقابلہ کس طرح سے کیا جاسکتا تھا۔ وہ اسے لائونج میں لے آیا جہاں کھانے کی میز بھی رکھی ہوئی تھی۔ اس نے بہت بدمزہ سے برگر خود بنائے تھے اور بڑے اشتیاق سے وہ کیٹ کو پیش کررہا تھا اور باربار کھانے پر اصرار کررہا تھا۔ کیٹ کی بھوک مرچکی تھی لیکن مجبوراً اس نے کچھ زہرمار کیا اور کافی پینے لگی۔ ڈونے نے اپنا کھانا ختم کرلیا اور کیٹ سے بولا۔ تم انتظار کرو، میں ابھی آتا ہوں۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ واپس آگیا۔ کیٹ نے دیکھا کہ وہ داڑھی صاف کرچکا تھا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ میں نے یہ داڑھی اس لئے بڑھائی تھی کہ اسکول کے لوگ مجھے پہچان نہ سکیں۔ اب دیکھو میں کتنا مختلف لگ رہا ہوں۔ کیٹ نے اپنی کافی ختم کرلی تو وہ بولا۔ تم تھکی تھکی لگ رہی ہو میں تمہیں ابھی بیڈ روم میں چھوڑ آئوں گا لیکن اس سے پہلے میں تمہیں اپنی پہلی کتاب کا ایک باب سنائوں گا جو میں نے تمہارے بارے میں لکھی ہے۔ وہ اٹھ کر شیلف میں سے ایک کتاب اٹھا لایا۔ کیٹ بے یقینی کے ساتھ اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ وہ اتنی الجھ گئی تھی کہ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ سب واقعی حقیقت میں ہورہا ہے یا وہ کوئی ڈرائونا خواب دیکھ رہی ہے۔ جب وہ اس کے سامنے کرسی پر آکر بیٹھ گیا تو اسے حقیقت کی تلخی کا اندازہ ہوا۔ کمرے میں خنکی تھی لیکن ڈونے پسینے میں شرابور معلوم ہورہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے نیچے سیاہ حلقے تھے، چہرے پر کچھ عجیب سے تاثرات اس کی آنکھیں بہت ہی نیلی نظر آرہی تھیں، گویا اس نے رنگین لینسز لگا رکھے ہوں، حالانکہ کالج کے زمانے میں اس کی آنکھیں بھوری تھیں۔ اس نے قدرے شرمیلے انداز میں کہا۔ مجھے ایسے لگ رہا ہے جیسے کالج کا زمانہ لوٹ آیا ہے۔ کیٹ کچھ نہیں کہہ سکی۔ حالات کی تلخی نے اسے ساکت کررکھا ہے۔ ڈونے اپنی کتاب کا پہلا باب پڑھنے لگا۔ کل رات میں کیٹ کے ساتھ کلب گیا تھا۔ ہم نے وہاں خوب لطف اٹھایا، موسیقی سنی، ڈانس کیا اور جب کلب خالی ہونے لگا تو ہم لوٹے لیکن جب میں کیٹ کو اس کے گھر کے سامنے اتارنے لگا تو اس نے دونوں ہاتھوں سے چہرہ ڈھانپ لیا اور رونے لگی۔ اس نے مجھے بتایا کہ اس کے گھر والے اسے ایک ایسے شخص کے ساتھ شادی کرنے پر مجبور کررہے ہیں جسے وہ بالکل پسند نہیں کرتی۔ وہ میرے علاوہ کسی اور سے شادی کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتی۔ جب میں اس کے قابل ہوجائوں گا کہ اس کی دیکھ بھال کرسکوں، وہ تب تک میرا انتظار کرے گی۔ میری خوبصورت کیٹ میں تمہیں کبھی مایوس نہیں کروں گا۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں ہی تم سے شادی کروں گا کوئی اور نہیں ٭ ٭ ٭ اس طرح کی کچھ تصوراتی کہانیاں سنانے کے بعد وہ اٹھا اور کیٹ سے بولا۔ تم واش روم میں جاکر نائٹ سوٹ پہن لو، برش وغیرہ کرلو۔ اس نے کپڑے اس کو تھماتے ہوئے کہا۔ وہ ایک چھوٹا سا واش روم تھا جو کچھ زیادہ صاف نہیں تھا۔ کیٹ لباس تبدیل کرتے ہوئے سوچتی رہی کہ آگے اسے کیا کرنا ہوگا۔ یہ سوچ کر اسے خوف آرہا تھا کہ وہ نیم پاگل شخص اس سے کئی گنا زیادہ طاقتور تھا۔ وہ اس کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی۔ اسی لئے وہ سوچ رہی تھی کہ اسے کونسا طریقہ اختیار کرنا ہوگا۔ وہ باہر نکلی تو نے دزدیدہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا کہ وہ کس موڈ میں ہے۔ اس نے بیڈ روم کا دروازہ کھولا۔ کیٹ آئو آرام کرلو۔ کیٹ نے خود کو سنبھالا۔ اس نے طے کرلیا تھا کہ وہ اس کے سامنے کسی کمزوری کا مظاہرہ نہیں کرے گی۔ وہ اعتماد سے قدم رکھتی آگے بڑھی اور بیڈ پر بیٹھتے ہوئے بولی۔ ڈونے میں بہت تھک گئی ہوں، میں سونا چاہتی ہوں۔ تم گھبرائو نہیں میں تمہیں پریشان نہیں کروں گا یہ میرا وعدہ ہے جب تک ہماری شادی نہیں ہوجاتی، ہم علیحدہ کمروں میں رہیں گے۔ کیٹ نے اطمینان کا سانس لیا۔ وہ ابھی تک وہیں کھڑا تھا، جیسے اس کے لیٹنے کا انتظار کررہا ہو۔ کیٹ نے تکیئے پر سر رکھا۔ ڈونے نے اسے چادر سے ڈھانپ دیا اور بولا۔ مجھے افسوس ہے کیٹ میں کوئی خطرہ مول نہیں لینا چاہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ جب میں سو جائوں تو تم مجھے چھوڑ کر چلی جائو، اس لئے مجھے کچھ انتظام کرنا ہی پڑے گا۔ اس کے ساتھ ہی اس نے کیٹ کے پائوں میں زنجیر ڈال دی۔ اس کی وہ رات جاگتے ہی گزری، دعائیں مانگتے، یہاں سے نکلنے کے منصوبے بناتے مائیکل کے بارے میں سوچتے ہوئے کہ وہ اس کو تلاش کررہا ہوگا۔ اس کو کیسے پتا چلے گا کہ ایک پاگل شخص نے اسے قید کررکھا ہے۔ اس پریشانی اور مصیبت میں وہ اس قدر تھک گئی کہ بالآخر رات کے آخری پہر اس کی آنکھ لگ گئی۔ صبح وہ نیند سے جاگی۔ اس نے آنکھیں کھولیں تو اسے ڈونے بیڈ کے قریب کھڑا نظر آیا۔ اس نے گھبرا کر آنکھیں پوری طرح سے کھول دیں اور چادر سے خود کو ڈھانپ لیا۔ میں دیکھ رہا تھا کہ تم آرام سے سو رہی ہو تم سوئی ہوئی اتنی خوبصورت لگ رہی تھیں کہ میں یہیں کھڑا کا کھڑا رہ گیا۔ کیٹ بس تم اس شخص سے اپنی جان چھڑائو جو تمہارا شوہر بنا ہوا ہے تاکہ پھر ہم شادی کریں۔ کیٹ نے بیزاری سے اس کی بات سنی۔ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ اسے کہے کہ وہ کیا بکواس کررہا ہے لیکن یہ اسے اشتعال دلانے والی بات تھی۔ اسی لئے وہ خاموش رہی۔ اس نے زنجیر کھول دی اور بولا۔ تم اپنے ضروری کام کرکے میرے لئے ناشتہ بنا دو۔ تمہیں پتا تو ہوگا کہ تمہارا مستقبل کا شوہر اچھا کھانے کا شوقین ہے۔ ناشتے کے بعد اس نے لائونج کی تمام کھڑکیاں بند کردیں۔ اس کے پائوں میں ایک مرتبہ پھر زنجیر ڈال دی اور بولا۔ مجھے افسوس ہے کہ مجھے کھڑکیاں بند کرنی پڑ رہی ہیں، لیکن میں یہ خطرہ مول نہیں لے سکتا کہ کوئی شخص قریب سے گزرتے ہوئے اندر دیکھ لے۔ میں نے زنجیر کو ناپ لیا ہے، تم بڑے آرام سے واش روم استعمال کرسکتی ہو۔ میز پر کچھ سینڈوچز اور جوس موجود ہے۔ تم پیانو پر پریکٹس بھی کرسکتی ہو اور اگر کچھ پڑھنا چاہو تو شیلف میں میری کتابیں رکھی ہوئی ہیں۔ اس نے مزید کہا۔ میں نے فون کا سسٹم ایسا کردیا ہے کہ تم کوئی کال نہیں کرسکتیں اس لئے یہ کوشش نہ کرنا، تمہیں مایوسی ہوگی۔ میں مختلف جگہوں پر مرمت کا کام کرتا ہوں۔ میری وین ہی میری ورکشاپ ہے۔ آج کا دن کافی مصروف ہے، میں چھ سات بجے تک واپس آسکوں گا۔ وہ اس کی جانب جھکا اور اس کی ٹھوڑی چھو کر بولا۔ مجھے یاد کرنا کیٹ جس طرح میں تمہیں یاد کرتا ہوں ہر لمحہ وہ رخصت ہوگیا تو کیٹ نے اطمینان کا سانس لیا کہ وہ کم ازکم اس تمام صورتحال پر سکون سے غور تو کرسکے گی۔ اس کی موجودگی تو جیسے اس کے اعصاب پر سوار ہوگئی تھی، اس کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیتیں جیسے سلب ہوکر رہ گئی تھیں۔ کھڑکیوں کے شٹر بند ہونے کی وجہ سے کمرے میں نیم تاریکی تھی۔ چھت پر لگے ہوئے مدھم بلب کی وجہ سے کمرے میں سائے لمبے سے ہورہے تھے۔ کیٹ نے اٹھ کر زنجیر کی لمبائی کا اندازہ کیا اور اس جگہ کو دیکھا جہاں زنجیر ایک دھاتی پلیٹ کے ساتھ لگی ہوئی تھی، جس میں چار بڑے پیچ تھے۔ کیٹ سوچنے لگی کہ اگر وہ اس پلیٹ کو اکھاڑنے میں کامیاب ہوجائے تو وہ باہر نکل سکتی ہے مگر یہ علاقہ شہر سے دور تھا۔ وہ اس زنجیر کے ساتھ کتنی دور تک جاسکتی تھی، اسے کچھ اندازہ نہیں تھا لیکن کسی ٹرک یا گاڑی کے راستے میں ملنے کا امکان تو ہوسکتا تھا جو اس کی مدد کرسکتے تھے۔ اسے ہمت نہیں ہارنی چاہئے، یہاں سے نکلنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ پھر اس نے پورے کمرے کا جائزہ لیا۔ ایک چیز جو اس کے کام آسکتی تھی وہ چاقو تھا لیکن یہ دیکھ کر وہ بہت مایوس ہوئی کہ وہ چاقو پلاسٹک کا تھا۔ وہ جتنی بھی کوشش کرتی، وہ دھاتی پلیٹ کے پیچوں کو ہلا بھی نہیں سکتی تھی۔ اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھر گئیں۔ وہ ہونٹوں ہی ہونٹوں میں بدبدانے لگی۔ پلیز مائیکل میری خبر لو مجھے اس جہنم سے نکالو ورنہ یہ پاگل مجھے بھی پاگل کردے گا۔ اسے یہ خیال بھی آیا کہ شاید کوئی شخص یہاں آجائے۔ شاید پوسٹ مین آکر گھنٹی بجائے مگر یہ ممکن نہیں تھا۔ یہاں جو اس نے ڈونے کے نام آئے ہوئے خطوط دیکھے تھے، وہ کسی پوسٹ بکس نمبر پر بھیجے گئے تھے۔ گویا ڈونے کی ڈاک یہاں نہیں آتی تھی، اس لئے پوسٹ مین کے یہاں آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ وہ مایوسی کے عالم میں کتنی ہی دیر یونہی بیٹھی رہی، پھر اس کی نگاہ شیلف پر پڑی، جہاں سیاہ اور سفید نوٹ بکس کی پوری ایک قطار رکھی تھی۔ اس نے ان میں سے کچھ کتابیں نکالیں اور صوفے پر بیٹھ کر ان کی ورق گردانی کرنے لگی۔ وہ سب کتابیں ایک ہی جیسی تھیں۔ اس میں زیادہ تر تصوراتی کہانیاں لکھی ہوئی تھیں۔ کچھ میں اس نے مستقبل کے منصوبے بنائے ہوئے تھے جیسے ایک ڈائری میں لکھا ہوا تھا۔ جب کیٹ اور میں ایک ہوجائیں گے تو ہم جنگل میں کیمپ لگانے جائیں گے۔ وہاں ہم اسی طرح ایک ٹینٹ میں رہیں گے جس طرح ہمارے باپ، دادا ماضی میں رہا کرتے تھے۔ ہم شکار کریں گے، لکڑیاں اکٹھی کرکے کھانا پکائیں گے، مل کر کھائیں گے۔ رات کو تاروں بھرے آسمان تلے سوئیں گے تو کیٹ جنگلی جانوروں کی آوازیں سن کر خوف زدہ ہوکر مجھ سے لپٹ جائے گی۔ ایک جگہ اس نے لکھا تھا۔ میں اور کیٹ آج شاپنگ کے لئے گئے تھے۔ میں نے اسے ایک بے حد خوبصورت لباس لے کر دیا۔ اس نے اس کے ساتھ پہننے کے لئے سینڈل کی فرمائش کی تو میں نے اسے وہ بھی خرید دیئے، حالانکہ وہ کافی مہنگے تھے۔ کیٹ مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ جب ہم چلتے ہیں تو وہ ہمیشہ میرا ہاتھ پکڑ لیتی ہے۔ ہم ایک ساتھ چلتے ہیں، ہم اکھٹے جئیں گے، اکھٹے مریں گے۔ ہم دو محبت کرنے والوں کی طرح ہمیشہ جنت میں رہیں گے۔ ایک کے بعد ایک کیٹ وہ کتابیں پڑھتی جارہی تھی، حالانکہ اس فضولیات کو پڑھنے میں اس کے سر میں درد شروع ہوگیا تھا لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ جیسے جیسے ان کتابوں کو پڑھتی تھی، اسے ڈونے کے پاگل پن کی گہرائی کا اندازہ ہورہا تھا جو اسے پریشان اور خوف زدہ کررہا تھا۔ وہ اس پر بھی غور کررہی تھی کہ اس پاگل شخص کے چنگل سے کیسے نکلے۔ وہ خود تو اسے آسانی سے جانے نہیں دے گا مگر اسے کوئی حل، کوئی تجویز نہیں سوجھ رہی تھی کہ اسے کیا کرنا ہوگا۔ وقت لمحہ لمحہ کرکے گزر رہا تھا۔ دروازہ کھلا اور ڈونے واپس آگیا۔ اس کا موڈ خراب تھا اور وہ غصے میں معلوم ہوتا تھا لیکن وہ آتے ہی بولا۔ کیٹ آج میں نے بہت کام کیا، میں نے پورے دو ہزار ڈالر کما لئے ہیں۔ میں یہ سب کچھ تمہارے لئے کررہا ہوں۔ ہم شادی کے بعد پوری دنیا کا چکر لگائیں گے اور خوب مزہ کریں گے۔ پھر اس نے کچھ توقف کے بعد کہا۔ کیٹ میں دن بھر تمہیں بہت یاد کرتا رہا لیکن جب میں ہوٹل پہنچا تو میرا موڈ بہت خراب ہوا تمہارا وہ نام نہاد ظالم شوہر مائیکل ابھی تک ہوٹل میں ٹھہرا ہوا ہے۔ عجیب شخص ہے وہ جگہ جگہ لوگوں سے تمہارے بارے میں پوچھتا پھرتا ہے اس نے تمہاری تصویریں بھی ہر جگہ تقسیم کردی ہیں۔ کیٹ کا دل دھڑک اٹھا۔ گویا مائیکل کو پتا چل گیا تھا کہ اس کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آچکا ہے، وہ اسے تلاش کررہا ہے۔ کاش اسے کوئی بتا دے کہ وہ یہاں اس پاگل کی قید میں ہے۔ وہ کسی طرح یہاں آکر اسے لے جائے مگر اسے کون بتائے وہ بڑی شدت کے ساتھ اس کے پاس جانا چاہتی تھی۔ وہ جہاں بھی اسے رکھے، وہ اس کے ساتھ رہے گی، وہ کبھی اس سے نہیں لڑے گی۔ کیٹ ڈونے کی آواز پر وہ اپنے خیالات سے چونکی اور اس نے سر جھٹک کر ڈونے کی طرف دیکھا۔ یہ سب تمہارا قصور ہے کیٹ تم نے فون پر اسے یقین نہیں دلایا کہ تم اس کے ساتھ نہیں رہنا چاہتیں تمہیں اس سے طلاق چاہئے۔ وہ غصے سے اس کی طرف بڑھا۔ کیٹ گھبرا کر پیچھے ہٹی اور ہراساں نگاہوں سے اس کی طرف تکنے لگی۔ پیچھے ہٹنے سے اس کے پائوں کی زنجیر کھنچ گئی جس سے اس کی ٹانگ کی خراش میں سے خون رسنے لگا۔ ڈونے کی نگاہ اس پر پڑی تو وہ ٹھٹھک گیا۔ یہ کیا ہوگیا اس نے پریشانی سے کہا۔ اوہ کیٹ تمہیں اس سے کتنی تکلیف ہورہی ہوگی وہ دوڑ کر واش روم میں گیا اور ایک تولیئے کا ٹکڑا گیلا کرکے لے آیا۔ اس کی ٹانگ پر وہ نرمی سے تھپتھپاتے ہوئے بولا۔ اس سے تمہیں کافی فرق پڑے گا کیٹ میں تمہیں یہ زنجیریں تو نہیں پہنانا چاہتا لیکن مجھے یہ اس وقت تک رکھنی پڑیں گی جب تک تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہوجاتی۔ جب تمہیں مجھ سے محبت ہوجائے گی تو تم مجھ سے ایک لمحہ بھی جدا رہنا پسند نہیں کرو گی۔ وہ خودکلامی کی سی کیفیت میں بولتا جارہا تھا۔ اور کیٹ کے دل میں ہول سے اٹھ رہے تھے۔ کیٹ کیا تم یہ پسند کرو گی کہ ہم اپنے پہلے بچے کا نام ڈونے جونیئر رکھیں مجھے یقین ہے کہ وہ لڑکا ہی ہوگا اگر لڑکی ہوئی تو پھر تم اپنی پسند سے اس کا نام رکھنا۔ کیٹ ساکت سی اس کی طرف دیکھتی جارہی تھی۔ ٭ ٭ ٭ ڈونے نے ایک مرتبہ پھر اسے مجبور کیا تھا کہ وہ مائیکل کو فون کرکے کہے کہ وہ اب اس سے محبت نہیں کرتی۔ وہ فون پر نمبر ملا کر بالکل اس کے سر پر کھڑا تھا۔ کیٹ کو مجبوراً کہنا پڑا۔ مائیکل تم یہ کیا فضول حرکتیں کررہے ہو میں تنگ آچکی ہوں تمہاری ان حماقتوں سے آخر تم ہوٹل چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ میری تصویریں جگہ جگہ بانٹ کر میری توہین نہ کرو میں اپنی مرضی سے یہاں آئی ہوں۔ سمجھے تم اس نے فون اس کے ہاتھ سے چھین کر رکھ دیا۔ کیٹ کی آنکھوں میں آنسو آگئے لیکن وہ انہیں پی گئی۔ اسے محسوس ہورہا تھا کہ ڈونے اندر ہی اندر کوئی منصوبہ بنا رہا تھا۔ اس کے چہرے پر عجیب تاثرات تھے۔ اس کی دیوانگی جیسے بڑھتی جارہی تھی۔ اسی لئے کیٹ نے سوچا تھا کہ اسے اپنا رویہ تبدیل کرلینا چاہئے۔ شاید اس طرح وہ اس سے اپنی کوئی بات منوانے میں کامیاب ہوجائے۔ اس روز کیٹ نے رات کا کھانا خود بنایا۔ اس کے ساتھ مدد کراتے ہوئے ڈونے کا موڈ بہت اچھا ہوگیا تھا۔ کھانا کھانے کے بعد کیٹ نے کچھ دیر پیانو بجایا۔ وہ اس کے ساتھ مل کر گانا گاتا رہا۔ پھر کیٹ نے اس سے اس کے ماضی کے بارے میں مختلف سوال کئے۔ اس کے خاندان اور اس کی ماں کے بارے میں وہ بہت دیر تک اپنی ماں کے بارے میں باتیں کرتا رہا۔ جب وہ سونے کے لئے اٹھے تو وہ اس کے پائوں میں زنجیر ڈالتے ہوئے بولا۔ کیٹ ہم اسی طرح اپنی شادی کے لئے بہت سے پروگرام بنائیں گے۔ کیٹ چونکی لیکن اس پر کچھ ظاہر کئے بغیر بولی۔ لیکن سب سے پہلے تو ہمیں شادی کے سفید جوڑے کی ضرورت ہوگی۔ ہاں ہاں میں نے اس کے بارے میں سوچا ہی نہیں تھا۔ وہ بولا۔ کیٹ نے سنبھل کرکہا۔ یہ تو تم جانتے ہو نا کہ ہر عورت چاہتی ہے کہ اپنی شادی کا لباس خود خریدے۔ ٹھیک ہے میں کل تمہیں کسی بڑی مارکیٹ میں لے جائوں گا وہاں سے تم اپنی پسند کا لباس لے لینا۔ وہ بڑی فراخدلی سے بولا۔ شدتِ جذبات سے کیٹ کا سانس پھول گیا۔ یہ اس کے پاس وہ واحد موقع ہوگا جس سے اگر وہ فائدہ اٹھانے میں کامیاب ہوگئی تو وہ اس پاگل شخص سے پیچھا چھڑا سکتی تھی۔ کیٹ نے فوراً خود پر قابو پا لیا اور ڈونے پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا کہ وہ کیا سوچ رہی ہے۔ اگلے روز وہ واقعی کام پر سے جلدی واپس آگیا۔ جب اس نے کیٹ کے پائوں سے زنجیر نکال کر اسے وین میں بٹھایا تو کیٹ کا دل بڑی تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس کے اعصاب تن گئے۔ وہ اس پر غور کرنے لگی کہ وہ کس طرح کسی کو متوجہ کرسکتی تھی یا کس طرح ڈونے کے چنگل سے نکل سکتی تھی۔ وہ اسے ایک بوتیک میں لے گیا اور جاتے ہی سیلز گرل سے بولا۔ ہمیں ایک بہت خوبصورت سفید لباس چاہئے جو شادی پر پہنا جاسکے۔ سیلز گرل نے کیٹ کی طرف دیکھا۔ کیا آپ کے ذہن میں کوئی خاص اسٹائل ہے میڈم کیٹ بری طرح بے چین ہوگئی کہ سیلز گرل تک اپنی بات کس طرح سے پہنچائے۔ اپنی آنکھ کے گوشے سے، سر کی جنبش سے یا ہاتھ کے اشارے سے ان میں سے کچھ بھی ممکن نہیں تھا کیونکہ ڈونے کا ہاتھ اس کی جیب میں تھا، جس میں اس نے پستول پکڑ رکھا تھا۔ اگر وہ کوئی بے احتیاطی کرتی تو اس کا مطلب وہاں سب لوگوں کی موت تھا۔ اس کی دیوانگی ڈونے سے کچھ بھی کروا سکتی تھی۔ کیٹ نے ایک نظر میں وہ حصہ دیکھ لیا تھا جہاں کپڑے پہن کر سائز اور فٹنگ دیکھی جاتی تھی۔ اگر اسے وہاں جانے کا موقع مل جائے تو شاید کوئی تدبیر کارگر ہوجائے۔ سیلز گرل نے بتایا کہ کیٹ کے سائز کا ان کے پاس ایک ہی لباس ہے۔ ڈونے نے جلدی سے کہا۔ اسے پیک کردو۔ نہیں میں پہلے اس کو ٹرائی کروں گی، وہ سامنے ٹرائی ایریا ہے۔ کیٹ نے جلدی سے لباس سیلز گرل کے ہاتھ سے لے لیا اور پردہ اٹھا کر اندر جانے لگی تو ڈونے بولا۔ میں باہر دروازے پر ہی ہوں۔ اس کے لہجے میں سخت تنبیہ تھی۔ کیٹ نے اندر آکر چاروں طرف دیکھا۔ کہیں کوئی ایسی چیز نہیں تھی جس سے وہ کوئی پیغام لکھ سکتی۔ پھر اسے کچھ پنیں نظر آئیں۔ اس نے پن اٹھا کر دیوار پر ہیلپ لکھنے کی کوشش کی۔ وال پیپر بہت سخت تھا۔ پن سے اس پر کوئی لفظ کندہ کرنا بہت مشکل تھا، مگر اس نے جیسے تیسے وہاں ایک لفظ ایچ بنایا ہی تھا کہ اسے ڈونے کی آواز سنائی دی۔ جلدی کرو کیٹ میں تمہارا انتظار کررہا ہوں۔ اس نے پردے کا ایک گوشہ ہٹا کر اندر جھانکا۔ یہ لباس تم پر بہت سج رہا ہے بس اب جلدی سے باہر آئو۔ کیٹ نے لباس پہننے میں کچھ دیر لگائی تاکہ وہ ڈریسنگ روم کی دیوار پر لفظ پورے کرسکے۔ وہ ابھی ای لکھنے کی کوشش کر ہی رہی تھی کہ ڈونے نے پھر پردہ ہٹایا۔ ڈارلنگ تم اتنی دیر کیوں لگا رہی ہو، جلدی کرو، ہمیں دیر ہورہی ہے۔ کیٹ لرز گئی، پن اس کے ہاتھ سے گر گئی۔ ڈونے نے سر اندر ڈال کر چاروں طرف دیکھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کر باہر آگیا۔ وہ باہر گاڑی میں آکر بیٹھے تو کیٹ نے دیکھا کہ وین کے ساتھ ایک گاڑی کھڑی ہے۔ اس میں ایک شخص بیٹھا گاڑی اسٹارٹ کررہا تھا۔ کیٹ شیشے میں سے اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اس نے اتفاقاً ایک نگاہ وین پر ڈالی، کیٹ کی نگاہ سے اس کی نگاہ ملی۔ کیٹ آنکھوں ہی آنکھوں میں اسے کچھ پیغام دینا چاہتی تھی کہ اسے اپنے پہلو میں پستول کی نال کی چبھن محسوس ہوئی۔ اس کے ساتھ ڈونے کی آواز سنائی دی۔ کیٹ اگر تم نے ذرا سی بھی آواز نکالی تو میں اس شخص کے سر میں گولی مار دوں گا۔ کیٹ کانپ گئی۔ تب تک وہ شخص گاڑی نکال لے گیا۔ ڈونے اس کی طرف متوجہ ہوا۔ اس نے بیدردی سے اسے پیچھے رکھے کاٹ میں دھکیل دیا۔ سخت ہاتھوں سے اس کے منہ میں کپڑا ٹھونسا اور اسے ہتھکڑیاں اور بیڑیاں لگائیں۔ پھر وہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا اور غیر معمولی تیز رفتاری سے گاڑی چلانے لگا۔ کیٹ کی آنکھوں میں آنسو آرہے تھے۔ اسے اپنی بے بسی کا شدت سے احساس ہورہا تھا۔ یہ خوف بھی اسے پریشان کررہا تھا کہ ڈونے غصے میں تھا، اب نہ جانے اس کا رویہ کیا ہو۔ گاڑی کے تیزی کے ساتھ موڑ مڑنے کی وجہ سے ڈونے کے کچھ اوزار بھی نیچے لڑھک آئے۔ یہ دیکھ کر کیٹ کو امید کی ایک کرن نظر آئی۔ ڈونے اپنے خراب موڈ کے زیراثر گاڑی دوڑائے لئے جارہا تھا۔ اگر وہ پیچ کش اٹھانے میں کامیاب ہوجائے تو وہ دیوار کے ساتھ لگی ہوئی پلیٹ کے پیچ کھول سکتی تھی۔ اس خیال کے آتے ہی اس میں نئی ہمت آگئی۔ اس نے کسی نہ کسی طرح کوشش کرکے وہ پیچ کش اٹھا کر لباس کے ڈبے میں ڈال لیا۔ وین گھر پہنچ گئی۔ وہ اس کو اندر لے کر آیا۔ اس نے دیکھے بغیر لباس والا ڈبہ ایک طرف ڈالا اور اس کی طرف گھورتے ہوئے بولا۔ کیٹ مجھے بتائو تم کب مجھ سے محبت کرو گی اس کی سانس تیز چل رہی تھی اور اس کی آنکھوں میں وحشت تھی۔ کیٹ گھبرائی لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور اعتماد سے بولی۔ ڈونے مجھے پتا بھی تو چلے کہ تم مجھ سے کیوں محبت کرتے ہو تم نے اپنی کتابوں میں جو کچھ لکھا ہے، مجھے پڑھ کر سنائو۔ وہ چونک کر اس کی طرف دیکھنے لگا۔ کیٹ نے اپنی آواز میں تحکم پیدا کیا۔ ڈونے مجھے ابھی اپنی کتاب پڑھ کر سنائو۔ ڈونے نے شانے جھکائے اور شیلف میں سے کتابیں نکالنے لگا۔ ٭ ٭ ٭ اگلے روز جیسے ہی ڈونے کام پر نکلا، کیٹ نے پیچ کش نکالا اور دھاتی پلیٹ سے پیچ نکالنے کی کوشش کرنے لگی۔ یہ ایک بہت مشکل کام تھا۔ پیچ بہت سختی سے کسے ہوئے تھے اور پیچ کش بہت چھوٹا تھا۔ وہ زور لگا لگا کر پسینے میں شرابور ہوگئی۔ اسے کوشش کرتے نہ جانے کتنا وقت گزر گیا، بالآخر وہ پیچ ڈھیلا ہوگیا۔ وہ سانس لینے کو کچھ دیر رکی اور اس نے پھر کام شروع کردیا۔ وہ باربار وقت بھی دیکھ رہی تھی کہ کہیں ڈونے کے واپس آنے کا وقت نہ ہوجائے۔ خدا خدا کرکے دوسرا پیچ نکلا اور وہ تیسرے پیچ کے ساتھ زور آزمائی کررہی تھی کہ باہر گاڑی رکنے کی آواز سنائی دی۔ کیٹ دھک سے رہ گئی۔ اس کا دل ڈوبنے لگا۔ پیچ کش کو بیڈ کے نیچے چھپا کر وہ زنجیر سنبھالتی ہوئی اٹھی اور ہانپتی ہوئی صوفے پر آکر بیٹھ گئی۔ اس کی سانس سے سانس نہیں مل رہی تھی۔ پھر گھنٹی کی آواز سنائی دی۔ کسی نے دروازے پر دستک دی۔ کیٹ چونکی۔ یہ کوئی اور تھا، ڈونے تو سیدھا اندر آجاتا تھا۔ وہ اپنی زنجیر سنبھالتی ہوئی اٹھی اور کھڑکی کے قریب آکر پوری قوت سے چلائی۔ میں کیٹ مائیکل ہوں پلیز میری مدد کرو جاکر پولیس کو خبر کرو جائو جلدی جائو مدد مدد مدد وہ مسلسل چلاتی رہی جب تک کہ اسے گاڑی کے واپس جانے کی آواز نہیں آگئی، اس کا حلق سوکھ گیا تھا، تھکن سے وہ نڈھال ہوگئی تھی۔ اس نے ایک گلاس پانی پیا۔ اس کا ذہن بڑی تیزی سے کام کررہا تھا۔ اسے ڈونے کے آنے سے پہلے پہلے یہاں سے نکل جانا چاہئے تھا۔ وہ دیوانوں کی طرح تیسرے پیچ کے ساتھ زورآزمائی کرنے لگی مگر وہ کسی طرح نکلنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ وقت ہاتھ سے نکلتا جارہا تھا۔ وہ پریشانی، فکر سے پاگل ہورہی تھی۔ آخر وہ تنگ آکر اٹھی اور زنجیر کو دونوں ہاتھوں میں سنبھال کر اس نے اندھا دھند زور لگا کر اس دھاتی پلیٹ کو دیوار سے اکھاڑنے کی کوشش شروع کردی۔ بے بسی کے مارے وہ بلند آواز سے رو رہی تھی، چیخ رہی تھی۔ زنجیر کو جھٹکے دے رہی تھی کہ اچانک اسے ایک زور دار جھٹکا اس طرح لگا کہ وہ اپنا توازن برقرار نہیں رکھ سکی اور صوفے سے جا ٹکرائی۔ اوہ خدایا وہ سنبھلی اور بے یقینی سے دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ یہ کیسے ہوگیا تھا یہ کس طرح ممکن تھا وہ حیرت سے اس دھاتی پلیٹ کو دیکھ رہی تھی جو دیوار کے پرانے پلستر کی وجہ سے اکھڑ آئی تھی۔ اسے چند لمحے سوچنے سمجھنے میں لگے۔ پھر وہ دروازے کی طرف دوڑی۔ اس نے جلدی جلدی دروازے کے بولٹ کھولے۔ اپنی زنجیر اور دھاتی پلیٹ سنبھالتی وہ باہر نکل آئی۔ یہاں آتے جاتے وہ دیکھ چکی تھی کہ قریب ہی جنگل ہے۔ وہ وہاں چھپ سکتی تھی۔ کسی درخت کے پیچھے چھپ کر وقت گزارنا، ڈونے کے ساتھ رہنے سے بہت بہتر تھا۔ اپنا پائوں گھسیٹتی وہ آگے بڑھتی رہی۔ سورج سر پر چمک رہا تھا بالآخر وہ ایک گھنے درخت کے پیچھے چھپنے میں کامیاب ہوگئی جہاں سے وہ ڈونے کے گھر اور سڑک پر نگاہ رکھ سکتی تھی۔ اس کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ تھکن سے وہ بے حال ہوچکی تھی، اسے اپنے پائوں پر کھڑے ہونا بہت مشکل لگ رہا تھا۔ وہ ابھی درخت تک پہنچی تھی کہ اسے ڈونے کی وین کی آواز سنائی دی۔ وہ گاڑی سے اترا اور تیز قدموں سے دروازے کی طرف چلا گیا۔ دروازہ کھلا دیکھ کر وہ ٹھٹھکا، دوڑ کر اندر گیا اور پاگلوں کی طرح گرتا پڑتا واپس آیا۔ کیٹ سانس روک کر اسے دیکھ رہی تھی۔ وہ اس اندیشے سے لرز رہی تھی کہ اگر وہ اسے تلاش کرتا اس طرف نکل آیا تو وہ کب تک اس کی نگاہوں سے بچ پائے گی۔ وہ پستول ہاتھ میں لئے ہوئے کیٹ کی طرف بڑھ رہا تھا کہ کسی گاڑی کے آنے کی آواز سنائی دی۔ وہ اچھل کر گھر کے اندر داخل ہوا مگر اس نے دروازہ بند نہیں کیا۔ یوں جیسے انتظار میں کھڑا ہوگیا کہ موقع ملے تو فائر کرسکے۔ کیٹ نے دیکھا کہ وہ ایک پولیس کار تھی۔ گاڑی ڈونے کی وین کے ساتھ رک گئی اور اس کا کھلا اور دو پولیس اہلکار باہر نکلے۔ وہ یقیناً اس سے بے خبر تھے کہ ڈونے ان کے انتظار میں برآمدے کی طرف بڑھ رہا ہے۔ کار کا پچھلا دروازہ کھلا اور دو بندے اس میں سے باہر نکلے۔ ان پر نظر پڑتے ہی کیٹ کی روح آنکھوں میں سمٹ آئی۔ اس کے سارے وجود میں بے چینی کی ایک لہر سی اٹھی۔ ان میں سے ایک مائیکل تھا۔ مائیکل کو دیکھ کر اس کی آنکھوں سے آنسو بڑی تیزی کے ساتھ آپ سے آپ بہنے لگے تھے۔ اس نے تیزی سے ڈونے کی طرف دیکھا۔ وہ دبے پائوں پورچ کی طرف بڑھ رہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں پستول تھا اور وہ فائر کرنے کے لئے موقع کی تلاش میں تھا۔ اوہ خدایا وہ کہیں مائیکل کو نشانہ نہ بنا لے۔ اس خیال نے جیسے کیٹ کو پاگل کردیا۔ وہ رہائش گاہ سے کچھ اتنی زیادہ دور نہیں تھی۔ وہ بغیر سوچے سمجھے درخت کی اوٹ سے باہر نکل آئی اور اپنی پوری قوت سے چلائی۔ میں یہاں ہوں ڈونے میں یہاں ہوں میں یہاں ہوں۔ خاموشی میں اس کی آواز یکدم گونجی تو ڈونے نے بدک کر اس کی طرف دیکھا اور پستول سے فائر کرتا ہوا اس کی طرف دوڑا۔ کئی گولیاں کیٹ کے دائیں بائیں سے گزریں۔ اس کے ساتھ ہی کچھ اور گولیاں چلنے کی آواز سنائی دی۔ ڈونے لڑکھڑایا اور آدھے راستے میں گر گیا۔ مائیکل برستی گولیوں کی پروا کئے بغیر کیٹ کی جانب اندھا دھند بھاگا۔ کیٹ کو بھی اب کسی چیز کی پروا نہیں تھی۔ مائیکل اس کے سامنے تھا اور اسے ہر حال میں اس تک پہنچنا تھا۔ سراغ رساں اور پولیس اہلکار جذباتی لوگ تو نہیں تھے مگر کیٹ اور مائیکل کی بے تابی دیکھ کر ان کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔ ختم شد
null
null
null
null
402
https://www.urduzone.net/raaz-complete-urdu-story/
سرور احمد اور ثریا بیگم کی دو بیٹیاں تھیں۔ دونوں کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹیاں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں۔ روشنی ایم۔اے فائنل میں تھی اور نور انٹر پری میڈیکل میں پڑھ رہی تھی۔ سرور احمد کا اپنا بزنس تھا۔ اکثر و بیشتر وہ بزنس کے سلسلے میں بیرون ملک جاتے رہتے تھے۔ زندگی اپنے دامن میں بہت خوش رنگ اُمیدیں لئے آگے بڑھ رہی تھی۔ بدھ کا دن تھا، روشنی اپنی دوستوں کے ساتھ یونیورسٹی کے کیفے ٹیریا میں موجود تھی۔ روشنی تمہارے چہرے پر کیوں پریشانی کے آثار ہیں۔ صبح سے نوٹ کررہی ہوں، لگتا ہے تم کسی ٹینشن میں مبتلا ہو۔ اس کی دوست جیا نے کہا۔ اگلے ہفتے سے ایگزام شروع ہورہے ہیں اور میں نے ابھی تک کوئی تیاری نہیں کی۔ اوپر سے پرسوں پاپا کے دوست کی فیملی آرہی ہے، میرے رشتے کے سلسلے میں، سوچ رہی ہوں پاپا کو ان لوگوں کو اتنی جلدی بلانے کی کیا ضرورت تھی۔ یہ کام ایگزام کے بعد بھی ہوسکتا تھا۔ ہو تو سکتا تھا مگر تمہارے ہونے والے سسرالیوں کے پریشر کی وجہ سے انکل نے ایسا کیا ہوگا۔ خیر ایک دن کے لئے ان لوگوں کے آنے سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ جیا بولی۔ روشنی نے سر ہلا کر اس کی تائید کی اور کولڈ ڈرنک پینے میں مصروف ہوگئی۔ اچھا اب میں چلتی ہوں، ڈرائیور آنے والا ہوگا۔ وہ آخری گھونٹ بھرتے ہوئے اُٹھنے لگی۔ یہ کیا آج اتنی جلدی گھر جارہی ہو روشنی کی دوست سمعیہ نے کہا۔ سر انور تو آج آئے نہیں ہیں۔ بلاوجہ رکنے سے بہتر ہے میں گھر جاکر اسٹڈی کرلوں، خدا حافظ روشنی فوراً چل دی۔ یونیورسٹی سے وہ گھر پہنچی۔ گھر میں خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ ثریا بیگم فون پر کسی سے گفتگو میں مصروف تھیں۔ روشنی ان کے پاس صوفے پر بیٹھ گئی۔ فون رکھتے ہی وہ روشنی سے مخاطب ہوئیں۔ تمہارے انکل فراز کی فیملی اگلے ماہ آئے گی۔ ان کی وائف سمیرہ کا فون تھا۔ وہ کہہ رہی تھیں ان کا بیٹا کراچی چلا گیا ہے، جب وہ آئے گا تب ہی وہ ہمارے گھر آئیں گی۔ تھینک گاڈ روشنی کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ آج تم کافی جلدی آگئیں جی مما یونیورسٹی میں کوئی خاص پڑھائی نہیں ہورہی تھی۔ میں نے سوچا گھر چل کر اسٹڈی کرلوں، کل سے تو ویسے ہی کلاسز آف ہیں۔ جائو تم فریش ہوجائو، نور آتی ہی ہوگی پھر ساتھ لنچ کریں گے۔ اوکے مما وہ صوفے سے ٹیک لگا کر تھکن اتارنے لگی۔ ٭ ٭ ٭ ٹرالی میں چائے کے ساتھ طرح طرح کے لوازمات موجود تھے۔ روشنی ڈرائنگ روم میں انکل فراز کی بیوی اور بیٹیوں کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی۔ تین روز پہلے سمیرہ بانو اپنے بیٹے شہیر کے ساتھ آئی تھیں اور روشنی کو پسند کرگئی تھیں۔ آج وہ دوبارہ اپنی بیٹیوں کے ساتھ منگنی کی تاریخ رکھنے آئی تھیں۔ کیا خیال ہے اگلے اتوار کو منگنی کرلیتے ہیں، شادی کے معاملے میں زیادہ طول دینا مناسب نہیں۔ ہم ایک دوسرے کو برسوں سے جانتے ہیں۔ جی بالکل جیسے آپ کی مرضی ثریا بیگم خوشگوار لہجے میں بولیں۔ سمیرہ بانو انہیں اپنے خاندان کے رسومات کے بارے میں بتانے لگیں۔ کیا خیال ہے، اب ہمیں چلنا چاہئے۔ وہ اپنی بیٹیوں کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔ ایسی بھی کیا جلدی، چلی جائیے گا۔ مجھے آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔ ثریا بیگم کا لہجہ بتا رہا تھا کہ وہ ہچکچاہٹ کا شکار ہورہی ہیں۔ روشنی بیٹا تم اندر جائو۔ روشنی نے ایک نظر ان پر ڈالی اور کمرے سے نکل گئی۔ سمیرہ بہن بات دراصل یہ ہے کہ روشنی ہماری سگی بیٹی نہں ہے، مگر آپ یقین جانئے کہ اسے نور کی طرح اہمیت دی ہے۔ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں، فراز نے مجھے ایسی کوئی بات نہیں بتائی۔ یہ بات فراز بھائی کو بھی پتا نہیں کہ وہ آپ کو بتاتے۔ ہم نے آج تک یہ بات کسی کو نہیں بتائی۔ سب یہی جانتے ہیں کہ ہماری دو بیٹیاں ہیں۔ شادی کے پانچ سال بعد اولاد نہ ہونے کے باعث ہم نے روشنی کو گود لیا تھا اس کے بعد اللہ کا کرم ہوا اور نور پیدا ہوئی۔ یہ بات اب بھی ڈھکی چھپی رہتی، مگر سرور کا کہنا ہے اب روشنی کی شادی کا معاملہ ہے اس لئے آپ کو حقیقت بتا دی جائے۔ ثریا بیگم کی بات سن کر سمیرہ بانو اور ان کی بیٹیوں کے چہرے کے تاثرات بدل گئے۔ ایک بات میں آپ سے ضرور پوچھنا چاہوں گی۔ روشنی کس کی اولاد ہے، میرا مطلب ہے کہ اس کے والدین کون ہیں سمیرہ بانو کی بات سن کر ثریا بیگم نے ایک سرد آہ بھری۔ یہ حقیقت تو مجھے بھی نہیں معلوم، ہمیں یہ بچی ایک نرس کے ذریعے ملی تھی۔ اس کے والدین کون ہیں، یہ مجھے اور سرور کو بھی نہیں معلومٖ اف خدایا میں کس لڑکی کو بہو بنانے جارہی تھی۔ جانے وہ کس کا خون ہے، کسی کی ناجائز اولاد بھی ہوسکتی ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ میری کوئی نیکی کام آگئی، جو آپ کے منہ سے حقیقت نکل گئی۔ ندا، فائزہ اُٹھو ہمیں اس گھر میں شادی نہیں کرنی۔ سمیرہ بانو بگڑے ہوئے تیور لئے فوراً نکل گئیں۔ ان کے جاتے ہی روشنی فوراً ڈرائنگ روم میں آگئی۔ مما کہہ دیں یہ سب جھوٹ ہے، جو آپ نے سمیرہ آنٹی سے کہا ہے روشنی کی آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے۔ یہی حقیقت ہے۔ ایک نہ ایک دن تو مجھے یہ بتانا تھا۔ میں نے اور تمہارے پاپا نے تمہاری تربیت میں کوئی کمی چھوڑی ہے، جو تم اس طرح رو رہی ہو تم ہماری اولاد ہو اور رہو گی۔ ثریا بیگم نے اسے گلے سے لگاتے ہوئے تسلی دی۔ مگر روشنی کا مضطرب ذہن کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ وہ سرور احمد کی اولاد نہیں ہے تو آخر کس کی اولاد ہے۔ وہ ایک دفعہ اپنے حقیقی والدین سے ملنا چاہتی تھی کہ آخر انہوں نے کن حالات کے تحت اسے دوسروں کی جھولی میں ڈالا تھا۔ ایک ہفتے وہ شدید ڈپریشن میں مبتلا رہی۔ روشنی بیٹا یہ تم نے اپنی کیا حالت بنا رکھی ہے، جائو جاکر اپنا حلیہ درست کرو۔ سرور احمد نے بکھرے بالوں اور ملگجے کپڑوں میں ملبوس روشنی کو دیکھ کرکہا۔ پاپا میرا دل اچاٹ ہوگیا ہے۔ میں اس گھر میں نہیں رہنا چاہتی، مجھے آپ کسی فلاحی ادارے میں چھوڑ آئیں۔ روشنی بیٹا تمہیں اگر مجھ سے یا اپنی مما سے کوئی شکایت ہے تو بتائو، ان لوگوں کے سامنے اس حقیقت کو ظاہر کرنا ضروری تھا۔ ہمیں کیا پتا تھا کہ وہ لوگ رشتے سے انکار کردیں گے، مگر تم اس بات کو دل پر مت لو۔ پاپا مجھے اس رشتے کے ختم ہونے کا دکھ نہیں۔ ویسے بھی جو رشتہ مجھ سے جڑا نہیں، اس کے ہونے یا نہ ہونے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ میں صرف ایک بات جاننا چاہتی ہوں کہ میرے ماں، باپ کون ہیں اور اس سلسلے میں آپ میری مدد کرسکتے ہیں سرور احمد نے ایک نظر روشنی کی سوجھی ہوئی آنکھوں پر ڈالی، پھر کچھ سوچتے ہوئے بولے۔ سالوں پہلے کی راکھ کو کریدنے سے حاصل کیا ہوگا، الٹا تمہارے دکھ میں اضافہ ہوگا۔ آپ میرے دکھ کی پروا مت کریں، میں ایک دفعہ اپنے والدین سے ملنا چاہتی ہوں۔ آپ اسے میری آخری خواہش سمجھ لیں۔ روشنی ملتجیانہ انداز میں بولی۔ میں تمہاری خواہش پوری کرنے کی کوشش ضرور کروں گا۔ جہاں تک میرے علم میں ہے تمہارے باپ کا تمہاری پیدائش کے وقت کچھ اتاپتا نہیں تھا۔ میں تمہاری ملاقات سسٹر فیروزہ سے کروا دوں گا، وہی بتا سکتی ہے کہ تمہاری والدہ اب کہاں ہوں گی۔ پلیز پاپا آپ مجھے سسٹر فیروزہ سے ملوا دیں، میں سخت ٹینشن میں ہوں۔ اوکے میں بہت جلد تمہاری ان سے ملاقات کروا دوں گا۔ اب تم جائو، مجھے اپنی پہلے والی روشنی چاہئے۔ پاپا نے اس کے سر پر شفقت سے ہاتھ پھیرا تو وہ یکدم رونے لگی۔ ٭ ٭ ٭ استعجاب کے سمندر میں غوطہ زن ہوکر روشنی نے سسٹر فیروزہ کو دیکھا۔ شادی تو ایک جوا ہوتی ہے۔ ہار یا جیت یہ لڑکی کا مقدر جیت گئے تو کیا کہنا اور اگر ہار گئے تو زندگی ختم ہوجاتی ہے۔ سسٹر فیروزہ نے بات مکمل کی تو روشنی فوراً بول پڑی۔ تو آپ کے خیال میں میری ماما نے جو کچھ کیا، صحیح کیا، مجھے غیروں کی جھولی میں ڈال کر نئی زندگی شروع کردی۔ ان کے ساتھ جو کچھ ہوا، اس میں میرا کیا قصور تھا روشنی میں جانتی ہوں کہ تمہارے جذبات کو سخت ٹھیس پہنچی ہے۔ بہتر ہے کہ تم اپنی ماں سے ملنے کا خیال ذہن سے نکال دو، اس سے پہلے بھی سرور صاحب اور ان کی وائف کو تم اپنے ماں، باپ کا درجہ دیتی رہی ہو۔ تمہاری ماں نے جو کچھ کیا، اپنے والدین کے دبائو میں آکر کیا، اسے معاف کردو۔ میں ساری صورتحال بتا چکی ہوں کہ کن حالات میں اس نے یہ قدم اُٹھایا۔ سسٹر فیروزہ نے اسے سمجھانے کی کوشش کی۔ آنٹی میں آپ کی بات پر یقین کرلیتی ہوں۔ آپ ایک دفعہ مجھے میری ماما سے ملوا دیں۔ سسٹر فیروزہ نے بے بسی سے اس کی طرف دیکھا۔ روشنی کی آنکھوں میں چھپے کرب کو دیکھ کر انہوں نے نظریں چرا لیں۔ تمہاری ماما اب کہاں ہیں، میں نہیں جانتی۔ لاہور جانے کے بعد چند مہینوں تک ان کے خطوط آئے اس کے بعد انہوں نے یہ سلسلہ ختم کردیا۔ میرے پاس ان کا ایڈریس نہیں۔ اتنے بڑے شہر میں تم انہیں کیسے تلاش کرو گی۔ جس علاقے میں وہ رہتی تھیں، پتا نہیں اب وہ وہاں ہیں یا کہیں اور شفٹ ہوگئیں سسٹر فیروزہ کی بات سن کر روشنی کے چہرے پر افسردگی پھیل گئی۔ کیا میں کبھی اپنی حقیقی ماں کو نہیں دیکھ سکوں گی آپ نہیں جانتیں کہ میں اس وقت کس کیفیت سے گزر رہی ہوں۔ روشنی سرور صاحب نے مجھے سب کچھ بتا دیا ہے۔ میرے پاس تمہاری ماں کی تصویر ہے، تم چاہو تو وہ میں تمہیں دے سکتی ہوں۔ سسٹر فیروزہ نے کہا اور اُٹھ کر دوسرے کمرے میں چلی گئی۔ تھوڑی دیر بعد وہ لوٹی تو اس کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا۔ وہ لفافہ اس نے روشنی کی طرف بڑھا دیا۔ روشنی نے فوراً لفافے سے تصویر نکالی اور ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھنے لگی۔ ٭ ٭ ٭ آپ کی حرکتیں میری سمجھ سے باہر ہیں۔ ہر بات کا اچانک فیصلہ کرلیتے ہیں، اس کے نتیجے میں ہونے والے نقصان پر غور نہیں کرتے۔ روشنی ہماری اولاد نہیں، یہ بات اب تک چھپی تھی تو اسے چھپا ہی رہنے دیتے۔ فراز صاحب کی فیملی کے سامنے حقیقت بتانے کی کیا ضرورت تھی۔ دوسری غلطی آپ نے یہ کی مجھ سے پوچھے بغیر روشنی کو نرس سے ملوانے چلے گئے۔ روشنی اب اس گھر میں رہنے کو تیار نہیں۔ ثریا بیگم نے اپنے دل کا غبار نکالا۔ سرور احمد خاموشی سے ان کی بات سن رہے تھے۔ گفتگو مکمل ہوتے ہی کہنے لگے۔ میں نے جو کچھ کیا، بالکل ٹھیک کیا، اگر ہم فراز صاحب کی فیملی کو حقیقت بتائے بغیر روشنی کی شادی کردیتے تو کل کو بڑے مسئلے کھڑے ہوجاتے۔ سچائی چھپی نہیں رہتی۔ روشنی اگر لاہور جانا چاہتی ہے تو میں اسے منع نہیں کروں گا، اسے اپنی ماں سے ملنے کا اشتیاق ہے، ڈھونڈنے دو اسے اپنی ماں کو اس کی ماں کو اگر اسے اپنے پاس رکھنا ہوتا تو یوں ہمارے حوالے نہ کرتی۔ خود ہی چند مہینوں بعد واپس آجائے گی۔ ہم نے اپنی طرف سے اس کی تربیت میں کوئی کوتاہی نہیں کی، جس پر ہم شرمندہ ہوں۔ آپ یہ بات مان لیں اپنی اولاد اپنی ہوتی ہے۔ شکر ہے اللہ نے ہمیں ماہ نور کی شکل میں اولاد عطا کردی، ورنہ روشنی اس نے تو اپنے اوپر اجنبیت کا خول چڑھا لیا ہے۔ ثریا بیگم غصے میں بولیں۔ کول ڈائون بلاوجہ تم خود کو ٹینشن میں مبتلا کررہی ہو۔ روشنی بہت اچھی ہے۔ اس وقت وہ جس کیفیت سے گزر رہی ہے، اس کا رویہ ایسا ہی ہونا چاہئے۔ تم تیار نہیں ہوئیں، آج ہمیں راحیل کے گھر ڈنر پر جانا ہے۔ سرور احمد وال کلاک پر نظر ڈالتے ہوئے بولے۔ میں تیار ہونے جارہی ہوں۔ ویسے بھی میری تیاری میں بہت کم وقت لگتا ہے۔ ثریا بیگم نے اُٹھتے ہوئے کہا۔ ٭ ٭ ٭ وہ جون کی ایک گرم شام تھی۔ گرمی کسی عفریت کی مانند پنجے گاڑے ہوئے تھی۔ احد کا آج کا دن خاصا مصروف گزرا تھا۔ آفس سے گھر آتے ہی حبس زدہ موسم کے باعث اس نے پارک کا رخ کیا تھا۔ ویسے بھی پارک میں جانا اس کے معمولات میں تھا۔ وہ پارک میں اپنی مخصوص بینچ پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کی نظریں پارک کے داخلی گیٹ پر جمی ہوئی تھیں، تب ہی اسے ماہ وش آتی نظر آئی۔ اسے شدت سے ماہ وش کا انتظار تھا۔ وہ تقریباً روز ہی شام کو مغرب سے پہلے اس پارک میں آیا کرتی تھی۔ احد کی عادت تھی وہ آفس سے آنے کے بعد سیدھا پارک میں آبیٹھتا تھا۔ اسے ماہ وش پچھلے چند دنوں سے دکھائی دے رہی تھی۔ احد کا معمول تھا کہ وہ تالاب میں تیرتی بطخوں کو پاپ کارن کھلایا کرتا تھا۔ ایک روز وہ بطخوں کو پاپ کارن ڈال رہا تھا تب ماہ وش وہاں نزدیک بینچ پر بیٹھی ہوئی تھی۔ بطخوں کو پاپ کارن کی خاطر آپس میں لڑتا دیکھ کر اس نے خوب قہقہے لگائے۔ وہ پہلا دن تھا جب ماہ وش اور احد کا تعارف ہوا۔ اس دن کے بعد وہ روزانہ اسی مخصوص بینچ پر آبیٹھتی تھی۔ دونوں کچھ دیر اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے، ماہ وش کی عمر بائیس، تئیس سال سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ ایک دلکش اور جاذب نظر لڑکی تھی۔ لیکن احد کی اس میں دلچسپی کا سبب جذبۂ عشق ہرگز نہیں تھا۔ احد کی عمر پچاس کے قریب تھی۔ وہ ماہ وش سے اپنی گفتگو کو جذبہ اخلاق کی تسکین سے تعبیر کرتا تھا اور روزانہ شام میں وہ جب بھی پارک آتا، ماہ وش سے ضرور باتیں کرتا۔ آج وہ کچھ زیادہ ہی بے قراری سے اس کی آمد کا منتظر تھا۔ احد کی اس بے چینی کا سبب وہ حالات تھے جنہوں نے ایک نیا رخ اختیار کرلیا تھا۔ بات تھی ہی کچھ ایسی کہ احد سوچنے پر مجبور ہوگیا۔ ماہ وش آج صبح اسے اپنے آفس کی بلڈنگ میں دکھائی دی تھی۔ وہ عینا نامی لڑکی سے باتیں کرنے میں مصروف تھی۔ لنچ ٹائم میں احد نے عینا سے ماہ وش کے بارے میں پوچھا۔ سر وہ میری دور کی کزن ہے۔ وہ دراصل اس شہر میں اجنبی ہے، اس کے پاس ایک کار کا نمبر ہے، وہ اس کار کے مالک کی تلاش میں ہے۔ میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ کار رجسٹریشن آفس میں جاکر معلومات حاصل کرے، ہم لوگ موٹر کمپنی میں کام تو کرتے ہیں لیکن ہمارا رجسٹریشن سے دور دور تک کا واسطہ نہیں ہے۔ عینا تیزی سے بولی۔ عینا سے تھوڑی دیر گفتگو کرنے کے بعد احد اپنے کمرے میں چلا گیا۔ لنچ ٹائم کا وقت ختم ہوچکا تھا۔ احد کا آج کام کرنے کا بالکل موڈ نہیں بن رہا تھا۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ ماہ وش میری پرانی زیراستعمال کار کو ڈھونڈ رہی ہے۔ وہ کار میں کب کی بیچ چکا ہوں۔ ماہ وش نے پرسوں مجھے بھی کار کا ماڈل اور نمبر بتایا تھا اور کہا تھا کہ وہ اس کار کے مالک کو ڈھونڈ رہی ہے۔ آخر اس تلاش کی وجہ کیا ہے اچانک دروازے پر دستک ہوئی تو اس کے خیالات کا سلسلہ ٹوٹ گیا۔ اسی وقت چپراسی اندر داخل ہوا اور چائے رکھ کر چلا گیا۔ میں ماہ وش سے آج باتوں باتوں میں یہ معلوم کرنے کی کوشش کروں گا کہ وہ کار کے مالک کو کیوں ڈھونڈ رہی ہے چائے کا کپ اٹھاتے ہوئے احد نے فیصلہ کن انداز میں سوچا اور کام میں مصروف ہوگیا۔ شام کو پارک میں اپنی مخصوص بینچ پر بیٹھے ہوئے وہ ماہ وش کا منتظر تھا۔ اچانک وہ پارک کے دروازے سے داخل ہوتی دکھائی دی۔ اس کا رخ احد کی جانب تھا۔ چہرے پر شناسائی کے تاثرات لئے وہ تیزی سے قدم اُٹھاتی احد کی جانب آرہی تھی۔ ہیلو انکل کیسے ہیں آپ ماہ وش نے نزدیک پہنچ کر بینچ پر بیٹھتے ہوئے کہا۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ احد نے مسکراتے ہوئے کہا اور آسمان کی جانب دیکھنے لگا۔ کچھ بارش کے آثار نظر آرہے ہیں، لیکن اگر یہ بارش پارک سے ہمارے نکلنے کے بعد ہو تو اچھا ہے۔ ماہ وش نے اس دوران اپنے ہینڈ بیگ سے ایک چپس کا پیکٹ نکالا اور کھولنے میں مصروف ہوگئی۔ آپ لیں۔ اس نے پیکٹ احد کی طرف بڑھایا۔ نو تھینکس احد نے نفی میں سر ہلا دیا۔ تم تقریباً روز ہی یہاں نظر آتی ہو، اس کی کوئی خاص وجہ میں نے آپ کو بتایا تو تھا کہ اس شہر میں، میں کسی شخص کی تلاش میں آئی ہوں۔ میں کراچی کی رہنے والی ہوں۔ اچھا کبھی میں بھی وہاں رہا کرتا تھا لیکن یہ برسوں پرانی بات ہے۔کیا تم یہاں پہلی مرتبہ آئی ہو جی ماہ وش نے مختصر جواب دیا۔ یہ ایک اچھا شہر ہے۔ ویسے بھی تم نے سنا ہوگا جس نے لاہور نہیں دیکھا، وہ پیدا ہی نہیں ہوا۔ احد نے ہنس کر کہا۔ ہاں مجھے یہاں بڑی دلکشی اور رونق دکھائی دی ہے، انجوائے کررہی ہوں، لیکن ساتھ ہی مجھے ایک شخص کی تلاش ہے۔ مجھے امید ہے کہ میں جلد اُسے ڈھونڈنے میں کامیاب ہوجائوں گی۔ مجھے بائیس سال قبل سے اپنی کھوج کا آغاز کرنا پڑ رہا ہے، اسی لئے مجھے اتنی مشکل پیش آرہی ہے۔ ماہ وش نے فکرمند ہوتے ہوئے کہا۔ میرا خیال ہے کہ اس وقت تو تم شاید پیدا بھی نہیں ہوئی ہوں گی۔ احد نے کہا۔ میں اس وقت دنیا میں موجود تھی۔ میں نے آپ کو جس کار کے بارے میں بتایا تھا، وہ اس شخص کے پاس موجود تھی۔ اس شخص کی شادی ان ہی دنوں ہوئی تھی۔ مجھے احساس ہے کہ یہ معلومات بڑی مبہم ہیں، اس شخص کا سراغ لگانے کے لئے ناکافی لیکن مجھے یقین ہے کہ ایک دن میں ضرور اس شخص تک پہنچ جائوں گی۔ ماہ وش نے پریقین لہجے میں کہا۔ لیکن شاید ان ہی سے میرا کام بن جائے۔ ماہ وش کے اس انکشاف پر احد کی بے تابی یکدم کپکپی میں بدل گئی۔ وہ پریشان ہوگیا، اسے سکتہ سا ہوگیا۔ لگتا ہے کہ آپ میری باتوں سے بور ہوگئے ہیں۔ کچھ آپ کی بھی سننی چاہئے۔ آپ نے اپنے بارے میں نہیں بتایا کہ آپ کہاں جاب کرتے ہیں اپنے بارے میں، میں کیا بتائوں۔ میں ایک پرائیویٹ کمپنی میں کام کرتا ہوں، میرا کام بڑا تھکا دینے والا ہے۔ احد نے تھکی تھکی سی آواز میں بتایا۔ پرائیویٹ ملازمت تو بہت لوگ کررہے ہیں۔ یقینا آپ شادی شدہ ہوں گے احد نے خاموشی سے اثبات میں سر ہلا دیا۔ اس عمر میں شاید ہی کوئی مرد غیر شادی شدہ ہوتا ہو۔ ماہ وش نے تبصرہ کیا۔ کیا آپ یہاں کافی عرصے سے رہ رہے ہیں احد نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ تو ماہ وش کے بارے میں متجسس تھا اور گفتگو کا رخ بدل رہا تھا، اس نے اپنی کلائی پر بندھی گھڑی پر ایک نگاہ ڈالی اور پھر چونکنے کا تاثر دیتے ہوئے بولا۔ اوہ اتنا وقت گزر گیا باتوں میں دھیان ہی نہیں رہا۔ میرا خیال ہے کہ اب مجھے چلنا چاہئے۔ احد نے اُٹھتے ہوئے کہا اور پھر تیز تیز قدموں سے پارک کے دروازے کی جانب چل پڑا۔ ٭ ٭ ٭ اگلے دن صبح آفس جاتے ہوئے راستے بھر شک اور خوف کے ملے جلے جذبات احد کے ذہن میں گردش کرتے رہے۔ بات اب اتفاق سے کچھ آگے نکل چکی تھی۔ بائیس سال قبل اس کی شادی ہوئی تھی، کار کا نمبر بھی وہی تھا، جس کی ماہ وش کو تلاش تھی۔ احد آفس تو پہنچ گیا تھا، مگر اس کا ذہن کام کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ ماہ وش کی باتیں باربار اس کے ذہن میں کچوکے لگا رہی تھیں۔ آخر چھٹی سے ایک گھنٹے قبل وہ آفس سے نکلا اور گھر کی جانب روانہ ہوگیا۔ وہ گھر پہنچا تو اس کی بیوی فرح گھر کے صحن میں لگے پودوں کو پانی دینے میں مصروف تھی۔ وہ اسے دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔ ارے آپ آج جلدی گھر آگئے، خیریت تو ہے نا ہاں سب خیریت ہے۔ احد نے جواب دیا۔ دراصل آج مجھے صبح سے تھکن محسوس ہورہی تھی، سوچا کہ جلدی گھر جاکر آرام کرلوں۔ میں آپ کے لئے چائے بناتی ہوں۔ نہیں میں اپنے کمرے میں آرام کررہا ہوں، تم مجھے ڈسٹرب مت کرنا۔ ٹھیک ہے۔ فرح نے سر ہلا دیا۔ کمرے میں جاتے ہی احد نے کپڑے تبدیل کئے اور بستر پر لیٹ گیا۔ اس کا ذہن بائیس سال قبل ایک حادثے کی طرف چلا گیا۔ یہ حادثہ اس کی یادداشت پر اس طرح نقش تھا جیسے کل کی بات ہو۔ احد جب بھی وہ منظر یاد کرتا، اس کے کانوں میں ٹکرانے کی آواز اور عورت کی دلخراش چیخ گونجنے لگتی تھی، پھر سڑک کے کنارے عورت کی کچلی ہوئی لاش نگاہوں کے سامنے آجاتی۔ احد اس شام اپنی کار میں فرح کو اس کے رشتے دار کے گھر سے لینے جارہا تھا۔ ان دنوں بڑی شاہراہ پر کچھ کام ہورہا تھا اس لئے ٹریفک کا رخ موڑ دیا گیا تھا۔ ویسے بھی احد کچھ زیادہ تیز رفتاری سے کار چلا رہا تھا۔ اس نے جو متبادل راستہ اختیار کیا تھا، وہ بالکل نیا تھا۔ تب ہی اچانک ایک عورت اس کی کار کے سامنے آگئی۔ احد نے بریک لگانے کی کوشش کی تھی، لیکن کار کی رفتار تیز ہونے کے باعث کار اس عورت سے جاٹکرائی۔ یقینا اس حادثے کے بعد احد کو رک جانا چاہئے تھا، لیکن عورت کی لاش پر نگاہ پڑتے ہی احد کے اوسان خطا ہوگئے۔ اس حادثے کی رپورٹ درج کرانے کا مطلب مستقبل کی تباہی تھی اور وہ کسی صورت اپنی تباہی نہیں چاہتا تھا۔ غلطی اس عورت کی بھی تھی، وہ اچانک کار کے آئی تھی۔ احد جائے واردات سے فوراً فرار ہوگیا۔ اس حادثے کا کوئی عینی شاہد نہیں تھا۔ پولیس نے تفتیش کے بعد اس کیس پر کام بند کردیا تھا، لیکن اب احد کو یوں لگ رہا تھا کہ اس عورت کے اہل خانہ اور دوستوں نے ابھی تک اس نامعلوم قاتل کی تلاش کے سلسلے میں ہمت نہیں ہاری تھی اور وہ اتنی مدت گزرنے کے باوجود تلاش جاری رکھے ہوئے تھے۔ احد بستر پر لیٹا کروٹیں بدلتا ہوا اپنے ماضی سے جڑے اس اہم واقعہ کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ یہ سب سوچتے ہوئے اسے وقت گزرنے کا احساس نہیں ہوا تھا۔ آٹھ بجے فرح اسے کھانا کھانے کے لئے بلانے آئی تو وہ جاگ رہا تھا۔ آپ سوئے نہیں وہ حیرانی سے بولی۔ سونے کی بہت کوشش کی، مگر نیند نہیں آئی۔ احد بستر سے اُٹھتے ہوئے بولا۔ آپ ہاتھ، منہ دھو لیں، میں کھانا لگا رہی ہوں۔ فرح یہ کہتے ہوئے کمرے سے چلی گئی۔ آج فرح نے اس کی پسندیدہ ڈش فرائی فش اور سلاد تیار کی تھی، لیکن بائیس سال پرانے حادثے کی یاد نے احد کی بھوک ختم کردی تھی۔ کھانے کے دوران فرح اسے اپنی دن بھر کی کارگزاری سناتی رہی اور وہ غائب دماغی سے ہوں ہاں کرنے کے ساتھ سر ہلاتا رہا۔ اس نے کھانے سے جلد ہی ہاتھ کھینچ لیا اور نیوز چینل دیکھنے لگا۔ بظاہر اس کی نظریں ٹی وی پر تھیں لیکن ایک خیال اس کے ذہن پر مسلسل ہتھوڑے برسا رہا تھا کہ بالآخر ماہ وش اس حقیقت کا سراغ لگا لے گی کہ وہ کار اس وقت اس کے استعمال میں تھی، لیکن اس ہلاک ہونے والی عورت کا ماہ وش سے کیا رشتہ ہوسکتا ہے۔ کچھ دیر ٹی وی دیکھنے کے بعد احد سونے کے لئے اپنے بستر پر لیٹا۔ وہ رات بھر کروٹیں بدلتا رہا۔ اسے بمشکل تھوڑی دیر کے لئے نیند آئی۔ دوسرے روز صبح آفس پہنچنے کے بعد احد کی نگاہ باربار گھڑی کی جانب اُٹھتی رہی۔ وہ شام کا منتظر تھا۔ شام کو وہ مقررہ وقت پر آفس سے نکلا، گھر پہنچ کر کپڑے تبدیل کرنے کے بعد وہ پارک پہنچ گیا۔ جب وہ پارک میں داخل ہوا تو ماہ وش پہلے سے وہاں موجود تھی۔ کل آپ کہاں غائب تھے اس نے احد کو دیکھتے ہی پوچھا۔ گھر پر آرام کررہا تھا۔ تم سنائو کل کیا کرتی رہیں، تمہارا کل کا دن کیسا گزرا میں نے آپ سے کہا تھا نہ انکل کہ میں اس شہر میں جس مقصد کے تحت آئی ہوں، بہت جلد اس مقصد کو پا لوں گی۔ سمجھیں میں اپنی منزل کے قریب پہنچ گئی ہوں۔ میں نے جس کار کا ذکر کیا تھا، بائیس سال پہلے وہ جس کے پاس تھی، مجھے اس شخص کا نام اور پتا مل گیا ہے۔ ماہ وش پرجوش لہجے میں بتا رہی تھی۔ اس کی بات سنتے ہی احد کا سر چکرانے لگا، اسے پارک گھومتا دکھائی دینے لگا۔ اس نے فوراً ہی دونوں ہاتھوں سے بینچ تھام لی۔ آپ کی طبیعت تو ٹھیک ہے ماہ وش اس کی کیفیت دیکھ کر قدرے گھبرا گئی۔ گزشتہ رات سے سر درد کی شکایت ہے، رہ رہ کر درد کی ٹیس سی اُٹھتی ہے۔ اوہ اچھا اس نے مطمئن انداز میں گردن ہلائی۔ یہ شہر تمہارے لئے اجنبی ہے، تمہیں کسی بھی قسم کی مدد کی ضرورت ہو تو مجھ سے رابطہ کرسکتی ہو۔ ویسے تم کہاں رہائش پذیر ہو میں اپنی رشتے کی آنٹی کے پاس رہ رہی ہوں۔ آپ کا بہت شکریہ کہ آپ کو میرا اتنا خیال ہے۔ آپ اپنی وائف کے ساتھ آئیے گا، آنٹی کو بھی یقیناً آپ سے مل کر خوشی ہوگی۔ اتنا کہہ کر ماہ وش اپنی عارضی قیام گاہ کا پتا سمجھانے لگی۔ پارک سے نکل کر احد تھکے تھکے قدموں سے اپنے گھر کی جانب لوٹ گیا۔ گھر پہنچ کر فرح کے ساتھ ٹی وی دیکھتے ہوئے وہ سوچ میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے جو جرم بائیس سال قبل کیا تھا، اس کا بھانڈا پھوٹنے میں اب کوئی کسر باقی نہیں رہی تھی۔ کسی بھی لمحے اس پر قاتل ہونے کا داغ لگ سکتا تھا۔ وہ خود کو بے قصور ثابت کرنے کی جتنی چاہے کوشش کرتا، انسانی جان لینے کے جرم میں اسے سزا ضرور ملنی تھی۔ احد نے پانچ برس پہلے اپنی پرانی کار فروخت کردی تھی، اس کے باوجود اسے اندر ہی اندر جیل جانے کا خوف کھائے جارہا تھا۔ اس عمر میں جیل کی صعوبتیں برداشت کرنے کا تصور ہی خوفناک تھا۔ سنو فرح میں ذرا ارسلان کے گھر تک جارہا ہوں، شاید مجھے دیر ہوجائے، تم کھانے پر میرا انتظار مت کرنا۔ اچانک ہی احد اُٹھ کھڑا ہوا۔ ٹھیک ہے۔ فرح نے سر ہلایا۔ احد نے کار کی چابی اُٹھائی اور گھر سے باہر نکل گیا۔ اس کی فرح سے شادی کی وجہ ذہنی ہم آہنگی تھی۔ وہ ایک دوسرے کے احساسات اور جذبات کا بخوبی خیال رکھتے تھے۔ یہی وجہ تھی احد جب کسی دوست سے ملنے جاتا تو فرح کوئی سوال جواب نہیں کرتی تھی۔ شادی کے ایک سال بعد ان کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا تھا اور پیدائش کے فوراً بعد چل بسا تھا، اس کے بعد فرح دوبارہ ماں نہ بن سکی۔ گزرتے وقت کے ساتھ دونوں میاں، بیوی نے قسمت کی اس ستم ظریفی پر صبر کرلیا تھا۔ احد گھر سے باہر نکل کر کار میں سوار ہوگیا، لیکن اس کا رخ اپنے دوست ارسلان کے گھر کے بجائے اس علاقے کی جانب تھا، جہاں ماہ وش کی رہائش تھی۔ وہ جگہ احد کے گھر سے تھوڑے فاصلے پر تھی۔ احد نے اپنی کار بلڈنگ کے باہر پارک کی۔ ماہ وش کا فلیٹ فرسٹ فلور پر تھا۔ ڈور بیل کے جواب میں ماہ وش نے دروازہ کھولا۔ اس وقت وہ ڈھیلے ڈھالے کپڑوں میں ملبوس تھی، سر پر دوپٹہ لپٹا ہوا تھا۔ وہ حیرت زدہ سی کھڑی تھی۔ میں بغیر اطلاع آنے پر معافی چاہتا ہوں۔ احد نے کہا۔ میں دراصل یہاں سے گزر رہا تھا، سوچا تم سے ملاقات کرتا چلوں۔ بہت اچھا کیا جو آپ آگئے۔ ماہ وش نے راستہ دیا اور لائونج میں رکھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ تمہاری آنٹی کہاں ہیں احد نے کمرے کی طرف نظریں دوڑاتے ہوئے کہا۔ آنٹی آتی ہی ہوں گی۔ ہمارے جاننے والوں میں کسی کی وفات ہوگئی ہے، وہ وہیں گئی ہیں۔ میں آپ کے لئے چائے یا ٹھنڈا لائوں نہیں شکریہ میں بے وقت اس طرح کی چیزیں پینا پسند نہیں کرتا۔ اوہ سوری میں بھول گئی تھی کہ آپ اپنی ڈائٹ کے معاملے میں خاصے محتاط ہیں۔ احد نے ماہ وش کی بات سن کر مسکرانے کی کوشش کی، لیکن اس کے ہونٹوں نے حرکت کرنے سے انکار کردیا۔ اس کا حلق خشک ہورہا تھا۔ اس نے اپنا حلق تر کیا اور قدرے ہکلاتے ہوئے بولا۔ جس شخص کی تلاش میں تم یہاں آئی ہو، اس کا نام تم نے نہیں بتایا۔ احد مرتضیٰ نام ہے ان کا، مجھے ان کا پتا بھی معلوم ہوگیا ہے، آپ کے ہم نام ہونے کے ساتھ ساتھ وہ آپ کے علاقے کے رہائشی بھی ہیں۔ ہوں تو میرا اندیشہ درست ثابت ہوا۔ احد نے دل ہی دل میں کہا۔ یہ لڑکی میری تلاش میں تھی اور اب یہ مجھ تک پہنچ بھی گئی ہے۔ یہ سوچتے ہی احد کے حلق میں کانٹے سے چبھنے لگے۔ مجھے پیاس لگ رہی ہے، ٹھنڈا پانی ملے گا ماہ وش یہ سنتے ہی مسکرا دی اور فریج سے پانی کی بوتل نکالنے لگی۔ احد کا ذہن تیزی سے سوچنے لگا کہ اب اسے کیا کرنا ہے۔ وہ اس عمر میں جیل نہیں جانا چاہتا تھا۔ جیل سے بچنے کا واحد حل یہ تھا کہ وہ ماہ وش کو ٹھکانے لگا دے۔ ماہ وش پانی کا گلاس لے آئی تو اس نے ایک سانس میں خالی کردیا۔ میرا خیال ہے کہ مجھے چائے پی لینی چاہئے۔ پانی کا گلاس میز پر رکھتے ہوئے وہ بولا۔ میں آپ کے لئے چائے بناتی ہوں۔ ماہ وش لائونج سے ملحق کچن میں چائے بنانے میں مصروف ہوگئی۔ احد ماہ وش کا گلا دبانے کے ارادے سے اُٹھا کہ اچانک ٹیلی فون کی گھنٹی نے کمرے میں چھائی پراسرار خاموشی توڑ دی۔ ماہ وش کچن سے نکل کر لائونج میں رکھے ٹیلی فون کی جانب متوجہ ہوگئی۔ احد اُٹھنا ہی چاہتا تھا کہ ماہ وش نے فون رکھ دیا۔ احد کا تنا ہوا جسم صوفے میں دھنس کر رہ گیا۔ رانگ نمبر تھا، میں ابھی چائے لاتی ہوں۔ ماہ وش دوبارہ کچن میں چلی گئی۔ احد کا ذہن کشمکش کا شکار تھا۔ اس کا ہاتھ بار بار اُٹھتا اور رک جاتا۔ وہ اپنے ارادے کو پایۂ تکمیل تک پہنچانے کی خود میں ہمت نہیں پا رہا تھا۔ ماہ وش چائے لے کر آئی۔ اسی وقت اس کی آنٹی بھی آگئیں۔ احد کو دیکھ کر ان کے چہرے پر ناگواری پھیل گئی۔ ان کے چہرے سے یوں ظاہر ہورہا تھا کہ انہیں احد کا اپنے فلیٹ پر آنا سخت برا لگا ہے۔ احد نے چائے پی کر کپ خالی کیا اور ماہ وش کی آنٹی کو خدا حافظ کہہ کرفلیٹ سے باہر نکل آیا۔ باہر نکلتے ہی وہ ٹھنڈی ہوا اپنے اندر اتارنے لگا۔ اسے اپنا دم گھٹتا ہوا محسوس ہورہا تھا۔ کچھ دیر بعد اس کی طبیعت بحال ہوئی تو وہ اپنی کار کی جانب بڑھ گیا۔ کار چلاتے ہوئے وہ سخت مضطرب تھا۔ گھر پہنچ کر اس نے اپنی قسمت کو کوسنا شروع کردیا۔ اس نے ماہ وش کو ٹھکانے لگانے کا مصمم ارادہ کرلیا تھا، لیکن عین وقت پر فون کی گھنٹی نے سارا کام بگاڑ دیا، پھر بھی اگر وہ ہمت کرلیتا تو چائے بنانے کے دوران ماہ وش پر قابو پا کر اس کا گلا گھونٹ دیتا، لیکن اگر اس دوران اس کی آنٹی آجاتیں تو لینے کے دینے پڑ جاتے۔ یہ سوچ کر وہ پریشان ہوتا رہا۔ اسے اپنے چاروں طرف پھانسی کے پھندے ناچتے دکھائی دیتے رہے۔ رات کے کسی پہر اس نے پختہ ارادہ کرلیا کہ وہ کل ایک بار پھر قسمت آزمانے کی کوشش کرے گا۔ وقت بے حد کم رہ گیا تھا۔ ماہ وش نے اس کا پتا ڈھونڈ نکالا تھا اور وہ کسی بھی لمحے پولیس کو حالات سے باخبر کرکے تباہی کا سامان پیدا کرسکتی تھی۔ برسوں پہلے کیا ہوا جرم ایک لمحے میں سامنے آجاتا۔ کیا بات ہے میں کل سے یہ بات محسوس کررہی ہوں کہ آپ کچھ پریشان سے ہیں فرح نے اسے خلاف معمول کھویا کھویا سا پایا۔ آنکھوں میں بے خوابی تھی، چہرے پر تھکن کے آثار تھے۔ کوئی خاص وجہ نہیں، وہی دفتر کے مسئلے مسائل ہیں، کام کا پریشر دن بدن بڑھتا جارہا ہے۔ یہ کہتے ہوئے احد نے سینڈوچ اُٹھایا اور کھانے لگا۔ کام یقینا اہم ہے لیکن آپ کی کیفیت سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ آپ کو آرام کی سخت ضرورت ہے۔ آج آپ چھٹی کرلیجئے اور گھر پر آرام کیجئے۔ یہ کہتے ہوئے فرح کو بخوبی احساس تھا کہ احد اس کی بات پر کان نہیں دھرے گا۔ بیمار ہونے کے باوجود وہ باقاعدگی سے آفس جاتا تھا۔ میں بھی یہی سوچ رہا ہوں کہ آج چھٹی کرلوں، طبیعت عجیب بوجھل سی ہورہی ہے۔ احد نے فوراً ہامی بھرلی تو فرح کی حیرت کی انتہا نہیں رہی۔ کہاں تو احد شدید بیماری کی حالت میں دوا کھا کر آفس کے لئے نکل جاتا تھا اور آج وہ فوراً چھٹی کرنے کے لئے تیار ہوگیا تھا۔ اچھی بات ہے، آرام کرنے سے آپ کی طبیعت بہتر ہوجائے گی۔ آپ آفس فون کرکے بتا دیں۔ فرح کی بات سن کر احد نے اثبات میں سر ہلا دیا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر وہ دونوں تھوڑی دیر باتیں کرتے رہے، پھر فرح نے برتن اُٹھائے اور کچن میں جاکر صفائی میں مصروف ہوگئی۔ اس کے جانے کے بعد احد نے آفس کا نمبر ملایا اور فون پر بات کرنے لگا۔ اتنے میں ڈور بیل بجی۔ فرح باتھ روم میں تھی، احد اُٹھ کر گیٹ کی جانب بڑھ گیا۔ باہر کوریئر سروس والا موجود تھا۔ اس نے ایک لفافہ احد کی جانب بڑھایا اور سائن کروا کے چلا گیا۔ اس کے جانے کے بعد احد لفافے کو پلٹ کر دیکھنے لگا۔ خط فرح کے نام تھا۔ بھیجنے والے کا نام پڑھتے ہی احد ٹھٹھک گیا۔ ماہ وش وہ بڑبڑایا۔ پھر اچانک اس کے ذہن میں طرح طرح کے خدشات ابھرنے لگے۔ وہ لفافہ لئے اپنے کمرے میں آگیا اور کمرے کا دروازہ لاک کرکے خوف زدہ نگاہوں سے لفافے کو گھورنے لگا۔ آخر ماہ وش نے یہ خط فرح کے نام کیوں تحریر کیا ہے۔ کیا وہ فرح کی ہمدردیاں حاصل کرکے اسے ہر ممکن طریقے سے زک پہنچانا چاہتی ہے اسی لمحے فیصلہ کیا کہ اسے یہ خط پڑھنا چاہئے۔ وہ احتیاط سے لفافہ کھولنے میں مصروف ہوگیا کہ اسے دوبارہ بآسانی بند کیا جاسکے، بلکہ اس کے کھولے جانے کا احساس ہی نہ ہو۔ لفافے کے اندر خط اور ایک تصویر تھی۔ احد نے تصویر باہر نکالی تو ایک لمحے کے لئے اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا۔ تصویر ماہ وش کی تھی۔ وہ ٹکٹکی باندھے تصویر کو یوں دیکھنے لگا، جیسے پہلی بار اس نے ماہ وش کو دیکھا ہو، جبکہ اس کی ماہ وش سے روزانہ ہی ملاقات ہوتی تھی۔ تصویر ایک طرف رکھ کر وہ خط پڑھنے میں مصروف ہوگیا۔ اس دوران اس کے چہرے کی رنگت بار بار بدلتی رہی۔ خط پڑھنے کے بعد وہ چند لمحوں تک گہری سوچ میں ڈوبا رہا، پھر ایک نئے عزم سے اُٹھ کھڑا ہوا۔ اس نے تصویر اور خط دوبارہ لفافے میں رکھ دیئے اور لفافہ احتیاط سے دوبارہ بند کردیا، کچھ اس طرح کہ کھولے جانے کا شبہ نہیں ہوسکتا تھا۔ احد نے نہا کر کپڑے تبدیل کئے اور اپنے کمرے سے باہر نکل آیا۔ فرح گھر کی صفائی میں مصروف تھی۔ کیا ہوا آپ سوئے نہیں فرح نے احد کو دیکھتے ہی پوچھا۔ نہیں نیند نہیں آرہی تھی۔ طبیعت کچھ گری گری سی ہے، میں نے سوچا ڈاکٹر سے دوا لے آئوں۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے کہ آپ کو ڈاکٹر کے پاس جانے کا خیال آگیا، ورنہ آپ کو زبردستی لے جانا پڑتا ہے۔ کیا طبیعت زیادہ خراب ہورہی ہے فرح یکدم فکرمند ہوگئی۔ نہیں گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔ میں نے سوچا احتیاطاً چیک اپ کرا لوں، نیند بھی نہیں آرہی۔ یہ کوریئر والا تمہارے لئے دے گیا تھا۔ احد نے لفافہ فرح کی طرف بڑھایا۔ اوکے میں چلتا ہوں۔ احد کمرے سے نکل کر گیٹ کی جانب چل پڑا۔ چند لمحوں بعد وہ کار میں بیٹھا اس علاقے کی جانب بڑھ رہا تھا، جہاں ماہ وش کا قیام تھا۔ ٭ ٭ ٭ احد کے گھر سے نکلتے ہی فرح نے لفافہ چاک کیا۔ یہ خط اس کے نام تھا لیکن بھیجنے والے کے نام سے وہ قطعی نامانوس تھی۔ لفافہ کھولتے ہی اس میں سے خط اور تصویر نکلی۔ فرح نے خط پڑھنا شروع کیا۔ خط کے ابتدائی جملے پڑھتے ہی اسے اچانک شدید ذہنی جھٹکا لگا۔ جوں جوں وہ خط پڑھتی گئی، اس کا سر بری طرح چکرانے لگا۔ خط میں لکھا تھا۔ آپ کے بارے میں مجھے کوئی معلومات نہیں تھیں، بس آپ کا نام معلوم تھا۔ اسی وقت فرح کی نگاہ تصویر پر جم گئی۔ وہ ایک حسین لڑکی تھی بالکل بابر کی طرح اتنے سال گزرنے کے باوجود وہ یہ تلخ حقیقت بھول نہیں سکی تھی۔ کتنی کوشش کی تھی اس نے کہ اس تلخ حقیقت کو اپنی یادداشت کے قبرستان میں دفن کردے، لیکن چاہنے کے باوجود وہ دفن کرنے میں ناکام رہی تھی۔ یہ احساس اسے اندر ہی اندر کچوکے لگاتا رہتا تھا کہ وہ جیتے جی اپنے ماضی سے فرار حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی تھی۔ اس کی نظریں ایک بار پھر خط کی تحریر پر مبذول ہوگئیں۔ میرے کانوں میں پہلی بار جب میری ذات کی حقیقت کا زہر گھولا گیا تو مجھے اپنے آپ سے نفرت سی ہوگئی۔ مجھے شدید ذہنی صدمہ پہنچا۔ میں یہ جاننا چاہتی تھی کہ آخر ایسی کون سی مجبوری تھی جس کی وجہ سے آپ نے مجھے دوسروں کے حوالے کیا۔ کیا میں آپ کی ناجائز اولاد تھی جس سے آپ جان چھڑانا چاہتی تھیں۔ سسٹر فیروزہ سے ملنے کے بعد مجھے تمام حقیقت کا پتا چل گیا اور یہ بات سمجھ میں آگئی کہ آپ نے اس وقت جو کچھ کیا، وہ کیوں اور کس لئے کیا تھا۔ اس وقت حالات ہی ایسے تھے کہ آپ یہ سب کرنے کے لئے مجبور تھیں۔ حقیقت جاننے کے بعد میرے دل میں آپ کے لئے نفرت کے بجائے ہمدردی نے جگہ لے لی۔ فرح کی ٹانگوں کی طاقت جواب دینے لگی۔ وہ فوراً ایک قریبی صوفے پر بیٹھ گئی۔ اس کے ہاتھ تصویر کو تھامے ہوئے کپکپا رہے تھے۔ وہ دیر تک تصویر کو گھورتی رہی، پھر دوبارہ خط پڑھنے لگی۔ میں نے سسٹر فیروزہ سے کہا کہ وہ مجھے آپ کا ایڈریس دے دے، مگر اسے آپ کے ایڈریس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ بقول اس کے آپ کا شادی کے شروع دنوں کے بعد ان سے رابطہ رہا تھا، بعد میں یہ سلسلہ ختم ہوگیا تھا۔ آپ شادی کے بعد لاہور چلی گئی تھیں۔ کلاس فیلو ہونے کے ناتے آپ نے سسٹر فیروزہ کو شادی پر انوائٹ کیا تھا۔ انہوں نے اس موقع پر شرکت نہیں کی تھی۔ آپ نے لاہور جانے کے بعد شروع میں سسٹر فیروزہ سے خط و کتابت کی تھی اور اپنی ایک تصویر بھی بھیجی تھی، جس میں آپ کار کے پچھلے حصے پر بیٹھی ہوئی ہیں۔ اپنی اس تصویر کے بارے میں آپ نے خط میں بتایا تھا کہ آپ کے شوہر نے نئی کار خریدی ہے اور آپ اپنے شوہر کے ساتھ بہت خوش ہیں۔ اس تصویر میں آپ جس کار پر بیٹھی ہوئی تھیں، اس کی نمبر پلیٹ کے ذریعے میں آپ کا پتا چلانے میں کامیاب ہوئی ہوں اور اب ہر قیمت پر میں آپ سے ملنا چاہتی ہوں۔ مجھے جس جوڑے نے گود لیا تھا، وہ یقیناً میرے مما، پاپا رہیں گے، اس کے باوجود میں آپ کو دیکھنا، آپ سے باتیں کرنا فرح کی آنکھیں دھندلا گئیں۔ اتنے میں اس کے کانوں میں احد کی آواز گونجی تو وہ اچھل پڑی۔ وہ خط پڑھنے میں اس حد تک منہمک تھی کہ اسے احد کی آمد کا احساس نہیں ہوسکا تھا۔ کیا خط میں کوئی بری خبر ہے جسے پڑھ کر تمہیں اتنا رونا آرہا ہے فرح کو احساس ہوگیا کہ احد نے اس کی اندرونی کیفیت بھانپ لی ہے، پھر بھی وہ اپنے جذبات کو چھپانے کی کوشش کرنے لگی۔ ایسی تو کوئی خبر نہیں آپ اس طرح اچانک وہ بوکھلائے ہوئے لہجے میں بولی۔ میرا گھر ہے، لاک کی چابی میرے پاس ہوتی ہے۔ آج سے پہلے تو تم مجھے دیکھ کر اس طرح سے نہیں گھبرائیں مجھے کچن میں کام ہے۔ فرح نظریں چراتی ہوئی جانے کے لئے مڑی تو احد نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ بیٹھ جائو یہاں اور بتائو کیا بات ہے تم کیا سمجھتی ہو اپنا ماضی مجھ سے چھپا لو گی۔ تم سے پہلے یہ خط میں پڑھ چکا ہوں۔ کیا آپ تمام حقیقت جان چکے ہیں فرح نے ہونق زدہ لہجے میں کہا۔ وہ راز جو ایک مدت سے اس کے ضمیر پر بوجھ بنا ہوا تھا اور اس کے احساسات پر غالب آگیا اور وہ جذبات میں آکر رونے لگی۔ احد میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ میں کس طرح آپ کو بتائوں۔ یہ ایک ایسی بات ہے جو مجھے بہت پہلے آپ کو بتا دینی چاہئے تھی۔ اتنا کہہ کر فرح کچھ دیر خاموش رہی پھر خود کو سنبھالتے ہوئے دوبارہ بولنا شروع کیا۔ احد بابر سے میری ملاقات اپنی سہیلی کے گھر پر ہوئی تھی۔ اس کے بعد ہماری دوستی اتنی بڑھی کہ ہم دونوں نے شادی کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے بابر سے کہا کہ وہ اپنے بڑوں کو رشتے کے لئے بھیجے مگر اس نے صاف منع کردیا کہ اس کے گھر والے مجھ سے اس کی شادی کے لئے کبھی راضی نہ ہوں گے۔ وجہ اس کی بچپن سے طے شدہ شادی تھی اور اسے اپنی تایازاد بہن سے شادی کرنا منظور نہیں تھا۔ ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ میں یہ بات سن کر اس سے دور ہوجاتی، مگر میں اس کی محبت میں ایسی گرفتار تھی کہ میں نے بابر سے کورٹ میرج کا فیصلہ کرلیا۔ فرح سانس لینے کے لئے رکی۔ احد کی نظریں اسے مسلسل گھور رہی تھیں۔ وہ نظریں چراتے ہوئے دوبارہ کہنے لگی۔ میں نے گھر سے بھاگ کر بابر سے شادی کرلی، مگر یہ شادی ایک ہفتے میں ختم ہوگئی۔ بابر کے تایا کو ہماری شادی کی خبر ہوگئی اور انہوں نے اس پر دبائو ڈالا کہ وہ مجھے فوراً طلاق دے۔ مجھے امید تھی کہ بابر کسی قسم کے دبائو میں نہیں آئے گا، لیکن اس وقت میرا مان ٹوٹ گیا، جب اس نے طلاق کے پیپر پر سائن کردیئے۔ اس وقت مجھے اپنی حماقت کا احساس ہوا۔ میں نے جو جذباتی قدم اُٹھایا تھا، اس کا خمیازہ بہرحال بھگتنا تھا۔ میں کہاں جاتی، مجبوراً اپنے والدین کے گھر واپس لوٹ گئی۔ میرے ماں، باپ نے میرے گھر سے جانے کی خبر کو خفیہ رکھا تھا۔ محلے والوں کو یہ بتایا تھا کہ میں اپنی خالہ کے گھر لاہور گئی ہوں۔ گھر پہنچتے ہی میں نے امی، ابو سے معافی مانگی۔ اکلوتی اولاد ہونے کے ناتے انہوں نے مجھے قبول کرلیا، مگر میرے والدین اس وقت دوبارہ ذہنی اذیت میں مبتلا ہوگئے جب انہیں میرا پائوں بھاری ہونے کی خبر ملی۔ امی نے یہ خبر سنتے ہی فیصلہ سنا دیا کہ اس بچے کو دنیا میں نہیں آنا چاہئے۔ اس وقت امی کو یہ نہیں پتا تھا کہ قدرت کو کچھ اور ہی منظور ہے۔ امی مجھے جس لیڈی ڈاکٹر کے پاس لے کر گئیں، اس نے ابارشن کرنے سے صاف منع کردیا، ساتھ یہ بھی تنبیہ کردی کہ اگر اس طرح کی کوشش کی گئی تو دن زیادہ ہونے کی وجہ سے جان بھی جاسکتی ہے۔ مجبوراً میرے والدین اپنے ارادے سے باز آگئے مگر یہ بات طے تھی کہ بچے کو پیدا ہوتے ہی کہیں پھینک دیا جائے، مگر اس کی نوبت نہیں آئی۔ میری دوست فیروزہ جو ایک ہاسپٹل میں نرس تھی، اسی نے میرا کیس کیا اور بچی کو بے اولاد جوڑے کے حوالے کردیا۔ میں بھی مطمئن تھی کہ میری بچی صحیح لوگوں کے پاس ہے، جس کی انہیں قدر ہے۔ میں نے فیروزہ سے بعد میں ہر قسم کا رابطہ منقطع کرلیا، مگر مجھے کیا پتا تھا کہ زندگی کے کسی موڑ پر میری بیٹی دوبارہ میری زندگی میں شامل ہوجائے گی۔ تم اتنی گہری عورت ہوگی، مجھے اندازہ نہیں تھا۔ اپنی زندگی کا اتنا اہم راز تم نے مجھ سے چھپایا۔ افسوس مجھے تمہارے والدین پر ہے، کس قدر دھوکے باز تھے وہ احد ایک پھٹ پڑا۔ احد پلیز میں نے کئی بار چاہا کہ آپ کو بتا دوں مگر بکواس بند کرو۔ میرے سامنے کوئی صفائی پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ احد نے اس کی بات کاٹ دی۔ مجھے معاف کردیں۔ فرح نے التجا کی۔ معافی تم کیا سمجھتی ہو کہ جو کچھ تم نے کیا، وہ قابل معافی ہے۔ ہرگز نہیں۔ احد نے اسے پرے دھکیلا اور غصے سے باہر نکل گیا۔ ٭ ٭ ٭ فرح صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ کل دن میں پیش آنے والے واقعہ کے بعد اس نے احد سے کئی بار معافی مانگی تھی، مگر اس نے اسے بری طرح جھڑک دیا تھا۔ دوپہر کے دو بج رہے تھے۔ وہ گہری سوچ میں گم تھی کہ اسے ماہ وش سے ملنا چاہئے یا نہیں ذہن احد کے رویئے کی وجہ سے تذبذب کا شکار تھا کہ کہیں احد اسے طلاق نہ دے دے۔ ذہن میں طرح طرح کے خدشات اُبھر رہے تھے۔ سوچتے سوچتے اس کی آنکھیں دھندلا گئیں۔ کل سے مستقل رونے کے باعث اس کی آنکھیں متورم ہورہی تھیں۔ وہ اُٹھی اور لائونج میں لگے واش بیسن میں منہ دھونے لگی۔ اتنے میں اسے اپنے شانے پر ہلکا سا دبائو محسوس ہوا۔ احد آپ نے مجھے معاف کردیا اس نے مڑے بغیر کہا۔ وہ احد کی نگاہوں کا سامنا کرنے سے کترا رہی تھی۔ وہ نہ جانے ہاتھوں کا لمس تھا یا کوئی اور احساس کہ فرح نے گردن گھمائی۔ اس کی دھندلائی ہوئی آنکھوں نے ماہ وش کو دیکھا۔ ایک لمحے کے لئے وہ کچھ نہ سمجھ سکی۔ یکدم اسے حیرت کا جھٹکا لگا۔ ماہ وش اپنی تمام تر رعنائیوں کے ساتھ اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس نے بے اختیار اسے گلے سے لگا لیا۔ اس نے ایک نگاہ احد پر ڈالی۔ احد کے ہونٹوں پر پیار بھری مسکراہٹ رقصاں تھی۔ ماہ وش مجھے معاف کردو بیٹا بعض اوقات انسان حالات کے سامنے بے بس ہوجاتا ہے۔ میں نے جذبات میں آکر جو قدم اُٹھایا، اس کی سزا تمہیں نہیں ملنی چاہئے تھی۔ فرح نے اسے چومتے ہوئے کہا۔ اب تم ہمیشہ میرے پاس رہوگی۔ میں تمہیں خود سے دور نہیں کروں گی۔ ماہ وش بولو تم رہو گی نہ میرے پاس ماہ وش نے ایک نظر احد پر ڈالی۔ آپ پاپا سے تو پوچھ لیں، انہیں میرے یہاں رہنے پر کوئی اعتراض تو نہیں۔ ویسے ماما آپ مجھے روشنی کہہ سکتی ہیں۔ میرے تمام جاننے والے مجھے اسی نام سے پکارتے ہیں۔ مجھے اگر تمہارے رہنے پر کوئی اعتراض ہوتا تو میں تمہیں اپنے ساتھ لے کر کیوں آتا۔ تم ماں، بیٹی آپس میں باتیں کرو، میں اپنے کمرے میں جاتا ہوں۔ دن کیسے گزرا، احد کو پتا ہی نہیں چلا۔ رات کو بستر پر لیٹا ہوا وہ دوبارہ اپنے ماضی سے جڑے واقعے کے بارے میں سوچ رہا تھا۔ برسوں گزر جانے کے باوجود یہ واقعہ اس کے ذہن سے چپک کر رہ گیا تھا۔ ایک خوف ہمیشہ اس کے ذہن پر مسلط رہتا تھا۔ کیا اس خوف سے نجات کا کوئی ذریعہ ہے اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔ اعتراف جرم دل کے کسی گوشے سے آواز ابھری۔ اسی وقت احد نے فیصلہ کرلیا کہ وہ صبح ہوتے ہی تھانے جاکر اپنا جرم قبول کرلے گا، اسی طرح اس کے دل کا بوجھ ہلکا ہوسکتا ہے۔ اس نے اپنی آنکھیں موند لیں اور خود کو آنے والے حالات کے لئے تیار کرلیا۔ ختم شد
null
null
null
null
403
https://www.urduzone.net/musavvir-episode-5/
نینا نے جواب میں سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ مسز ایرچ کیا کیون اس رات یہاں آیا تھا نہیں میں آپ کو پہلے بھی بتا چکی ہوں۔ کیا آپ کے پاس کسی معروف کمپنی کا لمبا کوٹ ہے ہاں میرے پاس ایسا کوٹ تھا لیکن میں نے وہ کسی کو دے دیا ہے۔ ہوں اس نے لمبی ہنکاری بھری۔ میرا خیال ہے کہ آپ کو کڑی تفتیش کا سامنا کرنا پڑے گا، کیونکہ لاش کے ساتھ اگلی سیٹ پر ہمیں ایک لیڈیز کوٹ ملا ہے۔ آپ کو اس کوٹ کو بھی شناخت کرنا ہوگا۔ کیا یہ وہی ہے جو آپ نے کسی کو دے دیا تھا یا کوئی اور کوٹ ہے۔ ٭ ٭ ٭ ایک ہفتے بعد وہ ایرچ کے ساتھ اسٹریچر کے پاس کھڑی تھی۔ جس پر کیون کی لاش پڑی تھی۔ نینا کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا رہا تھا۔ اگرچہ کیون کا چہرہ کافی بگڑ چکا تھا لیکن پھر بھی اس کی ستواں ناک، چوڑا ماتھا اور سرخ بال پہچانے جارہے تھے۔ نینا کو شادی کے لمحات یاد آرہے تھے، جب فادر کہہ رہا تھا کہ نینا اور کیون زندگی کے ساتھی ہیں۔ صرف موت ہی انہیں جدا کرسکتی ہے۔ اوہ خدایا کیون تم یہاں کیوں آئے تھے وہ شدید تاسف سے سوچ رہی تھی۔ کاش اس نے کیون کو اس حالت میں نہ دیکھا ہوتا۔ جب وہ زندگی سے اتنا دور جا چکا تھا کہ پلٹ کر دیکھنا بھی محال تھا۔ مسز ایرچ کیا آپ نے شناخت کرلیا شیرف نے پوچھا۔ ہاں نینا نے بمشکل چند الفاظ اُگلے۔ یہ کیون ہیں، میرے سابقہ شوہر اس کے منہ سے نہ جانے کیوں یہ جملہ نکل گیا۔ نینا نے اپنے عقب میں ایرچ کی طنزیہ ہنسی کی آواز سنی تو وہ چونکی۔ اس نے پلٹ کر دیکھا مگر وہ جا چکا تھا۔ اس کے قدموں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ جب نینا کار تک پہنچی تو وہ وہاں موجود تھا۔ اس کا چہرہ کسی پتھر کی طرح سخت تھا۔ اس نے راستے میں اس سے کوئی بات نہیں کی۔ تفتیش کے مراحل بہت اکتا دینے والے اور پریشان کن تھے۔ کوئی اس کا ساتھ دینے والا نہیں تھا۔ سوالات اتنے عجیب تھے کہ وہ ان کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ وہ اس سے پوچھ رہے تھے کہ اس کا کوٹ کیون کی کار میں کیسے پہنچا کیون کے ہاتھ میں ان کے گھر کی چابی کس طرح آئی تھی اور ایسے ہی سوال جن کا جواب نفی میں تھا لیکن اس پر یقین نہیں کیا جارہا تھا۔ جوئی کی ماں نے بیان دیا تھا کہ کیون نے اس سے گھر کا راستہ پوچھا تھا اور اسے بتایا تھا کہ اس کی سابقہ بیوی نے اسے فون کرکے بلایا ہے۔ تفتیش سے ثابت ہوا تھا کہ کال یہیں سے کی گئی تھی۔ رونیکا کے شوہر نے بیان دیا تھا کہ وہ رونیکا پر ناراض ہوا تھا کہ اس نے کوٹ کیوں لے لیا تھا۔ وہ اسی وقت کوٹ اتروا کر گھر کی الماری میں رکھ آیا تھا، مگر نینا نے الماری میں وہ کوٹ نہیں دیکھا تھا یا اس نے دھیان نہیں دیا تھا۔ ایرچ سے پوچھا گیا کہ کیا اسے علم تھا کہ اس کی بیوی اپنے سابقہ شوہر سے ملاقاتیں کرتی ہے کیا وہ اس روز اپنے کاٹیج میں پینٹنگ کررہا تھا کیا اس نے کسی اجنبی کو دیکھا تھا ایرچ نے بہت محتاط انداز میں جواب دیئے۔ اس نے ایک بار بھی نینا کی طرف نہیں دیکھا۔ نینا سوچ رہی تھی کہ ایرچ اپنے ذاتی اور خاندانی معاملات کو گھر تک محدود رکھنا پسند کرتا تھا، مگر اس کی وجہ سے اس کے خاندانی معاملات عدالت اور پولیس تک جا پہنچے تھے۔ یقیناً وہ اسی وجہ سے ناراض تھا۔ بیانات ختم ہوگئے۔ پتا چلا کہ کیون کی دائیں کنپٹی پر زخم کا نشان تھا لیکن اس کی موت ڈوبنے کی وجہ سے ہوئی، مگر نینا جانتی تھی کہ سارے علاقے میں اس کے بارے میں یہ بات پھیل چکی ہے کہ وہ اپنے سابقہ شوہر سے ملتی تھی اور اسی نے اس کو قتل کیا ہے۔ اگلے تین ہفتے وہ جب بھی گھر آیا یا کھانے میں شریک ہوا، اس نے کوئی بات براہ راست اس سے نہیں کی۔ وہ بچیوں سے کہتا۔ ممی سے یہ کہہ دو اور ممی سے وہ کہہ دو۔ جب وہ بچیوں کو ان کے کمرے میں سلا کر واپس آتی تو وہ موجود نہیں ہوتا تھا۔ نہ جانے وہ کہاں سوتا تھا۔ اپنے کاٹیج میں، کسی دوست کے پاس یا گھر کے کسی دوسرے بیڈ روم میں وہ اس سے اتنی شرمندہ تھی کہ کوئی سوال کرنے کی جرأت نہیں کرسکتی تھی۔ ایک رات نینا بچیوں کو سلا کر نیچے آئی تو اس نے دیکھا کہ کچن میں ایرچ ٹیبل پر بیٹھا کافی کی چسکیاں لے رہا ہے۔ اسے دیکھ کر وہ بولا۔ نینا ہمیں آپس میں کچھ بات کرنا ہوگی۔ نینا کا دل دھک دھک کرنے لگا لیکن وہ بھی چاہتی تھی کہ اندر ہی اندر اس دہکتے لاوے کا نکاس ہو تاکہ فیصلہ ہوسکے کہ اس کا مستقبل کیا ہے۔ اسے کچھ زیادہ ہی سردی محسوس ہورہی تھی۔ اس نے اپنی دادی کا دیا ہوا سرخ گائون پہن رکھا تھا۔ ایرچ اس کی جانب گہری نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔ سرخ رنگ تم پر بہت جچتا ہے۔ وہ بولا۔ نینا خاموش رہی۔ تھوڑے توقف کے بعد اس نے کہا۔ تمہاری زلفوں کی گھٹائیں اور یہ رنگ جیسے کوئی بہت ہی پراسرار شے ہو۔ مجھے سردی لگ رہی ہے اس لئے میں نے یہ پہن لیا۔ یہ بہت اچھا لگ رہا ہے۔ کیا کسی نے آنا ہے نینا چونکی۔ اگرچہ وہ اپنی اس بدنامی پر شرمندہ تھی لیکن اس کا یہ مطلب نہیں تھا کہ وہ اس کے بارے میں اس طرح سوچے۔ اس نے قدرے درشت لہجے میں کہا۔ ایرچ یہاں کسی نے نہیں آنا۔ اگر تمہیں کوئی شک ہے تو تم رات یہیں پر رک جائو تاکہ تم خود دیکھ سکو کہ یہاں کون آیا ہے۔ نینا نے اپنی بات جاری رکھی۔ جو کچھ ہوا، مجھے اس پر افسوس ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ لوگ طرح طرح کی باتیں بنا رہے ہیں جو ظاہر ہے تمہارے لئے بہت تکلیف دہ ہے لیکن کچھ سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ سب کیا تھا اور تمہارا کوٹ مجھے نہیں معلوم کہ یہ اس کی کار میں کیسے پہنچا تمہارا کیا خیال ہے کہ میں یا کوئی اور اس پر یقین کرسکتا ہے نینا ایک گہرا سانس لے کر رہ گئی۔ اس کے پاس اس تمام واقعے کی کوئی توجیہ نہیں تھی۔ نینا میں چاہتا ہوں کہ تمہاری بات پر یقین کرلوں مگر ایسا ممکن نہیں ہے۔ اگر تم یہ کہو کہ تم نے کیون کو یہاں اس لئے بلایا تھا کہ اسے متنبہ کرو کہ آئندہ وہ تم سے کوئی رابطہ نہ رکھے تو میں مان لوں گا، لیکن میں جھوٹ کے ساتھ زندگی نہیں گزار سکتا۔ تم اقرار کرلو کہ تم نے اسے یہاں بلایا تھا۔ سب کچھ صاف صاف بتا دو تو میں اسے بھلا دوں گا۔ میں جانتا ہوں کہ یہ سب کس طرح ہوا ہوگا۔ تم اسے گھر میں نہیں بلانا چاہتی تھیں۔ تم نے اسے دریا کی طرف جانے کے لئے کہا تاکہ کسی کو پتا نہ چلے، پھر تم وہاں پہنچیں اور شاید اس نے تمہارے ساتھ کچھ زبردستی کی ہو، جس سے تمہارا کوٹ وہیں سیٹ پر رہ گیا۔ تمہارے ہاتھ میں موجود چابی اس نے چھین لی، پھر اس نے گاڑی ریورس کی تو اس پر قابو نہ رکھ سکا اور دریا میں جاگرا۔ نینا اس طرح یا اس سے ملتا جلتا واقعہ ہوسکتا ہے۔ آخر تم مان کیوں نہیں لیتیں اس طرح آنکھیں پھاڑ کر میری طرف نہ دیکھو جیسے تم سے بڑا معصوم کوئی ہے ہی نہیں مان لو کہ تم نے جھوٹ بولا۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ میں کبھی اس کا ذکر تک نہیں کروں گا۔ ہم دونوں کے درمیان پرانی محبت برقرار رہے گی۔ یہ سب کرنا تمہاری نظر میں بہت آسان ہوسکتا ہے لیکن میں یہ سب نہیں کرسکتی کیونکہ یہ سفید جھوٹ ہے، اس میں ذرّہ بھر سچ نہیں۔ جب ایسا کچھ نہیں ہوا، میں ایک جھوٹ کو سچ کیوں کہوں ایرچ خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ نینا کے لئے اس کی ان عجیب نگاہوں کا سامنا کرنا دشوار ہورہا تھا جو اس پر ناکردہ گناہ کا بوجھ لاد رہی تھیں۔ اس نے اٹھتے ہوئے کہا۔ میں اپنے بیڈ روم میں جارہی ہوں۔ گڈ نائٹ وہ آہستہ آہستہ زینہ طے کرنے لگی۔ ایرچ کو وقت دینے کے لئے کہ اگر وہ اسے بلانا چاہتا ہے تو بلا لے مگر وہ چپ بیٹھا رہا۔ ٭ ٭ ٭ موسم بدل رہا تھا۔ نینا کھڑکی میں کھڑی جنگل کی طرف دیکھ رہی تھی، جہاں نئی کونپلیں پھوٹ رہی تھیں۔ اردگرد کا منظر حسین تھا، مگر اس کے ذہن پر اتنا بوجھ تھا کہ وہ اس سے لطف اندوز نہیں ہوسکتی تھی۔ اس کے اندر کا موسم باہر کے خوشگوار موسم سے بالکل مختلف تھا۔ بچیاں ابھی اٹھی نہیں تھیں۔ نینا کچن میں آئی کہ اپنے لئے کافی بنا لے۔ ابھی اس نے کیتلی چولہے پر رکھی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور رونیکا کا چہرہ نظر آیا۔ وہ کچھ پریشان معلوم ہوتی تھی۔ اسے دیکھتے ہی وہ بولی۔ میرا تم سے ملنا بہت ضروری تھا۔ آئو بیٹھو رونیکا کافی پیؤ گی رونیکا کی آنکھیں یکایک آنسوئوں میں بھیگ گئیں۔ مجھے وہ بات کلائیڈ کو نہیں بتانی چاہئے تھی لیکن مجھے کیا علم تھا کہ وہ شیرف کو سب کچھ بتا دے گا۔ کون سی بات نینا نے پوچھا۔ اگر مجھے علم ہوتا کہ وہ اس طرح کرے گا تو میں کبھی اس کا تذکرہ کلائیڈ سے نہ کرتی۔ مگر میں اس کی تلافی کروں گی۔ میں تمہیں بچائوں گی خواہ اس کے لئے مجھے جھوٹ ہی کیوں نہ بولنا پڑے۔ وہ خودکلامی کی سی کیفیت میں جس طرح اندر آئی تھی، اسی طرح باہر چلی گئی۔ نینا الجھی ہوئی وہیں بیٹھی کافی پیتی رہی۔ ہر روز ایک نئی بات سامنے آرہی تھی جو عجیب اور ناقابل یقین معلوم ہوتی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس کی کیا توجیہ پیش کی جائے۔ اس نے کافی بے دلی سے ختم کی اور اٹھتے ہوئے ایک نگاہ کھڑکی سے باہر ڈالی۔ وہ ٹھٹکی۔ شیرف، ایرچ اور مارک تینوں گھر کی طرف آرہے تھے۔ نینا کا دل بیٹھنے لگا۔ وہ ایک گہرا سانس لے کر خود کو کسی نئی بات کو برداشت کے لئے تیار کرنے لگی۔ اسے دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ وہ اندر آگئے۔ تھوڑی دیر بعد ایرچ نے کچن میں جھانکا۔ تم یہاں ہو نینا وہ غصے میں تو نہیں تھا لیکن کچھ افسردہ اور غمگین نظر آتا تھا۔ وہ اس کا بازو پکڑ کر اسے باہر لے جاتے ہوئے نرمی سے کہہ رہا تھا۔ وہ لوگ تمہارے دوست ہیں۔ ہم سب تمہاری بہتری چاہتے ہیں۔ تم سے جو کچھ پوچھیں، اس کا سچ سچ جواب دینا۔ کچھ چھپانے کی کوشش مت کرنا۔ نینا نے جرأت سے اس کی طرف دیکھا۔ میں نے جو کہا ہے، سچ کہا ہے۔ وہ لائونج میں آئی جہاں شیرف اور مارک موجود تھے۔ دونوں کے چہروں پر گہری سنجیدگی تھی۔ مسز ایرچ کیا آپ اب بھی کیون سے محبت کرتی تھیں یہ کس قسم کا سوال ہے میں اس کا جواب دینا پسند نہیں کروں گی۔ نینا نے درشت لہجے میں جواب دیا۔ تو کیا یہ سچ ہے کہ آپ اسے ریسٹورنٹ میں ملی تھیں ہاں اقرار کرلینے کے سوا کوئی اور چارہ نہ تھا۔ کیا آپ کیون کے، آپ کی نئی زندگی میں دخل دینے سے پریشان تھیں آپ کو وہ اپنی شادی کے لئے خطرہ محسوس ہورہا تھا آپ نے ایک امیر شخص سے شادی کی تھی، جس نے آپ کی بچیوں کو پناہ دی تھی۔ کہیں کیون کی وجہ سے وہ آپ سے بدظن نہ ہوجائے شیرف نے استفسار کیا۔ نینا ابھی کچھ کہہ نہیں پائی تھی کہ ایرچ نے دخل دیا۔ مسٹر شیرف ہماری شادی کو کسی سے کوئی خطرہ نہیں۔ نہ ہی کیون سے خواہ وہ زندہ ہو یا مردہ یہاں سب جانتے ہیں کہ رونیکا کی ذہنی کیفیت ٹھیک نہیں۔ وہ کسی وقت کچھ بھی کہہ دیتی ہے۔ میری بیوی انکار کرچکی ہے کہ وہ کیون کی گاڑی میں نہیں تھی۔ رونیکا کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ آپ اس بات کو ختم کردیں۔ لیکن رونیکا کا بیان بہت صاف ہے کہ اس نے مسز ایرچ کو کوٹ پہنے ہوئے کیون کی سفید گاڑی میں بیٹھتے ہوئے دیکھا ہے۔ ٹھیک ہے۔ اگر ایسی بات ہے تو ہم اس کا سامنا کریں گے۔ ایرچ بات ختم کرتے ہوئے شیرف کو گاڑی تک چھوڑنے چلا گیا۔ تم بہت زرد نظر آرہی ہو نینا تمہیں کسی ڈاکٹر کو دکھانا چاہئے۔ مارک نے کہا۔ نہیں میں ٹھیک ہوں۔ وہ اتنا کہہ کر گھر میں چلی آئی۔ اس کا دل کہیں نہیں لگ رہا تھا۔ اسے حیرت تھی کہ ایرچ جو اس سے ناراض تھا، اس نے شیرف کے سامنے اس کی حمایت کیوں کی تھی۔ کیا وہ یہ خیال کررہا تھا کہ اس طرح وہ اس سے سچ اگلوا لے گا لیکن کوئی سچ ہوتا تو وہ سب کے سامنے بول دیتی، جبکہ ایرچ اسے جھوٹ کو سچ کہنے پر مجبور کررہا تھا۔ وہ بچیوں کے کمرے میں چلی گئی۔ وہ اپنے کھلونوں سے کھیل رہی تھیں۔ نینا کا جیسے گھر کے اندر دم گھٹ رہا تھا، وہ کھلی ہوا میں جانا چاہتی تھی۔ اس نے بچیوں سے کہا کہ باہر سیر کے لئے چلتے ہیں۔ دونوں خوشی سے تیار ہوگئیں۔ تانیہ نے کہا۔ کیا ہم گھڑ سواری کرسکتے ہیں نہیں اس وقت نہیں۔ روتھ نے زور دے کر کہا۔ ڈیڈی کہتے تھے کہ وہ ہمارے ساتھ چلیں گے۔ بس میں اپنے گھوڑے کو چینی کھلائوں گی ضرور کھلائوں گی۔ تانیہ ہٹیلے پن سے بولی۔ بچی بگڑ نہ جائے، یہ سوچ کر نینا نے جلدی سے کہا۔ چلو پہلے اصطبل چلتے ہیں۔ جوئی انہیں اصطبل کے دروازے پر ہی مل گیا لیکن وہ بہت سنجیدہ معلوم ہوتا تھا۔ نینا کے استفسار پر اس نے بتایا کہ اس نے یہ جگہ چھوڑ دی ہے۔ وہ شہر میں رہتا ہے اور گھوڑوں کی دیکھ بھال کے لئے فارم پر آجاتا ہے۔ مگر کیوں تم نے یہ جگہ کیوں چھوڑ دی وہ کچھ ہچکچایا۔ پھر بولا۔ مسٹر ایرچ کو میرا یہاں رہنا پسند نہیں انہیں میرے کتے پر بھی اعتراض ہے کہ وہ عام نسل کا ہے اور ان کے قیمتی کتوں کے ساتھ شامل ہوجاتا ہے اور اور شاید انہیں آپ کے ساتھ میرا بات کرنا بھی پسند نہیں۔ نینا کچھ نہیں کہہ پائی۔ یقیناً ایرچ نے اسے اس کے لئے مجبور کیا ہوگا۔ وہ خاموش تھی کہ جوئی بولا۔ مسز ایرچ جب بچیاں سواری کرنا چاہیں یا آپ کو گھڑ سواری دوبارہ شروع کرنی ہو تو آپ مجھے پیغام بھیج دیں، میں آجائوں گا۔ اچھا چلو چھوڑو اس بات کو کہیں کوئی سن نہ لے۔ نینا نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا۔ مجھے کسی کی پروا نہیں ہے۔ میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں، کیونکہ آپ ہم جیسے ملازموں کو عزت دیتی ہیں۔ مجھے آپ کی خدمت کرکے خوشی ہوتی ہے۔ روتھ نے اس کا بازو کھینچا۔ ممی چلو واپس چلو۔ نہ جانے بچی کو کیا برا لگا تھا۔ وہ چلنے لگی تو جوئی نے نسبتاً مدھم لہجے میں کہا۔ مسز ایرچ یہ بھی بہتر ہوا کہ رونیکا کی ذہنی کیفیت ٹھیک نہیں رہتی۔ پولیس اس کے بیان کو اتنی اہمیت نہیں دے رہی لیکن وہ خاموش ہوا۔ لیکن کیا جوئی رونیکا کو واقعی غلط فہمی ہوئی ہے۔ اس نے غلط بیان دیا ہے۔ اس رات میں اپنے بیڈ روم میں تھی، میں کہیں نہیں گئی۔ مسز ایرچ اس نے بے ساختہ کہا، مگر پھر یوں چپ ہوگیا جیسے گومگو کی کیفیت میں ہو۔ ہاں کہو جوئی تم کیا کہنا چاہتے ہو۔ نینا نے حوصلہ افزائی کی۔ اس کا چہرہ سرخ ہوگیا۔ اس نے اضطراری انداز میں جیبوں میں ہاتھ ڈالے، تھوڑا سا رخ پھیرا اور اس طرح بولا جیسے سرگوشی کررہا ہو۔ نینا آپ میرے سامنے غلط بیانی نہ کریں۔ میں خود وہاں موجود تھا۔ میں اتفاق سے یہاں اصطبل آیا تھا۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ گھوڑوں کے دروازے صحیح طرح بند ہیں۔ میں واپس ہورہا تھا کہ میں نے رونیکا کو دیکھا۔ وہ آپ کے گھر کی طرف جارہی تھی۔ میں رک گیا۔ کیونکہ میں اس وقت رونیکا کا سامنا نہیں کرنا چاہتا تھا کہ اس کی الٹی سیدھی باتیں سنوں۔ اسی وقت سفید گاڑی اندر آکر رکی۔ سامنے والا دروازہ کھلا اور آپ بھاگتی ہوئی آکر گاڑی میں بیٹھ گئیں۔ یہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے، لیکن میں قسم کھاتا ہوں کہ میں یہ سب کسی کو نہیں بتائوں گا کبھی نہیں میں آپ کی بہت عزت کرتا ہوں۔ میں میں آپ کو بہت پسند کرتا ہوں۔ وہ جذباتی لہجے میں کہہ رہا تھا اور اس نے اپنا ہاتھ نینا کے بازو پر رکھ دیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ خلاف توقع ایرچ سورج ڈوبنے سے پہلے ہی گھر آگیا۔ نینا بے حد الجھی ہوئی اور پریشان تھی۔ وہ جب بھی ایک اچھی خبر اسے سنانا چاہتی، کوئی نہ کوئی پریشانی آگھیرتی تھی، جبکہ وہ چاہتی تھی کہ اس خبر کو اسے اچھے ماحول میں سنائے، مگر اس انتظار میں اسے اور دیر نہیں کرنی چاہئے تھی۔ آج جیسا بھی ایرچ کا موڈ ہو، وہ اسے یہ خبر سنا دے گی۔ وہ اپنے ساتھ کچھ تصویریں لے کر آیا تھا، جو اس نے گزشتہ دنوں پینٹ کی تھیں۔ وہ انہیں آئندہ نمائش میں رکھنا چاہتا تھا۔ وہ اس سے پوچھنے لگا۔ کیا خیال ہے تمہارا ان کے بارے میں صبح کے واقعے کا اس پر کوئی اثر باقی نہیں تھا۔ ان کا جواب نہیں ایرچ سب بہترین ہیں۔ وہ ایک ایک تصویر دیکھتے ہوئے بولی۔ اس مرتبہ تم میرے ساتھ چلو گی نینا وہ غور سے اس کی جانب تکتا ہوا بولا۔ اس کے بارے میں ہم بعد میں فیصلہ کریں گے۔ گھبرائو نہیں ڈارلنگ میں تمہاری حفاظت کروں گا۔ آج جب شیرف تمہیں خواہ مخواہ پریشان کررہا تھا تو میں نے اسی وقت سوچ لیا تھا کہ اس رات چاہے جو کچھ ہوا تھا، میں بھلا دوں گا۔ تم میری زندگی کا حاصل ہو، مجھے تمہاری ضرورت ہے۔ ایرچ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا، میں بالکل الجھ کر رہ گئی ہوں۔ مگر کیوں نینا مجھے بالکل یاد نہیں کہ میں کیون کے ساتھ باہر گئی ہوں، پھر رونیکا ایسا کیوں کہتی ہے تم فکر مت کرو خود کو پریشان کیوں کرتی ہو رونیکا قابل اعتبار کب ہے۔ یہ بھی اچھا ہوا۔ ورنہ شیرف کہہ رہا تھا کہ اگر یہ گواہی قابل اعتبار ہوتی تو وہ دوبارہ کیس کھول سکتے تھے۔ نینا اندر ہی اندر کانپ گئی۔ اسے جوئی کی باتیں یاد آئیں۔ اس نے پریشانی سے کہا۔ ایرچ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ میں سب کچھ بھول جائوں ایرچ نے تسلی کے لئے اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔ ایسا ہو سکتا ہے وہ تمہارے لئے ایک خوفناک دھچکا تھا۔ شاید اسی لئے تمہیں یاد نہیں رہا۔ میں اس پر یقین نہیں کرسکتی کہ ایسا ہوسکتا ہے۔ وہ الجھی ہوئی سی بولی۔ چلو چھوڑو اب اس بات کو اچھا ہوا تم اسے بھول گئیں۔ ہاں مجھے بتائو تم میرے ساتھ نمائش پر چلو گی میں چاہتا ہوں کہ اس خاص موقع پر تم میرے ہمراہ ہو۔ نہیں شاید میں نہیں جاسکوں گی۔ میری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ کیوں خیریت وہ بڑے لگائو سے بولا۔ ایرچ میں ماں بننے والی ہوں۔ وہ چند لمحے حیرت سے اس کی طرف دیکھتا رہا، پھر خوشی سے چلایا۔ اوہ نینا میری جان کیا اسی لئے تم کچھ بیمار سی نظر آتی تھیں نینا کیا ہمارے ہاں بیٹا ہوگا نینا مسکرائی۔ ہاں مجھے یقین ہے۔ کتنے عرصے بعد اس نے ایرچ کو اتنے خوشگوار موڈ میں دیکھا تھا۔ وہ دل ہی دل میں اس کا لطف لے رہی تھی۔ تمہیں ایک اچھے ڈاکٹر کو دکھانا چاہئے۔ اوہ بیٹا، میرا وارث ہم اسے ایرچ کے نام سے پکاریں گے۔ یہ ہماری خاندانی روایت ہے، تمہیں اس پر کوئی اعتراض تو نہیں جیسا تم چاہو، تمہارا بیٹا ہے۔ نینا نے خوش دلی سے کہا۔ نینا یہ پچھلے دن جو گزرے ہیں، انہیں بھول جائو۔ جب میں نمائش کے بعد واپس آجائوں گا تو ہم ایک بڑی پارٹی دیں گے۔ اب ہم ایک مکمل خاندان ہوں گے۔ بچیوں کی حوالگی کا معاہدہ جلد مکمل ہونے والا ہے۔ مجھے کیون کے انجام پر افسوس ہے لیکن کم ازکم اب اس کی طرف سے تمہیں کوئی خطرہ نہیں۔ نینا خاموش رہی۔ وہ کیون کا خیال کرکے اس لمحے کی خوشی کو زائل نہیں کرنا چاہتی تھی۔ ایرچ ایک طویل عرصے بعد اس کی زندگی میں لوٹ آیا تھا۔ وہ کہہ رہا تھا۔ میں تمہارے بغیر بہت تنہا تھا۔ نینا تم میری محبت ہو، میں تمہیں زندگی سے کیسے نکال سکتا ہوں ایرچ میں بھی تمہارے بغیر بہت تنہا تھی۔ مجھے لگتا تھا کہ میں پاگل ہوجائوں گی۔ میں بہت اکیلی ہوگئی تھی۔ نینا کی آواز شدت جذبات سے بھرا گئی۔ ہاں میں سمجھتا ہوں نینا میرے دل کی کیفیت بھی یہی تھی۔ اس نے کہا اور تھوڑے توقف کے بعد بولا۔ نینا ہاں نینا نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ نینا میں بہت بیتاب ہوں اپنے بیٹے کو دیکھنے کے لئے، دیکھیں کس پر جاتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ بالکل تم جیسا لگے۔ لوگ اسے دیکھ کر کہیں کہ یہ تو دوسرا ایرچ ہے۔ ہاں میں بھی یہی چاہتا ہوں۔ وہ بولا۔ لیکن اچانک نینا کو بات کی گہرائی سمجھ میں آئی تو اسے دھچکا لگا۔ کیا ایرچ اس پر شک کررہا ہے کیا اسے اب بھی اس پر اعتماد نہیں اس نے ایرچ کی آنکھوں میں دیکھ کر کہا۔ ایرچ یاد رکھنا محبت اور بھروسہ، اعتماد اور چاہت ایک دوسرے کے ہاتھ میں ہاتھ ڈال کر چلتے ہیں۔ اگر محبت کرتے ہو تو اعتماد بھی کرنا۔ تیسرے دن ایرچ اسے ڈاکٹر کے پاس لے گیا۔ وہ ایک ادھیڑ عمر مہربان شخص تھا۔ نینا کو وہ پہلی نظر میں ہی اچھا لگا۔ ڈاکٹر نے اس سے صحت کے بارے میں کئی سوالات پوچھے اور بولا۔ مجھے معلوم ہے کہ گزشتہ دنوں بہت دبائو میں رہی ہیں لیکن اب ہم آپ کو مناسب طبی امداد دے کر سنبھال لیں گے۔ آپ کو بھی احتیاط کرنی ہوگی۔ کوئی بھاری چیز نہ اٹھائیں، زیادہ سے زیادہ آرام کرنے کی کوشش کریں۔ ایرچ اس کے برابر بیٹھا ہوا تھا۔ وہ اس کو اٹھنے میں مدد دیتا ہوا بولا۔ ڈاکٹر میں نینا کا بہت خیال رکھوں گا، آپ کی ہدایات پر پورا عمل ہوگا۔ ہم ایک صحت مند بچہ چاہتے ہیں۔ ڈاکٹر نے اثبات میں سر ہلا کر تصدیق کی۔ ٭ ٭ ٭ بہار کے آنے میں دیر ہوگئی تھی لیکن موسم میں سردی کی شدت کم ہوگئی تھی۔ زمین سرسبز و شاداب ہونے لگی تھی، پودوں کو نئے شگوفوں نے سجا دیا تھا۔ مویشی ہری ڈھلانوں پر دور دور تک چرتے ہوئے نظر آتے تھے۔ جنگل میں درختوں کی شاخیں سبز پتوں سے بھر گئی تھیں۔ دور سے وہ ایک سبز دیوار کی طرح منظرکشی کرتے تھے۔ جس میں ہرن کبھی کبھی قلانچیں بھرتے ہوئے پل بھر میں وہاں سے گزر جاتے۔ کچھ ٹھہر کر اِدھر اُدھر دیکھتے اور پھر فوراً ہی اپنی پناہ گاہوں کی طرف لپک جاتے۔ گھر کا منظر بھی بدل گیا تھا۔ وہ بھاری پردے جو ہر وقت سارے گھر میں نیم تاریکی پھیلائے رکھتے تھے اور جنہیں ایرچ بدلنے کے لئے تیار نہیں ہوتا تھا، ان سے بھی روشنی چھن کر اندر آنے لگی تھی لیکن خوشبو سے لدی ہوا کو راستہ نہیں ملتا تھا کہ وہ پھولوں کی مہک کو اس تک پہنچا دیں لیکن نینا کے لئے اتنا بھی غنیمت تھا۔ موسم میں آجانے والی نرم گرم حدت نے اس کے جسم میں سرایت سردی کو بہت کم کردیا تھا۔ صبح صبح نینا کھڑکی کھول کر ہوا کو اندر آنے دیتی تھی اور پھولوں کے رنگوں اور حسن سے محظوظ ہوتی تھی۔ صبح اس کی طبیعت زیادہ خراب ہوتی تھی۔ متلی کی شکایت اسے پریشان کردیتی۔ ایرچ اسے بیڈ سے اٹھنے نہیں دیتا تھا۔ وہ اس کے لئے چائے بنا کر لاتا اور اسے دوائیں کھلاتا۔ کچھ دیر بعد اس کی طبیعت بحال ہوجاتی۔ اب ایرچ زیادہ وقت کاٹیج میں نہیں گزارتا تھا، خصوصاً رات کو وہ گھر پر رہتا تھا۔ اس سے کہتا۔ میں نہیں چاہتا کہ تم خود کو اکیلا محسوس کرو۔ میری محبت اور میں ہمیشہ تمہارے ساتھ ہیں۔ نینا اس سے پوچھتی۔ تمہارا پینٹنگ میں تو کوئی حرج نہیں ہورہا نہیں میں نمائش میں جتنی تصویریں لے جانا چاہتا ہوں، وہ میں نے مکمل کرلی ہیں۔ مجھے تمہارے اور بچیوں کے ساتھ وقت گزارنا بہت اچھا لگتا ہے۔ زندگی بڑی ہموار ہوگئی تھی۔ ایرچ بچیوں کو گھڑ سواری کے لئے لے جاتا تھا، رونیکا اسے بنائی سکھانے کے لئے ہر روز آتی تھی۔ ایرچ نے اس پر بھی کوئی اعتراض نہیں کیا تھا۔ وہ سوئٹر جو نینا نے شروع کیا تھا، وہ اب ختم ہونے والا تھا۔ ایرچ اپنی تصویروں کی نمائش کے لئے شہر سے باہر چلا گیا تھا۔ اس نے وہاں پہنچتے ہی فون کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے جانے سے گھر میں ویرانی سی پھیل گئی تھی۔ وہ ایک بار پھر تنہا اور اکیلی ہوگئی تھی۔ بچیاں سو گئی تھیں۔ وہ اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی ایرچ کے فون کا انتظار کررہی تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ نینا نے جلدی سے فون اٹھایا۔ ہیلو تم نینا ہو ایک نامانوس سی آواز نے پوچھا۔ کون بات کررہا ہے نینا نے قدرے درشتی سے کہا۔ کیا آج رات تمہارا کوئی دوست پھر تم سے ملنے آئے گا تم کون ہو یہ کیا بکواس کررہے ہو نینا تیز لہجے میں بولی۔ آواز میں ایک عجیب سی چیخ، کچھ ہنسی، کچھ سسکی سنائی دی جس میں یہ الفاظ باربار دہرائے جارہے تھے۔ تم قاتل ہو تم بری عورت ہو تم کیرولین کے گھر میں رہنے کے قابل نہیں ہو۔ چلی جائو یہاں سے نکل جائو نکل جائو نینا نے ریسیور پٹخ دیا۔ اس کا سارا جسم لرز رہا تھا، اس کا سانس دھونکنی کی مانند چل رہا تھا۔ اس نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کی مگر اس کا دل بڑے زور سے دھڑک رہا تھا۔ چند لمحوں بعد فون پھر بجا۔ نینا خوف زدہ آنکھوں سے اس کی جانب تکتی رہی۔ اس میں ہمت نہیں تھی کہ ریسیور اٹھاتی۔ گھنٹی مسلسل بج رہی تھی۔ پھر چند لمحے کو گھنٹی بند ہوئی اور پھر بجنے لگی۔ ہوسکتا ہے یہ ایرچ ہو۔ یہ خیال آتے ہی اسے ڈھارس ہوئی۔ کم ازکم اس کی آواز سن کر، اس کو یہ سب بتا کر اسے حوصلہ ملے گا۔ اس نے ہمت کرکے ریسیور اٹھایا۔ دوسری جانب ایرچ ہی تھا۔ نینا کیا بات ہے تم فون نہیں اٹھا رہیں میں نے پہلے بھی کال کی تھی لیکن فون مصروف تھا اور اب تم فون نہیں اٹھا رہیں خیریت تو ہے تم ٹھیک ہو نا کس نے فون کیا تھا مجھے نہیں معلوم وہ کیسی غیر انسانی آواز تھی۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ اس کی آواز ہسٹریائی انداز میں بلند ہوتی جارہی تھی۔ تم پریشان لگ رہی ہو حوصلہ کرو نینا بتائو فون پر کون تھا میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ یہ سب کیا تھا۔ فون پر کون تھا، وہ یہ سب کیوں کہہ رہا تھا۔ اس نے ہچکیاں لیتے ہوئے ایرچ کو اس کے بارے میں بتایا۔ نینا خود کو پرسکون کرو یہ رونیکا بھی ہوسکتی ہے یا فارم کا کوئی ملازم یہ لوگ بعض وقت اس قسم کی حرکتیں کرتے ہیں۔ تم فکر مت کرو، میں آکر سب پتا چلا لوں گا۔ میں تمہارے ساتھ ہوں، تم خود کو تنہا نہ سمجھو اور اب خاموش ہوجائو۔ دیکھو رونا مت یہ تمہاری صحت کے لئے اچھا نہیں۔ ٭ ٭ ٭ یہ بات کتنی حوصلہ افزا تھی کہ ایرچ گھر آرہا تھا۔ اس کے بغیر خالی گھر جیسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ بار بار یہی گمان ہوتا تھا کہ ابھی کوئی فون آجائے گا جو اسے پریشان کرکے رکھ دے گا یا گھر میں سے کوئی آسیب نمودار ہوجائے گا یا کوئی نامانوس آواز سنائی دینے لگے گی۔ ایرچ نے فون پر جو کچھ کہا تھا، اس نے نینا کی ڈھارس بندھا دی تھی۔ نینا تمہاری وجہ سے میں بھی پریشان ہوگیا ہوں میں آجائوں تو پوری کوشش کروں گا کہ آئندہ ایسی بات نہ ہونے پائے۔ ہاں مجھے یقین ہے ایرچ تم آجائو گے تو سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا۔ اب تمہاری طبیعت کیسی ہے بہت بہتر ہے۔ اپنی خوراک پر دھیان دے رہی ہو نا ہاں میں پوری کوشش کررہی ہوں۔ ہاں تمہاری نمائش کیسی رہی بہت اچھی بہترین تین تصویریں بہت اچھے داموں بک گئیں۔ نقادوں نے بھی میری تصویروں کو بہت سراہا میں تمام اخبار لے کر آئوں گا، تم ان کے تبصرے دیکھنا۔ وہ بڑے فخر سے بتا رہا تھا۔ ایرچ یہ بہت خوشی کی بات ہے۔ مجھے تم پر فخر ہے۔ نینا نے خوشی کے لہجے میں کہا۔ ایرچ نے بتایا کہ وہ اگلے دن گھر پہنچ جائے گا۔ نینا کے اندر کی اداسی اور پریشانی کافور ہوگئی۔ گھر کی فضا پر جو خوف کی سی کیفیت چھائی ہوئی محسوس ہوتی تھی، وہ بھی زائل ہوگئی۔ اس رات وہ سوئی تو پرسکون تھی۔ کسی ڈرائونے خواب نے اسے بے چین نہیں کیا تھا۔ صبح وہ بچیوں کے ساتھ ناشتہ کررہی تھی کہ اچانک ایک نامانوس سا شور بلند ہوا۔ کسی جانور کی آواز کے ساتھ کسی انسان کی لرزہ خیز چیخوں کی آواز سنائی دے رہی تھی۔ روتھ کرسی سے چھلانگ لگا کر اتری اور دروازے کی طرف بھاگی۔ روتھ روتھ خبردار باہر نہ جانا۔ نینا نے گھبرا کر اسے روکا اور اٹھ کر باہر دیکھا۔ یہ آوازیں اصطبل کی طرف سے آرہی تھیں۔ کلائیڈ آفس سے نکل کر بڑی تیزی کے ساتھ اصطبل کی طرف آرہا تھا۔ اس کے ہاتھ میں رائفل تھی۔ اسے دروازے میں دیکھ کر وہ دور سے چلایا۔ مسز ایرچ وہیں رہیں، باہر نہ آئیں۔ نینا کچھ دیر کھڑی اس ہولناک شور کو سنتی رہی، پھر اسے اندازہ ہوا کہ انسانی آواز جوئی کی ہے۔ وہ آگے بڑھی اور اصطبل تک پہنچی۔ یہ دیکھ کر اس کا دل بیٹھ گیا جوئی ایرچ کے گھوڑے بیرن کے اسٹال میں تھا۔ وہ پچھلی دیوار سے لگا ہوا دیوانگی کے ساتھ گھوڑے سے بچنے کی کوشش کررہا تھا۔ گھوڑا اپنے پچھلے پیروں پر کھڑا اگلے پیروں کے سموں سے اس پر حملہ آور تھا۔ گھوڑے کی آنکھیں چڑھی ہوئی تھیں اور وہ اپنے منہ سے خوفناک آواز نکال رہا تھا۔ جوئی کی حالت ابتر تھی، اس کے سر سے خون بہہ رہا تھا۔ اس کا ایک بازو یوں لٹک رہا تھا جیسے اس کا جوڑ نکل گیا تھا۔ وہ خود کو بچانے کی کوشش میں بری طرح مصروف تھا۔ پھر وہ زمین پر گرا اور گھوڑے نے اپنی اگلی ٹاپوں سے اسے روند ڈالا۔ اوہ خدایا کچھ کرو، گھوڑا اس کو مار دے گا۔ نینا نے خود کو یہ کہتے ہوئے سنا۔ وہ بری طرح رو رہی تھی۔ جوئی ایک طرف ہٹ جائو، میں اسے شوٹ کررہا ہوں۔ کلائیڈ نے اس کا نشانہ لے لیا۔ اس سے پہلے کہ وہ اپنے سموں کو اٹھا کر پھر جوئی کے سینے پر مارے، گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔ اس کے ساتھ گھوڑے کی ہولناک ہنہناہٹ گونجی۔ گھوڑا چند لمحے مجسمے کی طرح کھڑے کا کھڑا رہ گیا۔ پھر کٹے ہوئے درخت کی طرح نیچے آگرا۔ جوئی بالکل دیوار کے ساتھ چمٹ گیا کہ خود کو گھوڑے کے بھاری جسم کے نیچے آجانے سے بچا سکے۔ وہ وہیں زمین پر پڑا ہوا تھا۔ اس کی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں اور اس کے چہرے پر کرب اور وحشت تھی۔ کلائیڈ نے رائفل ایک طرف پھینکی اور جوئی کی طرف دوڑا۔ ہلنا مت اسی طرح پڑے رہو، ہم ابھی ایمبولینس منگواتے ہیں۔ نینا پریشانی سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اسے جوئی کی ماں کی سسکیاں سنائی دے رہی تھیں۔ وہ باربار اسے پکار رہی تھی۔ تھوڑی ہی دیر میں ایمبولینس آگئی۔ انہوں نے جوئی کو احتیاط سے اٹھا کر اسٹریچر پر ڈالا۔ اس کا چہرہ بالکل راکھ ہورہا تھا، اس کی آنکھیں بند تھیں۔ نینا نے ایک کارکن کو کہتے ہوئے سنا۔ اس کا بچنا مشکل ہے۔ ٭ ٭ ٭ ایرچ چند گھنٹے بعد گھر پہنچا۔ وہ ایک بڑے سرجن کو اپنے ساتھ لے کر آیا تھا۔ وہ آتے ہی اصطبل گیا اور گھوڑے کے برابر بیٹھ کر اس کے سر پر محبت اور حسرت سے ہاتھ پھیرنے لگا۔ وہ طاقتور اور خوبصورت گھوڑا ختم ہوچکا تھا، مٹی کا ڈھیر بن چکا تھا۔ اس کا چہیتا گھوڑا اس سے بچھڑ چکا تھا۔ مارک بھی وہاں پہنچ گیا تھا۔ اس نے ہر چیز کا معائنہ کیا تھا۔ گھوڑے کے جنون کا سبب اس کا چارہ تھا جس میں کسی نے چوہوں کو مارنے والا زہر ملا دیا تھا۔ سب کو حیرت تھی کہ ایسا کون کرسکتا تھا۔ کون جوئی کی جان لینا چاہتا تھا، یہ معمہ حل طلب تھا۔ شیرف نے بھی مختلف لوگوں سے سوالات کئے تھے مگر کوئی نتیجہ نہیں نکلا تھا۔ جوئی کا علاج ہورہا تھا، اس کے بچ جانے کی امید ہوگئی تھی۔ ایرچ اس کے علاج کا تمام خرچہ اٹھا رہا تھا۔ لوگ درست کہتے تھے کہ وہ ایک نیک دل اور مخیر انسان ہے۔ وہ گھوڑا جس سے اسے بہت محبت تھی، اس کی ہلاکت پر اس نے ایک لفظ بھی نہیں کہا تھا۔ وہ اب اس گھوڑی پر سواری کرتا تھا جو اس نے نینا کے لئے خریدی تھی۔ وہ بچیوں کو بھی اپنے ساتھ گھڑ سواری سکھا رہا تھا۔ وہ فی الحال کوئی نئی تصویر بنانے کے لئے کاٹیج نہیں جارہا تھا۔ نینا کو اس نے بتایا تھا کہ فی الحال اس کا پینٹنگ کرنے کا موڈ نہیں۔ وہ اس کے ساتھ بہت اچھا برتائو کررہا تھا لیکن نہ جانے کیوں وہ اسے خود سے بہت دور نظر آتا تھا۔ وہ اکثر شام کو اس کے ساتھ لائبریری میں بیٹھتا تھا۔ وہ خاموشی سے پڑھتا رہتا، بہت کم بات کرتا۔ نینا کو اکثر اس کی نگاہیں خود پر مرکوز محسوس ہوتیں لیکن جب وہ اس کی طرف دیکھتی تو وہ فوراً نگاہ ہٹا لیتا، جیسے نہ چاہتا ہو کہ اس کو پتا چلے کہ وہ اس کو دیکھ رہا تھا۔ وہ اکثر بچیوں کو اپنے ساتھ رکھتا یا سیر کے لئے لے جاتا اور نینا سے کہتا کہ وہ آرام کرے۔ بچیوں کی حوالگی کا عمل مکمل ہوگیا تھا۔ ایرچ بہت خوش تھا۔ موسم بدل گیا تھا۔ ہوا میں خنکی بڑھ گئی، درختوں کے پتے سرخی مائل ہوتے جارہے تھے، گھاس بھی سبز سے برائون ہوچکی تھی، گرم کپڑے نکل آئے تھے، آتش دان میں آگ روشن ہونے لگی تھی۔ کچھ پرسکون ہونے کی وجہ سے نینا کی طبیعت بھی اب ٹھیک رہتی تھی۔ ڈاکٹر نے اطمینان کا اظہار کیا تھا کہ بچہ صحت مند ہے۔ آخر وہ دن آگیا جس کا نینا کو شدت سے انتظار تھا۔ وہ ایرچ کو اس کا وارث دینے والی تھی۔ وہ دوسرے کمرے میں سو رہا تھا۔ نینا نے آہستہ سے اس کے کمرے کا دروازہ کھولا۔ اس کا اندازہ صحیح تھا۔ وہ اسی کمرے میں گہری نیند سو رہا تھا۔ نینا نے اس کا شانہ ہلایا۔ ایرچ اس نے فوراً آنکھیں کھول دیں اور جھپٹ کر اٹھا۔ نینا کیا بات ہے میرا خیال ہے کہ ہمیں اسپتال جانا ہوگا۔ نینا نے محتاط سے لہجے میں کہا۔ وہ جلدی سے اٹھ کھڑا ہوا اور اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر بولا۔ آج میرا دل کہہ رہا تھا کہ مجھے تمہارے پاس رہناچاہئے۔ اسی لئے میں یہاں سو گیا تھا۔ اوہ نینا کتنا اچھا لگے گا جب ہم اپنے بیٹے کو دیکھیں گے۔ اسپتال میں تیز روشنی کے اندر نینا نے ڈاکٹر کے ہاتھ میں ایک ننھے سے وجود کو دیکھا پھر اسے آواز سنائی دی۔ آکسیجن بچہ بالکل ٹھیک ہوجائے گا اسے مجھے دے دو۔ وہ کہنا چاہتی تھی لیکن اس کے خشک حلق سے آواز نہیں نکلی۔ مجھے دیکھنے دو۔ اسے ایرچ کی آواز سنائی دی۔ پھر اسے سرگوشی کی مانند ایک مایوس صدا کان میں پڑی۔ اوہ اس کے بال تو لڑکیوں کی طرح سرخ ہیں۔ یہ بات اس کے دل پر لگی اور وہ بے سدھ ہوتی گئی۔ نہ جانے کب وہ ہوشیار ہوئی۔ کمرے میں نیم تاریکی تھی۔ ایک نرس اس کے بیڈ کے قریب بیٹھی ہوئی تھی۔ بچہ میرا بچہ نینا نے بمشکل کہا۔ وہ ٹھیک ہوجائے گا، تم سونے کی کوشش کرو۔ تمہیں آرام کی ضرورت ہے۔ میرے شوہر کہاں ہیں مسٹر ایرچ گھر چلے گئے ہیں۔ ایرچ گھر چلا گیا ہے۔ اس نے دل ہی دل میں دہرایا۔ اسے باوجود کوشش کے یاد نہیں آرہا تھا کہ ایرچ نے بچے کو دیکھ کر کیا کہا تھا۔ وہ ابھی سونے جاگنے کی کیفیت میں تھی کہ ایک ڈاکٹر اندر آیا۔ مسز ایرچ بچے کے پھیپھڑے پوری طرح سے نہیں بنے، ہم پوری کوشش کررہے ہیں کہ جلد اس نقص کو دور کرسکیں۔ کیا میرا بچہ بہت بیمار ہے نینا نے نقاہت آلود آواز میں پوچھا۔ میں اس کو دیکھنا چاہتی ہوں۔ اس کے لئے آپ کو نرسری میں جانا ہوگا کیونکہ ہم بچے کو آکسیجن دے رہے ہیں، اس لئے اسے یہاں نہیں لا سکتے۔ مسز ایرچ کیون بہت پیارا بچہ ہے۔ کیون نینا نے حیرت سے دہرایا۔ آپ کے شوہر نے بچے کا نام کیون ہی لکھوایا ہے۔ ڈاکٹر نے بتایا۔ ایرچ کچھ دیر بعد بہت سی گلاب کی شاخیں جو پھولوں سے لدی ہوئی تھیں، لے کر آیا اور اس کے پاس رکھتا ہوا بولا۔ نینا ڈاکٹر کہتے ہیں کہ وہ بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔ کل میں ساری رات روتا رہا، میں بالکل ناامید ہوگیا تھا۔ ایرچ تم نے بچے کا نام کیون کیوں لکھوایا ہے ڈارلنگ پہلے تو ڈاکٹروں نے بالکل ناامیدی ظاہر کردی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ بچہ صرف چند گھنٹے کا مہمان ہے تو میں نے سوچا کہ ہم ایرچ نام اس بچے کے لئے سنبھال کر رکھ لیتے ہیں جو زندہ رہے گا۔ اس وقت کیون ہی میرے ذہن میں آیا۔ میں نے سوچا تمہیں بھی اچھا لگے گا۔ نہیں اس کو تبدیل کرو۔ نینا نے قطعی لہجے میں مطالبہ کیا۔ تم فکر مت کرو، ہم اسے ایرچ نام اس وقت دیں گے جب وہ پانچ سال کا ہوجائے گا۔ ٭ ٭ ٭ نینا پورا ہفتہ اسپتال میں رہی۔ اس دوران وہ پوری کوشش کرتی رہی کہ اپنی خوراک کا خیال رکھے تاکہ اس کی طاقت بحال ہو اور وہ اپنے بیمار بچے کا خیال رکھ سکے۔ چوتھے دن انہوں نے بچے کی آکسیجن اتار دی اور اس کے پاس لے کر آئے تاکہ وہ اسے گود میں لے سکے۔ ڈاکٹر کا خیال تھا کہ وہ بچے کو اپنا دودھ پلائے تاکہ وہ جلد صحت یاب ہوسکے۔ نینا کو اس پر کوئی اعتراض نہیں تھا۔ وہ اپنا سارا وقت، ساری طاقت اسے دینا چاہتی تھی۔ پانچ دن بعد اسے اسپتال سے ڈسچارج کردیا گیا، مگر بچے کو ابھی ڈاکٹروں نے اپنی نگرانی میں رکھا تھا۔ اگلے تین ہفتے اسے ہر تین گھنٹے بعد بچے کو دودھ دینے کے لئے اسپتال جانا تھا۔ اکثر ایرچ اسے اسپتال چھوڑ دیتا یا گاڑی کی چابی اسے دے دیتا۔ وہ خود وہاں چلی جاتی۔ بچیاں بھی اس کی غیر حاضری کی عادی ہوگئی تھیں۔ شروع شروع میں تانیہ پریشان ہوئی تھی لیکن روتھ نے اسے سمجھا دیا تھا۔ ہم ڈیڈی کے ساتھ رہیں گے اور خوب مزے کریں گے۔ ایرچ بھی اس کی بات سن رہا تھا۔ وہ تانیہ کو ہوا میں اچھالتے ہوئے بولا۔ کون زیادہ اچھا ہے، ممی یا ڈیڈی ڈیڈی ڈیڈی تانیہ نے ہنستے ہوئے کہا۔ روتھ کچھ ہچکچائی۔ دونوں اچھے ہیں۔ ممی، ڈیڈی دونوں آخرکار ڈاکٹروں نے بچے کو گھر لے جانے کی اجازت دے دی۔ وہ پہلے کی نسبت صحت مند تھا۔ نینا نے بڑی چاہت سے اس کے کپڑے اتار کر اسے وہ کپڑے پہنائے جو اس نے خاص طور پر اس کے لئے شوق سے بنائے تھے۔ اسے نیلے کمبل میں اچھی طرح لپیٹا، اونی ٹوپی اس کے سر پر رکھی۔ باہر بہت سردی تھی، ہلکی ہلکی برف باری شروع ہوچکی تھی۔ خنک ہوا درختوں کی شاخوں اور پتوں کے درمیان سرسراتی پھرتی تھی۔ چمنیوں سے نکلتے ہوئے دھویں اس بات کے شاہد تھے کہ آتش دانوں میں آگ مسلسل روشن تھی۔ دونوں بچیاں ننھے بھائی کو دیکھ کر نہال ہوگئی تھیں۔ دونوں اسے گود میں لینا چاہتی تھیں۔ نینا نے صوفے پر بیٹھ کر دونوں کو پاس بٹھا لیا اور باری باری ننھے بھائی کو ان کی گود میں دیا اور انہیں تاکید کی کہ اسے بہت احتیاط سے پکڑو، یہ ابھی بہت چھوٹا ہے۔ رونیکا بچے کی دیکھ بھال میں اس کی بہت مدد کررہی تھی۔ وہ خود بھی اس کا بہت خیال رکھ رہی تھی لیکن وہ دیکھتی تھی کہ بچہ معمول سے زیادہ سویا رہتا ہے۔ اس کا رنگ بھی زرد تھا۔ جب کبھی کبھی وہ آنکھیں کھولتا تو اس کی نیلی بادامی آنکھیں بالکل ایرچ جیسی لگتی تھیں۔ بچہ ایک ماہ کا ہوگیا۔ اس کا معائنہ کیا گیا تو اس کا چھ اونس وزن کم تھا۔ ڈاکٹر کافی تشویش میں مبتلا تھا۔ اس نے نینا کو تاکید کی کہ وہ اپنی غذا کا خیال رکھے اور خود کو پریشانی سے بچائے۔ بچے کی صحت کے لئے ماں کا صحت مند دودھ ضروری تھا۔ جاری ہے
null
null
null
null
404
https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-33/
میرا نام مسعود احمد ہے اوم پرکاش جی۔ تو پھر چل رہے ہو کاشی ہمارے ساتھ۔ آپ سے اتنا متاثر ہوا ہوں کہ ضرور چلوں گا۔ کوئی بھی سوگند لے لو۔ ہم نے یہی سوچا تھا کہ وہ جو سنسار کے لیے جیتے ہیں کسی جگہ کے نہیں ہوتے ان کے لیے تو سارا سنسار ایک جیسا ہے، تمہارے ساتھ سے ہمیں خوشی ہوئی۔ میں خاموش ہوگیا۔ اوم پرکاش جی بڑے گیانی تھے۔ بہت اچھی باتیں کرتے تھے انہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ایک بات کہوں مسعود جی۔ جی تمہارے بارے میں ان میں سے کسی کو نہیں بتائوں گا، ان سب کے بارے میں تمہیں بتا دوں۔ وہ میری دھرم پتنی ہیں۔ اوم پرکاش نے مجھے سب کے بارے میں بتایا پھر بولے۔ اگر میں انہیں بتا دوں کہ تم کون ہو تو جینا حرام کر دیں گی تمہارا۔ کیونکہ انہیں میں نے اس لڑکی کی کہانی سنا دی تھی اور یہ بہت متاثر ہوئی تھیں۔ خاص طور سے ہماری دھرم پتنی۔ جی میں ہنس کر بولا۔ دلّی آ گئی یہاں سے دُوسری ٹرین پکڑنا تھی مگر اوم پرکاش جی کے ایک دوست یہاں ان کے استقبال کے لیے موجود تھے۔ وہ اس خاندان کو ساتھ لے گئے۔ مجھے انہوں نے حیرت سے دیکھا تھا کیونکہ میرا حلیہ کسی معزز انسان کا سا نہیں تھا اور خود مجھے اس کا احساس تھا۔ یہ سادھو سنت آدمی ہیں۔ ان کے حلیے پر نہ جانا مادھولال۔ اوم پرکاش نے کہا۔ اوہ۔ سادھو مادھولال نے کہا اور خاموش ہوگیا۔ بنیاقسم کا آدمی تھا شاطر اور چالاک۔ اس کے گھر دو دن رُکے۔ یہاں سے آگے جانے کا بندوبست کرنا تھا۔ گھر جا کر جب اطمینان سے بیٹھنے کا موقع ملا تو مادھولال نے کہا۔ سنت جی مہاراج۔ آپ اتنی چھوٹی سی عمر میں سنت کیسے بن گئے اوم پرکاش نے چونک کر اسے دیکھا اور میرے بجائے خود بول پڑے۔ عمر کا گیان سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہے مادھولال پُرزور لہجے میں بولا۔ تم کیا کہنا چاہتے ہو صرف ایک بات۔ ان دنوں گلی کوچوں میں سادھو ہی سادھو نظر آتے ہیں۔ گیروا کپڑے پہنے، ہاتھ میں کمنڈل پکڑا اور خود کو سادھو کہلانا شروع کر دیا۔ ایسے ناکارہ نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہوگئی ہے۔ میں سمجھتا ہوں یہ دھرم کا مذاق اُڑانے والی بات ہے۔ ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ جس کے پاس گیان شکتی ہوتی ہے اسے ہی سنت کہلانے کا حق ہوتا ہے۔ مگر میں نے تو گیروا کپڑے نہیں پہنے مادھولال جی۔ کمنڈل بھی میرے پاس نہیں ہے۔ آ جائے گا کچھ عرصے بعد۔ آپ گیان شکتی کسے کہتے ہیں میں نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کوئی چمتکار دکھائیں مہاراج۔ کچھ تو دیا ہوگا آپ کو تیاگ نے۔ مادھولال نے مذاق اُڑانے والے انداز میں کہا۔ اوم پرکاش جی نے بے چین ہو کر کہا۔ تم کچھ غلط باتیں نہیں کر رہے مادھولال چرن چھو کر معافی مانگ لوں گا سنت مہاراج سے مگر جاننا چاہتا ہوں انہیں کتنا گیان ملا ہے۔ کوئی چمتکار دکھایئے مہاراج۔ رات کا وقت تھا اور ہم لوگ اس وقت مادھولال جی کی حویلی کی چھت پر بیٹھے ہوئے تھے اور یہ چھت بہت بڑی تھی۔ مجھے بھی نہ جانے کیا سوجھی، دراصل ان باتوں میں مزا آ رہا تھا اور کچھ دیر کے لیے دل بہل گیا تھا۔ بیکار باتیں مت کرو مادھولال تم میرے آپ خود بتایئے مادھولال جی۔ کیا چمتکار دیکھنا چاہتے ہیں آپ میں نے اوم پرکاش کی بات کاٹ کر کہا۔ کوئی بھی۔ کچھ بھی۔ آپ کی مرضی میں نے کہا اور پھر پہلی بار میں نے اپنے بیروں کو پکار کر کہا۔ سنو، سامنے نہ آنا ورنہ مادھولال جی مر جائیں گے۔ یہ میرے میزبان ہیں بہت بڑے ساہوکار ہیں یہ، اور پھر مجھے ان سے بڑی عقیدت ہے میں ان پر عقیدت کے پھول نچھاور کرنا چاہتا ہوں۔ اتنے پھول برسائو ان پر کہ مادھو لال جی پھول جیسی چیز سے پریشان ہو جائیں، آیئے اوم پرکاش جی ہم ذرا پیچھے ہٹ جاتے ہیں۔ میں نے اوم پرکاش کا ہاتھ پکڑ کر انہیں پیچھے ہٹاتے ہوئے کہا۔ میں جانتا تھا کہ وہی ہو گا جو میں نے کہا ہے، اور میرے منہ سے ان الفاظ کو نکلے ہوئے کچھ لمحات ہی گزرے تھے کہ دفعتاً فضا سے پھولوں کی بارش شروع ہوگئی۔ طرح طرح کے پھول، موتیا، گلاب، گیندا اور نجانے کیا کیا۔ یہ پھول ہزاروں کی تعداد میں مادھولال جی پر آ آ کر گر رہے تھے اور مادھولال جی پریشان ہو کر کھڑے ہوگئے تھے۔ حویلی کی وسیع و عریض چھت کا گوشہ گوشہ پھولوں سے لدتا چلا جا رہا تھا۔ مادھولال جی کے منہ سے ارے ارے ارے کی آوازیں نکل رہی تھیں اور وہ بے وقوفوں کی طرح ادھر گردن گھما رہے تھے، پھول برستے رہے، صرف وہ جگہ خالی رہ گئی تھی جدھر میں اور اوم پرکاش جی کھڑے ہوئے تھے۔ ورنہ حویلی کی ساری چھت پر منوں پھولوں کے انبار لگتے جا رہے تھے، مادھولال جی آدھے بدن سے پھولوں سے ڈھک گئے، تو انہوں نے ہاتھ اُٹھا کر کچھ کہنا چاہا، لیکن حلق سے آواز ہی نہیں نکل پا رہی تھی۔ وہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے چاروں طرف دیکھ رہے تھے، خود اوم پرکاش جی پر سکتہ طاری تھا دفعتاً مادھولال نے گھبرا کر کہا۔ ارے بھائی رُکو تو سہی، میں پھولوں میں دَب کر مر جائوں گا، ارے رُکو، ارے رُکو۔ لیکن رُکنے والے جانتے تھے کہ کس کے حکم پر رُکنا ہے، بھلا وہ کیوں رُکتے، پھول مادھولال جی کے شانوں تک پہنچ گئے تو میں نے ہی دونوں ہاتھ اُٹھائے اور کہا۔ بس کرو، ورنہ مادھولال جی کی سمادھی انہی پھولوں میں بن جائے گی۔ بہت بڑے ساہوکار ہیں یہ، بہت بڑے آدمی ہیں اب ایسا کرو، ہماری طرف سے انہیں کچھ بھینٹ دے دو۔ سونا، چاندی بس یہی چیزیں انسان کو زیادہ پسند ہوتی ہیں۔ میرے بیروں کو پہلی بار مجھ سے کوئی حکم ملا تھا، سو تھال کے تھال پھولوں پر آ کر سجنے لگے اور اوم پرکاش جی نے آنکھیں بند کرلیں ان سے دیکھا نہیں جارہا تھا۔ مادھولال جی کے چاروں طرف ان تمام اشیا کے انبار لگ گئے۔ میں نے سوچا کہ کہیں ان چیزوں کو دیکھ کر ان کا دَم ہی نہ نکل جائے چنانچہ ہنس کر ہاتھ اُٹھائے اور کہا۔ بس کرو۔ بس کرو۔ اگر پھولوں کی طرح ان کی چھت سونے چاندی سے بھی بھر گئی تو حویلی ہی بیٹھ جائے گی، بس جائو تمہاری چھٹی۔ اور سونے چاندی کی آمد بند ہوگئی۔ اوم پرکاش جی نے ڈرتے ڈرتے آنکھیں کھولیں اور یہ سب کچھ دیکھا۔ مادھولال پتھرائے ہوئے کھڑے تھے، میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ہمارے دو دن کے قیام کا یہ معاوضہ آپ کے لیے میرے خیال میں کافی ہوگا مادھولال جی، اب پھولوں سے باہر نکل آیئے۔ کیا فائدہ کہ آپ یہیں کھڑے کھڑے مر جائیں۔ مادھولال جی نے کچھ کہنا چاہا لیکن آواز نہیں نکل سکی اوم پرکاش جی آہستہ سے بولے۔ مسعود۔ مسعود یہ سب کچھ۔ میں نے ایک ٹھنڈی سانس لی اور کہا جو آگیا ہے وہ واپس نہیں جا سکتا، باقی باتیں آپ جانیں اور آپ کے دوست۔ مجھے اب ان چیزوں سے کوئی غرض نہیں ہے میں نے کہا اور اس کے بعد ہم بمشکل تمام مادھولال جی کو نیچے لانے کے لیے سہارا دے کر چل پڑے۔ پھولوں پر چلنا ان کیلئے مشکل ہو رہا تھا۔ میں نے مسکرا کر کہا۔ آپ آپ کو بیٹھنے کیلئے کوئی دُوسری جگہ چاہئے ہوگی مادھولال مہاراج نیچے نیچے چلو۔ وہ گھٹے گھٹے لہجے میں بولے۔ ہم سب نیچے آ گئے۔ مجھے کہیں بٹھا دو۔ دوسروں کو۔ بھگوان کیلئے دُوسروں کو کچھ نہ بتانا۔ نیچے بھی بہت بڑا صحن تھا۔ یہاں بھی پھلواری لگی ہوئی تھی۔ ایک جگہ بیٹھ کر مادھولال جی نے کچھ دیر سانس درست کی۔ پھر دونوں ہاتھ جوڑ کر میرے سامنے گر پڑے۔ شما کردیں مہاراج۔ شما کر دیں۔ بڑی بھول ہوگئی مجھ سے۔ بڑی بھول ہوگئی کوئی بات نہیں مادھولال جی۔ میں نے ہنس کر کہا۔ ارے اب ان پھولوں کا کیا ہوگا۔ کیا بتائوں گا میں دُوسروں کو اب یہ آپ کا کام ہے مہاراج۔ اور وہ۔ وہ جو اُوپر ہے۔ ارے باپ رے۔ وہ تو کروڑوں کا مال ہے۔ کروڑوں کا۔ اب وہ آپ کا ہے۔ یاد کرلیا کریں گے اپنے دوست اوم پرکاش کو، کہ انہوں نے آپ کو کروڑوں کا مالک بنا دیا۔ میں نے کہا اور مادھولال نے دونوں ہاتھ سینے پر رکھ لیے۔ کوئی سونے کی جگہ مل جائے گی اوم پرکاش جی۔ مجھے نیند آ رہی ہے۔ میں بتاتا ہوں۔ مادھولال جی ایک دم کھڑے ہوئے اور گرتے گرتے بچے۔ بڑی مشکل سے وہ ہمیں ساتھ لے کر آئے اور ایک کمرے تک پہنچا دیا۔ یہ کمرہ آپ کیلئے ہے مہاراج۔ اوم پرکاش جی کے اہل خاندان کیلئے الگ انتظام کیا گیا تھا۔ میں چلتا ہوں۔ مادھولال بولے اور باہر نکل گئے۔ اوم پرکاش البتہ میرے پاس بیٹھے رہے تھے، گم صم اور خاموش۔ بہت دیر کے بعد انہوں نے زبان کھولی۔ اور آپ کے پاس ٹکٹ خریدنے کے پیسے بھی نہ تھے۔ میں ہنسنے لگا۔ مگر اب کیا ہوگا۔ کیوں اوم پرکاش جی اُوپر جو کچھ ہے۔ اس کا کیا ہوگا اب کیا ہوسکتا ہے۔ میں نے کہا۔ وہ واقعی کروڑوں کی دولت ہے۔ جو کچھ بھی ہے۔ اس کی واپسی ممکن نہیں ہے۔ اس کے تو دن پھر گئے۔ میں کیا کہہ سکتا ہوں۔ چمتکار دیکھ لیا اس نے اب ان ساری چیزوں کو واپس ہو جانا چاہئے، آپ ایسا ضرور کریں مسعود جی، یہ تو۔ یہ تو مناسب نہیں ہوگا، میں محسوس کررہا تھا کہ خود اوم پرکاش جی کی حالت بہتر نہیں ہے۔ ان دولت کے متوالوں کو یہی سب کچھ دُنیا کی سب سے بڑی چیز محسوس ہوتی تھی لیکن کوئی مجھ سے پوچھتا کہ کائنات کی سب سے بڑی دولت کیا ہے ماں باپ کی قربت، بہن بھائیوں کا ساتھ، ایک پرسکون جدوجہد سے پُرزندگی جس میں صبح کو تلاش رزق کیلئے گھر سے باہر نکلنا اور اس کے بعد ضرورتیں پوری ہو جانے کی حسرتیں لے کر واپس لوٹنا ہی اصل زندگی ہے، ساری خواہشیں پوری ہو جائیں تو پھر کس حساب میں جیا جائے، جو چھن گیا ہو اس کو پانے کی آرزو اور اس آرزو کی تکمیل ہی کائنات کا سب سے بڑا خزانہ ہے۔ اوم پرکاش جی بھی چلے گئے اور میں نجانے کب تک سوچوں کے دھارے پر بہتا رہا۔ میں نے سوچا کہ جلد بازی میں یا ان واقعات سے متاثر ہو کر میں نے یہ دُوسرا عمل غلط تو نہیں کر ڈالا۔ ایک عمل کیا تھا تو کمبل چھن گیا اور اب اس عمل سے نجانے کیا کیا چھن جائے گا۔ مگر کیا کروں کیسے جیئوں، یہ تنہا سوچیں، یے بے یقینی، یہ ناطلب قوتیں، ان سب کا کیا کروں۔ کتنا لڑ سکتا ہوں، موت کیلئے تو تیار ہوں، اگر یہ سب کچھ ناقابل معافی گناہ ہے تو مجھے موت چاہیے۔ نہیں جیا جارہا اس طرح۔ ہر آنکھ میں گناہگار بن کر۔ بیروں۔ میں نے آواز دی۔ سامنے نہ آنا، مجھ سے بات کرو۔ اور بے شمار آوازیں میرے کانوں میں اُبھرنے لگیں۔ وہ نجانے کیا کیا کہہ رہے تھے۔ سنو سنو، میری بات سنو، جو کچھ تم نے میرے کہنے سے چھت پر لا پھینکا ہے اسے واپس اُٹھا لو۔ جہاں سے لائے ہو وہاں واپس پہنچا دو۔ نہیں پورنا، نہیں بھگت، وہ پورنا دان ہے تیری پہلی مانگ ہے وہ واپس نہ کر۔ ہماری بھینٹ سوئیکار کر۔ نہیں بھگت ایسا نہ کر۔ یہ ہماری موت ہوگی۔ آوازیں آئیں اور میں خاموش ہوگیا۔ دُوسری صبح بڑی افراتفری مچی ہوئی تھی۔ حویلی کے رہنے والے بری طرح بھاگ دوڑ کر رہے تھے۔ میں باہر نکل آیا۔ بڑی مشکل سے اوم پرکاش جی ہاتھ لگے تھے۔ کچھ ہو گیا کیا وہی جو ہونا تھا۔ اوم پرکاش جی آہستہ سے بولے۔ کیا پوری حویلی میں بھگدڑ مچی ہوئی ہے۔ چھت پر پھولوں کے انبار سب کو پاگل بنائے ہوئے ہیں۔ سب اُوپر جا رہے ہیں اور نیچے آ رہے ہیں۔ مادھولال جی کیا کر رہے ہیں۔ اوم پرکاش نے فوراً جواب نہیں دیا کچھ دیر سوچ کر بولے۔ تقریباً پاگل ہو چکا ہے۔ ساری رات چھت سے سونے چاندی کے تھال اُتارتا رہا ہے۔ حویلی کے نیچے قیدخانے میں اس نے وہ سارے تھال چھپا دیئے ہیں۔ خود یہ سب کچھ کیا ہے اور تھک کر نڈھال ہوگیا ہے۔ میرے کمرے میں بھی آ گھسا تھا۔ میرے پیروں سے لپٹ کر بھوں بھوں روتا رہا ہے۔ کہتا ہے کہ آدھی دولت میں لے لوں۔ بڑی مشکل سے میں نے اسے باہر نکالا۔ اب دُوسرے کمرے میں دری بچھائے لیٹا ہے اور سر پر برف کی تھیلیاں رکھوا رہا ہے۔ اوہ۔ یہ تو برا ہوا۔ میں نے کہا۔ مجھے تو لگتا ہے پاگل ضرور ہو جائے گا۔ ویسے یہ بہت بڑی سزا ہے اس کے لیے اور اور مجھے اس سے بڑی عبرت حاصل ہوئی ہے۔ آپ سے بھلا کیا چھپا سکوں گا مسعود صاحب۔ آپ جو کچھ ہیں میری توقع سے کہیں بڑی بات ہے، میں تو حیران ہوں کہ ایسی مہان شخصیت مجھے کیسے مل گئی۔ آپ آکاش سمان ہیں مسعود صاحب دُوسروں کو آپ یہ سب کچھ دے سکتے ہیں اور خود ریلوے کے بابو سے کہتے ہیں کہ میرے پاس ٹکٹ نہیں ہے۔ رات مجھ پر بھی کٹھن گزری ہے اس دولت کے بارے میں سوچتا رہا ہوں جو چھت پر پڑی ہوئی تھی۔ لالچ بھی آیا دل میں۔ مگر اب آپ کے بارے میں سوچتا ہوں۔ آپ نے سب کچھ ٹھکرا رکھا ہے تو اس کی بھی کوئی وجہ ہوگی۔ ضرور کچھ وجہ ہوگی۔ میں نے ان باتوں کا کوئی جواب نہیں دیا۔ اوم پرکاش جی بولے۔ کاشی چلو گے میرے ساتھ۔ کیوں میں نے ہنس کر پوچھا۔ بس یونہی پوچھ رہا ہوں۔ ضرور چلوں گا۔ دراصل میں نے اپنے بیٹے کو ریلوے اسٹیشن بھیج دیا ہے۔ ٹکٹ لینے کیلئے، ہمیں فوراً چلنا ہے۔ اس پاگلخانے میں میرا دَم گھٹ رہا ہے۔ میں فوراً یہاں سے نکل چلنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ اب ایک ایک کر کے یہ سب پاگل ہو جائیں گے۔ چمتکار دیکھنا چاہتا تھا مادھول لال۔ دیکھ بیٹا۔ اب خوب دیکھ چمتکار۔ اوم پرکاش جی نے اس انداز میں کہا کہ مجھے ہنسی آ گئی۔ پنڈت اوم پرکاش جی کو اپنا ایمان بچانا مشکل ہورہا تھا۔ بال، بچوں کے ساتھ مقدس یاترا کو نکلے تھے اور یہاں پڑے جا رہے تھے دولت کے پھیر میں۔ مادھو لال نے آدھی دولت کی پیشکش کردی تھی اور یہ آدھی دولت اتنی تھی کہ اوم پرکاش جی نے ساری عمر نہیں کمائی تھی۔ انہیں پارس پتھر ملا تھا مگر یہ پتھر ان کے بجائے مادھو لال کو چھو گیا تھا۔ ان سے برداشت نہیں ہو رہا تھا۔ تقدیر کو انہیں اس مصیبت سے نکالنا تھا کہ ان کے بیٹے کو بنارس کے ٹکٹ مل گئے۔ بارہ بجے ریل روانہ ہونے والی تھی۔ مادھو لال تو واقعی دیوانہ ہوگیا تھا۔ کسی سے مل ہی نہیں رہا تھا۔ رخصت ہوتے ہوئے ہم مادھو لال کے اس کمرے کے دروازے پر پہنچے جسے وہ بند کئے بیٹھا تھا۔ پتا جی دروازہ کھولیے۔ مادھولال کے بیٹے نے آواز لگائی۔ ابے کیوں بار بار آجاتا ہے میں بالکل ٹھیک ہوں۔ اوم پرکاش چاچا جارہے ہیں۔ کہاں جارہے ہیں بنارس۔ کہاں ہیں یہ کھڑے ہیں دروازے پر۔ مادھو لال کا بیٹا بولا۔ تو بھاگ جا یہاں سے، بات کروں گا میں ان سے۔ مادھو لال کا بیٹا تو نہ گیا مگر مادھو لال دروازے پر آگئے تھے۔ ان کی آواز ابھری۔ اوم پرکاش آدھی لے لو۔ تمہیں بھگوان کا واسطہ، آدھی لے لو۔ میں جارہا ہوں مادھو لال جیتا رہا تو واپسی میں تم سے ملوں گا۔ میں الگ کرلوں گا۔ دھرم ایمان سے آدھی تمہاری مادھو لال بولا اور اوم پرکاش جی وہاں سے پلٹ آئے۔کچھ دیر کے بعد ہم لوگ اسٹیشن پہنچ گئے اور پھر ریل ہمیں لے کر چل پڑی۔ اوم پرکاش میرا بڑا احترام کررہے تھے۔ ویسے حالت ان کی بھی زیادہ بہتر نہیں تھی۔ مسعود جی۔ بھگوان نے یہ سونا چاندی بھی کیا چیز بنائی ہے۔ اس کے سارے کھیل نیارے ہیں مگر ساتھ ہی اس نے منش کو صبر بھی دیا ہے۔ ایک وہ ہے جو ہنسی ہنسی میں دھن دولت کے انبار لگا کر پھینک دیتا ہے اور ایک وہ جو ان پھینکی ہوئی چیزوں کو اٹھا کر پاگل ہوجاتا ہے۔ ہاں اوم جی۔ ملتا کسی کو کچھ نہیں ہے۔ وہ کونسی شکتی ہے مسعود جی جو انسان کو دھن دولت سے نفرت کرا دیتی ہے۔ ایمان اللہ پر ایمان جو کچھ اس کائنات میں ہے، اس کا ہے۔ اسے اپنا سمجھنا حماقت ہے۔ جو سامنے آجائے، اسے اس کا سمجھ کو دیکھو۔ اپنا سمجھ کر نہیں، تمہارا کچھ بھی نہیں ہے۔ جب تمہاری سانسیں تمہاری اپنی نہیں تو اور کیا چیز ہوگی۔ لالچ اور ہوس سے دوسروں سے چھین کر جو چاہو اکٹھا کرلو، اسے کہیں لے جائو تو مانیں۔ سب کچھ رہ جائے گا اور تم ہاتھ پسارے چلے جائو گے۔ اوم پرکاش سوچ میں ڈوب گئے۔ پھر میرے ہاتھ پکڑ کر بولے۔ ایسے کچھ بول اور بول دو مہاراج میرا بھلا ہوجائے گا۔ کیوں اوم پرکاش جی۔ میں نے مسکرا کر پوچھا۔ نیک دلی سے تیرتھ یاترا کو نکلا تھا کہ یہ کھیل سامنے آگیا۔ غلطی میری بھی نہ تھی۔ مجھے معلوم نہ تھا اور اب من ادھر ہی اٹکا ہوا ہے۔ مادھو لال تو کروڑ پتی بن گیا اور چولہے میں جائے سب کچھ ارے کیا کروں گا میں سونے چاندی کا، سب دوسروں کے کام ہی آئے گا۔ اوم جی خود کو سمجھا رہے تھے۔ سفر جاری رہا۔ ان پر کیا بیت رہی ہے، میں نہیں جانتا تھا میرے اپنے ہی تفکرات کیا کم تھے۔ اب تو درد حد سے گزر چکا تھا، دوا کی حاجت ہی ختم ہوتی جارہی تھی۔ دل چاہ رہا تھا کہ خود کو حالات کے دھارے پر چھوڑ دوں۔ خود کچھ نہ کروں۔ کوئی کچھ کرتا ہے تو کرنے دوں۔ آنکھیں بند کرکے سو جانے کو جی چاہتا تھا۔ بنارس آگیا۔ مندروں کی دنیا ہندو، مسلمان کی ملی جلی آبادی، یاتریوں کے ہجوم۔ عقیدت مندوں کے ڈیروں کے درمیان اوم پرکاش جی نے بھی ڈیرہ جما لیا۔ دولت مند انسان تھے۔ جیسا چاہتے، بندوبست کرسکتے تھے مگر بڑی عقیدت سے آئے تھے اس لئے سارے عمل وہی کرنا چاہتے تھے جو ان کے دھرم کے مطابق ہوں۔ مجھے ساتھ تو لے آئے تھے مگر اب شاید سوچ رہے تھے کہ میرا کیا کریں۔ وہ خود اپنے مخصوص انداز میں پوجا پاٹ کرنا چاہتے تھے۔ ایسے میں میرا ساتھ چھوڑنا ضروری تھا۔ بولے۔ مسعود میاں تمہارا جہاں جی چاہے سیر کرو، ہم پوجا کریں گے۔ ڈیرہ تمہارا ہے۔ جیسے من چاہے رہو، شام یہاں بتا لیا کرو۔ آپ بالکل بے فکر رہیں اوم پرکاش جی میں اپنی جگہ تلاش کرلوں گا۔ میں نے انہیں اطمینان دلا دیا۔ پھر میں ڈیرے سے چل پڑا۔ کاشی واقعی ہندو دھرم کی بڑی مقدس جگہ ہے۔ ہندوستان کے ہر گوشے سے لوگ آئے ہوئے تھے بلکہ شاید نیپال، سری لنکا اور بھوٹان کے یاتری بھی تھے۔ طرح طرح کے چہرے، طرح طرح کے نقوش عورتیں، مرد، بچے، بوڑھے، نوجوان لڑکیاں، طرح طرح کے سوانگ اور روپ رات کے کوئی دس بجے تھے۔ ایک پرانے مندر کے قریب بیٹھا میں آنے جانے والے یاتریوں کو دیکھ رہا تھا۔ چار آدمی ایک لمبے تڑنگے شخص کے پیچھے بڑی عقیدت سے چلتے ہوئے میرے قریب سے گزرے۔ لمبے تڑنگے شخص کے سر کے بال کمر تک لٹکے ہوئے تھے۔ اس نے سر سے پائوں تک دھوتی جیسا لباس لپیٹا ہوا تھا، بازو کھلے ہوئے تھے، سینے تک داڑھی تھی، آنکھوں پر چشمہ لگا ہوا تھا۔ مجھ سے چند قدم آگے بڑھ کر وہ رک گیا۔ ادھر ادھر دیکھا اور پھر اس کی نظریں مجھ پر جم گئیں۔ وہ چاروں آدمی بھی میری طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ وہ شخص پلٹ کر میرے قریب آکھڑا ہوا اور میں بھی کسی قدر گھبرائے ہوئے انداز میں کھڑا ہوگیا۔ اس نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے تھے۔ آپ یہاں مہاراج آپ یہاں کب آئے آج میں نے بدستور گھبرائے ہوئے انداز میں کہا۔ میں اسے بالکل نہیں پہچان سکا تھا۔ اس نے اپنے ساتھیوں کو دیکھ کر کہا۔ مجھے میرے بہت پرانے دوست ملے ہیں، کچھ دیر ان سے بات کروں گا۔ آپ لوگ اپنے استھان پر جائیں اور آرام کریں، کل پھر ملیں گے۔ وہ چاروں ہاتھ جوڑ کر جھکے اور واپس چلے گئے۔ جب وہ دور نکل گئے تو اس نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔ کالی شکتی والے یہ بھگوان دوار ہے، یہاں تیرا کیا کام تم کون ہو، میں نے تمہیں نہیں پہچانا۔ ساگر سروپ ہے ہمارا نام تو ہمیں کیا پہچانے گا۔ ہم نے تجھے اوش پہچان لیا ہے۔ کیا جانتے ہو میرے بارے میں۔ تیرے شریر سے کالی بساندھ اٹھ رہی ہے۔ تیری پہچان کے لیے یہ کافی ہے۔ اوہ میں سمجھا کچھ اور جانتے ہو تم میرے بارے میں۔ میں نے گہری سانس لے کر طنزیہ لہجے میں کہا۔ کیا کررہا ہے یہاں یاترا میں نے کہا اور ہنس پڑا۔ بھسم ہوجائے گا۔ کیوں کالی گندگی لے کر تو بھگوان کے چرنوں میں جائے گا۔ تم بڑے گیانی معلوم ہوتے ہو۔ فوراً کالی شکتی کو پہچان لیا۔ اس سے آگے بھی کچھ جانتے ہو یا اتنا ہی وہ مجھے غور سے دیکھنے لگا۔ پھر اس نے کہا۔ اپنے دونوں ہاتھ سامنے کرو۔ اس نے کہا اور میرے پاس بیٹھ گیا۔ میں نے اس کی ہدایت پر عمل کیا تھا۔ تھوڑی بہت روشنی ہر جگہ سے چھن رہی تھی۔ وہ میرے پھیلے ہوئے ہاتھوں کو دیکھ رہا تھا۔ دیر تک وہ میرے ہاتھوں پر نظریں جمائے رہا۔ پھر اس کے منہ سے ایک چونکی ہوئی آواز سنائی دی۔ ارے اوہ اوہ اس نے غور سے میرا چہرہ دیکھا اور پھر ہاتھ آگے بڑھا کر میرے دونوں ہاتھ پکڑ لیے پھر آہستہ سے بولا۔ جیوتش ودیا پر وشواس رکھتے ہو خود بولتے رہو ساگر سروپ جی ہم سے کچھ نہ پوچھو۔ ہم نے تھوڑا سا جیوتش کا علم سیکھا ہے۔ تمہاری ریکھائوں میں جو نظر آرہا ہے، وہ عجیب ہے۔ کچھ کہہ سکو گے کچھ پوچھیں بتائو گے اگر بتانے کی بات ہوئی تو ہندو دھرم سے نہیں ہو۔ وہ میرے ہاتھوں پر نظریں جما کر بولا۔ آگے چلو وقت کے مارے ہو، مگر شکتی مان ہو۔ بڑا دل رکھتے ہو مگر دکھوں سے بھرا کالا جادو جانتے ہو مگر مگر کرتے نہیں ہو۔ اورٖٖ حیرانی کی بات ہے۔ سمجھ میں نہ آنے والی تمہاری ریکھائیں عجیب ہیں۔ ریکھائوں میں سارے جیون کی کہانی نہیں ہوتی۔ ستاروں کی چال بدلتی رہتی ہے، ریکھائیں بنتی بگڑتی رہتی ہیں مگر سب سے زیادہ ایک بات حیران کررہی ہے۔ کیا تمہارا دھرم کیا ہے کیا کالا جادو صرف ہندو جانتے ہیں نہیں جو بھی شیطان سے قریب ہوجائے، جو اسے دیوتا مان لے، دھرم کی قید نہیں ہوتی لیکن شیطان کا ایک ہی دھرم ہوتا ہے یعنی شیطنت نہ پھر ہندو، ہندو ہوتا ہے نہ مسلمان، مسلمان وہ سب شیطان کے چیلے ہوتے ہیں۔ تم خود کیا ہو صرف انسان بچپن سے گیان دھیان سے دلچسپی تھی۔ سب کچھ چھوڑ کر اس کی کھوج میں لگ گیا۔ کیا پایا شانتی صرف شانتی جیوتش سیکھی ہاں ایک مہان آتما مل گئی تھی، اس نے اپنا گیان دے دیا۔ اور میں نے کہا اور وہ مسکرا دیا۔ میری ایک بات پوری نہیں کی۔ اپنی پوچھے جارہے ہو۔ میں کچھ بھی نہیں ہوں، دو کوڑی کا انسان ہوں، کالا جادو نہیں جانتا۔ بس اس کے جال میں پھنس گیا ہوں۔ راستے کی تلاش میں بھٹک رہا ہوں۔ تلاش کرتا رہوں گا اس وقت تک جب تک موت نہ آجائے۔ اتنا انتظار کیوں کرتے ہو پھر کیا کروں سورج کا سفر دوڑنا پڑے گا۔ کرنوں کے ساتھ دوڑنا پڑے گا۔ رک گئے تو کبھی منزل نہ پائو گے اور پہنچ گئے تو فیصلہ ہوجائے گا۔ منزل کتنی دور ہے، کوئی نہیں جانتا مگر چلنا پڑتا ہے، دوڑنا پڑتا ہے، وہیں فیصلہ ہوجائے گا۔ سورج کا سفر ہاں کیسے میں بتا سکتا ہوں۔ بتائو ایسے نہیں۔ گرو ماننا پڑے گا، گرودچھنا دینا پڑے گی۔ اس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ کیا میں نے پوچھا۔ محنت سے کمائی کرکے چار لڈو۔ جب ہوجائیں، اسی جگہ آجانا۔ انتظار کروں گا۔ اس نے کہا اور آگے بڑھ گیا۔ میں اے دیکھتا رہ گیا۔ عجیب سا آدمی تھا۔ مجھے یوں لگا جیسے وہ بہت بڑا ہو مگر چھوٹا بنتا ہو۔ سورج کا سفر، گرودچھنا، محنت کی کمائی سے، محنت کی کمائی سے۔ کہاں سے کمائوں رات ہوگئی۔ بہت دور نکل آیا تھا۔ اوم پرکاش کا ڈیرہ کہاں ہے، یاد ہی نہیں رہا تھا۔ ساگر سروپ یاد تھا۔ وہ جو کچھ کہہ گیا تھا، جی کو لگ رہا تھا۔ ایک سنسان گوشہ دیکھ کر وہیں پڑ رہا۔ وہاں صبح ہوگئی۔ کوئی دس بجے تھے۔ میں نے ایک ادھیڑ عمر مرد کو دیکھا ٹین کا صندوق سر پر رکھے، اس پر بستر رکھ ہوا تھا ساتھ میں اسی کی عمر کی عورت تھی جو دو وزنی تھیلے لٹکائے ہوئے تھی۔ ڈگمگاتے قدموں سے آگے بڑھ رہا تھا۔ میرے قریب سے گزرا تو گردن گھما کر مجھے دیکھا اور صندوق سے بستر گر پڑا۔ اس نے صندوق بھی بستر پر پھینک دیا اور وہیں بیٹھ گیا۔ عورت نے تھیلے زمین پر پٹخ دیئے۔ اب آگے ناہیں بڑھو گے کا عورت غصے سے بولی۔ ارے چپ آگے کی بچی کھپڑیا پچک کر سڑا ہوا خربوزہ بن گئی اور تے کہے ہے آگے بڑھو۔ مرد جھلائے ہوئے لہجے میں بولا۔ اور پکڑو پائی پائی داتن سے۔ یاترا کو آویں کی کا جرورت تھی گھر کو ہی کاسی جی بنا لیتے۔ اور ریل کا کرایہ تے جیسے تیرے میکے سے آیا تھا۔ وہ سسر پندرہ روپے مانگ رہا تھا۔ ہم نے آٹھ لگا دیئے تب بھی نہ مانا۔ مرد نے کہا اور پھر اس کی نگاہ مجھ پر پڑی۔ وہ جلدی سے کھڑا ہوگیا۔ ارے بھائی اورے بھائی ارے ذرا ادھر آنا میرے بھائی ارے مزدوری کرے گا کیا رے۔ یہ سامان اٹھا کے ذرا تلسی نواس پہنچا دے بھیا ایک بکس اور ایک بسترا ہے رے بھائی ارے ارے تمہاری کھوپڑیا تے سچی مچی کھربوجا بن گئی ہے۔ وہ مجدور لاگے ہے تمہیں کا۔ عورت نے مرد کو گھورتے ہوئے کہا۔ ایں مرد مجھے دیکھنے لگا مگر میرے ذہن میں چھناکا ہوا تھا۔ مزدوری، محنت کی کمائی۔ یہ محنت کی کمائی ہی ہوگی۔ چنانچہ میں نے آگے بڑھ کے کہا۔ کتنے پیسے دو گے ارے چار روپئے دیں گے پورے ٹھیک ہے۔ میں نے گردن ہلا دی اور پھر وزنی بکس بستر اٹھا کر سر پر رکھ دیئے۔ عورت نے دونوں تھیلے میرے بازوئوں میں لٹکا دیئے تھے۔ میں چل پڑا اور پھر انہیں تلسی نواس مندر پہنچا دیا۔ بہت سے یاتری یہاں موجود تھے۔ مرد نے سامان ایک جگہ رکھوا دیا اور پھر انٹی سے مڑے تڑے نوٹ نکالے اور گھگھیا کر بولا۔ ارے تین روپے لے لے بھائی تیرا بھلا ہوگا۔ بھگوان تمہیں سیدھا کرے۔ نکالو پانچ روپے اور اسے دو۔ عورت جھلا کر بولی۔ اری او ساہوکارنی پانچ روپے کاہے کے ری۔ یہ تھیلے جو اٹھائے ہیں اس نے تے یہ سامان نہیں کیا ارے لے بھائی ایک روپیہ اور لے۔ تو جا اس ساہوکارنی کو تو ہم دیکھ لیں گے۔ مرد نے ایک روپیہ اور دے کر جان چھڑائی۔ میں چار روپے لے کر پلٹا تو اپنے عین سامنے اوم پرکاش جی کو کھڑے پایا۔ وہ تند نظروں سے مجھے دیکھ رہے تھے۔ یہ کیا ہورہا ہے انہوں نے پوچھا۔ مزدوری میں نے ہنس کر کہا۔ کیوں میری بھی ضرورتیں ہیں اوم پرکاش جی آیئے یہاں کہاں مجھے دکھ ہوا ہے مسعود میاں میرے دل میں تمہارا کیا مقام ہے، بتا نہیں سکتا اور تم دوسرے لوگ کہاں ہیں وہ موجود ہیں۔ رات کو بھی ڈیرے پر واپس نہیں آئے بس آپ کی کاشی دیکھ رہا ہوں۔ ایسے وہ شکایتی انداز میں بولے۔ ہاں اپنا اپنا انداز ہے۔ میں نے کہا۔ دوپہر ڈھلے تک اوم پرکاش کے ساتھ رہا پھر موقع پا کر دوبارہ نکل بھاگا۔ وہ لوگ پوجا پاٹ میں مصروف تھے، مجھے موقع مل گیا۔ تلاش کرکے میں نے ایک دکان سے لڈو خریدے۔ دو روپے کے مل گئے تھے۔ ایک فقیر نے ہاتھ پھیلایا تو بچے ہوئے دو روپے اس کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔ پھر اس جگہ پہنچ گیا جہاں ساگر سروپ ملا تھا۔ بے شمار لوگ ادھر سے ادھر گھوم پھر رہے تھے۔ ایک شخص ٹاٹ کی بوری سر پر رکھے گھٹنوں میں سر دیئے بیٹھا تھا۔ متجسس نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔ تبھی مجھے شی شی کی آواز سنائی دی اور میں چونک کر پلٹا۔ ساگر سروپ نے بوری اُتار کر بغل میں دبائی اور اُٹھ کھڑے ہوئے۔ تمہارا انتظار کررہا تھا۔ آئو چلیں یہاں سے ہم دونوں آگے بڑھ گئے۔ پھر وہ کافی دور جاکر ایک پتھر پر بیٹھ گئے اور مسکرا کر بولے۔ لڈو لے آیا بیٹا ہاں یہ ہیں۔ ٹھیک ہے۔ گرو بھگتی کر۔ ایک لڈو ہمارے منہ میں رکھ۔ انہوں نے کہا اور میں نے ان کی ہدایت پر عمل کیا۔ انہوں نے ایک لڈو اٹھا کر میرے منہ میں رکھا اور بولے۔ اب ہمارے چرن چھو کر ماتھے سے لگا۔ ہاتھ جوڑ کر ہمارے سامنے دوزانو بیٹھ جا۔ کیا میں حیرت سے بولا۔ ہاں یہ گرو کا احترام ہے۔ نہیں ساگر سروپ جی یہ میرے لیے ممکن نہ ہوگا۔ کچھ ہو یا نہ ہو مگر یہ نہیں ہوگا۔ میں کئی قدم پیچھے ہٹ گیا اور ساگر سروپ مجھے غور سے دیکھنے لگے۔ پھر مسکرا کر بولے۔ مسلما ن ہے۔ مسلمان ہے تجھ سے تیرا دھرم کون چھین سکتا ہے بھلا۔ سب سسرے بے وقوف ہیں، پاگل ہیں۔ آ یہاں بیٹھ جا میں تجھے بتائوں سورج کا سفر کیا ہے۔ آ بیٹھ جا تو فولاد ہے، تجھے کوئی آسانی سے نہیں توڑ سکتا۔ میں بیٹھ گیا۔ میرے ساتھ چلنا ہوگا تجھے۔ کہاں زیادہ دور نہیں۔ بس کسی بھی ایسی جگہ جہاں رکاوٹیں نہ ہوں۔ جو بتائوں وہ کرنا ہوگا۔ میرے حکم نہ ماننے سے آپ ناراض تو نہیں ہوئے ساگر جی نہیں تیرا دھرم پتا چل گیا۔ مسلمان کسی کو وہ تعظیم نہیں دیتے جو ان کے رب کے لیے مخصوص ہے۔ اس پر تو لاکھوں گردنیں کٹی ہیں، اتنا مجھے معلوم ہے۔ خیر ان باتوں کو چھوڑو۔ کیا کہتا ہے چلیں جیسا آپ پسند کریں۔ تو نے لڈو کھلایا ہے بھائی اتنا تو کرنا ہی پڑے گا۔ ساگر سروپ ہنستے ہوئے اٹھ گئے اور پھر ہم وہاں سے چل پڑے۔ ساگر سروپ نے کہا تھا کہ کچھ دور جانا ہوگا مگر ایسا نہیں ہوا تھا۔ ہم آبادیوں کو پیچھے چھوڑ آئے۔ جنگل شروع ہوگئے۔ جھٹپٹا ہوا، چڑیوں کا شور، بندروں کی خوں خوں ابھرتی رہی۔ پھر رات ہوگئی۔ نہ وہ رکے نہ میں نہ وہ تھکے نہ میں اور جب چاند نکلا تو ہم ایک ایسی جگہ پہنچ گئے جہاں ایک بدشکل ویرانہ پھیلا ہوا تھا۔ چاروں طرف ابھری ہوئی ناہموار زمین، سوکھے درخت، مکمل خاموشی اور سناٹا چھایا ہوا تھا۔ یہ جگہ ہے۔ ساگر سروپ نے کہا اور رک گیا۔ چاروں طرف دیکھتا رہا پھر بولا۔ سورج وہاں سے بلند ہوگا۔ اس نے انگلی سے ایک طرف اشارہ کیا تھا۔ مجھے کیا کرنا ہوگا راستہ چاہتا ہے نا ہاں راستہ چاہتا ہوں۔ سورج تجھے راستہ بتائے گا۔ اجالا ہونے سے پہلے تیار ہوجانا، اپنے بدن کو ہوا کا بدن بنا لینا، کسی سے مدد نہ مانگنا پھر جب سورج سر ابھارے گا تو اس کی کرنیں زمین کی طرف لپکیں گی۔ جو کرن پہلے زمین کو چھوتی ہے، وہ سرتاج ہوتی ہے۔ اس کی پہچان یہ ہوتی ہے کہ اس میں ہزار رنگ تڑپ رہے ہوتے ہیں۔ وہ زمین پر دوڑتی ہے، دور تک سورج کا پیغام لے جانے کے لیے اس دن کی بادشاہی اسے ملتی ہے۔ تجھے سرتاج کرن کے ساتھ ساتھ دوڑنا ہوگا۔ اس کی رفتار کے ساتھ۔ کرن کھو گئی تو تیرا مستقبل بھی کھو جائے گا اور تو نے اس کا ساتھ دے لیا تو منزل پر پہنچ جائے گا۔ وہاں تجھے تیرا مستقبل مل جائے گا۔ بس یہی بتانا تھا تجھے یہ سب کیا ہے بھگوان ہی جانے ساگر سروپ نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ مجھے تو یہ کہانی لگتی ہے۔ یہ سچی کہانی ہے۔ پہلے میں نے یہ کرن کہانی نہیں سنی۔ بہت سوں نے نہ سنی ہوگی، تو ہی کیا لیکن یہ کرن سب کے لیے ہوتی ہے۔ سورج کی اس کرن کو پکڑ لیا جائے تو سارے کام بن جاتے ہیں۔ تو نہیں جانتا، بہت سے نہیں جانتے مگر پنکھ پکھیرو جانتے ہیں۔ وہ پرواز کرتے ہیں، اس کرن کے ساتھ تو کیا سمجھتا ہے پنکھ پکھیرو بھگوان کے داس نہیں ہوتے، سب اسے جانتے ہیں، سب اسے پہچانتے ہیں، اس کی پوجا کرتے ہیں، اس کی عبادت کرتے ہیں، اسے سانچی مانتے ہیں۔ صبح کو سورج نکلنے سے پہلے اسے یاد کرتے ہیں۔ کرن کے ساتھ دوڑنے میں کچھ رہ جاتے ہیں، کچھ پار لگ جاتے ہیں۔ جو رہ جاتے ہیں، وہ دوسری صبح پھر جاگ جاتے ہیں اور کرن کے پیچھے دوڑتے ہیں۔ کرن کہیں جاکر رکے گی ہاں کرنوں کا ملاپ ہوجائے گا، دھوپ پھیل جائے گی۔ وہاں میں کیا کروں گا جاری ہے
null
null
null
null
405
https://www.urduzone.net/raqabat-complete-urdu-story/
شریمتی پوجا کی آرٹ گیلری اچھی چلنے کی ایک وجہ یہ تھی کہ وہ شہر کے سب سے بڑے بازار میں واقع تھی۔ اس بازار میں بڑے بڑے سرمایہ دار، صنعت کار، شوبز کے فنکار، فلم ساز اور غیر ملکی سیاح آتے تھے۔ ممبئی میں کون ایسا شخص تھا جو اس کی آرٹ گیلری اور اس کے نام سے واقف نہ تھا۔ وہ نہ صرف غیرملکی سیاحوں بلکہ آرٹ کے قدردانوں کو بے وقوف بنانے کے فن میں طاق تھی۔ جب سے بھارتی فلمیں امریکی اور یورپی فلموں کو بے حجابی میں شرمانے لگی تھی، تب سے لوگوں کے مزاج میں تبدیلی آنا شروع ہوگئی تھی۔ ان کا ذوق بھی بدلتا جا رہا تھا۔ پہلے لوگ اپنی خواب گاہوں اور نشست گاہوں میں مشہور فنکاروں کی تصویریں سجانے میں فخر محسوس کرتے تھے لیکن اب یہ سلسلہ بند ہوگیا تھا اور اب انہیں ایسی تصویروں کی جستجو رہنے لگی تھی جس میں شوبز کی فنکارائیں بولڈ حالت میں ہوں۔ پھر یہ اداکارائیں مصوروں سے بولڈ تصویریں نہ صرف خوشی خوشی بنواتی تھیں بلکہ انہیں رقم بھی دیتی تھیں۔ اس لئے کہ وہ شہرت اور اپنے آپ کو شائقین کی توجہ مبذول کرانے کی خواہشمند ہوتی تھیں۔ اب وقت، حالات اور ماحول نہ صرف بدل گیا تھا بلکہ تیزی سے بدلتا جا رہا تھا۔ شریمتی پوجا بڑی شاطر، قیافہ شناس اور دوراندیش عورت واقع ہوئی تھی۔ وہ فوراً گاہگوں کا بدلتا ہوا مزاج سمجھ گئی اور اس نے درجنوں کے حساب سے بولڈ تصویریں لگا دیں۔ یہ تصویریں وہ قلاش مصوروں سے سستے داموں خریدا کرتی تھی۔ یہ مصور فنکارائوں کی چھپی ہوئی تصویریں اس طرح بناتے تھے جیسے ماڈل ان کے سامنے موجود ہو۔ یہ تصویریں وہ ہوٹلوں اور ریستورانوں کے مالکوں کو مہنگے داموں فراہم کرتی تھی۔ اس طرح وہ دونوں ہاتھوں سے خوب دولت بٹور رہی تھی۔ شریمتی پوجا کے کئی کاروباری راز تھے جو اس کے ذہن کی اختراع تھے۔ اس نے سب سے پہلے اپنے خریداروں پر توجہ دی خاص طور پر ایسے گاہکوں پر جو ہر قسم کی تصویریں خریدتے تھے۔ انہیں جن زاویوں کی تصویروں کی ضرورت ہوتی تھی وہ اس کے پاس خاصی موجود ہوتی تھیں۔ وہ خوشی خوشی منہ مانگے دام دے جاتے تھے، کوئی مول تول نہیں کرتے تھے۔ جب تصویروں کی نکاسی کا انتظام باقاعدہ اور اطمینان بخش ہوگیاپھر اس نے مصوروں کی جانب توجہ مبذول کی، جہاں اس کی صلاحیتوں کے حقیقی جوہر کھل کے سامنے آئے، جن سے اس نے فائدہ اٹھانے میں بخل سے کام نہیں لیا۔ جن مصوروں سے اس کا سابقہ پڑتا تھا، ان میں سے بیشتر بے پروا، غیر ذمے دار اور قلاش ہوتے تھے۔ انہیں نہ اپنے لباس کا ہوش ہوتا اور نہ اپنی شخصیت کا شریمتی پوجا کو بہت جلد ان کی کمزوری کا احساس ہو گیا تھا۔ ان مصوروں کو رقم کی ہمیشہ ضرورت ہوتی تھی تاکہ وقتی طور پر ان کے پیٹ کی آگ بجھ جائے اور انہیں شراب نوشی کے لئے کسی بھی قسم کی شراب مہیا ہوجائے۔ شریمتی پوجا کے کاروباری رقیب اس کی طرح دولت مند نہیں تھے، اس لئے وہ مصوروں کو صرف شہرت کے سہانے سپنے دکھایا کرتے تھے۔ کوئی مفلوک الحال مصور ان کے پاس تصویر فروخت کرنے جاتا تو وہ ان کے فن کی تعریف میں زمین آسمان کے قلابے ملا دیتے اور اسے اس شہر کا صفِ اول کا مصور گردانتے اور اس کی تصویر کی اچھی قیمت لگاتے۔ مثال کے طور پر پانچ ہزار روپے غریب مصور کی آنکھیں پانچ ہزار روپے کا سن کر برقی قمقمے بن جاتیں، مگر وہ نقد رقم دینے کے بجائے اس سے کہتے کہ مہربانی فرما کر تصویر یہاں چھوڑ جائیں۔ جب یہ فروخت ہوجائیں گی تو ہم اپنا کمیشن کاٹ کے باقی رقم آپ کے حوالے کردیں گے۔ مصور کمیشن کے بارے میں پوچھتا تو جواب دیا جاتا کہ پچاس فیصد۔ اس کے برعکس شریمتی پوجا مصوروں کو شہرت کے سندر سپنے دکھانے کی بجائے ہزار، پانچ سو روپے کے نوٹوں کی جھلک دکھاتی تھی۔ بعض اوقات یہ جھلک دو ہزار کے نوٹوں پر مشتمل ہوتی تھی۔ شریمتی کے اس حقیقت پسندانہ رویے نے بہت جلد شہر کے مفلوک الحال مصوروں کو اس کا گرویدہ بنا لیا تھا۔ جیسے ہی ان کی کوئی تصویر مکمل ہوتی وہ اسے پرانے اخبار میں لپیٹ کے سیدھے شریمتی پوجا کی گیلری میں آ جاتے۔ وہ انہیں اپنے کمرے میں لے جاتی اور وہاں تصویر کا باریک بینی سے جائزہ لیتی۔ اس دوران غریب مصور بڑی بے بسی اور بے چارگی سے اپنی قسمت کے فیصلے کا انتظار کرتا۔ حقیقت یہ تھی کہ جتنی ضرورت مصوروں کو شریمتی پوجا کی تھی اتنی ہی ضرورت اس کو مصوروں کی تھی اور یہی بات فساد کی جڑ تھی۔ اس طرح مصوروں کو سودے بازی کا حق مل جاتا تھا سودے بازی سے شریمتی پوجا کو سخت نفرت تھی۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لئے آخر اُس نے ایک طریقہ دریافت کر لیا، بلکہ طریقے کے بجائے اسے ایجاد کہنا مناسب ہوگا۔ مصور بغل میں اپنی تصویر دبائے اس کی گیلری میں داخل ہوتا۔ شریمتی کی ملازمہ اسے گیلری کے عقبی حصے کے ایک کوٹھری نما کمرے میں لے جاتی۔ یہ کمرہ ایک طرح سے دفتر کا کام دیتا تھا۔ اس چھوٹے سے کمرے میں پرانے طرز کی ایک بڑی سی میز کے پیچھے شریمتی پوجا کی اونچی کرسی تھی۔ وہ کمرے میں داخل ہوکر مصور کو بیٹھنے کا اشارہ کرتی اور پھر باوقار انداز میں چلتی ہوئی اپنی کرسی پر بیٹھ جاتی۔ مصور اپنی تخلیق کھول کے اس کے سامنے پیش کرتا اور پھر تصویر ایزل پر لگائی جاتی۔ شریمتی اس کا بغور معائنہ کرتی۔ پھراس کی عقابی نظریں تصویر کی ساری خوبیاں اور خرابیاں چند لمحوں میں پرکھ لیتی تھیں۔ پھر وہ کاغذ کا ایک ٹکڑا اپنی طرف کھسکاتی اور مصور کی نظروں سے چھپا کر اس پر تصویر کی قیمت لکھتی جو اس کے نزدیک مناسب ہوتی۔ کاغذ کا یہ پرزہ اس معاملے کی جان بن جاتا تھا۔ پھر مصور کو حکم دیا جاتا کہ وہ خود اپنی تصویر کی قیمت بتائے۔ اگر اس بدنصیب مصور کی طلب کردہ قیمت شریمتی کی تحریر کردہ رقم سے سو روپے بھی زیادہ ہوتی تو معاملہ وہیں ختم ہوجاتا۔ شریمتی خاموشی سے تصویر لپیٹ کے واپس مصور کے حوالے کردیتی۔ مصور لاکھ قیمت کم کرتا اور اپنے اندازے کی غلطی تسلیم کرتا اپنی غربت کا حوالہ دیتا لیکن اسے کسی صورت میں دوسرا موقع نہیں دیا جاتا تھا۔ منت سماجت اور گڑگڑانا بھی لاحاصل ٹھہرتا تھا کیونکہ مصور نے اپنی تصویر کی قیمت لگانے میں غلطی کی تھی، اس لئے اسے اس کی سزا ضرور ملنی چاہئے تھی۔ بالآخر وہ اپنی تصویر بغل میں دبا کے نامراد اور ناکام واپس لوٹ جاتا۔ یہ تھی وہ اختراع جس پر شریمتی سختی سے عمل کرتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوتا کہ کوئی مصور آئندہ اپنی تخلیق کے متعلق کسی خوش فہمی میں مبتلا نہیں ہوتا تھا۔ اگر مصور کی طلب کردہ شریمتی کی تحریر کردہ قیمت سے کم ہوتی یا برابر ہوتی تو رقم فوراً مصور کو ادا کردی جاتی۔ جب بدنصیب مصور دھڑکتے دل کے ساتھ ڈرتے ڈرتے اپنی تصویر کی قیمت کم لگاتا تھا تو شریمتی مصور کے سامنے کاغذ کا وہ پرزہ رکھ دیتی جس پر اس نے اپنی رقم تحریر کی ہوتی۔ اگر اس کی طلب کردہ قیمت شریمتی کی تحریر شدہ قیمت سے کم ہوتی تو وہ بدنصیب اپنی کم بختی پر خود کو خوب کوستا، لعن طعن کرتا، اپنی ذات پر غصہ اتارتا، سرد آہ بھرتا اور بعضوں کی آنکھوں میں آنسو بھی بھر آتے تھے۔ اس کی طلب کردہ قیمت شریمتی کی تحریر کردہ قیمت سے زیادہ ہوتی تو اس کا مطلب تصویر سمیت واپس جانا ہوتا۔ اس صورت میں بھی بعض مصوروں کی آنکھوں میں بے بسی سے آنسو آ جاتے تھے۔ انہیں معلوم تھا کہ وہ اب خواہ شریمتی کے چرنوں میں اپنا سر رکھ دیں۔ وہ کسی صورت ان کی تصویر قبول نہیں کرے گی۔ آئندہ وہ کم سے کم قیمت لکھتا۔ واپس کی ہوئی تصویروں کا ایک ہی ٹھکانہ ہوتا تھا۔ شریمتی کی گیلری کے بالکل سامنے سڑک کے دوسری طرف ایک اور آرٹ گیلری تھی۔ وہاں تصویریں پچاس فیصد کمیشن پر فروخت کی جاتی تھیں اور اس کی قیمت اس کے فروخت ہونے کے بعد مصور کو ادا کی جاتی تھی۔ اب یہ اس کی قسمت اس کی تصویر ایک ماہ میں فروخت ہوجائے یا اسے ایک برس لگ جائے یا کبھی فروخت نہ ہو۔ اگر کسی مصور کی طلب کردہ قیمت شریمتی پوجا کی تحریر کردہ قیمت سے کم ہوتی تو مصور چند لمحوں کے بعد رقم جیب میں ٹھونس کر گیلری کے برابر واقع رٹز بار میں گھس جاتا کیونکہ وہاں شہر کی سب سے سستی اور ملاوٹ سے پاک شراب بکتی تھی، جس کی اسے شدت سے طلب محسوس ہوتی تاکہ اپنی بدنصیبی کا غم کم کرسکے۔ کوئی مصور ایسا نہیں تھا جو شریمتی جیسی جلاد عورت کا دس پندرہ منٹ سامنا کرنے کے بعد شراب کی طلب محسوس نہ کرتا ہو۔ اس طرح شریمتی کے نافذ کردہ طریقے سے جہاں اسے بے پناہ فائدہ پہنچا تھا وہاں بار کے مالک نے بھی خوب فائدہ اٹھایا۔ شریمتی کا اختراعی طریقہ جہاں بدقسمت مصور کو دہشت زدہ کر کے کم سے کم قیمت طلب کرنے پر مجبور کرتا وہیں اس کا اعصابی نظام درہم برہم ہو جاتا اور اسے پرسکون ہونے کے لئے شدت سے شراب کی طلب ہوتی۔ شریمتی اب صرف فطری مناظر والی تصویریں فروخت کرتی تھی۔ پہلے اس نے ایک دو برس ایسی تصویروں کی فروخت کی تھی جس میں کسی لڑکی یا شوبز کی ماڈلز کی تصویریں بولڈ ہوتی تھیں۔ ابتدا میں کاروبار زوروں پر چلا پھر ماند پڑگیا۔ جب وہ فطری مناظر کی تصویریں فروخت کرنے لگی تو اس کا کاروبار چمک اٹھا۔ کیونکہ اس قسم کی تصویریں ہر شریف آدمی اپنی نشست گاہ اور خواب گاہ کی زینت بنا سکتا تھا۔ ان تصاویر سے کمروں کی زینت اور حسن میں اضافہ ہو جاتا۔ انیل ایک نوجوان مصور تھا جو شہر کے تمام مفلوک الحال مصوروں میں شریمتی پوجا کے ہاتھوں سب سے زیادہ ستایا ہوا تھا۔ مگر شریمتی کو سب سے کم برا بھلا کہنے والا شخص بھی یہی تھا۔ شاید وہ اس کے برے رویّے کا عادی ہو چکا تھا یا شاید فطری طور پر اتنا اچھا آدمی تھا کہ شریمتی کی گیلری سے باہر آتے ہی اس کا برا رویہ معاف کردیتا تھا۔ انیل کی کولکتہ میں رہائش تھی۔ وہاں غربت و افلاس کی وجہ سے مستقبل تاریک لگا تو وہ مستقل طور پر ممبئی آ کے آباد ہوگیا۔ شہر کے دوسرے مصوروں کی طرح وہ بھی اپنی ذات سے بے پروا تھا۔ اس کا شیو ہمیشہ بڑھا رہتا تھا۔ اس کا لباس میلا اور شکن آلود ہوتا تھا۔ مناسب غذا نہ ملنے کے سبب اس کے گال پچک گئے تھے اور آنکھیں اندر کو دھنس گئی تھیں، لیکن اس کے باوجود وہ دوسرے مصوروں کے برعکس ہمیشہ مسکراتا رہتا تھا۔ اسے دنیا میں صرف دو چیزوں سے دلچسپی تھی۔ مصوری اور شراب چونکہ اس نے کبھی یک مشت ہزار پانچ سو سے زیادہ روپے کی شکل نہیں دیکھی تھی، اس لئے وہ گھٹیا شراب پیتا تھا جو شریمتی کی گیلری کے پاس ملتی تھی۔ فطری مناظر میں انیل کو تین چیزوں سے بے پناہ عشق تھا۔ تالاب، پھولوں کی کیاری اور درختوں کے جھنڈ البتہ ان مقامات میں تبدیلی ہوتی رہتی تھی۔ وہ شریمتی کے لئے فطری مناظر بنانے سے پہلے چوک میں کھڑے ہو کر سیاحوں کے پورٹریٹ بناتا تھا۔ اس کے بنائے ہوئے پورٹریٹ کیمرے سے کھینچے ہوئے نظر آتے تھے۔ اسے اس کام سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی لیکن کسی طور پیٹ تو بھرنا تھا۔ جب اسے پہلی بار شریمتی پوجا کے بارے میں علم ہوا کہ وہ ہر وقت نقد رقم کے عوض فطری مناظر کی پینٹنگز خریدنے پر تیار رہتی ہے تو اس نے ایسا محسوس کیا تھا جیسے یہ اس کی زندگی کی سب سے بڑی دریافت ہو۔ انیل کے بنائے ہوئے مناظر مقامی خریداروں اور غیر ملکی سیاحوں میں مقبول ہونے لگے۔ شریمتی یہ دیکھ کے حیران رہ گئی کہ جیسے ہی وہ انیل کی کوئی تصویر اپنی گیلری میں آراستہ کرتی تو وہ صرف چوبیس گھنٹے میں منہ مانگے دام پر بک جاتی تھی۔ شریمتی کے طے شدہ طریقے کی پہلی ضرب نے انیل کی کمر توڑ کے رکھ دی تھی۔ اس نے ایک تصویر کی قیمت شریمتی پوجا کی لکھی ہوئی قیمت سے پچاس روپے زائد طلب کئے تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ اسے اپنی تصویر سمیت گیلری سے نکلنا پڑا۔ یہ اس کی زندگی کا سب سے دہشت ناک تجربہ تھا۔ اندازے کی ایک ذرا سی غلطی کی اتنی بڑی سزا اس عبرت ناک سزا سے اس نے بہت سبق حاصل کیا۔ اس کے بعد اس نے اپنا اصول بنا لیا کہ وہ چھوٹی تصویروں کے پانچ سو روپے اور بڑی تصویروں کے ایک ہزار روپے طلب کرے گا۔ اس کا یہ فیصلہ بے حد کارگر ثابت ہوا اور شریمتی سے اس کے تعلقات انتہائی خوشگوار ہوگئے جس سے اس کا گزارہ ہونے لگا تھا۔ ایک مرتبہ شریمتی کے ایک کاروباری رقیب نے کسی طرح انیل کو اس امر پر آمادہ کر لیا کہ وہ کمیشن کی بنیاد پر اس کی گیلری میں اپنی تصویر رکھ دے۔ انیل نے اس کی پیشکش مان لی مگر اس کے بعد جب وہ اپنی دوسری تصویر شریمتی کے پاس لے کر گیا تو قہرآلود نگاہوں نے اس کا استقبال کیا۔ دفع ہو جائو شریمتی نے انگلی سے باہر جانے کا راستہ دکھاتے ہوئے کہا۔ خبردار جو تم نے یہاں قدم رکھا میں تم سے کوئی کاروبار کرنا نہیں چاہتی۔ انیل معصوم اور سیدھا سادہ شخص تھا۔ وہ سمجھ نہ سکا کہ معاملہ کیا ہے اس نے پلکیں جھپکا کے ایزل پر لگی اپنی تازہ تصویر کئی مرتبہ دیکھی۔ لیکن شریمتی جی انیل نے حیرت سے کہا۔ ذرا تصویر توجہ سے دیکھئے کس قدر خوبصورت ہے اس کے پھول تو دیکھئے اس میں صرف رنگ بھرنے میں مجھے پورے تین دن لگے ہیں۔ تم نے میرا مان توڑا ہے۔ شریمتی نے افسوس اور برہمی سے کہا۔ تم غدار ہو یہ تصویر بھی سامنے والی گیلری میں لے جائو، وہی خریدے گا تمہارے یہ دو کوڑی کے پھول تھک ہار کے انیل کو شریمتی کے سامنے والی گیلری سے اپنی تصویر واپس لانی پڑی۔ اس نے شریمتی سے معافی مانگی۔ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ شریمتی نے فراخ دلی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اسے معاف کردیا۔ پھر ایک دن انیل کی خزاں رسیدہ زندگی میں نیتا بہار کے جھونکے کی طرح داخل ہوئی۔ وہ آسام کی رہنے والی تھی اور ایک آرٹ اسکول میں طلبا کے سامنے ماڈل بن کے کھڑی ہوتی تھی۔ جب بھی اسے وقت ملتا تو وہ رٹز بار میں آ جاتی۔ رٹز بار کے مستقل گاہک، ویٹرس، ویٹر اور منیجر اس سے واقف تھے۔ اس کے متعلق طرح طرح کی افواہیں گشت کرتی رہتی تھیں۔ نیتا کا چہرہ جاذب نظر تھا۔ چمکتی سیاہ آنکھیں، لمبے گھنے بال اور سانولی رنگت نے اسے بے مثال بنا دیا تھا۔ اسے آرٹ اسکول میں ماڈل کی حیثیت سے فوراً ملازمت مل گئی تھی۔ وہ مردوں سے بالکل نہیں ڈرتی تھی، بلکہ مردوں کو ڈرانے کا حوصلہ رکھتی تھی۔ بولڈ تھی۔ جب اس کی زبان قینچی کی طرح چلنی شروع ہوتی تو مردوں کے دل نہ صرف تیزی سے دھڑکنے شروع ہو جاتے بلکہ پسینے بھی چھوٹ جاتے کہ یہ زبان دراز لڑکی نہ جانے کب کیا کہہ جائے اس کا موڈ خراب دیکھ کے کوئی اس کے قریب نہ پھٹکتا تھا۔ نیتا کی فطرت کا دوسرا رخ یہ تھا کہ وہ فلم دیکھتے وقت غم ناک مناظر پر اکثر رونا اور سسکیاں لینا شروع کردیتی تھی۔ خاص کر ایسے المیہ مناظر سے وہ بہت متاثر ہوتی جس میں محبت کرنے والے ایک دوسرے سے جدا ہو رہے ہوتے یا معصوم بچوں پر ظلم ہو رہا ہوتا۔ جب بھی کوئی بلی کا بچہ لاوارث نظر آتا تو نیتا اسے گود میں اٹھا کے اپنے فلیٹ میں لے آتی اور بچہ اس وقت تک کمرے میں رہتا جب تک اس سلسلے میں مکان کی مالکہ سے اس کی کئی زبردست جھڑپیں نہ ہو جاتیں۔ مکان مالکہ سرد مزاج کی غیر جذباتی عورت تھی۔ ایک روز رٹز بار کے مستقل گاہوں نے ایک حیرت انگیز منظر دیکھا۔ موسلا دھار بارش ہو رہی تھی۔ انیل پانی میں شرابور بار میں داخل ہوا۔ انیل کا لباس اس کے جسم سے چپکا ہوا تھا اور بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ وہ سردی سے کانپ رہا تھا۔ بالکل کسی یتیم اور بے سہارا بلی کے بچے کی طرح نیتا اپنی میز پر تنہا بیٹھی کافی پی رہی تھی۔ انیل جتنی دیر تک بار کے دروازے پر کھڑا اپنے سر سے پانی جھٹکتا رہا۔ نیتا اوپر سے نیچے تک بغور اس کا جائزہ لیتی رہی۔ پھر اس نے انگلی اٹھائی اے مسٹر ادھر آئو رٹز بار کی تاریخ میں یہ پہلا موقع تھا کہ نیتا نے کسی کو اپنی میز پر آنے کی دعوت دی تھی۔ انیل نے احمقانہ انداز میں سر گھما کے اپنے پیچھے دیکھا کہ نیتا آخر کس خوش نصیب کو دعوت دے رہی ہے اسے اپنی پشت پر کوئی نظر نہ آیا تب اسے شبہ ہوا کہ وہ شاید اسے بلا رہی ہے۔ میں انیل نے انگوٹھے سے اپنے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ ہاں تم احمق یہاں آئو میرے پاس انیل نیتا کی میز پر بیٹھ گیا۔ نیتا نے اس کے لئے عمدہ قسم کی شراب منگوائی اور اپنے ہاتھوں سے اس کے لئے جام بنایا۔ پھر بار مین سے تولیہ مانگ کے لائی اور بڑی اپنائیت سے انیل کے بال خشک کرنے لگی۔ انیل سعادت مندی سے سر جھکائے بیٹھا رہا۔ تم بالکل گدھے ہو نیتا نے اسے اطلاع دی۔ تمہیں اتنی عقل بھی نہیں ہے کہ بارش کے دوران برساتی پہن کے نکلتے ہیں تاکہ ڈبل نمونیے سے موت نہ واقع ہو جائے برساتی انیل نے احمقانہ انداز سے کہا۔ ہاں ہاں برساتی کیا تم نے کبھی برساتی نہیں دیکھی جو بارش سے جسم کو محفوظ رکھتی ہے۔ اوہ انیل نے معذرتی انداز میں کہا۔ میرے پاس نہیں ہے۔ بار میں موجود ہر شخص نے آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے یہ منظر دیکھا۔ نیتا محبت سے انیل کا گال تھپتھپا رہی تھی۔ کوئی بات نہیں بچے وہ کہہ رہی تھی۔ گزشتہ ہفتے کوئی احمق میرے کمرے میں برساتی بھول گیا تھا، تم میرے ساتھ میرے فلیٹ چلو میں تمہیں وہ برساتی دے دوں گی۔ جہاں دیدہ لوگوں نے فوراً بھانپ لیا کہ نیتا اس گائودی اور مفلوک الحال مصور کی محبت میں بری طرح گرفتار ہوگئی ہے۔ دوسرے روز جب وہ رٹز بار میں داخل ہوئی تو یکسر بدلی ہوئی تھی۔ صاف ستھرے دھلے ہوئے کپڑے، چہرے پر ہلکا اور نفیس میک اپ اس نے بالوں کا جوڑا بڑے سلیقے سے بنا رکھا تھا۔ وہ اب باقاعدگی سے نہانے لگی تھی اور اکثر و بیشتر سینٹ بھی استعمال کرنے لگی تھی۔ جہاں تک انیل کا تعلق تھا نیتا کی بزرگانہ محبت نے اسے مزید کاہل بنا دیا تھا۔ نیتا نے اس سے سول میرج کر کے اپنے فلیٹ میں مقیم کرلیا تھا اس کے لئے نئے کپڑے خریدے تصویریں بنانے کے لئے بہت سے رنگ اور دیگر اشیا لے آئی اور اپنے ہاتھوں سے اسے کھانا پکا کر کھلانے لگی۔ اب انیل کا لباس صاف ستھرا اور استری شدہ ہوتا تھا۔ نیتا نے رٹز بار کے بارمین کو تنبیہ کی ہوئی تھی کہ آئندہ اس نے انیل کو گھٹیا شراب پینے کے لئے دی تو وہ اس کا گلا کاٹ دے گی۔ اس نے رٹز بار میں ڈنکے کی چوٹ پر یہ اعلان کیا کہ اگر کسی نے انیل کے سامنے اس کی محبت کا مذاق اڑانے کی کوشش کی تو وہ شخص ہمیشہ اس لمحے کو یاد کرے گا جب اس کی ماں نے اسے جنم دیا تھا۔ اس اعلان کا یہ نتیجہ نکلا کہ کسی نے نیتا کی محبت کا مذاق اڑانے کی جسارت نہیں کی۔ البتہ شریمتی پوجا کا ردعمل مختلف تھا۔ شریمتی کو صرف ایسی تصویروں سے ہی نفرت نہیں تھی جس میں عورتوں کو بے لباس دکھایا جاتا تھا بلکہ وہ ان بے حیا اور بے حجاب عورتوں سے بھی سخت نفرت کرتی تھی جو مصوروں کے لئے ماڈل کا کام کرتی تھیں۔ اس کی دانست میں ایسی عورتیں نسائیت کے ماتھے پر کلنک کا ٹیکہ تھیں۔ شریمتی کو اس بات پر بڑی کوفت ہوتی تھی کہ اسے روزانہ اس سڑک پر قدم رکھنا پڑتا ہے جہاں سے ماڈل لڑکیاں گزرتی تھیں، لہٰذا جب ایک ماڈل لڑکی نے سب سے زیادہ منافع بخش مصور پر قبضہ جما لیا تو اس کے غصے کی انتہا نہ رہی۔ شریمتی کو اس واقعے کا اس وقت علم ہوا جب ایک روز انیل اس کی گیلری میں اپنی نئی تصویر لے کر پہنچا۔ وہ اسے پہلی نظر میں پہچان نہ سکی۔ اس کا لباس صاف ستھرا تھا، جوتے پالش کی وجہ سے چمک رہے تھے۔ شریمتی نے غالباً پہلی بار انیل کا چہرہ صاف ستھرا اور شفاف دیکھا۔ پہلے انیل کا شیو بڑھا ہوا ہوتا تھا۔ اُس نے غور سے اس کے گال دیکھے جو اب پچکے ہوئے نہیں تھے۔ شریمتی کی نظروں کے سامنے ایک ایسا نوجوان کھڑا تھا جو مصور تھا اور ہر وقت اپنے فن میں ڈوبا رہتا تھا مگر اب وہ صاف ستھرا اور موٹا تازہ شخص نظر آرہا تھا۔ جیسے اسے قربانی کے لئے تیار کیا جا رہا ہو۔ وہ جیسے مصور نہ ہو، بکرا ہو۔ انیل کا حلیہ دیکھتے ہی شریمتی کو یقین ہوگیا کہ اس کی تباہی میں کس کا ہاتھ ہے۔ اسے اندازہ کرتے دیر نہ لگی کہ اس سادہ لوح مصور پر نیتا پورا تسلط جمانے میں کامیاب ہوگئی ہے۔ اگر حالات یہاں تک پہنچ گئے ہیں تو اس ڈائن نے اس سیدھے سادے آدمی کو اس کے خلاف ضرور بھرا ہوگا اور اس سے مطالبہ کیا ہوگا کہ وہ آئندہ اپنی تصویروں کی قیمت زیادہ طلب کرے۔ شریمتی پوجا نے فیصلہ کر لیا کہ وہ اس چھوکری سے اتنی آسانی کے ساتھ شکست تسلیم نہیں کرے گی بلکہ اس کے دانت کھٹے کردے گی۔ کیوں کہ اس موقع پر ذرا سی ڈھیل دی تو انیل آئندہ زیادہ رقم طلب کرے گا بلکہ اس کی دیکھا دیکھی دوسرے مصور بھی قیمتیں بڑھا دیں گے۔ وہ اس طرح کسی کو اپنا کاروبار تباہ کرنے کی اجازت نہیں دے سکتی تھی۔ شریمتی نے انیل کی تصویر پر ایک سرسری سی نظر ڈالی۔ انیل ستائش بھری نظروں سے اپنی تصویر کو دیکھ رہا شریمتی نے کاغذ کے پرزے پر پنسل سے پانچ سو روپے لکھے اور انیل سے کہا۔ جلدی بتائو اپنی قیمت پھر اس نے لہجہ درشت کرتے ہوئے کہا۔ میں بہت مصروف ہوں، مجھے کئی کام کرنے ہیں یہ حقیقت تھی کہ نیتا نے انیل میں خوب اچھی طرح ہوا بھر دی تھی۔ جب وہ اپنی تصویر اخبار میں لپیٹ کے اس کے پاس لے جانے کے لئے گھر سے نکل رہا تھا تو نیتا نے اسے ایک بار یاددہانی کرائی تھی کہ وہ شریمتی پوجا سے پورے ایک ہزار روپے طلب کرے۔ احمق نیتا نے بڑی نرمی سے کہا تھا۔ اس کے لہجے میں خلوص اور محبت تھی۔ تم نے اس تصویر پر پورے سات دن عرق ریزی کی ہے۔ مجھے معلوم ہے کہ اس قسم کی تصویر کم سے کم ہزار اور زیادہ سے زیادہ پانچ ہزار روپے میں فروخت ہوتی ہے۔ تم اس چڑیل سے پوری قیمت کیوں نہیں وصول کرتے آخر تم اس سے کیوں ڈرتے ہو اس طرح تو وہ ایک دن تمہاری رگوں سے سارا لہو نچوڑ لے گی۔ اگر آج وہ تمہیں اس تصویر کی قیمت محض پانچ سو روپے دینے کی کوشش کرے تو اس کے منہ پر تھوک کے آ جانا سمجھے یقینا انیل نے سینہ تان کر کہا۔ آج میں اس سے پورے ایک ہزار روپے قیمت وصول کروں گا۔ اب وہ شریمتی کے سامنے بیٹھا تھا۔ شریمتی کی تیز و تند نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ اس نے اپنی رگوں میں لہو منجمد ہوتا ہوا محسوس کیا۔ اس نے کچھ کہنے کے لئے منہ کھولا اور پھر بند کر لیا۔ ہمت کر کے دوبارہ منہ کھولا اور پھر کہنے کا حوصلہ نہ ہوا تو بند کرلیا۔ بولو جواب دو۔ شریمتی پوجا کے سرد تحکمانہ لہجے نے انیل کے جسم میں سنسنی دوڑا دی۔ کیا کیا پانچ سو روپے مناسب رہیں گے انیل کے حلق سے پھنسی پھنسی آواز نکلی۔ ہاں مل جائیں گے۔ شریمتی نے فاتحانہ انداز میں جواب دیا۔ نیتا جیسی ناتجربہ کار چھوکری پر یہ شریمتی پوجا کی پہلی فتح تھی۔ اسے معلوم تھا کہ جب انیل واپس گھر جائے گا اور نیتا کو اپنی بزدلی کی کہانی سنائے گا تو وہ اسے خوب کوسے گی۔ لعن طعن کرے گی اور جی بھر کے برا بھلا کہے گی شریمتی نے دل میں خوشی سے سوچا۔ میری بلا سے آج کے تجربے نے ثابت کردیا تھا کہ وہ جس وقت چاہے۔ انیل کے سر سے محبت کا بھوت اتار سکتی ہے۔ انیل اب بھی شریمتی کے سامنے آ کر لرزنے لگتا تھا، البتہ جب وہ اس کے سامنے نہیں ہوتا تھا، اس وقت اس پر نیتا کی محبت کا نشہ طاری ہو جاتا تھا۔ اس فتح کے بعد بھی شریمتی کو نیتا پر بے شمار فتوحات حاصل ہوئیں اور یہ سلسلہ دراز ہوتا چلا جا رہا تھا لیکن ایک فتح بڑی ناقابل فراموش تھی، اس کا علم شریمتی کو بھی نہ ہوسکا کیونکہ اس وقت وہ اپنی سب سے بڑی فتح سے محظوظ ہونے کے لئے نیتا کے فلیٹ میں موجود نہیں تھی۔ انیل کی بزدلی ثابت ہو جانے پر ایک روز نیتا نے اعلان کیا اب میں نئی تصویر فروخت کرنے کے لئے تمہارے ساتھ شریمتی کی گیلری میں جائوں گی۔ کیونکہ تم اُس جیسی منافع خور ڈائن کے سامنے جا کر چوہے سے زیادہ بزدل بن جاتے ہو اور کبھی ہمت کر کے زیادہ رقم طلب نہیں کرتے۔ اب شریمتی سے تمہاری تصویر کا سودا میں کروں گی۔ میں اس کمینی سے بالکل نہیں ڈرتی۔ میں اس سے بھی بڑی چڑیلوں کا سامنا کرنے کی ہمت رکھتی ہوں۔ انیل کچھ دیر تک اسے متوحش نظروں سے دیکھتا رہا۔ پھر خاموشی سے مصوری کا سامان سمیٹنے لگا۔ یہ تم کیا کرنے لگے احمق میں جا رہا ہوں۔ انیل نے باوقار لہجے میں جواب دیا۔ نیتا چونک گئی۔ اس نے فوراً خطرے کی بو سونگھ لی۔ یہ بالکل غلط ہے۔ انیل کہہ رہا تھا۔ پتنی کو اپنے پتی کے کاروباری معاملات میں بھولے سے بھی دخل دینا نہیں چاہئے۔ بیوی کس کی بیوی یہ کیا کہہ رہے ہو احمق بس ایک رسمی سی سول میرج ہوئی ہے۔ وہ شادی نہیں جس کی رسومات پنڈت کے سامنے ہوتی ہیں سات پھیرے لگائے جاتے ہیں۔ گویا تم اسے شادی نہیں کہتی ہو نہیں نیتا ہنستے ہوئے بولی۔ کوئی بات نہیں۔ میں نے جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ انیل اس انکشاف پر کچھ الجھ سا گیا تھا۔ میں اپنی تصویروں کا مالک ہوں۔ میں خود فروخت کروں گا۔ میں اس معاملے میں کسی کی دخل اندازی پسند نہیں کرتا۔ انیل کا یہ انتہا پسندانہ فیصلہ بدلوانے کے لئے نیتا کو بہت سارے آنسو بہانے پڑے اور عمدہ شراب کی دو بوتلیں لانی پڑیں۔ اس کے بعد اس نے کبھی اس غلطی کا اعادہ نہیں کیا۔ انیل کے غیرمعمولی ردعمل نے اس کی آنکھیں کھول دیں۔ وہ سمجھ گئی کہ اس طرح کی کوشش فضول ہوگی۔ کیونکہ انیل کو فطری مناظر کی تصویر کشی کا جنون ہے اور اس کے لئے اتنا ہی کافی ہے کہ شریمتی پوجا اس کی تصویریں خریدنے پر آمادہ رہتی ہے اور اسے فوراً ہی نقد رقم ادا کر دیتی ہے۔ اس لئے وہ اس کا غلام بن کے رہ گیا ہے وہ اس سے نظریں ملا کے بات کرنے کی جرأت بھی نہیں کرسکتا۔ پہلے نیتا کو شریمتی سے صرف چڑ تھی۔ اس پر محض غصہ آتا تھا، لیکن اب وہ اس سے شدید نفرت کرنے لگی تھی۔ وہ اس بڑھیا سے انتقام لینے کے منصوبے بنانے لگی۔ ایسا انتقام جو اس چڑیل کا دماغ درست کردے اور آئندہ وہ کسی غریب مصور کی بے بسی اور مجبوری سے فائدہ اٹھانے کی کوشش نہ کرے۔ اس چڑیل نے لوٹ کھسوٹ کی انتہا کردی تھی۔ نیتا رات کو بستر پر دراز ہوتی تو اس کا ذہن انتقام کے منصوبے بنانا شروع کردیتا۔ اسے رہ رہ کر دہکتی ہوئی سلاخوں کا خیال آتا اور جب وہ صبح بیدار ہوتی تو اس کے منصوبے لڑی میں پروئے ہوئے موتیوں کی طرح بکھر جاتے۔ پھر قسمت نے اس کی مدد کرنے کا فیصلہ کیا۔ انیل کو یہ اطلاع سب سے آخر میں ملی اسے بڑی حیرت ہوئی۔ اچھا تو تم ماں بننے والی ہو انیل نے حیران ہوتے ہوئے پوچھا۔ ہاں صرف میں ہی ماں بننے والی نہیں ہوں بلکہ تم بھی باپ بننے والے ہو نیتا نے تصحیح کرتے ہوئے اسے سمجھایا۔ ہم دونوں ایک کشتی کے سوار ہیں کیا سمجھے سمجھ گیا انیل نے سنجیدہ ہوتے ہوئے کہا۔ ہم دونوں ماں باپ بننے والے ہیں۔ ٹھیک سمجھے اس کا مطلب یہ ہے کہ اب ہماری زندگی میں بہت ساری تبدیلیاں آئیں گی۔ کیا تم پسند کرو گے ہاں۔ انیل نے اثباتی انداز میں سر ہلایا۔ اب تمہیں اپنی تلون مزاجی اور دوسری حرکتیں چھوڑنی پڑیں گی۔ تمہیں ایک بہترین باپ بننا ہے میں بھی تمہیں ایک بہت اچھی ماں بن کے دکھائوں گی۔ بچے کی پرورش کے لئے ایک چھوٹا سا خوبصورت مکان ہونا چاہئے۔ اب ہم ممبئی شہر چھوڑ دیں گے۔ ہم بنگلور چلے جائیں گے۔ بنگلور بڑا خوبصورت اور آب و ہوا کے لحاظ سے بہت اچھا شہر ہے۔ بنگلور میں میرے چچا اور چچی برسوں سے وہاں بسے ہوئے ہیں، وہ ایک چھوٹے سے ہوٹل کے مالک ہیں۔ وہ مجھے وہاں بلاتے رہتے ہیں۔ ان کی خواہش ہے کہ میں ان کا ہوٹل سنبھال لوں۔ اگر میں اس پر تیار ہو جائوں تو ان کی موت کے بعد وہ میری ملکیت ہو جائے گا۔ ان کی اولاد نہیں ہے۔ میں ہوٹل چلائوں گی اور تم تصویریں بنانا۔ انیل بڑے غور سے اس کی باتیں سن رہا تھا۔ کہنے لگا۔ میں اپنی تصویریں وہاں بیچوں گا کیسے یہ تو بڑی آسان سی بات ہے تم شریمتی کو ڈاک کے ذریعے تصویریں بھیج دیا کرنا کیا تمہارے خیال میں وہ ایسی عمدہ اور سستی تصویریں اس لئے خریدنے سے انکار کرے گی کہ ڈاک سے آئی ہیں انیل کو یہ خیال کچھ پسند نہیں آیا۔ اس نے تذبذب سے کہا۔ میں شریمتی سے بات کروں گا۔ نہیں نہیں اس سے تم نہیں میں بات کروں گی، چاہے تم پسند کرو یا نہیں نیتا نے بالآخر خطرہ مول لے ہی لیا۔ اس کے علاوہ مجھے اس چڑیل سے بھی ایک کام ہے۔ کیسا کام مجھے اس سے پیسے حاصل کرنے ہیں اس نے تمہاری تصویریں کوڑیوں کے مول خرید کے موتیوں کے بھائو بیچی ہیں اور بڑی دولت جمع کر لی ہے۔ مجھے اس کی ملازمہ نے بتایا تھا کہ تمہاری کوئی تصویر غیرملکی سیاحوں کے ہاتھوں بیس پچیس ہزار سے کم قیمت پر نہیں بیچی۔ مجھے اس سے وہ دولت مع سود نکلوانی ہے کیونکہ اب ہمیں بہت سارے پیسوں کی ضرورت پڑے گی یہاں سے بنگلور تک ہوائی جہاز کا کرایہ درکار ہے۔ ٹرین اور بس کا تکلیف دہ سفر مجھے پسند نہیں، اس لئے کہ میں امید سے ہوں اور دو چرمی بڑے سوٹ کیس خریدنے ہیں۔ ایک چھوٹا سا فلیٹ لینا ہے جس میں ہم دونوں سکون و اطمینان سے رہیں۔ اس کے علاوہ کچھ رقم زچگی اور کسی مشکل وقت کے لئے بینک میں رکھنا ہوگی۔ بیماری اور دوسرے مصائب انسان کے ساتھ لگے رہتے ہیں لہٰذا آڑے وقتوں کے لئے بھی کچھ نہ کچھ رقم ضرور ہونی چاہئے تاکہ جب ضرورت پڑے ہم اپنے لڑکے کو اسکول کی یونی فارم، کتابیں اور جوتے دلا سکیں۔ لڑکا لڑکی بھی ہوسکتی ہے لیکن لڑکیاں بہت مہنگی ثابت ہوتی ہیں۔ ان کی شادی پر لاکھوں خرچ آتا ہے۔ ہاں زندگی میں پہلی بار انیل نے کسی مسئلے پر اپنی حتمی رائے کا اظہار کیا۔ تم پاگل ہوگئی ہو۔ کیا کہا میں پاگل ہوں نیتا نے ہذیانی لہجے میں چیخ کے کہا۔ تم جیسے بڑے عقل مند ہونا بس یہ کام تم مجھ پر چھوڑ دو، میں ہر قیمت پر اس ناگن سے رقم وصول کرکے دکھائوں گی، مگر کان کھول کر سن لو۔ اگر تم نے میرے کام میں ٹانگ اڑائی تو میں تمہیں یہ کہہ کر پولیس کے حوالے کردوں گی کہ تم نے مجھے شادی کے بغیر ماں بنا دیا ہے۔ سول میرج کے کاغذات تلف کردوں گی۔ تمہارے پاس کیا ثبوت ہوگا۔ تم مجھے ایک برس سے بلیک میل کر رہے ہو، میری نامناسب تصویریں بنا کے جانتے ہو اس بلیک میلنگ کا نتیجہ کیا ہوگا تمہیں بیس برسوں کے لئے جیل بھیج دیا جائے گا۔ تمہیں اس بات کا علم تو ہوگا کہ جیل میں کسی کو تصویریں بنانے کی اجازت نہیں ہوتی۔ بس آدمی اکڑوں بیٹھے بیٹھے سڑتا رہتا ہے اور بوڑھا ہو جاتا ہے کیا سمجھے بیس برس تک ایک بھی تصویر نہ بنانے کا خیال انیل کے لئے سخت دہشت ناک اور اذیت ناک تھا۔ سمجھ گیا اس نے کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح مردہ لہجے میں کہا۔ ٹھیک ہے برش اٹھا کے ذرا ایک تصویر بنانی شروع کرو، لیکن خیال رکھنا کہ یہ تصویر میری مرضی سے بنے گی۔ ایک ہفتے کے بعد نیتا اخبار میں لپٹی ہوئی ایک بڑی سی تصویر لئے شریمتی کی گیلری میں داخل ہوئی۔ ملازمہ نے اسے شریمتی کے دفتر جانے سے روکنا چاہا لیکن نیتا نے اسے دھکا دے کر ایک طرف ہٹا دیا۔ شریمتی اس وقت اپنے دفتر کے مختصر سے کمرے میں بیٹھی کاغذات دیکھ رہی تھی۔ وہ اس وقت کسی سے نہیں ملتی تھی، اس لئے ملازمہ اسے اندر جانے دینا نہیں چاہتی تھی۔ جیسے ہی اس نے نیتا کو دیکھا اور اس کے ہاتھ میں لپٹی ہوئی تصویر پر اس کی نظر پڑی تو وہ سمجھ گئی کہ یہ تصویر انیل کی ہے لیکن فروخت کرنے نیتا آئی ہے۔ شریمتی کا چہرہ غصے سے تمتمانے لگا۔ اس نے دروازے کی طرف تحکمانہ انداز میں اشارہ کر کے کہا۔ باہر نکل جائو میں تم جیسی عورتوں سے بات کرنا اپنی توہین سمجھتی ہوں۔ نیتا نے جواباً دروازے پر پوری قوت سے لات ماری۔ دروازہ ایک زبردست دھماکے کے ساتھ بند ہوگیا۔ اس نے تصویر ایزل پر لگائی اور اس پر لپٹا ہوا کاغذ ہٹانے لگی۔ ذرا پہلے تصویر دیکھ لیجئے مجھے یقین ہے کہ آپ یہ شاہکار ضرور خریدنا پسند کریں گی شریمتی جی یہ انیل کی زندگی کا بہترین شاہکار ہے۔ پھر نیتا نے ایک جھٹکے سے کاغذ علیحدہ کردیا۔ تصویر پر نظر پڑھتے ہی شریمتی کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھٹنے لگیں۔ یہ لمبائی چوڑائی کے لحاظ سے انیل کی سب سے بڑی تصویر تھی لیکن انیل کے مزاج کے برعکس تھی۔ اس میں کسی فطری منظر کی عکاسی نہیں کی گئی تھی۔ یہ ایک بے لباس عورت کی تصویر تھی۔ تصویر پر نظر پڑتے ہی شریمتی کو احساس ہوگیا کہ گردن سے نیچے کا بدن نیتا کا تھا لیکن چہرہ شریمتی کا تھا شریمتی پوجا کا ہے نا شاہکار نیتا نے طنزیہ لہجے میں پوچھا۔ شریمتی نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ پہلے تو اس کے حلق سے آواز نہیں نکلی مگر چند لمحوں کے بعد اس نے پوری قوت سے گلا پھاڑ کر کہا۔ کمینی چڑیل میں تجھے اور انیل کو جیل میں سڑا دوں گی۔ اُس نے نشست سے کھڑے ہو کر تصویر کی طرف ہاتھ بڑھایا۔ خبردار نیتا کے ہاتھ میں اچانک ایک خوفناک چاقو نہ جانے کہاں سے نمودار ہوا۔ اگر تو نے اسے خریدنے سے پہلے چھوا بھی تیری ناک کاٹ دوں گی۔ شریمتی گھبرا کے پیچھے ہٹی اور دوبارہ کرسی پر گر گئی۔ میں اسے خریدوں گی شریمتی کو اپنی سماعت پر یقین نہیں آیا۔ ایسی گھٹیا اور لچر تصویر میں خریدوں گی ہاں نیتا نے پراعتماد لہجے میں کہا۔ کیونکہ اگر تم نہیں خریدو گی تو میں یہ تصویر سامنے والی گیلری میں رکھ دوں گی، جس کا مالک رنجیت سنگھ ہے۔ وہ کمیشن پر تصویر فروخت کرتا ہے۔ وہ یہ تصویر دیکھ کر اس قدر خوش ہوگا کہ اسے اندر نہیں بلکہ باہر شو کیس میں سجائے گا، تاکہ سڑک پر چلنے والا ہر راہ گیر دیکھے۔ کچھ دنوں میں ممبئی کے بچے بچے کی زبان پر انیل کی اس شاہکار تصویر کا ذکر ہوگا اور وہ سیاح جنہیں تم دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہو وہ بھی یہ تصویر دیکھیں گے۔ میں رنجیت سنگھ سے کہہ دوں گی وہ ایک برس تک یہ تصویر فروخت نہ کرے۔ دور دور سے اس کے پاس گاہک آئیں گے اس کا کاروبار چمک جائے گا خون چوسنے والی ڈائن تو کوئی آخری فیصلہ کرنے سے پہلے اچھی طرح سوچ لے۔ میں جلدی میں نہیں ہوں۔ میں پانچ دس منٹ انتظار کرسکتی ہوں۔ شریمتی بہت دیر تک خیالوں میں ڈوبی رہی۔ یہ تو بلیک میلنگ ہے صاف بلیک میلنگ شریمتی نے تلخ لہجے میں کہا۔ تم مجھ سے انتقام لے رہی ہو واہ سمجھدار ہو۔ نیتا نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اگر اگر میں یہ تصویر خرید لوں شریمتی نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ کیا مجھے اس بات کی اجازت ہوگی کہ میں اسے پھاڑ دوں کیوں نہیں لیکن پہلے تمہیں اس کی قیمت ادا کرنی ہوگی کیا قیمت ہے اس کی نیتا نے پرس کھول کر اندر سے تہ کئے ہوئے کاغذ کا ایک ٹکڑا نکالا اور اسے شریمتی کی نظروں کے سامنے لہرایا۔ تصویر کی قیمت اس کاغذ پر لکھی ہوئی ہے۔ مگر میں تمہیں یہ کاغذ دیکھنے کی اجازت نہیں دوں گی۔ تمہیں خود تصویر کی بولی لگانی ہوگی۔ اگر تم نے کاغذ میں لکھی ہوئی رقم سے ایک روپیہ بھی کم قیمت لگائی تو پھر یہ تصویر سڑک کے دوسری طرف شو کیس میں لگی ہوئی نظر آئے گی۔ قیمت لگانے کا اصول خود تمہارا ایجاد کردہ ہے۔ اگر تم نے ذرا بھی کنجوسی دکھائی تو یہ اچھی طرح سے سمجھ لو کہ تم خود بھگتو گی۔ شریمتی حواس باختہ ہوگئی۔ لیکن مجھے یہ کس طرح اندازہ ہوگا کہ تم مجھے کتنا لوٹنا چاہتی ہو اس نے بے بسی سے کہا۔ میں تمہارا احتجاج تسلیم کرتی ہوں۔ نیتا نے فراخ دلی سے کہا۔ میں بہت نرم دل کی مالک ہوں اس لئے تمہیں صحیح قیمت لگانے کا ایک موقع ضرور دوں گی۔ میں اور انیل یہاں سے بنگلور بذریعہ ہوائی جہاز جائیں گے۔ ظاہر ہے اس مقصد کے لئے ہمیں کرائے کی ضرورت ہوگی اور کچھ ملبوسات اور دو بڑے سوٹ کیس بھی خریدنے ہیں تاکہ لباس حفاظت سے رکھے جا سکیں۔ اس کے بعد ہم بنگلور پہنچ کے ایک چھوٹا مگر ہوا دار اور کشادہ فلیٹ خریدیں گے۔ فلیٹ شریمتی نے چلا کے کہا۔ نیتا بولی۔ ہاں دو کمروں کا چھوٹا سا فلیٹ لگژری نہیں سہولتوں سے آراستہ پانی، بجلی اور گیس اور پھر ایک موٹر سائیکل جس پر بیٹھ کر ہم سیر و تفریح کرسکیں۔ موٹر سائیکل بھی شریمتی کے حلق میں آواز اٹک گئی۔ وہ اختلاج قلب کی مریضہ دکھائی دینے لگی۔ پھر جیسے ہی اس کی نظریں دوبارہ اپنی تصویر پر پڑیں جس میں وہ بے نیام تلوار دکھائی دیتی تھی، وہ چونک کے ہوش میں آگئی۔ اوہ بھگوان آخر مجھ سے ایسا کیا گناہ سرزد ہوا جس کی اتنی کڑی سزا مل رہی ہے اس کے علاوہ نیتا نے اپنا آخری مطالبہ پیش کیا۔ کچھ رقم اور بھی ہمارے پاس ہونی چاہئے جو ہم آڑے وقتوں کے لئے بینک میں جمع کرا سکیں۔ میں نے سنا ہے کہ تم بہت ذہین کاروباری عورت ہو اور تمہارے سر میں شیطان کا بھیجہ ہے۔ اب تم جلدی سے ان تمام اخراجات کا تخمینہ لگا لو لیکن نیتا نے کاغذ کا پرزہ پھر ایک مرتبہ اس کی آنکھوں کے سامنے لہرایا۔ تمہارا حساب اس کاغذ کے مطابق ہونا چاہئے۔ تمہیں تصویر کی بولی لگانے کا دوسرا موقع نہیں ملے گا۔ شریمتی کا خون رگوں میں ابلنے لگا۔ بے اختیار اس کی نظریں ایزل پر لگی ہوئی تصویر کی طرف اٹھ گئیں۔ تصویر پر نظر پڑتے ہی اسے ایک جھٹکا سا لگا۔ وہ جلدی جلدی نیتا کے بتائے ہوئے اخراجات کا تخمینہ لگانے لگی۔ تخمینہ لگانا آسان نہ تھا۔ اس نے سوچا کہ سیدھے سیدھے اسے سات لاکھ دے دیتی ہوں۔ سات لاکھ شریمتی کو ایسا محسوس ہوا جیسے اسے برف میں زندہ دفن کیا جا رہا ہو اور چاروں طرف یخ بستہ ہوائیں چنگھاڑتی پھر رہی ہوں۔ بہت دیر ہوگئی ہے شریمتی جی جلدی کرو مجھے اور بھی کام ہیں۔ نیتا نے لہجے میں درشستگی پیدا کرتے ہوئے کہا۔ سات لاکھ روپے شریمتی نے کہا۔ کیا کہا سات لاکھ روپے نیتا غرائی۔ اس کی آنکھوں سے شعلے لپک رہے تھے۔ وہ ایک جھٹکے کے ساتھ تصویر ایزل سے اتار کے اخبار میں لپیٹنے لگی۔ شریمتی نے چشم تصور میں سامنے والی گیلری کے شوکیس پر ایک بہت بڑا ہجوم جھکا ہوا دیکھا۔ پھر یہ ہجوم اپنی گیلری کے باہر نظر آیا۔ لوگ ایک دوسرے کو کہنیاں مار مار کے اس کی طرف اشارہ کر رہے تھے۔ اگر ایک مرتبہ بھی یہ تصویر سامنے والی گیلری میں لگ گئی تو وہ آئندہ گھر سے باہر قدم نکال نہیں سکے گی۔ یہ سارے خیال بجلی کی طرح اس کے ذہن میں کوند گئے۔ نہیں نہیں ٹھہرو۔ شریمتی نے چلا کے کہا۔ نہ جانے میری زبان کیسے پھسل گئی۔ مجھے معاف کردو، میں نے اصل میں دس لاکھ کہا تھا۔ کیا تم نے واقعی دس لاکھ کہا تھا میں بھگوان کی سوگند کھاتی ہوں، غلطی سے میرے منہ سے سات لاکھ نکل گیا تھا۔ بھگوان کے لئے دس لاکھ روپے لے لو۔ اچھی لڑکی میرا دل نہ توڑو۔ نیتا نے کاغذ کا ٹکڑا کھول کے اس پر ایک نظر ڈالی اور اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے کسی سوچ میں ڈوب گئی۔ چلو میں تم پر رحم کھاتے ہوئے یہ رقم قبول کئے لیتی ہوں لیکن مجھے دس لاکھ اسی وقت درکار ہیں۔ اتنی بڑی رقم تو میرے پاس یہاں نہیں ہے، البتہ اپنی ملازمہ کے ذریعے بینک سے منگوا لیتی ہوں۔ اطمینان سے بیٹھ جائو، زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ ٹھیک ہے لیکن میں چاہتی ہوں کہ اس سلسلے میں کوئی قانونی سقم نہ رہ جائے۔ تم اس وقت تک ایک دستاویز تیار کرو کہ تم نے یہ تصویر دس لاکھ کے عوض خریدی ہے۔ ہم دونوں اس دستاویز پر دستخط کریں گے۔ اس کی ایک نقل میرے پاس رہے گی۔ ضرور ضرور شریمتی پوجا نے جلدی سے کہا۔ جتنی دیر میں میری ملازمہ چیک بنا لائے گی میں دستاویز تیار کرلوں گی۔ توقع سے پہلے ہی ملازمہ بینک سے رقم لے آئی جو ایک لفافے میں بند تھی۔ شریمتی نے وہ لفافہ نیتا کے حوالے کیا تو اس کی آنکھوں میں آنسو تیر رہے تھے اور نیتا کو نئے بڑے نوٹ گنتے دیکھ کے آنسو باقاعدہ اُس کے رخساروں پر بہنے لگے۔ رقم گن کے نیتا نے مطمئن انداز میں سر ہلایا اور لفافہ اپنے پرس میں ڈال لیا۔ پھر اس نے کاغذ کا ٹکڑا توڑ مروڑ کے فرش پر پھینک دیا اور فاتحانہ انداز سے چلتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ شریمتی حسرت بھری نظروں سے دیکھتی رہی۔ جیسے ہی نیتا نظروں سے اوجھل ہوئی اس نے لپک کے مڑا تڑا کاغذ فرش سے اٹھا لیا اور کانپتی انگلیوں سے اسے کھولنے لگی۔ جب اس کی نظریں کاغذ پر لکھی ہوئی رقم پر پڑیں تو اس کی آنکھیں حلقوں سے باہر نکلنے لگیں۔ چند لمحوں کے بعد شریمتی پوجا ایک زوردار چیخ مار کے بے ہوش ہوگئی۔ شریمتی پوجا کی ملازمہ اپنی مالکہ کی دہشت ناک چیخ سن کے خوف زدہ ہوگئی۔ وہ دوڑتی ہوئی اندر داخل ہوئی اور اُس کا سر اپنے زانو پر رکھ کے اسے ہوش میں لانے کی کوشش کرنے لگی۔ شریمتی پوجا کے دانت سختی سے بھنچے ہوئے تھے۔ اس کی بند مٹھی میں کاغذ کا ایک ٹکڑا دبا ہوا تھا۔ بے چاری ملازمہ اپنی مالکہ کو ہوش میں نہیں لا سکی۔ اس نے قریبی ڈاکٹر کو مدد کے لئے بلانے کا فیصلہ کیا اور احتیاط سے شریمتی پوجا کا سر فرش پر رکھ کے کھڑی ہوگئی۔ اچانک اس کی نظر ایک مرتبہ پھر مٹھی میں دبے ہوئے کاغذ پر پڑی۔ ملازمہ کی چھٹی حس نے اسے خبردار کیا کہ اُس کی بے ہوشی کا تعلق کسی نہ کسی طرح اس کاغذ سے ہے۔ تجسس سے مجبور ہو کے ملازمہ نے جھک کے شریمتی پوجا کی مٹھی سے کاغذ کا ٹکڑا نکالا اور اس پر ایک نظر ڈالی۔ کاغذ پر دو لفظ لکھے تھے۔ سو روپے۔ ملازمہ نے کچھ نہ سمجھنے والے انداز میں اپنے سر کو جنبش دی اور کاغذ کا ٹکڑا فرش پر پھینک کے ڈاکٹر کو بلانے چلی گئی۔ ختم شد
null
null
null
null
406
https://www.urduzone.net/god-father-episode-4/
پال گیٹو کو جو حکم اچانک ملتا تھا اور جس پر اسے فوری طور پر عمل کرنے کی ہدایت کی جاتی تھی، وہ اسے بالکل اچھا نہیں لگتا تھا لیکن مجبوری تھی۔ اوپر سے ملنے والے ہر قسم کے احکام پر اسے عمل کرنا ہی پڑتا تھا ورنہ وہ غوروخوض اور منصوبہ بندی سے کام کرنا پسند کرتا تھا۔ خاص طور پر ایسے کام جن میں مارپیٹ، تشدد اور سختی شامل ہوتی تھی۔ اس کا تجربہ تھا کہ سوچے سمجھے بغیر اس قسم کے کام کرنے میں کسی نہ کسی سے کوئی نہ کوئی غلطی ہوسکتی تھی جو بعد میں مسئلہ بن سکتی تھی۔ آج رات کیلئے جو کام اس کے ذمے لگایا گیا تھا، وہ بھی اسی زمرے میں آتا تھا۔ وہ اس وقت بار میں بیٹھا بیئر کی چسکیاں لے رہا تھا اور بظاہر سرسری انداز میں گردوپیش کا جائزہ لے رہا تھا لیکن درحقیقت اس کی نظر ان دونوں جوانوں کی طرف تھی جو کائونٹر کے سامنے بیٹھے پینے پلانے کے شغل کے ساتھ ساتھ لڑکیوں سے محوگفتگو تھے۔ وہ ایک خاص قماش کی لڑکیاں تھیں اور ان کی اصلیت ان کے چہروں پر لکھی تھی۔ گیٹو ان دونوں نوجوانوں کے بارے میں ضروری معلومات حاصل کرچکا تھا۔ ان کے نام جیری اور کیون تھے۔ دونوں وجیہ اور دراز قد تھے۔ دونوں کی عمریں بیس سے بائیس کے درمیان تھیں۔ دونوں طالب علم تھے، ان دنوں ان کی چھٹیاں تھیں۔ دونوں دوسرے شہر کے ایک کالج میں پڑھ رہے تھے اور دو ہفتے بعد انہیں وہاں جانا تھا۔ دونوں خوشحال والدین کی اولاد تھے۔ دونوں کے والدین کا سیاسی اثرورسوخ بھی تھا جس کی وجہ سے وہ دوسری جنگ عظیم کے دوران جبری بھرتی کی زد میں آنے سے بچ گئے تھے۔ ان کے والدین کا اثرورسوخ انہیں اسی قسم کی نہیں بلکہ اور بھی کئی طرح کی مصیبتوں سے بچاتا تھا مثلاً پچھلے دنوں انہوں نے بونا سیرا نامی ایک شخص کی نوجوان اور خوبصورت بیٹی کے ساتھ جو کچھ کیا تھا، اس کے سلسلے میں جج نے انہیں سزا تو سنائی تھی مگر اس پر عملدرآمد معطل رکھا تھا چنانچہ وہ اطمینان سے آزاد پھر رہے تھے اور حسب معمول اپنے مشاغل میں مصروف تھے۔ وہ گویا ایک طرح سے ضمانت پر رہا تھے اور اس دوران ایک بار میں بیٹھ کر پینے پلانے اور ایک خاص قبیل کی لڑکیوں سے چہلیں کرکے وہ گویا ان قوانین کی خلاف ورزی کررہے تھے جن کے تحت جج نے انہیں رہا کیا تھا لیکن لڑکوں کے انداز و اطوار سے صاف ظاہر تھا کہ انہیں ان معاملات کی ذرّہ برابر بھی پروا نہیں تھی۔ وہ ہر اندیشے اور خوف سے بے نیاز اپنے من چاہے انداز میں زندگی سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ یہ سب کچھ سوچتے ہوئے اور ان کی حرکتیں دیکھتے ہوئے گیٹو نے ایک بار پھر دل ہی دل میں انہیں گالی دی۔ حالانکہ گیٹو خود بھی جبری بھرتی سے بچ گیا تھا لیکن وہ خود کو اس کا مستحق سمجھتا تھا۔ اس کے خیال میں محاذ پر جاکر ملک کیلئے لڑنے کی نسبت اپنے مالکان کے احکام کی تعمیل کرنا اور ان کے مفادات کی حفاظت کرنا زیادہ ضروری تھا۔ وہ چھبیس سال کا ایک صحت مند، سفید فام نوجوان تھا لیکن جبری بھرتی کے دوران اس کا معائنہ کرنے والے ڈاکٹروں نے بورڈ کے سامنے اس کے بارے میں رائے دی تھی کہ اس کی ذہنی حالت قابل اعتبار نہیں ہے اور دماغ کے علاج کے سلسلے میں اسے بجلی کے جھٹکے بھی لگائے جا چکے ہیں اس لئے اسے فوج میں بھرتی کرنا مناسب نہیں ہوگا۔ چنانچہ اسے بھرتی سے مستثنیٰ قرار دے دیا گیا تھا۔ ظاہر ہے ڈاکٹروں کی یہ رپورٹ جھوٹ پر مبنی تھی۔ اس کا انتظام مینزا نے کیا تھا کیونکہ گیٹو اب فیملی کیلئے ایک قابل اعتماد کارندہ بن چکا تھا۔ کسی نہ کسی کام کے سلسلے میں اس کی ضرورت پیش آتی رہتی تھی اور اس نے ہمیشہ عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا تھا اس لئے اسے فوج میں جانے سے بچا لیا گیا تھا۔ گیٹو کو اس بات پر فخر تھا کہ اس کا شمار فیملی کے قابل اعتماد کارندوں میں ہونے لگا تھا۔ موجودہ کام کے بارے میں مینزا نے اسے عجلت کا مظاہرہ کرنے کی ہدایت کی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ لڑکوں کے کالج واپس جانے سے پہلے ہدایات پر عمل ہوجانا چاہئے۔ اب مسئلہ یہ تھا کہ اگر دونوں لڑکے بار سے اٹھتے وقت ان دونوں آوارہ قسم کی لڑکیوں کو بھی ساتھ لے لیتے تو پھر گیٹو کیلئے اپنے پروگرام پر عملدرآمد مشکل ہوجاتا۔ یوں ایک رات اور ضائع ہوجاتی۔ وہ کئی دن سے اس طرح ان لڑکوں کی نگرانی کررہا تھا کہ انہیں اس کا شبہ تک نہیں ہوا تھا۔ وہ ان کے معمولات کا جائزہ لے رہا تھا۔ آج کی رات اسے پروگرام پر عملدرآمد کیلئے موزوں ترین محسوس ہوئی تھی اس لئے اس نے حتمی انتظامات کرلئے تھے لیکن کچھ دیر پہلے جیری اور کیون ان دو لڑکیوں سے چپک کر بیٹھ گئے تھے اور گیٹو کو اپنا پروگرام خطرے میں نظر آنے لگا تھا۔ اچانک اس نے ایک لڑکی کی خمار زدہ سی ہنسی کی آواز سنی۔ وہ جیری کی طرف جھک کر کہہ رہی تھی۔ نہیں بھئی میں تمہارے ساتھ کار میں کہیں نہیں جائوں گی۔ میں نہیں چاہتی میرا حشر بھی اس لڑکی جیسا ہو جس کی وجہ سے پچھلے دنوں تم دونوں پکڑے گئے تھے اور تم پر مقدمہ بھی چلا تھا۔ اس کی بات سن کر جیری نے جھک کر اس کے کان میں دھیرے سے کچھ کہا۔ شاید وہ اسے سمجھا رہا تھا کہ اس لڑکی کی بات اور تھی جس کا ذکر ہورہا تھا جبکہ اب تو رضا و رغبت والی صورتحال تھی لیکن نہ جانے کیا بات تھی کہ اس کی ساتھی لڑکی بدستور نفی میں سر ہلاتی رہی۔ یہ دیکھ کر گیٹو نے قدرے اطمینان کی سانس لی۔ اس نے آثار سے اندازہ لگایا کہ دونوں لڑکیاں جیری اور کیون کے ساتھ نہیں جائیں گی۔ وہ جیسی بھی تھیں لیکن احتیاط پسند معلوم ہوتی تھیں۔ اس کا مطلب تھا کہ گیٹو کیلئے اپنے پروگرام پر عملدرآمد کے امکانات روشن ہوگئے تھے۔ وہ کافی حد تک مطمئن ہوکر اٹھا اور باہر آگیا۔ رات آدھی سے زیادہ گزر چکی تھی۔ سڑک تقریباً سنسان تھی اور وہاں روشنی بھی کچھ زیادہ نہیں تھی۔ یہ دیکھ کر گیٹو نے مزید اطمینان کی سانس لی۔ صرف ایک بار اور کھلا تھا، دکانیں تقریباً سبھی بند ہوچکی تھیں۔ گویا حالات نہایت موافق تھے۔ علاقے کی پولیس کی گشتی کار کے سلسلے میں بھی مینزا انتظام کرچکا تھا۔ معمول کے گشت کے سلسلے میں فی الحال اس کا اس طرف آنے کا کوئی امکان نہیں تھا۔ طے یہ پایا تھا کہ وہ تب ہی اس طرف آئے جب اسے یہاں کسی گڑبڑ کی اطلاع ملے گی اور اس وقت بھی وہ حتیٰ الامکان سست رفتاری سے پہنچے گی۔ وہ اپنی شیورلیٹ سے ٹیک لگا کر کھڑا ہوگیا۔ اس کی پچھلی سیٹ پر دو جسیم آدمی بیٹھے تھے لیکن کار میں روشنی اور بھی کم پہنچ رہی تھی اس لئے وہ دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ کچھ عرصہ پہلے تک وہ دونوں ٹرک چلایا کرتے تھے اور انہیں معمولی تنخواہیں ملتی تھیں لیکن اب وہ بھی فیملی کے کارندوں میں شمار ہوتے تھے۔ ان سے مخصوص قسم کے کام لئے جاتے تھے لیکن انہیں صحیح طور پر معلوم نہیں تھا کہ وہ درحقیقت کس کیلئے کام کرتے تھے۔ وہ صرف گیٹو کو جانتے تھے جو ضرورت پڑنے پر انہیں طلب کرلیتا تھا، ہدایات دیتا تھا اور اپنی رہنمائی میں ان ہدایات پر عملدرآمد کراتا تھا۔ اپنے حساب سے گویا انہیں اب کام بہت کم کرنا پڑتا تھا اور معاوضہ پہلے سے کہیں زیادہ ملتا تھا۔ گزربسر نہایت آرام و آسائش سے ہوتی تھی۔ وہ بے حد خوش تھے۔ تازہ ترین کام کے سلسلے میں گیٹو انہیں دونوں لڑکوں کی تصویریں دکھا چکا تھا جو اس نے پولیس ریکارڈ سے حاصل کی تھیں۔ گیٹو نے ہدایات دیتے ہوئے کہا تھا۔ بس سر پر کوئی مہلک چوٹ نہیں لگنی چاہئے اس کے علاوہ جو تمہارا دل چاہے، کرسکتے ہو لیکن یاد رکھنا اگر دونوں لڑکے دو مہینے سے پہلے اسپتال سے باہر آئے تو تم دونوں کو واپس جاکر ٹرک ڈرائیوری کرنی پڑے گی۔ دونوں جسیم اور مضبوط آدمی ذرا موٹے دماغ کے تھے لیکن گیٹو کی ہدایات کو بڑی سعادت مندی سے ذہن نشین کرلیتے تھے۔ اس وقت گیٹو نے پچھلی کھڑکی پر ان کی طرف ذرا جھک کر نیچی آواز میں کہا۔ وہ دونوں باہر آنے والے ہیں، اپنے کام کیلئے تیار رہو۔ وہ دونوں دروازہ کھول کر آہستگی سے باہر آگئے۔ وہ خاصے دراز قد تھے۔ کرختگی اور مضبوطی ان کے چہرے اور خدوخال سے عیاں تھی۔ کسی زمانے میں وہ دونوں باکسر بھی رہے تھے لیکن اس میدان میں نام پیدا نہیں کرسکے تھے۔ ان کی ٹرک ڈرائیوری کے زمانے میں گیٹو نے انہیں ایک پرانے قرض سے بھی نجات دلائی تھی جس کی وجہ سے وہ بہت پریشان رہتے تھے۔ اس قرض کی ادائیگی کیلئے رقم سنی کارلیون نے فراہم کی تھی۔ جب جیری اور کیون بار سے باہر آئے تو وہ گویا خود بھی اپنے آپ کو مصیبت میں ڈالنے کیلئے پوری طرح تیار تھے۔ ایک تو خمار نے ان کے حواس دھندلا دیئے تھے، دوسرے دونوں لڑکیوں نے ان کے ساتھ چلنے سے انکار کرکے گویا ان کے ارمانوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ وہ کسی صورت مان کر نہیں دی تھیں۔ اس وجہ سے دونوں کا موڈ آف تھا اور جھنجھلاہٹ کے باعث ان کی کنپٹیاں تپ رہی تھیں۔ وہ شیور لیٹ کے قریب پہنچے تو گیٹو استہزائیہ اور بلند آواز میں بولا۔ بھئی واہ ان دونوں لڑکیوں نے تمہیں خوب ٹکا سا جواب دیا۔ دونوں لڑکوں نے گردنیں گھما کر آنکھیں سکیڑتے ہوئے گیٹو کی طرف دیکھا۔ انہوں نے یقیناً یہی محسوس کیا کہ اپنا غصہ اور جھنجھلاہٹ نکالنے کیلئے انہیں ایک شاندار ہدف میسر آگیا تھا کیونکہ گیٹو زیادہ جسیم یا شخصیت کے اعتبار سے بارعب نہیں تھا۔ وہ میانہ قامت اور خوش لباس آدمی تھا۔ بعض خاص دکانوں سے سودے بازی کرکے کم قیمت میں ایسے سوٹ خرید لیتا تھا جن میں وہ نہایت معزز آدمی نظر آتا تھا۔ گو کہ اس کا چہرہ نیولے کی طرح سوکھا سا تھا۔ وہ کسی بھی اعتبار سے لڑنے والا یا خطرناک آدمی دکھائی نہیں دیتا تھا۔ دونوں نوجوان بلاتامل اس پر جھپٹے لیکن وہ نہایت پھرتی سے جھکائی دے کر ایک طرف ہوگیا۔ اسی لمحے عقب سے ان دونوں نوجوانوں کے بازو گویا آہنی شکنجوں میں پھنس گئے۔ تب انہیں احساس ہوا کہ وہاں دو آدمی اور بھی موجود تھے جنہوں نے عقب سے نہایت ماہرانہ انداز اور بے حد مضبوطی سے انہیں گرفت میں لے لیا تھا۔ اسی دوران گیٹو اپنے ہاتھ پر پیتل کا ایک مختصر سا خول چڑھا چکا تھا جس پر نہایت ننھے ننھے سے کانٹے ابھرے ہوئے تھے۔ یہ خول چڑھانے سے اس کا گھونسا گویا ایک کھردرا، آہنی گھونسا بن گیا تھا۔ اس نے تاک کر نہایت پھرتی سے یہ گھونسا نوجوان کی ناک پر رسید کیا۔ ایک ہی گھونسے میں اس کی ناک چپٹی ہوگئی اور خون کا فوارہ پھوٹ پڑا۔ عقب سے جس شخص نے اس لڑکے کو قابو میں کیا ہوا تھا، اس نے اسے ہوا میں سڑک سے اونچا اٹھا لیا۔ اب وہ گیٹو کے سامنے اس بوری کی طرح لٹکا ہوا تھا جس پر گھونسے بازی کی مشق کی جاتی ہے۔ گیٹو نے اس پر سچ مچ مشق شروع کردی۔ اس نے اتنی پھرتی سے اس کی ناف پر گھونسے برسائے کہ اسے حلق سے آواز نکالنے کی بھی مہلت نہ ملی۔ جب لمبے تڑنگے شخص نے اسے چھوڑا تو وہ پٹ سے چھپکلی کی طرح سڑک پر گرا۔ تب لمبے تڑنگے شخص نے اسے ٹھوکروں پر رکھ لیا حالانکہ اس میں مزاحمت کی سکت نہیں رہی تھی۔ ادھر دوسرے نوجوان نے چیخنے کی کوشش کی تھی لیکن دوسرے لمبے تڑنگے شخص نے اس کی گردن کے گرد اپنے بازو کا شکنجہ کس دیا تھا اور اس کی آواز حلق میں گھٹ کر رہ گئی تھی۔ پھر اس شخص نے مشینی انداز میں اس کی بھی ہڈی پسلی ایک کرنا شروع کردی۔ صرف چھ سیکنڈ میں یہ سب کچھ ہوگیا تھا۔ گیٹو نے مزید زحمت نہیں کی۔ دونوں نوجوانوں کا بھرتا بنانے کیلئے وہ دونوں لمبے تڑنگے آدمی ہی کافی تھے۔ وہ اطمینان سے گاڑی میں جا بیٹھا اور اس نے انجن اسٹارٹ کردیا۔ دونوں نوجوانوں کی پٹائی اس انداز میں جاری تھی کہ یکے بعد دیگرے ان کی ہڈیاں ٹوٹ رہی تھیں مگر ان کے حلق سے اوع آع کے علاوہ کوئی آواز نہیں نکل پا رہی تھی۔ جلد ہی یہ آوازیں بھی معدوم ہوگئیں۔ دونوں لمبے تڑنگے آدمی تاک تاک کر نہایت ماہرانہ اور نپے تلے انداز میں وار کررہے تھے۔ ان کے انداز میں ذرا بھی گھبراہٹ یا عجلت نہیں تھی اور ان کا کوئی وار اچٹتا ہوا نہیں پڑ رہا تھا۔ گیٹو کو گاڑی میں بیٹھے بیٹھے اس دوران کیون کے چہرے کی جھلک نظر آئی۔ وہ ناقابل شناخت ہوچکا تھا۔ دونوں لڑکوں کے ہاتھ، پائوں اور جسم کی بیشتر ہڈیاں ٹوٹ چکی تھیں۔ آس پاس کی عمارتوں میں شاید کچھ لوگوں کو احساس ہوگیا تھا کہ گلی میں کچھ گڑبڑ ہے۔ کئی کھڑکیاں کھلیں اور کئی چہرے جھانکتے دکھائی دیئے مگر جلد ہی کھڑکیاں بند ہوگئیں۔ کسی نے باہر آکر دخل اندازی کرنا تو درکنار یہ بھی جاننے کی کوشش نہیں کی کہ معاملہ کیا تھا۔ بار میں سے بھی کچھ لوگ نکل کر باہر آن کھڑے ہوئے تھے مگر ان میں سے بھی کسی نے اس معاملے میں مداخلت نہیں کی۔ وہ سب دور کھڑے خوف زدہ نظروں سے سفاکانہ انداز میں نوجوانوں کی درگت بنتے دیکھتے رہے۔ چلو بس کافی ہے۔ گیٹو نے گاڑی سے ہانک لگائی اور دونوں لمبے تڑنگے آدمی اطمینان سے ہاتھ جھاڑ کر گاڑی میں جا بیٹھے۔ دونوں نوجوان گٹھڑیوں کی سی صورت میں سڑک پر بے حس و حرکت پڑے تھے۔ گیٹو نے ایک جھٹکے سے گاڑی آگے بڑھا دی۔ اسے اس بات کی پروا نہیں تھی کہ کسی نے شیورلیٹ کا نمبر نوٹ کرلیا ہوگا۔ وہ چوری کی شیورلیٹ تھی۔ اس ماڈل اور اس رنگ کی ہزاروں گاڑیاں شہر میں موجود تھیں۔ ٭ ٭ ٭ ٹام ہیگن نے جمعرات کے روز اپنے آفس پہنچ کر سب سے پہلے کچھ کاموں کے سلسلے میں کاغذی کارروائیاں مکمل کیں۔ جمعہ کو ورجل سولوزو سے ڈون کارلیون کی ملاقات طے ہوچکی تھی اور ہیگن چاہتا تھا کہ اس ملاقات سے پہلے وہ چھوٹے موٹے کاموں اور کاغذی کارروائیوں سے فارغ ہوچکا ہو۔ ڈون سے سولوزو کی یہ ملاقات ہیگن کے اندازے کے مطابق نہایت اہم ثابت ہونے والی تھی۔ اسے معلوم ہوچکا تھا کہ سولوزو درحقیقت فیملی کے ساتھ کاروباری شراکت داری کی کوئی تجویز لے کر آرہا تھا۔ ڈون کو اس وقت کوئی خاص حیرت یا افسوس نہیں ہوا تھا جب ہیگن نے لاس اینجلس سے واپس آکر اسے بتایا تھا کہ فلمی دنیا کے بہت بڑے آدمی جیک والز سے اس کے مذاکرات ناکام ہوگئے تھے اور اس نے کسی بھی قیمت پر جونی کو اپنی فلم میں کاسٹ کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ڈون نے ہر بات تفصیل سے پوچھی تھی اور ہیگن نے تمام جزئیات بیان کی تھیں۔ ان ماں، بیٹی کا ذکر بھی آیا تھا جنہیں ہیگن نے والز کے فارم ہائوس سے رخصت ہوتے دیکھا تھا۔ ہیگن نے اس وقت کمسن لڑکی کی جو حالت دیکھی تھی، وہ بھی بیان کی تھی۔ اس پر ڈون نے دانت پیسے تھے اور نہایت ہی ناگواری سے بڑبڑایا تھا۔ خبیث اس سے زیادہ اس نے کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا تھا۔ مجموعی طور پر وہ اسی طرح پرسکون رہا تھا جیسے ناکامی کی اس خبر نے اسے کوئی خاص دھچکا نہ پہنچایا ہو۔ ان کے درمیان یہ گفتگو پیر کے روز ہوچکی تھی۔ پھر بدھ کو ڈون نے ہیگن کو ملاقات کیلئے بلایا تھا۔ وہ ہشاش بشاش اور مطمئن نظر آرہا تھا۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس نے مسئلے کا حل تلاش کرلیا ہو تاہم اس نے ہیگن کو اس سلسلے میں کچھ نہیں بتایا۔ اس نے کچھ کاموں کے بارے میں ہیگن کو ہدایات دیں۔ پھر سرسری انداز میں گویا پیشگوئی کی کہ جلد ہی والز کا فون آئے گا اور وہ انہیں بتائے گا کہ وہ جونی کو اپنی فلم میں مرکزی کردار کیلئے کاسٹ کرنے کو تیار ہے۔ اسی اثنا میں فون کی گھنٹی بج اٹھی اور ہیگن کی دھڑکن اس احساس سے تیز ہونے لگی کہ کیا واقعی والز کا فون آگیا تھا لیکن وہ فون والز کا نہیں بلکہ بونا سیرا کا تھا۔ اس کی آواز تشکر اور ممنونیت سے لرز رہی تھی۔ وہ ہیگن سے درخواست کررہا تھا کہ اس کا شکریئے کا پیغام ڈون کو پہنچا دیا جائے۔ اس کا کہنا تھا کہ اس کا دل ٹھنڈا ہوگیا تھا اور ڈون نے اس کی درخواست قبول کرکے گویا اسے بن مول خرید لیا تھا۔ اس نے نہایت جذباتی ہوکر یہ بھی کہا کہ ڈون کو اگر زندگی میں کبھی اس کے خون کی بھی ضرورت پڑی تو وہ صرف ایک آواز دے کر دیکھے، بونا سیرا اس کے پسینے کی جگہ اپنا خون بہا دے گا۔ ہیگن نے نہایت تحمل سے اس کا شکریہ ادا کیا اور مربیانہ انداز میں اسے تسلی دی کہ اس کے جذبات ڈون تک پہنچا دیئے جائیں گے۔ وہ ڈیلی نیوز میں خبر اور تصویریں دیکھ چکا تھا کہ کس طرح جیری اور کیون سڑک پر نیم مردہ حالت میں پائے گئے تھے۔ تصویروں میں ان کی حالت عبرتناک نظر آرہی تھی۔ وہ خون اور گوشت کا ملغوبہ دکھائی دے رہے تھے۔ اخبار نے خیال ظاہر کیا تھا کہ شاید انہیں مہینوں اسپتال میں رہنے اور پلاسٹک سرجری کرانے کی ضرورت پڑے گی اور اس کے بعد بھی شاید وہ پہلے جیسے نظر نہ آسکیں۔ ہیگن نے خبر پڑھ کر طمانیت سے سر ہلایا تھا اور ایک کاغذ پر نوٹ کیا تھا کہ گیٹو خصوصی بونس کا مستحق ہوچکا تھا۔ اس کے ذمے جو کام لگایا گیا تھا، اس نے اسے عمدگی سے انجام دیا تھا۔ ہیگن اگلے تین گھنٹوں تک کاغذات میں الجھا رہا۔ اس نے ڈون کی ان تین کمپنیوں کی آمدنی کی رپورٹس کا جائزہ لیا جن میں سے ایک جائداد کا کاروبار کرتی تھی، ایک اٹلی سے زیتون کا تیل درآمد کرتی تھی اور تیسری کنسٹرکشن کا کام کرتی تھی۔ جنگ کے دوران تینوں کے کاروبار زیادہ اچھے نہیں رہے تھے لیکن اب جنگ کے بعد امید تھی کہ وہ تیزی سے پھلیں پھولیں گی۔ کاغذات میں الجھ کر وہ جونی والے مسئلے کو تقریباً بھول ہی چکا تھا مگر اچانک اس کی سیکرٹری نے اسے بتایا کہ لاس اینجلس سے اس کیلئے کال تھی۔ اس کا دل انجانی توقعات سے دھڑک اٹھا تاہم اس نے ریسیور اٹھا کر پرسکون اور باوقار لہجے میں کہا۔ ہیگن بول رہا ہوں فرمایئے دوسری طرف سے جو چنگھاڑتی ہوئی آواز سنائی دی، اسے پہلے تو ہیگن پہچان نہیں سکا پھر اس کی سمجھ میں آیا کہ وہ والز تھا جو اسے گالیاں دیتے ہوئے کہہ رہا تھا۔ میں تم سب کو سو سال کیلئے جیل بھجوا دوں گا۔ چاہے اس کیلئے مجھے اپنی آخری پینی تک خرچ کرنی پڑ جائے۔ میں تم لوگوں کو نہیں چھوڑوں گا اور اس جونی کے بچے کو تو میں زندگی بھر کیلئے ہیجڑا بنوا دوں گا۔ تم میری بات سن رہے ہو نا ۔سؤر کے بچے ہیگن نے سنبھلتے ہوئے متانت سے کہا۔ میں سؤر کا بچہ نہیں جرمن، آئرش والدین کی اولاد ہوں۔ دوسری طرف ایک لمحے خاموشی رہی پھر فون بند کردیا گیا۔ ہیگن مسکراتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ والز نے بلاشبہ خوب گالیاں دی تھیں اور بکواس کی تھی لیکن اس نے براہ راست ڈون کارلیون کا نام لے کر کوئی دھمکی نہیں دی تھی۔ اس کا مطلب تھا کہ آدمی بہرحال ذہین تھا۔ ٭ ٭ ٭ دس سال پہلے جیک والز کی پہلی بیوی کا انتقال ہوا تھا تب سے وہ اپنے بیڈ روم میں اکیلا ہی سوتا تھا۔ اس کا بیڈ روم اتنا بڑا تھا کہ اس میں کسی کلب کے منظر کی شوٹنگ ہوسکتی تھی اور بیڈ اتنا بڑا تھا کہ اس پر دس آدمی سو سکتے تھے تاہم وہ تنہا ہی سوتا تھا۔ اس کا مطلب یہ نہیں تھا کہ پہلی بیوی کے انتقال کے بعد اس کی زندگی میں کوئی عورت نہیں آئی تھی، اس نے دوسری شادی بھی کی تھی مگر جب یہ شادی برقرار تھی، ان دنوں بھی اس کا اور اس کی بیوی کا بیڈ روم الگ تھا۔ بیوی کے ساتھ اس کا رویہ ایسا ہی تھا جیسے وہ دوسری ضروریات زندگی کی طرح محض ضرورت کی ایک چیز ہو۔ وہ صرف بوقت ضرورت ہی اس کے پاس جاتا تھا۔ شاید اسی لئے وہ جلد ہی اسے چھوڑ گئی تھی۔ والز کیلئے اس سے کوئی فرق نہیں پڑا تھا۔ اس کیلئے عورتوں کی کوئی کمی نہیں تھی اور ساٹھ سال کی عمر کو پہنچنے کے باوجود وہ ایک توانا آدمی تھا مگر کچھ عرصے سے خوبصورت مگر کمسن لڑکیاں اس کی کمزوری بن گئی تھیں۔ وہ پہلے ہی کچھ زیادہ اچھی فطرت کا مالک نہیں تھا لیکن اب تو فطرت میں کجروی کا کوئی ایسا پہلو ابھر آیا تھا کہ کمسن لڑکیوں کو دیکھ کر ہی اسے خوشی ہوتی تھی۔ جمعرات کا اجالا اس کے طویل و عریض بیڈ روم میں صرف اس حد تک ہی پہنچ پا رہا تھا کہ وہاں ملگجے اندھیرے کا سا سماں تھا۔ اسے اپنے بیڈ کے پائنتی کوئی مانوس سی چیز رکھی دکھائی دے رہی تھی لیکن کمرے میں روشنی کم اور ذہن پر غنودگی کا غلبہ ہونے کی وجہ سے اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا چیز تھی۔ اسے بہتر طور پر دیکھنے کیلئے وہ ایک کہنی کے بل ذرا اونچا ہوا۔ اس کی سمجھ میں نہ آیا کہ وہ کیا دیکھ رہا تھا۔ اسے وہ چیز کسی گھوڑے کے سر سے مشابہہ لگ رہی تھی۔ شاید اس کی آنکھیں اسے دھوکا دے رہی تھیں۔ اس چیز کو صحیح طور پر دیکھنے کیلئے اس نے بڑا سا ٹیبل لیمپ روشن کیا۔ دوسرے ہی لمحے اسے کچھ یوں لگا جیسے کسی نے اس کے سر پر ہتھوڑا رسید کردیا ہو۔ اس کا دل گویا اچھل کر حلق میں آگیا جس کی وجہ سے اسے قے آگئی۔ خوبصورت، نفیس اور ریشمی چادر سے آراستہ اس کا بستر آلودہ ہوگیا۔ اس کے پائنتی واقعی ایک گھوڑے کا کٹا ہوا سر رکھا تھا اور وہ سر دنیا کے اب تک کے بیش قیمت ترین گھوڑے کا تھا۔ وہ اس کے اپنے خرطوم کا سر جسے خریدنے کے بعد سے وہ گویا خوشی سے پھولا نہیں سماتا تھا۔ جہاں سے گھوڑے کی گردن کاٹی گئی تھی، وہیں سے موٹی پتلی نسیں بھیانک انداز میں جھانک رہی تھیں اور بستر پر خون پھیلا نظر آرہا تھا۔ اس کی سیاہ ریشمیں کھال جو چمکتی دکھائی دیتی تھی، زندگی سے محروم ہوکر دھندلی پڑ گئی تھی۔ اس کی بڑی بڑی آنکھیں جو موتیوں کی طرح جھلملاتی تھیں، اب وہ بھی چمک سے محروم تھیں۔ آنکھیں کھلی تھیں مگر اب ان میں پھیلی ہوئی موت کی ویرانی نے انہیں دھندلا اور خوفناک بنا دیا تھا۔ دنیا کے عظیم ترین گھوڑے کا کٹا ہوا سر کسی حقیر سی چیز کی طرح اس کے پیروں سے ذرا دور پڑا تھا۔ ایک عجیب سا خوف اور وحشت اس پر اس طرح حملہ آور ہوئی کہ وہ بے اختیار چیخیں مارنے اور اپنے ملازموں کو پکارنے لگا۔ ملازم دوڑے آئے۔ اسی وحشت کے عالم میں والز نے ہیگن کو نیویارک فون کر ڈالا۔ اس کا بٹلر اس کی حالت دیکھ کر تشویش زدہ تھا۔ آخر اس نے اس کے ذاتی معالج کو فون کردیا تاہم اس کی آمد سے پہلے والز نے کافی حد تک اپنی حالت پر قابو پا لیا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس پر اس پہلو سے بھی حملہ ہوسکتا ہے۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ کوئی اس سفاکی سے دنیا کے خوبصورت ترین گھوڑے کو ہلاک کرسکتا تھا۔ والز نے اپنے اصطبل کی سیکورٹی کیلئے اپنی دانست میں جو فول پروف انتظامات کئے تھے، وہ سب دھرے کے دھرے رہ گئے تھے۔ اس نے سیکورٹی اسٹاف سے پوچھ گچھ کی تو رات کی ڈیوٹی دینے والوں نے حلفیہ بتایا کہ انہوں نے کسی قسم کی آواز تک نہیں سنی۔ نہ ہی انہوں نے کسی قسم کی غفلت برتی اور نہ ہی انہیں کسی گڑبڑ کا احساس ہوا۔ والز فیصلہ نہیں کرسکا کہ وہ جھوٹ بول رہے تھے۔ انہیں خرید لیا گیا تھا یا پھر ان کے ساتھ کوئی ایسی چال چلی گئی تھی کہ انہیں احساس ہی نہیں ہوسکا تھا کہ درحقیقت کیا ہوا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ شاید وہ پولیس کو اس بات پر آمادہ کرسکے کہ وہ ان لوگوں کے ساتھ اتنی سختی کریں کہ وہ سچ اگل دیں لیکن یہ سب بعد کی باتیں تھیں۔ فی الحال یہ بھیانک حقیقت سامنے تھی کہ خرطوم کو ذبح کیا جا چکا تھا اور وارننگ کے طور پر اس کا سر اس کے قدموں میں پھینک دیا گیا تھا۔ بہرحال والز احمق نہیں تھا۔ اس جھٹکے نے اس کی انا پرستی کو کہیں دور لے جا پھینکا تھا۔ یہ پیغام اس کی سمجھ میں آگیا تھا۔ اس کی عقل میں یہ بات آگئی تھی کہ جو لوگ اس کی دولت، طاقت، اثرورسوخ، صدر مملکت سے اس کے مراسم اور اس طرح کی دوسری کسی بھی بات کو خاطر میں نہیں لائے تھے، وہ اگر کرنے پر آتے تو کیا کچھ کرسکتے تھے۔ وہ اسے ہلاک بھی کرسکتے تھے اوہ محض اس بات پر اس کی جان لے سکتے تھے کہ وہ جونی کو اپنی فلم میں کاسٹ نہیں کررہا تھا۔ یہ احساس گویا اسے اس کی دنیا سے باہر لے آیا تھا جہاں اس نے ہمیشہ اپنے آپ کو بہت طاقتور، بہت محفوظ محسوس کیا تھا۔ اسے اندازہ ہوا تھا کہ کچھ عناصر ایسی دیوانگی کی پیداوار ہوتے تھے جن کے سامنے یہ سب باتیں بیکار ہوکر رہ جاتی تھیں کہ آپ کتنے اثر رسوخ والے تھے، آپ کتنی کمپنیوں اور کتنی دولت کے مالک تھے، کہاں کہاں آپ کا حکم چلتا تھا۔ اسے پہلی بار اندازہ ہوا تھا کہ کچھ لوگ اس جیسے افراد کو یہ احساس بھی دلا سکتے ہیں کہ وہ ہر کام اپنی مرضی کے مطابق نہیں کرسکتے۔ اس کے خیال میں یہ تو کمیونزم سے بھی زیادہ خطرناک چیز تھی۔ ڈاکٹر نے اسے سکون آور دوا کا انجکشن لگا دیا۔ اس سے اسے اپنے اعصاب پر قابو پانے میں مدد ملی اور وہ کافی حد تک پرسکون انداز میں سوچنے کے قابل ہوگیا۔ اس نے فیصلہ کیا کہ جذباتی انداز میں سوچنا قطعی مناسب نہیں رہے گا۔ جب اس نے قطعی غیر جذباتی انداز میں سوچنا شروع کیا تو احساس ہوا کہ اول تو یہ ثابت کرنا ہی تقریباً ناممکن تھا کہ اس کے گھوڑے کو ڈون کارلیون کے اشارے پر ہلاک کیا گیا تھا اور اگر کسی معجزے کے تحت یہ ثابت ہو بھی جاتا تو بھلا ایک گھوڑے کو ہلاک کرنے کی زیادہ سے زیادہ سزا کیا ہوسکتی تھی اس قسم کے مزید کچھ واقعات اسے ملک بھر میں تماشا بنا سکتے تھے، اس کی طاقت اور اثررسوخ کا بھرم ٹوٹ سکتا تھا، اس کی شخصیت کا سارا تاثر خاک میں مل سکتا تھا۔ عین ممکن تھا کہ وہ لوگ اسے ہلاک کرنے کے بجائے ایسے ہی طریقے آزماتے رہتے کہ وہ دنیا کے تمسخر کا نشانہ بن جاتا، اس کی شخصیت دو کوڑی کی ہوکر رہ جاتی۔ یہ سب کچھ موت سے بھی بدتر تھا اور یہ محض اس لئے ہوتا کہ وہ ایک شخص کو اپنی فلم میں اس کردار میں کاسٹ نہیں کررہا تھا جس کیلئے وہ موزوں ترین تھا۔ اس نے ایک ایسی بات کو انا کا مسئلہ بنا لیا تھا جس کے بارے میں دنیا کو کچھ پتا نہیں تھا۔ اس نے سوچا، بہت سوچا۔ گھنٹوں اس کے دل و دماغ میں دلائل کی جنگ جاری رہی۔ آخرکار وہ اہم فیصلے کرنے میں کامیاب ہوگیا۔ اس نے اپنے اسٹاف کو بلا لیا اور انہیں کچھ ضروری ہدایات دیں۔ پریس کو یہ اطلاع فراہم کرنے کا بندوبست کیا گیا کہ خرطوم کسی بیماری کے باعث مر گیا تھا۔ حقائق جاننے والے تمام افراد سے قسم لی گئی کہ وہ اس معاملے میں کہیں اصل بات کا بھولے سے بھی تذکرہ نہیں کریں گے۔ گھوڑے کی بیماری کے بارے میں بتایا گیا تھا کہ وہ شاید اسے انگلینڈ سے امریکا منتقلی کے دوران راستے میں کہیں سے لگی تھی۔ اس کی لاش کو رازداری سے والز نے اپنی جاگیر کی حدود میں دفن کرا دیا۔ اور پھر اسی رات جونی کو نیویارک میں ایک فون کال موصول ہوئی جس میں اسے بتایا گیا کہ والز کی فلم میں کام شروع کرنے کیلئے اسے پیر کے روز اسٹوڈیو پہنچنا تھا۔ ٭ ٭ ٭ اسی شام ہیگن، ڈون سے ملاقات کرنے اس کے گھر پہنچا۔ آئندہ روز چونکہ سولوزو سے ڈون کی ملاقات طے تھی، اس لئے ہیگن چاہتا تھا کہ اس سلسلے میں کچھ تیاری کرلی جائے، کچھ باتوں پر پیشگی غور کرلیا جائے۔ چنانچہ وہ شہر میں واقع اپنے لا آفس سے اٹھا اور ڈون کے گھر کی طرف روانہ ہوگیا۔ ڈون نے اپنے سب سے بڑے بیٹے سنی کو بھی اس گفتگو میں شریک کرنے کیلئے بلا رکھا تھا۔ ہیگن نے دیکھا کہ سنی کے کیوپڈ جیسے چہرے پر تھکن اور درماندگی تھی۔ وہ نیند کی کمی کا بھی شکار لگتا تھا۔ ہیگن سوچے بغیر نہ رہ سکا کہ شاید وہ کچھ زیادہ ہی اس لڑکی کے چکر میں پڑ گیا تھا جو اس کی بہن کی شادی کے موقع پر میڈ آف آرنر بنی تھی اور جس کے ساتھ وہ اسی روز آنکھ بچا کر گھر کے ایک کمرے میں چلا گیا تھا۔ اگر وہ اس لڑکی کے چکر میں اپنی نیند اور آرام سے بھی غافل رہنے لگا تھا تو یہ ہیگن کیلئے تشویش کی بات تھی۔ ڈون نے سگار کا کش لیتے ہوئے گفتگو کا آغاز کیا۔ کیا ہم سولوزو کے بارے میں وہ سب کچھ جانتے ہیں جو ہمارے لئے جاننا ضروری ہوسکتا ہے ہیگن کو یوں تو سب باتیں یاد تھیں لیکن محض احتیاطاً اس نے ایک فائل کھول لی جس میں ضروری نوٹس موجود تھے لیکن ان نوٹس سے کوئی دوسرا شخص اصل باتیں نہیں سمجھ سکتا تھا۔ وہ انہیں محض کاروباری یادداشتیں سمجھتا۔ فائل میں ایک طرح سے سولوزو سے ملاقات کا متوقع ایجنڈا بھی درج تھا۔ سولوزو ہمارے پاس مدد کی درخواست لے کر آرہا ہے۔ اس نے کہنا شروع کیا۔ وہ چاہتا ہے کہ فیملی اس کے کاروبار میں کم ازکم ایک ملین ڈالر لگائے اور بعض معاملات میں اسے قانون سے تحفظ فراہم کرے جس کے بدلے میں ہمیں کچھ حصہ ملے گا۔ ابھی یہ طے نہیں ہے کہ وہ حصہ کتنا ہوگا، یہ بات سولوزو خود بتائے گا۔ سولوزو کی سفارش ٹے ٹیگ لیا فیملی کر رہی ہے۔ یہ فیملی اس کی پشت پناہی بھی کرتی ہے۔ شاید اسے بھی سولوزو کے کاروبار میں کچھ حصہ ملتا ہے۔ سولوزو جس کاروبار میں حصے داری کی بات ہم سے کرنے آرہا ہے، وہ منشیات کا کاروبار ہے۔ ہیگن نے ایک لمحے کیلئے خاموش ہوکر ڈون اور سنی کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں خاموش رہے اور ان کے چہروں پر کوئی تاثر نہیں ابھرا تو ہیگن نے سلسلۂ کلام جوڑا۔ سولوزو کے ترکی میں کچھ لوگوں سے رابطے ہیں جو وہاں پوست کی کاشت کرتے ہیں۔ وہاں سے وہ پوست کو بغیر کسی دشواری کے سسلی منتقل کرلیتا ہے۔ سسلی میں اس نے پلانٹ لگایا ہوا ہے جس کے ذریعے پوست سے ہیروئن تیار کی جاتی ہے۔ اس سے پہلے وہ پوست سے مارفین بھی تیار کرا لیتا ہے اور چاہتا ہے تو اسے ہیروئن کے درجے تک لے آتا ہے۔ وہاں اس نے اس کام کے سارے انتظامات کررکھے ہیں اور اسے ہر طرح کا تحفظ حاصل ہے۔ خطرے کی صورت میں اسے پیشگی اطلاع مل جاتی ہے۔ ایک لمحے کیلئے خاموش ہوکر اس نے گہری سانس لی اور پھر بولا۔ یہاں تک تو سب ٹھیک ہے، اب وہ ہیروئن کو اس ملک میں لانا چاہتا ہے۔ ہیروئن یہاں لانے اور پھر اس کی تقسیم کاری کا نظام تیار کرنے میں اسے دشواریاں درپیش ہیں۔ اس سلسلے میں اسے مالی مدد بھی درکار ہے اور قانون سے تحفظ بھی۔ ان خطوط پر کاروبار کو پھیلانے کیلئے اس کے پاس سرمائے کی کمی ہے۔ اسے ایک ملین ڈالر کی ضرورت ہے جو ظاہر ہے ایک بڑی رقم ہے۔ ڈالر درختوں پر تو نہیں اگتے۔ ہیگن نے دیکھا کہ اس لمحے ڈون نے دانت پیسے تھے۔ تب اسے یاد آیا کہ کاروباری گفتگو کے دوران ڈون کو محاوروں کا استعمال یا جذبات کا اظہار بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ جلدی سے بات آگے بڑھاتے ہوئے بولا۔ سولوزو کی عرفیت دی ترک ہے۔ شناسا حلقوں میں اس کا ذکر صرف ترک کہہ کر بھی کیا جاتا ہے شاید اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ترکی سے اس کا بہت رابطہ رہتا ہے۔ اس کی ایک بیوی بھی ترک ہے جس سے اس کے بچے بھی ہیں۔ سنا ہے سولوزو بے حد سفاک آدمی ہے اور نوجوانی کے زمانے میں چاقو کے استعمال میں بہت ماہر تھا شاید وہ مہارت اب بھی برقرار ہو۔ اس کے بارے میں یہ بھی کہا جاتا ہے کہ کسی سے جھگڑا صرف اسی وقت کرتا ہے جب کاروباری معاملات میں اس سے کوئی معقول شکایت یا اختلاف پیدا ہوجائے۔ ہیگن نے ایک لمحے کیلئے خاموش ہوکر فائل میں لگے ایک کاغذ پر اچٹتی نظر ڈالی پھر بولا۔ بہت باصلاحیت آدمی سمجھا جاتا ہے، اپنا باس خود ہے، کسی کی ماتحتی میں کام نہیں کرتا۔ پولیس کے پاس اس کا ریکارڈ بھی موجود ہے کیونکہ وہ دو مرتبہ سزا بھی کاٹ چکا ہے۔ ایک مرتبہ اٹلی اور دوسری مرتبہ امریکا میں۔ منشیات کے اسمگلر کی حیثیت سے وہ حکام کی نظر میں ہے۔ یہ چیز اس اعتبار سے ہمارے حق میں جاتی ہے کہ ایسے لوگ کبھی کسی کے خلاف وعدہ معاف گواہ نہیں بن سکتے۔ اس کی ایک امریکی بیوی بھی ہے جس سے بچے ہیں۔ ترک بیوی ترکی میں رہتی ہے۔ اپنے کنبے کا پوری طرح خیال رکھنے والا آدمی سمجھا جاتا ہے۔ اگر اسے یہ اطمینان ہو کہ اس کی عدم موجودگی میں اس کی بیویوں اور بچوں کو کوئی تکلیف نہیں ہوگی تو آرام سے کوئی سزا کاٹنے کیلئے جیل بھی چلا جائے گا۔ ڈون نے سگار منہ سے نکال کر اپنے بیٹے سنی کی طرف دیکھا اور پوچھا۔ کیا خیال ہے سین ٹینو ہیگن کو اندازہ تھا کہ سنی کیا سوچ رہا ہوگا۔ وہ مکمل طور پر ڈون کے زیرسایہ رہنے کے بارے میں کچھ عرصے سے مضطرب تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ اسے آزادانہ طور پر کوئی بڑا کام کرنے کو ملے۔ یہ اس کیلئے ایک اچھا موقع ہوسکتا تھا۔ شاید یہ شعبہ مکمل اور آزادانہ طور پر اس کے سپرد کردیا جاتا۔ سنی نے مشروب کا ایک گھونٹ بھرا اور ایک لمحے خاموش رہنے کے بعد محتاط انداز میں بولا۔ اس پائوڈر کے کاروبار میں دولت تو بہت ہے لیکن خطرات بھی ہیں۔ اس سلسلے میں اگر آدمی قانون کی گرفت میں آجائے تو بیس سال کیلئے جیل بھی جاسکتا ہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر ہم باقاعدہ طور پر اس کام میں ملوث ہونے اور عملی طور پر حصہ لینے سے دور ہی رہیں تو بہتر ہے۔ البتہ ہم اپنا کردار سرمایہ کاری اور قانونی تحفظ فراہم کرنے تک محدود رکھ سکتے ہیں۔ ہیگن نے تحسین آمیز نظروں سے سنی کی طرف دیکھا۔ اس نے بڑے تحمل اور سمجھداری سے جواب دیا تھا اور جو کچھ وہ کہہ رہا تھا، مناسب بھی وہی تھا۔ ہیگن کو اس سے اتنے معقول اور متوازن جواب کی توقع نہیں تھی۔ ڈون نے سگار کا ایک اور کش لے کر ہیگن کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ اور تم کیا کہتے ہو ہیگن ہیگن نے ایک لمحے توقف کیا۔ وہ قطعی دیانتداری سے اپنی رائے دینا چاہتا تھا۔ اسے یہ اندازہ ہوچکا تھا کہ ڈون، سولوزو کی تجویز رد کردے گا اور اس کے ساتھ کسی قسم کا تعاون کرنے کیلئے تیار نہیں ہوگا اور ہیگن کو اس کے ساتھ اب تک کی رفاقت کے دوران پہلی بار یہ احساس ہوا تھا کہ ڈون کا فیصلہ درست نہیں تھا۔ وہ زیادہ آگے تک نہیں دیکھ رہا تھا۔ اس کی نظر مستقبل بعید پر نہیں تھی۔ ہیگن کو اندازہ تھا کہ ہیروئن کے کاروبار میں بہت پیسہ تھا اور مستقبل میں دنیا بھر میں اس کا سیلاب آنے والا تھا لیکن مشکل یہ تھی کہ ڈون منشیات کے دھندے کو اچھا نہیں سمجھتا تھا۔ وہ پیسے کے لالچ میں اس حد تک جانا نہیں چاہتا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ جب تک بھی ممکن ہوسکے، خود کو اس دھندے سے دور رکھا جائے۔ فیملی کو اس کاروبار کی طرف نہ لایا جائے۔ اسے خاموش دیکھ کر ڈون نے ہمت بڑھانے والے انداز میں کہا۔ جو بھی تمہارے دل میں ہے، کہہ ڈالو ہیگن ضروری نہیں کہ کوئی وکیل ہر معاملے میں اپنے باس سے متفق ہو۔ میرے خیال میں تو آپ کو سولوزو کی تجویز قبول کرلینی چاہئے۔ اس کیلئے بہت سے دلائل دیئے جاسکتے ہیں لیکن سب سے بڑی دلیل یہی ہے کہ اس کام میں بہت پیسہ ہے اور اگر ہم اس میں ہاتھ نہیں ڈالیں گے تو کوئی اور ڈال دے گا۔ یہ بہرحال نہیں ہوگا کہ ہمارے باز رہنے سے امریکا میں ہیروئن نہ آئے۔ وہ تو اب بھی آرہی ہے اور آئندہ مزید آئے گی۔ اگر ہم پیچھے رہے تو ٹے ٹیگ لیا فیملی یقینا آگے بڑھ کر اس میں ہاتھ ڈال دے گی۔ اس سے اس کی دولت میں جو اضافہ ہوگا، اس کے بل بوتے پر وہ مزید پولیس افسروں اور سیاستدانوں کو خرید لے گی۔ اس کے اثررسوخ اور طاقت میں مزید اضافہ ہوجائے گا۔ وہ ہم سے زیادہ طاقتور فیملی بن جائے گی اور اس کے بعد وہ ہم سے وہ سب کچھ بھی چھیننے کیلئے حرکت میں آجائے گی جو ہمارے پاس اس وقت ہے۔ اس کے ہونٹوں پر خفیف سی مسکراہٹ ابھری اور ایک لمحے کے توقف کے بعد اس نے سلسلۂ کلام جوڑا۔ ہم جیسی فیملیز کا معاملہ بھی حکومتوں اور ملکوں والا ہوتا ہے۔ اگر ایک ملک اپنے آپ کو مسلح کرتا ہے تو دوسرے کو بھی اپنے آپ کو مسلح کرنا پڑتا ہے۔ اگر ایک ملک اپنی فوجی طاقت اور ہتھیاروں میں اضافہ کرتا ہے تو دوسرے کو بھی کرنا پڑتا ہے۔ ایک ملک زیادہ طاقتور ہوجاتا ہے تو دوسرے کیلئے خطرہ بن جاتا ہے۔ اس وقت مکمل طور پرجائز اور قانونی کاروبار کے علاوہ جن تھوڑے بہت غیر قانونی دھندوں میں ہمارا ہاتھ ہے، وہ جوا اور یونین بازی ہے۔ ان دونوں چیزوں کی پشت پناہی سے ہمیں اچھی آمدنی ہورہی ہے۔ موجودہ وقت کے لحاظ سے یہی بہترین دھندے ہیں لیکن ہیروئن مستقبل کی چیز ہے۔ میرا خیال ہے ہمیں لازماً اس دھندے میں ہاتھ ڈالنا ہوگا ورنہ ہماری باقی چیزیں بھی خطرے میں پڑ جائیں گی۔ آج نہ سہی لیکن دس سال بعد خطرہ ضرور لاحق ہوگا۔ ڈون اس کی تقریر سے خاصا متاثر نظر آرہا تھا تاہم اس نے بڑبڑانے کے انداز میں صرف اتنا کہا۔ ہاں یقیناً یہ بات بہت اہم ہے۔ پھر ایک گہری سانس لے کر وہ اچانک ہی اٹھ کھڑا ہوا اور بولا۔ اس شاطر آدمی سے کل مجھے کس وقت ملنا ہے وہ صبح دس بجے یہاں پہنچ جائے گا۔ ہیگن نے جواب دیا۔ اسے کچھ امید نظر آنے لگی تھی کہ ڈون، سولوزو کے ساتھ پارٹنر شپ پر آمادہ ہوجائے گا۔ ڈون انگڑائی لیتے ہوئے بولا۔ میں چاہتا ہوں تم دونوں کل کی اس ملاقات کے دوران موجود رہو۔ پھر وہ سنی کی طرف دیکھ کر بولا۔ سین ٹینو لگتا ہے تم آج کل آرام بالکل نہیں کررہے۔ اپنی صحت کا خیال رکھو اور نیند پوری لیا کرو۔ یہ جوانی زندگی بھر ساتھ نہیں دے گی۔ سنی نے گویا اس پدرانہ شفقت کے اظہار سے شہ پا کر پوچھا۔ پاپا آپ کا سولوزو کو کیا جواب دینے کا ارادہ ہے ابھی میں کیا بتا سکتا ہوں ابھی تو مجھے خود بھی معلوم نہیں ہے۔ ڈون مسکرایا۔ پہلے میں اس کی تجویز اس کی زبان سے سن لوں۔ مجھے تفصیلات معلوم ہونی چاہئیں۔ یہ پتا چلنا چاہئے کہ وہ ہمیں کتنے فیصد منافع کی پیشکش کرنا چاہتا ہے۔ اس کے علاوہ ابھی ہمارے درمیان جو بات ہوئی ہے، میں آج رات اس پر غور کروں گا۔ میں جلد بازی میں فیصلے کرنے والا آدمی نہیں ہوں۔ وہ دروازے کی طرف چل دیا لیکن دروازے پر رک کر مڑا اور بظاہر سرسری سے انداز میں ہیگن سے مخاطب ہوا۔ تم نے سولوزو کے بارے میں کافی معلومات جمع کی ہیں لیکن کیا تمہیں یہ معلوم ہے کہ جنگ سے پہلے سولوزو عورتوں کی دلالی سے پیسہ کماتا تھا اور ٹے ٹیگ لیا فیملی تو ابھی تک یہ دھندا کرتی ہے۔ اگر تم نے اپنے کاغذات میں یہ بات نوٹ نہیں کی ہے تو اب کرلو، کہیں تم بھول نہ جائو۔ ہیگن کے چہرے پر ہلکی سی سرخی آگئی تاہم وہ خاموش رہا۔ اسے یہ بات معلوم تھی لیکن اس نے اسے غیر اہم سمجھتے ہوئے جان بوجھ کر اس کا ذکر نہیں کیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ ڈون اس دھندے کو برا سمجھتا تھا۔ اس کی اپنی کچھ اخلاقیات تھیں۔ ٭ ٭ ٭ سولوزو کچھ ایسا دراز قد تو نہیں تھا لیکن کسی گینڈے کی طرح مضبوط دکھائی دیتا تھا۔ اس کا جسم ٹھوس اور ورزشی معلوم ہوتا تھا۔ اس کی رنگت ایسی تھی کہ اسے سچ مچ ترک بھی سمجھا جاسکتا تھا۔ اس کی ناک طوطے کی چونچ کی طرح مڑی ہوئی تھی اور اس کی سیاہ آنکھوں سے سفاکی جھلکتی تھی۔ وہ دیکھنے میں ہی ایک خطرناک آدمی معلوم ہوتا تھا تاہم اس کی شخصیت میں وقار اور دبدبہ تھا۔ سنی کارلیون نے مین گیٹ پر اس کا استقبال کیا اور اسے اس کمرے میں لے آیا جہاں ہیگن اور ڈون اس کے منتظر تھے۔ ہیگن نے اس کا جائزہ لینے کے بعد محسوس کیا کہ اس سے زیادہ خطرناک دکھائی دینے والا شخص براسی تھا۔ اسے اب تک جن لوگوں سے واسطہ پڑا تھا، ان میں سے کوئی اسے طاقت اور خطرے کی اتنی واضح علامات لئے ہوئے دکھائی نہیں دیا تھا۔ اس کے مقابلے میں ڈون ایک عام، سادہ لوح بلکہ کسی حد تک دیہاتی آدمی دکھائی دے رہا تھا۔ سب نے بظاہر خاصی خوش خلقی سے ایک دوسرے سے مصافحہ کیا۔ رسمی طور پر سولوزو کی خاطر مدارات کیلئے عمدہ مشروب بھی پیش کیا گیا۔ اس نے تمہید اور رسمی گفتگو میں وقت ضائع نہیں کیا، جلد ہی وہ مطلب کی بات پر آگیا۔ اس کے پاس تجویز واقعی منشیات کے کاروبار کی تھی۔ تمام انتظامات کرلئے گئے تھے۔ ترکی میں پوست کی کاشت کرنے والے کچھ لوگوں نے اسے ہر سال ایک مخصوص مقدار میں پوست مہیا کرنے کا وعدہ کیا تھا۔ اس کے پاس فرانس میں ایک پلانٹ تھا جسے رشوت کے عوض تحفظ حاصل تھا۔ اس پلانٹ پر پوست سے مارفین تیار کی جاسکتی تھی۔ دوسرا پلانٹ اس کے پاس سسلی میں تھا۔ وہ بھی رشوت کی عنایت کی بدولت ہر قسم کے خطرات سے محفوظ تھا۔ اس پلانٹ کے ذریعے مارفین کو ہیروئن میں تبدیل کیا جاسکتا تھا۔ دونوں ملکوں میں پوست اور مارفین کی اسمگلنگ اور نقل و حرکت کیلئے بھی اسے ضروری تحفظ حاصل تھا۔ مال تو ریاست ہائے متحدہ امریکا تک لانے میں کل مالیت کا پانچ فیصد خرچ ہونا تھا۔ ایف بی آئی سے بچائو کا راستہ تلاش کرنا ضروری تھا کیونکہ وہ ابھی کرپشن کی دیمک سے بچی ہوئی تھی۔ اسے رشوت کے ذریعے خریدنا ممکن نہیں تھا اس کے باوجود سولوزو کی رائے میں ہیروئن کی اسمگلنگ میں خطرات نہ ہونے کے برابر تھے اور منافع اتنا زیادہ تھا جو دنیا کے کسی اور دھندے میں نہیں تھا۔ جب خطرات نہ ہونے کے برابر ہیں تو تم میرے پاس کیوں آئے ہو ڈون نے ملائمت سے پوچھا۔ تم مجھے آسانی سے کمائے جانے والے بھاری منافع میں شریک کرنا چاہتے ہو۔ میں اس فیاضی اور فراخدلی کی وجہ جان سکتا ہوں سولوزو اپنے چہرے سے کسی خاص ردعمل کا اظہار کئے بغیر بولا۔ پہلی وجہ یہ کہ مجھے اپنے کاروبار کو توسیع دینے کیلئے فوری طور پر سرمائے کی ضرورت ہے۔ مجھے دو ملین ڈالر نقد چاہئیں۔ دوسری اتنی ہی اہم وجہ یہ ہے کہ خطرات کم ہونے کے باوجود بہرحال مجھے بعض خاص خاص جگہوں پر بیٹھے ہوئے افراد کے تعاون کی ضرورت پڑے گی۔ آنے والے برسوں میں میرے کچھ کارندے بہرحال پکڑے جائیں گے۔ یہ امر ناگزیر ہے تاہم میں یہ ضمانت دیتا ہوں کہ وہ پیشہ ور مجرم نہیں ہوں گے۔ ان کا ریکارڈ صاف ہوگا۔ اس لئے جج انہیں نرم سزائیں دینے پر مجبور ہوں گے لیکن اس بات کو یقینی بنانے کیلئے مجھے تمہارے تعاون کی ضرورت ہوگی۔ اگر ان کارندوں کو یقین ہوگا کہ انہیں جیل میں ایک دو سال سے زیادہ عرصہ نہیں گزارنا پڑے گا تو پھر وہ زبان نہیں کھولیں گے۔ ایک گہری سانس لے کر وہ دوبارہ بولا۔ لیکن اگر انہیں دس بیس سال کی سزا کا خطرہ نظر آیا تو پھر کچھ نہیں کہا جاسکتا۔ عین ممکن ہے وہ زبان کھول دیں۔ دنیا میں سبھی انسان مضبوط دل اور سخت جان نہیں ہوتے۔ ہوسکتا ہے وہ اپنے ساتھ کچھ اہم لوگوں کو بھی لے بیٹھیں۔ اس لئے قانون کے شعبے میں یقینی تحفظ کی ضرورت ہے۔ میں نے سنا ہے بہت سے جج تمہاری جیب میں ہیں ڈون کارلیون نے اس خیال کی تردید یا تصدیق کرنا ضروری نہیں سمجھا اور ہموار لہجے میں پوچھا۔ میری فیملی کو منافع میں کتنے فیصد حصہ ملے گا سولوزو کی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ فوراً بولا۔ پچاس فیصد۔ ہم ففٹی ففٹی کے پارٹنر ہوں گے۔ اس حساب سے پہلے سال میں تمہارا حصہ تین سے چار ملین کے درمیان ہوگا اور آئندہ برسوں میں اس میں اضافہ ہوتا رہے گا۔ اور ٹے ٹیگ لیا فیملی کو کیا ملے گا ڈون نے بدستور ملائمت سے پوچھا۔ سولوزو پہلی بار قدرے مضطرب نظر آیا۔ وہ جلدی سے بولا۔ انہیں جو کچھ بھی دوں گا، اپنے حصے میں سے دوں گا۔ بعض معاملات میں بہرحال مجھے ان کے تعاون کی ضرورت ہے۔ یعنی مجھے صرف دو ملین ڈالر کی سرمایہ کاری اور کچھ قانونی تحفظ فراہم کرنے کے عوض پچاس فیصد حصہ ملے گا ڈون نے چبھتے ہوئے لہجے میں کہا۔ اگر تم دو ملین ڈالر کا ذکر ایک معمولی رقم کی طرح کرسکتے ہو تو میں تمہیں مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ تم واقعی اتنے ہی بڑے سرمایہ دار ہو جتنا تمہارے بارے میں عام تاثر ہے ڈون کارلیون سولوزو کا لہجہ قدرے استہزائیہ ہوگیا۔ ڈون پرسکون لہجے میں بولا۔ تمہیں ٹے ٹیگ لیا فیملی کی پشت پناہی حاصل ہے اور میں اس فیملی کا احترام کرتا ہوں۔ اسی احترام کے ناتے میں نے تم سے ملنے پر آمادگی ظاہر کردی تھی۔ میں تمہاری پیشکش کو قبول کرنے سے انکار کرنا چاہتا ہوں لیکن میں تمہیں اس کی وجہ بھی بتائوں گا۔ اس میں شک نہیں کہ تم بہت اچھے منافع کی پیشکش کررہے ہو لیکن اس کام میں خطرات اس سے کہیں زیادہ ہیں، جتنا تم ظاہر کرنے کی کوشش کررہے ہو۔ اس میں شک نہیں کہ سیاستدانوں اور ججوں سے میرے تعلقات ہیں۔ سیاست، قانون اور انصاف کے شعبوں میں میرا اثررسوخ ہے لیکن اگر ان لوگوں کو معلوم ہوگیا کہ میں منشیات کے دھندے میں پڑ گیا ہوں تو وہ مجھ پر اتنے مہربان نہیں رہیں گے جتنے اس وقت ہیں اور یوں میرے دوسرے مفادات کو نقصان پہنچے گا۔ اس وقت ہم جن غیر قانونی دھندوں کی سرپرستی کررہے ہیں، وہ ان لوگوں کی نظر میں زیادہ سنگین یا زیادہ ضرررساں نہیں۔ قمار بازی، شراب کی سپلائی یا یونین بازی کی حد تک وہ برداشت کرسکتے ہیں اور کچھ فائدوں کے عوض ان سے نظر چرا سکتے ہیں لیکن ڈرگز کا دھندا ان کی نظر میں بہت گندا، بہت سنگین اور بہت ضرررساں ہے۔ اس کی طرف سے آنکھیں بند کرنا ان کیلئے بہت مشکل ہوگا۔ بہرحال یہ میں تمہیں ان کا نقطۂ نظر بتا رہا ہوں، اپنا نہیں۔ مجھے ان کے خیالات سے غرض نہیں ہے۔ میں تو صرف یہ بتا رہا ہوں کہ اس کاروبار میں خطرات بہت زیادہ ہیں۔ پچھلے دس سال سے میری فیملی کسی قسم کے خطرات کے بغیر خاصی عزت و آبرو سے زندگی گزارتی آرہی ہے۔ اب میں محض لالچ میں آکر ان کی زندگیوں کو خطرات سے دوچار کرنا نہیں چاہتا۔ وہ خاموش ہوا تو کمرے میں گہرا سناٹا چھا گیا۔ جاری ہے
null
null
null
null
407
https://www.urduzone.net/deewangi-episode-2/
تیرا جرم تھانے جا کر بتا دیں گے۔ پولیس والے نے اندر بیٹھے نوجوان سے سگریٹ لے کر کہا۔ خرم کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اسے کیوں پکڑا گیا ہے اور جو نوجوان اس کے ساتھ مطمئن بیٹھے ہیں، وہ کس جرم کی پاداش میں پولیس وین میں موجود ہیں۔ وین علاقے کے پولیس اسٹیشن میں داخل ہوگئی۔ ان کو باری باری اُتارا گیا اور لائن بنا کر اندر لے گئے۔ اندر پولیس والے نے ان کی تلاشی لی۔ اسے جس کی جیب سے جو مل رہا تھا، وہ نکال کر ایک طرف رکھتا جا رہا تھا۔ خرم کی بھی تلاشی لی گئی۔ اس نے پھر کہا۔ میرا قصور کیا ہے جناب میں تو وہاں بیٹھا تھا۔ تڑاخ کی آواز آئی اور پولیس والے کا زوردار تھپڑ خرم کے منہ پر پڑا۔ خرم کی آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ اب کوئی اور سوال پوچھنا ہے پولیس والے نے غصے سے پوچھا۔ خرم خاموشی سے اسے گھورتا رہا۔ ایک پولیس والا اسے کھینچ کر لاک اَپ کی طرف لے گیا اور اندر دھکا دے دیا۔ اس کے ساتھ لائے ہوئے سب لڑکوں کو حوالات میں بند کردیا تھا۔ خرم ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ پولیس والے کا تھپڑ ایسا تھا کہ جیسے اس کے گال پر انگارہ رکھ دیا گیا ہو۔ خرم نے اپنی شدید تذلیل محسوس کی تھی۔ وہ اپنے گال پر ہاتھ رکھے ایک طرف کھڑا تھا۔ پولیس والوں سے سوال نہیں کیا کرتے۔ ایک نوجوان نے اس کے پاس آکر آہستہ سے کہا۔ مجھے کیوں انہوں نے پکڑا ہے، میں نے کیا کیا ہے خرم بولا۔ میں نے تو کوئی جرم نہیں کیا۔ پولیس والوں کے جو ہتھے چڑھ جائے، وہ ان کی نظر میں مجرم ہوتا ہے۔ ویسے تم تو ہمارے ساتھ نہیں تھے، تمہیں کیوں انہوں نے پکڑ لیا اس نوجوان کو حیرت تھی۔ میں تو وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ خرم بولا۔ یہ بتائو تم لوگوں کو کس جرم میں پکڑا ہے انہوں نے نوجوان نے بتایا۔ ہم جوا کھیل رہے تھے، پولیس کا چھاپہ پڑ گیا۔ ہم بھاگے لیکن انہوں نے ہمیں پکڑ لیا۔ تم ہمارے ساتھ نہیں تھے لیکن پولیس نے تمہیں بھی دھر لیا۔ ہماری پولیس اندھی ہے۔ اب کوئی سوال نہ کرنا، چپ چاپ ایک طرف بیٹھ جائو۔ خرم پریشان ہوگیا۔ وہ ناکردہ گناہ کے سبب پھنس گیا تھا۔ اس کا سر جھکا ہوا تھا اور پریشانی کی وجہ سے چہرہ اترا ہوا تھا۔ اچانک کسی نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ اس نے گھبرا کر سر اٹھایا اور گردن گھما کر اپنے عقب میں دیکھا تو اسے ایک آدمی اس کے کندھے پر ہاتھ رکھے نظر آیا۔ اس کی شیو بڑھی ہوئی تھی اور مونچھیں اتنی بڑی تھیں کہ اس کے ہونٹ دکھائی نہیں دے رہے تھے۔ اس کی سرخ آنکھوں میں عجیب سی وحشت تھی۔ واقعی تم ان لوگوں کے ساتھ نہیں تھے اس آدمی نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ آپ ان سے پوچھ لیں، میں ان کے ساتھ نہیں تھا۔ میں ایک طرف بیٹھا ہوا تھا۔ خرم نے بتایا۔ یہاں ایسا ہی ہوتا ہے، بے گناہ پکڑے جاتے ہیں اور گناہ گار آزاد پھرتے ہیں۔ وہ ہنس کر بولا۔ آپ کون ہیں میرا نام شیرو ہے۔ اسی شہر میں رہتا ہوں۔ سائیں کا ڈیرہ ایک مشہور جگہ ہے، وہ میرا ہی ڈیرہ ہے۔ اس نے بتایا۔ خرم کے ذہن میں فوراً وہ جگہ آگئی۔ وہ اس کے محلے سے آگے دوسرے محلے میں تھی اور کافی معروف تھی۔ شیرو نے پھر کہا۔ تم فکر مت کرو، اس جرم کی جلدی ضمانت ہوجاتی ہے۔ میری ضمانت کرانے کوئی نہیں آئے گا۔ پھر میں بے قصور پکڑا گیا ہوں۔ ساری زندگی اپنے گھر والوں کے سامنے نظر نہیں اٹھا سکوں گا۔ خرم نے افسردہ چہرے کے ساتھ کہا۔ شیرو بولا۔ تم فکر نہیں کرو، میں کچھ کرتا ہوں۔ تمہارا نام کیا ہے میرا نام خرم ہے۔ اس نے بتایا۔ میں بات کرتا ہوں۔ شیرو اپنی جگہ سے اٹھا اور سلاخوں کے ساتھ لگ کر کھڑا ہوگیا۔ اس نے ایک سپاہی کو اشارے سے اپنے پاس بلایا اور اس سے آہستہ سے کچھ کہا۔ وہ اس کی بات سن کر وہاں سے چلا گیا۔ شیرو واپس آکر اسی جگہ بیٹھ گیا جہاں پہلے بیٹھا تھا۔ خرم کا دل کانپ رہا تھا۔ آگے کیا ہوگا ان اندیشوں نے اسے اپنے حصار میں لیا ہوا تھا۔ شیرو پھر اپنی جگہ سے اٹھا۔ جب وہ پولیس والا سلاخوں کے پاس آیا، دونوں نے پھر کچھ باتیں کیں۔ پولیس والے کے جانے کے بعد شیرو، خرم کی طرف دیکھ کر مسکرایا۔ پانچ منٹ کے بعد ایک دوسرا سپاہی آیا۔ اس نے حوالات کا تالا کھولا اور بلند آواز سے بولا۔ خرم کون ہے خرم اپنا نام سن کر گھبرا گیا۔ اس نے شیرو کی طرف دیکھا اور شیرو نے اسے اشارہ کیا کہ وہ اٹھ کر پولیس والے کے پاس چلا جائے۔ خرم پولیس والے کے پاس گیا تو شیرو اس کے پاس آکر آہستہ سے بولا۔ دو چار دن میں، میں بھی باہر آجائوں گا۔ میرے ڈیرے پر آنا۔ خرم خاموشی سے اس پولیس والے کے ساتھ چلا گیا۔ وہ اسے ایک کمرے میں لے گیا اور وہاں کرسی پر بٹھا دیا۔ پولیس والا بولا۔ شیرو بندا کچھ الگ قسم کا ہے۔ یاروں کا یار ہے اور دشمنوں کا دشمن ہم بھی جانتے ہیں کہ تم بے قصور پکڑے گئے ہو۔ اب لے آئے تھے تو چھوڑ نہیں سکتے تھے لیکن شیرو کی بات ماننا بھی ضروری ہے اب تم گیٹ کی طرف جائو اور جلدی سے تھانے سے باہر نکل کر اپنے گھر کا رخ کرو۔ خرم کی سانس میں سانس آئی۔ وہ اسی وقت اٹھا اور تھانے سے باہر نکل کر اپنے گھر کی طرف یوں چلا جیسے کمان سے تیر نکلتا ہے۔ اس وقت تھانے میں مہتاب کا سیکرٹری دلبر کسی کام سے آیا تھا۔ اس نے خرم کو تھانے سے باہر جاتے دیکھا تو سپاہی سے پوچھا۔ اس نے بتایا تھا کہ یہ جوا کھیلنے والوں کے ساتھ پکڑا گیا تھا۔ اب اسے کسی کے کہنے پر چھوڑا گیا ہے۔ دلبر نے پکڑے جانے والے لڑکوں سے خرم کے بارے میں دریافت کیا تو سب نے یہی کہا کہ وہ اسے نہیں جانتے، بے چارہ مفت میں پولیس کے ہتھے چڑھ گیا تھا۔ دلبر کو یہ تسلی ہوگئی کہ خرم بے گناہ تھا۔ ٭ ٭ ٭ فجر کی اذان ہورہی تھی۔ ماسٹر رشید نماز کے لیے گھر سے باہر نکلے تو چونک گئے۔ خرم دروازے کے ساتھ لگ کر کھڑا تھا۔ خرم ان کی طرف دیکھ کر ڈر گیا۔ ماسٹر رشید نے کچھ نہیں کہا اور نماز پڑھنے کے لیے چلے گئے۔ خرم اندر چلا گیا۔ زبیدہ نماز پڑھنے کی تیاری کررہی تھی کہ اچانک اس کی نظر خرم پر پڑی۔ وہ دوڑتی ہوئی اس کے پاس آئی اور سرگوشی کے انداز میں بولی۔ تم کہاں چلے گئے تھے کہاں رہے رات بھر میں یہیں دروازے پر ہی کھڑا تھا۔ خرم بولا۔ جھوٹ بولتے ہو۔ میں نے خود دیکھا تھا، تم دروازے پر نہیں تھے۔ زبیدہ نے کہا۔ میں دروازے پر ہی تھا۔ کچھ دیر کے لیے بازار تک چلا گیا تھا۔ خرم نے بتایا۔ تم نے دروازہ کیوں نہیں کھٹکھٹایا دروازہ تو تمہارے ابو نے اندر سے بند نہیں کیا تھا۔ زبیدہ نے انکشاف کیا۔ یہ سن کر خرم چونکا۔ میں نے اس ڈر سے نہیں کھٹکھٹایا کہ آپ کھولنے کی کوشش کریں اور ابو آپ سے الجھ پڑیں۔ میں تو پندرہ منٹ کے اندر اندر واپس آگیا تھا۔ مجھے راستے میں چچا حاکم مل گئے۔ ان کی موٹرسائیکل کا پیٹرول ختم ہوگیا تھا۔ مجھ سے بولے کہ میں موٹرسائیکل ان کے گھر چھوڑ آئوں۔ اب بتائیں میں کیا کرتا، مجھے دیر ہوگئی۔ تم سچ کہہ رہے ہو یقین نہیں آتا تو آپ ابھی ان کے گھر جاکر پوچھ لیں بلکہ کپڑے کا شاپر بھی ان کے گھر ہی رہ گیا تھا۔ خرم نے کہا۔ زبیدہ نے اس کا جائزہ لیا اور بولی۔ اس میں کوئی چال تو نہیں تم نے حاکم بھائی کو کوئی کہانی سنا کر رضامند کرلیا ہو آپ میرا یقین کریں، میں سچ کہہ رہا ہوں۔ خرم نے یقین دلانے کی کوشش کی۔ زبیدہ نے اس کا ہاتھ پکڑا جو برف کی طرح ٹھنڈا تھا۔ تم جاکر رضائی میں لیٹ جائو، میں نماز پڑھ کر تمہارے لیے چائے بناتی ہوں۔ امی ابو کو بتا دیں۔ میں نے جو کہا ہے، وہ سچ کہا ہے۔ تم جائو، میں ان سے بات کرلوں گی۔ زبیدہ نے کہا اور خرم اپنے کمرے میں جاکر رضائی میں گھس گیا۔ فجر کی نماز ادا کرنے کے بعد ماسٹر رشید اکیلے گھر نہیں آئے بلکہ ان کے ساتھ حاکم علی بھی تھے۔ جب ان کی بیوی کی کال آئی تھی اور وہ اس کے ساتھ باتوں میں مشغول ہوگئے تھے تو بعد میں ہادیہ نے انہیں بتایا تھا کہ خرم یہاں سے پریشان حال گیا ہے۔ اس وقت کافی وقت ہوگیا تھا، اس لیے انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ فجر کی نماز کے بعد ماسٹر رشید کو ساری حقیقت بتا دیں گے۔ جب زبیدہ نے دیکھا کہ دونوں ایک ساتھ گھر آئے ہیں تو انہیں ماسٹر رشید کے چہرے سے پتا چل گیا وہ غصے میں نہیں ہیں۔ بھابی جی یہ میری غلطی ہے۔ میں نے خرم کو بلایا تھا۔ اب وہ بچہ انکار تو نہیں کرسکتا تھا۔ میں نے ہی اسے زبردستی چائے پر بٹھا لیا تھا۔ وہ تو سب ٹھیک ہے۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ یہ کام کے ساتھ سنجیدہ کیوں نہیں ہوتا ہر وقت اداکاری کا بھوت سوار رہتا ہے اس پر۔ ماسٹر رشید اور حاکم علی برآمدے میں ہی بیٹھ گئے تھے۔ اداکاری بھی اچھا کام ہے۔ بہت پیسہ کماتے ہیں اداکار لوگ۔ حاکم علی بولے۔ وہ کماتے ہیں پیسہ اور یہ ابھی کچھ نہیں کررہا۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ میں اس کا کیا کروں۔ ماسٹر رشید نے کہا۔ تم ایسا کرو کہ اس پر ذمہ داری ڈال دو۔ حاکم علی نے مشورہ دیا۔ وہ کوئی ذمہ داری لے تو میں جو کام بتا کر جاتا ہوں، وہ ہوتا ہی نہیں۔ ماسٹر رشید بولے۔ اس کی کہیں منگنی کردو۔ اسے احساس ہوگا کہ اب جلد میری شادی ہوگی۔ مجھے اس کے بھی اخراجات اٹھانے ہوں گے۔ پھر یہ کام میں سنجیدہ ہوجائے گا۔ حاکم علی نے کھل کر بات کی۔ ایسا کرنے سے وہ سدھر جائے گا میری مثال تمہارے سامنے ہے۔ میں تو اس سے بھی گیا گزرا تھا۔ ابا نے ادھر منگنی کی اور ادھر یہ احساس دل میں بیٹھ گیا کہ اب کچھ کیے بغیر چارہ نہیں ہے۔ پھر دیکھ لو میں نے کام شروع کردیا۔ حاکم علی بولے۔ بات تو تمہاری ٹھیک ہے لیکن اب لڑکی کہاں تلاش کروں ماسٹر رشید سوچنے لگے۔ لڑکیاں دنیا سے ختم ہوگئی ہیں کیا رشتے کرانے والوں سے بولو، پھر دیکھو وہ کیسے لائن لگاتے ہیں لڑکیوں کی۔ حاکم علی بلاتامل بولے۔ ماسٹر رشید سوچنے لگے۔ حاکم علی کا مشورہ ان کو پسند آیا تھا۔ اس پر وہ عمل کرنا چاہتے تھے۔ اچانک انہوں نے حاکم علی کی طرف دیکھا اور بولے۔ بیٹی تو تمہاری بھی ہے۔ ہاں ہے۔ حاکم علی نے کہا۔ پھر کیوں نہ ہم آپس میں رشتے داری کرلیں ماسٹر رشید مسکرا کر بولے۔ حاکم علی سوچ میں پڑ گئے۔ زبیدہ بھی ان کے پاس آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ اب کیا سوچ رہے ہو سوچنا کیا ہے۔ بات تو ٹھیک ہے۔ اگر خرم اداکاری نہیں کرے گا تو وہ تمہاری دکان تو سنبھال سکتا ہے۔ تم نے کون سا قیامت تک بیٹھے رہنا ہے۔ حاکم علی بولے۔ مجھے تم سے اسی بات کی امید تھی۔ مجھے تم اوپر بھیج کے ہی خوش ہونا۔ ماسٹر رشید نے مسکراتے ہوئے شکوہ کیا۔ تم نے اکیلے اوپر جانا ہے کیا سبھی نے جانا ہے۔ حاکم علی بولا۔ اچھا اب سنجیدہ بات کرلیتے ہیں۔ مجھے اس رشتے پر کوئی اعتراض نہیں بلکہ دلی خوشی ہے لیکن اس کی باقاعدہ ہاں ہادیہ کی ماں کے آنے پر ہوگی۔ ظاہر ہے تم نے آج تک بھابی کے مشورے کے بغیر کوئی کام جو نہیں کیا۔ ماسٹر رشید نے چھیڑا۔ یہ جتنی برکت تجھے دکھائی دے رہی ہے، یہ اسی کے دم سے ہے۔ حاکم علی اپنی بیوی کو بہت زیادہ اہمیت دیتا تھا، اس لیے اس نے اس کی حمایت کی۔ اب مجھے کب جواب دو گے ماسٹر رشید نے پوچھا۔ حاکم علی نے ایک لمحے سوچا، پھر بولا۔ آج دوپہر کے بعد تمہاری بھابی آرہی ہے پھر میں بات کرکے بتائوں گا۔ اب میں چلتا ہوں، کل ملاقات ہوگی۔ حاکم علی کہہ کر اٹھا، پھر واپس پلٹ کر بولا۔ ویسے کیسا کمال ہے۔ میں تم سے بات کچھ کرنے آیا تھا اور بات ہو کچھ اور گئی۔ پھر وہ مسکراتا ہوا باہر نکل گیا۔ حاکم علی کے جاتے ہی زبیدہ مسکراتی ہوئی ماسٹر رشید کے پاس جاکر بیٹھ گئی۔ آپ نے بہت اچھی بات کی۔ ہادیہ کا رشتہ خرم سے ہوجائے تو اس گھر میں جیسے چاند اتر آئے گا۔ اصل بات یہ ہے کہ خرم کو ہدایت مل جائے اور ہادیہ کا نصیب اچھا ہوجائے۔ ماسٹر رشید بولے اور پھر اپنے کمرے کی طرف چلے گئے۔ ٭ ٭ ٭ جب اس بات کا علم خرم کو ہوا تو وہ دم بخود رہ گیا۔ اس نے سوچا بھی نہیں تھا کہ ایک رات میں اتنا کچھ ہوجائے گا۔ وہ حوالات کی ہوا بھی کھا لے گا، وہاں شیرو جیسے بدمعاش سے ملاقات ہوجائے گی اور ہادیہ کے رشتے کی بات بھی چل جائے گی۔ خرم نے سوچا کہ اللہ جو چاہے کرسکتا ہے، اس کے لیے کوئی مشکل نہیں۔ دوپہر کے بعد حاکم علی اپنی بیوی کے ساتھ گھر آگئے۔ ماسٹر رشید کو بھی بلا لیا۔ دونوں گھرانوں نے منہ میٹھا کیا اور یوں خرم اور ہادیہ کا رشتہ طے ہوگیا۔ سبھی خوش تھے لیکن خرم کی خوشی سب سے الگ تھی۔ وہ پھولے نہیں سما رہا تھا۔ مہمانوں کے جانے کے بعد ماسٹر رشید نے خرم کو اپنے پاس بٹھایا اور سمجھانے لگے۔ دیکھو بیٹا تم اپنی ذمہ داریوں کو سمجھنے کی کوشش کرو اور سنجیدگی سے کام کی طرف توجہ دو۔ اب میں اداکار بننے کے لیے پہلے سے زیادہ کوشش کروں گا۔ خرم نے جواب دیا تو ماسٹر رشید اس کا چہرہ دیکھتے رہ گئے۔ ان کی دانست میں تھا کہ خرم انہیں یہ جواب دے گا کہ وہ فوراً آپ کے ساتھ دکان پر چلتا ہے اور اس کام کو محنت اور لگن سے شروع کرے گا۔ میری دکان کون سنبھالے گا ماسٹر رشید نے اپنے غصے پر قابو رکھتے ہوئے پوچھا۔ آپ کام کررہے ہیں ابو۔ تو کیا میں ساری زندگی کام کرتا رہوں گا ماسٹر رشید نے دریافت کیا۔ میں بڑا اداکار بن کر آپ کو کام نہیں کرنے دوں گا۔ خرم بولا۔ تم اداکاری کا بھوت سر سے اتار کیوں نہیں دیتے ماسٹر رشید نے کہا۔ زبیدہ تیزی سے ان کی طرف بڑھیں اور ماسٹر رشید سے مخاطب ہوئیں۔ آپ نے دکان پر نہیں جانا دکان پر جانا ہے اور اسے سمجھانا بھی ضروری ہے۔ ماسٹر رشید نے اپنے سر پر رکھی سفید ٹوپی اتار کر بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ ابھی آپ دکان پر جائیں، میں اسے سمجھاتی ہوں۔ زبیدہ نے مسئلہ حل کیا۔ ماسٹر رشید بڑبڑاتے ہوئے اٹھے اور باہر چلے گئے۔ خرم کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس سے ایسی کیا غلطی ہوگئی ہے۔ ٭ ٭ ٭ دونوں گھروں میں منگنی کے بارے میں گفتگو چل رہی تھی۔ خرم کی بھابی نے کہا کہ منگنی کی تقریب ایک ساتھ کرلیتے ہیں۔ لڑکا اور لڑکی ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنا دیں گے۔ اس کا اتنا کہنا تھا کہ حاکم علی اس بات پر جم گئے۔ چنانچہ طے پا گیا کہ دونوں کی میرج ہال میں منگنی ہوگی اور دونوں ایک دوسرے کو انگوٹھی پہنا کر خاندان کی پرانی روایت ختم کردیں گے۔ خرم کی منگنی پر دعوت دینے کے لیے ماسٹر رشید اور زبیدہ قادر ہائوس گئے۔ شمشاد نے ان کی مہمانداری کی۔ ماسٹر رشید نے شمشاد کو جب منگنی کی دعوت دی تو اس نے کہا۔ میں آج رات شہر سے باہر چلا جائوں گا۔ مہتاب کو میں پابند کردوں گا کہ وہ لازمی خرم کی منگنی میں شرکت کے لیے جائے۔ ماسٹر رشید اور زبیدہ خوش ہوکر واپس آگئے۔ ان کے گھر میں ڈھولک بجنے لگی اور منگنی کی خوشیاں قوس قزح بن کر اتر رہی تھیں۔ خرم کی خوشی دیدنی تھی۔ وہ اپنی قسمت پر رشک کررہا تھا اور حیران بھی ہورہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ ایک دن اسی طرح اچانک اداکار بھی بن جائے گا۔ وہ شام بھی آگئی جب خرم اور ہادیہ کی ایک شادی ہال میں منگنی کی تقریب سج گئی۔ مہمانوں کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ خرم اسٹیج پر پہنچا تو کچھ ہی دیر میں ہادیہ بھی بنی سنوری اسٹیج پر آگئی۔ میک اَپ اور خوبصورت لباس میں ہادیہ کا حسن مزید نکھر گیا تھا۔ جو بھی اسے ایک نظر دیکھتا، وہ یہ ضرور کہتا کہ یہ اسی دنیا کی کوئی لڑکی ہے یا آسمان سے اُتری کوئی حور ہے ماسٹر رشید بے چینی سے مہتاب کا انتظار کررہا تھا کہ اس کی موجودگی میں منگنی کی رسم ادا ہو۔ کچھ انتظار کے بعد مہتاب اپنے پورے وقار کے ساتھ ہال میں داخل ہوا تو سب کی نگاہیں اس پر اٹھ گئیں۔ اس کی شخصیت میں ایک سحر تھا۔ وہاں ایک ہلچل سی برپا ہوگئی۔ ہادیہ نے بھی ایک نظر اٹھا کر مہتاب کی طرف دیکھا۔ اس نے مہتاب کے بارے میں سن رکھا تھا کہ وہ بہت خوبصورت ہے۔ آج پہلی بار اسے اپنے سامنے دیکھ کر سوچ رہی تھی کہ لوگ ٹھیک کہتے تھے۔ وہ واقعی سحر انگیز شخصیت کا مالک ہے۔ مہتاب سب سے خوش دلی سے مل رہا تھا۔ سیاست دانوں کی یہی خصوصیت ہوتی ہے کہ وہ سبھی سے مسکرا کر ملتے ہیں۔ ان کے دل میں جو ہوتا ہے، وہ ظاہر نہیں کرتے۔ جب منگنی کی رسم ادا ہونے لگی تو ماسٹر رشید نے مہتاب کو عزت دیتے ہوئے اسٹیج پر خرم کے ساتھ بٹھا دیا۔ پہلی بار مہتاب کی نظر ہادیہ پر پڑی۔ وہ دنگ رہ گیا۔ وہ دنیا گھوما تھا لیکن ہادیہ جیسی حسین لڑکی کو وہ پہلی بار دیکھ رہا تھا۔ ہادیہ کے حسن میں کچھ ایسا تھا کہ جسے دیکھتے ہوئے کوئی پتھر کا بن جائے اور پھر کچھ اور دیکھنے کے قابل نہ رہے۔ مہتاب اس تقریب میں کچھ دیر کے لیے آیا تھا لیکن وہ آخر تک وہاں موجود رہا اور جب منگنی کی تقریب ختم ہوگئی تو ماسٹر رشید نے مہتاب کی آمد کا شکریہ ادا کیا۔ سب مہمان باری باری جانے لگے۔ مہتاب اپنی قیمتی گاڑی میں بیٹھ کر اپنے موبائل کے ساتھ کھیلتا رہا۔ اس نے اپنے سیکرٹری دلبر کو اشارہ کیا کہ وہ خرم اور ہادیہ کی تصویریں بنائے۔ دلبر نے ایک درجن سے زیادہ ان کی تصویریں بنا دی تھیں اور اب مہتاب ان تصویروں کو دیکھ رہا تھا۔ مہتاب کی گاڑی قادر ہائوس کی طرف چل پڑی تھی۔ سارے راستے مہتاب ہر فریم سے خرم کی تصویر غائب کرتا رہا اور ہادیہ کے ساتھ اپنی تصویر سیو کرتا جارہا تھا۔ قادر ہائوس پہنچنے تک مہتاب نے خرم کی ساری تصویریں غائب کردی تھیں۔ مہتاب اپنے مخصوص کمرے میں پہنچا تو دلبر اس کے ساتھ ہی تھا۔ مہتاب ایک طرف بیٹھ کر ہادیہ کے خیالوں میں کھویا ہوا بولا۔ بہت حسن دیکھا لیکن اس لڑکی جیسا حسن کہیں نہیں دیکھا۔ حاکم علی کے گھر میں چاند اترا ہوا تھا، تم نے کبھی بتایا ہی نہیں میں نے خود اسے کبھی نہیں دیکھا۔ دلبر نے کہا۔ کیا نام ہے اس لڑکی کا مہتاب نے پوچھا۔ اس کا نام ہادیہ ہے۔ دلبر نے بتایا۔ اب یہ ہادیہ جان لے کر رہے گی۔ مہتاب ایک آہ بھر کر بولا۔ کس کی جان لے کر رہے گی دلبر نے ہنستے ہوئے پوچھا۔ کوئی تو مرے گا۔ مہتاب نے کہا۔ ویسے وہ خرم سے زیادہ میرے ساتھ اچھی لگتی ہے۔ دلبر اس کے قریب ہوکر بولا۔ آپ حکم کریں۔ جیسا کہیں گے، ویسا ہوجائے گا۔ مہتاب اپنی جگہ سے اٹھا۔ اس نے ایک بار پھر موبائل فون کھولا، ہادیہ کی تصویروں کو دیکھا اور کہا۔ کاش اس پر پہلے نظر پڑ جاتی۔ میں ہادیہ کو اسی طرح اپنے گھر میں لے آتا جیسے پھول اپنے کوٹ کے کالر پر سجا لیا جاتا ہے۔ اب بھی کیا بگڑا ہے۔ اس کی منگنی ہوئی ہے۔ منگنی کا کیا ہے، جب چاہیں ختم ہوسکتی ہے۔ مہتاب سوچنے لگا۔ خرم کو اداکاری کا بہت شوق ہے۔ وہ کراچی جانا چاہتا ہے، اسے کراچی نہ بھیج دیں وہ یہاں بھی رہے تو ہمارا کیا بگاڑ لے گا۔ شکار ہمیشہ پوری ہوشیاری سے کرنا چاہیے۔ غافل ہوکر گولی چلانا بے وقوفی ہوتی ہے۔ چاہے شکاری کتنا ہی ماہر کیوں نہ ہو اور پھر میں نے کون سا ہادیہ سے شادی کرنی ہے۔ اسے بھیج کر کیا کریں گے خرم کو کراچی بھیج کر شطرنج کی بساط بچھائیں گے اور پھر اپنی مرضی سے مہروں کو جس خانے میں چاہیں گے، رکھ دیں گے۔ تم خرم کو کراچی بھیجنے کا انتظام کرو اور وہاں کس کے پاس بھیجنا ہے، وہ میں بتاتا ہوں۔ مہتاب اپنا موبائل فون اٹھا کر نمبر تلاش کرنے لگا۔ نمبر ملانے کے بعد اس نے فون کان سے لگا لیا۔ دوسری طرف سے جیسے ہی آواز آئی، دونوں میں رسمی باتیں ہونے لگیں۔ پھر مہتاب نے کہا۔ ایک لڑکا تیرے پاس بھیج رہا ہوں، اسے تب تک کراچی میں رکھنا ہے جب تک میں واپس آنے کا نہ کہوں۔ آپ بے فکر ہوجائیں۔ دوسری طرف سے آواز آئی۔ ٭ ٭ ٭ خرم کے دل میں خیال آیا کہ وہ شیرو سے ملنے اس کے ڈیرے پر جائے۔ اس نے اس کی مدد کی تھی، اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے اور اپنی منگنی کی مٹھائی بھی دینی چاہیے تاکہ اس سے تعلق مضبوط ہوجائے۔ کب کس کی ضرورت پڑ جائے۔ پھر اسے خیال آیا کہ ایک ہفتہ سے زیادہ ہوگیا کہ وہ مظہر کے اس گھر میں بھی نہیں گیا جو نئی کالونی میں تھا اور خالی تھا۔ چنانچہ اس نے مظہر کے پرانے گھر سے اس کی کار لی اور نئی والے مکان میں پہنچ گیا۔ وہاں کچھ وقت گزارنے کے بعد وہ شیرو کی طرف چلا گیا۔ راستے سے اس نے مٹھائی کا ڈبہ بھی لے لیا تھا۔ جب وہ اس کے ڈیرے پر پہنچا تو شیرو نے اسے پہچاننے میں ایک لمحے کی بھی تاخیر نہیں کی۔ وہ پرتپاک انداز میں ملا اور اس کی خوب آئوبھگت کی۔ ڈھیروں باتیں ہوئیں۔ خرم نے اسے مٹھائی کا ڈبہ پیش کیا، اپنی منگنی کی خوشخبری سنائی اور اس رات مدد کرنے کا شکریہ ادا کیا۔ شیرو بولا۔ تمہیں میں نے اپنا بھائی کہا ہے، اس ڈیرے کے دروازے تم پر کھلے ہیں۔ بہت شکریہ شیرو بھائی۔ اب مجھے اجازت دیں۔ پھر ملاقات ہوگی۔ خرم نے ممنون نظروں سے دیکھ کر کہا۔ شیرو اسے ڈیرے کے دروازے تک چھوڑنے آیا اور خرم گاڑی میں بیٹھ کر چلا گیا۔ ٭ ٭ ٭ خرم جونہی اپنی گلی میں داخل ہونے لگا تو ایک طرف سے دلبر نکل کر اس کے پاس آگیا اور باتیں کرتا ہوا اسے ایک طرف لے گیا۔ دونوں آہستہ آہستہ چلتے بازار کی طرف نکل گئے۔ دلبر نے کہا۔ تم نے مہتاب صاحب سے کہا تھا کہ تم کراچی جانا چاہتے ہو ہاں، ان سے بات ہوئی تھی۔ ان کا ایک دوست بہت بڑا ڈائریکٹر ہے۔ خرم نے جلدی سے کہا۔ کب جانا چاہتے ہو کراچی وہ ان سے بات کریں، میں فوراً چلا جائوں گا۔ خرم بولا۔ دلبر نے اپنی جیب سے ایک لفافہ نکالا اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ اس میں آج شام کی ٹرین کا ٹکٹ ہے۔ گھر جائو، سامان پیک کرو اور کراچی جانے کی تیاری کرو۔ یہ سن کر خرم کی آنکھوں کی چمک دوچند ہوگئی۔ وہ خوش ہوکر بولا۔ کیا واقعی انہوں نے بات کرلی ہے انہوں نے بات بھی کرلی ہے اور بھیجنے کے لیے ٹکٹ بھی خرید دیا ہے اور اس لفافے میں پیسے بھی ہیں جو وہاں تمہارے کام آئیں گے۔ دلبر نے بتایا۔ مہتاب بھائی نے میرے لیے اتنا کچھ کردیا۔ خرم کو یقین نہیں آرہا تھا۔ سارا محلہ جانتا ہے کہ تم لوگوں کے اس خاندان کے ساتھ کیا تعلق ہے۔ اب کراچی جانا چاہتے ہو یا ابھی سوچو گے سوچنا کس بات کا۔ میں آج ہی کراچی چلا جائوں گا۔ خرم نے اس کے ہاتھ سے لفافہ لے لیا۔ اسے کھول کر اندر جھانکا تو پانچ پانچ ہزار کے کچھ نوٹوں کے علاوہ فرسٹ کلاس کا ایک ٹکٹ بھی تھا۔ ایک بات اور یاد رکھنا۔ اس بات کا ذکر نہ کرنا کہ تمہیں کراچی کون بھیج رہا ہے۔ دیکھو اداکاری تمہارا جنون ہے۔ مہتاب بھائی کے جو اختیار میں تھا، انہوں نے تمہارے لیے کردیا ہے۔ تمہارے ابو کیونکہ تمہاری اداکاری کے شوق پر خوش نہیں ہیں، اس لیے مہتاب بھائی نہیں چاہتے کہ ان پر کوئی حرف آئے۔ انہوں نے جو کچھ کیا ہے، وہ تمہارے شوق کو دیکھتے ہوئے کیا ہے۔ دلبر نے اسے سمجھایا۔ میں ان کا نام نہیں لوں گا۔ میں گھر والوں کو بتائوں گا کہ میں نے کراچی کے ایک پروڈکشن ہائوس کو اپنی تصویریں بھیجی تھیں، انہوں نے مجھے بلایا ہے۔ خرم نے جلدی سے بہانہ تراش لیا۔ بہت خوب۔ بس یہی کہنا۔ دلبر خوش ہوکر بولا۔ دیکھو ہم نے اپنا کام کردیا۔ اب تم جانو اور تمہارا کام جانے ایک بات اور یاد رکھنا، چانس باربار نہیں ملتے اور اس چانس کو گنوانے کی کوشش نہ کرنا۔ میں آج ہی اس ٹرین سے چلا جائوں گا۔ خرم مصمم ارادے سے بولا اور یہی دلبر چاہتا تھا کہ وہ گھر والوں کی ضد کے آگے ہتھیار پھینک کر کراچی نہ جانے کا ارادہ نہ کرلے۔ دلبر نے اس کے کندھے پر تھپکی دی اور اپنا راستہ لے لیا۔ ٭ ٭ ٭ ماسٹر رشید ٹکٹکی باندھے خرم کی طرف دیکھے جارہے تھے۔ وہ سوٹ کاٹنا بھول گئے تھے اور خرم کی جانب متوجہ تھے۔ ابھی خرم نے دکان پر جاکر انہیں بتایا تھا کہ وہ آج ہی کراچی جارہا ہے۔ کراچی میں تیرا کوئی دور کا رشتے دار بھی نہیں۔ وہاں جاکر رہے گا کہاں ماسٹر رشید نے دریافت کیا۔ مظہر کے انکل کا وہاں ایک خالی فلیٹ ہے۔ میری مظہر سے بات ہوچکی ہے۔ خرم نے جانے کے جنون میں ایک اور جھوٹ بولا۔ کتنے پیسے ہیں تیرے پاس ماسٹر رشید نے اگلا سوال کیا۔ یہی کوئی دس ہزار۔ دس ہزار روپے میں کتنے دن گزارو گے اجنبی شہر میں قدم قدم پر خرچہ ہوتا ہے اور پھر ہمارا وہاں کوئی عزیز رشتے دار بھی نہیں ہے۔ ماسٹر رشید نے فکرمندی سے کہا۔ آپ فکر مت کریں۔ مجھے ضرورت ہوئی تو میں منگوا لوں گا۔ آپ مجھے جانے کی اجازت دے دیں۔ خرم نے کہا۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد ماسٹر رشید متانت سے بولے۔ مجھ سے ایک وعدہ کرو۔ جی حکم کریں میں تمہیں کراچی جانے کی اجازت دے دیتا ہوں۔ تم ایک بار اپنی قسمت آزما لو۔ اگر کامیاب ہوگئے تو ٹھیک ہے اور اگر کامیاب نہ ہوئے تو پھر تم کبھی اداکاری کا نام نہیں لو گے اور سعادت مندی سے میرے ساتھ دکان پر کام کرو گے ماسٹر رشید نے اتنا کہہ کر سوالیہ نگاہوں سے خرم کی طرف دیکھا۔ خرم نے سوچا کہ وعدہ کرلینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ وہ مہتاب کی سفارش پر ٹیلیویژن کے صف اوّل کے ڈائریکٹر کے پاس جارہا ہے۔ ایک تو سفارش بھاری اور اوپر سے خرم کو اپنی اداکاری پر بھی بھروسا تھا۔ چنانچہ اس نے وعدہ کرلیا۔ مجھے منظور ہے۔ ماسٹر رشید مسکرائے۔ انہوں نے اپنی دراز سے کچھ پیسے نکال کر اس کی طرف بڑھا دیئے۔ یہ رکھ لو۔ میرے پاس ہیں ابو ایسا کرو اس کا موبائل فون لے لو تاکہ تم ہمارے رابطے میں رہ سکو۔ ماسٹر رشید نے کہا۔ خرم نے اسی وقت ایک کم قیمت موبائل فون خریدا اور گھر والوں کو اپنا نمبر دے کر کراچی جانے کی تیاری شروع کردی۔ زبیدہ حیران تھی کہ اس کے ابو نے خرم کو جانے کی اجازت کیسے دے دی۔ اسی شام کو خرم سب سے مل کر نئی امیدوں کے ساتھ کراچی جانے والی ٹرین میں سوار ہوگیا۔ جیسے جیسے ٹرین اس کا شہر چھوڑ رہی تھی، ویسے ویسے خرم پُرجوش ہوتا جارہا تھا۔ نئے نئے سپنے اسے گھیرنے لگے تھے اور وہ ان سپنوں کو دیکھتا ہوا کراچی شہر میں داخل ہوگیا۔ ٭ ٭ ٭ خرم کو دلبر نے بتایا تھا کہ اسے کراچی ریلوے اسٹیشن پہنچ کر کہاں رکنا ہے اور پھر اسے وہاں سے ایک آدمی آکر لے جائے گا۔ خرم ریلوے اسٹیشن سے باہر نکلا تو اس نے متلاشی نگاہوں سے دائیں بائیں دیکھا۔ کچھ ہی فاصلے پر اسے وہ جگہ دکھائی دے گئی جس کے بارے میں دلبر نے بتایا تھا۔ خرم وہاں جاکر کھڑا ہوگیا۔ تھوڑی دیر میں ایک نوجوان آگیا اور اس نے آتے ہی شائستہ لہجے میں پوچھا۔ آپ خرم ہیں جی میرا نام خرم ہے۔ خرم فوراً اس کی طرف متوجہ ہوا۔ آپ کو مہتاب صاحب نے بھیجا ہے جی۔ مجھے انہوں نے ہی بھیجا ہے۔ میرے ساتھ آجائیں۔ اس نوجوان نے خرم کے ہاتھ سے بیگ لے لیا اور کچھ فاصلے پر کھڑی گاڑی کے پاس لے گیا۔ دونوں گاڑی میں بیٹھ گئے اور گاڑی آگے بڑھ گئی۔ خرم پہلی بار کراچی آیا تھا۔ وہ دائیں بائیں گردن گھما کر اونچی عمارتیں دیکھ رہا تھا۔ آپ پہلی بار کراچی آئے ہیں نوجوان نے پوچھا۔ جی۔ میں پہلی بار کراچی آیا ہوں۔ خرم نے بتایا۔ مجھے یقین ہے اب آپ کراچی کے ہی ہوکے رہ جائیں گے۔ کیا مطلب خرم نے پوچھا۔ جن کے پاس مہتاب صاحب نے آپ کو بھیجا ہے، وہ ان کی کوئی بات نہیں ٹالتے۔ آپ کو وہ شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیں گے اور آپ بہت جلد سپر اسٹار بن جائیں گے۔ نوجوان مسکرا کر بولا۔ خرم اس کی بات سن کر خوش ہوگیا اور ایک بار پھر اپنے خوابوں میں کھو گیا۔ کراچی کی مختلف سڑکوں پر ان کی کار دوڑتی رہی اور پھر ایک بنگلے کے سامنے رک گئی۔ وہ پوش علاقہ تھا۔ چوڑی گلی کے دائیں بائیں بڑے بڑے بنگلے تھے۔ دور تک خاموشی اور ویرانی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے ان بنگلوں میں کوئی نہیں رہتا۔ نوجوان نے ہارن دیا تو گیٹ کھل گیا۔ کار اندر چلی گئی۔ وہ نوجوان، خرم کو لے کر خوبصورت لائونج سے ایک کشادہ بیڈ روم میں لے گیا۔ آپ فریش ہوجائیں، میں کھانا لگواتا ہوں۔ نوجوان یہ کہہ کر باہر چلا گیا۔ خرم نے کمرے کا جائزہ لیا۔ وہاں ایک ڈبل بیڈ، ڈریسنگ ٹیبل کے علاوہ دو کرسیاں اور ایک چھوٹی میز تھی۔ خرم کمرے سے ملحق باتھ روم میں چلا گیا۔ اچھی طرح نہا کر باہر نکلا تو میز پر پُرتکلف کھانا لگ چکا تھا۔ وہ نوجوان ایک کرسی پر براجمان تھا۔ مسکرا کر بولا۔ آجائیں، کھانا کھا لیں۔ خرم نے دوسری کرسی سنبھال لی اور وہ دونوں کھانا کھانے لگے۔ خرم کو بھوک بھی لگی ہوئی تھی اور کھانا بھی مزیدار تھا، اس لیے اس نے تکلف سے کام نہیں لیا۔ کھانے سے فارغ ہوکر وہ نوجوان اسے اوپر ایک کمرے میں لے گیا۔ خرم کا سامان ایک ملازم وہاں چھوڑ گیا تھا۔ اس کشادہ کمرے کا فرش شیشے کی طرح چمک رہا تھا۔ ایک طرف زمین پر ہی گدا بچھا کر بستر لگا دیا گیا تھا۔ کمرے میں ایک فریج تھا اور دیوار کے ساتھ نصب ٹی وی اسکرین۔ آپ لمبے سفر سے آئے ہیں، اس لیے آرام کریں۔ شام کو ملاقات ہوگی۔ نوجوان نے کہا۔ ہم پروڈکشن ہائوس نہیں جائیں گے بالکل جائیں گے۔ آرام کیا کرنا، ابھی چلتے ہیں۔ خرم بولا۔ جب رات ہوتی ہے اور لوگ سو جاتے ہیں تو یہ لوگ جاگ رہے ہوتے ہیں۔ اس لیے ہم شام کے بعد چلیں گے تب تک آپ آرام کریں، مزے سے سو جائیں۔ نوجوان نے کہا۔ اسی اثنا میں ملازم ایک چھوٹی ٹرے میں جوس کا گلاس لے کر آگیا۔ اس نے ٹرے خرم کے سامنے بڑھا دی۔ فریش جوس ہے، پی لیں۔ نوجوان بولا۔ اس کی ضرورت نہیں، ابھی تو کھانا کھایا ہے۔ ہمیں حکم ہے آپ کی خدمت میں کوئی کسر نہیں رہنی چاہیے، اس لیے جوس پی لیں۔ نوجوان نے کہا۔ خرم نے گلاس اٹھا لیا۔ ملازم اور نوجوان باہر چلے گئے۔ خرم نے جوس کے چھوٹے چھوٹے گھونٹ لینے شروع کردیئے۔ اسی وقت اس کا موبائل فون بجا۔ گھر سے کال تھی۔ خرم نے فون کان سے لگایا تو دوسری طرف سے ماسٹر رشید کی آواز آئی۔ بیٹا تم پہنچ گئے کراچی جی ابو میں خیریت سے پہنچ گیا ہوں۔ مجھے سفر کے دوران کوئی دقت پیش نہیں آئی۔ خرم نے بتایا۔ بیٹا اپنا خیال رکھنا۔ ماسٹر رشید نے اتنا کہہ کر فون بند کردیا۔ خرم نے جوس کا گلاس ختم کیا اور خالی گلاس ایک طرف رکھ کر زمین پر بچھے گدے پر بیٹھ گیا۔ وہ پروڈکشن ہائوس جانے کے لیے پُرجوش تھا۔ وہ چاہتا تھا ابھی شام ہوجائے اور وہ پروڈکشن ہائوس پہنچ جائے۔ خرم کو جمائیاں آنے لگیں اور پھر رفتہ رفتہ نیند کا خمار چڑھنے لگا۔ وہ گدے پر لیٹ گیا اور کچھ ہی دیر میں نیند کی وادی میں پہنچ گیا۔ ٭ ٭ ٭ شام کے سائے رفتہ رفتہ گہرے ہورہے تھے۔ پوش علاقوں کے بنگلوں کی روشنیاں جاگ اٹھی تھیں۔ کشادہ گلیوں کی اسٹریٹ لائٹس روشن ہوگئی تھیں۔ آنے جانے والوں کی چہل پہل ہوگئی تھی۔ کسی بنگلے میں کار داخل ہورہی تھی یا نکل رہی تھی لیکن اس بنگلے میں خاموشی تھی اور گیٹ بند تھا۔ اس بنگلے کے گیراج میں روشنی تھی اور اوپر والے کمرے کی کھڑکی کے آگے پڑے ہوئے پردوں سے بھی روشنی اپنے ہونے کا پتا دے رہی تھی۔ اس کمرے میں خرم سویا ہوا تھا۔ اچانک اس کے جسم میں حرکت ہوئی اور اس نے انگڑائی لی اور پھر آہستہ آہستہ آنکھیں کھولنے کی کوشش کرنے لگا۔ خرم نے آنکھیں کھول کر دیکھا اور دوسرے لمحے اس کی آنکھیں پھر بند ہوگئیں۔ ایک منٹ بھی اپنی آنکھیں بند نہیں رکھ سکا اور اس نے فوراً اپنی آنکھیں کھول دیں۔ اس نے جب پہلی بار آنکھیں کھولی تھیں تو اسے لگا تھا جیسے اس کے قریب کرسی پر کوئی بیٹھا ہے۔ نیند کے خمار نے اسے زیادہ سوچنے نہیں دیا تھا۔ جونہی اس نے آنکھیں بند کی تھیں، اس کے دماغ میں ایک دھماکا سا ہوا۔ اس نے ایک دم آنکھیں کھول دی تھیں۔ خرم نے دیکھا کہ اس کے بستر کے پاس ہی کرسی پر ٹانگ پر ٹانگ رکھے ایک خوش پوش پچاس سال کی عمر کا شخص براجمان تھا۔ اس کی آنکھوں پر فریم لیس عینک تھی۔ خرم ایک دم اٹھ کر بیٹھ گیا۔ خرم کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے، اس لیے وہ محض اس شخص کی طرف دیکھتا رہا۔ کیسے ہو ینگ مین اس شخص نے شائستہ لہجے میں پوچھا۔ میں ٹھیک ہوں۔ کوئی تکلیف تو نہیں ہے بالکل نہیں۔ خرم نے کہا۔ کھانا اچھا تھا اس نے پوچھا۔ بہت اچھا تھا۔ میں نے بے تکلفی سے کھایا۔ خرم نے جواب دیا۔ اس شخص نے ایک طرف رکھے فریج کی طرف دیکھا اور اٹھ کر اس کے پاس چلا گیا۔ اس نے فریج کھولا تو اندر کھانے پینے کا بہت سا سامان رکھا ہوا تھا۔ فریج کے دوسرے خانے میں آئس کریم بھی موجود تھی۔ اس فریج میں کھانے پینے کا سامان موجود ہے۔ تم جو چاہو کھا سکتے ہو۔ صبح اور دوپہر کے بعد چائے بھی ملے گی۔ تمہیں یہاں کوئی تکلیف نہیں ہوگی۔ اس شخص نے کہا۔ خرم اس کی بات سن کر کچھ پریشان ہوگیا۔ کیا مطلب مجھے کوئی تکلیف نہیں ہوگی تم ہمارے مہمان ہو، کچھ دن ہمارے ساتھ رہو گے اور جتنے دن یہاں رہو گے، ہم تمہارا پورا خیال رکھیں گے۔ وہ شخص ایک بار پھر اسی کرسی پر بالکل اسی انداز میں بیٹھ گیا جس انداز میں خرم نے اسے آنکھ کھلتے ہی دیکھا تھا۔ آپ کا شکریہ میں نے پروڈکشن ہائوس جانا تھا۔ انہوں نے مجھے کہا تھا کہ وہ مجھے شام کو لے جائیں گے۔ شام ہوگئی ہے کیا خرم کے دماغ میں پروڈکشن ہائوس جانے کا خیال جاگزین تھا، اس لیے اس نے فوراً وہاں جانے کی بات کی۔ اس شخص نے متانت سے کہا۔ وہ بہت کمینہ لڑکا ہے، دوسروں کی فون کالیں ٹریس کرتا ہے اور پھر تم جیسوں کو پکڑ کر میرے پاس لے آتا ہے۔ آپ کے پاس کیوں لے آتا ہے خرم پریشان ہوگیا۔ وہ تم جیسوں کو میرے ہاتھوں بیچ دیتا ہے اور ہم اپنا کوئی مقصد حل کرنے کے لیے تم جیسوں کو استعمال کرتے ہیں۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں، میری سمجھ میں نہیں آرہا۔ خرم یک دم پریشان ہوگیا۔ صاف لفظوں میں سن لو، وہ تمہیں میرے ہاتھوں بیچ کر پیسے جیب میں ڈال کر جا چکا ہے۔ اب تم میرے پاس ہو اور ضرورت کے وقت میں تم سے کوئی کام لے کر اپنی قیمت مع منافع وصول کرلوں گا۔ اس شخص نے اپنے چہرے پر پہلی بار مسکراہٹ عیاں کی جو جلدی ہی معدوم ہوگئی۔ خرم گھبرا گیا۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ میں یہاں اداکار بننے کے لیے آیا ہوں، مجھے مہتاب بھائی نے بھیجا ہے۔ یہ مہتاب بھائی کون ہے اس نے دلچسپی سے پوچھا۔ وہ ہمارے علاقے کے بڑے سیاستدان ہیں۔ ہمارا ان سے بہت پرانا تعلق ہے۔ خرم بولا۔ یہ تم نے اچھی بات بتائی ہے۔ وہ سر ہلا کر بولا۔ پلیز آپ مجھے جانے دیں۔ میں ایک شریف لڑکا ہوں اور یہاں صرف اداکار بننے کے لیے آیا ہوں۔ خرم نے استدعا کی۔ یہ اب ناممکن ہے۔ اب تم کہیں نہیں جاسکتے۔ اس نے اطمینان سے کہا۔ خرم نے جلدی سے اپنی جیبیں ٹٹولیں اور اپنا موبائل فون تلاش کرنے لگا۔ وہ شخص اس کی طرف دیکھتا رہا اور پھر بولا۔ تمہارا موبائل فون اور پیسے میرے پاس ہیں، انہیں تلاش کرنے کی کوشش میں وقت ضائع مت کرو۔ مجھے میرا موبائل فون دے دیں، مجھے کال کرنی ہے۔ خرم پریشان ہوکر کھڑا ہوگیا۔ اس کی نگاہیں اس شخص کے چہرے پر مرکوز تھیں جو اس کے سامنے کرسی پر بڑے اطمینان سے ٹانگ پر ٹانگ جمائے بیٹھا تھا۔ تم سمجھ لو کہ تمہارا ناتا باہر کی دنیا سے کٹ چکا ہے۔ اب وہی ہوگا، جو ہم چاہیں گے۔ تم وہی کرو گے جو ہماری خواہش اور حکم ہوگا۔ وہ شخص اتنا کہہ کر اپنی جگہ سے اٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا تو خرم تیزی سے اس کے مقابل آگیا۔ جاری ہے
null
null
null
null
408
https://www.urduzone.net/yeh-mout-ka-safar-teen-auratien-teen-kahaniyan/
والد صاحب کو ٹی بی کا موذی مرض لاحق تھا لیکن رشتہ طے کرتے وقت ان لوگوں نے نانی اماں سے یہ بات چھپا لی، یوں انہوں نے میری والدہ اور خالہ کا رشتہ ایک ہی گھر میں دو سگے بھائیوں محراب اور سہراب سے کردیا اور بدلے میں ان کی بہن صفیہ کو اپنے بڑے بیٹے رشید کی دلہن بنا کر لے آئیں۔ ابو شادی کے چار سال بعد اللہ کو پیارے ہوگئے۔ جن دنوں ابو کی وفات ہوئی میری عمر دو سال، بھائی اظہر صرف چھ ماہ کا تھا اور امی اٹھارہ برس کی تھیں، اتنی کم سنی میں خوشیوں کے پھول کھلنے سے پہلے مرجھا گئے۔ ہماری نانی کی بدقسمتی کہ نانا نے دوسری شادی کر لی، تبھی ان کو میکے کا سہارا لینا پڑا۔ وہ بچوں کے ہمراہ اپنے بھائی کے پاس گائوں سے شہر آگئیں۔ جب نانی کو والدہ کی بیوگی کی اطلاع ملی تو بیٹی کو لینے آ پہنچیں ،حالانکہ خود اپنے بھائی کے در پر پڑی تھیں جو بچارے ایک اسکول ماسٹر تھے، تنخواہ معمولی تھی، ٹیوشن پڑھا کر گزر اوقات کرتے تھے۔ نانی کے ساتھ ان کے دو بیٹے بھی تھے جو اسکول میں زیر تعلیم تھے۔ سو ہمارے آ جانے سے اخراجات مزید بڑھ گئے۔ نانی اماں خود محنت مشقت کرنے لگیں۔ وہ دوسروں کے گھروں میں کام کرتیں، اور امی کے بوتیک کے لئے کڑھائی کرتیں۔ انہوں نے ہم دونوں بچوں کو اسکول داخل کرایا تاکہ ہم پڑھ لکھ کر کچھ بن جائیں۔ بھلا ہو نانی اماں کے بھائی احمد بخش کا جنہوں نے ہماری سرپرستی قبول کرلی ان کو ہم بڑے نانا کہتے تھے۔ وہی ہماری اسکول فیس ادا کرتے تھے۔ آخر کب تک، ان کے اپنے بھی بچے تھے، ایک روز نانا نے اظہر کو بلا کر کہا۔ میں اب تم کو مزید نہیں پڑھا سکتا، تم کوئی کام کرو۔ جب اسکول میں چھٹیاں ہوگئیں تو اظہر کام ڈھونڈنے لگا۔ گھر کے سامنے ہی ایک اسٹور تھا۔ جس کا مالک ہمارا پڑوسی تھا، اس نے اظہر کو اسٹور پر ملازم رکھ لیا۔ چونکہ یہ لوگ ہم کو جانتے تھے، وہ میرے بھائی پر بھروسہ کرتے تھے، یہ بہت اچھے لوگ تھے، ہمارے حالات کا بخوبی علم تھا۔ انہوں نے اظہر کو تعلیم جاری رکھنے کی اجازت دے دی، میٹرک تک پڑھایا۔ ہم ان کا احسان کبھی نہیں بھلا سکتے۔ ان دنوں ایاز ماموں آٹھویں جماعت کے طالب علم تھے، جب انہوں نے نانی سے کہا کہ میں آپ کی غربت دور کرنے کے لئے بیرون ملک جانا چاہتا ہوں۔ بیٹے ابھی تمہاری عمر بیرون ملک جانے کی نہیں ہے۔ پہلے تعلیم مکمل کرلو۔ نانی نے جواب دیا۔ وہ نہ مانے، بالآخر وہ دن آگیا جب سترہ برس کی عمر میں غربت دور کرنے کی خاطر ایاز ماموں نے رخت سفر باندھ لیا۔ ایجنٹ نے اس شرط پر ہامی بھری کہ وہ پہلے اس کا قرض اتاریں گے اور پھر اپنی کمائی گھر والوں کو بھیجیں گے۔ ماموں نے یہ شرط منظور کرلی۔ ایک روز وہ نانی اور امی کو الوداع کہہ کر چلے گئے اور آج تک نہیں لوٹے۔ کسی کو علم نہیں ہے کہ وہ کہاں گئے۔ یہاں تک کہ میرے منجھلے ماموں فیاض کی وفات ہوگئی۔ پھر نانی اماں کی وفات پر اظہر بھائی نے ایجنٹ سے معلوم کیا تو اس نے کوئی پتا نہ دیا کہ ہم ایاز ماموں کو اطلاع کرتے کہ جس کی غربت کو دور کرنے تم پردیس گئے تھے وہ ماں مر گئی ہے۔ بڑے ماموں رشید سرکاری محکمے میں کلرک تھے۔ اپنی بیوی صفیہ بیگم کے ہمراہ علیحدہ گھر میں رہتے تھے۔ ان کے مالی حالات ٹھیک تھے، مگر امی اور نانی سے میل جول نہ رکھتے تھے مبادا ان کی مالی مدد کرنی پڑ جائے حالانکہ ان کی بیوی ہماری سگی پھوپھی تھیں۔ میں نے میٹرک پاس کیا تو ایک اچھا رشتہ آگیا۔ لڑکا سرکاری محکمے میں ملازم تھا۔ شریف لوگ تھے ان دنوں نانی زندہ تھیں، امی اور نانی نے ہاں کردی جب تایا والوں کو پتا چلا تو رشتہ لینے آگئے۔ یہ تائی وہی سگی خالہ تھیں جب ابو فوت ہوئے تھے ہمیں اپنے ساتھ رکھنے سے انکار کردیا تھا۔ اب رشتہ لینے آئے تو امی نے انکار کردیا، تب تایا بولے۔ تم ہمارے یتیم بھتیجے اور بھتیجی کو ہم سے جدا مت کرو، ہمارے ساتھ رشتہ کر لو گی تو آبائی مکان میں تمہارے بچوں کا حق تم کو دے دیں گے۔ امی نے سوچا بے شک جیٹھ نے برُے دنوں میں ساتھ نہیں دیا، اگر رشتہ کرنے سے میرے بچے پھر سے اپنے باپ کے گھر میں حصہ دار ہو جاتے ہیں تو دربدری سے بچ جائیں گے۔ یوں اظہر کی منگنی تایا کی بیٹی سے کردی۔ تین سال منگنی رہی۔ ان کی شرط تھی کہ اظہر کو ملازمت ملتے ہی رخصتی کردیں گے۔ میرے بھائی نے نوکری کے لئے بھاگ دوڑ شروع کردی، بڑی مشکل سے ایک کمپنی میں نوکری مل گئی۔ اسی اثنا میں ان کی بیٹی کے لئے ایک خوشحال گھرانے سے رشتہ آگیا۔ ادھر جب امی تاریخ لینے گئیں تو انہوں نے نئی شرط رکھ دی۔ تایا نے کہا۔ ہمارا آدھا مکان جو تمہارے بچوں کی وراثت میں آتا ہے، وہ میرے بیٹے اور بیٹی کے نام کردو۔ امی نے اظہر کی شادی سے قبل مکان کی وراثت لکھ کر دینے سے انکار کیا تو انہوں نے منگنی توڑ دی۔ امی بہت دکھی ہوگئیں، تب بھائی نے سمجھایا۔ ماں آزمائے ہوئے کو آزمایا نہیں کرتے خالہ اور تایا کو جان چکی ہو ان کا خیال چھوڑ دو، پہلے ہم شگفتہ کی شادی کرتے ہیں۔ پھر میں آزاد ہو جائوں گا تو دبئی چلا جائوں گا اور وہاں جا کر اتنا کمائوں گا کہ ہم قرضہ اتار سکیں گے اور گھر بھی بنا لیں گے۔ وہ ایک ایجنٹ کے پاس گیا جو لانچوں کے ذریعے بے روزگار نوجوانوں کو دبئی بھجواتا تھا۔ اس کا نام ظفر تھا۔ بھائی سے ظفر نے ایران تک پہنچانے کے تیرہ ہزار طلب کئے،کہا کہ عمان تک جانے کے مزید پندرہ ہزار ادا کرنے ہوں گے۔ اظہر بھائی نے امی کو نہ بتایا۔ اپنے دوست سے رقم قرض لی اور دو جوڑے شاپر میں ڈال کر ظفر کے پاس چلا گیا۔ امی سے بہانہ کیا کہ کام سے چند دنوں کے لئے لاہور جا رہا ہوں۔ پندرہ آدمی اور بھی تھے۔ ظفر نے ان سب کو لاری میں سوار کرا دیا۔ تمام رات کی مسافت طے کرنے کے بعد یہ قافلہ اگلے دن صبح نو بجے کراچی پہنچ گیا، جہاں ایجنٹ کا ایک کارندہ ان کو پک اپ میں بھر کر چاکیواڑہ لے گیا اور ایک پرانے بڑے سے گھر میں ٹھہرایا۔ دوسری صبح پچاس آدمی مزید آگئے، تب اظہر نے امی کو فون کیا۔ اماں میں دبئی جا رہا ہوں، آپ فکر نہ کرنا، دعا کرنا۔ ہم ایک ٹرانسپورٹر کے ساتھ جا رہے ہیں جن کی بسیں مندبلو اور گوادر تک چلتی ہیں۔ امی کیسے فکر نہ کرتیں وہ تو پہلے ہی ڈری ہوئی تھیں خوب روئیں کیونکہ ان کی منہ بولی بہن کا بیٹا عابد بھی اسی طرح دبئی گیا تھا۔ اس نے بتایا کہ یہ قافلہ رات کی تاریکی میں بس کے ذریعے خطرناک پہاڑی راستوں اور کچی سڑکوں پر سفر کرتے ہوئے جاسک تک جاتا تھا۔ یہ ایرانی بلوچستان کا علاقہ ایسا تھا کہ رات کے اندھیرے میں سڑکیں دکھائی نہیں دیتیں، پتا نہیں چلتا کہ کدھر جا رہے ہیں۔ ان کو بھی جہاں بس نے پہنچایا وہ جاسک کا ہی علاقہ تھا۔ ایک باغ میں دن بھر رہے۔ باغ کیا تھا امرودوں کے سوا کچھ نہ تھا، بارہ گھنٹوں سے کچھ کھایا نہ پیا، رات کو پھر محو سفر ہوگئے۔ صبح شہر کنارے پہنچے جو سمندر سے تقریباً چار کلومیٹر دور تھا۔ بس والوں نے اس قافلے کو یہاں اتار دیا اور کہا کہ بس اب آپ کا سفر ختم ہوجائے گا۔ ابھی یہاں قیام کرو۔ رات کو کنارے پر لے جائیں گے۔ اظہر بھائی کے ساتھ تینتیس آدمی تھے۔ دس روز بعد ان کا نمبر آیا، وہ انہیں پیدل کنارے تک لے گئے، یہ پیدل کا سفر تقریباً تین گھنٹے کا تھا۔ مغرب کے وقت انہوں نے چلنا شروع کیا تو نو بجے شب سمندر تک پہنچے، ایک گھنٹہ لانچ کے انتظار میں یہ پانی میں کھڑے رہے، جس سے حالت بری ہوگئی اور ٹانگیں یخ بستہ لہروں سے بے جان ہوگئیں۔ یہاں پر لانچ نے آنا تھا جو ان کو عمان لے جانے والی تھی۔ اظہر بھائی جس لانچ پر جا رہے تھے اس میں پندرہ آدمیوں کی گنجائش تھی مگر انہوں نے تینتیس آدمی چڑھا دیئے۔ شروع میں لانچ آہستہ چلتی ہے، پھر اس کی رفتار اتنی تیز کردی جاتی ہے کہ ان پر موجود لوگوں کی خوف سے چیخیں نکل جاتی ہیں، تب یہ اپنے خدا اور گھر والوں کو یاد کر کے روتے ہیں کیونکہ کھلے سمندر کی لہریں ان کے اوپر سے گزرتی ہیں اور تند موجیں لانچ کو پلاسٹک کے کھلونے کی طرح اِدھر اُدھر مارتی ہیں۔ اس طرح لانچوں پر کھلے سمندر سے دبئی جانے کا عزم رکھنے والو ں کو شاید یہ معلوم نہیں ہوتا کہ یہ سراسر موت کا سفر ہوتا ہے، کتنے ہی لعل سمندر کی بے رحم لہروں کی نذر ہو جاتے ہیں، جو کبھی پلٹ کر واپس اپنے گھروں کو نہیں آتے۔ یہ تو میری ماں کی دعائیں تھیں کہ اظہر بھائی بالآخر ایک روز خستہ حال گھر واپس لوٹ کر آگئے، تب انہوں نے بتایا کہ شگفتہ بہن خدا کسی کو وہاں نہ لے جائے۔ یہ تین گھنٹے کا جان لیوا سفر تھا مگر تین صدیوں کے برابر تھا اور اس طرح اپنے خوابوں کے پیچھے کھلے سمندر سے دبئی جانے والوں کے لئے موت کا بگل تھا۔ آپ دبئی کیسے پہنچے میں نے پوچھا تھا تو بھائی نے بتایا کہ جب ہم عمان کی حدود میں پہنچے بہت تیز ہوا چل رہی تھی اور ہم لوگ کشتی کے اوپر بندھے رسے کو پکڑے ایسے اِدھر اُدھر ڈول رہے تھے جیسے تیز و تند جھونکوں میں رسی پر لٹکے کپڑے اڑتے ہوئے اِدھر اُدھر جھولتے ہیں۔ ہم اسی امید میں سانس لے رہے تھے کہ بس اب منزل آنے والی ہے کہ اچانک ناخدا نے کہا۔ موسم ٹھیک نہیں ہے لانچ کو واپس لے جانا ہوگا۔ تین گھنٹے سمندر میں رہنے کے بعد لانچ نے واپسی کا سفر شروع کردیا۔ شاید خطرے کی بو سونگھ لی تھی۔ خدا خدا کر کے واپس اسی کنارے پر پہنچے جہاں سے چلے تھے تو سبھی بدن کے درد کی وجہ سے کراہ رہے تھے۔ پائوں کے چھالے زخموں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ اس پر طرّہ یہ کہ کھانے پینے کو کچھ نہ تھا۔ بھوک پیاس سے نڈھال تھے۔ دو دن بے یارو مددگار بھوکے پیاسے اسی حالت میں پڑے رہے، اب پریشانی اور خوف کے ساتھ پچھتاوے کے سوا کچھ نہ تھا، البتہ ناخدا اپنے عمانی ایجنٹ سے رابطے کی کوشش کرتا رہا تھا۔ ان دس دنوں میں یہ لوگ روز صرف مٹھی بھر بھنے ہوئے چنے کھاتے رہے تھے۔ آخرکار ناخدا کا رابطہ ایجنٹ سے ہوگیا، اس نے کہا کہ اب موسم بہتر ہے اور ہوا بند ہوگئی ہے، سمندر بھی پرسکون ہوچکا ہے، اب آپ لوگ آجائو۔ وہ عمانی ایجنٹ سمندر کے کنارے جنگل میں موجود تھا، گرتے پڑتے یہ دوبارہ وہاں چلے گئے۔ کنارے سے ناخدا نے لانچ پر سوار کرا دیا۔ موسم ٹھیک تھا، سمندر سویا ہوا تھا، ڈھائی گھنٹے میں عمان کی حدود میں جا پہنچے لیکن اوپر ہیلی کاپٹر گشت کر رہا تھا، تبھی ناخدا نے لانچ کو بند کردیا اور آدھا گھنٹہ پانی میں رہ کر ہیلی کاپٹر کے جانے کا انتظار کیا۔ جب وہ چلا گیا ناخدا نے لانچ کو اسپیڈ دی اور پانچ منٹ بعد کنارے پر اتار دیا۔ ہدایت کی کہ تیزی سے کنارے سے نکل کر سامنے جنگل میں گھس جائو وہاں تم کو ایجنٹ مل جائے گا۔ ایجنٹ ایک کھجور کے درخت پر لٹکا ہوا تھا، اوپر کالی چادر ڈال رکھی تھی، اس نے آواز دے کر بلایا اور ہمیں جنگل سے باہر لے آیا۔ تبھی وہاں پولیس کی گاڑی آگئی۔ سب اِدھر اُدھر بھاگنے لگے، یہاں پر اٹھارہ افراد پکڑے گئے۔ پھر پولیس نے ہوائی فائرنگ شروع کردی۔ ہم باقی لوگ زمین پر لیٹ گئے۔ خدا کی مہربانی کہ ہم ان کو نظر نہیں آئے اور بھاگ نکلنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہاں کے ایجنٹ کو شاہ جی کہہ کر بلاتے تھے۔ وہ ہم کو ایک مکان میں لے آیا۔ یہاں ہم نے کپڑے تبدیل کئے جو بھیگے ہوئے تھے اور بھاگنے سے پھٹ گئے تھے۔ ہم اتنے تھکے ہوئے تھے کہ سب کے سب سو گئے۔ شام پانچ بجے سو کر اٹھے تو شاہ جی کھانا لے آیا تھا۔ یہاں ہم نے پیٹ بھر کر کھایا۔ شاہ جی نے بتایا کہ صبح ہم دبئی روانہ ہو جائیں گے۔ صبح کچھ لوگ آئے انہوں نے ہماری گنتی کی اور شاہ جی سے رقم وصول کی اور ہمیں بس میں بٹھایا۔ خود بھی ساتھ چلے مگر تھوڑی دور آگے جا کر وہ اتر گئے اور ہم کو آگے روانہ کردیا۔ ہم سولہ آدمی تھے، بس والا ہمیں ایک جگہ اتار کر چلا گیا۔ دس آدمی ہم میں سے سامنے چلے گئے۔ یہ بکریوں کا باڑہ تھا۔ اب ہم چھ بچ گئے اور پہاڑی کے اوپر بیٹھ گئے۔ ہمیں خبر نہ تھی کہ یہ کون سی جگہ ہے، اس رات ہم پہاڑ پر ہی سو گئے۔ رات کا اندھیرا چہار سو پھیلا ہوا تھا کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ صبح ہوئی تو ہر طرف بکریوں اور اونٹوں کے باڑے نظر آنے لگے۔ کب تک بھوکے پیاسے پہاڑ پر رہتے، ہم نے آپس میں صلاح کی کہ نیچے چلنا چاہئے۔ مگر ڈر کے مارے سب ساتھی نیچے جانے پر تیار نہ تھے، بالآخر میں نے ہمت کی اور کہا کہ تم ٹھہرو میں جاتا ہوں، اگر ایک گھنٹے تک واپس نہیں آیا تو سمجھ لینا پکڑا گیا ہوں۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، جائوں ہمارے پاس کھانے پینے کو کچھ نہیں تھا۔ تبھی میں ہمت کر کے ایک اونٹوں کے باڑے میں جا گھسا۔ وہاں پر تین پاکستانی کام کر رہے تھے، مجھے دیکھ کر میرے پاس آگئے۔ خیریت پوچھی تو میری آنکھوں میں آنسو بھر آئے۔ انہوں نے تسلی دی اور پانی پلایا کہا کہ گھبرائو نہیں۔ میں نے سارا احوال بتایا کہ لانچ سے آیا ہوں، کافی ساتھی پکڑے گئے ہیں۔ رات سے کچھ نہیں کھایا ہے۔ انہوں نے کہا پریشان نہ ہو کھانے کا انتظام کرتے ہیں۔ یہ بتائو تمہارے ساتھ اور کتنے لوگ ہیں۔ میں نے بتایا کہ ہم تین ہیں۔ کہنے لگا، ان کو لائو۔ میں پہاڑ کی طرف گیا اور جو وہاں میرے انتظار میں بیٹھے تھے انہیں لے آیا۔ باڑے کے ان ملازموں نے ہم کو کھانا پکا کر دیا اور کہا کہ اگر آپ کے پاس ایجنٹ کا نمبر ہے تو ہم کو بتائو۔ ہم نے نمبر دیا تو انہوں نے ایجنٹ سے بات کی جس کا نام جاوید تھا۔ جاوید سے پھر ہماری بات ہوئی۔ اس نے کہا۔ مجھے پتا چلا ہے کہ تم سب لوگ پکڑے گئے ہو اور اظہر نامی لڑکے کا پاکستان سے میرے پاس بار بار فون آ رہا ہے اس کی ماں رو رو کر پوچھتی ہے، میرے بیٹے کی خیریت بتائو۔ کیا وہ بھی ادھر ہے یا پکڑا گیا ہے میں نے کہا۔ جاوید صاحب میں اظہر ہی بول رہا ہوں۔ تب اس بزرگ نے اپنے موبائل سیل سے میری بات امی سے کروا دی۔ پھر جب جاوید نے بتایا کہ میں ایک ٹیکسی والے کو بھیج رہا ہوں۔ کالے رنگ کی گاڑی ہے جو تم لوگوں کو لینے آ رہی ہے۔ پھر رات کو کالی گاڑی ہم کو لینے پہنچ گئی۔ میں نے بزرگ کا شکریہ ادا کیا۔ ٹیکسی سڑک پر چڑھی ہی تھی کہ پولیس والی گاڑی نے پیچھے سے لائٹ دی کہ گاڑی روکو۔ تبھی ٹیکسی ڈرائیور نے ہم کو کہا کہ پولیس آگئی ہے میں روڈ سے نیچے گاڑی روکنے لگا ہوں، آپ لوگ تیزی سے دروازہ کھول کر بھاگ نکلو۔ اس عمانی ڈرائیور نے لائٹ بند کر کے تیزی سے گاڑی نیچے اتار دی اور کہا بھاگو اتنے میں پولیس نے ہوائی فائرنگ شروع کردی اور ہم بھاگتے ہوئے جھاڑیوں میں جا چھپے۔ کافی دیر تک پولیس والے کھڑے رہے۔ جب وہ چلے گئے ہم وہاں سے نکلے، اس وقت اتنی پیاس لگی تھی کہ جان نکلی جا رہی تھی۔ بھاگتے بھاگتے کھجوروں کا ایک باغ نظر آیا جہاں کوئی موجود نہ تھا۔ ایک بالٹی پڑی تھی جس میں پانی تھا۔ نہیں معلوم وہ پانی کیسا تھا، مگر پیاس سے مجبور ہو کر ہم نے پیا۔ جب ذرا جان میں جان آگئی تو ساتھی نے کہا، اب ہم ٹیکسی میں نہیں بیٹھیں گے اور نہ ایجنٹ کو فون کریں گے تبھی اس کی دی ہوئی سم توڑ د ی۔ ڈرائیور نے کہا تھا کہ آسمان پر جو تارا ہے اس کی سیدھ میں دبئی ہے لہٰذا ہم ساری رات پیدل چلتے رہے۔ صبح ایک پہاڑی پر چڑھ کر سو گئے۔ دوپہر ہوئی تو سخت گرمی محسوس ہوئی۔ پائوں زخمی تھے، پھر بھی چلتے رہے، تبھی سامنے ایک بڑا سا گھر نظر آیا۔ ہم اندر چلے گئے وہاں کوئی نظر نہ آیا۔ ایک کھڑکی سے جھانکا یہ کچن تھا۔ سامنے چاول اور مچھلی رکھی تھی، وہاں بھی کوئی نہ تھا۔ ہم میں سے دو آدمی باہر رک گئے جبکہ دو اندر گئے۔ ٹیبل پرسے دسترخوان اٹھا کر اس میں چاول اور مچھلی باندھ لی اور فریج سے پانی نکالا۔ یہ بوتلیں بھی دسترخوان میں ڈال لیں۔ یہ سامان کھڑکی سے باہر اپنے ساتھیوں کو دیا اور جلدی سے باہر آگئے، پھر وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے۔ دور جا کر کھانا کھایا اور آگے چلے۔ چلتے چلتے ایک پہاڑی پر بنے گھر کے سامنے پہنچے تو وہاں دروازے کے پاس ایک عورت کھڑی تھی، جس نے ہم کو بلا کر پوچھا۔ یہاں کیسے آئے ہو تم لوگوں کو کہاں جانا ہے۔ ہم نے جگہ کا نام بتایا تو اس نے کہا کہ تم غلط آگئے ہو، آگے پہاڑی ہے کوئی راستہ نہیں ہے، تم لوگ یہاں سے واپس جائو، اس نے پھر ہم کو راستہ بتایا جو تیس چالیس کلومیٹر تھا، وہ کہنے لگی یہاں سے جلدی نکلو، میرا گھر والا پولیس میں ہے اور وہ ابھی آتا ہوگا، ایسا نہ ہو کہ تم لوگ پکڑے جائو، میں نے کہا۔ کیا آپ ہم کو پینے کا پانی دے سکتی ہیں۔ اس نے چار بوتلیں پانی کی دیں اور ہم اس پہاڑی سے نیچے اترنے لگے، ڈیڑھ گھنٹے کی اترائی کے بعد ہم سڑک کے قریب ایک جھاڑی کے پیچھے بیٹھ گئے تاکہ اندھیرا خوب پھیل جائے تو ہم نکلیں۔ جب اندھیرا ہوگیا ہم روڈ کے ساتھ ساتھ چلنے لگے، ساری رات سفر کرتے رہے مگر بدقسمتی سے غلط روڈ پر آگئے۔ وہاں میدان ہی میدان تھا اور اونٹوں کے باڑے تھے جو اللہ کا نام لے کر ایک اونٹ کے بارے میں گئے تو ایک اکرم نامی پاکستانی ملا۔ ہم نے پوچھا کہ دبئی یہاں سے رکتنی دور ہے۔ وہ کہنے لگا۔ کلومیٹر ہے مگر آگے بارڈر ہے۔ اس نے ہم کو کھانا کھلایا۔ شام تک ان کے پاس رہے۔ اس نے کہا شام کو پولیس والے اونٹنی کا دودھ لینے آتے ہیں، ابھی اس کمرے میں چھپ جائو۔ اتنا کرسکتا ہوں کہ روڈ پر ایک پاکستانی ہوٹل ہے۔ جب پولیس والے دودھ لے کر چلے جائیں گے تو آپ لوگوں کو اس ہوٹل تک چھوڑ آئوں گا۔ اس نے ہم کو گاڑی میں بٹھایا اور اس پاکستانی ہوٹل کے پاس پہنچایا۔ جاتے ہوئے کہا کہ یہ روڈ پیدل کراس گے تو سامنے بجلی گھر ہے۔ روڈ سے جائو گے تو پکڑے جائو گے، بہتر ہے کہ سامنے والی پہاڑی کے راستے نکلو۔ وہاں سے بارڈر کراس ہو جائے گا۔ ایک گھنٹہ پہاڑی پر چڑھنے میں لگا اور اترنے میں بیس منٹ لگے۔ جب روڈ پر پہنچے تو بارڈر پیچھے رہ گیا تھا۔ دوسرا راستہ بارڈر کے ساتھ ندی میں تھا ،مگر وہاں بارڈر کی لائٹ تھی جو وقفے وقفے سے گھومتی رہتی تھی۔ تبھی ہم نے وہاں سے گزرنا مناسب نہ سمجھا۔ اب ہم لوگ سڑک سے ہٹ کر چلے جا رہے تھے۔ رات کے چلے صبح چھ بجے برہمی پہنچ گئے۔ اب کالر سے پاکستانی روپے نکالنے کا وقت آگیا، ایک دکاندار سے کہا، تین ہزار پاکستانی کے کتنے درھم دو گے، اس نے ایک اسی دیئے، اس سے کچھ کھانے کا سامان لیا اور ایک پچیس درھم کا بوتھ کارڈ لیا۔ کارڈ سے ایجنٹ سے رابطہ کیا۔بتایا کہ ہم فلاں جگہ مسجد کے پاس کھڑے ہیں۔ اس نے کہا۔ میں سمجھا تھا کہ آپ لوگ پکڑے گئے ہو کیونکہ وہ ٹیکسی والا جیل میں ہے۔ آپ لوگ مسجد کے اندر بیٹھ جائو پندرہ منٹ بعد ایک شخص آپ لوگوں کو لینے آ جائے گا۔ وہ شخص آگیا۔ اس نے کہا۔ باہر کالی گاڑی میں ایک ایک کرکے بیٹھ جائو۔ وہ بعد میں آیا اور سیٹ اٹھا کرنیچے بٹھا دیا اور اوپر کمبل ڈال دیئے۔ کہنے لگا صرف پندرہ منٹ کا رستہ ہے۔ محسوس ہوا گاڑی کچے سے جا رہی ہے، ہمارا دم گھٹ رہا تھا۔ اچانک اسپیڈ بریکر آگیا۔ اس نے کہا۔ آواز نہ نکالنا یہ بارڈر ہے۔ محسوس ہوا کہ پولیس والے نے روکا ہے، اس نے گاڑی کے شیشے کھلوائے پھر کہا جانے دو۔ کچھ آگے جا کر اس شخص نے کہا، اب کمبل اتار دو اور سیٹوں پر بیٹھ جائو۔ جب اس نے گاڑی روکی تو سامنے بڑی بڑی بلڈنگیں تھیں اور بڑی سڑک تھی۔ وہ ہم کواپنے گھر لے گیا۔ اورجب ہم کمرے میں گئے اے سی لگا ہوا تھا اور کھانا بھی موجود تھا۔ اس نے ایجنٹ کو فون کیا کہ آپ کے آدمیوں کو لے آیا ہوں تو اس نے کہا کہ ان کو انڈسٹریل ایریا لے آئو اور پیسے لے جائو۔ یہاں ہم نے آرام کیا، پھر نہا دھو کر تیار ہوگئے۔ شام پانچ بجے ہم کو اس نے جاوید کے پاس پہنچا دیا اور اس سے فی آدمی چار سو درھم لئے۔ اس نے کہا، اب اپنے اپنے آدمیوں کو فون کرو۔ میں نے کزن عابد کو فون کیا۔ وہ آٹھ سو درھم لے آئے تھے، جاوید نے یہ رقم ان سے لی اور مجھے حوالے کیا۔ اس وقت میری ایسی حالت نہ تھی کہ چل سکتا۔ پائوں زخمی تھے، کزن نے تو اس سے منت کی کہ کام دلوا دو۔ مجھ پر ایک ہزار درھم قرض ہوگیا ہے۔ عابد نے کام دلوا دیا۔ ہفتہ میں دو سو چالیس درھم ملے۔ کزن نے کہا۔ اس سے تمہارا قرض نہیں اترے گا، لہٰذا اپنے لئے پینٹ شرٹ خریدو۔ چند دن بعد ایک انڈیا کے آدمی سے ملاقات ہوگئی، وہ بہت شریف اور ایماندار آدمی تھا، اس نے مجھے پانی سپلائی کی گاڑی پر رکھ لیا۔ ایک سال اس کے ساتھ کام کیا، پھر وہاں سے ایک شخص سے دوستی ہوگئی جو ڈرائیور تھا جس نے چالیس ہزار کا ویزہ دلوایا۔ یہ رقم بھی بطور قرضہ کزن عابد نے دی مگر کمپنی کا مالک لاہور کا تھا اور یہ ٹھیک لوگ نہ تھے، بہرحال ویزہ لے کر میں شپ کے ذریعہ ایران آیا اور ایران سے گوادر پاکستان پانچ دن میں پہنچا۔ جب میں پاکستان پہنچا گھر آنے کی بجائے اپنے دوست کے گھر چلا گیا، وہاں سے دبئی کے دوست کو فون کیا کہ میرا ویزہ جمع کرا دو۔ انہوں نے مجھے ویزا بھیجا۔ ویزا ملتے ہی میں نے پاسپورٹ اور ٹکٹ لئے اور دس روز بعد بائی ایئر دبئی چلا گیا۔ کمپنی کے مالک نے کہا تھا کہ ویزا کے بعد آپ کو اسٹور کیپر رکھیں گے مگر انہوں نے لیبر میں لگا دیا۔ مجبوری تھی قرض لے کر اس منزل تک پہنچا تھا، کمپنی میں ایک سال تین ماہ کام کیا، ارباب سے روز جھگڑا رہتا تھا۔ رمضان شریف میں ارباب سے کہا کہ مجھے گھر جانا ہے، میرا پاسپورٹ دے دیں۔ وہ بولا، آپ ٹکٹ لے آئو۔ میں نے اس کے بھائی سے پاسپورٹ مانگا تو اس نے کہا میرے پاس نہیں ہے تمہارا پاسپورٹ میرے بھائی کے پاس ہے، کل پتا کرنا۔ اگلے روز پھر دفتر گیا، اس نے کہا تمہارا پاسپورٹ امیگریشن میں جمع ہے، وہاں سے لے لو۔ میں حیران رہ گیا، کہا کوئی بات نہیں مجھے امیگریشن لے چلو۔ میرا سامان کمرے میں تھا۔ جب وہاں گیا ان لوگوں نے بٹھا دیا کہا کہ آپ کے کفیل ارباب نے شکایت کی ہے کہ آپ دو ماہ سے کمپنی سے بھاگے ہوئے ہو۔ میں نے انہیں بہت کہا کہ یہ غلط ہے میں کمپنی میں کام کر رہا ہوں۔ امیگریشن والوں نے میری ایک نہ سنی اور مجھے چھ دن کے لئے بند کردیا۔ جب میرے ایک دوست چنگوانی کو پتا چلا وہ مجھ سے ملنے جیل آیا اور کہا میرے لائق کوئی خدمت ہو تو بتائو۔ میرا سامان کمرے میں ہے وہ لا دو۔ اگلے دن شام کو جیل میں اس نے سامان لا کر دیا اور پاکستان آنے کے لئے درھم بھی دیئے۔ اس دوران امی دوست کو فون کرتی تھیں کہ اظہر سے بات کرائو لیکن دوست نے کہا کہ یار میں تمہاری والدہ کو کیسے بتاتا کہ تمہارا اظہر جیل میں ہے۔ بس ان سے جھوٹ بولا کہ وہ العین گیاہوا ہے وہاں نیٹ ورک کام نہیں کرتا۔ وہاں سے رہائی ملی تو پاکستان آگیا، اب تمہارے سامنے ہوں۔ جتنا کمایا ویزے اور آنے جانے میں خرچ ہوگیا اور تنخواہ اور ڈپازٹ وہ لوگ کھا گئے جنہوں نے میرا پاسپورٹ امیگریشن میں دیا تھا۔ آج پھر جیب خالی ہے، جہاں سے چلا تھا وہیں آگیا ہوں۔ یہ روداد سنانے کے بعد میرے بھائی کی آنکھوں سے آنسو جاری ہوگئے۔ اول اپنے وطن میں نوکری نہیں ملتی ہے تو تنخواہ اتنی کم کہ ایک وقت کی روٹی پوری نہیں ہوسکتی۔ صد افسوس اگر اپنے وطن میں روزگار اور تحفظ ملے تو میرے بھائی جیسے یتیم لڑکے موت کے اس سفر پر کیوں جائیں، جس کو لانچ کا سفر کہتے ہیں۔ دبئی جا کر کشادہ رزق خوش نصیبوں کو ہی ملتا ہے۔ اظہر نے تو جو کمایا سب گنوا دیا۔ آج امی خوش ہیں کہ میرا بیٹا آگیا ہے، بھائی کی بلائیں لیتی نہیں تھکتی ہیں۔ ہم دونوں بہن بھائی خون کے آنسو روتے ہیں۔ اے کاش ہم یتیم نہ ہوتے۔ یتیم بھی ہو گئے تھے تو تایا اور تائی خالہ ہم پر یہ ستم نہ ڈھاتے کہ ہمارے سر چھپانے کا ٹھکانا بھی چھین لیا۔ التجا ہے کہ میرے ہم وطن نوجوان بھائی چاہے کتنے ہی غریب کیوں نہ ہوں، بغیر ویزہ کبھی ناجائز طریقے سے کسی غیر ملک کی سرحد پار نہ کریں، ورنہ وہاں جا کر پچھتائیں گے بلکہ زندگی دائو پر لگ جاتی ہے۔ ش اظہر۔ ڈیرہ غازی خان
null
null
null
null
409
https://www.urduzone.net/shikar-episode-3/
ساتھ ہی وسیم نے آہستہ سے یاسمین سے کہا۔ جب میں گھونسا رسید کروں تو تم اس طرح ہاتھوں پر جھول جانا جیسے بے ہوش ہوگئی ہو۔ اس کے ساتھ ہی وسیم نے ہاتھ بلند کر کے آہستہ سے گھونسا رسید کیا۔ دور سے دیکھنے پر ایساہی لگا جیسے بھرپور وار کیا گیا ہو مگر وہ گھونسا یاسمین کے لگا نہیں تھا، اس نے چیخ مار کر بے ہوش ہونے کی اداکاری کی۔ وسیم اس کے بے ہوش وجود کو ہاتھوں میں اٹھائے ڈھلوان کی سمت بڑھنے لگا۔ تورک چند قدم آگے بڑھا اور پھر رک گیا۔ اس نے یاسمین کو بچانے کی کوشش نہیں کی۔ ٹیلے پر پہنچتے ہی وسیم نے یاسمین کو آہستہ سے کمبل پر لٹا دیا۔ تم اب آرام سے یہاں لیٹی رہو، میں دیکھتا ہوں وہ کیا کررہا ہے۔ وسیم نے کہا۔ تورک اب تک کھڑا ٹیلے کے اوپر دیکھ رہا تھا۔ وہ بہت محتاط تھا اور کوئی خطرہ مول لینے کو تیار نہ تھا۔ کچھ دیر بعد وہ آہستہ آہستہ چلتا ہوا برآمدے میں واپس پہنچا اور کرسی پر بیٹھ کر سگریٹ جلائی، پھر دوربین اٹھا کر ان کی نقل و حرکت دیکھنے کی کوشش کرتا رہا، اس کے بعد اٹھ کر اندر چلا گیا۔ اسے شاید اب تک شبہ ہے کہ یہ ہماری کوئی چال نہ ہو۔ وسیم نے پُرسوچ انداز میں یاسمین سے کہا۔ ویسے تم نے آج اداکاری کا کمال دکھا دیا۔ اب کل صبح تمہارے فن کا اصل امتحان ہوگا۔ جانے کیوں اس لمحے سے میرا دل بڑا ڈر رہا ہے۔ یاسمین نے اس کے شانے پر سر رکھتے ہوئے کہا۔ خدا نہ کرے اگر خدا ہماری مدد کرے گا۔ وسیم نے اعتماد کے ساتھ کہا۔ اور پھر زندہ رہنے کی اتنی خواہش تو مجھے کبھی نہ تھی، جتنی اب ہے۔ وہ کیوں اس لیے کہ اب مجھے میر ی زندگی مل گئی ہے۔ اس نے یاسمین کی طرف اشارہ کیا۔ اس رات جب یہ دونوں مکان میں پہنچے تو تورک کا دوسرا خط میز پر موجود تھا۔ ڈاکٹر میرا مشورہ ہے کہ لڑکی کو آزاد کردو مرنا تو تمہیں بہرحال ہے۔ لیکن اس بے گناہ کو بھوکا پیاسا مارنے سے کیا حاصل، اگر تم نے میری بات نہ مانی تو یاد رکھو۔ میں خود آکر تمہیں اذیت ناک موت ماروں گا۔ تورک۔ ایسا لگتا ہے وہ ہماری اس ڈرامے بازی سے کافی متاثر ہوا ہے۔ یاسمین نے ہنستے ہوئے کہا۔ وسیم نے مسکراتے ہوئے خط اپنی جیب میں رکھ لیا اور بولا۔ مجھے یقین ہے کہ کل تم اسے پوری طرح متاثر کرلو گی۔ اس رات ان کے پاس کھانے کو کچھ نہ تھا۔ چند گھونٹ پانی سے انہوں نے اپنا حلق تر کیا۔ صبح ہونے سے پہلے وہ ٹیلے پر پہنچ گئے۔ یاسمین کو ایک بار پھر سمجھا کر اٹھ کھڑا ہوا۔ اچھا اب میں اپنی جگہ سنبھالنے جا رہا ہوں۔ تم اپنے کام کے لیے تیار رہنا۔ وسیم خدا کے لیے تم بہت محتاط رہنا۔ یاسمین نے وسیم کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا۔ اب یہ زندگی میری نہیں تمہاری ہے یاسمین، اس لیے سخت حفاظت کروں گا۔ وسیم نے اپنے لیے جو جگہ منتخب کی، وہ مکان سے بمشکل بیس تیس قدموں کے فاصلے پر تھی اور وہاں خودرو جھاڑیاں اُگی ہوئی تھیں۔ اس لیے، اُسے پوشیدہ رہنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی۔ لیکن بائیں جانب کا حصہ جدھر پہاڑی ٹیلہ تھا ،کھلا ہوا تھا، اس لیے وسیم نے جھاڑیوں کے پیچھے ریت کو کھود کر اتنا نشیب کرلیا کہ اس میں وہ چھپ سکے۔ جھاڑیوں کے درمیان سے مکان صاف نظر آرہا تھا، اس لیے تورک پر نظر رکھنا آسان تھا۔ وہ اپنے کام سے فارغ ہوا ہی تھا کہ سورج نکل آیا۔ حسب معمول تورک بڑے محتاط انداز میں مکان کے اندر داخل ہوا۔ کچن میں جا کر اس نے دیکھا کہ خط غائب ہے تو وہ فاتحانہ انداز میں مسکرایا، پھر اس نے وہیں بیٹھ کر ناشتہ کیا۔ اُسے اتنے اطمینان سے ناشتہ کرتے دیکھ کر وسیم اندر ہی اندر پیچ و تاب کھا رہا تھا۔ وہ محتاط تھا۔ بار بار اس کی نظریں گرد و پیش کا جائزہ لے رہی تھیں۔ دریچے سے جب بھی وہ جھاڑیوں کی سمت دیکھتا، اس کا دل اچھلنے لگتا۔ ایسا محسوس ہوتا جیسے اس نے اسے دیکھ لیا ہو۔ ناشتے کے بعد تورک سگریٹ کے کش لیتا ہو مکان سے باہر نکلا۔ اس کی نظریں بار بار ٹیلے کی سمت اٹھ رہی تھیں۔ سورج اب پوری آب و تاب سے چمکنے لگا تھا اور وسیم دھڑکتے دل کے ساتھ یاسمین کا منتظر تھا۔ پھر یہی وہ لمحہ تھا جب یاسمین کی چیخ فضا میں گونجی۔ وہ ڈھلوان پر بھاگتی ہوئی چلی آرہی تھی۔ پھٹے ہوئے لباس، گرد آلود چہرے اور خشک لبوں نے اس کی حالت قابل رحم بنا دی تھی۔ تورک نے پھرتی سے پستول نکال لیا اور آہستہ آہستہ وہ یاسمین کی طرح بڑھنے لگا۔ یاسمین کے قدم لڑکھڑا رہے تھے۔ پلیز ہیلپ، واٹر ہیلپ وہ خوابیدہ سے انداز میں چلّا رہی تھی۔ مم میں نے میں نے اسے پتھر مار کر زخمی کر دیا ہے اور بھاگ آئی پتا نہیں زندہ ہے یا مر گیا ہے۔ ہیلپ می پلیز۔ اس کے رخساروں پر آنسو بہہ رہے تھے، پھر وہ گرم ریت پر گر پڑی اور رحم طلب نظروں سے تورک کو دیکھنے لگی۔ یاسمین، وسیم کے اتنے قریب آچکی تھی کہ اس کے ہانپنے کی آواز اسے صاف آرہی تھی۔ وہ قریب ہی گھات لگائے بیٹھا تھا۔ یاسمین نے غضب کی اداکاری کی تھی۔ تورک کبھی اسے دیکھتا، کبھی ٹیلے کی بلندی کو، وہ آہستہ آہستہ یاسمین کی سمت بڑھ رہا تھا۔ اس کے چہرے سے ظاہر ہوتا تھا جیسے اسے یقین آچکا ہوکہ یاسمین اب اس کے قبضے میں تھی۔ منصوبے کے مطابق یاسمین گھسٹتی ہوئی قریب آتی جارہی تھی۔ وسیم نے جھاڑیوں کی آڑ لیتے ہوئے آگے کی جانب دھیرے دھیرے سرکنا شروع کردیا تھا۔ تاہم تورک کا شک ابھی باقی تھا۔ پستول ہاتھ میں ہونے کے باوجود وہ بار بار ٹیلے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ اب وسیم کے اتنے قریب آگیا تھا کہ اگر وہ جھاڑیوں کی سمت بھی دیکھ لیتا تو وسیم اسے نظر آجاتا۔ وسیم کا برا حال تھا، ذرا سی غفلت اُسے اور یاسمین کو موت کے منہ میں پہنچا سکتی تھی۔ یاسمین کراہتے ہوئے مسلسل پانی پانی کی رَٹ لگائے ہوئے تھی۔ اس کے سوکھے ہونٹ پیاس کی شدت کی گواہی دے رہے تھے۔ وسیم نے چاقو کو مضبوطی سے پکڑ لیا اور جست لگانے کے لیے تیار ہوگیا۔ تورک اب اس سے صرف دس فٹ کے فاصلے پر تھا۔ پھر اچانک ہی تورک کو اپنی قریب کسی گڑ بڑ کا احساس ہوا اور اس نے اپنی گردن گھمانی چاہی تو یاسمین اتنی زور سے چیخی کہ تورک اچھل پڑا اور قدرے گھبرا کر یاسمین کو دیکھنے لگا۔ اس مرتبہ یاسمین کی آواز کا خوف مصنوعی نہ تھا اور وسیم اب مزید انتظار نہیں کرسکتا تھا۔ تورک کو شایداس کی چھٹی حس نے خبردار کر دیا تھا کیونکہ اس نے پھرتی سے اپنی گردن وسیم کی جانب گھمائی تو وسیم نے مٹھی میں بھری ہوئی ریت اس کے چہرے پر پھینک دی اور فوراً ہی اس پر چھلانگ لگا دی۔ تورک کی آنکھیں بیکار ہو چکی تھیں لیکن اس نے اندازے سے دو فائر کردیئے۔ یاسمین نے دہشت زدہ ہو کر چیخ ماری۔ اتنی دیر میں چاقو تورک کے سینے میں پیوست ہوچکا تھا۔ پھر وسیم نے اس کے پستول والے ہاتھ پر ضرب لگائی، پستول دور جاگرا اور تورک کسی کٹے ہوئے درخت کی طرح منہ کے بل ریت پر گرا۔ وسیم نے آگے بڑھنا چاہا لیکن اس کے پیر جیسے بے جان ہو گئے تھے۔ کوشش کے باوجود وہ توازن برقرار نہ رکھ سکا اور وہیں نڈھال سا ہو کر بیٹھ گیا۔ تب ہی اس کی نظر اپنی پینٹ پر پڑی جو خون سے تر ہو رہی تھی۔ وسیم کا دل بیٹھنے لگا اور دوسری طرف یاسمین لرزہ خیر چیخ مار کر اس کی سمت بڑھی۔ اوہ میرے خدا، تمہیں کیا ہوگیا وسیم اس نے وسیم کو سہارا دیتے ہوئے کہا۔ اس کے چہرے پر تشویش اور دُکھ کی جھلکیاں نمایاں تھیں۔ وسیم نے گھوم کر دیکھا۔ گولی اس کی ران کو چیرتی ہوئی نکل گئی تھی۔ اسے بھوک اور نقاہت سے چکر آرہا تھا۔ ران کی تکلیف اپنی جگہ تھی۔ تاہم اس نے بہ مشکل سنبھلتے ہوئے یاسمین سے کہا۔ ہوش میں آئو یاسمین میں بالکل ٹھیک ہوں، تم جلدی سے اندر جا کر پانی لے آئو۔ وہ بھاگتی ہوئی مکان کے اندر گئی اور پانی سے بھرا ہوا تھرماس لے کر واپس لوٹی۔ پانی حلق سے اترتے ہی جیسے وسیم کی جان میں جان آئی۔ اس نے اپنے زخم کا جائزہ لیا۔ یاسمین نے اس پر پانی ڈالا۔ زخم کاری نہ تھا، گولی گوشت کو چیرتی ہوئی نکل گئی تھی۔ اس نے مسکراتے ہوئے یاسمین کی طرف دیکھا اور بولا۔ معمولی سی خراش ہے، پٹی باندھتے ہی خون رک جائے گا۔ یاسمین کے رخسار ابھی تک آنسوئوں سے تر تھے۔ مم میں میں سمجھی تھی کہ اس نے تمہیں پگلی میں نے تم سے کہا تھا، اب تمہارے لیے زندہ رہوں گا۔ وسیم نے اس کے شانے کا سہارا لے کر اٹھتے ہوئے کہا۔ میں زندگی میں کبھی اتنی خوف زدہ نہیں ہوئی۔ میں جانتا ہوں۔ وسیم نے کہا۔ تم اگر بروقت نہ چلّائی ہوتیں تو ممکن تھا وہ شیطان کامیاب ہو جاتا۔ مکان میں پہنچ کر یاسمین نے زخم کو صاف کر کے پٹی باندھ دی۔ خون رک چکا تھا۔ تکلیف بھی کم ہوتی جارہی تھی۔ دونوں نے پہلے ناشتہ کیا اور پانی سے اپنے خشک حلق کو تر کیا۔ اس کے بعد بوٹ سے سارا سامان اتار لائے، اسٹور میں کدال مل گئی۔ دل نہ چاہنے کے باوجود وسیم نے تورک کی لاش دفن کی اور واپس پہنچا تو یاسمین کھانا تیار کر چکی تھی۔ وسیم نے ریت میں پوشیدہ پرزے نکال کر پمپ میں دوبارہ فٹ کیے اور جنریٹر چلا کر ٹینک میں پانی بھرا اور پھر اچھی طرح غسل کر کے تازہ دم ہوگیا۔ یاسمین نے بھی غسل کر کے لباس تبدیل کیا اور مسکراتی ہوئی کمرے میں داخل ہوئی۔ کھانے کا اسٹاک کتنا ہے وسیم نے کھانے کے دوران پوچھا۔ ہم ایک ہفتہ آرام سے گزار سکتے ہیں۔ یاسمین نے جواب دیا۔ لیکن میں یہاں زیادہ دن گزارنے کے موڈ میں نہیں ہوں۔ ہم کر بھی کیا سکتے ہیں موٹر بوٹ پر سمندر پار کرنا ممکن نہیں، طیارہ موجود ضرور ہے مگر پائلٹ کہاں سے آئے گا تم فلائنگ نہیں جانتے ہو ، کیا ہوا، میں توٹرینڈ پائلٹ ہوں۔ یاسمین نے ہنستے ہوئے کہا۔ ارے واقعی وسیم کو حیرت ہوئی۔ میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ تم ایک پائلٹ ہو۔ سیکریٹ سروس سے تعلق رکھنے والی ہر لڑکی پائلٹ ہوتی ہے۔ ہمیں تعلیم کے ساتھ مکمل فوجی تربیت دی جاتی ہے۔ اس نے کہا۔ لیکن آج ہم جی بھر کے آرام کریں گے۔ صبح میں طیارے کو چیک کر کے دیکھوں گی، خدا کرے اس کے انجن کو خراب نہ کیا گیا ہو۔ ہم کل اس ویرانے سے نکل چلیں گے۔ اسے ویرانہ نہ کہو یاسمین یہیں ہماری محبت کے پھول کھِلے ہیں۔ وسیم نے محبت پاش نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ تم محبت میں شاعر ہوتے جارہے ہو۔ یاسمین ہنس کو بولی۔ دیوانہ کیوں نہ کہہ دیا۔ وسیم محبت بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ اس کے بعد وہ دونوں ایسے بے خبر سوئے کہ صبح دن چڑھے ہی بیدار ہوئے۔ یاسمین نے طیارے کا انجن چیک کیا۔ ریڈیو کے علاوہ ہر چیز ٹھیک تھی۔ یہ محض اتفاق تھا کہ تورک کو نہیں معلوم تھا کہ یاسمین ہوابازی کا تجربہ بھی رکھتی ہے۔ ورنہ شاید وہ اسے پہلے ہی ٹھکانے لگا دیتا۔ انہیں کچھ پتا نہ تھا کہ یہ جزیرہ کہاں واقع تھا اور ان لوگوں کو کس سمت پرواز کرنا تھا یاسمین نے کہا کہ وہ نیچی پرواز کریں گے اور جہاں بھی آبادی نظر آئی وہاں اتر جائیں گے کیونکہ طیارے میں ایندھن زیادہ نہیں تھا۔ طیارہ فضا میں بلند ہوا تو وسیم نے اطمینان کا سانس لیا۔ انہوں نے جزیرے کا ایک چکر کاٹا۔ یاسمین واقعی تجربہ کار ہواباز ثابت ہوئی۔ مشکل سے آدھ گھنٹے کی پرواز کے بعد یاسمین نے اچانک کہا۔ وہ دیکھو شاید کوئی آبادی نظر آرہی ہے، بندر گاہ لگتی ہے۔ ہاں لیکن کون سی بندرگاہ اور کس ملک کی ابھی معلوم ہو جائے گا۔ یاسمین نے طیارے کا رخ موڑتے ہوئے کہا۔ طیارے کو ساحل پر اترتے دیکھ کر لوگ بھاگتے ہوئے کنارے پر جمع ہوگئے۔ ساحل پر کشتیاں، موٹر بوٹ اور اسٹیمر لنگر انداز تھے، اس لیے یاسمین نے کچھ فاصلے پر طیارہ اتارا لیکن فوراً ہی کئی کشتیاں ان کے قریب پہنچ گئیں۔ یہ دونوں ساحل پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ خلیج فارس کی بندرگاہ فائو ہے جو شط العرب کے دہانے پر واقع ہے، انہیں یہ جان کر خوشی ہوئی کیونکہ یہاں سے ان کا ملک قریب تھا۔ کیا اتنا ایندھن ہے کہ ہم اپنے ملک پہنچ سکیں وسیم نے پوچھا۔ ہاں میرا خیال ہے کہ پہنچ جائیں گے۔ یاسمین نے جواب دیا۔ فائو سے انہیں اپنے ملک سے ایک قریبی شہر تک پہنچنے میں دیر نہیں لگی۔ طیارے کو ساحل پر چھوڑ کر یہ دونوں بندرگاہ کی سمت بڑھے۔ تیل کا سب سے بڑا مرکز اور بحریہ کا اڈا ہونے کی وجہ سے انہیں اپنا طیارہ دور لنگر انداز کرنا پڑا لیکن ان کے سی پلین نما طیارے نے فوری توجہ حاصل کر لی تھی۔ ساحل پر پہنچتے ہی پولیس نے انہیں روک لیا۔ یاسمین نے انہیں کچھ بتانے کے بجائے عربی میں کہا کہ ہمیں فوراً پبلک سیکورٹی ڈپارٹمنٹ کے میجر ادریس کے پاس پہنچا دیا جائے۔ میجر کا نام سنتے ہی پولیس والوں کا لہجہ بدل گیا۔ انہوں نے العشر کے علاقے سے ٹیکسی لی اور پولیس کے ایک افسر کے ساتھ میجر ادریس کے دفتر پہنچ گئے۔ میجر ادریس یاسمین کو پہچانتا تھا۔ اس نے پرتپاک انداز میں خیرمقدم کیا تھا۔ یاسمین نے اس کہ وہ جمیل عمر سے فوراً رابطہ کرنا چاہتی ہے۔ میجر نے اپنے فون سے جمیل کا نمبر ملایا اور ریسیور یاسمین کو دے کر خود کمرے سے باہر چلا گیا۔ یاسمین نے ایک نگاہ مسکراتے ہوئے وسیم کی طرف دیکھا اور اشارہ کیا تو وہ بھی اٹھ کر باہر چلا گیا۔ کچھ دیر بعد یاسمین نے میجر کو بلایا اور پھر باہر آگئی۔ برا تو نہیں مانا یاسمین نے باہر آکر ایک طرف کھڑے وسیم سے معذرت خواہانہ انداز میں کہا۔ دراصل میں نہیں چاہتی تھی کہ میجر ادریس کو اندازہ ہو کہ تم کون ہو۔ میں سمجھ گیا تھا۔ وسیم نے مسکراتے ہوئے کہا۔ تم بتائو، جمیل صاحب نے کیا کہا انہوں نے ہدایت کی ہے کہ ہم ابھی یہیں قیام کریں تاکہ ہماری واپسی کی کسی کو خبر نہ ہو۔ اس نے بتایا۔ ویسے ان کا خیال ہے کہ تورک کے آدمیوں کو اطلاع ہو جائے گی۔ وہ کس طرح اب بھلا ان میں کون باقی بچا ہے تم کیا سمجھتے ہو کہ وہ صرف چند افراد پر مشتمل گروہ تھا نہیں وسیم تورک خود کسی کی ہدایت پر کام کر رہا تھا۔ اس خطرناک گروہ کا سرغنہ کوئی اور ہے۔ ان کے آدمیوں کا جال ہر جگہ پھیلا ہوا ہے۔ ویسے انکل جمیل عمر نے فوری طور پر اس جزیرے کی تلاش میں آدمی روانہ کر دیئے ہیں، لیکن وہ چاہتے ہیں کہ ہم ابھی غازی آباد نہ آئیں۔ کچھ میرا ذکر بھی آیا ہاں ان کے خیال کے مطابق تم بہت حیرت انگیز اور دلیر آدمی ہو، بقیہ تعریف تم خود ان کے منہ سے سن لینا۔ وہ شام کو تم سے بات کریں گے۔ یاسمین نے شوخ مسکراہٹ کے ساتھ کہا اور آگے بولی۔ اور ہاں فی الحال تم ڈاکٹر نصیر شاہ ہی رہو گے۔ اچھی زبردستی ہے۔ وسیم نے کہا۔ میں آج ان سے دو ٹوک بات کروں گا۔ کیوں تم چاہو تو میں ان سے کہہ دوں کہ تمہیں مزید زحمت نہ دیں۔ یاسمین نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے گہری متانت سے کہا۔ میں بہرحال انہیں زحمت دوں گا اور مجھے صرف اپنی نہیں، تمہاری بھی بات کرنا ہے۔ میری بات یاسمین نے حیران ہو کر کہا۔ ہاں تمہاری بھی۔ میں اب جلد از جلد فیصلہ چاہتا ہوں۔ کیسا فیصلہ تم کچھ بتائو تو سہی تمہیں ہمیشہ کے لیے اپنانے کا فیصلہ۔ وسیم نے آہستہ سے کہا۔ کچھ کہنے کے لیے اس نے منہ کھولا لیکن میجر ادریس نے اسے خاموش رہنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ مس یاسمین آپ نے ڈاکٹر نصیر شاہ سے تعارف نہ کروا کے زیادتی کی۔ اس نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ نمودار ہو کر وسیم سے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ میں تو آپ کو اپنا مہمان رکھنے کا شرف حاصل کرنا چاہتا ہوں لیکن حکم یہ ہے کہ آپ کو ہوٹل میں ٹھہرایا جائے، آپ کے لیے ہوٹل شط العرب میں انتظام کردیا گیا ہے۔ انہیں ایک کار بھی فراہم کردی گئی تھی۔ ہوٹل جانے سے پہلے انہوں نے شاپنگ کی۔ کپڑوں کے علاوہ ضرورت کی دوسری چیزیں خرید کر وہ ہوٹل پہنچے۔ ان کا ہوٹل ساحل کے قریب ایک پُرسکون جگہ پر واقع تھا۔ ہر سمت پھیلے ہوئے خوبصورت باغ اور ان کے درمیان بنے ہوٹل میں انہیں جو کمرے ملے وہ ساحل کے قریب تھے۔ ان کمروں کے درمیان دروازہ تھا۔ اس لیے ان دونوں کو ایک دوسرے سے رابطے کی آسانی میسر تھی۔ کھانا کھانے کے بعد دونوں آرام کرنے لیٹ گئے۔ ٭ ٭ ٭ شام کو یہ لوگ بیدار ہوئے تو تازہ دم تھے۔ کافی پی کر بیٹھے ہی تھے کہ فون کی گھنٹی بجی، وسیم نے ریسیور اٹھایا تو جمیل عمر کی آواز ابھری۔ ہیلو ڈاکٹر کیا حال ہیں ٹھیک ہوں۔ اس نے جواب دیا۔ کیا حکم ہے میں بھلا ڈاکٹر نصیر شاہ کو کیا حکم دے سکتا ہوں وہ ہنستے ہوئے بولا۔ ویسے کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا کسی نے تعاقب تو نہیں کیا جی میرا خیال ہے کہ نہیں، ہم شہر میں دیر تک گھومتے رہے تھے، کیا کوئی خاص بات ہمارے کچھ دوست، جو زیر نگرانی تھے، اچانک غازی آباد روانہ ہوگئے ہیں، اس لیے گڑبڑ کا امکان ہے۔ جمیل نے بتایا۔ ذرا محتاط رہنا اور یاسمین کا خیال رکھنا، تم نے جس طرح اس کی حفاظت کی ہے، میں اس کے لیے ذاتی طور پر تمہارا ممنون ہوں، وہ بھی تمہاری بہت تعریف کر رہی تھی۔ـ آپ اطمینان رکھیے، میں اپنی جان سے زیادہ اس کی حفاظت کروں گا۔ پھر چند ثانیے کی خاموشی کے بعد دوسری طرف سے جمیل عمر نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ مجھے یاسمین کی باتوں سے پہلے ہی شبہ ہوگیا تھا۔ جی کچھ نہیں ادریس نے تمہیں حفاظت سے پہنچا دیا تھا جی ہاں ویسے ہم دونوں مسلح ہیں۔ ٹھیک ہے، لیکن محتاط اور چوکنا رہنا، میں دوبارہ فون کروں گا۔ ڈنر کے بعد دونوں لان میں بیٹھے باتیں کر رہے تھے۔ وسیم نے یاسمین سے جمیل کا ذکر کرتے ہوئے پوچھا۔ تم نے ان سے کیا کہہ دیا تھا کچھ بھی نہیں۔ اس نے جلدی سے کہا۔ بس تمہاری تعریف شاید کچھ زیادہ کردی تھی۔ میرا خیال ہے کہ وہ راضی ہو جائیں گے۔ وسیم نے کہا۔ افوہ تمہیں اس کے علاوہ اور کوئی فکر نہیں نہیں، کیونکہ اس فکر کے علاوہ کسی اور فکر میں لطف نہیں۔ وسیم بولا۔ میں چاہتا ہوں ہشت یاسمین نے اسے خبردار کیا۔ پھولوں کی گھنی جھاڑیوں کے پیچھے سے اچانک ایک سانولے رنگ کا پستہ قد آدمی نمودار ہوا تھا۔ اس کی آنکھوں پر سیاہ شیشے کا چشمہ تھا اور سر پر رکھا فیلٹ ہیٹ آگے کی طرف اس طرح جھکا ہوا تھا کہ چہرہ پہچاننا دشوار تھا۔ وہ سیدھا ان کی میز کی طرف آیا۔ ڈاکٹر شاہ کیا چاہتے ہو آپ کے صرف چند منٹ۔ وہ کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گیا۔ میری بات سننے میں آپ کا فائدہ ہے۔ وہ تو تمہاری آمد کے پُراسرار انداز سے ہی ظاہر ہے۔ وسیم نے کہا۔ لیکن پہلے ایک بات میری سن لو۔ تم میرے پستول کی زد میں ہو اور میں فائر کرنے میں بالکل پس و پیش سے کام نہیں لوں گا۔ ڈاکٹر سچ پوچھئے تو میں آپ سے معافی مانگنے آیا ہوں۔ ہمارے چند آدمیوں کی احمقانہ حرکت سے آپ کو بڑی زحمت اٹھانا پڑی۔ میں اس کی تلافی کے لیے ہر طرح سے تیار ہوں۔ واقعی تو پھر مہربانی کرکے ہمیں بور نہ کرو اور خاموشی سے چلے جائو۔ نہیں ڈاکٹر اتنی زیادتی نہ کیجئے، ہم اپنے آدمیوں کو ان کی حماقت کی سخت سزادیں گے، لیکن مشکل یہ ہے کہ وہ لاپتا ہوگئے ہیں۔ آپ بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں ہیں پتا نہیں تم کیا کہہ رہے ہو بھلا مجھے کیا معلوم کہ وہ کہاں ہیں وسیم نے بڑی بے نیازی سے کہا۔ پھر وہ یاسمین سے مخاطب ہوکر بولا۔ آئو یاسمین چلیں، مجھے نیند آرہی ہے۔ جانے سے پہلے اتنا سن لیجئے ڈاکٹر سونے کی بجائے زندگی سے لطف اندوز ہوتے ر ہیے، کیا پتا کون سا لمحہ آخری ہو وہ تنبیہی انداز میں کہتا ہوا پلٹا اور تاریکی میں غائب ہوگیا۔ یاسمین پریشان نظرآرہی تھی۔ دونوں اپنے کمروں میں واپس پہنچے۔ وسیم لباس تبدیل کرنے کا ارادہ کررہا تھا کہ یاسمین نے آواز دی۔ وسیم ذرا یہاں آنا وسیم تیزی سے اس کے کمرے میں داخل ہوا اور درمیانی دروازہ بند کردیا۔ وہ اپنے سامان کے پاس کھڑی تھی۔ بولی۔ کسی نے ہمارے کمرے کی تلاشی لی ہے۔ میری چیزیں بے ترتیب ہیں، ایسا لگتا ہے کہ اس کا جملہ ادھورا رہ گیا۔ اچانک شیشہ ٹوٹنے کی آواز ابھری۔ دونوں ہی بری طرح ٹھٹھک گئے۔ آواز وسیم کے کمرے سے آئی تھی، پھر کوئی چیز زوردار دھماکے سے اندر گری۔ لیٹ جائو۔ وسیم، یاسمین کو گھسیٹتے ہوئے فرش پرگرا۔ اگلے ہی لمحے اتنے زور کا دھماکا ہوا کہ پوری عمارت لرز گئی۔ ان کے کمروں کا درمیانی دروازہ ریزہ ریزہ ہو کر بکھر گیا اور ہر سمت بارود کی بو اور دھواں پھیل گیا۔ وسیم نے یاسمین کا ہاتھ پکڑ کر اٹھایا۔ یہاں سے فوراً باہر نکل چلو۔ ٹھہرو ممکن ہے باہر نکلنا اس سے بھی زیادہ خطرناک ہو۔ یاسمین نے اسے روکا۔ اس کا خدشہ سچ نکلا کیونکہ اگلے ہی لمحے گولیاں چلنے کی آواز سے فضا گونج اٹھی اور کسی نے زور زور سے یاسمین کے دروازے پر دستک دی۔ مس یاسمین آپ خیریت سے تو ہیں کون ہو تم میں ہوں حبیب، جمیل عمر کے حکم پر آیا ہوں۔ اوہ تم۔ یاسمین نے غالباً اسے پہچانتے ہوئے کہا اور دروازہ کھول کر باہر آگئی۔ وسیم نے بھی اس کی تقلید کی۔ تب ہی حبیب کی نظریں وسیم پر پڑیں اور بولا۔ آپ بخیریت ہیں ڈاکٹر میں سمجھا تھا کہ خدانخواستہ آپ واقعی خوش قسمت ہیں۔ میں خدانخواستہ نہیں بلکہ واقعی خوش قسمت ہوں۔ وسیم نے یاسمین کی طرف دیکھ کر کہا جو حبیب کی بوکھلاہٹ پر مسکرارہی تھی۔ باہر سے خوف زدہ لوگوں کی چیخ و پکار سنائی دے رہی تھی۔ باہر نکلتے ہی حبیب نے کہا۔ تگرس روڈ پر ہوٹل برسٹن ہے، آپ دونوں قیام کیجئے، میں یہاں سے فارغ ہو کر وہاں آجائوں گا، جلدی کیجئے۔ ٭ ٭ ٭ ہوٹل برسٹن میں انہیں آئے دو گھنٹے گزر چکے تھے لیکن حبیب اب تک نہیںآیا تھا۔ وسیم نے جیب سے سگریٹ نکالااور پھر جھنجھلا کر رکھ دیا۔ اس کا لائٹر ہوٹل شط العرب کے تباہ شدہ کمرے میں رہ گیا تھا۔وہ زیادہ قیمتی نہیں تھا لیکن کسی کا تحفہ تھا، اس لیے بار بار غصہ آرہا تھا۔ یاسمین اس کے چہرے کو دیکھ رہی تھی۔ میز سے ماچس اٹھا کر اس نے اس کی سگریٹ سلگادی اور پھر مسکراتے ہوئے بولی ۔ تم سگریٹ پینا چھوڑ نہیں سکتے کیا شادی کے لیے یہ بھی شرط ہے توبہ ہے تم پر ہر وقت شادی کا بھوت کیوں سوار رہتا ہے میں کنوارا نہیں مرنا چاہتا یاسمین۔ خدا نہ کرے ایسی باتیں کرکے مجھے ڈرایا نہ کرو۔ وسیم بے ساختہ ہنس دیا۔ چلو، وعدہ آئندہ مرنے کی نہیں، جینے کی باتیں کروں گا۔ دونوںہنسنے لگے۔ اسی وقت حبیب آگیا۔ ایک گلاس پانی اور گرم گرم کافی پلا دیجئے۔ اس نے کرسی پر گرتے ہوئے کہا۔ آپ کا سامان میری کار کی ڈکی میں ہے۔ ابھی منگواتا ہوں۔ اس نے یاسمین سے کہا اور پھر وسیم کی سمت مڑا۔ مجھے افسوس ہے ڈاکٹر آپ کا سارا سامان تباہ ہوگیا، سوائے اس کے اس نے جیب سے پروفیسر زیبی کا لائٹر نکال کر اس کی طرف بڑھایا۔ اوہ بہت بہت شکریہ۔ وسیم نے خوش ہو کر کہا۔ کافی آگئی۔ حبیب دراز قد، خوش شکل اور خوش مزاج آدمی تھا۔ اس نے دھماکے کی تفصیل بتاتے ہوئے کہا۔ میں جمیل عمر کی ہدایت پر تم دونوں کی نگرانی کررہا تھا۔ تمہیں اس لیے نہیں بتایا کہ مطمئن ہو کر لاپروا ہوجائوگے۔ میں نے اس پستہ قد شخص کو تم سے بات کرکے جاتے دیکھا تھا۔ ہم اسے واکر کے نام سے جانتے ہیں۔ بلاشبہ اسی کے آدمیوں نے تمہارے کمرے میں گرنیڈ پھینکا تھا۔ میں نے جمیل عمر کو سب بتا دیا ہے اور انہی کی ہدایت پر اب میں تم دونوں کے قریب رہوںگا۔ یہ تو بڑی اچھی بات ہے۔ یاسمین نے خوش ہو کر کہا۔ لیکن اب ہمارے لیے کیا حکم ہے وسیم نے پوچھا۔ جمیل عمر نے ہدایت کی ہے کہ تمہیں سب کچھ بتادوں۔ اس نے مسکرا کر جواب دیا۔ اور اگر اس کے بعد تم علیحدہ ہونا چاہو تو کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ تم ہماری خاطر پہلے ہی بہت خطرات مول لے چکے ہو اور ہم اس کے لیے تمہارے بے حد شکر گزار ہیں۔ فیصلہ کرنے سے پہلے میں حقیقت جاننا پسند کروں گا۔ وسیم نے کہا۔ حقیقت بڑی مختصر ہے۔ حبیب بتانے لگا۔ ان میں سے تو بیشتر باتیں تمہیں بتائی بھی جاچکی ہیں۔ مزید یہ ہے کہ ہماری اطلاعات کے مطابق بعض ممالک نہیں چاہتے ہیں کہ تمہارا ملک ایٹمی طاقت بن سکے۔ ان میں یہودی پیش پیش ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ تو رک کسی اور ملک کے لیے کام کررہا تھا، لیکن پھر اس نے سوچا کہ اگر پروفیسر زیبی کا فارمولا اس کے ہاتھ لگ جائے تو وہ اپنی پسند کا سودا کرسکے گا۔ تمہارے اغوا کا یہی مقصد تھا لیکن وہ جن لوگوں کے لیے کام کررہا تھا، وہ اس کی گمشدگی پر پریشان ہیں اور برہم بھی اس لیے کہ انہیں یہ پتا نہیں کہ فارمولا حاصل کرنے میں کامیاب ہوا یا نہیں۔ وہ ہر قیمت پر تمہیں یعنی ڈاکٹر نصیر شاہ کو راستے سے ہٹانا چاہتے ہیں یا پھر قابو کرنا چاہتے ہیں۔ واکر کا تعلق جس گروہ سے ہے، اس کا ایک فرد ایک غیر ملکی سفارت خانے میں ملازم ہے، جس سے ہمارے تعلقات کشیدہ ہیں۔ ہم ابھی یہ نہیں کہہ سکتے کہ سفارتی عملے کا اس سازش سے تعلق ہے یا نہیں،کیونکہ بورن سفارتی عملے سے تعلق نہیں رکھتا بلکہ وہ سویلین ملازم ہے۔ ہمیں حیرت ہے کہ ان لوگوں کو ڈاکٹر نصیر شاہ سے اتنی دلچسپی کیوں ہے۔ پروفیسر زیبی نے انہیں کچھ نہیں بتایا تھا۔ میرا خیال ہے کہ اب انہیں بھی اس بات کا یقین ہوچکا ہے، اسی لیے وہ اسے ہلاک کر دینا چاہتے ہیں۔ پھر تم ان لوگوں کو گرفتار کیوں نہیں کر لیتے وسیم نے پوچھا۔ یہ بہت آسان کام ہے لیکن پھر یہ کام کسی اور کے سپرد کر دیا جائے گا جسے ہم جانتے بھی نہ ہوں گے جس کی نگرانی بھی ہم نہ کر سکیں گے، اس لیے ممکن ہے کہ وہ کامیاب ہو جائے۔ تو گویا میں ان کے لیے قربانی کا بکرا ہوں۔ ہاں۔ حبیب نے تسلیم کر لیا۔ اسی لئے تم فیصلہ کرنے میں آزاد ہو۔ جب چاہو اپنی اصل شخصیت اختیار کر سکتے ہو، ہم تمہیں اپنی اس طرح خطرے میں ڈالنے پر مجبور نہیں کریں گے۔ اس نے اٹھتے ہوئے کہا ۔ صبح ہم طیارے سے جتانیہ چلیں گے اور وہاں سے کار پر تمہارے ملک کا سفر کریں گے۔ اس کے جانے کے بعد یاسمین نے سوالیہ نگاہوں سے وسیم کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ تم نے پھر کیا سوچا ہے وسیم تم جانتی ہو میرا فیصلہ کیا ہو گا یاسمین ۔ وسیم نے اس کا ہاتھ دباتے ہوئے کہا ۔ میں تمہیں اور جمیل عمر کو مایوس نہیں کرسکتا۔ ٭ ٭ ٭ وسیم اور یاسمین صبح سویرے روانہ ہوئے تھے۔ جتانیہ کے ہوائی اڈے کے باہر کا ر موجود تھی۔ یہاں سے ان کی منزل تک کا سفر طویل نہ تھا۔ وہ براہ راست طیارے سے بھی سفر کر سکتے تھے، لیکن جمیل عمر نے کسی مصلحت کے تحت یہ انتظام کیا ہو گا۔ حبیب نے ضد کر کے خود ڈرائیو کرنے کا فیصلہ کیا۔ روڈ پر ٹریفک زیادہ نہ تھا۔ وہ آرام سے سفر کرتے رہے۔ ان کی منزل سے کچھ دور پہلے ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی۔ وہ اس سے گزر کر ڈھلوان پر اتر رہے تھے۔ کچھ فاصلے پر ایک مختصر سی آبادی نظر آرہی تھی۔ سڑک کے ایک سمت پہاڑی تھی اور دوسری جانب نشیب۔ وسیم اگلی سیٹ پر حبیب کے برابر بیٹھا تھا۔ یاسمین پچھلی سیٹ پر بیٹھی تھی۔ قصبے سے آنے والی سڑک سے اچانک ایک نیلے رنگ کی کار آتی نظر آئی۔ حبیب سنبھل کر بیٹھ گیا۔ کار موڑ سے گھوم کر ان کی سمت بڑھی۔ چند سو گز کا فاصلہ رہ گیا تو اچانک گھوم کر آڑی کھڑ ی ہو گئی۔ ایک شخص کود کر باہر نکلا اور اچھل کر کار کے سامنے کھڑا ہو گیا۔ سڑک سے گزرنے کی راہ بند ہو چکی تھی۔حبیب نے چیخ کر کہا۔ سیٹ سے نیچے بیٹھ جائو اور مضبوطی سے پکڑ لو۔ دونوں نے اس کی ہدایت پر فوری عمل کیا۔ کار کی آڑ میں کھڑے ہوئے شخص نے ٹامی گن سے انہیں زد میں لے لیا تھا۔ حبیب نے بریک لگانے کے بجائے کار کی رفتار تیز کر دی۔ وہ اچانک پھرتی سے نیچے جھکا اور دوسرے ہی لمحے گولیوں کی بوچھار سے ونڈ شیلڈ کے ٹوٹنے کی آواز آئی۔ حبیب نے اندازے سے اسٹیئرنگ کاٹا لیکن دوسرے ہی لمحہ کار ٹکرائی اور پھر یوں لگا جیسے وہ ہوا میں معلق ہو گئے ہوں۔ ٹکر کی آواز کے دوران وسیم کو ایک چیخ بھی سنائی دی تھی لیکن سب کچھ اتنی برق رفتاری سے ہوا کہ سمجھنے کا موقع نہ ملا، کیونکہ ان کی کار ایک دھماکے کے ساتھ گری اور پلٹ کر کھڑی ہو گئی۔ حبیب کے سر سے خون بہہ رہا تھا لیکن وہ پھرتی کے ساتھ دروازہ کھول کر نکلا۔ پستول اس کے ہاتھ میں تھا۔ وسیم نے یاسمین کو باہر نکلتے نہیں دیکھا۔اچانک فائر کی آواز فضا میں گونجی اور گولی کار کی باڈی سے ٹکرائی۔ اس نے اٹھنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہ ہو سکا۔ اسی لمحے دو فائر اور ہوئے اور پھر اس کے کان کے پاس ایک فائر ہوا ۔حبیب نے چلاّ کر کہا۔ شاباش، یاسمین تم نے اسے ڈھیر کر دیا۔ وسیم بری طرح پھنسا ہوا تھا۔ پچھلی سیٹ سرک کر اوپر آ گئی تھی۔ یاسمین نے خوف زدہ لہجے میں حبیب سے پوچھا۔ وسیم وہ زخمی تو نہیں ہوگیا نہیں وسیم چلّا کر بولا۔ میں بالکل ٹھیک ہوں، مگر مجھے باہر تو نکالو۔ حبیب نے زور لگا کر سیٹ ہٹائی۔ یاسمین نے اس کا ہاتھ پکڑ کر گھسیٹا تو وہ کھڑکی کے ذریعے باہر نکلا، پھر وہ جیسے ہی کھڑا ہوا، اسی لمحے ایک گولی اس کے سر سے چند انچ کے فاصلے پر کار کی باڈی میں آ کر لگی۔ پھرتی کے ساتھ کار کی آڑ میں ہو کر بیٹھ گئے۔ غلطی میری ہے۔ حبیب نے غصے سے کہا۔ میں یہ بھول گیا تھا کہ اس کا ساتھی بھی موجود ہو گا۔ وہ شاید پہاڑی پر ہماری کار کے آنے کا منتظر رہا ہوگا تاکہ بروقت اشارہ دے دے پہاڑی پر اس ٹیلے کے پیچھے۔ اس نے اشارہ کیا، پھر بولا۔ فائر رائفل سے کیا گیا ہے۔ یاسمین تم یہیں کار کی آڑ میں رہو اور تم وسیم میرے پیچھے آئو۔ دونوں آگے پیچھے رینگتے ہوئے بڑھنے لگے۔ سڑک بلندی پر تھی۔ پھر بھی یہ خطرہ تھا کہ پہاڑی پر چھپا ہوا حملہ آور انہیں دیکھ نہ لے۔ حبیب نے ذرا سی گردن اٹھائی، فوراً ہی ایک گولی سنسناتی ہوئی اس کے قریب سے گزر گئی۔ وسیم نے غصے سے دانت پیستے ہوئے کہا۔ جمیل عمر کو اس مذاق کی کیا سوجھی تھی۔ ہم طیارے سے بھی اپنی منزل کی طرف جا سکتے تھے۔ اس طرح دشمن کو سامنے آنے کا موقع نہ ملتا۔ یہ اس بحث کا موقع نہیں، تم اس نشیب کی آڑ سے پہاڑی کے پیچھے پہنچو اور وہاں سے اوپر چڑھنے کی کوشش کرو، اس دوران میں اسے الجھائے رکھوں گا۔ وسیم نے بحث نہیں کی۔ نشیب کی آڑ لیتا ہوا، رینگ کر تیزی سے آگے بڑھنے لگا۔ حبیب نے رک کر دو فائر کئے۔ جواب میں رائفل سے کئی گولیاں لپکیں۔ وسیم نے دیکھا کہ سڑک پر ٹریفک رک گیا تھا۔ آنے والی کاریں ڈھلوان کے اوپر رک گئی تھیں۔ وسیم بالآخر پہاڑی کے عقب میں پہنچنے میں کامیاب ہو گیا۔ اسے اوپر پہنچنے میںکوئی دشواری نہیں ہوئی تھی۔ اس نے دیکھا کہ حملہ آور ایک چھوٹے سے ٹیلے کی آڑ میں پیٹ کے بل لیٹا فائر کر رہا تھا۔ آگے بڑھنے میں خطرہ یہ تھا کہ وہ کہیں قدموں کی چاپ نہ سن لے۔ لیکن وسیم کو بہرحال یہ خطرہ مول لینا تھا۔ ایک ایک قدم احتیاط سے رکھتا ہوا وہ آگے بڑھتا رہا۔ یہاں تک کہ فاصلہ اتنا رہ گیا کہ وہ پستول سے اس کی پشت پر فائر کر سکتا تھا۔ وہ ابھی پس و پیش میں تھا کہ اس کی چھٹی حس نے اسے خبردار کر دیا۔ وہ بلا کی پھرتی سے پلٹا اور فائر کیا لیکن چلائی ہوئی گولی اس کے سر سے بہت اوپر گزر گئی۔ اس کی دہشت زدہ آنکھوں نے وسیم کو دیکھا۔ رائفل کی نال نیچے ہوئی، لیکن وسیم نے فائر کر دیا۔ گولی اس کے سر کو توڑتی ہوئی نکل گئی۔ رائفل گرنے کی آواز آئی اور دوسرے ہی لمحے وہ بھی منہ کے بل گرا اور بے حس ہوگیا۔ وسیم نے کھڑے ہو کر حبیب کو آواز دی۔ وہ ہاتھ ہلاتا ہوا آگے بڑھا۔ اس کے نیچے پہنچنے سے پہلے ہی وہ بھاگتا ہوا آیا اور اس سے چمٹ گیا۔ تم تم واقعی دلیر ہو میرے دوست۔ حبیب نے اسے بھینچتے ہوئے کہا۔ منزل تک جانے والی ایک کار میں لفٹ لے کر تینوں سیدھا جمیل عمر کے دفتر پہنچے۔ وہ بڑے غور سے حبیب کی رپورٹ سنتے رہے، پھر مسکرا کر وسیم کی سمت مڑے۔ تم سے مجھے تفصیل سے ہر بات سننا ہے، کچھ دیر آرام کرو۔ نہیں، میں کچھ دیر نہیں، رات بھر آرام کرنے کے بعد ہی بات کر سکوں گا۔ وسیم نے کہا۔ آپ کے تجربات نے مجھے ہلا کر رکھ دیا ہے۔ وسیم کی بات سن کر انہوں نے ایک زور دار قہقہہ لگایا۔ ٹھیک ہے، ہم کل صبح گفتگو کریں گے، لیکن آرام تم میرے فلیٹ میں کرو گے۔ ٭ ٭ ٭ تورک کی تمہیں قتل کرنے کی کوشش، اس کی وجہ تو سمجھ میں آتی ہے۔ جمیل عمر نے کہا۔ لیکن بورن تم کو ہلاک کرنے کے درپے کیوں تھا جمیل نے وسیم کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ یہ لوگ ناشتے کے بعد کافی پی رہے تھے۔ حبیب نے ان کو جواب دیا۔ ممکن ہے بورن کو یہ علم نہ ہو کہ تورک مر چکا ہے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ بورن کو یہ ہدایت ملی ہو کہ اگر تورک ناکام ہو جائے تو وسیم میرا مطلب ہے ڈاکٹر نصیر شاہ کو قتل کر دیا جائے۔ ممکن تو بہت کچھ ہے۔ حقیقت کیا ہے انہوں نے جھنجھلا کر کہا۔ ڈاکٹر نصیر شاہ میں کیا خاص بات ہے اس سے زیادہ اہم سائنس دان ہمارے لیے کام کر رہے ہیں۔ ان کو یہ اندازہ ہو چکا ہے کہ پروفیسر زیبی نے اپنا فارمولا نصیر شاہ کو نہیں دیا ۔ میں جتنا غور کرتا ہوں تو ذہن الجھتا چلا جاتا ہے۔ پھر وہ اچانک مڑے اور مسکرائے۔ کوئی بات نہیں، میں یہ معمہ جلد حل کر لوں گا لیکن اس دوران تم اور یاسمین یہیں رہو گے۔ ہرگز فلیٹ سے باہر نہیں جائو گے، سمجھے۔ وسیم نے سر ہلا دیا۔ جمیل نے مزید کہا۔ میں اب دفتر جا رہا ہوں، تمہیں کچھ اور تو نہیں کہنا جی کہنا ہے ۔ وسیم نے اٹھتے ہوئے کہا۔ میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ مجھے یاسمین سے بے پناہ محبت ہے، میں اس سے شادی کرنا چاہتا ہوں۔ خدا کی پناہ وسیم ادھر جان پر بنی ہوئی ہے اور تمہیں محبت سوجھ رہی ہے جمیل عمر نے اتنے غصے میں کہا کہ وسیم بے چارہ سہم گیا لیکن پھر جمیل اس کی طرف دیکھ کر مسکرا دیئے اور بولے۔ سنو نوجوان خدا نے مجھے بیٹی نہیں دی اور یاسمین کو میں بیٹی سے کم نہیں سمجھتا۔ میں بھی اس سے بے پناہ محبت کرتا ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ تم دونوں کیا چاہتے ہو۔ یاسمین کی ہر خواہش میری اپنی آرزو ہے لیکن اس بات کا بھلا یہ وقت کہاں جی جی۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن صبر تھوڑا صبر کرو، صبر کرنا سیکھو، بہت کام آئے گا۔ یہ کہہ کر وہ مسکراتے ہوئے نکل گئے۔ جمیل عمر کے جاتے ہی یاسمین کمرے میں داخل ہوئی، اس کا چہرہ خوشی سے گلنار ہو رہا تھا۔ یہ کیا بدتمیزی تھی تم نے مجھ سے پوچھے بغیر کیوں ایسے بات کی جی ابھی تو آغازِ بدتمیزی ہوا ہے آگے چل کر مزید بدتمیزیاں کرنی ہیں۔ وسیم نے کہا۔ اس کے بعد یہ دونوں آرام کرنے لیٹ گئے۔ سہ پہر کو جب وسیم بیدار ہوا تو یاسمین کا کہیں پتا نہیں تھا۔ ملازمہ کچن میں کافی تیار کر رہی تھی۔ وسیم نے اس سے پوچھا۔ یہ یاسمین کہاں غائب ہو گئی جی وہ تو دفتر چلی گئیں۔ اس نے کہا۔ دفتر سے فون آیا تھا کہ انہیں جمیل صاحب نے فوراً بلایا ہے۔ اس کی بات سن کر وسیم چونک پڑا ۔کیونکہ جمیل عمر نے انہیں سختی سے منع کیا تھا کہ فلیٹ نہ چھوڑیں۔ کتنی دیر ہوئی ہے اسے گئے تقریباً دو بجے تھے۔ وسیم نے اس سے کچھ نہیں کہا۔ کمرے میں آکر فون ملایا۔ ذرا دیر بعد جمیل عمر کی آواز سنائی دی۔ ہاں کیا بات ہے فرزند کیا یاسمین آپ کے پاس ہے نہیں، کیا وہ فلیٹ میں نہیں ہے انہوں نے پوچھا۔ وسیم نے انہیںحقیقت بتائی۔ میں بھی کتنا احمق ہوں۔ وہ غصے سے بڑبڑائے۔ تم وہیں ٹھہرو، میں آ رہا ہوں۔ مشکل سے دس پندرہ منٹ بعد سخت پریشانی کے عالم میں اندر داخل ہوئے، ان کے پیچھے ایک اور شخص بھی تھا۔ یہ مختار ہیں۔ فلیٹ کی نگرانی ان کے سپرد تھی۔ انہوں نے تعارف کراتے ہوئے کہا۔ تم نے کس وقت یاسمین کو جاتے ہوئے دیکھا تھا مختار جی دو بج کر دس منٹ ہوئے تھے۔ انہوں نے باہر نکل کرمجھے بتایا کہ آپ نے بلایا ہے، اس لیے وہ دہ دفتر جا رہی ہیں۔ ابھی وہ موڑ تک پہنچی تھیں کہ ایک نیلے رنگ کی مرسڈیز کار ان کے پاس آ کر رکی اور وہ اس میں بیٹھ گئیں۔ کار کا نمبر یہ ہے۔ اس نے ایک کاغذ ان کی سمت بڑھاتے ہوئے کہا۔ جمیل عمر نے جھپٹ کر فون کا ریسیور اٹھایا اور ایک نمبر ملا کر کہا۔ صالحٖ تم نے سفارتخانے کی نگرانی پر آدمی مامور کئے تھے۔ ان سے فوراً دریافت کرو کہ دو بجے کے بعد نیلے رنگ کی ایک مرسڈیز میں دو مرد اور ایک لڑکی سوارتھے، سفارت خانے کی عمارت میں داخل ہوئی تھی کار کا نمبر یہ ہے۔ انہوں نے پڑھ کر بتایا، پھر ٹیلی فون رکھ کر بولے۔ ٹھیک ہے مختار تم اپنی ڈیوٹی پر جائو۔ ذرا دیر بعد فون کی گھنٹی بجی ۔انہوں نے لپک کر ریسیور اٹھایا۔ جمیل عمر، ہاں صالح ٹھیک ہے شکریہ۔ تم نگرانی پر مزید آدمی لگا دو فوراً، ٹھیک ہے، میںپھر بات کروں گا ۔ ریسیور رکھ کر وہ وسیم کی سمت مڑے، چہرے پر قدرے اطمینان جھلک رہا تھا۔ جب آپ کو معلوم ہے کہ یاسمین وہاں ہے تو انتظار کس بات کا ہے، عمارت پر چھاپہ کیوں نہیں مارتے وسیم نے غصے سے کہا۔ نہیں، سفارت خانے پر چھاپہ نہیںمارا جا سکتا، تم اطمینان رکھو، وہ یاسمین کو کوئی تکلیف نہیں دیں گے۔ جس دیدہ دلیری سے یاسمین کو اغوا کیا ہے اس کا مقصد سمجھ میں آتا ہے، وہ دانستہ سارے سراغ دے رہے ہیں تاکہ تم یاسمین کی تلاش میں وہاں پہنچو اور وہ تمہیں قبضے میں کر لیں، یاسمین کو وہ چھوڑ دیں گے، لیکن تم چند گھنٹوں کے اندر اسمگل کر دیئے جائوگے، مگر میں ایسا نہیں ہونے دوں گا کبھی نہیں جاری ہے
null
null
null
null
410
https://www.urduzone.net/bin-chahon-ka-darakht-teen-auratien-teen-kahaniyan/
میرے شوہر وکالت سے اتنا کمالیتے تھے کہ بخوبی گزر بسر ہوجاتی تھی۔ یہ بات نہیں کہ ان میں قابلیت کی کمی تھی وہ بہت قابل آدمی تھے اعلیٰ درجے کے وکلا میں ان کا شمار ہوجاتا لیکن کچھ بری عادات نے ان کو ترقی کے مراحل طے نہ کرنے دیے۔ وسیم سے میری شادی اسی وجہ سے طے پائی تھی کہ شروع میں وہ ایک ہونہار وکیل تھے۔ والد کا خیال تھا یہ شخص بہت جلد ترقی کرکے اعلیٰ مقام پر ہوگا لیکن ایسا نہ ہوسکا۔ جونہی ان کی وکالت چمکی کچھ اوباش دوستوں نے انہیں گھیر لیا اور وہ سیدھی راہ سے بھٹک گئے۔ شراب نوشی کی محفلوں میں شرکت کرنے لگے اور رقص و سرود کے ایسے رسیا ہوئے کہ صبح جو کماتے رات کو کسی رقاصہ پر وار کر آجاتے۔ ایسے لوگ بھلا کیونکر ترقی کی بلندیوں تک پہنچ سکتے ہیں جو ابتدا میں ہی ٹھوکر کھائیں۔ تین بچے ہوگئے مگر نہ سدھرے۔ شب بھر غلط محفلوں میں بیداری کی وجہ سے صبح دیر تک سوتے رہتے اور جب بیدار ہوتے تو نشہ ٹوٹ رہا ہوتا۔ تب اس قابل نہ رہتے کہ وقت پر کورٹ جاکر اپنے موکلان سے انصاف کرسکیں جو ان کو فیس دیتے تھے ہمارے بچوں کے رزق روزی کا ذریعہ تھے۔ میں وسیم کو سمجھاتی کہ ابھی بچے چھوٹے ہیں۔ ان کے اخراجات کم ہیں۔ جب یہ بڑے ہوجائیں گے تو خرچے بڑھ جائیں گے ہمیں انہیںاعلیٰ تعلیم دلوانی ہے اچھے تعلیمی اداروں میں پڑھائی کے اخراجات کیسے برداشت کریں گے۔ خدارا سنبھل جائیے۔ ابھی وقت ہے آگے چل کر مشکلات بڑھیں گی جب ساکھ خراب ہوجاتی ہے تو کوئی ایسے وکیل کو کیس دینا پسند نہیں کرتا۔ میرے سمجھانے کا ان پر کوئی اثر نہ ہوتا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ رفتہ رفتہ وہ اپنے پیشے سے آئوٹ ہوگئے۔ اب ہمارا گزارہ ان مکانات اور دکانوں کے کرایوں پر ہونے لگا جو میرے سسر وراثت میں چھوڑ گئے تھے۔ وقت تیزی سے گزرتا جا رہا تھا۔ بچوں کے اسکول سے کالج پہنچنے تک وسیم کی صحت نے جواب دے دیا۔ شراب نوشی نے ان کے جگر کو پارہ پارہ کردیا تھا۔ بالآخر وہ زندگی کی بازی ہار گئے۔ ہم ان کی کمائی سے تو محروم تھے ہی میرے بچے اپنے باپ کے سائے سے بھی محروم ہوگئے۔ ابھی میرے تینوں بچے پڑھ رہے تھے۔ ان کی کشتی بیچ منجدھار میں تھی، اس کشتی کو پار لگانا اب میری ذمہ داری تھی۔ انہیں میں نے ہی پڑھا لکھا کر ان کی منزلوں تک پہنچانا تھا۔ سسرالی رشتہ دار گرچہ بااخلاق تھے لیکن وہ میری مالی مدد نہ کرسکتے تھے اور نہ کسی اور طرح کی معاونت میرے بچوں کی ان سے ہوسکتی تھی۔ وسیم نے بیماری کے دنوں میں اپنی جائداد کا مختیار کار سوتیلے بھائی حبیب کو بنادیا تھا۔ حبیب یوں تو بھلا مانس آدمی تھا اور ہمارے حصے کی جائداد پر قبضہ کرنے کا اس کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ میٹرک پاس ہونے کی وجہ سے ان کی سوچ محدود تھی۔ وہ کبھی اپنے شہر سے باہر نہ گئے تھے۔ دیہاتی سوچ کے حامل تھے تاہم میرے بچوں کے خیرخواہ تھے۔ ان کے خیال میں عورت ہونے کے ناتے مجھ میں وراثت سنبھالنے کی اہلیت نہ تھی۔ اسی لیے میرے شوہر اپنے بھائی کو یہ اختیار دے کر گئے کہ جب تک ان کے بیٹے بالغ نہ ہو جائیں وہی وراثت کے امور کی دیکھ بھال اور نگرانی کریں گے۔ حبیب بھائی ہر ماہ مکانوں اور دکانوں کا کرایہ وصول کرکے مجھے ایک مقررہ رقم خرچے کے لیے دیتے تھے اور باقی رقم بینک میں جمع کرا دیتے تاکہ بچوں کی تعلیم اور ان کی شادی بیاہ کے وقت یہ سرمایہ کام آئے، اگر فارغ التحصیل ہونے کے بعد کوئی کاروبار کرنا چاہیں تو میرے بیٹے کرسکیں۔ یہ میرے دیور کی اچھی سوچ تھی لہٰذا میں بھی کم پیسوں میں گزارہ کرتی رہی۔ کبھی ان سے شکوہ نہ کیا کہ ہماری ضروریات سے کم رقم دیتے ہو بمشکل گزارہ ہوتا ہے۔ حبیب بھائی کہتے تھے بھابھی آپ اور آپ کے بچوں کے بھلے کی خاطر کفایت شعاری کرتا ہوں۔ بچے نا سمجھ ہوتے ہیں یہ تم سے طرح طرح کی فرمائشیں کریں گے اور پھر ان کی فرمائشیں بڑھتی جائیں گی۔ میں حبیب بھائی سے الجھنا نہ چاہتی تھی، ہمارا مکان بھی ان کے گھر سے متصل تھا۔ یوں کہنا چاہیے کہ ان لوگوں کے سہارے بیوگی کے دن عزت سے کاٹ رہی تھی اور کسی کو ہماری طرف ٹیڑھی نظروں سے دیکھنے کی جرأت نہ ہوتی تھی۔ میرے بچوں کو بھی چچا کا ڈر رہتا تھا۔ میری بیٹی ایک ہی تھی، دو بیٹے حسیب اور فہیم اس سے چھوٹے تھے۔ جونہی حسیب سولہ سال کا ہوا اس نے پر پرزے نکال لیے۔ پڑھائی کی طرف سے توجہ ہٹ گئی۔ اور سارا وقت دوستوں کے ساتھ گزارنے لگا۔ تب میرے دیور کو فکر ہوئی اور وہ دن رات اس کی نگرانی کرنے لگے تاکہ بھتیجا بگڑ نہ جائے۔ فہیم البتہ پڑھائی پر دھیان مرکوز کئے رکھتا اس سے اچھی امیدیں وابستہ تھیں۔ مناہل تو باپ کی لاڈلی رہی تھی۔ وہ کسی کو خاطر میں نہ لاتی۔ اکثر میرا کہا بھی نہ سنتی، اور اپنی من مانی کرتی۔ جب میں نصیحت کرتی ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتی تھی۔ لڑکی ذات تھی۔ وہ منہ زور ہوتی جارہی تھی مجھے اس کی بہت فکر تھی۔ چاہتی تھی کہ یہ بی اے مکمل کرلے تو اس کی شادی کردوں تاکہ سکون کی نیند سو سکوں۔ حبیب بھائی سے بھی کہتی تھی کہ اس کے لیے کوئی اچھا لڑکا ڈھونڈو۔ تاکہ یہ بیل وقت پر منڈھے چڑھ جائے۔ کئی اچھی رشتے آئے ہر بار وہ انکار کردیتی۔ میں بہت پریشان تھی کہ یہ کب مانے گی۔ جن دنوں بی اے کے سالانہ پرچے ہورہے تھے میری دعا قبول ہوگئی اور اس کے لیے فہد کا رشتہ آگیا۔ ہمارے شہر کے قریب میرے شوہر کے رشتے داروں کا گائوں تھا۔ وہاں وسیم کے چچا زاد بھائی رہتے تھے، ان کی یہاں تقریباً چالیس بیگھے اراضی تھی۔ یہ دیکھے بھالے اور ٹھیک ٹھاک لوگ تھے۔ ان میں سے ایک بھائی کا نام شیر خاں تھا۔ فہد اسی کا بیٹا تھا۔ گرچہ ان لوگوں کا ہمارے گھر شاذ و نادر آنا ہوتا لیکن یہ اطمینان تھا کہ بالکل غیر لوگ نہیں ہیں کیونکہ اجنبیوں سے رشتے ناتے جوڑنا بھی دل گردے کا کام ہوتا ہے کہ انجان لوگ ہوتے ہیں بعد کے برتائو کا پتا نہیں ہوتا۔ فہد خوش شکل اور تعلیم یافتہ تھا، قبل ازیں جتنے رشتے آئے، مجھے سب میں یہ زیادہ مناسب لگا۔ مناہل نے بھی انکار نہ کیا تو میں نے اللہ کا شکر ادا کیا۔ جانتی تھی میری لڑکی لاڈلی اور الگ مزاج کی ہے، اس پر زبردستی کوئی فیصلہ مسلط نہیں کیا جاسکتا تھا۔ وہ شادی تبھی کرے گی جب اس کی مرضی ہوگی۔ وہ کسی اور کی پسند کا لباس بھی قبول نہ کرتی تھی تو شریک زندگی کے معاملے میں کسی اور کی پسند پر کیسے انحصار کرسکتی تھی۔ وہ پسند اور اور ناپسند کے معاملے میں دو ٹوک تھی۔ فہد کا نام لیا تو فوراً ہاں کہہ دی۔ میری خوشی کا ٹھکانہ نہ رہا کہ چلو اس نے رشتہ تو منظور کیا۔ اس طرح میری ایک بڑی الجھن سلجھ گئی۔ حسیب اور فہیم نے بھی اس رشتہ کو پسند کیا تو میں نے ہاں، کہہ دی۔ اس کے بعد فہد ہمارے گھر آنے لگا۔ وہ ہمارے گھر کے ماحول کا اندازہ کرنا چاہتا تھا اور میں اس کی آئو بھگت یوں کرتی کہ اس سے بات چیت رہے تاکہ ذہن پڑھ سکوں، اس کے خیالات سے آگاہی ہو۔ رفتہ رفتہ اندازہ ہوگیا کہ فہد ایک اچھی طبیعت کا مالک انسان ہے۔ اس کے مزاج میں لچک تھی اور وہ سمجھوتے کرنے کی صلاحیت رکھتا تھا۔ ہنس مکھ، خوش مزاج اور خوش اخلاق تھا۔ اسے محنت کے ذریعے ترقی کرنے اور زندگی میں کچھ کر دکھانے کی امنگ تھی۔ سوچتی تھی میری خوش قسمتی ہے کہ ایسا سلجھا ہوا تعلیم یافتہ لڑکا میرا داماد بننے جارہا ہے۔ لیکن انسان کا کچھ پتا نہیں چلتا کہ اللہ کی اس مخلوق کو بدلتے دیر نہیں لگتی۔ یہ دو بھائی تھے۔ بڑے بھائی کا نام سجاول تھا۔ اس نے اپنے والد کی وفات کے بعد کنبے کا بہت خیال رکھا۔ زمینوں کا سارا انتظام وہی سنبھالتا تھا۔ اسی نے فہد کو گائوں سے بڑے شہر تعلیم کے لیے بھیجا اور تمام خرچہ اٹھایا تھا۔ فہد کے گھر والے سجاول کا حکم مانتے تھے۔ ہم سے رشتہ جوڑنے میں بھی سجاول ہی پیش پیش تھا۔ وہ دن آپہنچا جب میری بیٹی دلہن بن کر گائوں کی حویلی میں چلی گئی۔ سسرال میں اس کو عزت اور پیار ملا۔ بہت خوش تھی پڑھی لکھی اور خوبصورت تھی اس وجہ سے بھی سسرال میں اس کی قدر و منزلت تھی۔ لیکن ایک وجہ بھاری جہیز بھی تھا جو مناہل کو اس کے چچا نے شادی کے موقع پر دیا تھا۔ دو ٹرک بھرکر فرنیچر اور تمام ضروری سامان دیا۔ شادی بھی خوب دھوم دھام سے کی کہ فہد کے گائوں والے عش عش کر اٹھے تھے۔ میں اپنے دیور کی کفایت شعاری اور دور اندیشی کی معترف ہوگئی کہ انہوں نے کتنے صحیح موقع پر بچت کردہ سرمائے کو خرچ کیا تھا۔ بھتیجی کی شادی میں زیورات، قیمتی جوڑے غرض کسی شے کی کمی نہ ہونے دی تھی۔ یہی وجہ تھی کہ بھاری جہیز کی وجہ سے وہ لوگ میری بیٹی کو سر آنکھوں پر بٹھا رہے تھے۔ سسرال میں اس کی عزت و احترام بڑھ گیا تھا۔ بظاہر یہ لوگ لالچی نہ تھے لیکن جلد ہی یہ حقیقت ہم پر آشکار ہوگئی کہ ان لوگوں کی نظریں ہماری جائداد پر لگی ہیں۔ ابھی شادی کو چھ ماہ بھی نہ گزرے تھے کہ انہوں نے مناہل کو کہنا شروع کردیا کہ اپنی والدہ سے کہو تمہارے حصے کی جائداد الگ کردیں۔ پہلے مناہل نے ٹالا لیکن ان لوگوں کا مطالبہ بڑھتا گیا اور رویہ بھی ظالمانہ ہوگیا تو اسے مجھے بتانا پڑا، میں نے کہا۔ مناہل بیٹی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے ہیں تمہاری شادی کو اور ان لوگوں نے جائداد کے حصے کے لیے تم کو ستانا شروع کردیا ہے۔ یہ ٹھیک لوگ نہیں ہیں۔ وہ بولی ماں میرے جیٹھ کا کہنا ہے کل کلاں کو تمہارے چچا کی نیت خراب ہوگئی تو وہ تمہارا حصہ نہ دیں گے، یہ تمہارا حق ہے ان سے اپنی وراثت لے لو۔ مجھے صدمہ ہوا، مناہل ہماری بیٹی تھی اس بارے میں ہمیں سوچنا تھا کہ کس طرح اس کا مستقبل محفوظ ہوگا۔ ہماری وراثت کے حصے بخرے کرنے کا مطالبہ کرنا اس کے سسرال والوں کو زیب نہ دیتا تھا۔ میں نے کہا بیٹی تمہارے چچا کو وسیم نے اس وجہ سے مختیارکار بنایا تھا کہ اس وقت تم لوگ نابالغ تھے جبکہ وہ دیانت دار ہیں آج تک میں نے ان سے اختیار واپس کرنے کو نہیں کہا۔ وہ ہماری جائداد کے امور اچھے طریقے سے سنبھال رہے ہیں۔ جب تمہارے بھائی بالغ ہوجائیں گے وہ خود بخود مختیار کار بن جائیں گے پھرجو تمہارا حق ہوگا وہ مل جائے گا۔ ماں میں آپ کی اولاد میں سب سے بڑی ہوں، مکانات اور دکانیں فروخت کرکے میرا حصہ دے دیں تاکہ میری زندگی سے یہ روز کی چیخ چیخ ختم ہوجائے۔ بیٹی سسرال والوں کی باتوں میں نہ آئو۔ مناسب وقت پر تمہارے چچا کے کان میں یہ بات ڈالوں گی۔ کچھ دن گزرے فہد آیا اور باتوں باتوں میں سوال کیا آنٹی آپ کی کتنی دکانیں اور مکانات ہیں۔ کیا یہ مرحوم انکل کے نام یا آپ کے نام پر ہیں۔ یہ عجیب سوال تھا۔ تاہم جواب دیا کہ تین دکانیں اور چار مکانات ہیں۔ ایک میں ہم رہتے ہیں اور باقی سب کرائے پر اٹھے ہیں۔ کرائے میں مناہل کا حق بھی بنتا ہے ہاں وہ حصہ اس کے چچا نکال کر مناہل کے نام جمع کرا دیتے ہیں۔ یہ اس کی امانت ہے، مناسب وقت پر دے دیں گے لیکن تم کیوں پوچھ رہے ہو۔ میں بزنس کرنا چاہتا ہوں تبھی پوچھا ہے۔ اچھا حبیب بھائی سے ذکر کروں گی۔ اس کے بعد وہ مسلسل میری بیٹی کو تنگ کرنے لگا کہ حصہ لائو تاکہ بیچ کر شہر میں مکان لے لیں یا کوئی کاروبار کرسکوں۔ پہلے مناہل برداشت کرتی رہی لیکن جب شوہر کا مطالبہ برداشت سے باہر ہوگیا تو میری بیٹی نے رو کر التجا کی۔ ماں اپنی زندگی میں میرے حصے کا فیصلہ کردیں۔ تاکہ میں سکون سے جی سکوں۔ یہ لوگ وراثت میں میرا حصہ لیے بغیر چین سے نہ بیٹھیں گے۔ عجیب بات ہے فہد کی اپنے حصے کی زمین کافی ہے، کروڑوں کی ہے، چاہے تو اس کو بیچ کر کاروبار کرسکتا تھا۔ بیٹی کے مجبور کرنے پر میں نے دوبارہ حبیب بھائی سے بات کی۔ انہوں نے کہا بھابھی ہم مناہل کا حصہ اس کو ضرور دیں گے لیکن ان لوگوں کے حوالے نہیں کریں گے۔ مناہل کے ساتھ آگے جانے یہ کیا کریں۔ خدا نہ کرے اس پر کبھی برا وقت آئے تب وہ کیا کرے گی۔ اگر ہم نے مناہل کے حصے کی جائداد اس کے حوالے کردی تو یہ اگلے دن بیچ کر برابر کردیں گے، اس بے چاری کو خالی دامن کیا تو وہ کیا کرے گی سوچئے ذرا اس کا حصہ آپ فی الحال اپنی تحویل میں رکھیں جب مناہل صاحب اولاد ہوجائے تب دے دینا۔ دیور کی بات معقول تھی بیٹی کے سسرالی مجھے معقول لوگ نہ لگ رہے تھے۔ میں نے بچی کو بتادیا کہ تمہارے چچا ابھی بٹوارے کے حق میں نہیں ہیں تمہیں تھوڑا سا صبر کرنا پڑے گا۔ اب ادھر سے دھمکیاں ملنے لگیں اگر مناہل کا حق اس کو ابھی نہ دیا تو ہم طلاق دے کر اسے چلتا کردیں گے، میں خاموش تھی اور یہ بات منہ سے نہ نکالنا چاہتی تھی۔ دیور سے دبے لفظوں کہتی تھی کہ بیٹی کا حق ہے کل بھی دینا ہے تو آج مناہل کا جو حصہ بنتا ہے اسے دے دو۔ کل جانے کیا ہو۔ دیور نہ مانے۔ میرے لڑکوں نے بھی کہا کہ ابھی ہم کو تعلیم مکمل کرنے دیں اس کے بعد جائداد کے حصے کرنے کا سوچیں گے جب مرد یک زبان ہوگئے مجھے خاموش ہونا پڑا لیکن داماد اور اس کے گھر والے خاموش نہ بیٹھے۔ انہوں نے میری بیٹی کی زندگی اجیرن کرکے رکھ دی۔ مناہل جب میکے آتی اس کی آنکھیں سوجی ہوتیں اور بدن پر مار پیٹ کی وجہ سے نیل پڑے ہوتے تھے۔ رو رو کر کہتی ماں خدا کے لیے چچا کو سمجھائو وہ میرا حصہ دے دیں نہیں تو میرا گھر اجڑ جائے گا۔ ایک روز حبیب بھائی نے کہا اگر بھائی کے نام پر جائداد ہوتی تو میں کب کا فیصلہ کرچکا ہوتا لیکن یہ جائداد وہ آپ کے نام کر گئے ہیں اور آپ حیات ہیں اب جیسا چاہیں طے کرلیں۔ میں بس کرایہ داروں کے امور سنبھالنے میں آپ کا معاون رہوں گا۔ البتہ جس گھر میں آپ لوگ رہ رہے ہیں یہ وسیم بھائی کے نام ہے۔ آپ جو فیصلہ کریں گی مجھے اعتراض نہیں ہوگا۔ ابھی تک مناہل اورا س کے سسرال والوں کے معاملات سے میں نے اپنے دونوں بیٹوں کو دور رکھا تھا۔ بالآخر حسیب سے کہنا پڑا کہ فہد اور اس کے گھر والے مناہل سے ایسی بات کررہے ہیں۔ وہ یہ سن کر چراغ پا ہوگیا۔ بولا وہ کون ہوتے ہیں ہماری جائداد کے حصے بخرے کرنے کا مطالبہ کرنے والے۔ جب ہماری منشا ہوگی اپنی بہن کو دیں گے۔ یہ مناہل کا حق ہے ان کا نہیں ہے۔ بیٹا بچیوں کے سسرالیوں کا ان معاملات سے کچھ نہ کچھ تعلق ہوتا ہے۔ اگر ہم وقت پر اپنی بیٹی کو اس کا حق دے دیں تو سسرال میں اس کی قدر و منزلت بڑھ جائے گی وہ سکون کی زندگی بسر کرسکے گی۔ ماں آپ کتنی بھولی ہیں۔ ایسے لوگ کبھی کسی کو سکون سے رہنے نہیں دیتے۔ ان کے عزائم ٹھیک نہیں ہیں۔ انہوں نے مناہل سے نہیں اس کی جائداد سے شادی کی تھی میں کبھی اجازت نہ دوں گا کہ میری بہن کی سیکورٹی کو آپ دائو پر لگائیں۔ ہر کسی کی اپنی سوچ تھی۔ میں بے بس اور مجبور تھی۔ مجھے بس یہی فکر تھی کسی صورت مناہل خوش رہے اور اس کا گھر آباد رہے۔ مردوں کی اپنی سوچ ہوتی ہے عورتوں کی اپنی۔ میں پھر ماں تھی۔ اپنے لڑکوں کے خلاف کورٹ کچہری نہیں جاسکتی تھی۔ میرے بڑھاپے کا سہارا میرے بیٹے تھے، داماد نہیں تھا۔ بیٹوں کو ناراض کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہ سکتی تھی۔ جب سے مناہل کی شادی ہوئی تھی، وراثتی حق کے چکر میں اس کا ایک دن بھی سکون سے نہیں گزرا تھا۔ مجبور کرنے پر بالآخر دیور نے میرا ساتھ دینے کا فیصلہ کرلیا۔ میں نے ایک مکان اور دکان جو پہلے سے میرے نام تھی۔ بیٹی کے نام کردی۔ خیال تھا اب وہ لوگ شانت ہوجائیں گے۔ افسوس ایسا نہ ہوسکا۔ ان لوگوں کے کچھ اور ہی عزائم تھے۔ اللہ جانے وہ کس جرم کی سزا پا رہی تھی، اپنا گھر بسائے رکھنا چاہتی تھی ورنہ کبھی اپنے حصے کا مطالبہ نہ کرتی۔ کچھ دن بعد وہ پھر روتی دھوتی آپہنچی، کہا کہ فہد کہتے ہیں تمہارا حصہ زیادہ بنتا ہے، جس گھر میں تمہاری ماں اور بھائی رہتے ہیں وہ کافی بڑا اور قیمتی ہے، اس میں سے ان لوگوں نے حق نہیں دیا۔ یہ گھر تمہارے والد کے نام ہے تم اپنا حصہ عدالت سے بھی لے سکتی ہو۔ مناہل کا ہی نہیں میرا بھی سکون برباد ہو کر رہ گیا۔ اب فہد اپنے مطالبے سے دست بردار ہونے پر تیار تھا اور نہ میرے بیٹے مان رہے تھے کہ بہن کا حصہ دینے کے لیے وہ آبائی گھر کو فوری طور پر فروخت کردیں۔ ہم ماں بیٹی دو پاٹوں کے بیچ پس رہی تھیں۔ میں نے آبائی گھر فروخت کرنے کا ارادہ کرلیا کیونکہ مناہل کی آنکھوں میں ہر وقت آنسو نہ دیکھ سکتی تھی۔ اس کا جیب خرچ بند کردیا گیا۔ اس کے حصے کے کرائے میں سے رقم اسے پہنچانے لگی۔ اس پر بیٹوں کے دل میں میرے لیے خفگی آگئی کیونکہ جائداد جلد فروخت کرنے پر قیمت پوری نہ ملتی۔ حبیب بھائی نے بھی فہد کو سمجھایا کہ اب مطالبات ختم کرو آنٹی حیات ہیں۔ وہ آبائی گھر سے نکلیں گی تو کہاں جائیں گی۔ جب مکمل بٹوارہ ہوگا جو کمی بیشی ہوگی آپ کی بیوی کو مل جائے گی، فیصلہ امی پر چھوڑ دیں ان شا اللہ آپ لوگ خسارے میں نہ رہیں گے۔ فی الحال ایک مکان اور دکان سے کام چلائیں۔ فہد کو میرے بڑھاپے کے مسائل کی پروا نہ تھی۔ ایک مکان ایک دکان لے کر بھی اسے چین نہ آیا۔ اس نے میری بیٹی کا عرصہ حیات تنگ کردیا۔ مکان اور دکان بیچ دیا اور سرمائے سے بزنس کیا، جس کا اسے تجربہ نہ تھا اور سارا سرمایہ ضائع ہوگیا تو گھر میں چخ چخ اور بڑھ گئی۔ پہلے مناہل بھائیوں کو الزام دیتی تھی اب اسے معلوم ہوگیا کہ وہ اور چچا صحیح سوچ رہے تھے۔ فہد اور اس کے گھر والوں کو مناہل سے زیادہ اس کی جائداد ہتھیانے میں دلچسپی تھی، اب یہ وراثتی حق میری بیٹی کے لیے ایک پھنکارتا ہوا سانپ بن چکا تھا۔ اللہ نے مناہل کو ابھی تک اولاد کی نعمت سے نہیں نوازا تھا۔ فہد کے گھر میں اسے کسی قسم کی سیکورٹی نہ تھی۔ یہ لوگ خود زرعی اراضی اور جائداد کے مالک تھے لیکن اپنی جائداد بیچنے کی بجائے میری بیٹی کے حصے کی جائداد پر نظریں گاڑھے ہوئے تھے۔ باپ نہ رہے تو بیٹی بے چاری بے کس و بے بس ہوجاتی ہے۔ چچا کو وہ لوگ گردانتے نہ تھے، دونوں لڑکے ابھی طالب علم تھے۔ تبھی سسرالیوں کی بن آئی تھی۔ وہ ہر طرح سے مناہل کو دبانے اور تنگ کرکے اپنا مفاد تلاش کررہے تھے۔ ہماری شہری جائداد تھی۔ یہاں مکانات بہت مہنگے تھے کیونکہ ہمارے مکانات کی مکانیت بہت زیادہ تھی، لیکن میرے لیے تو یہ اثاثہ مصیبت ہی ثابت ہوا۔ بیٹی کیا بیاہی لالچی لوگوں نے سکون لوٹ لیا۔ اللہ ایسی سسرال کسی لڑکی کو نہ دے۔ مناہل کو گھر بچانے کی پڑی تھی۔ یہ نہ سوچتی تھی کہ مکانات اور دکانوں کے کرایوں سے ہی ہمارا گھر چلتا ہے اور دونوں بھائیوں کی تعلیم جاری ہے۔ میرے لڑکے ابھی کمانے کے لائق نہ تھے، جب تک کمانے کے لائق نہ ہوجاتے ہمیں اپنی جائداد کے کرایوں پر ہی انحصار کرنا تھا۔ بیٹی نے مجھے مجبور کردیا، بالآخر ہمیں جائداد فروخت کرکے اس کا حصہ دینا پڑا اور باقی رقم سے اپنے لیے چھوٹا گھر خرید لیا۔ حسیب اور فہیم نے بھی اپنا اپنا حصہ رقم کی صورت لے لیا اور بینک میں جمع کرا دیا۔ جائداد بکتی ہے تو لگتا ہے بڑے منافع سے بکی ہے بہت روپیہ حاصل ہوا ہے۔ اس رقم سے یہ کریں گے وہ کریں گے لیکن فراست سے کام نہ کیا جائے تو رقم کے ضائع ہونے کا امکان بڑھ جاتا ہے۔ بڑے بیٹے نے بزنس کا سوچا اور بغیر تجربے کے سرمایہ لگا دیا۔ جو دوست ساتھ تھے وہ بھی نا اہل نکلے اور چند سالوں میں سارا سرمایہ ڈوب گیا۔ چھوٹے نے اپنے حصے سے بزنس کرنے کی بجائے غیرآباد جگہ کچھ سستے پلاٹ لے لیے۔ مگر وہاں آباد کاری میں ابھی برسوں درکار تھے، فی الحال تو آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ رہا۔ رہنے کے لیے جو مکان میں نے خریدا تھا اس کی اوپری منزل کرائے پر دے کر کچن کے خرچے پورے کرتی اور دونوں بیٹے نوکری کی تلاش میں مارے مارے پھرنے لگے۔ بڑے لڑکے کے خیالات اونچے تھے، اس نے کوئی معمولی نوکری قبول نہ کی اور ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گیا۔ چھوٹے نے حالات کی نزاکت کو دیکھتے ہوئے اپنے چچا کے توسط سے ایک درمیانہ درجے کی نوکری کرلی اور حبیب بھائی کی بیٹی سے شادی کرلی، اس طرح اس کا گھر بس گیا اور گزر بسر بھی ہونے لگی۔ لیکن حسیب پریشان حال رہنے لگا۔ اس کی پریشانی دیکھ کر میں روز جیتی اور روز مرتی تھی۔ لیکن کچھ نہ کرسکتی تھی۔ بالائی منزل کا جو کرایہ آتا کچن کا خرچہ بمشکل پورا ہوتا۔ حسیب تھا کہ ہر وقت مجھے الزام دیتا کہ آپ کی اور آپ کی بیٹی کی جلد بازی نے ہم کوکنگال کردیا۔ یہ سب قربانی مناہل کا گھر بسائے رکھنے کی خاطر دی تھی لیکن اسے خوشیاں پھر بھی نہ ملیں۔ شوہر نے طلاق تو نہ دی لیکن اولاد نہ ہونے کے سبب اسے دوسری شادی کا بہانہ مل گیا اور چار سال کے انتظارکے بعد اس نے مناہل پر سوتن لا بٹھائی، میری بیٹی بے چاری اپنی ہر شے شوہر پر وار دینے کے باوجود اس کی وفا کو نہ جیت سکی۔ سوتن کے بچے ہوگئے تو اس کا راج ہوگیا۔ وہ مہارانی اور یہ نوکرانی بن گئی۔ وہ اب کوڑی کوڑی کے لیے ان لوگوں کی محتاج تھی، سخت ناخوش رہتی تھی۔ کہتی کہ ماں ایسے گھرکو آباد رکھنے کے لیے قربانیاں دینے کی بجائے آپ کا کہا مان لیتی۔ اس لالچی انسان کو چھوڑ دیتی کم از کم آج میرے حصے کی جائداد تو میرے کام آتی۔ بھائی بھی ناراض نہ ہوتے۔ میرے دونوں بیٹے یہی سمجھتے تھے کہ یہ سب بربادی مناہل کی وجہ سے ہوئی ہے۔ وہ نہ شوہر کی ہم زبان ہوتی اور نہ ہماری جائداد مٹی میں ملتی۔ آج ہم بھی عزت کی زندگی بسر کررہے ہوتے اور کوڑی کوڑی کے محتاج نہ ہوتے۔ بے شک بیٹی کا شرعی حق اسے ضرور دینا چاہیے لیکن لالچی داماد اور اس کے گھر والوں کے ہاتھوں میں اس کی وراثت نہیں سونپ دینا چاہیے ورنہ بیٹی کا حال وہ ہوسکتا ہے جیسا میری مناہل کا ہوا۔ ن ملتان
null
null
null
null
411
https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-38/
تم جانور ہو بالکل وہ گرجی۔ یہ دوا بھیجی ہے حاجی صاحب نے یہ تینوں گولیاں انہیں کھلا دیں۔ گدھوں کی طرح منہ اٹھائے گھس آئے۔ تم نے اندر آنے کی جرأت کیسے کی نہ جانے کیوں مجھے ترس آگیا۔ میں نے اسے گھورا اور آہستہ سے بولا۔ گولیاں لے لیجئے۔ میری بات کا جواب دو آپ بہری ہیں کیا یہ گولیاں بھیجی گئی ہیں میرے ہاتھ آپ یہ انہیں کھلا دیں یا آپ باہر نکل جائیں، میں کھلا دوں گا۔ درشہوار کا منہ حیرت سے کھل گیا۔ وہ ایک دم خاموش ہوگئی۔ مجھے گھورتی رہی پھر مڑی اور اس کمرے سے باہر نکل گئی۔ میں نے عظیم میاں کو گولیاں کھلائیں اور پھر باہر نکل آیا۔ عجیب سا ماحول ہوگیا تھا۔ حاجی صاحب نے مجھے حکم دیا کہ آج واپس نہ جائوں، نہ جانے کس وقت عظیم میاں کی وجہ سے میری ضرورت پیش آجائے۔ میں نے گردن جھکا دی۔ پکنک سے تو تھوڑی دیر کے بعد ہی واپسی ہوگئی تھی۔ سارا مزا کرکرا ہوگیا تھا پکنک پر جانے والوں کا وقت گزرتا رہا، رات ہوگئی۔ عظیم میاں کو تیز بخار ہوگیا تھا اور اہل خانہ شدید تشویش میں مبتلا ہوگئے تھے۔ سب ان کے کمرے میں جمع تھے۔ میں باہر موجود تھا اور آج کے واقعہ کے بارے میں سوچ رہا تھا کہ ایک ملازمہ نے میرے قریب آکر کہا۔ اندر آئو تمہیں بلایا گیا ہے۔ میں اس کے ساتھ اندر داخل ہوگیا۔ ملازمہ میری رہنمائی کررہی تھی۔ ایک دروازے کے سامنے رک کر اس نے کہا۔ اندر جائو۔ دروازہ کھول کر اندر داخل ہوا۔ اندر تیز روشنی تھی اور اس روشنی میں مجھے ایک عجیب الخلقت شے نظر آئی چہرہ درشہوار کا تھا مگر اس کے پورے بدن پر بال اُگے ہوئے تھے۔ بہت سی ٹانگیں نظر آرہی تھیں۔ بدن کا انداز بدلا ہوا تھا۔ بس یوں لگتا تھا جیسے ایک بہت بڑی مکڑی کھڑی ہوگئی ہو وہ اپنی منحوس پیلی آنکھوں سے مجھے گھور رہی تھی۔ بھوریا چرن میرا پرانا دوست، یہ بھوریا چرن ہی کا رُوپ تھا مگر اس کی جھلک صرف ایک لمحے کیلئے نظر آئی، اس کے بعد وہ صرف درشہوار رہ گئی۔ اپنی اصل شکل میں آگئی تھی، شعلۂ جوالا بنی ہوئی اورآنکھوں میں سخت طیش کے آثار۔ پھر اس نے غرائی ہوئی آواز میں کہا۔ ڈرائیور تمہاری موت تمہیں اس جگہ لائی ہے، سمجھے۔ تمہارے لیے میں نے صرف یہی فیصلہ کیا ہے کہ تمہیں مر جانا چاہیے۔ میں نے زندگی میں کسی کو زخمی بھی نہیں کیا لیکن تم نے مجھے قتل جیسے بھیانک اقدام پر مجبور کر دیا ہے اور اب تم خاموشی سے مر جائو، بالکل خاموشی سے۔ اچانک درشہوار نے پستول مجھ پر تان لیا۔ یہ پستول پہلے سے اس کے ہاتھ میں چھپا ہوا تھا۔ میں ساکت کھڑا اسے گھورتا رہا۔ ابھی تو میرے ذہن سے یہ تاثر ہی ختم نہیں ہوا تھا کہ میں اسے بھوریا چرن کے رُوپ میں دیکھ چکا ہوں، وہ کچھ اور ہے کچھ اور درشہوار کا کچھ اور خیال تھا، شاید وہ سوچ رہی تھی کہ پستول دیکھ کر میں خوف سے تھر تھر کانپنے لگوں گا۔ دہشت سے میرا رنگ بدل جائے گا اور میں نہ جانے کیا اول فول بکنے لگوں گا۔ لیکن میں اسے پلک جھپکائے بغیر دیکھ رہا تھا۔ تم سمجھ رہے ہو میں گولی نہیں چلا سکتی۔ اس نے کہا۔ میں پھر بھی چپ رہا تو وہ پھر بولی۔ تمہیں موت کا خوف نہیں ہے اپنی دلیری کا سکہ جمانا چاہتے ہو مجھ پر۔ اب وہ سو فیصدی درشہوار تھی۔ اگر وہ بھوریا چرن کا رُوپ ہے، اگر وہ پورنی ہے تو دیکھ لوں گا اسے۔ اس وقت سنبھلنا ضروری ہے۔ آپ نے مجھے بلایا ہے۔ میں نے پتھریلے لہجے میں کہا۔ ہاں۔ اس نے کہا۔ کوئی کام ہے مجھ سے جو کچھ میں نے کہا ہے وہ تم نے نہیں سنا سن لیا ہے۔ تم نے مجھے بہری کہا تھا اُس وقت کہا تھا۔ میرے بارے میں تمہیں علم ہے کہ میں کون ہوں اب ہوگیا ہے۔ میں نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ کیا مطلب اس نے سخت لہجے میں سوال کیا۔ کچھ نہیں۔ مجھے تو مجھے تو تم پاگل لگتے ہو۔ میں واپس جا سکتا ہوں۔ زندہ نہیں جا سکتے سمجھے۔ تم نے اپنی حیثیت سے تجاوز کرنے کی کوشش کی ہے۔ یہاں لوگ میری صورت دیکھ کر ہکلانے لگتے ہیں اور اور تمہاری یہ جرأت تمہیں معافی مانگنا ہوگی۔ مجھے حاجی صاحب نے یہاں بھیجا تھا۔ ان کے حکم کی تعمیل مجھ پر فرض تھی۔ میرا حکم ان سے افضل ہے۔ شاید مجھے بتایا نہیں گیا۔ آج سن لیا ہے۔ سن تو لیا ہے لیکن اس پر عمل کرنے کا حکم حاجی صاحب ہی دے سکتے ہیں۔ اوہ تم تم شاید تم مرنا ہی چاہتے ہو میں تمہیں نہیں چھوڑوں گی بالکل نہیں چھوڑوں گی۔ مجھے معلوم ہے تم وہاں تم پکنک پر ہمارا پیچھا کیوں کر رہے تھے۔ پیچھا بالکل پیچھا کر رہے تھے۔ تم اس وقت وہاں کیوں موجود تھے جب عظیم صاحب گڑھے میں گرے تھے۔ مجھے علم نہیں تھا کہ وہ اتنا بڑا کارنامہ سرانجام دینے والے ہیں۔ تم نے ہماری باتیں چھپ کر سنی تھیں۔ جی سنی تھیں۔ اور اب تم وہ تمام باتیں حاجی صاحب کو بتانے کیلئے بے چین ہوگے، یہی بات ہے نا۔ میں نے چونک کر اسے دیکھا یہ باتیں تو عجیب تھیں مگر ان میں معصومیت تھی۔ اس گفتگو سے اس کی فطرت کا اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ ایک خود سر مغرور لڑکی تھی، ذہنی طور پر اس قدر برتر نہیں تھی جتنا ظاہر کرتی تھی۔ پھر مجھے جو کچھ نظر آیا کیا وہ صرف میرا واہمہ تھا۔ کوئی غلط فہمی ہوئی تھی مجھے مگر سوچنے کا وقت نہ ملا۔ اس نے پھر اپنا سوال دُہرایا تھا۔ جی نہیں میں کسی کو کچھ بتانے کا ارادہ نہیں رکھتا۔ سچ بول رہے ہو اس نے مشکوک انداز میں کہا۔ جی ہاں۔ میں نے جواب دیا۔ اگر نہ بھی بول رہے ہو تو تم میرا کچھ بگاڑ نہیں سکتے۔ اوّل تو ویسے بھی تمہاری بات پر کوئی تفتیش نہیں کرے گا پھر خود عظیم بھائی گواہی دیں گے کہ وہ خود گڑھے میں گرے تھے۔ تمہارے لیے میں اس سے بھی زیادہ گہرا گڑھا کھود دوں گی۔ میں کہہ دوں گی کہ یہ شخص مجھے بلیک میل کر رہا ہے۔ جی بہتر۔ تو اب یہاں کیوں مر رہے ہو آپ مجھے قتل کرنا بھول گئیں شاید۔ میں نے کہا۔ دفعان ہو جائو، میں دو کوڑی کے نوکروں کو منہ نہیں لگاتی۔ اس نے جھلا کر کہا اور میں اس کے کمرے سے نکل آیا۔ اس کی گفتگو کا ایک لفظ بھی ذہن پر چسپاں نہیں ہوا تھا مگر اس کے کمرے میں داخل ہو کر مجھے اس کی جو شکل نظر آئی تھی اس نے مجھے بے چین کر دیا تھا۔ اس وقت تو میرے ذہن میں دُور دُور تک بھوریا چرن کا تصور نہیں تھا پھر درشہوار مجھے ایسی کیوں نظر آئی۔ یہ رات یہیں گزری۔ عظیم میاں کی وجہ سے سب پریشان تھے لیکن صبح کو وہ بہتر ہوگئے اور پھر بتدریج ٹھیک ہونے لگے۔ شام تک وہ اُٹھ کر بیٹھ گئے تھے۔ شہاب علی کو بھی ساری صورت حال معلوم تھی۔ ان میں چچی جان اور فرحانہ بھی حاجی صاحب کی کوٹھی میں آئے تھے اور دیر تک رہے تھے۔ بہرحال یہ ڈرامہ ختم ہوگیا۔ آج دن میں دو بار درشہوار نظر آئی تھی وہی انداز تھا، وہی پُرغرور تنی ہوئی گردن تھی۔ مجھے اس وقت کے واقعہ کی حقیقت پر خود شک ہوگیا، مگر نہ جانے ایسا کیوں ہوا تھا۔ رات کو معمول کے مطابق واپس آ گیا۔ کھانا وغیرہ کھایا اور آرام سے سو گیا۔ پچھلی رات بے چین رہا تھا اس لیے نیند آ گئی۔ رات کے دو بجے تھے جب آنکھ کھل گئی، پُرسکون نیند ٹوٹ گئی۔ نہ جانے کیوں ذہن پوری طرح جاگ گیا تھا۔ چھت کو گھورتا رہا پھر بغلی کھڑکی کی طرف نگاہ اُٹھ گئی اور بری طرح اُچھل پڑا۔ کھڑکی میں ایک چہرہ نظر آیا تھا۔ خد و خال واضح نہیں تھے مگر آنکھیں روشن تھیں۔ یہ آنکھیں کینہ توزی سے مجھے گھور رہی تھیں۔ ان میں نفرت تھی اور یہ آنکھیں، یہ درشہوار کی آنکھیں تھیں، اُچھل کر بیٹھ گیا۔ کون ہے میرے حلق سے آواز نکلی اور آنکھیں فوراً غائب ہوگئیں۔ جھپٹ کر کھڑکی پر پہنچ گیا۔ یہ کھڑکی مکان کے عقب میں گلی میں کھلتی تھی۔ پرانے طرز کی موٹی سلاخیں لگی ہوئی تھیں۔ ان سے گزر کر کسی کا اندر آنا ناممکن تھا مگر وہ چہرہ، وہ آنکھیں گلی کے انتہائی سرے پر ایک سایہ نظر آیا جو فوراً غائب ہوگیا تھا۔ یقیناً کوئی بھاگتا ہوا وہاں تک پہنچا تھا مگر کون کیا درشہوار ان آنکھوں کو میں بھول نہیں سکتا تھا مگر درشہوار۔ واقعات مسلسل پُراسرار تھے۔ میرا احاطہ کئے ہوئے تھے۔ مہلت نہیں مل رہی تھی۔ سات پورنیوں میں سے ایک ہلاک ہو چکی تھی اور وہ سب کچھ رمارانی، رادھا اور کشنا ابھی تک میری عقل کوئی فیصلہ نہیں کر پائی تھی۔ صبح کو سب کچھ معمول کے مطابق ہوا۔ ذہن میں کرید تھی، زیادہ تر درشہوار کا جائزہ لیتا رہا۔ اس کی آنکھیں غور سے دیکھیں اور شبہ نہ رہا یہی آنکھیں میری نگراں تھیں مگر کیوں درشہوار کیا واقعی مجھ سے خوف زدہ ہوگئی تھی اور مجھے ہلاک کرنا چاہتی تھی۔ ممکن ہے اس نے سمجھداری سے کام لیا ہو، اگر وہ اپنے کمرے میں واقعی مجھے گولی مار دیتی تو میرے قتل کا الزام اس پر آتا اور اب وہ میری تاک میں ہو۔ اس خیال پر مجھے ہنسی آ گئی۔ اگر وہ ایسا کرنا چاہتی ہے تو ضرور کر دے۔ یہ ناپاک زندگی ختم ہو جائے۔ میں تو دل سے چاہتا تھا، یہ بے مقصد زندگی مجھے بوجھ لگتی تھی۔ خود اپنا خاتمہ کر کے اپنی عاقبت خراب نہیں کرنا چاہتا تھا۔ شام کو کسی کام سے دُرشہوار کے کمرے کے سامنے سے گزرا۔ کھلے دروازے سے اندر نگاہ گئی تو اُچھل پڑا، وہ نماز پڑھ رہی تھی۔ جائے نماز پر بیٹھی وہ مقدس اور پاکیزہ لگ رہی تھی۔ آگے بڑھ گیا اب اس کے علاوہ اور کچھ نہیں سوچ سکتا تھا کہ وہ میرا وہم تھا صرف وہم لیکن اس رات پھر اُلجھ گیا۔ کھڑکی بند کر کے سویا تھا۔ ٹھیک دو بجے تھے، آنکھ کھلی۔ کھڑکی سے وہی آتشی آنکھیں جھانک رہی تھیں۔ پورے ہوش و حواس کے عالم میں، میں نے وہ آنکھیں دیکھی تھیں۔ برق کی سی تیزی سے میں نے پلنگ سے کھڑکی کی طرف چھلانگ لگائی اور اسی تیزی سے وہ چہرہ وہاں سے غائب ہوا لیکن آج میں نے دیر نہیں کی۔ گلی طویل نہیں تھی پھر بھی وہ آدھی گلی عبور کر چکی تھی اور اس کے جسم کو دیکھ کر مجھے شبہ نہ رہا وہ درشہوار ہی تھی، سو فیصدی وہی تھی۔ دماغ گھوم کر رہ گیا یہ کیا اسرار ہے۔ حاجی صاحب کے گھر سے یہاں تک طویل فاصلہ تھا۔ وہ اتنی رات کو یہ فاصلہ عبور کر کے آتی ہے اور کھڑکی سے مجھے گھورتی ہے۔ کیوں آخر کیوں کیا چاہتی ہے وہ۔ اسے نماز پڑھتے دیکھ کر بھرم قائم ہوا تھا مگر اس وقت سب کچھ تہہ و بالا ہو گیا تھا۔ مہتاب علی صاحب سے بات کرنے کا موقع مل گیا۔ اَرواحِ خبیثہ سے متعلق کچھ معلومات ہیں آپ کو چچا جان نہ ہونے کے برابر کیوں۔ ویسے ہی مجھے کچھ دلچسپی ہے۔ ارے اس دلچسپی کی کوئی وجہ۔ کوئی خاص نہیں، بس کچھ مشاہدات۔ مثلاً۔ صرف ایک سوال کوئی مسلمان لڑکی خواہ وہ کسی بھی حیثیت کی مالک ہو، ایک خبیث رُوح کی شکل میں نظر آئے، اس کی حرکات و سکنات پُراسرار ہوں، مگر بعد میں وہ نماز پڑھتی نظر آئے تو کیا کوئی گندی رُوح اس میں حلول کر سکتی ہے۔ مسلمان لڑکی۔ شہاب علی کچھ سوچنے لگے پھر بولے۔ اس سلسلے میں میرا ایک سوال ہے۔ جی۔ تم نے خبیث رُوح کا تعین کیسے کیا۔ ایک ایسی شکل جس کے بارے میں علم ہو کہ وہ کالے جادو سے تعلق رکھتی ہے۔ کسی مسلمان لڑکی پر جن کا سایہ ہو سکتا ہے۔ اس پر سفلی عمل کر کے اسے معطل کیا جا سکتا ہے، اگر اس پر کسی جن کا سایہ ہو تو مختلف اشکال بن سکتی ہیں۔ بھیانک، خوفناک، دُوسروں کو ڈرانے کیلئے، دُور رکھنے کیلئے لیکن وہ کوئی ایسی شکل نہیں اختیار کرسکتی جس کے بارے میں علم یقینی ہو کہ اس کا تعلق کالے جادو سے ہے۔ اگر کسی بدبخت مسلمان نے ایمان کھو کر کالا جادو سیکھ لیا توہ دائرۂ اسلام سے تو اسی وقت خارج ہو گیا۔ نماز جیسی پاکیزہ شے کا تو تصور ہی اسے ہلاک کر دے گا۔ یہ تو اللہ سے رابطہ ہے اور مجال ہے کہ کوئی باطل قوت اللہ سے رابطہ کر سکے۔ اسی لمحے فنا ہو جائے گی، ہاں کوئی غلیظ قوت اس پر عارضی طور پر اثرانداز ہو سکتی ہے، جیسا کہ میں نے کہا کہ بہرحال سفلی علوم کے ذریعے کسی کو نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔ میں حیرانی سے مہتاب علی کی صورت دیکھنے لگا۔ وہ ایک ناواقف انسان تھے۔ اس بارے میں کچھ نہیں جانتے تھے لیکن اس وقت مجھے ایسا لگا تھا جیسے میرے تمام سوالات ان کے سینے میں اُتر گئے ہوں اور یہ جواب کسی اور کی زبان سے ان کے ہونٹوں سے پھوٹا ہو۔ اس جواب سے نہ صرف میری تشفی ہوئی تھی بلکہ اس جواب نے مجھے نئی فکر دی تھی، ہوشیار کیا تھا اور اب مجھے جو کچھ کرنا تھا وہ سوچ سمجھ کر کرنا تھا۔ عظیم میاں ٹھیک ہوگئے کوئی کہانی نہیں بنی۔ درشہوار سے کئی بار واسطہ پڑا، کچھ کھسکی ہوئی ہی لگتی تھی۔ مجھ سے تو کبھی سیدھے منہ بات ہی نہیں کرتی تھی بلکہ اگر اسے کبھی ڈرائیور کی ضرورت پیش آتی تو وہ دُوسرے ڈرائیور کو ترجیح دیتی تھی۔ بحالت مجبوری مجھے برداشت کر لیتی تھی۔ وہ بھی اگر دوسرے ساتھ ہوں تو، اکیلے وہ کبھی میرے ساتھ نکلتی تھی لیکن میں اب بھی پریشان تھا۔ وہ مسلسل مجھے گھورتی تھی۔ کئی بار راتوں کو وہ مجھے نظر آئی، اس وقت جب اس کے آنے کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔ کوئی تدبیر ایسی نہیں ہو سکی جس سے میں اسے پکڑ سکوں حالانکہ کئی راتیں میں نے مہتاب علی کے گھر کے پچھواڑے گلی میں گزاریں۔ ان راتوں میں وہ نہیں آئی۔ مجھے تجسس تھا۔ کئی بار میں نے اسے نماز پڑھتے ہوئے دیکھا۔ بہرحال وقت بہتر گزر رہا تھا۔ کم از کم یہاں عزت سے گزارہ ہو رہا تھا اور رزق حلال مل رہا تھا۔ مہتاب علی کے رشتے داروں کے ہاں ایک شادی کا اہتمام ہوا۔ بہت قریبی رشتہ تھا۔ ہم سب گھر والوں کے ساتھ وہاں مصروف ہوگئے۔ دن رات کا آنا جانا تھا۔ حاجی صاحب نے ان دنوں مجھے حویلی ہی میں رہنے کی ہدایت کر دی تھی اور میرے لیے انتظام بھی کر دیا تھا۔ اس وقت اتفاق سے درشہوار کو میرے ساتھ حویلی آنا پڑا۔ تقریباً ساڑھے گیارہ بجے وہ کار میں آ بیٹھی۔ گھر چلو۔ اس نے کہا۔ اور سنو راستے سے یہ دوا لینی ہے بازار سے گزرنا۔ اس نے ایک پرچہ آگے بڑھاتے ہوئے کہا۔ میں نے پرچہ لے کر رکھ لیا اور کار آگے بڑھا دی۔ پھر بازار پہنچ کر میں نے کار ایک ڈرگ اسٹور کے سامنے روکی اور دوا لینے اُتر گیا۔ دوا لے کر واپس آیا تو وہ آگ بگولا ہو رہی تھی۔ تم اس نے چنگھاڑتے ہوئے کہا۔ جی میں حیرانی سے بولا۔ دُوسرا ڈرائیور کہاں مر گیا۔ کسی اور کام سے گیا تھا۔ میں نے جواب دیا۔ تم نے بتایا کیوں نہیں کہ یہ تم ہو۔ کس طرح بتاتا۔ کیا مطلب میڈم مجھے حکم ملا تھا آپ کو گھر لے جائوں۔ آپ گاڑی میں آ بیٹھیں۔ میں نے گاڑی آگے بڑھا دی۔ اب میں آپ سے یہ کہتا کہ یہ میں ہوں آپ میرے ساتھ نہ بیٹھئے۔ بکواس مت کرو گاڑی آگے بڑھائو۔ جی میں نے کہا اور گاڑی آگے بڑھا دی۔ مجھے اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ غصے سے کھول رہی ہے۔ کچھ دیر کے بعد اس نے کہا۔ تم آخر خود کو سمجھتے کیا ہو۔ جی صرف ڈرائیور۔ اور اس دن تم نے مجھے بہری کہا تھا۔ میں اس کیلئے آپ سے معافی مانگ چکا ہوں۔ مگر یہ بات کبھی نہیں بھول سکتی میں، نہ جانے کیوں میں نے تمہیں معاف کر دیا ورنہ ورنہ۔ میں نے خاموشی اختیار کرلی۔ اس کے بعد حویلی آ گئی۔ وہ خود ہی دروازہ کھول کر اندر چلی گئی تھی۔ میں خاموش کھڑا سوچتا رہا۔ مجھے ہدایت ملی تھی کہ اس کے بعد میں حویلی میں آرام کروں۔ حویلی کے دُوسرے مکین شادی والے گھر میں تھے۔ میں اپنی رہائش گاہ پہنچ گیا۔ بستر پر لیٹ کر میں نے آنکھیں بند کرلیں۔ تقریباً پون گھنٹہ گزر گیا پھر دروازے پر دستک سنائی دی اور میں چونک پڑا۔ کون ہے جمیلہ ہوں بھیّا۔ کیا بات ہے جمیلہ۔ میں نے دروازے پر آ کر پوچھا۔ جمیلہ گھر کی ملازمہ تھی۔ چھوٹی بٹیا نے کچھ دوائیں منگوائی تھیں تم سے، وہ کہاں ہیں۔ ارے وہ تو گاڑی میں ہی رہ گئیں۔ منگوا رہی ہیں۔ گاڑی سے نکال کر انہیں پہنچا دو، کچھ طبیعت خراب ہے اس لیے شادی والے گھر سے آگئیں۔ مجھ سے یہی کہلوایا ہے۔ ابھی پہنچاتا ہوں۔ میں نے کہا۔ گاڑی کی چابی تکیئے کے سرہانے تھی۔ پلٹ کر چابی نکالی اور باہر آ گیا۔ ملازمہ جا چکی تھی اس میں میرا کوئی قصور نہیں تھا۔ اس نے روشنی میں مجھے دیکھتے ہی بکنا جھکنا شروع کر دیا تھا اور میں اسے اس کی منگوائی ہوئی دوائیں دینا بھول گیا تھا۔ وہ گاڑی میں ڈرائیونگ سیٹ کے برابر والی سیٹ پر رکھی رہ گئی تھیں۔ گاڑی سے دوائیں نکال کر میں اس کے کمرے کی طرف بڑھ گیا۔ اندازہ تھا کہ وہ کیا کہے گی۔ دروازہ آہستہ سے بجایا اور اندر سے آواز سنائی دی۔ آ جائو۔ میں دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگیا۔ کمرے میں تیز روشنی تھی۔ وہ رات کے لباس میں ملبوس مسہری پر نیم دراز تھی اور مسکرا رہی تھی۔ ایک لگاوٹ بھری مسکراہٹ۔ آگے آئو۔ اس نے کہا اور میں آگے بڑھ گیا۔ میری طرف دیکھو۔ اس کی نشہ آلود آواز اُبھری۔ میں نے نظریں اُٹھائیں اور جھکا لیں وہ کچھ عجیب نظر آ رہی تھی۔ جی۔ میں گھبرائے ہوئے لہجے میں بولا۔ یہ ہاتھ میں کیا ہے۔ دوائیں۔ یہاں رکھ دو آئو بیٹھو۔ میں نے اس کے اشارے پر دوائیں رکھ دیں اور پھر واپسی کیلئے مڑا مگر جانے کب، نہ جانے کیسے وہ اپنی جگہ سے اُٹھ کر میرے سامنے آگئی۔ مجھے احساس تک نہ ہوا تھا۔ کہاں جا رہے ہو۔ مجھے کہاں جانا چاہیے۔ چلے جانا گھر میں کوئی نہیں ہے۔ مجھے اکیلے ڈر لگے گا۔ آئو کچھ دیر بیٹھو آئو نا۔ اس نے کہا اور میرے دماغ میں غصّے کا طوفان اُمنڈ آیا۔ میں نے اسے زور سے جھٹکا دیا مگر اس نے میرا ہاتھ مضبوطی سے پکڑا تھا۔ امر کر دوں گی، سنسار میں تمہارے جیسا کوئی نہ ہوگا۔ سب تمہارے پیروں تلے بچھ جائیں گے، بس مجھے سوئیکار کر لو مجھے سوئیکار کر لو۔ اس نے کہا اور میرا دل دہشت سے دھڑک اُٹھا۔ پورنی دُوسری پورنی ایک مسلمان لڑکی کے رُوپ میں میری نگاہیں بے اختیار اس کے ہاتھوں پر پڑیں مگر اس کے ہاتھوں میں صرف پانچ پانچ اُنگلیاں تھیں۔ صرف پانچ اُنگلیاں میں ایک دم سنبھل گیا بڑی ڈھارس ہوئی تھی۔ اس نے پھر کچھ کہا اور مجھے گھسیٹنا چاہا مگر میرا زناٹے دار تھپڑ اس کے گال پر پڑا اور وہ چیخ کر نیچے گر پڑی۔ مجھے اب یقین ہوگیا تھا کہ وہ پورنی نہیں ہے اس لئے ہمت بڑھ گئی۔ میں نے نفرت بھرے لہجے میں کہا۔ میں نہیں جانتا یہ سب کیا ہے لیکن لیکن مجھ میں ہمت ہے ہر طرح کے حالات کا مقابلہ کرنے کی تم مجھے زیر نہیں کر سکتیں۔ میں مالک کا وفادار کتّا ہوں، میں رزق حلال کھائوں گا سمجھیں۔ مجھے سوئیکار کر لو مجھے وہ پھر اُٹھ گئی مگر اس بار میں نے اس کی گردن دبوچ لی تھی۔ مگر ایسے نہیں جیسے میں نے کشنا کی گردن دبوچی تھی۔ میں نے گردن پر ہلکا سا دبائو ڈال کر اسے بے ہوش کر دیا تھا۔ جب اس کا بدن بے سدھ ہوگیا تو میں نے اسے اُٹھا کر پلنگ پر ڈال دیا۔ سانس پھول گیا تھا، بُرا حال ہو رہا تھا۔ ایک آہٹ سی ہوئی اور میرا رُواں رُواں کانپ گیا۔ کوئی آ گیا اور اب اب ایک دم گھوم کر دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی۔ بڑی مشکل سے گردن گھمائی اور آنے والے کو دیکھا۔ بھوریا چرن تھا۔ ہنس رہا تھا۔ اپنی تمام شیطانی صفات کے ساتھ میرے سامنے تھا وہ۔ پورنی ماری ہے رے بہادر سورما۔ واہ رے مالک کے وفادار کتّے۔ ارے تے نے مالک کی بٹیا مار ڈالی اور خود کو کہے ہے مالک کا وفادار کتّا ارے وہ پورنی نا ہے ہوشیار۔ تورے مالک کی لونڈیا ہے۔ بھوریا چرن ۔ میں نے سرد لہجے میں کہا۔ چھوڑیں گے نا تجھے حرام کھور۔ جیون کھراب کر دیا ہے تے نے ہمارا۔ تیرے جیون کو شانتی نا لینے دیں گے ہم وچن دیا ہے ہم نے بھی اپنے آپ کو۔ یہاں کیوں آیا ہے۔ تیرا رزق حلال بھنڈ کرنے ہم تو رہیں ہی تیری ناک میں ہیں۔ سات پورنیوں میں سے ایک مار دی تے نے۔ ارے بدنصیب کسی سے پوچھ تو لیتا پورنی کا ہووے ہے۔ سارا جیون تیاگ دیں ہیں رشی منی ایک پورنی پانے کیلئے۔ ہم نے توکا سات دے دیں اور تے ان کا مارت ہے۔ ان کا دیا نہ کھائے ہے نہ پیئے ہے۔ کبھی مانگ تو سنسار میں کچھ ان سے۔ مہاراجہ بنا دیں گی تجھے، پر تیرا نصیب ہی بھنڈ ہے۔ کتّے جیسی درگت ہوگئی تیری پر اب بھی دھرم کی لاٹھی اُٹھائے ہوئے ہے۔ ایک پورنی مار دی تے نے۔ ہم سمجھ گئے کسی نے توکا بھٹکائی دیا تب ہم نے یہ سوچا کہ اب توکا سبق دئی ہیں۔ ہم نے تیرے مالک کی لونڈیا کو بگاڑا اور تے سمجھا او پورنی ہے۔ اب بیٹا آگے دیکھ ملے گا توکا رزق حلال سب مار مار کر تیرا بھرکس نہ نکال دیں تو ہمارا نام نا ہے۔ کھا رزق حلال وہ مڑا اور باہر نکل گیا۔ میرا دل دھاڑ دھاڑ کر رہا تھا۔ تیزی سے دروازے سے نکل کر دیکھا وہ غائب ہو چکا تھا۔ واپس درشہوار کے پاس آیا۔ میرا اندازہ دُرست نکلا تھا۔ آہ بھوریا چرن کو یہ معلوم نہیں تھا کہ میں پورنیوں کی پہچان جانتا ہوں، وہ یہ بات نہیں جانتا تھا۔ درشہوار گہری گہری سانسیں لے رہی تھی۔ اسے سنبھال کر لٹایا۔ اسے کوئی نقصان نہیں پہنچا تھا۔ خدایا تیرا شکر ہے۔ اللہ تیرا احسان ہے۔ میں نے دل میں کہا۔ اس وقت باہر شور سنائی دیا اور پھر دروازے سے بہت سی آوازیں اُبھریں۔ حویلی کے ملازم تھے۔ کیا بات ہے کیا شور تھا ڈرائیور صاحب ایک ملازم نے مجھے مشکوک نظروں سے دیکھتے ہوئے پوچھا۔ شور، کہاں میں نے حیرت سے کہا۔ چھوٹی بٹیا کیوں چیخ رہی تھیں۔ وہ تو ایک بار بھی نہیں چیخیں۔ تمہیں دھوکا ہوا ہے لیکن وہ شاید بے ہوش ہوگئی ہیں۔ بے ہوش بہت سی آوازیں اُبھریں۔ ہاں۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو۔ ایک معمر ملازم نے پوچھا۔ یہ دوائیں لے کر آیا تھا۔ اس وقت۔ ہاں میں تو اپنے کمرے میں تھا۔ جمیلہ نے کہا تھا کہ چھوٹی بی بی دوائیں منگوا رہی ہیں۔ میں گاڑی سے دوائیں لے کر یہاں آیا تو انہیں بے ہوش دیکھا۔ مگر ہم ان کے شور کی آوازیں سن کر آئے ہیں۔ ملازم عورتیں درشہوار کے پاس آ کر اسے ٹٹولنے لگیں۔ ملازموں کو مجھ پر شک ہوگیا تھا۔ معمر ملازم حیات خان نے دو ملازموں سے کہا کہ وہ شادی والے گھر جا کر درشہوار بی بی کے بے ہوش ہونے کی اطلاع دیں اور حاجی صاحب کو بلا لائیں۔ وہ دونوں چلے گئے تو ملازم عورتوں کو درشہوار کی خبرگیری کرنے کیلئے کہا اور مجھ سے بولا۔ آئو باہر آ جائو میں باہر نکل آیا۔ تب وہ مجھ سے سے بولا۔ ڈرائیور صاحب برا مت ماننا۔ میں بیس سال سے اس گھر کا نمک کھا رہا ہوں۔ بڑا فرض ہے مجھ پر۔ اس حویلی کی حفاظت کا کام مجھے ہی دیا گیا ہے۔ ڈرائیور صاحب، ہمیں چھوٹی بٹیا کی چیخیں سنائی دیں۔ ہم یہاں پہنچے تو وہ ہمیں بے ہوش ملیں اور تم ان کے کمرے میں، ہمیں تم پر شک ہوگیا ہے۔ اس لیے جب تک مالک نہ آ جائیں تم ہمارے ساتھ رہو گے کہیں جائو گے نہیں۔ میں کہیں نہیں جا رہا حیات بابا۔ اپنے کمرے میں چلو۔ حیات خان نے کہا اور میں خاموشی سے اپنے کمرے میں آ گیا۔ حیات خان نے دُوسرے ملازموں کی ڈیوٹی لگائی۔ کچھ کو میرے کمرے کے سامنے میری نگرانی کے لیے چھوڑا کچھ کو باہر ڈیوٹی پر لگا دیا اور پھر خود کمرے میں آ گئے۔ جی حیات بابا میں نے انہیں بیٹھتے دیکھ کر کہا۔ کچھ نہیں ڈرائیور صاحب۔ آپ یہاں کیسے بیٹھے ہیں وہ بس ذرا بڑے مالک آ جائیں۔ آپ فوراً باہر چلے جایئے۔ اس کمرے کے دروازے کے باہر بیٹھ کر آپ اپنا حق نمک ضرور ادا کریں، مجھے اعتراض نہیں۔ تم برا مان گئے ڈرائیور صاحب۔ دراصل حیات خان، فوراً باہر نکل جائو۔ میں نے کرخت لہجے میں کہا اور حیات خان اُٹھ گئے۔ مجھے ان کا یہاں رُکنا بہت بُرا لگا تھا۔ ان کے باہر نکلنے کے بعد میں نے دروازہ بند کر لیا تھا۔ اور پھر میں اس بارے میں سوچنے لگا۔ بڑی خطرناک چال چلی تھی بھوریا چرن نے۔ خدانخواستہ اگر میں اسے پورنی سمجھ کر ہلاک کر دیتا۔ بڑا رحم ہوا تھا مجھ پر، اوّل تو مجھے پورنیوں کی اہم شناخت بتا دی گئی تھی۔ دوم مہتاب علی سے ہونے والی گفتگو نے مجھے سوچنے کا موقع دیا تھا۔ بستر پر لیٹ گیا۔ سوچتا رہا پھر نیند آ گئی۔ صبح ہی آنکھ کھلی تھی۔ رات کے واقعات یاد آئے اور دل دھک دھک کرنے لگا۔ اندازہ لگانے کیلئے دروازے پر پہنچا۔ دروازہ کھول کر باہر جھانکا، کوئی نہیں تھا۔ مگر بہت دُور کچھ فاصلے پر جمیلہ کی جھلک نظر آئی تھی۔ منہ ہاتھ وغیرہ دھو کر فارغ ہوا تھا کہ جمیلہ تیزی سے آتی نظر آئی۔ میرے قریب پہنچ کر بولی۔ بڑے مالک بلا رہے ہیں ڈرائیور صاحب حاجی فیاض صاحب اپنے کمرے میں تھے۔ ایک سمت حیات خان کھڑا ہوا تھا۔ میرے سلام کا جواب دے کر حاجی صاحب بولے۔ مسعود میاں۔ وہ رات کو کچھ غلط فہمی ہوگئی تھی حیات خان کو۔ تم سے کچھ بدتمیزی کر بیٹھے یہ۔ درشہوار بی بی کی طبیعت اب کیسی ہے۔ میں نے بے اختیار پوچھا۔ ٹھیک ہے، کوئی بات بھی نہیں تھی دراصل وہ زیادہ رش سے گھبرا جاتی ہے۔ اعصابی دبائو کا شکار ہو گئی تھی۔ سب بالکل ٹھیک ہے۔ جی حیات خان رات کے واقعے پر شرمندہ ہیں تم سے معافی مانگنا چاہتے ہیں۔ کوئی بات نہیں ہے۔ ان کا شک دُور ہوگیا۔ جی ڈرائیور صاحب ہم شرمندہ ہیں۔ میں نے آپ کی وفاداری کا بُرا نہیں مانا۔ بات ختم ہوگئی، شادی کے ہنگامے ابھی باقی تھے۔ وہ دن گزر گیا دُوسرے دن دوپہر کو درشہوار نے مجھے بلایا۔ اس وقت بھی تمام لوگ وہیں گئے ہوئے تھے۔ میں نے دو چکر لگائے تھے اور آخر میں مجھے شام کو درشہوار کو لے کر جانا تھا جس کیلئے ہدایت کر دی گئی تھی۔ میں اس کے کمرے میں پہنچ گیا۔ جی چھوٹی بٹیا یہ پتہ رکھ لو مسعود۔ تھوڑی دیر کے بعد یہاں چلے جانا ، میری دوست صفیہ تمہارے ساتھ یہاں آ جائے گی۔ شام کو اسے ہمارے ساتھ جانا ہے۔ میں نے کاغذ لے لیا۔ پڑھ سکتے ہو جی ہاں کوئی پونے گھنٹے جانا۔ جی بہتر میں بیٹھا تو اس نے مجھے پھر پکارا۔ سنو اور میں رُک گیا۔ جلدی ہے جانے کی جی نہیں۔ مجھ سے بات کرنا پسند کرو گے اس نے عجیب سے لہجے میں پوچھا اور میں چونک کر اسے دیکھنے لگا۔ درشہوار کا لہجہ بدلا ہوا تھا۔ حکم دیجئے میں نے تم سے بہت بدتمیزی کی ہے۔ بہت سختی سے پیش آئی ہوں تمہارے ساتھ، مجھے اس پر شرمندگی ہے۔ میں تم سے معافی مانگنا چاہتی ہوں مسعود نہیں چھوٹی بی بی۔ آپ میرے مالک کی بیٹی ہیں۔ مگر تم فرشتہ صفت انسان ہو۔ مسعود میری کیفیت کے بارے میں کچھ بتائو گے۔ جی پلیز مجھے بتائو، مجھے ایک ایک لمحہ یاد ہے۔ مجھے یاد ہے میں تم سے کیا کہہ رہی تھی۔ میں بہت بے باک ہوگئی تھی مسعود۔ مگر خدا کی قسم میں اپنے حواس میں نہیں تھی۔ مجھے یوں لگتا تھا جیسے کوئی انجانی قوت میرے وجود میں داخل ہوگئی ہو۔ وہی مجھ سے یہ سب کہلوا رہی ہو۔ میں اس کے ہاتھوں بے بس ہوگئی تھی۔ کیا تم میری باتوں پر یقین کر سکو گے کیوں نہیں۔ آپ سچ کہہ رہی ہوں گی۔ اس نے مجھے بے بس کر دیا تھا مگر مسعود تم نے مجھے بچا لیا۔ خدا تمہیں اس کا اَجر دے۔ اب آپ ٹھیک ہیں ہاں وہ شرمندہ لہجے میں بولی، پھر اس نے کہا۔ تم نے کسی سے اس کا تذکرہ تو نہیں کیا نہیں۔ آئندہ بھی مت کرنا، تمہارا احسان ہوگا مجھ پر۔ آپ بالکل اطمینان رکھیں۔ تم بہت شریف انسان ہو، تم نے میرا ہر راز راز رکھا ہے۔ بس میری طبیعت بہت چڑچڑی ہے۔ نہ جانے کیوں ہر بات پر بہت جلد غصہ آ جاتا ہے۔ لوگ بھی تو مجھے چڑاتے ہیں۔ تم عظیم کے بارے میں جانتے ہو کیا مجھے اس سے منسوب کیا جاتا ہے۔ حاجی صاحب کی عقل خبط ہوگئی ہے، وہ گوشت اور ہڈیوں کا پہاڑ۔ عقل سے عاری انسان میری تقدیر کا مالک بنایا جا رہا ہے۔ مجھے ساری زندگی کے عذاب میں گرفتار کیا جا رہا ہے۔ کیسے دماغ پر قابو رکھوں، یہ تصور ذہن میں آتا ہے تو خون خرابہ کرنے کو جی چاہتا ہے۔ دیکھو نا کیسی زبردستی ہے، میرے سانس بھی مجھ سے چھینے جا رہے ہیں۔ دل چاہتا ہے کہ کسی طرح وہ اس دُنیا سے چلا جائے یا میں۔ میرا خیال ہے حاجی صاحب آپ پر اپنا فیصلہ مسلط نہیں کریں گے۔ ارے تم انہیں نہیں جانتے، بڑے عجیب و غریب انسان ہیں وہ۔ خدا کرے ایسا نہ ہو۔ میرا دل ہلکا ہوگیا ہے تم سے معافی مانگ کر، مجھ سے تمہارے بارے میں پوچھا گیا تھا۔ کیا اس بے وقوف حیات خان نے تم پر شک کیا تھا، میں نے خود بھی اسے خوب ڈانٹا ہے، کچھ ضرورت سے زیادہ ہوشیار بنتا ہے وہ۔ وفادار ہے۔ جانوروں سے زیادہ، ارے ہاں مسعود تم کتنے لکھے پڑھے ہو ضرورت کے مطابق۔ لکھنے پڑھنے کا کام نہیں کر سکتے کر سکتا ہوں۔ پھر ڈرائیور کیوں ہو یہ بھی کام تو ہے۔ تم نے اپنی خوشی سے اپنایا ہے حاجی صاحب نے حکم دیا تھا۔ میں ان سے بات کروں گی، اب تم جائو ایک بار پھر تمہارا شکریہ۔ میں باہر آ گیا، مجھے خود بھی خوشی تھی۔ شادی کے ہنگامے ختم ہوگئے، زندگی معتدل ہوگئی مجھے درشہوار سے ہونے والی گفتگو یاد بھی نہ رہ گئی تھی لیکن حاجی صاحب نے مجھے بلایا۔ مسعود تم کھاتے وغیرہ دیکھ سکتے ہو۔ کاروباری پارٹیوں سے مل سکتے ہو انہوں نے پوچھا۔ آپ جو حکم دیں گے کروں گا۔ نہیں میرا مطلب ہے تم پڑھے ہوئے ہو نا۔ جی ہاں۔ کمال ہے اس بات پر غور نہیں کیا تھا میں نے، مہتاب علی بھی خوب ہیں کل میں تمہیں دفتر لے جائوں گا۔ دُوسرے دن وہ مجھے اپنے ساتھ دفتر لے گئے۔ اپنے منیجر نوشاد مجید کو بلایا اور مجھے اس سے ملواتے ہوئے کہا۔ نوشاد میں انہیں تمہارا اسسٹنٹ بنا رہا ہوں، انہیں پورا کام سکھائو۔ تم بہت دنوں سے ایک اسسٹنٹ کی فرمائش کر رہے تھے۔ نوشاد کوئی سال کی عمر کا خوش شکل آدمی تھا، بعد میں وہ خوش مزاج بھی ثابت ہوا۔ اب میں اس کے ساتھ ہی بیٹھتا تھا۔ دفتر کے بہت سے کام میں نے سنبھال لیے تھے۔ میری تنخواہ میں اضافہ کر دیا گیا تھا اور سب سے زیادہ مہتاب علی اس بات سے خوش ہوئے تھے۔ کوٹھی سے اب کوئی رابطہ نہیں رہا تھا اس لیے ادھر بالکل جانا نہیں ہوتا تھا البتہ یہ بھی جانتا تھا کہ یہ سب کچھ مہربانی سے ہوا ہے۔ اس دن حاجی صاحب خاص طور سے دفتر آئے انہوں نے نوشاد سے کہا۔ نوشاد وہ رانی مہاوتی کی ساڑھیاں بالکل تیار ہوگئی ہیں۔ جی حاجی صاحب رگھبیر نے مجھے آج ہی خبر دی ہے۔ تم نے دیکھ لیں ابھی نہیں۔ کل صبح کارخانے چلے جائو، آخری نگاہ ڈال کر انہیں پیک کرا دو، اور پھر بھٹنڈہ چلے جائو، رانی صاحبہ کا آدمی دو بار آ چکا ہے اب دیر نہیں ہونی چاہئے۔ جی حاجی صاحب۔ بلکہ مسعود کو بھی ساتھ لے جائو، ایسے کاموں سے ان کی واقفیت ضروری ہے۔ بہت بہتر۔ حاجی صاحب کے جانے کے بعد نوشاد نے کہا۔ چلو اچھا ہے سیر و تفریح بھی ہو جائے گی، بہت دن سے بنارس سے باہر جانا نہیں ہوا۔ جی نوشاد صاحب۔ یار ایک تو تمہاری یہ سعادت مندی سے مجھے چڑ ہے۔ میں تمہیں دوست بنانا چاہتا ہوں مگر تم صرف ماتحت بننے پر تلے ہوئے ہو۔ ماتحت تو میں ہوں نوشاد صاحب۔ گویا دوست نہیں بن سکتے یہ آپ کی مہربانی ہے۔ تو برادرم یہ مہربانی قبول کر لو۔ ویسے دورے بڑے دلچسپ ہوتے ہیں، ہمارا مال تو پورے ہندوستان میں سپلائی ہوتا ہے مگر ایسی رانیوں اور راجکماریوں کے آرڈر بھی آتے رہتے ہیں جو چاہتی ہیں کہ ان کے لباس پورے ہندوستان میں منفرد ہوں اوریہ ڈیزائن صرف ان کیلئے بنائے جائیں۔ آنکھیں بند کر کے قیمت دیتی ہیں، ہمیں کیا اعتراض ہو سکتا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارے جو عیش ہوتے ہیں وہ منافع میں۔ جاری ہے
null
null
null
null
412
https://www.urduzone.net/raaz-episode-2/
جی بالکل فیصل مسکرا کر بولا۔ زیبا، عنیزہ کے ساتھ ٹیبل کے سامنے والی کرسی پر بیٹھ گئی۔ سر آپ نے گزشتہ ہفتے اشتہار دیا تھا کہ آپ کو ماڈل گرل کی ضرورت ہے، یہ میری دوست عنیزہ ہیں۔ یہ ماڈلنگ کے لئے آئی ہیں۔ زیبا نے آنے کا مقصد بیان کیا۔ سوری زیبا میں اس کمرشل کے لئے ماڈل فائنل کرچکا ہوں۔ فی الحال مجھے کسی ماڈل کی ضرورت نہیں پھر بھی میں ان کا اسکرین ٹیسٹ اور فوٹو شوٹ کروا لیتا ہوں۔ آئندہ کسی کمرشل کے لئے مجھے ان کی ضرورت ہوئی تو میں رابطہ کرلوں گا۔ فیصل نے کہا۔ عنیزہ کے چہرے پر اداسی چھا گئی۔ چند لمحوں بعد وہ فیصل کے کمرے سے نکل رہی تھیں کہ زیبا کی نظر مراحم پر پڑی۔ مراحم اس ایڈورٹائزنگ ایجنسی میں اچھے عہدے پر فائز تھا، ساتھ ہی وہ رائٹر بھی تھا۔ زیبا نے اپنے آنے کا مقصد بتاتے ہوئے مراحم سے عنیزہ کا تعارف کرایا۔ آیئے میرے ساتھ مراحم یہ کہتے ہوئے اپنے آفس کی جانب بڑھ گیا۔ زیبا، عنیزہ کو ساتھ لے کر مراحم کے روم میں داخل ہوئی۔ آپ اس فیلڈ میں کیوں آنا چاہتی ہیں مراحم نے بیٹھنے کا اشارہ کرکے پوچھا۔ سر اس فیلڈ میں آنا میری ضرورت اور شوق ہے۔ میرے بہت سے خواب ہیں جو میں اس فیلڈ کے ذریعے پورے کرنا چاہتی ہوں۔ کیسے خواب مراحم نے دلچسپی لیتے ہوئے سوال کیا۔ مالی آسودگی اور دنیا دیکھنے کا شوق بچپن سے مجھے ٹریولنگ کا شوق ہے۔ غربت کی وجہ سے میں ایک شہر سے دوسرے شہر نہیں جاسکی۔ میں محنت کرکے اپنی تقدیر بدلنا چاہتی ہوں۔ سر آپ کوشش کریں کہ اسے کوئی کمرشل یا ایکٹنگ کا چانس مل جائے۔ مراحم سوچ میں پڑگیا۔ پھر بولا۔ زیبا میرے ایک جاننے والے ٹیلی فلم بنا رہے ہیں۔ میں ان سے بات کرتا ہوں، ہوسکتا ہے ان کی فلم میں عنیزہ کے لئے کوئی رول نکل آئے۔ عنیزہ تم اپنا موبائل نمبر انہیں دے دو۔ زیبا بولی۔ زیبا کے کہنے پر عنیزہ نے مراحم کو اپنا نمبر دے دیا ساتھ ہی مراحم کا نمبر اپنے موبائل میں سیو کرلیا۔ تھوڑی دیر بعد عنیزہ، زیبا کے گھر جارہی تھی۔ زیبا نے اس کے لٹکے چہرے کو دیکھا تو بولی۔ عنیزہ ڈیئر اس فیلڈ میں قدم جمانا اتنا آسان نہیں، جتنا تم سمجھ رہی ہو۔ اس معاملے میں، میں تمہاری جتنی مدد کرسکتی تھی، کررہی ہوں۔ آگے تمہاری قسمت زیبا سب کچھ قسمت پر چھوڑ دینا بھی مناسب نہیں۔ انسان اپنے عمل سے بھی قسمت بناتا ہے۔ تم بھی جب گھر سے نکلی تھیں تو اپنی واپسی کی تمام کشتیاں جلا کر آئی تھیں۔ ہاں اسی لئے میں نے اپنی کامیابی کے لئے وہ سب کچھ کیا جو میں کرنا نہیں چاہتی تھی۔ وہ تو میرا مقدر اچھا تھا کہ مجھے چانس مل گیا۔ علی شیر نے مجھے ایک کمرشل میں دیکھا اور میں اسے اتنی پسند آئی کہ اس نے مجھے پرپوز کردیا۔ میں اس کی تیسری بیوی ہوں، اس نے مجھے بڑی شان سے رکھا ہے۔ چند لمحے توقف کے بعد زیبا بولی۔ تم بتائو تمہاری واپسی کا کب تک ارادہ ہے زیبا کے اس سوال پر عنیزہ کو شدید جھٹکا لگا۔ ابھی اسے آئے ہوئے دو دن ہوئے تھے اور زیبا اس سے واپسی کا پوچھ رہی تھی۔ زیبا ابھی میں واپس نہیں جانا چاہتی۔ سر مراحم نے وعدہ کیا ہے کہ وہ مجھے کام دلانے میں مدد کریں گے۔ ہوسکتا ہے ایک دو روز میں وہ مجھ سے رابطہ کریں، ایسے میں میرا واپس آنا ممکن نہیں ہوگا۔ امی کا ارادہ بدل بھی سکتا ہے۔ عنیزہ نے ایک آس کے تحت کہا۔ زیبا بتائو میں کیا کروں کہ مجھے چانس مل جائے میرا مشورہ مانو تو مراحم صاحب کی نظروں میں رہو۔ جب تک تم یہاں ہو، روز ان کے آفس کا چکر لگائو۔ ہوسکتا ہے کہ وہ تم پر مہربان ہوجائیں اور تمہیں کام دلوا دیں۔ زیبا نے سوچتے ہوئے کہا۔ کیا خیال ہے کل ہم پھر ان سے ملاقات نہ کرلیں عنیزہ نے کہا۔ ہاں ضرور تم چلی جانا، مجھے کل ایک ضروری کام ہے، میں تمہیں ڈراپ کردوں گی۔ زیبا میں اکیلے کیسے ان سے بات کروں گی۔ میری تو ہمت نہیں ہوگی۔ عنیزہ گڑبڑا گئی۔ اپنے اندر ہمت پیدا کرو۔ مجھے دیکھو اکیلے گھر سے نکلی تھی۔ خالہ کے گھر پناہ لیتے ہوئے سخت جدوجہد کی تھی۔ ماڈلنگ میں چودہ پندرہ سال کی لڑکیاں آتی ہیں اور بہت کانفیڈنٹ ہوتی ہیں، تم تو بائیس سال کی ہو، اپنے اندر ہمت پیدا کرو۔ ٹھیک ہے۔ میں نے فیصلہ کیا ہے کہ میں ہفتے دس دن یہاں رہ کر چانس حاصل کرنے کی کوشش کروں گی اور اس دوران مراحم صاحب سے رابطے میں رہوں گی۔ ہوسکتا ہے مجھے چانس مل جائے۔ عنیزہ بولی۔ ہاں ضرور لوگ تو سالوں چکر لگا کر کام حاصل نہیں کر پاتے۔ تم چاہو تو اس سے زیادہ دن بھی رک سکتی ہو، کوشش کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ تھینک یو میں تمہاری احسان مند ہمیشہ رہوں گی۔ عنیزہ نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا۔ زیبا آہستہ سے مسکرا دی۔ ٭ ٭ ٭ پانچ دن بعد عنیزہ، مراحم کے ساتھ ٹیلی فلم کے ڈائریکٹر اعظم کے پاس موجود تھی۔ آپ نے پہلے ایکٹنگ کی ہے اور نہ ماڈلنگ کیمرے کو فیس کرنا آپ کے لئے خاصا مشکل ہوگا۔ ڈائریکٹر اعظم نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ سر آپ مجھے چانس دیجئے۔ میں اداکاری کرسکتی ہوں، اسکول اور کالج کے دور میں، میں ایکٹنگ کرتی رہی ہوں۔ عنیزہ نے پرجوش لہجے میں کہا۔ اعظم گہرا سانس لیتے ہوئے بولا۔ اگر آپ سمجھتی ہیں کہ آپ یہ کام کرلیں گی تو میں آپ کو ایک موقع ضرور دوں گا۔ کیا تعلیم ہے آپ کی بی کام میری انگریزی بہت اچھی ہے۔ گھریلو مجبوریوں کے باوجود میں نے بڑی مشکل سے تعلیم جاری رکھی ہے۔ ابو کی وفات کے بعد سے ہمارے مالی حالات بہت خراب رہے ہیں۔ اچھا ٹھیک ہے۔ اعظم ہاتھ بلند کرتے ہوئے بولا۔ میں سمجھ گیا کہ آپ کے کیا حالات ہیں۔ آپ کا آڈیشن لے لیتے ہیں، اگر آپ کامیاب ہوگئیں تو پیر سے شوٹنگ پر آجایئے گا۔ عنیزہ کے چہرے پر اطمینان کی لہر دوڑ گئی۔ کچھ دیر بعد اس کا آڈیشن ہوا جس میں وہ کامیاب ہوگئی۔ ڈائریکٹر اعظم کے آفس سے رخصت ہوتے ہوئے خوشی اس کے چہرے پر نمایاں تھی۔ ساتھ ہی وہ مراحم کی ممنون تھی جس کی بدولت اسے یہ چانس ملا تھا۔ عنیزہ جلد ازجلد گھر پہنچ کر امی اور زیبا کو یہ خوشخبری سنانا چاہتی تھی۔ کیا خیال ہے کسی اچھے ریسٹورنٹ میں جاکر چائے پی جائے مراحم نے کار اسٹارٹ کرتے ہوئے پوچھا تو عنیزہ انکار نہ کرسکی۔ تھوڑی دیر بعد وہ مراحم کے ساتھ ریسٹورنٹ میں بیٹھی چائے سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ مراحم نے عنیزہ کو اپنے بارے میں تفصیل سے بتایا۔ اچھا آپ شادی شدہ ہیں آپ کو دیکھ کر تو نہیں لگتا کہ آپ شادی شدہ ہوں گے۔ آپ اپنی وائف کے پاس ہالینڈ کیوں نہیں چلے جاتے عنیزہ نے مراحم کی گفتگو سننے کے بعد کہا۔ میں یہاں اچھا خاصا سیٹ ہوں۔ باہر سیٹل ہونا میری خواہش کبھی نہیں رہی۔ میں نے اپنی بیوی کو ہر طریقے سے سمجھا کر دیکھ لیا، مگر وہ انتہائی ضدی اور خودسر ہے۔ وہ اپنے والدین کے پاس ہالینڈ چلی گئی ہے اور مجھ پر دبائو ڈال رہی ہے کہ میں بھی اس کے پاس آجائوں۔ اس کی حرکتوں کی وجہ سے میں تو ڈسٹرب ہوں ہی، میری والدہ بھی بہت پریشان ہیں۔ مراحم کی بات سن کر عنیزہ اسے تسلی دینے لگی۔ بظاہر وہ مراحم کی گفتگو بڑے دھیان سے سن رہی تھی، مگر اندر سے بیزار ہورہی تھی۔ ایک گھنٹے بعد مراحم نے عنیزہ کو زیبا کے گھر پر ڈراپ کردیا۔ صبا بانو کو عنیزہ نے گھر میں داخل ہوتے ہی چانس ملنے کی خوشخبری سنائی۔ صبا بانو خوش ہونے کے باوجود اداس ہوگئیں۔ آنٹی آپ کو خوشی نہیں ہوئی،آپ کی بیٹی کو اتنا بڑا چانس مل گیا زیبا نے ان کے چہرے کو بغور پڑھنے کے بعد کہا۔ خوشی تو ہے کہ ہمارے حالات بہتر ہوجائیں گے، رمیعہ اور اس کے بچوں کی عنیزہ کی بدولت کفالت ہوجائے گی، مگر ساتھ ہی یہ بات سوچ کر دل اداس ہورہا ہے اس فیلڈ سے وابستہ لڑکیوں کو اچھا نہیں سمجھا جاتا۔ امی آپ نے پھر وہی باتیں شروع کردیں۔ زمانہ بدل گیا ہے، میں کوئی ایسا کام نہیں کروں گی جس پر آپ کو پشیمانی ہو۔ زیبا بتا چکی ہے کہ مجھے کس قدر محتاط رہنے کی ضرورت ہے۔ بس آپ فکر نہ کریں، میری خوشی کو سیلیبریٹ کریں۔ عنیزہ کی بات سن کر صبا بانو نے زبردستی اپنے چہرے پر مسکراہٹ پھیلا لی۔ ٭ ٭ ٭ پیر کے دن عنیزہ کو دوپہر کے تین بجے اعظم کے پاس پہنچنا تھا۔ وہ تین بجے سے پہلے ہی شوٹنگ پر پہنچ گئی۔ اعظم نے مسکرا کر ہاتھ پر بندھی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ ویری گڈ آپ وقت کی پابند ہیں۔ میں خود بھی وقت کا پابند ہوں اور ان لوگوں کو پسند کرتا ہوں جو میری طرح وقت پابندی کریں۔ آپ کو میری طرف سے اس بارے میں کوئی شکایت نہیں ہوگی۔ عنیزہ نے ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ اس وقت بھی جب آپ ایک نامور اسٹار بن جائیں گی۔ بالکل آپ دیکھ لیجئے گا۔ عنیزہ نے پراعتماد لہجے میں کہا۔ ٹھیک ہے، وقت آنے پر دیکھ لیں گے۔ اعظم نے مسکرا کر کہا اور اپنے ساتھیوں کو ہدایت دینے لگا۔ ٭ ٭ ٭ بیس دن گزر گئے۔ عنیزہ اپنے کام میں مصروف تھی۔ اس دوران وہ مراحم سے مسلسل رابطے میں رہی تھی۔ مراحم نے اسے مزید کام دلانے کا وعدہ کیا تھا۔ وہ اس وقت مراحم کے آفس میں بیٹھی ہوئی تھی۔ مراحم سے ملنے کے بعد اسے شوٹنگ پر جانا تھا۔ کیا بات ہے عنیزہ، تم کچھ پریشان دکھائی دے رہی ہو مراحم نے اس کی پریشانی کو بھانپتے ہوئے پوچھا۔ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں ہے۔ عنیزہ نے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ میں محسوس کررہا ہوں تم کچھ الجھی الجھی سی ہو۔ عنیزہ تذبذب کا شکار ہوگئی کہ مراحم کو بات بتائے یا نہ بتائے۔ ہاں بولو کیا بات ہے سر مراحم کچھ پیسوں کا مسئلہ ہے۔ میری بہن پیسوں کی وجہ سے سخت پریشان ہیں۔ امی کو میں نے یہ بتایا نہیں ہے کہ سراعظم سے میرا جو معاہدہ ہوا ہے، اس کے تحت مجھے کام کرنے کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا۔ وہ یہ سمجھ رہی ہیں کہ میں ان کی ٹیلی فلم میں پیسوں کے عوض کام کررہی ہوں۔ اب انہیں کیا پتا مفت میں کام کرنے کے لئے ڈائریکٹروں کے پاس اداکاروں کی ایک طویل قطار ہوتی ہے۔ میں نے سوچا تھا کہ زیبا سے کچھ ادھار مانگ لوں گی، مگر میری ہمت نہیں پڑی۔ اس کے مجھ پر پہلے ہی بہت احسانات ہیں۔ ٹھیک ہے۔ یہ بتائو کتنی رقم چاہئے مراحم نے دریافت کیا۔ تین ہزار روپے ٹھیک ہے۔ کوئی مسئلہ نہیں، مل جائیں گے بلکہ آئندہ بھی ضرورت ہو تو لے لینا۔ سر بہت شکریہ جیسے ہی مجھے رقم ملی، میں آپ کے پیسے لوٹا دوں گی۔ اس کی ضرورت نہیں۔ تم میری دوست ہو، دوست ہونے کے ناتے تمہاری مدد کرنا میرا فرض ہے۔ مراحم نے قدرے جذباتی انداز میں کہا۔ مگر سر مراحم نے عنیزہ کی بات کاٹ دی۔ آگے میں کچھ نہیں سنوں گا اور ہاں مجھے سر کہنے کی ضرورت نہیں۔ مجھے صرف مراحم کہہ کر مخاطب کرسکتی ہو۔ مراحم نے عنیزہ کا ہاتھ گرمجوشی سے دباتے ہوئے کہا۔ عنیزہ کو یوں لگا جیسے اس کے سر سے بھاری بوجھ ہٹ گیا ہے۔ اس دن کے بعد سے عنیزہ اور مراحم کے درمیان بے تکلفی بڑھتی گئی۔ عنیزہ نے اگلے مہینے مراحم سے پھر رقم مانگی جو اس نے بخوشی دے دی، ساتھ ہی اس نے عنیزہ کو ڈھیر ساری شاپنگ کروائی۔ مراحم نے چند مہینوں میں اندازہ لگا لیا تھا کہ عنیزہ اتنی معصوم نہیں، جتنی وہ سمجھ رہا تھا۔ عنیزہ کو کمرشل میں چانس مل گیا تھا۔ اس کا پہلا کمرشل ہٹ ہوگیا تھا جس کے بعد اسے مزید آفرز مل گئی تھیں۔ عنیزہ کی مصروفیت دن بہ دن بڑھتی جارہی تھی۔ اس نے زیبا کا گھر چھوڑ کر فلیٹ کرائے پر لے لیا تھا۔ وہ تیزی سے آگے بڑھنے کی جستجو میں تھی۔ مراحم سے اس کی دوستی کو دو سال کا عرصہ بیت گیا تھا۔ یہ دوستی عنیزہ کی مصروفیت کے باوجود برقرار تھی۔ ہفتے کا دن تھا عنیزہ، مراحم کے ساتھ ہوٹل کے ایک گوشے میں ڈنر کرنے میں مصروف تھی۔ ڈنر کے دوران مراحم نے عنیزہ سے کہا۔ عنیزہ میں تم سے ایک بات کہنا چاہتا ہوں۔ آپ کو کچھ کہنے کے لئے اجازت کی ضرورت نہیں۔ عنیزہ نے مسکرا کر کہا۔ عنیزہ میری امی چاہ رہی ہیں کہ میں دوسری شادی کرلوں۔ تو اس میں برائی کیا ہے۔ آپ کی بیوی اپنے والدین کے پاس جا چکی ہے اور واپس آنے کا ارادہ نہیں رکھتی، ان حالات میں دوسری شادی کرنا آپ کا حق ہے۔ عنیزہ نے مشورہ دیا۔ میری ممی جس لڑکی سے میری شادی کرنا چاہتی ہیں، وہ مجھے پسند نہیں۔ مجھے تم پسند ہو، میں تم سے شادی کا خواہشمند ہوں، یہ جانتے ہوئے بھی کہ میری ممی اس رشتے پر راضی نہیں ہوں گی۔ میں انہیں کسی طریقے سے منا لوں گا، تم ہامی بھرو۔ آپ مجھ سے شادی کرنا چاہتے ہیں مجھے یقین نہیں آرہا۔ عنیزہ غیر یقینی لہجے میں بولی۔ حقیقت یہی ہے کہ میرے پاس خدا کا دیا ہوا سب کچھ ہے، کسی چیز کی کمی نہیں۔ میں چاہوں تو کسی بھی لڑکی سے شادی کرسکتا ہوں مگر میں دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر تم سے محبت کا اعتراف کررہا ہوں۔ مراحم نے سنجیدہ لہجے میں اپنی بات مکمل کی۔ عنیزہ کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ آپ مجھ سے شادی کے خواہشمند ہیں۔ آپ بہت اچھے انسان ہیں اس کے باوجود میں آپ سے شادی نہیں کرسکتی۔ مگر کیوں مراحم نے بے چین ہوکر پوچھا۔ دراصل میں اس وقت اپنے گھریلو مسائل میں اتنی الجھی ہوئی ہوں کہ شادی کے بارے میں نہیں سوچ سکتی۔ کیا مسئلہ ہے میں تمہارے گھر والوں کی مدد کیلئے ہر ماہ معقول رقم دے سکتا ہوں۔ مگر مجھے یہ منظور نہیں۔ میں اپنے بل بوتے پر اپنے گھر والوں کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہوں۔ ابھی میرے خواب پورے ہونا شروع ہوئے ہیں، میں آپ سے شادی کرکے اپنا کیریئر دائو پر نہیں لگا سکتی۔ ماڈلنگ میں شادی شدہ لڑکیاں آگے نہیں بڑھ سکتیں، یہ بات آپ مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔ بہتر ہوگا آئندہ گفتگو کے دوران یہ موضوع زیربحث نہ آئے۔ عنیزہ کی بات سن کر مراحم کچھ سوچنے لگا۔ پھر بولا۔ میں نے تم سے شادی کی خواہش کا اظہار کیا، لیکن تم نے بغیر سوچے منع کردیا۔ میری آفر پر غور تو کرو، شادی تو ایک نہ ایک دن کرنی ہے پھر مجھ سے کیوں نہیں میرے پاس کس چیز کی کمی ہے تمہیں میرے جذبات کی قدر کرنا چاہئے کہ میں دوسرے لوگوں سے مختلف ہوں۔ تمہارے ساتھ وقت گزاری کے بجائے تمہیں شادی کی پیشکش کررہا ہوں۔ آپ خواہ مخواہ جذباتی ہورہے ہیں۔ میں اپنی زندگی کا ہر فیصلہ کرنے میں خودمختار ہوں۔ مجھے ابھی شادی کرنی ہے اور نہ آپ سے کرنی ہے۔ عنیزہ نے سخت لہجے میں کہا۔ سوچ لو۔ میرے جذبات کی ناقدری تمہیں مہنگی بھی پڑسکتی ہے۔ اوہ تو آپ مجھے دھمکی دے رہے ہیں۔ اپنی دھمکی پر عمل کرکے دیکھ لیجئے۔ میں چلتی ہوں۔ عنیزہ پرس اٹھاتے ہوئے بولی اور ایک لمحہ ضائع کئے بغیر نکل گئی۔ مراحم اسے جاتے ہوئے دیکھتا رہا۔ اس کے جانے کے بعد مراحم بھی اٹھ گیا۔ اس کا دل یہ ماننے کو تیار نہیں تھا کہ عنیزہ نے واقعی شادی سے انکار کردیا ہے۔ وہ عنیزہ سے دو تین ملاقاتوں کے بعد اس پر فدا ہوگیا تھا۔ دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر مراحم نے عنیزہ کو شادی کی آفر کی تھی جو اس نے مسترد کردی تھی، حالانکہ مراحم ایک شادی کی ناکامی کے بعد یہ بات بہت اچھی طرح سمجھتا تھا کہ اس کی عنیزہ سے شادی ہوبھی گئی تو کامیاب ہونے کا امکان کم ہے، اس کے باوجود وہ عنیزہ کو اپنانا چاہتا تھا۔ اگلے دن عنیزہ نے مراحم کو فون نہیں کیا۔ مراحم سارا دن اس کے فون کا انتظار کرتا رہا۔ تین روز بعد مراحم نے اسے فون کیا۔ عنیزہ نے مختصر بات کرکے مصروفیت کا بہانہ بناتے ہوئے کہا کہ وہ زیادہ دیر بات نہیں کرسکتی، وہ کام میں مصروف ہے۔ وہ اسے بعد میں فون کرلے۔ مراحم کو عنیزہ کے رویئے پر سخت افسوس ہورہا تھا۔ اس کے باوجود وہ اس سے اپنا تعلق قطع کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ وہ اسی روز عنیزہ سے ملنے اسٹوڈیو پہنچ گیا۔ عنیزہ نے مراحم کو آتے دیکھا تو اس کے پاس آکر بولی۔ آپ کو کوئی کام تھا جو مجھ سے ملنے یہاں چلے آئے کیوں کیا بغیر کام کے میں تم سے ملاقات نہیں کرسکتا مراحم نے سخت لہجے میں کہا۔ ہاں کیوں نہیں کرسکتے مگر آپ دیکھ رہے ہیں کہ میں ڈائیلاگ یاد کررہی ہوں، فرصت بالکل نہیں ہے۔ تم چاہو تو میرے لئے کچھ وقت نکال سکتی ہو۔ مجھے تم سے کچھ باتیں کرنی ہیں۔ ٹھیک ہے۔ میں کل صبح آپ کے آفس آجاتی ہوں۔ عنیزہ یہ کہتے ہوئے فوراً جانے کے لئے مڑگئی۔ مراحم کو امید نہیں تھی کہ عنیزہ اس سے رابطہ کرے گی، مگر مراحم کی توقع کے برعکس عنیزہ اگلے دن اس سے ملنے پہنچ گئی۔ چلو عنیزہ کہیں باہر چل کر بات کرتے ہیں۔ مراحم اسے دیکھتے ہی اٹھتے ہوئے بولا۔ آپ کو جو بات کرنا ہے، یہیں کرلیں۔ مجھے ارمان صاحب سے ملنے جانا ہے، وہ اپنے اگلے ڈرامے میں مجھے کاسٹ کررہے ہیں۔ عنیزہ نے بتایا۔ ٹھیک ہے ارمان صاحب سے بھی مل لینا۔ میں تمہارے ساتھ تنہا کچھ وقت گزارنا چاہتا ہوں۔ اتنا تو میرا حق بنتا ہے آخر اس فیلڈ میں، میں نے تمہیں چانس دلوایا ہے۔ ٹھیک ہے، چلیں۔ عنیزہ نے بے دلی سے کہا۔ جیسے اب انکار کی گنجائش نہ ہو۔ مراحم، عنیزہ کو ساتھ لے کر سی ویو پہنچ گیا۔ کار سے اترتے ہی عنیزہ بولی۔ آپ مجھے اتنی دور لے آئے ہیں۔ خیر کوئی نہیں، مجھے سمندر بہت پسند ہے۔ تمہیں پسند ہے، تب ہی میں تمہیں یہاں لایا ہوں۔ عنیزہ نے مزید کوئی بات نہیں کی۔ وہ خاموشی سے سمندر کی لہروں کو کنارے سے ٹکراتے ہوئے دیکھتی رہی۔ کافی دیر بعد مراحم نے خاموشی کو توڑتے ہوئے پوچھا۔ عنیزہ کیا سوچ رہی ہو یہی کہ میں نے شوبز میں آکر درست فیصلہ کیا یا نہیں تم اپنے فیصلے سے مطمئن نہیں ہو پتا نہیں مجھے کبھی کبھی یوں لگتا ہے بظاہر روشنی میں ڈوبی یہ دنیا تاریک ہے۔ یہاں جھوٹ اور دکھاوے کے علاوہ کچھ نہیں۔ اس لئے تو کہہ رہا ہوں مجھ سے شادی کرلو۔ مجھے پتا ہے کہ تم آج کل اونچی اڑان اڑ رہی ہو۔ جن لوگوں کے ساتھ تم ہوٹلوں میں گھومتی نظر آتی ہو، وہ بھونرا صفت ہیں، ہر تازہ پھول کے گرد منڈلاتے نظر آتے ہیں۔ تم جیسی کئی لڑکیاں ان کی زندگی میں آئیں اور چلی گئیں۔ مراحم کے لہجے میں تلخی در آئی تھی۔ مراحم جب آپ نے مجھے متعارف کروایا تھا تب یہ حقیقت نہیں بتائی تھی۔ اب جبکہ میں ایسے مقام پر پہنچ گئی ہوں جہاں سے واپسی ممکن نہیں، آپ مجھے واپسی پر اکسا رہے ہیں۔ خیر یہ بات آپ بھی مانیں گے کہ شہرت کا جو نشہ ہے، اس کا اپنا ہی ایک مزہ ہے۔ میں شہرت اور دولت سمیٹ رہی ہوں۔ میں دلبرداشتہ ہوکر یہ فیلڈ چھوڑنے والی نہیں۔ ابھی کون سا میرے زوال کا وقت آیا ہے۔ آپ جیسے کئی شادی شدہ مرد مجھ سے شادی کے خواہشمند ہیں لیکن میں راضی نہیں۔ میں شادی کرلوں گی، آپ میری محبت دل سے نکال دیں۔ میرے جیسی کئی لڑکیاں ہوں گی جو آپ کی زندگی میں آئی اور چلی گئیں۔ آپ نے مجھے شوبز میں چانس دلایا، اس کا احسان میں چکا چکی ہوں، اپنا قیمتی وقت آپ کے ساتھ گزار کر عنیزہ نے بے رخی سے کہا۔ عنیزہ مگر تم عنیزہ نے مراحم کی بات کاٹ کر کہا۔ مجھے دیر ہورہی ہے، واپس چلتے ہیں۔ وہ کچھ سننے کے موڈ میں نہیں تھی۔ مجبوراً مراحم نے چپ سادھ لی۔ عنیزہ کو اس کی مطلوبہ جگہ پر ڈراپ کرتے ہوئے سارے راستے مراحم سوچتا رہا کہ اس نے عنیزہ کو شادی کی آفر کیوں کی۔ اسے عنیزہ کا انکار اپنی بے عزتی محسوس ہورہا تھا۔ وہ اس وقت جس کیفیت میں مبتلا تھا، اس کیفیت کو دیکھتے ہوئے اس نے عنیزہ کا سکون غارت کرنے کا فیصلہ کرلیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ مزید ایک سال کا عرصہ گزر گیا۔ عنیزہ ایک دن سو کر اٹھی تو صبا بانو نے اسے بتایا کہ اس کی خالہ زاد بہن ہادیہ کی شادی ہورہی ہے۔ فرسٹ کزن ہونے کے ناتے اسے ہادیہ کی شادی میں ضرور شرکت کرنی چاہئے۔ مما آپ مجھے معاف رکھیں۔ مجھے اپنے خاندان کی تقریبات میں شرکت کا کوئی شوق نہیں۔ ہمارے خاندان کے لوگ بہت بیک ورڈ ہیں۔ مجھے دیکھ کر طرح طرح کی باتیں کرنے لگتے ہیں۔ ان کی فضول باتیں سننے کی مجھ میں سکت نہیں۔ عنیزہ نے یہ کہتے ہوئے اپنے سیل فون کو آن کیا جو رات سے بند پڑا ہوا تھا۔ فون آن ہوتے ہی اس نے میسجز پر نظر ڈالی۔ اوہ گاڈ اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ چلو اچھا ہی ہوا، مجھے عاجز کرکے رکھا تھا۔ قدرت نے خود اس سے میرا پیچھا چھڑا دیا۔ عنیزہ بڑبڑائی۔ کیا ہوا عنیزہ خیریت تو ہے صبا بانو نے پوچھا۔ مما آپ مراحم کو تو جانتی ہوں گی جنہوں نے مجھے شوبز میں متعارف کروایا تھا ہاں ایک بار تم نے مجھے ان سے ملوایا تھا۔ کل رات ان کا انتقال ہوگیا۔ عنیزہ نے اطمینان سے کہا۔ مجھے بڑا افسوس ہوا۔ جوان آدمی تھا۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں۔ صبا بانو نے افسردہ لہجے میں کہا۔ آپ بتول سے کہیں میرے لئے جوس لے کر آئے، دیر ہورہی ہے، مجھے پارلر جانا ہے۔ عنیزہ نے یہ کہہ کر موبائل کی اسکرین پر نظریں جما دیں۔ ٭ ٭ ٭ مراحم کی حادثاتی موت کی خبر ملتے ہی قمر جہاں ہالینڈ سے پاکستان آگئی تھیں۔ ان کا ہالینڈ میں اپنے بھائی کے پاس جانے کا مقصد ناراض بہو کو منانا تھا۔ مراحم کی موت نے قمر جہاں کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ انہوں نے پاکستان آنے کے کچھ دنوں بعد فیصلہ کرلیا کہ وہ اب یہاں نہیں رہیں گی۔ اپنا گھر مع سازوسامان بیچ کر اپنی بیٹی کے پاس چلی جائیں گی۔ اس سلسلے میں انہوں نے اسٹیٹ ایجنٹ سے بات کرلی تھی کہ وہ جلد ازجلد ان کے مکان کا سودا کروا دے۔ قمر جہاں کو گھر واپس آئے ہوئے آٹھ دن ہوئے تھے کہ رات کو ان کے گھر چوری کی واردات قمر جہاں نے اپنے علاقے کی پولیس کو طلب کرلیا، ساتھ ہی انہوں نے اپنے مرحوم شوہر کے دوست ایس۔پی حماد حسین کو اپنے گھر ہونے والی واردات کی بھی اطلاع دی۔ حماد حسین فوراً قمر جہاں کے گھر پر پہنچ گئے۔ کمرے میں پولیس اہلکار کھڑکیوں کے معائنے میں مصروف تھے۔ حماد حسین سے پولیس کے اہلکار بہت گرمجوشی سے ملے، پولیس انسپکٹر، حماد حسین کو بتا رہا تھا۔ سر مجھے یہ ایک عام چوری کا کیس لگتا ہے۔ گھر میں صرف دو خواتین موجود تھیں، چوروں کے لئے ان خواتین کو قابو کرنا بے حد آسان تھا۔ انہوں نے میڈم قمر اور ان کی ملازمہ کلثوم کو کلوروفارم سنگھا کر واردات کی۔ انسپکٹر جواد کی بات مکمل ہوتے ہی قمر جہاں ملازمہ کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئیں۔ حماد حسین ان سے مخاطب ہوئے۔ بھابی بتائیں آپ ٹھیک تو ہیں نا قمر جہاں بیماروں کے سے انداز میں اپنی ملازمہ کا سہارا لئے کھڑی تھیں۔ حماد حسین کے سوال کے جواب میں وہ آہستگی سے بولیں۔ حماد بھائی میری طبیعت سخت خراب ہے۔ آپ کی مہربانی جو آپ میری کال پر فوراً چلے آئے۔ بھابی آپ مہربانی والی بات کہہ کر مجھے شرمندہ کررہی ہیں۔ آپ یہاں بیٹھ جائیں۔ آپ مجھے سخت علیل نظر آرہی ہیں۔ پھر ایس۔پی حماد، انسپکٹر جواد سے مخاطب ہوئے۔ آپ مجھے اس واردات کی تفصیلات بتائیں۔ انسپکٹر جواد نے اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی موٹی سی نوٹ بک حماد حسین کی طرف بڑھا دی۔ حماد حسین نے نوٹ بک پڑھنے کے بعد انسپکٹر جواد کو دے دی، پھر وہ ہمدردانہ نظروں سے قمر جہاں کو دیکھنے لگے۔ انہیں اپنی طرف متوجہ پا کر قمر جہاں بولیں۔ حماد بھائی کل رات میں دو بجے کے بعد سوئی تھی۔ جب سے مراحم کی وفات ہوئی ہے، مجھے نیند بہت کم آتی ہے، معمولی سے کھٹکے سے میری آنکھ کھل جاتی ہے۔ میری ملازمہ کلثوم دن، رات میرے ساتھ رہتی ہے۔ وہ دو نقاب پوش تھے جو رات کے آخری پہر میرے گھر میں داخل ہوئے۔ ان کی موجودگی کو محسوس کرتے ہوئے میں اٹھ بیٹھی۔ اس سے پہلے کہ میں شور مچاتی، انہوں نے میرے منہ پر کلوروفارم کا کپڑا رکھ دیا۔ جب میں ہوش میں آئی تو ایک آدمی میرے بستر کے قریب کھڑا تھا اور دوسرا سامنے کے کمرے میں میرے بیٹے کے سامان سے کاغذوں کا بنڈل نکال رہا تھا۔ میرے بیٹے کی ٹیبل اور اس کی درازوں میں رکھا سارا سامان فرش پر بکھیر دیا تھا۔ بنڈل اٹھاتے ہی سامنے کمرے میں موجود آدمی میرے پاس چلا آیا۔ اس سے قبل کہ وہ مجھے دوبارہ بے ہوش کرتے، میں اپنے سامنے موجود آدمی پر جھپٹ پڑی۔ میرے پاس کھڑے آدمی نے فوراً اپنے ساتھی کی مدد کرتے ہوئے میرے منہ پر رومال رکھ دیا۔ وہ دونوں جاتے ہوئے ہمیں باندھ گئے۔ یہ بات میں اب تک نہیں سمجھ سکی کہ چور وہ کاغذات کیوں لے گئے۔ جہاں تک میں جانتی ہوں، ان کاغذات کے علاوہ چور میرے بیٹے کے سامان سے کوئی اور چیز نہیں لے کر گئے۔ ویسے بھی میرے بیٹے کے سامان میں کوئی ایسی چیز تھی بھی نہیں جسے وہ چرا کر لے جاتے۔ میں اور کلثوم جانے کب تک بندھے رہتے، بھلا ہو کلثوم کی بیٹی کا وہ صبح سویرے اپنی ماں سے ملنے چلی آئی۔ گیٹ بجانے پر گیٹ نہ کھلا تو وہ پڑوس کے لوگوں کو بلا لائی۔ انہوں نے گیٹ کا لاک کھولا اور مجھے اور میری ملازمہ کو رسیوں سے آزاد کیا۔ بھابی جہاں تک میں سمجھا ہوں، چور آپ کے گھر میں رقم اور زیورات چرانے نہیں آئے تھے۔ ان کی یہاں آمد کا مقصد کاغذات کا بنڈل چرانا تھا۔ آپ بتا سکیں گی کہ وہ کس قسم کے کاغذات تھے حماد نے سوچتے ہوئے سوال کیا۔ قمر جہاں نقاہت زدہ آواز میں بولیں۔ مجھے تو وہ کسی ناول کا مسودہ لگ رہا تھا۔ آپ جانتے ہی ہیں مراحم ایک اچھا رائٹر تھا۔ میرے ہالینڈ جانے سے پہلے اس نے بتایا تھا کہ وہ ایک ناول مکمل کرنے والا ہے جو بہت جلد کتابی شکل میں شائع ہوگا۔ بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ چور ناول کا مسودہ چرانے آئے۔ انسپکٹر جواد آپ نے سامان کو اچھی طرح دیکھا ہے، اس میں آپ کو کوئی تحریر تو نہیں ملی مجھے کوئی ڈائری وغیرہ نہیں ملی بس یہ ایک پھٹا ہوا کاغذ ملا ہے جو میڈم قمر کی کشمکش سے پھٹ گیا ہے۔ انہوں نے چور پر حملہ کیا تو چور کے ہاتھ میں موجود کاغذات میں سے ایک کاغذ ان کے ہاتھ میں آگیا تھا۔ بھابی آپ نے بڑا خطرہ مول لیا وہ تو شکر ہے کی جان بچ گئی۔ آپ کو اس آدمی پر جھپٹنے کی کیا ضرورت تھی حماد حسین بولے۔ بس میری سمجھ میں جو آیا، وہ میں نے کیا۔ قمر جہاں بولیں۔ جواد مجھے پرچہ دکھائیں۔ حماد حسین انسپکٹر سے مخاطب ہوئے۔ اس نے اپنی نوٹ بک سے تہہ کیا ہوا فل اسکیپ کاغذ نکالا اور حماد حسین کے ہاتھ میں دے دیا۔ حماد حسین نے کاغذ لے کر اس پر نظر ڈالی۔ آپ نے اس کاغذ سے کیا اندازہ لگایا ہے جواد جہاں تک میں سمجھ سکا ہوں، یہ کسی عجیب وغریب ناول کا اختتام معلوم ہوتا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ اس عجیب و غریب واردات کو انجام تک پہنچانے میں ہمارے لئے کارآمد ثابت ہو۔ حماد حسین بولے۔ بڑے اچنبھے کی بات ہے کہ چور نقب لگا کر گھر میں فقط ایسے کاغذات کا پلندا چرانے آئے جس کی اہمیت سے گھر کی مالکن خود آگاہ نہیں۔ آخر انہیں میرے بیٹے کے سامان کی تلاش کیوں تھی یہی سوچنے کی بات ہے بھابی کہ چور نقب لگا کر گھر میں محض کاغذات کا پلندہ لینے کیوں آئے۔ میں اس کاغذ پر لکھی تحریر پڑھنے کی کوشش کرتا ہوں شاید میں اس تحریر سے کوئی اندازہ لگائوں۔ حماد حسین یہ کہتے ہوئے کھڑکی کے نزدیک جاکر تحریر پڑھنے لگے جو ایک ادھورے فقرے سے شروع ہوئی تھی۔ چہرے پر مکوں کی مار سے کافی خون نکل رہا تھا لیکن اس خون کا مقابلہ ہرگز میرے ارمانوں کے خون سے نہیں کیا جاسکتا جو اس حسین چہرے کو دیکھ کر ہوا۔ وہ چہرہ جس کے لئے میں نے اپنی زندگی تک قربان کرنے کا تہیہ کرلیا تھا، وہ چہرہ جو میری اذیت اور کرب دیکھ کر بجائے افسردہ ہونے کے مسکرا رہا تھا۔ کسی تنگ دل اور سفاک قاتلہ کی طرح اس لمحے مجھے اس سے شدید نفرت محسوس ہوئی۔ میری محبت مر گئی۔ میرے دل میں اس کی محبت کی جگہ نفرت نے جنم لیا۔ میں نے فیصلہ کرلیا میں مروں گا نہیں، اس سفاک عورت سے انتقام لینے کے لئے زندہ رہوں گا۔ عجیب تحریر ہے۔ حماد حسین نے انسپکٹر جواد کو وہ کاغذ دیتے ہوئے کہا۔ مجھے تو یہ آپ بیتی لگ رہی ہے۔ انسپکٹر جواد بولے اور کاغذ کو اپنی نوٹ بک میں رکھ لیا۔ حماد حسین، قمر جہاں کو تسلی دے کر پولیس اسٹیشن روانہ ہوگئے۔ شام میں وہ دوبارہ انسپکٹر جواد کے ساتھ قمر جہاں کے گھر پر موجود تھے۔ بھابی آپ مجھے مراحم کے روزوشب کے بارے میں بتانا پسند کریں گی حماد حسین رسمی گفتگو کے بعد بولے۔ قمر جہاں کی آنکھوں میں مراحم کے ذکر پر نمی تیر گئی۔ حماد بھائی آپ مراحم سے ملتے رہے ہیں، آپ کو وہ کیسا لگتا تھا مراحم بہت باکمال انسان تھا۔ وہ بہت آگے جاتا مگر موت نے اسے ہم سے چھین لیا۔ مجھے اس کی جواں موت کا سخت دکھ ہے۔ ایسے زندہ دل آدمی کے ساتھ موت کا خیال وابستہ نہیں کیا جاسکتا۔ وہ زندگی گزارنے کے فن سے آگاہ تھا۔ حماد حسین نے کہا۔ حماد بھائی مجھے اب بھی یقین نہیں آتا کہ مراحم دنیا میں نہیں رہا۔ آپ جانتے ہیں کہ وہ کیسا انسان تھا۔ خوش طبع اور شان و شوکت کا دل دادہ مگر ایک سال سے اس کی فطرت بدل گئی تھی۔ وہ زودرنج اور جذباتی ہوگیا تھا۔ وہ ایک ماڈل کی محبت میں گرفتار ہوگیا تھا۔ جس جگہ وہ جاب کرتا تھا، وہاں زیادہ تر ایسی ہی لڑکیاں ہوتی ہیں۔ مطلبی اور اپنا کام نکلوانے کی ماہر یہ باتیں جانتے ہوئے بھی مراحم اس دھوکے باز لڑکی کے عشق میں گرفتار ہوگیا، اس کی محبت میں دیوانہ ہوگیا تھا۔ محبت ہے ہی ایسی چیز دیوانہ کردینے والی، بھابی آپ مجھے اس لڑکی کے بارے میں بتائیں قمر جہاں کی بات مکمل ہوتے ہی حماد حسین بولے۔ عنیزہ معروف ماڈل اور اداکارہ بہت تیزی سے یہ لڑکی شہرت کی بلندیوں پر پہنچی ہے۔ مراحم نے اسے شوبز میں متعارف کروایا تھا اور اس سے شادی کرنا چاہتا تھا مگر اس نے صاف انکار کردیا۔ مراحم اس کے انکار سے خاصا دل برداشتہ ہوا تھا۔ انسپکٹر جواد اب ہمیں چلنا چاہئے۔ ہم اس کیس کی آخری منزل پر آ پہنچے ہیں۔ بھابی اجازت دیں، آپ سے پھر ملاقات ہوگی۔ حماد حسین خاموش بیٹھے ہوئے جواد سے بولے اور فوراً اسے ساتھ لے کر عنیزہ کے گھر روانہ ہوگئے۔ حماد حسین جو خاموش بیٹھے ہوئے تھے، اچانک انسپکٹر جواد سے مخاطب ہوئے۔ جواد تم نے ماڈل عنیزہ کو ٹی۔وی پر دیکھا ہے ہاں دیکھا ہے سر اس جیسی حسین عورت شوبز میں اور کوئی نہیں۔ نے عنیزہ میڈم کا ایڈریس فون پر معلوم کرلیا ہے۔ پتا نہیں وہ گھر پر ملیں گی بھی یا نہیں۔ انسپکٹر جواد نے کہا۔ وہ جلد ہی جدید طرز کی بنی ہوئی بلڈنگ کے پاس پہنچ گئے جس میں عنیزہ کا فلیٹ تھا۔ ڈور بیل کی آواز سن کر عنیزہ کے فلیٹ کے اندر سے ایک ملازمہ نکلی۔ حماد حسین نے اپنا کارڈ اس کو دیا اور بتایا کہ وہ میڈم عنیزہ سے ملنا چاہتے ہیں۔ تھوڑی دیر بعد ملازمہ دوبارہ آئی اور انہیں ساتھ لے کر ڈرائنگ روم میں پہنچی۔ وہاں عنیزہ صوفے کے پاس کھڑی ہوئی تھی۔ حماد حسین اور جواد کو بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے وہ خود بھی صوفے پر بیٹھ گئی۔ ہم آپ سے مراحم مرحوم کے گھر میں ہونے والی چوری کی واردات کے بارے میں تفتیش کرنے آئے ہیں۔ انسپکٹر جواد نے گفتگو کا آغاز کرتے ہوئے کہا۔ آپ کو پتا ہے آپ کیا کہہ رہے ہیں مراحم کے گھر ہونے والی چوری سے میرا کیا تعلق تعلق تو ہے آپ کا بہت جلد یہ خبر اخباروں کی زینت بنے گی پھر آپ کو پتا چلے گا کہ جن کرائے کے غنڈوں سے آپ نے یہ کام کرایا ہے، انہوں نے آپ کا راز کھول دیا ہے۔ حماد حسین بولے۔ مجھے نہیں معلوم کہ آپ کیا کہہ رہے ہیں میرا کرائے کے غنڈوں سے کیا تعلق عنیزہ نے معصومیت بھرے لہجے میں کہا۔ حماد حسین نے کہا۔ اس کا مطلب ہے مجھے تھانے لے جاکر تفتیش کرنا ہوگی۔ آپ عزت کے ساتھ سب کچھ کیوں نہیں بتا دیتیں حماد حسین کے درشت لہجے کو دیکھتے ہوئے عنیزہ کچھ سوچنے لگی۔ پھر بولی۔ میں نے سوچا ہے کہ آپ پر تمام حقیقت واضح کردوں، حالانکہ میں یہ بات اچھی طرح جانتی ہوں کہ میں نے جن لوگوں کے ذریعے چوری کروائی ہے، آپ ان تک ابھی نہیں پہنچے ہیں۔ آپ لوگ مجھے شریف دکھائی دے رہے ہیں۔ امید رکھتی ہوں آپ میرے راز کو راز ہی رکھیں گے۔ ٹھیک ہے۔ ہم اس معاملے کو یہیں ختم کردیں گے، اگر آپ ناول کا مسودہ واپس کردیں۔ حماد حسین نے کہا۔ وہ تو واپس ہو نہیں سکتا، میں اسے جلا چکی ہوں۔ جلا چکی ہیں پھر بھی آپ کو حقیقت تو واضح کرنا ہوگی۔ آخر اس مسودے میں کیا تھا حماد حسین بولے۔ ایس۔پی صاحب میں نے جو کچھ کیا، مجبوراً کیا۔ آپ کو کل رات پیش آنے والے واقعے کو ایک عورت کے نقطۂ نظر سے دیکھنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اگر کوئی عورت اپنے تحفظ کی خاطر کچھ کرے تو آپ اس پر الزام نہیں دھر سکتے۔ عنیزہ بے خوف لہجے میں بولی۔ قصور تو آپ کا تھا۔ آپ نے مراحم کے جذبات سے کھیلا تب ہی تو عنیزہ انسپکٹر جواد کی بات کاٹ کر بولی۔ میں اس بات کو تسلیم کرتی ہوں مراحم ایک بہت اچھا انسان تھا لیکن اتفاق کی بات ہے کہ وہ میرے مزاج سے میل نہیں کھاتا تھا۔ وہ مجھ سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ میرا کیریئر ابھی شروع ہوا ہے، میں کیسے اس سے شادی کرلیتی، مگر وہ میرے انکار کے باوجود میرے پیچھے پڑاہوا تھا۔ پھر وہ ہٹیلا اور ضدی ہوگیا۔ میری دوستی کو وہ میری محبت سمجھ بیٹھا تھا۔ ایک دن وہ اسٹوڈیو پہنچ کر میری کردار کشی کرنے لگا۔ اس نے کہا کہ تم میرے ساتھ نہ جانے کے لئے بہانے بنا رہی ہو، تمہارے پاس میرے لئے وقت نہیں۔ جن لوگوں سے تمہیں کام نکلوانا ہوتا ہے، ان کے ساتھ ہوٹلوں میں آدھی آدھی رات تک ہوتی ہو۔ اس نے مجھے گالیاں دیتے ہوئے فاحشہ تک کہہ ڈالا۔ یہ میرے لئے ناقابل برداشت تھا، چنانچہ مجبوراً مجھے احساس دلانا پڑا کہ میرے دل میں اس کے لئے قطعی کوئی جگہ نہیں ہے۔ پھر آپ نے اسے کرائے کے غنڈوں سے پٹوا ڈالا حماد حسین بولے۔ معلوم ہوتا ہے کہ آپ سب کچھ جانتے ہیں۔ میں نے مراحم کو سیدھا کرنے کے لئے اس پر تشدد کروایا لیکن پھر اس نے جو کیا، وہ آپ کے سامنے ہے۔ اس نے میری زندگی کی کہانی لکھ ڈالی، جس میں مجھے ایک لالچی عورت کے روپ میں پیش کیا اور خود کو مظلوم گردانا۔ اس نے مجھ سے وابستہ لوگوں کے نام بھی تبدیل کرکے ناول میں لکھے تھے، لیکن کہانی پڑھنے والے آسانی سے سمجھ سکتے تھے کہ اشارہ کس کی جانب ہے۔ مراحم نے ناول کے مسودے کی ایک نقل مجھے بھیج دی تاکہ میں پریشانی میں مبتلا ہوجائوں۔ میں سوچ رہی تھی کہ اسے کیسے اس کے ارادوں سے باز رکھوں کہ اچانک اس کی موت واقع ہوگئی۔ میں اس پبلشر سے ملی جس نے اس سے پہلے مراحم کی دو کتابیں شائع کی تھیں۔ مجھے معلوم ہوا کہ پبلشر کے پاس مراحم کا کوئی نیا ناول اشاعت کے لئے نہیں آیا۔ پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ مراحم کی والدہ اس کی موت کے بعد اس کے ناول کو شائع نہ کروا دیں، اس لئے میں نے وہ مسودہ چوری کروایا اور اسے فوراً ضائع کردیا۔ آپ ہی بتائیں سر میں کیا کرتی مراحم نے میرا ذہنی سکون تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ میں نے جب اس پر تشدد کروایا تھا، خدا جانتا ہے کہ میں اپنے اس فعل پر کتنی نادم ہوئی تھی۔ اس کی ناگہانی موت نے بھی مجھے خاصا دکھی کیا تھا۔ عنیزہ کی بات ختم ہوتے ہی حماد حسین سوچنے لگے کہ انہیں اگلا قدم کیا اٹھانا چاہئے۔ پلیز سر آپ اس چوری پر پردہ ڈال دیں، میں آپ کی احسان مند ہوں گی۔ عنیزہ التجا آمیز لہجے میں بولی۔ اس کیس پر پردہ ڈالنے کے لئے مجھے میڈم قمر سے بات کرنا ہوگی۔ ان کی مرضی کے بغیر یہ ممکن نہیں۔ حماد حسین نے کہا۔ آپ پلیز مراحم کی والدہ کو راضی کریں کہ وہ اس معاملے کو ختم کردیں۔ میڈم عنیزہ فی الحال ہم آپ کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کررہے۔ میڈم قمر آپ کو معاف کردیں، ہم بھی یہی چاہتے ہیں۔ حماد حسین نے بات مکمل ہوتے ہی انسپکٹر جواد کو اٹھنے کا اشارہ کیا۔ ٭ ٭ ٭ تین ہفتے بعد حماد حسین عنیزہ سے ایک ہوٹل میں ملاقات کررہے تھے۔ سر میں آپ کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتی ہوں کہ آپ نے قمر جہاں کو کیس واپس لینے پر راضی کیا۔ اگر یہ بات پریس میں پہنچتی تو میری عزت خاک میں مل جاتی۔ آپ نے بڑی خوبصورتی سے اس معاملے کو نمٹا دیا۔ عنیزہ نے ممنونیت بھرے لہجے میں کہا۔ آپ کو میڈم قمر کا احسان مند ہونا چاہئے کہ انہوں نے بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے آپ کو معاف کردیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر آپ انہیں حقائق سے آگاہ کردیتیں تو وہ خود اس ناول کے مسودے کو ضائع کردیتیں۔ بقول ان کے ایسا ناول جس کی اشاعت سے کسی عورت کی کردارکشی ہوتی ہو، اس کو ضائع کردینا ہی بہتر ہے۔ بعض لوگ دیکھنے میں کچھ نظر آتے ہیں، اندر سے وہ کچھ اور ہوتے ہیں۔ میڈم قمر کا شمار بھی ایسے لوگوں میں ہوتا ہے۔ عنیزہ نے چائے کا مگ ٹیبل پر رکھتے ہوئے کہا اور پرس سے ایک چیک نکال کر حماد حسین کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔ یہ میری طرف سے آپ کے لئے حقیر سا نذرانہ ہے۔ حماد حسین نے عنیزہ کے ہاتھ سے چیک لے کر اس پر نظر ڈالی اور اسے واپس دیتے ہوئے کہا۔ میں اس طرح کے نذرانے قبول نہیں کرتا، اسے آپ اپنے پاس رکھیں۔ اس سے پہلے کہ عنیزہ کچھ کہتی، حماد حسین خداحافظ کہتے ہوئے تیزی سے اٹھ کر چل دیئے۔ عنیزہ نظریں جھکا کر چائے کے خالی مگ کو گھورنے لگی۔ ختم شد
null
null
null
null
413
https://www.urduzone.net/maa-qabool-nahe-teen-auratien-teen-kahaniyan/
ہم چھوٹے تھے جب ممتا کے پیار بھرے سائے سے محروم ہوگئے۔ والد صاحب کو چار بچوں کو سنبھالنا محال ہوگیا۔ پھوپھی ان سے بڑی تھیں۔ جوانی میں بیوہ ہوگئیں تو ہمارے پاس آکر رہنے لگیں ان کا ایک ہی بیٹا تھا جس کا نام ارشد تھا اور میرے بھائی فہیم سے دو برس بڑا تھا۔ پھوپھی نے بیٹے کی خاطر دوسری شادی نہ کی اور ابو کا سہارا لیا۔ والد نے بھی بیوہ بہن اور یتیم بھانجے کی سرپرستی قبول کرلی۔ انہیں بہت پیار سے رکھا اب ہماری باری تھی۔ امی کی وفات کے بعد اچانک چار بچوں کی ذمے داری پھوپھی کے کندھوں پر آپڑی۔ کچھ عرصہ تو جوں توں گزرا۔ پھروہ والد کے کان کھانے لگیں بھائی اکبر دوسری شادی کرلو بیوی گھر آ جائے گی تو تمہیں سکون ملے گا۔ والد کو اپنے سکون سے زیادہ ہماری فکر تھی۔ نہیںچاہتے تھے کہ ہم سوتیلی ماں کے ہاتھوں اذیت میں بچپن گزار دیں وہ دوسری شادی کو ٹالتے رہے یوں پانچ برس بیت گئے۔ ایک روز ابو کے دیرینہ رفیق صغیر صاحب آئے تو ان کی بیوی ہمراہ تھیں، یہ ان کی دوسری بیوی تھی مگر بچوں کو بہت پیار سے رکھا ہوا تھا اور سگی ماں جیسا برتائو کرتی تھیں۔ تب ہی پھوپھی نے رضیہ چچی سے کہا۔ جیسی تم ہو ویسی ہی کوئی نیک اور رحم دل عورت میرے بھائی کے لئے ڈھونڈ دو اکبر اس خوف سے دوسری شادی سے گریز کررہا ہے کہ سوتیلی ماں اس کے بچوںسے اچھا سلوک نہ کرے گی۔ رضیہ چچی بنگالی تھی اس نے بتایا کہ اگر تمہارے بھائی بنگالی لڑکی سے شادی پر رضامند ہوں تو میں ایک عورت سے بات کروں گی جو بنگالی ہے اوررشتے کراتی ہے۔ پھپھو نے ابو سے بات کی، اور ان کو راضی کرلیا تب ہی رضیہ چچی نے رشتہ کرانے والی عورت سے ملا دیا، جس کا نام فوزیہ تھا، پھر فوزیہ ہمارے گھر آئی، حالات اور ماحول کا جائزہ لیا اور پھپھو کو ایک جگہ لے گئی۔ جہاں تین جواں سال لڑکیاں فوزیہ کے ہمراہ رہتی تھیں پتہ چلا کہ بنگال سے آئی ہیں اور ان لڑکیوں کے رشتے کرانے کی ذمہ داری فوزیہ پر ہے۔ پھپھو کو ان میں ایک لڑکی پسند آگئی، جس کا نام رشیدہ تھا لیکن جب رشتہ طے ہونے کا مرحلہ آیا تو فوزیہ نے حقیقت سے آگاہ کردیا کہ ایک گروہ جو بردہ فروشی کا دھندہ کرتا ہے ان لڑکیوں کو بنگال سے لایا ہے دراصل یہ بردہ فروش بنگلہ دیش کے مختلف علاقوں سے غریب اور ضروتمند لوگوں کو ملازمت دلوانے کا جھانسہ دے کر پاکستان لاتے تھے اور یہاں مختلف دیہاتوں میں فروخت کردیتے تھے۔ ان میں جواں سال بیاہی اور بن بیاہی خواتین زیادہ ہوتی تھیں۔ پہلے تو پھپھو نے منع کردیا مگر رضیہ چچی کے سمجھانے پر رضامند ہوگئیں جو خود بھی بنگال کی تھیں۔ انہوں نے باور کرایا کہ یہ لڑکیاں شریف اور شریف گھرانوں سے ہیں مگر مظلوم ہیں، اسی لئے فوزیہ بہت سوچ سمجھ کر ان کو کسی خاندان کے حوالے کرتی ہے۔ وہ چاہتی ہے کہ یہ شریفانہ اور شادی شدہ زندگی گزاریں اسی لئے ان کی شادیاں کراتی ہے جبکہ عام خریداروں کے بارے میں علم نہیں ہوتا۔ وہ ان کا کیا حال کریں گے، فوزیہ نے اسی طرح میری بھی شادی اچھے گھرانے میں کرائی اور اب میں پرسکون زندگی گزار رہی ہوں۔ رضیہ نے اپنی مثال دی۔ بات پھپھو کی سمجھ میں آگئی۔ بردہ فروشوں کو رقم سے مطلب تھا۔ ان کی بلا سے یہ مظلوم عورتیں شریف گھروں میں جائیں یا کوٹھے کی زینت بنیں لیکن فوزیہ دیکھ بھال کر ان کے رشتے کراتی تھی گویا واقعی وہ اچھا کام کررہی تھی۔ اس میں ایک قباحت ضرور تھی، کبھی کبھی بے جوڑ رشتے بھی ہوجاتے تھے مثلاً کوئی شہری لڑکی جو چار چھ جماعتیں پاس ہوتی، کسی دیہاتی سے بیاہ دی جاتی یا پھر عمر رسیدہ افراد نو عمر لڑکیوں کو خرید کر اپنے گھر کی زینت بنا لیتے۔ پھر حالات سے فرار کی خاطر کبھی کبھار یہ لڑکیاں کسی نوجوان سے روابط استوار کرکے گھر سے بھاگ جاتی تھیں۔ بہرحال یہ ایک الگ قصہ تھا فی الحال پھپھو کو اپنے بھائی کے لئے کسی ایسی لڑکی کا انتخاب کرنا تھا جو لاوارث ہو اور ان کے یتیم بچوں کے ساتھ اچھا برتائو کرے۔ بھائی کی نظر رشیدہ پر پڑی جو خوبصورت تھی رنگت سانولی اور نیک طبیعت نظر آتی تھی۔ عمر سولہ سترہ اور غیر شادی شدہ تھی، جبکہ والد صاحب ان دنوں چالیس بیالیس کے تھے۔ فوزیہ نے کہا کہ ڈیڑھ لاکھ دلال نے قیمت رکھی ہے اور پندرہ ہزار میرا کمیشن ہے وہ خریدار کو الگ سے دینا ہوگا اور یہ جملہ اخراجات، نکاح نامے پر دستخط ہوتے ہی ادا کرنا ہوں گے۔ پھپھو نے شرط منظور کرلی کیونکہ رشیدہ کا دلکش سراپا ان کو پسند آگیا تھا، وہ ہر صورت اُس کو بھابھی بنانا چاہتی تھیں۔ مقررہ دن نکاح سے کچھ دیر پہلے فوزیہ نے اپنی ہم وطن لڑکی کو سجا سنوار کر دلہن بنا دیا اور نکاح بھی اسی کے گھر پر ہوا۔ رسم نکاح کے وقت مطلوبہ رقم ادا کرکے والد صاحب رشیدہ کو اپنی گاڑی میں لے آئے۔ یوں ہماری نئی ماں آگئی۔ والد صاحب نے رشیدہ سے شادی اس وجہ سے کی کہ وہ لاوارث تھی۔ ان کا خیال تھا۔ سر جھکا کر رہے گی اور ہر بات مانے گی۔ ان کے بن ماں کے بچوں سے بھی اچھا برتائو کرے گی۔ یہ باتیں ان کو پھپھو نے بھی باور کرا دی تھیں۔ پھپھو کا قیاس صحیح نکلا۔ رشیدہ کو ابو کے گھر میں تحفظ اور سکون ملا تو وہ خود کو خوش نصیب خیال کرنے لگی۔ والد صاحب خوشحال آدمی تھے۔ گھر میں کسی شے کی کمی نہ تھی جبکہ رشیدہ تحفظ کے علاوہ زندگی کی ضروریات کو ترسی ہوئی تھی۔ اس نے آتے ہی مچھلی اور چاول کھانے کی فرمائش کی کیونکہ وہ روٹی، نان اور سالن زیادہ رغبت سے نہیں کھاتی تھی۔ ابو ہر روز تازہ اور لذیذ مچھلی لاتے۔ عمدہ خوشبودار چاولوں کی بوریاں گھر میں ڈلوا دی تھیں ۔ نئی بیوی سے بہت عزت اور پیار سے پیش آتے۔ قیمتی ساڑھیاں، میک اپ کا سامان، زیورات غرض ہر وہ شے جس کی فرمائش کوئی نئی دلہن کرتی ہے، بن مانگے لاکر رشیدہ کو دیتے تھے گویا رشیدہ کی قسمت کھل گئی تھی۔ ابو کے حسن سلوک سے اس کا ملال جاتا رہا خوش و خرم رہنے لگی اور ہمارا خیال رکھنے لگی۔ ہم بچے جو سوتیلی ماں کو دیکھ کر خوفزدہ ہوگئے تھے، اب خوش تھے۔ لگتا تھا ہماری اپنی ماں واپس آگئی ہے۔ روزآنہ وہ ہم کو تیار کرتی۔ ہمارا سر دھلاتی۔ کپڑے بدلواتی اور فروٹ کا تازہ جوس نکال کر اپنے ہاتھوں سے پلاتی تھی، غرض کہ پھپھو سے بھی زیادہ توجہ سے دیکھ بھال کرنے لگی۔ ابو مطمئن ہوگئے۔ اپنی بہن کے شکر گزار تھے کہ انہوں نے واقعی عقلمندی سے کام لیا اور اتنی اچھی لڑکی ڈھونڈ کر لائیں۔ ابو رشیدہ سے خوش تھے مگر کبھی کبھی رشیدہ اداس ہوجاتی تھی، وہ اپنے وطن اور گھر والوں کو یاد کرتی، تب پھپھو تسلی دیتیں کہ بھائی اکبر سے کہوں گی وہ تمہارا پاسپورٹ بنوا دے تاکہ تم اپنے دیش جاکر والدین سے مل سکو۔ ایک روز پھپھو نے ابو سے کہا تم رشیدہ کو لے کر بنگلہ دیش جائو تاکہ یہ اپنے والدین سے مل سکے والد بولے صبر کریں کچھ اور عرصہ اسے یہاں گزارنے دیں، ہم میں اچھی طرح رچ بس جائے پھر اس کے میکے ملوانے لے جائوں گا دراصل چچا صغیر نے والد صاحب کو سمجھا دیا تھا کہ تمہاری بیوی بنگلہ دیش جانے کے لئے اصرار کرے گی مگر جلد اسے مت لے جانا، جب تک دو چار بچے نہ ہوجائیں۔ ورنہ تمہارے پاس نہیں ٹکے گی۔ شادی کے دو برس بعد رشیدہ نے ایک بیٹے کو جنم دیا۔ اس کے دو برس بعد بیٹی اور پھر ایک بیٹا ہوا۔ یوں والد کے گھر چھ برسوں میں تین بچوں کی ماں بن گئی۔ اب وہ اپنے دیش کو کم یاد کرتی۔ بچوں کی پرورش میں کھو گئی۔ کوئی سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ اس کے دل میں وطن کی یاد ابھی باقی ہے۔ والد صاحب ریٹائر ہوگئے تو انہوں نے اپنے محلے میں ایک جنرل اسٹور خرید لیا۔ یہ جما جمایا کاروبار تھا اور خوب چلتا تھا۔ تمام محلے والے اسی دکان سے خریداری کرتے تھے۔ ہم مزید خوشحال ہوگئے۔ ابو کا بھی دل لگا ہوا تھا، تمام لوگ ان کو جانتے تھے اور ان کی عزت کرتے تھے، ان کی عمر کے لوگ گپ شپ کرنے بھی آ جاتے تھے۔ والد صاحب کو کاروبار کے لئے ایک ہیلپر کی ضرورت پڑ گئی۔ اسی سلسلے میں فصیح الدین کو ملازم رکھ لیا جو ضرورت مند تھا اور والد صاحب کے جنرل اسٹور پر ملازمت کی تلاش میں آیا تھا ۔وہ بہت ہنس مکھ لڑکا تھا۔ جنرل اسٹور کو شیشے کی طرح چمکا کر رکھتا اور گاہکوں کے ساتھ خوش دلی سے پیش آتا۔ جلد ہی وہ محلے میں مقبول ہوگیا۔ جنرل اسٹور کی چھت پر ایک کمرہ بنا ہوا تھا۔ فصیح الدین رات کو وہاں سوتا تھا۔ ہمارے گھر کے اندر آنے کی اسے اجازت نہ تھی لیکن کبھی کبھار دروازے پر سودا سلف دینے آ جاتا تھا ہم اسکول گئے ہوتے تو رشیدہ امی اس سے سودا لے لیتیں۔ تین ماہ بمشکل اس نے والد صاحب کے اسٹور پر ملازمت کی اور جانے کس وجہ سے وہ نوکری چھوڑ کر چلا گیا۔ ہم بچے تھے، والد صاحب کے کاروباری معاملات کو نہیں جانتے تھے۔ صبح دم گھر سے اسکول جاتے تو دوپہر دو بجے کے بعد لوٹتے۔ ایک دن کا ذکر ہے۔ بھائی فہیم اور پھوپھی زاد ارشد ایک ساتھ کالج سے لوٹے تو فصیح الدین کو گھر کی ڈیوڑھی میں کھڑا پایا۔ وہ حیران ہوئے کیونکہ یہ شخص ابو کی ملازمت چھوڑ کر چلا گیا تھا۔ اب یہاں کیا کرنے آیا تھا۔ فصیح الدین تم یہاں کیا لینے آئے ہو ارشد نے سوال کیا تو وہ گھبرا گیا اور جواب دیئے بغیر تیزی سے نکل بھاگا۔ میرا یہ پھوپھی زاد ارشد خاصا سمجھدار تھا۔ اسے خیال گزرا یہ شخص بنگالی ہے اورماموں اکبر کی بیوی بھی بنگال کی ہے، ضرور یہ اسی وجہ سے آیا ہے، تبھی پھر رشیدہ امی سے پوچھا ممانی سچ بتا دو۔ فصیح الدین کیوں آیا تھا۔ نہیں بتائو گی تو ماموں سے شکایت کردوں گا۔ وہ سن کر گھبرا گئیں رنگ فق ہوگیا اور منت کرنے لگیں کہ خدا کے لئے ماموں کو مت بتانا یہ آدمی آج کل بیروزگار ہے۔ ضرورتمند ہے مدد کے لئے آیا تھا، میں نے تھوڑی سی رقم دے دی ہے۔ کیا پہلے بھی رقم لینے آیا تھا۔ بولیں ہاں ایک دو بار آیا تھا مگر اب میں نے منع کردیا ہے، آئندہ نہیں آئے گا۔ اچھا ہوا کہ آپ نے منع کردیا۔ اگر آئندہ یہ کبھی گلی میں نظر آیا تو میں ضرور ماموں کو بتا دوں گا۔ رشیدہ گرچہ میرے والد کے ساتھ خوش اسلوبی سے رہتی تھی لیکن ابو اب بیمار رہنے لگے تھے، وہ بوڑھے دکھائی دیتے تھے، جبکہ رشیدہ بھرپور جوان تھی، اس عورت نے ابو کے ساتھ بارہ تیرہ برس گزار دیئے تھے۔ ان کو شکایت کا موقع نہ دیا تھا، اب جبکہ وہ ان کے تین بچوں کی ماں تھی، شوہر سے کیسے بے وفائی کرسکتی تھی پھر بھی ارشد کے ذہن میں شکوک و شبہات کے جھکڑ سے چلنے لگے تھے۔ اس واقعہ کے بعد ہماری بنگالی ماں ڈری سہمی رہتی۔ وہ بہت ہنس مکھ اور خوش اخلاق تھی، تب ہی محلے بھر کی عورتیں اس کی گرویدہ تھیں۔ پہلے وہ کم کسی کے گھر جاتی تھی، اب اکثر جانے لگی۔ کبھی بازار جانے کا بھی بہانہ کرکے گھر سے نکل جاتی۔ میں اس تبدیلی پر حیران تھی۔ پھپھو بوڑھی ہوچکی تھیں، رشیدہ پر شک نہ کرتیں، جب یہ کہتی کہ جائوں وہ جواب دیتیں جہاں جانا ہے جائو مگر جلدی آ جانا بچے اسکول سے آتے ہی کھانا مانگتے ہیں۔ یوں رشیدہ امی نے روز صبح گھر سے باہر جانا معمول بنا لیا۔ جونہی بچے کالج اور اسکول کو جاتے تو یہ بھی ابو کے اسٹور پر جانے کے فوراً بعد گھر سے نکل جاتیں۔ اور ایک بجے دوپہر کو آتے ہی کھانا بنانے لگتیں۔ ان دنوں دسویں کے سالانہ امتحان ہونے والے تھے لہٰذا ہم اسکول نہیں جاتے تھے۔ میں گھر بیٹھ کر پرچوں کی تیاری کرتی تھی۔ روز امی کو گھر سے جاتے دیکھتی تو سوچتی تھی کہ اتنی صبح کہاں جاتی ہیں۔ ڈر کے مارے کسی سے نہ کہتی کہ ہم کو پیار دیا تھا اور ہمارے لئے ماں جیسی تھیں۔ سالانہ پرچے شروع ہوگئے، ایک دن فہیم بھائی مجھے امتحانی سینٹر سے لینے آئے تو ہم نے راستے میں ماں کو فصیح الدین کے ساتھ جاتے دیکھا۔ ہم دونوں ہی سوچ میں پڑ گئے۔ گھر آکر صلاح و مشورہ کرنے لگے۔ تب ہی ارشد بھی آگیا اور ہماری باتیں سن لیں۔ اس نے پوچھا تو فہیم نے بتا دیا کہ آج امی کو فصیح الدین کے ساتھ رکشہ میں جاتے دیکھا ہے۔ دوپہر ایک بجے کے قریب رشیدہ امی بھی آگئیں، ہم کو پاکر پریشان ہوگئیں، ارشد ایک کائیاں تھا، وہ ہم سے پہلے بات کو پا جاتا تھا، اس نے امی کو آڑے ہاتھوں لیا کہ سچ بتائو فصیح الدین کے ساتھ کہاں رکشے میں گئی تھیں، ورنہ ابھی ماموں کو جاکر بتاتا ہوں۔ وہ بری طرح ڈر گئیں، منت کرنے لگیں ماموں کو مت بتانا۔ سچ کہتی ہوں کہ میں فصیح الدین کے ساتھ پاسپورٹ کے آفس گئی تھی۔ دراصل میں اپنے والدین کے لئے بہت اداس ہوں اور ان سے ملنے جانا چاہتی ہوں، جبکہ تمہارے ماموں جانے نہیں دیتے اسی وجہ سے فصیح کا سہارا لیا ہے، ورنہ میرا اس کے ساتھ کوئی تعلق واسطہ نہیں ہے۔ اس وقت ارشد نے ماموں کو نہ بتانے کا وعدہ کیا تھا مگر رشیدہ امی کو اعتبار نہ تھا، وہ سمجھتی تھیں کہ یہ کسی نہ کسی وقت یہ بات ضرور بتا دے گا۔ پس اگلے روز جبکہ سب اپنے اپنے کاموں سے گھر سے نکل گئے، یہ بھی چلی گئیں اور دوبارہ نہ لوٹیں۔ امی کی گمشدگی سے ابو بہت پریشان تھے۔ دو چار دن انتظار میں رہے کہ شاید لوٹ آئے، اپنے بچوں کا ہی خیال کرلے ہفتہ گزر گیا کچھ پتا نہ چلا صاف ظاہر تھا کہ وہ فصیح الدین کے ساتھ چلی گئی تھیں۔ ابو کے خوف سے یا اس شخص کی چاہت میں یہ خدا کو معلوم بہرحال حیدرآباد سے ایک عزیز نے ابو کو اطلاع دی کہ تمہاری بیوی ایک بنگالی شخص کے ہمراہ آئی ہے، مجھ سے پناہ کی درخواست کی اور اب میرے گھر میں چھپی ہوئی ہے۔ وہ اپنی غلطی پر نادم ہے اور معافی کی خواستگار ہے۔ والد صاحب اس اطلاع پر بے حد رنجیدہ ہوئے، رشیدہ ان کے سیف سے بھاری کیش کے ساتھ اپنے تمام زیورات بھی لے گئی تھی، تاہم انہوں نے کوئی کارروائی نہ کی اور طلاق کے کاغذات بھجوا دئیے۔ طلاق کے یہ کاغذات گویا آزادی کا پروانہ تھے۔ رشیدہ نے فصیح الدین سے نکاح کرلیا اور یہ لوگ حیدرآباد میں رہنے لگے۔ فصیح الدین خوبصورت اور جواں سال ضرور تھا مگر وہ نکما شخص تھا۔ اس نے کوئی کام نہ کیا، کچھ عرصہ ابو کے کیش اور زیورات پر گزر ہوتی رہی۔ اس کے بعد رشیدہ جو ابو کے گھر عیش و عشرت کی زندگی گزار رہی تھی نان شبینہ کو محتاج ہوگئی۔ فصیح الدین چرس پیتا تھا وہ مزید نشہ کرنے لگا۔ رشیدہ کے بعد میں برے دن آگئے کیونکہ فصیح الدین اس کو دھمکاتا تھا، اگر میری شکایت کسی سے کی تو اس گروہ کے ساتھ دوبارہ تم کو بیچ دوں گا جو تم کو بنگلہ دیش سے اغوا کرکے لایا تھا۔ وہ موقع ملتے ہی ابو کے اسی عزیز کے پاس جاکر اپنے دکھ بتاتی جس نے ابو کو اطلاع دی تھی وہ صاحب ابو کو فون پر رشیدہ کا حال بتاتے۔ میرے والد اپنی بے وفا بیوی کی تکالیف کے بارے میں سنتے تو کڑھتے مگر کیا کرسکتے تھے، رشیدہ نے یہ رستہ خود چنا تھا۔ اب وہ محنت کرتی اور فصیح الدین اس کی کمائی پر عیش کرتا۔ اس سے بدسلوکی کرتا اور زندگی اجیرن رکھتا۔ وقت گزرتا رہا۔ فہیم بھائی نے تعلیم مکمل کرلی اور ملازمت حیدرآباد میں ہوگئی۔ ایک روز اپنے ایک دوست کے ساتھ اسپتال گئے جہاں اس کی ماں کا آپریشن تھا۔ ایک عورت نظر آئی جو بہت خستہ حال لگ رہی تھی، وہ اس اسپتال میں آیا تھی، اس کے نقوش بھلے تھے لیکن رنگت سیاہ ہوچکی تھی، وہ بوڑھی اور بدصورت نظر آرہی تھی۔ بھائی پہچان نہ سکا مگر وہ ان کی طرف والہانہ لپکی اور آواز دی فہیم بیٹا۔ ادھر آئو، کیا مجھے نہیں پہچانا میں ہوں تمہاری ماں رشیدہ۔ فہیم کی آنکھوں تلے اندھیرا چھا گیا، کہاں وہ قیمتی لباس زیب تن کرنے والی خوبصورت رشیدہ امی اور کہاںاسپتال کی یہ خستہ حال میلی سی آیا جس کی سفید وردی پر بھی دھبے تھے۔ یہ وہ ہماری رشیدہ امی نہیں ہوسکتیں۔ بھائی کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہ آرہا تھا مگر یہ حقیقت تھی، یہ ہماری وہی ماں تھی جس کو ان کی حماقت نے اس حال پر پہنچا دیا تھا۔ بھائی نے پوچھا وہ فصیح الدین کدھر ہے جس نے تم کو تمہاری جنت سے نکال کر اس حال میں پہنچایا ہے۔ وہ بولی بیٹا اس بدبخت کا نام نہ لو بس مجھے اس قدر بتا دو کہ میرے بچے کیسے ہیں مجھے یاد کرتے ہیں کہ نہیں۔ وہ ٹھیک ہیں اور تم کو بالکل یاد نہیں کرتے۔ جب فہیم نے ایسا کہا تو وہ رونے لگیں اور منت کرنے لگیں، ایک بار مجھے میرے بچوں سے ملوا دو ان کے رونے پر بھائی کا دل نرم پڑ گیا، کہنے لگے اچھا تم کراچی آنا تو بتانا، میں ان کو تم سے ملوانے کی کوشش کروں گا۔ ہفتہ بعد وہ چھٹی پر گھر پہنچا تو امی رشیدہ کی ایک سہیلی خالہ شگفتہ آئی اور سرگوشی میں بتایا رشیدہ میرے گھر آئی ہے کیا تم نے اسے بچوں سے ملوانے کا کہا تھا یہ سن کر میرے بھائی کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی، مگر پھر رشیدہ امی کے آنسو یاد آگئے۔ خالہ میں کیسے ملوائوں، ابو خفا ہوں گے۔ ان کے تینوں بچے ایک ہی اسکول میں پڑھتے ہیں، آپ وہاں ان کو ملوا دیں مگر میرا نام نہیں آنا چاہئے خالہ شگفتہ چلی گئیں۔ شام کو رشیدہ امی دروازے پر آگئیں بیٹا فہیم تم کو اپنی ماں کا واسطہ بیٹا میرے چاند نوری اور زلفی کو دروازے تک لے آ میں گھڑی بھر کو ان کی صورت دیکھ لوں۔ فہیم نے ہاتھ جوڑے۔ امی رشیدہ خدا کے لئے ابھی چلی جائو۔ ابا آنے والے ہیں۔ میں کل تم کو کسی طرح ان سے ملوا دوں گا۔ فہیم نے ان کو ٹالا اور مجھے کہا کہ اب تم کسی طرح مدد کرو۔ مجھے ترس آگیا۔ اگلے روز اسکول کی چھٹی تھی، میں خالہ شگفتہ کی بیٹی سے ملنے کے بہانے ان کے گئی، کیونکہ روبی میری سہیلی تھی۔ میں چاند، نوری اور زلفی کوساتھ لے گئی۔ وہاں خالہ شگفتہ نے ان کو امی رشیدہ سے ملوایا مگر افسوس بچوں نے ماں کے پاس جانے سے انکار کردیا۔ وہ منت کرتی رہیں میرے بچے میرے قریب تو آئو وہ دور کھڑے رہے پھر بھاگ کر گھر آگئے وہ ایسی اجنبی آنکھوں سے اس عورت کو گھورتے رہے جیسے وہ ان کی ماں ہی نہ ہو۔ قدرت عورت کو اس کی غلطی کی سزا ضرور دیتی ہے۔ رشیدہ گرچہ ایک مظلوم عورت تھی کہ زبردستی بیاہی گئی اور دھوکے سے اغوا کی گئی مگر جب وہ ماں بنی تب بھی اپنے والدین کی محبت کو نہ بھلا سکی۔ تب ہی تو اپنے بچے چھوڑ کر وہ فصیح الدین کی باتوں میں آگئی جو لالچی، دھوکے باز انسان تھا۔ اپنے پیار کرنے والے شوہر کو دھوکا دینے کی غلطی کرکے رشیدہ نے نہ صرف جنت سے جہنم کا راستہ اختیار کیا بلکہ اپنے بچوں کو بھی ممتا سے محروم کیا۔ وہ یہ نہ سوچ سکی کہ جب جوان ہوکر وہ اپنے گھر ماں باپ کو نہیں بھلا سکی تو اس کے چھوٹے بچوں پر ماں کی جدائی سے کیا قیامت گزرے گی لیکن بچے بھی عجیب ہوتے ہیں۔ انہوں نے سمجھ لیا کہ ان کی ماں بے وفا ہے تو اس کی پیار بھری بانہوں میں جانے اور گلے لگنے سے صاف انکار کردیا۔ میں جانتی تھی کہ وہ کبھی اپنی ماں کے پیار کو نہیں بھلا سکتے۔ یہ پیار ان کے دل میں مرتے دم تک رہے گا مگر انہوں نے صبر کیا اور حالات کو سمجھ کر ماں کو جھوٹی آس نہیں دلائی۔ والد صاحب کو جب اس واقعے کا علم ہوا انہوں نے اپنا جنرل اسٹور اور مکان فروخت کیا اور دوسری جگہ مکان خرید کر رہائش اختیار کرلی تاکہ آئندہ رشیدہ دوبارہ ان کے بچوں کو ڈسٹرب نہ کرے۔ رشیدہ امی نے ہم کو ماں کا پیار دیا تھا، اسی لئے آج بھی ان کی اچھی یادیں ہمارے دل میں ہیں اور ہم نے بھی اس نیکی کے بدلے ان کے تینوں بچوں کو پیار دیا۔ خاص طور پر میری بہن اور بھائی فہیم نے، تاکہ ان کو پیار کی کمی محسوس نہ ہو۔ س ڈیرہ غازی خان
null
null
null
null
414
https://www.urduzone.net/woh-kion-khafa-hove-teen-auratien-teen-kahaniyan/
والد صاحب کی وفات کے بعد کوئی ذریعہ آمدنی نہ رہا تو بہت سوچ بچار کے بعد فیصلہ کیا کہ نوکری کی تلاش میں ماری ماری پھرنے کی بجائے کیوں نہ اپنا بزنس سنبھال لوں۔ جانتی تھی کہ بغیر سفارش نوکری ملے گی نہیں۔ مل بھی گئی تو قلیل تنخواہ میں گزارہ ممکن نہ ہوگا۔ تنگیٔ حالات سے مجبور ہوکر امی جان نے کہاتھا۔ بیٹی تمہارے ابا کی دکان بند پڑی ہے، کیوں نہ اسے فروخت کردیں۔ ماں، فروخت کرنے سے جو پیسہ آئے گا بالآخر خرچ ہوجائے گا۔ بعد میں کیا ہوگا کیوں نہ دکان کو دوبارہ چلانے کی تدبیر کریں۔ کیونکر بیٹی کیا تم چلا سکتی ہو اکیلی لڑکی بازار میں بیٹھ کر دکان نہیں چلا سکتی بہتر ہے، ہم اسے فروخت کرکے رقم بینک میں ڈال دیں اور تم کہیں ٹیچر لگ جاؤ۔ ہماری دکان پر مصنوعی زیورات فروخت ہوتے تھے۔ والد صاحب کا یہ بہت اچھا چلتا کاروبار تھا جو ان کی وفات کے بعد جاری نہ رہ سکا۔ یہ کام چونکہ خواتین کے سنگھار وزیبائش سے متعلق تھا، اس لیے عورتوں کا دکان پر رش رہتا تھا۔ میں یہ شاپ چلا سکتی تھی لیکن والدہ کا کہنا تھا کہ تم اکیلی دکان پر نہیں بیٹھ سکتیں۔ ساتھ میں کسی قریبی عزیز کا ہونا لازمی ہے کیونکہ دکان بازار میں ہے۔ ہمارا کوئی بھائی نہ تھا اور ہم تین بہنیں تھیں، دل میں ٹیس سی اٹھی اے کاش میں لڑکا ہوتی، امی اور بہنوں کا سہارا بنتی۔ ابا کا چلتا بزنس سنبھال لیتی۔ یہ سوچ کر افسردہ تھی کہ اتفاق سے میرا چچا زاد جمال دوسرے شہر سے نوکری چھوڑ کر آگیا۔ وہ ہمارے گھر امی سے ملنے آیا تو مجھے افسردہ دیکھ کرپوچھا۔ تمہیں کیا ہوا ہے شکل پر کیوں بارہ بج رہے ہیں۔ جمال بھائی آج پہلی بار احساس ہوا ہے کہ لوگ بیٹے کی آرزو کیوں کرتے ہیں اور بیٹیوں کی پیدائش پر کس لئے رنجیدہ ہوجاتے ہیں۔ یہ غلط سوچ ہے۔ بھائی ٹھیک تو ہے۔ بیٹے کی آرزو اسی دن کے لئے کرتے ہیں، میں اگر لڑکا ہوتی تو دکان بند نہ پڑی ہوتی ۔ جی چاہتا ہے آج ہی جاکر ابا کی شاپ کھول دوں لیکن اماں کے اندیشے مانع ہیں۔ کہتی ہیں یہ ناممکن ہے اکیلی لڑکیاں بزنس نہیں سنبھال سکتیں۔ ہمارا معاشرہ اجازت نہیں دیتا۔ تم بھی کمال کرتی ہو زویا، مجھے بھائی کہتی ہو اور خود کو اکیلا سمجھتی ہو ، ارے بھئی میں کس مرض کی دوا ہوں،جانتی ہونا کہ نوکری نہیں رہی بیروزگار ہوں پھر کیوں یہ ناممکن ہے۔ تم ہمت کرلوگی تو میں تمہارا ساتھ دوں گا۔ دکان پر تمہارے ساتھ بیٹھوں گا تم خواتین کو ڈیل کرنا۔ اس کی بات میرے جی کو لگی مرجھایا ہوا چہرہ کھل گیا، ابا نے دکان میں ایک طرف ٹرائی کارنر بنا دیاتھا، یعنی عورتیں زیورات پہن کر وہاں آئینے میں دیکھتیں تو زیور کی خریداری میں دلچسپی مزید بڑھ جاتی تھی ۔ بچپن میں دکان پر جایا کرتی تھی، مجھے وہاں جانا اچھا لگتا، جمال نے حوصلہ دیا اور میں نے اماں کو منالیا جمال دکان پر سامنے کاؤنٹر پر ہوتے اور میں شوکیسوں کی طرف جہاں خواتین جیولری دیکھتیں اور پسند کرتیں۔ ہماری دکان جمال بھائی کی توجہ سے چل پڑی تھی۔ میں ان کی بہت مشکور تھی۔ انہوں نے ہم سے کہا تھا کہ شروع کے چھ ماہ وہ ہماری شاپ پر ملازم ہوںگے ہرماہ تنخواہ لیا کریں گے۔ کاروبار چل پڑا تو اپنا سرمایہ لگا کر کاروبار میں شراکت دار بن جائیں گے۔ ہم ماں بیٹی نے منظور کرلیا کہ گھر چلانا تھا اور وہ پھراپنے تھے، میں کسی غیر آدمی کے ساتھ اکیلی سارا دن نہ بیٹھ سکتی تھی۔ ایک روز صبح کے وقت ایک غریب عورت خیرات مانگنے آگئی۔ بیس بائیس کا سن تھا، خستہ حال اور میلے کپڑے مجھے اس کے حال پر ترس آیا۔ پرس سے دس کا نوٹ نکال کر اس کی طرف بڑھایا توجمال نے روک دیا اور میرے قریب آکر سرگوشی میں گویا ہوا اتنے کم پیسوں میں بچاری کا کیا بنے گا۔ دیکھ رہی ہونا، کتنی بدحال ہے۔ اس کو خیرات نہیں امداد کی ضرورت ہے چھوٹا بچہ اٹھا رکھا ہے، شاید اسی وجہ سے کام نہیں کرتی اور بھیک مانگنے پر مجبور ہے۔ واقعی شکل سے وہ بھکارن نہ لگتی تھی۔ نین نقش دلکش تیکھے تھے، رنگت بھی گوری مگر سنولائی ہوئی تھی۔ جمال نے اپنی جیب سے سوکا نوٹ نکالا اور اس کی طرف بڑھایا، وہ ہچکچائی لیکن جب میں نے اشارہ کیا تواس نے ہاتھ بڑھا کر نوٹ لے لیا۔ کیا نام ہے تمہارا۔ وہ بولی بھاگ بھری واہ کیا بھلانام ہے خوب سوچ کررکھا ہے کسی نے۔ اچھا تمہارا خاوند کیا کرتا ہے جمال نے ننھے بچے کی طرف دیکھ کر دوسرا سوال کیا۔ نشہ کرتا ہے۔ اس نے مختصر جواب دیا۔ کہاں رہتی ہو خیمے میں۔اچھا تم خانہ بدوش ہو۔ عورت نے اثبات میں سرہلایا اور چلنے کو ہوئی۔ سمجھ گئی کہ وہ کچھ اور بتانے سے گریزاں ہے۔ جمال نے قدرے چالاکی سے کام لیا، وہ بولا آج سردی بہت ہے۔ چائے والے، اس نے سامنے کی طرف منہ کرکے آواز لگائی ایک بارہ سال کا چھوکرا دوڑا ہوا آیا۔ کیا چائے پیو گی میرے کزن نے اسے مزید روکنے کے لیے گویا رشوت پیش کی جبکہ میں چاہتی تھی وہ چلی جائے وہ ٹھہرگئی، جی صاحب پیوں گی سردی لگ رہی ہے۔ ادھر بیٹھ جاؤ۔ جمال نے اشارہ کیا۔ وہ دکان کے اندر آگئی اور اس کے پاس پڑے اسٹول پربیٹھ گئی ۔ ذرا دیر میں لڑکا ٹرے میں تین مگ چائے لے آیا۔ ایک کپ مجھے دے کر وہ پلٹا اور دوسرا بھاگ بھری کو تھمادیا۔اس نے بے صبری سے مگ ہاتھ میں لیا اور جلدی جلدی چائے حلق میں اتارنے لگی۔ ہاں توبھاگ بھری کبھی کوئی کام کرنے کا نہیں سوچا پراندے اور چوڑیاں بیچا کرتی تھی۔ جب سے مناہوا ہے یہ کام نہیں کرسکتی۔ اس نے چائے ختم کرلی تو جانے کو ہوئی۔ اس طرف کا پھیرا کب لگتا ہے جمعرات کے دن، اس نے کہا۔ اتنا کہہ کر وہ چلی گئی اور میرے ذہن میں کئی سوال چھوڑ گئی جمال نے اس میں غیر معمولی دلچسپی دکھائی تھی اور جب وہ جارہی تھی میرے کزن کی نگاہوں نے دور تک اس کا پیچھا کیا تھا۔ میں اپنے کزن کے اس طرز عمل کے بارے میں سوچتی رہ گئی، کسی نتیجے پر نہ پہنچ سکی۔ جمال گداگری کے خلاف تھا اور بھیک مانگنے والوں کو بھیک دینے سے گریز کرتا تھا، لیکن آج بھاگ بھری پر وہ اتنا مہربان کیوں ہوگیاتھا۔ شاید اس لیے کہ وہ بہت خوبصورت اور کم سن تھی لیکن تھی تو کسی بدنصیب باپ کی بیٹی اور کسی بے حس شوہر کی بیوی اور اب وہ ایک بچے کی ماں بھی بن چکی تھی، جس کو خوراک فراہم کرنے کی خاطربھیک مانگ رہی تھی یاپھر معاملہ کچھ اور ہوگا کہ انجانے راستوں کی مسافر بن گئی تھی۔ سوچا موقع ملا تواس عورت کی مدد ضرور کروں گی، لیکن اس کے حالات جاننے کے بعد، شام کوجب ہم دکان بند کرکے گھر کی طرف چلے تومیں نے جمال سے کہا۔ بھائی ذرا گاڑی باہر والے راستے سے نکالنا۔وہ میرا مطلب سمجھ گیا غالباً جمال خود بھی یہی چاہ رہا تھا، اس نے گاڑی بائی پاس والے راستے کی طرف موڑ لی جہاں اکثرخانہ بدوش اپنے خیمے ڈالا کرتے تھے ذرا آگے گئے تھے کہ خانہ بدوشوں کے خیمے دکھائی دیئے کٹے پھٹے پرانے خیمے جن کے قریب کھلے آسمان تلے مردوں نے آگ روشن کررکھی تھی، وہ غالباً کھانا پکا رہے تھے، وہاں عورتیں نہیں تھیں۔ میں سمجھ گئی کہ ان کی عورتیں خیموں میں نہیں ہیں۔ ورنہ وہ آگ کے قریب پڑی چارپائیوں پر نظر آجاتیں گویا ابھی تک واپس نہ لوٹی تھیں۔ ہم نے گاڑی سے انہیں دیکھا اور آگے بڑھ گئے۔ جمعرات کے دن بھاگ بھری صبح دس بجے آگئی، میرے کزن کی نگاہوں میں چمک آگئی، جیسے اسے اسی کا انتظار تھا بھاگ بھری کو آتے دیکھ کر اس نے چائے کا آرڈر دے دیا۔ ہمارا ملازم چائے لینے سڑک پارچلا گیا۔ آج جمال نے چائے کے ساتھ کیک پیس لانے کو بھی کہہ دیاتھا۔ پانچ منٹ میں خادم ٹرے لے آیا بھاگ بھری کی بانچھیں کھل گئیں، جونہی جمال نے ٹرے اس کی طرف بڑھائی، اس نے جلدی سے کیک پیس اٹھا کر بچے کوتھما دیئے اور خود جلدی جلدی چائے پینے لگی۔ وہ اسٹول پر بیٹھ گئی۔ اس بار میں نے اس کی جانب توجہ نہ دی لیکن کن انکھیوں سے جمال کو دیکھتی رہی، جس کی ساری توجہ بھاگ بھری، پر تھی۔ آج اس نے پہلے سے بہتر اور کچھ اجلا لباس پہنا ہوا تھا اور بال بھی سنورے ہوئے تھے۔ جیسے پوری نہیں تو آدھی تیاری سے آئی ہو۔ جب وہ چائے پی چکی تو جمال نے جیب سے نوٹ نکال کر اسے دیا۔ کتنے کا نوٹ تھا یہ میں نہ دیکھ سکی۔ بھاگ بھری کو نوٹ دیتے ہوئے اس نے سرگوشی میں کچھ کہا۔ میں وہ بھی نہ سن سکی۔ لیکن مجھے یہ اچھا نہ لگا۔ اس کے بعد وہ جلد جلد آنے لگی، جمال اسے مدد کے طور پر کچھ رقم دے دیتا اور وہ اس کے ساتھ دوچار باتیں کرکے چلی جاتی۔ میں جمال سے یہ پوچھتے ہوئے ہچکچاتی تھی کہ آپ اس سے کیا بات کرتے ہیں، تاہم یہ یقین تھا کہ کی خاطر یہ عورت کوئی غلط کام کرنے والی نہیں ہے۔ ایک دن جمال دکان پر آتے ہی مال خریدنے کراچی چلا گیا اور کاؤنٹر پر میرے دوسرے کزن کو بٹھا گیا، یہ جمال کا چھوٹا بھائی احسان تھا اور ابھی فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا ۔ اچانک بھاگ بھری آگئی۔ موقع اچھا تھا میں نے اسے دکان کے اندر بلالیا جہاں میری نشست تھی یہ پوچھنے کو کہ وہ خود کوگداگری کے پردے میں کن پستیوں میں دھکیل رہی ہے۔یہ بات کہنے کے لئے ویسی ہی عزت دینی لازم تھی، جیسی جمال بھائی اسے دیتے تھے، میں نے اسٹول اس کی جانب بڑھا دیا اور کہا بیٹھو کیا آج چائے نہ پیو گی، آج تو سردی اور بھی زیادہ ہے میرا بھائی موجود نہیں تو کیا ہوا میں تو موجود ہوں۔ یہ جنوری کی ایک دھندلی صبح تھی، دھند نے سارے شہر کو اپنی لپیٹ میں لے رکھا تھا وہ بھی سردی کی وجہ سے کانپ رہی تھی۔ کوئی گرم کپڑا اس کے تن پر نہ تھا۔ ایک عام سی دردیدہ چادر کے سوا۔ آج سخت موسم کی وجہ سے چھوٹا بچہ بھی ساتھ نہ تھا۔ جب وہ چائے پی رہی تھی میں نے نرمی سے پوچھا اتنے برُے موسم میں سارا دن ٹھنڈ میں بھٹکنے سے کیا اچھا نہ تھا آج گداگری کو نہ نکلتی مزے سے خیمہ میں بیٹھ کر آگ تاپتی اور قہوہ پیتی۔ بولی ایسے ہمارے نصیب کہاں بہن جی مرد ہمارے تو گھر بیٹھنے نہیں دیتے، چاہے سخت سردی ہویا خراب موسم ہم بھیک نہ مانگیں تو وہ کھائیں کہاں سے بی بی مزے ہم نہیں کرسکتے، مزے تو ہمارے مردوں کے ہیں۔ اسے سردی سے کانپتے پاکر میں نے اپنی گرم شال اڑھا دی۔ بہت محبت سے اور کہا۔ دیکھو آئندہ سردی میں ایسے مت نکلنا۔وہ لجا کر بولی۔ نہیں بہن جی یہ آپ کی ہے آپ اوڑھے رہیں۔ ہمیں یونہی پھرنے کی عادت ہے۔ بہن جی کہتی ہو اور پھر ایسی بات کرتی ہو، اوڑھے رکھو اور کسی شے کی ضرورت ہے تو بتاؤ اور کوئی ضرورت نہیں آپ کا شکریہ۔ جیسے شال اڑھاکر میں نے اس کے ساتھ کوئی ان دیکھا، ان جانا رشتہ استوار کرلیا ہو اس کی عزت نفس جوسو گئی تھی حالات کی وجہ سے، وہ پھر سے جاگ گئی تھی۔ مجھے لگا کہ غربت اس کی مجبوری ضرور ہے لیکن وہ عزت کی آرزو بھی رکھتی ہے۔ گداگری سے اس کی حمیت مرنہیں گئی تھی، میرے حسن سلوک سے اس کی آنکھوں میں ممنونیت کے آنسو تیرنے لگے تھے ۔ بھاگ بھری مجھے یقین ہے کہ تم خیمہ والوں کی باسی نہیں ہو کہیں اور سے تعلق ہے تمہارا۔ سچ بتاؤ تم کہاں سے آئی ہو اس نے کہا آپ ٹھیک سمجھی ہیں میں خانہ بدوشوں کی لڑکی نہیں ہوں، میں چھوٹی سی تھی تواپنی امی کے ساتھ بازار گئی تھی تو رش میں گم ہوگئی، وہ مجھے بھیڑ میں ڈھونڈتی رہ گئیں اور میں ان کو تلاش کرتی رہی ۔ ہم دونوں ایک دوسرے سے نہ مل سکے اور میں روتی ہوئی سڑک پر چلی گئی، ان خانہ بدوشوں کے خیموں کی طرف، تو انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھ لیا۔ اس وقت میری عمر چار سال ہوگی، جس کو میں ملی، اس نے مجھے بیٹی بنالیا اور پھر میں ان کی ملکیت ہوگئی۔ قسمت نے جس شخص کو میرا باپ بنایا اس نے اپنے بھتیجے سے میری شادی کردی، وہ نکما ہے، مٹھو نام ہے اس کا، کوئی کام نہیں کرتا، چرس اور بھنگ پیتا ہے بھیک منگواتا ہے، بھیک کم ملے تو مارتا ہے۔ ابا اسے روکتا تو ہے مگر وہ کسی کی بات نہیں سنتا۔ ابا بان بنتا ہے اور کچھ روزی کما لیتا ہے تم لوگ کتنے عرصہ یہاں رہو گے کچھ پتا نہیں جب یہ موسم ختم ہوگا اگلے پڑاؤ کی طرف کوچ کریں گے۔ راتوں رات ہم میلوں دور چلے جاتے ہیں۔ ابھی تو گنے کی فصل اتری ہے۔ خیمہ والوں کو فصل اٹھانے کے موسم میں مزدوری مل جاتی ہے۔ ہمارے کچھ مرد اور عورتیں مزدوری بھی کرلیتے ہیں،اگلے موسم کی فصل جہاں اچھی ہوگی وہاں پڑاؤ ڈال لیں گے۔ عورت امیرہویاغریب، شوہر کے پیار کی بھوکی ہوتی ہے۔ اب تو مجھے مٹھو سے نفرت ہوگئی ہے۔ جی چاہتا ہے اسے چھوڑ کر کہیں نکل جاؤں۔ میں نے کہا اچھا ہے کہ تم بھیک مانگنے کی بجائے مزدوری کرلو کھیتوں میں چاولوں کی فصل اتری ہوئی ہے، کپاس چنو گی تو اجرت کے علاوہ کچھ کپاس بھی ملتی ہے، رضائیاں وغیرہ بناسکتی ہو کہنے لگی یہ وہ کام ہیں جو میں چھوٹے بچے کے ساتھ نہیں کرسکتی بھیک مانگتے وقت میں بچہ کندھے پر ڈال لیتی ہوں۔ پھر بولی۔ اچھا بتاؤ کوئی اور مزدوری ملے گی۔ ہاں وہ سامنے گودام ہے وہاں دھاگے کی ریلیں ڈبوں میں بھری جاتی ہیں، مزدور عورتیں یہ کام کرتی ہیں جمال بھائی سے کہہ کرتم کووہاں کام دلواسکتی ہوں۔ کتنے دن کروں گی پابندی والا کام کوچ کرنے کا وقت آگیا تو مزدوری کی اجرت بھی رہ جائے گی۔ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی، تبھی میں نے اسے پلو سے باندھنے کی بجائے اپنی نصیحت اپنے پلے باندھ لی۔ دوروز بعد جمال بھائی آگئے، ان کو بھاگ بھری کا احوال بتایا۔ بولے ہم کیوں نہ پڑوسی کا گودام صاف کروالیں۔ میں اسے کہوں گا کہ یہ غریب عورت ہے، اسے ہزار روپیہ مزدوری دینا۔ جمال نے پڑوسی سے ذکر کیا۔ ملک مہران کو کئی دن سے صفائی کے لئے کسی مزدور کی تلاش تھی، اس نے کہا، اب وہ عورت آئے تو میری طرف بھیج دینا۔ اتفاق کہ اگلے دن وہ آگئی۔ میں نے جمال بھائی کو کہہ کر اسے مہران کی طرف بھیج دیا۔ ہم خوش تھے کہ ایک غریب عورت کے ساتھ نیکی کی ہے، ایک دن میں چند گھنٹے کام کرکے اسے ہزار روپے مل جائیں گے تو اگلے دن ہم اپنا گودام صاف کرالیں گے بچاری بھاگ بھری چھوٹے بچے کو اپنی دیورانی کی چھ سالہ لڑکی کے سپرد کرکے آگئی تھی ۔ جھاڑو اٹھا اس نے مہران کا گودام صاف کردیا۔ چار پانچ گھنٹے صفائی میں لگے تھے اور اب وہ گودام سے نکلی تھی۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ کپڑے میلے ہی نہیں ہوئے، پھٹ بھی گئے تھے۔ غریب کا لباس دردیدہ ہوجائے تو رہی سہی عزت بھی خراب ہوجاتی ہے میں نے اسے سڑک پر جاتے دیکھا تو ملازم کو دوڑایا کہ اسے بلاکرلاؤ کل اپنے گودام کی صفائی کروالوں گی، وہ تھکے ہارے قدموں سے چلتی ہوئی آگئی منہ پر گرد اور بال بکھرے ہوئے، حلیہ بے ترتیب اور بجھی بجھی آنکھیں چغلی کھا رہی تھیں کہ پیراہن ہی دردیدہ نہ تھا روح بھی زخمی ہوگئی تھی ۔ اجرت مل گئی کیا بھاگ بھری ہاں اس نے روہانسی ہوکر کہا ۔ اچھا کل آنا دوسرا گودام بھی صاف کروانا ہے۔ اس نے خشمگیں نگاہوں سے مجھے گھور کردیکھا۔ اجرت زیادہ ملے گی، بھئی کیا مزدوری نہیں کروگی جمال نے چہک کرکہا تو وہ غصے سے بولی۔ نہیں چاہئے زیادہ اجرت، نہیں کرنی تمہاری مزدوری۔ تو اپنی اجرت اپنے پاس رکھ۔ یہ کہہ کر وہ نفرت سے منہ موڑ کرچلی گئی۔ پھر وہ کئی دن تک نہ آئی تو ہم دونوں کو تجسس ہوا اور ہم خیموں کی طرف گئے۔ گاڑی سڑک کے کنارے روک کردیکھا تو وہاں کوئی خیمہ تھا اور نہ ان میں رہنے والے خانہ بدوش۔ وہ کوچ کرچکے تھے وہاں ان کے بجھے ہوئے چولہے تھے اور ان میں بکھری راکھ باقی رہ گئی تھی اور کچھ ٹوٹی ہوئی چوڑیاں جن کو دیکھ کے بے اختیار جمال کے منہ سے نکل گیا۔ میں تو ملک مہران کواچھا آدمی سمجھتا تھا لیکن یہ تو بہت برانکلا اور میں سمجھ چکی تھی کہ اس دن وہ کیوں خفا ہوکر گئی تھی ہم سے۔ ملک مہران نے جو سلوک اس غریب کے ساتھ کیا تھا اس کی ہمیں بالکل توقع نہ تھی ورنہ کبھی بھاگ بھری کواس کے پاس نہ بھیجتے۔ ش غازی گھاٹ
null
null
null
null
415
https://www.urduzone.net/qasoor-dil-ka-thaa-teen-auratien-teen-kahaniyan/
جن دنوں میری منگنی خرم سے ہوئی، ساتویں میں پڑھتی تھی۔ وہ میری خالہ کا بیٹا تھا۔ اس کے والد، زمیندار عالم خان کے منشی تھے۔ زمینوں کا سارا حساب کتاب خالو، امجد کے پاس تھا۔ خالو دیانت دار شخص تھے۔ تب ہی زمیندار کی نظروں میں معتبر ہوئے۔ عالم خان ان پر بہت اعتبار کرتا تھا۔کہتا تھا مجھے امجد پر اپنی ذات سے بڑھ کر اعتبار ہے۔ جب کوئی اہم یا گمبھیر مسئلہ ہوتا تو میرے خالو کو بلا کر ان سے مشورہ ضرور کرتے۔ ایک روز ایسے ہی کسی معاملے میں خالو، زمیندار کے پاس جا رہے تھے کہ خرم کو بھی ہمراہ لے گئے۔ زمیندار نے مسئلہ بتا کر رائے مانگی۔ مسئلہ کچھ ایسا ٹیڑھا تھا کہ خالو ذرا دیر کو سوچ میں پڑ گئے، تبھی خرم نے کہا۔ چھوٹا منہ بڑی بات ہے لیکن اگر مالک اجازت دیں تو میں ناچیز اپنی تجویز پیش کروں ۔ ہاں۔ بیٹے کہو۔ خرم نے جو تجویز بتائی اس سے زمیندار کی ساری پریشانی جاتی رہی۔ اس نے کہا کہ بھئی۔ باپ سیر تو بیٹا سوا سیر تم نے تو کمال تدبیر بتا دی ہے۔ یہ بات ہماری عقل میں کیوں نہ آئی واقعی جوان ذہن کی بات ہی کچھ اور ہوتی ہے۔ تم بہت ذہین ہو۔ چاہتا ہوں کہ تم کھیتوں میں مشقت سے وقت نکال کر کچھ پڑھائی کو بھی ٹائم دو۔ تم جیسے ہونہار بچوں کو ضرور تعلیم حاصل کرنی چاہیے۔ آج عالم خان بہت اچھے موڈ میں تھا۔ اس نے جوش میں آ کر خرم کے لئے تعلیمی وظیفہ مقرر کردیا۔ خرم نے آٹھویں کے بعد تعلیم چھوڑ دی تھی۔ اس وظیفے کی بدولت دوبارہ پڑھائی شروع کر دی۔ جب کھیت کھلیان کی چاکری سے فرصت ملتی وہ کتابیں لے کر بیٹھ جاتا۔ تب ماں خوش ہو کر کہتی۔ ہائے میں نے یہی خواب اس کے لئے دیکھے تھے۔ آج اللہ نے رحم کیا اور میرا بچہ دوبارہ اسکول جانے لگا ہے۔ میرا رب اسے نظربد سے بچائے۔ خرم کا شوق دیکھ کر اسکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب نے استاد شفقت کو ہدایت کردی کہ خرم دو سال تک اسکول نہیں گیا ہے، پیچھے رہ گیا ہے۔ تم اسے اسکول کے بعد ایک گھنٹہ پڑھا دیا کرو۔ استاد شفقت کا گھر خرم کے گھر سے دور نہ تھا اور ماسٹر صاحب ہمارے پڑوس میں رہتے تھے۔ ان کی بیٹی سدّو ہمارے ساتھ دو جماعتوں تک پڑھی تھی۔ وہ اور میں بچپن سے اکٹھا اسکول آتے جاتے تھے، تب سے دوستی تھی۔ سدّو نے تیسری میں اسکول چھوڑ دیا۔ لیکن ہماری دوستی باقی رہی، جب موقع ملتا میرے گھر آ دھمکتی۔ ہم دیر تک باتیں کرتے۔ تبھی اماں کہتی یہ سدّو نہ آیا کرے تو اچھا ہے۔ آجاتی ہے وقت خراب کرنے اور تم بھی سارے کام چھوڑ کر اس کے ساتھ باتیں کرنے بیٹھ جاتی ہو۔ مجھے یہ لڑکی ایک آنکھ نہیں بھاتی۔ اماں کے بار بار ٹوکنے سے اس نے آنا کم کر دیا۔ لیکن جب ملتی پہلے جیسی محبت سے۔ گائوں کے لوگ دوستی اور دشمنی میں واضح اور کھرے ہوتے ہیں۔ برا مان جائیں تو پھر منہ نہیں لگاتے لیکن منافقت نہیں رکھتے، یہی حال سدّو کا تھا۔ اس بار جب میں نے عید پر اسے لفٹ نہیں کرائی تو وہ برا مان گئی اور کئی دنوں تک مجھ سے بات نہ کی۔ ہوا یہ کہ عید کے دوسرے روز میں نے اپنی اسکول کی ہم جماعت لڑکیوں کی دعوت کی اور سدّو کو نہ بلایا ۔ اسے پتا چلا تو اپنے بھائی کو بھیج کر کہلوا دیا۔ میں تمہاری سویّوں کی بھوکی نہ تھی۔ لیکن مجھے پتا چل گیا ہے کہ تم نے مجھے ان لڑکیوں سے کم تر سمجھ کر نہیں بلایا ہے۔ آج سے میری تمہاری سنگت ختم ہو گئی۔ مجھے دکھ ہوا جانے کیونکر اس کا خیال نہ آیا۔ ایسا جان کر نہ کیا تھا بھول ہو گئی اور سدّو کو منانا مشکل تھا۔ وہ خود آنے والی نہ تھی اور میں اس کے گھر جاتی نہ تھی۔ ابا سہیلیوں کے گھر جانے کی اجازت نہ دیتے تھے۔ یہ شہر نہ تھا ،گائوں تھا اور گائوں کے اپنے کچھ اصول ہوتے ہیں۔ پاس داری کرنا پڑتی ہے جو نہ کرے سارا گائوں تھو تھو کرتا ہے اور دشمنیاں ہو جاتی ہیں۔ بعض دفعہ تو محض شک کی بنیاد پر مجرم بنا دیا جاتا ہے تبھی سب ریت روایات کی پابندی کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ ہمارے گائوں میں غیر مردوں کو گھر کے اندر بلانے کی ریت نہ تھی خواہ کتنا ہی قریبی رشتے دار یا دوست کیوں نہ ہو۔ بیٹھک میں بٹھاتے۔ گھر کے مرد ان کی تواضع اور مہمان داری کرتے، خواتین کو بیٹھک میں جانے کی اجازت نہ تھی۔ زمیندار کے گھر کے تو اور بھی سخت اصول تھے۔ مرد ملازم کا بیٹھک اور ڈیرے تک آنا جانا رہتا۔ گھر کے اندر خادمائیں عورتیں ہی ہوتی تھیں۔ ایک روز کسی کام سے عالم خان نے جب خرم کو گھر کے اندر بلایا تو سب حیران رہ گئے۔ خرم میں ایسے کون سے سرخاب کے پر لگے تھے۔ وہ منشی کا بیٹا اور مزارعے کا پوتا کہ اسے مالک نے گھر کے اندر بلایا تھا۔ زمیندار کے اہل خانہ پردہ کرتے تھے لیکن خرم سے ان کا پردہ بھی نہیں رہا۔ وہ اب خواتین خانہ کے کام بھی سرانجام دینے لگا۔ عالم خان کے بھائیوں کے گھر قریب تھے۔ انہوں نے خرم کو بڑے بھائی کے گھر میں آتے جاتے دیکھا تو چیں بہ جبیں ہو گئے۔ عالم خان بڑا بھائی تھا وہی رشتے داروں اور گائوں کے دیگر لوگوں کے جھگڑے نمٹاتا تھا۔ کسی کی جرأت نہ تھی کہ اسے روکتے ٹوکتے۔ عالم خان کے بھائی خون کا گھونٹ پی کر خاموش ہو گئے لیکن زمیندار کا بھتیجا عارف جواں سال لڑکا تھا۔ وہ خرم کو تایا کی نظروں میں معتبر پا کر سخت برہم تھا۔ اس کا بس نہ چلتا تھا کہ اس منشی زادے پر فائر کھول دے۔ جب غصہ باہر نہیں نکلتا اور دوزخ کی آگ کی طرح اندر ہی اندر لپٹیں مارنے لگتا ہے تو انسان کے وجود کو جلا کر خاکستر کر دیتا ہے۔ یہی حال عارف کا تھا۔ وہ ہر دم غصے سے کھولتا رہتا۔ اس نے خرم کے لئے اپنے دل میں دشمنی کا ایسا روگ پال لیا جس کا کوئی انت کوئی کنارہ نہ تھا۔ ایک روز جب خرم، عالم خان کی زمین پر ٹیوب ویل چلانے گیا تو وہاں سدّو آ گئی، وہ ٹیوب ویل کے قریب بیری کے درخت سے بیر توڑنے لگی۔ اس نے دوچار چھوٹے چھوٹے پتھر بیری پر مارے مگر اس کی نظریں جن پکے سرخ بیروں پر تھیں پتھران کو نہ لگے۔ دوسرے بیر جو ابھی ٹھیک طرح پکے نہ تھے، پتوں کے ساتھ نیچے آ رہے۔ یہ منظر دیکھ کر خرم مسکرائے بغیر نہ رہ سکا۔ وہ نزدیک آ گیا اور بولا۔ سدّو ایسے تو تو بیری کے سارے پتے پتھر مار مار کر توڑ ڈالے گی، بیچارا درخت گنجا ہو جائے گا۔ اس نے ایک بڑا پتھر بیری کے نیچے رکھا اور اس پر چڑھ کر ہاتھ سے بہت سارے پکے پکے بیر توڑ کر سدّو کے پلو میں ڈالنے لگا یہاں تک کہ اس کا پلو بھر گیا۔ کافی ہیں یا اور توڑوں، بس بہت ہیں۔ کل آئوں گی پھر اور توڑ کر دینا۔ ٹھیک ہے تو اب جا، مجھے بھی کام کرنا ہے۔ خرم کو خبر نہ تھی کہ کچھ دوری پر نیم کے درخت کی اوٹ سے کوئی یہ سارا منظر دیکھ رہا ہے اور یہ اس کے ساتھ اللہ واسطے کا بیر رکھنے والا عارف تھا۔ وہ ایک تنگ ذہن لڑکا تھا۔ وہ ہر بات میں منفی پہلو نکال لیتا تھا۔ ہر بات کو غلط رنگ دیتا تھا۔ یہ اس کی شخصی کمزوری تھی لیکن یہاں تو معاملہ تھا خرم کا جس کو وہ گائوں میں جیتا جاگتا، چلتا پھرتا سانس لیتا دیکھنا نہ چاہتا تھا۔ اس نے جا کر زمیندار عالم خان کو بتایا کہ خرم اور سدّو کو اس نے نہایت واہیات انداز میں ٹیوب ویل کے پاس دیکھا ہے۔ اس نے اس بات کو ایسے غلط رنگ میں بیان کیا کہ لمحے بھر کو عالم خان کا چہرہ بھی غصے سے دہک اٹھا۔ اس نے خرم کو بلوایا، اور پوچھا۔ کیا تم فلاں وقت ٹیوب ویل پر تھے اور کیا وہاں ماسٹر کی لڑکی سدّو آئی تھی جی ہاں خرم نے اثبات میں جواب دیا۔ وہ وہاں کیا کرنے آئی تھی بیری سے بیر لینے آئی تھی۔ میںنے کچھ بیر توڑ کر اسے دے دیئے اور وہ چلی گئی۔ ٹھیک ہے آئندہ احتیاط کرنا۔ گائوں کی لڑکیوں سے اکیلے میں ملاقات اور ان کے ساتھ ہنسنا، بولنا ٹھیک نہیں۔ خرم سر جھکائے سن رہا تھا۔ آئندہ کھیتوں میں گائوں کی لڑکی سے نہ ملنا اور نہ بات کرنا، اس طرح ہماری عزت پر حرف آتا ہے۔ آج عالم خان کے تیور پہلی بار اس نے تیکھے دیکھے تو سہم گیا۔ آئندہ کبھی آپ کو شکایت نہ ہو گی۔ وہ الٹے قدموں واپس آ گیا تو ماتھا پسینے سے شرابور تھا۔ سوچ رہا تھا ضرور کسی نے نمک مرچ لگا کر زمیندار سے یہ بات جڑی ہے ورنہ وہ تو ہمیشہ اس سے پیار سے بات کرتے تھے۔ پُتر اور بیٹا کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ تنبیہ تو خرم کو ہوئی تھی، سدّو بے خبر تھی۔ وہ اگلے دن پھر آ گئی اور خرم سے مُصر ہو گئی مجھے بیر توڑ کر دو۔ خرم کی جان جا رہی تھی پھر بھی اس نے لڑکی کا دل نہیں توڑا اور اسے بیری سے چند بیر توڑ کر دے دیئے۔ سدّو کے دل میں خرم کے حسن سلوک نے گھر کر لیا تھا۔ یہ ایسی عمر ہوتی ہے کہ محبت کرنے والے کو آنکھیں تلاش کرنے لگتی ہیں۔ سدّو کے دل میں خرم کی محبت نے وہ جادو جگا دیا تھا جس کا کوئی توڑ نہ تھا۔ وہ بہانے بہانے سے خرم کے تعاقب گھر سے نکلنے لگی۔ جس قدر خرم اس سے کتراتا وہ اسی قدر اس کی دیوانی ہوئی جاتی تھی۔ جہاں پابندیاں عشق کی آگ کو تیز کرتی ہیں، وہاں بے رخی بھی پیار کرنے والوں کوچیلنج کرتی ہے۔ خرم کی بے رخی نے سدّو کو یکطرفہ جنون میں مبتلا کر دیا اور یہ یکطرفہ عشق خطرناک حد تک بے خوف تھا۔ سدّو نڈر لڑکی نہ ہوتی تو مایوس ہو کر بیٹھ جاتی، لیکن آنسو بہانے کی بجائے اس نے خرم کو اپنی محبت کے واسطے دینے شروع کر دیئے۔ جہاں موقع ملتا، اسکول کے باہر، کھیل کے میدان میں یا پھر کھیتوں میں وہ اسے جا لیتی۔ اور کہتی مجھ سے کیا گناہ ہوا ہے۔ کیوں بات نہیں کرتے۔ دیکھو میں عورت ہو کر نہیں ڈرتی اور تم مرد ہو کر ڈرتے ہو۔ کیوںخوف زدہ ہو جاتے ہو۔ تمہاری عزت کے لئے خوف زدہ ہو جاتا ہوں، تم کہیں بدنام نہ ہو جائو۔ کسی مشکل میں نہ پڑ جائو۔ خدارا میرے پیچھے مت آیا کرو۔ مجھے کام کرنے دو سکون سے۔ مجھے ابھی اور پڑھنا ہے، پڑھنے میں دھیان لگا رہنے دو میرا وہ التجا کرتا۔ عارف جیسی فطرت رکھنے والوں کو تو جیسے ایک بہانہ چاہیے ہوتا ہے۔ اسے ٹارگٹ مل گیا تھا، عہد کر لیا جب تک خرم کو ذلیل نہ کروا دوں گا چین سے نہ بیٹھوں گا۔ اب زمیندار کے پاس روز ہی خرم کی شکایتیں پہنچنے لگیں۔ آخر اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا۔ ایک دن جب وہ اپنی گاڑی میں گھر کی طرف آ رہا تھا اس نے سدّو کواس طرف دوڑ لگاتے دیکھا، جدھر ٹیوب ویل تھا۔ وہاں خرم ٹیوب ویل چلانے میں مصروف تھا۔ وہ گھر واپس لوٹ آیا اور خرم کو بلا بھیجا۔ اس کی بہت بے عزتی کی، یہی نہیں کھڑے کھڑے نوکری سے نکال دیا۔ اپنی زمینوں سے بھی نکل جانے کا حکم صادر کر دیا۔ اس بات سے خرم کی ہی نہیں خالو کی بھی بے عزتی ہو گئی کیونکہ گائوں کے لوگ خالو کی عزت اسی سبب کرتے تھے کہ زمیندار ان کی عزت کرتا تھا، وہ سارے گائوں کی نظروں میں گر گئے۔ خرم سے زیادہ خالو کو صدمہ تھا۔ انہیں یقین تھا کہ ان کا بیٹا ایسا نہیں ہے لیکن سارے گائوں میں عارف نے ایسا جھوٹ کا سحر پھونکا کہ ہر ایک کی زبان پر خرم کے لئے لعنت ملامت کے الفاظ تھے۔ زبانِ خلق کو نقارۂ خدا سمجھنے کے مصداق آخر وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ سدّو کے چار جوان بھائی تھے۔ جب انہوں نے ہر ایک کی زبان پر سدّو اور خرم کا نام سنا تو وہ غصے میں آپے سے باہر ہو گئے۔ اپنے قریبی رشتے دار لڑکوں کو جمع کر کے ان نوجوانوں نے فیصلہ کیا کہ خرم کا کام تمام کر دیا جائے۔ رات کو جب خالو نے خرم کو گائوں سے کچھ دور پڑوسی زمیندار کے ڈیرے پر بھجوایا تھا، ان نوجوانوں نے اس کا پیچھا کیا، پڑوسی زمیندار نے اپنے کارندے سے کہا اس نوجوان کو تم کھیت میں بنے خالی کمرے میں چھپا دو۔ اس کمرے میں سردیوں میں بھینسوں کو، رات کے وقت ٹھنڈ سے بچائو کی خاطر باندھ دیا جاتا تھا اور گرمیوں میں کھل بنولے کی بوریاں رکھ دی جاتی تھیں۔ ایک طرف رکھوالے کی چارپائی پڑی ہوئی تھی۔ کاردار نے خرم کو اس کمرے میں ٹھہرا دیا اور کہا کہ صبح ہمارے مالک تمہارے زمیندار عالم خان سے بات کریں گے۔ فی الحال تم ادھر رات گزارو۔ کمرے میں چارپائی پر بستر موجود تھا۔ خرم چارپائی پر لیٹ گیا۔ اندر گرمی تھی۔ اس نے گرمی سے بچنے کے لئے دروازہ کھلا رہنے دیا، کیونکہ اس کے خیال میں اس کے والد نے پڑوسی زمیندار سے اس کے لئے پناہ کی درخواست کی تھی اور شہاب خان نے پناہ دے دی تھی تو اب اسے یہاں کوئی خطرہ نہ تھا۔ خرم نہ جانتا تھا کہ شیطانوں کی ایک ٹولی جن کو عارف نے بھڑکایا تھا، رات کے دوسرے پہر اس کے پاس آ پہنچے گی ورنہ وہ دروازہ بند کر لیتا۔ رات کے کسی پہر اچانک شور ہوا۔ بھینسوں کی رکھوالی کے لئے ملازم قریب ہی سو رہا تھا۔ شور سے اس کی آنکھ کھل گئی اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھا۔ شور اس جانب سے آ رہا تھا جہاں اس نے کمرے میں خرم کو ٹھہرایا تھا۔ اس نے کلہاڑی اٹھا لی اور بجلی کی تیزی سے اس طرف بھاگا کمرے کو انہوں نے اندر سے بند کر لیا تھا۔ اور وہ خرم کو لاٹھیوں سے مار رہے تھے۔ ملازم نے کلہاڑی سے دروازے پر بھرپور وار کر کے اسے آناً فاناً توڑ ڈالا۔ لالٹین کی مدہم روشنی میں اندر جو سماں تھا وہ ناقابل دید تھا۔ خرم اوندھا فرش پر پڑا ہوا تھا اور اس پر چار بندے تابڑ توڑ لاٹھیاں برسا رہے تھے جن چیخوں کو سن کر وہ ادھر آیا تھا وہ چیخیں بھی مدہم پڑتی جا رہی تھیں۔ ملازم بہت تگڑا اور دلیر آدمی تھا۔ اس نے للکار کر ان وحشیوں کو روکا کہ شرم کرو یہ ہمارے مالک کا مہمان ہے۔ اسے پناہ دی گئی ہے۔ یہ امانت ہے۔ باز رہو، دور ہو جائو ورنہ کلہاڑی سے سب کے ٹکڑے کر دوں گا۔ شور سن کر دوسرے ملازمین بھی جاگ پڑے جو صحن میں نزدیک ہی چارپائیاں ڈالے سو رہے تھے۔ انہوں نے لوگوں سے خرم کو چھڑا لیا۔ صبح زمیندار کو اطلاع دی گئی اور زخمی خرم کو شہر کے اسپتال لے گئے۔ وہ وہاں ایک ماہ زیر علاج رہا۔ شہاب خان نے عالم خان سے بات کر کے اس مسئلے کو ختم کرا دیا۔ عالم خان نے سدّو کے بھائیوں کی سرزنش کی کہ تم لوگوں نے معاملہ اپنے ہاتھ میں کیوں لیا۔ کیا میں مر گیا تھا، اب میں تم کو تھانے میں گھسیٹوں گا، اپنی لڑکی کو نہیں سنبھال سکتے جو خود خرم کے پیچھے کھیتوں میں بھاگتی پھرتی ہے۔ عالم خان نے بالآخر خرم کو معافی دے دی کیونکہ خالو کی خدمات بہت زیادہ تھیں۔ گائوں والے بھی میرے خالو کی قدر کرتے تھے، ان کی حمایت میںتھے۔ اس واقعہ کے بعد میری شادی خرم سے ہو گئی اور ہم شہر آ بسے۔ میرے شریک زندگی بہت اچھے ہیں۔ وہ مجھے یقین دلاتے ہیں کہ میمونہ سچ جانو، اس سارے معاملے میں میرا کوئی قصور نہیں تھا۔ قصور سدّو یا اس کے دل کا تھا مگر مجھے بہت دکھ اٹھانا پڑا۔ اب گائوں جانے کو جی نہیں چاہتا جہاں ایسے واقعات رونما ہو جاتے ہیں جو کسی کے وہم و گمان میں بھی نہیںہوتے۔ م۔ ملتان
null
null
null
null
416
https://www.urduzone.net/dawaien-mout-ka-bais-bane-teen-auratien-teen-kahaniyan/
ہمارے تایازاد ابصار آفیسر تھے اور ان کی پوسٹنگ مختلف جگہوں پر ہوتی رہتی تھی۔ اس بار ہمارے شہر میں تبادلہ ہوا تو ہم بہنیں بہت خوش ہوئیں، کیونکہ ان کی بیوی سے ملنے کا ہمیں بہت اشتیاق تھا۔ ابصار بھائی کی شادی پر ان کی دلہن کو دلہن کے روپ میں دیکھا تھا، دوبارہ ملاقات نہ ہو سکی تھی، وہ امی کی کزن کی بیٹی تھیں۔ چونکہ دور کا رشتہ تھا اس لئے ملنا ملانا شاذ ہی ہوتا تھا۔ اتفاق کہ ابصار بھائی کو ہمارے گھر کے قریب رہائش ملی۔ سب سے پہلے والد اور بھائی ان سے ملنے گئے اور کھانے پر مدعو کر لیا۔ والد نے بتایا فی الحال وہ اکیلے آئے ہیں، بیگم ساتھ نہیں آئیں۔ ہم انتظار کرنے لگے کہ بھابی آ جائیں، پھر ہم ان کے گھر جائیں گے۔ چھ مہینے گزر گئے بھابی نہیں آئیں۔ بھائی ابصار اکیلے رہائش پذیر رہے۔ ایک روز وہ ہمارے گھر آئے، امی نے پوچھا بیٹا ابصار تمہاری بیگم ابھی تک نہیں آئیں، کیا وجہ ہے، تم اکیلے رہتے ہو، کیا بچّوں کی یاد نہیں آتی۔ جب یاد آتی ہے ان سے ملنے لاہور چلا جاتا ہوں، بیگم کا دل اپنے شہر کے علاوہ کہیں نہیں لگتا، تب ہی نہیں آتیں۔ ایک بار آئیں تو ہفتہ بھر مشکل سے رہیں۔ ان کو یہ جگہ پسند نہیں ہے۔ مہوش کا کہنا ہے یہاں نہ کوئی ڈھنگ کا بازار ہے اور نہ کوئی شاپنگ مال ہے، بیوٹی پارلر بھی نہیں ہے، شہر میں صفائی نہیں ہے، یہ بھی کوئی جگہ ہے رہنے کی۔ ہاں بیٹے بڑے شہروں جیسی رونقیں چھوٹے شہروں میں کہاں، لیکن رہنا تو اسے تمہارے ساتھ ہی چاہئے، بیوی گھر میں نہ ہو تو گھر کے کھانے کی سہولت میسّر نہیں ہوتی۔ کھانا میرا خانساماں اچھا بنا لیتا ہے چچی۔ یوں بھی مہوش کب کھانا بناتی ہے، اسے کچن کے کاموں سے الرجی ہے۔ موضوع نازک موڑ پر آ گیا تو امی جان نے بات کا رخ بدل دیا۔ اندازہ ہوگیا کہ بیچارے ابصار بھائی بیوی سے خوش نہیں ہیں۔ کچھ دن بعد سنا کہ بھائی کی فیملی لاہور سے آ گئی ہے۔ سوچا جا کر بھابی سے مل آنا چاہئے، حال احوال پوچھنا چاہئے، شاید انہیں ہماری ضرورت ہو۔ امی نے کہا کہ چلو، مکان ٹھیک کرنے میں لگی ہو گی، ضرورت محسوس کرو تو ان کا کام کاج میں ہاتھ بٹا لینا۔ ہم نے دستک دی، نوکر نے دروازہ کھولا۔ ہم بلاجھجھک اندر پہنچ گئے۔ وہ واقعی گھر ٹھیک ٹھاک کرنے میں لگی تھیں، اسی وجہ سے لباس بھی گردآلود ہو گیا تھا، وہ ہمیں نہ پہچان سکیں۔ ہاں بھئی، کون ہیں، کیوں آئی ہیں رکھائی سے ایک اچٹتی نگاہ ڈال کر کہا اور منہ پھیر کر الماری میں کپڑے رکھنے لگیں۔ ہمیں ان سے ایسے روکھے برتائو کی توقع نہ تھی۔ میں ہوں تمہاری آمنہ خالہ، ارے بھئی تمہاری امی کی کزن ہوں اور ابصار کی بڑی چچی اور یہ میری بیٹی گل رخ ہے۔ والدہ نے کچھ ایسے اعتماد سے تعارف کروایا کہ وہ پہچان کر تپاک سے ملیں گی اور نادم ہو جائیں گی کہ کیوں خاطر میں نہ لائی۔ ان پر تعارف کروانے کا بھی کچھ اثر نہ ہوا، جھٹ سے کہا، آنے سے پہلے بتا دیا ہوتا۔ کسی کے گھر بغیر اطلاع پہنچ جانا کہاں کی ریت ہے۔ اب تو ہمیں شرمندہ ہوتے بنی۔ امی کو بڑی خفت محسوس ہو رہی تھی کہ اپنے رشتے سے نہ پہچانتی کم از کم ابصار کی چچی جان کر کچھ لحاظ کر لینا چاہئے تھا۔ گھر آئے مہمان سے کوئی ایسا سلوک نہیں کرتا۔ یہ خاتون تو واقعی بدتمیز ہیں۔ ہم کچھ دیر خاموش بیٹھے رہے۔ میں نے امی کو ٹہوکا دیا، چلیے بھی اب۔ بھابی جان آپ بہت مصروف ہیں، ہم چلتے ہیں۔ آئندہ آنا ہوا تو اطلاع کر کے آئیں گے۔ ٹھیک ہے، شکریہ، خداحافظ۔ انہوں نے وہیں کھڑے کھڑے ان الفاظ کے ساتھ ہمیں رخصت کر دیا۔ اب سمجھ میں آ گیا بھائی ابصار کیوں اتنے مایوس تھے، شاید بیوی ان کو بھی خاطر میں نہ لاتی تھیں۔ ہمیں ابصار بھائی کے بچّوں سے ملنے کا ارمان رہ گیا۔ وہ لان میں اپنی آیا کے ساتھ کھیل رہے تھے۔ جب ہمارا سواگت اس طور ہوا تو کس منہ سے کہتے کہ اپنے بچّوں سے تو ملوایئے۔ آٹھ سالہ میرا بھتیجا چنو ساتھ تھا، خاص طور پر وہ ابصار بھائی کے بچّوں سے ملنے گیا تھا، بہت مایوس ہوا۔ بھابی نے ابصار بھائی کو نہ بتایا کہ ان کے رشتے دار ملنے آئے تھے۔ ایک روز وہ آئے، شکوہ کیا، چچی آپ ہمارے گھر نہیں آئیں، میری بیگم تو کب کی آئی ہوئی ہے۔ بیٹا میں تو گئی تھی، آپ کی بیگم مصروف بہت تھی، ہم جلدی واپس آ گئے۔ کیا انہوں نے آپ کو نہیں بتایا۔ بھول گئی ہوں گی۔ انہوں نے خفت مٹانے کو بات ٹال دی۔ بہت دن گزرگئے، ہم ان کے گھر دوبارہ جانے کی جرأت نہ کرسکے۔ ایک دن ان کا ملازم آیا، دروازے پر دستک دی۔ امی نے در کھولا، اس نے کہا مجھے ابصار صاحب کی بیگم نے بھیجا ہے کہ چچی جان سے کہو مجھے ایک اچھی گھریلو ملازمہ کی ضرورت ہے، اگر ان کا کسی سے رابطہ ہو تو مجھے بھجوا دیں۔ امی نے جواب دیا، مہوش سے کہنا،میرے رابطے میں کوئی ایسی عورت نہیں ہے جو تمام دن کے لئے کام کرے، ہاں جزوقتی بھجوا سکتی ہوں، میری ملازمہ ہے، وہ یہاں سے بارہ بجے فارغ ہوتی ہے، وہ آ جائے گی، کل اس سے بات کروں گی۔ امی نے وحیدہ ماسی سے بات کی، اس نے کہاآپ کے کام سے فارغ ہو کر وہاں چلی جائوں گی، مجھے گھر دکھا دیں۔ امی نے وحیدہ کو گھر دور سے دکھلایا، خود اندر نہ گئیں کہ اس دن کا افسوس ان کے دل میں باقی تھا۔ بہرحال بھابی نے وحیدہ کو دوپہر سے شام تک کے لئے رکھ لیا اور تنخواہ بھی معقول دینا منظور کر لی۔ وحیدہ اب ہمارے اور ان کے گھر کے درمیان رابطہ تھی۔ وہ بھابی کے گھر کے حالات امی کو بتاتی تھی، کیونکہ گھر کے نوکر یا خادم سے بڑھ کر گھر کے حالات اور کوئی نہیں جان سکتا۔ اسی کی زبانی معلوم ہوا کہ بھابی کیوں اس قدر چڑچڑی اور آدم بیزار ہیں۔ ان کے چار چھوٹے چھوٹے بچّے تھے۔ ایک چھ سال، دوسرا پانچ سال کا، تین سالہ بیٹی اور ایک سالہ ننھی منی۔ سارا دن بچّے بھابی کو ستاتے تھے، وہ انہیں پھرکی کی طرح گھمائے رکھتے تھے۔ وہ انہیں کنٹرول کرتے کرتے تھک جاتی تھیں۔ لاہور میں ان کی معاونت بھابی کی والدہ اور بہن کرتی تھیں لیکن یہاں میکے سے دور اکیلی تھیں۔ بچّوں کے لئے آیا وہ اپنے ساتھ لاہور سے لائیں۔ وہ آتے ہی بیمار پڑ گئی، اسے واپس بھجوانا پڑا۔ اس شہر کی ملازم عورتیں ان کے مزاج کی نہ تھیں۔ وہ صاف ستھرا کام چاہتی تھیں، ان کو گندگی سے الرجی تھی حتیٰ کہ سڑکیں اور گلیاں تک صاف دیکھنا پسند کرتی تھیں ورنہ ان کے سر میں درد ہو جاتا تھا۔ لاہور میں نہایت پوش علاقے میں رہتی تھیں۔ ان کا صرف ایک بچّہ اسکول جاتا تھا۔ ایک کو خود گھر پر پڑھاتی تھیں اور باقی دو ابھی چھوٹے تھے۔ یہ سب ان کو اس حد تک تنگ کرتے، خاص طور پر بیٹے کہ غصّے میں انہیں بری طرح پیٹ ڈالتی تھیں۔ سارا دن صفائی ستھرائی میں لگی رہتی تھیں۔ بچّے پھر بچّے ہوتے ہیں وہ چیزیں اِدھر اُدھر پھیلاتے، پانی گراتے، بستر کی چادروں پر گیلے پیروں سے چڑھ جاتے، ایک دوسرے کے ساتھ دھکم پیل کرتے، تب وہ ان کو خوب دھنکتیں اور کمرے میں بند کر دیتیں، یوں وہ بے خوف اور ڈھیٹ ہو گئے۔ بچّے اتنے چھوٹے تھے کہ ان کو کھیلنے کے لئے گھر سے باہر بھی نہیں نکلنے دیا جاتا تھا اور نہ نئے ملازمین پر بھروسہ کیا جا سکتا تھا۔ وحیدہ پر اس لئے بھابی نے بھروسہ کیا کہ وہ امی کے وسیلے سے گئی تھی۔ وحیدہ نے امی کی تعریفیں کیں تو بھابی کو احساس ہوا کہ یقینا ایک اچھی خاتون کو انہوں نے ناحق مایوس کیا، جبکہ ان سے میل ملاپ میں اپنا ہی فائدہ تھا۔ کوئی خاتون اجنبی شہر میں میکے سے دور ہو تو سسرالی رشتے دار آڑے وقت کام آ سکتے ہیں۔ وہ اب خفت کے مارے امی سے ملنے نہ آ رہی تھیں۔ امی نے وحیدہ کو باور کرایا کہ اگر ابصار کی بیوی ہم سے میل ملاپ رکھنا چاہے تو بے شک آ جائے، ہمیں خوشی ہو گی، تب ایک روز وہ وحیدہ کے ساتھ ملنے آ گئیں۔ امی سے معذرت کی کہ اس دن بہت پریشان تھی، کیونکہ چابیوں کا گچھا بچّوں نے کہیں گم کر دیا تھا، جبکہ لاہور سے جو بیگ لائی تھی انہیں کھولنا تھا، تب ہی آپ کو ٹھیک طرح ویلکم نہ کر سکی۔ دراصل میں بچّوں کو سنبھالنے کی اہل نہیں ہوں۔ وہاں امی ان کو سنبھالتی ہیں۔ اسی وجہ سے میں یہاں نہیں آتی تھی، ابصار نے بہت اصرار کیا تو آنا پڑا۔ کوئی بات نہیں، مجھے اپنی امی جیسا ہی سمجھو، جو مشکل ہو بلاتکلّف کہہ دیا کرو، میری بچیاں تمہارے سارے کام کر دیا کریں گی، ان کو بلوا لیا کرو۔ غرض ہم جس قدر ناخوش ہو کر ان کے پاس سے آئے تھے ،وہ اتنی ہی خوش ہو کر گئیں۔ چند دن گزرے کہ وحیدہ نے سندیسہ دیا کہ بیگم ابصار آ پ کو بلا رہی ہیں، کہتی ہیں بڑی مشکل میں ہوں، خالہ سے کہنا کہ پیغام ملتے ہی آ جائیں۔ امی جان گھبرا گئیں، جانے کیسی مشکل آ پڑی ہے، وہ بیچاری جن کپڑوں میں بیٹھی تھیں، ان کے گھر کی طرف دوڑ پڑیں۔ بھابی واقعی پریشان تھیں، امی دھک سے رہ گئیں۔ مشکل تو بتائو بی بی ایسے روتی جائو گی تو کیا جان پائوں گی۔ بھابی کی زبان نہ کھل رہی تھی۔ بتانا پڑا کہ پانچویں بار میں ماں نہیں بننا چاہتی لیکن اللہ مجھے پھر ماں بننے کا شرف عطا کرنے والا ہے۔ جب یہ شرف ہے تو پھر کیسی پریشانی خالہ جی پہلے ہی چار بہت ہیں اور مزید اب پالنے کی سکت مجھ میں نہیں ہے۔ بے شک ماں بننا اعزاز کی بات ہے لیکن بچّے کا پالنا کتنا مشکل اور تھکا دینے والا کام ہے۔ میرے لئے کچھ کریں ورنہ جان دے دوں گی۔ کیسی نادانی کی باتیں کر رہی ہو مہوش بھلا میں کیا کر سکتی ہوں۔ یہ قدرت کے معاملات ہیں، ہم کس طرح دخل دے سکتے ہیں۔ جو روح آنے والی ہے اسے کون روک سکتا ہے۔ کیوں نہیں، آپ مجھے کسی جاننے والی ڈاکٹر کے پاس لے چلیں۔ بیٹی، میری کوئی ایسی جاننے والی ڈاکٹر نہیں ہے، ہوتی بھی تو بھلا ایسا غلط کام کون کرے گا، کوئی ڈاکٹر تمہارا ساتھ نہ دے گی۔ ان کا کام مسیحائی ہے کسی کو مارنا نہیں۔ امی کے منہ سے ایسی باتیں سن کر بھابی ان سے خفا ہو گئیں کہ مجھ پر مشکل وقت ہے اور آپ میرا ساتھ نہیں دے رہیں۔ بیچاری والدہ سوائے سمجھانے کے کیا کر سکتی تھیں، ان کو سمجھا کر آگئیں۔ بھابی مگر سمجھنے والی نہ تھیں، وہ ابصار بھائی سے لڑ جھگڑ کر میکے چلی گئیں اور تینوں بڑے بچّوں کو بھی شوہر کے پاس چھوڑ گئیں۔ سب سے چھوٹی بچّی کو ساتھ لے گئیں۔ ابصار بھائی بہت پریشان تھے، بغیر ماں بچّے ان سے کیوں کر سنبھل سکتے تھے۔ امی کے پاس آئے کہ آپ میری مشکل کا کوئی حل نکالیے۔ میں بچّوں کو سنبھالوں یا ڈیوٹی پر جائوں۔ فی الحال چھٹی بھی نہیں مل رہی کہ ان کو لاہور لے جائوں۔ والدہ نے وحیدہ کی منت کی کہ تم صبح سے رات نو بجے تک ابصار کے گھر رہو اور بچّوں کو سلا کر گھر جایا کرو، جب تک وہ بیوی کو منا کر نہیں لاتے، یہ ذمہ داری تمہیں سنبھالنی ہے، بے شک میرے گھر کا کام نہ کرو لیکن تنخواہ تمہیں دوں گی۔ وحیدہ بچّوں کے پاس رہنے لگیں، ان کا گھر دور تھا، رات کو نہ جا سکتی تھیں۔ سے اوپر ان کی عمر تھی، ان کے بچّے جوان تھے، وہ ابصار بھائی کے گھر رہ سکتی تھیں۔ ابصار بھائی نے فون پر ساس سے بات کی، بیوی کو سمجھانے کی کوشش کی کہ لوٹ آئو، بچّے تمہارے بغیر نہیں رہ سکتے لیکن وہ ضد پر اڑی تھیں کہ تم بچّوں کو لاہور لے آئو، میں وہاں نہیں رہ سکتی۔ سب ہی سمجھ رہے تھے وقتی بیزاری ہے، جلد آ جائیں گی، آخر ممتا کھینچ لائے گی بچّوں کے پاس۔ بھائی ابصار بھی مجبور تھے، اس جگہ رہنے پر کہ تبادلہ ہوا تھا، اپنی مرضی سے تو وہ نہیں رہ رہے تھے جبکہ یہ شہرمہوش بھابی کے معیار کے مطابق نہ تھا۔ کچھ دن بعد ابصار بھائی چھٹی لے کر لاہور چلے گئے کہ مہوش کو سمجھا کر واپس لے آئیں گے، ادھر بچّے ملازمہ کے حوالے کر گئے۔ امی بھی دن میں دو بار ان کے گھر جا کر بچّوں کو دیکھ آتی تھیں۔ ابصار کو گئے دوسرا دن تھا کہ وحیدہ گھبرائی ہوئی آئیں، امی سے کہا جلدی چلو بچّوں نے کوئی چیز کھا لی ہے، وہ بے ہوش ہیں۔ والدہ کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ دوڑی گئیں۔ مجھے کہا بھائی کو فون کر کے اطلاع دو۔ شاید بچّوں کو اسپتال لے جانا پڑے۔ وہاں جا کر پتا چلا کہ بھابی سکون کے لئے گولیاں کھاتی تھیں اور ان کو بلڈپریشر بھی ہو گیا تھا۔ وہ سب دوائیں اپنی الماری کی دراز میں رکھتی تھیں۔ لاہور جاتے ہوئے دوائیں لے جانا بھول گئیں اور وحیدہ بھی اس امر سے بے خبر تھیں کہ دراز میں دوائیں رکھی ہیں۔ ابصار بھائی کے بڑے لڑکے نے دراز کھول کر دوائیں نکالیں۔ تجسس میں دوسرے بچّوں نے بھی ساتھ دیا اور پھر سب نے گولیاں پھانک لیں۔ شاید وہ سمجھ رہے ہوں گے یہ ٹافیوں کی طرح ہوں گی۔ وحیدہ کچن میں بچّوں کے لئے کھانا بنا رہی تھیں، وہ جب کھانا لے کر کمرے میں آئیں، تینوں بچّے سوئے ہوئے تھے۔ ان کو شک ہوا کہ سارے بچّے کبھی ایک ساتھ تو نہیں سوتے، یہ آج ان کو کیا ہو گیا ہے، دوپہر کا کھانا کھائے بغیر کیسے سو گئے۔ انہوں نے ہلا جلا کر دیکھا، سانس تو آ رہی تھی لیکن بچّے بے ہوش تھے۔ دوڑ کر ہمارے یہاں آئیں۔ امی نے مجھے ہدایت کر دی تھی۔ میں نے ابو اور بھائی دونوں کو فون کر دیا۔ وہ فوراً لے کر آ گئے اور بچّوں کو اسپتال منتقل کر دیا۔ بڑے بیٹے کی جان ڈاکٹروں کی کوشش سے بچ گئی۔ شاید اس نے کم گولیاں کھائی تھیں۔ دونوں چھوٹے بے ہوشی کے عالم میں اللہ کو پیارے ہو گئے۔ جب تک ماں، باپ روتے پیٹتے پہنچے، دو معصوم پھول اس دنیا میں نہ رہے تھے۔ بھابی تو غش کھا کر گر گئیں۔ جب ہوش آیا روتی تھیں، سر پیٹتی تھیں اور کہتی تھیں، ہائے اللہ میں کیوں کہتی تھی کہ اتنے ڈھیر سارے بچّے دے دیئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کو میری یہ بات پسند نہ آئی، اس نے میرے لخت جگر واپس بلا لئے۔ اب میں کیسے جیوں گی ان کے بغیر۔ نہ جانے یہ حادثہ تھا کہ قدرت کی طرف سے کوئی سزا تھی لیکن موت نے بھابی کے آنگن میں اتر کر اپنے دامن کیلئے دو خوبصورت پھول منتخب کر لئے تھے۔ آپ کو بچّے پسند نہیں تھے نا، آپ سے سنبھلتے نہ تھے، صاحب سے اسی وجہ سے روز لڑتی تھیں، اب چلے گئے وہ اللہ کے گھر۔ وحیدہ بھی روتے ہوئے اپنی عقل کے مطابق ماتم کر رہی تھی۔ آہ میری غفلت مگر مجھے کیا خبر تھی کہ الماری میں دوائیں موجود ہیں، دراز تو اوپر تھی۔ وسیم نے اسٹول رکھ کر دراز کو نیچے اتارا تھا۔ کاش بیگم صاحبہ اس الماری کو تالا لگا جاتیں یا دوائیں ساتھ لے جاتیں لیکن اب ان باتوں کا کیا فائدہ جو چلے گئے تھے وہ واپس نہیں آ سکتے تھے اور بچّوں کی نانی جو بین کرتی لاہور سے پہنچی تھیں، کہہ رہی تھیں بیٹے ابصار تم کہا کرتے تھے کہ میکہ عورت کا دور ہونا چاہئے، گھر کے برابر میں ہو تو ہر وقت میکے والوں کا آنا جانا لگا رہتا ہے۔ اب دیکھ لو اور جان لو کہ میکے کا لڑکی کے گھر سے قریب ہونا کتنا اچھا ہوتا ہے۔ میں جو روز اپنا گھر چھوڑ کر تمہارے گھر آ بیٹھتی تھی تو اپنے فائدے کے لئے نہیں تمہارے بچّوں کو سنبھالنے کی خاطر آتی تھی اور تم جانے کیا سمجھتے تھے کہ مجھے اپنے گھر سے زیادہ بیٹی اور داماد کا گھر اچھا لگتا ہے۔ میں سب کی باتیں سن کر چپ تھی، سوچ رہی تھی کہ انسان اگرچہ اشرف المخلوقات ہے، پھر بھی نادان ہے۔ وہ آج کو بھول کر کل کی سوچتا ہے اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کو بھول جاتا ہے، جبکہ کل کائنات کا سب اختیار اللہ کے پاس ہے۔ م۔ک مظفرآباد
null
null
null
null
417
https://www.urduzone.net/shikar-episode-4/
وسیم کو غصہ آ گیا۔ وہ غصیلے لہجے میں جمیل عمر سے بولا۔ مگر میں یہاں بیٹھ کر انتظار نہیں کر سکتا، وہ خواہ مجھے جان سے ہی کیوں نہ مار دیں، لیکن میں آج انہیں وہیں جا کر سبق دوں گا۔ نہیں میں تمہیں اس طرح کھونے کو تیار نہیں ہوں۔ میں ڈاکٹر نصیر شاہ نہیں ہوں سر کہ آپ میری فکر کریں، میں وسیم ہوں، ایک عام آدمی۔ آپ میری اتنی فکر نہ کریں۔ احمق ہو تم، میں تم پر دس ڈاکٹر نصیر شاہ قربان کر سکتا ہوں، تم میرے لیے اب سب سے زیادہ اہم ہو۔ لیکن فکر نہ کرو، یاسمین کو رہا کرانے کے لیے تم بھی ضرور جائو گے۔ دروازے کی گھنٹی بجی، اگلے ہی لمحے حبیب اندر داخل ہوا۔ سب ڈرائنگ روم میں آ کر بیٹھ گئے۔ جمیل نے اسے صورت حال بتاتے ہوئے کہا۔ سفارت خانے کی نگرانی پر کافی افراد لگا دیئے ہیں۔ صالح نے مجھے بتایا ہے کہ آج رات استقبالیہ ہے جس میں سفارت کاروں کے علاوہ اعلیٰ حکام اور دُوسرے معزز افراد مدعو ہیں۔ ہمیں اسی موقع سے فائدہ اُٹھانا ہے، میرا منصوبہ پہلے ذہن نشین کر لو۔ جمیل نے انہیں بتانا شروع کیا۔ حبیب نے درمیان میں کئی سوالات کیے۔ جمیل عمر اسے ہر پہلو سے سمجھاتے رہے، وسیم کا دل اس ایڈونچر کے تصور سے اُچھلنے لگا۔ یہ جس وقت روانہ ہوئے، تاریکی پھیل چکی تھی۔ ان کے جسموں پر قیمتی لباس موجود تھے۔ روانگی سے قبل جمیل عمر نے پوچھا۔ تمہاری تیاریاں مکمل ہیں جی سر اس نے سامنے رکھے بنڈلوں کی طرف اشارہ کیا۔ اس میں فائرمینوں کی وردیاں اور دیگر سامان موجود ہے۔ ہم نے فائر بریگیڈ والوں سے ہر چیز حاصل کرلی ہے، اس کے علاوہ فائر بم، اسموک بم اور دیگر چیزیں بھی موجود ہیں۔ اس نے انہیں سیاہ دستانے، نقاب اور رین کوٹ دیتے ہوئے کہا۔ اپنے چہرے اور لباس کو اچھی طرح چھپا لینا۔ ٹھیک ہے حبیب۔ شکریہ۔ جمیل نے جواب دیا۔ میں تم سب کی کامیابی کے لیے دُعاگو رہوں گا۔ یہ سب سنسان سڑکوں سے گزرتے ہوئے دریا کے پُل کو پار کر کے دُوسرے کنارے پہنچے جہاں دو لانچیں اورکئی کشتیاں لنگرانداز تھیں۔ سامنے ایک بلند ٹیلہ پہاڑی کی طرح نظر آ رہا تھا جس پر ایک شاندار محل نما عمارت تھی۔ دریا سے عمارت تک ایک سپاٹ ڈھلوان نظر آ رہی تھی، جس پر گھنی جھاڑیاں تھیں، بلندی پر خاردار تاروں کی قدِ آدم باڑ صاف نظر آ رہی تھی۔ انہوں نے لانچ کی بجائے کشتیوں کے ذریعے دریا پار کیا اور پھر اس ڈھلان تک پہنچ گئے جو سفارت خانے تک چلی گئی تھی۔ دو نقاب پوش وہاں ان کے منتظر تھے۔ کوئی شخص بات نہ کرے نہ سگریٹ پیئے۔ بس خاموشی سے میرے پیچھے چلے آئو۔ ان میں سے ایک نے سرگوشی کی۔ گھنی جھاڑیوں کے درمیان سے یہ لوگ اُوپر چڑھنے لگے، انہیں کافی بلندی پر جانا تھا۔ چڑھائی بڑی صبرآزما تھی، لیکن انہوں نے ہمت نہیں ہاری، آگے بڑھتے رہے۔ اچانک ان کے رہبر نے سرگوشی کی۔ خاردار باڑ صرف دس گز کے فاصلے پر ہے، مسلح گارڈ ٹھیک چھ منٹ بعد یہاں سے گزرے گا، اس کے جاتے ہی تم کو باڑ پار کر لینا ہے۔ ذرا دیر بعد گارڈ کے قدموں کی چاپ اُبھری۔ اس کے گزرتے ہی ان کے نقاب پوش رہنما نے اشارہ کیا۔ پہلے حبیب نے اس کے کاندھے پر سوار ہو کر خاردار باڑ کے اُوپر سے چھلانگ لگائی، اس کے بعد وسیم نے تقلید کی۔ وہ نرم زمین پر گرا اور فوراً ہی اُٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ ان کے سامان کا بنڈل ان کے ساتھ تھا۔ حبیب کسی سائے کی طرح جھاڑیوں کی آڑ لیتا ہوا آگے بڑھا۔ یہ سب بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہے تھے۔ احاطے میں ہر طرف تیز روشنی پھیلی ہوئی تھی۔ جلد ہی گیراج میں کھڑی کاریں نظر آنے لگیں۔ عمارت کے گرد بنی ہوئی روش کے کنارے گارڈینا کی باڑ لگی ہوئی تھی جو اتنی اُونچی تھی کہ یہ لوگ اس کی آڑ میں جھکے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ گیراج کے عقبی حصے کے قریب پہنچ کر رُک گئے۔ اندر سے ریڈیو پر نشر ہونے والے نغمے کی آواز آ رہی تھی۔ حبیب نے تھیلے سے ایک فائر بم نکالا اور سرگوشی میں کہا۔ تم یہیں ٹھہرو، میں اسے رکھ کر آتا ہوں۔ چند منٹ بعد گیراج شعلوں کی لپیٹ میں ہوگا۔ وہ عقبی دروازے سے اندر داخل ہوا۔ وہاں کھڑی کاروں نے اسے ڈرائیوروں کی نظروں سے محفوظ رکھا جو گیراج کے سامنے بیٹھے گپیں لگا رہے تھے۔ حبیب پانچ منٹ بعد واپس آکر بولا۔ کام ہوگیا، دس منٹ بعد تماشا شروع ہو جائے گا۔ یہ لوگ گیراج کے عقب سے آگے بڑھنے لگے۔ حبیب کی آنکھیں کسی بلّی کی طرح تاریکی میں بھی راستہ دیکھ رہی تھیں۔ ایک جگہ خوف سے وسیم کا حلق خشک ہوگیا۔ وہ بڑھتے جا رہے تھے کہ بمشکل بیس قدموں کے فاصلے پر کوئی زور سے کھانسا۔ حبیب نے جلدی سے وسیم کو جھاڑی کے اندر گھسیٹ لیا۔ چند لمحوں میں قدموں کی دُور ہوتی ہوئی چاپ سنائی دی۔ ہر سمت زبردست پہرہ ہے۔ مسلح گارڈ گشت کر رہے ہیں۔ اس نے سرگوشی کی۔ آنکھیں اور کان کھلے رکھ کر بڑھنا۔ اچانک سامنے سے کسی نے آرڈر دیا۔ ہالٹ وسیم پھرتی سے جھاڑی کے پیچھے ہوگیا۔ لیکن حبیب اور گارڈ بالکل ایک دُوسرے کے سامنے پہنچ چکے تھے۔ وسیم تیزی سے جھاڑی کی آڑ میں آگے بڑھنے لگا کہ گارڈ کے عقب میں پہنچ جائے۔ دِل ہی دِل میں وہ دُعا مانگ رہا تھا کہ حبیب اسے باتوں میں لگائے رکھے۔ پھر ایسا ہی ہوا، حبیب نے بڑے اعتماد سے کہا۔ شاباش میں یہی چیک کر رہا تھا کہ تم سب پہرے پر ہو یا نہیں، تمہارا نام کیا ہے خاموش رہو گارڈ نے اسے ڈانٹ کر کہا۔ ہاتھ اپنے اُوپر اُٹھا لو، جلدی کرو ورنہ گولی مار دوں گا۔ حبیب نے فوراً تعمیل کی۔ اس نے اندازہ کر لیا تھا کہ گارڈ نے خالی دھمکی نہیں دی تھی، وہ واقعی گولی چلا دیتا۔ لیکن اتنی دیر میں وسیم گارڈ کے عقب میں پہنچ چکا تھا۔ گارڈ نے جیسے ہی حبیب کی سمت قدم بڑھایا، وسیم نے ریوالور کا دستہ پوری قوت سے اس کے سر پر رسید کر دیا۔ وہ آواز نکالے بغیر حبیب کے بازوئوں میں جھول گیا۔ شکریہ۔ حبیب نے آہستہ سے کہا اور پھر ان دونوں نے مل کر اسے باندھا اور منہ میں رُومال ٹھونس کر گھنی جھاڑیوں میں چھپا دیا۔ اس پوری کارروائی میں مشکل سے پانچ، چھ منٹ لگے۔ اس کے بعد یہ لوگ تیزی سے آگے بڑھتے ہوئے عمارت کے اس حصے کی سمت آ گئے جہاں سوئمنگ پول تھا۔ حبیب نے سرگوشی کی۔ شکر ہے یہاں پہرا نہیں ہے۔ تم یہ نقاب اور دستانے اُتار کر جلدی سے اپنے کپڑے اور حلیہ دُرست کرلو۔ انہوں نے اس کام میں مطلق دیر نہیں لگائی۔ تھوڑی ہی دیر میں یہ لوگ معزز مہمانوں کا رُوپ دھار چکے تھے۔ ہم فائرمینوں والا تھیلا یہیں چھپائے دیتے ہیں، لیکن تم یہ دھویں کے بم اپنے پاس بھی رکھ لو۔ حبیب نے کئی بم نکال کر وسیم کو دیئے۔ اس نے جلدی سے اپنی جیب میں رکھ لیے۔ اب وہ اطمینان سے کھڑے تھے، کوئی دیکھتا بھی تو مہمان سمجھ کر نظرانداز کر دیتا۔ فائرمینوں کے سامان والا تھیلا انہوں نے ایک بینچ کے نیچے رکھ دیا تھا اور اب ان کی نگاہیں گیراج کی سمت لگی ہوئی تھیں۔ چند منٹ گزرے تھے کہ اچانک گیراج کی عمارت سے دھویں کے بادل نمودار ہوئے اور پھر ایک سمت سے آگ کا شعلہ بلند ہوا جو بڑھتا چلا گیا۔ دُوسرے ہی لمحے کوئی چیخا اور پھر بھاگ دوڑ اور ہنگامہ شروع ہوگیا۔ کسی نے تحکمانہ لہجے میں چیخ کر کہا۔ احمقو پہلے گاڑیوں کو جلدی سے باہر نکالو۔ بھاگ کر جائو اور فائربریگیڈ کو فون کرو۔ جلدی، ورنہ پوری عمارت آگ کی لپیٹ میں آ جائے گی۔ ہر سمت افراتفری کا عالم تھا۔ لوگ زور زور سے بول رہے تھے، ہال میں بینڈ نے موسیقی روک دی تھی۔ عورتوں نے چیخنا شروع کر دیا تھا۔ حبیب نے وسیم کا ہاتھ پکڑا اور سرگوشی میں بولا۔ یہی موقع ہے، آئو۔ دونوں بھاگتے ہوئے ٹیرس کی سمت گئے۔ اس ہنگامہ خیزی میں کسی نے ان کی طرف توجہ نہیں دی۔ وسیم کو اپنی جیب میں رکھا ہوا پستول چبھ رہا تھا۔ وہ ہال میں پہنچے تو آرکسٹرا کا اسٹیج خالی پڑا تھا۔ موسیقار اور مہمان سب آگے دیکھنے میں منہمک تھے۔ ہال کے دُوسرے سرے پر جمع بہت سے افراد بیک وقت زور زور سے بول رہے تھے اور ان سے تھوڑے ہی فاصلے پر واکر کھڑا تھا۔ وسیم نے اسے پہچان لیا۔ حبیب نے اس کا بازو پکڑ کر کھینچا اور آہستہ سے کہا۔ یہاں ٹھہرنا خطرناک ہوگا، میرے ساتھ آئو۔ اگر واکر کی نظر پڑ جاتی تو غضب ہو جاتا۔ یہ دُوسرے کمرے میں آ گئے، جہاں بیرے مشروبات کی ٹرے لیے گردش کر رہے تھے۔ وسیم نے آہستہ سے ایک اسموک بم گرا دیا، حبیب اس کی احتیاط پر ہنس پڑا، وہ بھی مسکرا دیا۔ بولا۔ ایسا لگتا ہے ہمارا منصوبہ بہت کامیاب رہے گا۔ ہاں اُمید تو یہی اب آئو کسی محفوظ جگہ کھڑے ہو جائیں اور فائربریگیڈ والوں کا انتظار کریں۔ ابھی اس کے منہ سے یہ الفاظ ادا ہوئے ہی تھے کہ سائرن کی آواز سنائی دی۔ انہوں نے دریچے سے جھانک کر دیکھا۔ گیراج میں لگی آگ کے شعلے فضا میں پچاس فٹ تک بلند تھے۔ لگتا تھا سفارت خانے کی پوری عمارت جل رہی ہے۔ اسی لمحے ایک فائرانجن تیزی کے ساتھ اندر داخل ہو کر عمارت کے عقبی حصے کی سمت گیا۔ اس کے فوراً بعد ہی دُوسرا انجن اندر داخل ہوا۔ ان کے سائرن خاموش ہو گئے لیکن دُور سے سائرن کی آتی ہوئی آواز سے ظاہر تھا کہ ابھی اور انجن بھی آ رہے ہیں۔ کسی نے چلّا کر کہا۔ سوئمنگ پول سے پانی بھر لو سوئمنگ پول سے۔ بہت سے فائرمین پائپ لیے دوڑ رہے تھے۔ شور اور زیادہ ہوگیا تھا۔ پمپ کے اسٹارٹ ہونے کی آواز سنائی دی۔ ربر کے کوٹ پہنے ہوئے فائرمین ہر سمت دوڑ رہے تھے، حبیب نے ٹہوکا دیا۔ اب اپنی کارروائی شروع کرو۔ دونوں بڑے زینے سے چڑھتے ہوئے اُوپر پہنچے۔ پہلی منزل پر دو سمتوں میں کوریڈور پھیلا ہوا تھا۔ ایک آدمی ان کے سامنے کھڑا تھا اور انہوں نے اسے فوراً پہچان لیا کہ وہ گارڈ ہے، انہیں دیکھتے ہی اس نے جلدی سے کہا۔ اُوپر داخلہ ممنوع ہے۔ اور پھر اس نے حبیب کو پہچان لیا۔ اس کا ہاتھ پھرتی کے ساتھ کمر سے بندھے ہوئے پستول پر گیا لیکن حبیب نے ہاتھ میں پکڑے ہوئے دھویں کے بم سے اس کے جبڑے پر بڑی برق رفتاری کے ساتھ ضرب لگائی۔ گارڈ کے گرنے سے پہلے اس نے اسے ہاتھوں پر سنبھال کر کہا۔ جلدی کسی کمرے کا دروازہ کھولو۔ وسیم نے قریبی دروازے کا ہینڈل گھمایا، دروازہ کھل گیا۔ گارڈ کو یہ لوگ گھسیٹ کر اندر لے گئے اور اسے الماری کے اندر ڈال کر پھر باہر آئے۔ انہوں نے باہمی مشورے کے بعد فیصلہ کیا کہ کوریڈور کے ایک سمت میں وسیم جائے اور دُوسری طرف حبیب۔ چنانچہ وسیم نے ہدایت کے مطابق عمل کرتے ہوئے دھویں کے بموں کے پن نکال کر کمروں میں پھینکنا شروع کر دیئے۔ دو بم اس نے ہال میں بھی اُچھال دیئے۔ اس کے بعد وہ دونوں پھر اُس چھوٹے کمرے میں آ گئے جہاں مشروبات کا دور چل رہا تھا۔ آئو یہاں رُکنا بے کار ہے۔ ہمیں چل کر دُوسرے ایکٹ کی تیاری کرنا چاہیے۔ وہ کوریڈور سے گزرتے ہوئے باہر نکلے۔ گیراج اب ہر سمت سے شعلوں میں گھر چکا تھا۔ پرانی لکڑی کوئلہ بن چکی تھی اور فائرمین مایوس نظر آ رہے تھے۔ انہوں نے بنچ کے نیچے سے اپنے تھیلے نکالے اور ابھی اپنی وردیاں پہننا شروع ہی کی تھیں کہ اندر سے کسی عورت کی چیخ فضا میں گونجی۔ آگ آگ۔ پھر کسی مرد کی آواز سنائی دی۔ پہلی منزل پر بھی آگ لگ گئی ہے، سب لوگ باہر نکل جائیں۔ کئی فائرمین بھاگتے ہوئے عمارت کے اندر داخل ہوئے، بیشتر کے ہاتھوں میں کلہاڑیاں تھیں۔ وسیم اور حبیب فائرمین کی وردیاں پہن چکے تھے، اس لیے وہ بھاگتے ہوئے اندر پہنچ گئے۔ ان کے پیروں میں پڑے بھاری بوٹ پیروں کو بوجھل بنا رہے تھے۔ ان کے پھینکے ہوئے دھویں کے بم کام دکھا رہے تھے۔ پہلی منزل پر ہر سمت گاڑھا دُھواں پھیلا ہوا تھا۔ اُوپر پہنچتے ہی آنکھوں میں مرچیں لگنے لگیں اور کھانسی آگئی۔ وسیم سے کچھ فاصلے پر وہ گھٹے بدن والا پستہ شخص تھا جسے وہ پہلے بھی دیکھ چکا تھا۔ وہ چیخ چیخ کر ہدایات دے رہا تھا۔ حبیب نے وسیم کے قریب آ کر کہا۔ اس کے پیچھے چلو اور اپنا پستول تیار رکھنا۔ وسیم نے پستول ہاتھ میں لے لیا اور اسے اپنے فائر پروف لباس کے نیچے چھپا لیا۔ کھانستے اور آنسو بہاتے ہوئے آگے بڑھتے رہے۔ واکر ان سے آگے آگے چل رہا تھا۔ وہ ایک دروازے کے سامنے رُکا۔ جیب سے چابی نکال کر دروازہ کھولا۔ اس نے جیسے ہی اندر جانے کے لیے قدم اُٹھایا، وسیم اور حبیب نے مل کر ایک ساتھ اس پر حملہ کر دیا۔ واکر لڑکھڑا کر کمرے کے اندر گیا۔ یہ حملہ اتنا اچانک تھا کہ وہ بوکھلا گیا تھا مگر پھر بھی وسیم نے اس کا ہاتھ پستول کی سمت بڑھتے دیکھا۔ کمرے میں دُھواں نہیں تھا، اس لیے وسیم نے کن اَنکھیوں سے یاسمین کو دیکھا جو دریچے کے سلاخوں سے باہر جھانک رہی تھی۔ وسیم نے پستول کے دستے سے واکر کی کنپٹی پر ایک بھرپور ضرب لگائی، لیکن اس نے بلا کی پھرتی کے ساتھ ایسا زوردار گھونسہ اس کے سینے پر رسید کیا کہ وہ لڑکھڑاتا ہوا دُور چلا گیا اور اتنی میں اس نے پستول نکال لیا تھا جس کی نال کا رُخ وسیم کے سینے کی طرف تھا۔ سینے پر پڑنے والی ضرب سے وسیم کا دماغ چکرا رہا تھا اور ایک لمحہ کے لیے وہ مفلوج ہو کر رہ گیا تھا۔ اسی وقت اس کے کانوں میں یاسمین کی دہشت ناک چیخ گونج اُٹھی۔ یاسمین کی چیخ پر وہ بری طرح ٹھٹھکا۔ ٹھیک اسی وقت واکر حلق کے بل چلاّیا۔ ڈزنی شکار لے کر بھاگو جائو۔ اسی وقت گولی چلی۔ واکر چیخ کر گرا اور ڈھیر ہوگیا۔ وسیم نے آہستہ سے سر گھما کر دیکھا۔ حبیب کے ہاتھ میں ریوالور اب تک تنا ہوا تھا۔ اس کی نال سے دُھواں اُٹھ رہا تھا۔ حبیب واکر کا ایک ساتھی زندہ ہے۔ وہ یاسمین کو یہاں سے نکال کر لے جانا چاہتا ہے۔ جلدی کرو۔ مجھے معلوم ہے آجائو۔ حبیب نے کہا اور ایک طرف دوڑا۔ وسیم اس کے پیچھے تھا۔ اسی وقت یاسمین کی دُوسری چیخ اُبھری۔ وسیم پریشان ہوگیا۔ حبیب دوڑتا ہوا ایک مختصر سا زینہ طے کرتا ہوا اُوپر پہنچا۔ وسیم پستول لیے اس کے پیچھے تھا۔ اچانک وہ ٹھٹھکا۔ ایک ٹھگنے قد کا شخص یاسمین کو کاندھوں پر ڈالے بھاگنے کی کوشش میں تھا کہ حبیب نے اس کی ٹانگ پر گولی ماری، وہ گرا، یاسمین بھی گری مگر وسیم نے جلدی سے آگے بڑھ کر اسے سنبھال لیا۔ حبیب اتنے میں ڈزنی کو گولی مار کر ڈھیر کر چکا تھا۔ اسی وقت یاسمین بھاگتی ہوئی آئی اور بولی۔ خدا نے بڑی خیر کی، اوہ وسیم میں بیان نہیں کر سکتی کہ میں کتنی خوش ہوں کیونکہ تم نے یہ سب میرے لیے کیا ہے۔ تم مجھے بچانے آئے، لیکن یہاں سے اب جلدی نکل چلو، عمارت میں آگ لگ گئی ہے۔ حبیب نے زوردار قہقہہ لگایا اور بولا۔ آگ نہیں لگی ہے یاسمین، صرف دُھواں نکل رہا ہے، لیکن یہ تم نے ٹھیک کہا کہ ہمیں جلد نکل جانا چاہیے۔ اس سے پہلے کہ انہیں حقیقت معلوم ہو جائے، لو یہ پہن لو۔ اس نے فائرمینوں والا لباس جلدی سے اسے پہنایا، اس کے جوتوں کے اُوپر بھاری بوٹ پہنا دیئے اور سر پر پلاسٹک کی ہیلمٹ چڑھا دی۔ دُھویں سے تمہارا دَم گھٹ گیا ہے۔ میں اور وسیم تمہیں بے ہوشی کی حالت میں اُٹھا کر لے جا رہے ہیں۔ اس نے سمجھایا اور وہ چابی اُٹھائی جو واکر کے ہاتھ سے فرش پر گر گئی تھی۔ باہر نکل کر دروازہ مقفل کیا اور پھر دونوں یاسمین کو اُٹھا کر اس طرح زینے کی طرف بڑھے جیسے فائرمین کسی زخمی کو اُٹھا کر لے جا رہے ہوں۔ فائرمین ہر طرف دوڑتے پھر رہے تھے، لیکن انہیں پتا نہیں چل رہا تھا کہ آگ کدھر لگی ہے، وہ زینے پر پہنچے تھے کہ ان میں ایک لپک کر قریب آیا۔ حبیب نے اسے پہچان لیا۔ تم وہی ہونا جو ہمیں یہاں لائے تھے۔ ہاں۔ حبیب نے جیب سے چابی نکال کر اسے دی۔ اس کے بعد یاسمین کو اُٹھائے تیزی کے ساتھ زینے سے نیچے اُترے۔ واکر کے آدمی ہر جگہ موجود تھے۔ لیکن افراتفری میں اُنہوں نے ان کی طرف توجہ نہ کی۔ باہر کھڑی ایمبولینس کے آدمیوں نے جلدی سے یاسمین کو اندر رکھے ہوئے اسٹریچر پر لٹا دیا۔ وہ دونوں بھی اُچھل کر اندر بیٹھ گئے۔ ایمبولینس چل پڑی۔ سائرن کی تیز آواز میں وہ پوری رفتار کے ساتھ شہر کی سمت جا رہے تھے۔ اچانک اندر بیٹھے ہوئے جمیل عمر نے بازو پھیلائے اور یاسمین اس کے قریب آ کر بولی۔ خدایا میں نے آپ کو پہچانا ہی نہیں تھا۔ وسیم نے جمیل کی طرف حیرت سے دیکھا۔ وہ اٹنڈنٹ کے لباس میں تھے۔ حبیب کے دفتر پہنچ کر انہوں نے ایمبولینس چھوڑ دی، اپنے حلیے تبدیل کیے اور جمیل کی کار میں گھر روانہ ہوگئے۔ وسیم نے ان کو اتنا خوش پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اپنے فلیٹ میں پہنچ کر پہلے انہوں نے ان کی مہم کی تفصیل سنی۔ ان کا خیال دُرست تھا، یاسمین کو واکر نے کوئی تکلیف نہیں پہنچائی تھی۔ تم لوگوں نے واقعی کارنامہ انجام دیا ہے۔ دُشمن سر پیٹتا رہ جائے گا۔ انہوں نے کافی کا گھونٹ بھرتے ہوئے کہا۔ بس ایک گڑبڑ ہوگئی، واکر کی لاش ملنے پر ہنگامہ ہوگا۔ نہیں جناب حبیب نے کہا۔ میں بتانا بھول گیا تھا کہ انہیں واکر کی لاش نہیں ملے گی۔ صالح کے آدمی فائرمینوں کے بھیس میں وہاں موجود تھے۔ میں انہیں تاکید کر آیا تھا، وہ لاش لے گئے ہوں گے۔ یہ سن کر جمیل عمر نے قہقہہ لگایا۔ اب میں بالکل مطمئن ہوں، اچھا تم دونوں آرام کرو اور خبردار فلیٹ چھوڑ کر نہ جانا، میں صورت حال معلوم کرتا ہوں۔ آئو حبیب۔ انہوں نے ان کے حکم کی تعمیل کی، دُوسرے روز تمام دن وہ گھر نہیں آئے۔ سہ پہر کو انہوں نے فون پر ان سے بات کی اور پھر ڈنر پر وہ ان کے ساتھ، کھانے کے دوران اب تک کی ساری تفصیل بتاتے رہے۔ اس کے بعد جمیل عمر نے وسیم کو مخاطب کر کے کہا۔ تم اب اپنا اَصل رُوپ اختیار کر سکتے ہو۔ لیکن سرِدست اپنے فلیٹ پر نہیں جائو گے۔ میں سوچ رہا ہوں کہ تمہارے قیام کا کہاں بندوبست کروں۔ فکر کی ضرورت نہیں، میں اپنے دوست اور پارٹنر افتخار کے گھر پر چند روز گزار سکتا ہوں۔ ہاں یہ ٹھیک ہے، لیکن ان دونوں کے علاوہ کسی کو خبر نہ ہو کہ تم وہاں مقیم ہو، یہ بہت ضروری ہے۔ آپ اطمینان رکھیں۔ لیکن ایک مسئلہ ہے۔ وہ دونوں میری اب تک کی سرگزشت ضرور پوچھیں گے۔ اگر وہ راز میں رکھ سکیں تو بتا سکتے ہو۔ ایک دو دن کی بات ہے۔ ڈاکٹر نصیر شاہ تنہائی سے گھبرا گئے تھے۔ ان کی طبیعت بھی خراب ہے۔ وہ آج یہاں پہنچ رہے ہیں، اس لیے تم اب وسیم بن سکتے ہو۔ اوہ لیکن جب وہ منظرعام پر آہی رہے ہیں تو پھر رازداری کی پابندی کیوں جمیل عمر نے گھڑی دیکھی، پھر بولے۔ کچھ دیر بعد ڈاکٹر نصیر شاہ کا طیارہ پہنچنے والا ہے۔ ہم نے انہیں خفیہ جگہ رکھا تھا۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ کھیل ابھی ختم نہیں ہوا ہے۔ تورک اور واکر صرف آلۂ کار کی حیثیت رکھتے تھے۔ اصل سرغنہ کوئی اور ہے، وہ اب تک سات پردوں میں چھپا ہوا ہے۔ بدقسمتی سے ہم اب تک اس کا پتا نہیں لگا سکے۔ ہمیں پروفیسر ارشد زیبی کے قاتل کی تلاش ہے اور یہ کام تورک یا واکر کا نہیں تھا۔ لیکن اس واردات سے میرا کیا تعلق ہو سکتا ہے وسیم نے سوالیہ نظروں سے جمیل عمر کی طرف دیکھا تھا۔ تم نہیں جانتے۔ وہ مسکراتے ہوئے بولے۔ بہت سی باتیں تم نہیں جانتے اور میں بتا بھی نہیں سکتا، اس لیے جو کہتا ہوں اس پر عمل کرو۔ اوہ اس صورت میں اگر آپ چاہیں تو میں ڈاکٹر نصیر شاہ ہی بنا رہتا ہوں۔ نہیں، اب میں یہ نہیں چاہتا، بس تم سے جو کہا ہے اس پر عمل کرو۔ افتخار اور عالیہ نے اس کا پُرتپاک خیرمقدم کیا۔ ان کو اپنی داستان سناتے ہوئے کافی رات گزر گئی۔ وسیم نے سگریٹ جلانے کے لیے لائٹر نکالا، اس کی گیس ختم ہوگئی تھی۔ عالیہ نے اسے ماچس لا کر دی اور کہا۔ لائو، یہ لائٹر مجھے دے دو، میں اس میں گیس ڈال کر صبح تم کو دے دوں گی۔ اب تم سو جائو، تم بہت تھکے ہوئے ہو۔ ٭ ٭ ٭ افتخار کی محبت کرنے کی صلاحیت اور سب کو خوش رکھنے کی آرزو نے اسے خوش مزاج اور نرم دل بنا دیا تھا۔ وسیم کی واپسی پر وہ اس طرح خوش تھا جیسے بچے ٹارزن کی واپسی پر خوش ہوتے ہیں۔ وہ عالیہ کی محبت، شفقت اور نازبرداریوں کا بوجھ اُٹھانے کا عادی ہو چکا تھا۔ وہ سب میز پر بیٹھے ہوئے تھے اور عالیہ سامنے کچن میں آملیٹ تیار کرتے ہوئے باتیں کرتی جارہی تھی۔ جمیل عمر نے بعد میں فون کر کے بتایا کہ یاسمین شام کا کھانا ان کے ساتھ کھائے گی۔ عالیہ، وسیم کا چہرہ دیکھتے ہوئے مسکرائی تو وہ شرما گیا۔ یاسمین آئی تو افتخار اور عالیہ کو دیکھ کر اس کے رُخساروں پر حیا کی شفق پھوٹ پڑی۔ کھانے کے دوران ایک بار پھر ان کی داستان، یاسمین کی زبانی سنی گئی۔ قہقہوں اور گہری سانسوں کے درمیان ڈنر ختم ہوا۔ جمیل کے ڈرائیور نے سختی کے ساتھ تاکید کی تھی کہ وہ باہر نہ نکلے۔ وہ یاسمین کو خود لینے آئے گا۔ اس لیے وہ لائونج میں بیٹھے اطمینان سے باتیں کرتے رہے۔ عالیہ کافی بنا کر انہیں دیتی رہی۔ افتخار کو ضروری کام تھا، اس لیے وہ معذرت کر کے چلا گیا۔ اچانک اطلاعی گھنٹی بجی۔ عالیہ نے چونک کر وسیم کی طرف دیکھا۔ کون ہو سکتا ہے میں کچن میں چلا جاتا ہوں، آپ دیکھ لیں۔ وسیم نے جلدی سے اُٹھتے ہوئے کہا۔ وسیم کچن میں جا کر ریفریجریٹر کی آڑ میں کھڑا ہو گیا۔ عالیہ نے دروازہ کھولا۔ آپ شاید مسز افتخار ہیں میں ڈاکٹر نصیر شاہ ہوں، جمیل عمر نے کہا تھا کہ وسیم یہیں ملیں گے۔ وسیم اپنی جگہ سے نکل کر کمرے میں آگیا اور مسکراتا ہوا آگے بڑھا۔ اُس نے مصافحہ کرتے ہوئے کہا۔ ڈاکٹر کیسے مزاج ہیں قید تنہائی سے گھبرا گیا تھا۔ اُنہوں نے بیٹھتے ہوئے جواب دیا اور آگے بولے۔ اور پھر چند ضروری کاغذات لینا تھے اس لیے واپس آ گیا لیکن تم سنائو، میرا رُوپ دھار کر کیا گزری سنا ہے بہت سنسنی خیز واقعات پیش آئے۔ ہاں، سنسنی خیز کہہ لیجئے۔ وسیم نے جمیل عمر کی وارننگ یاد کرتے ہوئے کچھ بتانے سے گریز کیا۔ کیا مجھے تفصیل نہیں بتائو گے مجھ سے راز میں رکھنے کی ضرورت نہیں تمہیں۔ وہ مسکرائے۔ مجھے افسوس ہے ڈاکٹر صاحب میں زبان بندی کے حکم کا پابند ہوں۔ اوہ تم واقعی اُصول کے پابند ہو، اچھی بات ہے۔ اُنہوں نے مسکراتے ہوئے کہا اور جیب سے سگریٹ نکال کر جیبیں ٹٹولنے لگا تو وسیم نے عالیہ کی دی ہوئی ماچس اُٹھا کر ان کی طرف پھینکی۔ کیوں پروفیسر ارشد زیبی کا لائٹر گم کر دیا چند لمحے خاموشی رہی، پھر وہ اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے لگے۔ پھر ڈاکٹر چونک کر اُٹھ کھڑا ہوا۔ وہ بولا۔ اچھا اب مجھے اجازت دو۔ اور ہاں میرا لائٹر واپس کر دو تو مناسب ہوگا۔ اس کی بات سن کر وسیم کو حیرت ہوئی اور ساتھ ہی وہ متعجب بھی ہوا کہ ڈاکٹر نصیر شاہ یہ بھول گئے کہ لائٹر انہوں نے تحفے میں وسیم کو دے دیا تھا۔ پلیز مجھے جلدی ہے۔ ڈاکٹر نصیر شاہ نے پھر کہا۔ جلدی یاد کریں، میرے پاس وقت نہیں ہے۔ اوہ، دراصل مجھے یاد نہیں آ رہا ہے کہ لائٹر کہاں رکھ دیا ہے۔ عالیہ نے کہا۔ رات کو یہاں سے لے گئی تھی، گیس بھروانی تھی، پھر یاد نہیں آ رہا ہے کہ کہاں رکھ دیا۔ وسیم نے دیکھا کہ عالیہ کی بات پر ڈاکٹر نصیر شاہ کا چہرہ سخت ہو رہا تھا۔ عالیہ چند لمحے سوچتی رہی۔ پھر یک دم جیسے اُسے یاد آیا، بولی۔ ہاں آ گیا یاد میں نے پرس میں رکھا تھا لیکن پھر دفتر گئی تو میز کی دراز میں رکھ کر بھول آئی۔ کوئی بات نہیں ڈاکٹر میں کل آپ کو پہنچا دوں گا۔ وسیم نے ڈاکٹر کے چہرے کے تاثرات بھانپتے ہوئے قدرے ناگواری سے کہا۔ اسے ڈاکٹر کا لہجہ اچھا نہیں لگا تھا۔ تم خاموش رہو۔ ڈاکٹر نے بڑے غیرمہذبانہ انداز میں وسیم کو ٹوکا اور تب ہی اس کی نظر ڈاکٹر کے ہاتھ پر پڑی۔ وہ یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اُس نے پستول نکال لیا تھا۔ ادھر پستول دیکھ کر یاسمین کی آنکھوں میں خوف اُتر آیا۔ وہ چلّا کر وسیم سے بولی۔ وسیم یہی وہ غدّار ہے جس کی جمیل عمر کو تلاش تھی۔ یاسمین ٹھیک کہتی ہے ڈاکٹر تمہیں شرم آنی چاہیے۔ مسلمان ہو کر اسلام دُشمنوں کی جاسوسی کرتے ہو ڈاکٹر نصیر شاہ نے زوردار قہقہہ لگایا۔ مسلمان اس نے شدید نفرت کے ساتھ کہا۔ ہاں دُنیا یہی سمجھتی ہے کیونکہ میرا باپ اتفاق سے مسلمان تھا، میری ماں جو یہودن تھی، اس سے دانستہ شادی کی تھی۔ کسی طرح میرے باپ کو یہ حقیقت معلوم ہوگئی۔ پھر ساری عمر وہ مسلمانوں کی نفرت کا شکار رہی۔ میرے باپ نے بھی اس پرکبھی اعتماد نہیں کیا اور اس نے مرتے وقت مجھ سے عہد لیا تھا کہ میں اس رویّے کا انتقام لوں۔ ڈاکٹر تمہاری طبیعت ٹھیک معلوم نہیں ہوتی۔ آرام سے بیٹھ جائو اور عقل سے کام لو۔ وسیم نے دیوارگیر کلاک کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ جمیل کا ڈرائیور گیارہ بجے یاسمین کو لینے آئے گا۔ میرے پاس بہت وقت ہے، تب تک میں تم سب سے نمٹ لوں گا۔ ڈاکٹر کے لہجے میں بڑا اعتماد تھا۔ تم جھوٹ بولتے ہو ڈاکٹر۔ جمیل نے تمہیں ہرگز یہ نہیں بتایا ہوگا کہ وسیم اور میں یہاں ہیں اور ڈرائیور کب آئے گا۔ چلو یہی سہی، میں نے اپنے ذرائع سے معلوم کر لیا، لیکن میں تمہاری بکواس سننے نہیں آیا تھا۔ عالیہ میرے ساتھ چل کر لائٹر تلاش کرے گی لیکن میں تم دونوں کو یہاں زندہ چھوڑ کر نہیں جا سکتا کہ تم جمیل عمر سے رابطہ کر سکو اور پھر وسیم سے تو مجھے تورک اور واکر کا بھی انتقام لینا ہے۔ میں تم دونوں کو انہی کے پاس بھیج دیتا ہوں۔ اس نے پستول کا رُخ وسیم کی طرف کرتے ہوئے سفاکی سے کہا۔ تم پاگل ہوگئے ہو ڈاکٹر تم اس کے باوجود نہیں بچ سکو گے۔ وسیم نے کہا۔ لیکن خوف سے اس کا جسم پسینے سے تر ہوچکا تھا۔ پاگل میں نہیں ہوں، تم ہو کون ڈاکٹر نصیر شاہ پر شبہ کر سکتا ہے جمیل عمر تو کبھی نہیں، کیونکہ وہ مجھ پر اندھا اعتماد کرتا ہے۔ اس نے دیوانوں کی طرح قہقہہ لگایا۔ اس نے پھر پستول کی نال بلند کی۔ تم سب دیوانے ہوگئے ہو۔ مجھے یاد آیا کہ لائٹر تو میں واپس لے آئی تھی۔ وہ سامنے والی چھوٹی میز کی دراز میں رکھا ہے۔ عالیہ نے صوفے کے رکھی چھوٹی میز کی سمت اشارہ کیا۔ ٹھہرو، میں تمہیں ابھی نکال کر دیتی ہوں۔ سب دم بہ خود رہ گئے۔ عالیہ نے میز کی دراز کھولی۔ لائٹر واقعی اس میں موجود تھا۔ جلدی کرو، یہ لائٹر مجھے دے دو۔ ڈاکٹر نصیر شاہ نے بے تابی کے ساتھ کہا۔ عالیہ نے لائٹر اُسے دے دیا۔ اب تم تینوں سامنے صوفے پر بیٹھ جائو اور اپنے ہاتھ سر کے پیچھے کر لو اور ہاں خبردار کوئی غلط حرکت مت کرنا ورنہ بے دریغ گولی مار دوں گا۔ وہ غرّا کر دھمکی دیتے ہوئے بولا اور پھر چھوٹی میز اپنی سمت گھسیٹ کر اس کے سامنے بیٹھ گیا۔ پستول سامنے رکھ کر اس نے جیب سے چابیوں کا ایک گچھا نکالا جس میں چھوٹا سا چاقو لگا ہوا تھا۔ اس نے لائٹر کا کور الگ کیا۔ اس کے بعد اس کی نلکی کا اسکریو کھولا جس میں پتھر لگایا جاتا ہے۔ اسپرنگ نکل کر میز پر گرا۔ وہ یقیناً اسی میں ہوگی۔ پروفیسر ارشد زیبی نے یقینا فارمولے کی مائیکرو فلم اسی میں چھپائی ہوگی۔ اس کے علاوہ کہیں اور نہیں ہو سکتی۔ وہ جیسے اپنے آپ سے باتیں کر رہا تھا۔ لائٹر اُوپر اُٹھا کر اس نے نلکی کے اندر جھانکا، اس کے چہرے پر اچانک مایوسی چھا گئی۔ نہیں ہے، تعجب ہے، لیکن نہیں وہ فلم اسی میں ہونی چاہیے، ٹھہرو۔ اس نے ماچس سے ایک تیلی نکال کر نلکی میں ڈالنا چاہی لیکن وہ بہت موٹی تھی۔ اس نے چاقو سے اسے تراش کر اندر ڈالا، ننھا سا چقماق پتھر نیچے گرا لیکن اندر کوئی مائیکرو فلم نہیں تھی۔ عالیہ نے ایک گہری سانس لی۔ ڈاکٹر نے سر اُٹھایا، اس کی آنکھوں میں شدید مایوسی جھلک رہی تھی۔ میرا خیال غلط تھا۔ وہ بدمعاش فارمولا اپنے دماغ میں ہی لے کر مرگیا۔ ڈاکٹر نے غصے سے کہا۔ کوئی بات نہیں، اب تمہارا کام تمام کرنا باقی ہے۔ اس نے کہتے ہوئے پستول کی سمت ہاتھ بڑھایا۔ خبردار، ڈاکٹر نصیر بالکل جنبش مت کرنا ورنہ تمہاری کھوپڑی میں سوراخ کردوں گا۔ اچانک کچن کے اندر سے آواز آئی۔ ڈاکٹر دم بہ خود رہ گیا۔ دُوسرے ہی لمحے حبیب اندر داخل ہوا۔ وسیم، یاسمین اور عالیہ تینوں حیرت زدہ نظروں سے اسے یوں گھورنے لگے جیسے وہ کسی دُوسرے سیّارے کی مخلوق ہو۔ یہ ناممکن تھا لیکن پھر بھی وہ ان کے سامنے کھڑا تھا اور اس کے خوفناک ریوالور کی لمبی نال سے ڈاکٹر نصیر کے سر کو زد میں لے رکھا تھا۔ حبیب نے آگے بڑھ کر ڈاکٹر کا پستول میز سے اُٹھایا اور وسیم کو دے کر کہا۔ دروازہ کھولو وسیم تمہارے دوست دروازے پر منتظر ہیں۔ وسیم نے اُٹھ کر دروازہ کھولا تو جمیل عمر مسکراتا ہوا اندر داخل ہوا۔ جمیل عمر تم پر اندھا اعتماد کرتا تھا ڈاکٹر نصیر شاہ۔ انہوں نے نفرت خیز لہجے میں کہا۔ بے شک یہ صحیح تھا، کیونکہ مجھے معلوم نہ تھا کہ تمہارے خون میں یہودی خون کی آمیزش ہے جس میں مسلمانوں سے نفرت کے جراثیم پل رہے ہوں گے۔ لے جائو اس کتّے کو۔ دو آدمیوں نے اندر داخل ہو کر نصیر کے بازو پکڑے۔ وہ بلا کسی مزاحمت کے اس طرح چل رہا تھا جیسے نیند کے عالم میں ہو۔ عالیہ نے اس کے جانے کے بعد بے اختیار ایک گہرا سانس لیا۔ معذرت قبول کرو عالیہ ہم یہ ڈرامائی انداز اختیار نہیں کرتے، لیکن اپنے شبہ کی تصدیق ضروری تھی۔ جمیل عمر نے مسکراتے ہوئے کہا۔ لل لیکن انکل عمر یہ حبیب مجھے بھی معاف کر دیں، پائپ کے ذریعے بالکونی پر چڑھنا اور کچن کی کھڑکی کھولنا دُشوار ضرور تھا لیکن اس کام میں خاصی مہارت رکھتا ہوں۔ ایسا لگتا ہے کہ ہم کوئی جاسوسی ڈرامہ دیکھ رہے ہیں۔ ڈرامہ ختم ہو چکا، یہ اس کا ڈراپ سین تھا۔ جمیل عمر صوفے پر بیٹھتے ہوئے بولے۔ وہ بہت خوش نظر آ رہے تھے۔ سُنا ہے عالیہ کافی بڑی عمدہ بناتی ہے جی ابھی لیجئے۔ عالیہ نے جلدی سے اُٹھتے ہوئے کہا۔ کافی آ گئی تو یاسمین نے پوچھا۔ انکل آپ کو کیسے علم ہوا کہ ڈاکٹر نصیر یہاں پہنچ گیا ہے تفصیل بڑی طویل ہے۔ بس یہ سمجھ لو کہ بہت دنوں سے میں اس کی نگرانی کر رہا تھا۔ پروفیسر زیبی کی موت کے بعد سے میرا شک پختہ ہوگیا تھا اور اچانک جب اس نے واپس لوٹنے پر اصرار کیا تو میرا شبہ یقین کی حد تک بدلنے لگا تھا کہ اصل سرغنہ یہی ہے۔ کیونکہ اسے یہ معلوم کرنے کی بے چینی تھی کہ وہاں کیا ہو رہا ہے۔ دراصل میں نے اس کو ایسی جگہ رکھا تھا جہاں سے براہ راست فون پر کسی سے باتیں نہیں کر سکتا تھا لیکن اگر سرغنہ وہ خود تھا تو پھر اپنے ہی آدمیوں کے حملے کا نشانہ کیوں بنا کمبخت یہ بلا کا چالاک ہے۔ اس کے کسی آدمی کو یہ علم نہ تھا کہ سرغنہ ڈاکٹر نصیر ہے۔ وہ کبھی ان کے سامنے نہیں آیا۔ ساری ہدایات فون کے ذریعے دیتا تھا۔ اس لیے وہ ڈاکٹر نصیر کو ہمارا آدمی تصور کرتے تھے۔ ڈاکٹر نصیر نے خود اپنے اغوا کا حکم دیا تھا، مقصد اس کا یہ تھا کہ ہمیں اس پر پختہ یقین اور اعتماد ہو جائے۔ یہ محض اتفاق ہے کہ ہم شکل ہونے کی بنا پر وسیم اس کے حملہ آوروں کی زد میں آ گیا۔ اس نے حکم دیا تھا کہ ڈاکٹر نصیر شاہ کی بھرپور پٹائی کی جائے، لیکن خوش قسمتی سے وسیم بچ گیا۔ جمیل عمر نے کافی کا ایک گھونٹ لے کر مسکراتے ہوئے بتایا اور وسیم کی طرف دیکھتے ہوئے آگے بولے۔ یاسمین سے بھی تمہاری ملاقات محض اتفاقی ہوگئی تھی۔ یاسمین نے جب مجھے تمہاری اور نصیر شاہ کی مشابہت کے بارے میں بتایا تو ایک منصوبے نے میرے ذہن میں جنم لیا۔ انجام تمہارے سامنے ہے۔ لیکن تورک کا کردار سمجھ میں نہیں آیا وسیم نے کہا۔ وہ ایک پیشہ ور قاتل تھا۔ وہ نصیر شاہ کا آلۂ کار ضرور تھا لیکن جب اسے پروفیسر ارشد زیبی کے فارمولے کا سراغ ملا تو اس نے سوچا کہ وہ یہ فارمولا خود حاصل کرلے۔ اس لیے اپنے سرغنہ کو اطلاع دیئے بغیر تم دونوں کو لے کر اس ویران جزیرے میں جا پہنچا۔ ہماری خوش بختی ہے کہ اسے کامیابی نہیں ہوئی۔ کیا واکر کا سفارت خانہ بھی اس سازش میں شریک تھا ہم اس الزام کو ثابت نہیں کر سکتے اور انہوں نے قطعی لاعلمی کا اظہار کیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ واکر نے جو کچھ کیا، ذاتی حیثیت میں کیا۔ ہم بھی اس مسئلے کو سفارتی پیچیدگیوں کی وجہ سے اُٹھانا نہیں چاہتے، اب اس کی ضرورت بھی نہیں رہی، البتہ وہ سانس لینے کے لیے رُکے۔ چند لمحوں کے بعد انہوں نے دوبارہ کہا۔ یہ بات ہم ثابت کر دیں گے کہ نصیر شاہ کا تعلق اسرائیل کی جاسوس تنظیم سے تھا۔ اس کا اصل نام میکس راتھ تھا اور اسی نے پروفیسر زیبی کو زہر دے کر قتل کیا تاکہ اس کے فارمولے پر قبضہ کر سکے۔ افسوس صرف یہ ہے کہ زیبی کے ساتھ اس کا فارمولا بھی ختم ہوگیا۔ یہ کہتے ہوئے وہ اُٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ پھر عالیہ سے مخاطب ہوکر بولے۔ عالیہ تم لوگوں کو جو زحمت ہوئی، اس کے لیے ہم معذرت خواہ ہیں۔ ٹھہریئے جناب ابھی ڈراپ سین باقی ہے۔ عالیہ نے مسکراتے ہوئے کہا۔ میں ابھی آئی۔ سب حیران ہو کر ایک دُوسرے کا منہ تکنے لگے۔ عالیہ چند منٹوں بعد لوٹ آئی۔ اس کے ہاتھ میں ایک چھوٹا سا لفافہ تھا۔ وہ جمیل عمر سے بولی۔ ذرا ہاتھ اِدھر لایئے جمیل نے حیرت کے عالم میں ہاتھ پھیلائے تو عالیہ نے لفافہ اُلٹ دیا۔ ایک ننھی سے چمکتی ہوئی سیاہ چیز ان کی ہتھیلی پر گری۔ سب کی آنکھیں پھیل گئیں۔ مائیکرو فلم میرے خدا یہ کہاں سے آئی جمیل نے پوچھا۔ رات جب میں نے اس لائٹر کو گیس بھرنے کے لیے کھولا تو اچانک خیال آیا کہ پروفیسر زیبی نے آخر یہ لائٹر کیوں نصیر کو تحفے میں دیا۔ محض تجسس کی بنا پر میں نے وہ اسکریو کھولا جو نیچے لگا ہوا تھا۔ یہ فلم نیچے گر پڑی۔ میں نے فوراً سمجھ لیا کہ یہی پروفیسر ارشد زیبی کا فارمولا ہے لیکن وسیم کو یہ بتانا بھول گئی۔ خدا خوش رکھے تمہیں، تم نے ایک بہت بڑا کارنامہ انجام دیا ہے۔ جمیل خوشی سے بے قابو ہو کر بولے۔ میرے لیے کیا حکم ہے جناب کچھ دیر بعد وسیم نے پوچھا۔ آج سے تم آزاد ہو۔ اُنہوں نے ہنستے ہوئے کہا۔ لیکن سر میں آزاد رہنا نہیں چاہتا مجھے مستقل غلامی میں لے لیجئے۔ وسیم بولا۔ کمرہ قہقہوں سے گونج اُٹھا۔ یاسمین کا چہرہ شرم سے سرخ ہو رہا تھا۔ ختم شد
null
null
null
null
418
https://www.urduzone.net/dhoop-rahe-na-chahon-teen-auratien-teen-kahaniyan/
میرا دیور ندیم ایک خوبرو نوجوان تھا۔ جب اس نے میری شادی میں میری چھوٹی بہن قمر کو دیکھا تو وہ اس کے دل میں بس گئی۔ پھر جب دوچار بار قمر مجھ سے ملنے ہمارے گھر آئی تو وہ ندیم کی دلکش مسکراہٹ کا شکار ہوگئی۔ وہ بھی اسے پسند کرنے لگی۔ قمر میرے دیور کو پسند کرنے لگی ہے، یہ بات گھر والوں کو معلوم نہ تھی ورنہ امی، ابو اسے ہمارے گھر آنے سے روک دیتے، تاہم مجھے شروع دن سے دونوں کی پسندیدگی کا اندازہ ہوگیا تھا۔ سوچا ندیم خوبصورت ہے اور گریجویشن مکمل کرنے والا ہے، اچھی جاب مل گئی تو امی سے قمر کے رشتے کی بات کروں گی۔ دونوں بہنیں ایک گھر میں آجائیں گی تو اچھا رہے گا۔ میری شادی کو ابھی چھ ماہ ہوئے تھے۔ سسرال والے میرے ساتھ اچھے سلوک سے پیش آرہے تھے۔ رفیق حیات سے بھی محبت ملی تو آرزو کرنے لگی کہ قمر کی شادی ندیم سے ہوجائے تاکہ دیور اور چھوٹی بہن دونوں کی خوشی پوری ہو۔ ندیم کسی نہ کسی بہانے امی کے گھر جانے لگا۔ کبھی ہماری ساس سے گاجر کا حلوہ اور کبھی مٹھائی خرید کر لے جاتا اور کہتا کہ والدہ اور بھابی نے بھجوائی ہے۔ موقع ملتا تو قمر سے بھی دوچار باتیں کرلیتا۔ اسی طرح دونوں نے چوری چھپے آپس میں ساتھ نباہنے کا وعدہ کرلیا۔ ایک روز ندیم نے مجھ سے کہا۔ بھابی اگر آپ قمر سے میری شادی کرا دیں تو میں عمر بھر آپ کا احسان مند رہوں گا۔ آپ اتنی اچھی بہو ثابت ہوئی ہیں کہ اب امی، ابو کو ہرگز قمر کے بہو بنانے پر کوئی اعتراض نہیں ہے۔ اب آپ نے اپنے والدین کو راضی کرنا ہے۔ میں نے امی سے بات کی۔ وہ خاموش ہوگئیں لیکن والد نے شور مچا دیا کہ ایک بیٹی دی ہے کافی ہے۔ میں قمر کی شادی اپنے بھائی کے بیٹے نوید سے کروں گا۔ بڑے بھائی سے وعدہ کرچکا ہوں۔ والد کا ٹکا سا جواب سن کر گھر لوٹ آئی۔ ندیم بے چینی سے میرا انتظار کررہا تھا پوچھا۔ بھابی خوشخبری لائی ہیں نا صبر سے کام لو بھیا ابھی کامیابی نہیں ملی۔ ایک بار اور کوشش کروں گی۔ دراصل ابا جان، تایا جی کو زبان دے چکے ہیں اور یہ سگے بھائیوں کا معاملہ ہے۔ بات بنتی مشکل نظر آرہی ہے۔ یہ سن کر ندیم کا منہ لٹک گیا۔ میرا دیور سخت پریشان رہنے لگا۔ اس نے بی۔اے کے پرچے بھی ٹھیک سے نہ دیئے۔ اس کی پریشانی دیکھ کر میں نے کچھ تحفے خریدے اور امی کے پاس چلی گئی۔ انہوں نے پوچھا۔ یہ کیا لائی ہو کچھ تحفے ہیں، میری ساس کے بھائی سعودی عربیہ سے لائے ہیں۔ آنٹی نے کچھ جوڑے، پرفیوم اور جیولری قمر کے لئے بھی دی ہے۔ اماں کا ماتھا ٹھنک گیا، بولیں۔ وہ ایسی دریا دل کیونکر ہوگئیں اور یہ سب قمر کے لئے بھجوانے کی ضرورت کیا ہے، کوئی مطلب ضرور ہے آپ ٹھیک کہتی ہیں امی جان مطلب کے بغیر کون کسی کے لئے سوچتا ہے۔ آپ مطلب اچھی طرح جانتی ہیں کہ وہ ندیم کے لئے قمر کا ہاتھ مانگنا چاہتی ہیں۔ تم نے اس روز اپنے والد کا جواب سن تو لیا تھا۔ وہ کسی طور اپنے بھائی سے کیا وعدہ نہ توڑیں گے۔ اب تم یہ تحفے واپس لے جائو اور اپنے گھر میں سکون سے رہو۔ باربار رشتے کی بات کرکے اپنا اور ہمارا سکون برباد مت کرو۔ والدہ سے کچھ نرم گوشے کی امید تھی، ادھر سے بھی سختی سے انکار سنا تو ناامید ہوگئی کہ اب دال گلنے والی نہیں ہے۔ قمر کو سمجھایا کہ تم ندیم کا خیال دل سے نکال دو، میں اپنے دیور کو بھی سمجھاتی ہوں۔ جو امر ممکن نہیں ہے، اس کے لئے دونوں کا ہلکان ہونا خود کو ہلاکت میں ڈالنے کے مترادف ہے۔ میرا گھر الگ متاثر ہوگا۔ جب قمر نے جان لیا کہ وہ والدین کی رضا سے ندیم کی نہیں ہوسکتی تو اس نے چوری چھپے ندیم سے رابطہ کیا۔ اللہ جانے دونوں میں کیا کھچڑی پکتی رہی نتیجہ یہ نکلا انہوں نے میرا بھی خیال نہ کیا اور اپنی خوشی کی خاطر کورٹ میرج کرنے کی ٹھان لی۔ ندیم کا رزلٹ آگیا۔ وہ بی۔اے کے دو مضامین میں رہ گیا تھا، حالانکہ اچھا طالب علم تھا، کبھی فیل نہ ہوا تھا لیکن اس کے سر پر جب سے عشق کا بھوت سوار ہوا تھا، پڑھائی سے بیگانہ ہوگیا تھا۔ یہاں تک کہ جب قمر نے کہا کہ کورٹ میرج کرنے کی ہمت اس میں نہیں ہے، وہ اس کا ساتھ نہیں دے سکتی تو اس نے نشے کا سہارا لیا تاہم اندر کی باتوں کا ہمیں علم نہ تھا۔ قمر کو ہی اس نے بتایا تھا کہ وہ نشہ کرنے لگا ہے، اگر وہ کورٹ میرج پر تیار نہیں ہوگی تو ایک روز اتنا نشہ کرے گا کہ جان نکل جائے گی۔ ندیم کی اس دھمکی سے ڈر کر قمر نے وعدہ نباہنے کی ہامی بھر لی۔ ایک دن وہ والدین کو بتائے بغیر گھر سے چلی گئی اور ندیم کے ساتھ کورٹ میرج کرلی۔ قمر کا خیال تھا کہ میں ندیم کی بھابی ہوں، میکے والوں نے پھٹکار دیا تو کیا، ندیم کے والدین، بھائی قبول کرلیں گے۔ میری بہن مجھے اور ندیم کو دربدر نہ ہونے دے گی۔ جب ندیم نے فون پر میرے شوہر کو اطلاع دی تو وہ سکتے میں آگئے۔ مجھے بتایا، میں بھی ہل کر رہ گئی۔ ایک طرف سسرال، دوسری طرف میکہ امی جان کو فون پر بتایا تو وہ بھڑک اٹھیں۔ بولیں۔ ہرگز اس نامراد لڑکی کو گھر میں گھسنے دینا اور نہ اس کی پشت پناہی کرنا، ورنہ ہمارا تم سے بھی ناتا ختم ہوجائے گا۔ جانتی ہو کہ قمر کے اس اقدام سے تمہارے والد کو کتنا صدمہ پہنچا ہے وہ غائب ہوئی تو انہوں نے مجھے کہا کہ لگتا ہے یہ بدبخت ندیم کے ساتھ گئی ہے۔ سحر سے کہہ دو اس کے ساتھ ناتا رکھا تو سمجھو کہ ہم دونوں اس کے لئے مر گئے۔ یہ میرے لئے ہوشربا دھمکی تھی۔ میرے واقعی حواس جاتے رہے۔ ایک طرف والدین، دوسری طرف بہن ظاہر تھا ندیم لڑکا تھا۔ والدین اپنے بیٹے کو کچھ عرصے بعد سہی گلے لگا لیتے لیکن میری پوزیشن اپنے میکے اور سسرال دونوں میں خراب ہوگئی تھی۔ ہمیں قطعی یہ اندازہ نہ تھا کہ قمر اتنی بڑی غلطی کرسکتی ہے۔ اس صدمے سے ماں، باپ دونوں ہی نیم جان تھے، کیونکہ محلے میں بدنامی ہوگئی تھی کہ ان کی بیٹی گھر سے بھاگ گئی ہے۔ ابو بیمار ہوکر بستر پر پڑگئے۔ ان کے دل میں اب قمر کے لئے نفرت کے سوا کچھ نہ تھا۔ والدین کے لئے یہ وہ دکھ تھا جسے تمام عمر تازہ رہنا تھا۔ انہوں نے سب سے کہہ دیا کہ قمر ہمارے لئے مر چکی ہے۔ مجھ سے بھی کہہ دیا۔ خبردار جو تم نے اس کے ساتھ کسی قسم کا رابطہ رکھا۔ یہ کہہ کر گویا میرے اپنے ماں، باپ نے مجھے ایک بہت بڑے امتحان میں ڈال دیا۔ میرے والدین سمجھ رہے تھے شاید مجھے اس بات کی پہلے سے سن گن تھی، کیونکہ میں چاہتی تھی کہ قمر میری دیورانی بنے۔ کوئی دوسری لڑکی ہمارے گھر ندیم کی بیوی بن کر نہ آئے تبھی امی، ابا پر زور بھی ڈالا تھا۔ یہ دونوں کورٹ میرج تو کر بیٹھے مگر اب جاتے کہاں چند دن ہوٹل میں رہے۔ جب ندیم کی جیب خالی ہوگئی تو دوچار دن ایک دوست نے ٹھہرا لیا لیکن کب تک کوئی کسی کو ٹھہرا سکتا ہے۔ ندیم کی ملازمت تھی اور نہ کوئی ذریعہ آمدنی قمر بھی گھر سے خالی ہاتھ نکلی تھی سوائے اس ہلکے سے زیور کے جو وہ پہنے ہوئے تھی۔ ندیم نے میرے خاوند کو فون کیا۔ بھائی جان جو ہوگیا سو ہوگیا، اب ہم کہاں جائیں کیا سڑک پر بیٹھیں لاکھ ان کو برابھلا کہتے تھے، آخر بھائی تھے۔ بے یارومددگار ان دونوں کو نہ چھوڑ سکتے تھے۔ والد سے مشورہ کیا۔ میرے سسر بولے۔ ہم قمر کے والدین کو بعد میں معافی تلافی کرکے منا لیں گے۔ ان کو گھر آنے دو۔ غیرت گوارا نہیں کرتی کہ میری بڑی بہو کی بہن دربدر ہو۔ سسر نے اجازت دے دی اور کہا کہ ان کا ولیمہ ہوگا۔ ہم اپنے قریبی رشتے داروں اور محلے والوں کو مدعو کریں گے تاکہ سب قمر کو ہماری بہو تسلیم کرلیں اور عزت کریں۔ ان کو عزت سے گھر لانے میں ہی ہماری بھی عزت ہے۔ ولیمے کا اہتمام ہوا تو ہمارے کسی رشتے دار نے ابو کو خبر کردی۔ والد نے مجھے فون کیا۔ خبردار جو تم اس ولیمے میں شریک ہوئیں۔ بہتر ہے میکے آجائو ورنہ پھر ہم سے ناتا نہ رکھنا۔ ان لوگوں کو ہماری عزت کا ذرّہ بھر بھی پاس نہیں ہے۔ ہمارے گھر سے لڑکی بھگا کر خوشیاں منا رہے ہیں، ولیمہ کرکے لوگوں کو مدعو کررہے ہیں۔ تم نے ان کا ساتھ دیا تو تم ہماری بیٹی نہ رہو گی۔ والد کا فون سن کر مجھے چکر آگیا۔ سانپ اور مینڈک والا معاملہ تھا۔ اگلتے بنتی تھی اور نہ نگلتے۔ کہاں جاتی، ان دنوں امید سے تھی۔ شوہر مجھے چاہتے تھے۔ ساس، سسر، نندوں، دیور سب کا اچھا سلوک تھا۔ اپنے ہنستے بستے گھر کو چھوڑ کر کیونکر میکے جا بیٹھتی۔ مجھے والدین اور سسرال میں سے ایک کا انتخاب کرنا تھا۔ بہت سوچنے کے بعد میں نے میکے پر اپنے گھر اور شوہر کو ترجیح دی۔ والدین کا غصہ بجا مگر ان کا مطالبہ میرے حق میں صحیح نہ تھا کہ میں اپنا گھر چھوڑ کر میکے چلی جائوں۔ ولیمے میں مجھے اپنی ساس کے ساتھ کھڑا رہنا پڑا۔ مہمانوں کا استقبال اور ان کی خاطرداری آخر میں اس گھر کی بڑی بہو تھی اور آنے والی بھی میری سگی بہن تھی۔ والدین نے مجھ سے بھی ناتا ختم کرلیا۔ اس بات کا افسوس قمر کو تھا۔ رخصتی کے وقت ماں، باپ کی دعائیں بھی وہ نہ سمیٹ سکی تھی، تاہم وہ بہت خوش تھی کہ اس کا خواب پورا ہوا تھا۔ اس خوشی میں اس نے والدین کے دکھ اور سارے زمانے کو بھلا دیا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ یہ خمار اترنے لگا۔ ندیم اور قمر دونوں مکمل طور پر والد اور میرے شوہر نسیم کے دست نگر تھے۔ ندیم بی۔اے پاس نہ کرسکا تھا، نوکری بھی ملنی محال تھی۔ دوبارہ امتحان دینے کی تیاری کی لیکن کچھ غلط دوستوں نے اسے گھیر لیا اور وہ اب زیادہ وقت گھر سے باہر رہنے لگا۔ ندیم شروع سے لاپروا تھا۔ وہ پڑھائی میں زیادہ سنجیدہ نہ تھا۔ نسیم انجینئر تھے، جبکہ وہ بی۔اے فیل تھا۔ دونوں بھائیوں کے مزاج اور عادت میں بھی کافی فرق تھا۔ ندیم نے کالج چھوڑ دیا اور کمانے کے بارے میں سنجیدگی کا مظاہرہ نہ کیا تو سسر پریشان رہنے لگے۔ کئی بار سمجھایا۔ بیٹا میں بوڑھا آدمی ہوں، زیادہ عرصہ تم لوگوں کا بوجھ نہ اٹھا پائوں گا۔ نسیم بھی کب تک تم لوگوں کی کفالت کرے گا۔ بہتر ہے کہ اپنے مستقبل کے بارے میں سوچو۔ ابھی سے کوئی منصوبہ بندی کرو، کل کلاں بچے ہوگئے تو ان کو کون پالے گا عمر بھر کوئی کسی کے اہل و عیال کو نہیں پالتا خواہ سگا بھائی ہی کیوں نہ ہو۔ لاابالی ندیم باپ کی نصیحت ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اڑا دیتا۔ جب ماں اور بیوی نے بھی اسے سمجھانا شروع کیا تو وہ زیادہ تر گھر سے باہر رہنے لگا۔ ماں، باپ سے بات نہ کرتا اور قمر سے بھی الجھ پڑتا۔ احساس ہوا کہ اس کی صحت گرنے لگی ہے۔ رنگ روپ اور چہرے کی آب و تاب ماند پڑتی جاتی ہے۔ جلد ہی یہ حقیقت سامنے آگئی کہ وہ نشہ کرنے لگا تھا۔ کبھی اس قدر آپے سے باہر ہوجاتا کہ ذرا سی بات پر بے تحاشا گالیاں بکنے لگتا تھا۔ اس کا رویہ نارمل نہ رہا تھا۔ قمر مجھ سے رقم لیتی اور ندیم کے مطالبے پر چپکے سے اسے دے دیتی تاکہ وہ پرسکون رہے اور گھر والوں کا سکون خراب نہ کرے۔ جب نشے کے لئے پیسے مل جاتے، موڈ بہت اچھا ہوجاتا اور وہ قمر کو اپنی محبت کے میٹھے بول بول کر اپنا اسیر کرلیتا۔ قمر پریشان رہنے لگی لیکن شوہر کا گلہ شکوہ کس سے کرتی کبھی روتی، کبھی ہنس پڑتی۔ جب ندیم کی صحت گرنے لگی اور اس کا رویہ انتہائی ترش اور مریضانہ ہوگیا تو گھر والوں پر راز کھل گیا کہ وہ نشہ کرنے لگا ہے، بلکہ باقاعدہ نشے کا عادی ہوچکا ہے۔ اس بات کا علم مجھے اور نسیم کو بھی اس وقت ہوا جب پانی سر سے گزر گیا تھا۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ بیروزگار انسان جو دوسروں سے اپنے اخراجات کے لئے پائی پائی کا محتاج ہو، اس کا رویہ ایسا ہی تلخ اور غیر معمولی ہوجاتا ہے۔ تبھی نسیم چھوٹے بھائی کا ہاتھ تنگ نہ ہونے دیتے تھے۔ اگر جانتے کہ ان کے خون پسینے کی کمائی نشے کی نذر ہورہی ہے تو وہ کوئی تدبیر بروقت کرکے اپنے چھوٹے بھائی کو اس جال میں پھنسنے سے بچا لیتے۔ قمر نے یہ راز دیر سے کھولا۔ ندیم نے کوئی کام نہ کرنے کی قسم کھا لی۔ اس کی جوانی کو گھن لگ چکا تھا۔ ہم ان کا خرچہ بھی پورا کرتے اور قمر مجھ سے چپکے چپکے شوہر کے نشے کے لئے رقم بھی مانگتی رہتی۔ وہ اب پچھتا رہی تھی کہ اس نے کتنا غلط فیصلہ جلدی میں کرلیا تھا۔ ناحق اپنی زندگی برباد کی اور ساتھ ماں، باپ کو بھی اتنا بڑا دکھ دینے کا سبب بنی۔ مجھے بھی والدین کی ناراضی اور قطع تعلقی سے دکھ پہنچا تھا۔ میں پھر بھی اپنے گھر میں آباد تھی۔ قمر جو یہ سمجھ رہی تھی کہ ہر شے کو دائو پر لگا کر ندیم جیسی متاع پا لی ہے تو وہ اب آٹھ آٹھ آنسو رو رہی تھی لیکن کسی سے کیا کہتی، یہ اس کا اپنا کیا دھرا تھا۔ وہ ہم پر مستقل بوجھ تھی۔ ہم یہ بوجھ بھی اٹھا رہے تھے لیکن ندیم نے قیامت مچا رکھی تھی۔ اسے نشے کے لئے روز رقم درکار تھی۔ سسر ریٹائرڈ تھے اور نشئی بیٹے کے لئے ان کی پنشن ناکافی تھی۔ قمر زیادہ پس رہی تھی کہ ندیم رقم کا مطالبہ بیوی سے کرتا۔ جانتا تھا کہ قمر میری بہن ہے اور میں اپنی بہن کو روتا نہیں دیکھ سکتی۔ میرے اور قمر کے رشتے کو اس نے ہماری کمزوری جان لیا تھا۔ وہ قمر سے کہتا۔ رقم دو۔ وہ نہ دیتی تو میرے سامنے اس کو مارنے پیٹنے لگتا۔ اس وقت تک ستاتا، جب تک رقم اسے نہ مل جاتی۔ اس صورتحال سے میں تنگ آگئی۔ کب رقم کا مطالبہ کرتی۔ وہ کہتے نشے کے لئے تمہاری بہن سے میرا بھائی رقم مانگتا ہے تو مت دو۔ ادھر ندیم قمر کا ناک میں دم کر ڈالتا۔ وہ روتی سسکتی میرے پاس آتی۔ میری جان عذاب میں آگئی۔ اب تو دل سے چاہتی تھی کہ قمر کہیں چلی جائے لیکن کہاں والدین کے گھر کے دروازے اس پر بند تھے اور اسی کی وجہ سے مجھ پر بھی میکے کے در بند ہوئے تھے۔ رشتے دار کون کسی کو رکھتا ہے ایسے حالات میں قمر کا میرے سوا کوئی نہ تھا۔ رو کر میرا ہی دامن پکڑتی تھی۔ ساس بھی اب قمر کا خیال نہ کرتی تھیں۔ کہتیں کہ ہم نے کب کہا تھا کہ یہ گھر سے بھاگ کر ہمارے بیٹے سے شادی کرلے ندیم برا بھلا جیسا بھی تھا، ہمارا بیٹا تھا۔ وہ شادی سے پہلے تو ایسا نہ تھا۔ اب قمر کا یہ حال کہ زخموں سے چور بخار میں بھی سارے گھر کا کام کرتی اور کوئی اس کا حال پوچھنے کا روا دار نہ تھا۔ ان دنوں میں دوسرے بچے کو جنم دینے والی تھی۔ کام کاج نہ کرسکتی تھی۔ قمر اکیلی ہی تمام گھر کا بوجھ سنبھال رہی تھی۔ میری نند کے رشتے کے لئے مہمان آگئے۔ قمر کو بخار تھا اور دس آدمیوں کا کھانا تیار کرنا تھا۔ وہ بستر سے نہ اٹھ سکتی تھی پھر بھی باورچی خانے میں جانا پڑا۔ دقتوں سے کام کررہی تھی۔ غسل خانے جاکر قے کرتی پھر آکر کھانا بنانے لگتی۔ نندیں اپنی آرائش و زیبائش میں مصروف تھیں، ساس مہمانوں کے ساتھ بیٹھی تھیں۔ میں اپنی بہن کی بے بسی دیکھ رہی تھی اور آنسو بہا رہی تھی۔ رات کو اسے شدید بخار چڑھا۔ دوبار میں اس کے کمرے میں گئی، اسے پانی اور پین کلر دیا۔ وہ اکیلی پڑی تھی۔ آدھی رات کو ندیم آیا۔ میں اپنے کمرے میں آگئی۔ چلو برا بھلا جیسا ہے، اس کا جیون ساتھی ہے، پانی تو دے دے گا۔ ذرا دیر بعد قمر کے سسکنے کی آواز سنائی دی۔ ندیم اس سے رقم مانگ رہا تھا اور وہ کہہ رہی تھی۔ آپا سو گئی ہیں، میں آدھی رات کو رقم کہاں سے لائوں، کس سے مانگوں تبھی اس نے قمر کے گلے میں پڑی سونے کی چین کا مطالبہ کردیا۔ تو یہ دے دو۔ یہ ہرگز نہ دوں گی۔ یہ میری امی کی نشانی ہے۔ میں نے ایف۔اے پاس کیا تھا، انہوں نے تحفے میں دی تھی۔ قمر نے گلے پر ہاتھ رکھا۔ ندیم نے بیوی کا گلا دبا دیا اور زبردستی چین گلے سے نوچ کر گھر سے باہر نکل گیا۔ اس واقعے نے قمر کا دماغ ہلا کر رکھ دیا۔ بخار میں شوہر کی ایسی بدسلوکی نہ سہہ سکی۔ وہ بھی بہکی بہکی باتیں کرنے لگی جیسے کسی کا ذہنی توازن بگڑ جاتا ہے۔ اب وہ بیٹھے بیٹھے اکثر ڈر جاتی۔ اپنا گلا دونوں ہاتھوں سے چھپاتی جیسے گلا دبانے والے سے خود کو بچا رہی ہو۔ روتی اور پھر چلانے لگتی۔ تمام گھر والے اس سے نالاں ہوگئے۔ انہوں نے ندیم پر بھی اپنے گھر کے دروازے بند کردیئے۔ سسر نے کہا۔ اگر اب یہ آئے تو کوئی دروازہ نہ کھولے۔ اچھا ہے کہ جن آوارہ دوستوں کے ڈیرے پر رہتا ہے، وہاں ہی مر جائے۔ میرے شوہر بیچارے پر سارے کنبے کا بوجھ تھا۔ وہ دن، رات کمانے میں لگے تھے تاکہ بہنوں کی شادیاں کرسکیں اور گھر کے اخراجات بخوبی پورے ہوں۔ وہ ان جھمیلوں میں پڑتے تو ڈیوٹی پر نہ جاسکتے تھے۔ ہمارے گھر کا سکون غارت ہوچکا تھا۔ آخر میں نے ہمت کی اور میکے چلی گئی۔ در کھٹکھٹایا، امی نے کھولا۔ مجھے دیکھ کر تیوری پر بل ڈال لئے مگر اندر آنے دیا۔ میں رو کر ان کے گلے سے لگ گئی اور تمام احوال اکھڑی سانسوں میں سنایا۔ انہوں نے تحمل سے سنا۔ آخر ماں تھیں اور قمر ان کی بہت لاڈلی تھی۔ اس کی ذرا سی تکلیف پر تڑپ جاتیں تھیں۔ بیٹی کا یہ حال جان کر ممتا کی ماری نہ رہ سکیں اور میرے ساتھ اس کو دیکھنے ہمارے گھر آگئیں۔ قمر کو پاگلوں جیسے حال میں دیکھ کر میری ماں کی آنکھوں سے آنسو تھمنے کا نام نہ لیتے تھے۔ گلے سے لگا کر بھینچ لیا اور میرے بھائی کو فون کیا کہ گاڑی لائو، قمر کو گھر لے جانا ہے۔ بھائی جان کی کیا مجال ماں کا حکم ٹالتے۔ قمر کو دیکھا تو وہ بھی رونے لگے۔ دونوں نے اسے سہارا دے کر اٹھایا اور اپنے ساتھ لے گئے تب میں نے سکھ کا سانس لیا کہ وہ اپنوں میں چلی گئی تھی۔ اپنے ہی اس حالت میں اس کا ساتھ دے سکتے تھے۔ والد کو امی نے سمجھا دیا۔ ماں اولاد کی ہزار غلطیاں معاف کرسکتی ہے تو وہ قمر کو کیسے چھوڑ دیتیں۔ قمر بھی اپنوں کی آغوش میں پہنچ کر سکون میں آگئی۔ بھائی جان نے اس کا علاج کرایا۔ وہ رفتہ رفتہ صحت یاب ہونے لگی۔ اس نے سہولت کا سانس لیا کہ وہ رشتے اسے نصیب ہوگئے تھے جن سے وہ محروم ہوچکی تھی۔ میرے والدین نے قمر کو دوبارہ سسرال نہ بھیجا۔ کیوں بھیجتے، کس کی خاطر ہیروئن کا نشہ ندیم کی ہڈیوں میں اتر چکا تھا۔ اس کو دیمک کی طرح چاٹ کر کھوکھلا کرچکا تھا۔ والد خلع چاہتے تھے لیکن اس کی نوبت نہ آئی اور ایک دن ندیم کے مرنے کی خبر آگئی۔ قدرت نے خود قمر کو اس کی اذیت بھری قید سے آزاد کرا دیا تھا۔ ہمیں ندیم کی وفات کا بہت دکھ تھا۔ میرے ساس، سسر رو رو کر نیم جان تھے لیکن مرنے والوں کو کون دوبارہ لا سکتا ہے۔ وہ جس دنیا میں چلے جاتے ہیں، وہاں سے لوٹ کر آنا ممکن نہیں ہوتا۔ اللہ نشے کی لت سے سب نوجوانوں کو بچائے اور جو ان کو نشے پر لگاتے ہیں، اللہ ان کو ہدایت دے۔ ن لاہور
null
null
null
null
419
https://www.urduzone.net/khush-qismat-kon-teen-auratien-teen-kahaniyan/
آج اس قدر مہنگائی بڑھ گئی ہے کہ خوشحال گھرانے بھی معاشی پریشانی کا شکار نظر آتے ہیں۔ جب میں نے بی اے کیا تھا تب ملازمت کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ سوچا بھی نہ تھا کبھی ملازمت کرنا پڑے گی۔ تاہم دن سدا ایک سے نہیں رہتے۔ والد کے انتقال کے بعد بڑے بھائی نے ہمیں کچھ دن سہارا دیا، پھر وہ اپنی بیوی کی خوشنودی کی خاطر دوسرے مکان میں شفٹ ہوگئے اور ان سے ہمارا تعلق برائے نام رہ گیا۔ کبھی معمولی رقم والدہ کو دے دیتے، کبھی وہ بھی نہیں۔ رفتہ رفتہ ہم مالی پریشانیوں میں گھر گئے تب مجھے احساس ہوا کہ عورت کے لیے کبھی کبھی ملازمت ناگزیر ہوجاتی ہے۔ میں نے اپنی ایک سہیلی سے تذکرہ کیا جو ایک کمپنی میں جاب کررہی تھی۔ اس نے کہا۔ کل ٹھیک صبح سات بجے میرے گھر آجانا، میں تمہیں ہمراہ لے چلوں گی اور اپنے باس سے ملوا دوں گی۔ انہیں کچھ ورکرز کی ضرورت ہے۔ ممکن ہے تمہیں جاب پر رکھ لیں۔ اگلے دن میں صبح سویرے عائشہ کے گھر پہنچ گئی۔ وہ جس کمپنی میں کام کرتی تھی، وہاں اور بھی کئی لڑکیاں ملازم تھیں، چونکہ میری دوست محنتی، خوش اخلاق اور ہنس مکھ تھی، تبھی سب اسے چاہتے اور عزت کرتے تھے۔ باس کی رائے اس کے بارے میں اچھی تھی۔ عائشہ کی سفارش پر مجھے ملازمت مل گئی تو میں نے اس کا شکریہ ادا کیا۔ جاب کا کوئی تجربہ نہ تھا اس لیے شروع دنوں میں کچھ گھبرائی لیکن عائشہ ہمت بندھاتی۔ وہ ہر مرحلے پر میری مدد کرنے لگی۔ اس طرح میں نے جلد کام سیکھ لیا اور مجھ میں اعتماد پیدا ہوگیا۔ جہاں عائشہ کو سب عزت و قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے، وہاں کچھ ایسے بھی تھے جو اس کی برائی کرتے تھے۔ دراصل وہ مردوں سے لیے دیئے رہتی تھی اور بلاضرورت ایسے لوگوں سے بات نہیں کرتی تھی جو لڑکیوں کو غلط نگاہوں سے دیکھتے تھے۔ انہوں نے عائشہ کو ایسی ویسی لڑکی سمجھ کر فری ہونے کی کوشش کی۔ جن مردوں نے اس سے غلط امیدیں لگا لی تھیں، وہ اب پس پردہ اس کے لیے پریشانیاں پیدا کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ یہ لوگ اس کی ذرا سی غلطی کو بھی افسر کو دکھانے سے نہ چوکتے تھے۔ انہی دنوں ایک نئے افسر ارسلان کا ہمارے آفس میں تقرر ہوا۔ یہ ایک نہایت چالاک شخص تھا۔ وہ لوگوں کی توجہ حاصل کرنے کے لیے ہر کسی کا کام کردیا کرتا تھا۔ نتیجے میں وہ بہت جلد دفتر میں مقبول ہوگیا۔ ایک روز عائشہ میرے پاس آکر بیٹھی تو وہ کافی پریشان لگ رہی تھی۔ میں نے کریدا تو بولی۔ کچھ دنوں سے مجھے کوئی خط لکھ رہا ہے لیکن ان پر نام درج نہیں ہوتا۔ اس میں پریشان ہونے کی کیا بات ہے، تم ان گمنام خطوط کو پھاڑ کر پھینک دیا کرو۔ ہاں وہ تو میں ایسا ہی کرتی ہوں لیکن آج ایک خوبصورت کارڈ کوئی میری ٹیبل پر رکھ گیا ہے۔ اس نے مجھے کارڈ دکھایا جس پر اپنی نیک تمنائوں کا اظہار کیا گیا تھا لیکن بھیجنے والے نے اپنا نام درج نہ کیا تھا۔ نجانے کون ہے وہ متفکر ہوکر بولی۔ میں نے کہا کوئی آفس کا ہی ہوگا جس میں اپنا نام لکھے کی جرأت نہیں ہے۔ بہرحال کسی پر شک کرنا بیکار تھا کہ اتنے سارے لوگ یہاں کام کررہے تھے۔ ان میں ایک شخص نیا آیا تھا لیکن ان پر بھی شک نہ گیا کہ وہ کم گو اور باصلاحیت ہونے کے ساتھ ساتھ خاصا مہذب تھا اور یہ تھا ارسلان ایک روز وہ اپنی نشست پر بیٹھا تھا کہ عائشہ ادھر سے گزری۔ ارسلان کے ہاتھ پر پٹی بندھی تھی۔ ازراہ ہمدردی عائشہ نے پوچھ لیا۔ سر کیا ہوا وہ بولا۔ کچھ نہیں ذرا سی موچ آگئی ہے۔ کوئی کام ہے تو آپ کی مدد کروں وہ ہمدردی سے گویا ہوئی۔ شکریہ وہ رکھائی سے بولا۔ مدد کی ضرورت نہیں۔ اس کے روکھے لہجے سے عائشہ کے دل کو ٹھیس لگی۔ سوچا ناحق اسے منہ لگایا۔ وہ تو انسانی ہمدردی کے تحت اس کی مدد کرنا چاہ رہی تھی، وہ جانے کیا سمجھ بیٹھا۔ ارسلان نے جواب ذرا اونچی آواز میں دیا تھا کہ اردگرد کے لوگوں نے بھی سنا۔ عائشہ کو خفت محسوس ہوئی۔ وہ اپنی نشست پر افسردہ سی آبیٹھی۔ اس کے کان شائیں شائیں کرنے لگے۔ جب لوگوں کے لبوں پر اس نے دبی دبی مسکراہٹ دیکھی۔ وہ ایک حساس لڑکی تھی۔ ارسلان کے غیر مہذبانہ رویّے نے اسے صدمے سے دوچار کردیا تھا۔ وہ آنکھوں میں آنسو بھرے میرے پاس آگئی۔ میں نے دل جوئی کی اور اسے اپنے ساتھ گھر لے آئی۔ عائشہ کی والدہ نہیں تھیں۔ اس کے والد دوسری بیوی کے ساتھ رہتے تھے اور عائشہ اپنی خالہ کے یہاں رہا کرتی تھی۔ ماں گھر میں ہوتی ہے تو بچوں کے دکھ سکھ اپنی بانہوں میں سمیٹ لیتی ہے۔ عائشہ کو ماں کی محرومی نے دنیا سے الگ تھلگ کردیا تھا۔ بظاہر ہنس مکھ اور خوش مزاج دکھنے والی اندر سے بے حد تنہا تھی۔ میں واحد ہستی تھی جو اس کا دکھ سمجھ سکتی تھی۔ اس واقعے کے کچھ دنوں بعد میری شادی ہوگئی۔ میں نے سروس چھوڑ دی اور اپنے شوہر کے ساتھ لاہور آگئی۔ شروع میں اپنے میکے والوں کے حالات شوہر سے پوشیدہ رکھے لیکن مجھے پریشان دیکھ کر وہ اکثر پوچھتے کہ مجھے بتائو تمہیں کیا پریشانی ہے۔ میں تمہاری ساری پریشانیاں دور کردوں گا۔ ایک روز ان کو بتا دیا کہ پہلے میری تنخواہ سے گھر چلتا تھا۔ اب والدہ جانے کیسے گزارہ کرتی ہوں گی۔ انہوں نے کہا چند دنوں بعد مجھے کمپنی کی جانب سے بیرون ملک جانا ہے۔ تم میرے جانے کے بعد یہاں اکیلی نہ رہ سکو گی۔ جب تک میں بیرون ملک رہوں، تم میکے میں رہنا۔ میری طرف سے اجازت ہے کہ میری غیر موجودگی میں تم ملازمت کرسکتی ہو اور تنخواہ اپنی والدہ کو دے سکتی ہو۔ عابد ایک ماہ بعد سعودیہ چلے گئے اور میں میکے آگئی۔ کچھ دن جاب کی تلاش میں رہی۔ ملازمت نہ مل سکی۔ میں نے عائشہ سے رابطہ کیا۔ وہ بولی۔ تم ہیڈ آفس آکر مجھ سے ملو۔ اس نے پتا سمجھا دیا اور میں اگلے روز اس کے بتائے ہوئے پتے پر اپنی درخواست لے کر چلی گئی۔ عائشہ ابھی تک نہ آئی تھی لیکن کچھ لوگ انٹرویو دینے آئے ہوئے تھے۔ چپراسی نے مجھے ایک کمرے میں بٹھا دیا اور انتظار کرنے کو کہا۔ آج گیارہ بجے انٹرویو شروع ہونا تھا اور عائشہ نے امیدواروں میں میرا نام درج کروا دیا تھا۔ جونہی میرا نام پکارا گیا، میں کمرے میں داخل ہوئی۔ میری نظر عائشہ پر پڑی۔ مجھے بے حد مسرت اور حیرت ہوئی کہ وہ سلیکشن بورڈ میں شامل تھی۔ میری دوست نے ہی میرا انٹرویو لیا اور ملازمت کے لیے منتخب کرلیا کیونکہ وہ اس فرم کے بورڈ آف ڈائریکٹرز میں سے ایک تھی۔ اس وقت تو کوئی سوال نہ کرسکتی تھی۔ شام کو اس کے گھر گئی۔ اس نے خوشی سے استقبال کیا اور منتخب ہونے پر مبارکباد دی۔ تم نے فیور کیا۔ اگر تم ایسا نہ کرتیں تو اتنے سارے لوگوں میں کیسے منتخب ہوسکتی تھی۔ اب اس سوال کا جو کل سے میرے ذہن میں ہلچل مچائے تھا، اس کا جواب جاننے کے لیے بے چین تھی۔ اس نے میری آنکھوں میں اس سوال کو پڑھ لیا۔ کہنے لگی۔ یہی پوچھنا چاہتی ہو کہ میں اس کرسی تک کیسے پہنچی بتاتی ہوں۔ میں اس فرم کے مالک کی بیوی ہوں۔ یہ سب کیسے ہوا۔ سب بتاتی ہوں۔ پہلے تم میرے گھر چلو، وہاں چل کر چائے پیتے ہیں، باتیں بھی کریں گے۔ خالہ کے گھر تو تمہیں لینے آئی تھی۔ آج اتوار ہے لیکن میرے شوہر کسی کام سے اسلام آباد گئے ہیں۔ تم سے باتیں کرنے کے لیے بہت وقت ہے میرے پاس۔ خالہ کے گھر کے باہر اس کی بڑی سی گاڑی موجود تھی۔ ہم عائشہ کے گھر گئے۔ اس کا گھر بڑا شاندار تھا اور پوش علاقے میں تھا۔ عائشہ کے ٹھاٹ باٹ دیکھ کر اس پر رشک آنے لگا۔ کبھی وہ بچاری لاوارثوں کی مانند اپنے خالو کے ٹکڑوں پر پل رہی تھی۔ ایک معمولی ملازمت کررہی تھی اور آج قسمت نے پلٹا کھایا تو فرش سے عرش پر براجمان ہوگئی تھی۔ ارسلان تو یاد ہے نا جو بظاہر بہت مہذب اور اچھا آدمی نظر آتا تھا لیکن وہ حقیقت میں اچھا انسان نہ تھا۔ اس نے دفتر میں میرا جینا حرام کر ڈالا۔ وہ میرے خلاف دوسروں سے باتیں کرتا اور میری اہانت کرتا تھا۔ تنگ آکر میں نے ملازمت چھوڑ دی۔ کچھ دن بعد مجھے باس کے معاون نے فون کیا کہ محترمہ اپنے بقایاجات لے جائیے۔ میں وہ لینے آفس گئی تو باس نے بلا کر کہا۔ تم نے نجانے کس مجبوری کے باعث استعفیٰ دیا۔ میں تمہارے کام سے خوش اور مطمئن تھا۔ بہرحال انہوں نے دستخط کرکے لیٹر میرے حوالے کیا۔ ان کے پاس ہی ان کے دوست فخر بیٹھے تھے۔ وہ بولے۔ اگر تم چاہو تو میری کمپنی میں ایک جگہ خالی ہے۔ میں نے کوئی جواب نہ دیا۔ بقایاجات لے کر جونہی آفس سے نکلی، وہ بھی لفٹ میں میرے ساتھ آگئے۔ کہنے لگے۔ تم اس کمپنی کی بہترین کارکن تھیں اور ملک صاحب تم سے بہت خوش تھے۔ تمہارا باس تمہاری قدر کرتا تھا پھر تم نے کیوں ملازمت چھوڑ دی۔ میں نے جواب دیا۔ سر میری کچھ مجبوریاں تھیں۔ وہ بولے۔ فرم میں کام کرو گی۔ اگر میری اہلیت کے مطابق کوئی جگہ ہے تو ضرور کروں گی۔ میں تو ضرورت مند ہوں۔ دوسرے روز میں ان کی فرم پہنچ گئی۔ وہ ابھی نہیں آئے تھے۔ ملازم نے ان کے کمرے میں بٹھا دیا کہ انتظار کریں وہ آتے ہوں گے۔ ٹیبل پر سامنے ہی ان کا لیٹر پیڈ پڑا تھا جیسے کچھ لکھتے لکھتے ابھی اٹھ کر گئے ہوں۔ بات نامناسب تھی مگر میں نے یونہی ان کا لیٹر پیڈ اپنی جانب کھسکا لیا اور پڑھنے لگی۔ لکھا تھا۔ عائشہ میں جب بھی اپنے دوست سے ملنے جاتا تھا۔ ملک تمہاری بہت تعریف کرتا تھا۔ وہ تمہاری محنت اور شرافت کا تذکرہ کرتا۔ میں نے ایک روز تمہیں غور سے دیکھا تو تم سے شادی کا خواہشمند ہوا لیکن ملک نے مجھے تم سے بات کرنے کی اجازت نہ دی کہ تم اس کی ملازمہ تھیں۔ اس کا کہنا تھا اگر تم ملازمت چھوڑ دو تب ہی میں تم سے بات کروں۔ اب تم نے ملازمت چھوڑ دی ہے لہٰذا ابھی میں نے اتنا ہی پڑھا تھا کہ وہ کمرے میں داخل ہوئے اور پیڈ اپنی طرف کرلیا۔ مجھے برا لگا کہ زبانی بات کرنے کی بجائے انہوں نے لکھ کر کیوں مدعا بیان کیا۔ اگر کوئی دوسرا پڑھ لیتا تو لیکن انہوں نے جان کر ایسا کیا تھا۔ وہ قریب موجود تھے بہرحال وہ بولے۔ تم نے پڑھ لیا۔ جی ہاں اب کیا جواب ہے تمہارا۔ ملازمہ بننے کی بجائے مالکہ بن جانا، کیا اچھا نہیں۔ کیا آپ کی وائف کو اعتراض نہ ہوگا۔ ان کا انتقال ہوچکا ہے۔ میرے دو بچے ہیں جو لندن میں زیر تعلیم ہیں۔ ٹھنڈے دل سے سوچ لو۔ تم مجھے نہیں جانتیں مگر میں تمہیں عرصے سے جانتا ہوں اور تمہارے حالات سے بھی واقف ہوں۔ امی سے مشورہ کرکے کل فون پر آپ کو جواب دوں گی۔ یہ کہہ کر میں گھر آگئی۔ گھر آکر کافی سوچا۔ وہ مجھے اچھے لگے۔ ان میں کوئی برائی نہ تھی سوائے اس کے کہ عمر میں بیس برس بڑے تھے اور سر میں چاندی کے بال چمک رہے تھے۔ بردبار تھے، خوش شکل تھے اور ان کی باوقار شخصیت تھی۔ سوچتی رہی پھر فیصلہ کرلیا کہ عمر زیادہ ہے تو کیا ہوا، ان سے شادی کرکے گھر، عزت، مالی خوشحالی، تحفظ اور پھر میرے میکے والوں کے مالی حالات بھی ان کے توسط سے سدھر گئے تو کیا گھاٹے کا سودا ہے۔ امی سے ذکر کیا، بولیں۔ میں نہیں جانتی وہ کیسا آدمی ہے۔ تمہارا سابقہ باس جانتا ہے۔ اگر وہ تمہارے خیال سے نیک آدمی ہے تو تم پہلے میری اس سے بات کروا دو۔ میں نے ملک صاحب کا نمبر ملا دیا۔ انہوں نے ساری بات بتا کر کہا۔ بیٹا میں بیوہ ہوں اور عائشہ یتیم لڑکی ہے۔ اگر غلط شخص سے شادی ہوگئی تو ہم برباد ہوجائیں گے۔ آپ کے دوست نے رشتے کی خواہش ظاہر کی ہے، آپ کی رائے جاننا چاہتی ہوں۔ ماں جی آپ فکر نہ کریں۔ اپنے دوست کی ذمہ داری میں لیتا ہوں۔ وہ بہت اچھا انسان ہے، آپ کی بیٹی کو کوئی تکلیف نہ ہوگی۔ یہ رشتہ مت گنوائیے۔ ملک صاحب کے اطمینان دلانے پر امی نے ہاں کہہ دی۔ یوں میں آج ان کی بیگم ہوں۔ شکر ہے کہ میں نے پختہ خیالی سے کام لیا اور آج بہت سی پریشانیوں سے نجات مل گئی۔ میں نے کہا۔ تم بہت خوش قسمت ہو کہ ایک اچھے انسان نے تمہیں پسند کرلیا ورنہ لوگ ہوتے کچھ ہیں اور نظر کچھ اور آتے ہیں۔ بولی۔ ہاں شاید میں قسمت کی دھنی تھی۔ تھوڑی سی پریشانی کے پیچھے ملازمت چھوڑی تو اللہ تعالیٰ نے ایک اور در کھول دیا اور بہت سی خوشیاں میری جھولی میں ڈال دیں ورنہ ہم جیسی مفلس اور لاوارث لڑکیوں کے نصیب میں در در کی ٹھوکریں ہی لکھی ہوتی ہیں۔ ہمارے ساتھ ہمدردی کرکے بے وقوف بنانے والے تو بہت ہوتے ہیں، گھر کی زینت بنانے والا کوئی نہیں ہوتا۔ عائشہ کی بات ٹھیک تھی تاہم وہ خوش قسمت ہی نہیں، نیک کردار اور پختہ ذہن اور عقلمند بھی تھی ورنہ ایک کامیاب بزنس مین جو عمر رسیدہ بھی ہو، اتنی جلد جذباتی ہوکر کسی مفلس لڑکی کے عشق میں مبتلا نہیں ہوتا اور شادی کی پیشکش بھی سوچ سمجھ کر کرتا ہے۔ فخر کو ضرور عائشہ میں ایسے گن نظر آئے ہوں گے کہ انہوں نے اس کا انتخاب کیا اور پھر کسی ذریعے سے اس کی فیملی کے حالات کی چھان بین بھی کرلی۔ پھر اپنی شریک حیات بنایا اور عائشہ نے انہیں مایوس نہ کیا۔ وہ اس قابل، محنتی اور باصلاحیت شریک حیات کو پا کر خود کو خوش قسمت کہتے ہیں۔ ن۔ر کراچی
null
null
null
null
420
https://www.urduzone.net/tum-yad-ate-ho-teen-auratien-teen-kahaniyan/
میری شادی ایک امیر گھرانے میں ہوئی۔ میرے سسر میرے والد کے واقف کار تھے، لیکن ہم ان کے گھر کبھی نہیں گئے تھے ، والد صاحب کی میرے سسر سے دوستی تھی۔ وہ ان کے کلاس فیلو رہے تھے۔ ایک روز پاپا نے انکل رشید سے میرے رشتے کے لئے فکرمندی کا اظہار کیا تو انکل بولے میں اپنے بیٹے کے لئے لڑکی دیکھ رہا ہوں، تم نے اچھا کیا مجھ سے ذکر کردیا۔ کل ہم لوگ تمہارے گھر آتے ہیں۔ بیگم کوآپ کی بچی پسند آگئی تو میں منصور کے لئے رخسانہ بیٹی کا رشتہ لے لوں گا۔ اس سے اچھی اور کیا بات ہوگی کہ ہم بچپن کے دوست رشتے دار بن جائیں گے۔ ضرور بھابھی کوہمارے گھر لاؤ۔ والد نے گھر آکر امی سے کہا کہ کل کچھ خاص مہمان آئیں گے، کھانے کا اہتمام کرو۔ میرے دیرینہ دوست کی فیملی ہے ہماری رخسانہ کے رشتے کے لئے آنا چاہتے ہیں۔ امی نے گھر کی صفائی ستھرائی کرائی اور بہت عمدہ کھانا بھی بنوایا۔ انکل اور ان کی بیگم اپنے صاحبزادے منصور کے ہمراہ شام پانچ بجے تشریف لے آئے۔ امی سے ان کی بیگم ملیں، بہت ملنسار اور خوش اخلاق لگیں۔ انہوں نے ایک نظر میں مجھے پسند کرلیا۔ امی ابو کوبھی منصور پسند آگیا۔ یوں یہ رشتہ پہلی ملاقات میں طے ہوگیا کہ دونوں اطراف سے دیکھے بھالے لوگ تھے، چھان بین کی ضرورت نہ تھی۔ جلد ہی شادی کی تاریخ طے ہوگئی اور میں بیاہ کر ایک اوسط درجے کے مکان سے محل جیسے گھر میں آگئی۔ سبھی اچھے لوگ تھے، خاص طور پر منصور تو بہت اعلیٰ اخلاق اور محبت کرنے والے تھے، سسرال میں پیار ملا تو میں خوشی سے پھولے نہ سماتی تھی، خود کو خوش قسمت کیوں نہ سمجھتی جب لمبی سی قیمتی گاڑی پر میکے جاتی تو محلے کے بچے گاڑی کے گرد جمع ہوجاتے اور پڑوس کی لڑکیاں میری قسمت پر رشک کرتیں۔ چند دن شادی کی خوشی میں سسرال والوں کے گھر اور ماحول کا صحیح اندازہ نہ ہوا، سبھی نندیں پیار سے رہتی تھیں۔ ماحول بھی پرسکون تھا، رفتہ رفتہ کچھ بھید کھلنے لگے۔ میری چھ نندیں اور ایک دیور تھا، دو بڑی نندیں بیاہی جاچکی تھیں، چار بن بیاہی تھیں، ان میں سے تین خوبصورت تھیں، ایک نند جس کا نام کومل تھا، وہ کچھ سانولی سی تھی اور شکل بھی باقی بہنوں سے الگ تھی۔ مجھے یہاں ایک بات کھٹکنے لگی کہ میری وہ نند جس کا نام کومل تھا۔ کچھ خاموش خاموش رہتی تھی۔ وہ اتنی بااعتماد نہ تھی جتنی اس کی دوسری بہنیں تھیں۔ کومل کچھ دبی دبی، بجھی بجھی رہتی تھی، لگتا تھا جیسے یہ اس گھر کی بچی نہیں ہے۔ لے پالک ہے یا پھر بطور مہمان رہنے آئی ہے۔ ماں کے ساتھ بھی اتنی زیادہ گھلتی ملتی نہ تھی جتنی باقی بیٹیاں ہماری ساس سے بے تکلف تھیں۔ فرمائشیں کرتیں، لڑتی جھگڑتیں یہ چپ رہتی لیکن ماں جس کام کا کہتی ملازمہ کی مانند دوڑ کر کرتی۔ کوئی فرمائش بھی نہ کرتی میں سوچتی یہ کیسی لڑکی ہے۔ اس کی عجیب طبیعت ہے، دوسری بہنوں سے کتنی مختلف ہے۔ سسر کومل کا بہت خیال رکھتے تھے، ساس اس کو اکثر نظر انداز کرجاتیں۔ بہنوں میں تین توکومل سے اچھا برتاؤ رکھتی تھیں، لیکن ایک جو کومل سے چھوٹی تھی وہ اس سے خار کھاتی، اکثر اس کے ساتھ الجھ بھی پڑتی تھی۔ تب تیسرے نمبر والی جس کانام آسیہ تھا وہ ناصرہ کو سمجھاتی کہ تم ایسا نہ کیا کرو ہر وقت کومل کا دل دکھاتی رہتی ہو۔ وہ ہماری بہن ہے تواسے اپنی بہن ہی سمجھو جواب میں وہ کہتی ۔ اونہہ بڑی آئی ہماری بہن اور یہ جملہ مجھے چونکا دیتا میں اس جملے کا مطلب سمجھ نہ پاتی تھی۔ جس گھر میں لڑکیاں ہوں وہاں رشتے تو آتے ہی ہیں۔ میری نندوں کے بھی رشتے آتے تھے۔ ہماری ساس کوکومل کے سوا باقی تینوں لڑکیوں کو بیاہنے کی بہت فکر تھی، جو رشتہ آتا وہ اپنی ان تین بچیوں کوبنا سنوار کر دکھاتیں لیکن کومل کی جانب کوئی توجہ نہ دیتیں جیسے اسے بیاہنا ہی نہ ہو، تب میں منصور سے کہتی میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ امی جان باقی بیٹیوں کے رشتوں کے لئے تردد کرتی ہیں لیکن کومل کے لئے چپ سادھ رکھتی ہیں وہ بالکل پریشان نہیں ہیں، جیسے اس کو بیاہنا نہیں ہے آخر ایسا کیوں ہے۔ وہ کہتے ارے بھئی وہ گھر سنبھالتی ہے، تمام کام کرتی ہے، امی کواس سے آرام ملتا ہے۔ امی یہ چاہتی ہیں کومل کا رشتہ آخرمیں طے ہو۔ اگر کومل کو پہلے بیاہ دیاتو کام کون سنبھالے گا گھر الٹا ہوجائے گا، امی اب کمزور ہوگئی ہیںوہ اتنا کام نہیں کرسکتیں۔ منصور لیکن کومل آخری دوبہنوں سے بڑی ہے۔ اس کی باری پہلے آنی چاہئے ورنہ عمر زیادہ ہوجائے گی وہ صورت میں بھی ذرا دبتی ہوئی ہے۔ امی جان کو چاہئے کہ پہلے اس کے رشتے کی کوشش کریں۔ ہاں، ہوناتو ایساہی چاہئے۔ میرے شریک حیات ٹوٹے ہوئے دل سے جواب دیتے۔ تمام نندوں سے کومل سب سے زیادہ پیار کرنے والی اور نیک طبیعت تھی۔ وہ بہت اچھے مزاج کی مالک تھی، خاص طور پر میرا اور منصور کا بہت خیال رکھتی اور میرے کام کرکے خوشی محسوس کرتی، ہماری عزت کرتی، تبھی مجھے بھی اس کا خیال سب سے بڑھ کرتھا اور میں اسے تمام نندوں پر فوقیت دیتی تھی۔ جب بازار جاتی سب سے اچھی چیز اس کے لئے لاتی، جس پر اس کی باقی بہنیں خوشی محسوس نہ کرتیں، لیکن میں پروانہ کرتی۔ سسرال سے کوئی شکایت نہ تھی بس ایک دکھ تھا کہ تمام گھر والوں کا رویہ کومل کے ساتھ محبت بھرا نہیں تھا سوائے منصور کے حالانکہ میری نظر میں یہ سب سگے بہن بھائی تھے اور اللہ کادیا بہت کچھ تھا۔ کسی شے کی کمی نہ تھی، سارے بہن بھائی خوبصورت تھے اور میں سمجھ رہی تھی کہ اسی کارن یہ کومل کونظر انداز کرتے ہیں کہ وہ معمولی صورت کی ہے۔ اکثر گھروں میں دیکھا گیا ہے کہ جوبچہ کم شکل ہو باقی بہن بھائی، رشتے دار حتیٰ کہ ماں باپ بھی اسے کم اہمیت دیتے ہیں۔ مجھے اب کومل کی فکر رہنے لگی، میں چاہتی تھی اس کی شادی جلد ہوجائے۔ اس کے رشتے کے لئے اس کی ماں سے زیادہ میں فکرمند رہنے لگی۔ نماز کے بعد دعا کرتی تھی۔ اے اللہ اس کے لئے غیب سے کوئی اچھا رشتہ بھیج دے۔ کومل کی قسمت کھل جائے۔ میری دعا قبول ہوگئی، ہمارے سسرالی رشتے داروں کی ایک شادی میں ہم سب مدعو تھے۔ وہاں ایک خاتون کو کومل اتنی پسند آئی کہ وہ ہماری ساس کے پیچھے پڑگئیں کہ مجھے اپنے بیٹے کے لئے آپ کی بیٹی کا رشتہ درکار ہے یہ خاتون ایک بہت بڑے بزنس مین کی بیوی تھیں گویا دولت توان کے گھر کی باندی تھی۔ جب ہمارے سسر کوعلم ہوا تو انہوں نے ان لوگوں کو اپنے گھر مدعو کیا۔ ساس کا خیال تھا کہ ان کی باقی لڑکیاں چونکہ زیادہ خوبصورت ہیں ہوسکتا ہے کہ کومل کی بجائے ان میں سے کوئی، لڑکے کی ماں کو پسند آجائے اور اس کا نصیب کھل جائے۔ انہوں نے خاتون اور ان کے گھر والوں کی بڑی آؤبھگت کی لیکن جس کا نصیب کھلنا ہوتا ہے اسی کی جھولی میں مرادوں کے پھول گرتے ہیں۔رشتے کے لئے آنے والی خاتون مصر ہوگئیں کہ ہمیں کومل پسند ہے اور اسی کا رشتہ چاہئے۔ قسمت نے یاوری کی اور اس طرح اس کی شادی مل مالک کے بیٹے ناظم سے ہوگئی۔ کومل کے بھاگ کھل گئے لیکن ناصرہ کی امیدوں پر اوس پڑگئی۔ وہ چاہتی تھی کہ اس کی شادی ناظم سے ہو کیونکہ لڑکا دیکھ کر وہ پہلی نظر میں اس پر فدا ہوگئی تھی۔ ناظم، کومل کی قسمت میں تھا اسے مل گیا۔ شادی بھی اتنی دھوم دھام سے ہوئی کہ باقی ساری بہنوں کی شادیاں اس کے آگے ماند پڑگئیں۔ انکل رشید کو لڑکے والوں کی حیثیت کے مطابق ہی سب کچھ کرنا تھا۔ باقی بہنوں نے کومل کوخوش پاکر اس کی تقدیر پر سمجھوتہ کرلیا لیکن ناصرہ نہ کرسکی، وہ جلتی کڑھتی رہتی کہ قسمت آخرکیوں کراس کالی چڑیل پر مہربان ہوگئی۔ جبکہ وہ اتنی حسین بھی نہ تھی۔ جب وہ ایسی باتیں کرتی اس کی باقی بہنیں سن کر ہنس دیتیں، کہتیں۔ ارے بھئی اب جلنا چھوڑو جس کی جو قسمت میں ہوتا ہے اسے مل جاتا ہے، تم پاگل ہوگئی ہو۔ کومل سے جلنے کڑھنے کی بجائے اپنے لئے دعا کرو کہ اللہ تمہیں اس کے شوہر سے زیادہ امیر کبیر اور خوبصورت جیون ساتھی عطا کرے ۔ اس کے خزانے میں کیا کمی ہے وہ خاموش ہوگئی جیسے خاموشی کی زبان میں کہہ رہی ہو کہ دنیا کے سارے خزانے بھی مل جائیں تو وہ ناظم کا بدل نہیں ہوسکتا، کیونکہ وہ پہلے روز سے میرے دل میں بس گیا تھا۔ اور اب اس تصویر کواپنے دل سے کیوں کر مٹاؤں، نہیں مٹاسکتی۔ جب کومل اپنے شوہر کے ساتھ میکے آتی ناصرہ کا چہرہ ماند پڑجاتا۔ ایک روز میں نے اسے اپنے کمرے میں بلاکرکہا۔ کیا تم اپنی بہن کی شادی سے خوش نہیں ہو ناصرہ ہاں میں خوش نہیں ہوں۔ کیوں خوش نہیں ہو آخر۔یہ سوچ کرکہ کالی کلوٹی لڑکیوں کوبھی راجکمار مل جاتے ہیں۔ اس بات پر مجھے ہنسی آگئی اور میں نے ناصرہ سے کہا۔ میں کومل کے لئے اس راج کمار کے لئے دعا کی تھی، اب تمہارے لئے کروں گی دیکھ لینا تمہیں بھی ایسا ہی راجکمار مل جائے گا۔ میرے شوہر نے کینیڈا کی امیگریشن کے لئے عرصہ سے اپلائی کیا ہواتھا، ان کا ویزا آگیا اور ہم کینیڈا چلے آئے، اب مجھے کومل کی خبر نہ رہی۔ میں اسے فون نہیں کرسکتی تھی، ان دنوں فون اتنے عام نہ تھے لہٰذا خط لکھتی اور وہ جواب دیتی تھی۔ اس کے خطوط سے پتا چلتا کہ وہ بڑی خوش ہے۔ ایک دن مجھے کومل کا خط ملا کہ وہ اپنے شوہر کے ساتھ امریکہ آگئی ہے کچھ عرصہ بعد پتا چلا کہ ناصرہ نے بھی امریکہ کی ایک یونی ورسٹی میں داخلہ لے لیا اور وہ پڑھنے کے لئے وہاں جارہی ہے۔ کومل اور اس کے شوہر نے اس کے داخلہ اور اس کو امریکہ بلوانے میں مدد کی تھی۔ یہ خبر میرے لئے باعث راحت تھی۔ سوچا شکر ہے کہ کومل کی نیک نیتی نے کام کردکھایا، اب ناصرہ خوش ہوجائے گی کہ کومل نے اس پر احسان کیاتھا ، دل سے اس کے لئے ساری نفرتیں اور رنجشیں بھلادے گی کہ اس کی وجہ سے اس پر اعلیٰ تعلیم کے در کھلے تھے۔ چھ ماہ بعد ایک دن کومل کی پڑوسن کا فون آیا کہ کومل بہت بیمار ہے، آپ آکر اسے دیکھ جائیے۔ میں نے منصور کو راضی کیا اور ہم نیویارک چلے گئے۔ وہاں پہنچے تو یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ چھٹیاں گزارنے ناصرہ ان کے گھر ٹھہری ہوئی تھی اور اس وقت بیمار بہن کو چھوڑ کر وہ ناظم کے ساتھ ایک میوزک کنسرٹ انجوائے کرنے گئی ہوئی تھی۔ کومل کی حالت دیکھ کرمیں ٹھٹھک گئی۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچہ اور برسوں کی مریضہ دکھائی دے رہی تھی۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہوا تمہیں کومل۔ وہ میرے گلے لگ کررونے لگی، بڑی مشکل سے اس نے بتایا بھابھی میں ان لوگوں کی سگی بہن نہیں ہوں اور نہ لے پالک ہوں بلکہ اس بدنصیب کی بیٹی ہوں جوان کی پھوپھی تھی۔ اس پھوپھی سے کوئی خطا ایسی ہوئی کہ میں نے اپنی ماں کی شادی سے قبل اس دنیا میں جنم لیا ماں تونہ بچ سکی مگر میں زندہ بچ گئی سب لوگ مجھے مارنے کے درپے تھے کہ میرے باپ کا کوئی نام نہ جانتا تھا لیکن میری نانی نے اپنے بیٹے کے پاؤں پکڑ لیے التجا کی کہ اس بچی کو موت کی نیند سلانے جیسا پاپ کرنے کی بجائے اس کواپنانام دے دو اور اس کی جان بچالوکیونکہ یہ معصوم اور بے قصور ہے اور اس نے کوئی گناہ نہیں کیا۔ اس کو جنم دینے والی تو کچھ کھاکر موت کی نیند سوگئی ہے۔ آپ کے سسر یعنی میرے ماموں نے اپنی ماں کی التجا پر مجھے زندہ رہنے دیا اور اپنا نام دے دیا۔ بیوی سے کہا کہ تم کسی پر یہ ظاہر نہ کرو کہ یہ میری بدنصیب بہن کے گناہ کی نشانی ہے، شاید اللہ تعالیٰ ہمارا امتحان لینا چاہتا ہے، ہمیں ایسا ظلم نہ کرنا چاہئے بیوی نے یہ بات مان لی اور مجھے گود میں بھرلیا، مگر ماں کا پیار نہ دے سکیں ان کی پہلے ہی تین بیٹیاں تھیں چوتھی میں کہلائی، مجھے پہلے نانی نے پالا۔ ان کے انتقال کے بعد ماموں کی خاندانی ملازمہ نے پرورش کی۔ جب میںدس برس کی تھی تب ملازمہ کا بھی انتقال ہوگیا۔ یہ راز بچپن میں مجھ سے پوشیدہ رکھاگیا تھا لیکن ملازمہ نے اپنے انتقال سے چند روز قبل مجھے میری اصل حقیقت سے آگاہ کردیاتھا کیونکہ امی جان کی بے رخی اور سرد رویے سے میں پریشان اور کشمکش کا شکار رہتی تھی اور ملازمہ چھمیابی چاہتی تھیں کہ میں اس کشمکش کے بھنور سے نکل جاؤں۔ اب مجھے ناصرہ کی نفرت اور اپنی ساس کا سرد رویہ سمجھ میں آنے لگا تھا۔ میں نے کومل کو تسلی دی کہ تم فکر مت کرو اگر تمہارے ساتھ زندگی کا یہ المیہ جڑا ہوا ہے تو اللہ تعالیٰ نے تمہیں ایک اعلیٰ سسرال اور اچھا شوہر دے دیا ہے۔ عورت کی زندگی میکے سے زیادہ سسرال اور شوہر سے جڑی ہوتی ہے، بس میکے کوبھلا دو اور ایک گھر اور شوہر کی محبت میں گم ہوجاؤ۔ یہ سن کر وہ رونے لگی ۔ بولی بھابھی کیا بتاؤں ان دنوں کس قدر پریشان ہوں اللہ جانے ناصرہ نے میرے شوہر پر کیسا جادو کردیا ہے، وہ اس کے دیوانے ہوگئے ہیں۔ دونوں مجھے نظرانداز کرکے ایک دوسرے میں کھو گئے ہیں۔ ہر وقت ساتھ رہتے ہیں اور ساتھ گھومتے پھرتے ہیں۔ میں نے اس بات کا ناصرہ سے شکوہ کیا تو وہ بولی کہ مجھے کیا کہتی ہو سنبھال سکتی ہو تو اپنے شوہر کو سنبھالو روک سکتی ہوتواسے روکو جب سے یہ میرے گھر آئی ہے سخت اذیت میں مبتلا ہوں اور اسی دکھ کی وجہ سے میری ایسی حالت ہوگئی ہے۔ آپ کو اسی لئے بلوایا ہے کہ آپ ناظم کو روکیں اور منصور بھائی کوتمام صورت حال بتاکر ان سے کہیئے کہ وہ اپنی بہن کو روکیں بے شک میںان کی سگی بہن نہیں ہوں لیکن میں نے ہمیشہ انہیں سگا بھائی سمجھا ہے اور انہوں نے بھی مجھے سگی بہن جیسا پیار دیا ہے۔ میں نے رات کومنصور کوتمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ انہوں نے صبح ناظم سے بات کی تو وہ بے حیائی سے بولا۔ بھائی صاحب میں اس دن کا منتظر تھا کہ آپ لوگوں میں سے کوئی آجائے تو اپنا مسئلہ بیان کروں۔ میں کومل کے ساتھ خوش نہیں ہوں مزید زندگی جبر سے نہیں گزار سکتا چاہتا ہوں آپ کی موجودگی میں اسے طلاق دے دوں تاکہ آپ اسے ساتھ لے جائیں۔ میں ہر صورت ناصرہ سے نکاح کرناچاہتا ہوں، کیونکہ وہ بھی ایسا چاہتی ہے، مجھے امید ہے کہ آپ اپنی پھوپھی زاد کی خاطر اپنی سگی بہن کی خوشیوں کو برباد نہ کریں گے، ورنہ ہم عاقل وبالغ ہیں اپنی مرضی کی شادی کرسکتے ہیں، اگر میں پاکستان میں ہوتا تو کومل سے نکاح کی موجودگی میں ناصرہ سے نکاح کرلیتا چونکہ کومل ناصرہ کی سگی بہن نہیں ہے، میرے نکاح میں بہ یک وقت دونوں رہ سکتی ہیں لیکن یہ امریکہ ہے مجھے کومل کو خیرباد کہنا پڑے گا، ہاں اگر ناصرہ اپنی خوشی سے آپ کے ہمراہ جانا چاہے تومیں نہ روکوں گا۔ منصور سخت پریشان ہوگئے۔ انہوں نے اپنے والد کوفون کرکے آگاہ کیا وہ بھی آگئے۔ ناصرہ کو سمجھایا مگر وہ کسی صورت نہ مانی، وہ مکمل طور پر باغی ہوچکی تھی۔ ہم سب اس کی ڈھٹائی کے سامنے بے بس تھے۔ ناظم نے کومل کوطلاق دے دی، میں اور منصور اسے اپنے ہمراہ لاناچاہتے تھے لیکن وہ ہمارے ساتھ آنے پر راضی نہ ہوئی، وہ میرے سسر کے ساتھ پاکستان چلی گئی۔ وہاں بھی اس کی حالت ٹھیک نہ ہوئی۔ ہر وقت روتی تھی جیتی تھی نہ مرتی تھی ہماری ساس کوبھی ناصرہ کی اس حرکت کا رنج تھا۔ کومل نند کے گناہ کی نشانی تھی، مگر اب وہ گناہ گار بھی اس دنیا میں نہ رہی تھی۔ سزا بچی کو ملی۔ انسان کتنا بھی سنگدل ہو خوف خدا توہوتا ہے۔ ہماری ساس کو خوف خدا تھا۔ انہوں نے کومل کو گلے لگایا پیار کیا اور کہا۔ بیٹی تم جان چکی ہو ہماری بیٹی نہیں ہو لیکن ہوتو ہمارا خون۔ میں نے ہمیشہ تمہیں بیٹی سمجھا، تمہارے دکھ پر میرا دل روتا ہے۔ زیادہ غم مجھے اس بات کا ہے کہ تمہارا گھر میری بیٹی نے اجاڑا ہے۔ اگر آج ناصرہ میرے سامنے ہوتی تو میں ضرور اس کو دھکے دے کر اپنے گھر سے نکال دیتی۔ اس واقعہ کے بعد سے سسر اور ساس نے کومل کو ماں باپ جیسا بھرپور پیاردیا، جس کے لئے وہ ترسا کرتی تھی، خاص طور پر ہماری ساس اب کومل کی بہت دل جوئی کرتی تھیں اور اس کا اس قدر خیال رکھتی تھیں کہ اس کی ممتا کے لئے ترستی روح کو سکون مل گیا اور وہ اپنے شوہر کی بے وفائی کو بھلا کران کی بانہوں میں سمٹ گئی۔ اس کے بعد جتنے دن آنٹی زندہ رہیں کومل نے ان کا بہت خیال رکھا۔ اتنی خدمت کی کہ سگی کسی بیٹی نے بھی نہ کی تھی۔ اس نے بیٹی کہلوانے کا حق ادا کردیا۔ آج بھی کومل یاد آتی ہے تو آنکھوں سے آنسو رواں ہوجاتے ہیں۔ وہ جب پینتالیس برس کی تھی ایک روز اچانک اس کا بلڈ پریشر ہائی ہوا اور وہ دل کا دورہ پڑنے سے جاں بحق ہوگئی ۔ اللہ اس کی اور اس کی والدہ کی بخشش کرے اور ان دونوں کوجنت الفردوس میں جگہ دے۔ مسز قادر کراچی
null
null
null
null
421
https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-39/
کیا میں نے سوال کیا۔ ساڑھیاں کم دیکھ رہی تھیں، تمہیں زیادہ دیکھ رہی تھیں۔ نوشاد آنکھ دبا کر بولا۔ بیکار باتیں ہیں۔ میں نے جھینپے ہوئے لہجے میں کہا اور نوشاد قہقہہ لگا کر ہنس پڑا پھر بولا۔ نہیں بھائی یہ رانیاں، مہارانیاں ایسی ہی ہوتی ہیں، کسی کی تقدیر ساتھ دے جائے تو سمجھ لو کہ وارے نیارے ہو جاتے ہیں اور میں سمجھتا ہوں کہ اب جب تم واپس بنارس آئو گے تو نہ جانے کیا بن کر آئو گے۔ نوشاد میں یہاں نہیں رکنا چاہتا۔ ارے باپ رے۔ کیسی خوفناک باتیں کر رہے ہو۔ بھلا رانی صاحبہ کا حکم اور اس کی تعمیل نہ ہو۔ انہوں نے پوچھنے کی زحمت بھی گوارہ نہیں کی کہ تم رکنا چاہتے ہو یا نہیں۔ اور پھر حماقت کی باتیں مت کرو، میں نے تو تم سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ راج محلوں کی کہانیاں ذرا مختلف ہوتی ہیں اور تقدیر بننے میں دیر نہیں لگتی۔ ہو سکتا ہے یہ میری غلط فہمی ہی ہو لیکن چانس لینے میں کیا حرج ہے۔ کیا یہ نہیں ہو سکتا نوشاد کہ تم یہاں رک جائو۔ آہ کاش ایسا ہو سکتا مگر جسے پیا چاہے وہی سہاگن، ہمیں بھلا کون پوچھتا ہے۔ چلو ٹھیک ہے بہرطور تمہیں یہاں رہنا ہو گا بس ذرا احتیاط رکھنا، بس ان لوگوں کے دماغ پھرے ہوئے ہوتے ہیں۔ دولت اچھے اچھوں کا ستیاناس کر دیتی ہے۔ یہ لوگ اپنے آپ کو اس دنیا کا باسی نہیں سمجھتے۔ بس تھوڑی سی احتیاط، رانی صاحبہ کے احکامات کی تعمیل اور پھر یار یہ تو خوش بختی ہے۔ کتنی حسین ہیں وہ، عمر کتنی ہی ہو لیکن کیا شان ہے، کیا انداز ہیں، چلو بھیا عیش کرو، ہماری طرف سے پیشگی مبارکباد۔ میں الجھا ہوا تھا ویسے تو مجھے کوئی ایسی خاص پریشانی نہیں تھی۔ رانی صاحبہ مجھے لقمۂ تر سمجھ کر نگل تو نہیں جائیں گی لیکن بس الجھن تھی۔ ایسی کیا بات پائی ہے انہوں نے مجھ میں اور بات اگر رانی صاحبہ ہی کی ہوتی تو چلو مان لیتا کہ نوشاد کا کہنا درست ہے لیکن اس سے پہلے مہاراج کالی داس نے بھی مجھے چونک کر ہی دیکھا تھا۔ کیوں، آخر کیوں کام ختم ہو گیا۔ نوشاد اور بھگوتی پرشاد چلے گئے۔ کالی داس نے مجھے محل کے خادموں کے حوالے کر دیا۔ حویلی یا محل کے بغلی حصے میں بنے ہوئے مہمان خانے میں مجھے جگہ دے دی گئی تھی۔ ہر طرح کا خیال رکھا گیا، پھل، سبزیاں وغیرہ کھانے میں دی گئیں۔ میرے دماغ میں بہت سے خیالات تھے مگر بے سکونی نہیں تھی۔ وہم میں الجھ کر سکون برباد کرنے سے آج تک تو کچھ حاصل نہیں ہو سکا تھا اب میں نے ہر طرح کے حالات میں جینا سیکھ لیا تھا۔ رات خوشگوار گزری، دوسرا دن بھی گزر گیا، کوئی ایسی بات نہ ہوئی جو قابل ذکر ہوتی۔ شام کو کالی داس آیا۔ اس نے مجھے دیکھتے ہی کہا۔ تم حاجی فیاض الدین کے آدمی ہو نا جی دیوان جی۔ رانی مہاوتی تمہیں کچھ ڈیزائن دینا چاہتی ہیں، بہت بڑا کام ہو گا، تمہیں اس کے لئے کئی دن رکنا پڑے گا۔ کوئی جلدی تو نہیں ہے تمہیں نہیں۔ ارے جب سے آئے ہو اندر گھسے رہتے ہو، تم مہمان ہو قیدی نہیں۔ محل بہت بڑا ہے گھومو پھرو۔ اس جگہ رہنا پسند نہ ہو تو جہاں چاہو بندوبست کر دیا جائے۔ نہیں دیوان جی۔ یہاں ہر طرح کا آرام ہے۔ کیا نام ہے تمہارا مسعود۔ ایں کالی داس چونک پڑا۔ مسعود احمد۔ میں نے اسے دوبارہ نام بتایا۔ اس کے چہرے پر پھر شک کی سی کیفیت پیدا ہو گئی تھی۔ پھر وہ بولا۔ مسلمان ہو جی بالکل۔ اچھا وہ حیرت سے بولا۔ مجھے دیکھتا رہا پھر ایک دم واپس پلٹ آیا۔ کچھ سوچ کر دروازے میں رکا۔ میری طرف دیکھا اور مسکرا کر بولا۔ یہاں داسیاں باندیاں بھی بہت سی ہیں، کسی کو کسی سے ملنے پر پابندی نہیں۔ ہنسی خوشی سمے گزارو۔ تم مہاوتی کے مہمان ہو، کسی ایرے غیرے کے نہیں۔ میں تمہارے پاس سندری کو بھیجتا ہوں، تمہیں پسند آئے گی۔ یہ کہہ کر وہ باہر نکل گیا۔ میں دروازے کو گھورتا رہ گیا۔ الٰہی کیا ماجرا ہے۔ اس دنیا میں رہنے والے کیا تمام لوگ میری ہی طرح پراسرار واقعات سے دوچار ہوتے رہتے ہیں۔ کیا سبھی کو زندگی میں قدم قدم پر ایسے انوکھے واقعات پیش آتے ہیں۔ کبھی سنا تو نہیں، یہاں تو طویل عرصہ سے ایسا ہی ہو رہا تھا۔ کچھ دیر کے بعد دروازے سے ایک سندری داخل ہوئی۔ سندری ہی تھی۔ بڑا جاذب نگاہ چہرہ تھا۔ اندر آ گئی اور مسکراتی نظروں سے مجھے دیکھ کر بولی۔ میرا نام سندری ہے۔ جی۔ میں نے آہستہ سے کہا۔ کیسی ہوں وہ شوخی سے بولی۔ جی میری گھبرائی ہوئی آواز ابھری۔ تمہارا نام کیا ہے مسعود۔ سچ بتا دونا وہ ناز بھرے انداز میں بولی۔ تعجب ہے، تم میری بات کو جھوٹ کیوں سمجھ رہی ہو۔ میں نے کہا اور وہ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ پھر بولی۔ آئو باہر چلیں۔ باہر بڑی سندر ہوا چل رہی ہے۔ تمہیں پھول پسند ہیں پھول کسے پسند نہیں ہوتے۔ اور پھول وتی۔ وہ پھر اسی طرح کھلکھلا کر ہنسی اور آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑتی ہوئی بولی۔ آئو میں تمہیں پھول کنڈ لے چلوں آئو نا میں نے آہستہ سے اس سے ہاتھ چھڑا لیا مگر اس کے ساتھ باہر نکل آیا۔ میرے اس طرح ہاتھ چھڑانے پر اس نے گہری نظروں سے مجھے دیکھا مگر کچھ بولی نہیں۔ میں اس کے ساتھ باہر آ گیا۔ وہ مجھے محل کے عقبی حصے میں لے آئی جہاں گھاس کا فرش بچھا ہوا تھا، ہر طرف ہریالی تھی، جگہ جگہ حوض، فوارے بنے ہوئے تھے، ان کے گرد سنگی مجسمے استادہ تھے۔ انتہائی حسین سنگی مجسمے جنہیں بڑی مہارت سے تراشا گیا تھا۔ یہ سب مختلف شکلیں رکھتے تھے۔ ویسے اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ان مجسموں نے باغ کا حسن بڑھا دیا تھا۔ محل کے عقبی حصے میں یہ علاقہ بے حد خوبصورت تھا۔ ابھی مدھم مدھم روشنی بکھری ہوئی تھی لیکن شام تیزی سے جھکتی چلی آ رہی تھی۔ ہوا چل رہی تھی اگر موسم اور ماحول کے لحاظ سے دیکھا جاتا تو یہ جگہ انتہائی حسین کہی جا سکتی تھی، عجیب و غریب خوشبوئیں چاروں طرف بکھری ہوئی تھیں، ایک موڑ مڑنے کے بعد میں نے جو منظر دیکھا وہ ناقابل یقین سا تھا۔ انسانی ہاتھوں کا کارنامہ تو معلوم ہی نہیں ہوتا تھا، پھول جیسے دیواروں میں لگائے گئے تھے، کہیں بلند، کہیں پست، کہیں اونچے، کہیں نیچے۔ سب کے رنگ مختلف تھے اور پھول کے بیچوں بیچ مجسمے اس طرح آویزاں تھے جیسے کوئی پھولوں کے درمیان چلتے چلتے رک گیا ہو۔ ایک چوکور حوض اس طرف بنا ہوا تھا جس کے کنارے بیٹھنے کی جگہ بھی تھی۔ اسے مجسموں کا علاقہ کہا جاتا تو غلط نہ ہوتا۔ شوقین لوگ ایسے سنگی مجسمے آویزاں کرتے ہیں لیکن اتنی تعداد میں نہیں۔ بہرحال عام لوگ راجہ اور رانی بھی تو نہیں ہوتے۔ سندری مجھے لئے ہوئے اس سمت آ گئی۔ حوض کے پاس رک کر اس نے مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھا اور بولی۔ یہ ہے ہمارا پھول کنڈ بہت خوبصورت جگہ ہے۔ میرے منہ سے بے اختیار نکل گیا۔ راجہ چندر بھان جی پھولوں کے رسیا ہیں، بس یوں سمجھ لیں کہ انہوں نے اس حصے کو پھولوں سے آراستہ کرنے کے لئے اتنی دولت خرچ کی ہے کہ اس سے ایک گائوں بسایا جا سکتا تھا۔ راجہ چندر بھان جی میں نے سوالیہ نگاہوں سے سندری کو دیکھا۔ مالک ہیں ہمارے، اس محل کے مالک ہیں۔ رانی مہاوتی جی انہی کی تو دھرم پتنی ہیں۔ یہ میں اس لئے بتا رہی ہوں کہ تم بنارس سے آئے ہو، جانتے نہ ہو گے بھٹنڈا کے بارے میں۔ ہاں ایسی ہی بات ہے۔ میں نے جواب دیا۔ بیٹھو بیٹھ جائو نا۔ تم مجھے کچھ عجیب سے لگ رہے ہو، گھبرائے گھبرائے سے۔ کیا مجھ سے پریشان ہو نہیں نہیں۔ میں نے نرم لہجے میں کہا۔ میں نے ہاتھ پکڑا تھا تمہارا، تم نے ایسے چھڑا لیا جیسے، جیسے وہ جملہ ادھورا چھوڑ کر خاموش ہو گئی۔ راجہ چندر بھان جی کو میں نے کبھی نہیں دیکھا۔ لو آئے ہوئے سمے ہی کتنا بیتا ہے تمہیں۔ ویسے بھی وہ بیمار ہیں۔ او اچھا۔ میں نے آہستہ سے کہا۔ وہ مجھے دیکھ کر مسکرانے لگی۔ پھر بولی۔ بہت کم بولتے ہو تم۔ ویسے کیا تم سچ مچ مسلمان ہو کیا میں نے حیرت سے پوچھا۔ نہیں میرا مطلب ہے، میں نے مسلمان نہیں دیکھے۔ شروع ہی سے یہاں پلی بڑھی ہوں۔ اسی محل میں پیدا ہوئی، اسی میں پروان چڑھی اور یہیں رہتی ہوں۔ مسلمانوں کے سینگ نہیں ہوتے، جیسے تم لوگ ہوتے ہو، ویسے ہی ہم۔ ہاں اب تو یہی اندازہ ہوتا ہے مجھے۔ وہ بات بات پر ہنسنے کی عادی تھی۔ پھر بولی۔ اچھا اب یہ بتائو کیا پیو گے کچھ نہیں واہ ایسا خوبصورت موسم، چاروں طرف بکھرے ہوئے پھول، میں دارو منگواتی ہوں تمہارے لئے سنو، سنو رک جائو، ایسی کوئی شے ہم مسلمان نہیں پیتے۔ یقینی طور پر اس محل میں رہ کر تمہیں یہ بات بھی معلوم نہیں ہوئی ہوگی۔ تو پھر میں کیا کروں تمہارا۔ ادھر دیوان کالی داس جی ہیں جو کہتے ہیں کہ مہمان کو کوئی تکلیف نہ ہو، اس کا دل بہلائو، اس سے باتیں کرو، وہ جو چاہے اس کی ہر سیوا کرو اور تم ہو کہ ٹھیک سے بول بھی نہیں رہے مجھ سے۔ اس نے ادا سے منہ بنایا اور میں نے گردن جھٹکتے ہوئے کہا۔ نہیں سندری جی ایسی کوئی بات نہیں ہے، بس یہ جگہ بہت پیاری ہے، مجھے بڑی پسند آئی اور کیا باتیں کروں آپ سے۔ وہ کچھ سوچنے لگی۔ پھر بولی۔ اچھا رکو، میں ابھی آتی ہوں۔ گھبرائو گے تو نہیں۔ نہیں۔ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔ جانا بھی نہیں یہاں سے، میں یہ گئی اور وہ آئی۔ وہ پھر ہنسی اور پھر آگے بڑھ گئی۔ میں اسے جاتے دیکھتا رہا۔ جب وہ نگاہوں سے اوجھل ہو گئی تو میں اپنی جگہ سے اٹھ کھڑا ہوا۔ رات کی دھندلاہٹیں پھیل گئی تھیں۔ پھولوں کے رنگ ماند پڑتے جا رہے تھے۔ بڑا طلسمی ماحول تھا۔ ہر طرف ایک پراسرار اداسی فضا پر چھائی ہوئی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے کچھ ہونے والا ہے، اچانک ہی کچھ ہو جائے گا۔ پھولوں کا سکوت، ان کے درمیان خاموش کھڑے مجسمے۔ سب کسی انہونی بات کے منتظر تھے یا پھر اس ماحول نے یہ احساس میرے دل میں پیدا کر دیا تھا۔ کچھ عجیب سے حالات تھے۔ وہ لڑکی یاد آئی جو املی کے درخت سے اتری تھی اور میرے دل پر ایک عجیب سا نقش چھوڑ گئی تھی۔ رجناوتی تھا اس کا نام۔ باتیں بڑی عجیب تھی اس کی۔ ہو سکتا ہے پاگل ہو، یہ بھی ہو سکتا ہے اس انداز میں نہیں سوچا تھا۔ اچانک اچھل پڑا۔ شی کی ایک آواز سنائی دی۔ بالکل ایسی آواز جیسے کوئی کسی کو مخاطب کرتا ہے۔ آواز صاف سنی تھی، وہم نہیں تھا۔ دوسری بار وہ آواز دو مرتبہ سنائی دی۔ شی۔ شی میں اچھل کر کھڑا ہو گیا۔ یقینا کوئی رازداری سے مجھے اپنی طرف متوجہ کرنا چاہتا تھا مگر کون۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا مگر خاموشی، پھولوں اور پتھریلے مجسموں کے سوا اور کوئی نظر نہیں آیا۔ اچانک کچھ فاصلے پر روشنی ابھری اور میرے حلق سے آواز نکل گئی۔ اس روشنی میں، میں نے دو انسانی سائے دیکھے تھے۔ میں نے ان پر نظریں جما دیں۔ وہ روشنی کے پاس سے ہٹ گئے اور کچھ دیر کے بعد مجھے ان سایوں کا راز معلوم ہو گیا۔ محل کے ملازم تھے جو جگہ جگہ لوہے کے پول میں لگے ہوئے کاربائیڈ کے شیشے والے لیمپ روشن کرتے پھر رہے تھے۔ یہ لیمپ رنگین شیشوں والے تھے اور ان کے روشن ہونے سے اس جگہ کا حسن بڑھنے لگا تھا۔ ملازم اپنا یہ کام کرتے ہوئے میرے قریب سے گزرے۔ انہوں نے رک کر مجھے دیکھا پھر معنی خیز نظروں سے ایک دوسرے کو اور پھر مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئے۔ خدایا خدایا یہ سب کیا ہے۔ یہ محل، یہ حویلی کوئی حقیقت ہے یا ویسا ہی کوئی طلسم جیسا میں نے رمارانی کے سلسلے میں دیکھا تھا۔ وہاں بھی تو ایک دنیا آباد تھی۔ سب کچھ تھا۔ مکمل زندگی تھی لیکن پورنی کی ہلاکت کے بعد وہاں جھاڑو پھر گئی۔ سب کچھ طلسم ثابت ہوا۔ دھوکا ثابت ہوا۔ اصل لوگ اپنی جگہ تھے مگر یہاں ذرا مشکل ہے۔ نوشاد حقیقت تھا، بھگوتی پرشاد جی حقیقت تھے۔ اس بار میں تنہا نہیں تھا پھر پھر رات کی تاریکیوں نے اس ماحول کو نگلنا چاہا مگر ان روشنیوں نے رات کا منصوبہ ناکام بنا دیا بلکہ رنگین شیشوں نے اس ماحول کو اور خواب ناک بنا دیا تھا اور اب ہر چیز کو صاف دیکھا جا سکتا تھا۔ انہی سوچوں میں گم تھا کہ شی شی کی آواز دوبارہ ابھری اور میرے اعصاب تن گئے پھر ایک سرگوشی ابھری۔ ادھر اس طرف اس طرف بائیں سمت میں بے اختیار بائیں سمت گھوم گیا۔ میری بائیں سمت پھولوں کے درمیان سنگ مرمر کا ایک بے جان مجسمہ ایستادہ تھا۔ پتھریلا اور ساکت۔ ہاں ٹھیک ہے۔ میرے پاس آ جائو سنو جلدی کرو ورنہ سندری آ جائے گی۔ آواز مجسمے سے ہی ابھری تھی۔ لاکھ خود کو سنبھالا، ہمت کرنے کی کوشش کی لیکن پورے بدن میں تھرتھری سی دوڑ گئی۔ میں دہشت بھری نظروں سے اس مجسمے کو دیکھنے لگا۔ اس کے پتھریلا ہونے میں کوئی شک نہیں تھا مگر وہ بول رہا تھا۔ بھٹنڈہ میں داخل ہوتے ہی جن واقعات سے سابقہ پڑا تھا، وہ احساس دلاتے تھے کہ سنسنی خیز واقعات نے میرا پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔ آہ کیسی آرزو تھی دل میں، کیسا جی چاہتا تھا کہ کچھ وقت ایسا گزر جائے جس میں کچھ نہ ہو۔ جیسے دوسرے لوگ زندگی گزارتے ہیں، ویسے ہی میں بھی گزاروں۔ سادہ سادہ عام لوگوں جیسی زندگی لیکن ایسا نہیں ہوتا تھا، ہر طرح کی کوشش کرلی تھی۔ ملازمت اس لئے کررہا تھا کہ محنت کی روٹی ملے۔ کبھی کسی کے در پر جا پڑتا تھا، کبھی کسی کے پیٹ بھر جاتا تھا مگر دوسروں کے رحم و کرم کی وجہ سے ان دنوں جی کچھ خوش تھا مگر تقدیر کو یہ گوارہ نہیں تھا۔ پھر کسی جال میں آپھنسا تھا۔ نہ جانے اب کیا ہوگا۔ عام آدمی مجسمے کی آواز پر اس کے پاس جانے کا تصور بھی نہ کرتا بلکہ خوف سے ہوش ہوجاتا مگر میں آہستہ قدم اٹھاتا ہوا اس کے قریب پہنچ گیا۔ نوجوان آدمی کا بت تھا، پتھریلا بے جان پھر اس کے ہونٹوں سے آواز ابھری۔ بھاگ جائو یہاں سے بھاگ جائو یہ کال نگر ہے، کایا جال پڑ گیا ہے تم پر ایک بار جال اوڑھ لیا تو پھر کبھی نہ جاسکو گے۔ بھاگ جائو یہاں سے، بھاگ جائو تم کون ہو میں نے پوچھا۔ بھاگ جائو جلدی بھاگ جائو۔ دیکھو وہ آگئی۔ مجسمہ خاموش ہوگیا۔ میں نے گردن گھما کر دیکھا۔ سندری آرہی تھی۔ اس کے ساتھ کچھ اور لڑکیاں بھی تھیں۔ چھ، سات لڑکیاں تھیں۔ مجسمہ خاموش ہوگیا تھا۔ تم کون ہو مجھے بتائو، وہ ابھی دور ہیں۔ میں نے سوال کیا مگر مجسمے کی آواز دوبارہ نہ سنائی دی۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اب نہ بولے گا۔ سندری قریب آگئی۔ دوسری لڑکیاں کچھ فاصلے پر رک گئیں۔ وہ بہت خوبصورت جھلملاتے لباس پہنے ہوئے تھیں۔ ان کے پیروں میں بجنے والے زیور تھے اور ہاتھوں میں پھلوں اور میووں کے تھال میں انہیں دیکھتا رہا۔ انہوں نے پھولوں کے درمیان گھاس کے فرش پر چاندنی بچھا دی، تھال سجا دیئے۔ سندری بولی۔ آئو بیٹھو کیسی لگی یہ جگہ کیا یہ سنسار کا سورگ نہیں ہے تم نے کہیں ایسا دیکھا یہ مجسمے کس نے بنائے ہیں میں نے پوچھا۔ سنگ تراش نے جس طرح چندر بھان مہاراج نے یہاں پھول لگوائے ہیں، اسی طرح مجسمہ سازوں نے یہاں یہ بت تراشے ہیں۔ کیسے لگے تمہیں سندری نے پوچھا۔ بالکل جیتے جاگتے میں نے کہا اور وہ پھر کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ اپنی مخصوص ہنسی جو ذہن کو گرفت میں لیتی تھی۔ کم بخت بڑے پراسرار طریقے سے ہنسنا جانتی تھی۔ انسان کے ذہن پر نغمگی کی ایک لہر سی دوڑتی محسوس ہوتی تھی اور ذہن اس کی گرفت میں جانے کے لئے بے چین ہوجاتا تھا۔ ہنس کر بولی۔ اصلی ہی تو ہیں۔ کیا مطلب میں نے سوال کیا۔ بس پتھر کے بت بنانے والوں نے انہیں اصلی جیسا ہی بنایا ہے۔ آئو بیٹھو، ہوا میں پھیلی خوشبو لگ رہی ہے تمہیں آئو نا اس نے ناز سے میرا ہاتھ پکڑا اور میں نے اس سے بڑی آہستگی سے اپنا ہاتھ چھڑا لیا۔ آگے بڑھا اور چاندنی پر جا بیٹھا۔ سامنے رکھے ہوئے میووں کے تھال میں سونے کے گلاس اور سونے ہی کی صراحی رکھی ہوئی تھی۔ اس نے میرے سامنے دوزانو بیٹھ کر ان گلاسوں میں کوئی رنگین مشروب انڈیلا اور مسکراتی نگاہوں سے مجھے دیکھنے لگی۔ وہ لڑکیاں جو اس کے ساتھ آئی تھیں، قطار بنا کر بیٹھ گئیں۔ ان میں سے کسی کے ہاتھ میں بربط تھا تو کسی کے ہاتھ میں طنبورہ ایک خوبصورت نغمے کی دھن چھیڑ دی گئی۔ ماحول ویسے ہی رنگینیوں سے رنگا ہوا تھا۔ خوشنما اور خوشبوئیں بکھیرتے ہوئے پھول، آسمان پر مدھم مدھم دھندلاہٹیں، ستاروں کی ٹمٹماہٹ، نیچے رنگین شیشوں سے ابلتی ہوئی روشنی کی شعاعیں جو مخصوص زاویوں سے ان لڑکیوں کو سحرانگیز بنا رہی تھیں۔ سامنے سندری اور ٹھنڈی ٹھنڈی ہوا، ایک انسان پر قدرتی طور پر سحر طاری کرنے کیلئے کافی تھیں لیکن صرف اس انسان پر جس کا واسطہ زندگی میں پہلی بار کسی سحر سے پڑا ہو، میں تو سحر زدہ تھا ہی ایسے ایسے وار ہوئے تھے مجھ پر کہ سنبھلنا ممکن نہیں تھا۔ پتا نہیں کون کون سی قوتیں ایک دوسرے سے برسرپیکار تھیں جو میں بال بال بچ جاتا تھا۔ یقینی طور پر ان قوتوں کا تعلق نہ میری قوت ارادی سے تھا، نہ میری ذہنی پاکیزگی سے بس یوں لگتا تھا جیسے کوئی مجھے بچا لیتا ہو اور جب بھی یہ خیال دل میں آتا، بڑی ڈھارس ملتی، بڑا سہارا ملتا۔ نجانے کیا کیا کچھ یاد آجاتا۔ درشہوار ہی کا معاملہ تھا۔ اس سے پہلے کشنا کا معاملہ تھا۔ انسان ہی تھا ایک لمحہ بھٹک جانے کیلئے کافی ہوتا لیکن بچایا گیا تھا۔ مجھے بچایا گیا تھا اور اس وقت اس وقت بھی ماحول کا یہ سحر میرے حواس پر فطری طور پر نہیں چھایا تھا اور میں مسلسل خود کو سنبھالے ہوئے تھا۔ نغمے کی دھن آہستہ آہستہ تیز ہوتی گئی۔ سندری نے گلاس اٹھایا اور میری طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ یہ امرت جل ہے۔ میرے ہاتھ سے پی لو اور امر ہوجائو۔ میرے ہونٹوں پر ایک تلخ مسکراہٹ پھیل گئی۔ میں نے آہستہ سے کہا۔ میں تمہیں بتا چکا ہوں سندری کہ میں مسلمان ہوں۔ دین دھرم سارے کھیل کایا کے کھیل ہیں۔ انسان تو ہو، اس سمے، اس ماحول میں جب بھگوان نے تمہیں یہ سب کچھ دے دیا ہے تم دین دھرم کے جال میں الجھے ہوئے ہو۔ تھوڑی دیر کیلئے سب کچھ بھول جائو۔ یہ نغمہ سنو، اسے اپنے دل میں اتارو، امرت جل پیو اور امر ہوجائو میں تمہاری ہوں۔ اس نے جھک کر اپنی پیشانی میری پیشانی سے ٹکرائی اور گلاس میرے ہونٹوں کے نزدیک لانے کی کوشش کی۔ میں نے آہستہ سے اس کے گلاس پر ہاتھ رکھتے ہیوئے کہا۔ نہیں سندری تمہاری بدقسمتی ہے یا میری کہ میں اپنے دین کو نہیں بھول سکتا اور میرے دین میں یہ سب کچھ جائز نہیں ہے۔ وہ ایک دم پیچھے ہٹ گئی۔ اس نے عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر ادھر ادھر دیکھتی ہوئی بولی۔ تو میں کیا کروں، مجھے بتائو میں کیا کروں اس کے لہجے میں جھلاہٹ تھی۔ خود کو ناکام تصور کرلو سندری اور اگر ہوسکے تو مجھے یہ بتائو کہ تم یہ سب کیوں کررہی ہو سندری نے ہونٹ سکوڑ کر گلاس واپس تھال میں رکھ دیا اور بولی۔ میں کیوں کرتی یہ سب کچھ بس مجھے تو حکم دیا گیا تھا کہ مہمان کا جی خوش کروں، اسے بہلائوں اور ذرا بھی اداس نہ ہونے دوں۔ میں تو یہی سوچ رہی تھی کہ امرت جل کے دو گلاس پی لو تم تو میں تمہیں ناچ دکھائوں۔ جن لوگوں نے یہ سب کچھ کیا ہے سندری انہیں واپس جاکر یہ بتادو کہ بدقسمتی سے ایک مسلمان ان کے جال میں پھنسا ہے اور اسے ان تمام چیزوں سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ وہ نہ امرت جل پی کر امر ہونا چاہتا ہے، نہ رقص و موسیقی سے لطف اندوز ہوکر اپنا ایمان کھونا بس اس سے زیادہ مجھے اور کچھ نہیں کہنا تم سے میں اپنی جگہ سے اٹھا۔ خوف تھا کہ کہیں اس کی ضد پر کوئی قدم بہک نہ جائے چنانچہ یہاں سے چلے جانا ہی زیادہ اچھا تھا۔ تیز تیز قدم اٹھاتا ہوا آگے بڑھا اور مہمان خانے کے قریب پہنچ گیا۔ پلٹ کر نہیں دیکھا تھا لیکن اندازہ ہورہا تھا کہ وہ سب بری بری نگاہوں سے مجھے دیکھ رہی ہیں۔ ہنسی آگئی۔ کم بخت ایک کے بعد ایک مصیبت گلے آپڑتی ہے۔ بھلا اس میں بھی کوئی شک کی بات تھی کہ یہ سب کچھ یہ سب کچھ ایک گہری چال تھی، کوئی گہرا جال تھا اور اس کارروائی کے عقب میں ہوسکتا ہے بھوریا چرن وہیں بیٹھا ڈوریاں ہلا رہا ہو۔ امکانات تھے اس بات کے مکمل طور پر امکانات تھے۔ میں اپنے کمرے میں آگیا۔ یہاں کا ماحول بدل گیا تھا۔ غالباً بستروں پر نئی چادریں بچھائی گئی تھیں، کچھ اور چیزیں بھی لا کر رکھی گئی تھیں۔ ایک طرف ایک فریم دیوار پر ٹنگا ہوا تھا اور اس فریم میں ایک تصویر آویزاں تھی۔ یہ تصویر ایک عجیب و غریب چہرے کی تھی۔ قدیم طرز کا کوئی راجپوت یا ایسا سورما جو جنگ و جدل میں حصہ لیتا رہا ہو۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں خون کی آمیزش تھی اور یہ آنکھیں درحقیقت بڑے جاندار رنگوں سے بنائی گئی تھیں۔ بالکل اصلی اور گھورتی ہوئی محسوس ہوتی تھیں۔ ایک لمحے کیلئے ذہن اس تصور میں بھی الجھ گیا کہ یہ تبدیلیاں کیوں رونما ہوئی ہیں۔ بہرحال سب کچھ ہوسکتا تھا، سب کچھ میں بھلا کر ہی کیا سکتا تھا۔ دروازہ بند کرلیا۔ یہ احساس دل میں تھا کہ ہوسکتا ہے سندری پھر اندر آجائے اور مجھے پریشان کرنے کی کوشش کرے حالانکہ میں نے اب وہ راستہ تو نہیں چھوڑا تھا کہ وہ میری جانب رخ کرے لیکن اندازہ یہ ہوتا تھا کہ اس کی ڈور بھی کسی اور ہی کے ہاتھ میں ہے۔ کافی وقت گزر گیا سندری نے دروازہ نہیں بجایا اور پھر میں سونے کی کوشش کرنے لگا۔ مدھم مدھم روشنی کمرے میں پھیلی ہوئی تھی، پوری طرح اندھیرا نہیں تھا۔ یوں ہی اتفاقیہ طور پر تصویر پر نظر جا پڑی اور میں لیٹے لیٹے اٹھ کر بیٹھ گیا۔ یہ نظر کا دھوکا نہیں تھا، آنکھوں کی کوئی خرابی بھی نہیں تھی اور نہ ہی ذہن کا کوئی انتشار لیکن فریم میں لگی ہوئی تصویر بے شک بدل گئی تھی۔ یہ تصویر اب مجھے کچھ اور ہی شکل میں نظر آئی تھیں۔ آنکھیں حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ بستر سے کود کر تصویر کے نزدیک آیا۔ رانی مہاوتی کی تصویر تھی۔ وہ سورما تصویر کے فریم سے غائب ہوگیا تھا جسے میں نے پہلے دیکھا تھا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے ادھر ادھر دیکھا اور کوئی تصویر بھی نہیں تھی۔ پھر گہری سانس لے کر اپنے بستر کی جانب آگیا اور اس کے بعد بھلا نیند آنکھوں میں کہاں آتی۔ کبھی کبھی پلکیں جھپک جاتیں پھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر تصویر کی جانب دیکھنے لگتا۔ اب اندازہ ہورہا تھا کہ یہ تبدیلیاں بلاوجہ رونما نہیں ہوئی تھیں۔ ایک بار پھر پلکوں پر جھپکی سی آگئی اور اچانک ہی تصویر کا تصور ذہن میں آیا تو چونک کر اسے دیکھا۔ اف میرے خدا میرے خدا میں نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا۔ تصویر پھر بدل چکی تھی اور اگر میری آنکھیں دھوکا نہیں کھا رہی تھیں تو یہ تصویر کالی داس کی تھی۔ ہاں دیوان کالی داس کی فریم میں بار بار تصویریں بدل رہی تھیں اور اب یہ بات دعوے سے کہہ سکتا تھا کہ یہ تصویریں نہیں تھیں۔ یہ وہ خبیث روحیں تھیں جو تصویری شکل میں آآ کر میرا جائزہ لے رہی تھیں، مجھے دیکھ رہی تھیں، میرے بارے میں اندازے لگا رہی تھیں۔ دل چاہا کہ دروازہ کھول کر باہر بھاگ جائوں، کس طلسم خانے میں آپھنسا۔ نوشاد اور بھگوتی پرشاد تو جا چکے تھے اور مجھے اس عذاب میں گرفتار کرگئے تھے۔ کیا کروں، کیا کروں یا تو لاپروا ہوکر آنکھیں بند کرلوں اور گہری نیند سو جائوں۔ زیادہ سے زیادہ میرا کوئی کیا بگاڑ سکتا ہے لیکن انسانی فطرت کے خلاف تھا۔ بھلا اس عالم میں نیند آسکتی تھی آہ کیسے اس طلسم خانے سے بھاگ جائوں۔ اگر یہ سب کچھ چھوڑ کر چلا جاتا ہوں تو حاجی صاحب کے کام میں مداخلت ہوتی ہے۔ رانی مہاوتی آخر ہیں کیا چیز اندازہ تو اسی وقت ہوگیا تھا جب دیوان کالی داس نے مجھے مشتبہ نگاہوں سے دیکھا تھا اور اس کے بعد میرے یہاں قیام کا فیصلہ کیا گیا تھا۔ ڈیزائن لینے کیلئے بھگوتی پرشاد بھی ہوسکتا تھا، نوشاد بھی لیکن اشارہ میرے لئے کیا گیا تھا۔ گویا اب یہ طے شدہ بات تھی کہ پھر کوئی جال مجھ پر ڈالا جارہا تھا۔ باغ میں سجے ہوئے مجسمے کے الفاظ یاد آئے۔ یہ کال نگر ہے، کال نگر میں اس کی بات سے پوری طرح متفق ہوگیا۔ بستر پر بیٹھ کر نجانے کتنی دیر سوچتا رہا کہ اب کیا کروں خاموشی سے بھاگ بھی سکتا تھا لیکن دل نے ڈھارس دی اور کہا کہ مسعود دیکھ تو سہی آگے کیا ہوتا ہے تیرا آج تک کسی نے کیا بگاڑ لیا جو اب بگاڑ لے گا۔ ذرا ان رانی مہاوتی جی کا کھیل بھی دیکھ لے۔ ان تمام تصورات کے ساتھ ایک بار پھر نظر اس فریم پر ڈالی لیکن وہاں ہر بار کوئی ایسا منظر نظر آتا تھا جو دل کو مٹھی میں جکڑ لیتا تھا۔ اس بار تصویر کا فریم خالی تھا۔ سب جا چکے تھے، سب جا چکے تھے۔ میرے حلق سے ایک ہذیانی سا قہقہہ نکل گیا۔ میں نے غرائی ہوئی آواز میں کہا۔ اجازت ہو تو اب سو جائوں اور اس کے بعد میں نے بستر پر لیٹ کر کروٹ بدلی اور آنکھیں مضبوطی سے بھینچ لیں۔ غالباً کوئی ایسا عمل خودبخود ہوگیا تھا جس نے مجھے نیند کی آغوش میں پہنچا دیا اور نیند بھی ایسی پرسکون کہ صبح کو سورج کی روشنی ہی نے جگایا۔ کرنیں کمرے کے مختلف کونوں کھدروں سے رینگتی ہوئی اندر آگئی تھیں اور مجھے دیکھ رہی تھیں۔ منتظر تھیں کہ میں اپنی جگہ سے اٹھوں اور زندگی کے پراسرار معاملات پھر سے جاری ہوجائیں۔ پہلی شکل سندری ہی کی نظر آئی تھی۔ جاگ گئے مہاراج ہاں سندری تم ٹھیک ہو خاک ٹھیک ہوں۔ تم میری کوئی بات مانتے نہیں ہو، سب میرا مذاق اڑا رہے ہیں۔ رانی مہاوتی جی سے ملنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا اور وہ چونک پڑی۔ کیوں میں ان سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ مجھے یہاں کب تک رہنا پڑے گا۔ میں جانا چاہتا ہوں۔ اوہ اس نے گہری سانس لے کر کہا جیسے وہ مطمئن ہوگئی ہو۔ پھر اس نے کہا۔ کوئی جلدی ہے سندری میں جانا چاہتا ہوں۔ مہاوتی جی تو صبح ہی صبح کہیںگئی ہیں۔ دیوان جی بھی ان کے ساتھ ہی گئے ہیں۔ ان سے پوچھے بنا تمہارا جانا اچھا نہیں ہوگا۔ تمہیں پتا کب تک آجائیں گے مالک، نوکروں کو بتا کر نہیں جاتے۔ ویسے میرا خیال ہے کہ شام تک ضرور آجائیں گے۔ تم یہاں کسی گوشے میں بیٹھ کر اپنے دین کی پوجا کرو پجاری ہونہہ اس نے کہا اور وہاں سے چلی گئی۔ چلچلاتی دوپہر تھی، دھوپ حد سے زیادہ تیز، ماحول بڑا سنسان تھا۔ دن کی روشنی میں میں نے ان مجسموں کو دیکھا تھا، چھو کر دیکھا تھا سب کے سب انسانی ہاتھوں کی تراش معلوم ہوتے تھے۔ کوئی شبہ نہیں تھا اس بات میں مگر پچھلی رات کی بات بھی وہم نہیں تھی۔ میں نے اس مجسمے کو بھی دیکھا تھا جو مجھ سے بولا تھا مگر وہ صرف پتھر تھا۔ دور تک نکل گیا۔ واقعی یہ عمارت بڑے وسیع احاطے میں تھی۔ جگہ جگہ تعمیرات تھیں۔ سرخ پتھروں سے بنی ہوئی ایک عمارت کے پاس سے گزر رہا تھا کہ ایک جھروکے سے آواز ابھری۔ سنو سنو ارے ادھر ادھر میں رک گیا۔ یہ اندازہ فوراً ہوگیا تھا کہ آواز جھروکے سے آرہی ہے مگر جھروکا اونچا تھا۔ میں اس میں نہیں جھانک سکتا تھا۔ سیدھے چلتے ہوئے دائیں سمت مڑ جائو۔ دروازے سے اندر آجائو، وہ گہری نیند سو رہا ہے۔ آواز پھر ابھری۔ کون ہو تم ڈرو مت، تمہارے جیسا انسان ہوں۔ یہاں کیا کررہے ہو ہمت کرو، اندر آجائو، ڈرو مت اس وقت کوئی خطرہ نہیں ہے۔ آئو جلدی کرو، آجائو۔ آرہا ہوں، تمہیں بھی دیکھ لوں۔ میں نے طنزیہ آواز میں کہا اور آگے بڑھ گیا۔ اس کا کہنا درست تھا۔ آگے چل کر بائیں طرف مڑا تو دروازہ نظر آگیا۔ اندر سے بند نہیں تھا۔ میں نے دھکا دیا تو کھل گیا۔ دوسری طرف ایک وسیع چبوترہ بنا ہوا تھا۔ اس کے تین طرف کمرے تھے۔ چبوترہ بھی سرخ پتھر سے بنا ہوا تھا۔ ان کے بیچوں بیچ پیپل کا درخت تھا جو باہر سے بھی نظر آتا تھا۔ ایک گوشے میں پیپل کے سوکھے پتوں کے انبار لگے ہوئے تھے۔ ان کے قریب جھاڑو بھی پڑی ہوئی تھی۔ وہ کمرہ بھی اس عمارت میں دائیں سمت کا ہوسکتا تھا۔ کمرہ اختتامی دیوار کے ساتھ تھا، چنانچہ میں اس کے قریب پہنچ گیا۔ باہر سے لوہے کی مضبوط کنڈی لگی ہوئی تھی۔ میں نے بہ آہستگی اس کنڈی کو کھولا اور پھر آہستہ سے دروازے کے کواڑ کو دھکا دیا۔ چرچراہٹ کی آواز کے ساتھ دروازہ کھل گیا۔ اندر تاریکی نہیں تھی، روشندان سے دھوپ پڑ رہی تھی۔ دھوپ نے کمرے کو روشن کردیا تھا۔ کمرہ چونکہ کسی قدر بلندی پر تھا اس لئے اس شخص نے مجھے دیکھ لیا تھا جسے میں باہر سے نہ دیکھ سکا تھا۔ وہ ایک توانا آدمی تھا۔ اچھے قدو قامت کا مالک مگر اس کے پیروں میں زنجیریں بندھی ہوئی تھیں۔ ایک زنجیر کمر سے بھی بندھی ہوئی تھی اور یہ تمام زنجیریں موٹے آہنی کڑوں سے بندھی ہوئی تھیں۔ کون ہو تم اگر تمہاری آنکھوں میں روشنی ہے تو مجھے دیکھ لو۔ غور سے دیکھو، کون ہوں میں اس نے کہا۔ میں تمہیں نہیں جانتا۔ نہیں جانتے کیوں وہ حیرت سے بولا۔ میں نے پھر اسے غور سے دیکھا۔ اس کا حلیہ بہت خراب تھا۔ کپڑے چیتھڑوں کی شکل میں جھول رہے تھے، چہرے اور جسم کے دوسرے حصوں پر زخموں کے کھرنڈ تھے۔ تمہاری بات کا کیا جواب دوں میں بے وقوف میں چندر بھان ہوں چندر بھان کیا میں اچھل پڑا۔ اس نے مجھے بیمار مشہور کردیا ہے۔ لوگ مجھے بیمار سمجھتے ہیں۔ بھگوان کی سوگند میں پاگل نہیں ہوں۔ میں تمہارا مہاراج ہوں۔ میں تمہارا مہاراج ہوں سمجھے میں تمہارا ان داتا ہوں۔ میں تمہارا مہاراج ہوں سمجھے تم چندر بھان ہو مہاوتی کے شوہر ہاں میں وہی بدنصیب ہوں۔ سنو میری مدد کرو۔ بس ایک بار صرف ایک بار مجھے یہاں سے آزادی دلا دو، جیون بھر تمہارا احسان مانوں گا۔ ارے بھائی ایک بار، بس ایک بار اس کے لہجے میں بڑا درد تھا۔ وہ امید بھری نظروں سے مجھے دیکھ رہا تھا۔ جاری ہے
null
null
null
null
422
https://www.urduzone.net/naya-janam-episode-1/
رابرٹ کے ساتھ مذاکرات ناکام ہوگئے تھے۔ ایملی جیکب کو اس کی امید نہیں تھی۔ رابرٹ کے ساتھ اس کی دوستی گزشتہ چار سال سے تھی۔ اتنی گہری دوستی کہ دونوں اکثر ساتھ نظر آتے تھے۔ ہر تقریب میں وہ ایک ساتھ شرکت کرتے تھے اور دونوں جیسے ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہوچکے تھے۔ دونوں کے خیالات، ذوق اور میلانات بھی آپس میں ملتے تھے۔ وہ ہر موضوع پر بات کرتے تھے۔ انہیں کبھی ایک دوسرے سے اکتاہٹ نہیں ہوئی تھی، اسی لیے ایملی نے سوچا تھا کہ انہیں اب گھر بسا لینا چاہیے۔ جہاں آنگن میں پیارے پیارے بچوں کی کلکاریاں ہوں۔ لیکن ایملی کو حیرت ہوئی جب رابرٹ نے مفاہمت کے انداز میں کہا۔ دیکھو ایملی میرا خیال تھا کہ ہم لوگوں میں یہی قدر مشترک ہے کہ ہم اپنا مستقبل بنائیں اور اپنے اپنے حال میں نہیں رابرٹ میں نے یہ کبھی نہیں سوچا کہ میں عمر بھر ایک بینک میں لون آفیسر رہوں۔ میں ایک ہنستا بستا گھر چاہتی ہوں، مجھے بچے چاہئیں۔ میری عمر اس وقت ستائیس سال ہے۔ میں اپنے مستقبل کے لیے کوئی فیصلہ کرنا چاہتی ہوں۔ مگر رابرٹ نے صاف گوئی سے کہا کہ وہ شادی کا قائل ہے، نہ اسے بچے پسند ہیں۔ یہ عجیب بات ہوئی کہ اس حقیقت نے ایملی کے شانوں سے جیسے ایک بوجھ ہٹا دیا۔ اس کے سامنے اس کا اپنا آپ واضح ہوگیا کہ وہ کیا چاہتی ہے۔ وہ کس طرح کی زندگی گزارنا چاہتی ہے اور اپنے لیے کیسا مستقبل پسند ہے۔ وہ شہر کی اس پُرشور اور بے ہنگم زندگی سے اکتا چکی تھی۔ نو سے پانچ بجے تک کا معمول، زہریلی گیسوں سے بھری ہوئی فضا، دکھاوے اور جھوٹ فریب سے بھرا ہوا معاشرہ ہر سال نئی گاڑی خریدنے کا جنون فیشن کے ماہرین کے مہنگے کپڑے پہننے کی مجبوری، ٹریفک کا شور، ایمبولینس کے سائرن اور ایسا ہی بہت کچھ یہ سب کچھ کس قدر اکتا دینے والا تھا۔ دماغ کو ہلا دینے والا ماحول، ہمیشہ دوسروں کی چاپلوسی اور جھوٹی تعریفیں اور ترقی کرنے کے لیے دن، رات کوششیں اس کے مقابلے میں محبت سے بھرا ہوا چھوٹا سا گھر، جہاں بچوں کے کھلونے بکھرے ہوں، وہ تمام دن سلیپر پہنے ہوئے پھرتی رہے، بجائے بالشت بھر ہیل جو پیروں کو توڑ کر رکھ دیتی ہے۔ بالوں کی پونی بنائے، جیسا چاہے لباس پہنے، مارکیٹ سے خریداری کے لیے ویگن لے جائے اور پھر کھانے پینے کا سارا سامان تھوڑے ہی دنوں میں ختم ہوجائے اور اس کا پیٹو شوہر دانت نکال کر مذاق اُڑائے کہ تم بہت کنجوس ہو۔ وہ ہر ہفتے احسان جتا کر لان کی گھاس کاٹے اور شام کو کافی ٹیبل پر پائوں رکھ کر اس کے ساتھ فٹ بال میچ دیکھے اور فرنچ فرائز کی پلیٹوں کی پلیٹیں چٹ کر جائے۔ جب ایملی یہ سب سوچ رہی تھی تو اچانک اس کی ایک پرانی دوست کا فون آگیا۔ وہ مشرق کے دوردراز علاقے میں چھٹیاں گزارنے گئی ہوئی تھی۔ وہ اس علاقے کے بارے میں رطب اللسان تھی۔ تم یقین نہیں کرو گی کہ یہ کتنا مختلف ہے۔ صاف و شفاف اور تازگی سے بھرا ہوا علاقہ ہے۔ یہاں آکر شہر کے دھویں سے بھرے ماحول اور یہاں کی خوشگوار فضا کا فرق معلوم ہوتا ہے۔ یہ ایک بہترین جگہ ہے جہاں سانس لینا بہت اچھا لگتا ہے۔ اور ملازمتوں کا کیا سلسلہ ہے وہ بھی تسلی بخش ہے۔ تم یہاں اتنی بڑی لون آفیسر تو نہیں بن سکتیں لیکن یہاں جو بینک ہیں، وہاں تمہیں اچھی جاب ضرور مل جائے گی۔ تم ایک بار یہاں آکر تو دیکھو۔ ایملی نے فیصلہ کرلیا کہ اسے ایک بار جاکر دیکھنا چاہیے۔ یہ تجربہ کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ اگر وہاں اس کا دل نہ لگا تو وہ واپس بھی آسکتی تھی لیکن ایک بار ایک مختلف ماحول میں جاکر اسے اپنے آپ کو تلاش کرنا چاہیے کہ دراصل وہ کون ہے اور کیا چاہتی ہے۔ اسے کیسی زندگی مطلوب ہے اور اب وہ ٹرین میں بیٹھی ایک نئی دنیا کی طرف جارہی تھی۔ گاڑی پہاڑی راستوں پر بل کھاتی ہوئی چلی جارہی تھی۔ اس کے قریب بیٹھی ہوئی مسافر خاتون نے کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہا۔ کتنا خوبصورت نظارہ ہے۔ ہے نا بہت خوبصورت ایملی نے مسکرا کر تائید کی۔ آپ پہلی مرتبہ یہاں آئی ہیں ہاں کیا ایسا محسوس ہورہا ہے نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں نے یونہی اندازہ لگایا تھا کیونکہ جب سے آپ آئی ہیں، مسلسل کھڑکی سے باہر دیکھ رہی ہیں۔ ہاں میں دراصل شہر میں پلی بڑھی ہوں، یہاں آنے کا کبھی اتفاق نہیں ہوا۔ میں نے یہ علاقہ کبھی نہیں دیکھا۔ ایملی نے جواب دیا۔ ٹرین اس کے لیے بہت موزوں ہے کہ آپ ہر جگہ آسانی سے دیکھ سکتی ہیں۔ وہ اتنا کہہ کر اپنے میگزین کی طرف متوجہ ہوگئی۔ ایملی کے لیے یہ سفر کسی ایڈونچر کی طرح تھا۔ وہ ہوائی راستے سے بھی یہاں آسکتی تھی لیکن وہ اس علاقے کو اپنی کھلی آنکھوں سے دیکھنا چاہتی تھی۔ اس وقت گاڑی کی مخصوص آواز اسے موسیقی کی طرح محسوس ہورہی تھی۔ پہاڑی راستہ اور سرنگ نیچے میدانی راستوں پر پڑی ہوئی برف دور سے چمک رہی تھی۔ آسمان اتنا نیلا تھا کہ اس نے اتنا خوبصورت اور گہرا نیلا رنگ کبھی نہیں دیکھا تھا۔ یہ نظارے، یہ آوازیں، یہ خوشبوئیں اور یہ نظارے سب اس کے لیے نئے، انوکھے اور دلکش تھے۔ وہ نئے لوگوں سے ملنے اور نئے دوست بنانے کے لیے بڑی پُرجوش تھی۔ گزشتہ چند ہفتوں سے جب وہ اپنا سامان باندھ رہی تھی، رشتے داروں اور دوستوں کو الوداع کہہ رہی تھی تو اس نے کئی بار خود سے یہ سوال کیا تھا کہ کیا وہ اتنی بڑی تبدیلی کے ساتھ نباہ کرسکے گی۔ لیکن سفر کے کچھ گھنٹوں بعد ہی اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ باآسانی اس نئی زندگی میں رچ بس جائے گی اور کیا معلوم وہاں کوئی اس کا انتظار کررہا ہو، کوئی خاص بندہ ایملی کی ہمسفر ایک اسٹیشن پر اتر گئی۔ جتنی دیر ٹرین یہاں رکی، ایملی نے بھی نیچے اتر کر کافی کی ایک پیالی کی چسکیاں لیتے ہوئے اردگرد کا جائزہ لیا۔ چاروں طرف جھکے ہوئے پہاڑی سلسلے، ان کی شادابی اور سرسبزی نگاہوں کو تراوٹ بخش رہی تھی۔ ٹرین نے سیٹی بجائی اور وہ جلدی سے اس پر سوار ہوگئی۔ اب اس کے ساتھ والی سیٹ خالی تھی۔ اس لئے ایملی نے اپنے پائوں اس پر رکھ لئے تھے۔ وہ بہت آسودہ انداز میں بیٹھی اس سفر کا لطف اٹھارہی تھی جو اسے ایک نئی دنیا کی طرف لے جارہا تھا۔ گہرے بادل، پہاڑوں کی چوٹیوں کو اس طرح ڈھانپ رہے تھے کہ وہ نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھیں۔ ٹھنڈی ہوا ٹرین کے شیشوں سے ٹکرا رہی تھی۔ ایملی کی نبض تیز ہوگئی تھی اور دل تیزی سے دھڑک رہا تھا۔ وہ ان سرزمینوں کی طرف بڑھ رہی تھی جو فطرت کے حسن سے مالا مال تھیں۔ شہروں کی تہذیب یافتہ اور مصنوعی زندگی کو پیچھے چھوڑ کر دیہات کی خالص تہذیب کی طرف ٹرین نے رفتار پکڑ لی تھی۔ دور بہتا ہوا دریا چاندی کی ایک لکیر کی طرح نظر آرہا تھا۔ ایملی نے اس علاقے کے بارے میں معلوماتی کتاب کھولی۔ اگلا شہر ریفلی آنے والا تھا جو مویشی فارم کے لیے مشہور تھا۔ یہاں اٹھارویں صدی سے مویشی پالے جارہے تھے۔ ان کی زندگی کے بارے میں اس نے بہت سے ناول پڑھ رکھے تھے۔ یہ لوگ تمام ہفتہ جم کر کام کرتے اور چھٹی کے روز خوب بن ٹھن کر، اچھے لباس پہن کر تفریح کے لیے شہر کا رخ کرتے اور لطف اندوز ہوتے تھے۔ ایملی کے ذہن میں باربار یہ بات آتی تھی کہ وہاں نہ جانے زندگی کیسی ہوگی۔ اسے بینک میں جاب ملے گی یا نہیں، اسے کسی اسکول میں پڑھانا پڑے گا یا کسی اسٹور پر وقتی طور پر کچھ کام حاصل کرنا پڑے گا تاکہ وہاں اپنے پائوں جما سکے۔ جو رقم اس کے پاس تھی، وہ اسے محفوظ رکھنا چاہتی تھی۔ کھڑکی سے باہر دریا اب زیادہ واضح نظر آنے لگا تھا۔ اس کا چوڑا پاٹ وادی کو گھیرے ہوئے تھا۔ سردی کے موسم کی سوغات خزاں رسیدہ درخت، نسواری رنگ میں رنگے ہوئے نظر آتے تھے۔ کہیں کہیں برف باری کی شدت میں ان کے رنگ بلوریں سفید تھے جو بہت بھلے معلوم ہورہے تھے۔ سردی بڑھ رہی تھی جس کا مطلب تھا کہ برف کا ایک اور طوفان آنے والا ہے۔ ایملی کو کپکپی سی چھوٹ رہی تھی۔ اُس نے اپنی شال کو اپنے گرد اچھی طرح سے لپیٹ لیا۔ آگے وادی میں مویشی فارم نظر آنے لگے تھے جن کے رہائشی حصوں میں چمنیوں سے دھواں نکل رہا تھا۔ یہ سب اُسے بہت بھلا معلوم ہورہا تھا۔ ایک زوردار ہوا کا جھونکا شیشے سے ٹکرایا۔ جس کا مطلب تھا کہ برف باری شروع ہونے جارہی تھی۔ یوں لگا جیسے ہوا کے زور سے ٹرین بھی ہلکے سے جھٹکے کے ساتھ لہرائی اور برف باری کی شدت کی وجہ سے شیشے سے باہر کا منظر نظر آنا بند ہوگیا۔ ایملی اپنی کتاب کی جانب متوجہ ہوگئی۔ ٹرین بل کھاتے راستوں پر چلتی چلی جارہی تھی۔ اس کی رفتار معمول سے کم تھی۔ اچانک گاڑی کو ایک جھٹکا لگا جو اتنا اچانک اور زوردار تھا کہ ایملی کا شانہ کھڑکی سے جا ٹکرایا۔ ایملی نے اپنے شانے کو سہلاتے ہوئے اِدھر اُدھر دیکھا کہ یہ کیا ہورہا ہے۔ اس کے بعد ٹرین کی رفتار ہموار ہوگئی تو ایملی نے اطمینان کا گہرا سانس لیا۔ لیکن چند لمحوں بعد ہی ایک ہڈیوں کو توڑ دینے والا جھٹکا لگا۔ دھات پر دھات کے زور سے رگڑنے کی آواز سنائی دی۔ پھر کانوں کے پردے پھاڑ دینے والا مسلسل شور سنائی دینے لگا۔ مسافر چیخیں مارنے لگے۔ جس ڈبے میں ایملی بیٹھی تھی جیسے لڑھکنیاں کھانے لگا۔ ایملی نے اپنی سیٹ کو پورے زور سے تھام لیا تاکہ خود کو گرنے سے محفوظ رکھ سکے مگر جھٹکے اتنے شدید تھے کہ اسے اپنے شانوں کی ہڈیاں ٹوٹتی ہوئی محسوس ہوئیں۔ اس کے ہاتھوں کی گرفت ڈھیلی پڑنے لگی۔ اسے اندازہ ہورہا تھا کہ وہ کسی سمت میں بڑی تیزی سے گر رہی ہے۔ زوردار دھماکے مسلسل ہورہے تھے۔ ایملی بری طرح چکرا رہی تھی۔ شاید اس کا سر کسی چیز سے ٹکرایا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تارے سے ناچنے لگے، پھر یہ تارے شراروں میں بدل گئے اور پھر ہر طرف اندھیرا چھا گیا۔ آنکھوں کو اندھا کر دینے والی تاریکی ٭ ٭ ٭ ایملی کو لگ رہا تھا جیسے وہ گہرے پانیوں میں تیر رہی ہے، ڈوبتی ابھرتی ہوئی پانی کی سطح نہ جانے کہاں تھی، کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ اسے اپنے چہرے کے اوپر کسی اور کا چہرہ نظر آرہا تھا۔ وہ کسی مرد کا چہرہ تھا لیکن وہ اسے پہچانتی نہیں تھی۔ وقت جیسے اپنے تمام معنی کھو چکا تھا۔ وہ خود کو بہت تھکا ہوا، بہت کمزور محسوس کررہی تھی۔ اس کا جوڑ جوڑ دکھ رہا تھا۔ پھر اس کے چہرے پر ایک تیز روشنی پڑی جیسے سورج کی سنہری کرنیں ہوں۔ اس نے آہستہ آہستہ آنکھیں کھولیں۔ اس کی کنپٹیوں میں شدید درد تھا۔ اس نے کوشش کرکے اردگرد کے ماحول کا جائزہ لیا۔ وہ اکیلی تھی۔ کمرہ گرم تھا اور ایک کمبل سے اس کا سارا جسم ڈھکا ہوا تھا، شاید اسی لے سردی کی شدت کم ہوگئی تھی۔ اس نے کہنیوں کے سہارے اٹھنا چاہا لیکن نقاہت نے اٹھنے نہ دیا اور وہ پھر بستر پر گر پڑی۔ اس نے آنکھیں بند کرلیں اور کنپٹیوں میں ہونے والے درد کے کم ہونے کا انتظار کرنے لگی اور پھر نہ جانے کب غافل ہوگئی۔ جب وہ ہوشیار ہوئی تو کوشش کرکے کہنیوں کے بل خود کو بستر سے اٹھا کر گردوپیش کا جائزہ لیا۔ وہ اس بیڈ روم میں اکیلی تھی، کھڑکیوں پر لیس کے پردے لگے ہوئے تھے جن کا انداز قدیم تھا۔ ایک الماری، میز اور صوفہ بھی موجود تھا۔ کمرے کی سجاوٹ میں سادگی تھی۔ وہ کہاں تھی یہ کس کا گھر تھا، اسے یہاں کون لایا تھا ڈھیر سارے سوالوں نے اس کے ذہن پر یلغار کردی۔ یکدم اسے ٹرین کا خیال آیا۔ ٹرین اس کی یادداشت ایک جھٹکے سے واپس آگئی۔ اسے سب یاد آنے لگا کہ وہ ٹرین میں بیٹھی ہوئی تھی۔ برف کا شدید طوفان آیا تھا۔ اسے شدید جھٹکے لگ رہے تھے۔ اس کا بازو زخمی تھا۔ اس کے سر پر بھی شدید چوٹ آئی تھی تو اس کا مطلب تھا کہ وہ اسپتال میں تھی لیکن یہ کمرہ کسی اسپتال کا کمرہ تو نہیں لگتا تھا۔ اسی وقت دروازہ ایک ہلکے سے شور کے ساتھ کھلا۔ ایملی نے اپنا سر گھما کر دیکھا۔ وہاں ایک دراز قد شخص کھڑا تھا جس کے گھنگھریالے سیاہ بالوں کو درمیان سے نکلی ہوئی مانگ نے دو حصوں میں بانٹ رکھا تھا۔ اس کے سانولے چہرے پر بڑی بڑی مونچھیں تھیں۔ وہ اپنی سبز آنکھوں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ بحیثیت مجموعی وہ ایک خوبصورت اور وجیہ انسان تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہے لیکن یہ یاد نہیں آرہا تھا کہ کہاں دیکھا ہے تم بیدار ہوگئیں، طبیعت کیسی ہے تمہاری اس کی آواز بھاری اور پُرکشش تھی۔ وہ ابھی تک دروازے میں ہی کھڑا تھا۔ اس کا ہاتھ دروازے کے ہینڈل پر تھا یوں جیسے کوئی جھجک اسے کمرے میں آنے سے روک رہی ہو۔ ایملی نے اپنے لبوں کو تر کیا۔ پلیز اندر آجائو، میں تم سے کچھ پوچھنا چاہتی ہوں۔ یقیناً تمہیں بہت کچھ جاننا ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے لمحے بھر کو سوچا۔ پھر دروازہ بند کرکے اندر آگیا اور کھڑکی کے پاس کھڑا ہوگیا مگر وہ کچھ بے آرام سا تھا۔ اس نے دونوں بازو سختی کے ساتھ سینے پر باندھ رکھے تھے۔ اس کی سفید قمیض کالر کے بغیر تھی۔ اس کا ایک شانہ کھڑکی کے ساتھ ٹکا ہوا تھا۔ وہ کسی قدیم مصور کی بنائی ہوئی پینٹنگ کی طرح لگتا نے بیٹھنے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔ اس نے لیٹے لیٹے ادھورا سا جملہ کہا۔ تم کون میں ولیم ڈچر ہوں، تم میرے فارم پر ہو۔ تمہارا فارم ڈاکٹر کے پاس مریضوں کا بہت رش تھا۔ ٹرین ایکسیڈنٹ کی وجہ سے اوہ ایملی نے اپنی یادداشت پر تنے جالوں کو ہٹانا چاہا اور بولی۔ کیا یہاں کوئی اسپتال نہیں ہے نہیں محترمہ اسپتال یہاں سے کافی دور ہے۔ جو لوگ زیادہ زخمی تھے، انہیں وہاں لے جایا گیا ہے لیکن ڈاکٹر کا کہنا تھا کہ تم کچھ دن آرام کے بعد ٹھیک ہوجائو گی۔ میں میں کب سے یہاں ہوں اس کا خیال تھا کہ شاید وہ کومے میں تھی۔ کچھ زیادہ نہیں ٹرین کا حادثہ کل ہوا تھا۔ میں تمہیں کل رات یہاں لے کر آیا ہوں۔ اوہ اچھا تم مجھے یہاں لے کر آئے ہو۔ ایملی کو قدرے اطمینان ہوا۔ وہ غیر ارادی طور پر ایک ہاتھ سے اپنی مونچھوں سے کھیلتے ہوئے بولا۔ محترمہ ہمیں تمہاری کوئی شناخت نہیں ملی۔ میرا خیال ہے کہ تم یقیناً وہ ہائوس کیپر ہو جسے میرے بھائی نے شہر سے یہاں بھیجا ہے۔ ہائوس کیپر ایملی نے حیرت سے دہرایا۔ ہاں میرے بھائی کے بچوں کے لیے۔ ولیم نے بتایا۔ ایملی نے خود اعتمادی سے اسے اپنے بارے میں بتایا۔ میرا نام ایملی جیکب ہے۔ میں اس شہر سے نہیں آئی جس کا تم ذکر کررہے ہو۔ میرے بھائی نے ہائوس کیپر کا نام تو نہیں بتایا تھا لیکن ٹرین میں صرف تم ہی تھیں جس کی شناخت نہیں ہوسکی تھی جس سے ہم نے یہ اندازہ لگایا۔ میں نے بتایا نا کہ میرا نام ایملی جیکب ہے۔ تم اپنے بھائی کو فون کرکے پوچھ کیوں نہیں لیتے یہاں فون کی سہولت نہیں ہے۔ فون نہیں ہے اس نے حیرت سے سوال کیا۔ یہاں سے کچھ زیادہ دور نہیں ہے۔ ایملی کا سر چکرانے لگا۔ کیا یہ اتنا پسماندہ علاقہ تھا کہ گھروں میں فون تک نہیں تھے۔ اس نے سنبھل کر اس شہر کا نام لیا جس کے لیے اس نے رخت سفر باندھا تھا۔ دیکھو میں وہاں جارہی تھی۔ میں نے ٹرین سے سفر کو اس لیے ترجیح دی کہ راستے میں آنے والے مناظر سے لطف اندوز ہوتی رہوں۔ اکیلی اس نے پوچھا۔ ہاں اکیلی۔ ایملی کے سر میں درد ہونے لگا تھا۔ محترمہ وہ شہر تو کچھ اتنا زیادہ اچھا نہیں۔ وہاں کے لوگ بھی قابل اعتبار نہیں۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ تم وہاں اکیلی جارہی تھیں تم جو مرضی آئے سمجھو۔ ایملی نے اکتا کر کہا۔ اس کے سر میں شدید درد تھا۔ اس کے لیے مزید بات کرنا ممکن نہیں رہا تھا۔ وہ بے دم سی ہوکر پروں سے بھرے ہوئے تکیے پر گر پڑی۔ اس نے قریب میز پر رکھی ہوئی صراحی سے گلاس میں پانی انڈیلا۔ اس کے سر کے نیچے ہاتھ رکھ کر اسے تھوڑا سا اوپر اٹھایا اور بولا۔ یہ لو پیو۔ ایملی نے چند گھونٹ پانی کے پیئے۔ اس کی نگاہ ولیم کے چہرے پر پڑی۔ اس نے محسوس کیا کہ وہ اس کی طرف یوں دیکھ رہا ہے جیسے اسے جانچ رہا ہو۔ پھر اسے یہ باور ہوا کہ وہ ایک خوبصورت انسان ہے لیکن وہ خاموش طبع اور تنہا تنہا سا لگتا تھا۔ اور پانی اس نے پوچھا۔ نہیں شکریہ۔ ایملی نے جواب دیا تو اس نے اس کا سر آہستگی سے پھر تکیے پر رکھ دیا۔ مسٹر ولیم میری حالت خراب ہے۔ میرا سر تو ہاں ڈاکٹر نے بتایا ہے کہ تمہیں سر پر کافی چوٹ آئی ہے۔ کیا میرا سی اے ٹی اسکین ہوا ہے سی اے ٹی اسکین۔ اس نے دہرایا۔ ڈاکٹر نے تمہیں بہت اچھی طرح چیک کیا ہے۔ اسے پھر چکر آنے لگے۔ اس کے لیے مزید بات کرنا مشکل ہوگیا تھا۔ اس کی آنکھیں بند ہوئی جاتی تھیں۔ ولیم نے بھی اس کی حالت کا اندازہ کرلیا تھا۔ وہ بولا۔ میرا خیال ہے کہ تمہیں آرام کرناچاہیے۔ کچھ دیر بعد تم کوئی چیز کھا لینا۔ وہ اتنا کہہ کر کمرے سے باہر نکل گیا۔ ایملی ایک بار پھر نرم روئی جیسی تاریکی میں دھنسنے لگی۔ پھر اس کی آنکھ کھلی تو ایک ادھیڑ عمر شخص سوپ کا پیالہ لیے کھڑا تھا۔ اسے پی کر ایملی کو اپنے جسم میں کچھ توانائی آتی ہوئی محسوس ہوئی۔ ابھی وہ پیالہ میز پر رکھ ہی رہی تھی کہ دروازے پر پھر دستک ہوئی۔ ایملی نے دروازے کی طرف دیکھا۔ اسے ولیم کا چہرہ نظر آیا۔ وہ دروازے میں کھڑا تھا اور اس کے آگے تین گھبرائے ہوئے سے بچے تھے جیسے وہ اس سے خوف زدہ ہوں۔ ولیم کھنکھار کر گلا صاف کرتے ہوئے بولا۔ یہ میرے بھائی کے بچے ہیں۔ یہ میریان ہے۔ اس نے بائیں طرف کھڑی ہوئی بچی کی طرف اشارہ کیا جو تقریباً دس سال کی معلوم ہوتی تھی۔ اس نے لمبے سنہری بالوں کو دو چوٹیوں میں گوندھ رکھا تھا۔ اس نے بہت خوبصورت لباس پہن رکھا تھا جس پر لیس اور موتیوں کا بہت نفیس کام بنا ہوا تھا۔ اس کی پتلون سیاہ تھی اور پرانے فیشن کے سیاہ جوتے تھے۔ اس نے سنہری بالوں والے سر کو ایک شرمیلی سی جنبش دی اور مسکرائی۔ ہیلو میریان تم سے مل کر خوشی ہوئی۔ ایملی نے کہا۔ ہیلو، مس ایملی وہ مہین سی آواز میں بولی۔ دونوں لڑکے جیکا اور بروک آٹھ اور سات سال کے تھے جو اپنے چھوٹے چھوٹے ترشے ہوئے سنہری بالوں اور کشادہ نیلی آنکھوں کے ساتھ جڑواں معلوم ہوتے تھے۔ ایملی نے مسکرا کر کہا۔ ہاں تو بچو جو درمیان میں ہے، وہ جیکا ہے اور دائیں طرف بروک۔ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا تم سے مل کر بہت خوشی ہوئی بچو۔ یس میڈم۔ وہ تینوں کورس میں بولے۔ اچھا بچو مس ایملی کو گڈ نائٹ کہو اور میریان تم مس ایملی کے پاس رکو۔ انہیں شاید کوئی ضرورت ہو تو معلوم کرلینا۔ ننھی میریان بڑی فرماں برداری سے کمرے کے اندر آگئی۔ وہ ایک کمزور سی دھان پان بچی تھی۔ ولیم چلا گیا تو میریان نے اس کا ہاتھ تھام لیا اور بولی۔ مس ایملی تمہیں جوتوں اور شال کی ضرورت ہوگی۔ کیا میرے جوتے یہاں ہیں نہیں۔ تم نے جوتے نہیں پہنے ہوئے تھے۔ اس نے بتایا اور ایک الماری سے مختلف جوتے نکال کر اسے دکھائے۔ ایک جوڑا اس کے پائوں میں آگیا۔ میریان اس کا ہاتھ تھام کر اسے باہر لے گئی جہاں دور تک برف جمی ہوئی نظر آرہی تھی۔ آسمان پر چاند بہت شفاف اور روشن تھا۔ ایملی سردی سے کانپنے لگی۔ وہ چند ہی قدم چلی ہوگی کہ اس کی ٹانگیں لرزنے لگیں۔ سردی سے خون اس کی رگوں میں جمنے لگا۔ اندر چلو۔ اس نے بجتے ہوئے دانتوں کے ساتھ کہا۔ میریان گھبرا گئی۔ وہ اس کو کمرے میں لے کر آئی تو ایملی بے دم سی ہوکر بستر پر گر پڑی۔ انکل ولیم انکل ولیم۔ میریان چلائی۔ تھوڑی ہی دیر میں ولیم وہاں موجود تھا۔ اس نے ایک ہاتھ میں پائپ پکڑ رکھا تھا۔ کیا ہوا اس نے ایملی پر نظر ڈالی۔ اسے کانپتے دیکھ کر آگے بڑھا اور ایک بھاری کمبل اٹھا کر اسے اڑھا دیا۔ میریان باہر بہت ٹھنڈ ہے۔ مس ایملی کو ابھی باہر مت لے جائو۔ میریان نے سر ہلایا۔ وہ کچھ شرمندہ سی تھی۔ ایملی کو کمبل کی گرمی نے پُرسکون کردیا تھا۔ ولیم اس سے مخاطب ہوا۔ ڈاکٹر نے کہا ہے کہ سر کی چوٹ کی وجہ سے تمہیں کچھ عرصہ کمزوری کی شکایت رہے گی اور شاید تمہاری یادداشت میں بھی کچھ رکاوٹیں پیش آئیں۔ میں تمہیں بتا دینا چاہتی ہوں کہ میری ذہنی حالت بالکل ٹھیک ہے۔ میں جانتی ہوں کہ میں کون ہوں اور ہاں میں تمہاری ہائوس کیپر نہیں ہوں۔ سمجھے وہ چند لمحے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ پھر مسکرایا۔ ٹھیک ہے محترمہ تم جو کچھ کہہ رہی ہو، سچ کہہ رہی ہو۔ یہ کہہ کر وہ پلٹا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ اوہ خدایا یہ سب کیا ہوا تھا۔ وہ کہاں آگئی تھی، جہاں مٹی کے تیل کے لیمپ جل رہے تھے، گھر کو گرم رکھنے کا کوئی مرکزی نظام نہیں تھا۔ اُسے ہر بات اچھی طرح سے یاد تھی۔ اس کا سامان، اس کا والٹ نہ جانے کہاں تھا۔ اس کی رقم، اس کا کریڈٹ کارڈ، چیک بک اور دوسرے کاغذات کہاں گم تھے۔ اس پسماندہ علاقے میں لوگ نہ جانے ان چیزوں سے واقف تھے یا نہیں۔ اگر یہ سب کچھ اس حادثے میں ضائع ہوگیا تھا تو ایک نئی مصیبت کھڑی ہوجائے گی۔ اس کی قیمتی چیزیں جو وہ اپنے ساتھ لے آئی تھی۔ اس کے زیورات، قیمتی جیکٹ، عمدہ جوتے، مہنگا کیمرہ نہ جانے اس کے بیگ کہاں غائب ہوگئے تھے۔ سوچ سوچ کر اس کے سر میں درد ہونے لگا تھا۔ یہ لوگ اسے کوئی دوا بھی نہیں دے رہے تھے ورنہ اس کا درد ضرور ٹھیک ہوجاتا۔ وہ اسی ادھیڑبن میں الجھی رہی۔ بہت دیر بعد اسے نیند آئی۔ اگلے دن ایملی کی حالت بہت خراب تھی۔ وہ بہت کمزوری محسوس کررہی تھی۔ اسے متلی سی ہورہی تھی۔ اس کے ذہن پر یہ بات طاری ہوگئی تھی کہ نہ جانے اس چوٹ نے اس کے دماغ پر کیا اثر ڈالا تھا جو ڈاکٹر اس طرح کی رائے دے رہا تھا تو وہ اسے اسپتال میں کیوں نہیں داخل کردیتے۔ ولیم کہیں نظر نہیں آرہا تھا کہ وہ اس سے بات کرتی۔ میریان اسکول سے آکر سیدھی اس کے کمرے میں آئی۔ ایملی نے اس سے کہا۔ میریان تمہارے انکل نے بتایا تھا کہ اسپتال یہاں سے کافی دور ہے۔ ہاں مس ایملی۔ تو وہ اسپتال فون کرکے ایمبولینس کیوں نہیں منگوا لیتے ایمبولینس اس نے بمشکل دہرایا۔ مس ایملی یہ کیا چیز ہے یہ ایک کار ہوتی ہے جس میں مریضوں کو اسپتال لے جایا جاتا ہے، مجھ جیسے مریضوں کو۔ اوہ۔ اچھا۔ لیکن یہاں تو سب کا علاج ڈاکٹر صاحب ہی کرتے ہیں۔ وہ بہت قابل ہیں۔ یہاں ایسی کوئی گاڑی نہیں ہے۔ میریان نے بتایا۔ مگر فون تو کرسکتے ہیں ایملی نے بے حد پریشان ہوکر کہا۔ نہیں، یہاں کوئی فون نہیں۔ دوسرے شہر کے ہوٹل میں صرف ایک ہی فون ہے۔ مجھے صحیح طرح علم نہیں اس کے بارے میں۔ ایملی کے لیے یقین کرنا محال تھا کہ اس دور میں کوئی ایسا بھی پسماندہ علاقہ موجود ہے جہاں عام سہولتیں بھی موجود نہیں ہیں۔ وہ جو بات بھی کرتی ہے، یہ لوگ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتے یا پھر بتانا نہیں چاہتے۔ ولیم دوپہر کو اس کے کمرے میں آکر اس کا حال چال بڑی نرمی سے پوچھتا۔ وہ جیسے اس انتظار میں تھا کہ وہ جلد صحت یاب ہو اور اپنی ڈیوٹی سنبھالے۔ اس کے رویئے سے یہی اندازہ ہوتا تھا کہ وہ درحقیقت اسے ہائوس کیپر سمجھ رہا ہے جو اس کے بھائی نے دوسرے شہر سے بھیجی تھی۔ پانچویں دن ایملی اس قابل ہوئی کہ ان کے باورچی کا پکایا ہوا بدمزہ کھانا تھوڑی سی مقدار میں کھا سکے جس میں نہ کوئی مرچ مصالحہ تھا، نہ خوشبو، نہ ذائقہ بس جیسے تمام چیزوں کو ملا دیا گیا ہو۔ ایملی کی نقاہت کافی کم ہوگئی تھی۔ اس نے منہ ہاتھ دھو کر بالوں میں برش کیا تو اسے لگا جیسے وہ انسان کی جون میں آگئی ہے۔ وہ ولیم کی دستک کا انتظار کررہی تھی کہ اس سے کچھ سوال پوچھے۔ صاف اور سیدھے سوال۔ آخر وہ آگیا۔ اس نے ایک گہری نگاہ اس پر ڈالی اور بولا۔ مس ایملی آج تم کچھ بہتر معلوم ہورہی ہو۔ مسٹر ولیم میں کچھ اچھا محسوس کررہی ہوں۔ میں چاہتی ہوں کہ تم سے کچھ سوال پوچھوں۔ پلیز کیا تم اطمینان سے بیٹھ کر میری بات سنو گے ہاں ضرور۔ اس نے عدم دلچسپی سے کہا اور کرسی پر بیٹھ گیا۔ کیا تم نے اچھی طرح سے معلوم کرلیا ہے کہ کسی کو میری چیزیں تو نہیں ملیں۔ میرا پرس، میرا سوٹ کیس یا ایسی ہی کوئی چیز۔ نہیں کچھ نہیں ملا بالکل نہیں۔ ایملی کو چکر سے آنے لگے گویا وہ اپنی شناخت مکمل طور کھو چکی تھی۔ وہ کسی کو اپنے بارے میں کچھ نہیں بتا سکتی تھی۔ کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس کا کیا بنے گا۔ اس کے منہ سے غیر ارادی طور پر یہ الفاظ نکل رہے تھے۔ مجھے یہاں سے نکلنا ہوگا مجھے یہاں سے جانا ہوگا۔ مگر تم کہاں جائو گی وہ بولا۔ میری بات کا برا نہ ماننا تمہاری طبیعت ابھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہے، اسی لیے تمہارا سر چکراتا رہتا ہے۔ تمہیں آرام کرنا چاہیے۔ بہت جلد تم ٹھیک ہوجائو گی۔ کیا میں ٹھیک ہوجائوں گی ہاں تم ٹھیک ہوجائو گی۔ تم خود کو مصروف رکھو، میریان تمہیں کچھ کام بتا دے گی۔ میں ہائوس کیپر یا ملازمہ نہیں ہوں ولیم۔ وہ درشتی سے بولی۔ تو پھر تم کون ہو میں لون آفیسر ہوں۔ وہ اس طرح اس کی طرف دیکھنے لگا جیسے اس کی بات نہ سمجھا ہو۔ میں ایک بینک میں کام کرتی تھی۔ اچھا۔ اس نے سر ہلایا اور ایملی کو اس کے چہرے کے تاثرات سے اندازہ ہوا کہ جو لوگ بھی اس سے ملے تھے، وہ اسی طرح اس کی بات کا جواب دیتے تھے، جیسے اسے پاگل سمجھ رہے ہوں۔ ایملی اس سے بہت کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن سمجھ میں نہیں آتا تھا کہ اس کو اپنی بات کس طرح سمجھائے۔ بالآخر جو بات اسے پریشان کررہی تھی، وہ اس نے کہی۔ مسٹر ولیم کیا میں یہاں قیدی ہوں اوہ نہیں بالکل نہیں۔ تم قیدی کیوں ہوگی میں خود تمہیں یہاں لایا ہوں اور تم اس وقت تک یہاں رہ سکتی ہو جب تک تم صحت یاب نہیں ہوجاتیں۔ میں سمجھ رہا تھا کہ تم ہائوس کیپر ہو جسے میرے بھائی کلے نے یہاں بھیجا ہے۔ اگر تم ہائوس کیپر نہیں ہو تو ٹھیک ہے۔ تم جب چاہو، یہاں سے جاسکتی ہو لیکن فی الحال تمہاری صحت اس قابل نہیں ہے کہ تم کہیں جاسکو۔ اچھا جب میں صحت یاب ہوجائوں گی تو مجھے شہر لے جائو گے ایملی نے بتایا۔ یقینا میں تمہیں خود وہاں لے جائوں گا۔ اس نے اس طرح کہا کہ ایملی کو یقین آگیا۔ وہ بولی۔ شکریہ دراصل میرے لیے یہ سب کچھ نیا اور اجنبی ہے۔ شاید اسی لیے میں پریشان ہوجاتی ہوں۔ نہیں۔ شکریے کی ضرورت نہیں۔ وہ اٹھتے ہوئے بولا اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ ایملی بستر پر لیٹ گئی۔ وہ تھک گئی تھی لیکن پہلے کی نسبت کچھ مطمئن تھی۔ اس کے ذہن میں جن باتوں نے کھلبلی مچا رکھی تھی، ان کی تشفی ہوگئی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ جب وہ صحت یاب ہوکر اپنی منزل مقصود پر پہنچ جائے گی تو اپنی دوست کو اس علاقے کے بارے میں بتائے گی کہ وہاں لوگ کس طرح کی زندگی بسر کررہے ہیں۔ وہاں جاکر وہ اپنے کاغذات کی نقول نکلوائے گی اور بینک سے اپنے اکائونٹ کے بارے میں بات کرے گی۔ اس نے کمبل اپنے گرد اچھی طرح اوڑھتے ہوئے آنکھیں بند کرلیں اور یہ طے کرلیا کہ اسے جلد ازجلد صحت یاب ہونا ہے تاکہ اس جگہ سے نجات حاصل کرسکے۔ چند روز بعد ایملی کو محسوس ہونے لگا کہ وہ تندرست ہوچکی ہے۔ نقاہت اور کمزوری دور ہوگئی تھی۔ برف باری نے سردی میں شدید اضافہ کردیا تھا لیکن یہاں صرف ایک بڑا اسٹو تھا جسے صبح صبح باورچی روشن کردیتا تھا جس سے اردگرد کے کمرے گرم ہوجاتے تھے لیکن گھر کے باقی حصے ٹھنڈے رہتے تھے۔ ایملی کا ان عجیب و غریب لوگوں میں دل نہیں لگتا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ ولیم سے بات کرے کہ وہ اسے شہر چھوڑ آئے۔ اس شام بچے سونے کے لیے جا چکے تھے۔ ولیم پائپ پیتے ہوئے اخبار پڑھ رہا تھا۔ ایملی خود کوبہت تنہا اور اجنبی سا محسوس کررہی تھی۔ اسے نیند بھی نہیں آرہی تھی کہ جاکر سو جاتی۔ وہ لائونج میں آئی تو ولیم نے نگاہ اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور پھر اخبار کے مطالعے میں مشغول ہوگیا۔ ایملی بھی ایک نشست پر بیٹھ گئی اور اس نے ولیم کو مخاطب کیا۔ کیا کوئی خاص خبر ہے میں اس بیماری کی وجہ سے دنیا سے بالکل کٹ کر رہ گئی ہوں۔ ولیم نے گہری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور بے نیازی سے بولا۔ نہیں، میرا خیال ہے کہ ایسی کوئی خبر نہیں جو تمہاری دلچسپی کی ہو۔ ایملی کو غصہ تو بہت آیا لیکن اس نے ولیم کو کوئی جواب نہیں دیا۔ اسے تسلی تھی کہ وہ بہت جلد یہاں سے جانے والی ہے، اس لیے اسے اس مغرور شخص سے خواہ مخواہ بحث کرنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ ایک خوبصورت اور وجیہ شخص تھا۔ اس کی نیلی آنکھیں سمندر کی گہرائی کی طرح نامعلوم تھیں۔ اس کا لیے دیئے رہنے والا پُرغرور رویہ اسے بالکل پسند نہیں تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اسے بلکہ تمام خواتین کو ایک کمتر مخلوق سمجھتا ہے۔ ایملی کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ دوبارہ تہذیب یافتہ دنیا میں جانا کتنا اچھا لگے گا۔ موسم بدل رہا تھا۔ برف کا طوفان تھم چکا تھا۔ بادلوں سے ستارے جھانک رہے تھے۔ ان کے سنہری چمکتے چہرے اسے اچھے دن کی نوید سنا رہے تھے۔ اس نے رخ پھیر کر ولیم کی طرف دیکھا اور اس کے دل کی دھڑکنیں یکلخت بے ترتیب ہونے لگیں۔ اخبار کے صفحات کے اوپر سے اس کی گہری نیلی آنکھیں اسے ہی دیکھ رہی تھیں۔ لمحے بھر کو دونوں کی نگاہیں ایک دوسرے سے الجھیں۔ ایملی کو یوں لگا جیسے سمندر کی گہرائیوں کی طرح ان آنکھوں کی نیلاہٹوں کی تہہ تک پہنچنا ممکن نہیں لیکن یہ نگاہیں بعض اوقات روح کی گہرائیوں تک پہنچ جاتیں تو جذبات میں کچھ عجیب سی ہلچل مچ جاتی تھی۔ مگر ایملی نے پکا فیصلہ کرلیا تھا کہ وہ بہت جلد یہاں سے رخصت ہوجائے گی اور ناول کے کسی کردار کی طرح ولیم کو یاد کیا کرے گی جو بعض اوقات ذہن پر گہرا اثر مرتب کرتے ہیں۔ اسی وقت ولیم نے اخبار کو تہہ کرکے قریبی تپائی پر رکھ دیا۔ ایملی نے اس کی طرف دیکھا اور محتاط سے لہجے میں پوچھا۔ کیا میں اخبار دیکھ سکتی ہوں ہاں۔ اس نے اخبار اٹھا کر دیا اور بڑبڑایا۔ عجیب ہے یہ بات کہ اب عورتیں بھی سیاست اور خبروں میں دلچسپی لینے لگی ہیں۔ ایملی نے سنی اَن سنی کردی اور اخبار کے صفحات پر نگاہیں دوڑانے لگی۔ ساری خبریں بہت پرانی محسوس ہورہی تھیں۔ اس نے اخبار کا نام دیکھنے کے لیے اوپر نظر ڈالی۔ اخبار کے نام کے ساتھ لکھی تاریخ مارچ اٹھارہ سو ترانوے تھی۔ یہ کیا وہ حیرت سے ساکت ہوگئی۔ اس نے کئی بار تاریخ پر نگاہ ڈالی، پھر اپنے چاروں طرف دیکھا۔ نہ ٹی وی، نہ نہ گیس، مٹی کے تیل کے جلتے ہوئے لیمپ۔ غیر ارادی طور پر اس کی نگاہ ولیم پر پڑی اور اسے اس کا حلیہ، اس کا لباس، اس کے بالوں کا انداز سبھی کچھ بہت قدیم معلوم ہوا۔ اپنی بیماری کی وجہ سے اس نے اس طرف توجہ ہی نہیں دی تھی۔ کوئی خاص بات ہے کیا ولیم نے ابرو اچکا کر پوچھا۔ طبیعت تو ٹھیک ہے تمہاری طبیعت۔ ایملی نے دہرایا۔ اس کی ذہنی کیفیت عجیب سی ہورہی تھی۔ اس کو ہنسی بھی آرہی تھی اور ہسٹریائی انداز میں اس کا دل چیخنے چلاّنے کو بھی چاہ رہا تھا۔ یہ سب کیا تھا کیوں تھا کس طرح ہوگیا تھا ان سب باتوں کا نہ کوئی جواب تھا، نہ جواز اور ولیم بدستور فکرمندی سے اس کے جواب کے انتظار میں تھا۔ شاید شاید واقعی میری طبیعت خراب ہوجائے گی۔ ایملی نے سر جھٹک کر کہا اور اپنے کمرے میں آگئی۔ ٭ ٭ ٭ کیا یہ کوئی مذاق تھا، کوئی غلط فہمی تھی۔ آخر کیا تھا ایملی اپنے بیڈ پر لیٹی ہوئی کھڑکی سے باہر دیکھ رہی تھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ ایسا کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ ایک صدی سے بھی زیادہ پیچھے چلی جائے۔ اسے ایسا لگتا تھا کہ یہ ایسے لوگوں کی بستی تھی جو کچھ نیا کرنے کے شوق میں پچھلی صدی کے مطابق زندگی گزار رہے تھے۔ جس طرح وہ شہر کے جھمیلوں سے اکتا کر پُرسکون زندگی کی آرزو میں گائوں کی طرف جارہی تھی۔ دنیا میں احمقوں کی تو کمی نہیں۔ جس کا جو دل چاہتا ہے، وہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتا ہے۔ اس بات سے اسے قدرے ڈھارس ہوئی۔ یقیناً یہ بستی کسی منچلے نے بسائی تھی۔ سیاحوں کا شوق بڑھانے کے لیے کہ وہ ایک صدی پہلے کی تہذیب میں رہ کر دیکھیں لیکن وہ یہاں اب زیادہ نہیں رہنا چاہتی تھی۔ اسے سکون کی تلاش تھی۔ لیکن وہ ماڈرن زمانے کی سہولتوں سے خود کو محروم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ نہ ہی وہ اپنی زندگی کو مشکل بنانا چاہتی تھی۔ وہ سو کر اٹھی تو سورج نکل آیا تھا۔ اس کی سنہری کرنیں جمی ہوئی برف سے منعکس ہوکر بہت چمکیلی ہوگئی تھیں۔ وہ تازہ دم ہوکر نیچے آئی تو ولیم ناشتہ کررہا تھا۔ اسے دیکھتے ہی وہ بولا۔ گڈ مارننگ مس ایملی، آج تم کافی بہتر معلوم ہورہی ہو۔ گڈ مارننگ میں ٹھیک ہوں۔ اگر تم فارغ ہو تو مجھے شہر چھوڑ آنا۔ میں بہت بہتر محسوس کررہی ہوں اور سفر کرنے کے قابل ہوں۔ وہ اپنے دونوں ہاتھ کافی کے ایک بڑے سے مگ کے گرد لپیٹے غور سے اس کی جانب دیکھ رہا تھا جیسے اس کی حالت کو جانچ رہا ہو۔ ہاں ضرور میں آج تمہیں لے جائوں گا۔ ایملی نے اطمینان کا سانس لیا۔ اوہ بہت شکریہ۔ میں بہت ممنون ہوں گی۔ جیسے ہی میرا بینک مجھے میری رقم بھجوا دے گا، میں تمہیں ادائیگی کردوں گی۔ نہیں۔ اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ انسانیت کے ناتے یہ میرا فرض ہے۔ وہ بولا۔ اور یہ میرا فرض ہے۔ مجھے یہاں رہتے ہوئے ایک ہفتے سے کچھ اوپر ہی ہوگیا ہے۔ میرا تمام خرچ تم اٹھا رہے ہو۔ تم خواہ مخواہ رقم کی بات کررہی ہو۔ تم ایک حادثے کا شکار ہوئی تھیں۔ جو کوئی بھی تمہاری مدد کرتا، اپنا فرض سمجھ کر کرتا۔ بھلا اس میں رقم کا، پیسے کا کیا دخل ہے۔ ایملی کچھ نادم سی ہوگئی۔ ہاں تم ٹھیک کہتے ہو۔ وہ کافی کپ میں انڈیلتے ہوئے بولی۔ کام کرنے والے لوگ آجائیں تو میں انہیں کام بتا کر فارغ ہوجائوں گا۔ پھر چلیں گے۔ وہ اپنی کرسی دھکیل کر اٹھتے ہوئے بولا۔ ٹھیک ہے، جب بھی تم سہولت سے چل سکو۔ ایملی نے خوش ہوکر کہا۔ باہر سردی بہت ہے۔ تمہیں کوئی مسئلہ تو نہیں ہوگا۔ تم ابھی ابھی بیماری سے اٹھی ہو۔ اس نے اس طرح کہا کہ جیسے اس کی صحت کا مسئلہ اس کے لیے بہت اہمیت کا حامل ہو۔ نہیں نہیں میں ٹھیک ہوں بالکل۔ ایملی نے خود اعتمادی سے کہا۔ ٹھیک ہے۔ پھر میں چلتا ہوں۔ میں تیار رہوں گی۔ ایملی نے مسکرا کر جواب دیا۔ وہ چلا گیا تو کچھ ہی دیر بعد تینوں بچے شور مچاتے دوڑتے، بھاگتے کچن میں آگئے۔ باورچی نے ان کے لیے ناشتہ میز پر لگا دیا تھا۔ ایملی نے دیکھا کہ میریان کی چوٹیاں بہت الجھی ہوئی تھیں۔ ان سے بالوں کی لٹیں باہر نکلی ہوئی تھیں۔ ان بچوں کے والدین نہیں تھے، اسی لیے اس بچی کی دیکھ بھال ٹھیک طرح سے نہیں ہورہی تھی۔ ایملی سے رہا نہیں گیا۔ اس نے کہا۔ میریان تم نے اپنے بال برش نہیں کیے میریان اپنی چوٹی کو ہاتھ سے ٹٹولتی ہوئی بولی۔ مجھے چوٹی بنانی نہیں آتی۔ جب میں چرچ جاتی ہوں تو کوئی آنٹی میرے بال بنا دیتی ہیں۔ لیکن اس اتوار کو وہ نہیں آئی تھیں۔ تو میریان تم اپنے بال صرف ہفتے میں ایک بار بناتی ہو میری ماما ہر روز میرے بال بناتی تھیں۔ وہ بولی۔ اس کی پیاری آنکھوں میں اداسی تھی۔ تم ناشتہ کرلو تو میں تمہارے بال بنا دوں گی۔ ایملی نے نرمی سے کہا۔ میریان نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کے چہرے پر حیرت اور خوشی تھی۔ ناشتے کے بعد ایملی نے لڑکوں کا منہ ہاتھ دھلوایا۔ میریان کے بال برش کرکے اس کی چوٹیاں گوندھیں۔ وہ کھیلنے چلے گئے تو ایملی نے اپنے لئے تازہ کافی کا ایک مگ بنایا اور پینے لگی۔ اس کا سر اب بھی کبھی کبھی چکراتا تھا۔ اس کی کمزوری پوری طرح سے دور نہیں ہوئی تھی لیکن وہ پھر بھی جانے کے لیے تیار تھی۔ وہ اس ماحول سے نکلنا چاہتی تھی۔ شہر میں بہتر سہولتیں ہیں، وہ کسی اچھے ڈاکٹر سے معائنہ کروائے گی۔ ولیم اس وقت واپس آیا جب ایملی انتظار کرکرکے نڈھال ہوچکی تھی۔ اسے غصہ آرہا تھا کہ ان لوگوں کو وقت کی قدر نہیں ہے۔ نہ یہاں کسی کے پاس گھڑی یا کلاک تھا۔ صرف ولیم کے پاس ایک جیبی گھڑی تھی لیکن وہ اندر سے کیسی تھی، ایملی کو کچھ اندازہ نہیں تھا۔ ولیم قریب آیا اور اپنا ہیٹ اپنی ٹانگ پر مارتے ہوئے بولا۔ ہاں تو پھرتمہارا پروگرام ہے شہر جانے کا ایملی نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ کہیں تم نے مجھے چھوڑنے کا ارادہ ملتوی تو نہیں کردیا۔ میں آج ہی جائوں گی۔ ہاں۔ کیوں نہیں محترمہ۔ اگر آپ جانا چاہتی ہیں تو یہ خادم حاضر ہے۔ میں تیار ہوں بالکل۔ ایملی نے اپنا اشتیاق چھپاتے ہوئے کہا۔ ولیم کو گھوڑا گاڑی تیار کرنے میں آدھ گھنٹہ لگ گیا۔ اس نے ایملی کے لیے ایک کوٹ اور ہیٹ کا بندوبست کیا۔ یہاں خواتین اپنا سر ڈھانپے بغیر باہر نہیں نکل سکتی تھیں۔ جب ایملی کوٹ اور ہیٹ پہن رہی تھی تو ولیم بڑے انہماک سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ لیکن جیسے ہی ایملی نے اس کی طرف دیکھا، اس نے نگاہیں چُرا لیں اور تیز قدموں سے باہر آگیا۔ بگھی کی سیٹ بہت اونچی تھی۔ اس نے سوار ہونے کے لیے ایملی کی مدد کی۔ ایملی اپنی تہذیب یافتہ دنیا میں جانے کے لیے بے تاب تھی لیکن ولیم ایک مرتبہ پھر اندر چلا گیا تھا۔ کچھ دیر بعد وہ پلٹا اور گاڑی پر سوار ہوگیا۔ اس نے بازو پر کچھ ڈال رکھا تھا۔ وہ اس کی طرف پلٹ کر بولا۔ سردی بہت ہے، اس لیے میں تمہارے لیے اپنا کوٹ لے آیا ہوں۔ یہ تمہیں خوب گرم رکھے گا۔ اس نے وہ کوٹ ایملی کے شانے پر ڈال دیا۔ ایملی نے ناک سکوڑی۔ یہ بھاری کوٹ جس سے تمباکو، گھوڑوں اور ولیم کی ملی جلی خوشبو اور بدبو آرہی تھی مگر مجبوراً اسے یہ عجیب نوازش قبول کرنی پڑی تھی حالانکہ سورج نکلا ہوا تھا اور دھوپ کی ہلکی ہلکی سی تمازت اچھی لگ رہی تھی۔ جاری ہے
null
null
null
null
423
https://www.urduzone.net/kash-usay-dost-na-banati-teen-auratien-teen-kahaniyan/
دوستی ایک پیارا رشتہ کہلاتا ہے۔ کہتے ہیں وہ لوگ بدنصیب ہوتے ہیں جن کا کوئی دوست نہیں ہوتا لیکن میرا تجربہ مختلف ہے۔ میں کہوں گی کہ دوستی سے بڑھ کر کوئی عذاب نہیں۔ ایک دوست بنائی تھی جس نے مجھے ناگن بن کر ڈس لیا۔ آج بھی اس ناگن کا زہر میری روح میں درد کے الائو دہکاتا رہتا ہے۔ وہ میری اسکول میں دوست بنی۔ اس کا نام فائزہ تھا۔ بڑی چرب زبان اور ہر دم جھوٹی محبت جتلانے والی۔ اس کو خط لکھنے کا شوق تھا۔ وہ روز میرے نام ایک خط لکھ کر دیتی۔ کہتی گھر جاکر پڑھ لینا۔ ان خطوط میں میری تعریفیں اور اشعار درج ہوتے تھے اور میں انہیں اس کی محبت کے اظہار کا ذریعہ سمجھ کر خوش ہوتی تھی۔ ان دنوں ہم نویں میں پڑھتے تھے۔ فائزہ کا گھر ہمارے ہی محلے میں تھا۔ اکٹھے اسکول آتے جاتے، غرض ہماری دوستی کلاس روم تک محدود نہ تھی، ایک دوسرے کے گھروں میں بھی آنا جانا تھا۔ میرے والدین وفات پا چکے تھے۔ باجی ہمارے پاس رہتی تھیں۔ میری خاطر وہ اور ان کے شوہر ہمارے گھر پر رہائش پذیر تھے۔ میرا ایک بڑا بھائی تھا، وہ ملازمت کرتے تھے۔ بھائی جان کی خواہش تھی کہ میں پڑھ لکھ کر ڈاکٹر بن جائوں لیکن باجی نے ان کو سمجھایا کہ کوثر کو زیادہ پڑھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ تم لوگوں کی خاطر میں نے اپنا گھر چھوڑ کر یہاں سکونت اختیار کی ہے۔ تمہاری اور کوثر کی شادی ہوجائے تو میں سسرال جاکر رہوں۔ ساس بوڑھی ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ ہم ان کے پاس رہیں۔ غرض کہہ سن کر باجی نے بھائی جان کو رضامند کرلیا۔ جب میں نے نویں کا امتحان دیا تو انہوں نے میری منگنی اپنے دیور سے کردی۔ باجی کا ارادہ تھا کہ میٹرک کے بعد وہ میری شادی کردیں گی اور ہم دونوں بہنیں آئندہ ساتھ رہیں گی۔ میرے منگیتر اپنے والدین کے ساتھ ساہیوال میں رہتے تھے جبکہ باجی اور بہنوئی ہمارے پاس لاہور میں رہائش پذیر تھے۔ چونکہ سلیم بھائی کی ملازمت لاہور میں تھی تبھی باجی کا ہمارے پاس رہنا ممکن ہوا تھا۔ باجی مجھے فائزہ کے گھر جانے سے روکتی تھیں۔ کہتی تھیں۔ اس کے بھائی جوان ہیں، آئے دن وہاں جانا درست نہیں۔ تمہاری منگنی ہوچکی ہے۔ ساس کو پتا چلا تو وہ اعتراض کریں گی۔ فائزہ تقریباً روز ہمارے گھر آجاتی۔ باجی اسے آنے سے منع نہیں کرتی تھیں لیکن جب وہ مجھ کو لے جانے پر اصرار کرتی تب ضرور روکتیں۔ فائزہ سے بھی کہتیں۔ تم آکر مل لیا کرو، اسے میرے شوہر کہیں جانے کی اجازت نہیں دیتے کیونکہ کوثر کی منگنی ان کے چھوٹے بھائی سے ہوگئی ہے، یہ اب ان کے گھر کی بہو بننے جارہی ہے۔ یہ بات فائزہ کو بری لگتی لیکن خاموش رہتی البتہ مجھے ضرور بھڑکاتی کہ آج تم اپنے باپ کے گھر ہو تو تمہارا بہنوئی روک ٹوک کرتا ہے۔ کل جب ان کے گھر کی بہو بن جائو گی تو نجانے یہ لوگ کتنی پابندیاں لگائیں گے۔ میں اپنے منگیتر کو دل سے پسند کرتی تھی، اس لئے فائزہ کی بات ایک کان سے سن کر دوسرے کان سے اُڑا دیتی تھی۔ بے شک مجھے اس کی دوستی عزیز تھی لیکن اپنے منگیتر سے زیادہ نہیں تاہم اسے خوش کرنے کے لیے میں اس کی ہاں میں ہاں ملا دیتی۔ ایک روز فائزہ نے مذاق مذاق میں مجھ سے کہا کہ کوثر تم مجھے اتنی اچھی لگتی ہو کہ جی چاہتا ہے کہ تم میرے بھائی سے شادی کرلو تاکہ میری بھابی بن جائو اور ہمیشہ میرے ساتھ رہو۔ جب بھابی بن جائو گی پھر کوئی تمہیں جدا نہ کرسکے گا۔ فائزہ پلیز ایسا مذاق مت کرو جو ہماری دوستی پر شعلہ بن کر گرے۔ جانتی ہو کہ میری منگنی ہوچکی ہے پھر ایسی بات کیا معنی مجھے سنجیدہ دیکھ کر وہ ٹھنڈی آہ بھر کر رہ جاتی۔ کچھ دن گزرے، فائزہ نے ایک بار پھر وہی بات دہرائی۔ بولی۔ کاش تم کسی کے دل میں جھانک سکتیں۔ کاش تمہیں علم ہوجائے کوئی تم پر کتنا مرتا ہے۔ کیسی فضول باتیں کرنے لگی ہو فائزہ سمجھ میں نہیں آتا کہ تمہیں کیا ہوگیا ہے مجھے نہیں میرے بھائی جان کو کچھ ہوا ہے۔ وہ تمہارے لیے ٹھنڈی آہیں بھرتے ہیں۔ انہیں تم سے عشق ہوگیا ہے۔ ہوگیا ہے تو ہو، میں کیا کروں تم جانتی ہو کہ میری منگنی ہوچکی ہے۔ جانتی ہوں لیکن وہ میرا سگا بھائی ہے۔ مجھ سے ان کی حالت دیکھی نہیں جاتی اور منگنی ہی تو ہوئی ہے، ٹوٹ بھی سکتی ہے۔ کان کھول کر سن لو، یہ منگنی میری پسند اور رضا سے ہوئی ہے۔ آئندہ ایسی بات مت کرنا ورنہ دوستی ختم کردوں گی۔ یہ سن کر وہ روٹھ کر چلی گئی۔ جانتی تھی وہ بری نہیں ہے، مجھ سے بہت پیار کرتی ہے۔ دل بے چین رہنے لگا۔ میں بھی اس کے بغیر نہیں رہ سکتی تھی۔ میٹرک کے امتحان قریب تھے۔ امتحان کی تیاری بھی نہ ہو پا رہی تھی۔ ہمیشہ ساتھ بیٹھ کر امتحان کی تیاری کرتے تھے۔ اب مجھے اسے ہر حال میں منانا تھا۔ میں نے ایک رقعہ لکھ کر اس کے گھر بھجوا دیا کہ فائزہ ناراضی چھوڑو اور آجائو، میں تمہارے لیے بہت اداس ہوں۔ جواب میں میرا بھائی رقعہ لے آیا جو اسے فائزہ نے دیا تھا۔ میں سمجھی کہ فائزہ نے میرے خط کا جواب دیا ہے۔ بے قراری سے کھول کر پڑھا۔ تحریر فائزہ کی نہ تھی۔ خط پڑھ کر حیران ہوگئی۔ یہ تحریر اس کے بھائی کی تھی اور مجھ سے شادی کی درخواست کی تھی۔ سخت غصہ آیا۔ میں نے کچن میں جاکر خط جلتے چولہے پر رکھ دیا۔ شام کو وہ خود آگئی۔ میرا موڈ خراب دیکھا۔ گلے میں بانہیں ڈال دیں، معافی مانگنے لگی۔ کوثر مجھ سے ناراض مت ہونا۔ وہ خط میرے بھائی نے بھیج دیا۔ مجھے نہیں بتایا ورنہ میں یہ تحریر تم تک آنے نہ دیتی۔ یقین جانو میرا کوئی قصور نہیں۔ بھائی جان کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ وہ بڑے ہیں، ان سے کیسے مقابلہ کروں منع کیا ہے اگر آئندہ انہوں نے ایسا کچھ کیا تو امی سے ان کی شکایت کردوں گی۔ خدارا معاف کردو۔ فائزہ کی منت سماجت سے میرا دل پسیج گیا۔ میں نے اسے معاف کردیا اور میں اس کے گھر چلی گئی۔ باتوں باتوں میں اس کی امی نے پوچھا۔ کیا واقعی منگنی تمہاری مرضی سے ہوئی ہے آنٹی سے حجاب آتا تھا لہٰذا خاموش رہی۔ وہ گویا ہوئیں۔ تمہاری والدہ وفات پا چکی ہیں، آج وہ ہوتیں تو میں ان سے تمہارے لیے رشتے کی بات ضرور کرتی۔ مجھے آنٹی کا اس طرح کہنا برا لگا جبکہ وہ میری منگنی کے بارے میں اچھی طرح جانتی تھیں۔ کیسے ڈھیٹ لوگ ہیں، ایک بار منع کردیا، باربار پھر وہی بات دہرا رہے ہیں۔ میں آنٹی کا لحاظ کرتی تھی جی تو چاہا کھری کھری سنا دوں لیکن پھر ان کی بزرگی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے خاموش ہوگئی۔ میری خاموشی سے جانے انہوں نے کیا مطلب اخذ کیا۔ ایک روز بعد ہمارے گھر آکر باجی سے پھر وہی معاملہ چھیڑ دیا۔ باجی نے کہا۔ آنٹی جی میرے دیور سے کوثر کی منگنی ہوچکی ہے اور یہ میری سسرال کا معاملہ ہے۔ منگنی نہیں ٹوٹ سکتی، آپ کوثر کا خیال دل سے نکال دیں۔ جانتی ہوں بیٹی منع بھی کیا ہے راشد کو مگر اس کی سمجھ میں ہماری کوئی بات نہیں آتی۔ اسی نے اصرار کرکے تمہارے پاس بھیجا ہے کہ ایک بار اور بات کرکے دیکھوں کیا کروں۔ میں ممتا سے مجبور ہوں، تم اس بات کا ہرگز برا مت ماننا۔ یہ لوگ ہمارے برسوں کے پڑوسی تھے۔ باجی نے درگزر کرتے ہوئے کہا۔ کوئی بات نہیں خالہ جی میں نے برا نہیں مانا۔ ہماری مجبوری ہے، رشتہ طے ہوچکا ہے ورنہ آپ سے زیادہ کون ہمارے لیے اچھا تھا۔ بس یہ قسمت کے معاملات ہیں، مان لیں۔ باجی نے چائے وغیرہ سے تواضع کرکے آنٹی کو عزت و احترام سے رخصت کیا لیکن کچھ لوگوں کو عزت راس نہیں آتی۔ ہمارا خیال تھا کہ بات ان کی سمجھ میں آگئی ہوگی مگر کہاں ان کی ڈھٹائی تو جیسے ضرب المثل بنتی جارہی تھی۔ ایک روز بھائی جان اپنے آفس میں تھے کہ فائزہ کا بھائی وہاں پہنچ گیا اور بولا۔ آپ سے ایک ضروری بات کرنی تھی۔ بھائی نے احترام سے بٹھایا اور چائے وغیرہ پیش کی۔ دوچار اِدھر اُدھر کی باتیں کرنے کے بعد فائزہ کا بھائی اپنے مطلب پر آگیا۔ کہنے لگا۔ آپ کے والدین حیات نہیں ورنہ انہی سے بات ہوتی۔ خیر آپ بھی بڑے بھائی ہیں، مناسب سمجھا آپ سے بات کرلوں۔ میں کوثر کو بچپن سے پسند کرتا ہوں اور آپ کی بہن سے شادی کا خواہاں ہوں۔ میری بہن کی منگنی ہوچکی ہے لہٰذا معذرت خواہ ہوں۔ انہوں نے درشتی اور رکھائی سے کہا۔ دوبارہ یہاں آنے کی زحمت نہ کرنا۔ بھائی نے گھر آکر باجی کو احوال بتایا تو باجی نے کہا کہ عجب لوگ ہیں، کئی بار ان کو سمجھایا ہے مگر یہ باز نہیں آرہے، اب ان کا کچھ بندوبست کرنا پڑے گا ورنہ یہ ایسے پیچھا نہیں چھوڑیں گے۔ کوثر میٹرک کا امتحان دے لے اسے فوراً اس کے گھر کا کرتے ہیں۔ یہی بہتر طریقہ ہے ان لوگوں سے جان چھڑانے کا۔ میں میٹرک کا آخری پرچہ دے کر آئی تو پتا چلا کہ فائزہ کی امی اور بھائی ہمارے گھر کے ڈرائنگ روم میں بیٹھے ہیں اور بھائی جان کی آمد کا انتظار کررہے ہیں۔ بہنوئی نے بہت ٹالنے کی کوشش کی، پَر وہ نہ ٹلے۔ یہاں تک کہ بھائی جان آگئے۔ انہوں نے اس بار ماں، بیٹے کی اچھی طرح بے عزتی کی اور گھر سے نکل جانے کا کہا۔ ارشد کو بہت غصہ آیا۔ وہ بولا۔ شادی تو میں کوثر سے کرکے رہوں گا۔ دیکھتا ہوں کیسے کرتے ہیں آپ کسی اور سے اس کی شادی اس پر میرے بھائی کو بھی غصہ آگیا۔ انہوں نے طیش میں آکر اسے نہ صرف تھپڑ رسید کیا بلکہ دھکے دے کر گھر سے نکال دیا۔ وہ جاتے ہوئے بولا۔ بدلہ نہ لیا تو ارشد نام نہیں۔ میٹرک کے پرچے دے چکی تھی۔ باجی اور بھائی نے فوراً میری شادی کی تاریخ رکھ دی۔ میرا بیاہ کرنے سبھی ساہیوال آگئے۔ ساہیوال میں ہی میری شادی ہوئی۔ مجھے رخصت کیا اور خود وہ واپس گھر لوٹ گئے۔ جب فائزہ کے گھر والوں کو پتا چلا کہ کوثر کی شادی ہوگئی ہے تو وہ لوگ سکتے میں آگئے۔ ہم سمجھ رہے تھے کہ اب ان سے پیچھا چھوٹ جائے گا مگر وہ تو عجب جنونی لوگ تھے۔ ارشد نے میرے شوہر کے نام خط لکھنے شروع کردیئے کہ تم نے کوثر سے شادی کرکے اچھا نہیں کیا۔ میری محبوبہ کو طلاق دے دو ورنہ مجھ سے برا کوئی نہ ہوگا چین سے زندگی بسر نہ کرنے دوں گا۔ پہلے تو اس بات کو سنجیدگی سے نہ لیا اور ان خطوط کو کسی بدخواہ کی حرکت سمجھا مگر یہ سلسلہ بند نہ ہوا تو ایک روز انہوں نے مجھ سے کہا۔ تمہارے محلے کا کوئی آدمی مجھے یہ خطوط لکھتا ہے۔ ذرا دیکھو۔ میں نے خط پڑھے تو پریشان ہوگئی۔ ان کو یقین دلایا کہ خدا گواہ ہے میرا کوئی قصور نہیں، میں بے گناہ ہوں۔ پھر ساری حقیقت ان کے گوش گزار کردی۔ انہوں نے مجھ سے کچھ نہ کہا۔ تمام خطوط جو خرافات سے بھرے تھے، لے کر میرے بھائی کے پاس چلے گئے اور ان کو تھما کر بولے ان کو پڑھیے اور جو مناسب لگے، اس مسئلہ کا حل نکالیے۔ بھائی نے خط پڑھے تو ان کا چہرہ متغیر ہوگیا۔ وہ غصے میں آپے سے باہر ہوگئے اور گھر سے باہر نکل گئے۔ کوئی نہ سمجھ پایا کہ کیوں گئے ہیں اور کہاں گئے ہیں۔ میرے شوہر نے قیاس کیا غالباً وہ ارشد سے بازپرس کرنے گئے ہیں تو وہ بھی ان کے پیچھے باہر چلے گئے۔ سامنے میدان تھا جہاں ارشد ورزش کیا کرتا تھا۔ اس وقت بھی وہ ورزش کررہا تھا کہ بھائی اس کے سر پر پہنچ گئے اور اسے للکارا۔ بے غیرت یہ سب کیا ہے کیا تو پاگل ہے جو ایسی حرکتوں پر اتر آیا ہے میں پاگل نہیں بلکہ تیری بہن کا عاشق ہوں اور بے غیرت میں نہیں، تو ہے جو میری محبوبہ کسی اور کو سونپ دی ہے۔ میں اسے حاصل کرکے رہوں گا۔ اتنا سننا بھائی کے لیے قیامت سے کم نہ تھا۔ وہ ارشد کی طرف بڑھے۔ اس سے پہلے کہ میرے شوہر نزدیک پہنچ کر ان کے درمیان آجاتے، ارشد نے جیب سے چھرا نکال لیا اور وہ میرے بھائی کے پہلو میں گھونپنے ہی والا تھا کہ میرے سرتاج نے لات مار کر اسے زمین پر گرا دیا۔ اس اثنا میں میرے بھائی کو اس کے ہاتھ سے چھرا چھیننے کا موقع مل گیا۔ چھینا جھپٹی میں چھرے کی نوک ارشد کے پہلو میں جا لگی۔ خون کا فوارہ اس کے بدن سے پھوٹ پڑا، زمین سرخ ہوگئی۔ جو نوجوان میدان میں کرکٹ کھیل رہے تھے، وہ دوڑے آئے اور پھر لوگوں کا ہجوم جمع ہوگیا۔ انہوں نے بھائی کو پکڑ لیا اور پولیس اسٹیشن لے گئے۔ اس ناگہانی آفت کے لیے کوئی تیار نہ تھا۔ پھر وہ ہوگیا جو ہم نے کبھی تصور بھی نہ کیا تھا۔ بھائی کے ہاتھ میں خون آلود چھرا ہونے کی وجہ سے لوگ عینی شاہدین بن گئے۔ جو خطوط زمین پر پڑے تھے، وہ بھی لوگوں نے اکٹھے کرکے پولیس کے حوالے کردیئے۔ میرے بھائی پر ارشد کے قتل کا کیس چلا، انہیں عمر قید ہوگئی۔ اگر یہ خطوط پولیس کے ہاتھوں تک نہ پہنچتے تو شاید عمر قید کی بجائے سزائے موت ہوجاتی۔ وقت برا ہو کہ بھلا، گزر ہی جاتا ہے۔ جس دن بھائی کی سزائے عمر قید ختم ہوئی، وہ چھوٹ کر آئے تھے، ستّر برس کے بوڑھے بابا لگ رہے تھے۔ اس دن میں اور باجی پھوٹ پھوٹ کر روئی تھیں کہ جس بھائی کے سر پر سہرا سجانے کی آرزو تھی، ان کو حالات نے قاتل بنا کر بڑھاپے کی دہلیز کی طرف دھکیل دیا تھا اور ایسا فائزہ کی دوستی کے کارن ہوا تھا۔ اے کاش میں اسے دوست نہ بناتی۔ ک لاہور
null
null
null
null
424
https://www.urduzone.net/hazrat-sachal-sarmat-complete-urdu-story/
ولادت ھ درازن خیرپور وفات ھ درازن آپ کا خاندانی نام عبدالوہاب تھا مگر سچل سرمست کے نام سے شہرتِ دوام حاصل کی۔ والدِ محترم کا اسمِ گرامی میاں صلاح الدین تھا۔ ویں پشت میں آپ کا سلسلۂ نسب حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ سے مل جاتا ہے۔ حضرت سچل سرمست کا شمار سندھ کے مشہور صوفیائے کرام میں ہوتا ہے۔ آپ کو سندھی زبان کے علاوہ عربی، فارسی، ہندی اور پنجابی زبانوں پر پورا عبور حاصل تھا۔ آپ کے ارشادات و ملفوظات شاعری کی صورت میں آج بھی محفوظ ہیں۔ ٭ ٭ ٭ یہ تیرہویں صدی ہجری کے اوائل کا واقعہ ہے۔ اس وقت ریاست خیرپور کا حاکم میر رستم علی خان تھا۔ والیٔ خیرپور کی زندگی عیش و سکون میں گزر رہی تھی کہ اچانک اس کا بڑا بیٹا محمد حسین بیمار ہوگیا۔ شروع میں تو یہی سمجھا گیا کہ یہ ایک عام سی بیماری ہے۔ ولی عہد سلطنت چند روز میں صحت یاب ہوجائے گا مگر جب مرض نے طول کھینچا تو میر رستم علی خان کو فکر لاحق ہوئی۔ اس نے دربار کے طبیب خاص کو طلب کیا۔ سرکار پریشانی کی کوئی بات نہیں۔ طویل معائنے کے بعد درباری طبیب نے عرض کیا۔ مرض کی تشخیص ہوگئی ہے۔ میری تجویز کردہ دوائوں سے شہزادہ چند دنوں میں شفایاب ہو جائے گا۔ طبیب خاص کی پُریقین گفتگو سن کر حاکم خیرپور میر رستم علی خان مطمئن ہوگیا۔ پھر جب طبیبِ خاص کی دوا شروع کی گئی تو برائے نام بھی افاقہ نہ ہو سکا بلکہ مرض بڑھتا چلا گیا۔ بیٹے کی محبت نے میر رستم علی خان کو اس قدر بے قرار کردیا کہ والیٔ خیرپور نے سندھ اور پنجاب کے ان شہروں کی طرف اپنے شہسوار دوڑا دیئے جہاں نامور طبیب موجود تھے۔ چند روز میں کئی طبیبانِ حاذق خیرپور پہنچ گئے۔ اتنے عرصے میں میر محمد حسین بہت لاغر ہو چکا تھا۔ ماہر اور تجربہ کار حکیموں نے ولی عہد سلطنت کا معائنہ کیا اور مبہم لہجے میں مایوسی کا اظہار کیا۔ انسانی علم کی حدیں ختم ہوگئیں اور جڑی بوٹیاں اپنا اثر کھو چکیں۔ اب شہزادے کو دوائوں سے زیادہ دُعائوں کی ضرورت ہے۔ یہ کہہ کر طبیبوں کی جماعت چلی گئی۔ میر رستم علی خان تمام تر وسائل کے باوجود اپنے بیٹے کا علاج کرنے سے قاصر رہا۔ حویلی ماتم کدہ بنی ہوئی تھی اور ہر مکین سوگوار تھا۔ اس کرب ناک فضا میں ایک خدمت گار نوید جانفزا لے کر آیا۔ سرکار آپ کے علاقے میں ایک درویش موجود ہیں۔ ان کے بارے میں سنا ہے کہ مستجاب الدعوات ہیں۔ آپ شہزادے کی صحت کے لئے ان بزرگ سے رجوع کیوں نہیں کرتے میر رستم علی خان نے حیرت سے اپنے خدمت گار کی طرف دیکھا۔ وہ بزرگ کہاں رہتے ہیں درازن میں۔ خدمت گار نے عرض کیا۔ درازن ریاست خیرپور کا مضافاتی علاقہ ہے۔ بعض مؤرخین نے درازن کو درازا بھی تحریر کیا ہے۔ تو پھر بزرگ کی خدمت میں جا کر عرض کرو کہ ہم ان کے دیدار سے مشرف ہونا چاہتے ہیں۔ میر رستم علی خان نے بے قرار ہو کر کہا۔ خدمت گار نے بزرگ کی خدمت میں حاضر ہو کر والیٔ خیرپور کی خواہش کا اظہار کیا تو بزرگ نے شانِ بے نیازی کے ساتھ فرمایا۔ امیروں کی حویلی میں فقیروں کا گزر کہاں میر رستم علی خان کے خدمت گار نے اصرار کیا تو بزرگ نے فرمایا۔ دراصل درویش کو محلات کی آب و ہوا راس نہیں آتی۔ طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ والیٔ خیرپور کا خدمت گار درویش کی گفتگو کا مفہوم نہ سمجھ سکا اور ناکام و نامراد واپس جانے لگا۔ خانقاہ کے دروازے پر ایک مجذوب نما شخص نے اسے روک کر کہا۔ اتنی آسانی سے کچھ حاصل نہیں ہوگا۔ میر رستم علی خان کا خادم مجذوب کی بات سن کر چونک اُٹھا۔ پھر مجھے اپنی مراد کس طرح حاصل ہوگی مخدوم کے قدموں سے لپٹ جانا۔ مجذوب نے کہا۔ مخدوم انکار کریں گے کہ وہ کچھ نہیں ہیں مگر تم درخواست کرتے رہنا۔ اگر تم مخدوم کے انکار سے اُکتا گئے تو پھرکچھ ہاتھ نہیں آئے گا۔ خدمت گار واپس چلا گیا اور اس نے درویش کا جواب میر رستم علی خان کے گوش گزار کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی خادم نے مجذوب کا واقعہ بھی بیان کر دیا۔ میر رستم علی خان کچھ دیر سوچتا رہا۔ پھر مضطرب ہو کر کہنے لگا۔ بزرگ کو یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے وہ حاجت مند نہیں ہیں۔ سوالی تو ہم ہیں۔ اس لئے خود ہی ان کے دروازے پر جائیں گے۔ پھر میر رستم علی خان اپنے امرا کے ساتھ درویش کی خدمت میں حاضر ہوا اور ولی عہد سلطنت کی شفایابی کے لئے بزرگ کی دُعائوں کا طالب ہوا۔ درویش نے ایک غمزدہ باپ کی التجا سنی اور بے نیازانہ لہجے میں کہا۔ جب سارے طبیب ایک بیمار کا علاج کرنے سے قاصر ہیں تو پھر میں کیا کر سکتا ہوں نہ مجھے حکمت آتی ہے اور نہ میں جڑی بوٹیوں سے واقف ہوں۔ میں تو شیخ کی خدمت میں دُعا کے لئے حاضر ہوا ہوں۔ میر رستم علی خان نے عرض کیا۔ میری دُعائوں کی قبولیت پر تمہیں یقین ہے بزرگ نے والیٔ خیرپور سے پوچھا۔ میں نہیں، ساری دُنیا کہتی ہے کہ آپ مستجاب الدعوات ہیں۔ میر رستم علی خان نے عرض کیا۔ دُنیا غلط کہتی ہے۔ بزرگ نے پُرجلال لہجے میں فرمایا۔ لوگوں کو کیا معلوم کہ کس کی دُعائیں قبول ہوتی ہیں۔ میں اللہ کا ایک گناہ گار بندہ ہوں اور ایک گوشے میں منہ چھپائے پڑا ہوں۔ میر رستم علی خان اپنے خدمت گار کی زبانی مجذوب کی باتیں سن چکا تھا، اس لئے وہ اپنی ضد پر قائم رہا۔ شیخ آپ کہیں بھی رہیں مگر مستجاب الدعوات ہیں۔ میں آپ کا آستانہ چھوڑ کر کہیں نہیں جائوں گا۔ اچانک بزرگ کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے۔ میر رستم علی خان بہت دیر ہوگئی بہت دیر ہوگئی۔ درویش کے لہجے میں اُداسی کا اظہار ہو رہا تھا۔ شیخ اللہ کے یہاں دیر سویر کچھ نہیں ہے۔ میر رستم علی خان کی آنکھوں میں آنسو آ گئے۔ بس اللہ کا حکم ہی سب کچھ ہے۔ جب وہ مُردوں کو زندہ کر سکتا ہے تو پھر میرے بیمار بیٹے کو شفا بھی دے سکتا ہے۔ بس آپ کے دستِ دُعا درازہونے کی دیر ہے۔ بزرگ نے سکوت اختیار کیا۔ شیخ آپ کی عنایتیں تو عام ہیں۔ والیٔ خیرپور زاروقطار رو رہا تھا۔ پھر میرے بیٹے کے لئے آپ دُعا کیوں نہیں کرتے بزرگ نے غمزدہ باپ کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ میر رستم علی خان اب تم جائو اللہ تمہارے بیٹے کو شفا بخشے گا مگر بہت دیر ہوگئی ہے۔ ولی عہد سلطنت کی جان کے لئے بہت بڑا صدقہ دینا پڑے گا۔ شیخ میں اپنے بیٹے کی خاطر بڑے سے بڑا صدقہ دے دوں گا۔ میر رستم علی خان نے بزرگ کے ہاتھوں کو بوسہ دیتے ہوئے کہا۔ میں ولی عہد کے لئے اپنی سلطنت بھی لُٹا دوں گا۔ نہیں میر رستم علی خان وہ صدقہ تم نہیں دے سکو گے۔ درویش نے پُرسوز لہجے میں کہا۔ وہ صدقہ ہم دیں گے۔ تمہیں فرزند کی زندگی مبارک ہو۔ آخر والیٔ خیرپور میر رستم علی خان واپس چلا گیا۔ حویلی پہنچ کر اس نے یہ ناقابل یقین منظر دیکھا۔ ولی عہد سلطنت میر محمد حسین کے چہرے کی مردنی ختم ہوگئی تھی اور اب اس کے چہرے پر زندگی کے آثار نظر آنے لگے تھے۔ جب میر رستم علی خان واپس چلا گیا تو درویش نے سجدے میں سر رکھ دیا اور نہایت رقت آمیز لہجے میں دُعا کرنے لگے۔ اے علیم و خبیر تو خوب جانتا ہے کہ رستم علی خان کے بیٹے میرمحمد حسین کی زندگی لوح محفوظ پر ختم ہو چکی ہے مگر تو اس پر بھی قادر ہے کہ جسے چاہے برقرار رکھے اور جسے چاہے مٹا دے۔ والیٔ خیرپور مجھے تیرا مستجاب الدعوات بندہ سمجھتا ہے اور وہ میرے پاس بڑی اُمیدیں لے کر آیا تھا۔ مجھے اس بات سے بہت شرم آئی کہ میں اسے خالی ہاتھ لوٹا دوں حالانکہ سب تیرے ہی دَر کے بھکاری ہیں، جسے جو کچھ بھی ملتا ہے تیرے ہی خزانۂ غیب سے ملتا ہے۔ مجھ فقیر کو بھی تیرے ہی آستانہ کرم سے ایک بیٹا عطا ہوا ہے۔ جان کا صدقہ جان ہے۔ اس لئے اے میرے کریم تو میرے بیٹے کے بدلے میں میر محمد حسین کو نئی زندگی عطا کر دے۔ پھر جیسے ہی بزرگ کی دُعا ختم ہوئی، میر رستم علی خان کا بیٹا میر محمد حسین صحت یاب ہونے لگا اور درویش کا بیٹا بسترِ علالت پر دراز ہوگیا۔ پھر جس روز ولی عہد سلطنت نے غسل صحت کیا، اسی دن درویش نے اپنے بیٹے کو قبر میں اُتارا۔ میر رستم علی خان اظہار شکرگزاری کے طور پر قیمتی تحائف لے کر بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ خانقاہ کی حدود میں داخل ہو کر والیٔ خیرپور نے دیکھا کہ ہر چہرہ غم میں ڈوبا ہوا ہے اور ہر آنکھ اشکبار ہے۔ آخر یہاں کیا سانحہ پیش آیا ہے میر رستم علی خان نے درویش کے خدمت گاروں سے پوچھا۔ ایسا سانحہ جو کسی پتھر کے ساتھ پیش آتا تو وہ ٹکڑے ٹکڑے ہو جاتا۔ ایک خادم نے شیخ کے فرزند کے انتقال کی خبر سناتے ہوئے کہا۔ میر رستم علی خان دَم بخود رہ گیا۔ اور یہ سب کچھ آپ کی وجہ سے ہوا ہے۔ درویش کے خادم خاص نے میر رستم علی خان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ میری وجہ سے والیٔ خیرپور نے حیران ہو کر کہا۔ آپ شیخ سے اپنے بیٹے کی صحت کے لئے دُعا کرانے آئے تھے۔ خادم خاص نے وضاحت کی۔ مگر شیخ کی آنکھیں دیکھ رہی تھیں کہ ولی عہد سلطنت کا وقت پورا ہو چکا ہے۔ اس لئے ہمارے مخدوم نے بارگاہِ ذوالجلال میں اپنے فرزند کی جان کا صدقہ پیش کر دیا۔ یہ سن کر والیٔ خیرپور کو سکتہ ہوگیا۔ پھر جب اس کے ہوش و حواس بحال ہوئے تو وہ بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا اور درویش سے لپٹ کر کہنے لگا۔ شیخ یہ آپ ہی کا حوصلہ تھا اور اس انداز کا صدقہ آپ ہی پیش کر سکتے تھے۔ والیٔ خیرپور درویش سے لپٹا رو رہا تھا۔ ایک غیر شخص کے لئے اپنے فرزند کی قربانی دینا، درویشوں ہی کا منصب ہے۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ بات یہاں تک پہنچ جائے گی۔ بات جہاںتک پہنچنا تھی، پہنچ گئی۔ درویش نے میررستم علی خان کو اپنے سے الگ کرتے ہوئے کہا۔ مشیّت میں یوں ہی لکھا تھا۔ تمہیں ولی عہد سلطنت کی زندگی مبارک ہو۔ میر رستم علی خان واپس چلا گیا۔ جاتے وقت اس نے سارے تحائف ان فقرا میں تقسیم کر دیئے جو بزرگ کی گلیوں میں پڑے رہتے تھے۔ یہ کریم النفس، حوصلہ مند اور جانباز درویش، سندھ کے مشہور بزرگ حضرت سچل سرمست تھے جنہوں نے ایک غمزدہ باپ کو پُرسکون دیکھنے کے لئے اپنے بیٹے کی جان کا صدقہ پیش کر دیا تھا۔ صوفیا کی تاریخ میں ایسے کئی واقعات مشہور ہیں۔ اور جہاں تک صدقۂ جان کا تعلق ہے تو اس کی حقیقت بھی تسلیم شدہ ہے۔ اگر صدقہ جان صدق نیت سے پیش کیا جائے تو بارگاہِ ذوالجلال میں قبول ہو جاتا ہے۔ مغل شہنشاہ ظہیرالدین بابر کا واقعہ مشہور ہے کہ جب ولی عہد سلطنت نصیرالدین ہمایوں بیمار ہوا اور ہندوستان بھر کے حاذق اطبا اس کے علاج سے عاجز آگئے تو کسی درباری عالم نے بابر کو مشورہ دیتے ہوئے کہا۔ اگر شہنشاہ اپنی سب سے قیمتی چیز کا صدقہ دیں تو ولی عہد سلطنت کے سر سے یہ بیماری ٹل سکتی ہے ہمارے پاس سب سے قیمتی شے کیا ہے ظہیرالدین بابر نے اپنے وزیروں اور مشیروں سے پوچھا۔ مغلیہ سلطنت کے وزیر خزانہ نے جواباً عرض کیا۔ ہمارے پاس دُنیا کا سب سے قیمتی اور نایاب الماس ہیرا موجود ہے جو ہمیں سلطان علا الدین خلجی کے خزانے سے حاصل ہوا تھا۔ مختلف لوگوں نے مختلف صدقات دینے کے مشورے دیئے۔ آخر ظہیرالدین بابر نے اپنے مشیروں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ یہ سب حقیر ترین چیزیں ہیں۔ انسان کی زندگی سے قیمتی کوئی شے نہیں ہوتی۔ اس لئے ہم بارگاہِ ذوالجلال میں ہمایوں کے لئے اپنی جان کا صدقہ پیش کریں گے۔ مغل شہنشاہ نے وضو کیا اور ہمایوں کے بستر کے گرد سات چکر لگائے۔ اولاد سے بے پناہ محبت کرنے والا باپ بآواز بلند یہ دُعا مانگ رہا تھا۔ اے تمام جہانوں کے پالنے والے اور مضطرب الحال بندوں کی دُعائیں سننے والے ہمایوں کی ساری بلائیں بابر کے سر میرے اس صدقے کو قبول فرما کہ تیرے سوا کوئی دینے والا نہیں۔ سات چکر لگانے کے بعد بابر پر بیماری کے آثار طاری ہونے لگے اور نصیرالدین ہمایوں صحت یاب ہونے لگا۔ پھر جب ہمایوں نے غسل صحت کیا، ظہیرالدین بابر کو غسل میت دیا گیا۔ صدقۂ جان کی حیثیت اپنی جگہ مگر قبولیت اور غیرقبولیت کا انحصار صرف اللہ تعالیٰ کی مرضی پر ہے۔ حضرت سچل سرمست کی زندگی کے اس اہم ترین واقعے کو مرزا علی قلی بیگ نے اپنی کتاب میں قلم بند کیا ہے۔ ٭ ٭ ٭ خیرپور سندھ کی حدود میں رانی پور سے ایک میل کے فاصلے پر شمال میں درازن یا درازا نام کا ایک قصبہ ہے۔ اسی قصبے میں حضرت سچل سرمست پیدا ہوئے۔ آپ کی تاریخ پیدائش میں نمایاں اختلاف پایا جاتا ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں کے مطابق حضرت سچل سرمست ھ میں پیدا ہوئے مگر اکثر مؤرخین کی تحقیق کا حاصل یہ ہے کہ آپ نے ھ میں آنکھ کھولی۔ حضرت سچل سرمست کا خاندانی نام عبدالوہاب فاروقی تھا۔ ویں پشت میں آپ کا سلسلۂ نسب امیرالمومنین حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہٗ سے مل جاتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہٗ کی وفات کے بعد آپ کے پوتے شیخ شہاب الدین فاروقی حجاز مقدس سے عراق منتقل ہوگئے تھے۔ آپ اپنے وقت کے بہت بڑے مدبر تھے اور سیاسی اُمور پر گہری نظر رکھتے تھے۔ جب مسلمانوں نے سندھ پر پہلا حملہ کیا تو اسلامی لشکر کی قیادت بدیل بن طہفہ کر رہے تھے۔ اس معرکہ آرائی میں مسلمانوں کو شکست ہوئی اور بدیل بن طہفہ شہید ہوگئے۔ اس شکست کے بعد حضرت شیخ شہاب الدین فاروقی نے گورنر عراق حجاج بن یوسف کو مشورہ دیا کہ سندھ کے سرحدی علاقوں میں تبلیغ اسلام کے لئے بڑے بڑے علما کو روانہ کیا جائے۔ حجاج بن یوسف نے آپ کی اس تجویز کو پسند کیا۔ پھر جب عامل عراق نے اپنے نوجوان بھتیجے اور داماد محمد بن قاسم کو سندھ پر حملہ کرنے کے لئے بھیجا تو حضرت شیخ شہاب الدین فاروقی بھی جواں سال امیر لشکر کے ساتھ تھے۔ اکثر تاریخی روایتوں کے مطابق حضرت شیخ شہاب الدین فاروقی فاتح سندھ محمد بن قاسم کو ملکی اور فوجی اُمور میں نہایت مفید مشورے دیا کرتے تھے۔ نتیجتاً سندھ کے غیرمسلم قبائل قطار در قطار حلقہ اسلام میں داخل ہونے لگے اور مملکت اسلامی کی بنیادیں مضبوط سے مضبوط تر ہوتی چلی گئیں۔ شیخ شہاب الدین کے انتقال کے بعد ان کے صاحب زادے شیخ محمد فاروق سیوستان کے حاکم مقرر ہوئے۔ شیخ محمد فاروق کے بعد ان کے فرزند مخدوم نورالدین فرمانروائی کے منصب پر فائز ہوئے۔ پھر سیوستان کی حکمرانی نسل دَر نسل اسی خاندان میں منتقل ہوتی رہی۔ حضرت بہا الدین زکریا ملتانی کے خلیفہ حضرت مخدوم حجار بھی اسی خاندان سے تعلق رکھتے تھے۔ حضرت سچل سرمست کا تعلق بھی اسی عظیم خاندان سے تھا۔ ٭ ٭ ٭ حضرت سچل سرمست کے دادا محترم کا اسم گرامی خواجہ محمد حافظ تھا۔ مگر عام طور پر آپ سائیں صاحب دینہ فاروقی کے نام سے مشہور ہیں۔ حضرت سائیں دینہ اپنے وقت کے ولی کامل تھے۔ حضرت سچل سرمست اپنی ایک فارسی تصنیف میں حضرت سائیں دینہ کے متعلق تحریر فرماتے ہیں۔ اس وقت سندھ پر کلہوڑہ خاندان کی حکومت تھی۔ اسی حکومت میں میرے دادا محترم حضرت صاحب دینہ ایک اعلیٰ منصب پر فائز تھے۔ ایک روز میاں صاحب کسی سرکاری کام سے کوٹری کبیرہ ضلع نواب شاہ سے ڈیونول گائوں کی طرف جا رہے تھے۔ راستے میں ایک جنگل پڑتا تھا۔ جب میاں صاحب دینہ جنگل میں داخل ہوئے تو آپ کو ایک مجذوب عورت بیٹھی نظر آئی۔ میاں صاحب نے اسے ایک مخبوط الحواس عورت سمجھا اور آگے بڑھ گئے۔ ابھی میاں صاحب دینہ نے چند قدم کا فاصلہ طے کیا ہوگا کہ مجذوب عورت کی آواز سنائی دی۔ میاں صاحب دینہ کیوں جارہے ہو حضرت صاحب دینہ فاروقی کے بڑھتے ہوئے قدم رُک گئے۔ آپ کو شدید حیرت ہوئی کہ ایک مخبوط الحواس عورت ان کا نام کس طرح جانتی ہے حضرت صاحب دینہ واپس لوٹ آئے اور مجذوب خاتون کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ مائی میں سرکاری کام سے جا رہا ہوں۔ کب تک دوسروں کے کام میں اُلجھے رہو گے مجذوب خاتون نے کہا۔ پہلے اپنے بگڑے ہوئے کام تو سنوار لو۔ حضرت میاں صاحب دینہ نے بڑی حیرت سے مجذوب خاتون کی طرف دیکھا۔ آپ نے جس عورت کو فاترالعقل سمجھا تھا وہ بہت ہوش کی باتیں کر رہی تھی۔ مائی آخر میرا کیا کام ہے تمہیں جس کام کے لئے دُنیا میں بھیجا گیا ہے، تم وہی کام نہیں کر رہے ہو۔ مجذوب خاتون نے پُرجلال لہجے میں کہا۔ میاں صاحب دینہ ابھی وقت ہے۔ اپنی منزل کی طرف لوٹ جائو۔ اللہ تم سے کوئی اور ہی کام لینا چاہتا ہے۔ حضرت صاحب دینہ فاروقی مجذوب خاتون کی باتوں سے اس قدر متاثر ہوئے کہ اپنا کام ادھورا چھوڑ کر واپس لوٹ آئے اور سندھ کے حکمراں کو اپنا استعفیٰ پیش کر دیا۔ میاں صاحب آخر بات کیا ہے سندھ کے حکمراں نے حیران ہو کر پوچھا۔ کیا کسی وزیر سے کوئی چپقلش ہوگئی ہے نہیں سرکار۔ میرا کسی سے کوئی جھگڑا نہیں ہوا ہے۔ میاں صاحب دینہ فاروقی نے کہا۔ اب میں سرکاری کاموں کے قابل نہیں رہا۔ اس لئے معذرت خواہ ہوں۔ حاکم سندھ نے بہت چاہا کہ میاں صاحب اپنا استعفیٰ واپس لے لیں مگر آپ اپنے فیصلے پر قائم رہے اور سرکاری ملازمت چھوڑ کرگھر چلے آئے۔ پھر آپ سلسلۂ قادریہ میں شامل ہو کر حضرت خواجہ عبداللہ جیلانی کے دست حق پرست پر بیعت ہوئے اور محنت شاقہ کے بعد سلوک کے مختلف مدارج طے کر کے منصب ولایت تک پہنچے۔ جس مجذوب الحال عورت کے چند جملوں نے حضرت میاں صاحب دینہ فاروقی کی دُنیا بدل ڈالی، وہ خاتون بی بی بصری تھیں۔ بی بی بصری اپنے وقت کی بڑی عارفہ تھیں مگر اکثر لوگ ان کے روحانی کمالات سے بے خبر تھے۔ ٭ ٭ ٭ میاں صاحب دینہ فاروقی کے دو صاحبزادے تھے۔ ایک میاں صلاح الدین اور دُوسرے میاں عبدالحق ۔ کسی تاریخ سے یہ پتا نہیں چلتا کہ دونوں بھائیوں میں بڑا کون تھا میاں صاحب دینہ کے وصال کے بعد میاں عبدالحق آپ کے سجادہ نشیں ہوئے۔ بس اسی بات سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ شاید میاں عبدالحق عمر میں بڑے تھے۔ میاں صلاح الدین کی شادی کو کئی سال ہو چکے تھے مگر آپ ابھی تک اولاد کی نعمت سے محروم تھے۔ آخر ایک دن حسرتوں کی بے آب و گیاہ صحرا میں اللہ تعالیٰ کے لطف و کرم کی بارش ہوئی اور ھ میں حضرت سچل سرمست پیدا ہوئے۔ تشنہ آرزوئیں سیراب ہوئیں اور میاں صلاح الدین اپنے فرزند کی تعلیم و تربیت میں مشغول ہوگئے۔ ابھی حضرت شیخ عبدالوہاب سچل سرمست کی عمر مبارک چھ سال تھی کہ ھ میں آپ کے والد محترم میاں صلاح الدین کا انتقال ہوگیا اور حضرت سچل سرمست بھی صوفیا کے اسی گروہ میں شامل ہوگئے جنہیں انتہائی کم سنی کے عالم میں یتیمی کے صدمۂ جانکاہ سے دوچار ہونا پڑا تھا۔ میاں صلاح الدین کی وفات کے بعد محترم چچا میاں عبدالحق نے حضرت سچل سرمست کو اپنی سرپرستی میں لے لیا اور اس قدر محبت دی کہ یتیم بھتیجے کے دل و دماغ سے تلخ اور اذیت ناک یادیں محو ہوتی چلی گئیں۔ بعض تاریخی روایتوں کے مطابق ایک حبشی نژاد آیا نے حضرت سچل سرمست کی پرورش کی۔ اس آیا کا نام جوشیدی تھا۔ حضرت سچل سرمست اپنی آیا کو کالی اماں کے نام سے پکارتے تھے۔ اگر خاندان کا کوئی فرد آپ کو اس طرز تخاطب پر ٹوکتا تو جوشیدی بے اختیار بول اُٹھتی۔ نہیں میاں جی تم مجھے کالی اماں کے نام ہی سے پکارا کرو۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ تمہارے اس طرح پکارنے سے مجھے کیسی خوشی حاصل ہوتی ہے اس واقعے سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید آپ کی والدہ محترمہ بھی بچپن ہی میں انتقال فرما گئی تھیں۔ ٭ ٭ ٭ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد حضرت سچل سرمست نے حافظ عبداللہ قریشی کی نگرانی میں قرآن کریم حفظ کیا۔ آپ فطرتاً نہایت ذہین انسان تھے۔ تمام تذکرہ نگاروں کے مطابق حضرت سچل سرمست نے چودہ سال کی عمر میں عربی اور فارسی زبانوں پر عبور حاصل کرلیا تھا۔ پھر آپ نے اپنے محترم چچا حضرت میاں عبدالحق سے علوم باطنی حاصل کیے اور ان ہی کے دستِ حق پرست پر بیعت ہوئے۔ بعض مؤرخین کا کہنا ہے کہ حضرت سچل سرمست پر بچپن ہی سے عشق و سرمستی کا رنگ چڑھا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں ایک عجیب واقعہ بیان کیا جاتا ہے۔ ایک دن سندھ کے مشہور بزرگ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی ، حضرت میاں عبدالحق سے ملنے کے لئے ان کے گھر تشریف لائے۔ اس وقت حضرت سچل سرمست کی عمر آٹھ دس سال ہوگی۔ آپ کے پیروں میں گھنگھرو بندھے ہوئے تھے۔ حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی نے آپ کو دیکھا تو اپنے قریب بلایا اور پیار کرتے ہوئے کہا۔ ہم نے معرفتِ الٰہی کی لذت دل میں حاصل کی ہے اور جو دیگ ہم نے پکائی ہے اس کا ڈھکن سچل ہی اُٹھائیں گے۔ بعض روایتوں میں حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کا یہ قول درج ہے۔ ہم نے جو خم تیار کیا ہے، اسے سچل ہی کھولیں گے۔ پھر ھ میں حضرت شاہ بھٹائی کا انتقال ہوگیا۔ اس وقت حضرت سچل سرمست کی عمر مبارک تیرہ سال تھی۔ حضرت شاہ صاحب کے بعد حضرت میاں سخی قبول محمد آپ کے خلیفہ ہوئے۔ حضرت سچل سرمست نے ان ہی بزرگ کے ہاتھ پر بیعت کی اور خرقۂ خلافت حاصل کیا۔ بظاہر دونوں روایتوں میں شدید اختلاف پایا جاتا ہے مگر حقیقتاً یہ ممکن ہے کہ حضرت سچل سرمست نے پہلے اپنے محترم چچا حضرت میاں عبدالحق سے خرقۂ خلافت حاصل کیا ہو اور بعد میں حضرت شاہ عبداللطیف بھٹائی کے سلسلۂ روحانی میں شامل ہوگئے ہوں۔ روایت ہے کہ حضرت سچل سرمست برسوں ویرانوں اور جنگلوں میں پھرتے رہے۔ اس دوران آپ نے سخت ریاضتیں کیں۔ حضرت سچل سرمست کی پرہیزگاری کا یہ عالم تھا کہ لوگ آپ کو منصور آخرالزماں کے نام سے پکارا کرتے تھے۔ منصور سے مراد حضرت منصور حلاج مراد ہیں۔ حضرت سچل سرمست فطرتاً دُنیا کی رنگینیوں اور ہنگامہ آرائیوں سے بے نیاز رہا کرتے تھے۔ ایک بار پیر و مرشد حضرت میاں احمد عبدالحق نے حضرت سچل سرمست کے دوستوں کو طلب کر کے فرمایا۔ سچل اب جوان ہوگیا ہے۔ اس سے پوچھو کہ وہ شادی کی طرف میلان رکھتا ہے یا نہیں پھر جب دوستوں نے حضرت سچل سرمست سے ازدواجی زندگی کے بارے میں سوال کیا تو آپ نے کسی تامل کے بغیر فرمایا۔ میں ان اُلجھنوں اور بکھیڑوں کو پسند نہیں کرتا۔ شادی ایک زنجیر ہے اور میں اس زنجیر سے آزاد رہنا چاہتا ہوں۔ دوستوں نے حضرت میاں عبدالحق کو حضرت سچل سرمست کے جواب سے آگاہ کیا تو آپ نے ایک دن خود ہی بھتیجے کے سامنے یہ موضوع چھیڑ دیا۔ حضرت سچل سرمست نے پیر و مرشد کی خدمت میں بھی وہی الفاظ دُہرا دیئے۔ بھتیجے کی گفتگو سن کر حضرت میاں عبدالحق نے فرمایا۔ فرزند شادی ایک زنجیر نہیں۔ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک معروف سنت ہے۔ اگر شادی کی استطاعت ہو تو ضرور کرو کہ اس کے بغیر انسان کی تکمیل نہیں ہوتی۔ اگرچہ حضرت سچل سرمست شادی کی پابندیوں سے آزاد رہنا چاہتے تھے لیکن پیر و مرشد کی رضا کے سامنے آپ نے سرِتسلیم خم کر دیا۔ پھر حضرت میاں عبدالحق نے اپنی صاحبزادی کے ساتھ حضرت سچل سرمست کا نکاح کر دیا۔ کچھ روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ آپ کی رفیقۂ حیات شادی کے بعد دو سال تک حیات رہیں۔ پھر اچانک بیمار ہوئیں اور چند روز بعد انتقال کرگئیں۔ اکثر تذکرہ نگاروں کی تحقیق کے مطابق آپ کے کوئی اولاد نہیں تھی۔ بعض تذکرہ نگاروں کا کہنا ہے کہ حضرت سچل سرمست کے یہاں ایک بیٹا پیدا ہوا جو بعد میں وفات پا گیا۔ اگر یہ روایت درست ہے تو پھر والیٔ خیرپور میر رستم علی خان کا آپ کی خدمت میں حاضر ہونا اور اپنے قریب المرگ بیٹے میر محمد حسین کی صحت یابی کے لئے دُعا کرانے کا واقعہ بھی صحیح ہے اور اگر حضرت سچل سرمست کے بے اولاد ہونے کی روایت درست ہے تو پھر ہمیں میر رستم علی خان کی حاضری اور میر محمد حسین کی شفایابی کے سلسلے میں کوئی اور توجیہ پیش کرنی ہوگی۔ ٭ ٭ ٭ حضرت میاں عبدالحق آپ کو محبت سے سچو پکارتے تھے۔ اس لئے آپ نے مرشد کے اس خطاب کو اپنا تخلص قرار دیا اور پھر روحانیت اور شعر و اَدب کی دُنیا میں سچل سرمست کے نام سے مشہور ہوئے۔ بعض روایتوں کے مطابق آپ بچپن سے سچ بولا کرتے تھے، اس لئے پیر و مرشد نے آپ کو سچو کے خطاب سے سرفراز کیا۔ سندھی زبان میں آپ کو سچو اور سچے دینہ کے ناموں سے یاد کیا جاتا ہے۔ پنجاب کے لوگ آپ کو سچل کہا کرتے تھے۔ چونکہ آپ نے فارسی زبان میں بھی شاعری کی ہے، اس لئے آشکار تخلص اختیار کیا۔ حضرت سچل سرمست کا قد درمیانہ، رنگ گندمی، پیشانی کشادہ اور خدوخال بہت دلکش تھے۔ سر کے بال لمبے تھے اور ہمیشہ سبز رنگ کی ٹوپی پہنتے تھے۔ سفید کرتا اور سفید تہہ بند آپ کا پسندیدہ لباس تھا۔ جب آپ پر عالم جذب طاری ہوتا تو ننگے پائوں پھرا کرتے۔ ہاتھ میں ہر وقت ایک لمبی لکڑی رکھتے تھے۔ حضرت سچل سرمست کو موسیقی سے بے پناہ دلچسپی تھی۔ اس لئے یکتارہ طنبورہ آپ کے پاس ہوتا تھا۔ بہت کم سوتے اور بہت کم کھاتے تھے۔ اکثر روزہ رکھتے تھے اور لکڑی کی چوکی پر مراقبے میں بیٹھے رہتے تھے۔ حضرت سچل سرمست بہت رحم دل اور سخی انسان تھے۔ پانچوں وقت کی نماز ادا کرتے اور شریعت پر سختی کے ساتھ عمل پیرا رہتے۔ جب کیف و جذب کی حالت ہوتی تو آپ یکتارہ بجا کر گانے لگتے تھے۔ پھر جب ہوش میں آتے تو آپ کو کچھ یاد نہ رہتا۔ اگر کوئی دوست یاد دلاتا تو نہایت پُرسوز لہجے میں فرماتے۔ وہ میری مدہوشی کا عالم ہوتا ہے۔ میں نہیں جانتا کہ کیا کہتا ہوں اور کیا کرتا ہوں اسی وجہ سے آپ نے اپنا بہت سا کلام دریا بُرد کرا دیا۔ کسی مرید نے پوچھا۔ شیخ آپ نے بڑی جانفشانی سے یہ اشعار کہے تھے۔ پھر انہیں غرق دریا کیوں کر رہے ہیں جواب میں حضرت سچل سرمست نے فرمایا۔ پتا نہیں، لوگ میری بات کا کیا مطلب سمجھیں اور پھر سیدھے راستے سے بھٹک جائیں۔ اس لئے ان چیزوں کا مٹ جانا ہی بہتر ہے۔ ٭ ٭ ٭ حضرت سچل سرمست کو کئی زبانوں پر دسترس حاصل تھی۔ اس لئے کئی زبانوں میں آپ کی شاعری موجود ہے۔ مرزا قلیچ بیگ کے مطابق آپ کے اشعار کی تعداد لاکھ ہزار سو کے قریب ہے۔ آپ کو سندھی زبان میں مرثیے کا بانی کہا جاتا ہے۔ بعض تحقیق نگاروں نے حضرت سچل سرمست کی بیس تصانیف کی نشاندہی کی ہے جن میں مندرجہ ذیل بہت زیادہ مشہور ہیں۔ کافیاں اور دوہے سندھی اور سرائیکی ، رازنامہ فارسی ، وحدت نامہ فارسی ، رہبرنامہ فارسی ، گداز نامہ فارسی غزلیات اُردو اور دیوان آشکار فارسی ۔ دیوان آشکار کو پہلی بار والیٔ خیرپور میر علی مراد خان تالپور نے شائع کرایا تھا۔ حضرت سچل سرمست وحدت الوجود کے قائل تھے۔ آپ کی شاعری میں قدم قدم پر اس نظریئے کا اظہار ہوتا ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں۔ کوئی اور سمجھنا گناہ ہے۔ ہر صورت میں رب کریم کا جلوہ ہے، کوئی مجھے کچھ کہتا ہے اور کوئی کچھ لیکن مجھے پروا نہیں کیونکہ میں جو کچھ ہوں وہی ہو سکتا ہوں۔ ترجمہ حضرت سچل سرمست کو سرکار دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم سے بے پناہ محبت تھی۔ ایک مقام پر اس طرح اپنی عقیدت و محبت کا اظہار کرتے ہیں۔ سیّدالمرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے حال پر لطف فرمایا اور مجھے عاشقوں کی جماعت میں شامل کر دیا۔ وحدت کے راز سے مجھے آگاہ کیا۔ پہلے میں ایک گداگر تھا مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے شاہ بنا دیا۔ ترجمہ یہی وہ عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم تھا جس نے حضرت سچل سرمست کی نگاہ کو کیمیا اثر بنا دیا تھا۔ اگر زنگ آلود لوہے پر ایک نظر ڈال دیتے تو وہ سونا بن جاتا۔ آپ کے دست حق پرست پر ہزاروں بت پرست ایمان لائے اور دولت اسلام سے مالا مال ہوئے۔ علامہ اقبال نے مردِمومن کی اسی شان کی طرف اشارہ کیا ہے نگاہِ مردِ مومن سے بدل جاتی ہیں تقدیریں ٭ ٭ ٭ ایک بار ریاست خیرپور کے حاکم میر رستم علی خان شکار سے واپس آ رہے تھے۔ ان کے ہمراہ وزیروں اور امیروں کا ایک ہجوم تھا۔ اتفاقاً اس وقت حضرت سچل سرمست اپنے جسم مبارک پر ملتانی مٹی ملے ہوئے کنویں کے قریب تشریف فرما تھے۔ ابھی آپ نہانے کا اِرادہ ہی کر رہے تھے کہ میر رستم علی خان اپنے لشکر کے ساتھ آ پہنچے۔ حضرت سچل سرمست پر نظر پڑی تو والیٔ خیرپور قدم بوسی کے لئے آگے بڑھے مگر آپ کے بدن کو مٹی سے آلودہ دیکھ کر رُک گئے اور دُور سے مزاج پرسی کرنے لگے۔ میر رستم علی خان کے چھوٹے بھائی میر علی مراد خان لشکر کے آخر میں تھے۔ جب وہ وہاں پہنچے اور حضرت سچل سرمست کو موجود پایا تو بے تکلفانہ آگے بڑھے اور حضرت شیخ سے لپٹ گئے۔ حضرت سچل سرمست نے میر مراد علی خان کی یہ عقیدت دیکھ کر بے اختیار انہیں اپنے سینے سے لگا لیا۔ میر مراد علی خان کی قیمتی پوشاک اور چہرے پر جگہ جگہ گیلی مٹی کے داغ اُبھر آئے۔ حضرت سچل سرمست نے میر رستم علی خان کی طرف دیکھ کر فرمایا۔ میر صاحب تم نے مجھے خاک آلود سمجھا اور دُور رہے تمہیں دھوکا ہوگیا۔ وہ ملتانی مٹی نہیں تھی۔ جاہ و اقتدار کی مہندی کا رنگ تھا جو میر علی مراد خان کو لگ گیا ہے۔ حضرت سچل سرمست کی یہ دُعا ھ میں قبول ہوئی، جب آپ کو دُنیا سے رُخصت ہوئے ستائیس سال گزر چکے تھے۔ انگریزوں نے سندھ کے تمام میروں سے اقتدار چھین کر برطانوی حکومت قائم کر دی تھی۔ اس وقت پورے سندھ میں خیرپور ہی ایک ایسا علاقہ تھا جس پر میر علی مراد خان کی حکمرانی تھی۔ حضرت سچل سرمست زندگی بھر بیمار نہیں ہوئے مگر آخری وقت میں آپ کو خونی پیچش کا عارضہ لاحق ہوگیا تھا۔ پھر اسی مرض میں آپ نے رمضان المبارک ھ کو انتقال فرمایا۔ وصال سے چند روز قبل پہلے حضرت سچل سرمست نے مریدوں کی تیمارداری اور بے قراری دیکھ کر واضح الفاظ میں اپنے سفرِ آخر کی طرف اشارہ کر دیا تھا۔ تم لوگ مجھے روکنے کی کوشش کر رہے ہو اور میں اپنے آقا حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہِ اقدس میں حاضر ہونے کی تیاریاں کر رہا ہوں۔ حضرت سچل سرمست خاکِ درازن میں آسودئہ خواب ہیں۔ والیٔ خیرپور میر رستم علی خان نے مزار مبارک پر مقبرہ تعمیر کرایا۔ پونے دو سو سال گزر گئے۔ اہلِ دل کے ہزاروں قافلے اپنی پیاسی آنکھوں کو سیراب کرنے کے لئے روضہ مبارک پر حاضر ہو چکے ہیں اور یہ سلسلہ قیامت تک اسی طرح قائم رہے گا۔ ختم شد
null
null
null
null
425
https://www.urduzone.net/deewangi-episode-1/
گاڑی ایک خوبصورت دو منزلہ گھر کے آہنی گیٹ کے پاس رکی۔ گیٹ پر ایک پلیٹ لگی ہوئی تھی جس پر مکان کا نمبر پی نوے موٹے حروف میں لکھا ہوا تھا۔ کار سے ایک نوجوان نے باہر نکل کر پہلے گیٹ کا تالا کھولا۔ کی چین پر بھی اس کوٹھی کا نمبر لکھا ہوا تھا۔ وہ پورا گیٹ کھول کر دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر گاڑی اندر لے گیا۔ وسیع گیراج میں گاڑی کھڑی کرنے کے بعد باہر نکلا اور گیٹ بند کرنے لگا جبکہ اس کے ساتھ والی سیٹ پر براجمان خرم نے گاڑی سے نکل کر دائیں بائیں دیکھا اور بولا ۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کہ تم نے اتنی دور کوٹھی کیوں بنائی ہے۔ شہر سے بیس کلو میٹر ہی تو دور ہے۔ اس نوجوان نے لاپروائی سے جواب دیا۔ وہ گیٹ بند کرکے گاڑی کے پاس آگیا تھا۔ بیس کلو میٹر کم فاصلہ ہوتا ہے کیا خرم نے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ یہ نئی کالونی بنی تھی۔ سستی جگہ تھی۔ میں نے زیادہ جگہ لے کر اس پر گھر تعمیر کرلیا لیکن اس کالونی میں چند مکان بننے کے علاوہ آبادی بڑھی نہیں۔ نوجوان بولا اس کا نام مظہر تھا اور وہ دونوں اسکول کے زمانے کے اچھے بے تکلف دوست تھے۔ مظہر آگے بڑھا اور اس نے مین دروازے کا قفل کھولا۔ دونوں اندر چلے گئے۔ ایک مختصر سی راہداری کے بعد کشادہ لائونج تھا۔ جہاں صوفے اور دوسرا سامان قرینے سے رکھا ہوا تھا۔ میں تجھے اپنا گھر دکھاتا ہوں۔ مظہر اسے بیڈ روم میں لے گیا۔ پھر وہ ایک ایک کمرا دکھانے لگا، بیسمنٹ بھی تھی جہاں صرف ایک ہال نما کمرا تھا۔ پھر وہ اسے اوپر لے گیا۔ ایک کمرے میں دیوار کے ساتھ تین ایل ای ڈی ٹی وی لگے تھے۔ ایک پر دنیا بھر کے چینلز آتے تھے، دوسرے پر مظہر خفیہ کیمروں کے ذریعے باہر کے مناظر دیکھ سکتا تھا اور تیسری اسکرین پر اپنے خفیہ کیمروں کے ذریعے گھر کے اندر نظر رکھ سکتا تھا۔ مظہر نے اسے تینوں اسکرین آن کرکے دکھائیں تو خرم نے پوچھا۔ یہ سب تم نے کیوں کیا تم جانتے ہو کہ کیونکہ غیرآباد علاقہ ہے، اس لیے یہ سارا انتظام کیا تاکہ سب کچھ میری نظر میں رہے۔ مظہر نے بتایا۔ اتنا انتظام کیا ہے، اب رہائش بھی کرلو۔ خرم ہنستے ہوئے بولا۔ پہلی بات یہ کہ میری بیوی نہیں مانی، دوسرے اب میرا پھر جرمنی جانے کا پروگرام بن گیا ہے۔ میں جلد اپنی بیوی بچوں سمیت جرمنی جارہا ہوں۔ مظہر نے بتایا۔ ہاں بھئی جس نے بھاری کرنسی کمائی ہو، اُسے معمولی سی کرنسی کیسے راس آئے گی۔ خرم مسکرا کر بولا۔ جانتے ہو میں تمہیں یہاں کیوں لایا ہوں مجھے کیا پتا تم نے کہا چلو میرے ساتھ اور میں تمہاری گاڑی میں بیٹھ گیا۔ خرم نے کہا۔ یہاں کوئی چوکیدار رہنے کو تیار نہیں ہے۔ اس لیے تم ہفتے میں ایک بار یہاں آیا کروگے۔ تمہارا مطلب ہے میں یہاں چکر لگاکر دیکھوں کہ کوئی چور اپنا کام تو نہیں کرگیا۔ لیکن یار میرے پاس تو موٹرسائیکل بھی نہیں ہے، میں یہاں کیسے آئوں گا۔ خرم نے عذر پیش کیا۔ وہ گھر جہاں آج کل ہماری رہائش ہے وہاں میری گاڑی کھڑی ہوگی۔ میں چوکیدار کو ہدایت کردوں گا تم اس گاڑی پر یہاں آجانا، کچھ وقت گزارنا، کیبل پر پروگرام دیکھنا۔ تم میرے دوست ہو اس لیے میں آجایا کروں گا۔ اب چلو چلتے ہیں۔ خرم اپنی جگہ سے اُٹھا۔ وہ دونوں گیٹ کو مقفل کرکے شہر کی طرف چل پڑے۔ دسمبر کی سرد شام تھی۔ آسمان پر ہلکے ہلکے بادل کسی آوارہ گرد کی طرح گھومتے دکھائی دے رہے تھے، ہوا میں ٹھنڈک کا احساس بڑھ گیا تھا، اسکول کے بچے جو قریبی میدان میں کھیل کود سے فارغ ہوگئے تھے، ایک دوسرے سے باتیں کرتے، چھیڑتے، ہنستے ہوئے اپنے اپنے گھروں کی طرف جارہے تھے۔ مظہر نے خرم کو اس کے گھر کے پاس اتار دیا۔ وہ شہر چھوٹا تھا لیکن خوبصورت تھا۔ اس شہر کی بہت سی چیزیں وجہ شہرت تھیں لیکن سردار غلام قادر ایک ایسا سیاست دان تھا جس نے سیاست میں آکر اس شہر کو ترقی کی شاہراہ پر گامزن کردیا تھا۔ وہ ایسا بارعب سیاست دان تھا کہ جب بولتا تھا تو بڑے بڑے چپ ہوجاتے تھے اور جب وہ کسی کے حق کے لیے لڑتا تھا تو یہ بات طے ہوجاتی کہ اب غلام قادر اس کا حق لے کر ہی دم لے گا۔ غلام قادر نے ایمانداری سے سیاست کی تھی۔ حرام کھایا تھا اور نہ حرام کھانے دیا تھا۔ باپ دادا کی زمین، جائداد اتنی تھی کہ وہ کیا اس کی سات پشتیں بیٹھ کر کھا سکتی تھیں۔ اس لیے اسے کوئی فکر نہیں تھی۔ وہ اپنا ہر کام بے فکری اور نڈر ہوکر کرتا تھا۔ کسی کو غلام قادر کی سچائی اور ایمانداری پسند نہ آئی تو اُسے گولی سے اُڑادیا گیا۔ اس کے قاتل کا سراغ نہیں ملا۔ علاقے کے لوگ کہتے تھے کہ اسے اپنوں نے ہی مروایا ہے کیونکہ نئی پود ڈھیروں پیسہ کمانے کے چکر میں تھی۔ انہیں اپنی عیاشیوں کے لیے آزادی کی ضرورت تھی اور اس آزادی میں غلام قادر کی روک ٹوک پسند نہیں تھی۔ غلام قادر کے بعد سیاست اس کے بیٹوں میں منتقل ہوگئی لیکن وہ شہرت اور عزت نہیں ملی جو اُسے حاصل تھی، کیونکہ کسی نے بھی غلام قادر کے انداز کو نہیں اپنایا تھا۔ پھر غلام قادر کا پوتا مہتاب احمد لندن سے پڑھ کر آیا تو اسے جس نے دیکھا وہ تعریف کیے بغیر نہیں رہ سکا۔ مہتاب احمد خاندان کا وہ سپوت تھا جو اس خاندان کا لگتا ہی نہیں تھا۔ وہ بہت وجیہ اور پُرکشش تھا۔ نکلتا ہوا قد، سفید رنگت اور خوش لباس۔ وہ بہت چھان بین کے بعد اپنا لباس منتخب کرتا تھا۔ اس کا لائف اسٹائل منفرد تھا۔ لڑکیاں تو ایک طرف، اسے مرد بھی رک کر دیکھتے تھے۔ اس کی ہر بات میں انفرادیت تھی۔ مہتاب احمد کی شہرت اس کے لائف اسٹائل کی وجہ سے تو تھی ہی لیکن جب وہ الیکشن جیت کر اسمبلی ہال میں پہنچا تو میڈیا کی نگاہیں بھی اس پر مرکوز ہوکر رہ گئیں اور یوں اس کے لائف اسٹائل کا خاص و عام میں ذکر ہونے لگا۔ مہتاب احمد کا نام اس کے دادا غلام قادر نے رکھا تھا لیکن اس میں اپنے دادا کی کوئی خوبی نہیں تھی۔ اس کے کام کرنے کا اپنا انداز تھا۔ مہتاب احمد حسن پرست تھا۔ ایک بار جو لڑکی اس کی نگاہ میں سما جاتی تھی، وہ خاموش شکاری کی طرح اس کے پیچھے لگ جاتا۔ اور اس کی یہ خامی کسی پر عیاں نہیں تھی۔ غلام قادر نے جس محلے میں رہائش رکھی تھی، ساری زندگی اس نے وہیں گزار دی تھی۔ اب بھی اس کی اولادیں اس علاقے سے باہر نہیں نکلی تھیں۔ غلام قادر کا ایک مخصوص درزی تھا جس کا نام فقیر حسین تھا۔ فقیر حسین ایسا درزی تھا کہ اس کے ہاتھ کی نفاست اور سلائی کا کوئی جواب نہیں تھا۔ غلام قادر کو جب بھی سوٹ سلوانا ہوتا، وہ فقیر حسین کو اپنے گھر بلالیتا۔ فقیر حسین ہی غلام قادر کے بیٹوں کے بھی کپڑے تیار کرتا تھا۔ فقیر حسین کی وفات کے بعد اس کے بیٹے رشید نے اس کی جگہ لے لی۔ وہ بھی اپنے باپ جیسا ماہر کاریگر تھا۔ سب اسے ماسٹر رشید کہتے تھے۔ اب اپنے باپ کی جگہ ماسٹر رشید ان کے گھر جانے لگا تھا۔ اس طرح غلام قادر کے خاندان سے فقیر حسین کی اولاد کا تعلق ختم نہیں ہوا تھا۔ ماسٹر رشید کے پانچ بیٹے تھے، اس نے چار کو اپنا آبائی فن سکھا دیا تھا۔ اس کے چاروں بیٹوں نے الگ دکانیں کھول لی تھیں اور چاروں کی شادیاں بھی ہوگئی تھیں۔ ماسٹر رشید کا ایک بیٹا ایسا تھا جو آبائی کام کرنا ہی نہیں چاہتا تھا۔ ماسٹر رشید نے بہت کوشش کی کہ وہ کسی طرح کام سیکھ لے، اسے سختی سے، پیار سے ہر طرح سے سکھانے کی کوشش کی لیکن اس کا دماغ اور سوچ اس کام کے لیے راضی نہیں تھی۔ ماسٹر رشید کے سب سے چھوٹے بیٹے کا نام خرم تھا۔ وہ اپنے تمام بھائیوں سے زیادہ خوبصورت تھا اور کچھ اس کے رہن سہن نے اسے مزید پُرکشش بنادیا تھا۔ اُسے درزی کے کام سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ وہ اداکار بن کر شہرت کمانا چاہتا تھا۔ وہ بڑے اداکاروں جیسی شہرت، عزت اور دولت کا خواہاں تھا۔ وہ ہر وقت ان لوگوں کے بارے میں سوچتا تھا جو شہرت کا آسمان چھو چکے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ پوری دنیا اس کا نام جانے، اور جب وہ گھر سے باہر نکلے تو لوگوں کی نگاہوں کا مرکز ہو۔ میڈیا بھی اس کے پیچھے بھاگے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کے لیے اس نے کئی اداروں کو اپنی تصویریں بھیجی تھیں لیکن کہیں سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ خرم کالج میں ہونے والے ہر ڈرامے میں موجود ہوتا۔ اس نے مقامی طور پر اسٹیج پر بھی اداکاری کی تھی۔ لیکن ٹیلی وژن کی اسکرین پر آنے کی خواہش پوری نہیں ہوئی تھی۔ یہ خواہش اسے ہر وقت مضطرب رکھتی تھی۔ خرم کا دھیان صرف اداکاری پر مرکوز تھا۔ ایک ٹھنڈی شام کو خرم اپنے کمرے میں لگے آئینے کے سامنے ایک فلم کے مکالمے بول رہا تھا۔ اسی دوران دروازہ زور سے کھلا اور اس کی ماں زبیدہ تیزی سے اندر آئی۔ اس نے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ کیا ہورہا ہے مستقبل کا عظیم اداکار اپنی اداکاری کو نکھار رہا ہے۔ خرم نے متانت لیکن اس انداز میں کہا جیسے وہ کیمرے کے سامنے کھڑا مکالمہ بول رہا ہو۔ تجھے یاد ہے تیرا باپ کیا کام بتاکر گیا تھا زبیدہ نے اسے گھور کر کہا۔ کیا کام بتاکر گئے تھے خرم نے اپنی ماں کی طرف دیکھ کر پوچھا۔ یاد نہیں ہے تجھے یاد ہوتا تو آپ سے کیوں پوچھتا۔ تیری اس منحوس اداکاری نے تجھے کسی کام کا نہیں چھوڑا۔ سارے کام بھول کر اداکاری میں لگے رہتے ہو۔ زبیدہ نے ڈانٹا۔ آپ میری اداکاری کو منحوس نہ کہا کریں۔ ایک دن آئے گا امی جب آپ کا یہ بیٹا شہرت کی بلندیوں کو یوں چھوئے گا جیسے چاند آسمان کو چھوتا ہے۔ چاند آسمان کو چھوتا نہیں ہے، وہ رہتا ہی آسمان پر ہے۔ زبیدہ نے اس کی غلطی درست کی۔ میرا یہی مطلب تھا۔ میں بھی شہرت کی بلندی پر پہنچ کر آسمان کی بلندیوں میں گم ہوجائوں گا۔ خرم تیزی سے بولا۔ ویسے ابو نے مجھے کیا کام بتایا تھا مجھے یاد نہیں آرہا۔ پلیز امی بتادیں۔ اب تیرا باپ ہی تجھے یاد دلائے گا۔ یہ کہہ کر وہ جانے لگی۔ ایک منٹ امی ابو مجھے کام کے ساتھ ساتھ جسمانی اذیت بھی دیں گے۔ اس لیے بہتر ہے کہ آپ مجھے بتادیں۔ یقین کریں کہ میں بھول گیا ہوں اور ابا کے آنے کا بھی وقت ہوگیا ہے۔ خرم جلدی سے زبیدہ کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ کیا بتاکر گئے تھے کہ تجھے کہیں جاکر کیا کرنا ہے۔ زبیدہ نے اس کے چہرے کی طرف دیکھا۔ خرم یاد کرنے لگا۔ مجھے کہیں جانا تھا، کہاں جانا تھا یاد نہیں آرہا۔ زبیدہ نے اس کا کان پکڑ کر کھینچا اور بولی۔ تجھے غلام قادر کے گھر جانا تھا۔ اس کے بیٹے کا کپڑا لینے۔ ہاں یاد آیا۔ اس سے پہلے کہ ابا جی آجائیں میں ابھی لے کر آیا۔ خرم کو یاد آتے ہی تیزی سے کمرے سے نکل کر بھاگا۔ باہر اندھیرا چھا چکا تھا اور سردی میں بھی اضافہ ہوگیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ اس علاقے میں غلام قادر نے جو کوٹھی بنوائی تھی، اَب اس میں اس کا بیٹا شمشاد قادر رہتا تھا۔ اس کے باقی بیٹوں نے اسی علاقے میں اپنے الگ گھر بنالئے تھے۔ شمشاد قادر، مہتاب احمد کا باپ تھا اور وہ رہائش قادر ہائوس کے نام سے معروف تھی۔ ماسٹر رشید کے گھر کے افراد کو یہ امتیاز حاصل تھا کہ وہ کسی بھی وقت اس گھر میں آجاسکتے تھے۔ گیٹ پر موجود چوکیدار بھی اس کو نہیں روکتے تھے۔ ماسٹر رشید کے سارے بیٹوں کے ساتھ سب کا اچھا تعلق تھا۔ جونہی خرم گیٹ کے پاس پہنچا، چھوٹی کھڑکی سے چوکیدار نے اس کا چہرہ دیکھ کر گیٹ کھول دیا۔ کہاں سے بھاگے آرہے ہو چوکیدار نے مسکراتے ہوئے کہا۔ چچا شمشاد گھر پر ہیں خرم نے پوچھا۔ وہ ابھی تھوڑی دیر پہلے گئے ہیں۔ مہتاب بابو گھر پر ہیں، ان کو اطلاع کروں۔ چوکیدار نے پوچھا۔ چچا شمشاد نے سوٹ سینے کے لیے دینا تھا، وہ کپڑا لینے آیا ہوں خرم بولا۔ تم اب آئے ہو، انہوں نے صبح سے ہمیں بتا رکھا ہے۔ دوسرا چوکیدار بولا اور اُٹھ کر اپنے کیبن سے ایک شاپر اُٹھاکر اس کی طرف بڑھا دیا۔ تم لوگ جانتے ہو کہ میں ایک مصروف آدمی ہوں۔ مجھے سو کام ہوتے ہیں۔ خرم نے شاپر لے کر یوں کہا جیسے وہ واقعی بہت مصروف ہو اور اپنی شوٹنگ چھوڑ کر یہاں آیا ہو۔ تیری مصروفیت کون نہیں جانتا، تم واقعی بہت مصروف ہو۔ پہلے چوکیدار نے طنزاً کہا تو دوسرا چوکیدار بھی ہنسنے لگا۔ تم لوگ ہنس کر میرا وقت ضائع کررہے ہو۔ خرم کہہ کر جانے لگا تو پیچھے سے مہتاب احمد کی آواز سنائی دی۔ خرم ادھر آئو میرے پاس۔ خرم نے رک کر عقب میں دیکھا تو سامنے مہتاب احمد کھڑا تھا۔ اس کی شخصیت میں سحر تھا۔ اسے دیکھتے ہی دیکھنے والا اس کی شخصیت کے زیر اثر آجاتا تھا۔ خرم اس کے پاس چلاگیا۔ مہتاب برآمدے میں پڑی کرسیوں میں سے ایک پر بیٹھ گیا۔ خرم اس کے سامنے کھڑا ہوگیا۔ آپ کب آئے اسلام آباد سے میں رات آیا تھا۔ مزے ہیں آپ کے، جب چاہیں چلے جاتے ہیں اور جب چاہیں آجاتے ہیں۔ ایک ہم ہیں کنویں کے مینڈک نہ کہیں جاتے ہیں اور نہ کہیں آتے ہیں اوپر سے ابو کہتے ہیں درزی بن جائو۔ بن جائو درزی تم لوگوں کا یہ آبائی کام ہے۔ مہتاب بولا۔ میں درزی بننے کے لیے پیدا نہیں ہوا۔ پھر کیوں پیدا ہوئے ہو مہتاب نے ہنس کر پوچھا۔ ساتھ ہی اس نے خرم کو کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ خرم بیٹھ گیا۔ ایک دن زمانہ دیکھے گا کہ خرم کتنا بڑا اداکار ہے۔ شہرت میرے گھر کی لونڈی ہوگی۔ خرم نے کہا۔ اداکاری کا بھوت ابھی تک تمہارے سر سے نہیں اترا میں سمجھا تھا کہ تم سب کچھ بھول کر اپنے کام میں لگ چکے ہوگے۔ یہ اداکاری مجھے شہرت دے گی، پیسہ دے گی، میں کیسے اس بھوت کو سر سے اتار سکتا ہوں۔ خرم بولا۔ شہرت کا جنون ہے تمہیں، اچھا اداکاری کرکے تو دکھائو۔ دیکھتا ہوں تم کیسے اداکار ہو۔ مہتاب اپنی دونوں ٹانگیں سامنے والی کرسی پر پھیلاکر بولا۔ اداکاری تو میرے خون میں دوڑتی ہے۔ یہ کہہ کر اس نے مختلف فلموں کے مکالمے بولنا شروع کردیئے۔ مہتاب نے تالی بجائی اور کہا۔ تم تو کمال کے اداکار ہو۔ دیکھا میرے اندر اداکاری کوٹ کوٹ کر بھری ہے۔ لیکن مجھے میرے گھر والے اداکار نہیں مانتے۔ خرم یہ کہتے ہوئے اداس ہوگیا۔ ایک گزارش کروں آپ سے۔ ہاں بولو۔ آپ بہت بڑے سیاست دان ہیں۔ کسی ٹی وی چینل میں میری سفارش کردیں۔ خرم نے کہا۔ مہتاب اس کی بات سن کر سوچنے لگا۔ میرا ایک کلاس فیلو تھا، الیاس جہانگیر اس کا نام ہے۔ خرم نے فوراً اس کی بات کاٹ دی۔ وہ ٹیلی وژن کے بہت بڑے ڈائریکٹر ہیں، ان کے کئی سیریل چل چکے ہیں۔ ان دنوں بھی ایک بڑے چینل پر اُن کا ڈرامہ سیریل چل رہا ہے۔ وہ آپ کے دوست ہیں ہاں وہ میرا اچھا دوست ہے، ابھی چار ماہ پہلے اس سے میری ملاقات اسلام آباد میں ہوئی تھی۔ وہ وہاں مجھ سے ملنے آیا تھا، اس کی شوٹنگ چل رہی تھی۔ مہتاب نے بتایا۔ پھر تو کوئی مسئلہ ہی نہیں۔ آپ مجھے ان کے پاس بھیج دیں۔ میں ان کو اپنی اداکاری سے ایسا مطمئن کروں گا کہ وہ خود آپ کو فون کرکے بتائیں گے کہ مہتاب احمد آپ نے جو ٹیلنٹ بھیجا ہے وہ کمال کا ہے۔ خرم پُرجوش ہوکر بولا۔ اس کی بات سن کر خرم کو ہنسی آگئی۔ اس نے مجھے اپنا کارڈ دیا تھا، مجھے اس نے کراچی آنے کی دعوت بھی دی تھی۔ تو ابھی ان کو فون کریں۔ خرم جلدی سے بولا۔ میں دیکھوں گا کہ وہ کارڈ کہاں ہے۔ شاید میرے سیکرٹری کے پاس ہو۔ تم فکر مت کرو۔ میں اس سے بات کرکے تمہیں کراچی بھجوادوں گا۔ مہتاب نے اسے یقین دلایا۔ بھول نہ جائیے گا۔ آپ دیکھیں گے کہ میری اداکاری سے تہلکہ برپا ہوجائے گا۔ مجھے اداکاری کا جنون ہے اور میرا یہ جنون اس وقت پورا ہوگا جب میں ٹیلی وژن کی اسکرین پر آئوں گا۔ آج کل ٹیلی وژن بہت بڑا میڈیا بن گیا ہے فلم سے بھی بڑامیڈیا۔ خرم بولا۔ تم بے فکر رہو، سمجھو کہ تمہارا کام ہوگیا۔ مہتاب اپنی جگہ سے اُٹھ کھڑا ہوا اور یقین دلاتے ہوئے بولا۔ تم کراچی ضرور جائوگے۔ خرم خوش ہوگیا اور خوش خوش اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ وہ کپڑوں کا شاپر اٹھانا بھول گیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ خرم جونہی گھر میں داخل ہوا، ماسٹر رشید کی آواز اس کے کان میں پڑی۔ آئیے آئیے ہم آپ کا ہی دسترخوان پر انتظار کررہے ہیں تشریف لے آئیے۔ خرم نے دیکھا کہ برآمدے میں چٹائی پر سب گھر والے موجود ہیں اور کھانا لگ رہا تھا۔ سلام علیکم ابو جی۔ خرم نے اپنا ہاتھ ماتھے کی طرف لے جاکر سلام کیا۔ وعلیکم سلام۔ ماسٹر رشید کی گھورتی ہوئی آنکھیں خرم پر مرکوز تھیں۔ خرم کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ پھر اسے یاد آیا کہ کھانا کھانے سے پہلے ہاتھ دھونا بہت ضروری ہیں ورنہ اس پر ڈانٹ یوں پڑے گی جیسے برسات میں بارش ہوتی ہے۔ خرم ہاتھ دھوکر دسترخوان پر بیٹھ گیا۔ ماسٹر رشید نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ کہاں سے تشریف لارہے ہیں آپ پہلے کھانا کھالیں۔ زبیدہ نے ماسٹر رشید کو ٹوکا۔ ماسٹر رشید نے زبیدہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ اگر آپ مجھے دو منٹ ان سے بات کرنے کا موقع دے دیں تو مہربانی ہوگی۔ میں نے کب روکا ہے، کھانا کھانے کا کہہ رہی تھی، کھانا ٹھنڈا ہوجائے گا اور پھر آپ کہیں گے کہ ٹھنڈا ہوگیا ہے۔ ابھی روٹی پک رہی ہے تب تک وقفہ سوال کرلیتے ہیں۔ ماسٹر رشید کا بات کرنے کا یہی انداز تھا۔ زبیدہ چپ ہوگئی۔ ماسٹر رشید پھر اس کی طرف متوجہ ہوا۔ میں نے آپ سے سوال کیا تھا کہ آپ کہاں سے تشریف لارہے ہیں چچا شمشاد کے گھر گیا تھا۔ کپڑے لینے جو انہوں نے سلوانے ہیں۔ خرم نے جواب دیا۔ کہاں ہے وہ کپڑا ماسٹر رشید نے سوالیہ نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ اس سوال نے خرم کو چونکا دیا۔ ایک دم یاد آیا کہ وہ شاپر تو وہاں ہی بھول آیا۔ وہ مہتاب کو اپنی اداکاری کے جوہر دکھاتا رہا اور جس کام کے لئے گیا تھا وہ ادھورا ہی چھوڑ آیا تھا۔ سوچنے لگا کہ کیا جواب دے۔ میں نے تم سے کچھ پوچھا ہے ماسٹر رشید نے کہا۔ کپڑا میں نے لے لیا تھا، بے خیالی میں وہاں ہی بھول آیا۔ خرم نے اٹکتے ہوئے جواب دیا۔ لوجی سن لو، کپڑا وہاں سے لے لیا تھا اور اسی جگہ بھول کر آگیا۔ جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ ماسٹر رشید نے اسے گھورا۔ اس کے بھائی اور بھابیاں دبے دبے انداز میں ہنس رہے تھے۔ میں جھوٹ نہیں بول رہا۔ خرم بولا۔ بند کرو بکواس چھوڑو یہ جو تم ہر وقت ناٹک کرتے رہتے ہو۔ بندوں کی طرح کام کرو۔ کل صبح جس بھائی کے ساتھ دکان پر بیٹھنا چاہو اس کی دکان پر چلے جانا۔ لیکن اب کوئی بہانہ نہیں چلے گا۔ ماسٹر رشید نے غصے سے کہا۔ روٹی آگئی ہے اور سب آپ کی طرف دیکھ رہے ہیں۔ زبیدہ نے ایک بار پھر ٹوکا تاکہ ماسٹر رشید کی ڈانٹ کسی طرح ختم ہوجائے۔ ایک بات اور کان کھول کرسن لو۔ کھانا کھانے کے بعد تم فوراً واپس جائوگے اور کپڑا لے کر آئو گے۔ میں صحن میں بیٹھا تمہارا انتظار کروں گا۔ پندرہ منٹ تک نہ آئے تو پھر کوئی تمہارے لیے دروازہ نہیں کھولے گا۔ ماسٹر رشید نے حکم سنایا۔ کھانا کھاتے ہوئے سب اِدھر اُدھر کی باتیں بھی کرنے لگے۔ ایک خرم تھا جو چپ سر جھکائے کھانا کھانے میں مصروف تھا۔ زبیدہ بار بار اپنے بیٹے کی طرف دیکھتی اور پھر کھانا کھانے لگ جاتی۔ خرم کے بھائیوں کو خرم کی کوئی پروا نہیں تھی۔ انہوں نے اپنی اپنی دکانیں سنبھالی ہوئی تھیں اور اب ماسٹر رشید کا یہ حکم سن کر دل میں پریشان ہوگئے تھے کہ کہیں خرم ان کی دکان پر نہ آجائے۔ چاروں بھائیوں کی بیویاں بھی طنزیہ نگاہوں سے خرم کی طرف دیکھ لیتی تھیں۔ وہ بعد میں اس کا خوب مذاق اُڑاتی تھیں۔ خرم کی مجبوری یہ تھی کہ وہ درزی نہیں بننا چاہتا تھا۔ اس کے خواب کچھ اور تھے اور وہ اپنے خوابوں کے پیچھے بھاگتے ہوئے اپنے آبائی پیشے سے اجتناب برت رہا تھا۔ کھانا ختم کرتے ہی خرم اُٹھا تو اسی وقت ماسٹر رشید نے اپنی گھڑی میں وقت دیکھتے ہوئے یاد دلایا۔ صرف پندرہ منٹ۔ جی۔ خرم یہ کہہ کر گھر سے باہر چلاگیا۔ خرم جلدی آجانا۔ پیچھے سے زبیدہ نے آواز لگائی۔ بس فوراً آیا امی۔ خرم گھر سے نکل گیا۔ باہر نکلتے ہی اس نے تیز تیز قدم قادر ہائوس کی طرف اٹھانے شروع کردیئے۔ ٭ ٭ ٭ خرم تیز تیز قدم اُٹھاتا قادر ہائوس پہنچا۔ اس نے شاپر لیا اور اُلٹے واپس ہوگیا۔ وہ وہاں سے نکلا ہی تھا کہ ماسٹر رشید کا ایک پرانا دوست حاکم علی سامنے سے آرہا تھا۔ اس نے آواز دی۔ خرم ادھر آئو۔ خرم کے قدم فوراً رک گئے۔ حاکم علی موٹرسائیکل کو پکڑے اسے دھکیلتے ہوئے پیدل ہی جارہے تھے۔ خرم نے پوچھا۔ موٹرسائیکل خراب ہوگئی ہے چچا جی ارے خراب نہیں ہوئی۔ پٹرول ختم ہوگیا ہے۔ ادھر آئو۔ اسے پکڑو۔ میں تھک گیا ہوں۔ حاکم علی کا رویہ ہمیشہ بے تکلفانہ رہتا تھا۔ وہ ریٹائرڈ سرکاری ملازم تھے۔ ساری زندگی انہوں نے ہنس کھیل کر گزاری تھی۔ خرم نے سوچا کہ ابو نے پندرہ منٹ دیئے تھے۔ اگر وہ پندرہ منٹ کے بعد گھر پہنچا تو یقیناً اس کو گھر کا دروازہ بند ملے گا۔ خرم یہ بات جانتا تھا کہ اس کے ابو جو بات کہہ دیں اس پر قائم رہتے ہیں۔ پھر وہ خود دروازہ کھولیں گے اور نہ ہی کسی دوسرے کو کھولنے دیں گے، بے شک ان کو صحن میں چارپائی بچھا کر ہی کیوں نہ سونا پڑے۔ او سوچ کیا رہے ہو۔ موٹرسائیکل ہے، ریل گاڑی کا انجن نہیں ہے جسے پیدل لے جانے میں تمہیں کوئی مسئلہ ہوگا آئو ادھر اسے پکڑو۔ حاکم علی اس کے ابو کے پرانے بے تکلف دوست تھے۔ اب یہ بھی گستاخی تھی کہ وہ ان کی بات نہ مانتا اور یہ بات اپنی جگہ طے تھی کہ اس کے ابو نے پندرہ منٹ کا وقت دیا تھا۔ اس نے اپنی گھڑی میں وقت دیکھا۔ دیئے گئے وقت میں محض چار منٹ رہ گئے تھے۔ ناچار خرم ان کی طرف بڑھا اور موٹرسائیکل ان سے لے لی اور دونوں پیدل چلنے لگے۔ اب موٹرسائیکل کو خرم دھکیل رہا تھا۔ حاکم علی بولے۔ اچھا ہوا کہ تم مجھے مل گئے۔ میں تھک گیا تھا۔ میں سوچ رہا تھا کہ موٹرسائیکل اسی جگہ چھوڑ کر گھر چلا جائوں۔ مشین انسان کو کھینچے تو بہت اچھا ہے اور اگر مشین انسان کو کھینچنی پڑے تو یہ بہت بُرا ہے بھائی۔ آپ پٹرول ڈلوالیتے۔ اب تو جگہ جگہ پٹرول لے کر بیٹھے ہیں لوگ۔ خرم نے گھڑی کی طرف دیکھا تو پندرہ منٹ پورے ہوگئے تھے۔ اس کا دل زور سے دھڑکا۔ اس نے سوچا کہ ابو نے اب دروازہ بند کردیا ہوگا۔ یہ لوگ ناپ تول میں کمی کرتے ہیں، اس لیے نہیں ڈلوایا۔ حاکم علی نے اپنی منطق جھاڑی۔ خرم نے ایک بار پھر گھڑی دیکھی، اس کے چہرے پر پریشانی عیاں ہوگئی تھی۔ حاکم علی نے دیکھ لیا تھا کہ خرم کچھ پریشان ہے۔ کیا بات ہے، چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں۔ کوئی غلط کام ہوگیا ہے تو مجھے بتادو میں تمہارے ابا کے پاس چلا جاتا ہوں۔ ساری دنیا کی بات وہ رد کرسکتا ہے لیکن میری بات رد کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ ایسی بات نہیں ہے وہ خرم نے کہنا چاہا۔ حاکم علی کی ایک عادت تھی کہ وہ دوسرے کو کم ہی بولنے کا موقع دیتے تھے۔ اس لیے وہ اس کی بات کو کاٹ کر بولے۔ میرا گھر آگیا ہے، تم ایسا کرو کہ موٹرسائیکل اندر کھڑی کرو اور دیکھو چائے پیئے بغیر نہیں جائوگے۔ میں رات کو چائے نہیں پیتا، پھر مجھے نیند نہیں آتی۔ ویسے بھی مجھے ایک کام سے جانا ہے۔ خرم جلدی سے بولا۔ حاکم علی نے اپنے گھر کا دروازہ بجایا۔ ٹھیک دو منٹ کے بعد دروازہ کھل گیا۔ دروازہ حاکم علی کی بیٹی ہادیہ نے کھولا تھا۔ حاکم علی اندر چلے گئے اور خرم موٹرسائیکل اندر کھڑی کرنے لگا جب کہ ہادیہ دروازے پر موجود رہی۔ جونہی خرم نے موٹرسائیکل اندر کھڑی کی، ہادیہ نے دروازہ بند کردیا۔ ہادیہ کو دیکھ کر اسے ایسا لگتا تھا جیسے وہ آسمان سے اتری ہوئی حور ہو۔ وہ اتنی خوبصورت اور پُرکشش تھی کہ جب بھی خرم اس کی طرف دیکھتا، اس کے دل میں کچھ ہونے لگتا تھا لیکن حاکم علی کیونکہ اس کے ابو کے پرانے دوست تھے، دونوں گھرانوں کا ایک دوسرے کا ہاں آنا جانا تھا، اس وجہ سے اس نے کبھی ہادیہ کو نظر بھر کر نہیں دیکھا تھا اور نہ ہی اس نے کوئی ایسی بات کی تھی کہ وہ بات اس کے ابو تک پہنچتی اور اس کی جان پر بن جاتی۔ خرم نگاہیں جھکائے جانے لگا تو حاکم علی کی آواز آئی۔ ہادیہ اسے جانے مت دینا تم چائے بنائو۔ خرم بے بسی سے بولا۔ چچا مجھے جانا ہے، مجھے دیر ہورہی ہے۔ بالکل نہیں چائے تو پینی پڑے گی۔ حاکم علی نے اس کا بازو پکڑلیا اور اسے لے کر اندر چلے گئے۔ ابو ناراض ہوں گے۔ خرم بولا۔ تیرے ابو کو منانا آتا ہے مجھے۔ اطمینان سے بیٹھ جائو۔ آج تیری چاچی بھی گھر میں نہیں ہے، میں اور ہادیہ ہی ہیں۔ جب سے تیری چاچی اپنے بھائی کے گھر گئی ہیں، گھر سونا سونا لگ رہا ہے اور میرے کانوں نے کوئی بات بھی نہیں سنی ہے۔ حاکم علی کہہ کر مسکرائے۔ طوعاً کراہاً خرم کو بیٹھنا پڑا۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ وہ بہت لیٹ ہوچکا تھا۔ خرم نے سوچ لیا کہ جو ہونا تھا وہ ہوچکا ہے۔ وہ زیادہ دیر کوئی بات دل پر نہیں لیتا تھا، لیکن باپ کی دھمکی اس کے دل میں کھٹک رہی تھی۔ جس کرسی پر خرم بیٹھا تھا وہ کچن کے دروازے کے سامنے تھی اور حاکم علی اس کے سامنے چارپائی پر بیٹھے تھے۔ جب خرم کچن کی طرف دیکھتا تو اس کی نظر کچن کے اندر چلی جاتی۔ اندر کھڑی ہادیہ، حاکم علی کو نظر نہیں آرہی تھی۔ حاکم علی اپنا ایک پرانا قصہ لے کر بیٹھ گئے تھے۔ خرم مجبوری کی حالت میں بیٹھا ان کا قصہ سن رہا تھا۔ وہ اس بے دلی سے سن رہا تھا کہ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ ابھی حاکم علی نے کیا کہا ہے۔ اچانک قصہ سنتے سنتے اس نے گردن گھمائی تو اس کی نظر کچن پر پڑی۔ اندر ہادیہ اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے کچھ اس انداز میں خرم کی طرف دیکھ رہی تھی جیسے اسے اس کی اس حالت پر ترس آرہا ہو۔ جونہی خرم کی نظر اس پر پڑی، وہ مسکرائی اور پیچھے ہٹ گئی۔ یہ منظر اس کی آنکھوں میں محفوظ ہوگیا۔ اس نے پہلی بار ہادیہ کو اس طرح مسکراتے ہوئے دیکھا تھا۔ اس کی دلکش مسکراہٹ نے خرم کو گھائل کردیا تھا۔ اس کے دل کی دھڑکن ایک دم تیز ہوگئی تھی۔ حاکم علی اپنے ماضی کا قصہ سناتے سناتے رکے اور اس کی طرف دیکھ کر بولے۔ کیا ہوا کچھ نہیں کچھ بھی نہیں۔ خرم نے جواب دیا۔ گھبرا سے گئے ہو حاکم علی اس کا جائزہ لینے لگے۔ اچانک ایسی گھبراہٹ کیوں تھی۔ کہیں ابو کی شکل تو نظروں کے سامنے نہیں آگئی ابا نے کہا تھا کہ اگر تم پندرہ منٹ تک گھر نہ آئے تو دروازہ بند کردوں گا۔ خرم نے انکشاف کیا۔ پتا نہیں تیرے ابو کو کب عقل آئے گی۔ اپنی مرضی ٹھونستا رہتا ہے۔ تم اطمینان سے چائے پیو، میں تمہیں خود گھر چھوڑ کر آئوں گا۔ خرم کے دل سے ابو کا خوف دور ہوگیا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر چچا حاکم اسے گھر چھوڑنے چلے گئے تو پھر کوئی مسئلہ نہیں رہے گا۔ اسی اثنا میں ہادیہ چائے لے کر آگئی۔ اس نے چائے خرم کی طرف بڑھاتے ہوئے اپنے دلکش چہرے پر ہلکی سی مسکراہٹ عیاں کی اور کچن میں چلی گئی۔ خرم اور حاکم علی چائے پیتے رہے اور ان کا قصہ بھی چلتا رہا۔ اب اچھی خاصی دیر ہوگئی تھی۔ چائے ختم ہوگئی لیکن قصہ ختم نہ ہوا۔ اسی دوران حاکم علی کا فون بجنے لگا۔ دوسری طرف ان کی بیگم صاحبہ تھیں۔ لو میاں تم اب نکلو بیگم صاحبہ کا فون آگیا ہے۔ لمبی بات ہوگی۔ حاکم علی بھول گئے کہ انہوں نے اسے گھر چھوڑنے کا کہا تھا۔ وہ اُٹھ کر کمرے میں چلے گئے۔ اپنی بیگم کی فون کال موصول ہوتے ہی وہ ایک دم بیگانے ہوگئے تھے۔ خرم اپنی جگہ سے اُٹھا اور دروازے کی طرف بڑھا تو عقب سے ہادیہ نے کہا۔ مجھے لگتا ہے آج آپ کی خیر نہیں ہے۔ جو کچھ ہوگا تمہارے ابا کی وجہ سے ہوگا۔ خرم متانت سے بولا۔ کس نے کہا تھا چائے پینے کے لیے رکو چلے جاتے۔ ہادیہ نے کہا۔ وہ جانے دیتے تو جاتا نا۔ بندے کو جانا ہو تو کوئی روک نہیں سکتا۔ ہادیہ نے کہا۔ تمہارے ابا کے سامنے کسی کی نہیں چلتی۔ وہ بولنے پر آجائیں، روکنے پر آجائیں یا پھر کسی کو بھیجنے پر تل جائیں ان کو کوئی روک نہیں سکتا۔ خرم نے کہا۔ ہادیہ ہنسنے لگی۔ اس نے ہنستے ہنستے دروازہ کھول دیا۔ تشریف لے جائیں، اگر اماں کی کال کٹ گئی تو ابا کا نیا قصہ شروع ہوجائے گا۔ ہادیہ نے خبردار کیا۔ یہ ریٹائر سرکاری آفسر قصے کیوں نہیں لکھنا شروع کردیتے خرم نے مشورہ دینے کی کوشش کی۔ آج سنا رہے ہیں، کل لکھنا بھی شروع کردیں گے۔ وہ دن کب آئے گا جب وہ قصے لکھا کریں گے خرم بولا۔ جب ان کا قصہ کوئی نہیں سنے گا تو پھر وہ لکھنا شروع کردیں گے۔ ہادیہ یہ کہہ کر ہنسی۔ خرم نے جونہی گھر کے باہر قدم رکھا، ہادیہ نے آہستہ سے کہا۔ شب بخیر۔ اس شب میں خیر ہوتی ہے کہ نہیں اللہ ہی جانتا ہے۔ خرم کا جواب سن کر ہادیہ مسکرائی اور اس نے دروازہ بند کردیا۔ خرم تیز تیز چلتا اپنی گلی میں پہنچ گیا۔ اس کے قدم ایک دم رک گئے۔ اسے یاد آیا کہ شاپر وہ پھر حاکم علی کے گھر بھول آیا ہے۔ اب وہ اس تذبذب میں تھا کہ واپس جاکر شاپر لے آئے یا گھر میں داخل ہونے کی کوشش کرے۔ چنانچہ اس نے فیصلہ کیا کہ وہ گھر جانے کی فکر کرے، شاپر وہ صبح بھی لے لے گا۔ وہ اپنے گھر کے دروازے پر پہنچا تو دروازہ بند تھا۔ اس نے گھڑی میں وقت دیکھا۔ رات کے ساڑھے دس بج رہے تھے۔ سردی کی وجہ سے گلی سنسان تھی۔ خرم نے دروازہ کھٹکھٹانے کے لیے ہاتھ اُٹھایا اور جونہی وہ دروازے پر دستک دینے لگا، اس کا ہاتھ رک گیا۔ خرم نے سوچا کہ ابو یقیناً برآمدے میں چارپائی بچھائے لیٹے ہوں گے۔ دروازے پر دستک سن کر وہ بالکل نہیں اُٹھیں گے۔ امی دروازہ کھولنے کے لیے بھاگیں گی۔ ابو انہیں فوراً روک دیں گے۔ امی کی کوشش ہوگی کہ کسی طرح دروازہ کھول دیں، لیکن ابو کھولنے نہیں دیں گے اور اگر امی نے دروازہ کھولنے کی کوشش کی تو ابو امی کو بھی اپنے غصے کی زد میں لے آئیں گے۔ اس طرح اس کی امی کو اس کی وجہ سے ابو کی ڈانٹ سننے کو ملے گی۔ یہ سوچ کر خرم پیچھے ہٹ گیا اور دروازے کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ وہ معصومیت سے سوچ رہا تھا کہ اس کا دیر سے آنے میں کوئی قصور نہیں ہے، چچا حاکم نہ ملتے تو وہ کب کا گھر پہنچ چکا ہوتا۔ خرم باہر بیٹھا سوچ میں مبتلا تھا اور اندر برآمدے میں چارپائی بچھائے ماسٹر رشید اور زبیدہ بیٹھے تھے۔ دونوں کی نگاہیں دروازے کی طرف تھیں۔ دونوں کے چہرے پریشان تھے اور دونوں کی آنکھوں میں نیند نہیں تھی۔ ماسٹر رشید نے اندر سے دروازے کی کنڈی بھی نہیں لگائی تھی۔ پتا نہیں کہاں چلا گیا ہے زبیدہ ہولے سے بولی۔ میں نے کہا تھا کہ اگر تم پندرہ منٹ میں واپس نہ آئے تو میں دروازہ نہیں کھولوں گا۔ میری اس دھمکی کا بھی اس پر کوئی اثر نہیں ہوا، وہ اپنی آوارہ گردیوں میں لگا ہوا ہے۔ ماسٹر رشید نے دھیمے لہجے میں شکوہ کیا۔ مجھے لگتا ہے کہ اسے کسی وجہ سے آنے میں دیر ہوگئی اور وہ ڈر کی وجہ سے گھر نہیں آیا۔ زبیدہ نے اپنا خیال ظاہر کیا۔ میں نے کون سا دروازہ اندر سے بند کررکھا ہے، اس نے آکر ایک بار بھی دروازہ کھٹکھٹایا ہوتا تو وہ خود بخود کھل جاتا۔ اس کا صاف مطلب ہے کہ وہ اپنے آوارہ اور ڈرامے باز دوستوں کے ساتھ کہیں بیٹھا ہے۔ ماسٹر رشید خود بھی پریشان تھا۔ میں کہتی ہوں آپ ذرا باہر جاکر دیکھ آئیں۔ باہر کیا دیکھوں ذرا بازار تک جائیں۔ دیکھیں کہ خرم کہیں وہاں تو نہیں بیٹھا ہوا۔ زبیدہ نے استدعا کی۔ اس سردی میں میں کہاں جائوں میں کسی بچے کو جگاتی ہوں۔ رہنے دو۔ وہ سب بے فکر گھوڑے بیچ کر سوئے ہوئے ہیں۔ ان کو کوئی احساس ہی نہیں ہے۔ ماسٹر رشید نے کہا۔ اب ان بچوں کو کیا پتا کہ خرم آیا کہ نہیں آیا، وہ وقت پر اپنے اپنے کمروں میں چلے گئے۔ زبیدہ نے اپنے بچوں کی بھی صفائی پیش کی۔ تم سوجائو۔ میں دروازے کی کنڈی لگا دیتا ہوں۔ ماسٹر رشید اُٹھنے لگا۔ رہنے دیں آپ سوجائیں، میں ایک بار باہر دیکھ لوں۔ زبیدہ نے کہا اور بستر سے نکل کر دروازے کی طرف چل دی۔ زبیدہ آہستہ آہستہ چلتی دروازے تک پہنچی۔ اس نے دروازہ کھولا اور باہر دیکھا تو گلی سنسان تھی۔ محض پانچ منٹ قبل خرم اس جگہ سے اُٹھ کر چلتا ہوا گلی کے چوک میں پہنچ کر دائیں طرف مڑگیا تھا۔ زبیدہ نے دائیں بائیں دیکھا اور دروازہ بند کرکے اندر سے کنڈی لگادی۔ اس کا چہرہ مزید پریشان اور اداس ہوگیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ خرم محلے کے بازار میں پہنچ گیا۔ جہاں مونگ پھلی، پان سگریٹ کی دکانیں کھلی تھیں۔ خرم نے دائیں بائیں دیکھا اور پھر ایک بند دکان کے تھڑے پر بیٹھ گیا۔ سردی لگ رہی تھی۔ اس نے جیکٹ پہنی ہوئی تھی۔ پیروں میں چپل تھی، وہ صرف سوٹ کا کپڑا لینے گیا تھا۔ اسے کیا پتا تھا کہ اسے حاکم علی مل جائیں گے۔ خرم کے پیر یوں ٹھنڈے ہو رہے تھے جیسے برف میں لگے ہوں۔ خرم سوچنے لگاکہ رات اس جگہ بیٹھ کر گزارنا بہت مشکل ہے۔ اچانک اسے خیال آیا کہ کیوں نہ وہ چچا حاکم کے گھر چلا جائے اور رات وہیں گزار لے۔ ابھی یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک ایک ہلچل سی برپا ہوئی۔ اس نے دیکھا کہ ایک طرف سے کچھ نوجوان تیزی سے بھاگتے آرہے ہیں۔ بھاگتے ہوئے وہ نوجوان دائیں بائیں گلیوں میں چلے گئے اور پھر خرم نے ان نوجوانوں کے پیچھے پولیس کو آتے دیکھا۔ جو ان کے پیچھے گلیوں میں چلی گئی۔ خرم کھڑا ہوگیا۔ اس دوران اس کے سامنے سے دو نوجوان بھاگ کر گزرے تو پیچھے پولیس بھی بھاگتی ہوئی گئی اور ایک پولیس والا جو پیچھے آرہا تھا، اس نے آئو دیکھا نہ تائو خرم کو مضبوطی سے پکڑلیا۔ چھوڑو مجھے۔ خرم نے مزاحمت کی۔ کیوں چھوڑیں۔ پولیس والے نے اپنی گرفت مضبوط کرتے ہوئے کہا۔ خرم اپنے آپ کو چھڑانے کی کوشش کرنے لگا اور وہ اپنے جسم کو جھٹکے دیتے ہوئے بولا۔ میں نے کیا کیا ہے مجھے چھوڑو۔ پولیس والے نے اسے اس مضبوطی سے گرفت میں لیا ہوا تھا کہ وہ اس کی گرفت سے نکل نہیں پارہا تھا۔ اس دوران ایک پولیس والا اور آگیا۔ اب دو پولیس والوں سے اپنا آپ چھڑانا مشکل ہوگیا۔ اس کی مزاحمت اور کوشش بے سود ہورہی تھی۔ لے چلو اسے۔ پہلے پولیس والے نے کہا۔ دونوں اسے زبردستی ایک طرف لے جانے لگے۔ میں نے کیا کیا ہے مجھے کیوں پکڑا ہے۔ خرم نے رک کر کہا۔ بکواس بند کرو ورنہ یہیں الٹا لٹکا کر مارنا شروع کردیں گے سمجھے۔ پولیس والا دھاڑا۔ میں نہیں جائوں گا۔ خرم زمین پر بیٹھ گیا۔ تیرا تو باپ بھی جائے گا۔ دونوں پولیس والے اسے کھینچتے ہوئے پولیس وین کی طرف لے گئے اور انہوں نے وین میں اُسے اس طرح ڈالا جیسے وہ انسان نہ ہو۔ اس کا سر کسی سخت چیز سے ٹکرایا اسے تکلیف ہونے لگی۔ خرم نے دیکھا کہ وین میں کچھ اور نوجوان بھی بیٹھے تھے۔ اس دوران پولیس والے تین اور نوجوانوں کو بھی لے آئے اور انہیں بھی انہوں نے وین کے اندر ٹھونس دیا۔ اس کے بعد پولیس والے وین کے پیچھے کھڑے ہوگئے اور وین چلنے لگی۔ خرم کے علاوہ جتنے لوگ اس وین میں موجود تھے، خوش و خرم ایک دوسرے سے باتیں کررہے تھے۔ ایک خرم تھا جو پریشان ہوکر ان سب کے چہروں کو دیکھ رہا تھا۔ میں نے کیا کیا ہے مجھے چھوڑو میں تو وہاں بیٹھا ہوا تھا۔ خرم نے ایک بار پھر احتجاج کیا۔ چپ کر کے بیٹھے رہو۔ پولیس والے نے ڈانٹا۔ تم نے جو کیا ہے، وہ تھانے جاکر بتائیں گے۔ گاڑی روکو مجھے اتارو۔ خرم چلاّیا۔ چپ ہوتے ہو یا میں ایک خوراک دوں۔ پولیس والا اس کی طرف قہر آلود نگاہوں سے دیکھتے ہوئے دھاڑا۔ میں نے کیا جرم کیا ہے خرم نے اس بار زور سے بولنے کی بجائے دھیمے انداز میں کہا۔ جاری ہے
null
null
null
null
426
https://www.urduzone.net/ghara-nahe-qismat-phooti-teen-auratien-teen-kahaniyan/
گائوں میں ہمارا گھرانہ خوشحال اور ہم معزز لوگوں میں شمار ہوتے تھے۔ میں نے میٹرک کیا تو منگنی چچازاد سے ہوگئی۔ میں تعلیم کا سلسلہ جاری نہ رکھ سکی۔ دلشاد میرے ساتھ پڑھتی تھی، وہ میری بچپن کی سہیلی تھی۔ اس نے تیسری جماعت سے اسکول کو خیرباد کہہ دیا۔ اس طرح ہماری دوستی بھی جاری نہ رہ سکی۔ ہمارے خاندان میں چادر اور چار دیواری کی پابندی لازم تھی جبکہ دلشاد پردہ نہ کرتی تھی۔ اس کا تعلق محنت کش طبقے سے تھا۔ خواتین کو کھیتوں میں کام کرنا پڑتا تھا۔ شادو بھی عورتوں کے ہمراہ کھیتوں میں کام کرتی تھی۔ اسی وجہ سے اس سے میری ملاقات شاذ ہی ہوتی۔ جب تک اس کی شادی نہ ہوئی، اپنی خالہ کے گھر پروان چڑھی۔ ماں کے انتقال کے بعد اس کے باپ نے دوسری شادی کرلی۔ سوتیلی ماں برا برتائو کرتی تھی۔ باپ نے بہتر جانا کہ شادو کو اس کی خالہ کو سونپ دے۔ شادو کی خالہ کا گھر ہمارے برابر میں تھا۔ وہ بچپن میں سارا دن ہمارے آنگن میں کھیلا کرتی تھی۔ بارہ برس کی عمر میں اس کا باپ شادو کو اپنے گھر لے گیا کیونکہ اس کی دوسری بیوی سے تین بچے ہوگئے تھے جو چھوٹے تھے۔ ماں کو تنگ کرتے تھے، گھر سنبھالنے کے لیے ان کو شادو کی ضرورت تھی۔ وہ روتی ہوئی چلی گئی۔ اس دن کے بعد سے اس کا ہمارے ہاں آنا متروک ہوگیا۔ کچھ عرصے بعد سنا کہ اس کی شادی سوتیلی ماں کے بھانجے سے ہوگئی ہے۔ سگی خالہ بھی شادو کا رشتہ لینا چاہتی تھی مگر سوتیلی والدہ نے ایسا نہ ہونے دیا۔ اس بات کا شادو کو ازحد دکھ تھا۔ جب سوتیلی ماں اچھی نہ تھی تو اس کی بہن کیسے اچھی ہوتی۔ کچھ دنوں بعد معلوم ہوا کہ شادو کی ساس اس پر سخت پابندیاں رکھتی ہے، تبھی چاہتے ہوئے بھی وہ اپنی سگی خالہ کے گھر نہیں آسکتی تھی۔ یہ سردیوں کے دن تھے۔ میرا بھائی فصیح شہر سے چھٹیوں میں گھر آیا ہوا تھا۔ وہ شہر پڑھنے گیا ہوا تھا اور وہاں کالج کے ہاسٹل میں رہتا تھا۔ فصیح جب گائوں آتا، صبح واک کے لیے ضرور دریا کی طرف جاتا تھا۔ یہ اس کا معمول تھا۔ اس روز بھی وہ سردیوں کی دھوپ کا مزا لینے دریا کنارے چلا گیا۔ سردیوں کی خنکی میں دھوپ کی تمازت خوب لطف دے رہی تھی اور دریا کا پُرفضا کنارا روح کو سرور بخش رہا تھا۔ صبح کے دس بجے تھے۔ جب وہ دریا سے لوٹ کر آرہا تھا راستے سے گزرتے ہوئے ٹھٹھک گیا۔ اسے لگا جیسے کسی نے کنکر مارا ہو۔ اِدھر اُدھر دیکھا کوئی نظر نہ آیا۔ سامنے ہی ہمارے چچا کا گھر تھا جو دو منزلہ تھا۔ گمان ہوا شاید کنکر ادھر سے آیا ہو لیکن وہاں کوئی دکھائی نہ دیا۔ ایک قدم آگے چلا تھا کہ ایک چھوٹا سا کنکر دوبارہ آکر لگا۔ فصیح نے مڑ کر دیکھا۔ اپنے پیچھے اسے ایک الہڑ مٹیار آتی دکھائی دی۔ وہ اتنی خوبصورت تھی کہ بس وہ اسے دیکھتا ہی رہ گیا۔ یہ اٹھارہ برس کی شادو تھی۔ سر پر پانی کا گھڑا اٹھائے سہج سہج چلتی آرہی تھی۔ وہ اس وقت دریا سے گھڑا بھر کر لوٹ رہی تھی۔ شادو کو میرے بھائی نے بہت عرصہ قبل دیکھا تھا۔ پہلی نظر میں پہچان نہ سکا۔ جونہی وہ قریب سے گزری، ایک اور کنکر فضا میں سنسناتا ہوا آیا اور اس کے گھڑے پر زور سے لگا۔ بھائی کی محویت ٹوٹی مگر اس کا گھڑا بھی ٹوٹ گیا۔ وہ بچاری گھڑے کے پانی میں نہا کر شرابور ہوگئی۔ اس ناگہانی آفت سے گھبرا کر اس نے فصیح کو خشمگیں نگاہوں سے گھورا کیونکہ وہ اس کے قریب ترین تھا۔ شادو سمجھی یہ فصیح کی شرارت ہے۔ وہ غصے سے بولی۔ کیا تمہیں شہر میں یہی پڑھاتے ہیں کہ دوسروں کو تنگ کیا کرو ان کے گھڑے کنکر مار کر توڑ دیا کرو۔ وہ توپانی میں شرابور تھی مگر اس کے ایسا کہنے پر فصیح بھی پانی پانی ہوگیا حالانکہ یہ حرکت میرے بھائی سے سرزد نہ ہوئی تھی۔ شادو سردی سے بری طرح کپکپا رہی تھی۔ فصیح کو افسوس ہوا۔ بولا۔ یقین کرو میں نے تمہارا گھڑا نہیں توڑا، نجانے یہ پتھر کہاں سے آیا ہے۔ کیا جنوں نے پھینکا ہے یہاں تمہارے سوا کون ہے۔ بھائی کی نگاہ دفعتاً سامنے چچا کے مکان کی چھت کی جانب گئی جہاں اس کی منگیتر سعدیہ دکھائی دی۔ پل بھر کو اس نے جھانکا اور پھر نیچے بیٹھ گئی۔ شادو اسے نہ دیکھ سکی لیکن فصیح سمجھ گیا کنکر سعدیہ نے مارا ہے۔ یہ سعدیہ کی حرکت تھی۔ اپنے منگیتر کو دیکھ کر اسے شرارت سوجھی مگر ایک کنکر پیچھے آتی شادو کے گھڑے پر بھی جا لگا۔ فصیح نے شادو کو بتانا مناسب نہ سمجھا کہ کنکر سعدیہ نے مارا ہے۔ اس نے خاموشی اختیار کرلی۔ شادو یقین کرو یہ کنکر میں نے نہیں مارا۔ اگر تم کو میرا یقین نہیں ہے تو بے شک نہ کرو۔ مجھے معاف کردو کہ میں تمہارے راستے میں آگیا۔ پھر احتراماً اپنی چادر اس کی طرف بڑھا کر ملتمس ہوا۔ تمہیں سردی لگ رہی ہے، یہ اوڑھ لو۔ میدان میں کچھ بچے گیند سے کھیل رہے تھے، اچانک گیند ادھر آگئی جہاں یہ دونوں کھڑے تھے۔ ایک بچہ بھاگتا ہوا آیا اور ان کے پاس آکر رک گیا۔ میں تیری چادر کیوں اوڑھ لوں، کیا یہ چادر اوڑھ کر میرا گھر جانا مناسب ہوگا کیا میری ساس پوچھے گی نہیں کہ تو نے یہ کس کی چادر اوڑھی ہوئی ہے، کیا وہ میرا برا حشر نہ کردے گی میں نے اس خیال سے کہا کہ تمہیں گھر تک اس سردی میں بھیگے کپڑوں میں جانا پڑے گا، بیمار نہ ہوجاؤ۔ اس پر شادو کی بجائے اس لڑکے نے جواب دیا جو گیند ہاتھ میں لئے قریب کھڑا تھا۔ لالہ جی یہ میری چاچی ہے، میں ابھی دوڑ کر گھر سے چادر لے آتا ہوں۔ یہ کہہ کر وہ گھر کی جانب دوڑ گیا۔ میری ساس بہت سخت ہے۔ جانے اب وہ کیا حشر کرے میرا اس حلیے میں دیکھ کر، نجانے تجھے کیا ملا میرا گھڑا پھوڑ کر اُف کیا کروں بھائی نے کہا۔ اچھا یہ لو بیس روپے، نیا گھڑا خرید لینا۔ وہ سمجھا کہ شاید شادو کو گھڑے کے ٹوٹنے کا صدمہ زیادہ ہے۔ دوبارہ کہا۔ اچھا یہ لو سو روپے، اپنا نقصان پورا کرلینا۔ ایک نہیں دو گھڑے خرید لینا۔ دیہاتی غریب لوگ ہوتے ہیں، اپنا تھوڑا سا نقصان بھی برداشت نہیں کرسکتے۔ بھائی نے نوٹ اس کی طرف بڑھایا تھا۔ اسی وقت لڑکا اپنے گھر سے چادر لے کر آگیا۔ بھائی کو نوٹ شادو کی طرف بڑھاتے دیکھا تو ٹھٹھک گیا۔ بولا۔ یہ کیا ہورہا ہے چاچی ابھی جاکر بتاتا ہوں دادی کو، نوٹ لیتی ہے غیر مرد سے وہ تجھے بہت مارے گی دیکھ لینا۔ لڑکا گھر کی طرف دوبارہ بھاگا۔ سن لیا کیا کہا ہے اس نے اب میرا جو حشر ہونے والا ہے، وہ بھی سن لینا۔ یہ کہہ کر شادو اپنے گھر کی جانب روانہ ہوگئی۔ اس کے جانے کے بعد بھائی افسردہ سا گھر میں داخل ہوا۔ امی نے پوچھا۔ بیٹا ناشتہ لائوں نہیں ماں بھوک نہیں ہے۔ طبیعت تو ٹھیک ہے دوپہر ہونے لگی ہے اور تجھے بھوک نہیں ہے۔ شہر جاکر کیوں بھوک اُڑ گئی ہے تیری بھائی نے کچھ نہ بتایا، بس پتھر کی مورت بنا بیٹھا رہا۔ آدھ گھنٹے بعد وہ بغیر کسی کو کچھ بتائے پھپھو کے گھر چلا گیا۔ پھپھو کے بیٹے اشرف سے اس کی دوستی تھی۔ شام کو لوٹا تو والدہ سخت برہم تھیں۔ فصیح کو دیکھتے ہی برس پڑیں۔ کہاں چلے گئے تھے تم ہمیں اس گائوں میں رہتے برسوں ہوگئے، کبھی ہم سے گائوں والوں کو شکایت نہیں ہوئی۔ آج تو نے یہ کیا حرکت کی کیا اماں میں سمجھا نہیں تو نے تمیزے کی گھر والی کو چھیڑا، کنکر مار کر اس کا گھڑا پھوڑ دیا۔ ماں ایسا کچھ نہیں ہوا۔ یہ لوگ بس بات کا بتنگڑ بنا دیتے ہیں۔ تو نے شادو کو نہیں چھیڑا اس کا گھڑا نہیں توڑا اسے نوٹ نہیں دے رہا تھا تو پھر کس بات کی مار پڑ رہی ہے اسے۔ اس کے دیور کا لڑکا وہاں کھڑا تھا اور یہ سب کچھ اس نے اپنی آنکھوں سے دیکھا۔ شادو کی ساس آئی تھی میرے پاس، مجھے سب بتا کر گئی ہے۔ آخر کیا تعلق ہے شادو کا تجھ سے، کیوں پیسے دے رہا تھا تو اسے بھائی سر جھکائے بیٹھا تھا اور ماں بولے جارہی تھی۔ گائوں کی بہو، بیٹیاں ہم سب کی بہو، بیٹیاں ہوتی ہیں۔ تمہارے بابا کو جب یہ لوگ بتائیں گے تو وہ کسی کو منہ دکھانے کے قابل رہیں گے تو جانتا ہے کہ بچاری شادو کا کیا حال کیا ہے انہوں نے، بہت مار پڑی ہے اسے، بدن نیلا کر ڈالا ہے ان ظالموں نے تمہاری اس حرکت کی وجہ سے اس شیطان چھوکرے نے نہ جانے کیا باتیں اس کی ساس سے جاکر جڑی ہیں۔ اب اس لڑکی کا بچنا محال ہے۔ سر سے پائوں تک بھیگی ہوئی گھر جب پہنچی تو کون اس لڑکے کی بات کا یقین نہ کرتا۔ یہ ساری باتیں سن کر میرے کان کھڑے ہوگئے۔ یقین نہ آرہا تھا کہ میرا بھائی ایسی مذموم حرکت کرسکتا ہے۔ میں نے موقع پاتے ہی فصیح سے پوچھا۔ سچ بتائو بھائی کیا آپ نے ایسا کیا مجھے یقین نہیں آرہا۔ سچی بات ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا۔ میں دریا سے لوٹ رہا تھا، وہ راستے میں مل گئی۔ ایک کنکر مجھے لگا، دوسرا اس کے گھڑے پر پہلے تو میری سمجھ میں نہ آیا کیا ہوا کیونکہ میدان میں دور لڑکے دوسری طرف کھیل رہے تھے۔ ان کا پھینکا پتھر ہمیں نہ لگتا۔ سامنے دیکھا تو سعدیہ اپنے گھر سے جھانک کر غائب ہوگئی۔ سمجھ گیا یہ اسی کی کارستانی ہے۔ مجھے اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے اس نے جو دوسرا کنکر مارا، وہ شادو کے گھڑے کو لگا۔ میں سعدیہ کا نام کیسے لیتا، شادو گائوں بھر میں شور ڈال دیتی اسی لئے چپ ہوگیا۔ مجھے یقین آگیا میرا بھائی صحیح کہہ رہا ہے۔ چاہتی تھی کہ اماں کو یہ بات بتا کر ان کی غلط فہمی دور کردوں لیکن فصیح نے سختی سے منع کردیا۔ ہرگز سعدیہ کا نام زبان پر مت لانا۔ اماں، ابا کو کہیں گی اور ابا، چچا سے جاکر بولیں گے۔ بات کہاں سے کہاں جا پہنچے گی۔ بھائی کے منع کرنے پر میں نے بھی لب سی لئے افسوس ضرور تھا کہ ناحق شادو پر ظلم ہوا اور اب انہوں نے اس کا گھر سے باہر نکلنا دشوار کردیا تھا۔ اسے کوٹھری میں بند کردیا تھا کہ اس کا باپ شہر گیا ہوا تھا۔ سسرال والوں کا کہنا تھا کہ وہ شہر سے لوٹ کر آئے گا تو پھر اس کے بارے میں فیصلہ کریں گے۔ بھائی نے اپنی منگیتر کی پاسداری میں اس امر کو بھلا دیا کہ شادو کا کیا حشر ہونے والا ہے جبکہ اس کی ساس اعلانیہ کہہ رہی تھی کہ اس کی بہو خراب ہے۔ اس کا چکر فصیح سے نجانے کب سے چل رہا ہے۔ فصیح کو جب والدہ نے یہ سب بتایا تو اس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ یہ سوچ بھی نہ سکتا تھا کہ یہ سیدھے سادے دیہاتی غریب لوگ اس قدر شکی اور بدگمان ہوسکتے ہیں۔ وہ تو چھٹیوں میں چند روز کے لیے شہر سے گھر آتا تھا۔ میں سعدیہ کو دل دل میں کوسنے لگی کہ اس احمق لڑکی کی چھچھوری حرکت کی وجہ سے شادو غریب کی شامت آگئی تھی۔ اب ماں بھی کیونکر اپنے بیٹے کی صفائی دینے جاسکتی تھی کہ نجانے اس بے وقوف لڑکے نے کیا جاکر اپنی دادی کو بتایا تھا۔ میں نے بھائی کو سمجھایا۔ ماں کو بتا دو کہ پتھر سعدیہ نے اپنی چھت سے مارا تھا تمہیں چھیڑنے کی خاطر لیکن یہ بات شادو کے سسرالیوں کو کیونکر کہی جاسکتی تھی، سعدیہ ان کی ہونے والی بہو تھی۔ اگلے دو دنوں میں یہ بات معلوم ہوگئی کہ شادو کی ساس نے معاملے کو اس قدر ہوا دے دی ہے کہ گھر کے مرد شادو کی جان کے درپے ہوگئے ہیں۔ وہ کہہ رہے تھے کہ ہم فصیح کو بھی دیکھ لیں گے۔ بڑے باپ کا بیٹا ہے تو کیا ہوا، اس کا یہ مطلب تو نہیں کہ غریبوں کی بہو، بیٹیوں کی طرف ہاتھ بڑھائے۔ یہ ہمارے گائوں کا پہلا واقعہ تھا جو اس رنگ میں سامنے آیا تھا۔ فصیح نے تصور بھی نہ کیا تھا کہ بات کا ایسا بتنگڑ بن جائے گا۔ بھائی نے کہا کہ میں جاکر شادو کے سسر سے ملتا ہوں اور اسے اصل بات بتا دیتا ہوں۔ تب ماں نے سمجھایا۔ بیٹا تم وہاں اکیلے ہرگز مت جانا، یہ اَن پڑھ لوگ ہیں اور بات بات پر کلہاڑیاں نکال لیتے ہیں۔ ایسا نہ ہو کہ بات بڑھ جائے۔ بہتر ہے کہ تم شہر چلے جائو، تمہارے والد اپنی اراضی سے آجائیں تو وہ ان لوگوں سے نمٹ لیں گے۔ والدہ کے اصرار پر بھائی شہر لوٹ گیا حالانکہ ابھی اس کی چھٹیاں باقی تھیں مگر امی نے دوراندیشی کا مظاہرہ کیا کہ بات بڑھ نہ جائے کیونکہ وہ لوگ سخت غصے میں تھے۔ اس کے بعد کیا ہوا یہ سن کر رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ انہوں نے شادو کے باپ کو بلوایا اور شادو پر بدچلنی کا الزام لگا کر اسے طلاق دے دی۔ والد صاحب نے چٹی رقم دے کر لڑکی کے والد کا غصہ ٹھنڈا کردیا۔ باپ نے شادو کو دور کے گائوں میں ایک عمر رسیدہ شخص کے نکاح میں دے کر بدلے میں اس سے رقم لے لی یعنی اسے فروخت کردیا۔ اس طرح گائوں والوں اور اس کے رشتے داروں کا شادو سے کوئی تعلق واسطہ باقی نہ رہا۔ ہم لوگوں نے بھی چپ سادھ لی کہ جو ہونا تھا، سوہوا۔ اب یہ معاملہ دبا رہنے دیا جائے تو بہتر ہوگا ورنہ گائوں والے فصیح سے بدظن ہوگئے تو اس کا یہاں عزت سے رہنا دشوار ہوجائے گا۔ شادی کے بعد میرے شوہر ایک بار مجھے اپنے ایک دوست کے گھر لے گئے۔ یہ ایک دور کے گائوں کے زمیندار تھے، ان لوگوں نے ہماری شادی کی دعوت کی تھی۔ وہاں ان کے گھر ایک عورت کو کام کاج کرتے دیکھ کر میں ٹھٹھک گئی۔ چہرہ جانا پہچانا لگتا تھا۔ ذرا غور کیا تو لگا کہ یہ شادو ہے۔ تبھی اس کے پاس گئی اور پکارا شادو اس نے کہا۔ اب پہچانا ہے مجھے، آپ کو تو میں نے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔ یہ کیا حالت ہوگئی ہے تمہاری تم تو واقعی پہچانی نہیں جارہی ہو حالات انسان کو بدل دیتے ہیں سمعیہ بی بی مجھے بھی حالات نے بدل دیا ہے۔ شکر ہے کہ تم مل گئیں۔ میرے دل پر منوں بوجھ تھا۔ آج بتاتی ہوں کہ وہ کنکر کس نے مارا تھا جس سے تمہارا گھڑا ہی نہیں، تمہاری قسمت بھی پھوٹ گئی تھی۔ وہ کنکر سعدیہ نے میرے بھائی کو مارا تھا، فصیح کا کوئی قصور نہیں تھا۔ خدا کے لیے اس کی طرف سے دل صاف کرلینا۔ اب دل میلا رہے یا صاف ہوجائے، اس کا کیا فائدہ میری تو زندگی برباد ہوگئی نا انہوں نے میری معصوم بچی بھی چھین لی اور ایک بوڑھے کے ہاتھ بیچ ڈالا۔ بوڑھا غریب ہی نہیں بیمار بھی ہے۔ اللہ نے دو بچے اس شخص سے دیئے ہیں، ان کو پالنے کے لیے مشقت کرتی ہوں۔ اپنوں سے جدائی بڑی بُری شے ہے۔ میں بچپن میں ماں کے پیار سے محروم ہوئی اور میری معصوم بچی کا نصیب کہ وہ بھی بچپن میں ہی ماں کے پیار سے محروم کردی گئی۔ یہی غم ہے جس نے دیمک بن کر میرے وجود کو چاٹ لیا ہے۔ وہ صحیح کہہ رہی تھی۔ یہ شادو اب وہ شادو نہ رہی تھی کہ جس کے حسن کے سامنے چاند کی چاندنی بھی ماند پڑ جاتی تھی اور جس کے چہرے پر نظر نہیں ٹکتی تھی۔ وہ شادو اب ایک بوڑھی اور بدصورت عورت میں تبدیل ہوچکی تھی۔ س فیصل آباد
null
null
null
null
427
https://www.urduzone.net/weham-ka-elaaj-nahe-teen-auratien-teen-kahaniyan/
چچا صدیق میرے والد کے بچپن کے دوست تھے۔ دونوں میں سگے بھائیوں جیسا پیار تھا۔ ایک اسکول میں پڑھا، نوکری بھی ایک ساتھ کی مگر اللہ کی رضا چچا تھوڑی زندگی لے کر آئے تھے۔ ایک روز دفتر میں کام کرتے ہوئے سینے میں درد محسوس کیا اور چند منٹوں میں دنیا سے چلے گئے۔ والد صاحب کو اپنے پیارے دوست کی وفات کا بہت صدمہ ہوا۔ ان دنوں چچا کے بچے کمسن تھے۔ ان کا بیٹا اختر ہمارے بھائی طاہر کے برابر تھا۔ دونوں ایک کلاس میں پڑھتے تھے۔ والد جس قدر اپنے بیٹے سے پیار کرتے تھے، اتنا ہی اختر کو چاہتے تھے۔ جس وقت چچا کا جنازہ اٹھا، اختر بہت رو رہا تھا۔ وہ نو برس کا تھا۔ ابو نے آگے بڑھ کر اسے گلے لگایا، تسلی دی۔ بولے۔ تمہارے والد دنیا میں نہیں رہے مگر تمہارا تایا ابھی زندہ ہے۔ جب تک زندگی ہے، تمہیں باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دوں گا۔ چچا صدیق کی بیوی خالہ شائستہ، امی کی کزن کی بیٹی تھیں۔ دونوں میں بہنوں جیسا پیار تھا۔ ان کا کوئی بھائی، چچا اور تایا نہ تھا جو اس بیوہ کا پرسان حال ہوتا۔ ان کا تو گھر بھی ذاتی نہ تھا۔ شوہر کے مرتے ہی بیچاری خالہ شائستہ پر گویا قیامت ٹوٹ پڑی۔ والد صاحب تقریباً روز جاتے، سودا سلف پہنچاتے، شائستہ بی بی اور ان کے بچوں کی خبر گیری کرتے تھے۔ والدہ بھی ہفتے میں دو بار چلی جاتی تھیں۔ امی جان کو ان کی زیادہ فکر رہتی تھی۔ ایک روز ابو سے بولیں۔ اگر تم برا نہ مانو تو شائستہ کو اپنے نکاح میں لے لو۔ ہمارے گھر کا اوپر والا حصہ خالی ہے، ان لوگوں کے بچوں کے سر پر ہاتھ رکھنے والا کوئی نہیں ہے۔ مالک مکان نے گھر سے نکال دیا تو یہ کہاں جائیں گے امی کی تجویز سن کر والد ہکابکا رہ گئے۔ بے شک وہ اپنے مرحوم دوست سے محبت کرتے تھے، ان کے بچوں کی دادرسی بھی کرنا چاہتے تھے، لیکن کسی لالچ کے بغیر وہ خوف خدا کی وجہ سے بیوہ اور اس کے بچوں کی مدد کررہے تھے۔ حیران ہوں تم دنیا کی واحد عورت ہو جو اپنے شوہر کو دوسری شادی کے لئے اکسا رہی ہو، جبکہ میں نے دوسری شادی کا تصور بھی نہیں کیا اور نہ کرنا چاہوں گا۔ تم ٹھیک کہتے ہو لیکن مجبوری ہے۔ میں کہہ رہی ہوں۔ دیکھو ڈاکٹر شفیقہ نے میرے ٹیسٹ کروائے ہیں، کینسر تشخیص ہوا ہے۔ میں نے سوچا ایک دو روز میں آپ کو بتا دوں گی اور ابھی کل تو ڈاکٹر شفیقہ نے بتایا ہے۔ ڈاکٹر شفیقہ دراصل امی کی خالہ زاد تھیں اور لندن سے کینسر اسپیشلسٹ ہوکر آئی تھیں۔ والد صاحب ان کے پاس گئے اور تصدیق چاہی۔ صائمہ صحیح کہتی ہیں۔ باجی کا آپریشن ہوگا، اللہ سے امید اچھی رکھنی چاہئے کہ وہ آپریشن کے بعد صحت یاب ہوجائیں گی۔ والد صاحب اس خبر سے ازحد پریشان تھے۔ اب ان کے لئے سب سے بڑا مرحلہ یہ تھا کہ ہمیں صدمہ نہ ہو۔ ظاہر ہے اگر ابو دوسری شادی کرتے تو ہم لوگ کا ڈسٹرب ہوجانا لازمی تھا۔ وہ دوسری شادی کسی صورت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ امی نے ان کو شائستہ سے نکاح پر مجبور نہ کیا، شاید انہوں نے اپنی اس بیوہ کزن سے بات کی ہوگی، کیونکہ عدت پوری ہوچکی تھی اور مکان کے لئے جو مہلت لی تھی، وہ بھی پوری ہوگئی تھی۔ والدہ اپنی کزن کو ان کے بچوں سمیت گھر لے آئیں اور مکان کا اوپر والا حصہ انہیں رہنے کو دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے امی کی قسمت میں شفا نہ لکھی تھی۔ ایک ماہ بعد آپریشن ہوا تو صحت یاب ہونے کی بجائے طبیعت بگڑتی چلی گئی اور تین ماہ بعد وہ ہمیں داغ مفارقت دے گئیں۔ ہمارے لئے یہ غم کسی سانحے سے کم نہ تھا۔ آخری وقت میں امی نے شائستہ سے قول لیا تھا کہ میرے مرنے کے بعد تم اس گھر کو سنبھالنا۔ میرے بچوں کو ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دینا اور اپنے دل کو میرے شوہر سے نکاح پر راضی کرلینا ورنہ یہ دنیا تمہیں جینے نہ دے گی۔ تم یہاں بغیر نکاح عمر بھر نہیں رہ سکو گی۔ ہم سبھی والدہ کی وفات پر غم سے نڈھال تھے۔ سچ بات ہے میری دور اندیش ماں اپنے ہوتے سوتن کو منتخب نہ کر جاتیں تب جانے ہمارا کیا حال ہوتا۔ خالہ شائستہ نے بیماری میں جیسے امی کی تیمارداری کی، شاید کوئی سگی بہن کرتی۔ ہم تو کم عمر اور نادان تھے۔ ان کی دونوں بیٹیاں ہم سے بڑی تھیں، انہی لوگوں نے گھر اور ہمیں سنبھالا۔ قدرت کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے۔ یوں وہ ابو سے نکاح پر راضی نہ ہوتیں لیکن اللہ نے انہیں اور ان کے بچوں کو چھت اور مالی آسرا دینا تھا جس کے لئے میرے والد سے بہتر کوئی شخص نہ تھا۔ کچھ دنوں بعد جب والد صاحب نے اپنی مرحومہ بیوی کا پیغام شائستہ کو سنایا۔ وہ راضی ہوچکی تھیں۔ انہیں بھی گھر اور یتیم بچوں کے لئے سہارا درکار تھا۔ ان کے بچے ہمارے گھر پہلے سے رہ رہے تھے۔ والد سے مانوس ہوچکے تھے۔ شائستہ خالہ کا بھرپور پیار اور توجہ پا کر امی کے صدمے کو ہم نے رفتہ رفتہ بھلا دیا۔ وہ ہمارے زخموں کا مرہم بن گئیں۔ جتنا پیار اپنے بچوں سے کرتی تھیں، اتنا ہی انہیں ہم سے تھا۔ والد نے بھی ان کی اولاد کو اپنی اولاد کی مانند رکھا۔ ہمارا گھر سکون کا گہوارہ تھا، سکون کا گہوارہ ہی رہا۔ میری دو بہنیں تھیں عتیقہ اور مائرہ مائرہ باجی ہم سے بہت پیار کرتی تھیں۔ وہ سارا دن مجھے اور طاہر کو ساتھ رکھتیں کہ وہ چھوٹا اور ہمارا اکلوتا بھائی تھا، جبکہ بڑی آپی چھوٹی امی کے ساتھ کام میں مشغول ہوتیں۔ اختر اور طاہر کی دوستی ایک گھر میں رہنے کی وجہ سے مزید پکی ہوگئی۔ دونوں ساتھ اسکول جاتے تھے۔ پہلے میرا ایک بھائی تھا، اب دو ہوگئے۔ طاہر کو بھی بھائی مل گیا۔ ہر وقت ساتھ رہتے، ساتھ پڑھتے، باہر اکٹھے جاتے غرض اختر کی رفاقت نے طاہر کے دل سے امی کی جدائی کے درد کو ہلکا کردیا۔ جن دنوں اختر اور طاہر نویں میں گئے، میری دونوں بہنوں عتیقہ اور مائرہ کا رشتہ ہوگیا۔ شائستہ خالہ نے دونوں بہنوں کے رشتے پہلے ہونے دیئے تاکہ ہمیں اپنی والدہ کی کمی محسوس نہ ہو۔ آپی کے لئے والد نے اپنے کزن کے بیٹے کا رشتہ پسند کیا اور مائرہ کے لئے اپنے دفتر میں ساتھ کام کرنے والے شخص فیاض کے لڑکے کو منتخب کرلیا۔ چھوٹی امی جنہیں ہم ابھی تک خالہ ہی کہتے تھے، فیاض کے گھر ان کا رہن سہن دیکھنے گئیں۔ رہن سہن ٹھیک تھا۔ لوگ بھی صحیح لگے مگر نجیب ان کو پسند نہ آیا۔ گھر آکر ابو کو سمجھایا کہ مجھے لڑکا صحیح نہیں لگا۔ بہتر ہوگا کہ ہم مائرہ کا رشتہ یہاں طے نہ کریں، کسی اور بہتر رشتے کا انتظار کرلیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ مسبب الاسباب ہے۔ دفتر کے ایک دو کولیگز نے بھی میرے باپ کو اشارتاً منع کیا کہ نجیب کی سوسائٹی ٹھیک نہیں ہے، آپ رشتہ اچھی طرح سوچ سمجھ کر کریں۔ والد صاحب کو مگر فیاض نے کچھ اس طرح شیشے میں اتارا کہ انہوں نے اپنا ارادہ نہ بدلا۔ وہ کہتے تھے کہ فیاض ٹھیک ہے تو اس کا بیٹا بھی ٹھیک ہوگا۔ میں نے زبان دے دی ہے، اب زبان سے نہیں پھروں گا۔ نجیب کی منگنی باجی مائرہ سے ہوگئی، مگر وہ خوش نہ تھیں کیونکہ چھوٹی امی کی زبانی سن چکی تھیں۔ نجیب اچھا لڑکا نہیں ہے۔ وہ آخر وقت تک اس رشتے کی مخالفت کرتی رہی تھیں۔ ابو نے ان کی ایک نہ سنی۔ ہمارے خاندان میں رشتے والدین طے کرتے تھے۔ لڑکیوں کو بولنے کا حق نہ تھا۔ آپی عتیقہ کے رشتے پر سبھی خوش اور مطمئن تھے۔ ددھیال والوں میں سے بھی کسی نے اعتراض نہ کیا کیونکہ راحیل بھائی کو سبھی پسند کرتے تھے۔ ان کے بارے میں کسی چھان بین کی ضرورت نہ تھی۔ وہ بااخلاق، باادب اور سب سے پیار کرنے والے انسان تھے۔ ہم نے کبھی نجیب کو نہیں دیکھا تھا۔ غیر لوگ تھے، بس اس کا باپ فیاض والد کا پرانا کولیگ تھا اور ابو اسے جانتے تھے، مگر گھروں کا آنا جانا نہیں تھا۔ وہ دن بھی آگیا جب میری بہنیں دلہن بن گئیں۔ والد صاحب نے دونوں بچیوں کی شادی ایک ساتھ رکھی تاکہ گائوں سے آنے والے رشتے داروں کو دوبارہ آنے کی تکلیف نہ ہو اور شادیوں کا خرچہ بھی کم ہو۔ طاہر اور اختر نے مل کر آپی اور باجی کی شادی میں کام کیا۔ آپی کی رخصتی کے وقت ان کے ساتھ کوئی نہ گیا کہ اپنے لوگ تھے لیکن باجی مائرہ کی ڈولی کے ہمراہ چھوٹی امی نے جانے پر اصرار کیا۔ وہ مجھے بھی ساتھ لے گئیں۔ وہ شہر سے ذرا دور گائوں میں بیاہی گئی تھیں۔ باجی کی ساس نے ہم دونوں کو ایک کمرے میں ٹھہرایا۔ ہمیں ان لوگوں کے طورطریقے ذرا مختلف لگے۔ وہ ہلاگلا کررہے تھے، الٹا سیدھا مذاق کررہے تھے۔ چھوٹی امی کو ان کے رشتے دار لڑکے اور لڑکیوں کے کھلے انداز پر ناگواری محسوس ہورہی تھی کیونکہ ہمارے گھر کا ماحول پاکیزہ تھا۔ جلد ہی معلوم ہوگیا کہ باجی کے سسرال والے پڑھے لکھے لوگ نہیں ہیں، تبھی ان کو ادب و آداب سے واقفیت نہ تھی۔ کچھ دقیانوسی سوچ کے اور کچھ بے لگام سے تھے۔ چھوٹی امی نے گھر آکر ابو کو حال احوال دیا۔ وہ بولے۔ ہمیں ان کے رشتے داروں سے کیا لینا دینا، ہمارا واسطہ تو نجیب کے گھر والوں سے ہے اور وہ ٹھیک لوگ ہیں۔ شادی کے کچھ دنوں بعد عتیقہ آپی ایک دن رہنے کے لئے میکے آئیں لیکن نجیب بھائی مائرہ باجی کو ملانے نہ لائے، تبھی چھوٹی امی نے کہا۔ طاہر اور اختر تم لوگ جائو اور بہن کو لے آئو۔ میرے دونوں بھائی باجی کے گھر گئے، فیاض گھر پر تھے۔ انہوں نے دونوں کو اندر بٹھایا اور باتوں باتوں میں پوچھا کہ تم آپس میں کیا لگتے ہو ہم دونوں بھائی ہیں۔ مجھے جہاں تک علم ہے مختیار صاحب کا ایک ہی بیٹا ہے۔ پہلے میں ایک تھا، اب ہم دو ہیں۔ تبھی باجی کے سسر اختر سے مخاطب ہوئے۔ بیٹا تمہارا پورا نام کیا ہے اختر صدیق اس نے جواب دیا۔ اچھا تم صدیق مرحوم کے لڑکے ہو، وہ میرا بھی دوست تھا۔ اچھا میں سمجھ گیا۔ میرا بہنوئی نجیب بھی وہاں موجود تھا۔ اس نے کہا مگر میں نہیں سمجھا۔ تب ان کے والد نے اشارہ کیا۔ بعد میں سمجھا دوں گا۔ فیاض کو یہ تو معلوم تھا کہ ابو نے دوسری شادی کی ہے، مگر یہ معلوم نہ تھا کہ صدیق کی بیوہ سے نکاح ثانی کیا ہے اور ان کا بیٹا طاہر کے ہم سن ہے۔ انہوں نے باجی کو ہمارے ساتھ بھیج دیا مگر جب بہنوئی مائرہ کو لینے آئے تو نجیب بھائی نے اختر کو ترچھی نظروں سے دیکھا۔ والد صاحب نے داماد کے تیور دیکھ کر کہا۔ دیکھو بیٹا اختر کو میرا ہی بیٹا سمجھنا۔ یہ میرے دوست کا بیٹا ہی نہیں، میرا بھی بیٹا ہے۔ اس کی والدہ سے میں نے نکاح کیا ہے۔ اختر میرے بچوں کے ساتھ پلا بڑھا ہے۔ یہ سب آپس میں بہن، بھائی ہیں۔ اس دم تو نجیب خاموش رہا لیکن باجی کو گھر لے جاکر بولا۔ اختر آئندہ میرے گھر نہیں آئے گا اور تم اختر سے بات نہ کرنا ورنہ کبھی تمہیں میکے جانے نہ دوں گا۔ وہ تمہارا سگا بھائی نہیں، سوتیلی ماں کے پہلے شوہر کا بیٹا ہے۔ تمہارے لئے نامحرم ہے۔ عتیقہ آپی کا جب جی چاہتا، آجاتیں مگر مائرہ باجی پر سخت پابندی لگ گئی۔ کئی ماہ گزر جاتے اور وہ نہ آتیں۔ والد لینے جاتے تب کہیں نجیب بھائی انہیں بھیجتے لیکن شام کو خود لینے آجاتے۔ بیوی کو رات کو ہمارے گھر رکنے نہ دیتے تھے۔ جب اختر کو پتا چلا اسے سخت صدمہ ہوا۔ نجیب بھائی کا اس سے سامنا ہوتا تو وہ اختر کے سلام کا جواب دیتے اور نہ اس سے کلام کرتے بلکہ منہ پھیر لیتے۔ طاہر نے بھی بہن کے گھر جانا چھوڑ دیا اور بہنوئی سے ترک کلام کرلیا۔ اختر کے ساتھ راحیل بھائی بہت پیار سے ملتے تھے اور عزت سے بات کرتے۔ آپی عتیقہ بھی اسے گھر بلاتیں، اس کی خاطر مدارات کرتیں۔ ان کے سسرال والے اختر کے آنے کا برا نہ مانتے۔ نجیب چاہتا تھا کہ ابو جان اختر کو گھر سے نکال دیں۔ جب اس کی یہ آرزو پوری نہ ہوئی تو اس نے غصہ میری بہن پر نکالا۔ والد اس کے بس میں نہ تھے مگر ہماری بہن اس کے بس میں تھی۔ اس نے مائرہ سے کہا۔ اگر میں نے تمہیں کبھی اختر سے کلام کرتے دیکھ لیا تو شوٹ کردوں گا۔ ایک شرط پر میکے جاسکتی ہو کہ جب وہاں جائو اختر سے پردہ کرنا ہوگا۔ چھوٹی امی کو پتا چلا تو بہت دکھی ہوئیں۔ بے شک میں اس روز نجیب کو گھر سے کہیں بھیج دیا کروں گی جس روز مائرہ آئے گی، مگر نجیب مائرہ کو میکے آنے دے۔ اس شرط پر نجیب نے بیوی کو ہمارے گھر بھیجنا قبول کرلیا کہ اس روز اختر گھر نہیں رہے گا جس دن مائرہ میکے میں ہوگی۔ اب جب مائرہ دکھ سکھ میں یا پھر ملنے آتیں تو پہلے کہلوا دیتیں اور چھوٹی امی اختر کو ہماری پھوپی کے گھر بھیج دیا کرتی تھیں۔ یہ بات سب کو بہت توہین آمیز لگتی، مگر مجبور تھے۔ مائرہ کو بھی ہمیشہ کے لئے نہیں چھوڑ سکتے تھے۔ خود اختر نے کہا۔ بے شک دن میں گھر نہ آئوں گا، میری بہن تو آسکے گی۔ مجھے مائرہ باجی کی خاطر یہ بات گوارا ہے۔ مجھے برا نہیں لگتا گھر سے چلے جانا تو آپ لوگوں کو کیوں برا لگتا ہے۔ دراصل وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کی وجہ سے ہمارا جھگڑا باجی کے شوہر سے ہو یا مائرہ کا گھر برباد ہو۔ ایک روز میرے بڑے بہنوئی آئے، وہ مٹھائی ساتھ لائے تھے۔ بولے۔ اللہ تعالیٰ نے بیٹا دیا ہے۔ ہم سب خوش ہوگئے تبھی راحیل بھائی نے کہا کہ مائرہ کے گھر بھی مٹھائی پہنچانی ہے۔ اختر اور طاہر جاکر دے آتے ہیں۔ اختر جانے سے جھجکا تو طاہر نے کہا کہ تم باہر گاڑی میں بیٹھے رہنا، میں اندر جاکر مٹھائی دے کر آجائوں گا۔ اس دن راحیل بھائی نے اتنا اصرار کیا کہ ان دونوں کو جانا پڑا۔ جب باجی کا گھر نزدیک آگیا، طاہر نے گاڑی سڑک کنارے رکوا دی اور اختر کو گاڑی میں بیٹھے رہنے کو کہا جبکہ خود مٹھائی دینے کے لئے اتر گیا لیکن ان کے دروازے پر ٹھہر گیا اور ایک بچے کو مٹھائی دی کہ جاکر میری بہن کو دینا اور کہنا کہ طاہر نے دی ہے۔ عتیقہ آپی کو اللہ نے بیٹا دیا ہے۔ وہ خوشی سے دروازے پر آگئیں۔ اصرار کرنے لگیں کہ اندر آئو۔ انہوں نے غورنہ کیا کہ گاڑی میں اختر بیٹھا ہے۔ اسی وقت اس کا شوہر باہر سے آیا۔ اس نے باجی کو دروازے پر دیکھ لیا۔ وہ شوہر کو دیکھتے ہی گھر کے اندر چلی گئیں۔ طاہر الٹے قدموں لوٹ آیا کہ جب اختر سے بہنوئی سیدھے منہ بات نہیں کرتا، میں اس کے گھر کے اندر کیوں جائوں۔ اسے اپنے بہنوئی کے رویئے پر بہت غصہ تھا۔ جانتا تھا کہ باجی اختر کو سگے بھائی کی طرح چاہتی ہیں، ہرگز سوتیلا نہیں سمجھتیں۔ صرف شوہر کے ڈر سے نہیں بلاتیں مگر ہمارا بہنوئی کس قدر عجیب سوچ کا مالک ہے۔ وہ کسی کی عزت کرنا جانتا ہی نہ تھا۔ اسے رشتوں کے تقدس کا بھی احترام نہ تھا۔ جب اختر نے میٹرک پاس کرلیا تو والد نے اسے اکیڈمی میں پڑھنے کے لئے بھجوا دیا۔ اب میرا بہنوئی خوش تھا کہ اختر کا کانٹا نکل گیا جو اسے چبھتا تھا۔ وہ کبھی کبھی باجی کو لے کر ہمارے گھر آنے لگا۔ ایک دن باجی آئیں تو اتفاق سے ان کی گردن سے دوپٹہ ہٹ گیا۔ زخم کا نشان تھا۔ امی نے پوچھا۔ مائرہ بیٹی یہ کیسا نشان ہے بتایا کہ جب طاہر اور اختر مٹھائی دینے آئے، میں دروازے پر طاہر کو گھر کے اندر بلانے چلی گئی۔ معلوم نہ تھا کہ سامنے کھڑی گاڑی میں اختر بیٹھا ہوا ہے۔ اسی وقت نجیب آگیا تب اس نے مجھ سے کہا کہ کیا تم گھر کی دہلیز پر اختر کو دیکھنے گئی تھیں سخت بازپرس کی کہا کہ جب میں نے منع کیا تھا کہ یہ نہ آئے تو کیوں میرے گھر آیا تبھی میری گردن پر چھری رکھ دی تو میں خوف سے لرز گئی اور تیز چھری سے ہلکا سا زخم آگیا۔ مائرہ کے منہ سے یہ بات سن کر ہمارا کیا حال ہوا، بتا نہیں سکتی۔ والد کو شائستہ امی نے بتایا۔ انہوں نے نجیب سے پوچھا تو معافی مانگ لی اور کہا۔ میں تو یونہی ڈرا رہا تھا، میرا ارادہ اسے زخمی کرنے کا نہ تھا مگر یہ اتنے زور سے اچھلی کہ کٹ لگ گیا آئندہ کبھی ایسا نہ کروں گا آپ کے قدم چھو کر معافی مانگتا ہوں۔ والد نے بیٹی کی خاطر بات آگے نہ بڑھائی اور خاموش ہوگئے۔ اس بات کو کئی سال گزر گئے۔ طاہر اور اختر نے تعلیم مکمل کرلی۔ طاہر کو باوجود والد صاحب کی دوڑدھوپ کے اچھی نوکری نہ ملی، جبکہ اختر آفیسر بن گیا۔ والد ریٹائر ہوگئے۔ اختر کی دونوں بہنوں کی بھی انہوں نے شادیاں کردیں۔ اب گھر میں امی، ابو، اختر طاہر اور میں رہ گئے۔ میں سب سے چھوٹی تھی۔ والد صاحب چاہتے تھے پہلے دونوں بیٹوں کے سر پر سہرا دیکھیں بہویں لے آئیں پھر میری شادی کریں۔ ان کی قسمت میں بیٹوں کی خوشیاں دیکھنی نہ تھیں اچانک ایک روز بخار آیا پھر طبیعت روزبروز خراب ہوتی گئی ان کو جگر کا عارضہ لاحق ہوگیا اور جب مرض آخری اسٹیج پر تھا تب پتا چلا۔ اختر نے کافی روپیہ خرچ کیا، ان کا علاج کرایا۔ وہ ٹھیک نہ ہوئے۔ گھر کی ساری ذمہ داری اب اسی کے کندھوں پر تھی۔ زندگی کے ساتھ موت بھی ایک حقیقت ہے۔ والد کا آخری وقت آپہنچا۔ بھائی، بہن سب جمع ہوگئے۔ ایک مائرہ باجی کے سوا چھوٹی امی اور طاہر بھائی ان کو لینے گئے۔ ان کے سسر نے ابو کی علالت کا سنا تو بہو کو کہا۔ تیار ہوجائو۔ وہ خود ہمارے ساتھ مائرہ باجی کو چھوڑنے آئے، ابو کی عیادت بھی کی۔ تب نجیب دو روز کیلئے کسی کام سے دوسرے شہر گیا ہوا تھا۔ مائرہ باجی آٹھ دن رہیں۔ نجیب بھائی نہ آئے۔ وہ کچھ کھوئی کھوئی سی تھیں شاید زیادہ دن میکے میں رہنے کی وجہ سے خوف زدہ تھیں کہ شوہر بازپرس نہ کرے، والد صاحب کا انتقال ہوگیا ان کے سسرال میں اطلاع گئی تو باجی کے سسر اور شوہر دونوں آگئے۔ فیاض تو ایک دن بعد لوٹ گئے، نجیب بھائی ٹھہر گئے اور مائرہ باجی کو تیسرے روز ساتھ لے گئے۔ اس بار وہ جاتے ہوئے بہت اداس اور بجھی بجھی تھیں۔ میں نے کہا۔ باجی ابو بہت تکلیف میں تھے، اللہ نے ان کی تکلیف ختم کی ہے۔ آپ ان کے انتقال کا اس قدر ملال مت کیجئے۔ دعا کیجئے کہ ہمارے دونوں بھائی طاہر اور اختر سلامت رہیں، اب یہی ہمارا سہارا ہیں۔ ابو چلے گئے۔ ان کے بعد مجھے یوں لگ رہا ہے کہ میرے ساتھ بھی کچھ ہونے والا ہے۔ اللہ آپ کو ہر مصیبت سے امان میں رکھے باجی ایسے کلمات منہ سے نہ نکالئے ابو کی وفات کے دکھ سے ہم سب کے دل بوجھل ہیں۔ اللہ ہم کو صبر دے۔ طاہر نے سنا تو کہا۔ امی جان آپ باجی کو نجیب کے ہمراہ نہ بھیجئے، میں چند دن بعد جاکر خود چھوڑ آئوں گا۔ امی نے نجیب سے استدعا کی۔ وہ نہ مانا اور کہا کہ میں رکا ہی اس لئے تھا کہ ساتھ لے کر جائوں گا، اس کے بغیر گھر نہیں چلتا۔ تبھی مائرہ باجی چھوٹی امی کے گلے لگ گئیں۔ بولیں۔ امی مجھے جانے دیجئے کب تک یہاں رہوں گی، مجھ سے کوئی بھول ہوئی ہو تو معاف کردینا۔ کیسی بات کررہی ہو میری بچی کس نے جینا ہے، کس نے مرنا ہے۔ اللہ جانے ان کے منہ سے ایسے الفاظ کیسے نکل گئے۔ وہ یہ کہہ کر ہم کو وقت سے قبل اداس کرگئیں۔ والد صاحب کا دکھ کیا کم تھا کہ مائرہ باجی کی فکر لگ گئی۔ انہیں گئے ایک دن گزرا تھا، لگتا تھا صدیاں گزر گئی ہیں۔ مغرب کا وقت تھا اور جمعہ کا روز نجیب کے گائوں سے ایک آدمی آیا۔ وہ کافی پریشان لگ رہا تھا۔ اختر بھائی اسی وقت ڈیوٹی سے لوٹے تھے، وہی دروازے پر گئے۔ پوچھا۔ آپ کون بولا۔ میں نجیب کا بھانجا ہوں، بتانے آیا ہوں کہ مائرہ ممانی اب اس دنیا میں نہیں رہی ہیں۔ کیا کہہ رہے ہو اندر آئو اور بیٹھ کر تفصیل سے بتائو کہ کیا ہوا ہماری بہن کو جب وہ یہاں سے گئیں ٹھیک تھیں، رات کو بھی ٹھیک تھیں، صبح ان کے گھر سے اطلاع آئی کہ انہیں گولی لگ گئی۔ اتفاق سے ماموں نجیب اپنی بندوق صاف کررہے تھے، ان کے دھیان میں نہ رہا کہ ایک گولی ابھی اس میں باقی ہے۔ بس اچانک چل گئی بندوق اور گولی مائرہ ممانی کو جا لگی۔ طاہر بھائی بھاگے ہوئے تایا ابو کے گھر گئے اور عتیقہ باجی کو خبر کی۔ اسی وقت راحیل بھائی آگئے۔ وہ بھی گھبرائے ہوئے ہمارے گھر پہنچے اور خاندان کے چند بزرگوں کو اطلاع کرائی۔ سب اسی وقت نجیب کے گائوں روانہ ہوگئے۔ وہاں جاکر پتا چلا کہ پوسٹ مارٹم کیلئے اسپتال لے گئے ہیں میری پیاری بہن کو آہ میری باپردہ بہن جس نے کبھی دہلیز سے باہر قدم نہ رکھا تھا، آج اس کا پوسٹ مارٹم ہوا۔ نجیب نے بیان دیا کہ گولی اتفاقیہ چلی۔ اب یہ اللہ کو معلوم اس نے جان کر چلائی کہ اتفاقیہ لگی۔ اس کی شہادت اور عینی گواہ بھی اس کے اپنے تھے۔ انہوں نے بھی یہی بیان دیا۔ حتیٰ کہ ان کی بچی نے بھی پولیس کے پوچھنے پر یہی بات دہرائی کہ ابو بندوق صاف کررہے تھے۔ امی کی پشت تھی، وہ گلدان صاف کررہی تھیں اور میں کچھ دور بستر پر لیٹی تھی۔ ہم نے صبر کا گھونٹ پی لیا۔ اور کیا کرتے۔ نجیب نے ویسے ہی دولت کے زور پر بالآخر چھوٹ جانا تھا۔ طاہر نے شرط رکھی اس صورت میں راضی نامہ ہوگا کہ مائرہ کی دونوں بچیاں ہمیں دے دی جائیں، کیونکہ ہمیں نجیب پر بھروسہ نہیں ہے۔ یہ پاگل انسان نجانے کس وقت کیا کر گزرے۔ ہم ان کی بچیاں لے آئے۔ بچیوں کو میں نے پالا اور ان کی خاطر شادی بھی نہ کی، انہیں کسی کے آسرے پر چھوڑنے کو دل نہیں مانا، بڑی بھانجی جب سیانی ہوگئی تو اس نے ایک روز مجھے بتایا تھا کہ ابو کا امی کو مارنے کا ارادہ نہ تھا۔ وہ بس ڈرانے کو بندوق لائے تھے، مگر گولی اتفاقیہ چل گئی۔ یہ واقعہ میرے سامنے ہوا تھا۔ ابو یہ پوچھ رہے تھے کہ تم اتنے دن میکے میں رہیں ضرور اختر سے بات کی ہوگی، جبکہ میں نے منع کیا تھا کہ اس سے بات مت کرنا اور پردہ کرنا۔ معلوم نہیں امی نے کیا جواب دیا تھا بھانجی کی بات میں جھوٹ کا شائبہ نہ تھا مگر میں کیسے یقین کرتی کہ یقین کرنے کو دل نہ چاہتا تھا۔ بھلا جو شخص ذہنی مریض ہو، وہ اپنے برے خیالات کو کنٹرول نہیں کرسکتا، ایسے لوگوں کو تو اپنا علاج کروانا چاہئے مگر ذہنی مریض کبھی خود کو بیمار تصور نہیں کرتے۔ ہمیشہ خود کو صحیح اور دوسروں کو غلط سمجھتے ہیں۔ بہت اچھا ہوا کہ ہم اپنی بھانجیاں لے آئے تھے، کیونکہ اس واقعہ کے بعد ان کا ذہنی مرض بڑھ گیا تھا۔ اتنا کہ ایک روز انہوں نے خود کو بھی گولی مار لی۔ اگر وہاں ہماری معصوم بھانجیاں رہ جاتیں تو کچھ بعید نہیں تھا کہ وہ ان کو بھی نقصان پہنچاتے۔ کاش سارے ملک میں ایسا قانون ہو کہ شادی سے قبل لڑکے اور لڑکی دونوں کا میڈیکل چیک اَپ ہونا لازمی قرار دیاجائے اور جسمانی تندرستی کے ساتھ ذہنی صحت کے بارے میں بھی ماہر معالج سرٹیفکیٹ جاری کریں کہ یہ لڑکا اور لڑکی ذہنی اور جسمانی لحاظ سے صحت مند ہیں، ورنہ جسمانی عوارض کے ساتھ ذہنی عوارض بھی آنے والی نسلوں کی تباہی کا سبب بن جاتے ہیں۔ الف شیخوپورہ
null
null
null
null
428
https://www.urduzone.net/naya-janam-episode-2/
شکریہ اس نے رسمی انداز میں کہا۔ اگر تمہیں سردی لگ گئی تو ڈاکٹر مجھے قتل کردے گا۔ اس نے تمہارے علاج پر بہت محنت کی ہے۔ وہ بولا اور اس نے گھوڑوں کو تھپکی دے کر انہیں چلانے کے لیے مخصوص آواز نکالی۔ گھوڑے مستعدی سے چل پڑے۔ ہوا بہت صاف اور خوشگوار تھی۔ سورج کی روشنی آنکھوں کو کچھ دیکھنے نہیں دے رہی تھی۔ دور تک پھیلی برف سے وہ یوں منعکس ہورہی تھی جیسے وہ آئینہ ہو۔ ایملی کو آنکھوں پر ہاتھ سے سایہ بنانا پڑ رہا تھا۔ گھوڑوں نے اچھی رفتار پکڑلی تھی۔ قدیم تہذیب پیچھے رہتی جارہی تھی۔ وہ اس کی پہنچ سے باہر نکل رہی تھی۔ دور جنگلوں کے اندر سیکڑوں مویشی چر رہے تھے، کارندے اپنے کاموں میں مصروف تھے، وہ سب گھوڑوں پر سوار تھے یا ایسی گاڑیوں پر جنہیں گھوڑے کھینچ رہے تھے۔ ایملی نے یونہی پوچھ لیا۔ تمہارے فارم پر کتنے مویشی ہیں مجھے صحیح اندازہ نہیں ہے لیکن چھ ہزار کے قریب ہوں گے۔ تم انہیں گوشت فروخت کرنے والی کمپنیوں کو بیچتے ہو ہاں اب ٹرین یہاں تک آنے لگی ہے تو کچھ آسانی ہوگئی ہے ورنہ پہلے ہم خود انہیں اپنی گاڑیوں میں لاد کر شہر پہنچاتے تھے۔ اس نے بتایا۔ تمہارا یہ فارم منافع بخش ہے ولیم نے ترچھی نگاہ سے اس کی طرف دیکھا۔ ایسی باتیں میں نے کبھی کسی خاتون کے ساتھ نہیں کیں۔ مگر کیوں کبھی کسی خاتون نے ایسا سوال نہیں کیا۔ اچھا عجیب بات ہے۔ پھر چند لمحے توقف کے بعد ایملی نے پوچھا۔ کیا یہاں قریب کوئی ایئرپورٹ ہے اس نے ایک الجھی نگاہ اس پر ڈالی۔ کیا میرا مطلب ہے، کوئی ایئرپورٹ جہاں سے میں فلائٹ لے سکوں۔ فلائٹ۔ ولیم نے سر جھٹکا۔ تم عجیب باتیں کرتی ہو۔ عجیب۔ ایملی نے غصے سے دہرایا۔ آخر تم یہ سب کیوں کررہے ہو اس نے گھوڑوں کی باگیں کھینچ کر انہیں روکا اور اس کی طرف مڑ کر بولا۔ کیا کررہا ہوں تم کیا کہنا چاہتی ہو ایملی میڈم ایملی نے اس عجیب و غریب شخص کی طرف دیکھا جس کی مونچھوں پر کہرا جما ہوا تھا اور اس کے گھنگھریالے لمبے بال اس کے بڑے چھجے والے ہیٹ سے اس کے شانوں پر جھول رہے تھے۔ وہ اس کی طرف بڑی سنجیدگی سے دیکھ رہا تھا۔ بس اب اس اداکاری کو چھوڑو۔ ٹھیک ہے تم اس انداز میں رہنا پسند کرتے ہو جو ایک صدی پہلے کا طریقہ تھا۔ یہ تمہاری مرضی لیکن یوں تو ظاہر نہ کرو جیسے تم جدید دنیا کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔ تمہیں نہیں معلوم کہ دنیا کتنی ترقی کرچکی ہے۔ تم نے اس بارے میں کچھ سنا تک نہیں۔ میری طرف اس طرح مت دیکھو، جیسے میں نہ جانے کس زمانے کی بات کررہی ہوں۔ شدت جذبات سے وہ روہانسی ہوگئی۔ وہ بڑے سکون سے بولا۔ مس ایملی خود کو پریشان مت کرو، خود کو پُرسکون رکھو۔ اس طرح کی دقیانوسی بستی میں، میں کس طرح رہ سکتی ہوں میرا یہاں دم گھٹتا ہے۔ میں یہاں سے نکلنا چاہتی ہوں، میں اپنی دنیا میں، اپنے گھر جانا چاہتی ہوں۔ ٹھیک ہے۔ تم جس طرح چاہتی ہو، ویسا کرنا۔ تمہیں کوئی نہیں روکے گا۔ وہ نرمی سے بولا۔ ایملی چڑ گئی۔ وہ اس کے ساتھ ایسا سلوک کررہا تھا، جیسے کسی ذہنی مریض یا کسی ناسمجھ کے ساتھ کیا جاتا ہے۔ اس نے بھڑک کر کہا۔ تم میرے ساتھ ایسا سلوک کیوں کررہے ہو میں ایسا کچھ نہیں کررہا۔ میرا خیال ہے کہ ڈاکٹر کی رائے درست تھی کہ ابھی تم اپنے بارے میں واضح نہیں ہو۔ اسے بھلا کیا پتا کہ جدید طریقۂ علاج کیا ہے اور پتا نہیں کسی ڈاکٹر کا وجود ہے بھی یا نہیں۔ مجھے یوں لگتا ہے جیسے تم نے مجھے اغوا کیا ہے، تم نے مجھے حبس بے جا میں رکھا ہے، تم نے ہی میرا والٹ کہیں غائب کیا ہے۔ میرے کریڈٹ کارڈ اور دوسرے کاغذات سب تم نے اپنے پاس رکھے ہوئے ہیں۔ تم مجھے بے بس کردینا چاہتے ہو۔ دیکھو محترمہ اس نے تسلی کے لیے اس کے بازو پر ہاتھ رکھا۔ ایملی نے اسے فوراً ہی جھٹک دیا اور غصے سے بولتی چلی گئی۔ میں تمہارے خلاف پولیس میں رپورٹ کرسکتی ہوں۔ جو کچھ تم کررہے ہو، اس کے لیے تم جیل کی ہوا بھی کھا سکتے ہو۔ تم مجھے شہر بھی نہیں لے جانا چاہتے۔ تم نے اور یہاں سب لوگوں نے کیسے کیسے بہروپ بھر رکھے ہیں اور تم اسے معلوم تھا کہ وہ بہت کچھ غلط بول رہی ہے لیکن اُسے خود پر قابو نہیں تھا۔ ولیم بے حد پُرسکون تھا۔ وہ اسے ہمدردی سے دیکھ رہا تھا۔ ایملی بہتر ہوگا کہ تم خود کو پُرسکون رکھو۔ تم جہاں کہو گی، میں تمہیں لے جائوں گا۔ تمہارے رویے سے اندازہ ہورہا ہے کہ تمہاری طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ تمہیں ڈاکٹر کو دکھانا چاہیے۔ وہ ایک سند یافتہ ڈاکٹر ہے۔ تمام قصبے کے لوگوں کا وہی علاج کرتا ہے۔ ایملی ہار سی گئی۔ اپنے تلخ رویئے پر اسے ندامت بھی ہوئی۔ یہ شخص کتنا بااخلاق تھا کہ اس کی تلخ باتیں سن کر بھی برہم نہیں ہوا تھا۔ نہ اس نے چڑچڑے پن کا مظاہرہ کیا تھا۔ وہ بھی دھیمی پڑ گئی۔ اس نے کہا۔ بس تم مجھے شہر چھوڑ آئو۔ وہاں سب ٹھیک ہوجائے گا۔ بغیر کچھ کہے ولیم نے گھوڑوں کی باگیں کھولیں اور انہیں چلانے کے لیے اپنے منہ سے مخصوص آواز نکالی۔ گھوڑوں نے قدم آگے بڑھائے۔ گاڑی کو ہلکا سا جھٹکا لگا۔ گھوڑوں کی ٹاپوں سے برف ٹوٹنے کی آوازیں آنے لگیں۔ ایملی کی سیٹ بھی لرزی لیکن وہ اسے دونوں ہاتھوں سے تھام کر سنبھل گئی۔ پھر اسے اپنی حماقت پر ندامت ہوئی کہ وہ خواہ مخواہ ولیم سے الجھی تھی جبکہ اس نے اسے کچھ نہیں کہا تھا۔ یہ احساس ہوتے ہی اس نے ولیم کو مخاطب کیا۔ میں معذرت چاہتی ہوں اپنے رویّے پر۔ تم میری فکر نہ کرنا۔ میری طبیعت بالکل ٹھیک ہے۔ وہ تو میں ویسے ہی جذباتی ہوگئی تھی۔ بس تم مجھے شہر لے چلو۔ ٹھیک ہے محترمہ۔ ہم وہیں چل رہے ہیں۔ ولیم نے ملائمت سے جواب دیا۔ ایملی خود کو سنبھالتے ہوئے خاموشی سے بیٹھی رہی اور گھوڑا گاڑی برف سے چمکتی ہوئی راہوں پر ہچکولے کھاتی آگے بڑھتی رہی۔ بالآخر وہ شہر کی حدود میں داخل ہوئے جہاں ہر طرف بھیڑ لگی ہوئی تھی اور ہجوم ہی ہجوم تھا۔ سڑکوں پر گھوڑا گاڑیاں اور بگھیاں رواں دواں تھیں۔ سڑک کے دونوں طرف لکڑی کے فٹ پاتھوں پر لوگ پیدل چل رہے تھے۔ مردوں نے ویسے ہی کپڑے اور ہیٹ پہن رکھے تھے جیسے ولیم پہنتا تھا۔ عورتیں بھی لمبے لمبے کوٹوں میں ملبوس تھیں۔ ان کے سروں پر بھی ہیٹ تھے۔ راستے میں ایک بینک، ڈاکٹر کا کلینک، پوسٹ آفس بھی نظر سے گزرے۔ پھر ایک دو منزلہ ہوٹل آیا جس کے احاطے میں گھوڑوں کو گاڑیوں اور بگھیوں سے علیحدہ کرکے باندھا گیا تھا اور لوگ اندر باہر آجا رہے تھے۔ کچھ لکڑی کے زینوں کو طے کرتے اوپر کی منزل پر جارہے تھے۔ جیسے جیسے ایملی اپنے گردوپیش دیکھتی تھی، اس کی سانس اس کے سینے میں رکی جاتی تھی، اس کا دل بیٹھا جاتا تھا۔ دور سے اسے ٹرین کی سیٹی سنائی دی۔ ٹرین کے گزر جانے کے انتظار میں ولیم نے گھوڑا گاڑی کو روکا۔ ایملی کو اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا۔ ٹرین دھویں کے مرغولے چھوڑتی چلی جارہی تھی۔ ایک صدی پہلے کی ٹرین،کوئلے سے چلنے والی۔ وہ دھک سے رہ گئی۔ یہ سب کیا ہورہا تھا یہ کوئی ذہنی مغالطہ تھا یا حقیقت۔ یوں لگتا تھا جیسے کسی فلم کا سیٹ لگا ہوا ہے اور یہاں نظر آنے والے تمام لوگ اداکار ہیں جنہوں نے مختلف بہروپ بھر رکھے تھے یا کوئی تھیم ٹائون جسے سیاحوں کی دلچسپی کے لیے بنایا گیا تھا کہ ایک صدی پہلے لوگ کس طرح رہتے تھے۔ قریب سے گزرنے والے ایک شخص نے اپنے ہیٹ کو چھو کر ولیم کو سلام کیا۔ ولیم نے عام سے انداز میں اس کا جواب دیا جیسے یہ اس کے لیے ایک عام بات ہو، ایک معمول ہو، کوئی غیر معمولی بات نہ ہو۔ ایملی حیرت سے چاروں طرف دیکھ رہی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے یہ شہر، کوئی قصبہ ہو چھوٹا سا۔ کچھ سڑکیں، پرانے طرز کے گھر، کچھ دکانیں، کچھ اسٹور، کچھ آفس وغیرہ۔ پھر ایملی پر یہ انکشاف ہوا کہ وہاں کوئی بجلی نہیں تھی، ہر طرف گیس کے لیمپ روشن تھے۔ کہیں بھی نیون سائن نہیں تھے۔ نہ بجلی کے تار تھے۔ نہ ٹیلیفون کے پول تھے، نہ کاریں، نہ بسیں، نہ ٹیکسیاں، نہ ٹیلیفون بوتھ، نہ سیاحوں کا ہجوم کہ وہ اس تھیم ٹائون کی تصویریں لیتے ہوئے نظر آئیں۔ اس کا سر چکرا رہا تھا لیکن اس نے خود کو سنبھالا اور خود کوئی اندازہ لگانے سے گریز کیا۔ اپنی کوئی رائے نہیں دی۔ وہ اس انتظار میں چپ بیٹھی رہی کہ ولیم خود کچھ کہے۔ جو بھی حقیقت ہے، بتائے۔ وہ خود اسے آگاہ کرے۔ وہ تقریباً سارے شہر کا چکر لگا چکے تھے۔ ہر جگہ وہی منظر تھا۔ کہیں کچھ مختلف اور جدید نہیں تھا۔ کہیں ماڈرن دنیا کی جھلک نظر نہیں آئی، کہیں منظر نہیں بدلا۔ ہاں تو ایملی۔ ولیم نے ایک جگہ گھوڑوں کو ٹھہرایا اور اس کی طرف متوجہ ہوا۔ تم پہلے کہاں جانا چاہتی ہو ایملی نے ایک گہرا سانس لیا۔ ٹیلیفون یہاں ٹیلیفون کہاں ہے ٹیلیفون یہاں ہوٹل میں مل جائے گا لیکن وہ لوکل ہے۔ یہاں ابھی فون کا مکمل سسٹم نہیں آیا۔ سنا ہے کہ بڑے شہروں میں اس کا بہتر نظام قائم ہوچکا ہے۔ اگر تم کہیں سے رقم منگوانا چاہتی ہو تو اس کے لیے ٹیلی گراف آفس ہے۔ ٹیلی گراف آفس۔ ایملی نے دہرایا۔ ہاں وہ سامنے ہے۔ گھوڑا گاڑی پر بیٹھ کر وہ تھک گئی تھی۔ اس کی ٹانگیں اور گھٹنے کام نہیں کررہے تھے۔ وہ بمشکل ٹیلی گراف آفس پہنچی جہاں لکڑی کے کائونٹر کے پیچھے ایک ادھیڑ عمر شخص بیٹھا تھا جس کا سر بالوں سے خالی تھا۔ اس نے سیاہ پتلون اور سفید قمیض پہن رکھی تھی جس کی آستین کالی ڈوریوں کے ساتھ اس نے کہنیوں سے اوپر اٹھا رکھی تھیں۔ وہ اسے دیکھ کر بولا۔ میں آپ کی کیا مدد کرسکتا ہوں میں اپنے بینک کو تار دینا چاہتی ہوں۔ ایملی نے بتایا۔ کلرک نے ایک فارم اس کی طرف بڑھایا۔ آپ اپنا مکمل پتا اور بینک کا ایڈریس، اپنا نام اور دوسری تفصیلات لکھ دیں۔ میں آپ کو یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ اس میں کچھ وقت لگ جائے گا۔ دو تین دن بھی لگ سکتے ہیں۔ ایملی نے الجھ کر بینک کے اس کاغذ کی طرف دیکھا۔ وہ کس طرح یہ تمام معلومات رقم کرے۔ اسے اپنا اکائونٹ نمبر بھی یاد نہیں تھا۔ جس بینک میں وہ کام کرتی تھی، ان کے نقشے میں اس کا کوئی وجود نہیں تھا۔ کلرک اس کی طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ بینک کا فارم بھر کر اسے دے۔ لیکن وہ فیصلہ نہیں کر پا رہی تھی کہ اگر اپنے بینک کا نام لکھے گی تو کلرک کے تاثرات کیا ہوں گے۔ اس نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ میں نے اپنا ارادہ بدل دیا ہے۔ میں پھر کسی وقت آجائوں گی۔ جیسی آپ کی مرضی۔ کلرک بے نیازی سے بولا۔ وہ پریشانی کے عالم میں باہر نکل گئی۔ اس کا رونے کو دل چاہ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں بے بسی کے آنسوئوں سے بھیگ رہی تھیں۔ وہ گھوڑا گاڑی کے قریب آئی تو ولیم بولا۔ مس ایملی تم ٹھیک تو ہو۔ تمہارا کام ہوگیا نہیں۔ ایملی نے انکار میں سر ہلایا۔ ولیم اس کے قریب آگیا۔ اس کے دراز قد اور ہم قدم ہوکر چلنے کی وجہ سے ایملی کو ایک عجیب سے احساس تحفظ نے آسودہ کردیا۔ اُسے حوصلہ ملا۔ اس کے اردگرد جیسے ہر شے گردش کررہی تھی۔ وہ قدم کہیں رکھتی تھی اور پڑتا کہیں تھا۔ وہ اس کا بازو پکڑ کر اسے گھوڑا گاڑی کی سیڑھی پر بٹھاتا ہوا بولا۔ چلو یہاں بیٹھ جائو۔ اپنا سر جھکا لو اور آنکھیں بند کرکے خود کو پُرسکون کرنے کی کوشش کرو۔ پھر وہ منہ ہی منہ میں بڑبڑایا۔ اوہ مجھے یہی ڈر تھا کہ کہیں تمہاری طبیعت خراب نہ ہوجائے۔ خاتون تم بہت نازک میں ٹھیک ہوں بالکل۔ ایملی نے خود پر قابو پاتے ہوئے کہا۔ ہاں۔ ہاں تم بہت جلد ٹھیک ہوجائو گی۔ ایملی دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھامے بیٹھ گئی۔ وہ خجل ہورہی تھی اور کچھ خوف زدہ بھی۔ نہیں جانتی تھی کہ آئندہ اس کے ساتھ کیا ہونے والا تھا۔ میں ٹیلی گراف آفس آرہا تھا کہ تمہیں پیسوں کی ضرورت ہوگی۔ ولیم بولا۔ نہیں۔ میں نے پیغام نہیں بھیجا۔ مجھے ایڈریس یاد نہیں تھا، نہ ہی مجھے اپنا اکائونٹ نمبر یاد تھا۔ مجھے تو یہ بھی یاد نہیں آرہا تھا کہ بینک میں میری کچھ رقم بھی ہے یا نہیں۔ اس نے سر اٹھا کر ولیم کی طرف دیکھا۔ مجھ سے بہت بڑی غلطی ہوئی۔ میں نے نہ جانے تمہیں کیا کچھ کہہ دیا۔ کوئی بات نہیں۔ پریشان نہ ہو۔ یہ سب کچھ کسی کے بھی ساتھ ہوسکتا ہے، جس کے سر پر شدید چوٹ آئی ہو۔ میری سمجھ میں کچھ نہیں آرہا کہ میں کروں گی کیا میرے پاس نہ کوئی رقم ہے، نہ کریڈٹ کارڈ، نہ ہی کوئی جگہ ہے جہاں میں جاسکوں۔ وہ ولیم کی طرف بے چارگی سے دیکھ رہی تھی۔ پریشان حال اور بے بس سی۔ ولیم اس کے قریب کھڑا تھا۔ سارے شہر اور ساری دنیا میں اس وقت اس کے سوا ایملی کا کوئی نہیں تھا۔ اس اجنبی شہر میں صرف وہی تھا جو اس کا ہمدرد، مخلص اور غمگسار تھا۔ وہ تھوڑے توقف کے بعد بولا۔ میڈم ایملی تم یہاں اس طرح راستے میں نہیں بیٹھ سکتیں۔ اگر تمہاری زیادہ خراب ہے تو مجھے بتائو، میں تمہیں ڈاکٹر کے پاس لے چلتا ہوں۔ اگر تم بہتر محسوس کررہی ہو تو پھر گھر چلتے ہیں۔ ہاں۔ میں ٹھیک ہوں۔ مجھے ڈاکٹر کی ضرورت نہیں۔ میں گھر چلوں گی تمہارے ساتھ۔ میں اس کے علاوہ اور کہاں جاسکتی ہوں ایملی نے کہا۔ اس نے اس کا بازو پکڑ کر اسے اٹھایا۔ اب یہیں بے ہوش نہ ہوجانا۔ ہمت کرو، اٹھ کر چلو۔ ایملی کو ہنسی آگئی۔ میں ٹھیک ہوں۔ میں چل سکتی ہوں۔ میرا خیال ہے کہ تمہیں کچھ کھانے کی ضرورت ہے تاکہ تم میں طاقت آئے۔ کیا خیال ہے تمہارا کہ ہم لنچ یہیں نہ کرلیں ہاں۔ ایملی نے اثبات میں سر ہلایا۔ قریب سے گزرتی ہوئی ایک عورت نے اپنے ہیٹ کو چھو کر ولیم کو ہیلو کہا۔ ولیم نے خوش اخلاقی سے اس کا جواب دیا۔ وہ عورت ایملی کی جانب غور سے دیکھ رہی تھی جیسے اندازہ لگانے کی کوشش کررہی ہو کہ وہ کون ہے لیکن ولیم نے اس سے ایملی کا تعارف کروانے کی کوشش نہیں کی۔ وہ آگے بڑھ گئی۔ چلتے چلتے ایملی کی نگاہ ایک ڈرگ اسٹور پر پڑی۔ اسے دور سے اخباروں کا ایک انبار نظر آیا۔ اس نے ولیم سے کہا۔ پلیز تھوڑی دیر رکو، میں اس دکان میں جانا چاہتی ہوں۔ جیسی تمہاری مرضی۔ وہ بولا۔ اس نے دکان کے اندر داخل ہوکر جلدی جلدی اخبار دیکھنے شروع کئے۔ کچھ پرانے تھے، کچھ نئے لیکن ہر ایک پر تاریخ وہی ایک صدی پہلے کی درج تھی۔ اٹھارہویں صدی کا آخری حصہ اٹھارہ سو ترانوے۔ اس بار ایملی کو کچھ زیادہ دھچکا نہیں لگا۔ اب وہ ذہنی طور پر قبول کرچکی تھی کہ اسے غیر معمولی حالات کا سامنا ہے اور وہ اس وقت ایک صدی پہلے کے زمانے میں سانس لے رہی ہے۔ ولیم باہر انتظار کررہا تھا۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر بولا۔ تمہیں کچھ خریدنا تھا کیا نہیں، میں بس دیکھ رہی تھی۔ ایملی نے جواب دیا۔ چلو، کھانا کھاتے ہیں۔ وہ اسے اپنے ہمراہ ایک ہوٹل میں لے آیا۔ کھانے میں بیف اسٹیک اور تلے ہوئے آلو تھے۔ اس کے ساتھ نہ سلاد تھا، نہ سوس، نہ ہی کوئی اور چیز۔ ایملی بے دلی سے کھانے لگی۔ وہ کھانے کے ساتھ ساتھ گردوپیش کا جائزہ بھی لیتی جارہی تھی۔ ہوٹل میں کھانا کھانے والے سب مرد تھے۔ اپنے لباس سے وہ زیادہ تر بزنس مین معلوم ہورہے تھے۔ ان سب کی پلیٹوں میں گوشت کے بڑے بڑے ٹکڑے تھے جنہیں وہ بڑی رغبت سے کھا رہے تھے۔ ایملی کو ان کے کھانے کے انداز سے کراہیت سی آنے لگی۔ عجیب لوگ تھے وہ۔ ہر کوئی گوشت کھانے میں لگا ہوا تھا۔ اِدھر اُدھر دیکھنا چھوڑو۔ کچھ کھائو تاکہ تمہارا رنگ روپ واپس آئے۔ یہاں مجھے کوئی عورت نظر نہیں آرہی ایملی نے سوال کیا۔ عورتیں گھر پر رہتی ہیں۔ انہیں یہاں آنے کی کیا ضرورت ہے۔ ہاں اتوار کو بعض خاندان ہوٹل میں کھانا کھانے آتے ہیں تو ان کے ساتھ خواتین بھی ہوتی ہیں۔ جو لوگ کھانا کھا چکے تھے۔ انہوں نے سگار سلگا لیے تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں ان کے دھویں سے ساری فضا بھر گئی۔ ایملی کو اب بھی یہ سب کسی فلم کا سیٹ معلوم ہورہا تھا۔ ولیم نے ایملی کا کوٹ پہننے میں اس کی مدد کی اور دونوں باہر آگئے۔ ایملی نے دیکھا تھا کہ تمام مرد عجیب نگاہوں سے ان کی طرف دیکھ رہے تھے۔ ولیم نے بھی اندازہ لگا لیا کہ ایملی ان مردوں کی نگاہوں سے مضطرب ہورہی ہے۔ ان کی نگاہوں کو نظرانداز کردو۔ دراصل یہ ایک چھوٹا سا قصبہ ہے۔ وہ سب جانتے ہیں کہ میرے بھائی نے میرے پاس ایک ہائوس کیپر بھیجی ہے۔ میں نے تمہیں پہلے بھی بتایا ہے کہ میں تمہاری ہائوس کیپر نہیں ہوں۔ ایملی نے احتجاج کیا۔ انہیں تو نہیں پتا اس بات کا۔ وہ اس کے ساتھ باہر آتے ہوئے بولا۔ تمہیں شہر میں کوئی اور کام تو نہیں ایملی نے چاروں طرف دیکھا۔ لوگ، ان کے لباس، گھوڑا گاڑیاں، بگھیاں، دور بہتا دریا، لکڑی کا چھوٹا سا پل اور کوئلے کے ساتھ دھواں دیتا ریلوے انجن، سبھی کچھ اجنبی اور ناقابل یقین تھا۔ اس نے ولیم کی طرف پلٹ کر جواب دیا۔ نہیں کچھ نہیں۔ یہاںمجھے کوئی کام نہیں۔ میرے پاس اس کے سوا کوئی راستہ نہیں کہ تمہارے ساتھ گھر چلی جائوں۔ کوئی اور جگہ ہے ہی نہیں جہاں میں جاسکوں۔ کیا میں تمہارے ساتھ واپس جا سکتی ہوں میں نے تمہیں اپنے گھر سے نکالا تو نہیں ہے۔ شکریہ۔ اچھا میری بات غور سے سنو کہ میں اب تمہارے یہاں ہائوس کیپر کا کام کروں گی۔ تم مجھے اس کی تنخواہ دینا۔ جب میرے پاس کچھ رقم جمع ہوجائے گی تو میں پھر کہیں چلی جائوں گی۔ ٹھیک ہے لیکن بچوں کے سامنے اس طرح کی بات نہ کرنا، خاص طور پر میریان کے سامنے وہ بہت حساس لڑکی ہے۔ اس نے تنبیہ کی۔ ٹھیک ہے۔ میں خیال رکھوں گی۔ چلو پھر گھر چلتے ہیں۔ وہ اس کا بازو تھام کر بولا۔ مجھے ابھی بہت سے کام نمٹانے ہیں۔ ایملی نے اپنا منہ سختی سے بند کرلیا۔ کچھ کہنے کی گنجائش بھی نہیں تھی ورنہ اس کا دل چاہ رہا تھا کہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لے۔ یہ اس کے ساتھ کیا ہورہا تھا، کیوں ہورہا تھا۔ اس کا یہ لمبا بے ہنگم کوٹ اتار پھینکنے کو دل چاہ رہا تھا۔ کاش وہ ولیم کو یقین دلا سکتی کہ وہ اس قدیم دقیانوسی قصبے سے تعلق نہیں رکھتی جو ماضی میں زندگی بسر کررہے تھے۔ وہ ایک پڑھی لکھی خاتون تھی۔ وہ بینک میں ایک ذمہ دار عہدے پر فائز تھی لیکن یہ شخص کبھی اس کی بات پر اعتبار نہیں کرے گا۔ واپسی کا سفر بہت طویل اور تھکا دینے والا تھا۔ مایوسی اور پریشانی نے ایملی کی ساری طاقت نچوڑ لی تھی۔ وہ سخت تھکن محسوس کررہی تھی۔ کئی بار وہ اونگھ گئی اور اپنی سیٹ سے گرتے گرتے بچی۔ ولیم نے ہاتھ بڑھا کر اسے سہارا دیا۔ دھیان سے بیٹھو، تمہیں چوٹ لگ سکتی ہے۔ خدا خدا کرکے سفر تمام ہوا۔ ولیم کا کتا دور سے بھاگتا ہوا آیا۔ اس کے بھونکنے کی آواز نے ایملی کو ہوشیار کیا۔ ولیم چھلانگ لگا کر نیچے اترا اور دوسری طرف آکر اس نے ایملی کو نیچے اترنے میں مدد دی ورنہ ایملی کو لگ رہا تھا کہ وہ اتنی اونچی گھوڑا گاڑی سے نہیں اتر پائے گی۔ ولیم نے اپنے ہیٹ کے چھجے سے اس کی طرف دیکھا۔ تم ٹھیک تو ہو ایملی نے اس کی گہری نیلی آنکھوں میں دیکھا۔ اس کے شانوں پر پھیلے ہوئے گھنگھریالے بالوں کو دیکھا، اس کی گھنی مونچھوں کو دیکھا۔ اس کا دل بیٹھنے لگا۔ اٹھارہ سو ترانوے اوہ خدایا وہ ماضی کے اس دور میں رہ کر کیا کرے گی۔ اپنی ترقی یافتہ مہذب دنیا کو کہاں تلاش کرے گی ٭ ٭ ٭ ایملی باربار یہ سوچتی تھی کہ آخر وہ یہاں کس طرح پہنچی۔ اپنے زمانے سے ایک صدی پیچھے لیکن اس سوال کا کوئی جواب اس کے ذہن میں آتا تھا، نہ کوئی اور اسے مطمئن کرتا تھا۔ سوچ سوچ کر اس کے سر میں درد ہونے لگتا۔ وہ خود کو تسلی دیتی کہ ایک نہ ایک دن وہ جواب تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائے گی اور اس دقیانوسی دنیا سے نجات حاصل کرکے اپنی اصل زندگی کی طرف لوٹ جائے گی۔ رات کو جب وہ بچوں کو ان کے بستر میں سلا دیتی تو لائونج میں آکر بیٹھ جاتی جہاں ولیم پہلے سے بیٹھا کسی چیز کی مرمت کررہا ہوتا یا اپنے حساب کتاب کے کھاتوں میں الجھا ہوا ہوتا۔ ایملی کا دل چاہتا کہ ان کھاتوں کو اس کے ہاتھ سے چھین کر زمین پر دے مارے اور اسے بتائے کہ وہ ان سب چیزوں کے بارے میں اس سے بہتر جانتی ہے۔ اس صدی کے مقابلے میں اس کے پاس معلومات کا خزانہ ہے۔ وہ بزنس یونیورسٹی کی گریجویٹ ہے۔ اس نے ایک مشہور تعلیمی درس گاہ سے ایم بی اے کررکھا ہے۔ ایک بڑے بینک میں وہ کئی سالوں سے ملازمت کررہی ہے۔ مگر یہاں وہ گھر کے کام کرنے پر مجبور کردی گئی تھی۔ بچوں کی قمیضوں کے ٹوٹے ہوئے بٹن لگاتے ہوئے اس کا دل چاہتا کہ چیخ چیخ کر سامنے بیٹھے ہوئے اس بے حس شخص کو بتائے کہ وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ ہے۔ وہ بینک کے لون ڈویژن میں وائس پریذیڈنٹ تھی اور اس نے اسے ملازمہ بنا کر رکھ دیا ہے۔ اسے اس سے کچھ سروکار نہیں تھا۔ جب بھی اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نکل جاتی تھی تو وہ اسے اس کے ذہن کی خرابی پر محمول کرتا جو اس کے سر پر چوٹ لگنے کی وجہ سے پیدا ہوئی تھی۔ اسی لیے اسے اپنا منہ بند رکھنا پڑتا تھا۔ اس نے ولیم کی طرف دیکھا۔ وہ اپنے کھاتوں سے نظر اٹھا کر اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اس کی گہری نیلی آنکھوں میں کوئی گہری سوچ تھی۔ ایملی نے اسے مخاطب کیا۔ کوئی مسئلہ ہے کیا ولیم میں اس طرح کے حساب کتاب کو بہت اچھی طرح جانتی ہوں۔ سب ٹھیک ہے میڈم ایملی۔ اس نے کہا اور پھر اپنے حساب کتاب میں مصروف ہوگیا۔ اس کا انداز ایسا تھا جیسے کسی بچے کو ٹال رہا ہو۔ وہ اسے ایک مذاق سمجھ رہا تھا کہ وہ عورت ہوکر حساب کتاب کے بارے میں کچھ جانتی ہے۔ ایملی دل ہی دل میں پیچ و تاب کھا کر خاموش ہوگئی۔ وہ جانتی اگر اس نے کچھ اور کہا تو مزید دل آزاری کی باتیں سننی پڑیں گی۔ وہ واقعی اسے اپنی ہائوس کیپر سمجھتا تھا جس کی حیثیت محض ملازمہ کی تھی۔ وہ اٹھ کر کمرے میں چلی گئی۔ کسی اور موقعے کی تلاش میں جب وہ اسے اپنی بات سمجھا سکے۔ دو روز بعد ولیم اسے باہر اصطبل کے قریب مل گیا۔ وہ اپنے لمبے اسکرٹ کو سنبھالتی ہوئی اس کے قریب پہنچی۔ وہ ایک گھوڑے کے زخم پر مرہم لگا رہا تھا۔ اس نے ایک نظر ایملی کی طرف دیکھا اور پھر اپنے کام میں مصروف ہوگیا، جیسے گھوڑے کی طرف توجہ دینا اس سے زیادہ ضروری تھا۔ ایملی اس کی طرف دیکھتی رہی۔ کچھ دیر بعد وہ بولا۔ کوئی بات ہے کیا ایملی تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے نا۔ میں ٹھیک ہوں، بالکل ٹھیک ہوں اور یہی مسئلہ ہے۔ ایملی نے جل کر کہا۔ وہ ایک بالٹی میں اپنے ہاتھ دھونے لگا۔ پھر اس نے ایک بھدے سے تولیے سے اپنے ہاتھ صاف کئے اور اپنی آستینوں کو نیچے لاتا ہوا بولا۔ ہاں تو کوئی مسئلہ ہے میں اب ٹھیک ہوں۔ میں کوئی کام کرنا چاہتی ہوں۔ اس نے کہا۔ اچھا تو اس نے فقرہ ادھورا چھوڑ دیا اور گہری نگاہ سے اس کی طرف دیکھا۔ اچھا۔ تو وہ پھر فقرہ ادھورا چھوڑ کر اس کے برابر سے گزر کر بالٹی اٹھانے لگا جس میں جو بھرے ہوئے تھے۔ اچھا کیا اچھا کیا مطلب میں نہیں چاہتا کہ تمہیں کوئی نقصان پہنچے۔ اوہ میں بیمار نہیں ہوں۔ ایملی جھنجھلائی۔ میں ایک انسان ہوں، میں ایک معزز خاتون ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ میں کیا کرسکتی ہوں اور کیا نہیں۔ وہ کہتی رہی اور ولیم اپنے کام میں لگا رہا۔ وہ جھک کر گھوڑوں کو جو ڈالتا رہا۔ کسی کی گردن سہلاتا اور کسی کے کان کے نزدیک کچھ کہتا۔ یوں جیسے اس کی بات سن ہی نہ رہا ہو۔ ایملی خاموش ہوگئی۔ اسے بری طرح اپنی توہین کا احساس ہوا۔ یہ شخص اس کے ساتھ کیا کررہا تھا۔ کیا اس کی اہمیت ان گھوڑوں کے برابر بھی نہیں تھی۔ اس نے غصے سے پائوں زمین پر مارا۔ تم کچھ بھی کرو، میں شہر ضرور جائوں گی۔ وہ اپنا کام ختم کرکے اس کی طرف پلٹا۔ ہاں میں تمہارے لیے کیا کرسکتا ہوں نہیں۔ اس وقت نہیں، میں پھر کسی وقت تم سے بات کروں گی۔ ایملی نے ناگواری سے کہا اور چلی آئی۔ ولیم پھر اپنے کاموں میں لگ گیا۔ رات کے کھانے کے بعد بچے کھیل میں لگ گئے اور ایملی، میریان کی گڑیا کا فراک سینے لگی۔ وہ بڑے شوق سے اسے مشورے دیتی جارہی تھی۔ ولیم اپنی مخصوص کرسی پر بیٹھا حسب معمول اخبار پڑھ رہا تھا۔ مٹی کے تیل کے لیمپ کی روشنی میں اس کے چہرے کے گرد روشنی کا ایک ہالہ سا تھا۔ وہ کوئی روحانی شخص معلوم ہورہا تھا۔ آتشدان میں آگ سے نارنجی شعلے نکل رہے تھے۔ وقفے وقفے سے لکڑیوں کے چٹخنے کی آواز سنائی دیتی تھی۔ ایملی نے اسے مخاطب کیا۔ شہر کے بارے میں کوئی خاص خبر ہے تقریباً روز والی باتیں ہیں۔ ہاں مویشیوں کی پرورش کرنے والوں کی تنظیم کی میٹنگ بدھ کو ہے اور خواتین کی ادبی سوسائٹی کا اجلاس پیر کو ہوگا۔ وہ اخبار کے صفحات پلٹتا ہوا بولا۔ تم اگر خواتین کی میٹنگ میں جانا چاہو تو کوئی تمہیں وہاں چھوڑ دے گا۔ خواتین تم سے مل کر خوش ہوں گی۔ اچھا۔ ایملی نے سر ہلایا۔ بچوں کے سونے کا وقت ہوگیا تھا۔ وہ ان کو چھوڑ کر لائونج میں آئی تو اس نے دیکھا۔ ولیم اونگھتے اونگھتے سو گیا تھا۔ لائونج کے درمیان کھڑی وہ اس کی طرف دیکھنے لگی۔ اس نے بغیر کالر کی سفید قمیض اور سیاہ پتلون پہن رکھی تھی۔ اس کی آنکھیں نیم وَا تھیں اور وہ ہموار سانسیں لے رہا تھا۔ وہ ایک خوبصورت شخص تھا جو کسی بھی دوشیزہ کی نیندیں اُڑا سکتا تھا۔ مٹی کے تیل کے لیمپ سے پڑنے والی سنہری روشنی میں اس کے سیاہ گھنگھریالے بال چمک رہے تھے۔ اس کی ستواں ناک، اس کی مسحور کردینے والی نیلی آنکھوں کو چھپانے والی دراز پلکیں کبھی کبھی ہلکی سی جنبش کرتی تھیں۔ ایملی نے سر جھٹکا۔ ولیم کی وجاہت اور مردانہ کشش اس پر اثرانداز ہونے لگی تھی۔ اسے ہنسی آگئی۔ جب وہ واپس اپنی دنیا میں چلی جائے گی تو اپنی دوست کے ساتھ ولیم کی باتیں کرکے ہنسے گی۔ جو اس پچھلی صدی میں رہ جائے گا اور وہ آگے نکل جائے گی۔ ولیم نے جھرجھری سی لی اور اچانک آنکھیں کھول دیں۔ اپنی کرسی پر وہ سیدھا ہوتے ہوئے بولا۔ اوہ شاید میں گیا تھا۔ ہاں۔ ایملی نے کہا اور کمرے سے بچوں کے کھلونے وغیرہ اٹھانے لگی تاکہ اس پر یہ ظاہر ہو کہ وہ مصروف تھی۔ تم تھکے ہوئے تھے۔ اس نے بغیر کچھ کہے اپنی نیلی آنکھوں سے ایملی کی طرف دیکھا اور لمحے بھر کو دونوں کی نگاہیں الجھ کر رہ گئیں۔ ایملی کو ان آنکھوں میں وہ نظر آیا جو اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا، جس کی اسے توقع بھی نہیں تھی۔ ولیم کا رویہ ہمیشہ اس کے ساتھ ایسا ہی تھا جیسے وہ کوئی کمتر مخلوق ہے، جیسے اس کی کوئی اہمیت نہیں لیکن اس وقت اس کی آنکھوں میں ایک انوکھا جذبہ روشن تھا جو کسی مرد کی آنکھوں میں اپنی محبوبہ کو دیکھ کر ابھرتا ہے۔ ایملی کے دل میں ہلچل سی مچ گئی۔ وہ جیسے وہیں بندھ کر رہ گئی۔ پھر ولیم نے اپنی الجھی نگاہوں کو اس کی حیران نگاہوں سے علیحدہ کرلیا اور جھک کر اپنی کرسی کے قریب گرے ہوئے اخبار کے صفحات کو ایک ایک کرکے اٹھانے لگا۔ ایملی بھی جیسے ہوش میں آگئی لیکن اس کے ہاتھ سے کھلونے پھسل کر قالین پر گر گئے۔ وہ چونکی۔ ولیم کرسی سے اٹھ کر قریب آیا۔ ٹھہرو۔ میں اٹھا دیتا ہوں، تم ٹھیک نہیں ہو۔ نہ جانے کیوں ایملی کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ چڑ کر بولی۔ میں ٹھیک ہوں بالکل۔ ولیم تمہاری موٹی عقل میں یہ بات کیوں نہیں آتی کہ میں ٹھیک ہوں۔ میں بھی ایک انسان ہوں۔ تم مجھ سے ایسا برتائو کیوں نہیں کرتے جو اپنے برابر کے انسان سے کیا جاتا ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ کوئی مجھ سے بات کرے۔ میں چاہتی ہوں ولیم کہ تم مجھے بتائو کہ میں کس طرح تمہاری مدد کرسکتی ہوں لیکن تمہارا برتائو ایسا ہے جیسے میرا کوئی وجود ہی نہیں ہے۔ ولیم نے بے تاثر چہرے کے ساتھ اس کی طرف دیکھا۔ خود کو پریشان مت کرو میڈم ایملی۔ میں تمہارے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتا۔ ٭ ٭ ٭ کچھ دن گزرے، بہار آگئی۔ ہر طرف سبزے اور شادابی نے ماحول کو بدل دیا۔ برف کے پگھلنے سے راستوں پر کیچڑ سی پھیل گئی۔ ایملی کے کمرے کی کھڑکی کے ساتھ لگا ہوا سیب کا درخت شگوفوں سے بھر گیا۔ ایملی کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ گھرداری سنبھال لے۔ یہ کوئی آسان کام تھا، نہ ہی اسے ایسے کاموں کی عادت تھی۔ یہاں کوئی سہولت نہیں تھی جو کاموں کو آسان بنا دے۔ صابن اتنا تیز تھا کہ اس کی انگلیاں زخمی ہوجاتی تھیں۔ ٹھنڈے پانی کو گرم کرنے کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ استری بہت بھاری تھی اور کپڑے موٹے۔ جنہیں استری کرنے میں سخت محنت کرنی پڑتی تھی۔ ایملی ان کاموں میں الجھ کر پاگل سی ہوگئی تھی۔ کام تھا کہ ختم ہونے میں نہیں آتا تھا۔ ایک کے بعد ایک کام نکل آتا تھا اور جس کے لیے کوئی صلہ تھا اور نہ ستائش۔ ایک روز جب وہ پانی سے بھرے ٹب کو خالی کرنے کی کوشش کررہی تھی مگر وہ بہت بھاری تھا۔ اس نے تھکے تھکے سے انداز میں اپنے بالوں کی لٹ کان کے پیچھے اُڑسی اور پھر اسے اٹھانے کی کوشش کی تو اچانک دو مضبوط ہاتھوں نے اسے تھام لیا۔ وہ ولیم تھا جو نہ جانے کس وقت وہاں چلا آیا تھا۔ اس نے بڑی آسانی کے ساتھ ٹب خالی کردیا۔ شکریہ۔ ایملی نے ٹھنڈے سے لہجے میں کہا۔ کوئی بات نہیں۔ اس نے ٹب کو اس کی جگہ رکھتے ہوئے کہا۔ مگر وہ وہاں سے گیا نہیں۔ چند لمحے وہاں ٹھہر کر اسے کام کرتے ہوئے دیکھنے لگا۔ ایملی نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ ایملی اس نے پکارا۔ اسے اس طرح پکارنے میں ایک خاص اپنائیت بھرا جذبہ تھا۔ ایملی کو یقین نہیں آیا کہ یہ ولیم کا لہجہ ہے۔ میں تمہیں بتانا چاہتا تھا ایملی کہ تم نے بہت اچھے انداز میں تمام کام سنبھالے ہیں۔ اوہ، شکریہ۔ میں یہ محنت اس لیے کررہی ہوں کہ اپنے لیے کچھ رقم حاصل کرسکوں۔ ہوں۔ ولیم نے لمبی سی ہوں کی۔ مجھے خوشی ہے کہ تم نے اسے محسوس کیا۔ ایملی نے کہا۔ وہ بغیر کچھ کہے اس پر گہری نظر ڈال کر چلا گیا۔ اس کی نگاہ میں کوئی ایسی بات تھی کہ ایملی کا کام میں اشتیاق بڑھ گیا۔ وہ یوں بڑے چائو سے کام کرنے لگی جیسے کوئی نوبیاہتا عورت اپنی نئی زندگی میں پہلی مرتبہ کھانا پکا رہی ہو۔ اسے حیرت ہورہی تھی کہ وہ اس جگہ سے تعلق نہیں رکھتی، نہ یہ طرززندگی اسے پسند تھا۔ اسے اپنا وقت، اپنی تہذیب یاد آتی تھی لیکن پھر بھی وہ یہاں رچ بس گئی تھی۔ تینوں بہن بھائی اسے اچھے لگتے تھے۔ باورچی بھی اسے پسند کرنے لگا تھا جو نئے کھانے وہ پکاتی تھی، وہ اس میں اس کی مدد کرکے خوشی محسوس کرتا تھا لیکن ولیم اس نے اب بھی اس کے اور اپنے درمیان فاصلہ برقرار رکھا تھا۔ وہ اسے خود سے بہت دور نظر آتا تھا۔ ایملی اس کے ساتھ کوئی جذباتی رشتہ قائم بھی نہیں کرنا چاہتی تھی کیونکہ اسے واپس جانا تھا۔ اپنی صدی میں، اپنے زمانے میں، اپنی تہذیب میں۔ لیکن یہ اندیشہ اسے پریشان کردیتا تھا کہ ولیم بڑے نامعلوم انداز میں اس کی شخصیت، اس کے دل کی دنیا پر اثرانداز ہورہا تھا۔ وہ ایسا نہیں چاہتی تھی۔ اسے اپنی دنیا میں واپس جانا تھا۔ وہ یہاں دل نہیں لگا سکتی تھی جہاں وہ تنہا تھی اور ولیم اسے اپنی دنیا اور اپنے معمولات میں شامل نہیں کرنا چاہتا تھا۔ اس روز اسے حیرت ہوئی جب مقامی بینک کا پریذیڈنٹ، ولیم سے ملنے آیا۔ وہ پکی عمر کا ایک موٹا شخص تھا جس کا بڑھا ہوا پیٹ بمشکل اس کی جیکٹ میں سمایا ہوا تھا۔ جب وہ میز پر کھانا لگا چکی تو ولیم نے اسے بھی کھانے میں شریک ہونے کو کہا۔ وہ ایک کرسی گھسیٹ کر بیٹھ گئی۔ وہ دونوں کچھ بینک کے معاملات پر گفتگو کرتے رہے جنہیں ایملی بہت اچھی طرح جانتی تھی لیکن وہ دونوں سمجھ رہے تھے کہ اسے اتنی تیکنیکی گفتگو میں شامل ہونے کی ضرورت نہیں۔ پھر بوب نے کھانا ختم کیا اور ایملی سے مخاطب ہوا۔ مس ایملی اتنے بہترین ڈنر کے لیے شکریہ۔ ایملی نے صرف مسکرانے پر اکتفا کیا۔ وہ برتن اٹھانے لگی تو دونوں اپنے اپنے سگار سلگا کر آتشدان کے قریب جا بیٹھے اور ولیم نے ایملی سے کافی لانے کو کہا۔ ایملی انہیں کافی دے کر ساتھ والے کمرے میں چلی گئی، جہاں ان دونوں کی آوازیں اسے سنائی دے رہی تھیں۔ وہ وہاں بیٹھی پیچ و تاب کھا رہی تھی کہ وہ دونوں اسے گفتگو میں شامل کرنے کے قابل نہیں سمجھتے تھے حالانکہ وہ اس موٹے بینکر سے زیادہ جانتی تھی۔ بینکر کی گفتگو اسے چونکا رہی تھی۔ اسے یاد آرہا تھا کہ پچھلی صدی میں بینکنگ میں ایک بڑا بحران پیدا ہوگیا تھا۔ سونے کے ذخائر کم ہوگئے تھے، بہت سے بینک دیوالیہ ہوگئے تھے۔ ایملی سوچ رہی تھی کہ جب وہ یہاں موجود تھی تو انہیں کیوں نقصان پہنچنے دے۔ ابھی وہ سوچ ہی رہی تھی کہ اسے اس معاملے میں دخل دینا چاہیے یا نہیں۔ وہ غیرارادی طور پر اس کے کمرے کے دروازے پر کھڑی تھی جہاں وہ دونوں بیٹھے تھے۔ اس کے ہاتھ میں سوئی، دھاگا اور قمیض تھی جس میں وہ بٹن ٹانک رہی تھی۔ اس نے بینکر کو مخاطب کرکے کہا۔ مسٹر بوب آپ کے سونے کے ذخائر کم ہورہے ہیں۔ ہیں نا جی کیا اس نے سر اٹھا کر حیرت سے کہا۔ میں یہ پوچھ رہی ہوں کہ آپ نے بینک کا معاملہ ضرورت سے زیادہ پھیلا دیا ہے ایملی ولیم بھی اس کے اس طرح دخل دینے پر حیران تھا اور نہیں چاہتا تھا کہ وہ مزید کوئی بات کرے۔ ایملی نے اس کی بات کو نظرانداز کردیا اور بولی۔ میں صرف یہ جاننا چاہتی تھی کہ آپ کے پاس سونے کے کافی ذخائر ہیں۔ میں سوچ رہی تھی کہ ایملی ولیم تیزی سے اس کی جانب بڑھا اور اس کا بازو درشتی سے پکڑ کر اسے واپس کمرے میں لے آیا۔ بینکر نے اپنا سگار ایش ٹرے میں بجھایا اور اپنا کوٹ پہنتے ہوئے بولا۔ میں تم سے پھر بات کروں گا ولیم۔ اس نے حقارت بھری نگاہ ایملی پر ڈالی اور باہر نکل گیا۔ عجیب ہو تم ایملی۔ ولیم اسے بازو سے پکڑ کر تقریباً گھسیٹتا ہوا دوسرے کمرے میں لے آیا اور اسے کرسی پر جیسے پٹختا ہوا بولا۔ تم نے اس کے سامنے مجھے کیوں شرمندہ کیا آخر تم کس قسم کی عورت ہو ایملی نے اس کے غصے سے سرخ چہرے کی طرف دیکھ کر اس کا ہاتھ جھٹکا۔ میں تمہیں بتائوں گی کہ میں کس قسم کی عورت ہوں۔ میں ایک تعلیم یافتہ خاتون ہوں۔ میں نے سب سے بہترین ادارے سے ڈگری لی ہے۔ سمجھے تم ولیم۔ اس نے جرأت کے ساتھ ولیم کی جانب دیکھتے ہوئے کہا جو بے یقینی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ اور ہاں میں بینکنگ کے بارے میں تمہارے اس پریذیڈنٹ سے زیادہ جانتی ہوں۔ وہ شخص اپنی جہالت سے بینک کو ڈبو دے گا۔ چند لمحے ولیم اس کی جانب تکتا رہا۔ پھر بے حد سنگین لہجے میں بولا۔ ایملی اگر یہ سب سچ ہے تو پھر تم یہاں ملازمت کیوں کررہی ہو یہ میں بھی نہیں جانتی کہ میں کس طرح یہاں پہنچی۔ میں ٹرین میں تھی اور دوسرے صوبے میں جارہی تھی تاکہ پُرسکون جگہ پر نئے سرے سے زندگی شروع کروں مگر پھر کیا ہوا، میری سمجھ میں نہیں آرہا کہ وقت کیسے بدل گیا۔ وہ اب بھی اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آنکھوں میں سوال لئے۔ باہر وادی میں طوفان کے آثار تھے۔ ہوا کی تیزی کی وجہ سے کھڑکیاں بج رہی تھیں۔ وہ نہ جانے اس کے بارے میں کیا سوچ رہا تھا۔ اٹھارہویں صدی میں اس کی اس جرأت کو کیا نام دے رہا تھا۔ ایملی تنگ آکر اپنی جگہ سے اٹھی۔ اسے کوئی ضرورت نہیں تھی کہ اس کا غصہ اور اس کی الزام تراشیوں کو برداشت کرے۔ اس کی گود میں رکھے ہوئے بٹن اور قمیض زمین پر گر پڑے لیکن ایملی نے ان کی کوئی پروا نہیں کی۔ وہ آگے بڑھا۔ لیکن اس نے زمین پر گرے ہوئے بٹن نہیں اٹھائے۔ وہ اس کے قریب آیا۔ اس کی گہری نیلی آنکھیں، اس کی آنکھوں میں جھانک رہی تھیں۔ ایملی کا سانس اس کے سینے میں رک گیا تھا۔ اسے یوں لگا جیسے اس کا جسم شیشے کی طرح ٹوٹ کر سیکڑوں ٹکڑوں میں تقسیم ہوجائے گا۔ وہ شاید کچھ کہنا چاہتا تھا۔ اس نے بھاری لہجے میں اسے پکارا۔ ایملی لیکن ایملی اس کی بات سنے بغیر تقریباً بھاگتی ہوئی کمرے سے باہر نکل آئی۔ اس کی آواز ایک مرتبہ پھر اسے بہت دور سے سنائی دی لیکن وہ اسے سننے کے لیے رکی نہیں۔ تیزی سے زینہ طے کرتی اپنے کمرے میں چلی آئی اور دروازہ بند کرلیا۔ ٭ ٭ ٭ ایملی کو دیر تک نیند نہیں آئی۔ باہر طوفان کا زور گھٹ گیا تھا۔ ستارے نظر آنے لگے تھے۔ اسے ولیم کے زینہ طے کرنے کی آواز سنائی دینے لگی۔ وہ اس کے بیڈ روم کے باہر چند لمحے رکا۔ ایملی کے دل کی دھڑکنیں بڑھنے لگیں۔ اس کا رواں رواں منتظر ہوگیا کہ دروازے پر دستک کب ہوتی ہے لیکن وہ آگے بڑھ گیا اور اس نے اپنے کمرے کا دروازہ بند کرلیا۔ ایملی نے اپنی آنکھیں سختی سے بند کرلیں اور دعا مانگنے لگی کہ یہ ہولناک خواب ختم ہوجائے۔ ایملی کے ذہن میں یہ بات بیٹھ گئی تھی۔ وہ مسلسل اس کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ ایک لمحے کے لیے بھی اس سوچ کو اپنی زندگی سے الگ نہیں کرپاتی تھی کہ اگر وہ اس چھوٹے شہر سے باہر نکل جائے تو یقیناً وہ اپنی تہذیب کی طرف لوٹ جائے گی۔ اس شہر سے وہ ٹرین یا فلائٹ پکڑ کر اپنی منزل مقصود پر پہنچ سکتی تھی۔ وہ کوئی بھی کام کررہی ہوتی، اس کی سوچ اسی طرف لگی رہتی۔ وہ اس بارے میں دل ہی دل میں منصوبے بناتی رہتی۔ اسے کسی نہ کسی طرح یہاں سے نکلنا تھا، جہاں وہ ایک ملازمہ بن کر رہ گئی تھی۔ کوئی اس کی حیثیت کو تسلیم نہیں کرتا تھا، جہاں اسے انسان بھی نہیں سمجھا جاتا تھا لیکن اس تمام منصوبے کو کامیاب بنانے کے لیے رقم کی ضرورت تھی اور اس کے پاس ایک پائی بھی نہیں تھی۔ جب اس نے ولیم سے کہا کہ اسے اس کی خدمات کے عوض کچھ رقم ملنی چاہیے تو وہ بولا۔ میرے بھائی نے ایجنسی کو سال بھر کی رقم ادا کردی تھی۔ اس کے علاوہ رہائش وغیرہ کے اخراجات بھی ہیں۔ مجھے کسی ایجنسی نے کچھ نہیں دیا، نہ میں اس کے بارے میں کچھ جانتی ہوں۔ میرے پاس ایک پیسہ بھی نہیں ہے۔ مجھے کچھ جیب خرچ ملنا چاہیے۔ یہ اچھا نہیں لگتا کہ خرچ کے لیے مجھے کسی کی طرف دیکھنا پڑے۔ تمہیں جو کچھ چاہیے، وہ اسٹور سے میرے نام پر لے سکتی ہو۔ وہ بولا۔ لیکن وہ ہچکچائی۔ ایسی کون سی چیز ہے جس کے لیے تمہیں رقم کی ضرورت ہے میری سمجھ میں نہیں آتا۔ میں کچھ رقم اپنے پاس محفوظ رکھنا چاہتی ہوں تاکہ جب میں یہاں سے جائوں تو اس نے بات ادھوری چھوڑ دی اور اس کے ردعمل کا انتظار کرنے لگی۔ تم یہاں سے جانے کا کوئی منصوبہ بنا رہی ہو وہ کڑے لہجے میں بولا۔ بعض اوقات میں ایملی نے کچھ کہنا چاہا لیکن اسے کوئی بات نہیں سوجھی۔ ہاں بتائو کیا چاہتی ہو تم میں اپنے بھائی کو لکھوں گا کہ وہ رقم کہاں گئی جو اس نے ایجنسی کو دی ہے۔ انہیں تمہیں معاوضہ ادا کرنا چاہیے۔ کیا خیال ہے تمہارا ہاں۔ یہ ٹھیک ہے۔ وہ اس کے ساتھ بحث نہیں کرنا چاہتی تھی، اسی لیے خاموش ہوگئی تاکہ اسے معلوم نہ ہو کہ وہ کیا کرنا چاہتی ہے۔ لیکن وہ اس کا انتظار نہیں کرسکتی تھی کہ کب وہ اپنے بھائی کو خط لکھے اور کب اس کا جواب آئے۔ بدھ کی صبح تھی اور اپریل کا آخری ہفتہ۔ طویل سردیوں کے بعد زمین جیسے جی اٹھی تھی۔ برف کے بوجھ سے آزاد ہوکر شاداب اور ہری بھری ہوگئی تھی۔ کاشتکاری کا آگیا تھا۔ ولیم اپنے مزارعوں کے ساتھ مصروف ہوگیا تھا۔ اس صبح بھی وہ بہت جلدی گھر سے نکل گیا تھا۔ ایملی باورچی کے ساتھ گھر میں اکیلی رہ گئی تھی۔ اچانک ایک بات اس کے ذہن میں آئی۔ اس نے جلدی جلدی سارے کام سمیٹے جو اس کا روزمرہ کا معمول تھا۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ کم ازکم آج کے دن اس کی غیر موجودگی میں کوئی مسئلہ ہو۔ پھر اس نے اپنا سفید جھالروں والا ایپرن اتار کر اس کی جگہ پر لٹکایا۔ باورچی کافی دیر ہوئی اپنے کمرے میں جا چکا تھا جو گھر کے پچھواڑے تھا۔ گھر خاموش، صاف ستھرا اور خالی تھا۔ وہ لائونج میں ولیم کی میز پر پہنچی اور اس کی ساری درازیں ایک ایک کرکے دیکھنے لگی۔ جاری ہے
null
null
null
null
429
https://www.urduzone.net/musavvir-episode-3/
یہاں بھی جوئی ڈرائیور ہی مصروف کار نظر آتا تھا۔ وہ بچیوں کو انڈے جمع کرنا سکھاتا جو صبح مرغیوں نے تازہ دیئے ہوتے تھے۔ جوئی نینا کا ممنون تھا، کیونکہ وہ سمجھتا تھا کہ اس کی وجہ سے ایرچ نے گھوڑے کے زخمی ہونے پر اسے معاف کردیا تھا۔ میں شرطیہ کہتا ہوں مسز ایرچ کہ آپ کے آنے کی وجہ سے مسٹر ایرچ بہت خوش تھے، اسی لئے انہوں نے مجھے معاف کردیا، ورنہ انہوں نے مجھے کھڑے کھڑے نکال دینا تھا۔ میری ماں کہتی ہے کہ مسٹر ایرچ معاف کرنے کے عادی نہیں ہیں۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے جوئی میرا اس بات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ نینا نے انکساری سے کہا۔ ڈاکٹر میک کہتے ہیں کہ میں بیرن کی بہت اچھی طرح سے دیکھ بھال کررہا ہوں۔ جیسے ہی موسم ذرا گرم ہوگا، بیرن بالکل ٹھیک ہوجائے گا اور مسز ایرچ اب تو میں اصطبل کے دروازے کو دس مرتبہ دیکھتا ہوں کہ ٹھیک طرح سے بند ہے یا نہیں نینا اس کی بات بہت اچھی طرح سمجھ رہی تھی۔ اتنے دنوں میں وہ بھی سیکھ گئی تھی کہ ہر شے کو اس کے مقام پر ہونا چاہئے کیونکہ ایرچ میں بے حد نفاست تھی۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی بے ترتیبی برداشت نہیں کرسکتا تھا، مثلاً کسی الماری کا دروازہ کھلا ہو، کوئی کرسی راستے میں پڑی ہو، سنک میں گندا گلاس موجود ہو۔ وہ بے چین ہوجاتا جب تک وہ اسے ٹھیک نہ کردے، آرام سے نہیں بیٹھ سکتا تھا۔ جس روز ایرچ کو کاٹیج میں پینٹنگ نہ کرنی ہوتی تو وہ آفس میں ضروری کام نمٹاتا تھا۔ اس کا آفس اصطبل کے نزدیک ہی تھا۔ کلائیڈ ایک ادھیڑ عمر شخص تھا جس کے گھنے سنہری مائل سفید بال تھے۔ وہ اس کے آفس کا منیجر تھا۔ جب ایرچ نے کلائیڈ کا اس سے تعارف کروایا تو اس نے کہا تھا۔ درحقیقت کلائیڈ ہی فارم کا سارا کام سنبھالتا ہے۔ میں تو بس برائے نام ہی آفس میں بیٹھ جاتا ہوں۔ کلائیڈ نے اس بارے میں کچھ نہیں کہا اور نینا سے بولا۔ امید ہے تمہیں یہ سب پسند آیا ہوگا۔ ہاں یہ میرے لئے بہت خوشگوار ہے۔ بڑے شہروں میں رہنے والوں کے لئے یہ بہت بڑی تبدیلی ہے۔ اس سے کوئی فرق تو نہیں پڑتا نہیں بالکل نہیں نینا نے جواباً سر کو نفی میں جنبش دی۔ میری بیوی کو تمہارے یہاں آنے کی بہت خوشی ہے۔ اسے بچے بہت اچھے لگتے ہیں۔ اگر وہ تمہارے یہاں آنے لگے تو مجھے بتانا، رونیکا کسی کو تنگ تو نہیں کرنا چاہتی لیکن بعض اوقات وہ اپنی ذہنی کیفیت میں بہت کچھ بھول جاتی ہے۔ وہ بہت پرخلوص خاتون ہیں۔ نینا نے کہا۔ یہ خوشی کی بات ہے کہ تم نے اسے ناپسند نہیں کیا وہ آج کل تمہاری بچیوں کے لئے سوئٹر بننے کے لئے ڈیزائن تلاش کررہی ہے۔ وہ بہت اچھی بُنائی کرتی ہے۔ کیا تم یہ پسند کرو گی ہاں اس میں کوئی حرج تو نہیں۔ نینا نے جواب دیا۔ جب وہ آفس سے باہر آئے تو ایرچ نے ہدایت کی۔ نینا رونیکا کی زیادہ حوصلہ افزائی مت کرنا۔ نہیں ایرچ میں ایسا نہیں ہونے دوں گی کہ معاملہ ہاتھ سے نکل جائے۔ ویسے وہ بچاری بہت تنہا اور اکیلی ہے۔ دوپہر کو جب کھانے کے بعد بچیاں سو جاتیں تو وہ ایرچ کے ساتھ فارم میں اسکیٹنگ کرتی ہوئی مختلف جگہوں کی سیر کرتی۔ ایکڑوں کے حساب سے پھیلا ہوا فارم ایک وسیع جنگل کی طرح ان کے سامنے ہوتا اور وہ ہرنوں کے جوڑے کی طرح چوکڑیاں بھرتے پھرتے۔ شام کو وہ ایرچ کے ساتھ لائبریری میں ہوتی۔ دونوں کتابوں کی باتیں کرتے، میوزک سنتے، سناتے اور ماضی سے ایک دوسرے کو روشناس کراتے۔ نینا کافی بنا کر لے آتی اور دونوں اس کی لذت سے لطف اندوز ہوتے۔ ایک روز اچانک ایرچ اپنی ماں کیرولین کا تذکرہ کرنے لگا۔ اس واقعے کا جو اس کی زندگی کا سب سے دلخراش المیہ تھا۔ نینا خاموشی سے اس کی بات سنتی رہی۔ وہ اپنی ہی رو میں اپنے غم کو بیان کرتا جارہا تھا۔ میں اور ماما کیرولین مویشیوں کے باڑے کی طرف آئے تھے، اس بچھڑے کو دیکھنے کے لئے جو رات ہی پیدا ہوا تھا۔ وہ ابھی اپنی ٹانگوں پر کھڑا لڑکھڑا رہا تھا اور اپنی ماں کا دودھ پینے کے قابل نہیں ہوا تھا۔ اسے بوتل سے دودھ دیا جارہا تھا۔ ماما اس کی بوتل لے کر خود اسے دودھ پلانے لگیں۔ مویشیوں کو پانی پلانے کا ٹینک لبالب بھرا ہوا تھا۔ جانوروں کے پانی پینے کی وجہ سے اس کے اردگرد کیچڑ تھی، جہاں اچانک ماما کا پائوں پھسل گیا۔ انہوں نے کسی چیز کا سہارا لینے کی کوشش کی کہ گرنے سے خود کو بچا سکیں، ان کے ہاتھ میں لیمپ کا تار آگیا مگر وہ مضبوط نہیں تھا۔ تار کے ساتھ لیمپ بھی اکھڑ آیا۔ وہ اپنا توازن برقرار نہ رکھ سکیں اور تار کے ساتھ ہی ٹینک میں جاگریں۔ ہمارا ایک بے وقوف کاریگر جو ڈرائیور جوئی کا انکل ہے، وہ نئی بجلی کے تار لگا رہا تھا۔ اس نے لیمپ کو ایک کیل پر ٹکا رکھا تھا۔ بس ایک لمحے میں ہی سب کچھ ختم ہوگیا۔ اوہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ اس وقت تم بھی ان کے ساتھ تھے۔ نینا نے افسردگی سے کہا۔ میں عموماً اس پر بات کرنا پسند نہیں کرتا آج نہ جانے کیوں میرا دل چاہا کہ تمہیں اپنے دل کا زخم دکھائوں اس وقت مارک کے والد ڈاکٹر گیٹ بھی یہاں تھے۔ انہوں نے بہت کوشش کی لیکن سب بیکار ثابت ہوا۔ میں وہاں وہ ہاکی اسٹک لے کر کھڑا رہا جو ماما نے مجھے چند لمحے پہلے تحفے میں دی تھی۔ نینا جو ایرچ کے سامنے ایک کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی، وہ نیچے قالین پر ایرچ کی کرسی کے ساتھ بیٹھ گئی اور تسلی کے لئے اس کا ہاتھ تھپتھپایا۔ ایرچ اپنے ماضی سے واپس نہیں آپا رہا تھا۔ ایک طویل عرصے تک میں اس ہاکی اسٹک سے شدید نفرت کرتا رہا۔ میں اس کی طرف دیکھتا تک نہیں تھا لیکن پھر مجھے احساس ہوا کہ یہ تو وہ آخری تحفہ ہے جو ماما نے مجھے دیا تھا۔ نینا کی دراز پلکیں بھیگ گئیں۔ وہ اس کی جانب جھک کر بولا۔ نینا پلیز اتنی اداس نہ ہو۔ تمہاری وجہ سے میری زندگی کے سارے خلا پر ہوگئے ہیں۔ مجھ سے ایک وعدہ کرو نینا نینا کو اندازہ تھا کہ وہ کیا کہنے والا ہے اسی لئے اس نے ایرچ کے کہنے کا انتظار نہیں کیا اور خود ہی مضبوط لہجے میں بولی۔ میں تمہیں کبھی چھوڑ کر نہیں جائوں گی۔ ٭ ٭ ٭ ایک صبح جب نینا بچیوں کے ساتھ سیر کرتی ہوئی قبرستان کی طرف سے گزری تو اس نے رونیکا کو دیکھا۔ وہ باڑ پر جھکی ہوئی اندر قبرستان میں نہ جانے کیا دیکھ رہی تھی۔ نینا اس کے قریب چلی گئی تو وہ آہٹ پر ان کی طرف متوجہ ہوئی اور بغیر کسی سوال کے خود ہی بولی۔ میں اس حسین زمانے کے بارے میں سوچ رہی تھی جب میں اور کیرولین جوان تھے، ایرچ بہت چھوٹا معصوم سا بچہ تھا، پھر میرے یہاں آئرن آئی۔ کیرولین نے اس کی تصویر بھی بنائی تھی۔ وہ بہت پیاری بچی تھی۔ کیرولین کی بنائی ہوئی تصویر نہ جانے کہاں چلی گئی، حالانکہ میں نے اسے اپنے بیڈ روم میں لگا رکھا تھا۔ اس نے چند لمحے توقف کیا، پھر نینا سے مخاطب ہوئی۔ تم میرے گھر آئو نا بچو تم آنٹی رونیکا کو ہیلو نہیں کہو گے وہ پیار سے بولی۔ روتھ نے دور ہی سے اسے ہیلو کہا، جبکہ تانیہ دوڑ کر اس کے قریب پہنچ گئی۔ اس نے پیار سے اس کے بال سنوارے۔ اس بچی کو دیکھ کر مجھے آئرن یاد آجاتی ہے۔ وہ بھی اسی طرح یہاں سے وہاں بھاگتی، چھلانگیں لگاتی پھرتی تھی۔ میرا خیال ہے کہ ایرچ تمہیں مجھ سے ملنے سے منع کرتا ہوگا۔ اس بچارے کا بھی قصور نہیں۔ بعض اوقات میں واقعی دوسروں کے لئے مصیبت بن جاتی ہوں۔ ہاں مسز ایرچ میں نے بچیوں کے لئے ڈیزائن تلاش کرلیئے ہیں۔ میں ان کے سوئٹر بُن دوں ہاں ہاں ضرور نینا نے خوشدلی سے کہا۔ اس کا خیال تھا کہ وہ ایرچ کو منا لے گی کہ اس خاتون سے تھوڑا بہت تعلق رکھنے میں کوئی حرج نہیں۔ رونیکا جھک کر قبر کی طرف دیکھنے لگی اور پھر ایک نظر اس کی طرف دیکھ کر بولی۔ تم یہاں تنہائی تو محسوس نہیں کرتیں نہیں یہ مشکل ضرور ہے کیونکہ یہ زندگی میری گزشتہ زندگی سے بہت مختلف ہے۔ میں سارا دن بہت مصروف رہتی تھی۔ میری ملازمت ہی اس نوعیت کی تھی۔ لوگوں سے بات کرنا، ان کے فون سننا، گھر پر بھی میرا فون بجتا رہتا تھا۔ میری دوست میرے اپارٹمنٹ میں بڑی بے تکلفی سے جب چاہتی آجاتی تھیں۔ ہاں کچھ باتیں یاد تو آتی ہیں لیکن میں مجموعی طور پر یہاں بہت خوش ہوں۔ ہاں کیرولین بھی شروع شروع میں یہاں بہت خوش رہی لیکن پھر چیزیں بدل گئیں، بالکل بدل گئیں۔ وہ اس کی قبر کے کتبے کو ایک ٹک دیکھتی ہوئی بولی۔ جس طرح اس کے جانے کے بعد سب کچھ بدل گیا ہے، بالکل بدل گیا ہے۔ شام کو ایرچ اس سے کہہ رہا تھا۔ مجھے لگتا ہے کہ تم مجھ سے نجات حاصل کرنا چاہتی ہو، میں تمہارے بغیر نہیں جانا چاہتا۔ وہ اپنی مختلف پینٹنگز کو دیکھ رہا تھا کہ ان میں سے انتخاب کرسکے۔ نینا بھی اسے مشورے دے رہی تھی۔ تمہاری آرٹ پر بہت گہری نگاہ ہے بڑی باذوق ہو تم جناب یہ نہ بھولیں کہ میں نے آرٹ میں ماسٹر کیا ہے۔ یونہی میں گیلری میں جاب نہیں کررہی تھی۔ میری رائے کو بڑی اہمیت دی جاتی تھی۔ تو پھر بتائو کہ ان تصویروں میں سے کون سی لے کر نہ جائوں نہیں تمہیں سب نمائش کے لئے لے جانی چاہئیں۔ تمہارا کام مسلسل عوام اور نقادوں کی نگاہ میں آنا چاہئے تاکہ تمہاری ساکھ قائم رہے اور میں بھی اس پر فخر کروں کہ میں ایک نامور آرٹسٹ کی بیوی ہوں۔ خواتین مجھے دیکھ کر حسد کریں کہ میں کتنی خوش قسمت ہوں کہ اتنے بڑے آرٹسٹ کی بیوی ہوں جو اسمارٹ اور خوبصورت بھی ہے۔ نینا نے ہنستے ہوئے بات ختم کی۔ ایرچ نے اس کے بالوں کی ایک لٹ کھینچتے ہوئے کہا۔ تو کیا مرد لوگ مجھ سے حسد نہیں کرتے کہ میں کتنا خوش قسمت ہوں کہ میری بیوی کتنی حسین اور دلکش ہے ہاں یہ ہے تو ٹھیک نینا نے بن کر کہا۔ بس اسی لئے میں اکیلے جانا نہیں چاہتا۔ مجھے افسوس ہے کہ اتنے اہم موقع پر تم میرے ساتھ نہیں ہوگی۔ ان لوگوں نے تمہاری خاطر سارا پروگرام بنایا ہے، اب اس کو خراب مت کرنا۔ میں بھی تمہارے ساتھ جانا چاہتی ہوں لیکن بچیوں کو یہاں اکیلے چھوڑا نہیں جاسکتا۔ انہیں ساتھ لے جانا اور زیادہ مشکل ہوگا۔ تم فکر مت کرو، اگلی نمائش پر ضرور تمہارے ساتھ ہوں گی۔ نینا وعدہ کرو کہ تم مجھے بہت یاد کرو گی، مجھے بھلائو گی نہیں ہاں میں تمہاری کمی بہت محسوس کروں گی ایرچ یہ چار دن بہت مشکل سے گزریں گے۔ وہ پینٹنگز کو پیک کرتے ہوئے بولا۔ میں واپس آجائوں تو میرا خیال ہے کہ تمہیں یہاں کے لوگوں سے ملوائوں۔ اگلے اتوار کو چرچ چلیں گے۔ تمہیں چرچ جانا پسند ہے تم نے تو میرے دل کی بات کہہ دی ایرچ میں بھی چاہتی ہوں کہ تمہارے دوستوں سے ملوں۔ میں زیادہ تر ان کو چندہ دے دیتا ہوں، باقاعدگی سے کبھی چرچ نہیں گیا اور تم چرچ کے سلسلے میں کیا کرتی ہو میں ہر اتوار کو ضرور جاتی ہوں۔ کبھی ایسا نہیں ہوا کہ میں نے اسے چھوڑا ہو۔ تو پھر ہم کل ہی چلتے ہیں، اتوار ہے۔ اگلے دن وہ مقامی چرچ چلے گئے۔ چرچ پرانا تھا اور بڑا بھی نہیں تھا۔ اس کا انداز تعمیر بھی قدیم تھا لیکن اسے بہت سنبھال کر رکھا گیا تھا۔ مختلف جگہوں پر ان لوگوں کے نام بھی لکھے ہوئے تھے جنہوں نے انیسویں صدی کے آغاز میں اس کی تعمیر میں حصہ لیا تھا۔ ان میں سے بہت سے ایرچ کے خاندان کے لوگ تھے۔ تانیہ اور روتھ ان دونوں کے درمیان بیٹھی ہوئی تھیں۔ دونوں نیلے کوٹ اور ٹوپیاں پہنے بہت خوبصورت لگ رہی تھیں۔ جب پادری تقریر کررہا تھا تو ایرچ نے اس کے کان میں سرگوشی کی۔ تم بہت حسین ہو نینا ہر کوئی تمہارے اور بچیوں کی طرف دیکھ رہا ہے۔ سروس ختم ہوئی تو ایرچ نے اس کا تعارف پادری سے کروایا۔ وہ ایک ادھیڑ عمر خوش اخلاق شخص تھا۔ وہ خوش مزاجی سے بولا۔ نینا ہمیں خوشی ہے کہ تم یہاں آئیں اور ہاں یہ دونوں ننھی منی پریاں ان میں روتھ کون ہے اور تانیہ کون ہے اوہو تو آپ بچیوں کے نام جانتے ہیں نینا نے خوشگوار حیرت سے کہا۔ ہاں ہاں مجھے ایرچ نے تمہارے بارے میں سب کچھ بتایا تھا۔ تم بہت خوش قسمت ہو نینا تمہارا شوہر بہت کھلے دل کا انتہائی سخی شخص ہے۔ یہاں جو اولڈ ہائوس بن رہا تھا، اس میں بھی ایرچ نے بہت مدد کی ہے، ورنہ ہم اسے مکمل نہ کر پاتے۔ میں ایرچ کو بچپن سے جانتا ہوں، ہم سب اسے بہت پسند کرتے ہیں۔ میں نے بھی ایرچ کو پسند کیا ہے، اسی لئے تو یہاں ہوں۔ نینا نے خوش دلی سے جواب دیا۔ جمعرات کو خواتین کی میٹنگ ہے۔ اگر تم اس میں شریک ہونا چاہو تو ضرور آنا۔ سب تم سے مل کر خوش ہوں گی۔ ضرور میں ضرور آئوں گی۔ نینا چلو اور لوگ بھی فادر سے ملنا چاہتے ہیں، انہیں بھی وقت دینا چاہئے۔ وہ گھر آنے کے لئے گاڑی میں بیٹھی تو بہت پرجوش تھی۔ ایرچ مجھے یہاں کے لوگ اچھے لگے ہیں جمعرات کو خواتین سے ملنا ایک نیا تجربہ ہوگا۔ لیکن جمعرات کو میں یہاں نہیں ہوں گا، پھر تم بچوں کو کس کے پاس چھوڑو گی فادر سے کہوں گی، وہ کوئی انتظام کردیں گے۔ نہیں نینا ابھی کچھ انتظار کرو۔ ابھی یہاں کے لوگوں سے زیادہ گھلنا ملنا ٹھیک نہیں ہے۔ مگر کیوں آخر اس میں حرج ہی کیا ہے ایرچ نے چہرہ موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ کیونکہ میں تم سے بہت بہت پیار کرتا ہوں۔ میں یہ برداشت نہیں کرسکتا کہ تمہاری توجہ کسی اور جانب ہو۔ ٭ ٭ ٭ ایرچ کے جانے میں ابھی کئی روز باقی تھے کہ اس نے ایک دن اس سے کہا کہ وہ کسی کام سے جارہا ہے، کھانے پر اسے دیر ہوجائے گی لیکن وہ ڈیڑھ بجے ہی واپس آگیا اور نینا سے بولا۔ آئو میرے ساتھ تمہارے لئے سرپرائز ہے۔ اپنا کوٹ اٹھا کر نینا جلدی جلدی اس کے ساتھ چل دی۔ باہر مارک بھی موجود تھا۔ اسے ہیلو کہہ کر وہ ان کے ساتھ اصطبل تک آیا اور مسکراتے ہوئے بولا۔ لو بھئی یہاں نئے لوگوں سے ملو۔ نینا نے دیکھا۔ دو چھوٹی نسل کے گھوڑے ساتھ ساتھ کھڑے تھے۔ ان کے ایال اور دمیں بہت خوبصورت تھیں۔ ان کے تانبے جیسے جسم چمک رہے تھے۔ میری بیٹیوں کے لئے میرا تحفہ ایرچ نے بڑے فخر سے کہا اور اس کا بازو پکڑ کر اسے اگلے اسٹال میں لے گیا۔ اور یہ تمہارا تحفہ حیرت اور خوشی سے نینا گنگ سی ہوگئی۔ وہ ایک بہترین نسل کی خوبصورت گھوڑی تھی جو اس کی طرف ہی دیکھ رہی تھی۔ یہ تو ایک خزانہ ہے۔ اصیل اور اعلیٰ نسل سے تعلق رکھتی ہے۔ یہ چار سال کی ہے لیکن بہت سے مقابلے جیت چکی ہے۔ مجھے امید ہے یہ تمہیں پسند آئے گی۔ اوہ یہ بہت خوبصورت ہے۔ نینا نے خوشی کے لہجے میں کہا اور گھوڑی کے سر پر ہاتھ پھیرا۔ اسے خوشی ہوئی کہ گھوڑی نے سر نہیں جھٹکا۔ گویا اس نے بھی نینا کو پسند کرلیا تھا۔ اس کا کیا نام ہے نینا نے پوچھا۔ اس کو پالنے والے نے تو اس کا نام دل کی آگ رکھا ہے، تم جو چاہو رکھ لینا۔ دل کی آگ نینا نے دہرایا۔ بہت دلچسپ نام ہے۔ اوہ ایرچ میں بہت خوش ہوں۔ وہ بھی مسکرایا۔ ابھی اردگرد برف ہے فی الحال تم اس پر سواری نہیں کرسکتیں، لیکن تم ان سے آکر یہاں ملتی رہنا۔ اس طرح وہ تمہارے اور بچوں کے ساتھ مانوس ہوجائیں گے اور تمہیں گھڑ سواری سیکھنے میں آسانی ہوجائے گی۔ تانیہ اور روتھ تو انہیں دیکھ کر خوشی سے پاگل ہوجائیں گی۔ لیکن پہلے کھانا کھا لیں پھر بچوں کو بتانا، نہیں تو وہ کھانا بھی چھوڑ دیں گی۔ نینا نے مارک کی طرف دیکھا۔ تم نے بھی تو ابھی تک کھانا نہیں کھایا ہوگا، اب کھانا کھا کر جانا۔ اس کی نگاہ ایرچ کے چہرے پر پڑی تو اسے ناگواری کی جھلک سی نظر آئی، لیکن فوراً ہی وہ غائب ہوگئی تو نینا نے اطمینان کا سانس لیا۔ ٭ ٭ ٭ ایرچ تصویروں کی نمائش کیلئے روانہ ہونے لگا تو میٹھی نظروں سے اس کی جانب تکتا ہوا بولا۔ میں تمہاری بہت کمی محسوس کروں گا نینا اچھا دیکھو رات کو دروازے لاک کرنا نہ بھولنا۔ ہاں ہاں ضرور نینا نے یقین دلایا۔ سڑکوں پر ابھی برف ہے۔ اگر تمہیں مارکیٹ سے کچھ لینا ہو تو ڈرائیور سے کہہ دینا۔ ایرچ تم فکر مت کرو، میں اپنا خیال رکھ سکتی ہوں۔ میں وہاں پہنچ کر تمہیں فون کروں گا۔ رات نینا جب اپنے بستر پر لیٹی تو گھر میں مکمل خاموشی تھی، جو بڑی پراسرار سی معلوم ہورہی تھی۔ وہ لائبریری سے ایک کتاب پڑھنے کے لئے لے آئی تھی لیکن اس میں اس کا دل نہیں لگ رہا تھا۔ اس کا دھیان ایرچ کی طرف تھا۔ اس کی نگاہ کلاک کی طرف گئی تو اس نے سوچا ایرچ منزل مقصود پر پہنچ گیا ہوگا، بس اب اس کا فون آنے ہی والا ہوگا۔ اس نے کتاب کھول لی اور اسے پڑھنے میں مصروف ہوگئی۔ ٹیلیفون کی گھنٹی بجی۔ نینا نے جلدی سے ریسیور اٹھایا۔ ہیلو ڈارلنگ اوہ نینا کاش یہ تم نے میرے لئے کہا ہوتا۔ کیون کی آواز سنائی دی۔ نینا دھک سے رہ گئی۔ یہ کیون کہاں سے ٹپک پڑا۔ گھبراہٹ میں کتاب اس کی گود سے پھسل گئی۔ اس نے سنبھل کر پوچھا۔ تم کہاں سے بول رہے ہو میں یہاں آڈیشن کے لئے آیا ہوں۔ اس نے ادارے کا نام بتایا۔ یہ بہت اچھا ہے گڈلک نینا نے اپنی گھبراہٹ چھپاتے ہوئے کہا۔ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے۔ ہاں تم سنائو کیسی گزر رہی ہے اس بجو کے ساتھ بہت بہت اچھی اور بچے کیسے ہیں وہ بھی مزے میں ہیں۔ میں کل ان سے ملنے آئوں گا۔ تم گھر پر ہی ہوگی اس کے انداز میں تحکم تھا۔ کیون نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ میں اپنے بچوں سے ملنا چاہتا ہوں۔ کہاں ہے تمہارا وہ لنگور وہ اس وقت گھر پر نہیں۔ نینا اس کو نہیں بتانا چاہتی تھی کہ وہ چار روز کے لئے شہر سے باہر گیا ہوا ہے۔ تم مجھے اپنا ایڈریس بتائو، میں کرائے کی گاڑی پر آجائوں گا۔ نہیں کیون تمہیں یہاں آنے کی ضرورت نہیں، ایرچ ناراض ہوگا۔ ویسے بھی اب بچوں پر تمہارا کوئی حق نہیں۔ فی الحال مجھے بچوں پر تمام حقوق حاصل ہیں۔ یہ معاہدہ چھ ماہ میں مکمل ہوگا۔ میں چاہوں تو اسے ختم بھی کرسکتا ہوں۔ مجھے معلوم ہونا چاہئے کہ بچیاں یہاں خوش ہیں یا نہیں اور تم بھی اس ناہنجار کے ساتھ خوش ہو یا نہیں میں اب سوچتا ہوں کہ ہم نے فیصلہ کرنے میں بہت جلدی کی۔ ہم اس پر بات کرلیتے تو شاید یہ نوبت نہ آتی۔ اچھا اب جلدی سے بتائو کہ میں تم تک کیسے پہنچوں تم نہیں آئو گے کیون نینا نے سختی سے کہا۔ اس کا دل دھک دھک کررہا تھا۔ اگر تم نہیں بتائو گی تو میں نقشے پر اس جگہ کو تلاش کرلوں گا اور ظاہر ہے کہ وہاں ہر ایک کو معلوم ہوگا کہ وہ سرپھرا کہاں رہتا ہے۔ نینا کی ہتھیلیاں پسینے میں بھیگنے لگیں۔ اس چھوٹے سے قصبے میں کیون کا آنا، ایک بہت بڑی بات ہوگی۔ سب کو معلوم ہوجائے گا کہ وہ اس کا سابق شوہر ہے جبکہ ایرچ نے یہاں سب کو یہ بتا رکھا تھا کہ وہ بیوہ ہے اور اس کا شوہر ایک حادثے میں ہلاک ہوگیا تھا۔ کیون اس نے زور دے کر کہا۔ یہاں مت آنا، تم سب کچھ برباد کردو گے۔ میں اور بچیاں یہاں بہت خوش ہیں۔ میں نے ہمیشہ تمہارے ساتھ اچھا سلوک کیا ہے، تمہاری مالی امداد کی ہے، اس کا خیال کرو۔ اس کا لہجہ بدلا۔ ہاں اچھا تم نے یاد دلایا۔ اس وقت بھی مجھے کچھ رقم کی اشد ضرورت ہے۔ تم نے یہاں آتے ہوئے اپارٹمنٹ کا جو فرنیچر بیچا تھا، اس میں میرا بھی حصہ بنتا ہے۔ نینا نے اطمینان کا سانس لیا۔ ہمیشہ کی طرح اس کو رقم کی ضرورت تھی۔ اس کا منہ آسانی سے بند کیا جاسکتا تھا۔ اچھا بتائو میں رقم کہاں بھیجوں میں خود لینے کے لئے آجائوں گا۔ یہاں کوئی ایسی جگہ نہیں ہے جہاں میں رقم منگوائوں۔ نینا الجھ کر رہ گئی۔ وہ اس کی فطرت سے واقف تھی۔ اس کے ہاتھ ایک بات آگئی تھی اور وہ اپنا مطالبہ منوائے بغیر نہیں ٹلے گا کیونکہ اسے اندازہ تھا کہ وہ کبھی اسے گھر نہیں بلائے گی۔ اس کا ذہن تیزی سے کام کررہا تھا۔ وہ چاہتی تھی کہ ایرچ کی غیر موجودگی میں اسے رضامند کرلے کہ آئندہ وہ اس کی زندگی میں دخل نہیں دے گا۔ اسے یاد آیا کہ قصبے سے تقریباً بیس میل دور ایک ریسٹورنٹ تھا۔ وہاں کیون سے ملا جاسکتا تھا۔ وہاں قصبے کے لوگ بھی کم ہوں گے۔ یہی سوچ کر اس نے کیون کو اس ریسٹورنٹ کا ایڈریس دے دیا اور ایک بجے ملنے کا اس نے ریسیور رکھا لیکن اس کا سارا سکون غارت ہوگیا تھا۔ کیا اسے ایرچ کو اس بارے میں بتا دینا چاہئے، مگر یہ بات خطرے سے خالی نہیں تھی۔ یقیناً وہ برا مانے گا۔ وہ اسی ادھیڑبن میں رہی اور ایرچ کا فون آگیا۔ وہ اس کا حال پوچھتا رہا اور بچیوں کے بارے میں کہ وہ اس کو یاد کرتی ہیں یا نہیں نینا غائب دماغی کے ساتھ اس سے بات کرتی رہی۔ اس نے دل ہی دل میں طے کرلیا تھا کہ کچھ بھی ہوجائے، وہ کیون کو اپنی یہ چھوٹی سی دنیا برباد نہیں کرنے دے گی۔ ٭ ٭ ٭ تقریباً تمام ڈپلیکیٹ چابیاں لائبریری میں ہوتی تھیں۔ نینا نے ڈرائیور سے چابی لینے کے بجائے لائبریری سے دوسری چابی لے لی۔ بچیوں کو جلد کھانا کھلا کر اس نے سونے کے لئے لٹا دیا تھا۔ ایلسا کو ان کے پاس ٹھہرا کر وہ کیون سے ملنے کے لئے روانہ ہوگئی۔ ایک عرصے بعد کار چلانا اسے اچھا لگ رہا تھا۔ اگرچہ یہ نئی جگہ تھی اور وہ پہلی بار سڑک پر نکلی تھی لیکن اسے ریسٹورنٹ تلاش کرنے میں زیادہ دشواری نہیں ہوئی۔ کیون پہلے سے وہاں اس کے انتظار میں تھا۔ نینا نے اسے رسمی انداز میں ہیلو کہا۔ کیون نے اپنا ہاتھ بڑھایا۔ نینا کو بھی مجبوراً اس سے ہاتھ ملانا پڑا۔ وہ ایک ٹک اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ نینا میں تمہاری کمی بہت محسوس کرتا ہوں۔ مجھے بچے بھی یاد آتے ہیں۔ نینا نے اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ سے فوراً الگ کرلیا اور سرد لہجے میں بولی۔ ہاں سنائو تمہارے آڈیشن کا کیا ہوا ابھی کچھ پتا نہیں چلا لیکن امید ہے کہ میں کامیاب ہوجائوں۔ اس طرح میں تمہارے اور بچوں کے قریب رہ سکوں گا۔ فضول باتیں مت کرو کیون نینا نے ٹوکا۔ نینا تم بہت اچھی ہو، بہت خوبصورت ہو۔ مجھ سے غلطی ہوگئی۔ میں سمجھتا تھا کہ تم میرے علاوہ کسی اور سے کبھی محبت نہیں کرو گی۔ کیا تم خوش ہو ہاں میں بہت خوش ہوں اور میری بات غور سے سنو اگر ایرچ کو پتا چل گیا کہ میں تم سے ملی ہوں تو یہ بہت بری بات ہوگی۔ اس کی رائے تمہارے بارے میں اچھی نہیں۔ اور میری رائے بھی اس لنگور کے بارے میں کچھ زیادہ اچھی نہیں ہے۔ اس نے میرے سامنے کاغذ رکھ دیا کہ میں اس پر دستخط کردوں ورنہ تم مجھ پر بچوں کے خرچے کے لئے مقدمہ کردو گی۔ ایرچ نے تم سے یہ کہا تھا ہاں تمہارے اس بجُو نے یہ کہا تھا۔ میں نے دستخط کردیئے کہ بات نہ بڑھے لیکن یہ معاہدہ منسوخ بھی ہوسکتا ہے۔ اس کی معیاد چھ ماہ ہے۔ اور تم نے جو ایرچ سے بچیوں کے بدلے ایک ایک لاکھ لیا ہے، وہ اس کا کیا ہوگا نینا نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ اوہ وہ صرف قرضہ ہے اور کچھ نہیں۔ وہ بے نیازی سے بولا۔ نینا بات بڑھانا نہیں چاہتی تھی، نہ کسی بحث میں الجھنا چاہتی تھی۔ وہ جلد ازجلد یہاں سے نکل جانا چاہتی تھی۔ اس نے رقم کا لفافہ اس کی طرف بڑھایا۔ کیون یہ لو اس کو رکھو اور ہاں اب مجھ سے ہرگز رابطہ مت کرنا۔ نہ ہی بچوں سے ملنے کی کوشش کرنا۔ اس طرح تم ان کے لئے ایک بڑی مصیبت کھڑی کردو گے اور میرے لئے بھی تم اگر ہماری بہتری چاہتے ہو تو ہماری زندگی سے نکل جائو۔ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے اتنا کہہ کر وہ فوراً ہی اٹھ گئی۔ کیون لفافہ جیب میں ڈال کر اس کے ساتھ ہی اٹھا۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر نینا کا بازو تھامنا چاہا لیکن نینا نے اسے اس کا موقع نہیں دیا۔ وہ جلدی سے پیچھے ہٹی اور میز کی طرف آتی ویٹرس سے ٹکرا گئی۔ نینا نے اس سے معذرت کرتے ہوئے اپنا پرس اٹھایا اور کیون کے برابر ٹھہر کر اس نے دبی زبان لیکن مضبوط لہجے میں کہا۔ کیون میں تمہیں متنبہ کرتی ہوں کہ ہمیں اکیلا چھوڑ دو۔ ٭ ٭ ٭ ایرچ ان کے لئے بہت سے تحفے لے کر آیا تھا۔ دونوں بچیوں کی خوشی اور مسرت بھری چیخوں نے اسے بہت محظوظ کیا۔ وہ اپنی نئی گڑیا پا کر بہت خوش تھیں۔ روتھ نے سنجیدگی سے اس کا شکریہ ادا کیا۔ تانیہ اپنے مخصوص چونچال پن سے بولی۔ تھینک یو ڈیڈی میں بھی یہی کہنا چاہتی تھی۔ روتھ جلدی سے بولی۔ ایرچ نے قہقہہ لگایا اور دونوں کو گلے سے لگا لیا۔ روتھ نے پوچھا۔ آپ ممی کے لئے کیا لائے ہیں ممی کے لئے وہ اداکاری کرتے ہوئے بولا۔ کیا ممی میرے بعد اچھی ممی بنی رہیں یس یس بچیاں ایک ساتھ بولیں۔ لائو کہاں ہے میرا تحفہ میں بہت اچھی ممی بنی رہی۔ ایرچ نے اپنے سوٹ کیس سے ایک مجسمہ نکالا۔ ایک ادھیڑ عمر خاتون جھولنے والی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔ اس کے ہاتھ میں چائے کا کپ تھا اور چہرے پر اطمینان اور سکون وہ مسکراتے ہوئے بولا۔ تم ہمیشہ اپنی دادی کو یاد کرتی رہتی ہو۔ مجھے خیال ہوا کہ تم اسے دیکھ کر خوش ہوگی۔ واقعی یہ گرینی کی طرح ہی لگ رہی ہے۔ نینا نے مجسمہ ہاتھ میں لے کر دیکھتے ہوئے خوشگوار حیرت سے کہا۔ اس کی پلکیں بھیگ گئیں۔ اس نے آتشدان میں آگ جلا لی تھی۔ ایرچ کا پسندیدہ کھانا بنایا تھا، اس کا پسندیدہ سبز لباس پہن رکھا تھا۔ ریشمیں بال اس کے شانوں پر بکھرے ہوئے تھے۔ دلکش آنکھوں میں محبت کنول کی طرح تیر رہی تھی۔ نینا تم بہت حسین ہو۔ وہ مخمور لہجے میں بولا۔ تمہارا دورہ کیسا رہا نینا نے پوچھا۔ بہت تھکا دینے والا اور قدرے پریشان کن بھی تھا۔ گیلری میں سارا وقت لوگ میرے گرد رہے اور مجھ سے مختلف سوالات کرکے میرا ناک میں دم کردیا۔ کچھ اس تصویر کو خریدنا چاہتے تھے جو میں فروخت نہیں کرنا چاہتا تھا۔ ماما کیرولین کی تصویر یادیں پچھلی نمائش میں بھی یہی ہوا تھا کہ اس تصویر کو خریدنے کی پیشکش ہوئی تھی۔ تم پریشانی سے بچنا چاہتے ہو تو اسے نمائش میں مت رکھو۔ یہ کیسے ہوسکتا ہے کہ میں اس تصویر کو نمائش میں نہ رکھوں یہ تو میرا بہترین کام ہے۔ وہ بولا۔ کھانا ختم ہوگیا۔ وہ برتن سمیٹنے لگی تو ایرچ نے دونوں بچیوں کو گود میں بٹھا لیا اور انہیں اس بڑے ہوٹل کے بارے میں بتانے لگا جہاں وہ ٹھہرا تھا، جہاں شیشے کی لفٹیں تھیں اور تمام کا تمام خودکار نظام کے تحت چلتا تھا۔ ہم بھی وہاں جائیں گے۔ روتھ نے کہا۔ تانیہ نے بھی اس کی آواز میں آواز ملائی۔ ممی بھی ہمارے ساتھ چلیں گی ہاں اگر ممی جانا چاہیں گی تو وہ اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ نینا محسوس کررہی تھی کہ وہ کچھ بے چین سا ہے۔ وہ اس کی باتوں کے جواب بھی پوری توجہ سے نہیں دے رہا تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے وہ اندر ہی اندر کچھ سوچ رہا ہے یا کوئی بات اسے کھٹک رہی ہے۔ اس کے اپنے دل کا چور بھی اسے کچوکے دے رہا تھا۔ اگر ایرچ کو معلوم ہوگیا کہ وہ کیون سے ملنے گئی تھی تو اسے بہت برا لگے گا۔ کبھی اس کے دل میں خیال آتا۔ اس طرح ضمیر کے کچوکے برداشت کرنے سے بہتر ہے کہ وہ اسے سب کچھ بتا دے بجائے اس کے کہ اسے کسی اور کی زبانی اس بات کا علم ہو۔ ہوسکتا ہے ریسٹورنٹ میں کسی نے اسے دیکھ لیا ہو۔ کچھ دیر بعد اس نے بچیوں سے کہا کہ وہ اپنے کمرے میں جاکر اپنی نئی گڑیا سے کھیلیں اور جب وہ چلی گئیں اور انہیں تنہائی میسر آئی تو اس نے ہمت کرکے ایرچ سے پوچھا۔ ایرچ کیا کوئی مسئلہ ہے، تم کچھ الجھے ہوئے دکھائی دیتے ہو کچھ اتنا خاص بھی نہیں ہے۔ مجھے یہ بات تنگ کررہی ہے کہ جوئی گاڑی کو خواہ مخواہ اِدھر اُدھر لئے پھرتا ہے۔ میری غیر موجودگی سے فائدہ اٹھا کر اس نے چالیس پچاس کلومیٹر گاڑی چلائی ہے۔ میں پوچھوں گا تو کبھی نہیں مانے گا۔ کیا وہ تمہیں کہیں لے کر گیا تھا نینا دھک سے رہ گئی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ ایرچ گاڑی کی مائلج بھی یاد رکھتا ہوگا۔ اس نے جلدی سے خود کو سنبھال کر کہا۔ نہیں لیکن اس نے دل میں سوچا کہ اسے ایرچ کو بتا دینا چاہئے کہ گاڑی اس نے چلائی تھی تاکہ ڈرائیور جوئی خواہ مخواہ ملزم نہ بنے۔ اس نے حلق تر کرکے بات شروع کی۔ ایرچ میں لیکن وہ اس کی بات ان سنی کرکے بولا۔ ڈارلنگ آئندہ نمائش کے لئے مجھے کچھ اور تصویریں بنانا ہوں گی۔ تم برا نہ ماننا میں تین چار دن کاٹیج میں ہی رہوں گا۔ یہ میرے لئے بہت ضروری ہے کہ سفر کی تھکان بھی دور کروں اور آئندہ کے لئے سوچ سکوں کہ مجھے کیا بنانا ہے۔ کیا خبر کوئی اچھی چیز بن ہی جائے۔ نینا کو قدرے مایوسی ہوئی۔ اس پر ظاہر کئے بغیر اس نے کہا۔ ہاں اگر یہ تمہارے لئے ضروری ہے تو پھر ٹھیک ہے۔ بچیوں کے آرام کرنے کا وقت ہوگیا تھا۔ نینا انہیں سلانے کے لئے چلی گئی۔ جب پندرہ بیس منٹ بعد وہ واپس آئی تو یہ دیکھ کر ٹھٹھک گئی کہ ایرچ کی آنکھوں میں آنسو تھے، اس کے چہرے پر اداسی کا گمبھیر سایہ تھا۔ ایرچ خیریت تو ہے، کیا ہوا ایرچ نے اپنے ہاتھ کی پشت سے آنسوئوں کو صاف کیا۔ معاف کرنا جینی مجھ پر بہت سخت ڈپریشن طاری ہے۔ ماما کیرولین کی برسی اگلے ہفتے ہے۔ تم اندازہ نہیں کرسکتیں کہ یہ وقت میرے لئے کتنا سخت ہوتا ہے۔ یہ ہر سال مجھ پر بہت بھاری پڑتا ہے۔ میں جب گھر لوٹا تو میرے ذہن پر یہی طاری تھا کہ گھر تاریک، ویران اور خالی ڈھنڈار پڑا ہوگا لیکن جب دروازہ کھلا اور مجھے تم نظر آئیں اپنے حسن، اپنی دلکش آنکھوں اور میرے آنے کی مسرت کی چمک اپنے خوبصورت چہرے پر لئے ہوئے تو مجھے اپنی آنکھوں پر اعتبار نہیں آیا۔ مجھے یہ اندیشہ کھائے جاتا تھا کہ میری غیر موجودگی میں تم کہیں چلی جائو گی، مجھے چھوڑ کر میں تمہیں کھو دوں گا، ماما کی طرح نینا گھٹنوں کے بل اس کی کرسی کے قریب بیٹھ گئی اور اس کے آنسو صاف کرتے ہوئے بولی۔ نہیں ایرچ ایسا کبھی نہیں ہوگا میں تمہیں چھوڑ کر نہیں جائوں گی، کبھی نہیں ٭ ٭ ٭ اگلی صبح ابھی سورج نہیں نکلا تھا۔ نینا، ایرچ کے قدموں کی چاپ سے جاگی۔ اس نے اپنی آنکھیں بمشکل کھول کر کہا۔ تم کاٹیج جارہے ہو ہاں وہ سرگوشی کے انداز میں بولا۔ دوپہر کھانے پرآئو گے ابھی کچھ کہہ نہیں سکتا۔ اتنا کہہ کر اس نے دروازہ کھولا اور کمرے سے باہر چلا گیا۔ ناشتے کے بعد نینا بچیوں کو لے کر معمول کی سیر کے لئے نکلی۔ مرغیوں کے ڈربوں کو دیکھ کر وہ اس کے آگے آگے بھاگنے لگیں۔ آرام سے بچو دیکھ لو، گھوڑے اندر ہی ہیں نا جوئی اصطبل میں موجود تھا۔ اس نے بچیوں کے چھوٹے گھوڑوں کے جسموں اور دموں کو اچھی طرح برش کررکھا تھا۔ ان کی جلد سورج کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ یہ لو بچو چینی اپنے اپنے گھوڑے کو کھلائو۔ وہ مسکرا کر بولا۔ اس نے بچیوں کو باری باری اٹھایا اور گھوڑوں کو ان کے ہاتھ سے چینی کھلوائی پھر بولا۔ ہاں بچو کیا تم لوگ چند منٹ کے لئے گھوڑے کی پشت پر بیٹھو گے نینا نے جلدی سے کہا۔ نہیں جوئی مسٹر ایرچ یہ پسند نہیں کریں گے۔ نہیں میں گھوڑے پر بیٹھوں گی۔ تانیہ نے مچل کر کہا۔ نہیں ڈیڈی ہمیں کچھ نہیں کہیں گے۔ وہ ہمیں بیٹھنے دیں گے۔ روتھ بھی بولی۔ نہیں ابھی نہیں بچو نینا نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ ممی گندی ہیں۔ تانیہ روہانسی ہوکر بولی۔ ممی پلیز روتھ نے منت کی۔ نہیں کل ڈیڈی سے پوچھنا ضروری ہے۔ نینا نے فیصلہ کن لہجے میں کہا اور ان کی توجہ بٹانے کو بولی۔ آئو ذرا مرغیوں کی خبر لیں۔ وہ ہمارا انتظار کررہی ہوں گی۔ نہیں میں اپنے گھوڑے پر بیٹھوں گی۔ تانیہ نے روتے ہوئے نینا کی ٹانگ پر اپنے چھوٹے چھوٹے ہاتھوں سے مکے برسائے۔ آپ بہت گندی ممی ہیں۔ نینا نے جھک کر تانیہ کی پشت پر ایک ہلکی سی چپت لگائی۔ اور تم ایک شریر بچی ہو۔ تانیہ روتی ہوئی دوڑی۔ روتھ بھی اس کے پیچھے بھاگنے لگی۔ نینا بھی تیزی کے ساتھ ان کے پیچھے لپکی دونوں ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑ کر چلنے لگیں تھیں روتھ، تانیہ کو تسلی دیتے ہوئے کہہ رہی تھی۔ تانیہ تم پریشان مت ہو۔ ہم ڈیڈی سے ممی کی شکایت کریں گے۔ نینا انہیں پکارنے کو تھی کہ اسے اپنے عقب میں جوئی کی آواز سنائی دی۔ مسز ایرچ نینا نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ کیا بات ہے جوئی مسز ایرچ میرے پاس ایک بلی کا بچہ ہے۔ میرا خیال ہے کہ بچیاں اسے دیکھیں گی تو اپنی ناراضی بھول جائیں گی۔ نینا کو یہ بات مناسب لگی۔ ہاں ٹھیک ہے۔ میں ان کو بتاتی ہوں۔ بچیاں اپنی ناراضی بھول کر بلی کے بچے کو دیکھنے کے لئے تیار ہوگئیں۔ جوئی ان کے ساتھ چلتا ہوا بولا۔ دیکھیں برف اب پگھلتی جارہی ہے۔ تقریباً دو تین ہفتوں میں زمین برف سے خالی ہوجائے گی، نیچے کیچڑ رہ جائے گی، پھر گھاس اگنی شروع ہوگی۔ مسٹر ایرچ نے مجھ سے کہا ہے کہ بچیوں کی گھڑ سواری کے لئے یہاں ایک میدان ہموار کردوں۔ جوئی کی ماں گھر پر تھی۔ اس کا باپ پانچ سال پہلے فوت ہوچکا تھا، اس کی ماں تقریباً پچاس پچپن کے پیٹے میں ایک فربہ اندام عورت تھی۔ اس نے بہت خوشی کے ساتھ انہیں خوش آمدید کہا۔ چھوٹا سا گھر سلیقے سے سنوارا ہوا تھا۔ دیواریں تصویروں سے بھری ہوئی تھیں۔ اس نے بتایا کہ اس کا نام میڈی ہے۔ بچیاں بلی کے بچے کے ساتھ کھیل میں لگ گئیں۔ جوئی نے بتایا کہ وہ اس بلی کو سڑک سے اٹھا کر لایا تھا جہاں وہ سردی سے اکڑی پڑی تھی۔ میڈی نے سر جھٹکا۔ جوئی اسی طرح جانوروں کو اٹھا کر لے آتا ہے جو مرنے کے قریب ہوتے ہیں۔ میرا بیٹا بہت نرم دل ہے، اسے جانوروں سے بہت محبت ہے۔ وہ بھی اسے بہت چاہتے ہیں۔ تم نے اس کا پچھلا کتا نہیں دیکھا۔ وہ بہت ہی پیارا تھا، بہت ہی تیز طرار اس کو کیا ہوا تھا معلوم نہیں۔ اس نے شانے جھٹکے۔ ہم ہمیشہ اسے باڑ کے اندر ہی رکھتے تھے مگر بعض اوقات وہ شریر موقع سے فائدہ اٹھا لیتا تھا اور دوڑ کر فارم کی طرف چلا جاتا تھا۔ وہ جوئی کے ساتھ ساتھ رہنا چاہتا تھا مسز ایرچ کو یہ بات پسند نہیں تھی۔ اس میں مسٹر ایرچ بھی قصوروار نہیں ان کا کتا بہت اعلیٰ نسل کا ہے۔ وہ نہیں چاہتے کہ وہ ہم ملازموں کے کتوں کے ساتھ گھلے ملے۔ ایک روز وہ فارم میں چلا گیا۔ ہمیں پتا نہیں چلا لیکن مسٹر ایرچ نے اسے دیکھ لیا۔ انہیں بہت برا لگا۔ وہ سخت غصے میں آگئے۔ پھر نینا نے دلچسپی سے پوچھا۔ انہوں نے اپنے کتے کو کسی کو دے دیا اور ہمارا کتا بھی نہ جانے کہاں گیا۔ مجھے شک ہے میڈی کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن جوئی نے اسے ٹوک دیا۔ ماما یہ پرانی بات ہے، چھوڑیں اسے نہیں میں تو صرف یہ بتانا چاہتی تھی کہ مسٹر ایرچ نے دھمکی دی تھی کہ اگر انہوں نے کتے کو فارم میں دیکھ لیا تو وہ اسے گولی مار دیں گے۔ جوئی کا فون آگیا، وہ چلا گیا تو میڈی نے کافی بنائی اور اس سے پوچھنے لگی کہ ایرچ سے اس کی ملاقات کہاں ہوئی، دونوں نے شادی کا فیصلہ کب کیا، اتنے بڑے شہر سے چھوٹے سے قصبے میں آکر اسے کیسا لگتا ہے اور اسی طرح کے بہت سے سوالات نینا نے بتایا کہ وہ یہاں بہت خوش ہے۔ ہاں کیرولین بھی یہی کہا کرتی تھی۔ میڈی بولی۔ لیکن یہ لوگ زیادہ ملنا ملانا، گھومنا پھرنا پسند نہیں کرتے۔ اس طرح اپنی بیویوں کی زندگی بہت دشوار اور بے رنگ بنا دیتے ہیں۔ یہ معاف کرنا نہیں جانتے اور جب غصے میں آجائیں تو خدا ہی ان سے بچائے۔ یہ غصہ تھوکتے نہیں۔ نینا اس بارے میں کچھ بولنا نہیں چاہتی تھی اور میڈی کی باتیں اسے پریشان کررہی تھیں۔ اس نے کافی کی پیالی خالی کرکے رکھی اور اٹھتے ہوئے بولی۔ بس اب ہمیں چلنا چاہئے۔ اسی وقت کچن کا دروازہ کھلا اور ایک ادھیڑ عمر شخص اندر داخل ہوا۔ دو قدم چل کر وہ ٹھٹھک کر رک گیا۔ کیا تم مسز ایرچ ہو نینا نے اثبات میں سر ہلایا تو وہ اپنا تعارف کرانے لگا۔ میں جوئی کا انکل ہوں جوش نینا چونکی۔ غالباً یہ وہی شخص تھا جس کے بارے میں ایرچ نے بتایا تھا کہ وہ الیکٹریشن ہے اور اس کی بے احتیاطی کی وجہ سے کیرولین کو حادثہ پیش آیا تھا۔ وہ پریشان ہوئی کہ اگر ایرچ کو معلوم ہوگیا کہ وہ اس سے ملی ہے تو وہ ناراض ہوگا۔ جوش، میڈی کی طرف مڑا۔ تم نے دیکھا کہ یہ ہوبہو کیرولین ہے، جیسے کیرولین کی جڑواں بہن ہو۔ مسٹر ایرچ اپنی ماں کو بہت چاہتا تھا لیکن اس کے والدین نے اس کا کوئی خیال نہیں کیا اور دونوں کے درمیان طلاق ہوگئی۔ طلاق نینا نے حیرت سے دہرایا۔ جس روز حادثہ ہوا، اس روز کیرولین گھر چھوڑ کر ہمیشہ کے لئے جارہی تھی۔ وہ مسٹر ایرچ کے ساتھ اس طرف آئی تھی۔ ایرچ کی شاید بارہویں سالگرہ تھی، اس نے ہاتھ میں ہاکی اسٹک پکڑ رکھی تھی۔ رو رو کر اس کی آنکھیں سوجی ہوئی تھیں اور وہ کیرولین کا اسکرٹ دوسرے ہاتھ سے یوں پکڑے ہوئے تھا جیسے اسے روک لینا چاہتا ہو۔ کیرولین اسے سمجھا رہی تھی۔ دیکھو جب یہ ننھا بچھڑا بڑا ہوجائے گا تو اسے اس کی ماں سے علیحدہ کردیا جائے گا۔ تم بھی تو بڑے ہوگئے ہو، بہت سمجھدار ہو۔ میں وہاں سے ہٹ گیا تاکہ ماں بیٹا آپس میں کھل کر بات کرلیں لیکن چند ہی لمحوں بعد مجھے مسٹر ایرچ کے چیخنے کی آواز سنائی دی۔ میں دوڑ کر آیا تو سب کچھ ختم ہوچکا تھا۔ جوش اب بس بھی کرو، تم کیا فضول بولتے رہتے ہو۔ نینا سوچ رہی تھی کہ شاید ایرچ اسی لئے عدم تحفظ کا شکار ہے اور باربار اس سے پوچھتا ہے کہ وہ اس کو چھوڑ کر تو نہیں چلی جائے گی۔ اس کی زندگی کا یہ المیہ ہمیشہ اسے پریشان کرتا رہتا تھا۔ وہ اس کے اثر سے اب تک نہیں نکل پایا تھا۔ یہی سوچتی ہوئی وہ بچیوں کو لے کر گھر کی طرف چل پڑی۔ جاری ہے
null
null
null
null
430
https://www.urduzone.net/azab-jaan-complete-urdu-story/
امجد خاصا خوش شکل اور وجیہ شخص تھا۔ وہ سافٹ ویئر انجینئر تھا۔ گویا اس میں وہ تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں جو فی زمانہ کسی بھی لڑکی کے ایک آئیڈیل جیون ساتھی بننے کا خواب ہوسکتا تھا۔ جبکہ ثمینہ کا معاملہ اور تھا، وہ ایک یتیم لڑکی تھی اور گھر کا خرچ چلانے کے لئے ملازمت کرتی تھی۔ مکان ان کا اپنا تھا۔ بھائی بہن کوئی نہیں تھا۔ صرف بیوہ ماں تھی اس لئے گزر بسر آسانی سے ہو جاتی تھی۔ ثمینہ کی ماں ریحانہ بیگم نے امجد کے بارے میں مختصر چھان بین کے بعد بیٹی کی منگنی کردی۔ ثمینہ بہت خوش تھی۔ وہ اپنی دوستوں کے ساتھ امجد کا ذکر کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتی تھی۔ اس کی جو بھی دوست امجد کو دیکھتی، اس کے دل میں حسد و رشک کے جذبات پیدا ہو جاتے۔ امجد ایسا ہی پروقار شخص تھا۔ وہ پہلی نظر اور پہلی ملاقات میں بڑا اچھا اثر ڈالتا تھا۔ لوگ اسے دیکھ کر متاثر ہوئے بنا نہ رہتے تھے۔ منگنی کے بعد اس نے ہر دوسرے، تیسرے روز ثمینہ کے گھر آنا شروع کردیا۔ اس کے پاس اپنی گاڑی تھی، اس لئے آنے جانے کا کوئی مسئلہ نہیں تھا۔ وہ ہر ملاقات پر ثمینہ کے لئے کچھ لانا نہیں بھولتا تھا۔ جس روز وہ ملنے نہ آتا اس روز فون پر بات کرلیتا۔ ثمینہ کی بے تکلف سہیلیاں اس سے پوچھتیں۔ ثمینہ، تم نے ایسے شاندار بندے کو کس طرح زیر کیا ایمان سے آج کل تو کھاتے پیتے گھرانوں کی لڑکیاں، رشتوں کے انتظار میں اوورایج ہو رہی ہیں۔ او یار ہمیں بھی کوئی گُر بتا دو۔ اور ثمینہ کے ہونٹوں پر فاتحانہ مسکراہٹ بکھر جاتی۔ جہاں تک امجد کا تعلق تھا، وہ ثمینہ کو والہانہ انداز میں چاہتا تھا اور اس بات کا وہ بار بار اظہار بھی کرتا رہتا تھا۔ اکثر کہتا۔ ثمینہ جس روز تم سے ملاقات نہیں ہوتی وہ دن میں سخت بے کلی میں گزارتا ہوں۔ ثمینہ بھی شرما کے کہتی۔ دل تو میرا بھی نہیں لگتا۔ اب تو امجد نے اسے دفتر میں بھی فون کرنا شروع کردیا تھا۔ ثمینہ نے ایک دو مرتبہ اسے ٹوکا بھی کہ اس کا باس پرائیویٹ کالیں پسند نہیں کرتا۔ امجد نے کہا کہ وہ صرف اس کی آواز سننے کے لئے فون کرتا ہے۔ چند ہفتوں کے بعد ثمینہ نے یہ محسوس کرنا شروع کردیا کہ امجد محبت کے معاملے میں خاصا حساس ہے۔ وہ اپنی محبت پر کسی کا سایہ بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا۔ ایک روز دفتر میں کام کی زیادتی کی وجہ سے ثمینہ کو دیر ہوگئی۔ اس وقت آفس وین جا چکی تھی ازراہ ہمدردی ثمینہ کے باس نے اسے گھر پر ڈراپ کردیا۔ کار سے اترنے کے بعد ثمینہ نے دیکھا کہ امجد کی کار ان کے دروازے کے سامنے موجود ہے اور امجد کار سے ٹیک لگائے کھڑا ہے۔ اس وقت شام کا دھندلکا پھیل چکا تھا، تاہم ثمینہ نے دیکھا کہ امجد کے چہرے پر سخت تنائو موجود تھا۔ تم، اس وقت کہاں سے آ رہی ہو اس نے پوچھا۔ ثمینہ کو اس کا لہجہ بالکل اجنبی لگا۔ اس نے نرمی سے جواب دیا۔ میں دفتر سے آ رہی ہوں۔ امجد اپنی دستی گھڑی پر نظر ڈالتے ہوئے بولا۔ میں تمہاری بات پر یقین نہیںکرسکتا۔ تمام دنیا کے دفتر پانچ بجے بند ہوجاتے ہیں اور اس وقت سات بجے ہیں۔ ثمینہ خاصی تھکی ہوئی تھی اور کوئی بدمزگی نہیں چاہتی تھی۔ وہ بولی۔ آئیں، اندر چلیں۔ گلی میں ایسی گفتگو مناسب نہیں ہوتی۔ ٹھہرو، پہلے میری بات کا جواب دو۔ امجد نے کہا۔ اس کی آواز دھیمی تھی، مگر لہجہ تلخی سے بھرا ہوا تھا۔ جب تک میری تسلی نہیں ہوگی، میں اندر نہیں جائوں گا۔ ثمینہ نے بے بسی سے اِدھر اُدھر دیکھا اور بولی۔ آج دفتر میں کام زیادہ تھا۔ کل ایک کنسائمنٹ جانے والی ہے۔ اس کے ڈاکیومنٹس تیار کرنے تھے۔ تم جھوٹ بول رہی ہو۔ امجد نے بہ ظاہر پرسکون لہجے میں کہا، لیکن اس کی باتیں ثمینہ کا دل چھلنی کر رہی تھیں۔ یہ کار والا کون تھا امجد نے سوال کیا۔ میرے باس تھے۔ ہوں تو یہ باس اور سیکرٹری والا چکر ہے۔ امجد پلیز ثمینہ نے احتجاج کیا۔ جمیل صاحب کی عمر میرے باپ کے برابر ہے۔ وہ نانا بن چکے ہیں۔ لیکن یہ شخص تمہارا باپ نہیں ہے۔ امجد کا لہجہ تلخ مگر آواز دھیمی تھی۔ دور سے دیکھنے پر یہی محسوس ہوتا تھا کہ دونوں کسی عمومی معاملے پر بات کر رہے ہیں۔ امجد آپ مجھ پر شک کر رہے ہیں۔ میں ان لڑکیوں میں سے نہیں ہوں جو امجد نے اس کی بات کاٹی اور اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ تم مجھے بے وقوف نہیں بنا سکتیں، عمر سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ بڈھا خواہ تمہارے باپ کے برابر ہو اور خواہ تمہارے دادا کے برابر۔ وہ ہر حال میں تمہارے لئے نامحرم ہے۔ امجد، میں آپ کو اتنا تنگ نظر نہیں سمجھتی تھی۔ آزاد خیالی اور بے حیائی دو مختلف چیزیں ہیں۔ امجد نے اپنی بات پر زور دیتے ہوئے کہا۔ یہ تنگ نظری نہیں، زندگی کی حقیقت کا ایک اظہار ہے۔ امجد ثمینہ کا جی چاہا کہ رو پڑے۔ کیا تم اس کے ساتھ پچھلی سیٹ پر نہیں بیٹھی ہوئی تھیں۔ تو کیا اگلی سیٹ پر ڈرائیور کے ساتھ بیٹھتی وہ تمہارا بڈھا باپ تو بیٹھ سکتا تھا ڈرائیور کے ساتھ۔ ثمینہ کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ وہ بولی۔ مم مجھے معلوم نہ تھا کہ آپ کی سوچ اتنی پست ہے۔ اگر تم اپنی غلطی کا اعتراف کرلو تو میں اس بات کو بھول جائوں گا۔ کون سی غلطی انجان بننے کی کوشش مت کرو۔ کیا یہ حقیقت نہیں ہے کہ باس تمہیں کافی پلانے کسی ریستوران میں لے گیا تھا ثمینہ کی قوتِ برداشت جواب دے گئی۔ وہ تیزی سے گھر میں داخل ہوئی اور اندر سے دروازہ بند کر لیا۔ لمحہ بھر کے بعد اس نے انجن اسٹارٹ ہونے اور گاڑی کے روانہ ہونے کی آواز سنی۔ وہ بے اختیار پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔ وہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ اوپر سے فراخ دل اور ترقی پسند دکھائی دینے والا شخص اندر سے اتنا تنگ نظر اور پست نکلے گا۔ اس کے رونے کی آواز سن کر اس کی بوڑھی ماں ریحانہ بیگم گھبرائی ہوئی دروازے پر پہنچی۔ کیا ہوا ثومی بیٹی، کیا ہوا اس نے بیٹی کو اپنے بازوئوں میں سمیٹتے ہوئے پوچھا۔ یااللہ تو رحم کر اس کے دل میں بے شمار وسوسے سے پیدا ہونے لگے۔ ماں کی آغوش میں آتے ہی ثمینہ نے اطمینان اور تحفظ محسوس کیا۔ اس کے دکھ کو سمجھنے والی ہستی ابھی موجود تھی۔ کوئی بات نہیں ہے امی۔ اس نے اپنے آنسو پونچھتے ہوئے کہا۔ سب ٹھیک ہے۔ میں بھی کتنی پاگل ہوں، مجھے تو خوش ہونا چاہئے کہ اللہ نے مجھے پیشگی اطلاع دے دی۔ اگر شادی کے بعد اس بات کا پتا چلتا تو میری زندگی عذاب بن جاتی۔ ہوا کیا ہے آخر کس خطرے کی بات کر رہی ہو ماں نے پریشانی سے پوچھا۔ کیا امجد نے کچھ کردیا ہے کچھ نہیں، بہت کچھ۔ ثمینہ نے جواب دیا۔ آج اس نے اپنی اصلیت ظاہر کردی ہے۔ خدا کا شکر ہے کہ ابھی نکاح نہیں ہوا تھا۔ میں امجد سے شادی نہیں کروں گی۔ اے بیٹی ایسی بات منہ سے مت نکالو، امجد بہت اچھا لڑکا ہے، خوش شکل ہے، برسر روزگار ہے اور اچھی تنخواہ پاتا ہے۔ لوگ تو ایسے رشتوں کو ترستے ہیں۔ باقی تھوڑی بہت کمزوریاں تو ہر شخص میں ہوتی ہی ہیں۔ یہ خوش شکل اور برسر روزگار شخص بہت شکی مزاج ہے۔ ثمینہ نے تھوڑی دیر پہلے ہونے والی گفتگو کی تفصیل ماں کو بتائی پھر کہا۔ میں مر جائوں گی، مگر ایسے شخص کے ساتھ شادی نہیں کروں گی۔ اب اگر یہ آئے تو اس کی چیزیں واپس کردیں اور صاف لفظوں میں بتا دیں کہ ہم نے منگنی توڑ دی ہے۔ ریحانہ بیگم ایک جہاندیدہ عورت تھی۔ امجد کی باتیں سننے کے بعد اس نے اپنی بیٹی کے فیصلے پر کوئی اعتراض نہیں کیا۔ جس شخص نے منگنی کے دوران اس کی بیٹی پر الزام لگا دیا تھا وہ شادی کے بعد بہت کچھ کرسکتا تھا۔ وہ رات ثمینہ نے سخت الجھن میں گزاری۔ سوچ بچار اور بے خوابی کی وجہ سے اس کی طبیعت خراب ہوگئی اور وہ دفتر نہ جا سکی۔ ساڑھے نو بجے امجد کا فون آگیا۔ اس وقت ثمینہ دفتر فون کرنے کا ارادہ کر رہی تھی۔ امجد کی آواز سن کر وہ ایک دم غصے سے بھر گئی۔ ثومی میں نے تمہارے آفس فون کیا تھا۔ اس نے کہا۔ ایک دفعہ نہیں کم از کم بارہ تیرہ مرتبہ، یہی جواب ملا کہ مس ثمینہ ریاض سیٹ پر موجود نہیں۔ ثمینہ کچھ نہیں بولی۔ ہوں ہاں بھی نہیں کیا۔ قدرے توقف کے بعد امجد بولا۔ میں نے تم سے معافی مانگنے کے لئے فون کیا ہے۔ میرا خیال ہے کہ کل شام مجھ سے کچھ زیادتی ہوگئی تھی۔ میں وعدہ کرتا ہوں کہ آئندہ ایسی بات نہیں ہوگی۔ پتا نہیں مجھے اچانک کیا ہوگیا تھا ثومی، کیا بات ہے، تم بولتی کیوں نہیں میرا نام ثمینہ ریاض ہے۔ ثمینہ نے تلخی سے کہا۔ مجھے معلوم ہے کہ تم سخت غصے میں ہو۔ امجد بولا۔ اسی لئے میں معافی مانگ رہا ہوں۔ پلیز ثمینہ غصہ تھوک دو، کل والی بات بھول جائو۔ میں وہ باتیں قیامت تک نہیں بھول سکتی، میں نے تمہاری منگنی کی انگوٹھی اور جوڑے وغیرہ پیک کر دیئے ہیں۔ یہ تمام چیزیں کسی وقت آ کر لے جانا۔ کک کیا تم منگنی توڑنے کی بات کر رہی ہو منگنی کل شام کو ہی ٹوٹ گئی تھی۔ نہیں، تم ایسا نہیں کرسکتیں۔ عورت مرد کو طلاق نہیں دے سکتی، نکاح نہیں توڑ سکتی، لیکن منگنی توڑ سکتی ہے۔ اسے منگنی توڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ یہ کہہ کر ثمینہ نے فون بند کردیا۔ اگلے روز امجد نے اسے دفتر فون کیا، لیکن اس نے بات کرنے سے انکار کردیا۔ شام کو امجد پھولوں کا گجرا لئے اس کے دروازے پر پہنچ گیا۔ ثمینہ نے گاڑی رکنے کی آواز سنی تو منگنی کے تحائف کا پیکٹ لے کر دروازے پر پہنچ گئی اور اوٹ میں رہتے ہوئے پیکٹ امجد کی طرف بڑھا دیا۔ یہ تمہاری امانت۔ اس نے تلخی سے کہا۔ کیا تم مجھے وضاحت کا موقع نہیں دو گی جو بات انسان اپنی آنکھوں سے دیکھ لے یا کانوں سے سن لے، اس کے لئے پھر کسی وضاحت کی ضرورت نہیں رہتی۔ ویسے تم جو کہنا چاہتے ہو وہ کہہ دو میں سن رہی ہوں۔ میرے خیال میں اندر بیٹھ کر بات کرنا زیادہ بہتر ہوگا۔ گلی میں کھڑے ہو کر بات کرنے کا فیصلہ تمہارا تھا۔ ثمینہ نے اسے یاد دلایا۔ تم نے کہا تھا کہ جب تک تمہاری تسلی نہیں ہو جاتی، تم ہمارے گھر میں داخل نہیں ہوگے۔ وہ وہ میری حماقت تھی۔ انسان کو اپنی حماقت کا خمیازہ ضرور بھگتنا پڑتا ہے۔ میں سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں۔ میں فیصلہ کرچکی ہوں، تم اسے سزا یا جو چاہے سمجھو۔ میرا اب تم سے کوئی تعلق نہیں رہا۔ اس نے پیکٹ زمین پر پھینک کر دروازہ بند کرلیا۔ اس کا خیال تھا کہ امجد بات سمجھ جائے گا اور اس سے رابطہ قائم کرنے کی کوشش نہیں کرے گا لیکن اس کا خیال غلط ثابت ہوا۔ امجد آسانی سے پیچھا چھوڑنے والا شخص نہیں تھا۔ وہ روزانہ دو بار فون ضرور کرتا۔ ایک مرتبہ دفتر میں اور ایک بار گھر پر ثمینہ نے آپریٹر سے کہہ دیا کہ وہ امجد کی کوئی کال نہ ملائے۔ گھر میں اسے مجبوراً فون اٹھانا پڑتا تھا۔ امجد کبھی نرمی کبھی منت کے انداز میں اور کبھی چیخ کر بات کرتا۔ ثمینہ مختصر جواب دیتی اور فون رکھ دیتی۔ اس کا ردعمل یہ ہوتا کہ وہ بار بار فون کرنے لگتا۔ ثمینہ تنگ آ کر ریسیور اٹھا کر رکھ دیتی، لیکن وہ ہمیشہ ایسا نہیں کرسکتی تھی۔ چند روز بعد اس نے ایک نیا طریقہ اختیار کیا۔ امجد کی آواز سن کر وہ خاموشی سے اس کی باتیں سنتی رہتی، منہ سے کچھ نہیں بولتی۔ جب وہ بولتے بولتے تھک جاتا تو کہتی۔ میں یہ ساری باتیں پہلے بھی سن چکی ہوں اور میرا جواب وہی ہے جو میں تمہیں بتا چکی ہوں۔ ایک شام وہ دفتر سے گھر روانہ ہوئی تو اس نے دیکھا کہ امجد کی کار آفس کی وین کے پیچھے آ رہی تھی۔ گھر پہنچ کر اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا تو امجد کی کار گلی میں کھڑی دکھائی دی۔ وہ ان کے مکان سے ذرا ہٹ کر کھڑی تھی۔ امجد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا دروازے کی طرف دیکھ رہا تھا۔ ثمینہ نے ماں سے کہا۔ امی یہ آدمی تو کسی پرانی بیماری کی طرح میرے پیچھے پڑگیا ہے۔ دفتر سے میرا پیچھا کرتا ہوا آیا ہے اور اب اس کی کار گلی میں کھڑی ہے۔ ریحانہ بیگم نے چشمہ لگا کر کھڑکی سے باہر دیکھا۔ امجد کی کار دیکھ کر اس کے چہرے پر فکرمندی نظر آنے لگی۔ اس طرح تو ہم بدنام ہو جائیں گے۔ ماں نے کہا۔ تم کہو تو میں اسے بلا کر سمجھائوں وہ یہی چاہتا ہے کہ ہم اسے گھر میں بلائیں لیکن اس سے کچھ فائدہ نہیں ہوگا بلکہ الٹا نقصان ہوگا، آپ اسے فون پر بہت سمجھا چکی ہیں اور میں خود بھی سمجھا چکی ہوں۔ اگر اس کے اندر شرافت ہوتی تو خاموشی سے پیچھے ہٹ جاتا، مگر وہ ہمیں نقصان پہنچانا چاہتا ہے۔ اس کی باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک منتقم مزاج شخص ہے۔ لیکن یہ ڈرامہ کب تک چلے گا ریحانہ بیگم نے کہا۔ ہمیں اس کا علاج کرنا چاہئے۔ خدا کرے اسے خود ہی شرم آ جائے، ورنہ بالآخر ہمیں کچھ نہ کچھ کرنا ہوگا۔ اگلی صبح ثمینہ آفس وین میں دفتر روانہ ہوئی تو امجد کی کار بھی وین کے پیچھے تھی۔ پھر یہ روز کا معمول بن گیا۔ وہ کہیں بھی جاتی، امجد ہر جگہ موجود ہوتا، اگر وہ ٹیکسی یا رکشہ میں ہوتی تو وہ کار میں تعاقب کرتا، اگر وہ شاپنگ کر رہی ہوتی تو پیدل پیچھا کرتا لیکن خاصا فاصلہ چھوڑ کر۔ وہ نہایت رازداری سے اس کا پیچھا کرتا۔ تاہم اس بات کا اہتمام ضرور کرتاکہ ثمینہ اس کی نظروں میں رہے۔ اس کی اس حرکت سے ثمینہ کے اعصاب بری طرح متاثر ہونا شروع ہوگئے تھے۔ تعاقب کے دوران اس کے قریب آتا تھا اور نہ ہی اس سے بات کرنے کی کوشش کرتا تھا۔ بالآخر تنگ آ کر ثمینہ نے پولیس کو فون کیا اور کہا کہ ایک بدمعاش مستقل اس کے پیچھے لگا ہوا ہے اور اس کا جینا حرام کر رکھا ہے۔ ڈیوٹی آفیسر نے ثمینہ کا پتا نوٹ کرلیا اور کہا کہ وہ فی الفور دو آدمی بھیج رہا ہے۔ پندرہ منٹ کے بعد ایک اے ایس آئی اور ایک سپاہی موٹر سائیکل پر ان کے گھر پہنچ گئے۔ انہوں نے ریحانہ بیگم سے مختصر بات کی اور امجد کی کار کے سامنے پہنچ گئے۔ اے ایس آئی نے کہا۔ بھائی صاحب ذرا باہر تشریف لے آئیں۔ امجد دروازہ کھول کر باہر آگیا اور سوالیہ نظروں سے اے ایس آئی کی طرف دیکھنے لگا۔ اے ایس آئی اس کی وجیہ شخصیت سے متاثر ہوئے بغیر نہ رہ سکا، وہ کسی اعتبار سے آوارہ یا بدمعاش نہیں لگ رہا تھا۔ اے ایس آئی نے کہا۔ وہ سامنے مکان میں جو خاتون رہتی ہیں، اس نے آپ کے متعلق رپورٹ درج کروائی ہے کہ آپ اسے اور اس کی بیٹی کو ہراساں کر رہے ہیں۔ انہیں غلط فہمی ہوئی ہے۔ امجد نے پراعتماد لہجے میں کہا۔ میں ایک معزز اور امن پسند شہری ہوں۔ آپ یہاں کیا کر رہے ہیں اے ایس آئی نے پوچھا۔ یہ بڑی ذاتی قسم کی بات ہے، میرا خیال ہے کہ آپ کو نہیں بتایا گیا ہوگا کہ ثمینہ ریاض میری منگیتر ہے۔ کیا اے ایس آئی نے حیرانی سے کہا۔ آپ کا مطلب ہے کہ بیگم ریحانہ کی بیٹی آپ کی منگیتر ہے جی ہاں میں نے یہی کہا ہے، یہ دیکھیں، منگنی کی انگوٹھی۔ اس نے اپنا ہاتھ اے ایس آئی کے سامنے پھیلا دیا۔ آپ یہ انگوٹھی لے جائیں اور مس ثمینہ کو دکھا کر پوچھیں کہ کیا یہ انگوٹھی اس نے مجھے نہیں دی تھی۔ کیا آپ لوگوں میں کوئی جھگڑا ہوگیا ہے جھگڑا تو کوئی خاص نہیں ہوا، بس ثمینہ مجھ سے ناراض ہوگئی ہے اور میں اسے راضی کرنے کے لئے مجنوں بنا ہوا ہوں۔ یہ تو بڑی دلچسپ کہانی معلوم ہوتی ہے۔ اے ایس آئی نے گویا اس معاملے سے حظ اٹھاتے ہوئے کہا اور بہ دستور اس کی طرف تکتے ہوئے آگے مستفسر ہوا۔ آپ کام کیا کرتے ہیں میں ایک کمپنی میں سوفٹ ویئر انجینئر ہوں۔ امجد نے جیب سے اپنا وزیٹنگ کارڈ نکال کر اے ایس آئی کو دیا۔ یہ میرا کارڈ ہے، اس پر میری کمپنی کا نام اور فون نمبر موجود ہے۔ آپ میرے باس کو فون کر کے میرے بارے میں پوچھ سکتے ہیں۔ اے ایس آئی نے کارڈ پر نظر ڈالی اور مزید متاثر ہوتے ہوئے بولا۔ امجد صاحب آپ اچھے خاصے پوزیشن والے آدمی ہیں، آپ کو اچھے سے اچھا رشتہ مل سکتا ہے۔ اگر یہ لوگ راضی نہیں ہیں تو آپ چھوڑ دیں انہیں۔ امجد نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ انسپکٹر صاحب آپ فلمیں دیکھتے ہیں اے ایس آئی نے اس عجیب سوال پر اپنی آنکھیں جھپکائیں اور بولا۔ دیکھتا ہوں۔ امجد نے کہا۔ آپ نے شیریں فرہاد، لیلیٰ مجنوں اور ہیر رانجھا نامی فلمیں دیکھی ہوں گی یہ فلمیں تو ہم بچپن سے دیکھتے چلے آ رہے ہیں۔ آپ نے بالکل صحیح فرمایا۔ امجد نے کہا۔ ہر آٹھ دس سال بعد ان عشقیہ کہانیوں پر ایک نئی فلم بن جاتی ہے، اور لوگ پورے ذوق و شوق سے انہیں دیکھتے ہیں۔ لیکن آپ کہنا کیا چاہتے ہیں امجد بولا۔ میں آپ سے یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا ہیر نے رانجھے کی، لیلیٰ نے مجنوں کی اور شیریں نے فرہاد کی ایف آئی آر کٹوائی تھی کیا پولیس نے کبھی ان رانجھوں، فرہادوں اور مجنوئوں کو گرفتار کیا ہے اے ایس آئی نے امجد کا کندھا تھپتھپایا اور بولا۔ امجد صاحب اللہ آپ کے حال پر رحم کرے، جس راستے پر آپ چل رہے ہیں، وہ اچھا راستہ نہیں ہے۔ امجد نے کہا۔ مجھے معلوم ہے۔ اگر یہ راستہ اتنا سہل ہوتا تو ہر شخص عاشق بن جاتا۔ اے ایس آئی نے قہقہہ لگایا پھر بولا۔ آپ سمجھدار آدمی ہیں، ہمیں آپ کے مجنوں بننے پر کوئی اعتراض نہیں ہے، لیکن فاصلہ برقرار رہنا چاہئے۔ ایسا نہ ہو کہ آپ کا معاملہ دست اندازی پولیس کیس کے زمرے میں آجائے۔ آپ مطمئن رہیں، دوطرفہ رضامندی کے بغیر کام نہیں ہوگا۔ آپ سے میری ایک درخواست ہے، اپنی طرف سے ثمینہ کی ماں کو سمجھائیں۔ ان سے کہیں کہ میں اپنی غلطی پر معافی مانگنے اور سزا بھگتنے کے لئے تیار ہوں، اور یہ اس نے جیب سے چند نوٹ نکال کر اے ایس آئی کی مٹھی میں دبائے۔ ایڈوانس فیس رکھ لیں۔ اے ایس آئی نوٹ جیب میں ٹھونستے ہوئے بولا۔ آپ خوشی سے دے رہے ہیں تو رکھ لیتا ہوں، ورنہ اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں تھی۔ ٭ ٭ ٭ ثمینہ کھڑکی سے یہ منظر دیکھ رہی تھی۔ فاصلے کی وجہ سے وہ گفتگو نہیں سن سکی تھی۔ تاہم اے ایس آئی کے انداز گفتگو سے اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ امجد اپنی چرب زبانی کی وجہ سے پولیس کی ہمدردی حاصل کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اے ایس آئی نے واپس آ کر کہا۔ بیگم صاحبہ اس شخص میں ہمیں تو کوئی خرابی نظر نہیں آئی۔ وہ ایک انجینئر ہے اور امن پسند شہری نظر آتا ہے، اس کا کہنا ہے کہ وہ آپ کا ہونے والا داماد ہے۔ جھوٹ بولتا ہے وہ ثمینہ نے کہا۔ ہم منگنی توڑ چکے ہیں لیکن وہ اس رشتے کو دوبارہ جوڑنے کے لئے ہمیں ہراساں کر رہا ہے۔ صبح و شام میرا تعاقب کرتا ہے۔ اے ایس آئی نے پوچھا۔ کیا آپ نے انگوٹھی واپس لے لی ہے ہم اس انگوٹھی پر فاتح پڑھ چکے ہیں۔ بی بی، یہ بتائیں کہ تعاقب کے دوران امجد نے آپ سے بات کرنے یا کسی اور طریقے سے آپ کو تنگ کرنے کی کوشش کی ہے یہ آپ عجیب بات کر رہے ہیں۔ ریحانہ بیگم نے کہا۔ کسی شریف لڑکی کا تعاقب کرنا کہاں کی شرافت ہے بی بی صاحبہ بات یہ ہے کہ ہم کسی قانونی جواز کے بغیر کسی پر ہاتھ نہیں ڈال سکتے۔ امجد کی کار آپ کے گھر سے پچیس قدم دور کھڑی ہے۔ میں نے خود قدم ناپے ہیں، اس کے علاوہ اس کا کہنا ہے کہ ناراضی کے بعد وہ ثمینہ بی بی کے قریب بھی نہیں گیا۔ اگر کبھی آمنا سامنا ہو جائے تو وہ کم از پندرہ قدم کا فاصلہ رکھ کر چلتا ہے۔ ظاہر ہے یہ فاصلہ قابل دست اندازی پولیس نہیں ہے۔ کسی کو گلی میں کار کھڑی کرنے سے روک سکتے ہیں اور نہ ہی بازار میں چلنے پھرنے سے منع کرسکتے ہیں، ہاں، اگر اس نے کوئی غلط حرکت کی تو ہم اس کے خلاف ضرور کارروائی کریں گے۔ یہ تو عجیب قانون ہے آپ کا۔ ریحانہ بیگم نے کہا۔ امی ان سے بات کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ ثمینہ نے کہا۔ امجد نے ان کی مٹھی گرم کردی ہے۔ اے ایس آئی جاتے جاتے رکا اور بولا۔ بیگم صاحبہ امجد اچھا آدمی ہے، میرا مشورہ یہی ہے کہ اس سے صلح کرلیں۔ وہ آپ سے معافی مانگنے کے لئے تیار ہے۔ آپ اس شخص کو نہیں جانتے اے ایس آئی نے افسردگی سے اپنا سر ہلایا اور سپاہی سے بولا۔ آئو چلیں، ہم ان کی کوئی مدد نہیں کرسکتے۔ دونوں موٹر سائیکل پر بیٹھ کر رخصت ہوگئے۔ ثمینہ سر پکڑ کر صوفے پر گر گئی اور بولی۔ یہ پولیس والے تو الٹا ہمیں ہی غلطی پر سمجھ رہے ہیں۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں محلے کے کسی بزرگ کے ذریعے اسے سمجھانا چاہئے۔ ریحانہ بیگم نے خیال ظاہر کیا۔ ہرگز نہیں۔ ثمینہ نے سختی سے نفی میں اپنا سر ہلاتے ہوئے کہا۔ اس طرح ہم بدنام ہو جائیں گے۔ تو پھر تم ایسا کرو، اسے اندر بلا لو، میں اسے آخری بار سمجھانے کی کوشش کرتی ہوں۔ وہ اس طرح نہیں مانے گا۔ ہمیں ایک دفعہ کوشش کر لینی چاہئے، دراصل وہ ضد میں آگیا ہے۔ اسے غصہ اسی بات پر ہے کہ تم نے اسے دروازے سے لوٹا دیا تھا۔ ثمینہ اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کے لئے کچھ بھی کرسکتی تھی۔ اس نے ماں کی بات سے اتفاق کیا اور اپنا حلیہ ٹھیک کرکے گلی میں پہنچ گئی۔ اس وقت شام ہوچکی تھی اور گلی میں تاریکی پھیل رہی تھی۔ امجد ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ اس نے ثمینہ کو اپنی طرف آتے دیکھ کر کھڑکی کا شیشہ چڑھا لیا۔ ثمینہ نے انگلیوں کی پوروں سے شیشے پر دستک دی لیکن امجد نے شیشہ نیچے کیا اور نہ ہی ثمینہ کی طرف دیکھا۔ وہ کسی بت کی طرح سیٹ پر بے حرکت بیٹھا تھا۔ اس کی نظریں سامنے کسی نامعلوم شے پر مرکوز تھیں اور ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ ابھر آئی تھی۔ ثمینہ نے دو تین مرتبہ شیشے پر دستک دی، مگر امجد نے اس کی طرف دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا۔ شاید وہ اب صلح کا خواہشمند نہیں رہا تھا اور اپنی حرکتوں سے ثمینہ کو اذیت پہنچانا چاہتا تھا۔ امجد پلیز، میری بات تو سنو ثمینہ نے کہا۔ امی تم سے بات کرنا چاہتی ہیں۔ وہ اس کی بات کا جواب دینے کی بجائے منگنی کی انگوٹھی کو دو انگلیوں میں پکڑ کر دائیں بائیں گھمانے لگا۔ اس کے ہونٹوں پر شیطانی مسکراہٹ بدستور رقصاں تھی۔ بالآخر اس نے کار کا انجن اسٹارٹ کیا اور ثمینہ کی طرف دیکھے بغیر کار آگے بڑھا دی۔ اگلے دن جب ثمینہ دفتر جانے کے لئے آفس وین میں بیٹھی تو امجد کی کار گلی کے کونے پر موجود تھی۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے اس کے پاس اب تعاقب کے سوا کوئی کام نہیں تھا۔ وہ سائے کی طرح اس کے پیچھے لگا رہتا تھا۔ ایک شام طارق روڈ پر شاپنگ کے دوران ثمینہ بری طرح جھنجھلا اٹھی، امجد کبھی آگے نظر آتا تو کبھی پیچھے۔ کوئی شخص اسے دیکھ کر یہ نہیں کہہ سکتا تھا کہ وہ ایک معصوم لڑکی کا تعاقب کر رہا تھا۔ کیوں کہ وہ خاصا فاصلہ رکھ کر تعاقب کر رہا تھا۔ ثمینہ کو اپنے اعصاب چٹختے محسوس ہوئے۔ آخر یہ شخص چاہتا کیا تھا اس نے سوچا کہ آج اس بات کا فیصلہ ہو جانا چاہئے، وہ پیچھے مڑی اور تیزی سے چلتی ہوئی امجد کے قریب جا پہنچی۔ امجد تمہارے اندر ذرا بھی انسانیت باقی نہیں رہی اس نے غصے سے پوچھا۔ کک کیا تم میرا مستقبل برباد کرنا امجد ذرا سا رکا، دو قدم پیچھے ہٹا اور ٹریفک کے درمیان سے راستہ بناتا ہوا دوسری طرف پہنچ گیا۔ اس کا انداز ایسا ہی تھا جیسے ثمینہ کوئی چڑیل ہو، جو اچانک ہی اس پر حملہ آور ہوگئی تھی اور وہ اس سے بچ کر بھاگ کھڑا ہوا تھا۔ اس کی اس اچانک حرکت سے دو تین کاروں کو ہنگامی بریک لگانے پڑے تھے۔ آس پاس چلنے والے اکثر لوگ اس کی طرف متوجہ ہوگئے تھے۔ سڑک کے دوسری طرف ایگل اسکواڈ کی گاڑی کھڑی تھی۔ ثمینہ نے حیرت سے دیکھا کہ امجد سیدھا ایگل اسکواڈ کے پاس گیا اور الزامی انداز میں اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہیں کچھ بتانے لگا۔ صورت حال ہر اعتبار سے اس کے حق میں تھی۔ دیکھنے والوں نے صرف اتنا دیکھا تھا کہ ایک لڑکی نے غصے میں اسے کچھ کہنا چاہا تھا اور وہ جان بچا کر وہاں سے بھاگا تھا۔ ثمینہ نے جلدی سے رکشا پکڑا اور شاپنگ کئے بغیر واپس روانہ ہوگئی۔ اسے اپنی حماقت اور بے بسی پر سخت غصہ آ رہا تھا۔ دیکھا جائے تو قانون شکنی کا ارتکاب اس کی طرف سے ہوا تھا۔ اے ایس آئی نے ٹھیک ہی کہا تھا، کسی کو بازار میں چلنے پھرنے سے روکا نہیں جا سکتا تھا۔ کچھ دور جانے کے بعد اس نے پیچھے نظر ڈالی۔ امجد کی کار اس کے پیچھے آ رہی تھی لیکن درمیان میں بیس پچیس قدموں کا فاصلہ تھا۔ یااللہ یہ کیا مصیبت میرے پیچھے لگ گئی۔ اس نے مٹھیاں بھینچتے ہوئے کہا۔ مم میں میں کسی دن پاگل ہو جائوں گی۔ رکشا ڈرائیور نے عقب نما آئینے میں دیکھتے ہوئے پوچھا۔ بیگ صیب، آپ نے ام کو کچھ بولا نن نہیں نہیں کوئی بات نہیں ہے۔ ثمینہ نے جواب دیا اور خود کو پرسکون کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ اسی روز رات کے گیارہ بجے ثمینہ کو یوں لگا جیسے کوئی ان کے عقبی دروازے پر دستک دے رہا ہو۔ اس نے ٹی وی کی آواز بند کردی اور ماں سے بولی۔ امی شاید کوئی پچھلے دروازے پر دستک دے رہا ہے۔ آواز اتنی مدھم تھی کہ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے کوئی پنسل سے دروازے پر ٹک ٹک کر رہا ہو۔ دونوں ماں بیٹھی عقبی صحن میں پہنچ گئیں۔ اتنی رات گئے کبھی کوئی مہمان بھی پچھلے دروازے سے نہیں آیا تھا۔ کون ثمینہ نے آواز لگائی۔ اس کے ساتھ ہی ایک جلتا ہوا گولا دیوار کے اوپر نمودار ہوا اور دھب سے ریحانہ بیگم کے قدموں میں گرا۔ دونوں عورتوں کی چیخیں نکل گئیں۔ ثمینہ جلدی سے پانی لینے کے لئے باتھ روم کی طرف بھاگی۔ جلتی ہوئی شے کپڑوں کی پوٹلی تھی۔ ثمینہ نے جلدی جلدی پانی ڈال کر آگ بجھا دی۔ تاہم اس وقت تک کپڑوں کا بیشتر حصہ جل چکا تھا۔ ثمینہ نے پوٹلی کھول کر دیکھا۔ اس کے اندر منگنی کے وہ کپڑے تھے جو اس نے امجد کو لوٹا دیئے تھے۔ کپڑوں کے اندر پھولوں کا گجرا اور منگنی کی انگوٹھی بھی تھی۔ اب تو یہ کھلا کھلا پولیس کیس ہے۔ ثمینہ نے چیخ کر کہا۔ ان چیزوں کو ایسے ہی رہنے دیں۔ میں پولیس کو فون کرتی ہوں۔ ٹھہرو، پولیس کو فون کرنے کا کچھ فائدہ نہیں ہوگا۔ ریحانہ بیگم بولی۔ ہمارے پاس اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ یہ حرکت امجد کی ہے بلکہ وہ الٹا ہم پر الزام لگا دے گا کہ ان چیزوں کو ہم نے خود آگ لگائی ہے۔ ثمینہ کے اٹھے ہوئے قدم رک گئے۔ ماں کی بات ٹھیک معلوم ہوتی تھی۔ ان کے پاس تو یہ ثبوت بھی نہیں تھا کہ انہوں نے امجد کی چیزیں واپس کردی تھیں، جبکہ ان کی دی ہوئی انگوٹھی ہنوز امجد کے پاس تھی اس لئے وہ کہہ سکتا تھا کہ ابھی منگنی کے سامان کا تبادلہ نہیں ہوا۔ پھر اسی شام اس نے امجد کو ایگل اسکواڈ والوں سے بات چیت کرتے ہوئے بھی دیکھا تھا۔ پتا نہیں اس نے ان لوگوں سے کیا کچھ کہا تھا آپ ٹھیک کہتی ہیں امی ثمینہ نے کہا۔ اس مکار شخص نے اپنی پوزیشن محفوظ کرنے کا انتظام کر لیا ہوگا۔ اس رات دونوں ماں بیٹی اس مصیبت سے چھٹکارا پانے کی تدبیریں سوچتی رہیں۔ اگلی صبح ثمینہ نے اپنے دفتر سے پندرہ دن کی چھٹی لی اور نہایت رازداری کے ساتھ ناظم آباد میں اپنی ایک کزن کے ہاں منتقل ہوگئی۔ اس کا خیال تھا کہ پندرہ دن جھک مارنے کے بعد بالآخر امجد مایوس ہوجائے گا اور اس کا پیچھا چھوڑ دے گا۔ لیکن اس کا اندازہ غلط ثابت ہوا۔ چھٹے روز اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا، تو گلی میں امجد کی کار کھڑی دکھائی دی۔ اس کا رنگ پیلا پڑگیا۔ امجد بڑے آرام سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا تھا۔ ثمینہ کی کزن صائمہ، جو اس کے قریب ہی موجود تھی، وہ اس کے چہرے کا بدلتا رنگ دیکھ کر بولی۔ کیا بات ہے ثمینہ تم نے گلی میں کوئی بھوت دیکھ لیا کیا صائمہ شادی شدہ تھی۔ دو بچوں کی ماں تھی اور نفسیات میں ایم اے تھی۔ تب ثمینہ اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکی اور رونا شروع کردیا۔ ارے ارے صائمہ نے اس کا شانہ تھپتھپایا اور شفقت سے کہا۔ ایک دم اتنے موٹے موٹے آنسو کیا بات ہے، کون ہے گلی میں اس نے کھڑکی سے باہر دیکھا، وہاں اسے کوئی خطرناک شخص نظر نہیں آیا۔ سوائے ایک مہذب شخص کے، جو اپنی کار کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا سگریٹ کے کش لے رہا تھا۔ اس کا دھیان بھی دوسری طرف تھا۔ بالآخر صائمہ کے اصرار پر ثمینہ نے اسے ساری بات بتا دی۔ پوری بات سننے کے بعد صائمہ نے ایک گہرا سانس لیا اور کچھ دیر کے لئے گہری سوچ میں مستغرق ہوگئی۔ جلدی سے تیار ہو جائو۔ ایک طویل اور پُرسوچ توقف کے بعد صائمہ نے کہا۔ میں تھوڑی سی شاپنگ کرنا چاہتی ہوں۔ کیا ثمینہ نے حیرانی سے پوچھا۔ یہ سب سننے کے باوجود آپ مجھے شاپنگ کے لئے لے جانا چاہتی ہیں ہاں میں ذرا اس ماڈرن مجنوں کو قریب سے دیکھنا چاہتی ہوں، فوراً تیار ہو جائو۔ صائمہ باجی میں تو اس شخص سے چھپتی پھر رہی ہوں اور آپ مجھے اس کے سامنے لے جانا چاہتی ہیں ثمینہ پریشان ہوگئی۔ صائمہ نے کہا۔ اسٹڈی آف ہیومن نیچر میرا پسندیدہ سبجیکٹ ہے۔ ہوسکتا ہے کہ میری ایک چھوٹی سی کوشش سے تمہارا مسئلہ حل ہوجائے، جہاں تک چھپنے والی بات ہے، اس کا اب کوئی فائدہ نہیں رہا، کیوں کہ امجد کو تمہارا ٹھکانہ معلوم ہوچکا ہے۔ ثمینہ مجبوراً تیار ہوگئی۔ دونوں قریبی مارکیٹ چلی گئیں۔ امجد ان کے پیچھے تھا لیکن درمیانی فاصلہ خاصا تھا۔ اس پر گرفت نہیں کی جا سکتی تھی۔ البتہ صائمہ اس دوران امجد کی حرکات و سکنات کا جائزہ لیتی رہی۔ اگلے روز اس نے امجد کے دفتر فون کیا اس کے ساتھ کام کرنے والوں سے اس کے بارے میں پوچھ گچھ کی۔ اس نے ان لوگوں کو بتایا کہ اسے رشتے کے سلسلے میں امجد رضا کے بارے میں معلومات درکار ہیں۔ دفتر والوں سے اسے امجد کے چند قریبی دوستوں کے فون نمبر بھی مل گئے۔ اگلے دو روز تک وہ ان دوستوں سے معلومات حاصل کرتی رہی۔ یہ شخص انتہائی حساس اور خودپسند ہے۔ بالآخر صائمہ نے امجد کا تجزیہ کیا۔ یہ ان لوگوں میں سے ہے جو اپنی ذات اور صفات کے بارے میں پریقین ہوتے ہیں۔ حساس آدمی ایسی حرکت نہیں کرسکتا۔ ثمینہ نے کہا۔ یہ شخص انتہائی سنگ دل اور بے رحم ہے۔ حساس لوگ دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو اپنے علاوہ دوسروں کے لئے بھی حساس ہوتے ہیں۔ دوسرے وہ، جو صرف اپنی کے لئے حساس ہوتے ہیں۔ اپنی معمولی سے معمولی تکلیف کو بھی بے پناہ اہمیت دیتے ہیں، غیر اگر قتل بھی ہو جائے تو یہ اسے ایک خبر سے زیادہ اہمیت نہیں دیتے۔ یہ لوگ اپنے اصولوں کے معاملے میں سخت انتہا پسند ہوتے ہیں، یہ اپنے زیر اثر اور ماتحت افراد کے معاملے میں انتہائی سنگ دل ہوتے ہیں۔ اصولوں کی خلاف ورزی کو یہ لوگ نا قابل معافی گناہ سمجھتے ہیں اور اگر ان کا بس چلے تو یہ اصول کی خلاف ورزی کرنے والوں کو تہس نہس کر ڈالیں۔ میرے ساتھ وہ یہی کچھ کر رہا ہے۔ ثمینہ نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ یہ شخص مجھے توڑ پھوڑ دینا چاہتا ہے۔ صائمہ نے اس کا کندھا تھپتھپایا، پھر بولی۔ فکر نہ کرو اس کا کھیل اب ختم ہو جائے گا۔ ٭ ٭ ٭ امجد اپنی کامیابیوں پر بہت خوش تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اس نے اپنی ذلت کا خوب انتقام لیا ہے۔ یہاں تک کہ ثمینہ کو گھر چھوڑنے پر مجبور کردیا تھا۔ اب اسے اس دن کا انتظار تھا، جب وہ اس کے قدموں میں آن گرے گی۔ پھر یہ فیصلہ کرنا اس کے ہاتھ میں ہوگا کہ اسے قبول کرے یا ٹھکرا دے۔ اس روز بھی دفتر سے چھٹی پر وہ سیدھا صائمہ کے گھر کے سامنے پہنچ گیا۔ اس نے مناسب فاصلے پر کار روک دی تھی۔ انجن بند کیا۔ ایک سگریٹ سلگایا اور دھیرے دھیرے کش لینے لگا۔ اس کی نظر دو لڑکوں پر پڑی، جو گلی میں اشتہار چسپاں کر رہے تھے۔ وہ گلی میں کھڑی کاروں میں بھی اشتہار پھینکتے جا رہے تھے۔ اس کے قریب سے گزرتے ہوئے ایک لڑکے نے بھی چند اشتہار اس کی طرف بڑھا دیئے۔ اشتہار پر نظر پڑتے ہی امجد بری طرح چونک گیا۔ اس اشتہار پر اس کی تصویر چھپی ہوئی تھی۔ ایک نہیں، تین تصویریں، تین مختلف پوز وہ جلدی جلدی اشتہار کا مضمون پڑھنے لگا۔ لکھا تھا۔ ہوشیار خبردار یہ شخص جس کی تین تصویریں اوپر دی گئی ہیں، ایک خطرناک شخص ہے، اس کا نام امجد رضا ہے۔ یہ ایک نفسیاتی مریض ہے۔ یہ اپنی کار کسی پرسکون گلی میں کھڑی کر کے اپنے شکار کا انتظار کرتا ہے، ایک دن دو دن تین دن اور بعض اوقات کئی کئی دن آج کل یہ اس گلی میں دیکھا جا رہا ہے، اپنے بچوں کو اس کی تصویر دکھا دیں اور انہیں اچھی طرح سمجھا دیں کہ اس شخص کے قریب نہ جائیں، نہ اس کے ہاتھ سے کوئی چیز لیں، نہ کھانے کی، نہ کھیلنے کی دیکھنے میں یہ شخص مہذب اور شریف نظر آتا ہے لیکن حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔ آپ خود بھی چاروں طرف نظر رکھیں۔ اس کے پاس بلیو کلر کی کار ہے، جس کا نمبر یہ ہے۔ امجد نے اشتہار پڑھ کر ایک طرف پھینکا، انجن اسٹارٹ کیا ، گیئر لگایا اور کسی توپ سے نکلے گولے کی طرح گاڑی کو اڑا کر لے گیا۔ وہ اب ثمینہ کے بارے میں سب کچھ بھول چکا تھا۔ ختم شد
null
null
null
null
431
https://www.urduzone.net/hazrat-gesudaraz-episode-1/
یہ نویں ہجری کے آغاز کا واقعہ ہے۔ بت پرست ہندوستان میں رام راج کا تصور ایک قصۂ پارینہ بن چکا تھا۔ برہمن، مہنت، پجاری اور جوگی اسلام کی روزبروز بڑھتی ہوئی طاقت کو روکنے کے لیے عجیب عجیب حربے استعمال کررہے تھے مگر وحدانیت پرستی کے سیدھے سادے پیغام نے اصنام پرستی کے تمام فلسفوں کی دھجیاں اُڑا دی تھیں۔ بت خانے ویران ہوتے جارہے تھے۔ قشقہ و زنار کے بندے خاک پر اپنی پیشانیاں رگڑ کر اللہ کی کبریائی اور خاتم النبیین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت پر گواہی دے رہے تھے۔ اسی دوران ایک مردِ خدا دہلی سے روانہ ہوکر کاٹھیا واڑ پہنچا۔ جہاں کی آبادی کا بیشتر حصہ کافروں اور مشرکوں پر مشتمل تھا۔ تمہارا تیرتھ استھان مقام مقدس کہاں ہے مسلمان درویش نے مقامی ہندوئوں سے پوچھا۔ وہاں جاکر کیا کرو گے کاٹھیا واڑ کے بت پرست اس مردخدا کو شک کی نظر سے دیکھ رہے تھے۔ تمہارا، ہمارے تیرتھ استھان سے کیا تعلق ہے میں تم لوگوں کا طریقۂ عبادت دیکھنا چاہتا ہوں۔ مسلمان درویش نے اپنے سوال کی وضاحت کرتے ہوئے کہا۔ گرناتھ پہاڑ پر ہمارا سب سے بڑا تیرتھ استھان ہے۔ مقامی ہندوئوں نے ایک پہاڑی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا جو شہر سے کچھ فاصلے پر واقع تھی۔ یہ سن کر مسلمان درویش گرناتھ پہاڑ کی طرف جانے لگا تو مقامی بت پرستوں نے کہا۔ وہاں مت جانا، ہلاک کردیئے جائو گے۔ مسلمان درویش نے اندازِ بے نیازی کے ساتھ ہندوئوں کی طرف دیکھا۔ مجھے کون مارے گا عام حالت میں شاید تمہیں کوئی ضرر نہیں پہنچتا مگر اس وقت تو خود ہندوئوں کی جان پر بنی ہوئی ہے۔ ایک بت پرست نے کہا۔ عجیب وقت آگیا ہے کہ ہندو، ہندو سے لڑ رہا ہے۔ پھر کسی غیرمذہب سے تعلق رکھنے والا کیسے محفوظ رہے گا۔ آخر تم کس جنگ کی بات کررہے ہو مسلمان درویش نے پوچھا۔ کاٹھیا واڑ میں دو مذہبی فرقے آباد ہیں۔ بت پرست نے وضاحت کی۔ ایک جین مت کے اصولوں پر یقین رکھتا ہے اور دوسرا وشنو مت کے اصولوں پر عمل کرتا ہے۔ ان دونوں فرقے کے ماننے والے صدیوں سے پُرسکون زندگی بسر کررہے تھے مگر آج ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہورہے ہیں۔ اب تو میرا وہاں جانا بہت ضروری ہوگیا ہے۔ یہ کہہ کر مسلمان درویش تیز قدموں سے پہاڑی کی طرف روانہ ہوگیا۔ مقامی ہندو اسے روکنے کی کوشش کرتے رہے، لرزہ خیز انجام سے ڈراتے رہے مگر اسے جانا تھا اور وہ چلا گیا۔ پھر جب مسلمان درویش گرناتھ پہاڑ کے تیرتھ کی حدود میں داخل ہوا تو بڑا ہولناک منظر اس کی آنکھوں کے سامنے تھا۔ وشنومت اور جین مت کے ماننے والے نیزے، تلواریں اور بھالے لئے ہوئے ایک دوسرے کے مقابل کھڑے ہوئے تھے۔ بس لمحوں کی بات تھی، سارے ہتھیار استعمال ہوتے اور ہندوئوں کا تیرتھ استھان انسانی خون سے رنگین ہوجاتا۔ دونوں فرقوں کے پجاریوں نے ایک مسلمان درویش کو اپنی طرف آتے دیکھا تو حیران رہ گئے۔ کچھ دیر کے لیے باہمی مناقشت کو فراموش کرکے سوچنے لگے کہ ایک غیرمذہب کا ماننے والا ان کے مقام مقدس کی حدود میں کیوں داخل ہوا ہے وہ سلطان فیروز شاہ تغلق یا کسی دوسرے مسلمان حاکم کا جاسوس تو نہیں ابھی تمام پجاری اسی فکر اور اندیشے میں مبتلا تھے کہ مسلمان درویش شمشیر بدست اور خنجر بکف ہندوئوں کے قریب پہنچ گیا۔ آخر تم لوگوں کے درمیان کیا جھگڑا ہے کہ ایک دوسرے کی شہ رگ کاٹنے پر تلے ہو مسلمان درویش نے دونوں فرقوں کے پجاریوں سے سوال کیا۔ تم کون ہو درمیان میں آنے والے بیک وقت کئی آوازیں بلند ہوئیں۔ یہ ہمارا ذاتی جھگڑا ہے اور ہم خود اسے طے کریں گے۔ بے شک یہ تمہارا ذاتی معاملہ ہے مگر میں نہیں چاہتا کہ انسانی خون اتنی ارزانی کے ساتھ بہہ جائے۔ مسلمان درویش نے آمادئہ جنگ پجاریوں کو سمجھانے کی کوشش کی۔ خون تو بہے گا۔ ایک بار پھر بہت سی آوازیں گونجیں۔ سچ کو قائم رکھنے کے لیے جھوٹ کو مٹانا ہی پڑتا ہے۔ مگر یہ کون طے کرے گا کہ تم میں سچا کون ہے مسلمان درویش نے دونوں طرف کے پجاریوں سے پوچھا۔ جن کے کاندھوں پر سر باقی رہیں گے، وہی سچے ٹھہریں گے۔ پتھر کے پجاری غضبناک لہجے میں عجیب عجیب دعوے کررہے تھے۔ یہ تو کوئی معیار نہیں ہے کہ جو مر گیا، وہ جھوٹا تھا اور جو بچ گیا، وہ سچا ہے۔ مسلمان درویش نے اپنی منطق پیش کرتے ہوئے کہا۔ تم مداخلت کرنے والے کون ہو ہٹ جائو ہمارے درمیان سے۔ جین مت کے پجاریوں نے چیخ کر کہا۔ میں ہی فیصلہ کروں گا کہ تم میں سچا کون ہے اور جھوٹا کون مسلمان درویش نے پُرجلال لہجے میں کہا اور چاروں طرف گہرا سناٹا چھا گیا۔ بت پرستوں کے ہجوم میں ایک مردِحق کی یہ جرأت و بے باکی بڑی عجیب تھی۔ بڑے بڑے تلک دھاری اور ترشول بردار پجاری حیرت سے اس شخص کو دیکھ رہے تھے جو ان کے تیرتھ استھان میں تنہا کھڑا تھا اور دونوں فرقوں کے درمیان پیدا ہونے والے تنازع میں خود کو ثالث قرار دے رہا تھا۔ کچھ دیر پہلے دیوتائوں کے پرستار اس سے بحث کررہے تھے مگر جب اس کا جلال روحانی ظاہر ہوا تو پتھر کے پجاری خود ہی پتھر بن کر رہ گئے۔ پھر مختصر سے وقفۂ سکوت کے بعد مردِحق کے ہونٹوں کو دوبارہ جنبش ہوئی۔ میری آنکھوں میں دیکھ کر بتائو کہ سچا کون ہے مسلمان درویش نے وشنو مت کے بڑے پجاری کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ پجاری نے مردِحق کی طرف دیکھا اور اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوگیا۔ پھر کانپتے ہاتھ سے ترشول چھوٹ کر زمین پر گر پڑا۔ تم سچے ہو اور میں جھوٹا ہوں۔ وشنو مت کا پجاری ہذیانی انداز میں چیخ رہا تھا۔ پھر وہ مسلمان درویش کے قدموں پر جھک گیا۔ اس کے ساتھ ہی اس فرقے سے تعلق رکھنے والے دوسرے پجاری بھی سجدہ ریز ہوگئے۔ پھر مردحق جین مت کے بڑے پجاری سے مخاطب ہوا۔ اب تم بتائو کہ سچا کون ہے جین مت کے پجاری نے بھی وہی جواب دیا اور اپنے چیلوں کے ساتھ زمین پر سر رکھ کر چیخنے لگا۔ بس تم سچے ہو اور ہم سب جھوٹے ہیں۔ کچھ دیر پہلے بت پرستوں کے دو فرقے جو اپنے عقائد کی سچائی ثابت کرنے کے لیے ایک دوسرے کا خون بہانے پر تُلے ہوئے تھے، وہ اپنے نظریات کی نفی کرکے ایک مسلمان درویش کی صداقت پر گواہی دینے لگے۔ اللہ ہی جانتا ہے کہ ان لوگوں نے اس مردِحق کی آنکھوں میں کیا دیکھا کہ اپنے آبائو اجداد کی صدیوں پرانی تعلیمات فراموش کردیں اور اس شخص کے پیچھے سر جھکائے چلنے لگے جسے کچھ دیر پہلے وہ جانتے تک نہیں تھے۔ حضرت امیر خسرو کی مشہور منقبت ہے جو انہوں نے اپنے پیر و مرشد حضرت نظام الدین اولیا محبوب الٰہی کی شان میں لکھی تھی۔ چھاپ تلک سب چھین لی موسے نیناں ملائے کے تو نے ایک نظر کیا دیکھا کہ میرے ماتھے سے بت پرستی کی ساری نشانیاں مٹا ڈالیں حضرت امیر خسرو کا یہ مصرع اس مردحق پر بھی صادق آتا تھا جس کے قدموں نے گرناتھ پہاڑ کے تیرتھ استھان کو بتوں سے پاک کردیا تھا اور جہاں صدیوں سے ناقوس کی آوازیں گونج رہی تھیں، وہاں اچانک اللہ اکبر کا نعرئہ سرمدی سنائی دینے لگا تھا۔ جس مسلمان درویش کے دست حق پرست پر کاٹھیا واڑ کے ہزاروں ہندو ایمان لائے تھے، وہ سلسلۂ چشتیہ کے مشہور بزرگ حضرت سیّدنا نصیرالدین چراغ دہلی کے خلیفۂ اکبر حضرت سیّد محمد گیسو دراز رحمتہ اللہ علیہ تھے۔ ٭ ٭ ٭ آپ کا خاندانی نام سیّد محمد ، کنیت ابوالفتح اور لقب صدرالدین تھا۔ عام طور پر آپ خواجہ گیسو دراز کہلاتے ہیں۔ اہل دکن جوش عقیدت میں آپ کو بندہ نواز بھی کہتے ہیں۔ سیّد محمد کے مورث اعلیٰ ہرات سے دہلی آئے تھے اور اسی مقام پر ھ میں آپ کی ولادت باسعادت ہوئی۔ آپ کے والد محترم سّید یوسف حسینی المعروف سیّد راجا کو حضرت نظام الدین اولیا سے ارادت تھی۔ حضرت محبوب الہیٰ کا انتقال ھ میں ہوا۔ اس وقت سیّد محمد کی عمر چار سال تھی۔ حضرت نظام الدین اولیا کا خاندانی نام بھی سیّد محمد تھا۔ ہوسکتا ہے کہ سیّد یوسف حسینی نے پیرومرشد کی محبت و عقیدت میں بیٹے کا نام سیّد محمد رکھا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ سیّد یوسف حسینی اپنے فرزند سیّد محمد کو لے کر حضرت نظام الدین اولیا کی خدمت میں حاضر ہوئے ہوں اور حضرت محبوب الٰہی نے انہیں اپنی دعائوں سے سرفراز کیا ہو۔ سیّد محمد حسینی سیّد تھے۔ بیس واسطوں سے آپ کا سلسلۂ نسب امیرالمومنین حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے مل جاتا ہے۔ تمام معتبر تذکرہ نگاروں کی روایتوں سے پتا چلتا ہے کہ جب سیّد محمد چار سال کے ہوئے تو سید یوسف حسینی آپ کو لے کر دیوگیر دکن چلے گئے۔ بعد میں دیوگیر کا نام بدل کر دولت آباد رکھ دیا گیا تھا یہ وہی زمانہ ہے جب حضرت نظام الدین اولیا دنیا سے رخصت ہوچکے تھے اور سلطان غیاث الدین تغلق کی موت کے بعد اس کا بیٹا سلطان محمد تغلق تخت ہندوستان پر جلوہ افروز ہوچکا تھا۔ دیوگیر میں حضرت شیخ بابو نام کے ایک عارف قیام پذیر تھے۔ سیّد یوسف حسینی شب و روز ان ہی بزرگ کی صحبت میں رہا کرتے تھے۔ نتیجتاً انتہائی کم سنی میں سید محمد کے معصوم ذہن پر معرفت کے آثار مرتب ہونا شروع ہوگئے تھے۔ تمام مستند تاریخوں میں یہ حوالے موجود ہیں کہ سیّد محمد بچپن ہی سے مذہب کی طرف مائل تھے۔ حضرت شیخ بابو اس کمسن بچے کے ساتھ بڑی شفقت سے پیش آتے۔ اپنے برابر بٹھاتے اور نہایت محبت سے سیّد محمد کے سر پر ہاتھ پھیرتے۔ ایک دن حضرت شیخ بابو نے آپ کے والد محترم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ سیّد یوسف تمہارا یہ بچہ اہل ایمان کا پیشوا ہوگا۔ عنقریب بے شمار لوگ اس کی وجہ سے ہدایت پائیں گے۔ حضرت شیخ بابو کی زبان مبارک سے یہ الفاظ سن کر سیّد یوسف حسینی مسرور و مطمئن ہوگئے۔ سیر محمدی کی روایت ہے کہ آٹھ سال کی عمر ہی میں حضرت سیّد محمد سے دینی شغف کا اظہار ہونے لگا تھا۔ وضو اور نماز میں خاص اہتمام کرتے، چھوٹے بچے سیّد محمد کی خدمت میں جمع رہتے، ان کے وضو کے لیے پانی کا گھڑا بھر کر رکھتے اور بہت عزت و تکریم کے ساتھ پیش آتے۔ قافلۂ روزو شب اپنی منزل کی طرف رواں دواں تھا کہ اچانک سیّد محمد ایک جانگداز حادثے سے دوچار ہوگئے۔ اس وقت آپ کی عمر دس سال تھی کہ والد محترم بیمار ہوئے اور مختصر سی علالت کے بعد ھ میں انتقال کرگئے۔ حضرت سیّد یوسف حسینی دولت آباد ہی میں سپردخاک ہوئے۔ آج بھی آپ کے مزار مبارک پر زائرین کا ہجوم رہتا ہے۔ حضرت سیّد محمد نے ابتدائی تعلیم اپنے نانا سے حاصل کی جو ایک عالم و فاضل انسان تھے۔ والد محترم کی زبان سے حضرت نظام الدین اولیا اور حضرت سید نصیرالدین چراغ دہلی کا ذکر سنتے رہتے تھے۔ نتیجتاً آپ کے دل میں خواجگان چشت کے لیے ایک خاص عقیدت پیدا ہوگئی تھی۔ ابھی سیّد یوسف حسینی کے انتقال کو چند مہینے ہی گزرے تھے کہ آپ کی والدہ ماجدہ اور ماموں سیّد ابراہیم مستونی کے درمیان رنجش پیدا ہوگئی۔ پھر یہ اختلافات اس قدر بڑھے کہ سیّد محمد کی مادر گرامی نے دولت آباد دکن کی سکونت ترک کردی اور اپنے بچوں کو ساتھ لے کر ھ میں دہلی چلی آئیں۔ اس وقت حضرت سیّد محمد کی عمر مبارک پندرہ سال تھی۔ آپ جمعے کی نماز پابندی کے ساتھ سلطان قطب الدین ایبک کی تعمیر کردہ مسجد میں پڑھا کرتے تھے۔ وہاں اکثر حضرت نظام الدین اولیا کے خلیفہ اکبر حضرت سیّد نصیر الدین چراغ دہلی تشریف لاتے تھے۔ سیّد محمد کو حضرت چراغ دہلی سے بے پناہ عقیدت تھی۔ جب تک حضرت شیخ مسجد میں رہتے، سیّد محمد انہیں مسلسل دیکھتے رہتے مگر پاس ادب یہاں تک تھا کہ قریب جانے کی ہمت نہیں ہوتی تھی، بس دور ہی سے اس مرد خدا کا دیدار کرلیتے اور دل میں ایک عجیب سی خلش لیے ہوئے گھر لوٹ آتے۔ آخر لوح محفوظ پر جو لکھا گیا تھا، وہ ایک دن زمین پر نازل ہوگیا۔ فاصلے کم ہوئے اور حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے ایک اُچٹتی نظر سے سیّد محمد کی طرف دیکھا۔ عارف وقت کی یہ ایک نگاہ جلال نووارد کوچۂ عشق کے لیے کافی تھی۔ سینے میں جو چنگاری برسوں سے دبی ہوئی تھی، وہ بھڑک کر شعلہ بن گئی۔ پھر جب حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی جامع مسجد سے اٹھ کر اپنی خانقاہ کی طرف روانہ ہوئے تو سیّد محمد بھی آپ کے پیچھے پیچھے چلے۔ یہاں تک کہ معرفت کا یہ نوخیز مسافر تاجدارِ چشتیہ کے قدموں میں خم ہوگیا۔ پھر حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے سیّد محمد کو اپنے حلقہ بیعت میں شامل فرما لیا۔ اس وقت آپ کی عمر مبارک سولہ سال کے قریب تھی۔ حضرت چراغ دہلی کے مریدوں میں پختہ کار اور عمررسیدہ افراد بھی شامل تھے لیکن پیر و مرشد سیّد محمد کو بہت زیادہ عزیزرکھتے تھے۔ بیعت کے بعد حضرت سیّد محمد کی خواہش ہوئی کہ وہ مرشد کی دست بوسی کے لیے جلد جلد حاضری دیں لیکن بعض مجبوریوں کے سبب آپ کی یہ آرزو پوری نہیں ہوتی تھی۔ آخر ایک دن حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ سیّد محمد تم جب بھی میرے پاس آتے ہو، بے وقت آتے ہو۔ میں اس وقت ملول رہا کرتا ہوں۔ میرا دل چاہتا ہے کہ میں تم سے کچھ بات کروں۔ پیر و مرشد کی یہ شفقت دیکھ کر سید محمد کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور آپ نہایت رقت آمیز لہجے میں عرض کرنے لگے۔ سیّدی میرے لیے یہی شرف کافی ہے کہ میں آپ کے حلقۂ غلامی میں شامل ہوں۔ ٭ ٭ ٭ حضرت سیّد محمد نے پیر و مرشد کی ہدایت کے مطابق عبادت و ریاضت میں بتدریج ترقی کی۔ آپ کے بڑے صاحبزادے سیّد محمد اکبر حسینی نے آپ کے ملفوظات کو جوامع الکلم کے نام سے مرتب کیا ہے۔ حضرت سیّد محمد اپنے ملفوظات میں فرماتے ہیں۔ ایک بار پیر و مرشد کے دیدار کے لیے حاضر ہوا۔ مجھے دیکھتے ہی حضرت شیخ نے فرمایا۔ سیّد محمد تم صبح کی نماز کے لیے جو وضو کرتے ہو، کیا وہ آفتاب طلوع ہونے کے بعد تک باقی رہتا ہے میں نے عرض کیا۔ جی ہاں آپ کے صدقے میں باقی رہتا ہے۔ میرا جواب سن کر پیر و مرشد نے فرمایا۔ کیا اچھا ہو جو اسی وضو سے دوگانہ اشراق بھی پڑھ لیا کرو۔ میں نے کھڑے ہوکر عرض کیا۔ اِن شا اللہ، آپ کے صدقے میں ضرور پڑھوں گا۔ حضرت شیخ نے فرمایا۔ اسی کے ساتھ شکرالنہار اور استخارہ بھی پڑھ لیا کرو۔ پھر جب میں چند روز اس کی پابندی کرچکا تو ایک دن پیرو مرشد نے فرمایا۔ دوگانہ اشراق پڑھتے ہو میں نے دست بستہ عرض کیا۔ حضرت شیخ کے صدقے میں بلاناغہ پڑھتا ہوں۔ پیر و مرشد نے ارشاد فرمایا۔ اگر اس میں چاشت کی چار رکعتیں بھی ملا دیا کرو تو نماز چاشت بھی ہوجایا کرے گی۔ حضرت سیّد محمد فرماتے ہیں۔ میں ہمیشہ رجب کے مہینے میں روزے رکھتا تھا۔ ایک دن حضرت شیخ نے پوچھا۔ سیّد محمد کیا تم رجب میں روزے رکھتے ہو میں نے بصد احترام عرض کیا۔ حضرت شیخ کے صدقے میں رجب اور شعبان میں روزے رکھتا ہوں۔ پیر و مرشد نے فرمایا۔ اگر اکیس دن اور رکھ لیا کرو تو پورے تین مہینے کے روزے ہوجایا کریں گے۔ میں نے عرض کیا۔ اِن شا اللہ آپ کے صدقے میں ایسا ہی کروں گا۔ پھر جب میں نے اپنی والدہ محترمہ سے اس بات کا ذکر کیا تو مجھ پر برہم ہوگئیں اور بہت سخت سست کہا۔ مادر گرامی اس وقت تک حضرت شیخ سے بیعت نہیں ہوئی تھیں۔ میں نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ والدہ ماجدہ سے عرض کیا۔ آپ جو چاہیں کہیں مگر حضرت شیخ نے جو کچھ فرمایا ہے، میں اس پر عمل کرنے سے باز نہیں آئوں گا۔ حضرت سیّد محمد فرماتے ہیں۔ میرا معمول تھا کہ میں رمضان المبارک کے بعد شش عید کے روزے بھی رکھتا تھا۔ یہ چھ روزے ہیں جو شوال کے مہینے میں مسلسل رکھے جاتے ہیں ایک دن حضرت شیخ کے دیدار کے لیے حاضر ہوا تو فرمایا۔ ہمارے خواجگان صوم دائودی نہیں بلکہ صوم دوام رکھتے تھے، اس لیے تم بھی صوم دوام رکھا کرو۔ ممنوعہ ایام کے سواسال بھر روزہ رکھنے کو صوم دوام کہتے ہیں حضرت سیّد محمد نے باطنی تربیت کے علاوہ علوم ظاہری کی تکمیل کا سلسلہ بھی جاری رکھا۔ کچھ مذہبی کتابیں مولانا سیّد شرف الدین کیتھلی ، مولانا تاج الدین اور مولانا قاضی عبدالمقتدر سے پڑھیں، پھر جب آپ کو ذکر و فکر میں زیادہ کیف حاصل ہونے لگا تو گھر چھوڑ کر حظیرئہ شیر خان کے ایک حجرے میں آکر مراقبہ کرنے لگے۔ یہاں حضرت سیّد محمد نے دس سال تک شدید ریاضتیں کیں۔ حظیرئہ شیر خان کے حجرے سے مولانا قاضی عبدالمقتدر کے یہاں درس لینے جاتے، پھر وہاں سے پیر و مرشد کے دیدار کے لیے خانقاہ میں حاضر ہوتے۔ ایک دن حضرت سیّد محمد نے حضرت نصیرالدین چراغ دہلی سے عرض کیا۔ اگر پیر و مرشد کا حکم ہو تو علوم ظاہری کی تحصیل ترک کردوں کہ اب ان چیزوں میں دل نہیں لگتا حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے جواباً فرمایا۔ ہدایہ، بزوری، رسالہ شمسیہ، کشاف اور مصباح کو غور سے پڑھ لو۔ تم سے ایک کام لینا ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے لکھا ہے کہ پیر و مرشد کے کام لینے سے مراد تصنیف و تالیف کا کام ہے، پھر بھی وثوق سے نہیں کہا جاسکتا کہ حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی کا اشارہ کس کام کی طرف تھا۔ الغرض انیس سال کی عمر میں حضرت سیّد محمد علوم ظاہری کی تحصیل سے فارغ ہوگئے اور پھر آپ نے سخت مجاہدات شروع کردیئے۔ حضرت سید نصیرالدین چراغ دہلی اپنے نوعمر مرید کی ریاضت سے بہت زیادہ متاثر تھے۔ ایک موقع پر آپ نے حاضرین مجلس کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ ستّر برس کے بعد ایک لڑکے نے پھر مجھ میں شوریدگی پیدا کردی ہے اور پہلے زمانے کے واقعات مجھے یاد دلا دیئے ہیں۔ اس کے بعد سیّد محمد کے سلسلے میں حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کی شفقت روزبروز بڑھتی چلی گئی۔ یہاں تک کہ ایک بار خود پیر و مرشد خطیرئہ شیر خان تشریف لے گئے جہاں سید محمد مقیم تھے۔ پھر حضرت شیخ نے اپنے محبوب مرید کو کچھ روپے بھی نذرانے کے طور پر پیش کیے۔ اس واقعے کے بعد پوری دہلی میں حضرت سیّد محمد کی شہرت عام ہوگئی اور باکمال صوفیہ اپنی مجلسوں میں برملا کہنے لگے۔ اس شخص کو عین جوانی کے عالم میں پیرانِ کامل کا درجہ حاصل ہے۔ پھر حضرت سیّد محمد کا ذوقِ ریاضت اس قدر بڑھ گیا کہ انسانی آبادی چھوڑ کر جنگلوں کی طرف نکل گئے۔ پھر طویل مجاہدوں کے بعد پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اس زمانے میں حضرت سیّد محمد کے معمولات یہ تھے کہ علی الصباح اٹھ کر حضرت شیخ کو وضو کراتے، پھر خود وضو کرکے نماز فجر باجماعت ادا کرتے اور جب تک پیر و مرشد اوراد و وظائف میں مشغول رہتے، حضرت سیّد محمد طالبان حق کو سلوک کی تعلیم دیتے اور جب مرشد کی مجلس منعقد ہوتی تو اس میں شریک ہوتے اور جب برخاست ہوتی اور حضرت شیخ اپنے حجرئہ مبارک میں جاکر عبادت میں مشغول ہوتے تو حضرت سیّد محمد بھی ایک گوشے میں بیٹھ کر یادِ حق میں مصروف ہوجاتے۔ پھر چاشت کی نماز پڑھ کر تھوڑی دیر قیلولہ کرتے۔ اس کے بعد کلام پاک کی تلاوت فرماتے۔ ظہر کا وقت آتا تو پہلے خود وضو کرتے، پھر مرشد کو وضو کراتے۔ ظہر کی نماز کے بعد حضرت شیخ حجرے میں تشریف لے جاتے تو خود بھی اپنے حجرے میں آکر اوراد و وظائف میں مشغول ہوجاتے یہاں تک کہ سہ پہر کا وقت آجاتا۔ حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی کی مجلس درس دوبارہ آراستہ ہوتی۔ حضرت سیّد محمد وضو کرکے اس مجلس میں شرکت کرتے اور پیر و مرشد کے ساتھ عصر کی نماز پڑھ کر مغرب تک تسبیح و تہلیل میں مشغول رہتے۔ پھر مغرب کی نماز اور اوابین ادا کرکے عشا تک طالبان سلوک کو تعلیم دیتے پھر عشا کی نماز کے بعد تھوڑا سا کھانا تناول فرما کر سوجاتے۔ نصف شب بیدار ہوکر پہلے خود وضو کرتے، اس کے بعد پیر و مرشد کو وضو کراتے۔ جب حضرت شیخ حجرے میں داخل ہوکر یادِ حق میں مشغول ہوجاتے تو سیّد محمد بھی نماز تہجد ادا کرکے حجرے کے باہر دروازے سے پشت لگا کر ذکرِالٰہی میں مصروف ہوجاتے۔ آپ اس وقت بھی پانی کا آفتابہ وغیرہ اپنے ساتھ رکھتے کہ جب پیر و مرشد صبح کی نماز کے لیے حجرے سے باہر تشریف لائیں تو اس وقت وضو کا سارا سامان تیار ملے۔ حضرت سیّد محمد کے نظام الاوقات کی یہ تفصیل اس لیے بیان کی گئی ہے کہ قارئین کو آپ کی کثرت ریاضت کا اندازہ ہوجائے اور معرفت کے طلب گار اس راز سے بھی ہوجائیں کہ حضرت سیّد محمد نے اپنے پیر و مرشد کی کس قدر خدمت کی ہے اور شیخ کی رضا جوئی کا کتنا خیال رکھا ہے۔ ٭ ٭ ٭ حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی اپنی ضعیفی اور ناتوانی کے سبب پالکی میں سفر کیا کرتے تھے۔ حضرت شیخ کی اس پالکی کو آپ کے دس بارہ خدمت گار اٹھایا کرتے تھے۔ جب سیّد محمد ، حضرت چراغ دہلی کے حلقۂ ارادت میں شامل ہوئے اور حضرت شیخ نے سفر کرنا چاہا تو آپ سب سے پہلے پالکی اٹھانے کے لیے تیار ہوگئے۔ حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے اپنے محبوب مرید کا یہ عمل دیکھا تو بے اختیار فرمایا۔ سیّد محمد تم آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم ہو، اس لیے پالکی نہ اٹھائو۔ پیر و مرشد کا یہ ارشاد گرامی سن کر حضرت سیّد محمد آبدیدہ ہوگئے۔ پھر نہایت رقت آمیز لہجے میں عرض کرنے لگے۔ شیخ عالی مقام آپ حسنی سید ہیں اور میں حسینی، آپ بڑے ہیں اور میں چھوٹا، آپ مرشد ہیں اور میں مرید، آپ مخدوم ہیں اور میں خادم جب اللہ تعالیٰ نے حضرت شیخ کو ہر طرح کی بزرگی اور فضیلت عنایت فرما کر واجب التعظیم بنایا ہے تو پھر میں اس خدمت سے کیوں محروم رکھا جائوں حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے آپ کے جذبۂ عقیدت کی یہ سرشاری دیکھ کر فرمایا۔ بابا تم مختار ہو، جو چاہو کرو۔ اس کے بعد حضرت سیّد محمد اپنے پیر و مرشد کی پالکی اٹھانے لگے اور حضرت چراغ دہلی نے پھر کبھی کوئی اعتراض نہیں فرمایا۔ ایک دن حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی ، حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکی کے مزار پُرانوار پر فاتحہ خوانی کے لیے پالکی میں سوار ہوئے۔ حضرت سیّد محمد نے حسب دستور آگے بڑھ کر سب سے پہلے پالکی اٹھائی۔ حضرت سیّد محمد کے سر کے بال بہت زیادہ لمبے تھے، اس لیے اتفاقاً پالکی کے پائے میں پھنس گئے۔ آپ نے شدید تکلیف محسوس کی لیکن مرشد کے ادب کے پیش نظر زاویہ تبدیل نہیں کیا اور اسی حالت میں پالکی اٹھائے ہوئے کئی میل تک چلے گئے۔ بہت زیادہ دبائو کے باعث کئی جگہ سے بالوں کی جڑیں ٹوٹ گئیں اور ان سے خون بہنے لگا مگر طویل راستے میں ایک بار بھی حضرت سیّد محمد نے پالکی کے پائے سے اپنے بالوں کو نکالنے کی کوشش نہیں کی۔ پھر جب حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی ، حضرت قطب کے مزار مبارک پر پہنچ کر پالکی کے نیچے تشریف لائے تو آپ نے سیّد محمد کے چہرے کی طرف دیکھا جو لہولہان ہورہا تھا۔ سیّد یہ کیا ہے حضرت چراغ دہلی کے لہجے سے نہایت فکر و تشویش کا اظہار ہو رہا تھا۔ حضرت سیّد محمد نے سر جھکائے ہوئے نہایت عاجزی کے ساتھ پورا واقعہ بیان کردیا۔ سیّد محمد آخر تم نے ایسا کیوں کیا حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کے لہجے میں اذیت و کرب کا رنگ نمایاں تھا۔ پالکی زمین پر رکھ کر اپنے بالوں کو آزاد کرلیا ہوتا۔ کئی گھنٹے تک اس تکلیف میں کیوں مبتلا رہے غلام اس وجہ سے اپنا زاویہ تبدیل نہ کرسکا کہ پیر و مرشد کے سکون میں خلل واقع ہوتا۔ حضرت سیّد محمد نے سر جھکائے ہوئے عرض کیا۔ اپنے محبوب مرید کا یہ جواب سن کر حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی بے قرار ہوگئے اور پھر نہایت جذب کے عالم میں یہ شعر پڑھا ہر کہ مرید سید گیسودراز شد واللہ خلاف نیست کہ او عشق باز شد جو کوئی سیّد گیسودراز کا مرید ہوگیا، خدا کی قسم، وہ کسی اختلاف کے بغیر عشق باز بن گیا اسی دن سے آپ سیّد محمد کے بجائے گیسو دراز مشہور ہوگئے اور پیر و مرشد کا عطا کردہ وہ لقب آپ کی ذات گرامی کا حوالہ بن گیا۔ ٭ ٭ ٭ سینتیس سال کی عمر میں حضرت سیّد گیسودراز شدید بیمار ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ نے خون تھوکنا شروع کردیا۔ دہلی کے کئی نامور طبیبوں اور کئی مشہور حکیموں نے حضرت سیّد گیسو دراز کا علاج کیا مگر تمام تدبیریں الٹی ہوتی جارہی تھیں۔ پھر ایک روز حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی آپ کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ حضرت سیّد گیسو دراز کی نقاہت کا یہ عالم تھا کہ پیر و مرشد کے استقبال کے لیے اٹھ کر بیٹھ بھی نہ سکے۔ اپنی اس ناتوانی کا احساس کرکے سیّد رونے لگے۔ سیّدی یہ کیسی مجبوری ہے کہ غلام اپنے شہنشاہ کا استقبال بھی نہیں کرسکتا۔ یہ کہتے کہتے حضرت سیّد گیسو دراز کی حالت غیر ہوگئی۔ جب حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے اپنے جاں نثار مرید کی یہ کیفیت دیکھی تو خود بھی بے قرار و مضطرب ہوگئے۔ پھر آپ سیّد گیسو دراز کے لاغر و نحیف جسم پر آہستہ آہستہ دست شفقت پھیرنے لگے۔ یہ حضرت چراغ دہلی کی مسیحا نفسی کا اثر تھا کہ سیّد گیسو دراز تیزی سے روبہ صحت ہونے لگے اور پھر وہ دن بھی آگیا کہ آپ اپنے قدموں سے چل کر پیر و مرشد کی خانقاہ تک پہنچے۔ ایک دن حضرت نصیرالدین چراغ دہلی کی مجلس عرفان میں دہلی کے بڑے بڑے علما اور مشائخ جمع تھے۔ حضرت سید گیسو دراز بھی دست بستہ سر جھکائے اگلی صف میں حاضر تھے۔ اچانک حضرت نصیرالدین چراغ دہلی اپنی نشست سے اٹھ کر کھڑے ہوگئے۔ حضرت شیخ کے احترام کے پیش نظر حاضرین مجلس نے بھی آپ کی تقلید کی۔ اس وقت حضرت چراغ دہلی کمبل اوڑھے ہوئے تھے۔ مجلس میں موجود تمام لوگوں نے دیکھا کہ حضرت چراغ دہلی چند قدم آگے بڑھے اور اپنا کمبل اتار کر حضرت سیّد گیسو دراز کے کاندھوں پر ڈال دیا۔ پھر اپنے محبوب مرید کے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے پکڑ کر فرمایا۔ اگر دنیا میں کوئی شخص محنت کرتا ہے تو یقیناً کوئی چیز اس کی طلب کا مرکز ہوتی ہے۔ حاضرین مجلس بہت غور سے حضرت شیخ کی گفتگو سن رہے تھے۔ پھر چند لمحوں کے توقف کے بعد حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے فرمایا۔ سیّد محمد میری طرف سے یہ چیز قبول کرو۔ حضرت شیخ کا اشارہ اس کمبل کی طرف تھا جو اس وقت حضرت سیّد گیسو دراز کے کاندھے پر موجود تھا۔ وہ کمبل دراصل خرقۂ خلافت تھا اور کسی چیز کے قبول کرنے سے پیر و مرشد کی یہ مراد تھی کہ حضرت سیّد گیسو دراز لوگوں سے بیعت لیا کریں۔ حضرت سید گیسو دراز پیر ومرشد کا حکم سن کر خاموش رہے اور سر جھکا لیا۔ سیّد محمد تم نے اسے قبول کرلیا حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے آپ کو دوبارہ مخاطب کرتے ہوئے کسی قدر بلند آواز میں فرمایا۔ اب حضرت سیّد گیسو دراز کے لیے خاموشی ممکن نہ تھی۔ آپ نے بہت آہستہ لہجے میں عرض کیا۔ غلام نے آقا کی نوازشات کو قبول کیا۔ ہرچند کہ غلام اس عنایت و کرم کا مستحق نہیں تھا۔ حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے تیسری بار فرمایا۔ سیّد محمد تم نے اسے قبول کرلیا خادم نے حضرت مخدوم کے اس عطیۂ خاص کو قبول کرلیا۔ حضرت سیّد گیسو دراز نے بدستور سر جھکائے ہوئے عرض کیا۔ ہرچند کہ خادم اس گرانقدر اعزاز کے لائق نہ تھا۔ اس کے بعد حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے حضرت سیّد گیسو دراز کو دو وصیتیں فرمائیں۔ اپنے ظاہری اوراد ترک نہ کرنا اور میرے متعلقین کے ساتھ رعایت کرنا۔ ٭ ٭ ٭ اسی زمانے میں حضرت سیّد گیسو دراز نے ایک رات اپنے والد محترم کو خواب میں دیکھا۔ حضرت سیّد یوسف حسینی اپنے فرزند کو مخاطب کرکے فرما رہے تھے۔ سیّد محمد ہمارے مملوکہ مکان کے صحن میں نیم کے درخت کے نیچے روپوں سے بھرا ہوا ایک حوض ہے اور اسی حوض میں اشرفیوں کی ایک دیگ بھی موجود ہے۔ اٹھو اور یہ سب دولت نکال کر اپنے استعمال میں لائو۔ حضرت سید گیسو دراز نیند سے بیدار ہوئے تو آپ کے چہرئہ مبارک سے فکر و پریشانی کی کیفیت نمایاں تھی۔ خود کلامی کے انداز میں فرمانے لگے۔ سیّد محمد نے تو دولت کی طرف پشت کرلی اور دنیا کی تمام لذتوں کو چھوڑ دیا، پھر یہ کیسا خواب ہے اور مجھے حصول سیم و زر کی دعوت کیوں دی جارہی ہے حضرت سیّد گیسو دراز بہت دیر تک اپنے خواب کے تمام زاویوں پر غور کرتے رہے۔ یہاں تک کہ فجر کی اذان ہوگئی اور پھر آپ اپنے خالق کے آگے سجدہ ریز ہوگئے۔ سورج طلوع ہوا تو حضرت سید گیسو دراز پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور اپنا خواب بیان کیا۔ حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے سیّد گیسو دراز کا خواب سن کر کچھ دیر مراقبہ کیا اور پھر اپنے محبوب مرید کو مخاطب کرکے فرمایا۔ یہ خواب نہیں بشارت ہے۔ زمین میں پوشیدہ رقم نکالو اور اسے اپنے مصرف میں لائو۔ پیر و مرشد کا حکم سن کر حضرت سید گیسو دراز نے سر جھکا لیا اور خاموش بیٹھے رہے۔ حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے آپ کی دلی کیفیت کا اندازہ کرلیا تھا، اس لیے دوبارہ مخاطب ہوئے۔ سیّد محمد کیا تمہیں اس کام میں کچھ تامل ہے حضرت سیّد گیسو دراز نے نہایت ادب و حترام کے ساتھ عرض کیا۔ سیّدی پر خوب روشن ہے کہ خادم ترک دنیا کرچکا ہے۔ اب میں سیم و زر کے لیے اپنے دل میں کوئی رغبت نہیں پاتا۔ حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے بغور اپنے مرید کی طرف دیکھا۔ سیّد گیسو دراز کے دل اور زبان میں بڑی مطابقت تھی۔ حضرت شیخ نے آپ کے ترک دنیا پر گواہی دیتے ہوئے فرمایا۔ بے شک تم سیم و زر کو پسند نہیں کرتے مگر یہ والد محترم کا حکم ہے۔ پہلے اس زیرزمین گنجینے کو برآمد کرو اور پھر اسے اللہ کے راستے میں خرچ کردو۔ اس طرح تمہیں دُہرا ثواب ملے گا۔ پیر و مرشد کا دوسرا حکم سن کر حضرت سیّد گیسو دراز کے چہرے پر طمانیت کی لہر دوڑ گئی۔ پھر آپ چند مزدوروں کے ہمراہ اس مکان میں پہنچے اور والد محترم نے خواب میں جس مقام کی نشاندہی کی تھی، اسے کھدوانا شروع کردیا۔ وہ خزانہ کافی گہرائی میں دفن تھا۔ حضرت سیّد گیسو دراز نے کسی تاخیر کے بغیر سیم و زر کا انبار ضرورت مندوں میں لٹا دیا۔ پھر غسل کیا اور لباس تبدیل کرکے دو نفل ادا کیے۔ اس کے بعد شکرگزاری کے طور پر طویل دعا فرمائی۔ اے اللہ تیرے ہی حکم سے سیّد محمد تجھ پر ایمان لایا اور تیری ہی بخشی ہوئی توفیق کے سبب تیرے احکام پر عمل کیا اور تیری ہی دی ہوئی ہمت سے اس بارگراں کو اٹھایا اور اس مشکل ترین ذمہ داری سے سبکدوش ہوا۔ اے علیم و خبیر تو خوب جانتا ہے کہ تیرے ناتواں بندے میں یہ بوجھ اٹھانے کی طاقت نہیں ہے۔ اس لیے اے میرے کریم آئندہ مجھے ایسی آزمائشوں سے محفوظ رکھنا اور ہر آن میری مدد فرمانا کہ تیری دستگیری کے بغیر میں اس خارزارِ حیات کو نہیں کرسکتا۔ ٭ ٭ ٭ دنیاوی امور کے سلسلے میں خاندانِ چشتیہ کے بزرگوں کی یہ خاص عادت تھی کہ سلاطین وقت سے برائے نام بھی رسم و راہ نہیں رکھتے تھے۔ اسی طرح دولت دنیا کو بھی اپنے لئے وبال سمجھتے تھے۔ حضرت سیّد گیسو دراز بھی پوری توانائی اور سچائی کے ساتھ اپنے مشائخ کے راستے پر گامزن تھے۔ نئے نئے انداز سے آپ کے سامنے سیم و زر کے انبار پیش کئے جاتے تھے مگر ہر بار آپ تائید غیبی کے سبب اس آزمائش میں پورے اترتے تھے۔ والد محترم نے خواب میں جس خزانے کی بشارت دی تھی، وہ بھی دراصل ایک امتحان تھا۔ اللہ تعالیٰ کی دستگیری نے سیّد محمد کو اس امتحان میں ثابت قدم رکھا اور آپ سب سے بڑے فتنے کے جال سے بحفاظت نکل آئے۔ قرآن حکیم میں مال اور اولاد کو بہت بڑی آزمائش قرار دیا گیا ہے کچھ دن بعد حضرت سیّد گیسو دراز کے ساتھ اسی انداز کا ایک اور واقعہ پیش آیا۔ ایک بار دہلی میں سخت بارش ہوئی جس سے خستہ اور پرانے مکانات منہدم ہوگئے۔ قلعے کے پاس صدیوں پرانا ایک کھنڈر تھا۔ اس کے آثار دیکھ کر اندازہ ہوتا تھا کہ کسی زمانے میں یہ مکان کسی ہندو راجہ کا محل ہوگا۔ طوفانی بارش کے سبب اس مکان کی رہی سہی دیواریں بھی گر گئیں۔ پھر جب بارش رکی تو شاہی محل کا کوئی خدمت گار ادھر سے گزرا۔ کھنڈر کے ملبے پر ایک چمکدار تختی پڑی تھی۔ خدمت گار نے آگے بڑھ کر تختی اٹھا لی اور سلطان محمد تغلق کی خدمت میں پیش کردی۔ سلطان محمد تغلق بڑی حیرت سے تابنے کی اس تختی کو دیکھتا رہا جس پر کوئی عبارت کندہ تھی۔ سلطان محمد تغلق خود بھی ایک عالم و فاضل حکمراں تھا۔ بہت دیر تک تختی کا جائزہ لینے کے بعد بس اتنا ہی معمہ حل کرسکا کہ اس تختی کا تعلق ہندوستان کے قدیم راجہ سمراٹ اشوک کے دور حکومت سے ہے۔ سلطان محمد تغلق نے اس نامانوس عبارت کو پڑھنے کی بہت کوشش کی مگر عاجز رہا۔ آخر فرمانروائے ہند نے آثار قدیمہ کے ماہرین کی جماعت کو دربار میں طلب کیا اور وہ تانبے کی تختی پیش کرتے ہوئے بولا۔ اس عبارت کو پڑھو، یہ کوئی عام کتبہ ہے یا اس میں کوئی راز پوشیدہ ہے ماہرین آثار قدیمہ کی جماعت بہت دنوں تک اس تختی کے مطالعے اور مشاہدے میں غرق رہی۔ آخر اس جماعت کے کچھ لوگ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس برباد شدہ مکان میں زروجواہر کا کوئی خزانہ مدفون ہے مگر کوئی ماہر یہ نہیں بتا سکا کہ اس طویل و عریض کھنڈر میں سیم وزر کا وہ انبار کس جگہ چھپایا گیا ہے۔ الغرض سلطان محمد تغلق نے حکم دے دیا کہ خزانہ برآمد کرنے کے لیے پورا کھنڈر کھود ڈالا جائے۔ حکم شاہی کی تعمیل میں ماہرین آثار قدیمہ نے جگہ جگہ کھدائی کی مگر خزانے کا پتا نہ چل سکا۔ ناکامی کے بعد ماہرین دوبارہ سلطان محمد تغلق کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کرنے لگے۔ جب تک اس خاص مقام کی نشاندہی نہ ہو، اس وسیع کھنڈر میں کھدائی کرنا کار لاحاصل ہے۔ سلطان محمد تغلق اس نادیدہ خزانے سے دستبردار ہونا نہیں چاہتا تھا۔ اس لیے دن رات غوروفکر میں رہنے لگا۔ جب بادشاہ اور اس کے تمام اہل دانش سوچتے سوچتے تھک گئے تو اچانک اسے حضرت سید نصیرالدین چراغ دہلی کا خیال آیا۔ یہ سلطان محمد تغلق کے دورحکومت کا ابتدائی زمانہ تھا۔ ان دنوں سلطان صوفیا اور مشائخ کا بہت احترام کرتا تھا، پھر اپنے گمراہ مصاحبین کی مشاورت کے سبب وہ سیدھے راستے سے بھٹک گیا اور اس نے صوفیوں اور درویشوں کو سخت اذیتیں پہنچائیں۔ اس بحث سے قطع نظر حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی کا خیال آتے ہی سلطان محمد تغلق کا بے قرار ذہن سکون پا گیا اور اس نے اپنے وزرا کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اب یہ مسئلہ حل ہوجائے گا۔ کیا عالم پناہ پر الہام ہوا ہے ایک خوشامدی وزیر نے کہا۔ ہاں الہام ہی سمجھو۔ سلطان محمد تغلق نے کہا اور فوراً ہی حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی کے نام ایک خط تحریر کیا۔ اس نے لکھا۔ ماہرین آثار قدیمہ نے دہلی کے ایک کھنڈر میں مدفون خزانے کی نشاندہی کی ہے مگر وہ لوگ اس خاص مقام کا پتا لگانے سے قاصر ہیں۔ مجبوراً میں حضرت شیخ سے رجوع کررہا ہوں۔ حضور اپنے کشف باطن کے ذریعے اس دفینے کا محل وقوع دریافت فرمائیں تاکہ زروجواہر کے ساتھ دیگر قیمتی آثار بھی مل جائیں اور مخلوقِ خدا کے کام آئیں۔ سلطان محمد تغلق نے اپنے خط کے آخر میں یہ بھی تحریر کیا۔ اگر یہ دفینہ ہاتھ آگیا تو زروجواہر کا ایک عشرہ دسواں حصہ حضور کی خدمت میں بطور نذر پیش کیا جائے گا۔ جب حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے شاہی قاصد کا لایا ہوا خط پڑھا تو مسکراتے ہوئے فرمایا۔ فقیروں کو دفینوں سے کیا نسبت ہے درویش کو اپنے نفس کا کھنڈر کھودنے اور گوہر مراد ڈھونڈنے ہی سے فرصت نہیں تو وہ دنیا کے خزانوں کا کیا پتا لگائے گا۔ یہ کہہ کر حضرت چراغ دہلی نے شاہی قاصد کو خط واپس کردیا۔ سلطان سے کہہ دینا کہ اس نے اس کام کے لیے مناسب آدمی کا انتخاب نہیں کیا۔ ماہرین آثارِ قدیمہ اور خانوادئہ شاہی کے لوگ ہی دفینوں کو تلاش کرسکتے ہیں۔ شاہی قاصد ناکام و نامراد لوٹ گیا۔ سلطان محمد تغلق نے حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی کو دوسرا خط تحریر کیا۔ میں اس وقت تک التجا کرتا رہوں گا جب تک حضور میری درخواست قبول نہیں فرمائیں گے۔ حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے فرمانروائے ہند کا دوسرا خط پڑھا اور مسکراتے ہوئے حضرت سیّد محمد سے مخاطب ہوئے۔ بابا گیسو دراز تم بھی تو سلطان کے شہر میں رہتے ہو، آج اس کا یہ کام آپڑا ہے۔ حضرت سیّد گیسو دراز پیر و مرشد کا اشارہ سمجھ گئے تھے، اس لیے دست بستہ کھڑے ہوگئے۔ بابا تم جائو اور سلطان کے کام کو ٹھیک ٹھیک انجام دے دو۔ حضرت چراغ دہلی نے اپنے محبوب مرید کو مخاطب کرکے فرمایا۔ حضرت سیّد گیسو دراز خم ہوئے، پیرومرشد کی دست بوسی کے اعزاز سے شرف یاب ہوئے اور پھر سلطانی کارندوں کے ساتھ کھنڈر کی طرف روانہ ہوگئے۔ پھر حضرت سیّد گیسو دراز ، ماہرین آثارِ قدیمہ، شاہی کارندوں اور مزدوروں کے ساتھ سمراٹ اشوک کے زمانے کے قدیم کھنڈر میں داخل ہوئے۔ حیرت انگیز طور پر اس کھنڈر میں ایک طویل و عریض کمرہ زمانے کی دست برد سے محفوظ تھا۔ ماہرین آثارِ قدیمہ نے اس کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ شیخ یہ تانبے کی تختی اسی کمرے کے صحن سے برآمد ہوئی تھی۔ حضرت سیّد گیسو دراز کچھ دیر تک اس پُراسرار اور طلسماتی تختی کو ملاحظہ کرتے رہے۔ پھر آہستہ قدموں سے چلتے ہوئے کھنڈر کے صدر دالان میں تشریف لائے اور اس کی چھت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا۔ خزانہ یہاں دفن ہے۔ حضرت سیّد گیسو دراز کا ارشادِ گرامی سنتے ہی شاہی مزدور آگے بڑھے مگر آپ نے ہاتھ کے اشارے سے مزدوروں کو روکتے ہوئے فرمایا۔ ٹھہرو تم لوگ اس چھت کو برباد کردو گے۔ یہ کہہ کر آپ خود سیڑھی پر چڑھے اور اپنے دست مبارک سے چھت پر ایک دائرہ بنایا، پھر شاہی مزدوروں کو تنبیہ کرتے ہوئے ارشاد کیا۔ اس دائرے کے اندر ہی کھودنا ورنہ چھت خراب ہوجائے گی اور حضرت شیخ فرمائیں گے کہ سیّد محمد نے ٹھیک کام نہیں کیا۔ ماہرین آثارِ قدیمہ اور شاہی مزدوروں کے ساتھ سلطان محمد تغلق کا وزیر خاص بھی کھدائی کے کام کی نگرانی کرنے آیا ہوا تھا۔ حضرت سیّد گیسو دراز کی گفتگو سن کر سب کے سب ایک ہی بات سوچ رہے تھے کہ جب قدیم عمارات اور ارضیات کا وسیع علم رکھنے والے خزانے تک پہنچنے میں ناکام ہوگئے تو ایک گوشہ نشیں درویش دفینے تک کس طرح رسائی حاصل کرے گا الغرض دربار سلطانی سے متعلقہ تمام افراد اسی ذہنی کشمکش میں مبتلا تھے کہ مزدوروں نے حضرت سیّد گیسو دراز کے کھینچے ہوئے دائرے کے اندر کھدائی شروع کردی۔ پھر تھوڑی دیر بعد ہی چھت میں شگاف پڑ گئے اور پوشیدہ خزانہ کسی دریا کی طرح ابل پڑا۔ یہ ناقابل یقین منظر دیکھ کر حاضرین کو سکتہ سا ہوگیا۔ پھر جب سلطانی کارندوں کے ہوش و حواس بحال ہوئے تو سلطان محمد تغلق کے وزیر خاص نے حضرت سیّد گیسو دراز کے دست مبارک کو بوسہ دیتے ہوئے عرض کیا۔ شیخ اتنا کرم اور فرمایئے کہ اس تختی کے اسرار و رموز بیان فرما دیجئے تاکہ میں سلطان کے حضور میں سرخرو ہوجائوں۔ وزیر خاص کی التجا سن کر حضرت سیّد گیسو دراز مسکرائے۔ چلو تم سرخرو ہوجائو۔ اتنا فرما کر حضرت سید گیسو دراز نے اس طلسماتی تختی کے تمام راز فاش کردیئے۔ آپ کے ارشاداتِ گرامی سن کر وزیر خاص اور تمام ماہرین آثارِ قدیمہ بیک زبان پکار اٹھے۔ بے شک اس طلسمی عقدے کو آپ ہی حل کرسکتے تھے۔ اپنی تعریف و ستائش سے بے نیاز حضرت سیّد گیسو دراز نے حاضرین کو سلام کیا اور اللہ حافظ کہہ کر پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ آپ کو دیکھتے ہی حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی نے فرمایا۔ سیّد محمد کام کردیا حضرت سیّد گیسو دراز پیر و مرشد کی بارگاہ عالیہ میں خم ہوگئے اور نہایت عجز و انکسار کے ساتھ عرض کیا۔ خادم نے مخدوم کے صدقے میں ٹھیک ٹھیک کام کردیا۔ پھر سلطان محمد تغلق نے وعدے کے مطابق خزانے کا دسواں حصہ حضرت سیّد نصیرالدین چراغ دہلی کی خدمت میں ارسال کیا۔ حضرت چراغ دہلی کچھ دیر تک سیم و زر اور جواہرات کو ملاحظہ کرتے رہے، پھر شاہی کارندوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ یہ سیّد محمد کا حصہ ہے، اسے ان کے مکان پر پہنچا دو۔ جب شاہی کارندے سونے اور جواہرات سے بھری ہوئی گاڑیاں لے کر حضرت سیّد گیسو دراز کے مکان پر پہنچے تو آپ نے فرمایا۔ اس خزانے کو خانقاہ عالیہ واپس لے جائو۔ پھر حضرت سیّد گیسو دراز پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور حضرت شیخ کے دامن سے لپٹ کر رونے لگے۔ مخدوم کے صدقے میں دینے والے نے خادم کو اتنی دولت دی ہے کہ دامن میں نہیں سماتی۔ حضرت سیّد محمد کا یہ والہانہ عشق دیکھ کر حضرت چراغ دہلی نے دوبارہ فرمایا ہر کہ مرید سیّد گیسودراز شد واللہ خلاف نیست کہ او عشق بازشد اس کے بعد حضرت نصیرالدین چراغ دہلی نے سیم و زر کا انبار واپس کرتے ہوئے سلطان محمد تغلق کو پیغام بھیجا کہ یہ ساری دولت غربا اور مساکین میں تقسیم کردی جائے۔ جاری ہے
null
null
null
null
432
https://www.urduzone.net/aaj-bhe-afsoos-hae-complete-urdu-story/
ماسی بختاں عرصے سے ہمارے یہاں کام کر رہی تھی۔ یہ لوگ ایک دورافتادہ گائوں سے محنت مزدوری کرنے یہاں آئے تھے۔ سیلاب کے دنوں میں ان کا کچّا گھر، گھریلو اسباب، مال، مویشی بہہ گئے تو نہایت خستہ حالی اور کسمپرسی میں شہر کا رخ کیا۔ ان دنوں مجھے ایک گھریلو ملازمہ کی اشد ضرورت تھی۔ تیسرے بچّے کی ماں بنی تھی اور میری ملازمہ کام چھوڑ گئی تھی۔ مجھ اکیلی کو چھوٹے بچّوں کو سنبھالنا اور گھرداری کرنا جان جوکھم کا کام تھا، بہت تھک جاتی تھی۔ اس روز صبح لان میں دھوپ سینک رہی تھی۔ ننھی دانیہ گود میں تھی، سردیوں کا موسم تھا، سارا کام بکھرا پڑا تھا، ہمّت نہ ہو رہی تھی کہ کچن میں جائوں۔ تب ہی دل سے دعا کی یا اللہ آج کوئی اچھی اور دیانتدار ملازمہ بھیج دے۔ قبولیت کی گھڑی تھی، اسی وقت گیٹ بجا۔ کھولا تو سامنے ایک ادھیڑ عمر عورت کھڑی تھی۔ وہ ضرورت مند نظر آ رہی تھی۔ کہنے لگی بیگم صاحبہ کیا آپ کو گھر کے کام کے لیے ملازمہ چاہیے ہاں،اندر آ جائو۔ عورت صورت سے شریف لگی۔ میں نے فوراً تنخواہ طے کی اور اسی دن کام پر رکھ لیا۔ ماسی بختاں نے میرے پاس آٹھ برس کام کیا، پھر اسے ہڈیوں کے مرض نے آ لیا۔ چھ بچّے تھے، شوہر کبھی کام پر جاتا، کبھی گھر بیٹھ جاتا۔ مزدوری کبھی ملتی کبھی نہ ملتی۔ ماسی نے گائوں جا کر بڑی بیٹی کی شادی کر دی۔ دو لڑکیاں اور دو لڑکے رہ گئے۔ بیٹیاں گائوں میں بوڑھی دادی اور چاچی کے پاس تھیں۔ لڑکا ایک بارہ سال کا اور دوسرا آٹھ برس کا تھا۔ دونوں کو اپنے ساتھ رکھا ہوا تھا۔ بختاں نے بیماری کے باعث کام چھوڑا تو مجھے بڑا مسئلہ ہوگیا۔ ایک، دو عورتیں کام کے لیے رکھیں لیکن انہوں نے ویسا کام نہ کیا جیسا چاہتی تھی، ان کو نکالنا پڑا۔ ایک روز بختاں آئی تو میں نے اپنی مشکل بیان کر دی۔ بولی بی بی صاحبہ، بیٹیاں تو گائوں میں ہیں، اگر قبول کریں میرا بیٹا رکھ لیں۔ وہ بہت سلجھا ہوا بچّہ ہے۔ آپ کو بالکل تنگ نہ کرے گا۔ جیسا کہیں گی ویسا کام کر دے گا۔ سوچا جب تک کوئی کام کی عورت نہیں ملتی، اس بچّے سے کام چلا لیتی ہوں۔اگلے روز وہ بیٹے کو لے آئی۔ صورت سے مسکین اور اپنے نام کی طرح شریف تھا۔ کہنے کو بارہ برس کا تھا لیکن مشکل سے نو، دس سال کا لگتا تھا۔ غربت کی وجہ سے ہڈیوں کا ڈھانچہ بنا ہوا تھا۔ بھولا بھالا دیکھ کر سوچا کہ ٹھیک ہے رکھ لیتی ہوں، اچھا کھانا کھائے گا تو توانا ہو جائے گا۔ میں نے شریف کو اپنے پاس رکھ لیا۔ بختاں کو کچھ ڈھارس ہوگئی۔ لڑکے کی تنخواہ سے چولہا جلنے کی آس بندھ گئی تھی۔ شروع میں صفائی ستھرائی اور اوپر کے کچھ کام اس کے ذمے لگا دیئے۔ باورچی خانے میں بھی میرا ہاتھ بٹا دیتا۔ فارغ وقت میں شام کو میرے دونوں بیٹوں کے ساتھ لان میں کھیلتا، وہ اس کے ساتھ کھیل کر خوش ہوتے۔ وہ بہت جلد میرے بچوں کے ساتھ گھل مل گیا۔ وہ بختاں کا بیٹا تھا تو ہم کو اس پر اعتبار تھا۔ اس نے بھی کوئی تکلیف نہ دی۔ بھولا لگتا تھا مگر ذہین تھا۔ بات کو بڑی جلدی سمجھ جاتا، جو کام کہتی ٹھیک طرح کر لیتا۔ اس کے آنے سے مجھے راحت اور سکون مل گیا۔ مجھے بس ایک ہانڈی بنانی پڑتی۔ وہ روٹیاں بھی تنور سے لگوا کر لے آتا۔ میرے شوہر صفائی پسند تھے۔ شریف برتن دھوتا تو جگمگا دیتا۔ فرش پر ایسا پونچھا لگاتا کہ وہ شیشے کی طرح چمک اٹھتا، غرض اپنی ماں سے زیادہ اچھا کام کرتا تھا۔ اس کی کارکردگی سے خوش ہو کر تنخواہ کے علاوہ میں اس کو جیب خرچ دینے لگی تاکہ کسی شے کو دل کرے تو لے کر کھا سکے۔ وہ کبھی گنڈیریاں، کبھی بھنے ہوئے چنے اور ابلے بھٹے لے آتا۔ اس کو ٹافیوں وغیرہ سے زیادہ ان چیزوں کا شوق تھا۔ اس کی دیکھا دیکھی میرے بچوں نے بھی ٹافیوں کی جگہ ایسی چیزیں کھانی شروع کر دیں جو گائوں میں باآسانی ملتی تھیں اور صحت کے لیے اچھی تھیں۔ اچھا کھانا باقاعدگی سے ملا تو شریف نے رنگ روپ نکالا اور صحت مند ہوتا گیا۔ ہمہ وقت پھرتی سے کام کرنے کی وجہ سے اس کی ورزش بھی خوب ہوتی تھی۔ اب وہ پہلے والا شریف نہ رہا، کسی خوشحال گھر کا بچہ نظر آتا تھا۔ میرے شوہر احسان پروفیسر تھے، تعلیمی شعبے سے وابستہ تھے۔ ایک روز بولے۔ زیتون تم پڑھی لکھی ہو، یہ بچہ کافی ذہین ہے، اسے دن میں آدھا گھنٹہ پڑھا دیا کرو تو کسی غریب کا بھلا ہو جائے گا۔ بخت کی وفا اور اس کے لڑکے کی عمدہ کارکردگی کے پیش نظر میں نے بھی سوچا، اس کو پڑھانا چاہیے۔ فارغ وقت نکال کر میں نے اس کو پڑھانا شروع کر دیا۔ چھ ماہ میں اس نے دوسری جماعت کی کتابیں ختم کر لیں۔ اب میرے بچے بڑے ہو گئے تھے، وہ اسکول جاتے تھے۔ ڈرائیور جو احسان کے گائوں کا تھا، ان کو اسکول سے لاتا، لے جاتا۔ ایک اچھی عورت بھی جزوقتی کام کے لیے مل گئی، تب ہی ضمیر نے کہا۔ اس لڑکے کو اسکول بھیجنا چاہیے، ایک مفلس گھر کا بچہ پڑھ لکھ کر باشعور افراد میں شامل ہو جائے تو اس کے خاندان کو بھی فائدہ ہوگا۔ میں نے ایک روز شریف کو بلا کر کہا۔ اگر تم کو اسکول میں داخل کرا دوں تو کیا پڑھو گے وہ خوشی سے جھوم اٹھا، جیسے اس کے دل کی مراد بر آئی ہو۔ قریب ہی ایک سرکاری بوائز اسکول تھا۔ احسان نے شریف کو وہاں داخل کرا دیا اور ہیڈ ماسٹر سے کہا۔ چاہتا ہوں کہ ایک سال میں دو جماعتیں پاس کر لے تاکہ اپنے ہم عمر بچوں کے برابر آ جائے۔ ہیڈ ماسٹر، احسان کی بہت عزت کرتے تھے۔ اس شخص نے اپنی ذاتی کوشش سے شریف کو ایک سال میں دو کلاسیں پاس کروا دیں۔ یوں وہ ایک سال بعد پانچویں میں پہنچ گیا۔ مجھ سے بھی روز باقاعدگی سے پڑھتا تھا۔ یہ اسکول پرائمری تک تھا۔ پانچویں پاس کرنے کے بعد میرے شوہر نے سیکنڈری اسکول میں داخل کروا دیا۔ یہ اسکول فاصلے پر تھا اور گھر سے پیدل جاتے ہوئے اس کو تقریباً بیس منٹ لگ جاتے تھے۔ صبح کا کام جزوقتی ملازمہ زارا کر جاتی جبکہ شام کا کام شریف کرتا۔ رات کو دیر تک پڑھتا۔ ہم خوش تھے کہ ہماری توجہ رائیگاں نہیں گئی۔ یہ لڑکا ضرور ترقی کرے گا۔ ایک سال کے بعد اچانک اس کی کارکردگی میں سستی آ گئی۔ اس کی تعلیمی رپورٹ بہت خراب آئی۔ حیرت ہوئی کہ اس کو کیا ہوا ہے۔ نمبر اتنے کم کہ سمجھ میں نہ آتا تھا۔ پڑھائی سے دلچسپی باقی نہیں رہی یا پھر کوئی اور وجہ ہے۔ سال کے اختتام پر اس کی تعلیمی حالت غیر تسلی بخش ہوتے ہوتے صفر کے برابر رہ گئی۔ یہی نہیں اس کی صحت بھی متاثر ہو گئی تھی حالانکہ شروع میں بہت کام کرتا تھا مگر صحت قابل رشک تھی۔ اب تو کام بھی کم کرتا تھا۔ چند دنوں میں وہ ایک خستہ حال اور تباہ شدہ روح معلوم ہونے لگا۔ سستی اس کی رگ رگ میں سما گئی۔ پچھلے چند دنوں سے تو اس قدر کند ذہن ہوگیا تھا کہ معمولی سی بات بھی اس کی سمجھ میں نہ آتی۔ ایک بات کو کئی بار کہنا پڑتا تب سمجھ پاتا۔ پچھلے کچھ دنوں سے ہمارے گھر کی چھوٹی چھوٹی اشیا غائب ہو رہی تھیں۔ میرا شک ماسی زارا پر جا رہا تھا کیونکہ شریف نے کبھی کوئی چیز نہ چرائی تھی۔ اس کی چوری کی عادت نہ تھی۔ چراتا تو کہاں لے جاتا۔ وہ دن رات ہمارے پاس ہی رہتا تھا۔ اسکول جاتے وقت میں روز اسے بیس، تیس روپے دے دیا کرتی تھی کہ بچہ ہے، کینٹین سے کچھ لے کر کھا لے گا۔ جب اس سے پوچھتی فلاں چیز یہاں رکھی تھی، کہاں گئی تو معصوم سا بن کر کہتا، پتا نہیں بیگم صاحبہ، میں نے تو نہیں دیکھی۔ شریف اتنی معصوم شکل کا تھا کہ کوئی شک نہ کر سکتا تھاکہ وہ کچھ چراتا ہو گا یا کوئی غلط کام کر سکتا ہے۔ میں ماسی زارا پر نظر رکھنے لگی، اس کی کوئی غلطی ہاتھ نہ آئی مگر چھوٹی موٹی اشیا پھر بھی غائب ہوتی رہیں جیسے انہیں جن لے جاتے ہوں۔ اس سے زیادہ پریشانی یہ تھی کہ لڑکے کی رنگت سنولائی جاتی تھی، آنکھیں بے رونق اور زرد پڑتی جا رہی تھیں، ہونٹ خشک اور آنکھوں کے ڈھیلوں پر نسواری دھبّے دیکھ کر میں نے احسان سے کہا۔ اس کا چیک اپ کرانا چاہیے، کہیں اسکول سے کوئی بیماری تو نہیں لگ گئی۔ ایسا نہ ہو یرقان وغیرہ ہو گیا ہو۔ ہم میاں بیوی فکرمند ہو گئے۔ احسان ایک روز اس کو ڈاکٹر کے پاس لے گئے۔ اس نے بتایا کہ یہ لڑکا نشہ کرتا ہے۔ آپ کیا کہہ رہے ہیں ڈاکٹر صاحب یہ ہمارے گھر میں رات دن رہتا ہے۔ اب سے نہیں چار، پانچ سال سے رہتا ہے۔ ہماری نظروں کے سامنے اور ہمارے گھر میں نشہ آور کوئی شے ہو، سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اس کے گھر والے تک ملنے نہیں آتے۔ چھ، چھ ماہ گزر جاتے ہیں۔ ڈاکٹر صاحب بولے۔ پروفیسر صاحب یہ لڑکا کسی وقت باہر تو جاتا ہو گا اسکول جاتا ہے اور ٹھیک چھٹی کے بعد گھر آجاتا ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ اس پر نگاہ رکھیں۔ کئی روز تک ہم پیار سے پوچھتے رہے، شریف نے کچھ بتا کر نہ دیا۔ بالآخر احسان نے اس کو بتائے بغیر اپنے آفس کے چپراسی کے بھائی کو اس کے پیچھے لگا دیا۔ اس نے بتایا کہ اسکول سے چھٹی کے بعد یہ لڑکا سڑک کراس کر کے سامنے نائی کی دکان میں چلا جاتا ہے، جہاں یہ ایک اور لڑکے سے ملتا ہے، تھوڑی دیر بات چیت کرنے کے بعد گھر آ جاتا ہے۔ شریف سے ڈانٹ کر احسان نے سوال کیا کہ تم اسکول سے چھٹی کے بعد سڑک کراس کر کے دکان میں کس سے ملتے ہو وہ بولا۔اپنے چھوٹے بھائی کلیم سے ملتا ہوں۔ وہ میرے لیے کھانے کی چیزیں رکھتا ہے، پھر ہم دونوں مل کر کھاتے ہیں۔ کیا چیزیں کھاتے ہو ربڑی ملائی، مٹھائی، گلاب جامن وغیرہ۔ کیا وہ یہ چیزیں گھر سے لاتا ہے نہیں دکان پر ایک آدمی لا کر بیچتا ہے۔ پہلے کبھی کبھی بال بنوانے آتا تھا، پھر روز آنے لگا۔ اس کی دوستی میرے بھائی سے ہو گئی ہے۔ وہ روز یہ چیزیں لا کر اس کو دیتا ہے۔ کیا مفت دیتا ہے پہلے مفت دیتا تھا لیکن اب کسی چیز کے بدلے یا پیسوں سے۔ کیا چیزیں تم لوگ اس کو دیتے ہو اس سوال پر وہ خاموش ہو گیا۔ احسان نے دکان پر جا کر تحقیق کی تو پتا چلا کہ منشیات بیچنے والا شخص اسی طرح غریب نو عمر لوگوں کو پہلے بہلا پھسلا کر ان کو خود سے مانوس کرتا ہے، پھر ہیروئن ملی مٹھائی اور کھانے پینے کی اشیا دیتا ہے۔ ناسمجھ لڑکے لے کر کھا لیتے ہیں، جب عادی ہو جاتے ہیں تو پیسے دے کر نشہ خریدنے لگتے ہیں۔ اگر پیسے نہ ہوں تو جو شے دیں، وہ آدمی بدلے میں لے لیتا ہے، مثلاً ہمارے گھر سے گھڑی، بچوںکی کاریں، چھوٹے چھوٹے مگر قیمتی کھلونے، پرفیوم، پارکر پین وغیرہ سب پار ہو کر اسی شخص کے تھیلے میں گئے اور یہ اشیا شریف نے اس شخص کو ان اشیا کے بدلے میں دیں جن میں نشہ آور پائوڈر ملا ہوتا تھا۔ افسوس اس بات کا تھا کہ نائی کی اس دکان میں کام سیکھنے والے تین نوعمر لڑکوں کو اس شخص نے نشے کا عادی بنایا جن میں ایک شریف کا بھائی کلیم بھی تھا۔ گویا ایک گھر کے دو بچّے اس نے شکار کئے۔ اس طرح ایک والدین کے دو چراغ گل کرنے کا سامان اس مردود نے مہیا کر دیا۔ میں اور احسان گاڑی میں بٹھا کر شریف کو اس کے گائوں لے گئے چونکہ سال بھر سے اس کے والدین اپنے گائوں لوٹ گئے تھے۔ بختاں کام کرنے سے معذور تھی اور مکان کا کرایہ پانچ ہزار تھا جو وہ ادا نہ کر سکتے تھے۔ شریف کی تنخواہ ہم جمع رکھتے، جب اس کے والدین میں سے کوئی آتا تو دے دیا کرتے تھے۔ احسان نے لڑکوں کے والدین کو بتایا کہ تمہارے دونوں بچّے نشے کے عادی ہو رہے ہیں۔ شریف کو تو ہم سنبھال لیں گے، اس کا علاج کروائیں گے مگر اپنے دوسرے بیٹے کی خبر لو، اس سے پہلے کہ پانی سر سے گزر جائے۔ لڑکے کو تم نے شہر میں اکیلا چھوڑ دیا ہے۔ وہ اپنے استاد کے پاس رہتا ہے۔ شریف کے باپ نے کہا۔ بال کاٹنے کا ہنر سیکھ لے گا تو اپنی دکان کر لے گا۔ استاد نے خیال نہیں کیا، اسی لیے وہ منشیات فروش کے ہتھے چڑھ گیا ہے۔ آپ نے تو شریف کو اسکول میں داخل کروایا، اس کا خیال رکھا، یہ پھر بھی منشیات فروش کے چنگل میں پھنس گیا۔ صاحب ہم غریبوں کا یہی نصیب ہے۔ اسکول، کالج یا آپ پڑھے لکھے لوگ ہمارا نصیب نہیں بدل سکتے۔ شریف کے دادا نے مایوس ہو کر شکوہ کیا۔ آپ دونوں لڑکوں کو ہمارے پاس پہنچا دیں۔ شہر میں ان کی زندگی کیا بنے گی، مزید نکھٹو ہو جائیں گے۔ بوڑھے دادا کی آواز میں صدیوں کا دکھ پنہاں تھا۔ ہم شریف کو اس کے والدین کے حوالے نہ کرنا چاہتے تھے بلکہ پڑھا لکھا کر اس کی قسمت بدلنا چاہتے تھے مگر تعلیم اس کے مقدر میں نہ تھی۔ اس کے وارث ہم سے برگشتہ ہو گئے تھے۔ مجبوراً ہمیں لڑکا ان کے حوالے کرنا پڑا۔ پرائی اولاد کو زبردستی تو نہیں رکھ سکتے تھے۔ یہ حقیقت بھی مدنظر تھی اگر اس لڑکے نے باہر سے کوئی ایسی ویسی چیز لاکر میرے بچوں کو دینی یا کھلانی شروع کر دی تو ہم کیا کریں گے۔ مجھے اور میرے شوہر کو شریف جیسے ہونہار لڑکے کے ضائع ہو جانے کا دکھ تھا۔ سوچا کہ پولیس میں رپورٹ لکھوا کر اس شخص کو پکڑوا دیں جو نہ جانے کتنے گھروں کے چراغ بجھا رہا تھا، کتنے والدین کے کلیجے نوچ رہا تھا اور ان غریب لوگوں کی تباہی کے سامان کر رہا تھا جو اپنے بچوں کو مزدوری یا کوئی ہنر سکھانے کی آرزو میں خود سے دور دوسروں کے حوالے کر جاتے تھے۔ احسان نے اس دکان کے مالک سے رابطہ کیا جس کا یہ ہیئر کٹنگ سیلون تھا۔ اس کو حقیقت سے آگاہ کیا۔ اس نے کہا کہ میں یہ تو کر سکتا ہوں کہ اس شخص کا اپنی دکان پر آنا بند کردوں لیکن لڑکے جو مجھ سے ہیئرکٹنگ سیکھتے ہیں، کلی طور پر ان کے پیروں کو باندھ کر قید نہیں کر سکتا، ان پر نظر رکھنا درحقیقت ان کے ماں باپ کا کام ہے۔ اس سلسلے میں ہم کچھ نہیں کر سکتے۔ ان پر پہرہ بھی نہیں لگا سکتے البتہ جس لڑکے پر شک ہو جائے کہ نشہ کرنے لگا ہے، اس کو اپنی شاگردی سے نکال دیتا ہوں۔ رہ گئی پولیس میں رپورٹ لکھوانے والی بات تو صاحب آپ جو چاہے کریں۔ میں اس معاملے میں نہیں پڑ سکتا۔ محنت کر کے اپنے بال بچوں کا پیٹ پال رہا ہوں، اپنی دکان بند نہیں کروا سکتا۔ صاحب آپ لوگ کس دنیا میں رہتے ہیں، آپ پڑھے لکھے لوگ کسی اور دنیا میں اور یہ جرائم پیشہ لوگ کسی اور دنیا میں رہتے ہیں۔ صاحب پولیس والوں کو ایسے معاملات کا پہلے سے معلوم ہوتا ہے۔ بیکار ہے بھڑوں کے چھتّے میں ہاتھ ڈالنا۔ جرم ہو بھی تو رشوت کی لاٹھی بہت طاقتور ہوتی ہے۔ مجھ غریب کو کسی پولیس تھانے کے چکّر میں نہ پھنسایئے، آپ کے آگے ہاتھ جوڑتا ہوں۔ اس کے گڑگڑانے پر میرے شوہر بے بس ہو گئے لیکن شریف کو تعلیم نہ دلوانے اور کسی لائق بنا نہ پانے کا آج بھی افسوس ہے۔ مسز الف جام پور
null
null
null
null
433
https://www.urduzone.net/pansa-complete-urdu-story/
جمی کلارک جھاڑیوں میں چھپا ہوا تھا۔ یہ کیرولین کے گھر کا باغ تھا۔ وہ کئی روز سے یہاں چھپ کر کیرولین کے معمولات کو نوٹ کر رہا تھا۔ مئی کی شام میں قدرے خنکی تھی، لیکن اس کے کپڑے پسینے میں بھیگ گئے تھے۔ اس کے اعصاب تنے ہوئے تھے اور سانس میں تیزی تھی۔ اس نے ہونٹوں پر زبان پھیر کر اپنے ہونٹوں کو ترکیا۔ آج سے پانچ سال پہلے جو غلطی اس سے ہوگئی تھی۔ اسے اس کی تلافی کرنی تھی۔ وہ پانچ سال سے انتقام کی بھڑکتی آگ کو اپنے اندر کسی آتش فشاں کی طرح دبائے ہوئے تھا۔ وہ اسے بجھا دینا چاہتا تھا۔ اس نے پانچ سال انتظار کیا تھا کہ اس غلطی سے پیدا ہونے والی گرد بیٹھ جائے تو وہ اصل کام کرے جو درحقیقت اس کا مقصد تھا۔ کیرولین کے اپارٹمنٹ کا پچھلا دروازہ پارکنگ کی طرف کھلتا تھا۔ اس نے پچھلی طرف کے بلب کا کنکشن کاٹ دیا تھا۔ اس لئے گھر کے پچھلے حصے میں مکمل اندھیرا تھا۔ یہ اطمینان کر لینے کے بعد کہ اردگرد کوئی نہیں۔ اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹا سا اوزار نکلا اور برآمدے میں جا کر اسے چابی کے سوراخ میں ڈالا۔ کلک کی آواز کے ساتھ ایک دم تالا کھل گیا۔ اس نے آہستہ آہستہ دروازے کا ہینڈل گھمایا تو دروازہ کھل گیا۔ جمی نے اندر جا کر دروازہ پھر بند کر لیا۔ ایک شیطانی مسکراہٹ اس کے باریک ہونٹوں پر پھیل گئی۔ یہ سوچ کر وہ بہت محظوظ ہو رہا تھا کہ آج جب کیرولین گھر واپس آ کر اپنا دروازہ کھولے گی تو وہ کسی بدروح کی طرح اس کے ساتھ ہوگا۔ وہ کچن میں داخل ہوا کل رات وہ کچن کی باہر کھلنے والی کھڑکی سے کیرولین کے تمام معمولات کو دیکھتا رہا تھا۔ تقریباً دس بجے وہ اپنے بیڈروم سے لائونج میں آئی۔ اس نے شب خوابی کا ڈھیلا ڈھالا لباس پہن رکھا تھا۔ اس نے ٹی وی پر خبریں لگائیں اور اس دوران ورزش کرنے لگی۔ جب وہ اپنی کمر پر ہاتھ رکھ کر جھکتی تو اس کے لمبے سنہرے بال کسی آبشار کی طرح معلوم ہونے لگتے۔ جس پر سورج کی روشنی پڑ رہی ہو۔ جب وہ دائیں بائیں مڑتی تو اس کے ریشمیں بال اڑتے ہوئے سنہری بادل کی طرح کبھی اس کے ایک شانے پر ہوتے اور کبھی دوسرے پر پھر وہ اپنے بیڈروم میں واپس چلی گئی اور اس کے کمرے کی لائٹ ایک گھنٹے تک جلتی رہی جس سے ظاہر ہوتا تھا کہ وہ کچھ پڑھ رہی ہے۔ پھر اس نے لائٹ بجھا دی اور اپارٹمنٹ میں صرف اسٹریٹ لائٹ کی روشنی رہ گئی۔ اس اندھیرے کے باوجود اپارٹمنٹ میں چھپنے کی اتنی زیادہ جگہیں نہیں تھیں، وہ اس کے بارے میں سوچنے لگا کہ وہ کہاں کہاں چھپ سکتا ہے۔ اس نے کیرولین کے بیڈ کے نیچے بھی چھپنے کا سوچا یہ اسے ایک بہتر تجویز معلوم ہوئی وہ اس کے نیچے آرام سے جا سکتا تھا۔ اس کی بیڈ شیٹ ویلوٹ کی تھی جس کے کنارے نیچے تک لٹکے ہوئے تھے۔ وہ آرام سے وہاں لیٹ کر اس کے سونے کا انتظار کرسکتا تھا۔ جب وہ سو جاتی تو چپکے سے باہر نکل کر اس کا کام تمام کرسکتا تھا۔ پھر اس کی نگاہ سامنے والی الماری پر پڑی۔ وہ تھوڑی سی کھلی ہوئی تھی۔ جمی نے بڑھ کر اس کا جائزہ لیا وہ الماری اندر سے کافی کشادہ تھی۔ اس میں ایک بڑا بیگ لٹکا ہوا تھا۔ جس کی وجہ سے اس کا دروازہ تھوڑا سا کھلا رہتا تھا۔ جمی کا خیال تھا کہ اس بڑے بیگ میں کیرولین کی شادی کا جوڑا تھا۔ وہ کچھ روز سے اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ اسی دوران اس نے کیرولین کے منگیتر کو بھی دیکھا تھا۔ کل وہ اس بوتیک میں آدھا گھنٹہ رہی تھی۔ جہاں پر عروسی لباس تیار کئے جاتے تھے۔ وہ باہر آئی تھی تو اس کے ہاتھ میں بیگ تھا۔ وہ دل ہی دل میں ہنسا۔ کیرولین بچاری کو کیا پتا کہ اسے اسی عروسی لباس میں دفنایا جائے گا۔ اس الماری میں وہ بہت آسانی سے چھپ سکتا تھا۔ جمی اس کے اندر داخل ہوگیا۔ وہاں دو کوٹ بھی لٹکے ہوئے تھے۔ وہ ان کے درمیان کھڑا ہو جاتا تو پوشیدہ رہ سکتا تھا۔ اگر وہ اتفاقاً الماری کھول بھی لے تو بھی وہ اپنے انجام کو پہنچ ہی جائے گی لیکن یہ ہنگامی انداز ہوگا۔ وہ اپنے منصوبے کے مطابق مزے لے لے کر اسے قتل نہیں کرسکے گا۔ جس طرح اس نے اس کی زندگی کو ایک مسلسل عذاب بنا دیا تھا۔ اس طرح وہ انتقام نہیں لے سکے گا۔ اس نے طے کر لیا تھا کہ آج کیرولین کی زندگی کا آخری دن ہے۔ اس وقت وہ ریسٹورنٹ میں اپنے منگیتر کے ساتھ بیٹھی ہوئی تھی اور دونوں اگلے ہفتے ہونے والی شادی کا منصوبہ بنا رہے تھے کہ سب کچھ کس طرح سے کیا جائے گا۔ جمی کا اندازہ تھا کہ وہ گھنٹے بھر میں واپس آ جائے گی۔ اسی لئے وہ اس کے اپارٹمنٹ میں چلا آیا تھا تاکہ اپنے چھپنے کی جگہ اور منصوبے کی باقی کڑیوں کے بارے میں بھی ضروری منصوبہ بندی کرلے۔ اس نے الماری سے مشروب کا ایک ٹن نکالا اور ایک آرام کرسی پر بیٹھ کر اس سے لطف اندوز ہونے لگا۔ اس کا طائر خیال پانچ ساڑھے پانچ سال پیچھے پرواز کرتا، ان یادوں میں کھو گیا۔ جب وہ فائن آرٹس کے کالج میں ڈرامہ کے مختلف شعبوں میں پڑھائی کر رہے تھے۔ کیرولین نے ڈائریکشن میں خصوصی تعلیم حاصل کی تھی۔ وہ دو تین ڈرامے ڈائریکٹ کرچکی تھی۔اس کے ہر ڈرامے میں وہ بھی کوئی نہ کوئی کردار ادا کرتا تھا۔وہ کالج میں ایک اچھا اداکار سمجھا جاتا تھا۔ ایک ڈرامے میں تو اس نے ایک کردار ایسا کیا تھا کہ سب اسے اسی کردار کے نام سے پکارنے لگے تھے۔ زیادہ تر لوگ اسے جمی کے بجائے برائن کہتے تھے۔ پھر کیرولین نے ایک اور بڑا ڈرامہ ڈائریکٹ کیا۔ اس میں جمی کو بھی ایک کردار دیا گیا تھا۔ وہ اچھا بھلا اس کی ریہرسل کر رہا تھا کہ ڈرامہ نائٹ سے دو ہفتے پہلے کیرولین نے اس سے وہ کردار لے کر برائن کو دے دیا اور بولی۔ یہ کردار تمہارے لئے مناسب نہیں جمی تم بھائی کا کردار لے لو تم یہ بہتر کرسکتے ہو۔ جمی یہ بات کبھی نہیں بھلا پایا تھا۔ جیسے جیسے وقت گزرا۔ اس کی سنگینی بڑھتی جا رہی تھی۔ اس ڈرامہ نائٹ میں ایک مشہور ڈائریکٹر بھی مدعو تھا۔ اس نے برائن کو ایک ٹی وی سیریل میں کام کرنے کے لئے بک کرلیا، جس کی تقریباً دو سو قسطیں تھیں۔ پھر برائن کو ایک فلم کے لئے منتخب کر لیا گیا۔ یہ بات اس کے دل سے کبھی نہیں نکلی کہ اگر کیرولین اسے وہ کردار کرنے دیتی تو برائن کے بجائے وہ ایک مشہور اداکار ہوتا اور فلم میں کام کر رہا ہوتا۔ وہ اس سب کا ذمہ دار کیرولین کو ٹھہراتا تھا۔ اس نے اس کا کیریئر تباہ کیا تھا۔ وہ اس کے لئے اسے کبھی معاف نہیں کرسکتا تھا۔ اسی لئے جیسے ہی انہوں نے گریجویشن کیا۔ وہ اسی روز کیرولین کے آبائی گھر چلا گیا۔ وہ اپنے جنون میں دیوانگی کی حد تک پہنچ چکا تھا۔ وہ رات اس کے گھر میں داخل ہوا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر پہنچا۔ سامنے کمرے کا دروازہ پوری طرح کھلا ہوا تھا مگر اندر کوئی نہیں تھا دوسرے کمرے کا بند دروازہ اس نے کھولا تو کیرولین اپنے بیڈ پر سو رہی تھی۔ وہ اتنی گہری نیند میں تھی کہ اس نے دروازہ کھلنے کی آواز تک نہیں سنی۔ جمی کو آج بھی وہ سارا منظر اس طرح یاد تھا جیسے کل کا واقعہ ہو وہ ریشمیں بیڈ شیٹ پر سمٹی ہوئی تھی۔ اس کے سنہرے بال تکیے پر سونے کی تاروں کی طرح بکھرے ہوئے تھے۔ وہ اس پر جھکا اور اس نے آہستگی سے پکارا۔ کیرولین اس نے نیند سے بھری آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور گھنیری پلکیں جھپکائیں۔ اس کے گلابی ہونٹوں کو جنبش ہوئی۔ کون جمی نے اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ کر بند کردیا۔ اس کی ہراساں آنکھوں میں خوف کے سائے لہرائے۔ جب جمی نے سرگوشی کی۔ میں تمہیں قتل کرنے والا ہوں کیونکہ تم ہی میرا کیریئر تباہ کرنے والی ہو تمہاری وجہ سے میں اداکار نہیں بن سکا اور اب تم بھی مزید کوئی ڈرامہ ڈائریکٹ نہیں کرسکو گی وہ پوری قوت سے مزاحمت کرنے لگی لیکن جمی نے اسے قابو کر کے اس کے گلے میں بٹی ہوئی مضبوط رسی ڈال دی۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھٹ گئیں۔ ان میں التجا نظر آنے لگی۔ وہ رحم کی بھیک مانگنے لگیں۔ اس نے دونوں بازو اٹھا کر اپنے ہاتھوں سے اسے دھکیلنے کی آخری کوشش کی لیکن ناکام رہی اور جلد ہی اس کے بازو ڈھیلے ہو کر اس کے پہلو میں گر گئے۔ جمی کی انتقام کی آگ ٹھنڈی ہوگئی تھی۔ وہ اطمینان سے اپنے اپارٹمنٹ میں آ کر چین کی نیند سویا۔ اگلی صبح اس نے اخبار کھولا تو اس کے پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ نمایاں سرخی اس کے سامنے چیخ رہی تھی۔ مشہور بینکر پال کی اکیس سالہ بیٹی لیزا اپنی جڑواں بہن کیرولین کے پاس مردہ پائی گئی۔ ان کے آبائی گھر میں دونوں جڑواں بہنیں اکیلی تھیں اس کی بہن کیرولین سکتے کی حالت میں ہے اور کوئی بیان دینے کے قابل نہیں ٭ ٭ ٭ جمی کے لئے بھی یہ تمام واقعہ کسی دھچکے سے کم نہیں تھا۔ اس کا مقصد حل نہیں ہو سکا تھا اور ایک قتل بھی اس کے کھاتے میں آ گیا تھا۔ یہ اس کی خوش قسمتی تھی کہ پولیس کو اس کا کوئی سراغ نہیں مل سکا۔ وہ ہر روز اس کیس کے بارے میں اخبارات میں دیکھتا رہتا تھا۔ رفتہ رفتہ پولیس نے اسے اندھا قتل قرار دے دیا اور معاملہ دب گیا وہ بھی خاموش رہا اور وقت گزرنے کا انتظار کرتا رہا۔ پھر اس نے اخبار میں دیکھا کہ کیرولین ایک پروفیسر سے شادی کر رہی ہے۔ اس کے تن بدن میں آگ لگ گئی۔ وہ اس کی زندگی برباد کر کے اپنا گھر کیسے آباد کرسکتی تھی۔ وہ اسے پریشان کر کے خود کیسے ہنسی خوشی زندگی بسر کر سکتی تھی۔ اگر اسے معلوم ہوتا کہ اس کی کوئی جڑواں بہن بھی ہے تو وہ کبھی غلطی نہ کرتا اور کیرولین کو موت کی نیند سلا کر اپنے سینے میں بھڑکتی آگ کو ٹھنڈا کرلیتا۔ بہرحال آج اس کی یہ خواہش پوری ہونے والی تھی۔ وہ کیرولین کے انتظار میں اس کے اپارٹمنٹ میں موجود تھا۔ کافی دیر ہوچکی تھی۔ یقیناً وہ اب آنے ہی والی تھی۔ وہ الماری کے اندر داخل ہوا اور اس کے دو کوٹوں کے درمیان کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنی جیب میں رسی کو ٹٹولا ویسی ہی رسی جیسی کہ اس نے کیرولین کی بہن کا گلا گھونٹنے کے لئے استعمال کی تھی۔ وہ کیرولین کے آنے کا انتظار کرنے لگا۔ اسے الماری میں یوں کھڑے کھڑے تقریباً آدھا گھنٹہ ہوگیا تھا لیکن وہ تھکا نہیں تھا۔ پھر اسے دروازے کے قریب آوازیں سنائی دیں۔ وہ پوری طرح مستعد ہوگیا اور آوازوں کو بڑے غور سے سننے لگا۔ کوئی مردانہ آواز بھی کیرولین کی آواز کے ساتھ تھی۔ دروازہ کھلا اور اس نے لائٹ جلا دی۔ اس کی روشنی چھن چھن کر الماری میں آنے لگی۔ جمی دو کوٹوں کے درمیان دبک گیا۔ اسے امید تھی کہ الماری اچانک کھل جانے پر بھی وہ نظر نہیں آسکے گا۔ مردانہ آواز کیرولین سے مخاطب تھی۔ کیرولین میں نہیں چاہتا کہ تم اکیلی یہاں رہو۔ میرا خیال ہے۔ میں یہیں رک جاتا ہوں تم بیڈ روم میں سو جانا میں لائونج میں صوفے پر سو جائوں گا۔ نہیں شکریہ میں ٹھیک ہوں میری اداسی کی وجہ یہ ہے کہ آج میری بہن کی برسی ہے۔ وہ مجھے بہت پیاری تھی۔ آج کا دن گزر جائے گا میں کل سے شادی کی تیاری میں مصروف ہو جائوں گی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔ میں بھی اسی انتظار میں ہوں کہ کب وہ وقت آئے گا جب آنکھ کھلتے ہی میری نظر تمہارے خوبصورت چہرے پر پڑے گی تو مجھے کتنا اچھا لگے گا۔ جمی دم سادھے ان کی یہ محبت بھری گفتگو سن رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ پروفیسر نہیں جانتا کہ اس کی یہ آرزو اس کے دل میں ہی رہے گی اور کبھی پوری نہیں ہو پائے گی۔ وہ بے چینی سے انتظار کر رہا تھا کہ کب پروفیسر رخصت ہو اور وہ اپنے ارادوں کو عملی جامہ پہنائے۔ چند اور رومانوی باتوں کے بعد وہ چلا گیا اور اسے کیرولین کے دروازہ بند کرنے کی آواز سنائی دی۔ پھر وہ واش روم میں گئی۔ جمی انتظار کرتا رہا کہ وہ کب باہر آتی ہے۔ پھر دروازہ کھلا اور وہ لائونج میں آئی۔ اس نے ٹی وی لگایا اور جمی سوچنے لگا کہ اب وہ یقیناً ورزش کر رہی ہوگی لیکن تھوڑی ہی دیر میں اسے بیڈ روم کا دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ پھر بیڈ کے اسپرنگ کے دبنے کی آواز سنائی دی۔ وہ خلاف معمول جلدی سونے کے لئے لیٹ گئی تھی۔ ٭ ٭ ٭ جمی کی ساری حسیں بیدار تھیں۔ اس کے کان ان آہٹوں کی طرف لگے ہوئے تھے جو کیرولین کے بیڈ کی طرف سے آرہی تھیں۔ کچھ دیر تک چادر کے الٹنے پلٹنے اور کروٹیں بدلنے کی آوازیں سنائی دیتی رہیں۔ پھر خاموشی چھا گئی۔ مکمل خاموشی۔ وہ اس کے بیڈ روم سے اتنا دور تھا کہ اس کی سانسوں کی آواز نہیں سن سکتا تھا لیکن اسے اتنا اندازہ ضرور ہوگیا تھا کہ کیرولین سو چکی ہے۔ اس نے آہستہ آہستہ کپڑوں کو ہٹایا اور الماری سے باہر نکلا اور چند لمحے ساکت کھڑا رہا۔ اس خیال سے کہ کیرولین کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے آتا ہے یا نہیں۔ اس طرف سے اطمینان کرلینے کے بعد وہ دبے پائوں اس کے بیڈروم میں داخل ہوا۔ جہاں نائٹ بلب کی ہلکی ہلکی روشنی دھند کی طرح پھیلی ہوئی تھی۔ کیرولین نیند میں بے چین تھی اور کبھی کبھی اپنا سر تکیے پر دائیں بائیں پٹختی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ پنجوں کے بل اس کے بیڈ کے برابر آگیا۔ گھٹنوں کے بل بیٹھ کر وہ ایک طویل لمحے تک اس کی طرف دیکھتا رہا۔ کیرولین نے اچانک آنکھیں کھول دیں۔ غیرارادی طور پر جمی نے فوراً اپنے ہاتھ سے اس کا منہ بند کردیا۔ اس کی آنکھیں پوری طرح سے کھل گئیں۔ وہ سانس لینے کے لئے تڑپنے لگی۔ جمی نے ہاتھ اس کے منہ سے ذرا سا سرکایا اور اس پر جھک کر سرگوشی کی۔ کیرولین میں اپنی غلطی درست کرنے کے لئے آیا ہوں۔ پھر طنزیہ لہجے میں بولا۔ کیرولین مارشل عظیم ڈائریکٹر وہ کانپ گئی، مگر منہ بند ہونے کی وجہ سے کچھ کہہ نہیں پائی۔ جمی اس پر جھک کر کہنے لگا۔ میں تمہیں اسی طرح قتل کروں گا جس طرح میں نے تمہاری بہن کو مارا تھا، غلطی سے ایک اداکار اپنے رول کو بار بار دہراتا ہے جب تک کہ وہ اس کو درست طور پر ادا نہیں کرلیتا۔ تم نے میرا کیریئر تباہ کیا ہے۔ میں تمہاری وجہ سے ایک بڑا اداکار نہیں بن سکا تم جانتی ہو کہ میں نے تمہاری بہن سے کیا کہا تھا اس کو قتل کرنے سے پہلے۔ اس کے خوف اور ردعمل کو جاننے کے لئے جمی نے اپنا ہاتھ اس کے منہ پر سے تھوڑا سا ہٹایا۔ مجھے مجھے ضرور بتائو میں اس کے بارے میں سب کچھ جاننا چاہتی ہوں کہ وہ کس طرح قتل ہوئی اور تمہیں شاید معلوم نہیں کہ وہ کیرولین تھی میں لیزا ہوں۔ وہ ہانپتے ہوئے بولی۔ جسے تم نے قتل کیا وہ کیرولین تھی میں اس کی جڑواں بہن لیزا ہوں لیزا جمی نے زور سے اپنا ہاتھ رکھ کر اس کا منہ بند کردیا۔ وہ ٹھٹھک گیا تھا۔ اس کا غصہ آسمان کی بلندیوں کو چھونے لگا۔ یہ لڑکی کیا کہہ رہی تھی اس وقت جبکہ اس کی جان پر بنی تھی وہ اسے بتا چکا تھا کہ وہ اس کو قتل کرنے والا ہے تو وہ یہ کیا کہہ رہی تھی ایک حیران کن بات لیکن وہ اس کی کسی بات پر یقین کرنے کے لئے تیار نہیں تھا۔ اس نے غصے میں بل کھاتے ہوئے اپنی جیب سے وہ بٹی ہوئی رسی نکالی۔ یہ جو کوئی بھی تھی کیرولین یا لیزا وہ اسے بھی موت کے گھاٹ اتار کر رہے گا تاکہ اس کے دل میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے۔ اسے اطمینان ہوجائے کہ اس نے کیرولین سے انتقام لے لیا ہے۔ نہ تم چیخ سکتی ہو نہ کسی کو مدد کے لئے پکار سکتی ہو جس طرح تمہاری بہن کے ساتھ ہوا تھا۔ تم بھی اسی طرح مرو گی جس طرح وہ قتل ہوئی تھی۔ خواہ تم کیرولین ہو یا لیزا لڑکی نے مجنونانہ انداز میں ہاتھ ہلائے اس کی آنکھوں میں بے تابی اور بے قراری نظر آئی۔ یوں جیسے کچھ کہنا چاہتی ہو جمی نے تنبیہ کے انداز میں کہا۔ خبردار جو تم چیخیں یا تم نے کوئی چالاکی دکھانے کی کوشش کی میں تمہارے منہ سے ہاتھ ہٹاتا ہوں بتائو تم کیا کہنا چاہتی ہو اس نے اس کی گردن ذرا سی ہٹا کر رسی اس کے گلے میں ڈال دی اور اسے ایک ڈھیلی گرہ دے دی۔ جسے وہ بوقت ضرورت کس سکتا تھا۔ اس کے اپنے ہاتھ میں اتنی رسی تھی جس سے وہ اس کو قابو میں رکھ سکتا تھا۔ اسی وقت جمی کو احساس ہوا کہ اسے بھوک لگی ہے۔ دن کو اس نے ٹھیک طرح سے کھانا نہیں کھایا تھا۔ یہ سوچ اسے بڑی پرلطف محسوس ہوئی کہ وہ اس لڑکی کو خواہ وہ کیرولین تھی یا لیزا کچھ پکانے کے لئے کہے عظیم ڈائریکٹر کو آج اس کے لئے پکانا پڑے گا۔ جسے وہ کوئی اہمیت نہیں دیتی تھی۔ اس رسی کو ایک ہلکا سا جھٹکا دیا اور بولا۔ سنو مجھے بھوک لگی ہے میرے لئے ایک سینڈوچ اور کافی بنائو۔ لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ وہ یوں ساکت تھی جیسے ذرا بھی حرکت کرے گی تو پھندا اس کا گلا گھونٹ دے گا۔ وہ بغیر کچھ کہے اٹھ کر بیٹھ گئی۔ پھر اس نے بیڈ سے اٹھنا چاہا اور شاید حسب عادت اپنے جوتوں کو تلاش کرنا چاہا اس حرکت سے اس کی گردن کے گرد لگی ہوئی گرہ میں کھنچائو پیدا ہوا۔ اس نے بے ساختہ اپنے ہاتھ اپنی گردن پر رکھ لئے۔ پلیز شٹ اَپ جمی نے اس کی گردن کی گرہ ذرا ڈھیلی کردی۔ ذرا آرام سے چلو اور نہ ہی اپنی آواز بلند کرنا ورنہ تم جہاں ہوگی وہیں تمہیں خودبخود پھانسی لگ جائے گی۔ اس کا خوبصورت چہرہ پیلا پڑ گیا تھا۔ وہ صیاد دیدہ ہرنی کی طرح بار بار وحشت زدہ نظروں سے اس کی طرف دیکھتی تھی۔ وہ اس کے ساتھ ساتھ چلتا لائونج سے گزر کر کچن میں آیا۔ رسی اس کے ہاتھ میں تھی۔ لڑکی نے آگے بڑھ کر فریج کھولا اور اس میں سے مختلف چیزیں نکال کر قریب پڑی ہوئی میز پر رکھنے لگی۔ خشک گوشت پنیر اور انڈے وغیرہ۔ تم کیسا سینڈوچ چاہتے ہو ڈبل روٹی بھی ہے اور اطالوی رول بھی ہیں۔ وہ سہمی ہوئی سی آواز میں منمنائی۔ اطالوی رول میں جو کچھ ڈال سکتی ہو ڈالو۔ جمی بدمزاجی سے بولا۔ اس نے کیتلی میں پانی ڈال کر چولھے پر رکھا اور چھری سے رول کاٹ کر اس میں انڈے، گوشت، پنیر، پیاز اور دوسری چیزیں ڈالنے لگی۔ اس کے ہاتھ ہولے ہولے کانپ رہے تھے۔ جمی کو اس کی حالت دیکھ کر بہت لطف آ رہا تھا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ عام حالات میں تو یہ اس کے لئے کبھی سینڈوچ نہ بناتی جو اس وقت بھیگی بلی بنی بڑی مستعدی سے کام کر رہی ہے۔ پھر اس نے سینڈوچ پلیٹ میں رکھا اور اس کی طرف بڑھایا اور رک رک کر بولی۔ تم نے مجھے اپنا نام بتایا تھا لیکن مجھے یاد نہیں جمی نے چونک کر اس کی طرف دیکھا اور مشکوک لہجے میں بولا۔ یہ تم اداکاری کر رہی ہو یا واقعی تم مجھے نہیں پہچانتیں نہیں میں آج تمہیں پہلی بار دیکھ رہی ہوں۔ وہ جھجک کر بولی۔ میرا نام جیمز ہے مگر زیادہ لوگ مجھے جمی کہہ کر پکارتے ہیں۔ جمی نے کافی کے بڑے بڑے گھونٹ لیتے ہوئے کہا۔ وہ دل میں سوچ رہا تھا کہ اس نے کافی اور سینڈوچ اچھا بنایا تھا یا اسے بھوک ہی اتنی لگی تھی کہ اسے یہ سب اچھا لگا تھا۔ بہرحال جو بھی تھا یہ سب کچھ کھا کروہ پہلے سے بہتر محسوس کر رہا تھا مگر اس لڑکی نے اسے عجیب مغالطے میں ڈال دیا تھا۔ کیا وہ واقعی کیرولین نہیں تھی۔ اس کی جڑواں بہن تھی کیا واقعی اس نے کیرولین کو ہی قتل کیا تھا اس نے لڑکی کے گلے میں رسی کی گرہ تھوڑی سی تنگ کی اور غور سے اس کا چہرہ دیکھتے ہوئے بولا۔ تم کہہ رہی ہو کہ تم کیرولین نہیں بلکہ لیزا ہو میں تمہاری بات پر کیوں کر یقین کروں اور اگر یقین کر بھی لوں تو بھی یہ کوئی عقلمندی نہیں ہوگی کہ میں تمہیں چھوڑ دوں۔ اس کے چہرے پر مایوسی چھاگئی۔ اس نے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا تو جمی کو لگا کہ وہ سہمی ہوئی آنکھیں بہت خوبصورت ہیں۔ جڑواں ہونا بھی ایک مصیبت ہے جبکہ شکلیں بھی بالکل ایک جیسی ہوں۔ ہم دونوں میں بہت لڑائیاں ہوتی تھیں۔ میری بہن مجھ پر بہت حکم چلاتی تھی۔ یوں جیسے میری باس ہو اسے ہر وقت اپنی بات منوانے کی عادت تھی۔ جب ہم چھوٹے تھے تو وہ کوئی نہ کوئی شرارت کرتی رہتی تھی اور بعد میں میرا نام لگا دیتی تھی جس کی وجہ سے ڈانٹ مجھے پڑتی تھی۔ اسی لئے میں اس سے نفرت کرنے لگی تھی۔ جب ہم کالج میں داخلہ لینے لگے تو میں نے اس کالج میں داخلہ لینے سے انکار کردیا جہاں وہ داخلہ لے رہی تھی۔ میں اب اس کی اور زیادتیاں برداشت نہیں کرنا چاہتی تھی۔ جس طرح وہ مجھے اسکول میں تنگ کرتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ وہ اسی طرح مجھے کالج میں بھی پریشان کرے گی۔ میں اس سے دور رہنا چاہتی تھی کہ اپنی شناخت بنا سکوں۔ وہ ہمیشہ مجھ پر حاوی رہتی تھی ہر معاملے میں وہ آگے آگے ہو جاتی تھی مجھے دیوار کے ساتھ لگا دیتی تھی، جس رات وہ قتل ہوئی۔ اس رات وہ ٹی وی دیکھنا چاہتی تھی مگر اس کا ٹی وی خراب تھا۔ میں سونا چاہتی تھی۔ اس نے مجھ سے کہا کہ میں اس کے کمرے میں سو جائوں اور وہ میرے بیڈروم میں میرے ٹی وی سیٹ پر اپنی پسند کا پروگرام دیکھے گی۔ پھر میں سو گئی۔ مجھے پتا نہیں چلا کہ اس ساتھ کیا ہوا صبح میں اٹھ کر اپنے کمرے میں آئی تو میں نے کیرولین کو مردہ دیکھا اور بے ہوش ہوگئی۔ مجھے ڈاکٹروں نے دو تین دن سکون آور دوائوں پر رکھا کمرہ بدل جانے کی وجہ سے میرے والدین کو بھی پتا نہ چلا کہ ہم دونوں میں سے کون قتل ہوا ہے میری ماں مجھے کیرولین کہہ رہی تھی کیونکہ وہ اسے زیادہ پسند کرتی تھیں سو میں نے یہی فیصلہ کر لیا کہ میں کیرولین بن کر زندہ رہوں گی تاکہ مجھے ماں کی محبت اس طرح حاصل ہو جس طرح اسے حاصل تھی۔ جمی بڑے غور سے اس کی گفتگو سن رہا تھا۔ وہ اس کے چہرے کے تاثرات پر بھی غور کر رہا تھا۔ اس نے کڑے لہجے میں پوچھا۔ تو تم نے کیرولین بننے کا فیصلہ کرلیا لیکن تم مختلف کالجوں میں پڑھتی تھیں۔ تمہارے شعبے بھی یقیناً الگ ہوں گے تو جب کیرولین کے کالج سے لوگ ملنے آتے تھے تو تم کیا کرتی تھیں اس نے گہرا سانس لیا اور بولی۔ اس میں مجھے کوئی دقت نہیں ہوئی۔ میں دو تین دن شدید صدمے کے زیر اثر رہی تھی۔ اس لئے میرے لئے یہ ظاہر کرنا بہت آسان تھا کہ میری یادداشت کو اس صدمے سے دھچکا پہنچا ہے اور میں ماضی کی بہت سی باتیں بھول گئی ہوں۔ سب نے میرے ساتھ بہت تعاون کیا اور یہی سمجھا کہ میں کسی نفسیاتی مرض کا شکار ہو چکی ہوں۔ جمی بہت غور سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ وہ اسے ایک مختلف لڑکی لگ رہی تھی۔ وہ کیرولین کے مقابلے میں نرم خو اور ملائم تھی۔ وہ کیرولین جیسی اکھڑ اور بددماغ نہیں تھی یا خوف کی وجہ سے ایسی نظر آ رہی تھی۔ اسے صورتحال دلچسپ معلوم ہو رہی تھی۔ اسے قتل کرنے کے لئے ابھی کافی وقت تھا۔ اس کے گلے میں وہ پھندا ڈال چکا تھا۔ بس اسے ایک جھٹکے سے کھینچنا باقی تھا۔ جو چند منٹ میں اس کا کام تمام کردے گا لہٰذا چند منٹ اور اس کی بات سننے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ وہ کہہ رہی تھی۔ میں تمہیں بتانا چاہتی ہوں کہ میرا منگیتر جس سے میں اگلے ہفتے شادی کرنا چاہتی ہوں۔ اس کی دوستی کیرولین کے ساتھ تھی لیکن جب میں نے کیرولین کا روپ دھارا تو مجھ سے کہنے لگا کہ میں پہلے کی بہ نسبت زیادہ اچھی اور بہتر ہوں اور وہ مجھ سے پہلے سے زیادہ محبت کرنے لگا ہے۔ مجھے بھی وہ اچھا لگا۔ اسی لئے میں نے اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کیا۔ جمی بڑی توجہ سے اس کی بات سن رہا تھا۔ اس نے اچانک ہی اس کے بازو پر ہاتھ رکھ دیا اور بولی۔ تم وہ واحد انسان ہو جسے میں نے اپنے اس راز میں شریک کیا ہے میرا یہ راز کسی کے علم میں نہیں تم نے مجھے اس بہن سے نجات دلائی۔ جس نے میری زندگی اجیرن کر رکھی تھی۔ اگرچہ میں اس کے نام سے جی رہی ہوں لیکن بہت خوش اور آسودہ ہوں۔ مجھے یہ دیکھ کر خوشی ہو رہی ہے کہ میرے محسن تم ہو۔ تھوڑے توقف کے بعد وہ بولی۔ میں تمہارے لئے اور کافی بنائوں جمی نے الجھ کر اس کی طرف دیکھا۔ کہیں وہ اس کو بے وقوف بنانے کی کوشش تو نہیں کر رہی لیکن اس کے چہرے پر خوف اور امید و بیم کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اس کی آنکھوں میں رحم کی التجا تھی۔ ایک اور کافی کی پیالی پی لینے میں کوئی حرج نہیں تھا۔ شاید کافی اسے بہتر سوچنے سمجھنے میں مدد دے۔ ہاں بنالو جمی نے کہا اور رسّی کو ہاتھ میں تھامے ہوئے اس کے عقب میں ہوگیا تاکہ اس پر نظر رکھ سکے۔ اس نے پلٹ کر چولھا جلایا جمی اس پر نگاہ رکھے ہوئے تھا اور اسے دیکھ کر خیال آ رہا تھا کہ وہ بہت خوبصورت تھی لیکن وہ پھر بھی اسے زندہ چھوڑنے کا ارادہ نہیں رکھتا تھا۔ وہ جو بھی تھی اس کے جرم کی گواہ بن چکی تھی۔ لڑکی نے کافی پیالی میں ڈال کر اس کی طرف بڑھائی کافی کے بڑے بڑے گھونٹ لے کر پیالی خالی کرتے ہوئے وہ یہ سوچ رہا تھا کہ وہ اس کے بعد لڑکی کو بیڈروم میں لے جا کر ختم کردے گا۔ جس طرح اس نے اس کی بہن کو نشانہ بنایا تھا۔ وہ منظر اب بھی اس کی آنکھوں کے سامنے پھرتا تھا کہ کس طرح اس لڑکی نے اپنے دونوں ہاتھ یوں اٹھائے تھے جیسے اس کا منہ نوچ لینا چاہتی ہو اس کی ابلی ہوئی آنکھوں سے خوف اور نفرت جھانک رہی تھی۔ جیسے اس کو موقع ملے تو اس کو فنا کر ڈالے۔ یہ منظر جب کبھی دن کو اسے یاد آتا تھا تو وہ بہت خوشی محسوس کرتا تھا مگر بعض اوقات رات کو اس کی یاد اسے پسینے میں شرابور کر دیتی تھی۔ اچانک فون کی گھنٹی خاموش رات میں گونج اٹھی۔ لڑکی بدک گئی لیکن پھر اس نے خود پر قابو پا لیا اور پرسکون ہوگئی۔ مگر اس کے چہرے کے تاثرات سے جمی کو اندازہ ہوگیا تھا۔ جیسے وہ جانتی ہے کہ فون کس کا ہوسکتا ہے۔ فون کی دوسری اور پھر تیسری گھنٹی بجی جمی نے اپنی پشت پر پسینے کے قطرات کو پھسلتے ہوئے محسوس کیا اور درشتی سے بولا۔ اس کی طرف دھیان مت دو۔ اس نے خوبصورت نیلی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور بولی۔ جمی میں جانتی ہوں کہ اس وقت میرا منگیتر ہی فون کرسکتا ہے۔ اگر میں نے فون نہ اٹھایا تو وہ یہی سمجھے گا کہ کوئی گڑبڑ ہے اور یہاں آ جائے گا میں نہیں چاہتی کہ وہ پریشان ہو کر یہاں آ جائے۔ جمی نے اس کی بات پر غور کیا اور اسے اس کی بات معقول معلوم ہوئی۔ وہ درست کہہ رہی تھی۔ ان کی شادی میں ایک ہفتہ باقی تھا۔ ایسے حالات میں یقیناً رومانوی جذبات عروج پر ہوتے ہیں۔ ان ہی کے زیر اثر وہ فون کا جواب نہ ملنے پر یہاں آ بھی سکتا تھا۔ فون کی گھنٹی مسلسل بجتی جا رہی تھی۔ اس سنگین ماحول میں اس کی آواز دماغ پر ہتھوڑے کی طرح برس رہی تھی۔ لڑکی پھر کہنے لگی۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ یہاں آئے مجھے تم سے بات کرنی ہے۔ میں تمہیں قائل کرنا چاہتی ہوں کہ میں لیزا ہوں کیرولین نہیں اس کے آنے سے کہیں کوئی بدمزگی پیدا نہ ہو جائے۔ فون کی گھنٹی پھر بجی۔ جمی نے فون کا بٹن دبایا تاکہ آواز سنی جا سکے۔ اس نے ریسیور اٹھا کر اس کے ہاتھ میں پکڑایا اور رسی کو اس طرح کھینچا کہ اس کا پھندا لڑکی کی گردن کے گرد تنگ ہوگیا۔ اس کا دم گھٹا تو وہ کھانسنے لگی۔ جمی نے اسے اشارہ کیا کہ وہ بات کرے اس نے رسی کو ذرا سا ڈھیلا کردیا۔ ہیلو لڑکی نے کہا۔ جمی اس کی عقلمندی کا قائل ہوگیا۔ اس نے اپنی آواز کو ایسا بنا لیا تھا جیسے وہ نیند سے جاگی ہو۔ اوہ کیرولین سوری ڈارلنگ تم کو میں نے جگا دیا بس میرا دل نہیں لگ رہا تھا میں نے کہا۔ تمہیں ایک بار پھر بتا دوں کہ میں تم سے بہت محبت کرتا ہوں۔ میں تمہیں بہت خوش رکھوں گا ہم ایک دوسرے کے لئے زندگی کو بہت خوشگوار بنا دیں گے کیرولین میں نے تمہیں بے آرام تو نہیں کیا اس کے انداز میں گہری محبت اور لگائو تھا لڑکی کے چہرے پر بھی خوشی آگئی تھی۔ نہیں شوان مجھے بہت اچھا لگا ہے کہ تم نے فون کیا۔ تمہاری آواز سن کر مجھے تمہاری محبت نے گھیر لیا ہے۔ میں ایسا محسوس کر رہی ہوں جیسے تم میرے پاس ہو۔ تمہیں اپنا عروسی لباس پسند آیا میرے دل میں حسرت ہے کہ میں کب تمہیں اس لباس میں دیکھ سکوں گا۔ وہ جذباتی انداز میں بول رہا تھا۔ لڑکی اس کے جواب میں کچھ کہنا چاہتی تھی لیکن جمی نے اسے اشارہ کیا کہ وہ جلد بات ختم کرے۔ وہ یہاں ان کی رومانوی گفتگو نہیں سننے آیا تھا۔ وہ اسے قتل کرنے آیا تھا۔ وہ اس سے تھوڑی دیر گپ شپ کر کے اپنا کام ختم کرنا چاہتا تھا۔ مگر وہ لڑکی اپنے انجام سے بے خبر اپنے منگیتر سے شادی کے جوڑے کے بارے میں بات کر رہی تھی۔ ڈارلنگ کیا تم نے سیلز گرل سے کہا تھا کہ وہ میرے جوڑے کے بازوئوں میں ٹشو پیپر اچھی طرح بھر دے تاکہ ان میں شکنیں نہ پڑیں۔ چند لمحوں کی خاموشی کے بعد اس کے منگیتر نے کہا۔ ہاں مجھے یاد ہے۔ میں نے اس کو تاکید کردی تھی اچھا اب سو جائو میں صبح تم سے ملوں گا تم تمام رات میرے ہی سپنے دیکھنا جمی نے تنبیہی انداز میں اس کے گلے کی رسی کو کھینچا تو اس نے گڈنائٹ کہہ کر فون بند کردیا اور بولی۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ اسے کسی قسم کا کوئی شک ہو۔ اس لئے میں اس طرح سے بات کر رہی تھی۔ ہوں جمی نے اس کی طرف دیکھا۔ اس کی شفاف پیشانی پر پسینے کے چھوٹے چھوٹے قطرے نمودار ہو رہے تھے۔ اس کی آنکھوں میں خوف تھا۔ وہ یونہی اس کو چکمہ دینے کو بولا۔ مجھے تمہاری باتوں پر کچھ کچھ یقین آ رہا ہے کیونکہ ایکٹر برائن کی شکل و صورت مجھ سے کافی ملتی ہے۔ جس سے اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں۔ اوہ اچھا مجھے اداکاروں کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں یہ شعبہ کیرولین کا تھا لیکن یہ بات سن کر میرے ذہن میں ایک بات آئی ہے۔ لڑکی نے کہا۔ وہ کیا جمی نے پوچھا۔ دیکھو مجھے مارنے سے تمہیں کچھ حاصل نہیں ہوگا لیکن اگر وہ ایکٹر راستے سے ہٹ جائے تو فلموں اور ڈراموں والے فوراً تمہاری طرف متوجہ ہوں گے۔ کیونکہ انہیں اپنی ادھوری فلمیں اور ڈرامے مکمل کرنے ہوں گے تم بالکل اسی طرح کرسکتے ہو جس طرح میں لیزا کے بجائے کیرولین کا کردار نبھا رہی ہوں مگر کسی کو پتا نہیں چلا تم وہ پہلے انسان ہو جس کو یہ خبر ہوئی ہے۔ جمی نے چند لمحے اس پر غور کیا۔ یہ کیسی انوکھی بات تھی۔ جو اس نے کہہ دی تھی۔ اس نے کبھی ایسا سوچا بھی نہیں تھا۔ حالانکہ کیرولین کے بعد برائن ہی وہ شخص تھا جس کی وجہ سے وہ اداکاری میں کوئی بڑا مقام حاصل نہیں کر پایا تھا۔ مگر یہ کیسے ہوسکتا ہے اس نے قدرے حیرت سے جیسے اپنے آپ سے کہا۔ یہ بڑی آسانی سے ہوسکتا ہے بعض اوقات ایکسیڈنٹ بھی تو ہو جاتے ہیں کوئی اچانک کسی گاڑی کی زد میں آ جاتا ہے ڈرائیور کا پتا ہی نہیں چلتا یا وکیل اسے چھڑا لے جاتے ہیں۔ تمہیں مجھے مارنے سے کچھ حاصل نہیں ہوگا کیونکہ کیرولین کو قتل کر کے تم اپنا مقصد حاصل کر چکے ہو ہاں اگر تم مجھے چھوڑ دو تو میں تمہاری مدد کرسکتی ہوں۔ اس نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر انہیں تر کیا۔ جمی کو برائن کی وہ کھٹارا گاڑی یاد آگئی۔ جسے وہ کالج کے زمانے میں چلاتا تھا۔ اکثر اس کی کار اس کے برابر سے بھی گزرتی تھی لیکن اب تو وہ بے حد قیمتی گاڑیوں میں سفر کرتا تھا۔ کیونکہ وہ ایک مشہور ہیرو بن چکا تھا۔ لڑکی کی تجویز اچھی تھی۔ اگر برائن اس دنیا میں نہ رہے تو کیا فرق پڑے گا کچھ بھی نہیں البتہ یہ ہوگا کہ وہ اس کی جگہ لے سکے گا۔ اس کے دل کی حسرت پوری ہو جائے گی کہ وہ ایک بڑا اداکار اس کی صلاحیتوں کو تسلیم کیا جائے۔ اس نے غیر ارادی طور پر اس کے گلے میں ڈالی ہوئی رسی کی گرہ ذرا ڈھیلی کردی۔ وہ اس کے بولنے سے پہلے پھر بول پڑی۔ کسی سے نجات حاصل کرنے کا ایک اور طریقہ زہر بھی ہے۔ میرے منگیتر کا ایک دوست گزشتہ دنوں بتا رہا تھا کہ اب ایسے زہر بھی ایجاد کر لئے گئے ہیں جن کا انسانی جسم میں کوئی سراغ نہیں ملتا لیکن وہ اپنا کام کرلیتے ہیں۔ اس نے ایک زہر کے بارے میں بتایا وہ جن چیزوں سے بنتا ہے۔ وہ ہر گھر کے فرسٹ ایڈ بکس میں موجود ہوتی ہیں اور بس اس کے صرف چند قطرے ہی کافی ہوتے ہیں۔ ابھی ابھی میرے ذہن میں یہ آئیڈیا آیا ہے کہ اگر میں برائن کو فون کروں۔ کیرولین اس کی پہلی ڈائریکٹر رہی ہے۔ وہ یقیناً ملاقات پر رضامند ہو جائے گا انکار نہیں کرے گا۔ پھر جمی نے سوال کیا۔ وہ اپنے اندر ایک جوش اور بے قراری سی محسوس کر رہا تھا۔ شوان کے دوست نے بتایا تھا کہ ایک زہر ایسا بھی ہے جو بہت سست رفتاری سے اثر کرتا ہے بلکہ پہلے چار دن تو اس کا کوئی اثر ظاہر نہیں ہوتا پھر وہ اپنا کام دکھانے میں ہفتہ دس دن لیتا ہے۔ انسانی جسم سے اس کا کوئی سراغ نہیں ملتا اس طرح کسی کو پتا نہیں چل سکے گا کہ برائن نے کالج کی ایک پرانی دوست کے ساتھ کافی پی تھی۔ جمی اس کی بات بڑے غور سے سن رہا تھا دل ہی دل میں سوچتا بھی جا رہا تھا کہ اگر یہ لڑکی جو کچھ بیان کر رہی ہے حقیقت کا روپ دھار لے تو اس کی زندگی میں کتنا بڑا انقلاب آسکتا تھا۔ اس کا دیرینہ خواب جو تشنۂ تعبیر تھا بالآخر تکمیل کو پہنچے گا۔ یہ اسی صورت میں ممکن تھا کہ برائن اس دنیا میں نہ رہے اور اسے موقع دیا جائے تو وہ خود کو دنیا کا عظیم ترین اداکار ثابت کرسکتا تھا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے تالیاں بجاتے ہوئے اور اسے داد و تحسین دیتے ہوئے تماشائی گھوم گئے۔ اس نے لڑکی کی طرف دیکھا جو خاموشی سے اس کی جانب امید بھری نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ جمی نے اس کی ٹھوڑی تلے ہاتھ رکھ کر کڑے لہجے میں پوچھا۔ فرض کرو کہ میں تم پر یقین کرلوں تو تم اپنی اس ترکیب کو عملی جامہ پہنانے میں کتنی دیر لگائو گی۔ دو ہفتے برائن ایک مشہور اداکار ہے۔ اس سے وقت لینے میں کچھ عرصہ تو لگے گا۔ جمی سوچنے لگا برائن کی نئی فلم آنے میں دو مہینے باقی تھے۔ اگر وہ اس دوران ہمیشہ کے لئے منظر سے غائب ہو جاتا ہے تو پروڈیوسر کو فلم مکمل کروانے کے لئے اس سے مشابہت رکھنے والے کسی اداکار کی ضرورت ہوگی، اس طرح اس کی قسمت جاگ اٹھے گی۔ اس نے پہلے ہی برائن کے بالوں کا انداز اختیار کر رکھا تھا۔ جس کی وجہ سے وہ پہلی نظر میں برائن ہی معلوم ہوتا تھا۔ فلم پروڈیوسر یقینا برائن کی جگہ اس کو ترجیح دیں گے۔ تو ٹھیک ہے اس نے لڑکی کو کھینچ کر اس کے قدموں پر کھڑا کردیا۔ اچھا میں یہ رسی فی الحال تمہاری گردن سے نکال دیتا ہوں لیکن یہ یاد رکھنا کہ یہ رسی ہر وقت میری جیب میں رہے گی۔ میں اس وقت یہاں سے چلا جاتا ہوں لیکن ہم نے آپس میں جو معاہدہ کیا ہے اگر تم نے اس کی خلاف ورزی کی تو سمجھ لینا کہ میں کسی بھی رات تمہارے یہاں آ دھمکوںگا اور وہ رات تمہاری زندگی کی آخری رات ہوگی۔ اس نے رسی کی گرہ ڈھیلی کرکے اس کی گردن میں سے اس کو نکال دیا۔ نہیں تم فکر نہ کرو میں وعدہ پورا کروں گی۔ لڑکی نے خشک ہونٹوں سے بمشکل کہا۔ اس کی سہمی ہوئی ہراساں آنکھوں سے خوف قدرے کم ہوا اور اس نے ایک گہرا سانس لیا، جیسے ایک عرصے بعد اسے ہوا میسر آئی ہو۔ اچھا میں چلتا ہوں۔ جمی نے اسے مخاطب کرکے کہا اور پچھلے دروازے کی طرف چلا جہاں سے وہ گھر میں داخل ہوا تھا اور دروازے کی زنجیر اتاری۔ لڑکی بھی اس کے ساتھ تھی۔ دروازہ کھلا اور خنک رات کی خوشگوار ہوا نے اس کے چہرے کو چھوا۔ وہ اس کی طرف مڑ کر بولا۔ تم نے تو کبھی میری اداکاری نہیں دیکھی میں واقعی ایک بہت اچھا اداکار ہوں۔ ہاں مجھے معلوم ہے کہ تم بہت اچھے اداکار ہو تمہیں یاد ہے جب تم نے ایک ڈرامے میں برائن کا کردار ادا کیا تھا تو سب تمہیں برائن کہنے لگے تھے۔ لڑکی بے ساختہ کہہ گئی فوراً ہی اس کا منہ فق ہوگیا۔ جمی غصے سے پاگل ہوگیا۔ اس نے دروازہ بند کردیا اور اس کی طرف گھورتے ہوئے بولا۔ اگر تم لیزا ہو تو تمہیں یہ کیسے پتا چلا اس نے دونوں ہاتھ اس کی گردن کی طرف بڑھاتے ہوئے دانت پیس کرکہا۔ اچھا تو تم مجھے بے وقوف بنا رہی تھیں۔ تم تو مجھ سے بھی بڑی اداکارہ ہو تم نے ایسی اداکاری کی کہ مجھے پتا نہیں چلنے دیا کہ تم کیرولین ہو دھوکے باز میں تمہیں اب اور ڈرامہ نہیں کرنے دوں گا۔ تم ابھی اپنے انجام کو پہنچو گی۔ اس کے ہاتھوں کو جھٹک کر کیرولین وحشت زدگی سے چیختی ہوئی مرکزی دروازے کی طرف دوڑی۔ جمی بھی اس کے پیچھے لپکا کیرولین نے دروازے کے لاک پر ہاتھ ڈالا لیکن جمی اس کے سر پر تھا۔ اس نے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا تو وہ ہاتھ چھڑا کر بڑے آرام سے کرسی کے پیچھے چلی گئی۔ لیکن جمی کرسی کو پھلانگ کر اس کی طرف بڑھا اور اسے دیوار کے ساتھ لگا کر رسی اس کے گلے میں ڈال دی۔ اس کی آنکھیں وحشت سے پھٹ گئیں اور وہ گھٹنوں کے بل زمین پر آ رہی۔ جمی نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ کیرولین تمہارا ڈرامہ ختم ہو چکا ہے تم نے اتنی اچھی اداکاری کی ہے کہ میں واقعی تمہارے فریب میں آگیا تھا۔ وہ دونوں ہاتھوں سے اپنے گلے کا پھندا ڈھیلا کرنے کی کوشش کرنے لگی۔ وہ اس کی جانب جھک رہی تھی تاکہ اس کے گلے میں پڑا ہوا پھندا سخت نہ ہو جائے اس کی آنکھیں ابلی ہوئی تھیں اور وہ دونوں ہاتھوں سے رسی کو ڈھیلا کرنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اچانک مرکزی دروازہ ٹوٹ گیا اور چند لوگ دوڑتے ہوئے اندر آئے۔ ان میں کچھ پولیس والے بھی تھے۔ ایک شخص نے پوری قوت سے اسے دھکا دیا۔ وہ اتنی زور سے کھڑکی کے ساتھ ٹکرایا کہ شیشہ ٹکڑے ٹکڑے ہو کر زمین پر گرنے لگا۔ پولیس اہلکار نے آگے بڑھ کر اسے ہتھکڑی لگا دی۔ لمحے بھر میں بدلے ہوئے حالات کو وہ حیرت سے دیکھ رہا تھا۔ کیرولین کا منگیتر اس کی گردن سے رسی نکال کر اسے صوفے پر لٹا رہا تھا۔ اس کا منگیتر کہہ رہا تھا۔ جب تم نے مجھ سے فون پر بات کی تو تمہارے فون کا کانفرنس بٹن آن تھا۔ جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ تم گھر میں اکیلی نہیں ہو تمہارے ساتھ کوئی اور بھی ہے جو اس کال کو سننا چاہتا ہے جب تم نے اپنے عروسی جوڑے کی آستینوں کا ذکر کیا تو مجھے یاد آیا کہ تمہارے جوڑے میں تو آستینیں نہیں ہیں۔ بس اس سے مجھے خیال ہوا کہ تمہارے ساتھ ضرور کوئی گڑبڑ ہے۔ میں نے ایمرجنسی کو فون کیا اور آندھی طوفان کی طرح تمہارے گھر کی طرف روانہ ہو گیا اوہ کیرولین اگر تمہیں کچھ ہو جاتا تو میں جیتے جی مر جاتا۔ ختم شد
null
null
null
null
434
https://www.urduzone.net/saya-complete-urdu-story/
خبر ہی ایسی تھی کہ صدف کے ہاتھ سے موبائل فون گرتے گرتے بچا اور اسے محسوس ہونے لگا کہ زمین گھوم رہی ہے اور ہر طرف اندھیرا چھانے لگا ہے۔ اس کے لیے کھڑا رہنا مشکل ہورہا تھا، جسم میں جیسے جان ہی نہیں رہی تھی۔ صدف نے گرتے گرتے کرسی کو پکڑا اور پھر اسی کرسی پر بیٹھ گئی۔ دوسری طرف بدستور ہیلو ہیلو کی آوازیں آرہی تھیں، لیکن صدف کے لیے بات کرنا مشکل ہوگیا تھا اور اس نے موبائل فون ایک طرف رکھ دیا اور آنکھوں سے نکلنے والے آنسوئوں کو روکنا بھی اس کے اختیار میں نہیں رہا تھا۔ ابھی دبئی سے فون آیا تھا کہ اویس کار ایکسیڈنٹ میں شدید زخمی ہوگیا ہے اور اس وقت وہ اسپتال میں ہے۔ صدف کے لیے یہ خبر بجلی بن کر گری تھی اور وہ شدت غم میں مبتلا ہوگئی تھی۔ اویس اور صدف آپس میں کزن تھے اور یہ رشتے داری پہلے دوستی میں تبدیل ہوئی پھر دونوں نے منگنی کرلی۔ دونوں ایک دوسرے کو بہت چاہتے تھے، وہ ایک دوسرے سے ٹوٹ کر محبت کرتے تھے۔ صدف کا باپ ایک بزنس مین تھا لیکن اویس کے مقابلے میں وہ آٹے میں نمک کے برابر تھا۔ اویس کا کاروبار دوسرے ممالک میں بھی پھیلا ہوا تھا، اس کے پاس بے حساب دولت تھی لیکن اتنے وسیع کاروبار کا وہ تنہا وارث تھا۔ دو سال قبل اس کے والدین چھ ماہ کے فرق سے اسے چھوڑ کر آسمانوں کی بلندیوں پر بسیرا کرچکے تھے۔ اتنی بڑی جائداد، کاروبار اور دولت کے وارث کو بھلا کون رشتہ نہ دیتا۔ اویس اور صدف ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے، اس بات کا خاندان کے سبھی لوگوں کو پتا تھا لیکن اس کے باوجود خاندان کی لڑکیوں کی کوشش تھی کہ وہ کسی طرح اویس کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں اور صدف کی جگہ انہیں مل جائے لیکن کسی کو صدف کی جگہ تو دور کی بات اس کے سائے تک بھی رسائی نہیں مل سکی۔ اس وجہ سے خاندان کی لڑکیاں صدف سے حسد کرتی تھیں۔ کچھ اس سے سیدھے منہ بات نہیں کرتی تھیں اور کوئی اسے طنز کا نشانہ بھی بنادیتی تھی۔ صدف ہر بات کو مسکرا کر ٹال دیتی تھی۔ اویس اپنے کاروبار کے سلسلے میں دبئی گیا ہوا تھا۔ اُن دنوں جب بھی اویس کے پاس فرصت کے لمحات ہوتے ایک دوسرے سے بات ہوتی تھی۔ ویسے بھی ان کی اگلے ماہ شادی تھی، دبئی جانے سے پہلے اویس شادی کا دن مقرر کرکے گیا تھا۔ اب صدف کو اویس کے حادثے کی اطلاع ملی تو وہ غم میں نڈھال ہوگئی تھی۔ اس کی امی کمرے میں آئیں تو اس نے دیکھا کہ صدف بیٹھی رو رہی ہے۔ اس کی امی کے بار بار پوچھنے پر صدف نے ہچکیوں کے درمیان بتایا کہ اویس کا ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ یہ خبر اس کی امی کے لیے بھی بہت درد ناک تھی۔ ایک گھنٹے کے اندر پورے خاندان میں یہ خبر پھیل چکی تھی کہ اویس کو دبئی میں حادثہ پیش آگیا ہے۔ سب نے خبر سن کر زبان سے افسوس کا اظہار کیا لیکن ایسا لگتا تھا جیسے ہر کوئی یہ کہنا چاہتا ہو کہ اچھا ہوا صدف کی نظر اب زمین پر آجائے گی۔ حالانکہ صدف نے اس رشتے پر تکبر کی بجائے محض رشک کیا تھا۔ صدف چاہتی تھی کہ کسی طرح وہ اڑ کر دبئی چلی جائے لیکن اس کے پاس پاسپورٹ نہیں تھا۔ حالانکہ اویس نے اسے کئی بار کہا تھا کہ وہ اپنا پاسپورٹ بنوالے کیونکہ شادی کے بعد انہیں ورلڈ ٹور پر ہنی مون کے لیے جانا ہے۔ صدف کی کاہلی ہر بار مانع رہی۔ اب اسے شدت سے احساس ہورہا تھاکہ اس نے اویس کی بات کیوں نہ مانی۔ صدف کا باپ اپنے ملک میں ہی کاروبار کرتا تھا کبھی بیرون ملک گیا تھا اور نہ اسے بیرون ملک جانے کی ضرورت پڑی تھی، اس لیے وہ اویس کی تیمار داری کے لیے نہیں جاسکتا تھا۔ صدف کا خاندان محض اب دعا ہی کرسکتا تھا۔ اویس کے دوست کے ساتھ ان کا مسلسل رابطہ تھا، وہ بتارہا تھا کہ اویس کا آپریشن ہورہا ہے۔ شام کو اس نے اطلاع دی کہ اویس کا آپریشن ہوچکا ہے اور اس کی حالت بہتر ہے، کسی طرح کا کوئی خطرہ نہیں ہے۔ جیسے جیسے دن گزر رہے تھے صدف کے لیے ہر لمحہ کانٹوں پر گزارنے کے مترادف تھا، اس کی ابھی تک اویس سے بات نہیں ہوئی تھی۔ حادثے کے چند دن بعد اویس نے صدف سے بات کی تو اس کی آواز سے نہیں لگ رہا تھا کہ کوئی حادثہ پیش آیا ہے۔ وہ بڑے خوشگوار موڈ میں تھا اور ہنس ہنس کر کہہ رہا تھا۔ مشکلوں کا اگر ہمت اور بہادری سے مقابلہ نہ کیا جائے تو پھر یہ مشکلیں انسان پر غالب آجاتی ہیں۔ دیکھو میں نے ہمت سے کام لیا ہے، اس حادثے کو بہادری سے سہا ہے، تم بھی ہمت سے کام لو، میں بہت جلد واپس آجائوں گا۔ میرے لیے وقت گزارنا مشکل ہورہا ہے، میں سونہیں سکتی مجھے ہر وقت تم یاد آتے ہو۔ صدف نے کہا۔ اب میں بالکل ٹھیک ہوں، اگلے ہفتے میں تمہارے پاس ہوں گا۔ اویس نے تسلی دی۔ کاش میں تمہارے پاس آسکتی۔ صدف کی آواز میں تاسف تھا۔ تم میرے پاس ہی ہو، ہر لمحہ میرے پاس ہو۔ اویس نے یقین دلایا۔ مجھے تمہاری فکر رہتی ہے۔ اب سب ٹھیک ہے، تم حوصلہ رکھو، میرے جسم کو کوئی نقصان نہیں پہنچا، بس خراشیں آئی ہیں۔ تو پھر آپریشن کس چیز کا ہوا تھا صدف نے فوراً پوچھا۔ میرے دوست نے خواہ مخواہ آپریشن کا نام دے دیا، وہ محض میری ڈریسنگ تھی مجھے ہلکی چوٹیں آئی ہیں، ان کو ٹھیک ہونے میں کچھ وقت لگے گا، تب تک میں اسپتال میں ہوں۔ مجھے امید ہے کہ میں اگلے ہفتے واپس آجائوں گا۔ اویس کا لہجہ پراعتماد تھا۔ مجھے شدت سے انتظار ہے۔ ایک بات اور کہنا چاہوں گا۔ وہ کیا ہم طے شدہ پروگرام کے مطابق شادی کریں گے۔ اویس نے کہا۔ مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے۔ صدف نے کہا دوسری طرف خاموشی چھاگئی۔ صدف نے کہا۔ ہیلو ہیلو اویس۔ ہاں میں موجود ہوں۔ ذرا پانی پینے کے لیے رکا تھا۔ اویس کی آواز میں کچھ اداسی آگئی تھی جو صدف کو محسوس نہیں ہوئی تھی۔ ٹھیک ہے ہم پھر بات کرتے ہیں، ڈاکٹر صاحب میرے کمرے کی طرف آرہے ہیں۔ صدف کی دو دن تک اویس سے بات نہیں ہوئی، صدف مضطرب رہی اور ہر پل اس کے فون کا انتظار کرتی رہی۔ جب وہ خود اویس کو فون کرنے کی کوشش کرتی تو اویس کا فون بند ملتا، پھر تیسرے دن اچانک اویس کا فون آگیا۔ تم کہاں چلے گئے تھے تمہارا فون مسلسل بند جارہا تھا میں پریشان ہوگئی تھی۔ مجھے بہت سی سوچوں نے گھیرلیا تھا۔ جونہی اویس کی آواز اس نے سنی وہ یکدم بولی۔ ارے سانس تو لے لو، ایک ہی سانس میں گلے شکوے شروع کردیے، میں اسپتال سے گھر منتقل ہوگیا ہوں، ڈاکٹر نے مجھے فون سننے سے منع کردیا تھا۔ اویس مسکرادیا۔ کیوں منع کیا تھا بھئی وہ ڈاکٹر ہیں مجھے کسی بات سے بھی منع کرسکتے ہیں۔ اویس کے لہجے میں شوخی تھی۔ تم واپس کب آرہے ہو بس ایک ہفتے کے بعد۔ اویس بولا۔ اتنے دن ہوگئے ہیں، مجھے برا لگتا ہے کہ تم مجھے اصل صورتحال سے آگاہ نہیں کررہے ہو۔ صدف کو بے چینی ہونے لگی۔ میں تم سے بھلا کیوں کچھ چھپائوں گا، تم میری زندگی اور میری سانسوں میں بستی ہو۔ اتنا رومانٹک ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔ صدف تم مجھ سے اب بھی شادی کروگی اویس کے لہجے میں متانت تھی۔ اب بھی سے کیا مراد ہے تمہاری صدف بھی سنجیدہ ہوگئی۔ مطلب اب بھی۔ اویس کے لہجے میں کوئی تغیر نہیں آیا۔ تم کہنا کیا چاہتے ہو اویس صدف کا چہرہ سنجیدگی میں ڈوب گیا تھا۔ یکدم دوسری طرف سے اویس کے ہنسنے کی آواز آنے لگی۔ صدف کو اس وقت اس کی ہنسی بالکل اچھی نہیں لگ رہی تھی۔ تم ہنس کیوں رہے ہو صدف کو غصہ آنے لگا۔ تمہیں اپنے لیے پریشان دیکھ کر مجھے بہت اچھا لگتا ہے، مجھے احساس ہوتا ہے کہ تم مجھ سے محبت کرتی ہو اور مجھے کبھی نہیں چھوڑوگی، ہمیشہ میرے ساتھ رہو گی، میرا سہارا بن کر اور میری آنکھیں بن کر۔ تم مجھے پریشان کررہے تھے اویس صدف نے منہ بنایا۔ بس ایسے ہی چھیڑ رہا تھا۔ اویس نے کہا۔ ایک بار تم واپس آجائو، پھر سارے بدلے لے لوں گی۔ صدف نے بھی غصہ دکھایا اور پھر دونوں باتوں میں کھوگئے۔ کئی دن گزرگئے تھے لیکن اویس واپس نہیں آیا۔ دوسرے، تیسرے دن ان کی بات ہوجاتی تھی لیکن واپسی کے سوال پر اویس کوئی نہ کوئی عذر پیش کردیتا تھا۔ صدف کو یقین تھا کہ اویس اس سے کچھ نہیں چھپارہا ہے وہ واپس نہ آنے کی جو مجبوری بتاتا ہے یقیناً وہ صحیح ہوگی۔ صدف کی ایک کزن رخسانہ تھی، وہ امیرکبیر باپ کی بیٹی تھی اور اس کی شدید خواہش تھی کہ وہ اویس کی زندگی کی ہمسفر بنے۔ اس کے لیے اس نے اویس کو متاثر کرنے کے لئے بہت سے پاپڑ بیلے تھے اور جب اویس ٹس سے مس نہیں ہوا اور اس کی منگنی صدف سے ہوگئی تھی تو سب سے زیادہ غصہ اور حسد رخسانہ کو ہی ہوا تھا۔ ایک دن وہ مارکیٹ میں صدف کو مل گئی، اس نے اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد اچانک سوال کردیا۔ اویس واپس کیوں نہیں آرہا ہے کچھ مجبوریاں ہیں شاید اس لیے۔ صدف نے غیر واضح جواب دیا۔ مجبوریاں وہ تمہیں بتاتا ہے رخسانہ نے اس کی طرف عجیب سی نظروں سے دیکھا۔ ظاہر ہے مجھے اور کون بتائے گا۔ صدف بولی۔ وہ تمہیں بس مجبوریاں ہی بتاتا ہے یا کوئی اندر کی بات بھی بتاتا ہے۔ رخسانہ کے لہجے میں تمکنت تھی۔ کیا مطلب صدف نے اس کی طرف سوالیہ نگاہوں سے دیکھا۔ آئو میں تمہیں ڈراپ کردوں۔ گاڑی میں باتیں بھی کرلیں گے۔ رخسانہ نے اپنی کار کا لاک کھولا تو صدف سوچنے لگی کہ اب اس کے ساتھ بیٹھنا ہی پڑے گا۔ جانے اس کے دل میں کیا تھا، وہ کونسی ایسی بات تھی جس کا رخسانہ کو پتا تھا لیکن اس کے علم میں نہیں تھی۔ رخسانہ ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھ گئی۔ صدف نے بھی اپنی طرف کا دروازہ کھولا اور اس کی برابر والی سیٹ پر براجمان ہوگئی۔ رخسانہ کار اس جگہ سے نکال کر سڑک پر لے گئی جبکہ صدف مضطرب تھی کہ رخسانہ اپنی بات اس پر واضح کردے۔ کچھ آگے جاکر صدف نے پوچھا۔ تم نے اپنی بات کی وضاحت نہیں کی۔ اس کی بات سن کر رخسانہ مسکرائی، وہ اس کی بے چینی سے دل ہی دل میں لطف اندوز ہورہی تھی۔ اب میں کیا بتائوں کل کو اگر میری بات جھوٹی ہوگئی تو تم مجھے برا بھلا کہو گی کہ میں نے تم سے غلط بیانی کی تھی، اس لیے میرے منہ سے جو بات نکل گئی ہے میرا خیال ہے مجھے اس کی وضاحت نہیں کرنی چاہئے اور اویس کے آنے کا انتظار کرنا چاہئے۔ رخسانہ نے جان بوجھ کر بات کو طوالت دینے کی کوشش کی تاکہ صدف کی بے چینی مزید بڑھ جائے۔ تم نے کوئی بات سنی ہے صدف نے پوچھا۔ ہاں۔ رخسانہ نے کہہ کر اثبات میں سر ہلایا۔ کیا بات سنی ہے صدف کے چہرے پر اضطراب تھا۔ چھوڑو ایسے ہی کل تم مجھ کو کوسو گی اور اگر بات سچ ہے تو پھر اویس کو تمہیں خود بتادینا چاہئے تھا، آخر وہ تم سے محبت کرتا ہے اور تمہارے لیے اس نے خاندان کی خوبصورت اور تم سے کہیں زیادہ دولت مند لڑکیوں کو ٹھکرایا ہے۔ رخسانہ کے لہجے میں تمسخر بھی تھا اور ایسا لگتا تھا جیسے وہ اسے اپنے دل میں سلگتی آگ کی تپش میں مبتلا کرنا چاہتی ہو۔ تم نے مجھے یہ کہنے کے لیے اپنے ساتھ بٹھایا تھا اس کی بات سن کر صدف کو غصہ آگیا۔ یہ ایسے ہی میرے منہ سے ایک بات نکل گئی، میرا کوئی خاص مطلب نہیں تھا۔ رخسانہ نے فوراً بات گھمائی۔ مجھے تم اسی جگہ اتار دو میں رکشہ میں چلی جائوں گی۔ اتنا غصہ آگیا ہے رخسانہ کے الفاظ پھر طنز میں ڈوب گئے۔ ہاں بھئی غصہ تو تم کرو گی ہی کیونکہ تم ہمارے خاندان کے سب سے امیر کبیراور جائداد کے اکلوتے وارث کی منگیتر ہو۔ رخسانہ کیا تم گاڑی روک رہی ہو وہ سخت لہجے میں بولی۔ کیا تم سننا نہیں چاہو گی کہ خاندان میں یہ بات ہر ایک کی زبان پر ہے کہ اویس اپنی دونوں ٹانگوں سے محروم ہوچکا ہے۔ رخسانہ نے یکدم کہا۔ اس کا دل زور سے دھڑکا، اس نے پراحتجاج لہجے میں کہا۔ یہ جھوٹ ہے۔ خدا کرے کہ یہ جھوٹ ہو، میں نے تم سے سنی سنائی بات کی ہے، حقیقت کا تو خود مجھے بھی علم نہیں۔ رخسانہ نے کندھے اچکائے۔ صدف چپ ہوگئی، رخسانہ کا یہی مقصد تھا کہ صدف غمزدہ ہو۔ اس نے کن انکھیوں سے صدف کا اداس چہرہ دیکھا اور اپنے چہرے پر مسکراہٹ لاکر دوسرے ہی لمحے معدوم کی اور بریک لگا کر بولی۔ تمہارا گھر آگیا ہے۔ اس کی بات سن کر صدف چونکی اور کار سے باہر نکل کر اس کا شکریہ ادا کیے بغیر اپنے گھر کی طرف چلی گئی۔ وہ اپنی سوچوں میں اس قدر مستغرق تھی کہ اسے یہ بھی خیال نہ رہا کہ وہ رخسانہ کو ایک کپ چائے پینے کی ہی پیشکش کردے۔ رخسانہ مسکرائی اور اس جگہ سے چلی گئی۔ ٭ ٭ ٭ صدف کا اویس سے کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا، تین دن گزر گئے تھے، وہ بہت اداس تھی۔ اچانک اویس کا فون آگیا، صدف نے جلدی سے فون کان سے لگایا اور غصے سے بولی۔ کہاں چلے جاتے ہو تم کہیں گیا، نہیں بلکہ آیا ہوں۔ دوسری طرف سے اویس کی نرم آواز آئی۔ کہاں آئے ہو اپنے گھر واپس آگیا ہوں۔ اس وقت میں اپنے گھر سے بات کررہا ہوں۔ اویس نے یہ بتا کر اسے ششدر کردیا۔ تم اچانک واپس آگئے میں ابھی آتی ہوں۔ لیکن تم اکیلی آنا ابھی کسی کو ساتھ لے کر نہ آنا۔ اویس نے کہا۔ کیوں اس کی بات سن کر صدف کو حیرت ہوئی۔ اس کا جواب میں یہاں دوں گا۔ اور دیکھو تمہارے گھر کے باہر میرا ڈرائیور کھڑا ہے، تم اس کے ساتھ اکیلی آجائو۔ فون بند ہوگیا تھا۔ صدف نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو ڈرائیور کار لیے موجود تھا۔ صدف نے اپنی امی کو بتایا اور ڈرائیور کے ساتھ چلی گئی، وہ اویس سے ملنے کے لیے بہت بے چین تھی۔ جب کار اویس کے وسیع گھر کے گیراج میں داخل ہوئی تو صدف جلدی سے کار سے باہر نکلی اور اندر چلی گئی۔ سامنے اویس کی ملازمہ کھڑی تھی، اس نے بتایا کہ اویس اپنے بیڈروم میں ہے۔ صدف اس کے بیڈروم کی طرف چلی گئی۔ اس نے دروازہ کھولا تو اویس کو دیکھ کر اسی جگہ رک گئی۔ اس کے سامنے اویس کرسی پر براجمان مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ صدف کی نظریں اس کی ٹانگوں سے ہوتی ہوئی اس کے سرتک چلی گئیں۔ اویس بالکل تندرست اور پہلے جیسا دکھائی دے رہا تھا، بس اس کے سر کے بال چھوٹے ہوگئے تھے۔ دیکھو میری ٹانگیں سلامت ہیں۔ مجھے پتا چلا تھا کہ خاندان میں یہ افواہ اڑی ہے کہ میری ٹانگیں ٹوٹ گئی ہیں اور میں زندگی بھر کے لیے اپاہج ہوگیا ہوں۔ اویس اپنی جگہ سے اٹھا وہ کرسی کے گرد چلا اور پھر کرسی پر بیٹھ گیا، اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی اور وہ مطمئن دکھائی دے رہا تھا۔ مجھے یقین نہیں آرہا کہ میں تمہارے سامنے آکھڑی ہوں۔ صدف خوشگوار حیرت سے چلتی ہوئی اس کے پاس آگئی۔ بیٹھ جائو صدف۔ اویس نے کہا اور صدف اس کے ساتھ رکھی دوسری کرسی پر بیٹھ گئی۔ وہ مسلسل اس کی طرف دیکھے جارہی تھی اور اس کے چہرے پر مسکراہٹ تھی۔ مجھے اچھی طرح دیکھ لو، صدف میرے جسم پر اس وقت کوئی پٹی نہیں ہے، میرے جسم کی ہڈیاں بالکل ٹھیک ہیں، میرے جسم پر آئی ہوئی خراشیں بھی ٹھیک ہوگئی ہیں، میں چل سکتا ہوں، بول سکتا ہوں، اپناکام کرسکتا ہوں اور یہاں آنے کے بعد سب سے پہلے میں نے تم کو فون کیا ہے میں تم سے ملنا چاہتا تھا، میں چاہتا تھا کہ سب سے پہلے تم میرے پاس آئو۔ اسی لیے تم نے مجھ اکیلی کو بلایا تھا ہاں جانتی ہو کہ ہم نے شادی کی تاریخ مقرر کی تھی۔ میں جانتی ہوں۔ صدف نے اثبات میں سر ہلایا۔ کونسی تاریخ اویس نے مسکرا کر پوچھا۔ بائیس تاریخ۔ صدف نے بتایا۔ آج اکیس ہے۔ کل ہماری شادی ہے۔ اویس کی مسکراہٹ مزید گہری ہوگئی اور صدف نے خوشگوار حیرت سے اپنے چہرے کو اپنے ہاتھوں میں چھپالیا۔ مجھے تو یاد ہی نہیں رہا۔ وہ شرمیلے لہجے میں بولی۔ کیا تم مجھ سے شادی کرنا بھول گئی ہو اس حادثے کی وجہ سے میں اتنی پریشان رہی ہوں کہ میں سب کچھ بھول گئی، بس تم یاد رہے۔ صدف بولی۔ تو کیا تم کل میرے ساتھ شادی کرو گی اویس نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا۔ صدف کچھ شرمائی اور مسکراتے ہوئے اس نے اثبات میں سر ہلادیا۔ اویس نے کہا۔ تم نے میری بات کا جواب نہیں دیا۔ میں نے سر ہلایا تو ہے۔ صدف نے کہا۔ سر ہلانے سے کچھ نہیں ہوگا۔ مجھے بتائو کہ تم کل مجھ سے شادی کرو گی۔ اویس بولا۔ ہاں کل میں تم سے شادی کروں گی۔ صدف نے واضح الفاظ میں جواب دیا۔ سوچ لو صدف تم کل مجھ سے شادی کرو گی ایک بار پھر اویس نے پوچھا۔ اس میں سوچنا کیا ہے، یہ ہمارا اور میرے والدین کا فیصلہ تھا جو ہم کل نبھائیں گے۔ صدف بولی۔ جانتی ہو صدف اچانک حادثہ ہوا اور میں اسپتال پہنچ گیا۔ میرے سر پر شدید چوٹیں آئیں، مجھے ایسا لگا جیسے میں مفلوج ہوگیا ہوں جیسے میں زندہ تو رہوں گا لیکن میرا شمار زندوں میں نہیں ہوگا۔ تم ایسا کیوں سوچتے تھے اویس ایسی سوچوں نے چاروں طرف سے گھیر کر مجھے اندھیروں میں دھکیل دیا تھا، اچانک مجھے تم یاد آئیں، پھر جیسے میری مردہ رگوں میں توانائی بھرنے لگی جیسے مجھے توانائی ملنے لگی، جیسے اندھیرے دور ہونے لگے ہوں اور ایک سوچ نے میری تمام سوچوں کو دور دھکیل دیا کہ جب تم میرے ساتھ ہو تو مجھے کس بات کی فکر ہے۔ میں ہر پل تمہارے ساتھ ہوں اویس۔ صدف نے پیار بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اویس اپنی جگہ سے اٹھا اور دو قدم چل کر رک گیا، پھروہ کمرے کے دروازے کی طرف بڑھا اور اپنا ہاتھ دروازے کے ہینڈل کی طرف گھمایا۔ صدف اس کی طرف انہماک سے دیکھ رہی تھی۔ اویس کا ہاتھ دروازے کے ہینڈل پر جانے کی بجائے کچھ فاصلے پر چلا گیا اور اویس نے ہاتھ سے ٹٹولتے ہوئے دروازے کا ہینڈل تلاش کیا تو صدف کا مسکراتا چہرہ یکدم حیرت میں ڈوب گیا اسی اثنا میں اویس نے گھوم کر صدف کی طرف دیکھا۔ صدف تم نے دیکھا کہ میں دروازے کے ہینڈل کو نہیں دیکھ سکا جانتی ہو کیوں اس لیے کہ اس حادثے میں میری آنکھیں ہمیشہ کے لیے چلی گئی ہیں۔ میں تمہیں یہ سچائی دکھانے کے لیے دروازے تک گیا تھا۔ میں اب کبھی نہیں دیکھ سکوں گا میں اندھا ہوگیا ہوں، میری دولت کا انبار بھی میری آنکھوں کی روشنی کو واپس لانے میں ناکام ہوچکا ہے۔ اویس اتنا کہہ کر چپ ہوگیا۔ صدف پر حیرت کا پہاڑ ٹوٹ پڑا، اسے اویس کی آنکھوں میں روشنی دکھائی دے رہی تھی۔ وہ اسے بالکل پہلے جیسا لگ رہا تھا، لیکن وہ کہہ رہا تھا کہ اس کی آنکھوں کی روشنی چلی گئی ہے، وہ اندھا ہوگیا ہے اور کبھی نہیں دیکھ سکے گا۔ صدف اپنی جگہ سے اٹھی اور اس کی طرف دیکھتی ہوئی اس کے قریب چلی گئی۔ وہ ٹکٹکی باندھے اس کی طرف دیکھے جارہی تھی، اس کے چہرے پر برستی ہوئی حیرت دوچند ہوگئی تھی اس کی آنکھوں میں بے یقینی کی کیفیت تھی۔ نہیں ایسا نہیں ہوسکتا۔ تم دیکھ سکتے ہو، مجھ سے مذاق کررہے ہو۔ صدف نے کہا۔ یہ حقیقت ہے میں ساری دنیا سے جھوٹ بول سکتا ہوں لیکن تم سے نہیں۔ میں اب کبھی نہیں دیکھ سکتا، میز پر رکھی ہوئی فائل میں میری تمام میڈیکل رپورٹس موجود ہیں۔ میری رپورٹس پر بڑے بڑے ڈاکٹروں کے دستخط ہیں، جو جھوٹ نہیں ہیں۔ اویس بولا۔ صدف نے ایک نظر میز پر رکھی فائل کی طرف دیکھا اور پھر کہا۔ اتنا بڑا حادثہ ہوگیا اور تم نے مجھ سے چھپائے رکھا۔ بتادیتا تو تمہارا حوصلہ ٹوٹ جاتا۔ مجھے بتاتے تو سہی، میں اپنی آنکھیں تمہیں دیدیتی اویس۔ یہ آنکھیں اب بھی میرے پاس ہیں، اگر تم میرے ساتھ شادی کرلیتی ہو تو تمہیں میری آنکھیں بن کر میرے ساتھ رہنا ہوگا میرے دفتر میں، میری میٹنگز میں، سفر میں، تم ہر جگہ میرے ساتھ میری آنکھیں بن کر رہو گی۔ کیا تم میری آنکھیں بنو گی اویس نے دو قدم چل کر واپس کرسی کی طرف جانا چاہا تو اس کا پیر اپنے بیڈ کے ساتھ ٹکرایا اور صدف نے فوراً اس کا ہاتھ تھام لیا۔ ٭ ٭ ٭ صدف کے والدین اس کے سامنے بیٹھے حیرت سے ایک دوسرے کا منہ ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ ایک دوسرے سے آنکھوں ہی آنکھوں میں سوال کررہے ہوں۔ صدف نے ان کو ساری صورتحال سے آگاہ کردیا تھا۔ حقیقت دونوں میاں بیوی کے حلق سے نیچے نہیں اتر رہی تھی، ہر والدین کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی اولاد کی اچھی جگہ شادی ہو۔ بیٹی جس کی دلہن بن کر جائے اس کا شوہر ہر عیب سے پاک ہو جب انہوں نے ان کی خواہش پر دونوں کی منگنی کی تھی تو سب کچھ ٹھیک تھا لیکن اب صدف کے ہونے والے شوہر کی آنکھیں نہیں رہی تھیں۔ آنکھوں سے محروم شخص ان کی بیٹی کا شوہر کیسے ہوسکتا ہے۔ کہتے ہیں دولت کا انبار بہت کچھ چھپا لیتا ہے، لیکن اس وقت دونوں میاں بیوی کے لیے دولت سے کہیں زیادہ ان کو اپنی بیٹی عزیز تھی، جس کا شوہر تندرست ہو، کہ خاندان میں کوئی اس پر انگلی نہ اٹھاسکے۔ آپ کیا سوچ رہے ہیں جب ان کی خاموشی طوالت اختیار کرگئی تو صدف نے دونوں کی طرف باری باری دیکھتے ہوئے سوال کیا۔ صدف کا باپ کچھ سوچنے کے بعد بولا۔ مناسب یہی ہے کہ ہم اس رشتے کو ختم کردیں، میں نہیں چاہتا کہ صدف اس کی بیوی کی بجائے نرس بن کر رہے۔ میرا بھی یہی خیال ہے، صدف کی حیثیت اب ایک سفید چھڑی سے زیادہ نہیں ہوگی۔ اس کی ماں نے فیصلے کی تائید کی۔ صدف نے کہا۔ مجھے اویس کی سفید چھڑی بننے میں کوئی اعتراض نہیں ہے میں کل اس سے شادی کروں گی۔ تم پاگل ہوگئی ہو اویس جب بالکل ٹھیک اور تندرست تھا تو اس خاندان کی لڑکیاں تمہیں اپنے طنز کا نشانہ بنانے سے باز نہیں آتی تھیں، اب جبکہ وہ اپنی آنکھیں کھوچکا ہے تو جانتی ہو کہ اس سے شادی کے بعد تمہیں کیا کیا سننا پڑے گا۔ صدف کی ماں پریشان ہو کر بولی۔ مجھے کسی کی کوئی پروا نہیں ہے۔ صدف کھڑی ہوگئی۔ ایسی حماقت مت کرو صدف۔ اس کے باپ نے سمجھانا چاہا۔ جب خاندان کی امیر سے امیر لڑکی اس سے شادی کرنا چاہتی تھی اور اس نے ان سب کو میری خاطر ٹھکرادیا، اب اس حالت میں اسے چھوڑدوں یہ نہیں ہوسکتا۔ صدف نے کہا۔ صدف اب یہ تمہارا فیصلہ ہے اور ہم تمہارے اس فیصلے اور ضد کو نبھائیں گے۔ صدف کے باپ نے کہا۔ ٭ ٭ ٭ سارے خاندان میں یہ بات پھیل گئی تھی کہ اویس اب دیکھ نہیں سکتا اور اس کے باوجود صدف اس سے شادی کررہی ہے۔ سب سے پہلے رخسانہ نے شوشا چھوڑا تھا کہ اویس اندھا کیا، وہ اپاہج بھی ہوجائے تو صدف اس سے شادی کرکے رہے گی کیونکہ وہ اویس سے نہیں بلکہ اس کی دولت سے شادی کررہی ہے۔ مقامی ہوٹل کے ہال میں سارے رشتے دار جمع تھے، سب کو فون پر اطلاع کی گئی تھی۔ شادی میں شرکت سے زیادہ خاندان کی لڑکیاں صدف پر طنز کے تیر چھوڑنے آئی تھیں۔ صدف دلہن بنی بیٹھی تھی کہ اویس خوبصورت شیروانی زیب تن کیے دولہا بنا اپنے دوست کے ساتھ سفید چھڑی ہاتھ میں تھامے ہال میں داخل ہوا تو سب کی نگاہیں بے اختیار اس کی طرف اٹھ گئیں۔ اویس بہت حسین تھا کسی کو یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی آنکھیں نہیں ہیں۔ اویس اسٹیج پر آیا اور صدف کے ساتھ بیٹھ گیا۔ نکاح ہوا، کھانا کھلایا گیا اور اس دوران کئی طنز سے بھری باتیں کسی نہ کسی طرح صدف اور اویس کے کانوں تک پہنچتی رہیں سب کا نشانہ صدف تھی اور صدف سے زیادہ اویس کو ان کی باتیں سن کر تکلیف ہورہی تھی۔ رخصتی ہونے لگی تو چلنے سے پہلے صدف نے اویس کے ہاتھ سے چھڑی لے کر ایک طرف پھینک دی اور اس کا ہاتھ تھام کر بولی۔ اب آپ کی آنکھیں میں ہوں۔ صدف کی بات سن کر کئی لڑکیوں کے منہ بن گئے اور دونوں چلتے ہوئے بڑی سی کار میں بیٹھ گئے۔ ہال خالی ہونے لگا، ایک طرف رخسانہ اور اس کا کزن نعیم بیٹھا ہوا تھا۔ نعیم کے کاروبار کا کسی کو خاص علم نہیں تھا۔ بس اس کے بارے میں سب یہی جانتے تھے کہ وہ اپنے کاروبار کے سلسلے میں آج فلاں ملک میں ہے تو کل دوسرے ملک گیا ہوا ہے۔ نعیم پرسوں رات ہی واپس آیا تھا۔ رخسانہ کے ساتھ اس کی اچھی بے تکلفی تھی۔ رخسانہ کا دل جلا ہوا تھا اس کے اختیار میں ہوتا تو وہ ابھی اسی وقت صدف کا منہ نوچ لیتی۔ اچانک اس نے نعیم سے کہا۔ تم کو اس بات پر بڑا دعویٰ ہے کہ تم اپنی باتوں کے ذریعے کسی کو بھی شیشے میں اتار سکتے ہو۔ اگر تم صدف کو شیشے میں اتار کر اس کا گھر برباد کردو تو میں مانوں۔ اس کی بات سن کر نعیم نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور بولا۔ میں جانتا ہوں کہ اس وقت تمہارے دل پر کیا گزررہی ہے۔ اگر مجھے دس دن مل جاتے تو یقین کرو صدف کی شادی اس کی بجائے میرے ساتھ ہوتی۔ بہرحال اگر تم چاہتی ہو کہ میں تمہیں اپنی باتوں کا سحر دکھائوں تو پھر میرے ساتھ شرط لگائو۔ کیسی شرط رخسانہ نے پوچھا۔ صدف سے تو مجھے حسد ہونے لگا ہے، اسے میں اویس سے ایسا متنفر کروں گا کہ اویس اس غم میں دنیا ہی چھوڑ جائے گا۔ صدف اتنی دولت اور جائداد کی اکیلی مالک بن جائے گی اور پھر صدف کو میں اپنی بیوی بنائوں گا لیکن نعیم نے اپنی بات جان بوجھ کر ادھوری چھوڑدی۔ لیکن کیا رخسانہ نے پوچھا۔ اگر میں ایسا کرنے میں کامیاب ہوگیا تو میری شرط ہے کہ تم مجھ سے شادی کرو گی۔ نعیم نے اپنا ادھورا جملہ مکمل کردیا۔ اس کی بات سن کر رخسانہ ہنس کر بولی۔ لیکن تم تو صدف سے شادی کرلو گے۔ اس سے شادی ہوگی دولت کے لیے اور تم سے شادی ہوگی گھر بسانے کے لیے۔ تمہاری وہ سوکن ہوگی، پھر جس طرح چاہنا تم اسے اپنے رعب میں رکھنا۔ نعیم مسکرایا۔ رخسانہ نے سوچا اور بولی۔ مجھے منظور ہے اور اگر تم ناکام ہوگئے تو اگر میں ناکام ہوگیا تو جو تم میری سزا تجویز کرو گی وہ مجھے منظور ہوگی۔ نعیم نے کہا۔ تمہارے پاس ایک مہینے کا وقت ہے میں نے نفسیات پڑھی ہے، ایک مہینہ بہت زیادہ ہے، تم دیکھنا چند دنوں میں کیا ہوتا ہے نعیم کا لہجہ معنی خیز تھا۔ ٭ ٭ ٭ اویس کی بیوی بن کر صدف جیسے کسی محل میں آگئی تھی، نوکروں کی فوج آگے پیچھے تھی۔ شادی کو تین دن گزر گئے تھے، ان تین دنوں میں صدف کا ایک اشارہ نوکروں کی فوج کو متحرک کردیتا تھا، جبکہ اویس کے منہ سے نکلا ایک لفظ سنتے ہی صدف کو اپنی جگہ چھوڑنی پڑتی تھی۔ اویس کو وہ اخبار پڑھ کر سناتی تھی، مارکیٹ کے ریٹس بتاتی تھی۔ جب اس کے موبائل فون کی گھٹنی بجتی تھی تو صدف فوراً فون اٹھا کر اسے دیتی۔ بات مکمل ہونے پر اس سے فون لے کر ایک طرف رکھتی تھی، اویس کے موبائل فون پر آنے والے اس کے پیغامات پڑھ کر سناتی۔ اویس کہتا تو صدف پیغام کا جواب بھی لکھ کر بھیجتی تھی۔ اویس کو کپڑے پہنانے میں مدد کرتی، اس کے ساتھ باہر جاتی تھی۔ ان تین دنوں میں صدف ایک مشین بن کر رہ گئی تھی لیکن اس کے ماتھے پر کوئی سلوٹ نہیں آئی تھی۔ چار دن کے بعد اویس اپنے دفتر گیا تو صدف ساتھ تھی۔ سارا دن دفتر میں مصروف رہی۔ صدف اسے فون دیتی، اس کے کہنے پر مطلوبہ فائل کھول کر اس کے اندر جو لکھا ہوتا وہ بتاتی، اویس کے کہنے پر اگر کچھ لکھنا ہوتا وہ لکھتی، اس کے ساتھ میٹنگ میں جاتی، وہاں بھی اس کی مدد کرتی اور رات کو جب وہ واپس گھر آتی تو صدف تھک چکی ہوتی تھی۔ کیونکہ وہ ان کاموں کی عادی نہیں تھی۔ زندگی کے ان ہی معمولات میں ایک ہفتہ گزرگیا اور ایک ہفتے میں صدف اپنے آپ کو بھول گئی۔ وہ ہر لمحہ، ہر پل اویس کے ساتھ سائے کی طرح موجود رہ کر اس کی مدد کررہی تھی۔ اویس کسی معمولی کام کے لیے بھی صدف کو آواز دیتا تھا۔ ان کی شادی کو تقریباً ایک ماہ ہونے والا تھا۔ اس رات جب وہ بستر پر لیٹے تو اویس نے کہا۔ میں جانتا ہوں صدف کہ تم تھک جاتی ہو، مشین کی طرح میرے ساتھ کام کرتی ہو، میں نے سوچا تھا کہ تمہاری جگہ کوئی ملازم رکھ لوں لیکن میرے دل میں وہم بیٹھ گیا ہے کہ مجھے کوئی دھوکہ نہ دے، مجھے تم پر اعتبار ہے۔ مجھے تم پر یقین ہے کہ تم مجھے دھوکہ نہیں دے سکتی ہو، لیکن پھر بھی اگر تم چاہو تو میں تمہاری جگہ ملازم رکھ لیتا ہوں۔ تمہیں ایسا سوچنے کی ضرورت نہیں ہے، میں ہر پل تمہارے ساتھ ہوں۔ صدف نے مسکرا کر کہا۔ حالانکہ پہلی بار اس کے دل میں یہ بات آئی تھی کہ اپنے لیے کوئی ملازم رکھ لے تو اچھا ہے، لیکن وہ کہہ نہیں سکی۔ وہ اس کا یقین نہیں توڑنا چاہتی تھی لیکن وہ اندر ہی اندر اس مشقت بھری زندگی سے عاجز آگئی تھی۔ ایک دن لنچ بریک کے بعد نعیم ان کے آفس میں آگیا۔ اس نے دو دن قبل ایک فائل ان کو بھیجی تھی جسے صدف نے ہی پڑھ کر اویس کو بتایا تھا کہ نعیم ان کے ساتھ کاروبار کرنا چاہتا ہے اور اس کے پاس چند منصوبے ہیں، اویس نے اسے ملاقات کا وقت دے دیا تھا۔ جب نعیم ان کے آفس میں پہنچا تو اویس اپنی کرسی پر بیٹھا تھا، اس نے سیاہ چشمہ لگایا ہوا تھا وہ جو کہتا تھا صدف فوری وہ کام کرتی۔ وہ کسی کٹھ پتلی کی طرح اویس کے سامنے کبھی ادھر کبھی ادھر گھوم رہی تھی۔ اویس اور نعیم کی ملاقات ختم ہوگئی تو اویس نے باتھ روم جانے کے لیے صدف سے کہا۔ آفس سے ملحق باتھ میں صدف اویس کو چھوڑ کر جیسے ہی واپس آئی تو نعیم نے اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے کہا۔ اگر برا نہ مانو تو ایک بات کہوں ہاں کہیں۔ صدف نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ صدف کہاں کھوگئی ہے جو بڑی ہنس مکھ ہوتی تھی، جس کے چہرے پر شادابی دکھائی دیتی تھی، جو دن بھر میں اپنی مرضی کا کام کرتی تھی اور گھنٹوں کوئی مووی دیکھتی تھی، جو گنگناتی تھی اور جس کے چہرے پر کوئی تفکر دکھائی نہیں دیتا تھا۔ نعیم کے الفاظ نے صدف کو جھنجھوڑ سا دیا تھا۔ یکدم اسے احساس ہوا کہ اس کی شادی کو پچیس دن ہوگئے ہیں اور پچیس دنوں میں اس نے پوری رات سکون سے بستر پر نہیں گزاری تھی کیونکہ رات کے کسی پہر بھی اویس کی کوئی ضرورت اسے اٹھنے پر مجبور کردیتی تھی۔ صدف چپ رہی تو نعیم مزید بولا۔ مجھے تم سے ہمدردی ہے صدف۔ میں تمہارے فیصلے پر اعتراض کرنے کا اختیار نہیں رکھتا۔ لیکن مجھے آج یہاں بیٹھ کر یہ اندازہ ہوا کہ تم اپنی زندگی کبھی نہیں جی سکو گی۔ مجھے تم نئی نویلی دلہن نہیں بلکہ ایک رئیس کی ملازمہ لگتی ہو جو دولت کے انبار پر بیٹھ کر اس کی ناک صاف کرنے کا کام کرتی ہے۔ نعیم نے دکھ بھرے انداز میں کہا اور آفس سے چلا گیا۔ نعیم کی باتوں نے صدف کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کردیا تھا۔ صدف کی حالت بالکل اس شخص جیسی تھی جو زندگی کو سزا کے طور پر گزارنے کے لیے مجبور ہوگیا ہو اور آنکھوں سے آنسو اس لیے نہ بہارہا ہو کہ اس کے پاس کوئی کندھا ہی نہیں تھا۔ اس دن رات بارہ بجے تک وہ اویس کے ساتھ اس کے آفس میں مصروف رہی اور بستر پر تھک کر گری تو اسے لگا جیسے وہ ایک مزدور ہو اور دن بھر کی مزدوری نے اس کے وجود کو بری طرح تھکادیا کی آنکھیں خودبخود نیند سے بند ہونے لگیں، جسم بالکل نڈھال ہوچکا تھا کہ اچانک اسے کچھ گرنے کی آواز آئی، اس کی نیند ٹوٹ گئی اور وہ ہڑبڑا کر اٹھ بیٹھی۔ اس نے دیکھا کہ اویس کھڑا ہے اور گلاس ٹوٹ کر فرش پر بکھرا ہوا ہے۔ کیا ہوا میں باتھ روم جانے کے لیے اٹھا تو ہاتھ لگنے سے گلاس ٹوٹ گیا۔ اویس نے کہا اور بیڈ پر بیٹھ گیا۔ ایک بار پھر صدف اٹھی اس نے گلاس کی کرچیاں اٹھائیں اور انہیں باہر پھینکنے کے لیے چلی گئی۔ ہاتھ دھوکر جب وہ واپس آئی تو اویس سوچکا تھا۔ اس کے ہلکے ہلکے خراٹے کمرے کی خاموشی توڑ رہے تھے۔ صدف نے اپنا موبائل فون اٹھایا اورکمرے سے باہر نکل کر دوسرے کمرے میں جاکر بیٹھ گئی۔ صدف سوچنے لگی کہ چار گھنٹے کے بعد ایک نئے دن کا آغاز ہوجائے گا۔ اس کا لگایا ہوا الارم بجنے لگے گا اور وہ اپنی نیند کو ختم کرکے اٹھ بیٹھے گی اور پھر کام شروع ہوجائے گا، اور رات گئے تک وہ مشین کی طرح کام کرتی رہے گی۔ وہ اپنے والدین سے اپنی حالت بیان نہیں کرسکتی تھی، کیونکہ اس نے اپنی ضد سے ان کو اس شادی کے لیے منایا تھا۔ وہ سوچنے لگی کہ کیا کرے۔ پھر اچانک اس نے نعیم کا نمبر نکالا اوراس کا نمبر ملا کرموبائل فون کان کو لگالیا۔ کچھ دیر بعد اس کی آواز آئی ہیلو۔ صدف بول نہیں سکی تھی اور اس کے آنسو چھلک پڑے اور پھر وہ پھوٹ پھو کر رونے لگی۔ شاید رونے کے لیے اسے کسی کندھے کی ضرورت تھی، وہ رونا چاہتی تھی اور نعیم دوسری طرف مسکرا رہا تھا جیسے وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگیا ہو۔ ٭ ٭ ٭ دوسرے دن ٹھیک دس بجے نعیم آفس میں موجود تھا، آج اس کی ملاقات کا وقت طے نہیں تھا۔ صدف اویس کے ساتھ مصروف تھی۔ تھوڑی دیر کے بعد صدف کو موقع ملا اور وہ ایسے ہی کمرے سے باہر نکلی تو اس کی نظر نعیم پر پڑگئی۔ نعیم نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور صدف اس کے پاس چلی گئی۔ تم یہاں، خیریت ہے آج تو تمہارا ملاقات کا کوئی وقت نہیں ہے۔ آج میں صرف تم سے ملنے آیا ہوں۔ تمہارے آنسوئوں نے مجھے رات بھر سونے نہیں دیا اور میں بے چینی کے عالم میں یہاں آگیا۔ مجھ سے اپنے دل کی بات مت چھپائو اور مجھے بتائو کہ میں تمہاری کیا مدد کرسکتا ہوں، جس اذیت سے تم دوچار ہو تمہارے آنسوئوں اورہچکیوں نے مجھے سب کچھ بتادیا ہے۔ اگر تم نے مرنے کا فیصلہ کرلیا ہے تو جو تمہارے پاس سانسیں بچی ہیں، انہیں لے کر اس شخص کے ساتھ باقی زندگی بھی گزار دو۔ دیکھو صدف یہ شخص تمہیں اپنی آنکھیں بنا کر تم سے تمہارا جینے کا حق چھین رہا ہے، بہتر ہے کہ تم اس زنجیر کو توڑ کر اپنی زندگی جیو۔ کیسے یکدم صدف کے منہ سے نکلا۔ تمہاری زندگی کے لیے، تمہیں جینے کا حق دلانے کے لیے، میں اس شخص کا گلا دبا کر ہمیشہ کے لیے تمہیں اس سے نجات دلاسکتا ہوں۔ نعیم نے کہا تو صدف اس کی بات سن کر کانپ گئی۔ اسی اثنا میں ملازم نے اویس کا پیغام دیا کہ وہ انہیں اندر بلارہے ہیں۔ صدف کوئی بات کیے بغیر فوراً اویس کے پاس چلی گئی۔ اویس کے پاس کچھ لوگ بیٹھے ہوئے تھے۔ جونہی صدف نے اندر جاکر کہا۔ جی میں آگئی ہوں۔ کہاں چلی گئی تھیں تم تم جانتی نہیں ہو کہ تمہارا میرے پاس رہنا کتنا ضروری ہے۔ کیا تم یہ بھول گئی ہو کہ تم میری آنکھیں ہو، تم میری وہ آنکھیں ہو جن پر مجھے اعتبار ہے، میرے ساتھ رہا کرو۔ اویس کو جانے کیا ہوا کہ اس نے اپنے پاس بیٹھے کاروباری لوگوں کی بھی پروا نہیں کی اور صدف کو ڈانٹ دیا۔ صدف ندامت بھری آنکھوں سے ان کی طرف دیکھ کر آنکھیں چرارہی تھی اور وہ سب اس کی طرف یوں دیکھ رہے تھے جیسے ان کے سامنے کوئی تماشا ہورہا ہو۔ اویس کے اس تغیر نے صدف کو اور بھی دکھی کردیا تھا۔ وہ اپنے آنسوئوں کو چھپا کر اویس کے ساتھ کام کرنے لگی اور جو وہ کہتا اسے پورا کرنے لگی۔ دن اسی طرح گزرگیا۔ اویس آفس سے نکل کر اس کے ساتھ کار میں بیٹھا تو وہ کلب چلا گیا۔ اس نے گاڑی میں بیٹھتے ہی صدف کو بتادیا تھا کہ بہت دن ہوگئے ہیں وہ اپنے دوستوں کی طرف نہیں گیا، اس لیے آج وہ کچھ وقت اپنے دوستوں کے ساتھ گزارے گا۔ کلب میں اس وقت اس کا ایک ہی دوست موجود تھا۔ اویس اس کے ساتھ بیٹھ گیا اور اویس نے صدف کو اجازت دے دی کہ ان کے ساتھ بیٹھنا چاہے تو یہاں بیٹھ جائے اور اگر کسی اور جگہ بیٹھ کر وقت گزارنا چاہے تو وہ وہاں چلی جائے۔ صدف ان سے کچھ فاصلے پر ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ رفتہ رفتہ اویس کے دوست آنے لگے اور پھر وہاں محفل جم گئی، کھانے پینے کے ساتھ قہقہے گونجنے لگے۔ اپنے دوستوں میں اویس نے صدف کو بالکل نظر انداز کردیا تھا۔ صدف نے کھانا بھی الگ کھایا تھا، وہ بار بار اویس کی طرف دیکھ رہی تھی جو اتنا خوش تھا کہ صدف کو اس پر پہلی بار غصہ آنے لگا تھا۔ اویس نے ایک بار بھی اس سے سوری نہیں کہا تھا کہ وہ اپنے مہمانوں کے سامنے اس پر غصہ ہوا تھا۔ آج پہلی بار صدف کو احساس ہوا کہ آنکھیں چلی جانے کے بعد اس نے اس سے شادی محض اس لیے کی تھی کہ وہ اس کی نرس بن کر اس کے ساتھ دن رات رہے، وہ اس کی بیوی نہیں نرس تھی۔ صدف نے سوچا۔ پھر اس کے ذہن میں یہ بات بھی آئی کہ نعیم ٹھیک کہتا ہے۔ وہ مرجائے گی اور اپنی زندگی کبھی نہیں جی سکے گی۔ صدف کے اندر جینے کی امنگ جاگی اور اس نے بیٹھے بیٹھے فیصلہ کرلیا کہ وہ جینے کے لیے اس زنجیر کو توڑ دے گی۔ اچانک اسے ایسا لگا جیسے کوئی اس کے پاس آکر بیٹھا ہے، اس نے چونک کر دیکھا تو سامنے نعیم بیٹھا تھا۔ اس سے پہلے کہ صدف کوئی سوال کرتی وہ اویس کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ دیکھو وہ اپنی زندگی مزے سے جی رہا ہے اور تم جینے کا حق کھوچکی ہو۔ اچانک اس نے اپنی جیب سے ایک چھوٹی سی شیشی نکال کر اس کے ہاتھ میں دے دی اور سرگوشی کے انداز میں بولا۔ آج رات ایک پانی کے گلاس میں یہ شیشی انڈیل کر اویس کو پلادینا، تم کو اپنی کھوئی ہوئی زندگی مل جائے گی۔ صدف اپنے ہاتھ میں پکڑی شیشی کو متوحش نگاہوں سے دیکھنے لگی۔ خوف اس کے چہرے پر عیاں ہونے لگا۔ پھر یکدم اس نے نعیم کی طرف دیکھا تو وہ غائب ہوچکا تھا۔ اس نے متلاشی نگاہیں گھمائیں وہ اسے کہیں نظر نہیں آیا۔ اسی اثنا میں اپنے ایک دوست کی مدد سے اویس اس کے پاس آچکا تھا، اس نے اپنا ہاتھ صدف کی طرف بڑھایا اور چلنے کو کہا۔ وہ اٹھ کر اس کے ساتھ چلی گئی۔ جب وہ گھر پہنچے تو رات کے ڈھائی بج چکے تھے، کپڑے تبدیل کرکے جیسے ہی اویس اپنے بیڈ پر آیا اس نے پینے کے لیے پانی مانگا تو صدف نے پانی کا گلاس بھر کر ایک لمحے کے لیے سوچا۔ اسے گزرے مہینے کا ہر دن یاد آنے لگا جو سخت محنت سے بھرپور تھا، وہ اس ایک مہینے میں ایک رات بھی بھرپور نیند نہیں لے سکی تھی، پھر اسے آج اپنی بے عزتی بھی یاد آئی اور اویس کے وہ قہقہے بھی سنائی دینے لگے جو اس نے بڑی بے فکری سے اپنے دوست کی محفل میں لگائے تھے۔ اس نے سوچا کہ کل کا سورج اس کے لیے پھر مشقت سے بھرا دن لے کر طلوع ہوگا۔ اس نے مزید کچھ نہیں سوچا اور زہر کی شیشی پانی کے گلاس میں انڈیل کر اویس کو دے دی۔ اویس نے گلاس پکڑا اور پانی حلق سے نیچے اتارلیا اور بستر پر لیٹ گیا۔ صدف ایک طرف کھڑی ہو کر عجیب سے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اچانک اویس کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہونے لگی، اس کی طبیعت گھبرانے لگی۔ وہ بے چینی سے اٹھا اور سائیڈ ٹیبل سے کچھ تلاش کرنے لگا، جیسے اسے پھر پانی کی طلب ہورہی ہو، اس کا ہاتھ اپنے اور صدف کے موبائل فون پر پڑا۔ کیا ہوا صدف نے پوچھا۔ میرا دل گھبرارہا ہے میری سانس رک رہی ہے ڈاکٹر کو فون کرو جلدی وہ رک رک کر بولا۔ میں ابھی فون کرتی ہوں۔ صدف اپنی جگہ کھڑی رہی۔ اویس نے پوچھا۔ کیا تم فون کررہی ہو ہاں لیکن فون بند جارہا ہے۔ صدف نے جھوٹ بولا۔ اویس کے چہرے پر تکلیف کے ساتھ حیرت بھی عیاں ہوگئی۔ تم کس فون سے کال کررہی ہو تمہارا اور میرا فون تو میرے ہاتھوں میں ہے۔ یہ کہہ کر اس نے اپنے دونوں ہاتھ آگے کردیے۔ صدف یکدم چونکی اس کا جھوٹ پکڑا گیا تھا۔ کک کیا تم نے مجھے کوئی ایسی چیز تو نہیں دیدی صدف کیا واقعی صدف چپ رہی، اویس پھر بولا۔ پانی پیتے ہوئے مجھے محسوس ہوا تھا کچھ عجیب سا ذائقہ کیا تم نے مجھے زہر دیدیا ہے صدف تم نے کیا تم مجھ سے تنگ آگئی تھیں اس مشقت سے تنگ آگئی تھیں میرے ساتھ دن رات کام کرنے اور میری دیکھ بھال کرنے سے یہ تم نے کیا کیا صدف اویس کھانسنے لگا۔ اس کی سانس سینے میں رک رہی تھی، اس کے چہرے پر تاسف اور کرب نمایاں تھا۔ صدف خود خوفزدہ ایک طرف دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑی تھی۔ وہ عجیب تذبذب کا شکار تھی کہ اس نے جو کچھ کیا ہے وہ ٹھیک کیا ہے صدف میں اندھا نہیں ہوں۔میں تو تمہیں اپنے ساتھ سایہ کی طرح رکھ کر ایک استاد کی طرح کام سکھارہا تھا میں تمہیں بتارہا تھا کہ میں کام کیسے کرتا ہوں کیسے بات کرتا ہوں کیسے فیصلے کرتا ہوں۔ کیونکہ یہ سب تمہیں ہی سنبھالنا تھا تم نے بڑی جلد بازی کی میں تمہیں کوئی دکھ نہیں دینا چاہتا تھا، جب میرا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو یہ بات سامنے آئی تھی کہ مجھے کینسر ہے اور میرے پاس زیادہ وقت نہیں ہے تم نے سارا کام سمجھنے سے پہلے مجھ سے تنگ آکر اس مشقت سے جان چھڑانے کے لیے مجھے زہر دے دیا۔ اویس کے لیے بولنا مشکل ہورہا تھا۔ صدف پر جیسے ہی یہ حقیقت منکشف ہوئی وہ چیخی اور روتے ہوئے اویس سے لپٹ گئی۔ وہ بری طرح چیخنے لگی۔ اویس ساکت ہوگیا تھا اور صدف کے زور زور سے چیخنے سے اس کی ناک سے خون بہنے لگا اور اس کا جسم بھی بے جان ہونے لگا تھا۔ ختم شد
null
null
null
null
435
https://www.urduzone.net/surat-ache-seerat-bhali-teen-auratien-teen-kahaniyan/
ہم دو بہنیں تھیں۔ میں اپنی بہن سے بہت زیادہ خوبصورت تھی۔ لوگ میرے حسن کی تعریف کرتے تو پھولے نہ سماتی۔ سچ کیوں نہ کہوں کہ لاکھوں میں ایک تھی۔ چندے آفتاب چندے ماہتاب مجھے فخر تھا کہ مجھ سا سارے زمانے میں کوئی اور نہیں ہے۔ اس گمان نے مجھے مغرور بنا دیا۔ بچپن میں ہم بہنیں ساتھ کھیلتی تھیں۔ ایک دوسرے سے بہت پیار تھا۔ جب ذرا عقل آئی تو اپنی ذات کا احساس ہوا لوگوں نے صورت کی تعریفیں کیں تو دماغ خراب ہوگیا۔ چھوٹی بہن کو بھی خاطر میں نہ لاتی، اسے کلو پری اور چڑیل کہہ کر مخاطب کرتی۔ اس پر عظمت دل مسوس کر رہ جاتی۔ عظمت مجھ سے بہت محبت کرتی تھی لیکن میں نے اپنی خوبصورتی کے گھمنڈ میں ہمیشہ اس کی اتنی توہین کی کہ نتیجہ یہ ہوا کہ وہ مجھ سے دور رہنے لگی۔ امی سمجھاتی تھیں۔ عفت خدا کے لیے آسمان سے اترو، زمین پر رہو ورنہ ایک دن ایسی گرو گی کہ فنا ہوجائو گی۔ چھوٹی بہن تم سے پیار کرتی ہے۔ کیوں اس سے ایسا حقارت آمیز رویہ رکھتی ہو۔ کیا ہوتا جارہا ہے تمہیں۔ خود نہیں معلوم تھا مجھے کیا ہوتا جارہا ہے۔ بس اپنی ذات کے نشے میں ہمہ وقت گم رہنے لگی تھی۔ ابا بیچارے سفید پوش تھے۔ بڑی محنت سے کما کر لاتے تو ہم دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کر کھاتے تھے۔ ماں سادہ لوح اور کفایت شعار تھیں۔ انہوں نے کبھی غرور نہ کیا۔ ہماری ہمیشہ اچھی تربیت کی سعی کی لیکن جب کسی کی کم بختی آتی ہے وہ پھر کسی کے سمجھانے سے بھی نہیں سمجھتا۔ میں جب اسکول جاتی، لڑکے پیچھے آتے اور کہتے وہ دیکھو حور جارہی ہے۔ ان دنوں میں آٹھویں میں تھی۔ مجھے اپنے گھر کے حالات کا بالکل احساس نہ تھا۔ امیر لڑکیاں ساتھ پڑھتیں۔ ان سے دوستی کے شوق میں ماں سے آئے دن نت نئے لباس اور جیولری کی فرمائشیں کرتی رہتی۔ والدہ مطالبات پورے نہ کرسکتیں تو لڑتی جھگڑتی اور ان کا سکون برباد کر ڈالتی۔ مجھے پڑھنے کا شوق نہ تھا لیکن نت نئے فیشن اور لباس کی بہت چاہ تھی جس سے والدہ لڑکیوں کی تعلیم سے بدظن ہوگئیں۔ ایک مشکل یہ تھی جب اسکول میں کوئی فنکشن ہوتا، مجھے ڈرامے میں مرکزی کردار دیا جاتا۔ کبھی شہزادی کا رول تو کبھی ملکہ کا تب ویسا لباس بھی بنوانا ہوتا جبکہ امی جان کی وسعت سے باہر تھیں ایسی فضول خرچیاں۔ اس بار جب ایک فنکشن میں مجھے شہزادی کا رول ملا تو میں نے امی سے کہا کہ مجھے خوبصورت لباس بنوا کر دیں۔ وہ بولیں کہ میری شادی کے دن کی خوبصورت کامدانی ساڑھی رکھی ہے، اس کو کٹوا کر تمہاری مرضی کا لباس بنوا دیتی ہوں لیکن میں اڑ گئی کہ نہیں مجھے نیا لباس چاہئے۔ اس پر والدہ کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ انہوں نے سختی سے کہا کہ ڈرامے میں حصہ لینے سے انکار کردو ورنہ میں تمہیں اسکول سے نکال لیتی ہوں۔ جب ضد پر اڑ گئی تو انہوں نے والد سے میری شکایت کردی۔ انہوں نے ہم دونوں بہنوں کو ایک ساتھ اسکول سے اٹھا لیا کیونکہ وہ اکیلی عظمت کو اسکول نہیں بھیج سکتے تھے۔ اس وقت تو بالکل احساس نہ ہوا کہ میری ضد کی وجہ سے چھوٹی بہن کا بھی مستقبل تاریک ہورہا ہے۔ جب اسکول نہ گئی تو ازخود نام کٹ گیا اور ہم دونوں بہنیں گھر بیٹھ گئیں حالانکہ عظمت کو پڑھائی کا بہت شوق تھا مگر وہ میری وجہ سے تعلیم سے محروم ہوگئی۔ عظمت کو اسکول نہ جانے کا غم تھا مگر میں ویسی ہی ہشاش بشاش تھی۔ صبح تڑکے بیدار ہونا، تیار ہوکر اسکول جانا برا لگتا تھا۔ نیند ٹوٹتی تو برا حال ہوتا۔ سونا چاہتی تو ماں بار بار جھنجھوڑ کر جگاتیں تب سوچتی کیا مصیبت ہے، سونے نہیں دیتی ہیں۔ آخر کیا ملے گا پڑھ کر مجھے۔ کاش کہ امی مجھے زبردستی پڑھنے نہ بھیجا کریں۔ صبح تک سوئے رہنے کے کارن اسکول کی بلاوجہ چھٹیاں کیا کرتی اور عظمت میرے لیے پریشان ہوتی کیونکہ میں چھٹی کرتی تو اسے بھی لازماً کرنا پڑتی۔ ہم دونوں آٹھویں میں ساتھ پڑھتی تھیں۔ بڑی ہونے کے باوجود میں ایک سال پیچھے چل رہی تھی کیونکہ ایک بار فیل ہوچکی تھی۔ ایک روز پھوپی ہمارے گھر آئیں۔ جب ان کو پتا چلا کہ ہم نے پڑھائی چھوڑ دی ہے تو وہ امی پر خفا ہوئیں کہ کیوں ان کو اسکول سے اٹھا لیا۔ امی نے میرے کرتوت ان کو نہ بتائے اور یہ کہہ کر ٹال دیا کہ پڑھ کر انہوں نے کون سا تیر مار لینا ہے۔ اسکول گھر سے کافی دور ہے، آوارہ لڑکے پیچھے لگ جاتے ہیں تبھی تمہارے بھائی نے منع کردیا کہ یہ گھر سے باہر نہ نکلیں۔ ہاں صحیح کہتی ہو۔ ہماری عفت ہے بھی اتنی خوبصورت ضرور لڑکے پیچھے لگتے ہوں گے۔ خوبصورت بچیوں کی تو کچھ زیادہ ہی حفاظت کرنی پڑتی ہے۔ سچ مچ زمانہ خراب ہے۔ وہ اپنی گلی کی ایک دو لڑکیوں کے قصے سنا کر چلی گئیں کہ جن کو سن کر اماں کو اور ہول اٹھنے لگے۔ انہیں لگا کہ انہوں نے ہمیں اسکول سے اٹھا کر بہت صحیح فیصلہ کیا ہے۔ سولہ سال کی تھی کہ میرے لیے رشتے آنے شروع ہوگئے۔ ہم غریب ضرور تھے لیکن حسن کی دولت بھی ایک قیمت رکھتی ہے۔ بے شک غریب کی بیٹی کے لیے اچھے گھروں سے رشتوں کا آنا محال ہوتا ہے۔ یہ میرا حسن بے مثال ہی تھا کہ اتنے اچھے رشتے آرہے تھے۔ جب عورتیں دیکھنے آتیں، امی سے اصرار کرتیں کہ عفت کا رشتہ لینا ہے۔ انکار نہ کرو جیسا کہو گی ہر شرط مانیں گے۔ تب اور زیادہ مجھے اپنی قدر و قیمت کا مان ہوتا۔ آہ کتنی ناسمجھ تھی میں، جانتی نہ تھی کہ صورت ہی سب کچھ نہیں ہوتی اور ظاہری حسن وقتی ہوتا ہے۔ انسان کی اصل قدر اس کی دیگر خوبیوں سے ہوتی ہے۔ اب میں اور زیادہ بن سنور کر رہنے لگی۔ ہر وقت خود کو آئینے میں دیکھتی تو نشہ سا چھا جاتا۔ اس طرح میں خودپرستی کے مرض میں مبتلا ہوگئی۔ اپنی چھوٹی معصوم بہن کے احساسات کا پاس نہ رہا۔ اسے بہن نہیں نوکرانی سمجھنے لگی کہ وہ بے چاری معمولی صورت کی تھی۔ عظمت معمولی صورت کی ضرور تھی مگر سمجھدار بہت تھی۔ میں اسے ستاتی وہ خاموش رہتی۔ میرے منہ لگنے کی بجائے گھر کے کام کرتی رہتی۔ وہ ماں کی مددگار تھی۔ کوشش کرتی زیادہ سے زیادہ اماں کی دعائیں لے۔ تبھی والدہ بھی اسے ہر وقت دعا دیتی تھیں کہ وہ ان کے سکھ کا باعث تھی۔ میں زیادہ وقت لیٹی رہتی۔ رسالے پڑھتی، اپنے سارے کام چھوٹی سے کرواتی۔ ماں کچھ کہتیں تو شور مچا دیتی۔ اس خیال سے کہ پڑوسی نہ سنیں، وہ خاموش ہوجاتیں اور مجھے میرے حال پر چھوڑ کر عافیت محسوس کرتیں۔ میں اپنے کپڑے عظمت سے دھلواتی اور کہتی کہ اب استری بھی کرو۔ کبھی کبھی وہ بول پڑتی کیوں کروں تمہارے سارے کام، کیا تم نواب زادی ہو، میں بڑی بہن ہونے کا رعب جھاڑتی۔ وہ حکم نہ مانتی تو اس کے نئے کپڑے کاٹ کر رکھ دیتی۔ اس کی جوتیاں گم کردیتی۔ وہ خوف زدہ ہوجاتی۔ والدہ مجھے برا بھلا کہتیں۔ کبھی صبر کے گھونٹ پی لیتیں۔ بس اتنا ہی کہتیں۔ عفت دیکھ لینا تیرا یہ غرور تیرے سامنے آئے گا۔ کہیں یہ تجھے خاک میں نہ ملا دے۔ اب والدہ میری شادی کرنا چاہتی تھیں لیکن غیروں میں نہیں۔ اسی لیے اچھے رشتے قبول نہ کئے۔ وہ کہتی تھیں تو نے نباہ کرنا نہیں ہے، اپنے پھر نباہ دیں گے۔ غیروں میں گئی تو خود بھی خانہ خراب ہوگی اور ہم کو بھی برباد کردے گی۔ وہ سچ کہتی تھیں۔ مجھ جیسی کم شعور لڑکیوں کا بالآخر انجام اچھا نہیں ہوتا۔ انہیں اندازہ تھا تبھی اپنوں سے آس لگائی ہوئی تھی۔ خاندان میں میرے جوڑ کے ایک دو رشتے تھے لیکن ان کو اندازہ ہوچکا تھا کہ لاکھ اچھی صورت سہی مگر میں کچھ زیادہ باسیرت نہیں ہوں۔ ایک دن امی کی ایک خالہ زاد بہن عارفہ ہمارے گھر آئیں۔ یہ لوگ پہلے دبئی میں رہتے تھے، کافی امیر تھے۔ جب مدت بعد خالہ پاکستان آئیں تو بیٹے کے لیے لڑکی تلاش کرنے نکلیں۔ دوچار سے تذکرہ کیا۔ انہوں نے کہا کہ اگر خوبصورت بہو چاہئے تو سلیمہ کے گھر جائو، اس کی بڑی لڑکی بہت خوبصورت ہے۔ خالہ عارفہ کی ایک ہی آرزو تھی۔ ان کی بہو خوبصورت ہو، لاکھوں میں ایک ہو۔ وہ جب آئیں، میں سامنے کھڑی تھی۔ اتفاق سے اس روز نہادھو کر اپنا سب سے خوبصورت جوڑا زیب تن کر رکھا تھا کیونکہ شام کو پڑوس میں جانا تھا۔ میری سہیلی فرزانہ کی سالگرہ تھی۔ دیکھتے ہی عارفہ خالہ مجھ پر لٹو ہوگئیں اور اماں کے گھٹنے پکڑ کر بیٹھ گئیں کہ آپا تیری بیٹی کا رشتہ لے کر جائوں گی۔ مجھے نہ، مت کرنا۔ بڑی آس لے کر آئی ہوں۔ سارے خاندان والوں کے منہ سے عفت بٹیا کی تعریف سنی ہے۔ میں نے اسے بچپن میں دیکھا تھا، اب تو ایسا رنگ روپ نکالا ہے کہ حوریں بھی رشک کریں۔ ہاں بہن اللہ نصیب اچھا کرے۔ شکل و صورت کے ساتھ اچھے نصیب بھی ہوں تب ہی سکھ ملتا ہے۔ میں اس کے والد سے مشورہ کرلوں تو جواب دوں گی۔ خالہ عارفہ قسمیں دے کر ٹلیں کہ ہاں کے سوا کوئی اور جواب نہ سنوں گی۔ امی نے والد سے بات کی۔ دور کا رشتہ سہی پر ہیں تو یہ رشتے دار، لڑکا بیرون ملک تجارت کی غرض سے جاتا رہتا ہے۔ بہت مالدار ہیں لیکن اچھے لوگ ہیں۔ تمہاری کیا رائے ہے۔ تمہارے میکے والے ہیں بھئی تم جانو میں نہیں جانتا ان لوگوں کو، اگر تم مطمئن ہو تو ہاں کہو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ امی نے کچھ سوچ بچار کے بعد جہانزیب کے لیے عارفہ خالہ کو ہاں کردی اور مٹھائی بٹ گئی۔ جہانزیب اپنے بھائیوں میں سب سے بڑا تھا۔ یہ چاروں بھائی کما رہے تھے اور ان کے والد کی ورکشاپ دبئی میں خوب چلتی تھی۔ اتنی دولت کے باوجود یہ لوگ میرا رشتہ بڑی منت سماجت سے لے رہے تھے اور سبھی خاندان والے کہہ رہے تھے یہ عفت کی خوش قسمتی ہے۔ رشتہ طے ہوگیا لیکن میرے والدین ایک بات سے پریشان تھے کہ وہ اتنے بڑے گھر میں بیٹی کو کیسے خالی ہاتھ رخصت کریں۔ امی نے پھوپی اور چچائوں سے بات کی۔ انہوں نے کہا۔ اس کی فکر مت کرو، ہم سب مل کر مدد کریں گے۔ ان شا اللہ تمہاری بیٹی کو کسی شے کی کمی نہ ہوگی، یہ شادی بڑی دھوم دھام سے ہوگی۔ ہم لڑکے والوں کی حیثیت کے مطابق ان کے شایان شان جہیز دیں گے۔ اس میں شک نہیں کہ ایک غریب محنت کش کی یہ بیٹی قسمت کی دھنی نکلی۔ میرے جہیز سے دولہا والوں کا گھر بھر گیا۔ ددھیال والوں کی دیکھا دیکھی ننھیال والوں نے بھی میرے جہیز کی شان بڑھانے میں کمی نہیں کی۔ میری شادی کے بعد امی نے سچ مچ سکھ کا سانس لیا۔ عظمت نے بھی شکر ادا کیا کہ میں اس پر ہر وقت ایک بھوت کی طرح سوار تھی اور میں نازاں تھی کہ قسمت نے مجھے سب کچھ دے دیا ہے۔ شوہر بھی خوبصورت اور مجھ پر سو جان سے فریفتہ اس قدر غربت میں والدین نے بیٹی کو گھر بھر کے سامان دے دیا تھا۔ شان سے غربت کی دھوپ سے نکل کر امارت کی چھائوں میں آگئی تھی۔ جہانزیب میری صورت دیکھ دیکھ کر جیتے تھے۔ ساس صدقے واری ہوتیں اور نندیں فخر سے کہتیں دیکھو ہماری بھابی کتنی خوبصورت ہے۔ چند ماہ خوشی سے بھرپور گزر گئے۔ جس بات کی تمنا کرتی پوری ہوجاتی۔ جس شے کی آرزو کرتی حاصل ہوجاتی۔ میرے شوہر کا کاروبار ایسا تھا کہ زیادہ تر ان کو گھر سے باہر رہنا پڑتا تھا۔ کبھی کبھی غیر ملک بھی جاتے، ان کو ماہ دو ماہ وطن سے دور رہنا پڑتا۔ یہ دوری مجھ سے برداشت نہ ہوتی۔ جب واپس آتے تب بھی ان کے کاروباری ساتھی آجاتے۔ وہ ان میں گھرے رہتے۔ رات دیر تک ان کے پاس بیٹھے رہتے۔ مجھے بے حد الجھن ہوتی تھی۔ میں کبھی کبھی احتجاج کرتی، کبھی روٹھ جاتی۔ وہ مجھے پیار سے منا لیتے۔ کہتے دولت تمہارے لیے کماتا ہوں تاکہ تم عیش کرسکو۔ میں ایک دو دن چپ رہتی پھر الجھنے لگتی۔ جب گھر میں ایسی کھینچاتانی ہو تو گھر کا ہر فرد ڈسٹرب ہوتا ہے۔ پہلے تو ساس سمجھاتی رہیں۔ پھر وہ کچھ خفا خفا سی رہنے لگیں کہ یہ کیسی نادان بہو لے آئی ہوں۔ سب کچھ ہوتے ہوئے موڈ خراب اور شوہر کو دیکھتے ہی منہ لپیٹ کر پڑ جاتی ہے۔ نندیں سارا وقت میری خوشامد میں لگی رہتیں کہ کسی طرح بھابی خوش رہے اور جب ہمارا بھائی گھر لوٹے، موڈ خراب نہ ہو، جہانزیب کا خوش دلی سے استقبال کرے۔ وہ اپنے بھائی کی ذرا سی پریشانی بھی نہ دیکھ سکتی تھیں اس لیے میری غلام بنی ہوئی تھیں۔ جب میں نہ سمجھی، جہانزیب پریشان رہنے لگے۔ وہ گھر بیٹھ جاتے تو ان کے بزنس سے متعلق لوگوں کے فون آنے لگتے۔ یار کہاں ہو، فلاں سودا ہونا تھا، لوگ دفتر آئے بیٹھے ہیں یا پھر دروازے پر دستک دیتے اور ان کو لینے آجاتے۔ جہانزیب چلے جاتے تو میں موڈ آف رکھتی، وہ نہ جاتے تو لاکھوں کا نقصان ہونے کا اندیشہ رہتا۔ سسر دبئی سے آگئے۔ صورتحال دیکھی تو بہت خفا ہوئے۔ بیوی سے کہا تم کیسی گھر کی سربراہ ہو، تم سے گھر کے معاملات کنٹرول نہیں ہوتے۔ شکل صورت پر فریفتہ ہوکر غریب گھر سے لڑکی لے آئی ہو، میں سمجھا تھا کہ آرام و سکون کی دولت پا کر یہ لڑکی ہماری بات مانے گی۔ اس گھر کے سکون کا خیال کرے گی۔ اس نے تو میرے بیٹے کو ہی پریشان کرکے رکھ دیا ہے۔ یہ اپنے گھر کی لاڈو ہوگی، یہاں اسے ہمارے طریقے سے رہنا ہوگا۔ یہ کہاں کی نواب زادی ہے کہ ہر وقت پلنگ پر پڑی رہتی ہے۔ میری بیٹیوں سے خدمت لیتی ہے اور غراتی بھی ہے۔ سیدھے سبھائو نہیں سمجھتی تو میکے بھجوا دو۔ چار روز میں عقل ٹھکانے آجائے گی۔ اب ساس کی آنکھیں کھلیں۔ مجھ سے بولیں کہ جب میری بیٹیاں نوکروں کے ہوتے کام کرتی ہیں، میں کھانا اپنے ہاتھ سے بناتی ہوں تو تم کیوں کام کو ہاتھ نہیں لگاتیں میں شروع سے کام چور تھی۔ ماں کے گھر میں تنکا بھی نہ توڑتی۔ اگر کوئی کام بادل نخواستہ کرنا پڑ جاتا، وہ خراب کردیا کرتی تھی۔ جب ساس نے سسر کا پیغام دیا، بجائے ان کے حکم کا احترام کرتی، الٹا ساس سے الجھنے لگی۔ وہ زیادہ کچھ کہتیں تو رونا شروع کردیتی اور ماں کے گھر چلی جاتی۔ ماں کو بھی جاکر بڑھا چڑھا کر بتاتی کہ ساس جھگڑتی ہے۔ یہ لوگ مجھ پر ظلم کرتے ہیں۔ اتنے نوکر ہیں لیکن مجھ کو کام کرنے کو کہتی ہے جبکہ سب کچھ میرے میاں کا ہے، وہ اتنا کماتے ہیں پھر میں کیوں کچن میں گھسی رہوں اور اپنے ہاتھ میلے کروں۔ امی میری طبیعت جانتی تھیں مگر میرا رونا ان سے برداشت نہ ہوتا۔ خالہ عارفہ کے پاس آکر ان کو سمجھاتیں کہ میری بچی تمہاری بچی ہے، اس پر اتنی سختی نہ کرو۔ رفتہ رفتہ وقت کے ساتھ سمجھ جائے گی۔ ایک دن انہوں نے کہہ دیا۔ سلیمہ آپا یہ سمجھنے والی چیز نہیں ہے۔ تم سے سمجھی جو اب ہم سے سمجھے گی۔ یہ بہت ضدی طبیعت کی لڑکی ہے۔ تم نے بیٹی کی صحیح پرورش نہیں کی۔ ہم شریف لوگ ہیں، اپنے ہیں۔ غیروں میں گئی ہوتی تو وہ کب کا اس کو چلتا کردیتے۔ شکل اچھی ہو اور اعمال اچھے نہ ہوں تو ایسی صورت کس کام کی بات ان کی صحیح تھی مگر فتور میرے دماغ میں تھا۔ آئینے کے عکس نے مجھے اتنا گھمنڈی بنا دیا کہ اپنی اوقات بھول گئی۔ اپنے آگے کسی کو کچھ نہ سمجھتی تھی۔ امی مجھے اور میری ساس کو الگ الگ سمجھا کر تھک گئیں تو وہ کبھی مجھ سے اور کبھی میری ساس سے الجھنے لگیں۔ ایک روز تو حد ہوگئی جبکہ میں تین دن تک میاں سے روٹھی رہی تو وہ میری شکایت لے کر امی کے پاس گئے۔ چاہئے تو یہ تھا کہ امی، داماد کا مان رکھتیں اور مجھے سرزنش کرتیں۔ جانے ان کے منہ سے کیوں ایسے الفاظ نکل گئے کہ میں اس روز روز کی چخ چخ سے تنگ آگئی ہوں۔ اگر میری بیٹی بھاری ہے تو واپس کردو۔ تم مرد ہو اور یہ مرد کا کام ہوتا ہے بیوی اور اپنے گھر والوں کے درمیان متوازن سلوک رکھے۔ تمہارے اندر کچھ کمی ہے جو سب کچھ پا کر بھی میری بیٹی ناخوش ہے۔ غرض امی نے داماد کو اس روز کھری کھری سنا دیں کہ وہ دم بخود رہ گئے۔ اماں کی اس طرف داری سے میں نے غلط مطلب لیا، مجھے شہ مل گئی۔ کہا کہ جہانزیب مجھے علیحدہ گھر لے کر دیں۔ میں آپ کے کنبے کے ساتھ نہیں رہوں گی۔ ذرا سا وقت اب جو کاروبار سے بچتا ہے، وہ ماں، بہنوں اور بھائیوں کے درمیان بیٹھ کر گزار دیتے ہیں اور میں کمرے میں ایک قیدی کی طرح پڑی رہتی ہوں۔ کسی طور ان لوگوں میں دو سال اکٹھے نکال دیئے۔ اولاد نہ ہوئی تو اس بات کا الزام بھی انہی لوگوں کو دینے لگی کہ ٹینشن میں رکھتے ہیں تبھی اولاد نہیں ہوتی۔ اس پر سسر نے باآواز بلند اعلان کیا۔ اب ہم اپنے بیٹے کی دوسری شادی کریں گے۔ گھر میں تنائو بڑھتا گیا۔ بے شک جہانزیب مجھے بہت کم وقت دے پاتے تھے۔ وہ زیادہ تر گھر سے باہر رہتے تھے لیکن یہ ان کی مجبوری تھی۔ ایک بیوی کو یہ بات سمجھنی چاہئے کہ اس کے شوہر پر کیا ذمہ داریاں ہیں۔ دیوروں اور نندوں کی ابھی شادیاں نہ ہوئی تھیں۔ ان کے والدین سلامت تھے، بھلا وہ کیسے ان سے غافل ہوجاتے اور اپنے کنبے سے کیسے علیحدہ رہ سکتے تھے۔ ان دنوں امی کے گھر میں شوہر سے روٹھ کر آئی ہوئی تھی۔ ایک رات اچانک دل کا دورہ پڑا۔ امی بلڈ پریشر کی مریضہ تھیں، اللہ کو پیاری ہوگئیں۔ ان کے چالیسو یں کے بعد والد نے کچھ رشتے داروں سے کہا کہ آپ لوگ میری بیٹی کے سسرال والوں کو آمادہ کریں کہ وہ عفت کو منا کر لے جائیں۔ رشتے دار میرے حالات جان چکے تھے۔ انہوں نے کہا۔ ہمارا اس معاملے میں پڑنا مناسب نہیں، آپ خود بیٹی کو لے جاکر اس کے گھر چھوڑ دیں۔ ایک روز ابا جی نے مجھے کہا۔ بیٹی تیرے ناز اٹھانے والی چلی گئی اور میں بیمار رہتا ہوں۔ دو لڑکیوں کو نہیں پال سکتا۔ تم ٹھیک سے اپنے گھر بسو گی تو کوئی عظمت کا رشتہ لے گا۔ تمہارا حال دیکھ کر اب رشتہ دار مجھ سے کترانے لگے ہیں۔ بیٹی تم خود اپنے شوہر کو فون کرو، وہ آکر تمہیں لے جائے۔ ساس سے معافی مانگ لو اور ان کا ہر کہا مانو۔ اس میں تمہاری شان نہیں گھٹتی بلکہ عزت بڑھے گی۔ باپ کے سمجھانے پر میں راضی ہوگئی۔ وہ خود مجھے سسرال پہنچانے گئے اور ساس سے معافی مانگنے کو کہا مگر عارفہ خالہ سخت مزاج ہوگئی تھیں۔ بادل نخواستہ میرا واپس آنا قبول کیا اور شرط یہ رکھی کہ میں سب کے لیے دوپہر کا کھانا بنائوں گی۔ ساس نوکروں کے ہوتے ہوئے کچن خود سنبھالتی تھیں اور اپنے ہاتھ کا کھانا پسند کرتی تھیں۔ میرے لیے یہ شرط کڑی تھی جس نے کبھی ہل کر پانی نہ پیا ہو، وہ کیسے اتنے سارے لوگوں کے لیے کھانا بنا سکتی تھی۔ میں تو دو روز میں ہانپ گئی حالانکہ نندیں بھی باری باری اس کام میں میرا ہاتھ بٹاتی تھیں۔ میں نے کھانا پکانے سے انکار کردیا۔ تب ساس نے کہا۔ یہ ہمارے کسی کام کی نہیں۔ سگھڑ ہے اور نہ کوئی اور گن، اوپر سے بانجھ لگتی ہے۔ اس کو چھوڑو، ہم تمہاری دوسری شادی کرواتے ہیں، مگر جہانزیب مجھ سے محبت کرتے تھے، وہ خاموش رہے۔ گھر والوں نے مجھ سے بات چیت بند کردی۔ وہ مجھ سے کھانے کا نہ پوچھتے۔ بھوک لگتی، خود کچن میں جاکر کھانا لے لیتی۔ اب میرا دل ان لوگوں سے برا رہنے لگا۔ ایک روز جبکہ جہانزیب بیرون ملک گئے ہوئے تھے، میں نے کسی سے بات کی اور نہ بتایا کہ جارہی ہوں۔ رکشہ منگوایا اور اپنے باپ کے گھر آگئی۔ مجھے دیکھ کر والد صاحب کا رنگ زرد پڑ گیا، عظمت بھی خوف زدہ ہوگئی۔ ہاتھ جوڑ کر بولی۔ باجی خدا کے لیے تم نے خود اپنے حالات خراب کئے ہیں تو خود سلجھائو۔ اپنے گھر میں بسو، ان لوگوں کی خدمت کرو ورنہ تمہارا گھر برباد ہوجائے گا۔ کیا یہ گھر نہیں ہے کیا برباد ہوجائے گا۔ میں ان لوگوں کی بہو ہوں یا نوکرانی۔ نہیں بسنا مجھے ایسے لوگوں میں جو مجھ سے گھر کا کام کرنے کو کہتے ہیں۔ ابا نے کہا۔ بیٹی اپنا گھر جنت ہوتا ہے، اپنے گھر میں سبھی کو کام کرنا ہوتا ہے۔ اس میں غلط بات کیا ہے۔ میرے اتنے اچھے رشتے آئے تھے، جانے اماں کو اپنی ان خالہ زاد بہن میں کیا دکھا۔ مجھے اتنے بڑے کنبے میں دھکیل دیا۔ آپا۔ ابا بیمار ہیں، اماں تو چلی گئیں۔ اب لڑلڑ کر ان کی بھی جان لو گی کیا تب میں غصے میں آپے سے باہر ہوگئی اور چھوٹی بہن پر ہاتھ اٹھا دیا۔ والد نے ہانپتے کانپتے کسی طرح سنبھالا۔ اماں کی وفات کے بعد شاید خالہ عارفہ کے دل سے ابا کا بھی لحاظ جاتا رہا تھا۔ والد نے ان کو کئی فون کئے، انہوں نے جواب نہ دیا۔ بلکہ کہلا بھیجا بہو بن کر رہنا ہے تو آجائے ورنہ آنے کی ضرورت نہیں۔ ایک روز بالآخر مجھے اپنے غرور کی سزا مل گئی بلکہ میری چھوٹی چھوٹی خطائوں کی سخت سزا ملی۔ سسر نے اپنی بھتیجی سے جہانزیب کا نکاح پڑھوا دیا۔ میں اپنی جگہ روٹھی بیٹھی تھی، ادھر میرے کمرے میں میرے جیون ساتھی کے لیے نئی سیج سجا دی گئی۔ سال بعد کسی نے بتایا کہ عفت تمہیں معلوم ہے تیرے میاں نے دوسری شادی کرلی ہے۔ اب وہ ایک بچے کا باپ بننے والا ہے۔ یہ سن کر پیروں تلے سے زمین نکل گئی۔ آئینے میں اپنی صورت دیکھی، وہ اپنی نہ لگی۔ صورت پر بارہ بج رہے تھے۔ اب وہ شکل رہی اور نہ وہ غرور رہا۔ صورت رہ جاتی تو بھی کرتی کیا۔ سانپ نکل گیا تھا لاٹھی اور لکیر رہ گئی تھی۔ والد اس غم کو سہہ نہ سکے۔ وہ اللہ کو پیارے ہوگئے۔ اس کے بعد ہم دونوں بہنوں کا کوئی نہ رہا۔ رشتے دار پہلے ہی بیچ میں نہ پڑتے تھے۔ اب میں سسرال کیونکر جاتی کہ سوتن آچکی تھی۔ اللہ نے جہانزیب کو بیٹا دے دیا تھا۔ وہ بھی لینے نہ آئے جیسے ان کو میری ضرورت نہ رہی ہو۔ ایک بار فون کیا تھا کہ چاہتی ہو تو چلو، الگ گھر لے کر دے دیتا ہوں۔ الگ رہ لینا، خرچہ دیتا رہوں گا، سوتن کو قبول کرنا ہوگا۔ میں نے ان کی یہ پیشکش ٹھکرا دی۔ اس میں میری نسوانیت کی توہین تھی۔ باپ کے ہوتے عظمت کا رشتہ نہ ہوسکا لیکن والد کی وفات کے بعد پھوپی نے اپنے دیور کے بیٹے سے شادی کروا دی۔ اس شخص کی بیوی وفات پا چکی تھی اور دو بچے تھے۔ عظمت نے خود کو محفوظ کرنے کے لیے اس رشتے کو قبول کرلیا۔ باپ کے گھر کی رکھوالی کے لیے میں اکیلی رہ گئی۔ سال بعد جب میرے شوہر کے ہاں بیٹی پیدا ہوئی تو سوتن نے مجھے طلاق دلوا دی۔ انہوں نے مجھے آزاد کردیا۔ اب ہوش آیا کہ وہ پیشکش بھی اچھی تھی۔ سوتن شوہر کے ساتھ اور میں الگ گھر میں رہتی، عزت سے کسی کی بیوی کہلاتی، خرچہ ملتا، شوہر بھی آتے جاتے رہتے۔ کیا پتا اللہ اولاد دے دیتا، اس کی پرورش میں لگ جاتی۔ زندگی کا کوئی مقصد تو ہوتا۔ میری کم عقلی خاندان والوں پر کھل چکی تھی۔ کوئی مجھ سے ملنا اور بات کرنا پسند نہ کرتا۔ ایک بہن کے سوا اب وہ بھی جب اس کا شوہر چاہتا، ملانے لاتا۔ اکیلے گھر میں اکیلی تنہائی سے تنگ آگئی۔ پڑھی لکھی نہ تھی کہ نوکری کرلیتی۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ پہلے چچا اور کچھ خرچہ بہن دے دیتی تھی، وہ بھی بند ہوگیا۔ کوڑی کوڑی کو محتاج ہوگئی۔ اپنی کفالت کے لیے میرے پاس اس کے سوا چارہ نہ رہا کہ کسی کے گھر ملازمہ ہوجائوں۔ ایک محلے والی نے ترس کھا کر اپنے جاننے والوں کے گھر رکھوا دیا۔ صبح سات بجے جاتی، شام کو سات بجے واپس آتی۔ سارا دن ان کے گھر کا کام سنبھالتی تب پیٹ کا دوزخ بھر پاتی۔ سوچتی ہوں کہ دوسروں کے گھروں میں کام کرنے سے اپنے گھر میں کام کرنا کیا برا تھا اب وہ صورت رہی کہ حور شمائل کہلائوں اور نہ وہ پوزیشن رہی کہ معاشرہ عزت کی نگاہ سے دیکھے۔ اے کاش میں پہلے سوچ لیتی کہ صورت ہمیشہ نہیں رہتی اور سیرت سے ہی انسان کی زندگی بنتی ہے۔ ع گوجرانوالہ
null
null
null
null
436
https://www.urduzone.net/dil-ki-khushi-ke-liye-teen-auratien-teen-kahaniyan/
مجھے ٹی وی ڈرامے دیکھنے کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ جس چینل پر کوئی ڈرامہ لگا ہوتا، میں سارے کام چھوڑ کر دیکھنے بیٹھ جاتی۔ کبھی دادی بیٹھی ہوتیں اور ڈرامے میں کوئی بات انہیں ٹھیک نہ لگتی تو کہتیں دیکھو زمانے کو کیا ہوگیا ہے۔ لڑکیوں کو کیا سکھا رہے ہیں۔ اپنی مرضی کا لڑکا منتخب کرو اور اپنی پسند کی شادی کرو۔ بھلا یہ بھی کوئی بات ہے لڑکی تم ایسے ڈرامے نہ دیکھا کرو جس میں لڑکیاں آزاد خیال دکھائی جاتی ہیں۔ تب میں جواب دیتی۔ دادی آپ تو ہیں پرانے زمانے کی۔ آپ کے دور میں ہوتی ہوں گی لڑکیاں بے زبان گائے جیسی ہمارا زمانہ اب ترقی کرگیا ہے۔ لڑکی کو بھی پسند کا حق دیا گیا ہے۔ بھلا پسند کی شادی کرنے میں کیا حرج ہے۔ بیٹی بچیوں کو بھلا کیا سمجھ کہ کون کیسا ہے۔ ایسا ویسا کوئی لڑکا اچھا لگا اور بعد میں صحیح نہ نکلا، زندگی برباد ہوجاتی ہے۔ ایک دو دن کا کھیل نہیں، شادی عمر بھر کا سودا ہوتا ہے۔ والدین کو تجربہ ہوتا ہے۔ وہ جس قدر زمانے کو جان پرکھ لیتے ہیں، بچے نہیں سمجھ سکتے۔ لڑکیاں جذبات اور ماں، باپ عقل سے کام لیتے ہیں لہٰذا والدین پر بھروسا کرنے میں اولاد کا بھلا ہے۔ آج کل جانے کیا سکھا رہے ہیں عورت کو لڑکی ماں، باپ کے آگے پٹر پٹر بول رہی ہوتی ہے اور بیوی، شوہر کے منہ پر تھپڑ مار دیتی ہے۔ ارے بیٹی حقیقی زندگی میں یہ سب نہیں چلتا۔ گھر بسانے کے لیے سمجھوتے کرنے پڑتے ہیں۔ عورت کا بھلا اسی میں ہے کہ وہ اپنے شوہر کی برتری کو تسلیم کرے۔ جو فوقیت اللہ نے مرد کو دی ہے اور عورت کو احترام بخشا ہے، اسے دونوں کو ماننا چاہیے۔ مرد ہو یا عورت ہو، ایک دوسرے کے خلاف بڑھ چڑھ کر بولنا ٹھیک نہیں۔ دادی جب ایسی باتیں کرتیں، ڈرامے کا مزا کرکرا ہوجاتا اور میں ٹی وی بند کرکے اٹھ جاتی، موڈ خراب ہوجاتا۔ دعا کرتی دادی کبھی بھولے سے بھی ٹی وی لائونج میں آکر نہ بیٹھیں۔ بزرگ تبھی اچھے لگتے ہیں جب وہ ایک حد تک روک ٹوک کریں اور بہت زیادہ پندو نصائح نہ کریں۔ میں نے ابو سے شکایت کردی۔ بھلا ان کے پاس دولت کی کیا کمی تھی۔ وہ ایک جانے مانے بزنس مین تھے، کروڑوں کے مالک۔ انہوں نے میرے کمرے میں ٹی وی لگوا دیا کہ جو جی چاہے بیٹھ کر دیکھو، ٹی وی لائونج میں آنے اور دادی کو کچھ کہنے کی ضرورت نہیں۔ ان کی جو مرضی چاہے دیکھیں۔ تب ٹینشن ختم ہوگئی لیکن جلد ہی میرا ٹی وی ڈراموں سے دل اُکتا گیا۔ امتحان ختم ہوگئے تھے۔ ابو سے فرمائش کی مجھ کو گاڑی لے کر دیں۔ بھائی جب دل چاہتا ہے، گاڑی لے کر چلے جاتے ہیں۔ مجھے کہیں جانا ہو تو ان کا منہ تکنا پڑتا ہے۔ میں اکلوتی بیٹی تھی اور وہ میرے بھائی تھے، مجھے والدین سے ان سے زیادہ پیار ملا۔ انہوں نے میرے لیے گاڑی خرید دی اور میں نے ڈرائیونگ بھی سیکھ لی۔ جب جی چاہا گاڑی لے کر گھر سے نکل جاتی۔ کبھی کسی سہیلی کے گھر، کبھی شاپنگ مال اور کبھی یونہی کسی سنسان سڑک پر لانگ ڈرائیو کے لیے رشتے دار لڑکیاں میری زندگی پر رشک کرتی تھیں۔ ایک روز شاپنگ کے لیے نکلی۔ سوچا مدیحہ کو ساتھ لے لوں۔ مدیحہ میری بیسٹ فرینڈ تھی، اس کے گھر جارہی تھی کہ راستے میں ایک جگہ سگنل بند ہونے کے سبب گاڑی روکنا پڑی۔ ایک نوجوان قریب آیا جو خوبرو اور اسمارٹ تھا۔ سچ کہوں، پہلی نظر میں ہی بھا گیا۔ کھڑکی کے قریب آکر بولا۔ محترمہ کیا مجھے آپ لفٹ دے سکتی ہیں کس خوشی میں میں نے بظاہر ناگواری سے سوال کیا۔ کسی خوشی میں نہیں، مجبوراً دراصل میری والدہ کا سڑک پار کرتے ہوئے ایکسیڈنٹ ہوگیا ہے۔ وہ جس رکشے میں جارہی تھیں، اسے ایک گاڑی نے ہِٹ کیا تو رکشہ الٹ گیا۔ امی کے چوٹ آگئی ہے۔ وہ دیکھئے سامنے میں نے ادھر نگاہ ڈالی۔ ایک بزرگ خاتون واقعی گلی کے نکڑ پر اپنی ٹانگ پکڑے بیٹھی تھیں۔ میں نے گاڑی ایک جانب کھڑی کی اور اتر کر خاتون کی طرف چلی گئی۔ اس نوجوان نے انہیں گاڑی میں بٹھایا۔ اسپتال زیادہ دور نہ تھا۔ میں نے خاتون کو اسپتال پہنچا دیا۔ دونوں ماں، بیٹا بہت مشکور ہوئے۔ میں نے اس نوجوان سے اس کا سیل نمبر لے لیا تاکہ ان کی والدہ کی بعد میں خیریت دریافت کرسکوں۔ میں نے اسے فون کیا۔ اس نے بتایا۔ امی کی ٹانگ کا ایکسرے ہوا تھا، شکر ہے فریکچر سے بچ گئیں البتہ چوٹ لگنے سے ٹانگ میں درد ہے۔ ڈاکٹر نے طبی امداد دے کر گھر جانے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کے بعد میں نے اسے فون کیا اور نہ اس نے رابطہ کیا تاہم مجھے ان ماں، بیٹے کا وقتاً فوقتاً خیال آتا رہتا تھا۔ ایک روز گھر سے نکلی تو وہ نوجوان سامنے نظر آگیا۔ اس نے ہاتھ کے اشارے سے سلام کیا۔ میں نے گاڑی روک لی اور پوچھا۔ اب آپ کی والدہ کیسی ہیں اللہ کا شکر ہے، وہ بالکل ٹھیک ہیں۔ اتنی بات کرکے وہ ایک طرف کھڑا ہوگیا۔ میرا جی چاہا کہ اس سے پوچھوں کہ کہیں جانا ہے تو میں چھوڑ دوں۔ اس نے کہا۔ شکریہ ہم نے وہ سامنے والا گھر کرائے پر لیا ہے۔ ناصر تم نے جو گھر کرائے پر لیا ہے، میرا گھر اسی کے سامنے واقع ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اب ہم پڑوسی بن چکے ہیں۔ تو اس خوشی میں کیا کرنا چاہیے وہ ہنس کر بولا۔ چلو اس خوشی میں مٹھائی کھاتے ہیں۔ میں نے خوشی میں بے ساختہ پیشکش کردی۔ وہ بھی غالباً لفٹ چاہ رہا تھا، فوراً گاڑی میں بیٹھ گیا اور ہم ایک مشہور مٹھائی کی دکان پر چلے گئے۔ میں نے مٹھائی خریدی اور واپس لوٹ کر اسی جگہ آگئے۔ مجھے یہیں اتار دیجئے، امی انتظار کررہی ہوں گی۔ دراصل میں ان کی دوا لینے نکلا تھا کہ خوش قسمتی سے آپ سے ملاقات ہوگئی۔ معلوم نہ تھا کہ آپ کا گھر سامنے ہے۔ اللہ کا شکر ہے آپ سے ملاقات ہوگئی۔ امی یہ جان کر بہت خوش ہوں گی۔ چلو پھر تمہاری امی سے مل لیتے ہیں۔ مٹھائی ان کے ساتھ بیٹھ کر کھاتے ہیں۔ ضرور اگر آپ کی والدہ بھی اس وقت ہمراہ ہوتیں تب بہت اچھا ہوتا۔ میں سمجھ گئی کہ مجھے والدہ کے ہمراہ اس کے گھر جانا چاہیے تاکہ رسم وراہ بڑھے۔ ٹھیک ہے، ہم شام کو آئیں گے۔ ویل کم میں امی کو بتا دوں گا۔ یہ کہہ کر وہ گاڑی سے اتر گیا اور پیدل اپنے گھر کی طرف چل دیا۔ مجھے خیال آیا اس کی والدہ کے لیے صحت یابی کی خوشی میں گفٹ لینا چاہیے۔ گھر جانے کی بجائے بازار چلی گئی۔ ایک اچھا سا پرفیوم خریدا اور شام کو امی سے کہا۔ ہمارے سامنے والے گھر میں نئے کرائے دار آئے ہیں، چلیے ان سے ملتے ہیں۔ وہ کہنے لگیں۔ کل چلیں گے۔ آج میں نے تمہارے ماموں کی طرف جانا ہے، ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے۔ تھوڑی دیر پہلے بھابی کا فون آیا تھا۔ میں نے کہا کہ پانچ بجے آجائوں گی۔ امی جان چلی جانا ماموں کے گھر لیکن پہلے ناصر کے گھر چلتے ہیں۔ میں نے اسے بتا دیا تھا کہ آج شام امی اور میں آئیں گے۔ یہ ناصر کون ہے ہمارے نئے پڑوسی ناصر پہلے میرے ساتھ کالج میں پڑھتا تھا۔ میں نے جھوٹ بولا تاکہ امی بال کی کھال اتارنے نہ بیٹھ جائیں۔ امی ناصر کی والدہ کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا کچھ دن پہلے، آپ خیرخیریت دریافت کرنا۔ تبھی میں ان کے لیے مٹھائی اور یہ گفٹ لے کر جارہی ہوں۔ ٹھیک ہے۔ میری ماں نے کہا۔ شام کو میرے ساتھ وہ ناصر کے گھر چلی گئیں۔ چند منٹ آنٹی کے پاس بیٹھ کر اٹھنے کو ہوئیں۔ مجھ سے کہا۔ تم چاہو تو ان کے پاس بیٹھو، میرا بھائی جان انتظار کررہے ہوں گے۔ ماموں جان کی طبیعت ٹھیک نہ تھی۔ والدہ کو ان کی فکر دامن گیر تھی۔ وہ چلی گئیں اور میں دیر تک آنٹی کے پاس بیٹھ کر اِدھر اُدھر کی ہانکتی رہی۔ دراصل مجھے ناصر سے لگائو ہوگیا تھا۔ رفتہ رفتہ آنٹی سے ملنے کے بہانے ناصر سے بھی ملاقات ہونے لگی۔ ایک روز ناصر نے بتایا کہ ان کی والدہ بیٹی کے پاس فیصل آباد چلی گئی ہیں کیونکہ ان کی طبیعت ناساز رہنے لگی تھی۔ یہاں دیکھ بھال کرنے والا کوئی نہ تھا۔ تم کیوں نہیں ان کے ساتھ گئے ناصر میں نے کاروبار شروع کیا ہے یہاں ایک دوست کے ساتھ مل کر، کام نیا نیا ہے، غیر حاضر نہیں ہوسکتا۔ چلو ٹھیک ہوا۔ اگر تم چلے جاتے، میں اداس ہوجاتی۔ وہ مجھے کچھ پریشان سا لگا تو میں نے پوچھا۔ پریشان ہو بتائو کیا بات ہے پریشان اس لیے ہوں کہ امی گھر پر نہیں ہیں، پھر تم ہمارے گھر نہ آئو گی۔ تو کیا ہوا ہم باہر کہیں مل لیں گے۔ میرے والدین آزاد خیال ہیں، وہ دقیانوسی بالکل نہیں ہیں۔ ایک ہفتہ گزرا کہ اس نے فون کیا۔ سارہ اب کب ملو گی میں خوش ہوکر بولی۔ جب کہو۔ اس نے کہا۔ کہاں ملنا ہے میں نے اسے ریسٹورنٹ کا نام اور ملنے کا وقت بتایا اور وقت مقررہ سے قبل ہی وہاں پہنچ گئی اور ایک ٹیبل پر بیٹھ کر اس کا انتظار کرنے لگی۔ وہ مقررہ وقت سے دس منٹ بعد آیا۔ معذرت کی کہ سواری نہیں مل پا رہی تھی، دیر ہوگئی ہے۔ تم گاڑی کیوں نہیں خرید لیتے جلد لے لوں گا۔ وہ بولا۔ فی الحال تمام سرمایہ کاروبار میں لگا دیا ہے۔ نیا نیا بزنس ہے نا۔ میں جانتی تھی کہ وہ زیادہ دولت مند نہیں ہے مگر مجھے دولت سے کوئی سروکار نہ تھا۔ میرے والد کے پاس دولت کی کمی نہ تھی اور محبت وہ کب دولت کے لیے کی جاتی ہے۔ محبت تو اس سے ہوجاتی ہے جو اچھا لگے، من بھا جائے۔ میں نے ابھی تک ناصر سے اپنے دلی جذبات کا اظہار نہ کیا تھا۔ بس ایک دوست کی حیثیت سے ملتی تھی۔ کہتے ہیں کچھ لوگ بیٹیوں کی پیدائش پر رنجیدہ ہوجاتے ہیں۔ اولاد بیٹی ہو یا بیٹا، اولاد پیاری ہوتی ہے لیکن کچھ بیٹیاں ناسمجھی میں والدین کے دل میں شگاف ڈال دیتی ہیں۔ مجھے خبر نہ تھی کہ میں بھی ان کی جھولی دُکھوں سے بھر دوں گی کہ جنہوں نے میری جھولی میں زندگی کا ہر سکھ اور اپنے پیار کی دولت انڈیل دی تھی۔ اکثر دولت مند گھرانے جہاں والدین آزاد خیال ہوتے ہیں، اولاد پر پابندیاں کم ہوتی ہیں۔ مجھ پر بھی ایسی کوئی پابندی نہ تھی۔ چاہتی تو ناصر کو اپنے گھر مدعو کرسکتی تھی۔ جانے کیوں میں نے ایسا نہ کیا، شاید کہ اسے گلے کا ہار نہ بنانا چاہتی تھی لیکن اب پتا چلا کہ محبت واقعی خودبخود گلے کا ہار ہوجاتی ہے۔ کوئی نہ بھی چاہے تو بھی محبوب کا خیال اس کا راستہ روک لیتا ہے۔ ناصر کا خیال غیر محسوس انداز میں میرے دل میں گھر کرتا گیا۔ آج اسی انجانے رشتے میں بندھی میں اس کیفے میں اکیلی بیٹھی تھی کہ وہ آگیا۔ مجھے لگا چند منٹوں کا نہیں بلکہ صدیوں کا انتظار تھا جو ختم ہوگیا ہے۔ اس روز دل کے ہاتھوں مجبور ہوگئی۔ بہت سی باتیں ہوئیں۔ ہم نے اظہار محبت کردیا اور اس رشتے کو نبھانے کا وعدہ بھی کیا۔ اس نے کہا تھا کہ میرا تعلق متوس طبقے سے ہے لیکن مجھے تمہارے والد کی دولت سے غرض نہیں۔ تم سے پیار ہے، یہ بات تم آزما لینا۔ اس نے وعدہ کیا وہ جلد اپنی والدہ کے ہمراہ ہمارے گھر آئے گا۔ اس کی والدہ ہفتہ بعد لوٹ آئیں۔ اس نے فون کیا۔ ہم آج تمہارے گھر آئیں گے۔ والد صاحب صبح کے گئے رات کو لوٹتے تھے۔ وہ ابھی تک ناصر سے نہ ملے تھے۔ میں نے سوچا کہ انہیں روکنا چاہیے تاکہ ناصر سے ملاقات ہوجائے۔ ابو کو بتا دیا میرے خاص مہمان آئیں گے، آپ شام گھر پر رہیے گا۔ وہ میری کوئی بات نہ ٹالتے تھے۔ مجھے ان پر پورا اعتماد تھا۔ خوش دلی سے ناصر اور آنٹی سے ملے اور نئے پڑوسی جان کر اچھی طرح ان کا استقبال کیا لیکن جونہی آنٹی نے مدعا بیان کیا کہ وہ بیٹے کے رشتے کی خاطر آئی ہیں، والد صاحب یکدم سنجیدہ ہوگئے۔ انہوں نے رکھائی سے کہا کہ میری ایک ہی بیٹی ہے اور میں رشتہ اپنے ہم پلہ لوگوں میں کروں گا۔ آپ اس مقصد کے لیے دوبارہ آنے کی زحمت نہ کریں۔ یہ کہہ کر وہ بغیر انہیں خداحافظ کہے گھر سے نکل گئے۔ والد پر جو میرا اندھا اعتماد تھا، وہ آن واحد میں چکنا چور ہوگیا، جیسے کسی نے بھروسے کے تاج محل کو آگ لگا کر راکھ کردیا ہو۔ والدہ نے شکوہ کیا۔ بیٹی اگر ان لوگوں نے رشتے کے لیے آنا تھا تو پہلے مجھے بتانا تھا۔ کم ازکم میں تمہارے والد کے کان میں بات ڈال کر ان کی مرضی معلوم کرلیتی تو آج ان کی بے عزتی نہ ہوتی۔ میں نے روتے ہوئے کہا۔ ماں مجھے آپ پر بھروسا نہ تھا۔ سوچا کہ آپ کہیں معاملہ بگاڑ نہ دیں کیونکہ آپ چاہتی ہیں کہ میرا رشتہ آپ کے بھائی کے فرزند سے ہوجائے، اسی لیے میں نے آپ سے ذکر نہ کیا۔ ابو کی ذات پر پورا یقین تھا کہ وہ انکار نہ کریں گے، جب انہیں معلوم ہوگا کہ میں ناصر کو پسند کرتی ہوں۔ انہوں نے آج تک میری کسی فرمائش کو رد نہیں کیا۔ بیٹی فرمائش اور چیز ہے، رشتہ اور معاملہ ہے۔ یہ عمر بھر کا سودا ہوتا ہے اور تمہارے والد نے اگر انکار کیا ہے تو کچھ سوچ کر ہی کیا ہوگا۔ ہمارے گھر سے جاکر ناصر نے فون کیا۔ اگر تم مجھے نہ ملیں تو قسم کھاتا ہوں کسی گاڑی تلے آکر جان دے دوں گا۔ میں امی، ابو سے بہت جھگڑی، ٹوٹ کر روئی۔ آخر ان کو اپنی لاڈلی بیٹی کی خوشی کی خاطر گھٹنے ٹیکنے پڑے۔ بادل نخواستہ والد صاحب نے ناصر کو داماد بنانا قبول کرلیا۔ سادگی سے ہماری شادی کی تقریب انجام پائی۔ کسی رشتے دار کو نہ بلایا گیا اور میں رخصت ہوکر ناصر کے گھر آگئی۔ شادی کے بارے میں کیسے کیسے سہانے خواب لڑکیاں دیکھتی ہیں اور جب شادی محبت کی ہو تو لڑکی پیا کے گھر کی دہلیز پر قدم رکھتے ہی گھر کو بہشت جیسا بنانے کے بارے میں سوچنے لگتی ہے۔ ایک ہفتہ ہنسی خوشی میں گزرا کہ ایک روز اچانک فیصل آباد سے ہمارے گھر کچھ مہمان آگئے۔ ان کے ہمراہ ایک سات آٹھ برس کا بچہ بھی تھا۔ اتفاق سے ناصر اپنی والدہ کو لے کر ڈاکٹر کے پاس گیا ہوا تھا۔ آنے والے مہمانوں نے دریافت کیا کہ ناصر اور ان کی والدہ کہاں ہیں اور آپ کون ہو وہ ڈاکٹر کے پاس گئے ہیں اور میں ناصر کی بیوی ہوں۔ میں نے بتایا۔ بیوی کمسن لڑکے کے منہ سے بے اختیار نکلا لیکن ماموں تو شادی شدہ ہیں۔ ممانی فیصل آباد میں ہیں۔ کیا کہا تم نے میرا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ ہاں آنٹی وہ میرے ماموں ہیں اور ان کے چار بچے ہیں۔ آپ کیسے ان کی بیوی ہوسکتی ہیں لڑکے کی ماں بھی پریشان ہوگئی۔ وہ کبھی مجھے دیکھتی اور کبھی اپنے ناسمجھ بیٹے کو گھورتی تھی مگر لڑکا تھا کہ چپ ہونے کا نام نہ لے رہا تھا۔ ناصر اور آنٹی گھر لوٹے تو میں نے کہا۔ ناصر مجھے پتا چل چکا ہے، کتنا بڑا دھوکا دیا ہے تم نے محبت کے نام پر تم شادی شدہ اور چار بچوں کے باپ ہو۔ ناصر کے چھکے چھوٹ گئے۔ مجھے کمرے میں لے آئے، بولے۔ مجھے معاف کردو، میں وعدہ کرتا ہوں اپنی پہلی بیوی کو چھوڑ دوں گا تمہاری خاطر ہاں تو چھوڑ دو۔ میں نے غصے میں کہا۔ وہ مجھے مناتا رہا مگر میں مان کر نہ دی۔ تب ناصر نے ایک شرط رکھ دی۔ اس نے کہا۔ اپنے باپ سے کم ازکم چھ کروڑ لے کر آئو، اگرچہ ان کی دولت میں تمہارا حصہ اس سے کہیں زیادہ ہے لیکن میرا کام اتنے روپے سے چل جائے گا۔ اگر تم چھ کروڑ لا سکتی ہو تو میں پہلی بیوی کو چھوڑ دوں گا۔ طلاق نامہ اسی وقت لکھ کر اس کو بھجوا دوں گا۔ اپنے چار بچوں کی ماں کو میں نے حیرت سے کہا۔ صرف چھ کروڑ کی خاطر تمہارے لیے یہ رقم کچھ نہیں مگر میرے لیے بہت بڑی رقم ہے۔ ان پیسوں سے میری زندگی سنور جائے گی۔ میرا بزنس زمین سے آسمان پر جا پہنچے گا۔ روتی ہوئی میں اپنے والد کے پاس گئی۔ انہیں بتایا کہ ان کے چھ کروڑ کی بدولت میرا گھر بسا رہ سکتا ہے۔ تم اگر ناصر کو چھوڑ سکتی ہو، چھوڑ دو۔ جس دن اس لالچی شخص سے ہمیشہ کے لیے ناتا ختم کرکے آجائو گی، میں تمہیں چھ کروڑ نہیں بلکہ تمہارا پورا حصہ تمہیں دے دوں گا۔ میں نے پہلی نظر میں بھانپ لیا تھا کہ تم نے ناسمجھی میں ایک غلط شخص کا انتخاب کرلیا ہے۔ والد صاحب نے صحیح کہا تھا کہ ناصر ایک خودغرض اور بے وفا انسان تھا۔ وہ چھ کروڑ لے کر بھی مجھ سے وفا نہ کرتا۔ جو دولت کی خاطر اپنی بیوی اور چار بچوں کو چھوڑنے پر تیار ہوگیا تھا، اس نے واقعی مجھ سے شادی دولت کی خاطر کی تھی۔ یہ بات بعد میں اس کے رویئے سے ثابت ہوگئی اور مجھے پناہ ملی تو اپنے پیارے والد کے سائبان تلے آج اپنے غلط فیصلے پر دکھ تو ہے لیکن اپنے پیارے ابو کے پیار پر مان بھی ہے جنہوں نے سو دکھ جھیل کر مجھے سکھی رکھا۔ والد کہتے تھے۔ پہلے اپنی مرضی اور پسند سے شادی کرکے دیکھ لی، اب میری مرضی سے شادی کرلو تو مجھے سکون مل جائے گا۔ میں ان کو کہتی ہوں۔ ابو میں اب دوسری شادی نہیں کرسکتی، میرا دل راضی نہیں ہوتا۔ کیا کروں شادی انسان ایک بار ہی کرتا ہے جس میں دلی خوشی پنہاں ہوتی ہے۔ مجبوراً شادی کرنے میں خوشی نہیں ہوتی۔ وہ سمجھاتے۔ بیٹی بے شک شادی دل کی خوشی کا نام ہے لیکن کبھی کبھی دنیا کی خوشی کے لیے بھی یہ بندھن باندھنا پڑتا ہے۔ میرے بعد تم کو کسی سہارے کی جب ضرورت محسوس ہوگی تو میری یہ بات یاد کرو گی کہ عورت کی زندگی کسی جیون ساتھی کے بغیر گزر تو جاتی ہے مگر بہت مشکلات سہنی پڑتی ہیں۔ آج ان کی بات یاد آتی ہے تو سوچتی ہوں واقعی ابو صحیح کہتے تھے۔ م ساہیوال
null
null
null
null
437
https://www.urduzone.net/roshni-zaroor-hogi-teen-auratien-teen-kahaniyan/
ہر خاندان میں کچھ غریب اور کچھ امیر ہوتے ہیں۔ ہم پہلے خوشحال تھے۔ میرے شوہر کی وفات کے بعد حالات دگرگوں ہوتے گئے اور نوبت فاقوں تک آگئی۔ شروع میں کسی سے ذکر کیا اور نہ کسی کے آگے ہاتھ پھیلایا، تنہا حالات کا مقابلہ کرتی رہی۔ میکہ، سسرال ایک ہی تھا۔ شوہر چچازاد تھے۔ دونوں طرف سے کافی زیور ملا تھا اور وراثت میں کچھ جائداد بھی آئی۔ بیوگی کے دنوں میں پہلے یہ زیورات کام آئے۔ بیچ بیچ کر گھر کا خرچہ چلایا پھر جائداد کی باری آگئی۔ دو پلاٹ والد صاحب اور دو خاوند سے ملے تھے جو میرے نام تھے۔ انہیں فروخت کرکے روپیہ بینک میں ڈالا اور اس سرمائے کے منافع سے گھر چلایا۔ کب تک بالآخر یہ سلسلہ بھی موقوف ہوا کیونکہ بچے بڑے ہوگئے تھے، کالج جانے لگے تھے، تعلیمی اخراجات بڑھ گئے، فیسوں میں خاصی رقم نکل جاتی، کھانے کو کچھ نہ بچتا۔ ان دنوں میں پارٹ ٹائم جاب کررہی تھی۔ خدا خدا کرکے بڑے بیٹے کاشف نے تعلیم مکمل کرلی۔ اس کی ملازمت کیلئے تگ و دو کرنے لگی کہ اب وہی اس کشتی کا کھیون ہار اور ہمارا سہارا تھا۔ گھر کے سب افراد کی امیدیں اس سے وابستہ تھیں۔ کاشف نے بی اے کیا تھا۔ بی اے کے بعد مقابلے کے امتحان کی تیاری کی مگر گھریلو مسائل کے باعث یکسوئی سے تیاری نہ کرسکا۔ کامیابی نصیب نہ ہوئی تو میں نے مشورہ دیا مزید وقت ضائع کرنے کی بجائے نوکری ڈھونڈو۔ اب تم نے کمانا ہے ورنہ تمہارے بہن، بھائی پڑھائی جاری نہ رکھ سکیں گے۔ کاشف ایک بار پھر مقابلے کے امتحان کی تیاری کرکے قسمت آزمانا چاہتا تھا مگر میں نے حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے اسے ملازمت پر مجبور کردیا۔ چاہتی تو بھائیوں سے امداد کی درخواست کرسکتی تھی تاہم یہ میرے ضمیر نے گوارا نہ کیا۔ ایک قریبی عزیز پولیس آفیسر تھے، ان سے ذکر کیا۔ انہوں نے کہا کہ کاشف پولیس میں ملازمت کرنا چاہے تو کل میرے پاس دفتر آجائے۔ آج کل کچھ آسامیاں خالی ہیں۔ میں اسے پولیس انسپکٹر لگوا سکتا ہوں۔ میں نے کاشف سے ذکر کیا۔ وہ بولا۔ ماں میں کوئی بھی نوکری کرلوں گا مگر پولیس میں جانا قبول نہیں ہے۔ آخر کیوں میرے بیٹے لوگ تو ایسی پرکشش نوکری کیلئے ترستے ہیں ایسی نوکری پا کر لوگوں کے وارے نیارے ہوجاتے ہیں۔ میں نے بے خیالی میں کہہ دیا۔ میری بات سن کر کاشف کا رنگ یوں اُڑ گیا جیسے اسے خدانخواستہ کسی نے بجلی کا کرنٹ لگا دیا ہو۔ وہ بولا۔ ماں یہ کیسے الفاظ آپ کے منہ سے سن رہا ہوں میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ میری ماں ایسا کہہ سکتی ہے۔ کیوں بیٹے کیا میں نے کچھ غلط کہہ دیا ہے غلط حیرت ہے امی جان غلط نہیں بلکہ صریحاً غلط۔ بہت زیادہ غلط کہہ دیا ہے آج آپ نے اب میں بیٹے کا منہ تک رہی تھی۔ کچھ سمجھ نہ پا رہی تھی۔ تبھی وہ بولا۔ امی جان پولیس کی نوکری میں بہت پیسہ ہے۔ آپ نے یہی کہا نا تو اس کا کیا مطلب ہے اس کا مطلب ہے کہ میں رشوت لوں۔ میں رشوت پر یقین نہیں رکھتا۔ کیا آپ رشوت پر یقین رکھتی ہیں۔ توبہ کرو بیٹا میں نے کانوں کو ہاتھ لگایا۔ خدانخواستہ کیا کبھی میں نے تمہیں ایسی تعلیم دی ہے۔ ہمیشہ ایمانداری کا سبق پڑھایا ہے۔ تم رشوت مت لینا، نوکری تو بری نہیں ہے۔ ماں مجھے اسی وجہ سے قبول نہیں ہے کہ رشوت نہ لی تب مجھے نوکری چھوڑنی پڑے گی۔ آپ نہیں جانتیں اس محکمے کے نظام کو۔ اچھا بیٹا تم بہتر جانتے ہو گے لیکن تمہاری نوکری ہماری مجبوری ہے۔ فی الحال میرا کہا مان لو اور پولیس انسپکٹر بن جائو۔ اگر کوئی ایسی صورتحال درپیش ہو تو چھوڑ دینا یہ نوکری، استعفیٰ دے دینا۔ میرے مجبور کرنے پر کاشف اگلے دن میرے کزن کے دفتر چلا گیا اور چند روز بعد اسے تقرر نامہ مل گیا۔ وہ پولیس انسپکٹر بھرتی ہوگیا تھا۔ بہت خوش تھی، محلے میں مٹھائی تقسیم کی۔ کاشف ٹریننگ پر چلا گیا۔ جب وہ واپس لوٹا تو تھانیدار بن چکا تھا۔ شروع دنوں میں کاشف پرسکون رہا، رفتہ رفتہ بے سکون نظر آنے لگا۔ میں پوچھتی تو کچھ نہ بتاتا۔ ایک دن گھر آیا۔ پریشان دیکھ کر پوچھا۔ بیٹا کیا بات ہے، کیوں مضطرب نظر آرہے ہو۔ تمہاری ماں ہوں آخر مجھے کچھ تو بتائو کہنے لگا بتا دوں گا تو کہیں گی کہ نوکری چھوڑ دو۔ اب یہ نوکری چھوڑ بھی نہیں سکتا اور ملازمت میں کچھ قباحتیں بھی ہیں۔ دراصل ایک نیا آفیسر آگیا ہے۔ پہلے والا ٹھیک آدمی تھا لیکن یہ آفیسر کچھ اور مزاج کا ہے۔ بات مانوں تو پریشانی لاحق ہوتی ہے، نہ مانوں تو کھڈے لائن لگتا ہوں۔ میری سمجھ میں تیری بات نہیں آرہی بیٹا ذرا کھل کر بتائو۔ بعد میں بتا دوں گا ماں ابھی تم یہ پستول رکھ لو۔ میں نے پستول رکھ لیا لیکن رات بھر فکر کی وجہ سے نیند نہ آئی۔ دو روز اسی طرح گزر گئے کہ وہ مضطرب رہا۔ تیسرے دن اس نے وہ پستول مجھ سے مانگا اور ساتھ لے گیا۔ ڈیوٹی کرکے لوٹا تو سکون کی نیند سو گیا۔ اگلے روز ہم ساتھ بیٹھے ناشتہ کررہے تھے۔ میں نے سوال کیا۔ بیٹا کیا بات تھی، اس پستول کا کیا قصہ ہے، کس کا تھا، کیوں میرے پاس رکھوایا تھا۔ کہنے لگا۔ امی یہ پولیس والوں کیلئے معمول کی بات ہے لیکن میں چونکہ اس کا عادی نہیں ہوں اس لئے پریشان تھا۔ صاف بات کہو تاکہ سمجھ سکوں۔ کل رات کی ڈیوٹی تھی، رات کے ایک پہر بعد سنسان سڑک پر ایک مرد ایک عورت نظر آئے۔ سمجھ گیا معاملہ کیا ہے۔ جاکر ان کو دھر لیا۔ پوچھ گچھ کی۔ مرد باتوں کے لحاظ سے مناسب معلوم ہوا مگر گھبرایا ہوا تھا۔ اس نے کہا کہ عورت اس کی گرل فرینڈ یا کرائے کی لڑکی نہ تھی۔ وہ بھی کسی عزت دار گھرانے کی تھی۔ اگر بات اچھلتی اور طشت ازبام ہوجاتی تو بڑا مسئلہ کھڑا ہوجاتا کہ عورت کسی اور مرد کی بیوی تھی جو ان دنوں بیرون ملک گیا ہوا تھا۔ دو شریف گھرانوں کی عزت خاک میں ملنے لگی تھی۔ تبھی وہ شخص گھبرا گیا تھا۔ اس نے مجھ سے استدعا کی کہ انسپکٹر صاحب بے شک مجھے تھانے لے چلو یا بھاری جرمانہ لے لو لیکن اس عورت کو چھوڑ دو، اسے تھانے نہ لے جائو ورنہ اس کے بچے بھی اس کے ساتھ بے موت مارے جائیں گے۔ میں نے کچھ سوچ کر عورت کو جانے دیا لیکن بغیر اسلحہ لائسنس کا وہ پستول کسی کے سر ڈالنا تھا جو میں نے آپ کو رکھنے کیلئے دیا تھا۔ بڑے آفیسر نے یہ ٹاسک میرے سپرد کیا تھا کہ اسے کسی کے بھی سر ڈال کر ناجائز اسلحہ رکھنے کا کیس بنانا ہے اور رقم اس سے لے کر دینی ہے۔ میں نے مرد کو حوالات میں بند کردیا اور ناجائز اسلحہ رکھنے کا الزام اس کے سر ڈال دیا اور دو گواہوں کے دستخط لینے کے بعد میں گھر آگیا۔ دو راتوں کا جاگا ہوا تھا، سکون کی نیند سو گیا۔ کھانے کی میز پر میرے بیٹے نے یہ داستان سنا کر لمبی سانس لی۔ تھوڑی دیر گزری تھی کہ فون کی گھنٹی بجی۔ یہ کاشف کے ایک اعلیٰ آفیسر کا فون تھا۔ کاشف سمجھا کہ بڑے آفیسر نے شاباش دینے کیلئے بلوایا ہے۔ رات اسلحہ برآمدگی کی کارروائی جو مکمل کرآیا تھا۔ وہ جلدی جلدی وردی پہن کر روانہ ہوگیا۔دفتر پہنچا تو کیسی شاباشی، وردی اتارنے کا حکم ملا۔ حیران کہ یہ کیا الٹی آنتیں گلے پڑ گئیں۔ شاباشی کی بجائے معطلی کی دھمکی جبکہ ملزم پیسے والا تھا اور بھاری رقم دینے پر آمادہ تھا۔ پتا چلا کہ جس شخص کو رات ناجائز پستول رکھنے کے الزام میں حوالات میں بند کر آیا تھا، وہ اعلیٰ آفیسر کا بہنوئی تھا۔ اپنی گرل فرینڈ کو بچانے کی خاطر چپ رہا کہ عورت عزت سے گھر چلی جائے اور خود کو تھانے میں بند ہوجانے دیا مگر صبح اس نے اپنے برادر نسبتی کو فون کرکے تمام صورتحال سے آگاہ کیا۔ ملزم کو بری کردینے کے احکامات کے ساتھ خود کاشف کی معطلی کے احکامات بھی تیار تھے۔ بڑی مشکل سے معافی تلافی پر جان بچی اور وہ معطل ہوتے ہوتے بچا۔ تب کاشف نے کہا۔ ماں اب آگیا آپ کو میری بات کا مطلب سمجھ میں کہ کیوں پولیس کے محکمے میں جانے سے گھبرا رہا تھا۔ اب بتایئے آپ کیا کہتی ہیں انسان دریا میں رہے اور گیلا نہ ہو، یہ کیسے ممکن ہے، اسی لئے پریشان اور مضطرب رہتا ہوں کہ کاش آپ نے دیانت کا سبق نہ پڑھایا ہوتا۔ آپ نہیں جان سکتیں لیکن میں جانتا ہوں کہ روز مجھے کیسی اذیتوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اپنے بیٹے کی باتیں سن کر میری آنکھوں میں آنسو آگئے۔ روز اب یہی دعا کرتی ہوں۔ اے کاش کوئی فرشتہ صفت حکمران آئے اور ہمارے ملک کا نظام ٹھیک ہوجائے۔ اللہ جانے وہ دن کب آئے گا۔ وہ روشن سویرا کب طلوع ہوگا۔ مسز قادر کراچی
null
null
null
null
438
https://www.urduzone.net/jaha-aran-complete-urdu-story/
باہر آسمان سیاہ بادلوں سے ڈھکا ہوا تھا۔ وقفے وقفے سے ہلکی بارش کا سلسلہ جاری تھا۔ ہوا کے نرم خرام جھونکوں میں رم جھم پھوار کی نمی اور بھیگی مٹی کی سوندھی مہک رچی ہوئی تھی۔ اندر کشادہ خواب گاہ کے بند دریچوں پر بھاری پردے تنے ہوئے تھے۔ ماحول میں بھی ایک عجب سا تنائو تھا۔ خواب گاہ میں موجود دائیاں اور خادمائیں خاموش نگاہوں اور ساکت لبوں سے کمرے کے وسط میں چھپر کھٹ پر دراز ارجمند بانو کی طرف تک رہی تھیں۔ ارجمند بانو کے حسین چہرے پر کرب و اضمحلال کے سائے لرزاں تھے۔ صندلی پیشانی عرق آلود تھی۔ شربتی آنکھیں دھندلا سی گئی تھیں۔ شہابی عارض زرد اور شنگرفی لب سپید تھے۔ وہ تخلیق کے کرب سے گزر رہی تھی۔ اس مرحلے تک پہنچنے سے پہلے وہ جانے کتنے کرب انگیز اور اذیت ناک مراحل سے گزری تھی۔ فراق وجدائی اور امید و بیم کے صحرا پاٹ کر وہ وصل و یقین کے اس نخلستان تک پہنچی تھی۔ شہنشاہِ ہند جہانگیر کے منجھلے بیٹے شہزادہ خرم نے اسے پہلی بار دیکھنے کے بعد ہی ہمیشہ کے لیے اپنے دل میں بسا لیا تھا۔ خود ارجمند بانو کو بھی وہ خمارآلود آنکھوں والا وجیہ اور باوقار شہزادہ بہت اچھا لگا تھا۔ اس کی نگاہوں کی تپش میں ارجمند نے خود کو پگھلتا ہوا محسوس کیا تھا۔ شہزادہ خرم جہانگیر کی راجپوت بیوی جگت گو سائیں کے بطن سے لاہور میں پیدا ہوا تھا۔ شہنشاہ اکبر کو اپنے اس پوتے سے بے پناہ محبت تھی۔ وہ اسے جہانگیر کے سب بیٹوں پر فوقیت دیتا تھا۔ بچپن میں ہی اس کی اقبال مندی کی بنا پر سیانوں نے اس کی تخت نشینی کی پیش گوئی کردی تھی۔ وہ ایک جری اور تلوار کا دھنی سپاہی تھا۔ کئی مہمات پر اسے سپہ سالار بنا کر بھیجا گیا۔ وہ اپنی جرأت، لیاقت اور قائدانہ صلاحیتوں کے باعث تمام مہمات سے کامیاب و سرفراز لوٹا تھا۔ میواڑ فتح کرنے پر شاہ اور دکن میں ملک عنبر کو ہتھیار ڈالنے پر مجبور کرنے پر اسے شاہ جہاں کے خطاب سے نوازا گیا تھا۔ شہنشاہ جہانگیر کی چہیتی ملکہ نورجہاں شاہ جہاں کی صلاحیتوں سے بے حد متاثر تھی اور اسے اپنی اکلوتی بیٹی لاڈلی بیگم کا شریکِ حیات بنانے کی متمنی تھی لیکن شاہ جہاں ملکہ کے بھائی کی بیٹی ارجمند بانو کی زلف گرہ گیر کا اسیر ہوچکا تھا اور کسی بھی قیمت پر اس سے دست بردار ہونے کو تیار نہ تھا۔ شہزادے کا شوق دیکھ کر آصف بیگ کا رجحان بھی اس جانب مبذول ہوگیا تھا۔ ان حالات میں نورجہاں کو اپنی خواہش کی تکمیل ناممکن نظر آ رہی تھی۔ کوئی اور وقت ہوتا تو اپنی خواہش پوری کرنے کی خاطر ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتی مگر اب حالات خاصے دگرگوں تھے۔ سیاسی بساط پر کامیابی کے لیے اسے اپنے بھائی آصف بیگ اور شاہ جہاں کی قائدانہ صلاحیتوں کی ضرورت تھی کیونکہ مسلسل شراب نوشی اور افیون خوری نے شہنشاہ جہانگیر کی صحت پر بہت برا اثر ڈالا تھا۔ شام ہوتے ہی وہ ساغر و مینا میں ڈوب کر دنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتا تھا۔ ہندوستان کی حکومت عملی طور پر نورجہاں کے ہاتھ میں تھی اور حکومت کو کامیابی سے چلانے کے لیے اسے اپنے باپ غیاث بیگ، بھائی آصف بیگ اور شہزادہ شاہ جہاں کی مدد درکار تھی۔ ان حالات میں اس نے یہی مصلحت جانی کہ شاہ جہاں کو اپنا داماد بنانے کی بجائے اس کی شادی ارجمند بانو سے کروا دے۔ اس طرح وہ اپنے بھائی اور خود شاہ جہاں پر احسان کر کے انہیں اپنا ممنون احسان بنا سکتی تھی۔ وہ سرمئی شام اپنے دامن میں کتنے سلونے رنگ سمیٹ لائی تھی۔ ہوائوں کے ملائم جھونکوں میں شادیانوں کی دھن بسی ہوئی تھی۔ ارجمند بانو کے انگ انگ سے مسرت پھوٹ رہی تھی۔ ہمیشہ کے لیے شاہ جہاں کا بن جانے کے تصور سے بھی اس کے روم روم میں ایک سرشاری ہلکورے لے رہی تھی۔ جس ہستی کو دیکھ کر اس کے دل نے دھڑکنا سیکھا تھا، اب وہی اس کے جسم و جاں کا مالک ہونے جا رہا تھا۔ وہ رات بے حد خوبصورت تھی۔ اس رات آکاش اور دھرتی پر بہ یک وقت دو چاند دمک رہے تھے۔ ایک ماہ کامل نیلگوں امبر کی بے کراں وسعتوں میں رعنائیاں بکھیر رہا تھا۔ دوسرا ماہِ بدر سرخ زرتار آنچل میں چہرہ چھپائے شاہ جہاں کے آراستہ حجلۂ عروسی میں اس کے سامنے موجود تھا۔ شاہ جہاں نے آگے بڑھ کر ارجمند بانو کے چہرے سے گھونگھٹ اٹھایا تو اسے یوں محسوس ہوا کہ خواب گاہ کی مدھم فضا یکایک جگمگا اٹھی ہو۔ ارجمند بانو۔ شاہ جہاں نے اس کے دلکش چہرے کو اپنے ہاتھوں میں تھامتے ہوئے قدرے جذباتی لہجے میں کہا۔ ہم آپ کے لیے کوئی تحفہ نہیں لائے کیونکہ کوئی بھی چیز ہمیں آپ کے شایان شان نہیں لگی۔ اسی لیے ہم خود کو آپ کے حضور پیش کر رہے ہیں، اپنی بے پناہ محبتوں اور بے انتہا وفائوں کے ساتھ آپ ہمیں قبول فرما لیں۔ آپ کو تو ہم پہلی ہی نگاہ میں دل و جان سے قبول کر چکے ہیں۔ ارجمند بانو نے شرمیلی مسکراہٹ کے ساتھ، دھیمی مترنم آواز میں جواب دیا۔ بس ہماری ایک شرط ہے۔ ہمیں آپ کی یہ شرط سنے بغیر منظور ہے۔ شاہ جہاں کے بے ساختہ اقرار پر ارجمند بانو نے نگاہیں جھکا کر دھیمے لہجے میں کہا۔ ہم آپ سے بس اتنی گزارش کرنا چاہتے ہیں کہ زندگی کے آخری لمحے تک ہمیں آپ کی وفا حاصل رہے اور اگر ہم مر بھی جائیں تو ہماری محبت زندہ رہے۔ ہم چاہتے ہیں دنیا والوں کے لیے ہماری محبت ایک مثال بن جائے۔ اپنی موت کا ذکر کر کے آپ نے ہمیں رنجیدہ کردیا ہے ارجمند بیگم۔ شاہ جہاں نے دھیمے مگر سنجیدہ لہجے میں جواب دیا۔ ہم تمہاری موت کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔ ہماری حیات تمہاری زندگی سے وابستہ ہے۔ ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں کہ تاحیات تم پر یونہی اپنی بے پناہ محبت نچھاور کرتے رہیں گے اور مرتے وقت اپنی اس بے مثال محبت کی ایک یادگار قائم کر جائیں گے جو رہتی دنیا تک دنیا والوں کو ہماری محبت کی یاد دلاتی رہے گی۔ اوہ صاحب عالم۔ ارجمند بانو نے مشکور و بے خود ہو کر اپنا سر شاہ جہاں کے کشادہ سینے پر رکھ دیا۔ قوس قزح کے رنگوں میں رنگی، ماہ و انجم کے اجالوں سے ڈھلی عود و عنبر کی خوشبوئوں میں بسی وہ حسین اور فسوں خیز رات دبے پائوں گزرتی جا رہی تھی۔ شاہ جہاں اور ارجمند بانو طلسماتی لمحوں سے وصل کی مے کشید کر رہے تھے۔ رات کا مہکتا اندھیرا جانے کب صبح صادق کے اجالے میں ڈھل گیا، انہیں پتا ہی نہیں چلا۔ طلائی و نقرئی کرنوں سے سجی نئی صبح ان کی منتظر تھی۔ ہزارہا رنگوں سے سجی زندگی ان کی راہ میں نگاہیں بچھائے کھڑی تھی۔ ہم چاہتے ہیں کہ جلد از جلد ہمارے گلستانِ حیات میں ایک نیا پھول کھل جائے۔ شاہ جہاں نے ارجمند بانو کی ریشمیں زلفوں میں چہرہ چھپا کر سرگوشی کی تو ارجمند کے مخملیں رخساروں پر قوس قزح کے رنگ بکھر گئے تھے۔ سب ہی مردوں کی طرح شاہ جہاں بھی ایک بہادر ذہین اور شاندار بیٹے کا آرزومند تھا۔ اس کے شوق کا یہ عالم تھا کہ اس نے ابھی سے آنے والے بیٹے کا نام بھی سوچ لیا تھا۔ اس کا شوق اور انتظار دیکھ کر ارجمند بانو عجب الجھن اور کشمکش کا شکار تھی۔ آپ ماں بننے والی ہیں۔ یہ تو خوشی کی بات ہے مگر آپ اتنی الجھی ہوئی اور پریشان کیوں دکھائی دیتی ہیں ارجمند بانو کی خادمہ خاص ترنم کے سوال پر اس کی حسین کالی آنکھیں نم ہو گئی تھیں۔ صاحب عالم بیٹے کے آرزومند ہیں لیکن اگر بیٹی پیدا ہوئی تو ارجمند بانو نے ہراساں انداز میں جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا۔ تو اس میں پریشانی کی کیا بات ہے ترنم نے حیرانی سے کہا۔ اس بار بیٹی ہو گئی تو اِن شا اللہ آئندہ بیٹا ہو جائے گا۔ ترنم کے بے نیازانہ انداز پر وہ اس کا چہرہ تکتی رہ گئی تھی۔ ترنم نے اسے بہت سمجھانا چاہا مگر اس کی فکرمندی کم نہ ہوئی۔ وقت گزرتا رہا۔ بالآخر تخلیق کا وہ لمحہ آ پہنچا جس کا سب کو انتظار تھا۔ ارجمند بانو نے ایک پھول سی بچی کو جنم دیا۔ شاہ جہاں کو بیٹی کی ولادت کی خبر ملی تو لمحہ بھر کو وہ چپ سا رہ گیا۔ وہ پہلوٹھی کے بیٹے کی امید رکھے ہوئے تھا۔ وہ شیر جیسے بیٹے کا آرزومند تھا مگر تقدیر نے اسے پھول سی بیٹی عطا کردی تھی۔ حضور ارجمند بانو آپ کی منتظر ہیں۔ ترنم نے اسے سوچوں میں گم دیکھا تو ذرا اونچی آواز میں اسے یاد دلایا۔ اوہ اچھا۔ وہ ہڑبڑا کر سیدھا ہوتا ہوا گویا ہوا۔ چلو چلتے ہیں۔ شاہ جہاں فوراً ہی ارجمند بانو کے کمرے کی طرف چل دیا۔ اس کے بچی کے پاس پہنچتے ہی اچانک بچی کی طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ سینہ دھونکنی کی طرح چلنے لگا تھا۔ سانس اکھڑ گئی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس نے دم دے دیا تھا۔ نومولود بچی کی موت ارجمند کے لیے ہی نہیں، خود شاہ جہاں کے لیے بھی کسی سانحے سے کم نہ تھی۔ غم کے ساتھ ایک احساس شرمندگی نے بھی اسے گھیر لیا تھا۔ شاید اس نے اس ننھی جان کی قدر نہ کی۔ اس کی آمد پر خوشی کا اظہار نہیں کیا، اسی لیے وہ روٹھ گئی تھی۔ ہم بہت افسردہ ہی نہیں، شرمندہ بھی ہیں بیگم۔ وہ اپنی روتی سسکتی شریک حیات کو سینے سے لگائے ملول لہجے میں کہہ رہا تھا۔ خدا سے دعاگو ہیں کہ اگلی بار بھی خدا ہمیں بیٹی سے نوازے۔ ہم وعدہ کرتے ہیں اس سے دل کی گہرائیوں سے محبت کریں گے۔ شاید وہ قبولیت کی گھڑی تھی۔ برس بھر بعد ہی ارجمند بانو آج پھر تخلیق کے اسی موڑ پر کھڑی تھی۔ اس کے حسین چہرے پر کرب و اضمحلال کے سائے لرزاں تھے۔ صندلی پیشانی عرق آلود تھی۔ شربتی آنکھیں دھندلا سی گئی تھیں۔ شہابی عارض زرد اور شنگرفی لب سپید تھے۔ اسی عالم میں قافلۂ شب سفر کرتا اپنی منزل تک جا پہنچا تھا۔ ادھر مشرق کی اور قرمزی پہاڑیوں کی اوٹ سے صبح کاذب کا دھندلا سا اجالا پھوٹا تھا۔ ادھر خواب گاہ کی خوابناک فضا میں ایک نومولود بچے کی حیات افزا رونے کی آواز سے جاگ اٹھی تھی۔ شاہ جہاں اپنی نشست گاہ میں اپنے مصاحب اور ساتھی نوبت خان کے ساتھ خوشخبری کا منتظر تھا۔ تب ہی ترنم بھاگتی ہوئی پہنچی تھی۔ صاحب عالم مبارک ہو، اللہ نے آپ کو ایک صحت مند اور خوبصورت بیٹی عطا کی ہے۔ شکر ہے اس مالک کا، احسان ہے اس ذات پاک کا۔ شاہ جہاں نے دونوں ہاتھ اوپر اٹھا کر خدا کا شکر ادا کیا تھا اور ترنم کے ساتھ اپنی پیاری بیٹی کو دیکھنے کے لیے ارجمند بانو کے کمرے کی طرف بڑھ گیا تھا۔ شہنشاہ جہانگیر کو پوتی کی پیدائش کی خبر ہوئی تو اس نے خوشی کا اظہار کیا اور اپنے اور اپنی چہیتی ملکہ نورجہاں کے نام کی مناسبت سے اس کا نام جہاں آرا تجویز کیا۔ جہاں آرا۔ ارجمند بانو نے مسرور لہجے میں نام دہرایا۔ بہت ہی خوبصورت اور سعد نام ہے۔ ظل سبحانی نے خود تجویز فرمایا ہے یہ تو بہت ہی خوشی کی بات ہے۔ ہاں، سو تو ہے۔ شاہ جہاں نے اپنی چہیتی بیٹی کو اپنی آغوش محبت میں سمیٹتے ہوئے مسکرا کر کہا۔ ہماری بیٹی جہاں آرا بہت خوش نصیب ہے۔ ساتویں روز جہاں آرا کا عقیقہ کیا گیا۔ اسے سونے، چاندی اور جواہرات میں تول کر تمام اشیا غریبوں میں تقسیم کردی گئیں۔ شاہ جہاں اور ارجمند بانو بیٹی کو پا کر بے حد خوش تھے۔ جب وہ اپنی ذہانت سے پُر اپنی سیاہ آنکھوں سے ماں کی طرف دیکھتی تو ارجمند بانو نہال ہو کر اس کی بلائیں لینے لگتی، اور جب ننھی شہزادی اپنے ننھے ننھے بازو لہرا کر شاہ جہاں کی طرف ہمکتی تو وہ بے ساختہ اسے گود میں اٹھا کر سینے سے لگا لیتا۔ گزرنے والا ہر لمحہ ارجمند بانو اور شاہ جہاں کے دل میں جہاں آرا کی محبت میں اضافہ کرتا جا رہا تھا۔ خاص طور پر شاہ جہاں تو جہاں آرا پر دل و جان سے نثار تھا۔ اس کی ایک ایک ادا پر فریفتہ تھا۔ بیٹی کی چاہت اور مسرت اپنی جگہ تھی مگر اب اسے بیٹے کا انتظار تھا۔ اپنے بیٹے کا نام ہم خود رکھیں گے۔ اس شام اس نے ارجمند بانو کے سامنے اپنی خواہش کا اظہار کیا تو وہ بے ساختہ شرما گئی تھی۔ جانتی ہو ہم نے بہت پہلے سے ایک نام سوچ رکھا ہے۔ اتنی جلدی ارجمند بانو کے شرمیلے لہجے میں حیرت بھی شامل تھی۔ ایسی جلدی بھی نہیں ہے۔ شاہ جہاں مسکرایا۔ آئندہ سال ہمیں ہمارا داراشکوہ چاہیے۔ اور اگر اس بار بھی بیٹا نہ ہوا تو ارجمند بانو کی دھیمی آواز میں اندیشے لرزاں تھے۔ ہماری جہاں آرا اتنی خوش بخت ہے کہ اس کے قدموں کی برکت سے اس بار ضرور بیٹا ہوگا۔ اور کچھ ہی عرصے بعد ارجمند بانو نے ایک پیارے سے بیٹے کو جنم دیا تھا۔ شاہ جہاں نے اس کا نام دارا شکوہ رکھا۔ بیٹے کو پا کر وہ بے حد مسرور تھا۔ یہ بیٹا اسے مرتے دم تک بے حد عزیز رہا تھا۔ آئندہ دو سالوں میں وہ دونوں دو اور بچوں کے ماں باپ بن چکے تھے۔ شادی کے بعد ان چھ سالوں میں ان کے پانچ بچے ہوچکے تھے۔ پہلی مرحومہ بچی نورالنسا کے بعد جہاں آرا بیگم، داراشکوہ، شاہ شجاع اور روشن آرا بیگم۔ اگلے تین سالوں میں ارجمند بانو نے دو مُردہ بچوں کو جنم دیا تھا۔ سال بہ سال بچوں کی ولادت اور یکے بعد دیگرے دو بچوں کی اموات نے اسے بہت کمزور و مضمحل کردیا تھا۔ ان دنوں شاہ جہاں کانگڑہ کی مہم پر گیا ہوا تھا۔ ارجمند بانو ایک بار پھر اُمید سے تھی۔ شاہ جہاں اس سے بے پناہ محبت رکھتا تھا اور اس کی گرتی ہوئی صحت کی طرف سے خاصا فکرمند تھا۔ اس وقت جبکہ اسے اپنی شریک حیات کے پاس ہونا چاہیے تھا، وہ کانگڑہ کی بغاوت فرو کرنے میں مصروف تھا مگر اپنی چہیتی، ذہین اور معاملہ فہم بیٹی جہاں آرا کی وجہ سے اس کے دل کو قدرے اطمینان تھا۔ اب جہاں آرا تیرہ برس کی ہوگئی تھی۔ وہ کمسنی سے ہی بے حد سمجھدار، بردبار اور سنجیدہ طبیعت کی مالک تھی۔ وہ اپنے بہن بھائیوں میں سب سے بڑی تھی اور اسے بیمار ماں کے ساتھ سب بہن بھائیوں کا بھی خیال رکھنا اور دیکھ بھال کرنا ہے۔ اس احساس نے اسے وقت سے پہلے کچھ زیادہ ہی سنجیدہ بنا دیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ اس کے ماں باپ اس سے بے حد محبت کرتے ہیں۔ خاص طور پر شاہ جہاں تو اسے دیکھ کر جیتا تھا۔ گو کہ وہ اپنے پہلے بیٹے دارا شکوہ سے بھی بے حد محبت کرتا تھا۔ دارا شکوہ اس کی ایک آنکھ کا تارا تھا تو جہاں آرا اس کی دوسری آنکھ کی روشنی تھی اور اب جبکہ جہاں آرا نے نہایت بڑے پن اور اپنے پن سے اپنے چھوٹے بہن بھائیوں اور بیمار ماں کا خیال رکھنا شروع کردیا تھا، شاہ جہاں کی نگاہ میں اس کی قدر و منزلت اور محبت کچھ اور بڑھ گئی تھی۔ بابا جان آپ متفکر نہ ہوں، میں ہوں نا میں سب سنبھال لوں گی۔ جہاں آرا کے کہے ہوئے یہ الفاظ شاہ جہاں کے لیے تقویت کا باعث ہوتے تھے۔ رفتہ رفتہ وہ اپنی اس ننھی سی بیٹی پر انحصار کرنے لگا تھا اور ایسا کرکے اسے سکون ملتا تھا۔ پیدائش کے بعد پہلی سالگرہ سے اب تک جہاں آرا کی سالگرہ ہر سال بہت دھوم دھام سے منائی جاتی تھی۔ اس سال سالگرہ کی تقریب میں شاہ جہاں کے ہم مکتب اور بچپن کے دوست مرزا یونس چغتائی اپنی اہلیہ شرف النسا اور جواں سال بیٹے مرزا یوسف چغتائی کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ چودہ سالہ مرزا یوسف چغتائی کو دلکش، رعنا، بردبار اور باوقار شہزادی جہاں آرا بے حد اچھی لگی تھی۔ شاہ جہاں نے بیٹوں کی طرح بیٹیوں کی تعلیم و تربیت اور خاص طور پر جہاں آرا کی ذہانت کو مدنظر رکھتے ہوئے اس کی تعلیم و تربیت کی خاطر بہترین اساتذہ کا بندوبست کیا تھا۔ جہاں آرا نے محض پانچ برس کی عمر میں قرآن پاک حفظ کرلیا تھا۔ وہ تصوف کی جانب خصوصی رغبت رکھتی تھی۔ شاہ جہاں کے ساتھ حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری دینا، اسے بے حد پسند تھا۔ وہ عربی و فارسی زبانوں پر خصوصی توجہ دیتی تھی اور چھوٹی سی عمر میں ہی شعر کہنے لگی تھی۔ اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے محل میں اکثر بچوں کے لیے مشاعرے منعقد کروائے جاتے تھے جس میں وزرا و دیگر عمائدین شہر کے شاعر بچے شرکت کرتے تھے۔ مرزا یوسف چغتائی بھی شعر و شاعری سے شغف رکھتا تھا۔ چنانچہ اس بار محل میں جو مشاعرہ منعقد ہوا، اس میں وہ بھی شریک تھا۔ دیگر شعرا کے بعد جب شمع محفل جہاں آرا کے سامنے آئی اور اس نے اپنی مدھر اور مترنم آواز میں غزل چھیڑی تو مرزا کو خود کو سنبھالنا مشکل ہوگیا۔ دل تھا کہ ہاتھوں سے نکلا جاتا تھا۔ نگاہیں تھیں کہ مہ لقا کے چہرے پر فریفتہ ہوئی جاتی تھیں۔ وہ واپس گھر لوٹا تو گویا خود سے بیگانہ ہوچکا تھا۔ محبت کرنے والی جہاں دیدہ ماں سے اس کی کیفیت پوشیدہ نہ رہ سکی تھی۔ سو شرف النسا نے اپنے شوہر سے کہا۔ لگتا ہے صاحبزادے، جہاں آرا کی زلف گرہ گیر کے اسیر ہوگئے ہیں۔ آپ کی تو صاحب عالم شاہ جہاں سے دوستی ہے، آپ ان سے مرزا کی نسبت کا ذکر چھیڑ کر دیکھئے۔ کیا کہہ رہی ہو بیگم۔ مرزا یونس چغتائی حیران و پریشان لہجے میں گویا ہوئے۔ تم جانتی ہو کس لڑکی کی بات کررہی ہو۔ وہ شاہ جہاں کی چہیتی بیٹی، جہانگیر ظل سبحانی کی پوتی اور اکبر اعظم کی پڑپوتی ہے۔ تو ہم بھی تو اٹھائی گیرے نہیں ہیں۔ شرف النسا بگڑ کر بولی۔ ہم خاندانی اشراف ہیں۔ صاحب عزت و صاحب ثروت ہیں۔ بھلا ہمارے مرزا یوسف سے بہتر جہاں آرا کے لیے اور کون سا رشتہ ہوسکتا ہے شاید تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ مرزا یونس قائل ہوتے ہوئے سر ہلا کر بولا۔ مگر یہاں ایک اور بڑی رکاوٹ ہے اور وہ یہ کہ مرزا یوسف شاہی خاندان سے نہیں ہے۔ تو اس سے کیا فرق پڑتا ہے شرف النسا نے حیرانی سے پلکیں پٹپٹائیں۔ تم شاید اکبر اعظم کا وہ فرمان بھول رہی ہو جس کی رو سے شہزادیوں کی شادی صرف شاہی خاندان کے لڑکوں سے ہی ہوسکتی ہے اور جن شہزادیوں کے جوڑ کا لڑکا شاہی خانوادے میں موجود نہ ہوگا، ان کی سرے سے شادی ہی نہیں کی جائے گی۔ انہیں تمام عمر کنوارہ رہ کر محل میں زندگی گزارنی ہوگی۔ اکبر اعظم کے اس فرمان کو جاننے کے بعد شرف النسا کو ہی نہیں بلکہ مرزا یوسف چغتائی کو بھی بے حد مایوسی ہوئی تھی اور اس کے نوجوان دل کے ایوان میں محبت کی شمع کی لو پوری طرح سر اٹھانے سے پہلے ہی سرنگوں ہوگئی تھی۔ چراغ امید روشن ہونے سے پہلے ہی بجھ گیا تھا۔ جہاں آرا نے اپنے نوخیز دل کی پگڈنڈی پر خوبرو شکیل مرزا کے پُرشوق قدموں کی آہٹ محسوس کی تھی۔ اس نے اپنی دراز ریشمیں پلکوں کی اٹھتی گرتی چلمن سے ابھی اس کی جانب دیکھنا ہی شروع کیا تھا کہ وہ چہرہ نظروں سے اوجھل ہوگیا تھا۔ وہ اپنے درِ دل پر دستک کے لیے اٹھنے والے ان پہلے ہاتھوں کے رک جانے پر خاصی حیران و رنجیدہ تھی۔ کسی طور معلوم تو کرو افروزن۔ وہ خود سے دو برس بڑی اپنی خاص سکھی اور خادمہ افروزن سے کہہ رہی تھی۔ مرزا آگے بڑھتے بڑھتے یکدم تھم کیوں گئے شاید انہیں ظل سبحانی، جنت مکانی، اکبر اعظم کے فرمان کی بھنک مل گئی ہے۔ تب ہی وہ افروزن بے دھیانی میں بتاتے بتاتے ایک دَم رک گئی۔ کیسا فرمان جہاں آرا نے حیران و پریشان لہجے میں سوال کیا۔ وہ دراصل افروزن سٹپٹائے ہوئے انداز میں جزبز ہوکر رہ گئی تھی۔ اب آپ کو کیا بتائوں مگر جہاں آرا کے اصرار پر اسے تمام کہانی سنانی پڑی تھی۔ اس فرمان کے بارے میں سن کر جہاں آرا حیران ہونے کے ساتھ قدرے خفا بھی ہوئی تھی۔ امی جان کیا حضرت اکبر اعظم نے ایسا کوئی فرمان جاری کیا تھا بستر پر نیم دراز نحیف و نزار ارجمند بانو کی اداس آنکھوں سے جھانکتی افسردگی اور بے چارگی نے اس کے سوال کا جواب دے دیا تھا۔ دادا جان حضرت جہانگیر ظل سبحانی کو اس فرمان کو ختم کردینا چاہیے۔ ماں کے قریب بیٹھا بارہ سالہ دارا شکوہ ساری بات سن رہا تھا۔ وہ بڑی بہن سے بے حد محبت کرتا تھا اور اس کی ہر بات کی تائید کرنا اپنا فرض سمجھتا تھا۔ اسی لیے اس نے فوراً ہی اپنی رائے کا اظہار کیا تھا۔ ظل سبحانی جہانگیر اور نہ ہی ان کے بعد آنے والا کوئی مغل حکمران اس فرمان کو رد نہیں کرسکتا۔ ارجمند بانو نے کرب بھرے لہجے میں کہا۔ یہ کیا بات ہوئی، آپا جہاں آرا اور روشن آرا کے جوڑ کے لڑکے تو شاہی خانوادے میں موجود ہی نہیں ہیں تو کیا میری بہنوں کی شادیاں نہیں ہوں گی اس نے جہاں آرا کا دھواں دھواں ہوتا ہوا چہرہ دیکھا۔ پھر پُرعزم لہجے میں گویا ہوا۔ آپ بے فکر رہیے آپا جہاں آرا جب میں بادشاہ بنوں گا تو جدامجد اکبر اعظم کے اس فرمان کو ختم کردوں گا۔ چھوٹے بھائی کی اس یقین دہانی نے جہاں آرا کو آس دلانے کی بجائے مایوس کردیا تھا۔ کون جیتا ہے تیری زلف کے سر ہونے تک اس کے دل میں ایک ٹیس سی اٹھی اور وہ خاموشی سے اٹھ کر باہر چلی گئی۔ کچھ عرصے بعد ارجمند بانو نے ایک اور بیٹے کو جنم دیا جس کا نام اورنگزیب رکھا گیا۔ اورنگزیب کی پیدائش شاہ جہاں کے لیے بہت مبارک ثابت ہوئی اور اس نے کانگڑہ فتح کرلیا اور اسے حصار فیروزہ کا صوبیدار مقرر کردیا گیا۔ فتح کے شادیانے بجاتا شاہ جہاں جب آگرہ واپس پہنچا تو اس نے ارجمند بانو کے ساتھ اپنی چہیتی بیٹی جہاں آرا کو بھی اپنا منتظر پایا۔ مگر اب اس کی بڑی بڑی بادامی آنکھوں میں شوخی کی بجائے سنجیدگی آگئی تھی اور چہرے پر ایک عجب سا اضمحلال منجمد ہوکر رہ گیا تھا۔ کیا بات ہے دختر عزیز از جان میں تمہیں کچھ رنجور پاتا ہوں۔ شاہ جہاں نے اپنی لاڈلی سے سوال کیا۔ کچھ نہیں بابا جان۔ بس امی جان کی طرف سے ہر لمحہ فکر لگی رہتی ہے۔ جہاں آرا نے آنکھوں کی جھیلوں میں بھر آنے والے پانی کو چھپاتے ہوئے بات بنائی۔ یہ بات بھی ایسی کچھ غلط نہ تھی۔ جب سے شاہ جہاں آیا تھا، ارجمند بانو بھیگی پلکوں سے اسے تکے جارہی تھی۔ اس کی بے آواز سسکیاں فرقت کے لمحوں کے کرب و اذیت کی غماز تھیں۔ اب آپ جہاں بھی جائیں گے، میں آپ کے ساتھ جائوں گی۔ اس نے رخساروں پر بہتے نایاب موتیوں کو ہاتھ کی پشت سے صاف کرتے ہوئے اپنا فیصلہ سنایا۔ اب میں آپ کے بغیر ایک دن بھی نہیں رہ سکتی۔ میں جانتا ہوں۔ شاہ جہاں اس کے آنسو دیکھ کر بے چین ہوگیا۔ اور تم بھی جانتی ہو تمہارے بغیر ہم بھی کہاں رہ سکتے ہیں۔ آج تم سے یہ وعدہ رہا۔ کیسے بھی حالات کیوں نہ ہوں، تم ہمارے ساتھ رہو گی۔ دیکھتے ہی دیکھتے چار سال بیت گئے۔ اس دوران ارجمند بانو کے یہاں تین مزید بچوں کی ولادت ہوئی جن میں سے صرف ایک بیٹا مراد بخش بچ پایا، باقی دونوں بچے ولادت کے فوراً بعد ہی انتقال کرگئے۔ ان حالات نے ارجمند بانو کو مزید مضحمل اور نڈھال کردیا تھا مگر اب وہ اپنے دیگر بچوں اور گھر کے امور و مسائل سے بالکل بے نیاز ہوگئی تھی کیونکہ جہاں آرا سولہ برس کی ہوگئی تھی۔ ہر نوجوان لڑکی کی طرح چاہنے، چاہے جانے اور گھر بسانے کے خواب اس کی پلکوں پر بھی سجے تھے مگر جب سے اسے اپنے پردادا اکبر اعظم کے فرمان کا علم ہوا تھا، اس نے ان خوابوں کو اپنی پلکوں سے نوچ کر پھینک دیا تھا۔ اب اس کی پوری توجہ ماں کی خدمت اور بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت پر تھی۔ فرصت کے لمحات میں وہ شاعری کرتی، کتابیں پڑھتی، تصوف کے مسائل پر غور کرتی اور موقع ملتے ہی حضرت خواجہ معین الدین چشتی کے مزار پر حاضری دینے پہنچ جاتی۔ اس کی لیاقت، قابلیت اور اہلیت کو دیکھتے ہوئے شاہ جہاں کے دل میں اس کی قدر و منزلت دن بدن بڑھتی جارہی تھی۔ وہ اس کی چہیتی بیوی ارجمند بانو کی مونس و دم ساز تھی۔ اس بات نے شاہ جہاں کو اس کا بے حد ممنونِ احسان کردیا تھا۔ ادھر شہنشاہِ ہند جہانگیر کی طبیعت آئے دن خراب رہنے لگی تھی۔ بے تحاشا شراب نوشی کے باعث اس کا جگر متاثر ہوچلا تھا، ہاتھوں میں رعشہ کے باعث وہ قلم پکڑنے کے قابل بھی نہ رہا تھا۔ یہ وہ دور تھا جب صحیح معنیٰ میں ہندوستان کی حکومت ملکہ نورجہاں کے ہاتھوں میں آگئی تھی۔ اب اس نے عملی طور پر اپنے داماد شہریار کو برسراقتدار لانے کی کوشش شروع کردی تھی۔ اس وقت تک جہانگیر کے دونوں بڑے بیٹے خسرو اور پرویز دنیا سے کوچ کرچکے تھے۔ تخت و تاج کی اس جنگ میں شہریار کے مقابل اب صرف شاہ جہاں رہ گیا تھا۔ اپنی جرأت، لیاقت اور قائدانہ صلاحیت کی بنا پر شاہ جہاں خود کو شہنشاہِ ہند بننے کا اہل سمجھتا تھا مگر ملکہ نورجہاں جہانگیر کے چھوٹے بیٹے شہریار کو جو پہلے شوہر کی بیٹی لاڈلی بیگم کا شوہر تھا، کو برسراقتدار لانا چاہتی تھی۔ شہریار ایک نااہل اور نکما شہزادہ تھا۔ سب ہی جانتے تھے کہ وہ ہندوستان پر حکومت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا مگر نورجہاں ہر قیمت پر اسے شہنشاہِ ہند بنانے کی متمنی تھی۔ جہانگیر کی بگڑتی ہوئی حالت کے پیش نظر اس کی خواہش تھی کہ شاہ جہاں کو آگرہ سے دور بھیج دیا جائے۔ اسی لیے اس نے شاہ جہاں کو قندھار کی مہم پر روانہ ہونے کا پروانہ بھجوایا۔ آپ فکر مند دکھائی دے رہے ہیں باپ کو الجھن کا شکار دیکھ کر جہاں آرا پوچھے بنِا نہ رہ سکی تھی۔ شاہ جہاں نے چونک کر اپنی اس حسین و ذہین بیٹی کی طرف دیکھا۔ وہ اس کی بہترین مشیر بھی تھی۔ ساری بات سن کر وہ بھی فکرمند ہوگئی۔ چنانچہ چہیتی بیٹی جہاں آرا اور اپنے خسر آصف بیگ کے مشورے کے بعد اس نے مہم پر جانے سے انکار کردیا اور علَم بغاوت بلند کردیا۔ شاہ جہاں کی حکم عدولی نے نورجہاں کو برافروختہ کردیا تھا۔ اس کے کان بھرنے پر جہانگیر بھی بیٹے سے سخت خفا ہوگیا۔ چنانچہ نورجہاں نے سزا کے طور پر شاہ جہاں کی جاگیر ضبط کرلی اور حکم دیا کہ شاہی دستے کو فوراً روانہ کردیا جائے۔ پہلے تو شاہ جہاں نے باپ کو منانے کے لیے پُرخلوص خطوط لکھے مگر نورجہاں نے ایک خط بھی بادشاہ تک پہنچنے نہ دیا۔ اس نے کچھ عمائدین سلطنت کو درمیان میں ڈال کر بادشاہ سے صلح صفائی کی کوشش کی تو نورجہاں نے اس کوشش کو کامیاب نہ ہونے دیا۔ مجبور ہوکر شاہ جہاں کو علَم بغاوت بلند کرنا پڑا۔ جہانگیر کے حکم پر شاہی لشکر شاہ جہاں سے جنگ کرنے کے لیے نکل کھڑا ہوا۔ دہلی کے جنوب میں بلوچ پور کے مقام پر دونوں افواج آمنے سامنے ہوئیں۔ غضب کا رن پڑا اور شاہ جہاں کو شکست کا منہ دیکھنا پڑا۔ وہ مالوہ کے راستے دکن پہنچا اور اپنے بچے کھچے لشکر کی مدد سے بنگال اور بہار پر قبضہ کرلیا مگر جلد ہی شاہی فوج نے اسے وہاں سے بھی راہِ فرار اختیار کرنے پر مجبور کردیا۔ شکست اور دل گرفتگی کے اس سفر میں ارجمند بانو اس کے ہم رکاب تھی۔ عزیز از جان بیٹی جہاں آرا اور جواں سال بیٹے دارا شکوہ کا ساتھ بھی شاہ جہاں کے لیے تقویت اور تسکین کا باعث تھا۔ ارجمند بانو کی صحت دن بدن گرتی جارہی تھی۔ شبانہ روز کی بھاگ دوڑ نے اس کی صحت کی شکست و ریخت میں اہم کردار ادا کیا تھا اور وہ بستر سے جا لگی تھی۔ ارجمند بانو کی حالت کو دیکھتے ہوئے جہاں آرا نے باپ کو مشورہ دیا تھا کہ اسے بادشاہ سلامت سے صلح کی کوشش کرنی چاہیے۔ ملکہ نور جہاں نے صلح کی شرط کے طور پر اس کے دو بیٹوں دارا شکوہ اور اورنگزیب کو ضمانت کے طور پر طلب کرلیا تھا۔ بیٹوں کو باپ کے پاس بھجوانے پر باپ کی طرف سے اسے معافی ملی۔ اس کشمکش اور سرد جنگ میں کئی مہینے بیت گئے۔ جہانگیر کی حالت مزید ابتر ہوگئی تھی۔ اس پر غشی کے دورے پڑ رہے تھے۔ شاہ جہاں دکن سے آگرہ کے لیے روانہ ہوا۔ شہریار کو گرفتار کرنے کے بعد اس نے شاہی محل کی طرف رخ کیا۔ فروری کو نہایت دھوم دھام سے اس کی رسم تاج پوشی ادا کی گئی۔ حکومت مل جانے کے بعد بھی بے شمار مسائل اس کے منتظر تھے۔ ایسے میں ارجمند بانو کی ہم نشینی باعث اطمینان و تسکین تھی اور جہاں آرا کا ساتھ اسے حوصلہ دیتا تھا۔ تخت نشینی کے بعد اس نے ارجمند بانو کو ممتاز محل اور جہاں آرا کو بیگم صاحب کے خطاب سے نوازا تھا۔ ممتاز محل کے ساتھ ازدواجی زندگی گزارتے اٹھارہ برس بیت چکے تھے۔ ان اٹھارہ برسوں میں ان کے تیرہ بچے ہوئے جن میں سے چھ بقید حیات تھے۔ ممتاز محل ایک بار پھر امید سے تھی۔ اس بار اس کی صحت بالکل جواب دے گئی تھی۔ گو کہ اب بچے بڑے ہوگئے تھے۔ خاص طور پر جہاں آرا اپنی عمر سے کہیں زیادہ ذمہ داری اٹھانے کی عادی ہوچکی تھی۔ بہن بھائیوں کی دیکھ بھال نے اس کے اندر مادرانہ شفقت اور مامتا بھری الفت پیدا کردی تھی۔ وہ اپنے چھوٹے بہن بھائیوں سے مثل ماں کے سلوک کرتی تھی۔ شاہ جہاں اس کے شعور، تدبر اور معاملہ فہمی کا بے حد قدردان تھا۔ ولادت کے دن قریب آرہے تھے مگر ممتاز محل کی حالت سنبھلنے کی بجائے اور بگڑتی جارہی تھی۔ جہاں آرا، ماں کی طبیعت کی وجہ سے سخت فکرمند تھی۔ اس روز صبح سے ہی ممتاز محل کی حالت دگرگوں تھی۔ تمام رات کرب و اذیت میں گزرنے کے بعد صبح دم ممتاز محل نے ایک بچی کو جنم دیا۔ ادھر نومولود بچی نے آنکھیں کھولیں، ادھر ممتاز محل نے ہمیشہ کے لیے اپنی آنکھیں بند کرلی تھیں۔ بچی بقید ِحیات تھی مگر اس کی ماں قید حیات سے آزاد ہوگئی تھی۔ ممتاز محل کی یوں اچانک موت بچوں کے لیے تو جو صدمہ تھی، سو تھی مگر شاہ جہاں کے لیے کسی سانحہ سے کم نہ تھی۔ اس نے خود کو ایک کمرے میں بند کرلیا تھا۔ وہ کئی روز تک اسی کمرے میں بند اپنی محبوب رفیقۂ حیات کی جدائی کا سوگ مناتا رہا اور جب وہ کمرے سے باہر نکلا تو اس کے سیاہ بال سفید ہوچکے تھے اور دلکش و توانا چہرے پر جھریوں کا جال پھیل گیا تھا۔ وہ ممتاز محل کی دائمی فرقت کے غم میں چند دنوں میں ہی بوڑھا ہوگیا تھا۔ ایسے میں جہاں آرا بیگم صاحب نے سارے معاملات نہایت سمجھداری اور تندہی سے سنبھالے تھے۔ ممتاز محل کا ذاتی خزانہ سو کروڑ مالیت کی رقم پر مشتمل تھا۔ اس کے علاوہ جواہرات اور زیورات الگ تھے۔ بعد میں شاہ جہاں نے یہ خزانہ جہاں آرا کو بخش دیا تھا۔ ممتاز محل کی موت کے بعد حالات جہاں آرا کے لیے کسی امتحان سے کم نہ تھے۔ ایک طرف افسردہ بہن بھائی تھے تو دوسری طرف پژمردہ اور دل گرفتہ باپ اسے اپنے نانا آصف جاہ اور بھائی دارا شکوہ کی معاونت حاصل تھی۔ شاید اسی لیے اس نے نہایت مضبوطی اور ضبط و تحمل کے ساتھ حالات کا سامنا کیا تھا اور نومولود بچی جس کا نام گوہر آرا بیگم تجویز کیا گیا تھا، کو سینے سے لگائے ایک ماں کی طرح اس کی پرورش میں لگ گئی تھی۔ شاہ جہاں کو اپنی تنہائی سے سمجھوتہ کرنے میں کئی مہینے لگ گئے۔ جہاں آرا اور دارا شکوہ کی محبت اور رفاقت اس کے لیے غنیمت اور باعث تقویت تھی۔ ممتاز محل کو محل کے سامنے والے میدان میں دفنایا گیا تھا۔ شاہ جہاں کو جب وقت ملتا، وہ دریچے سے اس کی قبر کی طرف تکے جاتا۔ بابا جان امی جان کی قبر پر ایک شاندار مقبرہ تعمیر ہونا چاہیے۔ ایک شام جہاں آرا نے شاہ جہاں کو مشورہ دیا۔ ایسا مقبرہ جو آپ کی اور امی جان کی بے مثل و بے نظیر محبت کے شایانِ شان ہو ایک پُرشکوہ محل بلکہ تاج محل۔ اوہ میری لاڈلی تم نے تو میرے منہ کی بات چھین لی۔ شاہ جہاں نے بے ساختہ جہاں آرا کی سپید پیشانی پر مہر محبت ثبت کرتے ہوئے جواب دیا اور اسی شام ماہر تعمیرات و نقشہ جات استاد عیسیٰ کو طلب کرلیا۔ ہفتے بھر کی شبانہ روز محنت کے بعد استاد عیسیٰ نے مقبرے کا نقشہ، تخمینہ اور عرصۂ تعمیر بادشاہ کے سامنے پیش کردیا تھا۔ جہاں آرا کی تجویز کے مطابق پتھر کے اس نغماتی شاہکار کا نام تاج محل رکھا گیا۔ تقریباً تین کروڑ روپے کے اخراجات کا امکان تھا اور وہ خوابِ مرمر بیس سے بائیس سال میں بن کر تیار ہونے والا تھا۔ اگلے ہی ہفتے سے مقبرے کی تعمیر کا کام شروع کردیا گیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے دو برس بیت گئے۔ لاہور میں شیش محل کی تعمیر مکمل ہوچکی تھی۔ دوسری طرف شالا مار باغ بھی تکمیل کے آخری مراحل میں تھا۔ لاہور کا گورنر انتخاب خان خواہشمند تھا کہ شاہ جہاں لاہور آکر شیش محل اور شالا مار باغ کو خود بہ نفس نفیس ملاحظہ کرے۔ انتخاب خان کی بیٹی نادرہ بانو سے ممتاز محل دارا شکوہ کا رشتہ طے کر گئی تھی۔ اب جہاں آرا کو یہ ذمہ داری نبھانی تھی۔ وہ اپنے چہیتے بھائی کی دلہن نہایت دھوم دھام سے لانا چاہتی تھی۔ سو زوروشور سے شادی کی تیاریاں شروع کردی گئی تھیں۔ ملبوسات کی تیاری کے لیے بنارس، اودے پور اور ڈھاکا سے ماہرین طلب کرلیے گئے تھے۔ محل کے ایک تہہ خانے میں سونا پگھلانے کی بھٹی لگا دی گئی تھی۔ سچے موتیوں اور ہیرے جواہرات کے نولکھے، چندن ہار، ست لڑے اور گلوبند ڈھالے جارہے تھے۔ نوبیاہتا جوڑے کے استعمال کے لیے چاندی کے ظروف، سونے کی طشتریاں اور خاص دان تیار کئے جارہے تھے۔ ملبوسات عروسی کے لیے ریشم، حریر، اطلس دیبا و کم خواب کے تھان پہ تھان آرہے تھے۔ ملبوسات پر کارچوبی، گوٹا کناری، زردوزی اور کام دانی کا کام کیا جارہا تھا۔ سونے چاندی کے باریک تار ڈھال کر گوٹا اور لچکا تیار کیا جارہا تھا۔ یہ سب تیاریاں دیکھ کر ننھی گوہر آرا حیران تھی۔ کیا دارا بھائی کی شادی ہورہی ہے ہاں۔ جہاں آرا نے مسکرا کر جواب دیا۔ اب وہ بڑے ہوگئے ہیں اس لیے اس حساب سے تو گوہر آرا نے سوچتی ہوئی نظروں سے اپنی حسین بہن کی طرف دیکھا جس کے سینے سے لگ کر اسے ممتا کی خوشبو آتی تھی۔ پہلے آپ کی شادی ہونی چاہیے کیونکہ آپ ان سے بڑی ہیں۔ میری شادی۔ جہاں آرا کے چہرے پر ایک سایہ سا آکر گزر گیا۔ باوقار اور شاندار جہاں آرا رشتوں کو نبھانا جانتی تھی۔ ماں کی موت کے بعد چھوٹے بہن بھائیوں کی تعلیم و تربیت، باپ کی دیکھ بھال اور محل کی تمام تر ذمہ داری اس کے نازک اور ناتواں کندھوں پر آ پڑی تھی اور اس نے نہایت ثابت قدمی اور جانفشانی سے یہ ذمہ داری نبھائی تھی۔ اسے محل میں اور شاہ جہاں کی زندگی میں ایک خاص مقام حاصل تھا۔ جہاں آرا کی کہی ہوئی کسی بھی بات کو وہ ٹالنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا۔ یہی وجہ تھی کہ محل کے خدام و کنیزوں سے لے کر دربار شاہی کے امرا اور اعلیٰ عہدیدار بھی جہاں آرا کی پیشانی کے بل سے خائف رہتے تھے۔ شاہ جہاں اپنی جواں سال، جواں ہمت بیٹی کا بے حد احسان مند تھا کیونکہ اس کی محبت اور توجہ ہی اسے دوبارہ زندگی کی طرف لائی تھی ورنہ ممتاز محل کے ساتھ شاید وہ بھی دنیا سے کوچ کرگیا ہوتا۔ بولیں نا جہاں آرا آپا۔ جہاں آرا کو سوچوں میں گم دیکھ کر گوہر آرا نے قدرے ضدی لہجے میں اپنی بات دہرائی۔ آپ کی شادی کب ہوگی اور کس سے ہوگی اصل سوال یہی تھا کہ کس سے ہوگی اور اُس پل بے ساختہ اس کی نظروں کے سامنے مرزا یوسف چغتائی کا چہرہ گھوم گیا تھا۔ وہ کچھ کہتی ہوئی آنکھیں اور وہ کچھ کہنے سے قاصر لرزیدہ لب اس وقت وہ ان باتوں کا مطلب اتنی وضاحت سے سمجھنے کے قابل نہ تھی مگر آج اتنے برسوں بعد بے ساختہ اس کا دل دھڑک اٹھا تھا۔ مگر وہ جانتی تھی دھڑکنوں کا یہ بے مہابہ طوفان کبھی وصل کے ساحل کو نہ پا سکے گا۔ اسی لیے اس کی حسین آنکھوں سے ملال اشک بن کے بہہ نکلا تھا۔ آپ تو رونے لگیں۔ ہم نے شاید کچھ غلط سوال کرلیا۔ لِللہ آپ ہمیں معاف کردیجئے۔ ننھی شہزادی ماں سمان بڑی بہن کی بھیگی پلکیں دیکھ کر پریشان ہو اٹھی تھی۔ شادی کی تمام تر ذمہ داری جہاں آرا کے کندھوں پر تھی۔ وہ شہنشاہ ہند کی نا صرف مزاج آشنا تھی بلکہ خود بھی شان و شوکت اور جاہ و حشمت کی دلداہ تھی۔ اس لیے وہ چاہتی تھی کہ یہ شادی ایسی ہو کہ لوگ ششدر رہ جائیں اور اس شاندار شادی کو برسوں نہ بھولیں۔ ولیمے کی تقریب میں شرکت کے لیے ہندوستان کے گوشے گوشے سے ہی نہیں، ایران، طوران، افغانستان اور شام و نجف سے بھی مہمان مدعو تھے اور اس تقریب میں برسوں بعد مرزا یوسف چغتائی نے جہاں آرا کو دیکھا تھا اور سینے میں سوئی چاہت ایک بار پھر انگڑائی لے کر بیدار ہوگئی تھی۔ شاہ جہاں، جہاں آرا بیگم کے انتظام و انصرام سے بے حد خوش تھا۔ اس نے فرط محبت اور احساس تشکر سے اسے بادشاہ بیگم کے خطاب سے سرفراز کیا تھا۔ مرزا یوسف چغتائی نے دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر جہاں آرا بادشاہ بیگم کی کنیز خاص افروزن اور خواجہ سرا نثار تک رسائی حاصل کی تھی اور اپنی بے پناہ محبت کا یقین دلا کر ایک غزل بادشاہ بیگم تک پہنچانے کی گزارش کی تھی۔ غزل پڑھتے ہی جہاں آرا کا دل بھی مرزا سے ملنے کے لیے بے کل ہوگیا تھا اور پھر ایک سرمئی شام کے آنچل میں سمٹے لمحے ان دونوں کی ملاقات کے ناظر ہوگئے تھے۔ جہاں آرا کا خیال تھا کہ ایک بار ملنے کے بعد دل کی بے قراری کو قرار آجائے گا مگر اس کا خیال غلط ثابت ہوا تھا۔ یہ ایسی پیاس تھی کہ جام پر جام لنڈھانے کے باوجود بجھتی نہ تھی۔ عشق اور مشک چھپائے نہیں چھپتے کے مصداق جہاں آرا کے اس عشق کی خبر بھی دارا شکوہ تک جا پہنچی تھی، اور ایک شام عین اس وقت جب جہاں آرا، مرزا چغتائی کے ساتھ پائیں باغ میں موجود تھی، دارا شکوہ پہنچ گیا۔ اس سے قبل کہ دارا کے خدام مرزا کا سر قلم کردیتے، جہاں آرا بیچ میں آگئی۔ مرزا چغتائی کو زندہ سلامت محل سے نکل جانے کی اجازت مل گئی اور جہاں آرا نے دارا کے اس وعدے پر کہ وہ مرزا کو کوئی ضرر نہیں پہنچائے گا اور نہ ہی شاہ جہاں سے اس اجمال کے بارے میں کچھ کہے گا، جہاں آرا نے دارا سے وعدہ کیا کہ آئندہ وہ جیتے جی کبھی مرزا یوسف چغتائی سے نہیں ملے گی۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ مرتے دم تک کبھی مرزا کا سامنا نہیں کروں گی۔ بادشاہ بیگم نے محبت کی موت پر پلکوں پر چمکتے آنسو دل میں اتار لیے اور سر اونچا کرکے باوقار انداز میں اپنی خواب گاہ کی طرف بڑھ گئی۔ مرزا چغتائی کو لاہور چلے جانے کا حکم ملا اور مرزا آگرہ چھوڑ کر ہمیشہ کے لیے لاہور چلا گیا۔ وقت گزرتا رہا۔ جہاں آرا نے محبت کو سینے میں دفن کرکے ایک بار پھر خود کو باپ، بہن، بھائیوں اور کتابوں میں گم کرلیا تھا۔ آج کل وہ حضرت معین الدین چشتی کی سوانح عمری لکھنے میں مصروف تھی۔ اس کے علاوہ اس نے ایک فلاحی ادارہ بھی قائم کیا تھا جس میں غریب لڑکیوں کی شادی اور جہیز کے لیے وظیفہ دیا جاتا تھا۔ کم عمر یتیم و یسیر بچوں کے لیے بھی اس نے ایک یتیم خانہ تعمیر کروایا تھا۔ وقت گزرتا رہا۔ شاہ جہاں کے بیٹے جوان ہوتے رہے اور شاہ جہاں کمزور اور ناتواں ہوتا گیا۔ وہ ایک اداس شام تھی۔ شاہ جہاں سخت علیل تھا اور ایسے میں اس کا چہیتا بیٹا دارا شکوہ اور لاڈلی بیٹی جہاں آرا اس کے پاس تھے۔ شاہ جہاں اپنی زندگی سے مایوس ہوچکا تھا۔ اس کی خواہش تھی کہ ایسے اقدام کرے کہ سلطنت کے اندر تنازع نہ پیدا ہو۔ دوسری طرف شاہ جہاں کے تینوں بیٹے شاہ شجاع، مراد بخش اور اورنگزیب دارالسلطنت کی طرف کان اور آنکھیں لگائے بیٹھے تھے اور سب کو ہی یہ خدشہ تھا کہ شاہ جہاں اپنے چہیتے بیٹے دارا شکوہ کو برسراقتدار نہ کرجائے۔ شاہ شجاع کے ایک معرکے میں کام آنے کے بعد اب مراد بخش اور اورنگزیب رہ گئے تھے۔ اورنگزیب نے مراد بخش کو اپنے ساتھ ملا لیا تھا اور ایک بڑا لشکر لے کے آگرہ کی طرف بڑھا۔ شاہ جہاں موت و زیست کی کشمکش میں مبتلا بسترمرگ پر پڑا تھا۔ اس کے باوجود اس نے لشکر کی سپہ سالاری کا ارادہ کیا مگر دارا نے اسے یہ کام کرنے نہ دیا اور خود لشکر لے کے اورنگزیب کے مقابلے کو چلا مگر یہ مقابلہ اورنگزیب کے ہاتھ رہا۔ دارا مارا گیا اور اورنگزیب فاتحانہ انداز میں قلعے میں داخل ہوا۔ شاہ جہاں کو اس کی خواب گاہ میں نظربند کردیا گیا جبکہ جہاں آرا کو حکم ملا کہ وہ دہلی چلی جائے مگر جہاں آرا نے بیمار اور کمزور باپ کو چھوڑ کر جانے سے انکار کردیا۔ اورنگزیب کا برتائو شاہ جہاں کے ساتھ نہایت مہربانی اور ادب والا رہا۔ وہ تاحیات اپنے بوڑھے باپ کی حتیٰ الوسع خاطرداری کرتا اور کثرت سے تحفے تحائف بھیجتا رہتا تھا اور سلطنت کے بڑے بڑے معاملات میں اس کی رائے اور مشورے کو بے حد اہمیت دیتا تھا۔ جہاں آرا، شاہ جہاں کی زندگی کے آخری لمحے تک اسی کے ساتھ رہی۔ اس کے انتقال کے بعد وہ دہلی چلی گئی۔ اورنگزیب نے اس کے لیے ایک خصوصی محل تعمیر کروایا تھا۔ وہ اپنی خادمہ افروزن اور خواجہ سرا نثار کے ساتھ اسی محل میں رہائش پذیر تھی۔ تب ایک شام اسے ایک فقیر کی آواز سنائی دی جو نہایت کرب بھری آواز میں ہجر و فراق کا ایک نغمہ الاپ رہا تھا۔ آواز سنتے ہی جہاں آرا کے دل پر چوٹ لگی تھی۔ دماغ میں سنسناہٹ سی جاگ اٹھی تھی۔ اس کے کہنے پر خادمہ نے باہر جاکر دیکھا تو حیرت زدہ رہ گئی کیونکہ وہ فقیر کوئی اور نہیں، مرزا یوسف چغتائی تھا۔ جہاں آرا کے عشق اور فراق نے اسے برباد کردیا تھا۔ داڑھی اور بال بڑھے ہوئے تھے، لباس خستہ اور حال شکستہ تھا۔ وہ ٹھوکریں کھاتا اور لڑکھڑاتا چلتا جاتا تھا اور اپنی بچھڑی محبوبہ کی یاد میں فراق کے گیت گاتا جاتا تھا۔ مرزا چغتائی افروزن نے کرب بھرے لہجے میں اسے پکارا۔ آپ اور اس حال میں۔ یہ کیا صورت بنا رکھی ہے مرزا چغتائی ایک دم ساکت رہ گیا۔ افروزن اس نے بے یقین لہجے میں اسے پکارا۔ تم یہاں ہو تو جہاں آرا بیگم صاحب کہاں ہیں وہ بھی یہیں ہیں، یہ مرمر کا محل انہی کا ہے۔ افروزن نے محل کی طرف اشارہ کرکے بتایا۔ وہ لرزیدہ سا افروزن کے قدموں پر گر گیا۔ افروزن اللہ کے واسطے ایک بار مجھے ان سے ملوا دو۔ مرنے سے پہلے میں ایک بار ان کا دیدار کرنا چاہتا ہوں۔ میں بادشاہ بیگم سے پوچھ کر ہی کوئی جواب دے سکتی ہوں۔ افروزن نے جواب دیا اور اندر کی طرف چل دی۔ حرماں نصیب کوئی اور نہیں، مرزا یوسف چغتائی ہے تو بے ساختہ اس کی آنکھیں نم ہوگئیں اور زیرلب اس نے ایک شعر پڑھا۔ اے عشق تیرا برا ہو تو نے کس طرح لوگوں کو برباد کیا۔ کوئی محل میں رہ کر تہی دست و تہی دامن رہا تو کوئی کشکول لیے در در کی خاک چھان رہا ہے۔ جہاں آرا نے مرزا چغتائی سے ملنے سے انکار کردیا۔ افروزن رنجور اسے بتانے چل دی۔ مرزا نے سنا تو افروزن کا ہاتھ تھام کر لجاجت بھرے لہجے میں بولا۔ افروزن تم دیکھ سکتی ہو عشق نے میری روح کو کھوکھلا کردیا ہے اور محبوب سے فرقت گھن بن کر میرے تن بدن کو چاٹ گئی۔ میں زیادہ عرصے نہ جی پائوں گا۔ ایک مرتے ہوئے شخص کی آخری خواہش سمجھ کر میری یہ گزارش بیگم صاحب تک پہنچا دو۔ دیکھئے مرزا۔ افروزن نے مجبور لہجے میں کچھ کہنا چاہا۔ مرزا نے اس کا دامن تھام لیا۔ میں کچھ نہیں سنوں گا۔ آپ سے بس ایک وعدہ چاہتا ہوں کہ آپ آج مجھے ضرور میری حاصل زندگی سے ملوا دیں گی۔ بس اک نگاہ کا سوال ہے۔ مرزا کے شدید اصرار پر افروزن کو وعدہ کرتے ہی بنی۔ وہ بوجھل قدموں سے چلتی جہاں آرا کے پاس پہنچی۔ جہاں آرا رحل پر قرآن مجید رکھ چکی تھی۔ گویا تلاوت کرنے جارہی تھی۔ بادشاہ بیگم افروزن نے اس کے ہاتھ تھام لیے۔ میں جانتی ہوں آپ نے صاحب عالم دارا شکوہ سے وعدہ کیا تھا کہ جیتے جی کبھی مرزا سے نہیں ملیں گی مگر اب تو دارا شکوہ اس دنیا میں نہیں ہیں اور میں اس بندئہ درماندہ سے وعدہ کربیٹھی ہوں کہ ایک بار اسے آپ سے ضرور ملوا دوں گی۔ میری عمر بھر کی خدمت کے نام پر آپ میری گزارش قبول کرلیجئے۔ مجھے وعدہ خلافی کی شرمندگی سے بچا لیجئے۔ جہاں آرا نے آنکھیں کھول کر اس کی طرف دیکھا اور اثبات میں سر ہلا دیا۔ افروزن دوڑتی ہوئی باہر کی جانب گئی اور جہاں آرا نے اپنا سر رحل پر دھرے قرآن پر رکھ کر باری تعالیٰ سے التجا کی۔ رب کریم افروزن نے عمر بھر کی خدمت کا صلہ مانگا تھا، انکار کیسے کرتی مگر تجھ سے گزارش ہے تو مجھے دارا کے سامنے وعدہ خلافی کی شرمندگی سے بچا لینا۔ مرزا چغتائی کے آنے سے پہلے مجھے اس جہانِ فانی سے اپنے پاس بلا لے۔ جانے قبولیت کی کیسی گھڑی تھی کہ دعا شرف قبولیت پا گئی تھی۔ افروزن، مرزا کو لے کے جہاں آرا کے پاس پہنچی تو روح قفس عنصری سے پرواز کرچکی تھی۔ مرزا چغتائی نے ایک آہ سردبھری اور جہاں آرا کے قدموں میں گر کے اپنی جان نچھاور کردی۔ خواجہ سرا نثار نے سارے واقعات شہنشاہ اورنگزیب کے حضور پیش کئے تو وہ آبدیدہ ہوگیا۔ اس نے اپنے جد امجد شہنشاہ اکبر کے اس فرمان کو ہمیشہ کے لیے منسوخ کردیا۔ جہاں آرا بیگم کو صاحب الزمانی کے خطاب سے نوازا اور حضرت نظام الدین اولیا کے مزار کے احاطے میں واقع جہاں آرا کی قبر پر شاندار مقبرہ تعمیر کروایا۔ ختم شد
null
null
null
null
439
https://www.urduzone.net/aisa-bhe-hota-hae-teen-auratien-teen-kahaniyan/
آپا شمیم میری ٹیچر تھیں، وہ ہمیشہ ایک ہی درس دیا کرتی تھیں کہ ایمانداری سے بڑی کوئی خوبی نہیں ہوتی۔ ہمیشہ ایماندار رہنا اور انصاف سے کام لینا، وہ ایک اور بات بھی ہمارے ذہن نشین کیا کرتی تھیں، یاد رکھنا کہ ٹاپ کرنے والوں کے لئے ہمیشہ اعلیٰ ترین منصب خالی رہتا ہے۔ میں نے ان کی کہی ہوئی یہ دونوں باتیں اچھی طرح ذہن نشین کر لی تھیں۔ آپا شمیم کی اپنی کہانی بڑی سبق آموز ہے، جب پاکستان وجود میں آیا ہزاروں خاندانوں کی مانند ان کے گھر والے بھی ہجرت کر کے پاکستان آ گئے۔ آپا شمیم کے والد دوران ہجرت شہید ہوگئے اور چچا اسی سفر کے دوران جان کی بازی ہار گئے۔ خواتین میں کچھ رشتہ داروں کے ہمراہ ان کی والدہ اور نانی سلامت پہنچ سکیں۔ ہجرت کے وقت آپا شمیم کی عمر نو برس تھی۔ جب وہ بارہ برس کی ہوئیں ان کی والدہ نے کفالت کے سہارے کی خاطر نکاح ثانی کر لیا۔ آپا شمیم صرف سال بھر والدہ اور سو تیلے والد کے ہمراہ رہ سکیں۔ نانی کی وفات کے بعد جو ان کے پاس ہی رہا کرتی تھیں، آپا شمیم سے ایک اور مضبوط سائبان چھن گیا۔ وہ سوتیلے والد کے رویّے سے مضطرب و بے چین تھیں۔ ان دنوں وہ گورنمنٹ گرلز اسکول میں ساتویں کی طالبہ تھیں۔ ایک روز ان کی کلاس ٹیچر آپا زہرا نے ان کو کلاس میں چپکے چپکے آنسو بہاتے دیکھا۔ وہ کئی دنوں سے نوٹ کر رہی تھیں کہ یہ بچی پریشان اور مضطرب رہتی ہے۔ آج روتے پا کر انہوں نے اپنی اس لائق شاگرد کو بلا کر افسردگی کی وجہ دریافت کی۔ آپا زہرا کے شفقت بھرے لہجے سے اپنائیت کی خوشبو محسوس کرتے ہوئے اس معصوم لڑکی نے ان پر اپنا حال دل کھول دیا۔ بتایا کہ وہ اپنے سوتیلے باپ کے رویّے سے شاکی ہیں اور ان کے گھر میں رہنا نہیں چاہتیں۔ آپا زہرا نے ان کی والدہ کو بلوا کر کہا کہ اگر آپ اجازت دیں تو بچی کو میں اپنے پاس رکھ لوں۔ زہرا آپا بے اولاد تھیں اور خاوند بھی وفات پا چکے تھے۔ وہ اکیلی رہتی تھیں۔ آپا شمیم کی والدہ نے کچھ دیر سوچا اور پھر انہوں نے بیٹی کو استانی زہرا کے سپرد کر دیا، یوں وہ اپنی اس مشفق ٹیچر کی بیٹی بن کر ان کے گھر منتقل ہو گئیں اور تمام عمر ان کے گھر قیام پذیر رہیں۔ وہ اب آپا زہرا کی بیٹی کہلاتی تھیں اور وہ بھی ان کو اپنی اولاد جیسا چاہتی تھیں، یہاں تک کے جس مکان میں قیام پذیر تھیں وہ بھی اپنی زندگی میں اپنی اس لے پالک بیٹی کے نام کردیا تاکہ ان کی وفات کے بعد آپا شمیم بے گھر نہ ہو جائیں یا کوئی ان کو اس گھر سے نہ نکال دے۔ یہ پرانے وقتوں کے فرشتہ صفت لوگ تھے آجکل کے طمع پرست اور لالچی دور میں ایسے نایاب لوگ کہاں میں نے ساتویں سے دسویں جماعت تک آپا شمیم سے پڑھا اور وہ ہمیشہ میرے ساتھ کمال شفقت سے پیش آتیں، اتفاق سے ہمارا گھر بھی اسی محلے میں تھا جہاں ان کا گھر تھا لہٰذا ہم ایک ہی تانگے میں اسکول آتے جاتے تھے۔ گریجویشن کے بعد میری شادی ہو گئی۔ اب کبھی کبھی آپا سے ملاقات ہو جاتی۔ جب ہمارے شہر میں گرلز کالج کا قیام عمل میں آیا تو شمیم آپا اس وقت تک ایم اے کر چکی تھیں لہٰذا ان کو اپنے شہر کے اس واحد کالج میں لیکچرار ہونے کا شرف حاصل ہو گیا۔ وہ نہایت فرض شناس اور مقبول اساتذہ میں شمار ہوتی تھیں۔ ان کے سینکڑوں شاگرد تھے جو ان کی بے حد عزت کرتے تھے۔ آپا نے شادی نہ کی کیونکہ ان کو اپنے تعلیمی کیریئر میں دلچسپی رہی کہ میٹرک سے ایم اے اور ایم ایڈ تک آتے آتے ان کے سر میں چاندنی اتر آئی اور شادی کی عمر نکل گئی۔ میں دل سے آپا کی قدر کرتی تھی۔ میرے خاوند کا تبادلہ ایک بار اپنے شہر میں ہو گیا تو میں نے اپنے چھوٹے بچوں کی وجہ سے میکے کے قریب رہنا پسند کیا۔ یوں ایک بار پھر آپا کی رہائش کے نزدیک رہائش پذیر ہونے کا موقع ملا۔ آپا شمیم کو یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ میں ان کے پڑوس میں آ گئی ہوں، جب وقت ملتا میرے گھر آجاتیں۔ ایک روز وہ آئیں تو بہت پریشان تھیں۔ وہ جب پریشان ہوتیں میرے پاس آجاتیں۔ بولیں، بڑی پریشانی ہے۔ آخر ایسا کیا مسئلہ ہے کچھ بتایئے تو ایک بچی جس نے ایف ایسی سی کا امتحان دیا ہے۔ اس کے نمبر بڑھوانے کو میرے پاس سفارشیں آ رہی ہیں۔ جبکہ بچی نے درحقیقت کم نمبر لئے ہیں، اگر میں ا یسا کروں تو محنتی اور لائق بچیوں کا حق مارا جائے گا یہ مجھ سے نہیں ہو گا۔ تو مت کیجئے آپا میں میاں سے بات کروں گی زیادہ کوئی پریشان کرے تو مجھے بتایئے گا۔ میں نے انہیں تسلی دی تو وہ سکون میں آ گئیں۔ اس کے بعد کافی دن نہیں آئیں، میں بھی بچوں کے کاموں میں ایسی مصروف ہوگئی کہ ان کی طرف نہ جا پائی۔ ایک روز پتا چلا کہ آپا کا تبادلہ بہت دور دراز جگہ کر دیا گیا ہے جہاں روزانہ کا آنا جانا ممکن نہیں ہے۔ لہٰذا وہ وہاں چلی گئی ہیں اور کرائے کا گھر لے کر رہ رہی ہیں۔ حقیقت معلوم کرنے میں ان کے گھر گئی، جہاں وہ پہلے رہتی تھیں۔ وہاں تالا لگا ہوا تھا، ان کے ساتھ والے گھر میں آپا زہرا کی بھابھی رہتی تھیں۔ ان سے آپا کا پوچھا، انہوں نے کہاں ہاں ان کا تبادلہ ہو گیا ہے۔ اچھا جب آئیں تو ان کو پیغام دے دیجئے گا کہ وہ مجھ سے ملنے میرے پاس ضرور آئیں۔ اس واقعے کے دو ماہ بعد ایک روز آپا آ گئیں۔ وہ بہت دلگرفتہ تھیں، میں نے خیر خیریت دریافت کی تو روہانسی ہو گئیں۔ بولیں میں یہ سمجھتی تھی کہ ایمانداری ہی سب کچھ ہے۔ اور پڑھانے میں جو سکون و عزت ہے کسی اور پیشے میں نہیں ہے۔ اب سوچتی ہوں تو عجیب سا لگتا ہے آج سے کچھ عرصہ پہلے کتنی با اعتماد اور مضبوط ہوا کرتی تھی۔ مگر اس واقعہ نے تو مجھے اس قدر توڑ ڈالا کہ اب ہر قدم پر ایسا ہی محسوس ہوتا ہے کہ کسی وقت اچانک پائوں تلے سے زمین کھسک جائے گی اور میں اوندھے منہ جا گروں گی۔ تم جانتی ہو کہ میں نے کیسے نامساعد حالات میں سخت جدوجہد کے بعد تعلیم پوری کی ہے۔ جب یہاں کالج نہ تھا ،داخلہ فارم لانے کے لئے لاہور کا سفر اختیار کرنا پڑا تھا۔ پرچے دینے لاہور جاتے تھے۔ میرے ساتھ جانے والا کوئی نہ ہوتا تھا تو کسی اسٹوڈنٹ کی والدہ سے درخواست کرتی کہ میرے ساتھ چلیں، ان دنوں کب خواتین کا اکیلے سفر کرنے کا رواج تھا۔ ہم اپنے چھوٹے چھوٹے کاموں کے لئے آئے دن لاہور کا سفر کیا کرتے تھے۔ خواہ محکمہ تعلیم سے متعلق کام ہوتے یا کسی اور محکمے کے متعلق۔ ہیڈ آفس تو سینکڑوں میل دور تھے۔ اپنے ساتھ محرم نہ ہونے کی وجہ سے ہم جیسی اکیلی خواتین کو کیسی تکالیف برداشت کرنی پڑتی تھیں۔ یہ کوئی ہم سے پوچھے۔ مگر اتنی محنت و مشقت کے باوجود میں نہ تھکتی تھی۔ اپنا سفر جاری رکھا، پرائیویٹ پڑھا، پرچے دیئے آخر اپنی منزل پالی۔ لیکچرار ہو گئی تو یک گونہ طمانیت کا احساس ہوا کہ جو سکھ ٹیچر کے دامن میں قدرت ڈال دیتی ہے وہ انعام ہوتا ہے اس کے باضمیر ہونے کا۔ اور ایک اچھا استاد تو باغبان کی مانند ہوتا ہے۔ جو اپنے شاگردوں کی شخصیت کی مہکتے پھولوں کی طرح آبیاری کرتا ہے کہ جن کی خوشبو سے دنیا کا چمن مہک جاتا ہے۔ ہمیں کسی صلے اور انعام کا لالچ کب ہوتا ہے۔ ہمارا انعام تو یہ ہوتا ہے کہ ہمارے لگائے ہوئے پودے تناور درخت بن جائیں تو ہماری محنت کا صلہ مل جاتا ہے۔ یہ کہتے ہوئے ان کی آنکھیں ڈبڈبا آئی تھیں۔ میں چاہتی تھی کہ آپا اب اصل بات کی طرف آجائیں اور بتائیں کہ معاملہ کیا ہے جس کی وجہ سے وہ ذہنی اذیت سے دوچار ہیں۔ اچھا تو آپا شمیم اصل مسئلہ کیا ہے، یہ بتایئے۔ تم جانتی ہوکہ امتحانات کے بعد طالب علم پرسکون ہو جاتے ہیں لیکن ہم پرچے چیک کرنے والوں کا اصل امتحان شروع ہوجاتا ہے۔ ہر وقت یہی خیال رہتا ہے کہ ہمارے قلم کی ایک ہلکی سی جنبش سے بھی کسی طالب علم سے ناانصافی نہ ہو جائے۔ ورنہ طالب علم کو ناقابل تلافی نقصان پہنچنے کا امکان رہتا ہے۔ آپا آپ نے تو کسی سے کبھی ناانصافی نہیں کی۔ ہمیشہ صحیح نمبر دیتی ہیں۔ ہاں میں ہمیشہ مکمل ذہنی سکون کی حالت میں بچیوں کے پرچے چیک کرتی ہوں۔ میری طبیعت خراب ہو یا موڈ درست نہ ہو تو میں پرچے چیک نہیں کرتی۔ سارے دن میں صرف بیس پرچے دیکھتی ہوں تاکہ مکمل سکون کی حالت میں ہر طالبہ کے ساتھ انصاف کر سکوں اور کسی نالائق کے نمبر بڑھانے کی تو قائل ہی نہیں ہوں کیونکہ اس طرح تعلیم کا معیار گر جاتا ہے۔ درست ہے آپا تو اب مسئلہ کیا ہے۔ مسئلہ یہ کہ اس سال ایف ایس سی کے امتحانات ختم ہوئے تو پرچوں کا ایک بنڈل چیکنگ کے لئے میرے پاس آیا۔ ہمارے چیک کردہ پرچے دوبارہ ہیڈ ایگزامنر کے پاس ری چیکنگ کے لئے جاتے ہیں تاکہ اگر ہم سے کوئی غلطی ہو گئی ہو تو اسے درست کر دیا جائے۔ ایک روز جب میں پرچے چیک کر رہی تھی تو میرے گھر پر ایک خاتون آ گئیں، بتایا کہ محکمہ تعلیم سے وابستہ ہوں اور میری چھوٹی بہن کا پرچہ آپ کے پاس چیک ہونے آیا ہے۔ آپ اس کے نمبر بڑھا دیجئے۔ ہم دونوں ایک ہی پیشے سے وابستہ ہیں اس وجہ سے آپ اتنا تو لحاظ کر لیں گی۔ کمال کی بات ہے آپ نے معلوم کر لیا کہ آپ کی بہن کا پرچہ میرے پاس چیک ہونے آیا ہے۔ جی ہاں ہمارے کافی لوگ محکمہ تعلیم میں ہیں۔ میں نے اندازہ کر لیا کہ یہ بآسانی ٹلنے والی نہیں ہے۔ اسے میں نے کہہ دیا کہ اچھا اپنی بہن کا رول نمبر دے جائیں میں دیکھ لوں گی کہ کتنی گنجائش نکل سکتی ہے۔ گنجائش کی بات نہ کریں، دو چار نمبر بڑھانے سے اسے کوئی فائدہ نہ ہو گا۔ اچھے خاصے نمبر بڑھانے ہیں تاکہ وہ میڈیکل کالج میں داخلہ لے سکے۔ میں حیران تھی کہ خود محکمہ تعلیم سے وابستہ ہونے کے باوجود اس خاتون کو اس محکمے کے تقدس کا کوئی پاس نہ تھا۔ ان کے جاتے ہی میں نے پرچوں سے ان کی بہن کا رول نمبر والا پرچہ الگ کیا۔ اس لڑکی کے نمبر اتنے کم تھے کہ اس کو میرٹ لسٹ تک لانے کے لئے مجھے کم از کم تیس بچیوں کے ساتھ ناانصافی کرنی پڑتی، تبھی میں نے وہ پرچہ بھی نکال کر الگ کیا۔ جس بچی نے تمام طالبات سے زیادہ نمبر لئے تھے میں اس بچی کے ساتھ ظلم نہ کر سکتی تھی کہ اس کو اور اس جیسی بچیوں کو لسٹ میں پیچھے کر کے ایک نالائق لڑکی کو اوپر لے آئوں۔ یہ ضمیر نے گواراا نہ کیا۔ آسیہ بھی اپنی بیٹی عذرا کا رول نمبر لکھ کر دے گئی تھی لہٰذا اس کا پرچہ الگ کرنے میں آسانی ہو گئی۔ مجھے بڑی خوشی ہوئی کہ عذرا نے اچھے نمبر لئے تھے، وہ واقعی محنتی تھی اور میڈیکل کالج میںداخلے کی جائز حق دار تھی۔ اگلے روز میرے استاد محترم تشریف لائے اور کہا، بیٹی ایک کام سے آنا پڑ گیا ہے۔ آنا تو نہ چاہتا تھا۔ مگر مجبور کیا گیا تو آ گیا ہوں۔ حکم کیجئے میں نے سر سے احتراماً کہا، وہ بولے۔ بیٹی میرے ایک پرانے واقف کار ہیں، صاحب حیثیت ہیں۔ آج بڑی حجت کی ہے کہ میری بیٹی سائرہ کا پرچہ شمیم کے پاس ہے نمبر بڑھوانے ہیں تاکہ میڈیکل کالج میں داخلہ ہو جائے۔ اگر ایسا ممکن ہو تو یہ کام کر دو بیٹی۔ میں نے کہا۔ استاد محترم آپ کا حکم سر آنکھوں پر لیکن اس لڑکی کے بہت کم نمبر ہیں۔ ایک دو نمبر کم ہوتے تو شاید بات بن جاتی لیکن اب ایسا ممکن نہیں ہے۔ آپ اس پرچے کو دیکھ لیجئے اور اپنے ہاتھ سے جتنے نمبر چاہتے ہیں خود بڑھا لیجئے۔ انہوں نے پرچہ دیکھا، اور سر جھکا لیا اور بغیر مزید اصرار کئے بغیر وہ چلے گئے۔ وہ ہمارے استاد تھے۔ ہمیشہ ایمانداری کا درس دیا کرتے تھے۔ کیسے ایسا کام کر سکتے تھے، تاہم اتنا کہہ گئے۔ بیٹی یہ سیاسی لوگ ہیں۔ بارسوخ بھی ہیں۔کہیں ایسا نہ ہو کہ یہ لوگ تمہیں کسی مشکل میں ڈال دیں، اسی لئے چلا آیا تھا۔ ابھی اس صدمے سے نکلی نہ تھی کہ اگلے دن ہماری ایک ساتھی تشریف لائیں بولیں۔ سائرہ کی والدہ نے بھیجا ہے تمہارے پاس۔ ان کا خیال ہے کہ تمہیں اس کام کے لئے کچھ معاوضہ درکا ہے بولو جو مانگتی ہو۔ پچاس ہزار یا اس سے زیادہ۔ ان دنوں پچاس ہزار پچاس لاکھ سے بڑھ کر تھے میرا تو منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ کچھ دیر زبان گنگ رہی۔ چند لمحوں میں قوت گویائی بحال ہوئی تو میں نے کہا محترمہ نہ پچاس نہ اس سے زیادہ یہ محکمہ تعلیم ہے جس کا اپنا تقدس ہے، میں کسی معاوضہ کے عوض کسی لائق محنتی بچی کا حق نہیں مار سکتی۔ داخلہ میڈیکل کالج میں اسی کو ملے گا جو اس کی مستحق ہو گی۔ میرا ٹکا سا جواب سن کر وہ بولیں۔ ضد نہ کرو ورنہ اس ضد کی وجہ سے ضرور کسی مشکل میں پڑو گی۔ ایسا نہ ہو کہ نوکری ہی چھوڑنی پڑ جائے۔ ایک ہفتہ بعد میرے ہیڈ ایگزامنر کا پیغام ملا۔ مس شمیم آپ کس دنیا میں رہتی ہیں ذرا سوجھ بوجھ سے کام لیجئے جو کام آپ نہیں کرنا چاہ رہیں، وہ کسی اور طریقہ سے ہو جائے گا۔ لیکن آپ کو معاف نہیں کیا جائے گا۔ یہ پیغام میرے لئے شدید ذہنی کرب کا باعث بنا میں نے تمام پرچے ان کو بھجوا دیئے۔ چند دن بعد پرچے دوبارہ میرے پاس آ گئے۔ جو کام میں نہ کر سکی تھی وہ میرے اعلیٰ افسر نے خود اپنے ہاتھ سے کر دیا تھا۔ انہوں نے اول نمبر پر آنے والی طالبہ کے دس نمبر کم کر دیئے تھے اور عذرا کے زیادہ کر دیئے تھے۔ اس کے علاوہ بھی کچھ لائق طالبات کے نمبروں میں ردو بدل کیا تھا۔ اب مجھے فائنل لسٹ بنانی تھی۔ اور لسٹ پر دستخط کرنا تھے۔ میں اس ناانصافی کو برداشت نہ کر سکی، دونوں بچیوں کے سابقہ نمبر درج کر کے دستخط بھی کر دیئے اور لسٹ ان کو بھجوا دی۔ اس کے بعد کیا ہوا، وہ نہیں بتا سکتی۔ بس یہ سمجھ لو کہ آسیہ کی بیٹی عذرا کو داخلہ نہ مل سکا لیکن جو لسٹ میں آخر سے کچھ اوپر تھی میڈیکل کالج میں داخلہ مل گیا۔ ایک نالائق نے ایک لائق لڑکی کا حق مار کر اس غریب محنتی بچی کو تاریک مستقبل کی طرف دھکیل دیا اور اس کی سیٹ بااثر فیملی کی دختر ہونے کے سبب حاصل کر لی۔ میرے خلاف تادیبی لیٹرزکا سلسلہ چل نکلا، سزا دوردراز پہاڑی علاقے میں تبادلہ بھی کر دیا گیا۔ اب یہ عالم ہے کہ خود پر اعتماد ختم ہو گیا ہے جب بچیوں کو کہتی ہوں کہ ایمانداری بہت بڑی خوبی ہے اور اس کا صلہ عزت و تکریم کی صورت میں ملتا ہے تو زبان لڑکھڑانے لگتی ہے۔ دھکے کھائے تو پتا چلا کہ ہمارے اس معاشرے میں ایمانداری کا کیا صلہ ہے۔ سب کہتے ہیں تم کو کیا ہو گیا ہے،کیا بتائوں کہ مجھے سوچوں کی دیمک لگ گئی ہے۔ جو رفتہ رفتہ میرے وجود کو چاٹ رہی ہے، اب تو جلد تھک جاتی ہوں۔ زیادہ محنت کرنے کو جی نہیں چاہتا۔ سوچتی ہوں میں فرد واحد کمزور پڑ گئی، آگے معاشرہ کا کیا ہو گا۔ آپا شمیم کی مایوسی دیکھ کر بہت دکھ ہوا اب تو مرحومہ کو وفات پائے بھی بیس برس سے زیادہ ہو چکے ہیں لیکن میں اپنی ان محترم ٹیچر کو آج تک بھلا نہیں پائی ہوں۔ یہ کہانی لکھنے کا میرا مقصد یہ نہیں ہے کہ جو محنت کر رہے ہیں، محنت نہ کریں اور جو ایمانداری پر یقین رکھتے ہیں وہ اس یقین سے تہی دامن ہو جائیں۔ میں اب بھی اپنے بچوں کو کہتی ہوں، بچو ایمانداری سے بڑھ کر کوئی شے نہیں اور محنت کرنے والوں کے لئے اعلیٰ ترین منصب ہمیشہ منتظر رہتا ہے۔ تاہم آج کا معاشرہ بے ضمیر لوگوں کے کارناموں کی منہ بولتی تصویر آج آپ کے سامنے ہے۔ س ۔ ض ۔لاہور
null
null
null
null
440
https://www.urduzone.net/yeh-raaz-na-khule-teen-auratien-teen-kahaniyan/
میرے ابو ایک بڑے آفیسر تھے۔ انہوں نے اپنے گائوںسے ہی میٹرک پاس کیا اور پھر شہر چلے گئے۔ ہوسٹل میں رہ کر تعلیم حاصل کی اور اپنی محنت و لگن سے اعلیٰ اعزاز کے ساتھ فارغ التحصیل ہونے کے بعد مقابلے کا امتحان دیا۔ اللہ تعالیٰ نے محنت کا ثمر دیا اور وہ آفیسر بن گئے۔ جب ہم اپنے گائوں جاتے پھپھو کے گھر ٹھہرتے جو ہم سے بے حد محبت کرتی تھیں۔ خاص طور پر اپنے بھائی یعنی میرے والد پر تو واری صدقے جاتی تھیں۔ اپنے بچوں کو بار بار بھائی کی مثالیں دیا کرتیں کہ دیکھو حشمت نے گائوں سے میٹرک کرنے کے بعد شہر جا کر تعلیم پر ایسی توجہ دی کہ ٹاپ کیا اور آج وہ اعلیٰ آفیسر ہیں۔ سارے گائوں میں ان کی عزت ہے۔ واقعی پھپھو نے اپنے بھائی کی تعریفیں کر کر کے میرے ابو کو اپنے بچوں کا آئیڈیل بنا دیا۔ اسد، پھپھو کا سب سے بڑا بیٹا تھا۔ وہ خاص طور سے ابو سے متاثر تھا۔ جب یہ لوگ ہمارے گھر لاہور آتے وہ بڑی حسرت سے ہمارے گھر کی ہر شے کو دیکھتا۔ اپنی والدہ سے کہتا ماں میرا جی چاہتا ہے کہ میں بھی ماموں کی طرح محنت کروں اور افسر اعلیٰ بن جائوں۔ ان کی کتنی عزت ہے۔ پھپھو کہتیں کیوں نہیں بیٹے اگر تم محنت کرو تو اپنے ماموں جیسے بن سکتے ہو۔ مشکل یہ تھی کہ ہمارے گائوں میں ایک ہی سرکاری اسکول تھا۔ جہاں انگریزی پڑھانے کا کوئی انتظام نہ تھا۔ میرے پھوپی زاد اسد کو اس اکلوتے اسکول میں پڑھنے کے سوا چارہ نہ تھا۔ اس بات پر پھپھو بھی کڑھا کرتی تھیں کہ گائوں میں کوئی انگریزی اسکو ل نہیں ہے تو بچے کیونکر مقابلے کے امتحان کی تیاری کر سکیں گے۔ شو مئی قسمت پھوپھا ان دنوں وفات پا گئے جب کہ اسد نے میٹرک کا امتحان دیا تھا۔ اس کا آفیسر بننے کا خواب ٹوٹ گیا۔ تعلیم کے لئے اسے شہر جانا تھا۔ پھوپھا نہ رہے تو شہر میں تعلیم اور ہوسٹل کے اخراجات کون پورے کرتا۔ پھپھو نے ابو کو خط لکھا۔ بھائی تم اسد کو لاہور بلوا لو اور اسے کسی اچھے کالج میں داخل کرا دو۔ یہ میرا سب سے بڑا بیٹا ہے۔ پڑھ لکھ کر کچھ بن گیا تو میرے دیگر بچوں کی بھی قسمت سنور جائے گی۔ پھپھو نے اتنی منت سماجت سے خط تحریر کیا تھا کہ ابو کو انکار کرتے نہ بنی۔ انہوں نے میری والدہ سے کہا آپا شہر بانو مجھ سے بہت محبت کرتی ہیں۔ میں اسد کو آنے سے نہیں روک سکتا۔ ایک بچے کی زندگی بن گئی تو ان کا گھر سدھر جائے گا۔ والد کے کہے کو امی رد نہ کر سکیں۔ لہٰذا انہیںبادل نخواستہ اسد کے آنے کی ہامی بھرنی پڑی۔ یوں وہ گائوں سے ہمارے گھر آگیا۔ لاہور آنا اس کے بچپن کا خواب تھا۔ والد نے اسے کالج میں داخلہ دلوادیا تو اسے لگا جیسے اسے اپنے خوابوں کی تعبیر مل گئی ہو۔ وہ بہت خوش تھا لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس نے مرجھانا شروع کر دیا۔ ہمارے گھر میں سبھی افراد اپنی خوشیو ں میں مگن تھے۔ کسی نے اس پر توجہ نہ دی کہ وہ کیوں ناخوش رہتا ہے اور کیوں اس کے چہرے نے کمہلانا شروع کر دیا ہے۔ گائوں سے آیا تھا تو اس کے منہ پر شادابی تھی اور آنکھوں میں ستاروں جیسی چمک تھی لیکن اب وہ ایک بجھتے چراغ جیسا نظر آتا ہے۔ میں شروع سے حساس تھی۔ بچپن میں جب ہم پھپھو کے گھر جاتے تھے تو وہ مجھے دیکھ کر کھل اٹھتا۔ دوڑ دوڑ کر ہمارے کام کرتا اور اس کے معصوم مکھڑے پر مسکراہٹوں کی پھوار بکھر جاتی۔ مجھے اس کا وہ مسرت بھرا چہرہ آج بھی یاد تھا۔ ہمارا معیار زندگی گائوں والوں کی نسبت بلند تھا۔ میری والدہ بڑے شہر کی پروردہ تھیں اور غیر خاندان کی تھیں۔ ان کو اپنے سسرالی گائوں والوں سے کوئی لگائو نہ تھا۔ یہ تو پھپھو کی محبت تھی جو ہمیں کبھی کبھار گائوں کھینچ لے جاتی تھی۔ والدہ اسد کی طرف دھیان نہ دیتیں۔ وہ خوش ہے یا ناخوش اس کے لئے وہ ایک بے حس مورت جیسی تھیں۔ یوں بھی وہ کب چاہتی تھیں کہ نند کا فرزند ان کے گھر رہے۔ یہ پھپھو تھیں جن کی یہ آرزو تھی کہ اسد پڑھ لکھ کر افسر بن جائے۔ جبکہ گائوںمیں رہ کر یہ خواب پورا نہ ہوسکتا تھا۔ خود اسد کو بھی تعلیم حاصل کرنے کا شوق تھا۔ وہ ہماری اور ابو کی زندگی پر رشک کیا کرتا تھا۔ اسی لئے وہ ماں اور بہن بھائیوں سے دور چلا آیا تھا۔ پرائے گھر میں سما جانا آسان نہیں ہوتا۔ یہ اسے یہاں آکر پتا چلا۔ اپنا گھر خواہ جھونپڑا ہی کیوں نہ ہو، اپنا ہوتا ہے۔ اس کا ذہن صاف ستھر ا تھا۔ ماں کے رشتہ داروں سے محبت والہانہ تھی۔ اس میں کسی قسم کا کھوٹ نہ تھا۔ وہ اپنے والدین کی پہلوٹی کی اولاد تھا۔ گھر میں بہن بھائیوں میں اس کی حیثیت ایک سالار جیسی تھی۔ یہاں آکر وہ ایک نوکر جیسا ہو گیا تھا۔ میری ماں اس کی ذات سے بیگانہ اور گریزاں رہتیں۔ ان سے اسے وہ توجہ اور محبت نہ مل سکی جس کا وہ آرزو مند تھا۔ اسے اوپر کے کام والے چھوکرے سے زیادہ کوئی اہمیت دینے پر تیار نہ تھا۔ اور یہ سب میری ماں کی وجہ سے تھا۔ جو مقام انہوں نے اسے دیا، دوسروں نے بھی اسی اوقات پر رکھا۔ سوائے میرے کہ مجھے اپنے اس پھوپی زاد سے دلی لگائو تھا۔ جب جس کو ضرورت پڑتی ہمارے گھر کا ہر فرد اسے آواز دے کر بلا سکتا تھا اور اپنا چھوٹا موٹا ہر کام کروا سکتا تھا۔ آہستہ آہستہ اس کو احساس ہوتا گیا کہ وہ اس گھر میں پالتو جانور جیسا ہے۔ کبھی توجہ، کبھی بیگانگی اور کبھی دھتکار یہ تھا میرے بہن بھائیوں کا اس کے ساتھ رویہ۔ تبھی اس کی شخصیت اندر ا ندر مرتی جا رہی تھی۔ وہ مرجھاتا جاتا تھا۔ ایک ایسا وقت آیا کہ وہ خود کو گھٹتا ہوا محسوس کرنے لگا۔ اسے لگا جیسے وہ بونا ہوگیا۔ یہ احساس پرائے گھر میں رہنے کی وجہ سے تھا۔ جب کہ وہ ہمارے گھر کو پرایا نہ سمجھتا تھا کہ یہ اس کے پیارے ماموں کا گھر تھا۔ اس کی پیاری ماں کے پیارے بھائی کا گھر تھا۔ ابو بس ظاہری پیار جتلاتے تھے۔ وہ اگر سب کے ساتھ صوفے پر بیٹھا ہوتا تو گھر کا کوئی بھی فرد اسے اس کی نشست سے اٹھا کر خود بیٹھ سکتا تھا۔ اور میں سوچتی تھی یہ کیسی محبت ہے، محبت ہے یا منافقت۔ ان حالات میں پڑھائی کیا خاک ہوتی۔ اس کی صحت بھی گرتی جا رہی تھی۔ اگر وہ کھانا کھا رہا ہوتا اسے اٹھا کر کام بتا دیا جاتا اور وہ نوالہ پلیٹ میں چھوڑ کر اٹھ کھڑا ہوتا۔ مجھے بہت برا لگتا۔ اس کی بجائے میں اٹھ کھڑی ہوتی۔ کہتی کبھی تو اسد کو سکون سے کھانا کھانے دیا کرو۔ میرے اس رویے پر وہ مشکور نگاہوں سے مجھے دیکھتا۔ کھانا تو کیا اسے آرام سے پڑھنے بھی نہ دیا جاتا تھا۔ کبھی کبھی سوتے سے جگا کر کہا جاتا۔ مہمان آگئے ہیں ذرا ان کو اٹینڈ کر لو بیٹے۔ ابو کے مہمان آجاتے نوکر دستیاب نہیں ہے تو کیا ہوا اسد تو ہے۔ بھاگ بھاگ کر چائے بنانے اور تواضع کے لئے جبکہ اپنے بچے ٹی وی لائونج میں بیٹھے مزے سے ٹی وی دیکھ رہے ہوتے یا چپس اور برگر کھا رہے ہوتے۔ اس کی چھوٹی چھوٹی توہین کی وجہ سے میرے دل میں اس کے لئے ہمدردی جڑ پکڑتی گئی۔ ہم اکٹھے کالج کا کام کرتے، اکٹھے کالج جاتے۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ مجھے احساس ہوا کہ ہمدردی کا جذبہ محبت میں تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ ہماری آپس میں ایک دوسرے کے لئے توجہ اب کسی سے ڈھکی چھپی نہ رہی تھی۔ ایک روز میں ٹی وی لائونج میں بیٹھی کوئی پروگرام دیکھ رہی تھی۔ سردی محسوس ہونے لگی تو میں ذرا سا کپکپائی، اسد نے مجھے دیکھا اور دوڑ کر اپنے کمرے سے کمبل لے آیا اور مجھے اڑھانے لگا، تبھی امی ٹی وی لائونج میں داخل ہوئیں اور اسے میرے وجود کے گرد کمبل لپیٹتے دیکھ کر چراغ پا ہو گئیں۔ انہوں نے اس کی خوب بے عزتی کی۔ وہ اپنی اتنی توہین برداشت نہ کر سکا اور رونے لگا۔ روتے ہوئے وہ اپنے کمرے میں چلا گیا۔ رات کو والدہ نے نجانے والد کے کانوں میں کیسا زہر گھولا کہ صبح ہوتے ہی ابو نے ٹکٹ کٹوا کر اسد کو گائوں روانہ کر دیا۔ اسے ابو کے رویے پر دلی تکلیف ہوئی لیکن مجھے یقین ہے کہ بعد میں اپنے گھر کی جنت میں پہنچ کر اس کوبہت سکون محسوس ہوا ہو گا۔ کیونکہ گھر جیسا بھی ہو اپنا گھر جنت ہوتا ہے۔ اسے گائوں میں جو چیز پریشان کر رہی تھی وہ تھی میری جدائی۔ بے شک محبت میں فرقت کی آگ دوزخ جیسی ہوتی ہے۔ میں بھی اس آگ کی تپش کو محسوس کر رہی تھی لیکن کچھ نہ کر سکتی تھی۔ اپنی توہین کا ایسا اثر اسد کے دماغ پر ہوا کہ اس نے پڑھائی میں دلچسپی لینا چھوڑ دی۔ اپنی ماں کو بتا دیا کہ وہ مجھ سے محبت کرتا ہے اور مجھے پانے کی آرزو میںکچھ بھی کر سکتا ہے تب پھپھو نے سمجھایا کہ اگر نوشین کو اپنانا چاہتے ہو تو تمہیں کچھ بن کر دکھانا پڑے گا۔ جس کے لئے تعلیم حاصل کرنا لازم ہے۔ بہتر ہے کہ ملتان جا کر داخلہ لے لو اور ہوسٹل میں رہو، مگر تعلیم مکمل کرو۔ پھپھو نے اپنی کچھ اراضی فروخت کر دی ۔ اس کو پڑھنے کے لئے ملتان بھیج دیا۔ ملتان ان کے گائوں سے نزدیک تھا۔ دو ڈھائی گھنٹے کا راستہ تھا۔ وہ ہر ویک اینڈ پر گھر چلا جاتا۔ تاہم چاہتے ہوئے بھی اس نے دوبارہ لاہور کی طرف رخ نہ کیا۔ اسد نے جی توڑ کر محنت کی اور ایف ایس سی میں اول پوزیشن حاصل کی۔ اب امید بندھ گئی تھی کہ ابو اسے اپنی بیٹی کا رشتہ دے دیں گے۔ اس کا مستقبل روشن تھا۔ اسد نے انجینئرنگ کالج میں داخلہ لے لیا اور جب وہ اپنی تعلیم کے آخری سال میں تھا، گھر میں میرے رشتے کی باتیں ہونے لگیں۔ میں نے اسد کو لکھا اگر رشتے کے لئے آنا ہے تو جلدی کرو ایسا نہ ہو کہ دیر ہو جائے۔ خط ملتے ہی پھپھو اسد کے ہمراہ ہمارے گھر آگئیں۔ ابو کو بتایا کہ اسد نے ٹاپ کیا تھا اور اب وہ ملتان میں انجینئرنگ کے آخری سال میں ہے۔ ابو سوچ میں پڑ گئے مگر امی نے دو ٹوک فیصلہ سنا دیا کہ یہ دیہاتی لوگ ہیں، لاکھ پڑھ لکھ جائیں، رہیں گے دیہاتی ہی، میں ہر گز اپنی بیٹی کا رشتہ ان کو نہ دوں گی۔ اس ٹکے سے جواب پر پھپھو دل مسوس کر رہ گئیں۔ اسد نے فون پر مجھ سے بات کی۔ میں امی کے سامنے مجبور تھی۔ انہیں کیسے قائل کرتی، انہیں تو گائوں والوں سے چڑ تھی۔ وہ اپنے سسرالی رشتے داروں کو گنوار کہا کرتی تھیں۔ میں نے اسد کو بتا دیا کہ میں مجبور ہوں امی سے ٹکر نہیں لے سکتی۔ گھر پر ان کا راج ہے۔ بس اب تم صبر کر لو۔ وہ شروع سے ہی تم لوگوں کو پسند نہیں کرتیں۔ چاہے تمہارا مستقبل کتنا ہی روشن کیوں نہ ہو۔ اسد دل گرفتہ ہو گیا۔ شاید دنیا والوںکے لئے محبت کھیل ہو، مگر اس نے مجھے حاصل زندگی سمجھ لیا تھا۔ رزلٹ نکلا اسد کی پوزیشن آئی۔ مگر وہ محبت کی بازی جیت نہ سکا۔ ان دنوں میری شادی ہو گئی ۔ مجھے اسد کی کچھ خبر نہ رہی۔ میں شادی کے بعد امریکہ آگئی۔ کچھ عرصہ وہ خود سے بیگانہ رہا۔ کسی کام میں اس کا دل نہ لگتا تھا۔ میں یہاں سے کبھی کبھی پھپھو کو فون کیا کرتی کیونکہ اب ان کے گائوںمیں بھی فون آگیا تھا۔ وہ بتاتی تھیں کہ اسد اپنے فرائض بھلا کر گھر بیٹھ گیا ہے۔ تب ایک روز میں نے پھپھو سے اجازت لے کر اس سے بات کی، اسے سمجھایا کہ محبت ہی سب کچھ نہیں۔ دیکھو تم گھر میں سب سے بڑے ہو۔ سارے کنبے کی آس اور امید ہو۔ ان کا خیال رکھو، اپنی والدہ کا خیال کرو۔ جنہوں نے بیوگی میں دکھ اٹھا کر اپنی اراضی فروخت کر کے تم کو پڑھایا لکھایا۔ اس قابل کیا، اب چھوٹے بہن بھائیوں کو تمہاری ضرورت ہے۔ اگر تم نے کچھ نہ کمایا ان کے مستقبل کا کیا بنے گا۔ وقتاً فوقتاً یوں میں اس کو فون کر کے اس کا ضمیر جگاتی رہتی۔ وہ بنیادی طور پر اچھی فطرت کا انسان تھا۔ اور خود غرض بھی نہ تھا۔ میرے کہنے کا اس پر خاطر خواہ اثر ہوا اور اس نے شہر جا کر ایک بڑی کمپنی میں ملازمت کر لی۔ کمپنی کی طرف سے وہ ایک بار امریکا بھی آیا۔ مجھ سے فون پر بات کی مگر مدعو کرنے کے باوجود ہمارے گھر نہیں آیا یا نہیں آسکا۔ بہرحال وہ وطن لوٹ گیا۔ جب امریکا آیا تو مجھے فون پر بتایا تھا کہ نوشین تم سے شادی نہ ہو سکی تو میں یکسر بدل گیا۔ مجھے تنہائیوں سے پیار ہو گیا۔ جی چاہتا تھا کسی رشتے دار سے نہ ملوں۔ عام لوگوں سے کترانے لگا تھا۔ بس ویران جگہوں پر جانے سے سکون ملتا تھا۔ تمہیں بھلا دینا میرے بس کی بات نہ رہی تھی۔ تم نے ایک ٹوٹے پھوٹے بے قیمت لڑکے کو باور کرایا کہ میرا کوئی اپنا بھی ہے شادی کے دس سال بعد جب میں پاکستان گئی۔ ایک روز اچانک میری ملاقات اسد سے ایک اسپتال میں ہو گئی۔ وہ اپنی والدہ کا علاج کرانے لاہور آیا تھا۔ وہ پریشان سا پھر رہا تھا جب میری مڈبھیڑ ہوئی۔ اس کا چہرہ زرد اور اترا ہوا تھا۔ پوچھا کس حال میں ہو کہا امی بیمار ہیں ان کو یہاں داخل کرایا ہے۔ تم نے شادی نہیں کی میں نے پوچھا، وہ بولا نہیں۔ شادی خوشی کا نام ہے جب خوشی نہ ملے تو شادی کر کے کیا کرتا۔ اب میں آئی ہوں تو تمہارا گھر بسا کر جائو گی۔ اچھا۔ پہلے اپنی پھپھو سے تو مل لو، وہ تم کو بہت یاد کرتی ہیں۔ وہ مجھے کینسر وارڈ میں لے گیا۔ پھپھو بہت کمزور ہو چکی تھیں۔ نحیف و نزار بستر پر پڑی تھیں۔ ان کے گلے لگ کر رو پڑی۔ کچھ دیر ان کے پاس بیٹھ کر میں جانے لگی۔ اسد میرے ساتھ کمرے سے باہر آگیا۔ نوشین کیا بات ہے، مجھے تو حالات نے ایسا کر دیا مگر تم کو کیا ہوا ہے۔ تمہیں تو امیر شوہر اور اچھی زندگی ملی پھر تمہارا حال ایسا کیوں ہے اسد، قسمت نے ہم دونوں کے ساتھ مذاق کیا ہے۔ مجھے اولاد نہیں دی اور تمہیں میں نہ مل سکی، اگر میری گود میں کوئی ننھا بچہ آجاتا تو شاید میں تمہیں بھلا دیتی۔ ہم نے چند منٹ بات کی۔ وہ واپس وارڈ میں چلا گیا اور میں اپنے رستے ہو لی۔ مجھے مراد نہ ملی تو اسے بھی منزل نہ ملی۔ وہ آج بھی، زندگی کی ہر آسائش پاکر مایوسی کے اندھیرے میں بھٹک رہا ہے۔ اگر ہم ایک دوسرے کو مل جاتے تو شاید ہماری زندگی سکھی ہو جاتی، لیکن ہمارے نہ مل سکنے میں نجانے کیا مصلحت تھی۔ کچھ عرصہ گزار کر میں اپنے شوہر کے ہمراہ پاکستان لوٹ آئی کیونکہ اب وہ دوسری شادی کے آرزو مند تھے۔ ان کے والد بڑے زمین دار تھے۔ انہوں نے وراثت میں بہت اراضی چھوڑی تھی۔ شہاب میرا جیون ساتھی ان کا اکلوتا وارث تھا اور اب شہاب کو بھی اپنی جائداد کا وارث چاہیے تھا۔ میرا جی تو نہ چاہتا تھا ان کو دوسری شادی کی اجازت دوں لیکن بہت سوچ بچار کے بعد اجازت دینا ہی پڑ ی کیونکہ انہیں اولاد سے محروم رکھنا ان کی حق تلفی تھی۔ شہاب نے شادی کے بعد مجھے کوئی تکلیف نہ دی تھی ہر طرح سے میرا خیال رکھا تھا۔ اب ان کا خیال کرنا میرا فرض بنتا تھا۔ بالآخر انہوں نے اپنے سے دس برس چھوٹی عمر کی لڑکی سے شادی کر لی، جو ان کی رشتے دار تھی اور گائوںمیں رہتی تھی۔ دوسری بیوی کو چار برس انہوں نے گائوں میں ہی رہنے دیا اور میرے ساتھ لاہور میں رہتے رہے لیکن جب دو بچے اس خاتون سے ہو گئے تو وہ از خود ان کی طرف کھنچتے چلے گئے۔ پھر ایک وقت ایسا آیا کہ مجھے خود ہی شہاب سے کہنا پڑا کہ تم چاہو تو اپنی دوسری بیوی کو بھی شہر لے آئو اور ایک علیحدہ گھر میں رکھو تاکہ روز روز تمہیں گائوں نہ بھاگنا پڑے۔ تم بچوں کے بغیر نہیں رہ سکتے اور آج نہیں توکل تم انہیں اس شہر لائو گے۔ انہیں کسی اچھے تعلیمی ادارے میں داخل کرانا ہو گا۔ ہاں تم ٹھیک کہتی ہو۔ میں خود یہی سوچتا ہوں۔ ایک ماہ کے اندر انہوں نے لاہور میں ایک دوسرا گھرخرید لیا اور بیوی بچوں کو لے آئے۔ اب وہ کبھی میرے گھر میں ہوتے کبھی دوسرے گھر چلے جاتے۔ کچھ دنوں بے چینی محسوس ہوئی، میں نے اس بات سے بھی بالآخر سمجھوتہ کر لیا کہ بچوں کے بغیر فیملی ادھوری ہوتی ہے۔ میری زندگی اگر ادھوری ہے تو ضروری نہیں کہ وہ بھی ادھوری زندگی جئیں۔ اپنے بچوں میں رہ کر وہ خوش رہتے ہیں۔ ان کی فیملی پوری ہو گئی ہے۔ مجھے نہیں چاہیے کہ ان سے لڑ جھگڑ کر حالات خراب کروں اور ان کو بھی بے سکون رکھوں یا تو وہ دوسری شادی نہ کرتے۔ جب اولاد کے لئے شادی کی اور اولاد بھی ہوگئی تو اب ان کی اور ان کے بچوں کی خوشیوں کو درہم برہم کرنا درست نہ ہو گا۔ بڑھاپا اور خالی خولی مستقبل میرے سامنے تھا۔ مجھے نظر آرہا تھا۔ سوچا بڑی ماں بن جائوں، دل بڑا کر لوں، حوصلے سے کام لوں، معاملات خراب نہ کروں۔ کل شہاب کے بچے مجھے بڑی ماں کہہ کر بلائیں گے۔ بڑھاپے میں انسان کو احترام کے سوا اور کیا چاہیے۔ وارث تو یہی تھے۔ سو میں نے ہر حقیقت سے سمجھوتہ کیا۔ سوتن کا بھی احترام کیا۔ بچوں کی سالگرہ پر وہ مدعو کرتی میں ضرور شریک ہوتی۔ شہاب بڑی ماں کہہ کر ان سے میرا تعارف کرواتے۔ میں انہیں تحفے دیتی، پیار دیتی تو وہ مجھ سے لپٹ جاتے۔ وقت کے ساتھ ساتھ وہ سمجھ دار ہوتے گئے۔ شہاب نے انہیں ہر قدم پرمیرے احترام کی تلقین کی تھی۔ اپنی دوسری بیوی سے بھی کہا کہ اگر میری پہلی بیوی کی عزت کرو گی تمہارے بچے ان کی عزت کریں گے۔ میں تمہیں ہر خوشی دوں گا ورنہ گائوں بھجوا دوں گا کیونکہ میری پہلی بیوی نے بڑی قربانی دی ہے ورنہ آج تمہارے یہ بچے ہوتے اور نہ یہ سب جائداد تمہاری ہوتی۔ وہ ایک سمجھ دار عورت نکلی۔ اس نے شہاب کی ہر بات اور حکم پر سر کو جھکا دیا۔ ان کا ہر کہا مانا۔ ہر قدم پر مجھے یہی احساس دلاتی کہ وہ کچھ نہیں ہے بس میری کنیز ہے اور میں سب کچھ ہوں، حالانکہ میں خوب سمجھتی تھی کہ وہی سب کچھ ہے اور میں کچھ نہیں ہوں۔ کیونکہ وہ ایک ہری بھری شاخ تھی جس پر پھل پھول لگے ہوئے تھے اور میں بانجھ عورت کسی سوکھی ٹہنی کی مانند تھی۔ اللہ کا شکر کہ میرے خاوند کے بچوں نے مجھے کبھی یہ احساس نہیں ہونے دیا کہ میں بانجھ عورت ہوں اور میری گود خالی ہے۔ وہ جب بڑی امی کہہ کر مجھ سے لپٹتے اور میرے گلے میں بانہیں ڈال کر فرمائشیں کرتے تو میں پھولی نہ سماتی۔ مجھے لگتا کہ میں سوکھی ٹہنی نہیں بلکہ ایک ہری بھری ڈال ہوں جس پر پھل پھول لگے ہوئے ہیں۔ اسد نے بہت لیٹ شادی کی، اس کے بھی اولاد نہ ہو سکی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا میں نے اس سے رابطہ ختم کردیا کیونکہ اب میرے چاروں بچے بڑے ہو گئے تھے جو مجھے بڑی امی کہہ کر پکارتے تھے اور میں ہر گز یہ نہ چاہتی تھی کہ انہیں علم ہو کہ میں ان کے والد کے سوا بھی کبھی کسی کو چاہتی تھی۔ ن ملتان
null
null
null
null
441
https://www.urduzone.net/maan-complete-urdu-story/
مہربان چہرے والی اس بوڑھی عورت کو میں نے ابھی پرسوں ہی تو منی بس میں اپنے برابر والی سیٹ پر بیٹھے دیکھا تھا۔ اس لئے جیسے ہی میں میو اسپتال کے ایک وارڈ کے سامنے سے گزرا، میری نظریں انور کی طرف اُٹھ گئیں۔ میں اَدھ لیٹی ہوئی حالت میں اس کو بیڈ پر بیٹھا دیکھ کر حیران ہوئے بغیرنہ رہ سکا۔ میں یہاں اپنے ایک دوست کی مزاج پرسی کرنے کے لئے آیا تھا۔ واپسی پر یہ واقعہ ہوگیا۔ کچھ کچھ جھجکتا ہوا میں وارڈ کے اندر چلا گیا۔ اس بوڑھی عورت کے بستر کے نزدیک ہی پڑی ہوئی لکڑی کی بینچ پر میرا ہی ہم عمر ایک جوان لڑکا بیٹھا ہوا تھا۔ وہ حیران کن نظروں سے میری طرف متوجہ ہوگیا۔ وہ یقیناً یہ سوچ رہا ہوگا کہ یہ کون ہے جو راستہ بھول کر کمرے میں داخل ہوگیا ہے۔ لیکن امّاں نے مجھے فوراً پہچان لیا۔ آئو بیٹا تم یہاں پر کیسے آئے ہو امّاں میں تو ایک دوست کی خیر خیریت معلوم کرنے آیا تھا، مگر آپ تو اپنی بیٹی سے ملنے جا رہی تھیں، یہاں کس طرح پہنچ گئیں ہاں بیٹا جا رہی تھی مگر رستے میں ایک سڑک پر ایک رکشے والے نے ٹکر مار دی۔ یہ لڑکا پرسوں میرے ساتھ منی بس میں سفر کر رہا تھا جاوید۔ امّاں نے اس لڑکے سے میرا رسمی تعارف کرانے کی کوشش کی جو بینچ پر براجمان، حیرت سے ہماری گفتگو سننے میں محو تھا۔ اب جاوید نے میرا پہلی مرتبہ بغور جائزہ لیا۔ اُس کی آنکھوں میں میرے لئے اپنائیت کا جذبہ روشن تھا اور دوستانہ پن جھلک رہا تھا۔ ہوا یہ تھا کہ میں منی بس میں دُہرا ہو کے انارکلی کے اسٹیشن کی طرف جا رہا تھا۔ میرے دُہرا ہونے سے آپ نے اندازہ لگا لیا ہوگا کہ منی بس میں بہت زیادہ رش تھا۔ ویگن والے تو لالچ میں آ کر سواریوں کو جانوروں کی طرح ٹھونس لیتے ہیں۔ دراصل ان کو بھی کوئی نہ کوئی ضروری کام ہوتا ہے، کوئی اہم بات ہوتی ہے۔ وہ سوچتے ہیں کہ تھوڑی سی تکلیف سہہ لیں گے، پہنچ تو جلدی جائیں گے۔ اسی لئے میں بھی مرغا بن کر کھڑا ہوگیا تھا۔ ایک سیٹ پر عورتیں بیٹھی تھیں۔ اسی امّاں کے پاس برابر میں کوئی بچہ اور دُوسری جانب بالکل برابر ہی میں کوئی عورت بیٹھی تھی۔ یہ امّاں شاید بہت پیچھے سے ہی منی بس میں بیٹھی آ رہی تھیں۔ ایک اسٹاپ پر امّاں کے ساتھ بیٹھی عورت اُتر گئی، سیٹ خالی ہوگئی تھی جبکہ میں بیٹھتے ہوئے جھجک رہا تھا۔ اس پر امّاں خود ہی گویا ہوئی۔ ارے لڑکے تو میرے چھوٹے بیٹے جیسا ہے۔ آ یہاں بیٹھ جا۔ اس کا لہجہ کسی حد تک ہمدردانہ تھا، جس میں شفقت کا عنصر بھی شامل تھا۔ یوں میں امّاں کے پاس بیٹھ گیا۔ امّاں کی دُوسری طرف جو نو دس سال کا لڑکا بیٹھا ہوا تھا، میرے اندازے کے مطابق وہ امّاں کا پوتا یا نواسا تھا، اس کے چہرے پر وہ جانی پہچانی چمک دمک تھی جو عموماً کسی بھی بچّے کے چہرے کے پھول کو اسی وقت کھلا دیتی ہے جب وہ کسی نئی جگہ کھیلنے کودنے یا تفریح کی غرض سے کہیں جاتا ہے۔ بوڑھے لوگ چاہے کسی بھی علاقے کے رہنے والے ہوں، دُنیا کے کسی بھی گوشے کے مکین ہوں، ان میں ایک بات ضرور مشترک ہوتی ہے، وہ بولے بغیر نہیں رہ سکتے۔ اسی عادت کے ہاتھوں مجبور امّاں بار بار اپنے پوتے یا نواسے کو کچھ نہ کچھ ہدایات دیتی اور کچھ سمجھاتی جا رہی تھیں، اسی وجہ سے مجھے اس لڑکے کا نام معلوم ہوگیا۔ امّاں اسے پیار سے ککُو کہہ کر مخاطب کر رہی تھیں۔بچّے کے چہرے پر جھنجلاہٹ کے آثار نمایاں تھے جبکہ امّاں کے چہرے سے احساس طمانیت مترشح تھا۔ میں کیا کرتا ہوں، کتنی تعلیم حاصل کر چکا ہوں، کہاں سے آیا ہوں، کدھر جا رہا ہوں، یہ سب کچھ ساری معلومات امّاں نے منٹوں ہی میں مجھ سے حاصل کرلیں جبکہ مجھے محض اتنی شناسائی ہو سکی کہ امّاں اپنی بڑی لڑکی سے ملنے جا رہی ہیں جس نے نیا مکان خریدا ہے۔ ککُو نے امّاں کو مشورہ دیا کہ اسٹیشن جانے کے بجائے شملہ پہاڑی کی طرف سے جانا چاہئے۔ تھوڑی جلدی پہنچ جائیں گے، ویسے اگر اسیشن گئے تو وہاں سے دُوسری بس میں بیٹھ کر شاہو کی گڑھی جانا پڑے گا۔ یعنی آنا پھر بھی اسی طرف پڑے گا۔ ارے راستہ بھول کر کہیں اور نہ لے جانا مجھے۔ مجھے راستہ معلوم ہے۔ ککُو نے جواب دیا۔ توبہ آج کل کے بچّے بڑے تیز ہیں۔ اپنے تو سر کے بال تک سفید ہوگئے، کھال لٹک گئی۔ آج تک صحیح راستے کا ہی علم نہیں ہوا ہے۔ امّاں نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ میں بے اختیار مسکرا دیا۔ ککُو کی بات امّاں کو مانتے ہی بنی۔ وہ دونوں نانی نواسا ،یا دادی پوتا شملہ پہاڑی کے اسٹاپ پر اُتر گئے۔ میں ایک بار پھر مسکرائے بنا نہ رہ سکا۔ کیا سچ مچ یہ امّاں منزل مقصود تک پہنچ جائے گی یا پھر نہیں شاعر آدمی تو ویسے بھی بڑا جذباتی اور حساس ہوتا ہے۔ مجھے یہ امّاں ایک روایت کی مانند لگی۔ ایک بوڑھی ہو جانے والی روایت جو روایات کا مجموعہ ہے اور جو اپنی ہی تیز و طرار اولاد کا مقابلہ نہیں کر سکتی تھی۔ اس کی اولاد میں اس جیسی کوئی بھی بات نہ ہوگی۔ میں نے سوچا۔ اس جیسا اخلاق ہوگا نہ عادتیں۔ اس کی اولاد نہ رہن سہن کے طور طریقوں کی نسبت اس جیسی ہے نہ ہی اس سے ذہنی مطابقت و ہم آہنگی رکھتی ہوگی اور نہ ہی وہ اس سے زبان و لب و لہجہ کے انداز میں مشترک ہیں، جبکہ ان کی سوچیں تو پہلے ہی اس کے مقابلے میں ہزاروں کروڑوں میلوں کی دُوری پر پرواز کر کے اس کی بوڑھی کمزور آنکھوں کے فوکس پوائنٹ آف ویو سے دُور، بہت ہی دُور خلائوں میں روپوش ہو چکی ہیں۔ کل کو یہ امّاں مر جائے گی، ایک روایت مر جائے گی۔ لوگ ایک روایت کو دفن کر دیں گے، بھلا دیں گے، فراموش کر دیں گے۔ ایک روایت کا مر جانا کتنا بڑا سانحہ عظیم ہے۔ یہ امّاں ایک بھرپور پرانی روایت ہے۔ یہ سب کچھ سوچ کر میرا دل اور بھی خون کے آنسو رونے لگا۔ دُکھ کی ایک شدید لہر میرے رَگ و پے میں سما گئی کہ اس عظیم روایت کو ایک رکشے والے نے ٹکر مارکر موت کی دہلیز کے اور قریب و نزدیک کر دیا ہے۔ اس دُکھ کی آنچ کی تپش نے مجھے وہاں سے اُٹھنے پر مجبور کردیا۔ مجھے وہاں بیٹھنے سے خوف کا عارضہ لاحق ہونے لگا۔ میں وہاں سے فوری اُٹھ کر کھڑا ہوگیا تو امّاں کا جاوید مجھے وارڈ کے دروازے تک چھوڑنے آیا۔ میں نے اس سے مخاطب ہو کر کہا۔ میرے خون کا گروپ او پازیٹو ہے جو ہر قسم کے شخص کے لئے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اگر تمہاری والدہ کو خون وغیرہ کی ضرورت ہو تو میں حاضر ہوں۔ اوہ نہیں جی جناب آپ کی بڑی مہربانی۔ میری ماں کا اور میرے خون کا گروپ ایک ہی ہے۔ کل جب ماں کا ایکسیڈنٹ ہوا تھا تو ڈاکٹر صاحب نے کہا تھا کہ خون کی ضرورت پڑے گی۔ میں نے کہا، میں حاضر ہوں، جتنا مرضی خون چاہے نکال لیں اور یوں میں نے ماں کو خون دے دیا۔ پھر بھی، شاید ضرورت پڑے۔ میں نے اصرار کیا انسانیت کے ناتے۔ بھائی صاحب آپ کی بہت بہت مہربانی، کرم فرمائی و نوازش ہے۔ پَر جب خون دینے کے لئے میں موجود ہوں، تو بھلا آپ کو تکلیف اُٹھانے کی کیا ضرورت ہے۔ اس کی ڈبڈبائی، معصومانہ مگر فتح مند آنکھوں میں میرے لئے تشکر و احسان مندی کے سنگم کا حسین امتزاج تھا۔ ان جذبات کو میں نے آنِ واحد میں محسوس کرلیا۔ ایک دَم میری آنکھوں کے سامنے حدِ نگاہ تک روشنی ہی روشنی پھیل گئی۔ ایک چمک پیدا ہوگئی۔ وہ اُداسی جو امّاں کو زخمی دیکھ کر میرے دل کی اتھاہ گہرائیوں پر چھائی تھی، دُھواں بن کر نہ جانے کہاں کن آسمانوں میں اُڑ کر غائب ہوگئی
null
null
null
null
442
https://www.urduzone.net/lazzat-complete-urdu-story/
کیا آپ میری باتیں سُننا پسند کریں گے آپ سے آپ ہی مراد ہیں۔ آپ جو یہ سطور پڑھ رہے ہیں آپ جو کوئی بھی ہیں، مجھے اس سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ مرد ہیں، عورت ہیں، نوجوان ہیں یا بوڑھے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ انسان تو ہیں نا میں کتنی پاگل ہوں، اگر آپ انسان نہ ہوتے تو یہ سطور کیوں پڑھتے۔ یہ بات میں نے یونہی کہہ دی ہے۔ میں پاگل واگل بالکل نہیں ہوں۔ اگر پاگل ہوتی تو اتنی صاف صاف باتیں کیسے لکھ سکتی تھی۔ آپ میری باتیں سن رہے ہیں نا سن رہے ہیں یا پڑھ رہے ہیں، بات ایک ہی ہے۔ اگر آپ بور ہونا شروع ہوگئے ہیں تو چھوڑیں پھر۔ آگے بڑھ جائیں۔ ویسے میں بہت دلچسپ بات بتانا چاہتی ہوں۔ آپ پوچھیں گے کہ میں کون ہوں۔ میں ایک لڑکی ہوں۔ سیدھی سادی اللہ کی بندی۔ نام میرا ترنم ہے۔ لیکن مجھے گانا بجانا نہیں آتا۔ اب نام رکھنے کا یہ مطلب تو نہیں ہے کہ آدمی کام بھی ویسا ہی شروع کر دے جیسے میرے ایک کزن کا نام ہے، فقیر حسین، لیکن وہ بھیک بالکل نہیں مانگتا۔ میں اسے چھیڑنے کے لیے صرف فقیر کہا کرتی تھی۔ ہاں تو میں بتا رہی تھی کہ میرا نام ترنم ہے۔ میں بہت خوش ہوں۔ ہر وقت ہنستی رہتی ہوں۔ میں کیا، یہاں سب ہی ہنستے رہتے ہیں کبھی کبھی تو اتنے زور کے قہقہے پڑتے ہیں کہ دیواریں ہلنے لگتی ہیں۔ کیا کہا، یہ جگہ کون سی ہے ارے آپ نے یہ جگہ نہیں دیکھی حیرت ہے۔ بڑی خوبصورت جگہ ہے۔ یہاں ایک باغ بھی ہے۔ سرسبز، سایہ دار، نیچے بھی سبزہ اُوپر بھی سبزہ، رنگ برنگے پھول، لمبی لمبی کیاریاں، صاف ستھری روشیں۔ یہاں نہ دُھواں ہے، نہ شور، بڑی خاموشی ہے۔ اتنی خاموشی کہ انسان اپنے اندر کی آواز سن سکتا ہے۔ بلکہ اپنے آپ سے باتیں بھی کر سکتا ہے۔ اللہ، بس کیا بتائوں بڑی پیاری جگہ ہے۔ یہیں مر جانے کو جی چاہتا ہے، لیکن پتہ ہے کیا میں کبھی کبھی اُداس بھی ہو جاتی ہوں۔ ہاں جیسے اب ہوں۔ میں غلط تھوڑا ہی کہہ رہی ہوں۔ ارے آپ تو خوامخواہ بحث کرنے لگے۔ ہاں ہاں، مجھے یاد ہے۔ میں نے ابھی ابھی کہا تھا کہ میں یہاں بہت خوش ہوں۔ انکار کب کر رہی ہوں میں۔ اب دیکھیں نا، میں تئیس گھنٹے خوش رہتی ہوں اور کبھی کبھی ایک گھنٹے کے لیے اُداس ہو جاتی ہوں۔ لہٰذا یہ تو نہیں کہوں گی کہ میں یہاں اُداس رہتی ہوں آپ بھی عجیب باتیں کرتے ہیں۔ میرے ایک سوال کا جواب تو دیں ذرا اگر تئیس سیر دُودھ میں ایک سیر پانی ملا دیا جائے تو اسے کیا کہیں گے دُودھ یا پانی بالکل ٹھیک کہا آپ نے تئیس سیر دُودھ ایک سیر پانی کے محلول کو دُودھ ہی کہا جائے گا۔ سوری، میں ذرا پٹری سے اُتر گئی تھی۔ آپ تو بور نہیں ہو رہے بھئی باتیں تو ایسے ہی کی جاتی ہیں۔ میری عمر ٹھہریں، ذرا حساب کر لینے دیں، یہ اکتوبر کا مہینہ ہے۔ آئندہ موسم بہار میں، میں پورے بیس برس کی ہو جائوں گی۔ ابھی میں ٹین ایجر ہوں۔ ایک بات بتائوں آپ ہنسیں گے تو نہیں پتہ ہے کیا، ذرا کان آگے کریں، میری شادی ہو چکی ہے اور اس سے بھی دلچسپ بات پتہ ہے کیا۔ میں بیوہ بھی ہو چکی ہوں۔ ارے یہ آپ کا منہ کیوں لٹک گیا مجھے تو کوئی افسوس نہیں ہے بیوہ ہونے کا۔ افسوس اس لیے نہیں ہے کہ میں اپنی مرضی سے بیوہ ہوئی ہوں پھر وہی بات بھئی کہا تو ہے کہ میں پاگل نہیں ہوں۔ پاگل ایسی باتیں کیا کرتے ہیں اب آپ یہ جاننا چاہتے ہوں گے کہ میری شادی کب ہوئی اور میں بیوہ کیسے ہوئی۔ پلیز، مجھے ہمدردی کا خط نہیں لکھنا۔ مجھے کسی ہمدردی کی ضرورت نہیں ہے۔ مرد حضرات کی خدمت میں گزارش ہے کہ وہ فوراً شادی کا پیغام نہ بھجوا دیں۔ ذرا ٹھہر کے بھی نہیں۔ مجھے مردوں سے چڑ سی ہوگئی ہے۔ اب میں آپ کو بتاتی ہوں کہ ہوا کیا۔ شادی کے صرف ساتویں دن مجھے اپنے شوہر سے نفرت ہوگئی۔ یہ بات نہیں ہے کہ میری شادی زبردستی کی گئی تھی یا میں نے اپنے شوہر کو شادی سے پہلے دیکھا نہیں تھا۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں ہے۔ سہیل میرا آئیڈیل تھا، میری اُمیدوں، تمنّائوں اور خوابوں کا مرکز تھا۔ وہ کرکٹ کا مایہ ناز کھلاڑی تھا اور لاکھوں لڑکیوں کے دِلوں کی دھڑکن تھا۔ شادی سے پہلے ہی سوچا کرتی تھی کہ اگر سہیل سے میری شادی ہوگئی تو میں خود کو دُنیا کی خوش قسمت ترین لڑکی سمجھوں گی۔ جب وہ بولنگ کے لیے میدان میں آتا اور بال کو چمکاتا ہوا اسٹارٹنگ پوائنٹ کی طرف جاتا تو ہر لڑکی یہ خواہش کرتی کہ کاش وہ بال ہوتی اور سہیل کی مٹھی میں ہوتی۔ آپ سہیل کو تو ضرور جانتے ہوں گے۔ جب وہ بولنگ کرتا تو اس کے لمبے بال ہوا کے زور سے اُچھل اُچھل کر اس کی کشادہ پیشانی کو چومنے لگتے تھے۔ پھر سب کچھ اچانک ہی ہوگیا۔ ایک صبح میں بیدار ہوئی تو مجھے ہر چیز بہت اچھی لگی کیونکہ میں اپنے آئیڈیل کو پانے میں کامیاب ہو چکی تھی۔ سہیل میرا بن چکا تھا، میں سہیل کی بن چکی تھی۔ میں نے لاکھوں لڑکیوں کو شکست دے دی تھی۔ مجھے یوں محسوس ہوا کہ کائنات کا ذرّہ ذرّہ گنگنا رہا ہے۔ لیکن تیسرے یا چوتھے روز میرے کانوں میں خطرے کی گھنٹی بجنے لگی۔ سہیل وہ نہیں تھا جو میں سمجھی تھی۔ پرائیویٹ زندگی میں وہ بہت بور اور غیر رومانوی شخص تھا۔ وہ کرکٹ کے سوا کسی موضوع پر بات نہیں کر سکتا تھا۔ وہ انسان کے لطیف احساسات اور نازک جذبات سے قطعی ناآشنا تھا۔ شادی کے بعد اس نے ایک بھی ایسی بات نہیں کی جس سے دل کے تاروں میں ارتعاش پیدا ہوتا یا فضا میں نغمے پھوٹ پڑتے۔ پانچویں روز میں نے اس سے کہا۔ سہیل، تم بہت کم گو ہو۔ شاید۔ اس نے مختصر جواب دیا۔ اتنا کم گو ہونا بھی ٹھیک نہیں ہوتا۔ بالکل ہی گونگا بھی نہیں ہوں۔ مجھے تو کچھ ایسا ہی معلوم ہوتا ہے۔ میں نے کہا۔ ہماری شادی کو آج پانچواں دن ہے، تم نے نہ اپنے بارے میں کچھ بتایا ہے نہ میرے بارے میں کچھ پوچھا ہے۔ وہ مسکرایا۔ پھر بولا۔ میرے بارے میں گاہے بگاہے مضامین اور انٹرویو چھپتے رہتے ہیں۔ مجھے اس کی یہ بات اچھی نہیں لگی۔ یا تو وہ میرا مطلب نہیں سمجھا تھا یا مجھے ٹالنے کی کوشش کر رہا تھا۔ میں نے اپنے غصے کو چھپاتے ہوئے کہا۔ میں تمہارے انٹرویو بڑے شوق سے پڑھتی ہوں۔ لیکن پھر تو تمہیں میرے بارے میں سب کچھ معلوم ہونا چاہیے۔ اس کے لہجے میں کچھ تکبر پایا جاتا تھا۔ ایک عجیب بات یاد آئی کبھی کبھی میرے بارے میں بعض ایسی باتیں رسالوں میں چھپتی ہیں جو خود مجھے بھی معلوم نہیں ہوتیں۔ جہالت میرے منہ سے نکل گیا۔ کیا کہا شاید اس نے میری بات سنی نہیں تھی۔ کچھ نہیں۔ میں نے کہا۔ میں ذرا اُونچی آواز میں سوچ رہی تھی۔ پرسوں ہماری پریکٹس شروع ہونے والی ہے۔ آسٹریلیا کی ٹیم بہت فارم میں ہے۔ پچھلے مہینے انہوں نے ویسٹ انڈیز کے خلاف پوری سیریز جیت لی ہے۔ ہم اپنی بات کر رہے تھے۔ میں نے اُسے یاد دلایا۔ کیا ہماری بات ختم نہیں ہوگئی رسالوں میں تمہارے انٹرویو چھپتے ہیں میرے نہیں۔ اب تمہارا ذکر بھی چھپے گا، کیونکہ تم میری بیوی بن چکی ہو۔ میں آئندہ ٹیسٹ میچ کے بارے میں بات کر رہا تھا۔ کیا تمہیں میرے بارے میں جاننے کی خواہش نہیں ہے اس نے حیرت سے میری طرف دیکھا۔ تمہارے بارے میں کیا کوئی خاص بات ہے مجھے اس کا یہ سوال بہت ہی عجیب لگا بلکہ یوں محسوس ہوا جیسے اس نے مجھے گالی دی ہو۔ لیکن میں نے اپنے جوش کو دباتے ہوئے کہا۔ سہیل، میرا اپنا ایک تشخص ہے۔ ایک انفرادیت ہے۔ میں ایک الگ وجود کی مالک ہوں، میرے احساسات و جذبات کی اپنی ایک دُنیا ہے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ تمہیں میرے بارے میں جاننے کی کوئی ضرورت نہیں یا تم مجھے کچھ بھی نہیں سمجھتے۔ اس نے قہقہہ لگاتے ہوئے کہا۔ ہوگئی نا جذباتی، یہ لڑکیاں سب ایک جیسی ہوتی ہیں۔ پھر وہ ذرا سنجیدہ ہوتا ہوا بولا۔ دیکھو ترنم، تم میری بیوی ہو اور یہ میرے لیے سب سے اہم بات ہے۔ تمہارے لیے بھی یہ بات اہم ہونی چاہیے۔ اب تم میرے نام سے پہچانی جائو گی۔ جہاں تک تمہارے بارے میں جاننے کا تعلق ہے، تو یقین کرو کہ میں سب کچھ جانتا ہوں۔ تم اتنی پیچیدہ اور پراسرار بھی نہیں ہو۔ فی الحال مجھے آئندہ ہونے والے ٹیسٹ میچ کے بارے میں سوچنا ہے۔ یہ ساری گفتگو شادی کے پانچویں دن ہوئی تھی۔ جس شخص کو میں اپنا آئیڈیل سمجھتی تھی وہ انتہائی سرد مزاج اور خود پسند ثابت ہوا تھا۔ اس نے میری انفرادیت کو تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ اس روز مجھے کرکٹ سے نفرت ہوگئی کیونکہ وہ اچانک ہی میری رقیب بن گئی تھی۔ چھٹے روز میں نے سارا دن سہیل سے کوئی بات نہیں کی۔ کیوں کرتی میں اس کے ساتھ بات۔ اس نے میری توہین کی تھی۔ میری انانیت کو مجروح کیا تھا۔ اس کی نظر میں میری کوئی حیثیت نہیں تھی۔ بڑا گھمنڈ تھا اسے اپنی شہرت پر۔ ہونہہ، تم میرے نام سے پہچانی جائو گی میں نے غور کیا تو مجھے وہ ایک کھوکھلا انسان معلوم ہوا وہ اس شہتیر کی مانند تھا جسے دیمک نے اندر سے کھوکھلا کر دیا ہو۔ پھر میں نے اور غور کیا تو مجھ پر عقدہ کھلا کہ وہ کچھ بھی نہیں تھا۔ کرکٹ ہی تو کھیلتا تھا۔ کھیلنا تو کوئی کمال نہیں ہے۔ ہر بچہ کرکٹ کھیل سکتا ہے۔ زیادہ کھیلنے کو ہمیشہ بُرا سمجھا گیا ہے۔ بچّے گلیوں میں کھیلتے ہیں۔ کھڑکیوں کے شیشے توڑتے ہیں اور ہر طرف سے ڈانٹ پھٹکار کھاتے ہیں۔ یہ بڑے بچّے بڑے میدان میں کھیلتے ہیں اور دلوں کے شیشے توڑتے ہیں۔ لیکن ان پر کوئی ڈانٹ پھٹکار نہیں پڑتی۔ میں بھی کتنی نادان تھی ایک کھلنڈرے بچّے کو اپنا آئیڈیل سمجھنے لگی۔ مجھ سے پوچھتا تھا کہ میرے اندر کیا خاص بات ہے حالانکہ خود اس کے اندر کوئی خاص بات نہیں۔ غالباً آپ یہ جاننے کے لیے بے چین ہوں گے کہ میں بیوہ کیسے ہوگئی۔ ذرا صبر سے کام لیں۔ ابھی تو بات چھٹے دن تک پہنچی ہے میرا سہاگ اتنی جلدی تو نہ چھینیں۔ ہاں تو ہوا یہ کہ چھٹے دن میں نے سہیل سے کوئی بات نہیں کی۔ لیکن اس نے مجھے منانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور جس بات پر مجھے زیادہ غصہ آیا وہ یہ تھی کہ اس نے میری ناراضگی کو محسوس تک نہیں کیا۔ ساتویں روز وہ پریکٹس کرنے چلا گیا اور میں سارا دن اپنے کمرے میں بند روتی رہی۔ شام کے وقت مجھے ڈرائنگ رُوم سے قہقہوں اور باتوں کی آواز سُنائی دی۔ میں اُٹھ کر دروازے کے قریب گئی اور غور سے آوازیں سننے لگی۔ سہیل اپنی مداح لڑکیوں کے ساتھ باتیں کر رہا تھا۔ لڑکیاں اس کی تعریف کر رہی تھیں اور وہ بڑی زندہ دلی کے ساتھ اپنے ٹیسٹ میچوں کی باتیں سُنا رہا تھا۔ یہ کیا بات تھی کیسا تضاد تھا بیوی کو تو اس نے ٹال دیا تھا، مکھی کی طرح اُڑا دیا تھا۔ یہ کہہ کر بات ختم کر دی تھی کہ اس کے بارے میں سب کچھ رسالوں میں چھپ چکا ہے۔ لیکن ان آوارہ لڑکیوں کو بتانے کے لیے اس کے پاس بہت کچھ تھا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر اور سوچ کر مجھے سہیل سے نفرت ہوگئی، میری جگہ پر کوئی اور لڑکی ہوتی تو اس کا بھی یہی ردعمل ہوتا۔ مشرقی لڑکیوں کو یہ سکھایا جاتا ہے کہ جس گھر میں دُلہن بن کر جائو وہاں سے جنازہ ہی نکلے تو نکلے، خود نہیں نکلنا۔ شوہر کچھ بھی کرتا رہے، کوئی شکوہ نہ کرنا، ہونٹ سی لینا، زبان کاٹ لینا، کانوں میں سیسہ پگھلا کر ڈال لینا، آنکھیں پھوڑ لینا پر اُف نہ کرنا۔ خداحافظ۔ ایسی مشرقی تہذیب کو جو مردوں پر کوئی گرفت نہ کرے۔ یہ سب جہالت کی باتیں ہیں۔ باپ نے رقم لے کر بیٹی کو کسی لولے لنگڑے، بڈھے ٹھڈے کے پلّے باندھ دیا اور ساتھ ہی یہ بھی نصیحت کر دی کہ بیٹی اب اس گھر سے تیرا جنازہ ہی اُٹھنا چاہیے۔ آئے ہائے، ایسے ہی مفت میں جنازے اُٹھتے ہیں نا۔ یہ کوئی تہذیب تھوڑا ہی ہے کہ جب چاہے جنازہ اُٹھا دیا۔ خبردار، ہوشیار، مشرق کی بیٹیاں اب بیدار ہو رہی ہیں۔ اب یوں جنازے نہیں اُٹھیں گے۔ کہتے ہیں میں پاگل ہو گئی ہوں۔ آپ ہی ذرا انصاف کریں۔ کیا میری باتوں میں پاگل پن پایا جاتا ہے پھر کیا ہوا میں کیا بات کر رہی تھی آں ہاں یاد آیا، میں سہیل کی بات کر رہی تھی۔ ساتویں روز مجھے اس سے نفرت ہوگئی۔ اس نے کوئی پروا نہیں کی۔ میں نے بھی پروا نہیں کی۔ تو ہے ہرجائی تو اپنا بھی یہی طور سہی۔ دن ہفتوں میں اور ہفتے مہینوں میں تبدیل ہوگئے۔ اسی دوران میں بہت کچھ ہوا۔ میرے سسر اللہ کو پیارے ہوگئے۔ واحد نند کی شادی ہوگئی۔ گھر میں صرف چار افراد رہ گئے۔ میں، میرا دیور، ساس اور میری جان کا دُشمن۔ ساس کو اپنے لاڈلے کی کوئی برائی، برائی نہیں معلوم ہوتی تھی کیونکہ وہ اس کی کمائی کھاتی تھی اگر وہ گھنٹوں کسی لڑکی کو لے کر کمرے میں گھسا ہوا ہے تو ساس کی نظروں میں کوئی بات نہیں تھی۔ دیور چھوٹا تھا۔ وہ بڑے بھائی کے سامنے آنکھیں نیچی کر کے بات کرتا تھا۔ رہ گئی میں تو میری اس گھر میں کوئی اوقات نہیں تھی۔ میں مفت کی خادمہ تھی گھر کے سارے کام میرے سپرد تھے۔ ایک روز میں نے سہیل سے کہا۔ اس طرح گاڑی نہیں چلے گی۔ لاپروائی سے بولا۔ کیا پیٹرول ختم ہوگیا ہے یہ جو لڑکیاں تمہیں ملنے آتی ہیں وہ مجھے زہر لگتی ہیں اب میں انہیں برداشت نہیں کر سکتی۔ بے چاری آٹوگراف لینے آ جاتی ہیں۔ تمہارا کیا جاتا ہے۔ کونسی روشنائی سے آٹو گراف دیتے ہو۔ بار بار آٹو گراف لینے آ جاتی ہیں۔ بہت سی چڑیلوں کی تو مجھے شکلیں بھی یاد ہوگئی ہیں ان کی وجہ سے میرا سکون برباد ہو رہا ہے۔ رفتہ رفتہ عادی ہو جائو گی، مشہور لوگوں کی بیویوں کو بڑے حوصلے سے کام لینا پڑتا ہے۔ تم روزی کمانے کا کوئی باعزت طریقہ کیوں نہیں اختیار کرلیتے۔ وہ چونک کر میری طرف مڑا۔ اس کا چہرہ ظاہر کر رہا تھا کہ میری بات سے اسے سخت صدمہ پہنچا تھا۔ اس سے زیادہ باعزت کام کیا ہو سکتا ہے۔ اس نے کہا۔ ملک کا بچہ بچہ مجھے جانتا ہے۔ بیرونی ممالک میں بھی لوگ مجھے جانتے ہیں۔ اخبارات اور رسائل میرے بارے میں مضامین شائع کرتے ہیں۔ مجھے نزلہ بھی ہو جاتا ہے تو اخبار میں خبر چھپ جاتی ہے۔ تم نے صرف اپنی شہرت کی بات کی ہے۔ میں نے کہا۔ اپنی خوبیوں کا کوئی ذکر نہیں کیا۔ وہ ہنس کر بولا۔ اگر کوئی خوبی نہ ہو تو شہرت کیوں ہوتی، میں اے کلاس کرکٹ کا کھلاڑی ہوں۔ لاکھوں لوگ بڑے شوق سے میرا کھیل دیکھتے ہیں۔ لوگ تو کٹھ پتلیوں کا تماشہ بھی بڑے شوق سے دیکھتے ہیں۔ کرکٹ اور کٹھ پتلیوں کے تماشے میں زمین آسمان کا فرق ہے۔ مجھے تو کوئی فرق نظر نہیں آتا۔ دیکھنے والی بات یہ ہوتی ہے کسی کام کا حاصل کیا ہے۔ کرکٹ اور کٹھ پتلیوں کے تماشے کا حاصل تفریح ہے۔ دونوں کھیل تفریح کے لیے دیکھے جاتے ہیں۔ تمہارے کھیل کو ذرا زیادہ لوگ دیکھتے ہیں اس لیے تم لوگوں کو کچھ زیادہ خیرات مل جاتی ہے۔ ترنم۔ وہ پہلی دفعہ غصے میں آپے سے باہر ہوگیا۔ تم میری توہین کر رہی ہو۔ تمہارا المیہ یہ ہے کہ تم صرف کرکٹ کھیلنے کو اور شہرت کو خوبی سمجھتے ہو۔ جو انسان اپنی بیوی کے ساتھ مخلص نہیں ہے اس کی شہرت دو ٹکے کی اہمیت نہیں رکھتی۔ کرکٹ کھیلنا کونسا مشکل کام ہے۔ دو چار مہینے پریکٹس کرنے کے بعد میں بھی بلاّ پکڑ کر وکٹوں کے سامنے کھڑی ہوسکتی ہوں۔ تم اگر سو رنز بناتے ہو تو میں دس تو ضرور ہی بنا لوں گی۔ فیلڈنگ بھی کر لوں گی۔ تم اس نے اپنا ہاتھ بالکل میری ناک سے لگا دیا۔ تم کرکٹ کھیلو گی۔ ہوہو اے کلاس کرکٹ بچوں کا کھیل نہیں ہے۔ اے کلاس نہ سہی، بی کلاس، سی کلاس یا ڈی کلاس کو تو کھیل ہی لوں گی۔ اسے بھی کرکٹ کہا جائے گا۔ تم پاگل ہوگئی ہو۔ ابھی نہیں ہوئی۔ اگر تمہارا یہی رویہ رہا تو جلدی تمہاری خواہش پوری ہو جائے گی۔ تم چاہتی کیا ہو آج کے بعد کوئی فالتو لڑکی اس گھر میں نہیں آئے گی۔ یہ گھر میرا ہے۔ میرا بھی اس گھر پر حق ہے، اگر اس گھر میں لڑکیاں آئیں گی تو لڑکے بھی آئیں گے۔ کیا تم لڑکوں سے دوستی لگائو گی کیا لڑکوں سے دوستی لگانا بُری بات ہے۔ شریف لڑکیوں کو ایسی بات بھی منہ سے نہیں نکالنی چاہیے۔ یہ گناہ ہے۔ گنہگار صرف لڑکی ہوتی ہے یا لڑکا بھی دونوں گناہ گار بنتے ہیں۔ اس نے کہا لیکن فوراً ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوگیا۔ جلدی سے بولا۔ لڑکی کا معاملہ بہت نازک ہوتا ہے۔ اسے ایسی حرکت نہیں کرنی چاہیے۔ مردوں کے معاملے میں زیادہ خطرے کی بات نہیں ہے تم کچھ اُلجھ گئے ہو۔ میں نے کہا۔ جب مرد اور عورت کی دوستی کا ذکر ہو تو اس میں ایک مرد ہوتا ہے اور ایک عورت۔ اگر یہ حرکت بُری ہے تو دونوں کے لیے بُری ہے۔ تمہارے نقطہ نظر کی روشنی میں یہ نتیجہ نکلا کہ جو لڑکیاں مردوں سے دوستی لگاتی ہیں وہ شریف نہیں ہوتیں یعنی بُری ہوتی ہیں لہٰذا میں بھی یہی چاہتی ہوں کہ کوئی بُری لڑکی اس گھر میں نہ آئے۔ اس موقع پر میری ساس آن موجود ہوئی اور بات چیت کسی نتیجے پر پہنچے بغیر ختم ہوگئی۔ تاہم لڑکیوں کی آمد و رفت کا سلسلہ جاری رہا۔ میں نے جو مردوں سے دوستی کی بات کی تھی وہ محض ایک دھمکی تھی۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ لیکن جب عورت ناآسودہ اور شوہر کی توجہ سے محروم ہو تو لغزش ہو ہی جاتی ہے۔ ایک روز میری ملاقات ایک ایسے شخص سے ہوگئی، جس نے پہلی ہی ملاقات میں مجھے اپنا گرویدہ بنا لیا۔ وہ عجیب شخص تھا۔ چپ بیٹھا ہوا غیر اہم اور گم سُم لگتا تھا۔ اس کا رنگ سانولا، قد درمیانہ اور جسم مضبوط تھا۔ اس کا نام مسعود تھا۔ اس نے میرا تعارف سہیل ہی نے کرایا تھا۔ صرف دو جملوں کا تعارف تھا۔ مسعود ہے اور مسعود یہ میری بیوی ترنم ہے۔ یہ تعارف اسٹیڈیم میں ہوا تھا۔ سہیل تعارف کرانے کے بعد میچ کھیلنے چلا گیا اور مسعود میری ساتھ والی کرسی پر بیٹھ گیا۔ دو گھنٹے تک ہمارے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی۔ چائے کے وقفے کے دوران میں نے سہیل سے کہا کہ میں واپس جانا چاہتی ہوں۔ اس نے مسعود کو گاڑی کی چابی نکال کر دی اور کہا۔ ترنم کو گھر چھوڑ آئو۔ مسعود نے ذرا سا سر کو خم کیا اور میری طرف دیکھتا ہوا بولا۔ آیئے۔ اُف میں کیا بتائوں آپ کو۔ اس نے یہ لفظ اتنے شیریں اور دل نواز انداز میں کہا کہ بس دل ہی میں اُتر گیا۔ وہ پہلا لمحہ تھا کہ وہ شخص مجھے بہت اچھا لگا۔ اتنا اچھا کہ میں بیان نہیں کر سکتی۔ جب ہم جانے لگے تو سہیل نے پیچھے سے آواز لگائی۔ ترنم کو راستے میں ٹھنڈا پلا دینا، بہت بور نظر آ رہی ہے۔ کار کے قریب پہنچ کر مسعود نے میرے لیے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھولا اور میرے بیٹھنے کا انتظار کرنے لگا۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ میری طرف نہیں دیکھ رہا تھا اس کی آنکھوں میں عجیب سا احترام کا جذبہ تھا۔ آپ نے پچھلی سیٹ کا دروازہ کیوں کھولا ہے میں نے پوچھا۔ آپ کے بیٹھنے کے لیے۔ لیکن پچھلی سیٹ ہی کیوں میں نے اصرار کیا۔ اس نے پچھلی سیٹ کا دروازہ بند کر دیا اور اگلی سیٹ کا کھول دیا۔ لیکن منہ سے کچھ نہیں بولا۔ میں سیٹ پر بیٹھ گئی تو اس نے دروازہ بند کر دیا اور اُوپر سے گھوم کر ڈرائیونگ سیٹ پر جا بیٹھا۔ پھر اس نے انجن اسٹارٹ کیا اور کار کو گیئر میں ڈال دیا۔ چند لمحے خاموشی میں گزر گئے۔ ہماری کار مین روڈ پر پہنچ گئی۔ میرا جی چاہ رہا تھا کہ وہ کچھ بولے۔ وہ ایسا شخص تھا جس کے ساتھ بے اختیار باتیں کرنے کو جی چاہتا تھا لیکن وہ خاموشی کے ساتھ کار چلا رہا تھا۔ مجبوراً مجھے ہی خاموشی توڑنی پڑی۔ پتہ ہے میں پیچھے کیوں نہیں بیٹھی میں نے پوچھا۔ نہیں اس نے مختصر جواب دیا۔ اگر ڈرائیور گاڑی چلا رہا ہو تو مالک پیچھے بیٹھتا ہے۔ میں نے کہا۔ لیکن چونکہ آپ ڈرائیور نہیں ہیں اس لیے میں نے پیچھے بیٹھنا مناسب نہیں سمجھا۔ اس کے ہونٹوں پر ہلکی سی مسکراہٹ نمودار ہوگئی۔ جیسے میں ایک بچی تھی اور میں نے ایک ایسا لطیفہ سُنایا تھا جسے وہ کئی بار سن چکا تھا، پھر اس نے کہا۔ جو بھی گاڑی چلاتا ہے اسے ڈرائیور ہی کہا جاتا ہے۔ میرا مطلب ہے کہ کہ ایک ڈرائیور ہوتا ہے اور ایک مالک ہوتا ہے۔ مالک کو ڈرائیور تو نہیں کہہ سکتے نا اور چونکہ میں مالک نہیں ہوں اس لیے مجھے ڈرائیور ہی کہا جائے گا۔ ڈرائیور اُسے کہتے ہیں جو جو تنخواہ لیتا ہے۔ یعنی ملازم ہوتا ہے۔ وہ پھر چپ ہوگیا اور کچھ اُداس سا نظر آنے لگا۔ کچھ دُور جانے کے بعد میں نے کہا۔ آپ کی بیوی تو بہت بور ہوتی ہوگی۔ اس نے تھوڑا سا سر گھما کر میری طرف دیکھا اور دوبارہ سڑک کی طرف دیکھنے لگا۔ میں نے مزید کہا۔ آپ کی خاموشی پر اسے بہت غصہ آتا ہوگا۔ آپ نے یہ کیسے فیصلہ کرلیا کہ میں شادی شدہ ہوں سوری، میں سمجھی آپ شادی شدہ ہیں۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اس کے غیر شادی شدہ ہونے پر خوشی سی ہوئی تھی۔ کیا آپ کو میری خاموشی پر غصہ آ رہا ہے اس نے میری معذرت کو نظر انداز کرتے ہوئے کہا۔ ہاں۔ میں نے جواب دیا۔ لیکن آپ میری بیوی تو نہیں ہیں۔ میں جھینپ سی گئی۔ پھر اپنی بات کا جواز پیش کرتے ہوئے کہا۔ اگر دو آدمی اکٹھے سفر کر رہے ہوں تو انہیں وقت گزاری کے لیے کچھ نہ کچھ بات چیت کر ہی لینی چاہیے۔ کیا آپ کو میرے ساتھ باتیں کرنا اچھا لگتا ہے اس نے پوچھا۔ میں منہ سے توہاں نہ کہہ سکی البتہ اثبات میں سر ہلا دیا۔ کچھ دُور جانے کے بعد اس نے کار کو شہید روڈ پر موڑ دیا۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک ایئرکنڈیشنڈ ریستوران کے فیملی روم میں بیٹھے تھے اور ہمارے سامنے آئس کریم سوڈا کے گلاس رکھے تھے۔ دراصل میں بہت عجیب قسم کا آدمی ہوں۔ مسعود نے کہا۔ لڑکیوں کے معاملے میں بہت بزدل واقع ہوا ہوں۔ میں قاتلوں، چوروں اور ڈاکوئوں سے بالکل نہیں ڈرتا۔ لیکن لڑکیوں سے بہت ڈرتا ہوں۔ خصوصاً جو لڑکی مجھے پسند آ جاتی ہے اس سے تو بہت دُور بھاگتا ہوں۔ آپ تو واقعی عجیب آدمی ہیں۔ بات یہ ہے مسز سہیل۔ وہ کچھ کہتے کہتے رُک گیا۔ پھر ٹٹولنے والی نظروں سے میری طرف دیکھتا ہوا بولا۔ ہمارے درمیان جو بات چیت ہو رہی ہے اس کا سہیل کے سامنے ذکر تو نہیں کرو گی آپ کہیں گے تو نہیں کروں گی۔ میں نے کہا۔ ٹھیک ہے، میں تم پر بھروسہ کر لیتا ہوں۔ اس نے کہا۔ اور تم کے لیے معذرت۔ بات یہ ہے، ترنم کہ میں بہت محتاط آدمی ہوں۔ اگر کوئی لڑکی مجھے بہت اچھی لگنے لگتی ہے تو میں اس کے قرب کی خواہش کرنے لگتا ہوں۔ لیکن اگر میں دیکھتا ہوں کہ اس سے قریب ہونا ممکن نہیں تو میں بہت دُور چلا جاتا ہوں۔ کیا میں تمہیں اچھی لگی ہوں اس نے ہولے سے میرے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا اور بولا۔ بہت اچھی۔ اس کا انداز انتہائی والہانہ تھا۔ مجھ پر بے خودی سی طاری ہوگئی۔ معاً میرے ذہن میں دو باتیں آئیں۔ پہلی یہ کہ میں اپنے شوہر کی امانت ہوں اور دُوسری یہ کہ سہیل سے انتقام لینے کا وہ بہترین موقع ہے۔ انتقام والی بات زیادہ زوردار ثابت ہوئی اور میں مسعود کی طرف جھکتی چلی گئی۔ مجھے اس کے بارے میں کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا۔ اور نہ ہی میں نے زیادہ جاننے کی ضرورت محسوس کی۔ ہم گاہے بہ گاہے ایک دُوسرے سے ملنے لگے۔ ہوٹلوں میں، کلبوں میں، تفریحی مقامات پر ۔ کئی مرتبہ وہ مجھے فلم دکھانے بھی لے گیا۔ شاید سہیل کو بھی ہماری ملاقاتوں کا علم تھا لیکن اس نے کبھی اعتراض نہیں کیا۔ جہاں تک مسعود کا تعلق تھا وہ انتہائی محتاط اور بااُصول آدمی تھا۔ اتنے قرب کے باوجود ایک اخلاقی حد کے اندر رہتا تھا۔ ہم گھنٹوں باتیں کرنے کے باوجود کبھی بور نہیں ہوتے تھے۔ ہر ہفتے میں ایک آدھ ملاقات ضرور کرتے۔ اگر کسی ہفتہ مسعود سے ملاقات نہ ہو پاتی تو میں اُداس ہو جاتی۔ تنہا اور کھوئی کھوئی سی نظر آنے لگتی۔ یوں محسوس ہوتا جیسے زندگی میں خلا سا پیدا ہوگیا ہے۔ مسعود اکثر کہا کرتا تھا کہ کاش میں شادی سے پہلے اس سے ملی ہوتی۔ میرے بھی کچھ ایسے ہی جذبات تھے۔ میں ہر وقت یہ سوچتی رہتی تھی کہ اگر میری شادی مسعود کے ساتھ ہو جاتی تو کتنا اچھا ہوتا۔ سہیل دُور سے جتنا اچھا لگتا تھا قریب سے اتنا ہی بھیانک تھا۔ وہ ایک بور اور غیر دلچسپ شخص تھا۔ اسے کرکٹ کھیلنے کے سوا کچھ نہیں آتا تھا۔ اکثر معاملات میں وہ کوئی ذاتی رائے نہیں رکھتا تھا۔ اس کے اندر حسد و رشک کے جذبات بھی نہیں تھے۔ ان احساسات کا نتیجہ یہ نکلا کہ میں سہیل سے دُور اور مسعود سے نزدیک تر ہوتی چلی گئی۔ شروع میں سہیل میری پروا نہیں کرتا تھا۔ بعد میں، میں نے اس کی پروا کرنی چھوڑ دی۔ اگر وہ کوئی بات کرتا تو میں بے رُخی کے ساتھ چڑ کر جواب دیتی۔ پھر ہمارے درمیان خوب جھگڑا ہوتا۔ دو تین مرتبہ اس نے میرے منہ پر تھپڑ بھی مار دیئے۔ تب میں نے فیصلہ کرلیا کہ اگر اس نے آئندہ مجھ پر ہاتھ اُٹھایا تو میں بھی اینٹ کا جواب پتھر سے دوں گی۔ پھر ایک روز میں اپنے ہی ہاتھوں سے بیوہ ہوگئی۔ یعنی سہیل میرے ہاتھوں سے قتل ہوگیا۔ اُن دنوں میری ساس اور دیور کسی شادی کے سلسلے میں فیصل آباد گئے ہوئے تھے۔ رات کے تقریباً نو بجے میرے اور سہیل کے درمیان سخت لڑائی ہوئی۔ اس نے طیش میں آ کر میرے منہ پر دو یا تین تھپڑ مار دیئے۔ تھپڑ کھانے کے بعد مجھ پر جنون سوار ہوگیا۔ میں نے ناخنوں سے اس کا منہ نوچنے کی کوشش کی۔ لیکن اس نے میرے بال پکڑ کر اتنے زور سے جھٹکا دیا کہ میں زمین پر گر گئی۔ اس پر بھی اس کی تسلی نہیں ہوئی اور اس نے مجھے ٹھوکریں مارنی شروع کریں اور میں بلبلا اُٹھی۔ کئی جگہوں سے خون بہنے لگا۔ میرا خیال تھا کہ مجھے زخمی دیکھ کر اُسے مجھ پر رحم آ جائے گا، لیکن میرا خیال غلط نکلا۔ وہ یہ کہتا ہوا دُوسرے کمرے میں چلا گیا۔ اپنا سامان پیک کر لو، تم اس گھر میں نہیں رہ سکتیں۔ میں نے اس فقرے سے سخت تذلیل محسوس کی۔ اس نے اتنی آسانی کے ساتھ میری قسمت کا فیصلہ کر دیا تھا گویا میں کوئی بکائو مال تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ میں تقریباً ایک گھنٹے تک کمرے کے فرش پر پڑی روتی رہی تھی، لیکن اس سنگدل انسان کو میرے زخموں کا خیال بھی نہیں آیا۔ تب میرے سینے میں انتقام کی آگ سُلگنے لگی۔ میں نے کونے میں پڑا ہوا بلّا اُٹھا لیا اور سہیل کے کمرے میں جھانکا۔ وہ بستر پر لیٹ کر کوئی رسالہ پڑھ رہا تھا۔ میں دبے پائوں اندر داخل ہوئی اور دونوں ہاتھوں میں بلّا پکڑ کر پوری قوت سے وار کیا۔ اس نے آہٹ پا کر اُٹھنے کی کوشش کی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ جو چوٹ کندھے پر لگنی چاہیے تھی وہ سر پر لگی اور وہ وہیں پر ڈھیر ہوگیا۔ میں کئی لمحوں تک اس کے اُٹھنے کا انتظار کرتی رہی، لیکن جو مر جاتا ہے وہ خود ہی نہیں اُٹھتا۔ اُسے لوگ اُٹھاتے ہیں۔ اتنے میں اطلاعی گھنٹی کی آواز سُنائی دی۔ میں بُری طرح چونک گئی۔ میں نے بلّا پلنگ کے نیچے پھینک دیا۔ آئینے کے سامنے جا کر اپنا حلیہ ٹھیک کیا اور پھر دروازے کی طرف دوڑی۔ گھنٹی بجانے والا مسعود تھا۔ اُسے دیکھ کر میری ساری گھبراہٹ دُور ہو گئی۔ تاہم مجھے تھوڑا سا تعجب ضرور ہوا۔ وہ رات کے وقت کبھی ہمارے گھر نہیں آتا تھا۔ ترنم، تم خیریت سے تو ہو اس نے پوچھا۔ کہاں چوٹ لگی ہے اور وہ سہیل کہاں ہے تمہیں کس نے بتایا کہ مجھے چوٹ لگی ہے میں نے حیرانی سے پوچھا۔ تھوڑی دیر پہلے سہیل نے مجھے فون کیا تھا۔ سہیل نے فون کیا تھا اس نے کہا تھا کہ تمہارا موڈ ٹھیک نہیں ہے، تمہیں چوٹ بھی لگ گئی ہے اور میں تمہیں کہیں سیر کرانے لے جائوں۔ سہیل کہاں ہے مسعود، سہیل نے آج مجھے بہت بُری طرح پیٹا ہے۔ لیکن وہ ہے کہاں وہ وہ مر گیا ہے۔ مم مر گیا کیا تم مذاق کر رہی ہو میں نے اسے ساری بات سچ سچ بتا دی۔ وہ ایک طویل لمحے تک کچھ نہیں بولا۔ خالی نظروں سے میری طرف دیکھتا رہا۔ بالآخر اس نے گہرا سانس لیا اور بولا۔ ترنم، یہ اچھا نہیں ہوا۔ پلیز میری مدد کرو مسعود۔ مم میرا خیال ہے کہ ہم اس سانحے کو ڈکیتی کی واردات کا رنگ دے سکتے ہیں۔ اس نے رحم آلود مسکراہٹ سے میری طرف دیکھا۔ بولا یہ نہیں ہو سکتا۔ پھر کوئی اور طریقہ بتائو۔ مم میں جیل نہیں جانا چاہتی۔ مجھے پولیس والوں سے بہت خوف آتا ہے۔ میں میں پھانسی پر نہیں لٹکنا چاہتی۔ جلدی کوئی ترکیب سوچو۔ میں ایسا کرتی ہوں کہ کہیں چلی جاتی ہوں۔ مثلاً فلم دیکھنے چلی جاتی ہوں۔ تم بھی میرے ساتھ چلو۔ واپس آ کر میں پولیس کو اطلاع کر دوں گی کہ میری عدم موجودگی میں کسی نے میرے شوہر کو پولیس کو اطلاع تو ہو چکی ہے۔ مسعود نے کہا۔ کک کیا مطلب کس نے اطلاع دی ہے پولیس کو ترنم، جو بات میں تمہیں نہیں بتانا چاہتا تھا وہ آج بتانی ضروری ہوگئی ہے۔ میں اس علاقے کا ایس ایچ او ہوں۔ مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آیا۔ وہ کسی طور پر تھانیدار نہیں لگتا تھا۔ وہ تو بہت ہی نرم مزاج اور خوش اخلاق شخص تھا۔ میں چند لمحوں تک آنکھیں پھاڑ کر اسے گھورتی رہی۔ پھر مجھے اتنے زور کی ہنسی آئی کہ میں ہنستی چلی گئی اور آج تک ہنس رہی ہوں۔ پتہ نہیں کیا بات ہے جو شخص زیادہ ہنستا ہے اُسے لوگ یہاں چھوڑ جاتے ہیں۔ یہاں سب اچھے لوگ رہتے ہیں۔ پہلے مجھے پتہ نہیں تھا کہ یہ کون سی جگہ ہے۔ لیکن اب پتہ چل گیا ہے۔ ایک دن میں ٹہلتی ہوئی گیٹ پر چلی گئی وہ گیٹ دُوسری دُنیا والوں کا گیٹ تھا۔ بڑی اور وسیع دُنیا والوں کا گیٹ۔ پہلے میرا جی چاہا کہ اس گیٹ کے اندر داخل ہو جائوں۔ دُوسری دُنیا کے لوگوں سے ملوں۔ لیکن جب میں نے وہاں لگا ہوا بورڈ پڑھا تو جلدی واپس آ گئی۔ اس بورڈ پر لکھا تھا۔ دماغی امراض کا اسپتال، یعنی اس طرف سب پاگل بستے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ میں نے وہ بورڈ پڑھ لیا۔ ورنہ پاگلوں کی دُنیا میں پھنس جاتی۔ اس جنت سے محروم ہو جاتی جس میں، میں اب رہتی ہوں۔ یہاں میں بہت خوش رہتی ہوں۔ ہاں کبھی کبھی میں اُداس بھی ہو جاتی ہوں۔ یہ اس وقت ہوتا ہے جب میرا دماغ دُوسری دُنیا کے لوگوں کی طرح کام کرنے لگتا ہے۔ پاگلوں کی طرح
null
null
null
null
443
https://www.urduzone.net/pehla-khuwab-complete-urdu-story/
میں، جانے کا ارادہ ہی کر رہا تھا کہ اُس نے مجھ سے پوچھا۔ کیا تم واقعی جانا چاہتے ہو ہاں میں نے جواب دیا۔ مگر کہاں پروفیسر نے پوچھا۔ کیا یہ کم ہے کہ میں نے یہ سوچ لیا ہے کہ میں جانا چاہتا ہوں۔ مگر کہاں ضروری تو نہیں کہ سفر کے لئے منزل کا تعین بھی کیا جائے۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ کسی بھی سفر کے دوران تمہاری کوئی بھی منزل ہو سکتی ہے۔ ہو سکتا ہے میرا سفر یونہی ہو۔ اور ممکن ہے منزل بھی نہ ملے۔ مگر میں ہر حال میں جانا چاہتا ہوں۔ ہوں اُسی طرح جس طرح تم وہاں سے واپس آ گئے تھے۔ نہیں میں وہاں سے واپس نہیں آیا تھا۔ میں وہاں گیا ہی نہیں تھا۔ یا شاید میرا دانہ پانی وہاں سے ختم ہوگیا تھا۔ وہ شاید یکسانیت سے اُکتا گئی تھی۔ اس کے لہجے میں وہ مٹھاس اور اخلاص میں وہ شائستگی نہیں رہی تھی۔ پروفیسر شاید میری ان تاویلوں سے اُکتا گیا تھا۔ اچھا اب یہ سفر کتنے دنوں کا ہے اور سفر کی تھکاوٹ کے بعد کتنے دن تم پناہیں تلاش کرنے میں صرف کرو گے مجھے معلوم نہیں، کچھ بھی معلوم نہیں۔ تو چپ چاپ وہیں پڑے رہو جہاں ہو۔ سفر تمہارے لئے نقصان دہ ہو سکتا ہے اور ضروری تو نہیں کہ سفر کے بعد تمہارے استقبال کے لئے کوئی آرزوئوں کی مالا لئے تمہارا منتظر ہی ہو۔ نہ ہو اس سے کوئی فرق بھی نہیں پڑتا۔ میں نے جواب دیا۔ ایک تو میں تمہاری اس قنوطیت سے تنگ آ گیا ہوں۔ پروفیسر نے غصہ سے کہا۔ تم ابنِ ایوب تو نہیں ہو ہاں ہاں میں ابن ایوب نہیں ہو۔ تو پھر چپ رہو کسی چوک پر کوئی زلیخا تمہاری منتظر نہیں ہے۔ سمجھے میرے یوسف تم نے کبھی کسی سے محبت کی ہے، کسی کو اپنے سے زیادہ چاہا ہے۔ اتنا کہ اپنی شخصیت ریزہ ریزہ ہو جائے۔ نہیں۔ کبھی نہیں محبت اس وقت ایک نئی شخصیت کو جنم دیتی ہے جب دو وجود کرچی کرچی ہو کر بکھر جائیں، ان کرچیوں سے ان بکھرے ہوئے ٹکڑوں سے ایک نئی شخصیت جنم لے۔ ٹھیک ہے۔ پروفیسر اب تمہیں شاید میرے پہلے نامکمل سفر کے بارے میں جاننے میں مشکل نہیں ہوگی۔ میرا جواب تمہاری ان باتوں میں موجود ہے۔ پروفیسر خواب اتنا بڑا تھا شاید زندگی سے بڑا۔ اس نامکمل سفر میں آدرش پورے نہیں ہوئے۔ وہ لڑکی بڑی ظالم تھی، اسے رنگوں کا کھیل کھیلنے کا جنون تھا۔ وہ ہر جگہ سے رنگ چُرانے کی کوشش کرتی جیسے اس نے میرا رنگ چُرا لیا۔ وہ لڑکی میری زندگی کا پہلا خواب تھی۔ پہلا بڑا خواب جو زندگی سے بھی بڑا تھا۔ خواب اتنے بڑے نہیں ہونے چاہئیں ناں کہ زندگی اسے پورا کرنے کے لئے کم پڑ جائے۔ رنگوں، تتلیوں اور خوشیوں کو اکٹھا کرنے میں کون راستے میں رہ گیا، کچھ معلوم نہیں۔ وہ ایزل پر کینوس رکھتے ہوئے بولی۔ شکر کرتے ہو تم کس کا جس نے پیدا کیا ہے، جو سپنے پورے کرتا ہے ہاں کیوں نہیں، تم اپنے ماتھے پر خواب سجائے کیوں پھرتی ہو یہ اگر پورے نہ ہوں تو شخصیت ٹوٹ جاتی ہے۔ شکر کیا کرو۔ کیوں شکر کرنے والوں کے سپنے پورے ہو جاتے ہیں اور جو شکر نہیں کرتے، کیا ان کے سپنے، ان کے خواب پورے نہیں ہوتے۔ نہیں کبھی نہیں، ان کے خواب تو صرف مرنے کے لئے ہوتے ہیں اور جب خواب مر جائیں تو پتہ ہے کیا ہوتا ہے زندگی بہت بوجھ ہو جاتی ہے۔ یہ تم نے اتنی باتیں کہاں سے سیکھی ہیں وقت نے سکھلائی ہیں۔ خوابوں نے بتلائی ہیں۔ تمہارا کوئی خواب مرا تو نہیں نہیں ابھی تو نہیں۔ سنو میں ایک ایسا گھر خواب میں دیکھتی ہوں جہاں میں ہوں، میرے خوابوں کی تعبیر ہو۔ وہاں نرگس کے پھول بھی کھلتے ہوں۔ نرگس کے پھول تو محض خواب ہیں، ہزاروں سال کاخواب، تمہاری زندگی کیا اتنی بڑی ہے کہ تم نرگس کے پھول کو دیکھنے کا خواب پورا کرلو۔ تم کاجل کیوں نہیں لگاتی ہو کیا تمہیں پسند ہے ہاں میں نے سپنے میں تمہیں کاجل لگائے دیکھا ہے۔ میں نے دل میں سوچا اور پھر کوشش کر کے کہہ بھی دیا۔ اُس نے اسے مذاق میں لیا۔ تم فضول قسم کے خواب اور سپنے کیوں دیکھتے ہو اس نے آہستہ سے ہنستے ہوئے کہا۔ کاجل لگانے کے لئے جھیل سی آنکھیں ہونی چاہئیں۔ ان ہی جھیلوں میں تو میں ڈوب چکا ہوں۔ میں نے سوچا مگر کہا نہیں۔ تم میرے بارے میں اتنا کیوں سوچتے ہو خوشی ہوتی ہے۔ اپنی پوری زندگی میں، میں نے ایک خواب بنا ہے جو میری آنکھوں میں تیرتا رہتا ہے۔ مگر پروفیسر صاحب پتہ ہے۔ اس آرٹسٹ کی بچی کو میری آنکھوں میں تیرتا ہوا خواب نظر نہیں آیا۔ بس ایک روز اس نے کہا تھا۔ خوش رہا کرو نا۔ سنو تم نے دُکھ کو دیکھا ہے۔ ایسا دُکھ جو پوری زندگی میں ڈوب چکا ہو ہاں دُکھ تو جیون میں ہوتا ہی ہے۔ اور سکھ۔ وہ بھی زندگی میں شامل ہو جاتا ہے۔ اور خواب۔ وہ بھی زندگی کا حصہ ہے۔ مگر زندگی سے بڑا خواب نہیں ہونا چاہئے۔ اگر خواب کمہلا جائے تو زندگی بھی کمہلا جاتی ہے۔ اس نے جواب دیا۔ تم خوابوں کو کمہلانے نہ دو۔ ورنہ تمہارے اندر سب کچھ ختم ہو جائے گا اور زندہ لاش بن جائو گے، بس اپنے جسم کو لئے پھرتے رہو گے۔ وہ اتنی اچھی باتیں کرنے والی لڑکی چلی گئی۔ پتہ نہیں کہاں میں نے سوچا اسے خط لکھوں گا۔ وہ اچھی لڑکی جو خوشیوں کو سمیٹنا جانتی ہو۔ جو اپنے آنگن نرگس کے پھولوں سے مہکانا چاہتی تھی، جو سکھ کی متلاشی تھی، سکھ اسے کہیں نہیں ملا۔ سکھ کہیں تھا ہی نہیں۔ پھر ایک دن وہ ملی۔ اس نے اپنی آنکھوں کو کاجل سے سجایا تھا۔ مجھ سے ملنے آئی تھی۔ جاتے سمے اس کا کاجل بھیگ کر اس کے سرخ گالوں پر سیاہ دھبّوں کے نشانات چھوڑ گیا تھا۔ تمہارا خواب پورا کر دیا نا آج تو خوش ہو نا۔ پھر اس کی دوست نے بتایا۔ وہ کھلی چھت پر شام کے سمے کاجل لگائے دوپہروں کو ڈوبتے سورج کو دیکھ کر اپنی آنکھوں کو اتنا بھگو لیتی ہے کہ اب اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑ گئے ہیں۔ میں نے اس کی دوست سے پوچھنا چاہا۔ اس نے نرگس کے پھول اپنے آنگن میں لگائے ہیں، جو میرے خوابوں کو مہکاتے ہیں یا نہیں مگر میں کوشش کے باوجود اس سے پوچھ نہ سکا۔ پھر ایک روز وہ اچانک ملنے چلی آئی۔ پروفیسر وہ، وہ نہیں تھی، مجھے دیکھتی رہی۔ میرے چہرے کو وہ یوں ٹٹولتی رہی جیسے اس کی بینائی ختم ہوگئی ہو۔ اس نے میری آنکھوں میں جھانکا۔ سنو تمہاری آنکھوں میں، میں نے ایک مُردہ سپنا دیکھا ہے۔ تم نے سپنے کو مرنے کیوں دیا، مجھے آواز کیوں نہیں دی۔ وہ تم نے خودکشی کیوں کی۔ تم اپنی اَنا کو دبا کر مجھے پکارتے۔ تمہارا خواب میری کاجل لگی پسندیدہ آنکھیں تمہاری ہوتیں، تم نے ایسا کیوں کیا تم نے ایسا کیوں کیا اس کی آواز رُندھی ہوئی تھی۔ خواب کے مرنے کے بعد تم کیسے زندہ رہو گے۔ میں کیسے تمہیں دیکھوںگی، تم نے یہ کیا کیا۔ اس پر دیوانگی کا دورہ سا پڑ گیا۔ میں نے نظریں اُٹھا کر اسے دیکھا، سیاہ حلقوں والی آنکھیں بنا کاجل ہی اچھی لگ رہی تھیں۔ اس کی آنکھوں کا سپنا بھی مردہ تھا مگر میں کچھ نہیں کہہ سکا کیونکہ شاید میں ہی اس کے سپنے کا قاتل تھا اور میری اَنا میرے سپنے کی قاتل۔ سنو، خواب کملا کیوں جاتے ہیں۔ میں نے اس سے سوال کیا۔ تم نے شکر نہیں کیا ہوگا۔ اس نے جواب دیا۔ تمہارے خواب پورے ہوئے نرگس کا پھول تمہارے آنگن میں لگایا نہیں بغیر خواب کے کوئی جی سکتا ہے۔ میں نے اس سے پوچھا۔ ہاں کیوں نہیں میری طرف دیکھو۔ اس نے کہا۔ مگر تم نے کہا تھا خواب کے مرنے کے بعد تم زندہ لاش ہو جائو گے۔ ٹھیک ہی تو کہا تھا کیا تم زندہ لاش نہیں ہو۔ تمہارا اپنے بارے میں کیا خیال ہے۔ میں نے دُکھتی ہوئی رگ پر ہاتھ رکھ دیا۔ میری بات چھوڑ دو میرے خواب تو حالانکہ تم شکر کی قائل تھیں اور تم نے ہر لمحے شکر بھی اَدا کیا، پھر تمہارا خواب کیوں مر گیا، کیوں بکھر گیا تم مجھے رُلانا چاہتے ہو، میں روئوں گی نہیں کبھی نہیں۔ اس نے مجھ سے نظریں چراتے ہوئے کہا۔ اچھا ایسا کرو۔ میں کہتے کہتے رُک گیا۔ میں تھک گیا تھا، ایک خواب اپنے ساتھ لئے پھر رہا ہوں۔ میں سوچ رہا تھا کہ تنہائی کے بہت سارے عذاب بن کر مجھے ڈستے رہتے ہیں۔ اگر وہ دن واپس آ جائیں جب میں نے سپنا بنا تھا تو اور اگر اس نے اس وقت اُسے محسوس کرلیا ہوتا تو آج وہ کاجل لگی اُداس آنکھوں کے ساتھ ایک ایسے گھر میں ہوتی جس کا آنگن نرگس کے پھولوں سے مہک رہا ہوتا۔ مگر نرگس کے پھول بھی تو ایک خواب ہی ہیں۔ پروفیسر نے بہت دیر بعد میری یادوں کے اس سلسلے میں مداخلت کی۔ اوہو تم تو واقعی ابن ایوب ہو خوشیوں، تتلیوں اور نرگس کے پھولوں اور کاجل لگی اُداس آنکھوں اور اپنے مُردہ سپنے کے ساتھ زندہ ہو۔ پھر کیا ہوا پروفیسر نے سوال کیا۔ وہ واپس چلی گئی۔ گو اس کے آنگن میں نرگس کے پھول نہیں کھلے۔ اس کی خوب صورت آنکھوں میں کاجل نہیں لگا۔ میں نے اپنے لئے پناہیں تلاش کیں، خود کو مصروف کیا، ہر رات قتل ہونے کے بعد بھی میں زندہ لاش کی طرح پھرتا رہا اور اس لڑکی کو یاد کرتا رہا جو شکر کی قائل تھی اور سمجھتی تھی کہ شکر کرنے والوں کے سپنے پورے ہو جاتے ہیں مگر شاید اس کو اب معلوم ہوگیا ہوگا کہ سپنے پورے کرانے کے لئے شکر بہت ضروری چیز بھی نہیں، سفر کے لئے ضروری تو نہیں کہ منزل کا تعین بھی کیا جائے۔ پھر میں نے اپنے مُردہ جسم میں ایک نئی روح کو محسوس کیا۔ کوئی مجھ میں خاموشی سے داخل ہو رہا تھا۔ پھر مجھے اس سے اُنس ہوگیا جب مجھے اس کی محرومیوں کے بارے میں پتا چلا۔ میری زلیخا چوراہے پر بیٹھی ہے، مگر میں یوسف تو نہیں۔ اس کو اس کی زندگی کے بہت سے سال کس طرح واپس کروں میں جانا چاہتا ہوں وہاں جہاں اس کا پرتو مجھ سے اتنا دُور ہو جائے کہ وہ مجھے کبھی نہ پا سکے۔ نہ میں یوسف نہ وہ زلیخا۔ ابن ایوب زندہ ہے، زندہ رہے گا۔
null
null
null
null
444
https://www.urduzone.net/drama-complete-urdu-story/
نادیہ کی ضد اور مسلسل اصرار نے فاروق کو مجبور کردیا۔ اس نے نادیہ کا ساتھ دینے پر آمادگی ظاہر کردی۔ نادیہ دراصل ایک ڈراما کرنا چاہتی تھی۔ اس کا ذہن نت نئی شرارتیں سوچتا رہتا تھا۔ جب اس نے اپنا منصوبہ فاروق کے سامنے رکھا تو اس نے اس قسم کے مذاق کی مخالفت کی تھی لیکن نادیہ اپنی بات منوا کر رہی۔ پھر باہم مشورے کے بعد اتوار کا دن طے کیا گیا۔ اس روز انہیں ایک ڈراما کرنا تھا۔ جب اسکرپٹ اور ڈائیلاگز پر کام شروع ہوا تو اس دوران دونوں کا ہنستے ہنستے برا حال ہوگیا۔ یہ ڈراما انہیں اپنے لان میں کرنا تھا جس کے ایک طرف گیراج بنا ہوا تھا۔ گیراج کے ساتھ ہی دوسری جانب ایک مکان تھا، جس کی بالائی منزل کے کچن کی کھڑکی اس گیراج کی طرف کھلتی تھی۔ کوئی بھی شخص کچن میں بیٹھ کر ان کے لان کا جائزہ لے سکتا تھا۔ دراصل نادیہ اور فاروق اپنا وہ ڈراما رعنا کو دکھانا چاہتے تھے۔ رعنا ان کی پڑوسن تھی، جس کے بارے میں انہیں یقین تھا کہ وہ اپنی عادت کے مطابق کچن کی کھڑکی سے سب کچھ غور سے دیکھے گی۔ نادیہ اور فاروق کی شادی کو زیادہ عرصہ نہیں گزرا تھا۔ دونوں جوان اور خوبصورت تھے۔ کسی بھی نئے شادی شدہ جوڑے کی طرح دونوں کے جذبات میں شدت اور والہانہ پن تھا۔ نادیہ، حسین ہونے کے ساتھ ساتھ شریر اور کھلنڈری سی لڑکی تھی جبکہ فاروق قدرے سنجیدہ اور متین نوجوان تھا لیکن نادیہ کی نت نئی شرارتوں میں شریک ہو کر اسے خوشی ہوتی تھی۔ وہ حال ہی میں اس مکان میں کرائے دار کی حیثیت سے منتقل ہوئے تھے۔ وہ نوبیاہتا تھے اور تنہائی چاہتے تھے لیکن ان کی پڑوسن نے انہیں عاجز کر رکھا تھا۔ وہ ہر وقت ان کی ٹوہ میں رہتی تھی۔ وہ دونوں اس کی اس عادت سے نالاں تھے۔ آخرکار تنگ آ کر نادیہ کے ذہن میں ترکیب آئی کہ ایک ڈراما کھیلا جائے۔ آج اتوار کا دن تھا اور وہ دونوں اپنے منصوبے پر عمل کرنے کے لئے تیار تھے۔ نادیہ کو یقین تھا کہ اس طرح انہیں رعنا کی تاک جھانک اور نگرانی سے ہمیشہ کے لئے نجات مل جائے گی۔ رعنا ایک بیوہ اور بے اولاد عورت تھی۔ اس نے اپنے مکان کا نچلا پورشن ایک فیملی کو کرائے پر دے رکھا تھا اور خود بالائی منزل پر رہتی تھی۔ ٭ ٭ ٭ نادیہ فاروق دھاڑا۔ میں کہتا ہوں واپس آ جائو۔ اس مکالمے کے ساتھ ڈراما شروع ہوا۔ نادیہ لان عبور کرکے تیزی سے گیراج کے باہر کھڑی ہوئی کار کی طرف بڑھی۔ نہیں وہ بھی جواباً چیخی۔ میں تمہاری روز روز کی بک بک سے تنگ آ گئی ہوں۔ میں یہاں سے جا رہی ہوں اور کبھی واپس نہیں آئوں گی۔ نادیہ، میں کہتا ہوں واپس آ جائو ورنہ ورنہ کیا نادیہ نے بھی پوری قوت سے چلا کر کہا۔ تم کیا کر لو گے وہ پائوں پٹختی ہوئی کار کی طرف بڑھی۔ وہ دونوں پوری قوت سے چلا رہے تھے۔ اگر ان کی پڑوسن کچن میں نہیں بھی تھی تو یہ آوازیں سن کر فوراً وہاں آگئی ہوگی۔ نادیہ کو ذرا سی مہلت دے کر فاروق تیزی سے اس کی طرف دوڑا۔ پھر اس نے نادیہ کا ہاتھ پکڑ لیا۔ نادیہ نے شدید مزاحمت کی اداکاری کی لیکن فاروق اسے کھینچتا ہوا گھر کی طرف لے جانے لگا۔ اس دوران دونوں چیخ چیخ کر ایک دوسرے کو برا بھلا کہتے رہے۔ گھر میں داخل ہونے کے بعد بھی وہ کچھ دیر تک ایک دوسرے پر چیختے چلاتے رہے۔ پھر نادیہ نے ہنس کر فاروق کی طرف دیکھا اور ایک لمبی چیخ مار کر خاموش ہوگئی۔ تھوڑی دیر کے بعد فاروق اپنے بازوئوں پر نادیہ کو اٹھائے اس طرح باہر نکلا کہ اس کی گردن ڈھلکی ہوئی اور بال بکھرے ہوئے تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہ فاروق کی کسی ضرب سے بے ہوش ہوگئی ہو۔ فاروق اسے اٹھائے کار کی طرف بڑھ رہا تھا۔ قریب پہنچ کر نادیہ نے ہوش میں آنے کی اداکاری کی اور بری طرح سے ہاتھ پائوں مارنے لگی۔ وہ خود کو فاروق کی گرفت سے چھڑا کر لڑکھڑاتے قدموں سے مکان کی طرف واپس جانے لگی۔ فاروق دوڑتا ہوا گیراج کی طرف گیا اور جب واپس آیا تو اس کے ہاتھ میں ایک لمبی سی لوہے کی سلاخ تھی۔ اس نے دوڑ کر نادیہ کو لان میں جا لیا اور بالوں سے پکڑ کر بڑی بے دردی سے گھاس پر گرا دیا پھر اس نے سلاخ والا ہاتھ بلند کیا اور اسے نادیہ کے سر پر مارنے کی اداکاری کی۔ نادیہ چیخ کر گھاس پر تڑپنے لگی پھر ایک جھٹکے کے ساتھ اس کا جسم ساکت ہوگیا۔ فاروق نے جھک کر اس کے سینے پر کان رکھ دیا۔ وہ اس کے دل کی دھڑکن سننے کی اداکاری کر رہا تھا۔ پھر اس نے کھڑے ہو کر آستین سے اپنا چہرہ خشک کیا اور احتیاط سے چاروں طرف دیکھتا ہوا گاڑی کی طرف بڑھا۔ اس نے کار کی ڈکی کھولی اور نادیہ کو اپنی بانہوں میں اٹھا لیا۔ نادیہ نے چپکے سے آنکھیں کھول کر اپنے شوہر کی طرف دیکھا اور دھیرے سے بولی۔ تم نے میرے بال بڑی زور سے کھینچتے تھے۔ بہت درد ہو رہا ہے۔ خاموش پڑی رہو ورنہ سارے کئے کرائے پر پانی پھر جائے گا۔ وہ ہونٹ بھینچ کر سرگوشی میں بولا۔ اس سے اپنی ہنسی پر قابو پانا مشکل ہو رہا تھا۔ ویسے بھی یہ تمہارا منصوبہ تھا، اب بھگتو۔ نادیہ نے شوخ نظروں سے اس کی طرف دیکھا اور آنکھیں بند کر لیں۔ فاروق نے اسے ڈکی کے اندر ڈال دیا اور ڈکی بند کرکے اس میں تالا لگا دیا۔ فاروق گاڑی اسٹارٹ کرتے وقت سوچ رہا تھا کہ اب ان کی پڑوسن پولیس کو فون کرنے کے لئے دوڑ چکی ہوگی۔ تھوڑی دیر کے بعد اس کی گاڑی تیزی سے سڑک پر دوڑ رہی تھی۔ فاروق اب تک اس ڈرامے سے بہت لطف اندوز ہوتا رہا تھا لیکن اپنے گھر سے کچھ فاصلے پر آ کر اسے شرمندگی سی ہونے لگی۔ اس نے سوچا کہ انہیں اپنی نیک دل پڑوسن کے ساتھ ایسا ظالمانہ مذاق نہیں کرنا چاہئے تھا۔ نادیہ کے ساتھ وہ خود بھی بچہ بن گیا تھا۔ یہ حقیقت تھی کہ ان کی پڑوسن رعنا بھوت بن کر ان کے سر پر سوار ہوگئی تھی لیکن انہیں یہ مسئلہ کسی اور طریقے سے حل کرنا چاہئے تھا۔ اب فاروق کو اپنے کئے پر ندامت محسوس ہو رہی تھی۔ یہ علاقہ ان کے لئے بالکل نیا تھا۔ یہاں ان کا کوئی دوست رشتے دار نہیں تھا۔ یہی وجہ تھی کہ جب ان کی پڑوسن رعنا نے پہلے ہی دن ان کے گھر آنا جانا شروع کیا تو انہیں بہت اچھا لگا تھا۔ اس کی عمر چالیس برس کے لگ بھگ تھی۔ عام سی شکل و صورت کی رعنا بہت دھیمے اور میٹھے لہجے میں بات کرتی تھی۔ اس کی گفتگو میں اپنائیت ہوتی تھی۔ رفتہ رفتہ وہ ان کے قریب آگئی۔ یہاں تک کہ وہ ان کے ساتھ کھانا کھانے لگی۔ اس کا زیادہ تر وقت انہی کے گھر میں گزرنے لگا۔ شروع میں سامان کی سیٹنگ اور گھر کی آرائش وغیرہ کے لئے اس نے فرنیچر اور کھڑکیوں کے پردوں وغیرہ کی خریداری کے سلسلے میں نادیہ کی بہت مدد کی تھی۔ جب وہ اپنا نیا مکان مکمل طور پر سیٹ کرچکے تو انہیں رعنا کے تعاون اور مدد کی ضرورت نہیں رہی تھی لیکن سادہ لوح رعنا کی آمد و رفت میں کمی نہ آئی۔ وہ بدستور اپنا زیادہ تر وقت ان کے ہاں گزارتی رہی۔ اس کی ہر وقت کی موجودگی نادیہ اور فاروق کو بری لگنے لگی۔ وہ دونوں بہت کوفت محسوس کرتے۔ انہی دنوں انہیں رعنا کی اس بری عادت کا علم ہوا کہ وہ دونوں میاں بیوی کی ٹوہ میں لگی رہتی تھی، یعنی نگرانی کرتی تھی۔ اس انکشاف کے بعد وہ خود کو اس کے سامنے شرمندہ شرمندہ سا محسوس کرتے۔ رعنا وقت بے وقت ان کی خبر گیری بھی کرتی رہتی تھی۔ ایک دن اس نے اپنے گھر میں بیٹھے بیٹھے صبح سویرے نادیہ کے موبائل پر فون کیا۔ وہ پوچھنے لگی۔ کیا رات تم دونوں میں سے کسی کی طبیعت خراب تھی نہیں تو نادیہ نے جواب دیا۔ وہ رعنا کی بات سمجھ ہی نہیں پائی تھی۔ اس پر نیند کا غلبہ تھا اور وہ پوری طرح بیدار نہیں ہوئی تھی۔ لیکن آپ یہ کیوں پوچھ رہی ہیں میں نے رات کو دو بجے تمہارے غسل خانے کی بتی جلی ہوئی دیکھی تھی۔ رعنا نے کہا اور نادیہ دانت پیس کر رہ گئی۔ ایک دن اس نے بڑی سادگی سے پوچھا۔ رات تم دونوں کہاں گئے تھے۔ بہت دیر سے لوٹے تھے۔ ہم پکچر دیکھنے گئے تھے۔ نادیہ نے قدرے بے رخی سے جواب دیا۔ اتنی رات گئے تک باہر رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ شہر کے حالات سے تم لوگ واقف ہو پھر اس نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا۔ پھر تم دونوں خاصی دیر تک باتیں کرتے رہے۔ رات کو دیر تک جاگتے رہنے سے طبیعت خراب ہو جاتی ہے۔ رات آرام کے لئے ہوتی ہے۔ صبح تم دونوں کو آفس بھی جانا ہوتا ہے۔ کبھی وہ ٹھیک کھانے کے وقت آ دھمکتی۔ واہ بڑی عمدہ خوشبو آ رہی ہے۔ وہ کہتی۔ فاروق تم خوش نصیب ہو۔ نادیہ بہت اچھے اور لذیذ کھانے بناتی ہے۔ خاص طور پر اس کے ہاتھ کی پکائی ہوئی بریانی کا تو جواب نہیں۔ اس کی خوشبو مجھے اپنے گھر سے کھینچ لاتی ہے۔ پھر وہ کرسی گھسیٹ کر کھانے کی میز پر ان کے ساتھ بیٹھ جاتی۔ وہ دونوں اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتے رہتے لیکن کر بھی کیا سکتے تھے، سوائے صبر کے۔ رعنا انہیں کچھ روز پہلے تک بہت اچھی لگتی تھی لیکن اب معاملہ اس کے برعکس تھا لیکن وہ اس سے کس طرح کہہ سکتے تھے کہ اب انہیں اس کی ضرورت نہیں ہے اور وہ تنہائی چاہتے ہیں۔ بہرحال انہوں نے اشاروں کنایوں میں رعنا کو سمجھانے کی کوشش کی تھی، لیکن نادیہ نے دیکھا کہ وہ اشاروں کی زبان نہیں سمجھ رہی تو تنگ آ کر اس نے اوچھی حرکتیں شروع کردیں۔ کئی بار ایسا ہوا کہ انہوں نے رعنا سے بچنے کے لئے دروازہ ہی نہیں کھولا اور یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ وہ گھر پر موجود نہیں ہیں۔ ایسے مواقع پر انہیں یہ خیال بھی نہیں رہتا تھا کہ ان کی گاڑی باہر کھڑی ہوئی ہے۔ رعنا بے چاری کافی دیر تک کال بیل بجاتی رہتی پھر تھک کر اداس اداس واپس چلی جاتی۔ اس کے جانے کے فوراً بعد فاروق یا نادیہ کے موبائل فون پر رعنا کی کال آتی۔ آج میں نے بریانی پکائی تھی اور تم لوگوں کے لئے لائی تھی۔ وہ کہتی۔ دروازے کے سامنے ٹرے رکھی ہے اسے اٹھا لو، کہیں کوئی بلی اسے خراب نہ کردے۔ ایسے میں فاروق کو ہمیشہ اپنے طرز عمل پر افسوس ہوتا۔ وہ نادیہ سے کہتا کہ ہمیں رعنا کو کھانے کی دعوت دینی چاہئے لیکن نادیہ صاف انکار کردیتی۔ پھر دیر تک وہ اس موضوع پر بحث کرتے رہتے۔ اس میں کوئی شک نہیں تھا کہ ان کی پڑوسن ان سے بہت محبت کرنے لگی تھی، چونکہ وہ تنہا زندگی گزار رہی تھی اس لئے خلوص و محبت کی تلاش میں رہنا ایک فطری امر تھا۔ آخرکار ایک دن انہوں نے فیصلہ کر لیا کہ اس سلسلے میں کچھ نہ کچھ کرنا ہی پڑے گا۔ فاروق نادیہ بولی۔ تم نے محسوس کیا کہ ہماری پڑوسن ہماری زندگی میں تلخیاں گھول رہی ہے۔ اس نے ہمارا ذہنی سکون غارت کردیا ہے۔ وہ ہماری تنہائی کی دشمن ہے۔ لیکن وہ دل کی بہت اچھی ہے۔ فاروق نے کہا۔ یہی تو مشکل ہے۔ نادیہ نے گہرا سانس لے کر کہا۔ اگر وہ اتنی اچھی نہ ہوتی تو ہم اس سے صاف کہہ سکتے تھے کہ ہمیں اپنے گھر میں اس کا آنا جانا پسند نہیں ہے۔ وہ ہمیں بہت پسند کرتی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس کی وجہ محض اس کی تنہائی ہے۔ نادیہ نے جواب دیا۔ پھر وہ سوچتے ہوئے بولی۔ ہمیں کچھ ایسا کرنا ہوگا کہ جس کے نتیجے میں وہ ہم سے نفرت کرنے لگے۔ دونوں کافی دیر تک سوچتے رہے لیکن ان کے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں آئی جس پر عمل کر کے وہ رعنا کو خود سے بدظن کرسکیں۔ رعنا ایسی عورت تھی ہی نہیں جو کسی کی بات کا برا منائے۔ وہ ہر بات پر مسکراتی رہتی تھی۔ اس میں قوتِ برداشت بہت زیادہ تھی۔ آخرکار نادیہ کے ذہن میں ڈراما کرنے کا خیال آیا۔ کیا تمہیں یقین ہے کہ اس طرح رعنا بیگم سے ہماری جان چھوٹ جائے گی۔ فاروق نے پوچھا۔ سو فیصد نادیہ نے یقین سے کہا۔ پھر وہ اسے اپنے منصوبے سے آگاہ کرنے لگی۔ فاروق کو اب حیرت ہو رہی تھی کہ آخر وہ کس طرح نادیہ کا ساتھ دینے پر آمادہ ہوگیا تھا۔ یہ منصوبہ بلاشبہ قابل نفرت تھا۔ ایک محبت کرنے والی عورت کو اس طرح بے وقوف بنانا اس کی نظر میں انتہائی گری ہوئی حرکت تھی۔ نادیہ کا منصوبہ یہ تھا کہ فاروق ایک گھریلو جھگڑے میں اس کے ساتھ مارپیٹ کرے گا اور غصے میں اچانک لگنے والی ضرب سے گویا اس کی جان لے لے گا۔ رعنا اپنی آنکھوں سے قتل کا وہ منظر دیکھے گی اور پولیس کو ضرور اطلاع کرے گی۔ جب پولیس ان کے گھر آئے گی تو فاروق تعجب کے ساتھ اس واقعے سے لاعلمی ظاہر کرے گا۔ پھر تھوڑی ہی دیر بعد نادیہ گھر میں داخل ہوگی۔ ایسی صورت میں ان کی پڑوسن پولیس کے سامنے کیا وضاحت پیش کرے گی۔ ممکن ہے پولیس کے ساتھ مذاق کرنے کے جرم میں اسے ہرجانہ دے کر ان سے اپنی جان چھڑانی پڑے شاید وہ یہ بھی سمجھ جائے کہ اسے بے وقوف بنایا گیا ہے۔ اس طرح یقیناً اس ضرورت سے زیادہ محبت کرنے والی عورت سے ان کی جان ہمیشہ کے لئے چھوٹ جاتی۔ فاروق منصوبے کے مطابق تیزی سے مصروف سڑکوں سے گزرتا ہوا قدرے سنسان علاقے کی طرف جا رہا تھا۔ انہوں نے پہلے ہی ایک ایسی سڑک کا انتخاب کرلیا تھا جہاں ٹریفک اور لوگوں کی آمد و رفت نہ ہونے کے برابر تھی۔ وہاں فاروق کو گاڑی روک کر نادیہ کو ڈکی سے باہر نکالنا تھا۔ ظاہر ہے یہ کام کسی ایسی جگہ انجام دیا جاسکتا تھا جہاں دیکھے جانے کا خدشہ نہ ہو، ورنہ لوگ انہیں عجیب نظروں سے دیکھتے۔ ممکن ہے کوئی تجسس پسند شخص ان کی اس حرکت کا سبب معلوم کرنے کے لئے سوالات بھی کرتا۔ فاروق اپنے خیالوں میں اس طرح ڈوبا ہوا تھا کہ وہ اس موڑ سے گزرتا چلا گیا جہاں سے اسے سنسان گلی میں جا کر نادیہ کو ڈکی سے باہر نکالنا تھا۔ جیسے ہی اسے اپنی غلطی کا احساس ہوا، اس نے پوری قوت سے بریک لگائے۔ وہ اناج کی بوریوں سے بھرے ہوئے اس ٹرک سے بے خبر تھا جو اس کے پیچھے آ رہا تھا۔ اس نے جیسے ہی بریک لگا کر گاڑی روکی، ٹرک پوری رفتار سے اس کی گاڑی سے ٹکرایا۔ فاروق کا سر ونڈ اسکرین سے جا ٹکرایا اور اسٹیئرنگ اس کے ہاتھ سے چھوٹ گیا۔ اس کی کار ایک جھٹکے سے اچھلی اور سڑک سے اتر کر دور تک گھسٹتی چلی گئی۔ کئی منٹ تک فاروق کا سر چکراتا رہا۔ جب اس کے حواس کچھ درست ہوئے تو اس نے اپنے جسم کو ٹٹول کر دیکھا۔ اسے کوئی خاص چوٹ نہیں آئی تھی۔ اس نے دروازہ کھول کر باہر نکلنے کی کوشش کی۔ کسی نے سہارا دے کر گاڑی سے اترنے میں اس کی مدد کی۔ وہ ٹرک کا ڈرائیور تھا۔ تم ٹھیک ہے صاب اس نے پوچھا۔ اس کے لہجے سے تشویش، گھبراہٹ اور خوف نمایاں تھا۔ ہاں مم میں ٹھیک ہوں۔ فاروق نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ پھر گھوم کر گاڑی کے نقصان کا جائزہ لینے لگا۔ ٹرک کی زبردست ٹکر سے گاڑی کا پچھلا حصہ بری طرح پچک گیا تھا۔ ڈکی کی حالت دیکھ کر فاروق کا سانس رک گیا۔ اچانک اسے اپنی بیوی کا خیال آیا۔ وہ شاک کے باعث وقتی طور پر اسے فراموش کر بیٹھا تھا۔ یکایک اس کا چہرہ خوف اور دہشت سے سفید پڑگیا۔ آئو صاب میں آپ کو کسی اسپتال لے چلتا ہوں۔ ٹرک ڈرائیور نے اس کی بدلتی ہوئی کیفیت کو دیکھتے ہوئے کہا۔ شاید آپ کو اندر کی چوٹ آئی ہے۔ فاروق اسے کیسے بتاتا کہ اسے کوئی اندرونی چوٹ نہیں آئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کرے۔ اس کا ذہن ابھی تک کچھ سوچنے سمجھنے کے قابل نہیں ہوا تھا۔ تمہیں سامنے کچھ نظر نہیں آتا۔ فاروق نے سلگتی نگاہوں سے ڈرائیور کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اندھادھند گاڑی چلاتے ہو اور سامنے والے کو روند کر رکھ دیتے ہو۔ ہمارا کیا غلطی صاب ڈرائیور گھگھیایا۔ آپ نے سیدھی سڑک پر چلتے چلتے اچانک بریک لگایا جس کا کوئی وجہ بھی نئیں تھا۔ آپ کے سامنے کوئی نئیں آیا، کوئی گاڑی نئیں تھا۔ پھر بھی آپ نے ایسا خطرناک بریک لگایا اس نے اپنے مخصوص لہجے میں کہا۔ فاروق نے ہونٹ بھینچ کر ڈکی کی طرف یکھا۔ اندر سے کسی قسم کی آواز نہیں آ رہی تھی۔ وہ بے بسی کے عالم میں کانپنے لگا۔ اب وہ جلد از جلد وہاں سے جانا چاہتا تھا تاکہ ڈکی کھول کر نادیہ کو دیکھ سکے۔ ظاہر ہے وہ ٹرک ڈرائیور کے سامنے اسے نہیں کھول سکتا تھا۔ وہ یہ کس طرح ثابت کرتا کہ اس حادثے سے پہلے نادیہ ڈکی میں زندہ سلامت موجود تھی۔ ڈکی کی حالت دیکھتے ہوئے اسے نادیہ کے زندہ رہنے کی ایک فیصد بھی امید نہیں رہی تھی۔ اگر وہ زندہ ہوتی تو یہ ایک معجزہ ہی ہوتا۔ صاب ہم آپ کی گاڑی ری پیئر کرا دے گا۔ ٹرک ڈرائیور نے عاجزی سے کہا اور ایک کارڈ اس کی طرف بڑھایا۔ یہ ٹرک اس کمپنی کا ہے۔ آپ کی گاڑی پر جتنا بھی خرچا آئے گا وہ کمپنی دے گا۔ نہیں میں خود ہی اپنی گاڑی ٹھیک کروالوں گا۔ فاروق نے مضطربانہ لہجے میں کہا۔ تمہارے ٹرک کو تو کوئی نقصان نہیں پہنچا میرے ٹرک کو بلڈوزر بھی ٹکر مارے گا تو اس کا کچھ نہیں بگڑے گا۔ اب ٹرک ڈرائیور نے دھیمی مسکراہٹ کے ساتھ کہا۔ فاروق کے مفاہمانہ رویے نے اسے حوصلہ دیا تھا اور اس کا خوف زائل ہوگیا تھا۔ فاروق نے چندھیائی ہوئی آنکھوں سے ٹرک کی طرف دیکھا۔ واقعی بھاری بھرکم ٹرک کا کچھ نہیں بگڑا تھا۔ تم جا سکتے ہو۔ اس نے ٹرک ڈرائیور سے کہا اور اپنی گاڑی میں جا بیٹھا۔ وہ علاقہ گوکہ سنسان تھا لیکن وقفے وقفے سے گزرنے والی گاڑیاں وہاں رکنے لگی تھیں اور حادثے والی جگہ کے قریب لوگ بھی جمع ہونے لگے تھے۔ فاروق نے گاڑی اسٹارٹ کی اور اسے سڑک سے اتار کر ایک گلی میں لے آیا۔ کافی آگے جا کر اس نے اردگرد کا جائزہ لے کر گاڑی روکی اور جب وہ ڈکی کا تالا کھولنے لگا تو چابی اس کی لرزتی ہوئی انگلیوں سے پھسل کر گر پڑی۔ اس نے چابی اٹھائی اور دوبارہ ڈکی کھولنے کی کوشش کی۔ اس کا پورا وجود کانپ رہا تھا۔ ڈکی کے اندر نادیہ کا چہرہ دیکھ کر وہ دھک سے رہ گیا۔ وہ اس کے ساکت بدن کا غیرفطری انداز دیکھ کر سمجھ گیا کہ نادیہ اب ہر قسم کی مدد سے بے نیاز ہو چکی ہے۔ اس نے نادیہ کو چھو کر دیکھا اور اس کا چہرہ اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا۔ نادیہ کے ہونٹوں سے خون کی ایک لکیر نکل کر گردن سے ہوتی ہوئی فرش پر گر رہی تھی۔ ڈکی میں بچھے ہوئے قالین کا ایک حصہ سرخ ہو رہا تھا۔ اس کے نتھنوں سے بھی خون کی بوندیں ٹپک رہی تھیں۔ فاروق نہ جانے کتنی دیر آنسو بہاتا ہوا نادیہ کو دیکھتا رہا۔ وقت کی رفتار گویا رک گئی تھی۔ اسے ہر چیز غیر فطری محسوس ہو رہی تھی۔ اپنا وجود، گاڑی، نادیہ کی لاش اسے یہ سب کچھ خواب معلوم ہو رہا تھا۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ان کی ہنستی بستی جنت اچانک اس طرح اجڑ جائے گی، البتہ اس کے سامنے کا ہولناک منظر اسے حقیقت کا احساس دلا رہا تھا کہ اس کی خوبصورت جیون ساتھی ہمیشہ کے لئے اس کا ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ نن نادیہ یہ ہے تمہارے ڈرامے کا المیہ انجام۔ وہ سرگوشی میں گویا مردہ نادیہ سے مخاطب ہوا۔ ڈرامے کا خیال آتے ہی اس کے ذہن میں دوسرے اندیشوں نے یلغار کردی۔ اس نے رعنا کو دکھانے کے لئے محض اداکاری کی تھی۔ وہ ایک لمحے کے لئے بھی یہ نہیں سوچ سکتا تھا کہ رعنا نے یہ ڈراما نہیں دیکھا ہوگا بلکہ عین ممکن ہے کہ اب تک پولیس اس کے گھر پہنچ چکی ہوگی۔ رعنا نے پولیس کے سامنے تفصیل سے قتل کا منظر بیان کیا ہوگا اور اب پولیس اس کے گھر پر اس کی واپسی کا انتظار کر رہی ہوگی۔ یہ بھی ممکن ہے کہ پولیس نے شہر کے مختلف تھانوں میں اس کے فرار کی اطلاع پہنچا دی ہو۔ یہ بھی تو ہوسکتا ہے کہ رعنا نے واقعی یہ ڈراما نہ دیکھا ہو۔ اس کے ذہن میں خیال ابھرا۔ اس نے ڈکی بند کی اور آہستہ آہستہ گاڑی چلاتا ہوا گھر کی طرف چل دیا۔ اس پر عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ اس نے خود کو مکمل طور پر قسمت اور حالات کے حوالے کرنے کا فیصلہ کر لیا۔ اگر گھر پر پولیس اس کی منتظر ہوگی تو وہ پوری روداد سنا کر خود کو گرفتاری کے لئے پیش کردے گا۔ اس نے دل ہی دل میں فیصلہ کرلیا کہ خواہ اس کی کہانی پر یقین کیا جائے یا نہ کیا جائے، وہ سب کچھ صاف صاف بتا دے گا۔ وہ تمام راستے خود کو پولیس کا سامنا کرنے کے لئے تیار کرتا رہا۔ جب وہ گھر پہنچا تو وہاں اسے کوئی غیر معمولی بات نظر نہیں آئی۔ وہاں کوئی نہیں تھا۔ اسے ذہنی طور پر ایک زبردست جھٹکا لگا۔ وہ پورے راستے یہی سوچتا رہا تھا کہ اسے پولیس کو قائل کرنے کے لئے کیا کیا جتن کرنے ہوں گے ان کے تشدد سے بچنے کے لئے شاید اچھی خاصی رقم بھی خرچ کرنی پڑے گی۔ وکیل کا انتظام کرنا ہوگا جو اس کو بے گناہ ثابت کرنے کے لئے عدالت میں اس کا دفاع کرے گا۔ پولیس سب سے پہلے نادیہ کی لاش پوسٹ مارٹم کے لئے بھجوائے گی پھر اسے تھانے لے جا کر لاک اپ میں بند کردیا جائے گا مگر ایسا کچھ بھی نہ ہوا۔ وہ پریشانی، غم و اندوہ کے ساتھ ساتھ الجھن کا بھی شکار ہوگیا۔ اس نے گاڑی گیراج میں بند کرکے گیراج کے دروازے پر تالا ڈال دیا۔ نادیہ کی لاش ہنوز ڈکی میں تھی۔ پورے گھر پر قبرستان جیسا سناٹا طاری تھا۔ خالی مکان اسے کاٹ کھانے کو دوڑ رہا تھا۔ پھر وہ گویا تن بہ تقدیر ہو کر بیٹھ گیا اور سگریٹ پر سگریٹ پھونکتا رہا۔ رفتہ رفتہ اس کے سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کام کرنے لگی۔ اسے گمان ہونے لگا کہ شاید رعنا نے کچھ نہیں دیکھا۔ حالات اس قدر خوفناک نہیں تھے جتنا وہ تصور کر رہا تھا۔ کسی طرح نادیہ کی لاش سے چھٹکارا پا کر آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جاسکتا تھا۔ اب وہ رات کی تاریکی پھیلنے کا انتظار کرنے لگا۔ شام کے سائے بڑھنے لگے۔ رفتہ رفتہ تاریکی چھانے لگی۔ جب اچانک کال بیل بجی تو فاروق بری طرح سے اچھل پڑا۔ اس نے اٹھ کر لائٹ جلائی اور لڑکھڑاتے قدموں سے دروازے کی طرف بڑھا۔ اس کے سامنے رعنا کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر مسکراہٹ اور ہاتھوں میں کھانے کی ٹرے تھی۔ کل ہی میں نے شاہی دسترخوان نامی کتاب خریدی تھی۔ اس نے حسب معمول مسکراتے ہوئے کہا۔ اور آج میں نے اس میں درج چند ترکیبوں پر عمل کر ڈالا ہے۔ تم یہ کھانا کھا کر اپنی رائے دو کہ میں کس حد تک کامیاب رہی ہوں۔ فاروق نے فوراً محسوس کر لیا کہ رعنا کے الفاظ موجودہ حالات سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتے۔ تمہاری طبیعت تو ٹھیک ہے رعنا نے اسے گم صم سا دیکھ کر محبت اور اپنائیت سے پوچھا۔ نہیں اس نے مختصر جواب دیا۔ اب اس میں جھوٹ بولنے کی صلاحیت نہیں رہی تھی۔ وہ خود کو بہت ٹوٹا پھوٹا محسوس کر رہا تھا۔ تم نے دوپہر میں بھی کچھ نہیں کھایا ہوگا نہیں زندہ رہنے کے لئے کھانا بہت ضروری ہے رعنا نے کہا۔ کیا تم مجھے اندر آنے کو نہیں کہوگے ہوں ہاں وہ گڑبڑا گیا۔ وہ غیرارادی طور پر دروازے میں اس کا راستہ روکے کھڑا تھا۔ وہ تھکے تھکے سے انداز میں ایک طرف ہوگیا۔ رعنا اندر داخل ہوگئی۔ وہ سیدھی کچن میں گئی۔ فاروق برتنوں کی کھنکھاہٹ سنتا رہا۔ تھوڑی دیر بعد رعنا نے کھانا میز پر لگا دیا۔ فاروق خاموشی سے کھانے کی میز پر بیٹھ گیا۔ رعنا اس کے سامنے بیٹھی تھی۔ اس دوران رعنا نے ایک مرتبہ بھی اس سے نادیہ کی غیر موجودگی کے بارے میں سوال نہیں کیا۔ رعنا فاروق نے کچھ کہنے کی کوشش کی۔ پہلے ٹھیک سے کھانا کھائو، پھر بولنا۔ اس نے بریانی کا چمچہ منہ میں لیا لیکن اس کے لئے اسے حلق سے اتارنا مشکل ہوگیا۔ رعنا تم یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہو کسی کو تو تمہاری دیکھ بھال کرنی ہی پڑے گی نا۔ نادیہ چلی گئی ہمیشہ کے لئے۔ فاروق نے بھرائی ہوئی آواز میں کہا۔ مجھے معلوم ہے۔ تمہیں معلوم ہے فاروق کے ہونٹوں سے لرزتی ہوئی سرگوشی نما آواز نکلی۔ پھر ان دونوں کی نظریں ملیں۔ فاروق کو ایسا محسوس ہوا جیسے رعنا کی آنکھیں اسے کوئی خاص پیغام دے رہی ہیں۔ تم کھانا تو کھائو۔ تم نے ہاتھ کیوں روک دیا رعنا نے کہا۔ مجھے بھوک نہیں ہے۔ ہاں ایسے میں بھوک مر جاتی ہے۔ رعنا نے گہرا سانس لیتے ہوئے کہا۔ بہرحال تمہیں کچھ نہ کچھ ضرور کھانا چاہئے۔ رعنا کو حالات کی سنگینی کا قطعاً احساس نہیں تھا۔ وہ اس طرح باتیں کر رہی تھی جیسے کچھ بھی غیر معمولی نہیں ہوا۔ فاروق نے اسے گھورتے ہوئے کہا۔ تم سمجھتی کیوں نہیں نادیہ ہمیشہ کے لئے چلی گئی ہے وہ مر چکی ہے۔ میں جانتی ہوں۔ رعنا نے کہا۔ میں نے سب کچھ دیکھا تھا۔ تم نے دیکھا تھا ہاں رعنا نے سر جھکا لیا۔ تم دونوں کا زبردست جھگڑا ہوا تھا۔ پھر تم اسے گھسیٹتے ہوئے لے گئے تھے۔ فاروق نے چکراتے ہوئے ذہن کے ساتھ سوچا کہ آخر رعنا چاہتی کیا ہے اس نے میز پر رکھے ہوئے کھانے کی طرف اس طرح دیکھا جیسے اس میں زہر ملا ہوا ہو۔ تمہیں سب کچھ معلوم ہے اس نے بمشکل پوچھا۔ ہاں، سب کچھ۔ رعنا شاید تمہیں میری بات پر یقین نہ آئے۔ اس نے مدافعانہ لہجے میں کہا۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ وہ ایک ڈراما تھا، محض ایک مذاق اور کچھ نہیں۔ میرے اور نادیہ کے درمیان تم نے جو جھگڑا ہوتے ہوئے دیکھاتھا وہ حقیقی نہیں تھا۔ جب میں اس کے سر پر سلاخ مار رہا تھا تو وہ ہنس رہی تھی۔ تم قریب ہوتیں تو اس کی ہنسی خود سن سکتی تھیں۔ جب میں نے اسے ڈکی میں ڈالا تو وہ زندہ تھی اور شکایت کر رہی تھی کہ میں نے اس کے بال اس قدر زور سے کھینچے تھے کہ وہ سر میں درد محسوس کر رہی تھی لیکن پھر اس نے پوری تفصیل سے رعنا کو حادثے کا واقعہ سنا دیا۔ رعنا بے چینی سے پہلو بدلنے لگی۔ صاف ظاہر تھا کہ اس نے فاروق کی بیان کی ہوئی کہانی پر یقین نہیں کیا تھا۔ رعنا میں قسم کھا کر کہتا ہوں کہ تمہیں قسم کھانے کی ضرورت نہیں ہے۔ رعنا نے اس کی بات کاٹتے ہوئے کہا۔ اس وقت ہمیں یہ سوچنا ہے کہ ہمارا آئندہ اقدام کیا ہونا چاہئے کیا نادیہ کی لاش اب تک گاڑی میں موجود ہے ہاں۔ ٹھیک ہے رعنا نے سوچ میں ڈوبی ہوئی آواز میں کہا۔ اب ہم دونوں مل کر اس واقعے کو حادثے کا رنگ دے سکتے ہیں۔ نہیں۔ فاروق نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ پولیس کو معلوم ہو جائے گا کہ نادیہ کی موت کو کتنے گھنٹے گزر چکے ہیں اور تمہاری باتوں سے اندازہ ہوتا ہے کہ تم نے اب تک میری بات پر یقین نہیں کیا۔ شاید تم اس حادثے کو حادثہ تسلیم کرنے کو تیار ہی نہیں ہو۔ میں اسے حادثہ کیسے تسلیم کرلوں فاروق رعنا نے کہا۔ جب تم نے لوہے کی سلاخ سے نادیہ کے سر پر ضربیں لگائی تھیں تو یہ سارا منظر میں نے اپنے باورچی خانے کی کھڑکی سے صاف طور پر دیکھا تھا۔ تم بہت غصے میں تھے۔ ممکن ہے تم اسے محض دھمکانا چاہتے تھے لیکن اس نے تمہیں مزید غصہ دلایا اور تم اپنے جذبات پر قابو نہ رکھ سکے۔ ایسے میں تمہیں ان ضربات کے کاری ہونے کا بھی احساس نہیں رہا۔ رعنا ایک لمحے کے لئے خاموش ہوئی۔ فاروق ٹکٹکی باندھے اس کی طرف دیکھتا رہا۔ رعنا نے میز پر رکھے ہوئے گلاس سے دو گھونٹ پانی پیا اور سلسلہ کلام کو آگے بڑھاتے ہوئے بولی۔ مجھے خدشہ تھا کہ ایک نہ ایک دن کوئی ناخوشگوار واقعہ ضرور پیش آئے گا شاید نادیہ اصل معاملے کی تہہ تک پہنچ گئی تھی کک کونسا معاملہ اب بنو مت رعنا نے شرمیلے انداز میں کہا۔ میں نے پہلے ہی دن تمہاری آنکھوں میں اپنے لئے پسندیدگی کی جھلک محسوس کر لی تھی تم بھی مجھے اچھے لگے تھے میں تنہائیوں کا شکار تھی لیکن تمہیں دیکھ کر اور تمہاری نظروں میں اپنے لئے ایک خاص جذبے کو محسوس کرکے جیسے دوبارہ جی اٹھی تھی۔ میں یہاں صرف تمہاری خاطر آتی تھی۔ مجھے معلوم تھا کہ نادیہ کو میرا آنا جانا ایک آنکھ نہیں بھاتا لیکن تم نے ہمیشہ میرے ساتھ نرمی اور محبت کا سلوک کیا۔ میری بے وقت کی مداخلت کو تم نے ہمیشہ پسندیدگی کی نظر سے دیکھا، جبکہ نادیہ مجھے دیکھتے ہی تیوری چڑھا لیتی تھی۔ میں نے تم دونوں کی باتیں بھی سنی تھیں۔ تم مجھے کھانے پر مدعو کرنا چاہتے تھے اپنے قریب دیکھنا چاہتے تھے لیکن ظاہر ہے یہ سب کچھ نادیہ کو کہاں گوارا ہوسکتا تھا۔ یہ فطری بات ہے کوئی بیوی کیسے برداشت کرسکتی ہے کہ اس کا شوہر کسی دوسری عورت کو التفات کی نظر سے دیکھے۔ میں سمجھتی ہوں کہ تمہارے جھگڑے کی وجہ میں ہی تھی لیکن میں یہ سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ تم میری خاطر اتنا بڑا قدم اٹھا لو گے میں کھڑکی میں بیٹھی سب کچھ دیکھ رہی تھی میں وہ منظر کبھی فراموش نہیں کرسکتی۔ رعنا عجیب سی بے خودی کے عالم میں بولتی چلی گئی۔ فاروق حیرت سے گنگ بیٹھا اس کی طرف دیکھتا رہا۔ اس پر آج یہ انکشاف ہوا کہ رعنا کسی نفسیاتی عارضے کا شکار ہے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ جواب میں کیا کہے۔ وہ ہنسنا چاہتا تھا لیکن ہنس بھی نہیں سکتا تھا۔ رعنا وہ باتیں کر رہی تھی جو اس کے خواب و خیال میں بھی نہیں تھیں۔ تم نے اس لئے پولیس کو اطلاع نہیں دی آخرکار طویل خاموشی کے بعد فاروق نے گہرا سانس لے کر اس سے پوچھا۔ میں تمہارے خلاف بھلا کسی سے کچھ کہہ سکتی ہوں۔ رعنا نے میٹھی میٹھی نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا، پھر پوچھا۔ تم نے نادیہ کی لاش کے بارے میں کیا سوچا ہے کچھ سمجھ میں نہیں آتا خیر، تم اس سلسلے میں بالکل فکر نہ کرو۔ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ رعنا نے آگے جھکتے ہوئے اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ دیا۔ رات کچھ گہری ہو جائے تو ہم دونوں مل کر اس کی لاش یہیں لان میں دفن کردیں گے۔ اس کے والدین ملائیشیا میں رہتے ہیں نا ہاں۔ فاروق نے دل میں اٹھنے والی ٹیس پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔ صرف والد اور ایک بھائی اس کی والدہ کا انتقال تو بہت پہلے ہوگیا تھا۔ ہاں۔ نادیہ نے مجھے بتایا تھا۔ رعنا نے اٹھتے ہوئے کہا۔ اس کے والد اور بھائی کو سنانے کے لئے بھی کوئی کہانی تیار کرنی پڑے گی لیکن یہ بعد کی بات ہے۔ فی الحال ہمیں نادیہ کی لاش سے چھٹکارا پانا ہے۔ پھر اس بارے میں بھی سوچیں گے۔ وہ برتن سمیٹ کر باورچی خانے میں چلی گئی۔ فاروق کا ذہن خیالات کے بھنور میں چکراتا رہا۔ وہ رعنا کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا۔ اس کا ماضی، اس کی خواہشات، جذبات اور احساسات اسے کچھ بھی معلوم نہیں تھا۔ نہ جانے اس نے فاروق کے رویے کو التفات کیوں سمجھ لیا تھا۔ بہرحال اسے اس بات کا یقین ہو چلا تھا کہ وہ نفسیاتی مریضہ ہے اور خیالات کی دنیا میں رہنے والی ایک ایسی عورت ہے جو اپنے گرد خوش فہمی، خوش خیالی اور تصورات کا حصار قائم کئے رہتی ہے۔ فاروق کا ذہن اب تیزی سے کام کرنے لگا۔ اسے رعنا سے کسی طرح اپنی جان چھڑانی تھی۔ فی الحال اسے اس کی مدد کی ضرورت تھی۔ وہ جلد ہی یہ مکان چھوڑ کر جا سکتا تھا۔ وہ کرسی کے پشتے پر سر ٹکا کر خیالات کے بھنور میں ڈوبتا اور ابھرتا رہا۔ میں جا رہی ہوں۔ رعنا کی آواز نے اسے چونکا دیا۔ میرا انتظار کرنا۔ میں گیارہ بجے کے بعد آئوں گی پھر مل کر لان میں گڑھا کھودیں گے اور ہاں، وہ سلاخ کہاں ہے یہیں کہیں ہوگی۔ اس دیا۔ اسے تلاش کرو۔ اسے بھی نادیہ کی لاش کے ساتھ دفن کرنا ہوگا۔ اس کی کیا ضرورت ہے تم سمجھتے کیوں نہیں فاروق رعنا نے تشویش سے کہا۔ وہ آلۂ قتل ہے۔ اسے ٹھکانے لگانا ضروری ہے۔ اف خدایا فاروق کراہ کر سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ میں کتنی بار تم سے کہہ چکا ہوں کہ میں نے نادیہ کے سر پر سلاخ ماری ہی نہیں تھی۔ میں نے تو سلاخ مارنے کی اداکاری کی تھی۔ رعنا کھڑکی سے تمہیں بے شک یہی نظر آیا ہوگا کہ میں نادیہ کے سر پر لوہے کی سلاخ مار رہا ہوں لیکن یہ صرف ڈراما تھا۔ یقین کرو رعنا ہم دونوں نے مل کر ایک ڈراما تیار کیا تھا۔ یہ صرف تمہیں بے وقوف بنانے کے لئے مم میرا مطلب ہے یہ سب کچھ ہم نے تم سے ایک دلچسپ مذاق کرنے کے لئے کیا تھا۔ ہمیں نہیں معلوم تھا کہ یہ مذاق اس قدر ہولناک حادثے میں تبدیل ہو جائے گا۔ وہ مذاق دلچسپ مذاق تم مجھے بے وقوف بنانے کے لئے کر رہے تھے۔ رعنا نے بے یقینی سے فاروق کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ آخر تم مجھے کیوں بے وقوف بنانا چاہتے تھے نن نہیں فاروق گڑبڑا گیا اور دل ہی دل میں خود کو ملامت کی کہ ایک غلط موقع پر انتہائی نامناسب لفظ اس کی زبان سے کیوں نکل گیا۔ رعنا میں بہت پریشان ہوں اور ایسے میں زبان سے الٹی سیدھی بات نکل ہی جاتی ہے۔ میرا مطلب تھا خیر، جانے دو ان باتوں کو۔ رعنا نے اس کی بات کاٹی۔ صفائی پیش کرنے کی کوئی ضرورت نہیں مجھے کوئی سمجھنے کی کوشش ہی نہیں کرتا تم بھی یہ کہتے ہوئے اس کی آنکھیں نم ہوگئیں۔ پھر اس نے گہری سانس لے کر کہا۔ تم کیا بتانا چاہتے تھے فاروق نے سوچا کہ بار بار جھوٹ بولنے سے بہتر ہے کہ وہ اسے سب کچھ صاف صاف بتا دے۔ اب رعنا سے کچھ چھپانا فضول تھا۔ اگر وہ خود کو ملوث کرکے قتل جیسے سنگین جرم میں اس کا ساتھ دینے کے لئے تیار تھی تو اسے حقائق بتانے میں کوئی ہرج نہیں تھا۔ اس سے ایک فائدہ اور بھی تھا۔ رعنا کو احساس ہو جاتا کہ وہ ان کے لئے کس قدر تکلیف کا باعث بنی ہوئی تھی۔ وہ مروت کی وجہ سے اس کا اظہار نہیں کر پاتے تھے۔ فاروق اپنی باتوں کا ردعمل رعنا کے چہرے پر نہیں دیکھ سکا۔ اس میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ وہ اس سے نظریں ملا کر بات کرسکتا۔ جب اس نے اپنی بات مکمل کی تو چند لمحوں تک کمرے میں سناٹا طاری رہا۔ رعنا نے گہری سانس لے کر خاموشی کو توڑا۔ اچھا، اب میں چلتی ہوں۔ تم بھی تھوڑا سا آرام کرلو۔ وہ چلی گئی۔ فاروق صوفے پر دراز ہوگیا۔ وہ بہت تھکاوٹ محسوس کر رہا تھا۔ اس کا ذہن آج کے واقعے کو اب تک قبول کرنے پر آمادہ نہیں تھا۔ اس کے لئے یہ سوچ ہی بڑی تکلیف دہ تھی کہ نادیہ ہمیشہ کے لئے اس سے جدا ہو چکی ہے۔ اسے یہ خیال بھی بے چین کر رہا تھا کہ وہ نادیہ کے والد اور اس کے بھائی کا سامنا کیسے کر پائے گا۔ وہ انہیں نادیہ کے غائب ہونے کے بارے میں کیا کہانی سنائے گا۔ انہی خیالات کی یلغار میں اسے اونگھ سی آگئی۔ وہ کچھ دیر کے لئے غافل سا ہوگیا۔ اچانک کسی کے جھنجوڑنے پر اس کی آنکھ کھل گئی۔ کمرے کی بتی جل رہی تھی اور اس کے سامنے چند قدم کے فاصلے پر رعنا کھڑی تھی۔ اس کے چہرے کے تاثرات دیکھ کر فاروق دہل گیا۔ رعنا کے ہاتھ میں ریوالور تھا اور اس کا رخ فاروق کے سر کی طرف تھا۔ رر رعنا فاروق حیرت اور دہشت سے ہکلا کر رہ گیا۔ سیدھے ہو کر بیٹھو اور یہ لو کاغذ قلم۔ رعنا نے تحکمانہ لہجے میں کہا۔ لل لیکن کک کاغذ قلم میں جو کہوں لکھتے جائو۔ کیا تم پاگل ہوگئی ہو رعنا فاروق نے خود کو سنبھالنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ وہ واقعی بہت خوفزدہ ہوگیا تھا۔ ریوالور سے زیادہ خوفناک رعنا کے چہرے کے تاثرات تھے۔ فضول باتیں مت کرو اور لکھو۔ رعنا نے کہا۔ نادیہ تمہارے ساتھ بے وفائی کر رہی تھی۔ وہ چھپ چھپ کر کسی سے ملتی تھی۔ جب تم نے اس سے بازپرس کی تو وہ چیخنے چلانے لگی۔ تم نے مشتعل ہو کر اسے قتل کردیا۔ یہ بھی لکھو کہ اس کی لاش کہاں ہے جلدی کرو۔ رعنا یہ سب کچھ تم لکھو فاروق نے لرزتے ہاتھوں سے قلم سنبھالا اور لکھنے لگا۔ پھر کاغذ رعنا کی طرف بڑھا دیا۔ اس نے جلدی سے اسے پڑھا اور مطمئن انداز میں مسکرائی۔ فاروق کو وہ مسکراہٹ بھی بڑی خوفناک محسوس ہوئی۔ خوب فاروق کی سماعت سے رعنا کی آواز ٹکرائی۔ وہ کہہ رہی تھی۔ یہ ریوالور جو تم دیکھ رہے ہو، تمہیں پتا ہے یہ کس کا ہے شش شاید مم میرا ہی ہے۔ شاید نہیں، یقیناً یہ تمہارا ہی ہے۔ وہ بولی۔ اور میں اسی سے تمہیں گولی مارنے لگی ہوں۔ نن نہیں رر رعنا تم ایسا نہیں کرسکتیں۔ فاروق دہشت زدہ ہو کر بولا۔ کیوں میں ایسا کیوں نہیں کرسکتیں۔ رعنا اس کی کیفیت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے بولی۔ تمہاری اس تحریر کی موجودگی میں پولیس اسی نتیجے پر پہنچے گی کہ پہلے تم نے اپنی بیوی کو قتل کیا پھر خودکشی کرلی۔ پپ پہلے تم نے پولیس کو اطلاع نہیں دی اور اب یہ سب کچھ کیوں کر رہی ہو فاروق نے وحشت زدہ لہجے میں پوچھا۔ اس کے ذمہ دار تم خود ہو فاروق میں تو ہر طرح سے تمہاری مدد کرنا چاہتی تھی لیکن تم نے میری خودداری اور انا کو ٹھیس پہنچائی۔ تمہاری ان باتوں نے مجھے گویا عرش سے لا کر فرش پر پٹخ دیا تھا کہ تمہارے دل میں میرے لئے کبھی وہ جذبہ پیدا نہیں ہوا جس کا میں تصور کرتی تھی میں یہ بھی برداشت کر جاتی لیکن تمہیں مجھے بے وقوف بنانے کی کوشش نہیں کرنی چاہئے تھی۔ تم اندازہ ہی نہیں کرسکتے کہ مجھے یہ سن کر کس قدر صدمہ ہوا تھا کہ نادیہ کے ساتھ تم بھی اس ڈرامے میں شریک تھے۔ تم دونوں کا جھگڑا، ایک دوسرے پر چیخنا، پھر تمہارا بھاگ کر گیراج میں جانا اور مشتعل ہو کر آہنی سلاخ سے نادیہ کو ختم کر دینا یہ سب کچھ اتنا حقیقی اور سنسنی خیز تھا کہ مجھے اس کے مصنوعی ہونے کا گمان تک نہ ہوسکا لیکن اب تم نے خود اعتراف کرلیا ہے اب مجھے معلوم ہوگیا ہے کہ تمہاری نظر میں میری کیا اوقات تھی۔ تم مجھے بے وقوف بنانے کے لئے ڈراما کر رہے تھے تمہیں کم از کم تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا۔ اچانک کمرہ گولی کے دھماکے سے گونج اٹھا۔ تمہیں ایسا نہیں کرنا چاہئے تھا فاروق رعنا کی آنکھوں میں آنسو آگئے۔ تم نے بہت غلط کیا میں نے اپنے شوہر کو نہیں بخشا تھا، جس نے مجھے اندھیرے میں رکھ کر، مجھے بے وقوف بنا کر اپنی سیکرٹری کے ساتھ وقت گزارنے کی کوشش کی تھی۔ گولی فاروق کی کنپٹی پر لگی تھی۔ وہ فوراً مر گیا تھا۔ رعنا نے آگے بڑھ کر اس کی پیشانی پر بوسہ دیا اور ریوالور سے اپنی انگلیوں کے نشان صاف کرنے لگی۔ عورت اپنی انا پر حملہ کبھی برداشت نہیں کرتی، مجھ جیسی عورت تو ہرگز نہیں۔ وہ بڑبڑا رہی تھی۔ میں تم سے محبت کرنے لگی تھی۔ میں تمہارے جرم پر پردہ ڈال کر ہمیشہ کے لئے تمہاری بن کر رہنا چاہتی تھی میں سمجھتی تھی کہ تم بھی اس کی آواز بھرا گئی وہ اپنی سسکیوں پر قابو پانے کی کوشش کرتی ہوئی پلٹی اور تقریباً دوڑتی ہوئی باہر نکل گئی۔ ختم شد
null
null
null
null
445
https://www.urduzone.net/raz-muhabbat-complete-urdu-story/
بس سے اتر کر مائرہ تیزی سے گھر کی طرف چل دی۔ شادی میں صرف چند روز باقی تھے اور ابھی تک بہت سے کام کرنے باقی تھے۔ مائرہ کے ہاتھ میں بڑا سا شاپنگ بیگ تھا، جس میں اس کا خوبصورت پیلے، لال اور نارنجی رنگوں پر مشتمل مہندی کا جوڑا تھا۔ اس جوڑے پر اس نے بہت چاہت سے گوٹے کا کام بنوایا تھا۔ جوڑے کی مناسبت سے جھلمل چوڑیاں اور سنہری چپل بھی خریدی تھی۔ وہ بہت خوش تھی۔ طویل عرصے کے بعد یہ حسین لمحے اس کی زندگی میں آئے تھے۔ مائرہ کو یقین تھا کہ اس کی آنے والی زندگی بہت خوشگوار گزرے گی۔ موسم بدل رہا تھا، سردیوں کی آمد آمد تھی لیکن گلی میں اب تک دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ یہاں ہمیشہ کی طرح چہل پہل تھی۔ اسکول کی چھٹی کا وقت تھا، یونیفارم پہنے ہوئے کچھ بچے اکیلے گھر واپس آرہے تھے جبکہ کچھ کے ساتھ ان کی مائیں تھیں۔ چھوٹے بچے اپنی مائوں کی انگلی پکڑ کر چل رہے تھے۔ مائرہ ان لوگوں کے درمیان سے اپنا راستہ بناتی آگے بڑھی۔ وہ سوچ رہی تھی کہ آخر اسے چھٹکارا ملنے والا تھا، اس مڈل کلاس علاقے، اس کی ٹیڑھی میڑھی گلیوں، شور شرابے اور جگہ جگہ آواز لگاتے ٹھیلے والوں سے وہ بہت جلد نئی زندگی کا حسین سفر شروع کرنے والی تھی۔ شادی کے بعد جس ملک میں وہ جانے والی تھی، سنا تھا کہ وہاں بہت سلیقہ اور صفائی ستھرائی تھی۔ مائرہ وہاں پہنچنے کے لئے بے قرار تھی۔ گلی کا موڑ مڑتے ہی دور سے اپنے گھر کے احاطے کی دیوار پر نظر پڑی۔ جگہ جگہ سے پینٹ اکھڑ رہا تھا۔اس نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ ایک ذرا سا رنگ روغن ہوجاتا تو گھر یقیناً بہتر لگنے لگتا۔ اس نے سوچا کاش ابا راضی ہوجاتے لیکن انہوں نے تو اس فضول خرچی سے صاف انکار کردیا تھا، کیونکہ پیسے انہوں نے مائرہ کی شادی کی تقریبات کے لئے بچا کر رکھے ہوئے تھے۔ گھر کے دروازے پر نظر پڑی تو وہ ٹھٹھک گئی۔ آخر کون آیا تھا اس وقت کہ ابا دروازہ بند کرنا ہی بھول گئے تھے۔ اس کا دل بے ترتیب انداز میں دھڑکنے لگا اور وہ زور زور سے سانس لینے لگی۔ نہیں ایسا ہرگز نہیں ہوسکتا۔ مائرہ نے دل ہی دل میں کہا۔ خاص طور پر اب جبکہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک تھا اور شادی کی تیاریاں مکمل ہوچکی تھیں، بلکہ اس کے چھوٹے سے گھر میں شام کے وقت ڈھولک بھی بجنے لگی تھی۔ کم ازکم اب نہیں اس نے زیرلب دہرایا اور تیزی سے نگاہ اِدھر اُدھر دوڑائی۔ گلی میں گھر سے ذرا دور شازم کی گاڑی کھڑی نظر آئی۔ اس کے دل میں غصے کی لہر ابھری۔ اس شازم کی مجال تو دیکھو اور اس سے بڑھ کر ابا کی سادہ دلی مائرہ کے دیکھتے ہی دیکھتے شازم، ابا کے ہمراہ ان کے گھر کے دروازے سے باہر نکلا اور اپنی گاڑی میں بیٹھ کر ہوا ہوگیا۔ اوہ میرے خدا کہتی ہوئی وہ گھر کی طرف بھاگی اور اس سے پہلے کہ ابا دروازہ بند کرتے، وہ اندر داخل ہوگئی۔ وہی ہوا تھا جس کا اسے ڈر تھا۔ سامنے ہی تخت پر منا بیٹھا تھا۔ اپنی بڑی بڑی آنکھیں کھولے وہ مائرہ کی طرف ہی دیکھ رہا تھا۔ پہلے میری پوری بات سن لو، چیخنا چلانا بعد میں شروع کرنا۔ ابا نے مائرہ کو مخاطب کرکے کہا۔ اسی لمحے امی باورچی خانے سے باہر نکل آئیں۔ کیا ہوگیا ہے آپ کو، آخر کیا ضرورت تھی اسے منے کو یہاں چھوڑنے کی اجازت دینے کی وہ اونچی آواز میں بولیں۔ بدبخت کے کان میں بھنک پڑگئی ہوگی کہ مائرہ کی شادی ہونے والی ہے اور اور دیکھیں فوراً منے کو لے کر یہاں پہنچ گیا۔ آپ نے دروازہ کیوں کھولا ابا وہ چیخی۔ تمہارا خیال ہے کہ اگر نہ کھولتا تو وہ چلا جاتا ابا بولے۔ بہت دکھ دے چکا ہے وہ ہماری بیٹی کو آپ کو کچھ تو احتجاج کرنا چاہئے تھا، سمجھانا چاہئے تھا اسے خدا اسے برباد کرے۔ امی نے اپنا سینہ پیٹ کرکہا۔ کیا کرتا آخر میں ابا چیخے۔ کیسے واپس بھیج دیتا ننھی سی جان کو، اس کا قصور کیا ہے، مجھے بتائو بیچارا گھر کا ہے نہ گھاٹ کا پھر وہ مائرہ سے مخاطب ہوئے۔ مجھ سے شازم نے کہا تھا کہ منا بیمار ہے، کھانا نہیں کھاتا، تمہیں یاد کرتا ہے تو پھر میں کیا کرتا کچھ تو بولتے آپ امی چیخیں۔ آخر میں کیا کہتا اور کیا نہ کہتا وہ ہوا کے گھوڑے پر سوار آیا اور چلا گیا۔ اس نے مجھے زیادہ بولنے کا موقع ہی نہیں دیا۔ ابا نے اپنی صفائی پیش کی۔ وہ جانتی تھی ابا کی کمزوری ابا کو ضرور منے پر پیار آگیا ہوگا۔ ایسی ہی عادت تھی ان کی بہت سا غصہ آنسوئوں کی شکل میں اس کے گلے میں اٹک گیا۔ وہ تو ہے ہی چالاک ابا ہر بات سوچ سمجھ کر منصوبہ بندی کے ساتھ کرنے والا اور آپ ہیں کہ ہمیشہ اس کی باتوں میں آجاتے ہیں۔ مائرہ نے اپنی آواز دھیمی رکھنے کی کوشش کرتے ہوئے کہا۔ تم شازم کے کردار کی باریکیاں مجھے نہ گنوائو۔ ابا بولے۔ ایک ناراض سی نظر اس نے منے پر ڈالی۔ وہ صحن میں بچھے تخت پر بیٹھا تھا۔ اسی تخت پر اس کے برابر میں ڈھولک رکھی تھی اور مہندی سجانے کے لئے تھالیاں رکھی ہوئی تھیں۔ برقی قمقموں کے بجلی کی تاروں میں لٹکے گچھے بھی وہیں پڑے تھے، جنہیں الیکٹریشن نے شام میں آکر دیوار پر سجانا تھا۔ یہ تخت لیموں کے ٹنڈمنڈ درخت کے برابر بچھا تھا جسے اس نے اتنی کھاد اور پانی دیا تھا لیکن اس پر پھول ہی نہیں آتے تھے۔ بالکل مائرہ کی خزاں رسیدہ زندگی کی طرح امی باورچی خانے میں واپس چلی گئیں اور کٹی ہوئی پیاز گرم گھی میں زور سے جھونک دی۔ چھن کی آواز چاروں طرف پھیل گئی۔ مائرہ کے گلے میں آنسوئوں نے پھندہ ڈال دیا تھا۔ شازم اسے کبھی خوش نہیں رہنے دے گا، وہ جانتی تھی۔ شاید وہ اس کم ظرف کے اعصاب پر سوار تھی۔ صرف مائرہ ہی شازم کو اچھی طرح جانتی تھی اور کوئی اسے نہیں جانتا تھا۔ اس کی ہر چیز میں منصوبہ بندی ہوتی تھی لیکن وہ ظاہر یوں کرتا تھا جیسے سب اچانک ہوا ہو۔ لوگوں کو چونکا دینے اور دہشت زدہ کرنے کا اسے بہت شوق تھا۔ وہ منے سے نظر ملائے بغیر اندر اپنے کمرے میں آگئی اور بستر پر بے سدھ ہوکر گرگئی۔ منا مائزہ کی زندگی میں گویا درد کا پیامبر بن کر آیا تھا۔ وہ دن وہ کبھی نہیں بھول سکتی تھی۔ باہر سورج اپنی پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اور مائرہ تنہائی کا کرب دل میں سیمٹے لیبر روم میں پڑی تھی۔ سارا دن اور ساری رات درد میں تڑپنے کے بعد وہ منے کی پیدائش کے مرحلے سے گزری تھی۔ خوشی منانے والا اور مٹھائی بانٹنے والا وہاں کوئی بھی نہیں تھا۔ اسے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے اس کا بیٹا دنیا میں آنے سے قبل ہی اپنے ماں، باپ کے درمیان ہر تعلق ختم کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ دنیا میں آنے سے قبل ہی اس نے مائرہ کو بے اندازہ اذیت سے دوچار کردیا تھا۔ نہ جانے کیوں اس نے اپنی زندگی کی ساری تلخیوں اور سارے دکھوں کے لئے اس ننھی سی جان کو ہی ذمہ دار سمجھ لیا تھا۔ جب امی نے منے کو تولیئے میں لپیٹ کر مائرہ کی طرف بڑھایا تو اس نے منہ پھیر لیا تھا۔ اسے دیکھ کر مائرہ کو بھلا کیا خوشی ہوتی۔ اسے بھی اپنے باپ ہی کی طرح کا ایک مرد بننا تھا۔ سو یقیناً وہ دنیا میں ظلم توڑنے کی تمام صلاحیتیں لے کر پیدا ہوا تھا۔ اس کے رونے کی آواز مائرہ نے ضرور سنی تھی لیکن اسے دیکھنے کی اسے ذرا بھی خواہش نہیں تھی۔ اس بیچارے کا تو کوئی قصور نہیں، اسے گود میں تو لے لو۔ امی نے آہستگی سے کہا تھا لیکن مائرہ نے اپنے چہرے کا رخ پھیرے رکھا۔ شام کو امی گھر چلی گئی تھیں کیونکہ ابا کی طبیعت ٹھیک نہیں رہتی تھی۔ کافی دیر بعد رات والی نرس بچے کو گود میں لئے کمرے میں آئی۔ یہ بہت دیر سے رو رہا ہے، آپ اسے گود میں لے لیں اور دودھ پلانے کی کوشش کریں، شاید اس طرح چپ ہوجائے۔ اس نے کہا۔ ابھی دودھ اترا نہیں ہے۔ اس نے سپاٹ سی آواز میں جواب دیا۔ گود میں لیں گی اور پلانے کی کوشش کریں گی تب ہی تو دودھ اترے گا۔ نرس نے سمجھانے کی کوشش کی۔ کوئی عذر نہ پا کر اس نے چار و ناچار ہاتھ آگے بڑھا دیئے۔ ابھی گود میں لے کر بیٹھی ہی تھی کہ بچے نے آنکھیں کھول دیں۔ وہ بری طرح چونک گئی۔ کتنی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں تھیں منے کی، بالکل اپنے باپ جیسی یوں لگا جیسے بہت ذہانت بھری ہو ان میں وہ یکدم اس بچے سے خائف سی ہوگئی۔ اسے ابھی لے جائیں میں میں بعد میں اسے دودھ پلانے کی کوشش کروں گی۔ مائرہ نے بچے کو زبردستی نرس کی گود میں واپس دیتے ہوئے خوف زدہ سی آواز میں کہا۔ اگلے روز صبح جب امی کھانا لے کر آئیں تو ہلدی ملی زرد یخنی پیالے میں انڈیلتے ہوئے بولیں۔ نرس کہہ رہی تھی کہ منا تمام رات روتا رہا ہے، بالکل بھی نہیں سویا، تم چاہو تو اسے دودھ پلانے کی کوشش کرو۔ امی نے نگاہیں جھکا کر کہا کیونکہ وہ اس کی دلی کیفیت سے بخوبی واقف تھیں۔ جب دودھ اترا ہی نہیں ہے تو پھر پلانے کی کوشش کیوں کروں اس نے سرد لہجے میں جواب دیا۔ گود میں تو لے لو، بیچارے کو کچھ سکون ہی مل جائے گا امی بدستور مائرہ سے نگاہیں ملانے سے گریز کررہی تھیں۔ امی کچھ دیر خاموش بیٹھی سوچتی رہیں پھر آہستگی سے بولیں۔ دیکھو مائرہ وہ لوگ بیٹے کو لینے پر اصرار کررہے ہیں۔ جیسے ہی ان کو اس کی پیدائش کی خبر ملی، وہ بھاگے بھاگے گھر پر آگئے۔ ان کے لہجے میں ناراضی تھی۔ اوہ تو اس کے دل میں اولاد کی محبت جاگ اٹھی ہے مائرہ نے طنزیہ لہجے میں سوال کیا۔ امی نے ٹھنڈا سانس لیا۔ اللہ جانے جاگی ہے یا نہیں لیکن میں کہتی ہوں مائرہ کہ اسے جانے دو بلکہ اچھا ہی ہے کہ تم نے اسے اب تک دودھ نہیں پلایا اور ماں اور بچے کے درمیان کشش کا رشتہ قائم نہیں ہوا۔ بہتر ہے کہ تم منے کو ان لوگوں کے حوالے کردو ورنہ تمہاری کہیں اور شادی نہیں ہوسکے گی۔ امی نے کہا۔ شازم نے خود بچے کو مانگا ہے کیا اس نے سرد لہجے میں سوال کیا۔ اس کی ماں آئی تھی، بہت طاقتور لوگ ہیں وہ، اگر بچہ نہیں دو گی تو ناکوں چنے چبوا دیں گے۔ میں تو کہتی ہوں کہ ان کی خواہش پوری کردو اور منے کو جانے دو، خود سنبھالیں اپنی اولاد کو امی کے لہجے میں غصہ تھا پھر چند لمحوں کے توقف سے بولیں۔ ویسے یاد رکھنا فیصلہ تمہارا اپنا ہے۔ جو چاہو کرو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ اسی وقت دور نرسری میں کوئی بچہ رویا تو مائرہ بے اختیار بستر پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔ وہ زور زور سے سانس لے رہی تھی۔ امی میری بات سنیں، اب شاید دودھ اتر آیا ہے۔ اس نے سینے پر پھیلتی ممتا کی گرمی کو محسوس کرتے ہوئے کہا۔ کوئی بات نہیں۔ امی سخت لہجے میں بولیں۔ خود ہی خشک ہوجائے گا جیسے کہ ان لوگوں کے دل خشک ہوئے ہیں۔ مائرہ کا اپنا دل بھی مرجھا چکا تھا یوں وہ راضی ہوگئی اور بچے کو اس کے باپ کے حوالے کردیا۔ عقلمندی بھی اسی میں تھی کہ وہ اس بچے کو اپنے دل میں جگہ نے دے۔ خود مائرہ کو بھی زندگی میں بھلا محبت کہاں ملی تھی کہ وہ اس بنجر دل میں منے کی محبت کا پودا زبردستی سینچنے کی کوشش کرتی۔ وہ سمجھتی تھی کہ کسی کو اس سے محبت نہیں تھی۔ امی، ابا کو بھی نہیں وہ تو اس دنیا میں آنے والا ایک ان چاہا وجود تھی جس کی چاہت اس کے ماں، باپ کو بھی نہیں تھی۔ اس کے نزدیک کتنی خوش قسمت تھیں اس کی جاننے والی لڑکیاں اور سہیلیاں کہ سو جان قربان کرنے والے ان کی زندگیوں میں موجود تھے اور ایک وہ تھی کہ جسے کہیں سے بھی کچھ بھی نہیں ملا تھا۔ امی سے اس موضوع پر آئے دن تلخ کلامی ہوجاتی۔ وہ باربار ان سے الجھ پڑتی۔ آپ کو مجھ سے کبھی بھی محبت نہیں رہی۔ باقی سب بہن، بھائی آپ کے چہیتے ہیں، سب کی شادیاں اچھی اچھی جگہ کردیں، وہ جاکر دور دیسوں میں بس گئے اور ساری صلواتیں سننے کے لئے مجھے چھوڑ گئے۔ امی ہر بار جھنجلا کر جواب دیتیں۔ اے ہے جس کے لئے پیغام آیا، اس کے لئے ہاں کردی، عقلمندی اسی میں تھی۔ کیا سب کو اس انتظار میں بٹھائے رکھتی کہ تمہارے لئے دوبارہ کوئی پیغام آئے تو تب ہاں کروں۔ ویسے بھی شادی تو پہلے تمہاری ہی ہوئی تھی ناں پھر امی اسے سمجھانے کی کوشش کرتیں۔ یہ بات تو سچ تھی کہ شادی پہلے اس کی ہوئی تھی اور خوب دھوم دھام سے ہوئی تھی۔ امی کی سہیلی آپا قدسیہ نے یہ رشتہ کروایا تھا۔ سب ہی دنگ رہ گئے تھے۔ مائرہ کے لئے اتنے اونچے خاندان سے پیغام آئے گا، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ اتنے خاندانی اور پیسے والے لوگ ہیں، نہ نجانے انہیں ہماری مائرہ جیسی سیدھی سادی لڑکی کیوں پسند آگئی امی نے آپا قدسیہ کے سامنے چائے رکھتے ہوئے سوال کیا تھا۔ ارے بہن یاسمین سب جانتے ہیں کہ سیدھی سادی لڑکیاں ہی گھر بساتی ہیں اور پھر ہماری بچی میں آخر کیا کمی ہے قدسیہ آپا نے انہیں تسلی دیتے ہوئے کہا تھا۔ وہ سچ مچ بہت اچھے لوگ نکلے۔ ان لوگوں نے جہیز کا مطالبہ کیا اور نہ ہی کسی اور سلسلے میں پس و پیش کی۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے دنوں میں وہ دلہن بن کر شازم کے گھر آگئی۔ صرف ابا کو ان لوگوں کی جلدی پر ذرا اعتراض تھا۔ تم کچھ اتا پتا تو کروا لو، اتنی جلد بازی اچھی نہیں۔ انہوں نے امی سے کہا تھا۔ آپا قدسیہ ان لوگوں کو بہت اچھی طرح جانتی ہیں۔ وہ ان کی طرف سے مجھے ہر طرح سے اطمینان دلوا چکی ہیں۔ امی نے ابا کو سمجھایا۔ اپنی شادی پر مائرہ کے خوشی سے پائوں زمین پر نہ ٹکتے تھے۔ وہ جانتی تھی کہ وہ کوئی حور پری نہیں تھی۔ وہ خوش شکل ضرور تھی لیکن اتنی حسین نہیں تھی کہ اتنا خوبرو، پڑھا لکھا اور دولت مند لڑکا اس کے نصیب میں لکھا جاتا۔ یہ تو اس نے کبھی خواب میں بھی نہ سوچا تھا۔ امی کے باربار حیرت کے اظہار پر آپا قدسیہ نے سمجھایا تھا کہ اس کے سسرال والوں کو گھریلو، شریف اور کام کاج میں طاق لڑکی چاہئے تھی اور اس سے زیادہ کی ان لوگوں کو خواہش نہیں تھی۔ یوں مائرہ کا جھٹ منگنی اور پٹ بیاہ والا معاملہ طے پا گیا تھا۔ اصل حقیقت تو بہت بعد میں کھل کر سامنے آئی۔ شازم میں وہ سب کچھ تھا جس کی کہ ایک لڑکی تمنا کرسکتی تھی۔ وہ خوصورت بھی تھا، بڑی بڑی سیاہ آنکھیں، نفاست پسند، خوش لباس، اپنی پینٹ کی کریز ہمیشہ درست رکھنے والا شخص تھا وہ وہ اتنی ہی خوش تھی جتنی کہ ایک نئی نویلی دلہن سے توقع کی جاسکتی تھی۔ شادی کے ایک مہینے بعد کا وہ دن مائرہ کو اچھی طرح یاد تھا۔ ناشتے کی میز پر شازم نے کہا۔ میں کچھ دن کے لئے بزنس کے سلسلے میں شہر سے باہر جارہا ہوں، تم کچھ روز کے لئے جاکر اپنی امی کے ہاں رہ آئو۔ کیا اتنی جلدی جانا ضروری ہے اس نے اداس لہجے میں پوچھا۔ فکر نہیں کرو، جلدی واپس آجائوں گا۔ وہ بولا۔ اسے ناچار اپنی امی کے ہاں واپس آنا پڑا، حالانکہ دل اس علیحدگی کے لئے بالکل بھی راضی نہیں تھا۔ اس کے ہاتھوں میں اب تک مہندی کا رنگ باقی تھا۔ اسے مہندی اس قدر پسند جو تھی اور کپڑے بھی ابھی تک دلہنوں والے پہن رہی تھی۔ گھر واپس آکر وہ شازم کی واپسی کا شدت سے انتظار کرنے لگی لیکن حیرت تھی کہ کئی دن گزر گئے تھے اور شازم کا فون ہی نہیں آیا تھا۔ آخرکار مائرہ نے خود اس کا نمبر ملایا۔ مجھے دراصل روانہ ہونے میں ذرا دیر ہوگئی ہے۔ بس اب جانے ہی والا ہوں۔ اس نے تسلی آمیز لہجے میں کہا۔ گویا وہ ابھی تک گھر پر ہی موجود تھا۔ ہاں مجھے تمہارے لئے کچھ بھجوانا ہے، کل گھر پر ہی رہنا، کوریئر کے ذریعے بھجوا رہا ہوں۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہہ پاتی، وہ بولا۔ کوئی تحفہ ہے کیا مائرہ نے مسرور لہجے میں پوچھا۔ ہاں یہی سمجھ لو۔ شازم نے ہلکی ہنسی کے ساتھ جواب دیا۔ اگلے روز تحفہ نہیں بلکہ ایک رجسٹرڈ خط آیا۔ کھولا تو اندر طلاق نامہ تھا۔ پہلے تو مائرہ کو یقین ہی نہیں آیا۔ وہ یہی سمجھتی رہی کہ ضرور کوئی غلطی ہوگئی ہے، پھر اس پر دیوانگی کا درورہ پڑگیا اور وہ دیر تک سر پٹخ پٹخ کر روتی رہی۔ اصل معاملہ بہت دنوں بعد بیچ والی آپا قدسیہ کے ذریعے کھلا۔ وہ آنکھوں سے بہتے آنسو پونچھتے ہوئے ان کے گھر آئیں۔ ہائے ہائے مجھے پتا ہوتا تو میں بیچ میں کیوں پڑتی۔ وہ ہاتھ ملتے ہوئے بولیں۔ میرا خدا مجھے معاف کرے۔ وہ روتی جارہی تھیں اور بولتی جارہی تھیں۔ پھر وہ امی کے نزدیک بیٹھ کر چہرہ صاف کرکے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے رازدارانہ انداز میں گویا ہوئیں۔ سنا ہے کہ لڑکا تو دراصل شادی پر راضی ہی نہیں تھا۔ بچپن سے کسی لڑکی سے محبت کرتا تھا لیکن نہ اس لڑکی کے والدین شادی پر راضی ہوئے اور نہ شازم کے انہوں نے اپنی بیٹی کی کہیں اور شادی کردی اور اب وہ ایک بچے کی ماں ہے۔ شازم کی امی نے میدان صاف دیکھ کر جلدی جلدی شازم کی شادی طے کردی لیکن بہن وہ اپنے بیٹے کو صحیح سے نہیں جانتی تھیں۔ وہ تو بہت پہنچی ہوئی چیز نکلا، اس نے ماں کو سبق سکھانے کا کیا خوب طریقہ سوچا۔ مائرہ کو یقین نہیں آرہا تھا کہ یہ وہی آپا قدسیہ تھیں جو کہتے نہ تھکتی تھیں کہ لڑکا ہیرا ہے ہیرا، سعادت مند اور نیک لیکن امی شازم کا رویہ مجھ سے بہت اچھا تھا، وہ مجھ سے محبت کرتا تھا۔ جو کچھ اس کے ساتھ پیش آیا تھا، وہ اب تک اس پر یقین کرنے کو تیار نہیں تھی۔ چھوڑو بی بی تم کیوں اس کی طرف داری کررہی ہو۔ وہ تو تمہارے متعلق سو سو باتیں کہہ رہا ہے۔ کہتا ہے کہ تم تو اسے پہلے دن سے پسند ہی نہ آئی تھیں اور یہ کہ تم بداخلاق ہو۔ تمہیں اٹھنے بیٹھنے کی تمیز نہیں ہے۔ آپا قدسیہ تیز آواز میں بولیں۔ ان کی باتوں پر مائرہ سناٹے میں آگئی۔ ابھی تو میں نے تمہیں پوری بات بتائی ہی نہیں۔ وہ امی کو مخاطب کرکے بولیں۔ اپنی شادی کے بعد بھی اس نے اپنی پرانی محبوبہ کا پیچھا نہیں چھوڑا یہاں تک کہ اس کا گھر تڑوا دیا اور وہ اب اپنا بچہ چھوڑ کر واپس ماں، باپ کے گھر آبیٹھی ہے۔ جیسے ہی اس کی عدت ختم ہوگی، یہ اس سے شادی کرلے گا۔ بقول آپا قدسیہ شازم یقیناً بہت پہنچی ہوئی شخصیت تھا لیکن ایک بات سے وہ ناواقف تھا۔ وہ نہیں جانتا تھا کہ دنیا میں ہر بات اس کی مرضی کے تابع نہیں ہے۔ طلاق تو دیدی تھی لیکن تب وہ اس ننھے وجود کے متعلق نہیں جانتا تھا جو مائرہ کی کوکھ میں پل رہا تھا لہٰذا طلاق کا صحیح اطلاق تو تب ہوا کہ جب منا اس دنیا میں آیا۔ پھر شازم کے گھر والے منے کو لے گئے۔ پہلے تو اتنی جلدی تھی شازم کے خاندان کو بیٹا حاصل کرنے کی لیکن بعد میں ان کا رویہ بدل گیا۔ جب شازم پہلی بار منے کو مائرہ کے ہاں چھوڑنے کے لئے لایا تو وہ حیران رہ گئی کہ کسی بھی چیز پر وہ اپنا کنٹرول ختم کردے، یہ شاید شازم کی فطرت کے خلاف بات تھی۔ مائرہ کو لگا کہ وہ اسے آزاد دیکھنا نہیں چاہتا بلکہ الجھائے رکھنا چاہتا ہے۔ وہ منے کو لے تو گیا تھا لیکن بعد میں یہ لے جانے اور واپس لانے کا عمل آنکھ مچولی بن کر رہ گیا۔ کچھ مہینے گزرتے کہ شازم کسی نہ کسی بہانے منے کو مائرہ کے پاس چھوڑنے کے لئے لے آتا، پھر مائرہ کے دل پر رکھی سختی کی سل ذرا سی سرکنے لگتی تو وہ منے کو لینے واپس آجاتا۔ ہمیشہ بہانے کے طور پر منے کی صحت کو استعمال کرتا۔ کہتا کہ وہ بیمار رہتا تھا، کھانا نہیں کھاتا تھا وغیرہ وغیرہ۔ اس کی ایک اور وجہ بھی تھی جس کا اندازہ مائرہ کو بخوبی تھا۔ شاید شازم کی نئی بیوی، بچے کو اپنے پاس رکھنے کے لئے تیار نہیں تھی لہٰذا وہ منے کو چھ چھ مہینے کے لئے اس کے پاس چھوڑ جاتا۔ سچی بات تو یہ تھی کہ اس عرصے میں منے کا خیال رکھنے میں امی اور ابا پیش پیش رہے۔ ظاہر ہے ان کا ہاتھ مائرہ کو بٹانا تو پڑتا تھا۔ گو کہ دل تو عرصہ ہوا اس نے سخت کرلیا تھا کہ مزید دکھ سہنے کی اس میں ہمت نہیں تھی۔ مائرہ گھر کے نزدیک ایک اسکول میں پڑھاتی تھی۔ ایک بار پرنسپل نے اسے بلا کر تنبیہ کی۔ دیکھو جن بچوں کی تم تربیت کررہی ہو، وہ بالکل ننھے منے ہیں۔ ان کے ساتھ تمہارا رویہ پیار اور محبت کا ہونا چاہئے لیکن تمہارے انداز میں سختی ہے۔ میں تمہیں خبردار کررہی ہوں۔ اس کے بعد مائرہ نے حتیٰ الامکان اپنا رویہ بدلنے کی کوشش کی، کیونکہ ایسی نوکریاں اس قدر آسانی سے نہیں ملتی تھیں لیکن دل کی سختی شاید اس کی فطرت کا حصہ بن چکی تھی۔ سو اس طرح منے کا مائرہ کے ہاں آنے جانے کا سلسلہ جاری رہا۔ بالکل ننھا منا سا کمزور وجود تھا اس بچے کا نہ جانے اس کے باپ کو اس پر پیار کیوں نہیں آتا تھا کہ یوں روز روز اسے ٹھکرا کر چلا جاتا تھا، شاید نئی بیوی کے ساتھ رنگ رلیاں منانے سے فرصت نہیں ملتی ہوگی۔ مائرہ سوچتی پھر میں ایک لمبا عرصہ گزر گیا کہ جس دوران وہ منے کو چھوڑنے کے لئے نہیں آیا۔ پورے چھ مہینے گزر گئے۔ مائرہ نے شکر ادا کیا کہ اس کی جان چھوٹی۔ منے کی وجہ سے ہی تو اس کے لئے پیغام نہیں آتے تھے۔ دریںاثنا ویسا ہی پیغام آگیا جس کی کہ مائرہ کو تمنا تھی۔ شہر کے اس پرانے سے علاقے کے چھوٹے سے گھر کے آگے ایک شاندار گاڑی آکر رکی۔ محلے میں کھلبلی مچ گئی، بچے کرکٹ کھیلنا بھول کر گاڑی کے گرد جمع ہوگئے۔ اماں بختاور گھر کا کام ختم کرکے چادر اوڑھ کر نکل رہی تھی کہ واپس ان کے گھر کی طرف چلی آئی۔ تمہارے گھر میں کوئی بہت اونچے مہمان آئے ہیں۔ اماں بختاور نے ہانپتے ہوئے خبر دی۔ مائرہ نے کھڑکی سے باہر جھانکا تو حیران رہ گئی۔ اتنے سال بعد آئے تھے تو کون صائم اور اس کی امی شازم سے شادی سے پہلے مائرہ کی ایک اور جگہ بھی بات چلی تھی۔ پیغام ہمسایوں کے ہاں سے آیا تھا۔ صائم سب کا جانا پہچانا تھا۔ جب بھی موقع ملتا، آتے جاتے روک کر مائرہ سے بات کرتا، پھر اس کی امی پیغام لے کر آگئیں اور بات بھی پکی ہوگئی اور مٹھائی بٹ گئی۔ لیکن یہ کہانی جلد ہی اختتام پذیر ہوگئی۔ اس کی شادی دیکھتے ہی دیکھتے اپنی خالہ کی بیٹی سے ہوگئی۔ خالہ کے خاندان والے دولت مند تھے، اور لندن میں مقیم تھے، لہٰذا صائم ان صاحب ثروت لوگوں کی فہرست میں شامل ہونے بیرون ملک چلا گیا۔ جانے سے پہلے صائم گھر سے ذرا دور بس اسٹاپ پر اس کا راستہ روک کر کھڑا ہوگیا۔ دیکھو میرے خلاف دل میں غصہ نہ رکھنا قصور میرا نہیں ہے۔ امی کا اس قدر اصرار تھا کہ میں مجبور ہوگیا۔ ان کی بہن کی اولاد کا معاملہ تھا، میں انکار نہ کرسکا۔ لیکن امی کی سہیلی آپا قدسیہ نے کچھ اور کہانی سنائی۔ بہت لالچی لوگ ہیں یہ دونوں ماں اور بیٹا پہلے تو کچھ اور کہہ رہے تھے لیکن جہاں پیسہ دیکھا، وہاں پھسل گئے۔ ماضی کی یادوں سے الجھتے ہوئے اس نے پردے کی اوٹ سے صائم کو دیکھا۔ اس کے پہننے، اوڑھنے کا انداز اس قدر بدل گیا تھا کہ اس کو پہچاننا مشکل تھا۔ بہترین لباس تھا، چہرے پر رونق تھی اور انداز و اطوار بالکل ویسے ہی تھے کہ جس کی کوئی بھی لڑکی تمنا کرسکتی تھی۔ ماں اور بیٹا آکر بہت تپاک سے امی اور ابا سے ملے۔ ڈرائنگ روم میں ان کو بٹھا کر وہ ان کے لئے چائے بنانے چلی گئی۔ واپس آئی تو قدم دروازے پر رک گئے۔ اندر سے آتی باتوں کی بھنک کان میں پڑی۔ صائم کی والدہ کہہ رہی تھیں۔ بیوی چھوڑ کر چلی گئی ہے، واپس آنے سے انکار کرتی تھی، اس لئے طلاق دے دی، بچے صائم کے ہی پاس ہیں۔ بس میاں، بیوی کی شروع سے بنی ہی نہیں، اللہ کی مرضی انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی۔ ہم آپ کے در پر سوالی بن کر آئے ہیں، دیکھئے انکار نہ کیجئے گا۔ یوں مائرہ کی زندگی میں دیکھتے دیکھتے بہار آگئی۔ جلد رخصتی کی باتیں ہونے لگیں اور شادی کی تاریخ طے ہوگئی۔ اور اب جبکہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک جارہا تھا، شازم کی دیدہ دلیری دیکھو وہ سب اجاڑنے پر تل گیا تھا۔ اس نازک موقع پر وہ آکر منے کو ان کے ہاں چھوڑ گیا تھا۔ اب وہ موقع آگیا تھا کہ مائرہ سب کچھ ابا پر نہیں چھوڑ سکتی تھی، حالات کی باگ ڈور اسے اپنے ہاتھ میں لینی تھی لہٰذا اس نے شازم کا فون ملایا۔ دیکھو سب کچھ ہمیشہ تمہاری مرضی کے مطابق نہیں ہوگا۔ یہ آنکھ مچولی بند کرو، اس ہاتھ دو اور اس ہاتھ لو۔ مائرہ نے سختی سے کہا۔ کورٹ کی طرف سے منے کی پرورش کے حقوق میرے نام کردو، پھر میں تمہاری گزارش پر غور کروں گی۔ کیا تمہارا ہونے والا شوہر منے کو رکھنے پر راضی ہوجائے گا کیا تم اسے لندن اپنے ساتھ لے جائو گی شازم نے سوال کیا۔ وہ بعد کی باتیں ہیں، تم پہلے یہ ثابت کردو کہ تم اس کی پرورش کی ذمہ داری سنجیدگی سے قبول کررہے ہو مائرہ نے جواب دیا۔ اس سے نمٹنے کا بس یہی طریقہ رہ گیا تھا۔ وہ جانتی تھی کہ وہ خود پرست انسان، دنیا اور اس میں بسنے والے تمام لوگوں پر حاکمیت کا شوق رکھنے والا ایسا کبھی نہیں کرے گا، اس لئے پریشانی کی کوئی بات نہیں تھی۔ وہ شازم کو اس کی بے رحمی کے لئے کبھی بھی معاف نہیں کرسکتی تھی۔ ابا کی نصیحت کچھ اور تھی کیا ہوگیا ہے تمہیں مائرہ یہ بات کیوں بھول جاتی ہو کہ منا تمہارا بھی بیٹا ہے۔ اس کا کچھ حق تم پر بھی بنتا ہے۔ تم آگے بڑھ جائو، وہی پرانی لکیر برابر کیوں پیٹ رہی ہو۔ جو ہوگیا، سو ہوگیا۔ ابا بھلا اس کے دل کا حال کیا جانتے تھے۔ ان پر خود گزرتی تو سمجھتے۔ کم ازکم اس کا یہی خیال تھا۔ میں تو آگے بڑھنا چاہتی ہوں ابا وہی کم ظرف باربار راستہ روک کر کھڑا ہوجاتا ہے۔ مجھے اپنی زندگی جینے کہاں دے رہا ہے۔ اس نے ابا کو سمجھانے کی کوشش کی۔ شازم اس کے دل پر ایک زخم کی طرح تھا جو بھر کر ہی نہ دیتا تھا۔ کیا وہ ظالم تھا اور یا مائرہ قابل محبت نہیں تھی اب تک وہ یہ گتھی ہی سلجھا نہ پائی تھی۔ تم صائم سے بات تو کرکے دیکھو۔ ابا بولے۔ وہ خود اسی قسم کے مسائل سے دوچار ہے۔ وہ ضرور تمہاری درخواست پر سنجیدگی سے غور کرے گا۔ ابا نے اصرار کیا۔ ٭ ٭ ٭ اگلے روز اسکول سے واپس آئی تو نگاہ اس چھوٹی سی چمکیلی بائیسکل پر پڑی جو صحن کے ایک کونے میں کھڑی تھی، پھر اِدھر اُدھر نگاہ دوڑائی تو فرش پر پڑے کچھ پنجرے بھی نظر آئے۔ پہلے تو غصے کی وجہ سے کچھ دیکھ ہی نہ پائی تھی۔ یہ سب کیا ہے اس نے ابا سے پوچھا۔ منے کے طوطوں اور خرگوشوں کے پنجرے ہیں۔ ابا بولے۔ شازم آکر یہ تمام چیزیں چھوڑ گیا ہے۔ یعنی منے کو وہ یہاں لمبے عرصے کے لئے چھوڑنا چاہتا ہے۔ اس نے خشک لہجے میں سوال کیا۔ کہہ رہا تھا کہ طبیعت سنبھل جائے گی تو آکر لے جائے گا۔ ابا نے نگاہیں ملائے بغیر کہا۔ وہ سوچنے لگی کہ ابا کا رویہ کس قدر عجیب تھا۔ وہ اور ابا دونوں جانتے تھے کہ مائرہ کی شادی میں کس قدر کم دن رہ گئے تھے۔ وہ اپنے طوطوں اور خرگوشوں سے بے اندازہ محبت کرتا ہے، ان سے زیادہ دور نہیں رہ سکتا۔ ابا نے صفائی پیش کی۔ وہ کچھ دیر کھڑی سوچتی رہی پھر صحن میں سائیکل چلاتے منے کے نزدیک رک گئی۔ تم یہاں کیوں آئے ہو اس نے سوال کیا۔ وہ کچھ دیر سر جھکائے یوں ہی پیڈل گھماتا رہا پھر نہایت دھیمی آواز میں بولا۔ مجھے نئی امی اچھی نہیں لگتیں، میں آپ کے پاس رہوں گا۔ میں تمہیں ابھی تک یاد ہوں مائرہ نے حیرت سے سوال کیا۔ ہاں منے نے اثبات میں سر ہلایا اور پھر سائیکل چلاتا ہوا کرسی پر بیٹھے ہوئے ابا کے پاس چلا گیا۔ ٭ ٭ ٭ ابا کا نظریہ ہمیشہ دوسروں سے مختلف ہوتا تھا۔ اس بیچارے پر ظلم ہوا تھا۔ اس کی ماں نے اس کی شادی زبردستی تم سے کروا دی تھی۔ وہ ہمیشہ اس کا نقطۂ نظر بیان کرتے تھے۔ وہ بے حد نرم دل تھے، جلد سب کی باتوں میں آجاتے تھے۔ اس کا بس چلے تو وہ میری کبھی بھی شادی نہ ہونے دے۔ وہ ہر ایک پر اپنا کنٹرول رکھنے کا شوقین ہے۔ اسے فکر ہے تو ہر وقت، ہر موقع پر اپنی بات منوانے کی۔ اس نے ابا کو سمجھانے کی کوشش کی۔ لیکن اس میں بیچارے بچے کا کیا قصور ہے۔ وہ ہمیشہ ماں کی گود کی گرمی سے ناواقف رہا۔ پلاسٹک کی بوتل سے دودھ پیتا رہا ہے۔ ابا بولے۔ ان کو فکر تھی تو صرف اور صرف منے کی وہ تمام دن غصے سے کھولتی رہی پھر شازم کا نمبر ملایا۔ آکر اپنے بیٹے کو لے جائو، مجھے اس کی ضرورت نہیں۔ جہاں اتنے سال رکھا ہے تو اب بھی رکھ لو، مجھے اس سے کوئی لگائو نہیں۔ اگر تمہاری بیوی کو اس کی دیکھ بھال پسند نہیں تو کوئی آیا رکھ لو، وہ مجھ سے بہتر اس کا خیال رکھ پائے گی۔ تم ہی تو کہتے رہے ہو کہ میں جنونی ہوں، اجڈ گنوار ہوں، کوئی کام بھی سلیقے سے نہیں کرتی۔ وہ کڑوی ہنسی ہنس کر بولی۔ تو پھر اپنے پیارے بیٹے کی پرورش کا کام تم میرے سپرد کیوں کررہے ہو جواب ندارد۔ اور تمہارے پاس بہت پیسہ ہے، اس کی ضروریات تم مجھ سے بہتر پوری کرسکتے ہو۔ میں کہاں سے اس کو وہ سب دلوا سکوں گی جس کا وہ عادی ہے شازم نے بجائے جواب دینے کے فون منقطع کردیا۔ وہ ساری رات کانٹوں کے بستر پر لوٹتی رہی۔ صبح سو کر اٹھی تو ایک ارادہ کرلیا تھا۔ وہ بڑھ کر منے کے نزدیک آگئی۔ وہ اپنے خرگوشوں کو گاجر کھلاتا رک گیا۔ مڑ کر مائرہ کی طرف دیکھا۔ دیکھو منے کیوں آئے ہو تم یہاں کیوں روز روز آجاتے ہو تمہارا اور میرا کیا واسطہ ہے۔ جائو اپنے ابا کے پاس واپس جائو۔ دیکھنے میں تو بہت ذہین لگتے ہو میری بات سمجھ رہے ہو نا منا سر جھکائے اٹھ کر کھڑا ہوگیا۔ کوئی جواب نہ دیا لیکن سر اٹھا کر مائرہ کو دیکھا۔ وہ خاموش تھا لیکن اس کی آنکھوں میں ایسی اداسی تھی کہ اس کی روح کانپ گئی۔ مائرہ کے گلے میں آکر کچھ اٹک گیا۔ آپ منے کو دیکھ لیجئے، میں اسکول جارہی ہوں۔ اس نے ابا سے کہا اور تیزی سے دروازے سے باہر نکل گئی۔ سارا دن اسکول میں دل نہ لگا۔ وہ شرمندہ تھی، شاید اس نے منے سے کچھ زیادہ سختی سے بات کرلی تھی۔ وہ ابا کو تو نہ سمجھا پائی تھی لیکن وہ منے کو ضرور سمجھا لے گی، اسے یقین تھا۔ اسکول سے واپس آئی تو صحن میں منے کے سوا اور کوئی نہیں تھا۔ منے ادھر آئو۔ اس نے دھیمی آواز میں کہا۔ اپنے طوطوں کو دانہ کھلاتا اس کا ہاتھ رک گیا اور وہ اٹھ کر مائرہ کے نزدیک آگیا۔ کیا تم میرے پاس رہو گے اس نے منے سے سوال کیا۔ میرے پاس نہ تو تمہیں باہر گھمانے لے جانے کے لئے گاڑی ہے اور نہ ہی ڈھیر سارے پیسے ہیں۔ میں تمہیں روز برگر اور پیزا کھلانے نہیں لے جاسکتی، ہمارا تو ٹی وی بھی بہت چھوٹا ہے اور اور میں اسکول میں پڑھاتی ہوں، میرے پاس تو تمہارے ساتھ گزارنے کے لئے وقت بھی نہیں ہے۔ سمجھ رہے ہو نا میری بات منے نے اس قدر متانت سے اثبات میں سر ہلایا کہ جیسے ہر بات سمجھتا ہو۔ کاش وہ بھی زندگی کی باریکیوں کو اتنا ہی سمجھ سکتی جتنا کہ لگتا تھا کہ منا سمجھ سکتا تھا۔ ہمارا گھر بہت چھوٹا ہے، تمہارے طوطوں اور خرگوشوں کے لئے یہاں جگہ نہیں ہے۔ وہ بدستور کہے جارہی تھی۔ اور نہ ہی تم آرام سے یہاں سائیکل چلا سکو گے، ہمارا صحن بھی چھوٹا ہے۔ تم واپس اپنے گھر چلے جائو، وہاں سب کچھ ہے۔ کھلونے ہیں، چاکلیٹ ہیں اور کہانی کی تصویروں والی کتابیں ہیں لیکن یہاں کچھ بھی نہیں ہے۔ جب وہ اسکول سے واپس آئی تو منا وہاں نہیں تھا۔ منا اپنے گھر واپس جانا چاہتا تھا۔ اس نے مجھ سے اپنے باپ کو فون کروایا اور وہ آکر اسے لے گیا۔ ابا نے ناراض لہجے میں اسے بتایا۔ تو پھر خرگوش اور طوطے یہاں کیوں چھوڑ گیا وہ تو ان سے بے اندازہ محبت کرتا ہے۔ سنا ہے ان سے دور نہیں رہ سکتا۔ اس نے حیران ہوکر پوچھا۔ بہت محبت کرتا ہے اسی لئے تو چھوڑ گیا، تحفے دینے کی ادا وہ جانتا ہے۔ ابا بولے اور اٹھ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ سمجھ جائے گا منا آخر وہ اس کے فائدے ہی کی بات کررہی تھی۔ اس نے سر جھٹک کر سوچا۔ منے سے زیادہ فکر تو مائرہ کو امی، ابا کی تھی کہ پردیس چلی جائے گی تو ان کا کیا بنے گا۔ وہ کپڑے استری کررہی تھی کہ ابا اس کے نزدیک آکر رک گئے۔ کیا تمہیں سچ مچ کچھ بھی نظر نہیں آتا انہوں نے پوچھا۔ کیا نظر نہیں آتا اس نے خشک لہجے میں ابا کا سوال دہرایا۔ کہ منا تم سے کس قدر محبت کرتا ہے۔ انہوں نے کہا اور مڑ کر اپنے کمرے میں چلے گئے۔ ٭ ٭ ٭ آپا قدسیہ روز نئے نئے قصے امی کے گوش گزار کرنے آجاتیں۔ میں نے تو سنا ہے کہ شازم اب اپنے اقدام پر ہاتھ ملتا ہے۔ ایک مرتبہ اس نے سخت گرمی کے موسم میں مائرہ کو اسٹاپ پر بس کے انتظار میں کھڑا دیکھ لیا۔ سنا ہے اس کے بعد اس پر قنوطیت کا دورہ پڑ گیا اور گھر والوں کو ماہر نفسیات کے پاس لے جانا پڑا۔ مائرہ یہ سن کر ہنس دی۔ بڑا ڈرامے باز تھا وہ منے کو اس کے سر منڈھنے کے لئے نئی نئی کہانیاں تراش رہا تھا۔ اس کے پاس تو دل نام کی کوئی چیز ہی نہیں تھی۔ اس کی خصلت کیا تھی، کوئی نہیں جانتا تھا۔ اگلے روز گھر سے باہر قدم رکھا تو سامنے ہی شازم کو منے کا ہاتھ پکڑے کھڑا پایا۔ پہلے تو پیچھے ہٹ گئی۔ اب کیوں آئے ہو یہاں منا ساری رات تمہارے لئے روتا رہا ہے، کھانا بھی نہیں کھایا۔ دیکھو کتنا کمزور ہوگیا ہے۔ اس کا دل بہلانے کے لئے اس کی سالگرہ منانے کی کوشش کی لیکن یہ خوش ہی نہیں ہوا۔ اپنا کیک بھی تمہارے لئے لے آیا ہے۔ آواز عجیب دل شکستہ سی بنی تھی۔ شازم کی آواز نہیں لگ رہی تھی۔ اس کی طرف غور سے دیکھا تو حیران رہ گئی۔ اس کے بکھرے بالوں اور وحشت زدہ چہرے والے شخص کو پہچان نہ پائی۔ کیا یہ وہی شازم تھا۔ خوش لباس، ٹھہر ٹھہر کر، مزے لے لے کر باتیں کرنے والا، نک سک سے درست رہنے والا کا ہوگیا تھا اسے، کیا افتاد آن پڑی تھی سب کچھ ویسے ہی ہوا تھا کہ جیسے وہ چاہتا تھا۔ شادی شدہ لڑکی کو اس کا گھر تڑوا کر بیوی بنا کر اپنے گھر لاچکا تھا، مائرہ کو بے موت مار چکا تھا۔ اب نہ جانے کون سی فکر دامن گیر تھی۔ وہ سچ تھا۔ کیا واقعی مائرہ سچ مچ اس مخبوط الحوس شخص کے اعصاب پر حاوی تھی۔ اس نے خود سے سوال کیا۔ لیکن اس سوال کا جواب حاصل کرنے کی اسے ذرا بھی تمنا نہیں تھی۔ اس سے پہلے اور کیسی ہیبت تھی۔ مائرہ کو اس سے دوبارہ ملنے کی، اس شخص کے ملنے کی، اس نے خود سے حیرت سے سوال کیا۔ ایک ایسا انسان جس کے لئے اس نے بے شمار آنسو بہائے تھے۔ کتنی حیرت کی بات تھی کہ آج وہ اس کے دل پر اثر کرنے کی تمام قوت کھو چکا تھا۔ میں تمہارے لئے کچھ لایا ہوں۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر ایک لفافہ اسے دے دیا۔ کھول کر دیکھا تو اس کے اندر کچھ قانونی قسم کے کاغذات تھے۔ میں اس کی پرورش کے حقوق قانونی طور پر تمہیں دے رہا ہوں۔ اس نے کہا۔ پھر منے کا ہاتھ مائرہ کے ہاتھ میں دیا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔ لڑکھڑاتے قدموں کے ساتھ وہ آکر تخت پر بیٹھ گئی اور منے کو اپنے پاس بٹھا لیا۔ اب کیا ہوگا اس نے وحشت سے سوچا۔ ٭ ٭ ٭ رات میں بستر پر اپنے برابر لیٹے منے سے مائرہ نے کچھ باتیں کیں۔ وہ بات سمجھ رہا تھا یا نہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا لیکن یہ سب کہنا ضروری تھا۔ ہم دونوں بے قصور ہیں منے لیکن حالات کی لپیٹ میں آگئے ہیں۔ دنیا میں بے شمار ایسے لوگ ہیں، تمہارے اور مجھ جیسے جن کے ساتھ بغیر ان کی کسی غلطی کے نہایت عجیب و غریب واقعات پیش آتے ہیں۔ ہم دونوں بھی ایسی ہی ایک آندھی کی لپیٹ میں آگئے تھے۔ قصور تمہارا ہے نہ میرا لیکن ہمیں اس دنیا میں رہنا ہے تو حالات سے سمجھوتہ کرنا پڑے گا۔ وہ نہ جانے اس چھوٹے سے بچے کو کیا سمجھانا چاہ رہی تھی۔ دوسرے دن صبح اٹھی تو صحن میں اخبار پڑھتے ابا کے پاس رک گئی۔ اب سمجھ میں آیا ابا کہ آپ اتنے عرصے سے مجھے کیا سمجھانے کی کوشش کررہے تھے اس نے بہت دھیمی آواز میں کہا۔ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ وہ ظالم تھا یا چالاک تھا، میں اس کے کردار کی پیچیدگیوں میں نہ جانے کیوں الجھ گئی۔ ایک حقیقت کو میں نظرانداز کرتی رہی اور وہ یہ ہے کہ وہ میرا ماضی تھا۔ میں نے اپنی سوچ سے اسے اپنے حال پر حاوی ہونے دیا۔ وہ گزرا ہوا کل تھا اور میں نے اسے اپنا آج بننے دیا۔ نجانے ایک دردناک لمحے میں خود کو کیوں قید کرلیا اس کو اتنا حق کیوں دیا کہ وہ میری عادت ہی بدل دے ابا آپ کو میں روز دروازے بند رکھنے کی ہدایت دیتی تھی اور آپ ان کو پھر بھی کھلا رکھتے تھے میں نے بھی آج ایک دروازہ کھول دیا ہے، اپنے دل کا دروازہ اس کے باہر کھڑا منا نجانے کب سے اس پر دستک دے رہا تھا۔ لیکن ایک دروازہ میں نے بند کردیا ہے۔ یہ ہے وہ دروازہ جو میری زندگی کو شازم کی زندگی سے جدا کرتا ہے، خوشیوں اور محبت کے راستے اپنے دل پر کھول دیئے ہیں۔ منا امی کے برابر سو رہا تھا۔ آج بہت سے کام کرنے تھے۔ سب سے بڑا کام صائم سے ملنا تھا اور اس سے اپنا عندیہ بیان کرنا تھا۔ صائم شام کے وقت اسے اپنی نئی چمکیلی گاڑی میں بٹھا کر شہر کے مشہور فائیو اسٹار ہوٹل میں کھانا کھلانے کے لئے لایا۔ اس نے سیاہ رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا اور اس کی ٹائی کا رنگ گہرا سرخ تھا۔ کسی کہانی کا ہیرو لگ رہا تھا وہ، کتنی خود اعتمادی تھی اس میں تمام خواب شرمندہ تعبیر ہونے کو تھے۔ صائم کے پاس وہ سب کچھ تھا جس کی مائرہ کو شدید خواہش تھی۔ اپنی حسین دنیا سے وہ مائرہ کو آہستہ آہستہ روشناس کرا رہا تھا۔ چھوٹی سی ڈائننگ ٹیبل جس کے آگے وہ بیٹھے تھے، بے حد خوبصورت تھی۔ اس کے عین درمیان بہت پتلے گلدان میں ایک گہرے رنگ کا گلاب اپنی بہار دکھا رہا تھا۔ کافی پینے کے بعد صائم نے اپنی جیب سے ایک مخملیں ڈبیا نکالی۔ اس میں ایک ہیرے کی انگوٹھی تھی۔ مائرہ ایک گہری سانس اندر کھینچ کر رہ گئی۔ صائم نے مائرہ کا ہاتھ پکڑ کر انگوٹھی اس کی تیسری انگلی میں پہنا دی۔ اسے میری محبت کی علامت کے طور پر قبول کرو۔ اس نے کہا۔ مائرہ نے سوچا کہ اس وقت اس محبت کے دریا میں بہتے ہوئے وہ صائم سے وہ ذکر کرے گی جس کے متعلق سوچتے ایک پورا روز ہوگیا تھا۔ میری بات سنو صائم اس نے بات شروع کی۔ دل ولولے سے بھرپور تھا۔ بے شمار کام کرنے کو تھے اور وقت بہت کم تھا۔ صبح سویرے ہی مائرہ نے پوری انگنائی دھو ڈالی اور ہنڈیا چولہے پر چڑھا دی تاکہ اسکول جانے سے پہلے تیار ہوجائے۔ منے کو اٹھا کر منہ دھلایا اور تیار کیا۔ یہ صبح سویرے کیا کھٹرپٹر لگا رکھی ہے امی نے بستر پر لیٹے لیٹے سوال کیا۔ امی آج آپ دیر سے اٹھیئے گا ورنہ پھر طبیعت خراب ہوجائے گی۔ میں نے سارے کام کردیئے ہیں۔ یہ صبح سویرے کیوں چہک رہی ہو اور منے کو لے کہاں جارہی ہو امی کی آواز میں غنودگی تھی۔ بہتر یہی ہے کہ منے کو اس کے باپ کے ہاں چھوڑ آئو۔ مائرہ نے ایک سرسری نگاہ گھر کی دیواروں پر ڈالی۔ انہیں رنگ و روغن کی ضرورت تھی۔ اب یہ کام کرنے کی امید وہ کرسکتی تھی۔ کیا منے کو لے کر صائم سے ملنے جارہی ہو اتنی صبح ابا نے حیرت سے پوچھا۔ نہیں ابا میں کل شام صائم سے مل کر آچکی ہوں۔ اور منا ابا نے پوچھا۔ مائرہ نے ابا کی بات کا جواب نہ دیا۔ ان کو پہلے بہت سی اور باتیں بتانے کی ضرورت تھی۔ سب سے پہلے اس گفتگو کا ذکر کرنا تھا جو اس کے اور منے کے درمیان ہوئی تھی۔ میرے لئے تم اپنا کیک لائے ہو اس نے منے سے پوچھا تھا۔ منے تم نے یہ سب چیزیں، اپنے طوطے اور خرگوش میرے لئے کیوں چھوڑے منے نے ایک خاموش نگاہ اس پر ڈالی۔ دیکھو کچھ نہ کہو۔ مائرہ نے اس کی گیانی آنکھوں میں جھانک کر کہا۔ میں جانتی ہوں کہ یہ تمہاری بے لوث محبت کا ثبوت ہے۔ تم اپنا سب کچھ مجھے دینا چاہتے تھے، محبت کا انمول تحفہ اور مجھ اندھی کو دیکھو یہی کچھ ڈھونڈنے میں کہاں کہاں ماری پھر رہی تھی۔ جنت کی مکین ہوں اور بہار ڈھونڈنے کے لئے سات سمندر پار جارہی تھی۔ میری بات سمجھ رہے ہو نا سب مجھے یہاں نصیب ہوگیا۔ دشت و کوہسار کی خاک چھاننے کی مجھے کوئی ضرورت نہیں۔ وہ ابا کو بتانا چاہتی تھی کہ منے کی وہ نگاہ سینے میں کیوں اتر گئی تھی اور ایک سچ بولتا بچہ اسے بھی نصیب ہوگیا تھا۔ وہ کتنی ہی دیر سینے پر ہاتھ رکھ کر کھڑی رہی تھی۔ ہستی کے معنی، زندہ رہنے کا راز سب سمجھ میں آگیا تھا۔ دن چڑھ رہا تھا۔ اس کے لیموں کے پیڑ پر ننھی ننھی خوشبودار موتیئے کے جیسی پھولوں جیسی کلیاں نکل آئی تھیں۔ اتنے عرصے بعد یہ معجزہ ہوگیا تھا۔ وہ بہت خوش قسمت تھی، محبت کرنے والے لوگوں میں گھری ہوئی تھی۔ آج اس محبت کو بھی تسلیم کرلیا جو ایک دھارے کی طرح سینے سے بہہ نکلی تھی۔ نجانے وہ اب تک اس کو خود سے باہر کیوں ڈھونڈتی آئی تھی۔ وہ ابا کی طرف مڑی اور کہا۔ اور دیکھیں میں پھر سے ایک پرانی غلطی کو دہرانے چلی تھی، ظاہری چمک دمک پر مر مٹی تھی۔ ایک ایسا شخص جو ماں کی محبت کو ہی نہ سمجھ سکا۔ جو مجھے اپنے ننھے سے بے سہارا بچے سے جدا کرنا چاہتا ہے، اس کے ساتھ زندگی گزارنے کا مجھے بالکل بھی شوق نہیں۔ اس نے ابا کو بتایا۔ تو یہ جواب دیا صائم نے ابا نے سوال کیا۔ وہ کہتا ہے کہ اس کی زندگی پہلے ہی بہت پیچیدہ ہے۔ وہ ایک نئے بچے کو اس میں شامل کرکے ان پیچیدگیوں میں اضافہ کرنا نہیں چاہتا لئے میں نے اسے منع کردیا۔ کہاں جارہی ہو تم ابا نے پوچھا۔ میں منے کو داخلے کے لئے برابر کے اسکول لے کر جارہی ہوں۔ ابا میں آپ سے دور کہیں نہیں جارہی۔ میں یہیں رہوں گی۔ آپ کے، امی اور منے کے پاس اس نے مسکرا کر کہا اور تیزی سے منے کا ہاتھ پکڑے گھر کے نزدیک والے اسکول کی طرف چل دی۔ گئی رات کو جو معجزہ ہوا تھا، وہ اس کے متعلق ابا کو بتانا چاہتی تھی۔ رات میں منے کو سینے سے لگا کر وہ بہت روئی تھی۔ منے کی محبت نے سب بدل دیا تھا۔ سنگلاخ پتھر سے دودھ کی نہر بہہ نکلی تھی۔ وہی آب زم زم والا معجزہ ہوا تھا۔ زخمی دل کو شفا نصیب ہوئی تھی۔ بہت سی باتیں سمجھ میں آگئی تھیں۔ زندگی ہار جیت کا میدان نہیں تھا، جنگ و جدل اور انتقام کسے یاد تھا آج سمجھ میں آیا کہ شازم نے اسے طلاق کیوں دی تھی، کیوں واپس کیا تھا اپنے ننھے سے بیٹے کو کبھی صحیح سے محبت کی ہوتی تو سمجھتی اس قدم کو وہ انجان جو تھی۔ شازم شاید اس میدان میں اس سے بہت آگے تھا۔ محبت کرنے کی ادا جو جانتا تھا، وہ عجیب و غریب انسان دل کا بند دروازہ کھل گیا تھا اور بہار کا موسم پوری دھوم دھام سے ہستی میں داخل ہوگیا تھا۔ اب مائوں کے چہروں پر پھیلی مسکراہٹوں کا مفہوم سمجھ میں آیا۔ شازم سے بات کرنے کی سخت ضرورت تھی اس لئے اس کا نمبر ملایا۔ مختصر سی بات کی۔ منے کی پرورش میرے سپرد کرنے کا بہت شکریہ کوشش کروں گی کہ یہ ذمہ داری احسن طریقے سے نبھائوں۔ آواز میں بہت عرصے بعد نرمی تھی، عاجزی تھی، انکسار تھا۔ محبت نے بندگی کا سبق پڑھا دیا تھا اور زندہ رہنے کے بہت سے راز اس پر افشا کردیئے تھے۔ اور آپ جب بھی چاہیں ابا سے پہلے بات کرکے منے سے مل سکتے ہیں اور اپنے ساتھ کبھی کبھار لے جا بھی سکتے ہیں۔ میں نہیں چاہتی کہ وہ باپ کی محبت سے بالکل محروم رہے۔ یہ کہہ کر فون منقطع کردیا۔ ختم شد
null
null
null
null
446
https://www.urduzone.net/essar-complete-urdu-story/
مظہر بارہ سال بعد اپنے آبائی شہر حیدرآباد آیا تھا اور اب گھوم پھر کر پرانی یادیں تازہ کر رہا تھا۔ وہ ان تمام جگہوں کو ایک بار پھر دیکھنا چاہتا تھا جو کسی یادگار کی مانند اس کے ذہن میں محفوظ تھیں۔ اس کا اپنا گھر جہاں اس نے جنم لیا تھا۔ وہ گلیاں جہاں کھیلتے کودتے اس کا بچپن گزرا تھا۔ وہ اسکول، کالج جہاں زندگی کے بہترین ایام گزرے تھے۔ بارہ سالوں میں حیدرآباد میں بہت تبدیلیاں آ چکی تھیں۔ شہر چاروں طرف سے بہت پھیل گیا تھا۔ کھلے کھلے بڑے گھروں کی جگہ اونچے اونچے پلازہ تعمیر ہو چکے تھے۔ سڑکوں پر ٹریفک کا اژدھام تھا۔ کشادہ سڑکیں بھی اب بہت تنگ دکھائی دینے لگی تھیں۔ آبادی بڑھ جانے کی وجہ سے مسائل بھی بہت بڑھ چکے تھے۔ اس شہر میں تعلیم مکمل کرتے ہی اس کے والد نے اسے اپنے جاننے والوں کی مدد سے کراچی میں بہت اچھی سرکاری نوکری دلوا دی تھی اور اب وہ مختلف ہتھکنڈے استعمال کرکے اپنے محکمے کے اعلیٰ ترین عہدے پر پہنچ گیا تھا۔ زندگی اس قدر مصروف ہوگئی تھی کہ اپنے آبائی شہر سے ناتا بالکل ہی ٹوٹ گیا تھا۔ اب اس کے محکمے کی طرف سے حیدرآباد میں نئے پروجیکٹ لگانے کے سلسلے میں سروے کیا جا رہا تھا اور وہ اسی سلسلے میں ایک ہفتے کے لئے حیدرآباد آیا تھا۔ اس کے ساتھ اس کے بیوی بچے بھی تھے۔ جنہیں وہ اپنی جائے پیدائش اور آبائی شہر دکھانے کی غرض سے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ وہ شہر کے اعلیٰ ترین ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے۔ حیدرآباد کا بازار جو ریشم گلی کے نام سے پورے پاکستان میں مشہور تھا۔ یہ قدیم ترین بازار بھی اب پھیل کر بہت بڑا ہو چکا تھا۔ پتلی اور تنگ گلیوں میں لاتعداد دکانیں کھل گئی تھیں۔ پرانے قدیم گھروں کو توڑ کر ان کی جگہ پلازہ تعمیر کر لئے گئے تھے۔ غرض پورے شہر کی طرح یہ بازار بھی بہت پھیل چکا تھا۔ اس کی بیوی ثوبیہ کو یہ بازار دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ اس شام وہ بیوی بچوں کو لے کر ریشم گلی دکھانے چلا آیا۔ بازار میں اس وقت بے پناہ رش تھا۔ کھوے سے کھوا چھل رہا تھا۔ ثوبیہ نے رش میں کھو جانے کے ڈر سے دونوں بڑے بچوں کے ہاتھ مضبوطی سے پکڑے ہوئے تھے اور مظہر نے ڈھائی سالہ حماد کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ ثوبیہ پیچ در پیچ گلیوں میں بنی مختلف ساز و سامان سے بھری دکانوں کو دلچسپی سے دیکھ رہی تھی۔ بازار کی ایک نسبتاً کشادہ جگہ پر مختلف چھوٹی موٹی اشیا سے بھرے ہوئے کئی ٹھیلے کھڑے تھے اور گاہک ان سے خریداری میں مصروف تھے۔ ان میں ہی ایک ٹھیلا پلاسٹک کے چھوٹے موٹے کھلونوں سے بھرا ہوا تھا۔ مظہر اس کے قریب سے گزرنے لگا تو اس کی گود میں چڑھے حماد نے ٹھیلے پر لٹکے ہوئے پلاسٹک کے جہاز کی طرف ہاتھ بڑھا دیا۔ بابا، میں یہ لوں گا۔ وہ انگلی سے اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ کیا مظہر نے مڑ کر دیکھا۔ حماد نہایت معمولی جہاز کی طرف اشارہ کر رہا تھا۔ ارے بیٹا، یہ کوئی لینے کی چیز ہے۔ مظہر اس کا مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔ نہیں بابا، میں تو یہی لوں گا۔ حماد کو نہ جانے کیوں وہ کھلونا بھا گیا تھا۔ گھر میں ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت اور قیمتی جہاز بھرے پڑے ہیں، لیکن ان کو دیکھو یہ کیا فضول جہاز پسند فرما رہے ہیں۔ مظہر نے مڑ کر ثوبیہ سے کہا۔ یہ تو ایسے ہی کرتا ہے، آپ آگے چلیں۔ ثوبیہ بولی۔ نہیں بابا، میں تو یہ لوں گا۔ حماد مچل گیا۔ مظہر اور ثوبیہ کو معلوم تھا کہ ان کا یہ بچہ بے حد ضدی ہے جس بات پر اڑ جائے اڑا ہی رہتا ہے۔ اس لئے ناچار وہ ٹھیلے کے نزدیک آگئے۔ ٹھیلے والا گردن جھکائے کھلونوں کو دوبارہ ان کی جگہ پر سیٹ کر رہا تھا جو گاہکوں نے الٹ پلٹ کر دیئے تھے۔ ارے بھائی، یہ جہاز کتنے کا ہے۔ مظہر نے بے دلی سے پوچھا۔ ٹھیلے والے نے گردن اٹھا کر دیکھا تو دونوں ہی کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ ارے محمود تم مظہر کے منہ سے بے ساختہ نکلا۔ ہاں یار۔ محمود نے یہ کہتے ہوئے ٹھیلے کے پیچھے سے آگے آ کر دونوں ہاتھ آگے بڑھا دیئے۔ وہ دونوں گرمجوشی سے گلے ملنے کے بعد ایک دوسرے سے الگ ہوئے۔ یہ یہ مظہر نے ٹھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے حیرت بھرے انداز میں کہا۔ یہ میرا ٹھیلا ہے۔ میں اس کا مالک ہوں۔ محمود کے لبوں پر افسردہ سی مسکراہٹ آگئی۔ لیکن یار تم مظہر کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ کیا کہے۔ اپنی کلاس کے سب سے جینئس، قابل طالب علم کو اس طرح ٹھیلے پر پلاسٹک کے معمولی کھلونے بیچتے دیکھ کر اس کی حیرت کسی طرح کم نہیں ہو رہی تھی۔ بس یار، میری قسمت۔ محمود کے لبوں پر بدستور افسردہ مسکراہٹ جمی ہوئی تھی۔ پیچھے کھڑی ثوبیہ بھی ان دونوں کو گلے ملتے دیکھ کر حیرت زدہ سی تھی۔ مظہر اور اس کی بیوی بچوں کے لباس اور چہروں پر چھائی آسودگی ان کی امارت اور شان و شوکت کا منہ بولتا ثبوت تھی۔ انہیں دیکھتے ہی محمود کو اندازہ ہوگیا تھا کہ مظہر کسی اعلیٰ عہدے اور مقام پر پہنچ چکا ہے۔ اور تم سنائو، ترقی کی کتنی منازل طے کرلیں محمود نے خوشدلی سے پوچھا۔ بس یار، اللہ تعالیٰ کی مہربانی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سب کچھ دے دیا ہے۔ مظہر نے کہا۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ محمود بولا۔ مظہر اس کے ٹھیلے پر رکھے ہوئے سامان کو دیکھنے لگا۔ تم تو حیدرآباد سے ایسے گئے کہ کبھی دوبارہ ملاقات ہی نہیں ہوئی۔ محمود نے کہا۔ ہاں یار، مجھے نوکری ملنے کے کچھ عرصے بعد ہی ابا ریٹائر ہوگئے تو ہماری پوری ہی فیملی کراچی شفٹ ہوگئی۔ پھر زندگی اس قدر مصروف ہوگئی کہ کبھی دوبارہ یہاں آنا نصیب ہی نہیں ہوا۔ اب بھی اپنے محکمے کی طرف سے یہاں نئے پروجیکٹ لگانے کے سلسلے میں سروے کرنے کی غرض سے ایک ہفتے کے لئے بھیجا گیا ہوں۔ مظہر نے بتایا۔ چلو، اس بہانے ہماری ملاقات تو ہوگئی۔ محمود بولا۔ لیکن یار، سمجھ میں نہیں آ رہا، تم اور یہ کام مظہر نے محمود اور اس کے ٹھیلے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ اتنے عرصے بعد ملاقات ہوئی ہے۔ کل جمعہ ہے، بازار بند ہوگا۔ سارا دن گھر پر فرصت سے رہوں گا۔ کل میرے گھر آ جائو، ساتھ کھانا کھائیں گے ماضی کی یادوں کو دہرائیں اور میں تمہیں اپنے متعلق سب کچھ تفصیل سے بتائوں گا۔ محمود نے کہا۔ تمہارا گھر مظہر نے سوالیہ انداز میں کہا۔ اسی جگہ، وہی گھر محمود نے بتایا۔ تم اسی گھر میں ہو مظہر نے پوچھا۔ ہاں یار، پھر کل آئو گے نا۔ محمود نے پوچھا۔ ہاں یار، تمہاری امی کے ہاتھ کے پکے آلو کے پراٹھوں کا ذائقہ تو ابھی تک یاد ہے۔ میں کل بھی صرف آلو کے پراٹھے ہی کھائوں گا۔ مظہر نے بے تکلفی سے کہا۔ امی تو اب زندہ نہیں ہیں، البتہ میری بیوی تمہاری فرمائش پوری کرے گی۔ محمود نے کہا۔ تمہاری امی فوت ہوگئیں مظہر کو جھٹکا سا لگا۔ ہاں، کئی برس ہوگئے۔ محمود نے بتایا۔ اب چلیں نا۔ ثوبیہ ان دونوں کے پیچھے کھڑی ان کی گفتگو سن رہی تھی۔ اس کے چہرے پر ناگوار سے تاثرات پھیلے ہوئے تھے۔ شاید اسے اپنے اعلیٰ مرتبت شوہر کا ایک ٹھیلے والے سے بے تکلفی سے گفتگو کرنا پسند نہیں آ رہا تھا۔ ہاں چلو۔ مظہر نے ثوبیہ کے ناگوار تاثرات بھانپتے ہوئے جلدی سے کہا۔ کل آئو گے نا محمود نے ہاتھ بڑھا کر ڈوری سے بندھا لٹکتا ہوا جہاز اتار کر حماد کی طرف بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ ہاں، میں ضرور آئوں گا۔ مظہر نے کہا۔ حماد نے جہاز ہاتھ میں لیا تو اس کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ ثوبیہ نے مظہر کو گھورا تو اس نے جلدی سے قدم آگے بڑھا دیئے۔ کون تھا یہ کچھ دور جا کر ثوبیہ نے ناگواری سے پوچھا۔ میرا کلاس فیلو، میرا جگری دوست، بچپن سے ساری تعلیم ہم نے ایک ساتھ ہی حاصل کی ہے۔ مظہر نے بتایا۔ کمال ہے، آپ کے جگری دوست ٹھیلے والے بھی ہوسکتے ہیں۔ ثوبیہ نے طنزیہ لہجے میں کہا۔ یہ ہماری کلاس کا سب سے جینئس، بااخلاق، قابل ترین لڑکا تھا، نہ جانے اس پر کیا گزری کہ بازار میں اس طرح ٹھیلا لئے کھڑا ہے۔ مظہر نے افسوس بھرے انداز میں کہا۔ سندھ کی دستکاریوں سے سجی ہوئی بڑی سی دکان پر نظر پڑتے ہی ثوبیہ دو تین سیڑھیاں چڑھ کر دکان میں داخل ہوگئی تو مظہر بھی اس کے پیچھے چلا آیا لیکن اب اس کی طبیعت مکدر ہوگئی تھی۔ اپنے بچپن کے دوست کو اس حال میں دیکھ کر اس کے ذہن پر بوجھ سا پڑگیا۔ ثوبیہ نے بازار میں گھوم پھر کر اچھی خاصی خریداری کر لی تھی۔ جب وہ اور بچے تھک گئے تو وہ ہوٹل واپس آگئے۔ ثوبیہ اور بچے تو کھانا کھانے کے بعد سونے کے لئے لیٹ گئے اور جلد ہی سو بھی گئے لیکن مظہر کو نیند نہیں آئی۔ اس کے دل و دماغ پر گزرے دنوں کے عکس لہرانے لگے اور وہ ماضی کی وادیوں میں کھو گیا۔ ٭ ٭ ٭ وہ دونوں پہلی کلاس میں ایک ہی دن داخل ہوئے تھے اور اسی دن ان کی دوستی کی ابتدا ہوگئی تھی۔ محمود ذہین ترین طالب علم ثابت ہو رہا تھا۔ وہ ہر سال اول آتا تھا۔ اپنی اچھی شکل و صورت اور کلف لگے استری شدہ یونیفارم پہننے کے سبب وہ کسی اچھے گھرانے کا چشم و چراغ دکھائی دیتا تھا۔ پڑھائی کے ساتھ وہ کھیلوں کی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیتا۔ ہنس مکھ، خوش اخلاق، ملنسار اور ذہین محمود ہردلعزیز تھا۔ ان دونوں میں بہت گہری دوستی قائم ہوچکی تھی، لیکن یہ دوستی صرف اسکول تک ہی محدود تھی۔ انہوں نے ایک دوسرے کے گھریلو معاملات کے متعلق جاننے کی کوشش ہی نہیں کی تھی۔ مظہر کے والد سرکاری عہدے پر فائز تھے۔ ان کے گھر میں خوشحالی تھی۔ محمود کے متعلق وہ نہیں جانتا تھا۔ یہ تو اسے بہت بعد میں پتا چلا کہ محمود کے والد ٹھیلے پر آلو چھولے بیچتے ہیں۔ مظہر نے تو کبھی یہ سوچا بھی نہیں تھا کہ محمود ٹھیلے پر آلو چھولے بیچنے والے کا بیٹا ہے۔ یہ پتا چلنے پر اس کی طبیعت مکدر تو ضرور ہوئی لیکن اس وقت تک ان کی دوستی اس قدر مضبوط اور گہری ہوچکی تھی کہ اس نے محمود کی کم مائیگی کے احساس کو اپنے اوپر حاوی نہیں ہونے دیا اور ان کی دوستی برقرار رہی۔ میٹرک کے امتحان نزدیک آ رہے تھے۔ مظہر کئی مضامین میں بہت کمزور، جبکہ محمود ان میں بہت اچھا تھا۔ محمود شروع ہی سے پڑھائی میں مظہر کی مدد کرتا چلا آ رہا تھا اور اب بھی وہ اس کی مدد کر رہا تھا لیکن اسکول میں ٹائم کم ہونے کی وجہ سے وہ پڑھائی ناکافی ثابت ہو رہی تھی۔ پھر اسکول میں چھٹیاں بھی شروع ہونے والی تھیں۔ لہٰذا محمود کے کہنے پر مظہر نے کبھی کبھار پڑھائی میں مدد لینے کی غرض سے اس کے گھر جانا شروع کردیا۔ پسماندہ علاقے میں بنا ہوا اس کا گھر ان کی کم مائیگی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ محمود کی ماں اور دونوں بہنیں اس سے مل کر بہت خوش ہوئی تھیں۔ ریحانہ اس سے بڑی اور صائمہ چھوٹی تھی۔ اس کی طرح اس کی دونوں بہنیں بھی خوش شکل اور تہذیب و اخلاق کا نمونہ تھیں۔ اس کی ماں بھی رکھ رکھائو اور محبت کرنے والی خاتون تھیں۔ جس دن وہ پہلی مرتبہ ان کے گھر آیا تو ان کے چھوٹے سے باورچی خانے میں چولھے پر رکھے پتیلے میں چھولوں میں ڈالنے کے لئے آلو ابل رہے تھے۔ امی آلو بھرے پراٹھے بہت اچھے بناتی ہیں۔ تم کھانا کھا کر جانا۔ محمود نے اصرار سے کہا۔ ہاں بیٹا، تم بھی میرے محمود جیسے ہی ہو۔ میں ابھی تمہارے لئے پراٹھے بنا کر لاتی ہوں۔ اس کی ماں نے شفقت بھرے انداز میں کہا۔ اپنے گھر کے چھوٹے سے اکلوتے کمرے میں محمود اسے پڑھانے بیٹھ گیا اور اس کی والدہ اور بہنیں مظہر کے لئے کھانے کا انتظام کرنے لگیں۔ کچھ دیر بعد انہوں نے پراٹھوں کے ساتھ اچار اور کئی طرح کی چٹنیاں لا کر اس کے سامنے رکھ دیں۔ پراٹھے واقعی بے حد لذیذ اور خستہ تھے۔ مظہر کو بہت پسند آئے اور وہ بے تکلفی سے کھاتا چلا گیا۔ اس کے بعد وہ اکثر پڑھائی کے سلسلے میں محمود سے مدد لینے اس کے گھر آنے لگا۔ اس کی والدہ اور بہنیں مظہر کے ساتھ اتنی اپنائیت اور محبت سے پیش آتیں کہ اسے بہت اچھا لگتا۔ دو چار مرتبہ محمود کے والد سے بھی ملاقات ہوئی۔ دبلے پتلے، نرم خو، مہذبانہ انداز میں گفتگو کرنے والے اس کے والد بھی مظہر سے بہت شفقت سے پیش آتے۔ محمود ہماری امید ہمارا آسرا ہے۔ بس بیٹا تم بھی دعا کرو کہ یہ خوب پڑھ لکھ کر بڑا آدمی بن جائے۔ کہیں افسر لگ جائے۔ ہماری تو جیسی گزر رہی ہے، گزر جائے گی لیکن ہم اپنا تن پیٹ کاٹ کر اپنے بچوں کو تعلیم دلوا رہے ہیں، تاکہ ہمارے بچوں کا مستقبل سنور جائے۔ محمود کے والد اکثر کہا کرتے۔ ایسے میں مظہر کو ان کی آنکھوں میں امید کے دیئے سے جلتے دکھائی دیتے۔ آپ کیوں فکر کرتے ہیں۔ محمود تو پڑھائی میں بہت اچھا ہے۔ اس کے افسر بننے کے تو بہت امکانات ہیں۔ مظہر ہنس کر اپنے دوست کی تعریف کردیتا۔ ہاں یار، میں بھی بس یہی چاہتا ہوں کہ میرے دم سے میرے والدین نے جو امیدیں وابستہ کرلی ہیں، اچھے دنوں کے جو سنہرے خواب انہوں نے دیکھنے شروع کردیئے ہیں میں ان کے خوابوں کی تعبیر بن سکوں۔ اپنے ماں باپ اور بہنوں کی خواہشیں، آرزوئیں پوری کرنے کے قابل ہو جائوں۔ محمود کہتا تو اس کی آنکھوں میں امیدوں کے دیئے جھلملا رہے ہوتے تھے۔ ریحانہ کو پڑھائی سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی۔ اس لئے وہ میٹرک کر کے گھر بیٹھ گئی تھی اور گھر کے کاموں میں ماں باپ کا ہاتھ بٹا رہی تھی۔ البتہ محمود سے چھوٹی صائمہ کو پڑھائی کا جنون کی حد تک شوق تھا۔ وہ بے حد ذہین اور پڑھاکو تھی۔ اکثر وہ ان دونوں کے قریب بیٹھ کر ان کے سوالات حل کردیا کرتی۔ مظہر نے اس کا نام استانی جی رکھ دیا تھا۔ وہ جب بھی اسے استانی جی کہہ کر مخاطب کرتا اس کے لبوں پر بہت گہری مسکراہٹ آ جاتی۔ مظہر کو اکثر محسوس ہوتا کہ وہ ان کے قریب بیٹھی بار بار اس کی طرف دیکھ رہی ہے۔ وہ جب بھی اس کی طرف یکھتا تو وہ گھبرا کر نگاہوں کا زاویہ بدل لیتی۔ ریحانہ اور اس کی ماں باورچی خانے میں گھسی آلو اور چھولے ابالنے اور چٹنیاں پیسنے کے کام میں لگی رہتیں اور مزیدار چھولوں کی ایک پلیٹ مظہر کے لئے بھی لے آتیں۔ ارے خالہ، چٹنیاں پیستے تو آپ کے ہاتھوں پر چھالے پڑ گئے ہیں۔ اس دن محمود کی ماں نے پلیٹ مظہر کے آگے بڑھائی تو اس نے ان کے ہاتھوں پر پڑے چھالے دیکھ کر کہا۔ بس بیٹا، جب ہمارا محمود افسر بن جائے گا تو پھر ہمیں یہ چٹنیاں پیسنے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ انہوں نے امید بھری نظروں سے محمود کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ امی تو سمجھتی ہیں کہ پڑھائی مکمل ہوتے ہی میں کہیں افسر لگ جائوں گا اور گھر میں ہُن برسنے لگے گا۔ محمود ہنستے ہوئے بولا۔ کیوں نہیں، پڑھے لکھے کو تو فوراً نوکری مل جاتی ہے۔ وہ بولیں۔ جی، آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں۔ مظہر نے ہاں میں ہاں ملائی۔ ہم دونوں میاں بیوی ان پڑھ ہیں۔ اسی وجہ سے اس کے ابا ٹھیلے پر آلو چھولے بیچتے ہیں۔ اگر وہ بھی پڑھے لکھے ہوتے تو کہیں افسر لگے ہوتے اور ہمیں غربت کے یہ دن نہیں سہنے پڑتے۔ وہ بولیں۔ آپ دیکھئے گا ہمارا بھائی کتنا بڑا افسر بنے گا۔ صائمہ کے لہجے میں تفاخر تھا۔ استانی جی، مجھے تو آپ بھی بہت بڑی افسر بنتی دکھائی دے رہی ہیں۔ مظہر نے ہنس کر کہا۔ تمہارے منہ میں گھی شکر، دعا کرو کہ میری بیٹی بھی استانی بن جائے۔ ہمارے خاندان میں لڑکیوں کو پڑھاتے نہیں ہیں۔ یہ تو مجھے اور اس کے ابا کو اپنے بچوں کو پڑھانے کا اتنا شوق ہے کہ ہم نے ریحانہ کو بھی میٹرک تک تعلیم دلوائی ہے اور صائمہ تو انشا اللہ خوب پڑھے گی۔ کیونکہ اسے تو لکھنے پڑھنے کا بہت ہی شوق ہے۔ محمود کی امی بولیں۔ میں نے تو پہلے ہی ان کا نام استانی جی رکھ دیا ہے۔ مظہر نے صائمہ کی طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے کہا تو اس نے بھی مسکرا کر سر جھکا دیا۔ ٭ ٭ ٭ مظہر کو محمود کے گھر آنے جانے میں الجھن محسوس نہیں ہوتی تھی۔ وہ سب صاف ستھرے اور تہذیب و اخلاق والے لوگ تھے۔ جن کی آنکھوں میں اچھے مستقبل کے خواب بسے ہوئے تھے۔ وہ بہت بے تکلفی سے اس کے گھر آتا جاتا تھا۔ محمود کے ابا کئی دنوں سے بیمار پڑے تھے۔ اس دن وہ محمود کے گھر گیا تو باورچی خانے میں سناٹا تھا۔ کام کاج کرنے اور کھٹرپٹر کی آوازیں نہیں آ رہی تھیں۔ اس کی ماں اور ریحانہ
null
null
null
null
447
https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-31/
میں یہ اعتراف کرنے میں شرم نہیں محسوس کرتا کہ خود میری بھی سٹی گم ہوگئی تھی۔ ایسے واقعات سے کبھی واسطہ تو نہیں پڑا تھا لیکن دوسروں سے قصے بہت سنے تھے۔ اتنی بھی ہمت نہیں ہوسکی کہ کھلے دروازے سے باہر جاکر دیکھتا۔ زیب النسا نے جو کچھ بتایا تھا، وہ مجھے اپنی آنکھوں کے سامنے محسوس ہورہا تھا۔ ثبوت کے طور پر کارنس سے مورتی بھی غائب تھی۔ زیب النسا سے تسلی کے الفاظ بھی نہیں کہہ سکا۔ وہ بری طرح ڈری ہوئی تھی، ساری رات نہ خود سوئی، نہ مجھے سونے دیا۔ صبح کو اس نے کہا۔ تم چلے جائو گے شاہد اور میں خوف سے مرتی رہوں گی۔ کام ضروری ہیں ورنہ میں نہ جاتا۔ تم ہمت رکھو۔ وہ جو کچھ بھی تھا، چلا گیا۔ اب خوف بیکار ہے۔ بچے اسکول چلے جائیں گے، میں تنہا رہوں گی۔ بڑی مشکل سے میں نے اسے سمجھایا بجھایا اور پھر جیپ لے کر چل پڑا۔ سائٹ پر پہنچا تو وہاں دوسری مصیبت انتظار کررہی تھی۔ مزدوروں نے کام نہیں شروع کیا تھا بلکہ وہ باغ سے بہت فاصلے پر بیٹھے میرا انتظار کررہے تھے۔ حالانکہ عام حالات میں وہ کام شروع کردیتے تھے۔ سب میرے گرد جمع ہوگئے۔ کیا بات ہے ہم یہاں کام نہیں کریں گے ٹھیکیدار یہ بھوت باغ ہے، ہمارا ایک آدمی زخمی ہوگیا۔ کیسے میں نے پوچھا اور مزدور مجھے تفصیل بتانے لگے۔ یہاں کام کرنے والے مزدوروں نے اپنے لیے ایک گوشے میں آرام گاہ بنا رکھی تھی۔ پہلے کسی نے ایک مزدور کو اٹھا کر زمین پر پٹخ دیا اور وہ ہکابکا رہ گیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آیا کہ ایسا کس نے کیا۔ ابھی دوسرے مزدور اس پر حیرت کررہے تھے کہ ایک اور مزدور کھڑا ہوگیا۔ اس نے اپنا لباس اتار پھینکا اور بھیانک آواز میں چیخ چیخ کر گانا شروع کردیا۔ وہ ناچ بھی رہا تھا۔ صاحب میں اپنے بچوں کی قسم کھاتا ہوں کہ جھوٹ نہیں بول رہا۔ منجو کی زبان کوئی آٹھ انچ باہر نکل آئی تھی اور آنکھیں اتنی تیز روشنی دے رہی تھیں کہ اس روشنی میں آس پاس دیکھا جاسکتا تھا۔ وہ ناچتا رہا اور پھر ہماری وہاں رکنے کی ہمت نہیں پڑی۔ منجو وہیں رکا رہا اور ہم سب وہاں سے بھاگ آئے۔ صبح کو وہ زخمی حالت میں واپس آگیا۔ اس نے کہا کہ یہاں کام بند کردو ورنہ سب مارے جائو گے۔ ہم کام نہیں کریں گے ٹھیکیدار ہمارا حساب کردو۔ میں نے مزدوروں کو سمجھایا۔ ان سے کہا کہ وہ بیشک کچھ دن کے لیے کام بند کردیں مگر وہ نہ رکے اور کام بند کرنا پڑا۔ میرا ہزاروں روپے کا سامان وہاں پڑا تھا، ہزاروں خرچ ہوچکے تھے۔ بڑا پریشان ہوگیا میں پھر یہ سوچا کہ شہر سے مزدور لے کر آئوں گا۔ کام تو شروع کرانا ہی ہے۔ جو بن پڑا، کیا اور پھر زیب النسا کے خیال سے واپس چل پڑا۔ دھڑکتے دل سے گھر میں داخل ہوا۔ دل بری طرح پریشان تھا مگر زیب النسا کو پرسکون دیکھ کر اطمینان ہوا۔ بچوں کے بارے میں پوچھا تو زیب النسا نے بتایا کہ اسکول سے آنے کے بعد کھانا کھا کر سو گئے ہیں۔ تم ٹھیک ہو ہاں کھانا پکایا ہے ہاں اس نے کہا۔ عجیب ٹھہرا ٹھہرا لہجہ تھا۔ وہ اپنے مزاج کے خلاف بول رہی تھی۔ ہمارے درمیان بہت محبت ہے، ایک دوسرے کے مزاج سے آشنائی رکھتے ہیں۔ اس نے میری واپسی کے بارے میں بھی نہیں پوچھا تھا۔ بہت عجیب سا لگا۔ وہ کھانا لینے چلی گئی تھی۔ پھر وہ ٹرے لیے اندر داخل ہوگئی۔ ٹرے سینٹرل ٹیبل پر رکھی، واپس مڑی اور دروازہ بند کردیا۔ یہ بھی سمجھ میں نہ آنے والا عمل تھا۔ میں نے گردن جھٹکی۔ بھوک لگ رہی تھی۔ سالن کی قاب سے ڈھکن اٹھایا تو حلق سے چیخ نکل گئی۔ بہت سی مردہ چھپکلیاں پیلے رنگ کے بدنما شوربے میں تیر رہی تھیں۔ میں نے بے اختیار چیختے ہوئے قاب اٹھا کر پھینک دی۔ پھر وحشت زدہ نظروں سے زیب النسا کو دیکھا اور میرا سانس بند ہونے لگا۔ وہ سیدھی کھڑی تھی۔ اس کے دانت ایک ایک انچ لمبے ہوگئے تھے، آنکھوں کا رنگ سرخ تھا اور ان کی پتلیاں غائب ہوچکی تھیں۔ سر کے بال اس طرح بار بار سیدھے ہورہے تھے جیسے سانپ کلبلا رہے ہوں۔ اس کی یہ ہیبت ناک صورت دیکھ کر میرا رواں رواں کانپ اٹھا، اعصاب بے جان ہوگئے۔ بولنے کی کوشش کی مگر آواز نہیں نکلی۔ دہشت سے اسے دیکھتا رہا۔ اس نے کچھ دیر مجھے گھورا پھر زمین پر پڑی چھپکلیوں کو دیکھنے لگی۔ پھر آگے بڑھ کر ان کے قریب بیٹھ گئی اور الٹی ہوئی قاب سیدھی کرکے چھپکلیاں چن چن کر اس میں رکھنے لگی۔ میں سکتے کے عالم میں اسے دیکھ رہا تھا۔ وہ اپنے کام میں منہمک تھی اور میری سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ میں کیا کروں۔ پھر میں نے محسوس کیا جیسے وہ اونگھ رہی ہے۔ بار بار اس کے سر کو جھٹکے لگ رہے تھے۔ کچھ دیر کے بعد وہ وہیں فرش پر سیدھی سیدھی لیٹ گئی۔ مجھے محسوس ہوا جیسے وہ بے ہوش ہوگئی ہو۔ اس کے چہرے میں بھی تبدیلیاں رونما ہونے لگی تھیں اور وہ اپنی اصلی صورت میں واپس آگئی تھی۔ میرے اعصاب بھی آہستہ آہستہ سنبھلنے لگے اور میں اپنی جگہ سے ہلنے کی کوشش میں کامیاب ہوگیا۔ اسے چھوڑ کر بھاگ بھی نہیں سکتا تھا۔ میری بیوی تھی، میرے بچوں کی ماں تھی۔ صرف اپنی ہی زندگی بچانا تو مقصود نہیں تھا۔ وہ جس عذاب میں گرفتار ہوئی تھی، اسے بھی دیکھنا تھا۔ قریب پہنچا۔ اب اس کی صورت بالکل ٹھیک ہوگئی تھی، سانس چل رہی تھی اور اطراف میں پڑی ہوئی مردہ چھپکلیاں بڑا گھنائونا منظر پیش کررہی تھیں لیکن میں نے اسے نظر انداز کردیا اور زیب النسا کی گردن اور پائوں میں ہاتھ ڈال کر اسے اٹھانے کی کوشش کی لیکن مجھے پسینہ آگیا۔ حالانکہ وہ ایک نرم و نازک جسم کی مالک، پھول جیسے وزن والی عورت تھی لیکن اس وقت یوں لگ رہا تھا جیسے اس کا بدن ٹھوس پتھر سے تراشا گیا ہو۔ میں اسے جنبش بھی نہ دے پایا۔ میری دہشت اور خوف انتہا کو پہنچا ہوا تھا کہ دفعتاً ہی زیب النسا نے آنکھیں کھول دیں۔ میرا جسم اس کے جسم سے بالکل قریب تھا اور میرا چہرہ اس کے چہرے کے سامنے جونہی اس کی آنکھیں کھلیں، ہونٹ بھی اوپر اٹھ گئے اور لمبے لمبے دانت باہر جھانکنے لگے۔ اس نے ایک بھیانک قہقہہ لگایا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر مجھے دبوچنے کی کوشش کی اور میں نے بندر کی طرح الٹی چھلانگ لگا دی۔ اس کے بعد میرا اس کمرے میں رکنا ممکن نہ رہا۔ ساری محبت، سارے جذبات اپنی جگہ لیکن جو منظر تھا، وہ ایسا ہولناک تھا کہ میں ہی کیا، کوئی بھی ہوتا وہاں نہ ٹک سکتا تھا۔ دوڑتا ہوا بچوں کے کمرے میں آیا اور دروازہ کھول کر اندر گھس گیا۔ اس کے بعد دروازہ ہی اندر سے بند کرلیا تھا۔ میرا دل سینے سے نکلا جارہا تھا۔ جو بپتا مجھ پر پڑی تھی، وہ ایسی تھی کہ حال خراب سے خراب تر ہوگیا تھا۔ بچوں کے پاس بیٹھ گیا۔ ان کے جسموں پر ہاتھ رکھے اور یہ سوچنے لگا کہ یہ کیا مصیبت آگئی اور اب اس مصیبت سے چھٹکارہ کیسے ممکن ہے۔ یہ ساری باتیں، یہ ساری کہانیاں، جن بھوت، کالے علم، سفلی علوم ان کے بارے میں سن تو رکھا تھا لیکن گزری پہلی ہی بار تھی حالانکہ اس آسیب زدہ باغ کی کہانیاں مجھے سنائی گئی تھیں لیکن میں نے تو شاید سنجیدگی سے کوئی بات سنی ہی نہیں تھی اور اب یہ سب کچھ میری نگاہوں کے سامنے آگیا تھا۔ بہت خوفناک تھا یہ سب چلیں ٹھیکہ جہنم میں جائے۔ جو رقم پھنس گئی ہے، وہ بھی غرق ہوجائے۔ مجھے اس کا افسوس نہیں ہوتا لیکن میرا گھر، میری بیوی، میرے بچے اس مصیبت سے کیسے چھٹکارہ حاصل کیا جائے۔ قرب و جوار میں لوگ رہتے تھے۔ اگر کسی کو صورتحال بتاتا تو پتا نہیں لوگوں پر کیا اثرات ہوتے۔ تاہم کچھ نہ کچھ کرنا ہی تھا۔ بڑی مشکل سے ہمت کی۔ سوتے ہوئے بچوں کو جگایا، ساتھ لیا اور کمرے سے باہر نکل آیا لیکن سامنے ہی زیب النسا نظر آگئی۔ عجیب اداس اداس سی کھڑی تھی۔ بالکل مناسب حالت میں، مناسب کیفیت میں۔ میں نے خوف بھری نگاہوں سے اسے دیکھا۔ اس نے بوجھل لہجے میں بچوں کے نام لے کر انہیں پکارا اور دونوں بچے اس کے پاس پہنچ گئے۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور تعجب سے بولی۔ آپ آپ کب آئے، آگئے آپ ہیں ہاں میں نے کھوئے کھوئے لہجے میں کہا۔ اس کے پوچھنے کے انداز میں بالکل مصنوعی پن نہیں تھا۔ صورتحال پر غور کرنے لگا۔ زیب النسا بچوں کے ساتھ میرے قریب آگئی اور بولی۔ خیریت تو ہے رنگ پیلا پڑ رہا ہے آپ کا کیا ہوگیا تھا آپ کو کیا بات ہے، جلدی کیسے آگئے۔ تمہاری وجہ سے زیب النسا تمہاری وجہ سے۔ تم کہاں تھی اور کیا کررہی تھیں بس دوپہر کا کھانا کھایا، بچوں کو سلایا اور خود بھی اپنے کمرے میں آکر سو گئی۔ گہری نیند آگئی تھی۔ کچھ آوازیں سنیں تو آنکھ کھل گئی۔ باہر آکر دیکھا تو آپ تھے۔ ہوں ہاں میں جلدی آگیا۔ میں نے نجانے کس طرح اپنے دل و دماغ پر قابو پا کر کہا۔ جو کچھ مجھ پر بیت چکی تھی، وہ تو ایک الگ کہانی تھی لیکن اگر زیب النسا کو ساری کہانی سنا دیتا تو اس کا تو خوف کے مارے دم ہی نکل جاتا۔ اس کا مطلب ہے کہ جو کچھ اس پر بیتی ہے، وہ اس کے علم میں بالکل نہیں ہے۔ خاموشی ہی مناسب سمجھی۔ بعد میں زیب النسا کی کیفیت خاصی بہتر رہی اور اس طرح رات ہوگئی۔ بچوں کو آج ہم نے اپنے کمرے میں ہی سلا لیا تھا۔ زیب النسا نے اس کے بارے میں پوچھا تو میں نے کہا۔ بس یونہی پچھلی رات والے واقعہ سے میں بھی کافی متاثر ہوگیا ہوں۔ ویسے جو کام میں کررہا ہوں، وہ بھی کچھ دن کے لئے رک گیا ہے۔ میرا خیال ہے اب چند روز تک میں جائوں گا نہیں۔ زیب النسا میری مزاج شناس تھی۔ بیوی تھی، طویل عرصے کی رفاقت تھی۔ مجھے دیکھتے ہوئے بولی۔ کوئی بات ہے جو آپ مجھ سے چھپا رہے ہیں۔ نہیں کوئی خاص بات نہیں ہے زیب النسا بس رات کے واقعہ کے بارے میں سوچتا رہا۔ آخر وہ سب کیا تھا۔ اس کے بعد تمہیں تو کوئی احساس نہیں ہوا نہیں کوئی خاص بات نہیں لیکن بس دماغ گم گم سا رہا۔ ایسا محسوس ہوتا رہا ہے دن بھر جیسے پورے وجود پر کوئی بوجھ طاری رہا ہے۔ ایسا انوکھا بوجھ جسے میں کوئی معنی نہیں دے سکتی۔ میں اس کی بات سن کر خاموش ہوگیا تھا لیکن دل میں ہزاروں وسوسے جنم لے رہے تھے۔ یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ مصیبت باقاعدہ مجھ سے منسلک ہوگئی ہے اور چونکہ ان واقعات کا اس سے پہلے کوئی اندازہ نہیں تھا اس لیے یہ بھی نہیں سمجھ میں آرہا تھا کہ ان سے چھٹکارہ کیسے حاصل ہوگا۔ ہوسکتا ہے کہ یہ سب کچھ خودبخود ہی ٹھیک ہوجائے لیکن ذہن پر جو بوجھ طاری تھا، وہ سونے میں رکاوٹ بن رہا تھا جبکہ تھوڑی دیر کے بعد زیب النسا سو گئی تھی۔ بچے پہلے ہی گہری نیند سو رہے تھے۔ میں پریشانی کے عالم میں بہت سی باتیں سوچتا رہا۔ ٹھیکے کا مسئلہ بھی درمیان میں تھا۔ جو وعدہ کیا تھا اس فارم ہائوس کو مکمل کرنے کا، اس میں رکاوٹ پیدا ہوگئی تھی۔ شہر سے مزدوروں کو تلاش کرنا اور وہاں تک لانا اور پھر اس کے بعد یہ بھی ہوسکتا تھا کہ یہ شہری مزدور بھی فرار ہوجائیں۔ کیا کروں کیا ٹھیکہ کینسل کردوں لیکن ساٹھ، ستر ہزار روپے نقصان اٹھانا پڑے گا اور بھی بہت سے ایسے معاملات تھے جو اس ٹھیکے کو کینسل کرنے کی وجہ سے پیدا ہوسکتے تھے۔ انہی سوچوں میں گم تھا۔ رات کے تقریباً سوا دو بجے تھے۔ زیب النسا کو میں نے گہری نیند سوتے ہوئے دیکھا تھا لیکن اچانک ہی میں چونک پڑا۔ وہ اس طرح اٹھ کر بیٹھ گئی جیسے کسی نے اسے مشینی انداز میں اٹھا دیا ہو۔ منہ کھول کر اس سے کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ میں نے اسے دونوں ہاتھ سیدھے کئے، اپنی جگہ سے کھڑے ہوتے ہوئے دیکھا اور جس چیز نے میری زبان بند کردی، وہ اس کا چہرہ تھا جو انگارے کی طرح روشن ہوکر چمکنے لگا تھا۔ آنکھیں بند تھیں، سر کے بال چھتری کی مانند کھڑے ہوگئے تھے۔ وہی کلبلاتے بال جیسے کچھ سانپ لہرا رہے ہوں۔ وہ آہستہ آہستہ ہاتھ سیدھے کئے ہوئے دروازے کی جانب بڑھنے لگی اور پھر میرے خوف میں اس وقت مزید اضافہ ہوگیا جب میں نے دیکھا کہ وہ ہاتھ ہلائے بغیر دروازہ کھولنے میں کامیاب ہوگئی ہے یا پھر دروازہ جو اندر سے بند تھا، خودبخود کھل گیا۔ زیب النسا رات کی تاریکی میں کھلے ہوئے دروازے سے باہر نکل گئی۔ میرا بدن کانپنے لگا، پورا جسم پسینے سے تر ہوگیا تھا۔ اعصاب کہہ رہے تھے کہ ہوش و حواس سے عاری ہوجائوں، گہری نیند سو جائوں تاکہ اس خوف سے نجات مل جائے لیکن بیوی تھی، آخر میرے بچوں کی ماں پورا مستقبل میرے سامنے تھا۔ نجانے کونسی قوت نے مجھے بھی اپنی جگہ چھوڑنے پر مجبور کردیا۔ میں آہستہ آہستہ دبے پائوں اٹھا اور دروازے کے قریب پہنچ گیا۔ جھانک کر باہر دیکھا۔ زیب النسا آگے جارہی تھی۔ میرے مکان کا احاطہ بہت وسیع ہے اور اس کا آخری گوشہ کافی فاصلے پر ہے۔ آخری گوشے پر بھی میں نے ایک کمرہ بنا رکھا تھا جس میں کاٹھ کباڑ بھرا رہتا تھا۔ یہ کاٹھ کباڑ عموماً کنسٹرکشن کے سامان سے تعلق رکھتا تھا۔ زیب النسا کا رخ اسی کمرے کی جانب تھا۔ کمرے کے بالکل قریب ایک بڑ کا درخت تھا جس کا سایہ پورے کمرے پر رہتا تھا۔ زیب النسا بڑ کے اس درخت کے قریب پہنچ گئی اور پھر میں نے اسے درخت کی جڑ میں کچھ ٹٹولتے ہوئے دیکھا۔ ہمت نہیں پڑ رہی تھی کہ آگے بڑھ کر اس کے قریب پہنچ جائوں چنانچہ احاطے کی دیوار کا سہارا لیتا ہوا بالکل بلی جیسے قدموں سے چل کر اتنے قریب پہنچ گیا کہ وہاں سے اس کی حرکات و سکنات کا جائزہ لے سکوں۔ وہ اسی طرح زمین کھود رہی تھی جیسے بلی اپنے پنجوں سے زمین کھودتی ہے۔ گھٹنوں کے بل بیٹھی ہوئی تھی اور کچھ دیر کے بعد میں نے اس کے ہاتھ میں کوئی شے دیکھی۔ چاندنی پھیلی ہوئی تھی۔ ویسے بھی سامنے کے حصے پر ہمیشہ ایک طاقتور بلب روشن رہتا تھا۔ یہی میری ہمیشہ کی عادت تھی۔ ان دونوں روشنیوں میں نے جو منظر دیکھا، وہ دل کی حرکت بند کردینے کے لیے کافی تھا۔ بھلا اس مورتی کو میں کیسے نہ پہچانتا جسے میں خود مصیبت بنا کر اپنے ساتھ گھر لایا تھا۔ وہی مورتی تھی جو کارنس سے غائب ہوئی تھی۔ زیب النسا نے اسے درخت کی جڑ میں ایک اونچی جگہ پر رکھا پھر تقریباً چار فٹ پیچھے ہٹی اور گھٹنوں کے بل ہاتھ اسی طرح سیدھے کئے ہوئے بیٹھ گئی۔ اس کے بعد اس نے ایک عجیب و غریب عمل شروع کردیا۔ سامنے کے ہاتھ اس نے زمین پر ٹکائے اور خود اس کے ساتھ جھکتی چلی گئی۔ پھر سیدھی ہوئی اور پیچھے کی سمت جسم کو موڑنے لگی۔ اس کے بعد اسی انداز میں اس کی رفتار تیز ہونے لگی۔ وہ ہاتھ سیدھے کرکے سر نیچے جھکا کر زمین سے لگاتی اور پھر اسی طرح پیچھے ہوکر اپنا سر عقب میں زمین پر لگاتی۔ میں اسے اس عالم میں دیکھتا رہا۔ دل رو رہا تھا لیکن آگے بڑھنے کی ہمت نہیں پڑ رہی تھی۔ زیب النسا کے اس انداز میں جنبش کرنے کی رفتار تیز ہونے لگی اور پھر اتنی تیز ہوئی کہ اس پر نگاہیں جمانا مشکل ہوگیا۔ میرا دل ٹکڑے ٹکڑے ہورہا تھا۔ وہ میری بیوی تھی۔ اس انداز میں جنبش کرنے سے اس کی ہڈیوں کی جو کیفیت ہوسکتی تھی، مجھے اس کا احساس تھا۔ فطرتاً نازک طبع تھی لیکن اس وقت، اس وقت اس وقت میں دونوں ہاتھ دل پر رکھے اسے دیکھتا رہا اور میری آنکھوں میں نمی پیدا ہوگئی۔ بڑے پریشان کن حالات تھے۔ تقریباً پندرہ منٹ تک زیب النسا وہی عمل دہراتی رہی اور اس کے بعد آہستہ آہستہ اس کی رفتار مناسب ہوگئی۔ میں نے اسے مورتی کو اٹھا کر واپس اس کی جگہ رکھتے ہوئے دیکھا۔ پھر وہ اس کام سے فارغ ہوکر غالباً واپس پلٹی تو میں جلدی سے دوڑتا ہوا اپنے کمرے کی جانب چل پڑا۔ دل کی جو کیفیت ہورہی تھی، اس کا اندازہ بس خدا ہی کو تھا۔ کسی سے کیا کہہ سکتا تھا۔ بستر پر آکر لیٹ گیا مگر جسم جیسے ہوا میں اڑا جارہا تھا، دماغ قابو میں نہیں تھا۔ آہ کیا ہوگیا، یہ کیا ہوگیا زیب النسا کو، کچھ بتانا بیکار ہی تھا۔ وہ جس کیفیت میں تھی، اس سے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ ایسے عالم میں وہ اپنے ہوش و حواس سے عاری ہوتی ہے لیکن دوسرے دن میں نے سنجیدگی سے غور کرنا شروع کردیا۔ اس طرح تو وہ ہلاک ہوجائے گی اور میرے بچے ماں سے محروم ہوجائیں گے۔ کیا کروں، کسی سے کوئی مشورہ کروں، واقعات چونکہ ایسے انوکھے تھے کہ کسی کو بتاتے ہوئے بھی شرم آتی تھی۔ لوگ طرح طرح کی باتیں کرتے بلکہ بعض اوقات تو الزام لگانے سے بھی نہیں چوکتے۔ کوئی یہ بھی کہہ سکتا تھا کہ میری بیوی مجھے ناپسند کرتی ہے اور اس نے یہ کھیل مجھ سے چھٹکارہ حاصل کرنے کے لیے شروع کیا ہے۔ جتنے منہ اتنی باتیں بھلا کہنے والی زبان کو کون روک سکتا ہے۔ سانسی کے بہت سے علاقوں میں، میں نے ایسے بورڈ دیکھے تھے جن پر جادو ٹونوں اور سفلی علم کا توڑ کرنے کے دعوے تحریر تھے۔ ظاہر ہے میری معلومات اس سے زیادہ تو تھی نہیں چنانچہ میں نے ایسے لوگوں سے رجوع کرلیا۔ ایک صاحب ملے۔ کوئی سنیاسی باوا تھے جن کا تجربہ ستر سال تھا اور عمر چالیس سال بہرحال جو کچھ بھی تھا، انہی سے رجوع کیا۔ سب سے پہلے انہوں نے مجھ سے کچھ رقم طلب کی اور یہ دیکھا کہ میرا مسئلہ کیا ہے۔ اس کے لیے انہوں نے ایک تجربہ کیا اور اس تجربے نے مجھے کافی متاثر کیا۔ پھر میں نے ساری صورتحال سنیاسی باوا کو بتائی اور انہوں نے اپنا حساب کتاب بنا کر بل میرے ہاتھ میں تھما دیا۔ بل کی مجھے پروا نہیں تھی۔ میں نے ان سے یہ کہا کہ اگر وہ میری بیوی کو بالکل ٹھیک کردیں اور اسے مصیبت سے نکال دیں تو میں انہیں منہ مانگی رقم دوں گا۔ سنیاسی باوا میرے ساتھ میرے گھر آگئے۔ میں نے انہیں وہ درخت دکھایا جس کی جڑ میں وہ خوفناک مورتی دفن تھی۔ جو پہلے وہاں سے برآمد ہوئی اور اس کے بعد میرے گھر کے کارنس سے غائب ہوگئی۔ سنیاسی باوا نے عمل کے ذریعے اس مورتی کو باہر نکالنے کا فیصلہ کیا۔ لکڑی کی ایک چھڑی سے انہوں نے درخت کی جڑ کے گرد ایک دائرہ قائم کردیا اور مجھ سے کچھ چیزیں طلب کرنے کے بعد مجھے واپس کردیا۔ انہوں نے کہا کہ میں یہ چیزیں دینے کے بعد اپنے کمرے میں جاکر بند ہوجائوں اور اپنی بیوی پر نظر رکھوں۔ بچوں کو اسکول بھیج دیا تھا۔ بیوی کو ان صاحب کے بارے میں کوئی خاص بات نہیں بتائی تھی۔ بس یہ کہہ دیا تھا کہ میرے ایک شناسا ہیں جو کچھ عمل کرنے کے لیے آئے ہیں۔ سنیاسی باوا نے حکم دیا تھا کہ انہیں ان کے کام میں مداخلت کرکے پریشان نہ کیا جائے۔ ایک گھنٹہ، دو گھنٹے پھر ڈھائی گھنٹے گزر گئے اور اس کے بعد میں برداشت نہ کرسکا اور باہر نکل آیا لیکن جیسے ہی صحن میں قدم رکھ کر درخت کی طرف دیکھا، ہوش و حواس رخصت ہوگئے۔ سنیاسی باوا بے ہوش پڑے ہوئے تھے اور ان کا پورا لباس دھجی دھجی ہورہا تھا۔ سر کے بال جگہ جگہ سے نچے ہوئے تھے، چہرے اور جسم کے مختلف حصوں میں خون کی لکیریں نظر آرہی تھیں۔ کئی جگہ بری طرح نیل پڑے ہوئے تھے۔ ایک آنکھ رخسار تک بالکل کالی پڑ چکی تھی۔ میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔ جلدی سے پانی لے کر آیا اور سنیاسی باوا پر انڈیلنے لگا۔ میرے پیچھے ہی پیچھے زیب النسا بھی آگئی تھی۔ اس نے حیرانی سے انہیں دیکھتے ہوئے کہا۔ ارے یہ کیا ہوگیا۔ یہ تو یہ تو یوں لگتا ہے جیسے کسی سے لڑائی ہوگئی ہے ان کی ہاں ایسا ہی لگتا ہے۔ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔ یہ آپ کے ہی دوست ہیں نا جو آپ کے ساتھ آئے تھے زیب النسا نے پوچھا۔ ہاں مگر یہ یہاں کر کیا رہے تھے خدا جانے کیا کہہ رہے ہیں آپ آپ کو یہ معلوم نہیں کہ یہ یہاں درخت کے پاس بیٹھے ہوئے کیا کررہے تھے زیب النسا حیرت سے بولی۔ میں نے گہری نگاہوں سے زیب النسا کو دیکھا۔ لیکن اس کے چہرے پر بالکل سادگی اور معصومیت تھی۔ وہ کہنے لگی۔ آپ مجھے کیا دیکھ رہے ہیں نہیں سوچ رہا ہوں کہ یہ واقعی ہوا کیا ہوش ہی میں نہیں آرہا یہ تو زیب النسا اور پانی لے آئی اور بمشکل تمام تھپڑ مار مار کر ہم نے سنیاسی باوا کو ہوش دلایا۔ وہ اٹھے، متوحش نگاہوں سے ادھر ادھر دیکھتے رہے۔ مجھ پر نظر پڑی، میری بیوی کو دیکھا اور اس کے بعد اس بری طرح بھاگے کہ اپنا ایک جوتا بھی پیچھے چھوڑ گئے۔ دروازے سے ٹکرائے تھے، گرے تھے اور اٹھ کر پھر اسی طرح بھاگ لیے تھے۔ زیب النسا کو ہنسی آگئی۔ اس نے کہا۔ یہ کوئی تماشا کرنے آئے تھے یہاں پتا نہیں۔ میں نے گہری سانس لے کر کہا۔ اب یہ اندازہ ہورہا تھا کہ سنیاسی باوا کے ساتھ جو سلوک ہوا ہے، اس نے ان کے ہوش درست کردیئے ہیں۔ آئے تو تھے رقم کمانے کے لیے لیکن مار کھا کر گئے ہیں۔ بس میرے دوست یہ ہے میری کہانی سانسی آگیا ہے اور میں اپنے گھر پہنچنے والا ہوں۔ اس تمام مصیبت کو مجھ پر نازل ہوئے خاصے دن گزر گئے ہیں۔ بہت سے لوگوں سے رجوع کرچکا ہوں، کوئی بات سمجھ میں نہیں آتی کہ کیا کروں۔ جس مصیبت میں گرفتار ہوا ہوں، میں جانتا ہوں اور جی جانتا ہے۔ وہاں باغ پر چند لوگوں کو اس سامان کی نگرانی پر رکھا ہوا ہے جو کافی قیمتی ہے اور وہاں موجود ہے۔ شمسو میرا ملازم ہے۔ ذہنی طور پر بالکل غیر حاضر رہتا ہوں۔ کبھی کبھی وہاں چلا جاتا ہوں۔ کالے جادو کے ماہروں، مولویوں اور عالموں کے لیے نجانے کہاں کہاں چکر لگا چکا ہوں۔ کیفیت وہی ہے۔ وہ راتوں کو اٹھتی ہے، درخت کی جڑ میں جاکر بیٹھ جاتی ہے اور عمل کرتی ہے۔ اب تو بچے بھی اس سے خوف زدہ رہنے لگے ہیں۔ مجھے خطرہ ہے کہ اگر یہ کیفیت زیادہ عرصے تک رہی تو کہیں بچوں کو کچھ نہ ہوجائے۔ جہاں تک تمہاری ملازمت کا تعلق ہے، یقین کرو میں خلوص دل سے تمہیں اپنے گھر رکھنے کے لیے تیار ہوں۔ جو مانگو گے دے دیا کروں گا، بچوں کا خیال رکھنا ہوگا، گھر کی چھوٹی موٹی ذمہ داریاں سنبھالنی ہوں گی لیکن اول تو راستہ بھی کاٹنا تھا۔ پھر تم نے مجھ سے خود ملازمت کی فرمائش کی ہے۔ چنانچہ تمہیں حقیقت حال سے آگاہ کرنا ضروری تھا تاکہ یہ نہ کہو کہ میں نے تمہیں دھوکے میں رکھا لیکن اس صورتحال میں فیصلہ کرنا تمہارا کام ہے کہ تم اس گھر میں ملازمت کرسکو گے یا نہیں۔ میں نے مسکراتے ہوئے گردن ہلائی اور کہا۔ اگر آپ واقعی مجھے ملازم رکھنا چاہتے ہیں تو میں خلوص دل سے آپ کے گھر ہر طرح کی خدمت سرانجام دینے کے لیے حاضر ہوں۔ شاہد علی نے حیران نگاہوں سے مجھے دیکھا، دیکھتا رہا پھر ایک دم ہنس پڑا۔ دیر تک ہنستا رہا۔ جیپ آبادی میں داخل ہوگئی تھی۔ میں نے اس سے کہا۔ آپ ہنس کیوں رہے ہیں شاہد صاحب مجھے بتایئے بس ہنس رہا ہوں یار کسی بات پر، میرا خیال ہے تم نے میری کہانی کو صرف کہانی سمجھا ہے اور مجھے ایک کہانی گو، لیکن مجھے وہ سنیاسی باوا یاد آرہے ہیں جن کا تجربہ ستر سالہ تھا اور عمر چالیس سال لیکن اس ستر سالہ تجربے نے انہیں بڑی مار کھلوائی۔ اگر تم بھی اس کہانی کو غلط سمجھ رہے ہو تو دیکھو سب کچھ تمہارے اپنے حساب میں ہوگا مجھ پر دھوکا دہی کا الزام مت لگانا۔ آپ مطمئن رہیں شاہد صاحب ایسا بالکل نہیں ہوگا۔ میں نے کہا اور اس نے عجیب سے انداز میں گردن اور شانے ہلائے۔ پھر بولا۔ اگر یہ بات ہے تو میرے لیے تو اس سے زیادہ خوشی کی اور کوئی بات ہو ہی نہیں سکتی کہ ایک ایسا شخص وہاں میرے ساتھ موجود ہو جو ان تمام حالات سے اچھی طرح واقف ہو۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔ تھوڑی دیر کے بعد جیپ ایک وسیع و عریض احاطے والے مکان کے سامنے کے حصے میں رک گئی۔ دروازہ عام مکانوں جیسا تھا لیکن اس کے پیچھے بڑا وسیع احاطہ تھا۔ جیپ کو کھڑا کردیا گیا اور اس کے بعد شاہد علی مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کرکے دروازے پر پہنچ گیا۔ دستک دینے پر دروازہ زیب النسا نے ہی کھولا تھا۔ میں نے ایک نگاہ اس کے چہرے کو دیکھا۔ نرم اور دلکش خدوخال کی مالک خاتون تھیں۔ چہرہ بالکل زرد پڑ رہا تھا، آنکھوں کے گرد حلقے چھائے ہوئے تھے، لباس بھی سلیقے سے پہنا ہوا تھا، سر پر دوپٹہ بھی اوڑھے ہوئے تھیں۔ مجھے دیکھ کر جھجکیں تو شاہد علی نے کہا۔ نہیں زیب النسا ان سے پردہ کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ ان کا تعارف اندر چل کر کرائوں گا۔ آئو مسعود اندر آجائو۔ میں خاموشی سے اندر داخل ہوگیا۔ زیب النسا چند قدم آگے چل رہی تھی۔ احاطہ عبور کرکے ہم سامنے والے چھوٹے سے برآمدے میں پہنچ گئے۔ یہاں چارپائیاں اور مونڈھے بچھے ہوئے تھے۔ شاہد علی نے کہا۔ آئو ابھی یہیں بیٹھتے ہیں۔ بھئی زیب النسا آج تو تم ہمارے مہمان کی خاطر کرو پھر ہمارے یہ مہمان تمہاری خدمت کریں گے۔ بات پتا نہیں زیب النسا کی سمجھ میں آئی تھی یا نہیں لیکن وہ خاموشی سے اندر چلی گئی اور میں نے شاہد علی کی طرف دیکھا۔ اب سے چند روز پہلے اس کا رنگ سرخ و سفید تھا۔ چہرہ گلاب کی مانند کھلا ہوا رہتا تھا لیکن جو کچھ ہوگیا ہے، بس کیا بتائوں۔ دیکھو مسعود ایک بار پھر کھلے دل سے کہہ رہا ہوں کہ تمہاری یہاں آمد میرے لیے بہت ہی خوشی کا باعث ہے لیکن ان حالات کی ذمہ داری تمہیں خود قبول کرنا ہوگی۔ وہ دیکھو سامنے وہ کاٹھ کباڑ والا کمرہ ہے اور اس کے برابر جو درخت نظر آرہا ہے، اس کی جڑ میں وہ مورتی پوشیدہ ہے۔ میں نے گردن ہلائی، کوئی جواب نہیں دیا۔ کچھ دیر کے بعد زیب النسا چائے اور اس کے ساتھ کچھ بسکٹ وغیرہ لے کر آگئی تھی اور میں شاہد علی کے ساتھ چائے پینے میں مصروف ہوگیا تھا۔ شاہد علی باہمت انسان تھا۔ جن حالات سے گزرا تھا۔ وہ سخت پریشان کن تھے۔ اس کے باوجود وہ ہنس بول رہا تھا۔ اس نے بتایا کہ اس دوران اسے کتنے دلچسپ تجربات ہوئے ہیں۔ جن بھوت اتارنے والے، سفلی عمل کا توڑ کرنے والے اور نہ جانے کون کون سے اور انہوں نے نہ جانے کیا کیا کیا۔ اس نے مجھ سے بھی چند باتیں پوچھیں اور میں نے محتاط جواب دے دیئے۔ اس کے بچے بھی ملے۔ پھول جیسے تھے مگر سہمے سہمے رات ہوگئی۔ اس نے بتایا کہ گھر کے عقبی حصے میں ایک کمرہ ہے جسے میرے لیے درست کردیا جائے گا۔ آج رات اندر کسی بھی کمرے میں گزارہ کرلوں۔ اگر میں یہیں، اسی برآمدے میں سو جائوں تو کوئی حرج ہے یہاں یہ چارپائی موجود ہے۔ یہاں برآمدے میں ہاں بالکل حرج نہیں ہے مگر تمہیں الجھن نہیں ہوگی۔ وہ لفظ خوف استعمال نہیں کرسکا تھا۔ نہیں میں یہاں خوش رہوں گا۔ تمہاری مرضی ہے۔ مجھے تو اور ڈھارس ہوجائے گی۔ چارپائی پر دری، چادر بچھا دی گئی۔ تکیہ رکھ دیا گیا۔ اس دوران کئی بار زیب النسا سامنے آئی تھی۔ ایک پاکیزہ چہرہ تھا اور آنکھوں میں شرافت اور حیا نظر آتی تھی۔ کوئی جنبش مشکوک نہیں تھی۔ رات کے کھانے کے بعد کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں پھر شاہدعلی اندر چلا گیا اور میں چارپائی پر دراز ہوگیا۔ مکمل خاموشی چھا گئی۔ دور سے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ نہ جانے کیا کیا خیالات دل میں آتے رہے کہ جانے کتنی رات ہوگئی۔ پھر اچانک میں چونک پڑا۔ اندر کا بند دروازہ کھلا اور میں نے زیب النسا کو باہر نکلتے ہوئے دیکھا۔ شب خوابی کے لباس میں تھی۔ چہرہ الائو کی طرح دہک رہا تھا، زبان باہر نکلی ہوئی تھی، چلنے کا انداز بے حد بھیانک تھا۔ میری طرف رخ کئے بغیر وہ آگے بڑھ گئی۔ ابھی میں اسے دیکھ رہا تھا کہ دروازے سے کوئی اور باہر نکلا۔ شاہد علی کے سوا کون ہوسکتا تھا۔ اسے دیکھ کر میں چارپائی پر اٹھ کر بیٹھ گیا۔ دوسرے لمحے وہ میری طرف لپکا اور میرے پاس آگیا۔ بری طرح کانپ رہا تھا۔ کچھ بولنا چاہتا تھا لیکن آواز ہچکیوں کی شکل میں نکل رہی تھی۔ حوصلہ رکھو حوصلہ رکھو۔ بیٹھ جائو۔ میں نے اس کا بازو پکڑ کر اسے بٹھا دیا۔ وہ انگلی سے زیب النسا کی طرف اشارہ کرنے لگا۔ مجھے اس کے بارے میں بتانا چاہتا تھا۔ ہاں میں نے دیکھ لیا ہے۔ تم آرام سے بیٹھو، میں اسے قریب سے دیکھتا ہوں۔ میں وہاں سے آگے بڑھا۔ اس وقت دل میں کوئی احساس، کوئی خیال نہیں تھا بس ہمت تھی۔ احاطہ طے کرکے زیب النسا کے عقب میں پہنچ گیا۔ وہ زمین کھود رہی تھی۔ پھر اس نے مورتی نکال لی، اسے سامنے رکھا اور اس کے سامنے دو زانو ہوگئی۔ میں نے اس مورتی کا حجم بڑھتے ہوئے دیکھا۔ پھر وہ ایک انسانی جسم کے برابر ہوگئی مگر اس کی نگاہ مجھ پر تھی۔ ایک نہایت مکروہ شکل ادھیڑ عمر آدمی تھا۔ اس نے بھاری لہجے میں کہا۔ یہ کسے ساتھ لے آئی ہے تو زیب النسا نے گردن گھمائی، میں کھڑا تھا مگر وہ حواس میں کہاں تھی۔ کاہے آیا ہے مورکھ موت گھیرن لا گے رہے گا۔ کون ہے تو میرے منہ سے نکلا۔ اٹھ ری ہمارے سامنے سے ہم ای کا بتائیں کہ ہم کون ہیں۔ سسروا لونا چماری کے کنٹھ کو نا جانے۔ اٹھ جرا ای کا بتائی ہے۔ وہ اٹھ کھڑا ہوا۔ زیب النسا سامنے سے سرک گئی تھی۔ اس نے اپنا ہاتھ اٹھا کر سامنے کیا اور دفعتاً اس کی انگلیاں لمبی ہونے لگیں۔ لمبی اور لچکدار ان کے سرے سانپوں کے منہ بن گئے جن کی زبانیں لہرا رہی تھیں۔ یہ لمبے سانپ میری طرف بڑھ رہے تھے مگر پھر اچانک اس کے حلق سے چیخ کی سی آواز نکلی، انگلیاں غائب ہوگئیں۔ اس کا بازو کندھے کے پاس سے کٹ گیا تھا اور اس سے خون کا فوارہ بلند ہوگیا تھا۔ اس نے حیرت سے اپنے بازو کو دیکھا۔ پھر قہقہہ لگا کر بولا۔ تو ای بات رہے۔ ٹھیک ہے رہے۔ بات مکابلے کی رہے تو مکابلہ ہوئی ہے پر تیری بیڑ کا رہے ہمکا بتائی دے مجھے علم نہیں تھا کہ اس کا بازو کیسے کٹا لیکن اپنے قرب و جوار میں بے شمار سرسراہٹیں میں بخوبی سن رہا تھا اور ان کے بارے میں اندازہ بھی ہوچکا تھا کہ وہ کون ہیں۔ میرے ایک سو اکہتر بیر۔ البتہ شاید وہ بدروح ان کے بارے میں نہیں جانتی تھی۔ اس نے اپنا دوسرا ہاتھ کٹے ہوئے بازو پر رکھا اور خون کی سیاہ دھار بند ہوگئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے وہاں سے دوسرا بازو برآمد ہوگیا۔ اس نے دونوں بازوئوں کو جنبش دی اور انہیں عجیب انداز میں لہرانے لگا۔ دفعتاً فضا میں پروں کی پھڑپھڑاہٹ بلند ہوئی اور پھر لاتعداد پرندے غوطہ لگا کر میرے سر پر پہنچ گئے۔ ان کی چونچیں لمبی اور آنکھیں سرخ تھیں۔ عین ممکن تھا کہ وہ مجھے نوچ کر پھینک دیتے لیکن اچانک پٹ، پٹ کی آوازیں سنائی دینے لگیں اور وہ فضا میں پھٹنے لگے۔ ان کے خون کے چھینٹوں سے زمین کا یہ حصہ، میں اور زیب النسا سرخ ہوگئے۔ پرندے گھبرا کر اونچے اٹھنے لگے اور لونا چماری کے خادم نے غرائی ہوئی آواز میں پکارا۔ بھیروں اسی وقت میرے سامنے زمین پر سیاہ رنگ کا ایک ریچھ جیسا انسان برآمد ہوگیا۔ اس کا چہرہ گول اور بہت خوفناک تھا۔ شکل کسی بن مانس سے ملتی جلتی تھی۔ پہلے وہ چاروں ہاتھ، پائوں سے چلتا ہوا اس شخص کے پاس پہنچا اور اس کے پیروں سے چہرہ ملنے لگا۔ پھر سیدھا کھڑا ہوگیا۔ ارے دیکھ اسی حرام کھور کا۔ کون رہے اے۔ پورنا ہے دھیر مکٹ پورنا ہے۔ کاہے مرنے جائو ہو۔ بھیانک ریچھ کے حلق سے انسانی آواز ابھری۔ ہیں۔ کا۔ ارے کا خبیث روح کی آواز بلند ہوئی۔ اس کے چہرے پر خوف نظر آنے لگا۔ کوڑی بیروں کا مقابلہ کرو گے دھیر مکٹ نا رے نا بھول ہوگئی۔ جے پورن بھگت ہمیں کا معلوم تھا کہ کہ اری اٹھ انجائی کھڑی ہوجا۔ اری اٹھ یہ الفاظ اس نے زیب سے کہے تھے۔ زیب النسا کھڑی ہوگئی۔ ہم جات ہیں پورنا اب کبھو نہ آئی ہے رے۔ ہمکا پتا نہ رہے جات ہے پورنا وہ جھکا اور سجدے کی سی کیفیت میں آگیا۔ پھر اس کا اور اس کے طلب کئے ہوئے بھیروں کا بدن وہیں تحلیل ہوگیا۔ میں نے کچھ نہیں کیا تھا۔ جو کچھ کیا تھا، بھوریا چرن کے بیروں نے کیا تھا۔ البتہ کام ہوگیا تھا۔ میں نے زیب النسا سے کچھ نہ کہا اور خاموشی سے واپس اپنی جگہ آگیا مگر یہاں ایک اور مشکل انتظار کررہی تھی۔ شاہد علی صاحب نے یقیناً یہ مناظر دیکھے ہوں گے چنانچہ اس کے نتیجے میں وہ اوندھے ہوگئے تھے۔ اس کے پائوں چارپائی پر تھے اور خود وہ زمین پر لٹک رہے تھے۔ بڑی مشکل سے انہیں سیدھا کیا۔ پیچھے پیچھے زیب النسا وہاں آگئی۔ ارے انہیں کیا ہوا میں نے چونک کر اسے دیکھا۔ پریشان نظر آرہی تھی۔ میں نے شاہد علی کو سیدھا لٹاتے ہوئے کہا۔ کوئی بات نہیں۔ بس ایسے ہی ٹہلنے کے لیے باہر نکل آئے تھے۔ سو گئے ہیں شاید۔ اس طرح غافل ہوکر سوتے ہیں۔ جگائو انہیں، اندر پہنچا دو۔ وہ حضرت جاگتے تو کیا، بڑی مشکل سے انہیں اندر پہنچایا گیا۔ میرے باہر نکلنے کے بعد زیب النسا نے دروازہ بند کرلیا تھا۔ میں برآمدے میں چارپائی پر بیٹھ گیا۔ نگاہیں اس درخت کی طرف اٹھی ہوئی تھیں جہاں تھوڑی دیر قبل ایک معرکہ ہوچکا تھا مگر میں نے کیا کیا، بلکہ جو کچھ ہوا، میرے نام پر ہوا۔ اس میں بھی بھوریا چرن کا ہاتھ ہے۔ سامنے ہی کچھ نظر آیا اور میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔ لمبے لمبے ہاتھ، پائوں والی بھیانک مکڑی تھی جس کا رخ میری طرف تھا۔ چارپائی کے نزدیک آکر وہ رکی۔ اگلے ہاتھ اوپر اٹھائے، پچھلے پیروں سے کھڑی ہوگئی۔ پھر اس کا قد بڑھتا چلا گیا۔ آج میں نے ایک خاص بات پر غور کیا۔ بھوریا چرن انسان نما مکڑا تھا۔ صرف اضافی پائوں اس میں اور مکڑی میں تفریق کرتے تھے ورنہ شکل و صورت، جسمانی ہیئت سب مکڑی جیسی تھی۔ وہ میرے سامنے کھڑا مجھے گھورتا رہا پھر وہیں زمین پر بیٹھ گیا۔ تجھ سے دو باتیں ہوجائیں۔ بول کرے گا۔ کیوں نہیں بھوریا چرن میں نے بے خوفی سے کہا۔ تیرا ہمار کیا رشتہ ہے نفرت کا۔ نظریات کا۔ دین، دھرم سے اختلاف کا ہمارا کوئی دین، دھرم کہاں ہے رے۔ ماتا، پتا کا دھرم ہوگا۔ پیدا ہوئے تو نام بھوریا رکھ دیا۔ کسی مسلّے کے گھر پیدا ہوتے تو تیرا جیسا کوئی نام ہوتا۔ اصل نام تو ہوش آنے کے بعد ملتا ہے۔ وہ کیسے کرموں سے۔ کرم ہی سارے راستے بتاتے ہیں۔ ہم نے گیتا پڑھی، رامائن پڑھی پھر برہمنوں کو دیکھا۔ خوب غور سے دیکھا۔ پنڈت کتھائوں کا پاٹ کرتے ہیں، نرکھ اور سورگ دکھاتے ہیں۔ اپنے سورگ انہوں نے اپنے گھروں میں بنا رکھے ہیں۔ میں نے ان کے سورگ دیکھے، ان سے سبق لیا۔ جب کرم نرکھ اور سورگ بناتے ہیں تو وہ ایسے کیوں نہ ہوں جن کا نتیجہ فوراً ملے۔ ہمارے لیے مرن یگ اور، اپنے لیے سارا جیون سورگ ہی سورگ سو ہم نے بھی اپنا سورگ تلاش کرلیا۔ کالا جادو سیکھا۔ جس طرح ایک پتی ہزار پتی بن کر لکھ پتی بننے کے خواب دیکھتا ہے۔ پھر کروڑ پتی اور ارب پتی بن کر اس کا من چاہتا ہے کہ اب وہ سارے سنسار کا پتی ہو، اسی طرح طاقت کے ہر کھیل میں ہوتا ہے۔ میں نے بھی سارے کھیل کھیلے، شنکھا تک بنا اور پھر کھنڈولا بن کر مہان شکتی حاصل کرنا چاہی مگر دھوکا کھا گیا۔ تجھے پرکھ لینا چاہئے تھا مجھے۔ دیکھ لینا چاہئے تھا کہ تو اندر سے کیا ہے۔ تو اوپر سے تو ٹھیک تھا۔ میرے کام کا تھا مگر اندر سے دوسرا نکلا۔ میں مارا گیا مگر تو آج بھی اتنا ہی بائولا ہے۔ ارے پاپی اس سنسار میں صرف طاقت کھیل رہی ہے۔ آنکھ کھول کر دیکھ جو شکتی مان ہے، اس نے اپنی سورگ دھرتی پر اتار لی ہے۔ اس میں عیش کررہا ہے اور تو اتنی بڑی شکتی لے کر نوکریاں کرتا پھر رہا ہے۔ تو نے دیکھا وہ لونا کا بھیروں تجھے دیکھ کر دم دبا کر بھاگ گیا۔ پورنیوں کے بیروں نے اسے چک گھنی بنا کر بھگا دیا۔ یہ تیری اپنی شکتی ہے۔ ابھی تو تو نے اس کے چمتکار ہی نہیں دیکھے۔ اسے استعمال کرے گا تو آنکھیں کھل جائیں گی۔ میں نے تیرے لیے بڑا کام کیا ہے کہ اگر تو خود کرتا تو تیرا آدھا جیون لگ جاتا۔ بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے مگر تجھے پکی پکائی مل گئی، اس لیے قدر نہیں کررہا۔ میں تجھ سے ایک بار پھر بات کرنے آیا ہوں۔ وہ کیا بھوریا جاری ہے
null
null
null
null
448
https://www.urduzone.net/god-father-episode-2/
مہمانوں کی تعداد سیکڑوں میں تھی۔ ان میں سے کچھ ایک طرف بنے ہوئے چوبی فرش پر ڈانس کررہے تھے اور کچھ کھانے کیلئے لمبی لمبی میزوں پر بیٹھ چکے تھے جن پر انواع و اقسام کے کھانے اور مشروبات سجے ہوئے تھے۔ باغ میں جشن کا سا سماں تھا، فضا میں موسیقی کی لہریں بکھر رہی تھیں۔ ڈون کارلیون کی بیٹی کا پورا نام کونس تانزیا تھا لیکن اختصار سے اسے صرف کونی کہا جاتا تھا۔ وہ اپنے دولہا کارلورزی کے ساتھ ایک آراستہ اسٹیج پربیٹھی تھی جس کے فرش پر بہت سے پھول بکھرے ہوئے تھے۔ وہ بھاری بھرکم عروسی لباس میں تھی۔ اس کے ساتھ دو اور نوجوان لڑکیاں بھی تقریباً دلہن ہی کی طرح تیار ہوکر پیچھے بیٹھی تھیں۔ سب کچھ قدیم روایتی اطالوی انداز میں ہورہا تھا۔ کونی کو روایتی طور طریقے زیادہ پسند نہیں تھے لیکن باپ کی خوشی کی خاطر وہ خاموش رہی تھی اور اس نے سب کچھ اسی طرح ہونے دیا تھا جس طرح ڈون چاہتا تھا کیونکہ ڈون نے بھی اپنے ہونے والے داماد رزی کو برداشت ہی کیا تھا۔ ڈون کو وہ نوجوان پسند نہیں آیا تھا لیکن وہ کونی کو پسند تھا اور باپ نے بیٹی کی پسند کے سامنے سر جھکا دیا تھا۔ رزی کا باپ سسلی اور ماں نارتھ اٹلی کی تھی جس سے اسے سنہری بال اور نیلی آنکھیں ورثے میں ملی تھیں۔ اس کے والدین نویڈا میں رہتے تھے لیکن رزی نے کچھ عرصے پہلے وہ ریاست چھوڑ دی تھی۔ یہ کہنا زیادہ درست تھا کہ وہ وہاں سے بھاگ آیا تھا کیونکہ وہاں پولیس کے ساتھ اس کا کچھ مسئلہ ہوگیا تھا۔ وہ نیویارک آیا تو یہاں اس کی ملاقات سنی سے ہوئی اور اسی کے توسط سے وہ اس کی بہن سے بھی مل لیا جس کے ساتھ آخر اس کی شادی کی نوبت آگئی۔ ڈون نے اڑتی اڑتی سی خبر سن لی تھی کہ وہ نویڈا میں کسی سلسلے میں پولیس کو مطلوب تھا۔ ڈون نے بیٹی کی شادی اس کے ساتھ کرنے سے پہلے اس معاملے کی صحیح معلومات حاصل کرنے کیلئے اپنے قابل اعتماد آدمیوں کو نویڈا بھیجا جنہوں نے آکر رپورٹ دی کہ نویڈا میں رزی کسی سنگین معاملے میں پولیس کو مطلوب نہیں تھا۔ بات بس اتنی تھی کہ ایک بار اس کے پاس سے ایک غیر قانونی پستول برآمد ہوا تھا۔ وہ ضمانت پر رہا تھا مگر فرار ہوکر نیویارک آگیا تھا۔ یہ حرکت جرم سے زیادہ سنگین تھی تاہم اتنی سنگین بھی نہیں تھی کہ اس پر تشویش میں مبتلا ہوا جاتا۔ نوجوان اس قسم کی حرکتیں کرتے ہی رہتے تھے۔ یہ ایسا معاملہ تھا جس کا ریکارڈ آسانی سے صاف کرایا جاسکتا تھا۔ ڈون نہیں چاہتا تھا کہ اس کے خاندان کے کسی فرد اور خصوصاً اس کے ہونے والے داماد کا پولیس میں کوئی ریکارڈ موجود ہو۔ ڈون کے جو آدمی نویڈا گئے تھے، وہ رزی کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کے علاوہ یہ خبر بھی لائے تھے کہ اس ریاست میں کچھ مخصوص شرائط پوری کرنے کے بعد قانونی طور پر جواخانے کھولنے کی اجازت تھی۔ وہاں بہت بڑے بڑے کیسینو موجود تھے جو نائٹ کلب کے طور پر بھی چل رہے تھے اور ان کا کچھ حصہ قمار بازی کیلئے بھی مخصوص تھا۔ ڈون نے یہ خبر دلچسپی سے سنی تھی کیونکہ اسے ایسے ہر کام سے دلچسپی تھی جس میں زیادہ قانونی خطرات کے بغیر زیادہ سے زیادہ منافع کمایا جاسکے۔ کونی معمولی شکل صورت کی لڑکی تھی۔ بدقسمتی سے اس میں والدین اور بھائیوں کی وجاہت کی کوئی جھلک نہیں تھی۔ وہ دبلی پتلی تھی اور اس کی حرکات و سکنات سے اضطراب جھلکتا تھا لیکن آج شادی کی خوشی سے تمتماتے چہرے اور دلہن کے لباس میں وہ کسی حد تک خوبصورت لگ رہی تھی اور وہ رزی پر آنکھوں ہی آنکھوں میں قربان ہوئی جارہی تھی۔ دولہا رزی کسرتی جسم کا مالک تھا۔ نویڈا میں اس نے نوجوانی میں مزدوروں کی طرح محنت مشقت کے کام بھی کئے تھے لیکن اس کے خیال میں اب اس کی قسمت سنور گئی تھی۔ وہ ایک ایسے خاندان میں شادی کرنے میں کامیاب ہوگیا تھا جو اپنے رکھ رکھائو اور طور طریقوں میں شاہی خاندان سے کم نہیں تھا۔ اسے اپنی دلہن کی والہانہ نظروں سے کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی۔ وہ تو اس کے کندھے پر لٹکے ہوئے بڑے سے پرس کو دیکھ رہا تھا جس میں مہمانوں کے دیئے ہوئے نوٹوں کے لفافے بھرے ہوئے تھے۔ وہ اندازہ لگانے کی کوشش کررہا تھا کہ اس پرس میں کتنی رقم جمع ہوچکی ہوگی اور یہ تو محض ابتدا تھی مہمانوں میں ایک اور شخص بھی کبھی کبھی کن انکھیوں اور للچائی ہوئی نظروں سے اس پرس کی طرف دیکھ لیتا تھا۔ اس کا نام پالی گیٹو تھا۔ وہ عمدہ سوٹ میں تھا اور اس کا چہرہ کسی حد تک نیولے جیسا تھا۔ اس کے بال سلیقے سے جمے ہوئے تھے۔ وہ عادت سے مجبور ہوکر پرس کی طرف للچائی ہوئی نظروں سے دیکھ رہا تھا اور اسے پار کرنے کے خواب دیکھ رہا تھا جبکہ اسے معلوم تھا کہ اس قسم کی حرکت کرنا ایسا ہی تھا جیسے کسی نہتے آدمی کا شیر کے منہ سے نوالا چھیننا لیکن خواب دیکھنے پر بہرحال کوئی پابندی نہیں تھی۔ کبھی کبھی وہ اپنے باس پیٹر مینزا کی طرف بھی دیکھ لیتا تھا جو ڈانسنگ فلور پر کئی لڑکیوں کے ساتھ باری باری ڈانس کررہا تھا۔ مینزا ایک دراز قد اور نہایت مضبوط جسم کا آدمی تھا۔ اکثر لڑکیوں کے سر اس کے سینے تک بھی نہیں پہنچ پاتے تھے اور وہ اس کے سامنے بالکل گڑیوں جیسی لگتی تھیں۔ وہ اس قسم کے لوگوں میں سے تھا جسے آتے دیکھ کر لوگ خود ہی راستہ چھوڑ دیتے ہیں۔ مینزا اور گیٹو دونوں ڈون کے خاص کارندے تھے۔ آخرکار مینزا تھک کر ایک کرسی پر ڈھیر ہوگیا تو گیٹو جلدی سے آگے بڑھ کر ایک ریشمی رومال سے اس کی پیشانی سے پسینہ پونچھنے لگا۔ مینزا تیزی سے بولا۔ ان نخرے بازیوں کو چھوڑو اور اپنے اصل کام پر توجہ رکھو۔ ادھر ادھر گھوم پھر کر جائزہ لیتے رہو کہ سب کچھ ٹھیک ٹھاک ہے۔ پاس پڑوس پر بھی نظر ڈالتے رہنا کہ کہیں کسی گڑبڑ کے آثار تو نہیں۔ کیٹو اس کا حکم سنتے ہی مہمانوں کے ہجوم میں کہیں غائب ہوگیا۔ اسی دوران نینو نامی ایک نوجوان نے مینڈولین اٹھا کر بجانا شروع کردیا۔ وہ ترنگ میں تھا۔ مینڈولین کی دھن پر اس نے ایک خاصا بے تکلفانہ قسم کا محبت بھرا گیت بھی لڑکھڑاتی آواز میں گانا شروع کردیا۔ مہمان اس کا ساتھ دینے لگے۔ عورتیں خوشی سے چیخ رہی تھیں، قہقہے لگا رہی تھیں جن میں ڈون کی بیوی بھی شامل تھی۔ ڈون کو اس انداز کی ہنگامہ خیزی پسند نہیں تھی لیکن وہ مہمانوں کی خوشی اور تفریح میں رکاوٹ بھی نہیں بننا چاہتا تھا۔ وہ خاموشی سے اندر کی طرف چل دیا۔ باپ کو اندر جاتے دیکھ کر سنی جلدی سے دلہن کے عقب میں اس کی میڈ کے طور پر بن سنور کر بیٹھی ہوئی لوسی کے قریب جا بیٹھا۔ سنی نے پہلے یہ دیکھ لیا تھا کہ اس کی بیوی وہاں موجود نہیں تھی۔ وہ کچن میں مصروف تھی۔ سنی نے لوسی کے کان میں سرگوشی میں کچھ کہا اور وہ اٹھ کر مکان کے اندرونی حصے کی طرف چل دی۔ سنی نے اس وقت تک انتظار کیا جب تک وہ اندرونی دروازے کے عقب میں غائب نہیں ہوگئی۔ پھر وہ بھی اٹھ کر اسی طرف چل دیا لیکن راستے میں ادھر ادھر رک کر وہ بعض مہمانوں سے تھوڑی بہت بات چیت کرتا جارہا تھا۔ وہ یہ ظاہر کرنے کی پوری کوشش کررہا تھا کہ وہ لوسی کے تعاقب میں نہیں جارہا تھا جبکہ وہاں اس بات کی کسی کو پروا بھی نہیں تھی۔ چند لمحے بعد وہ دونوں اوپر کے ایک کمرے میں یکجا تھے اور مرتعش سانسوں کے درمیان اس خلوت سے پورا پورا استفادہ کررہے تھے۔ اس دوران نچلی منزل کے ایک کمرے کی کھڑکی کے شیشے سے ٹام ہیگن شادی کی تقریب کا نظارہ کررہا تھا۔ وہ ڈون کارلیون کا وکیل تھا اور یہ کمرہ اس کے دفتر کے طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس میں اونچی اونچی دیوارگیر الماریوں میں شیشے کے دروازوں کے پیچھے قانون کی موٹی موٹی کتابیں بھری دکھائی دے رہی تھیں۔ یہ کمرہ ڈون کارلیون کے کمرے سے متصل تھا۔ اس طرح ڈون کو آسانی رہتی تھی۔ وہ جب چاہتا، کسی بھی خاص اور فوری نوعیت کے مسئلے پر ٹام ہیگن سے تبادلہ خیال کرنے آجاتا تھا۔ ڈون کا قانونی مشیر ہونا کوئی معمولی بات نہیں تھی۔ ڈون فیملی کے نظام اور کاروبار میں یہ اہم ترین عہدہ تھا۔ اس سے پہلے جس شخص نے برسوں تک ڈون کیلئے اس حیثیت سے خدمات انجام دی تھیں، وہ اب کینسر کے باعث بستر مرگ پر تھا۔ اس کی بیماری کے بعد سے ہیگن کو یہ حیثیت حاصل ہوچکی تھی۔ اس نے اور ڈون نے اسی کمرے میں آمنے سامنے بیٹھ کر بہت سے کاروباری مسائل کی گتھیاں سلجھائی تھیں۔ فیملی کے بہت سے معاملات پر سر جوڑ کر غوروخوص کیا تھا۔ کھڑکی کے قریب بیٹھے بیٹھے اس نے ڈون کو بھی اندر آتے دیکھا۔ پھر سنی کو لوسی کے کان میں سرگوشی کرتے اور انہیں یکے بعد دیگرے مکان میں غائب ہوتے بھی دیکھا تھا۔ یہ دیکھ کر وہ دانت پیس کر رہ گیا تھا کہ سنی کہیں بھی دائو لگانے سے باز نہیں رہتا تھا۔ پہلے اس نے سوچا کہ ڈون کو اس معاملے کی خبر کردے لیکن پھر اس نے زبان بند رکھنے میں ہی مصلحت سمجھی۔ ڈون کو اندر آتے دیکھ کر وہ سمجھ گیا تھا کہ وہ اس سے ملنے بھی آئے گا اور آج خواہ اس کی بیٹی کی شادی تھی لیکن وہ کچھ نہ کچھ معاملات ضرور نمٹائے گا۔ جس کا مطلب تھا کہ ہیگن کو بھی کچھ نہ کچھ کام کرنا ہوگا۔ اس نے گہری سانس لی اور ریوالونگ چیئر کو میز کی طرف گھما لیا۔ اس نے میز سے چند افراد کے ناموں کی فہرست اٹھائی۔ ہاتھ سے لکھے گئے یہ نام ان افراد کے تھے جنہیں آج تخلیے میں ڈون کارلیون سے ملاقات کی اجازت تھی۔ جب ڈون کمرے میں داخل ہوا تو ہیگن نے اٹھ کر وہ فہرست اسے پیش کردی۔ ڈون نے فہرست پر نظر ڈالی اور اثبات میں سر ہلاتے ہوئے بولا۔ بونا سیرا کا نام فہرست کے آخر میں کردو۔ ہیگن نے فہرست میں بونا سیرا کا نمبر تبدیل کیا۔ پھر ٹیرس کا دروازہ کھول کر باغ میں اس طرف چلا گیا جہاں ملاقات کے خواہشمندوں کی ٹولی کھڑی تھی۔ اس نے گٹھے ہوئے جسم کے پستہ قد نیزورین کو اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا۔ بیکری کا مالک نیزورین جب ہیگن کے ساتھ کمرے میں داخل ہوا تو ڈون کارلیون نے اٹھ کر اس کا استقبال کیا اور اس سے گلے ملا۔ اٹلی میں وہ دونوں بچپن میں ساتھ کھیلے تھے اور جب سے نیزورین نیویارک میں بیکری چلا رہا تھا، تب سے وہ ہر خاص موقع اور تہواروں پر خاص طور پر تیار کیا گیا ایک بڑا سا کیک ڈون کے گھر بھجوانا نہیں بھولتا تھا۔ آج وہ پہلی بار کسی کام سے ڈون کے گھر آیا تھا۔ ڈون نے اسے مشروب کا ایک گلاس اور اعلیٰ درجے کا ایک سگار پیش کیا۔ خیر و عافیت دریافت کرنے کے دوران وہ محبت اور اپنائیت سے نیزورین کا کندھا تھپتھپاتا رہا۔ اسے معلوم تھا کہ کسی شریف، باعزت اور انا پرست آدمی کیلئے کسی کے سامنے اپنی مجبوری، ضرورت یا مسئلہ بیان کرنا آسان کام نہیں تھا۔ وہ نیزورین میں گویا اپنا مسئلہ بیان کرنے کی جرأت پیدا کررہا تھا، اصل بات کیلئے ماحول بنا رہا تھا۔ آخر نیزورین نے اپنا مسئلہ بیان کر ہی دیا کہ کس طرح اس کی بیٹی اینزو سے شادی کرنے کیلئے بضد تھی جبکہ اینزو امریکا میں غیرقانونی طور پر مقیم تھا۔ خطرہ تھا کہ اسے جلد ہی اٹلی واپس بھجوا دیا جائے گا اور اس کی بیٹی کیتھرین شاید اس صدمے سے مرجائے گی۔ اس مسئلے کو حل کرنے کے سلسلے میں ڈون کارلیون اس کی آخری امید تھا۔ وہ دونوں اٹھ کر کمرے میں ٹہلتے ہوئے یہ بات کررہے تھے۔ ڈون کا بازو دوستانہ انداز میں نیزورین کے کندھوں پر ٹکا ہوا تھا اور وہ وقفے وقفے سے تفہیمی اور ہمدردانہ انداز میں سر ہلا رہا تھا۔ نیزورین نے بات ختم کی تو ڈون نے مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور کہا۔ اپنی اس پریشانی کو بھول جائو۔ اینزو کو یہاں کی شہریت مل جائے گی خواہ اس کیلئے مجھے کانگریس میں خصوصی بل ہی پاس کرانا پڑے۔ میں کانگریس کے ایک ایسے ممبر کو جانتا ہوں جو آسانی سے یہ بل پیش کردے گا اور کانگریس کی اکثریت اسے منظور بھی کرے گی کیونکہ یہ لوگ اسی طرح ایک دوسرے کے مسئلے حل کرتے ہیں۔ بس، کانگریس کے اس ممبر کی خدمت میں دو ہزار ڈالر کا نذرانہ پیش کرنا پڑے گا۔ اگر تمہارے لئے دو ہزار ڈالر کا بندوبست کرنا مشکل ہو تو وہ بھی میں اپنی جیب سے دے دوں گا۔ نہیں نہیں ایسی کوئی بات نہیں۔ نیزورین جلدی سے بولا۔ دو ہزار ڈالر کوئی مسئلہ نہیں ہیں۔ میری تو یہ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ یہ کام ہوگا کیسے خوشی سے اس کی حالت عجیب تھی۔ بس۔ تم بے فکر ہوجائو۔ میرا کوئی آدمی بیکری پر آکر تم سے ملے گا۔ رقم بھی لے لے گا اور تمہیں بتا دے گا کہ اس سلسلے میں کیا کاغذی کارروائی کرنی ہے۔ اوکے نیزورین نے تشکر اور ممنونیت سے اس کا ہاتھ چوما اور رخصت ہوگیا۔ اس کے جانے کے بعد ڈون، ہیگن سے مخاطب ہوا۔ نیزورین کیلئے یہ سرمایہ کاری بری نہیں رہے گی۔ دو ہزار ڈالر میں اسے داماد اور عمر بھر کیلئے بیکری پر ایک کارکن مل جائے گا۔ ایک لمحے کے توقف کے بعد ڈون پرخیال لہجے میں بولا۔ میں سوچ رہا ہوں کہ یہ کام اپنے کس آدمی کے سپرد کروں اس سے پہلے کہ ہیگن کوئی جواب دیتا، ڈون خود ہی بولا۔ وہ جو دوسرے علاقے میں یہودی رہتا ہے، اس کے ذمے یہ کام لگائو اور ہاں اس بار کانگریس مین لیو کے بجائے فشر کو آزما کر دیکھو۔ اب جنگ ختم ہوئی ہے تو ہمارے پاس اس قسم کے غیر قانونی تارکین وطن کے بہت سے کیسز آئیں گے۔ ہمیں ایسا کانگریس مین تلاش کرنا ہوگا جو موقع دیکھتے ہی اپنا معاوضہ بڑھا دے۔ ہیگن نے ایک پیڈ پر یہ اہم نکات نوٹ کئے پھر فہرست کے مطابق دوسرے ملاقاتی کو بلانے چلا گیا۔ اس بار اس کے ساتھ اندر آنے والے آدمی کا نام کپولا تھا۔ اس کے باپ کے ساتھ ڈون نے اپنی نوجوانی کے زمانے میں ریلوے یارڈ میں کام کیا تھا۔ کپولا کو پیزا کی دکان کھولنے کیلئے پانچ سو ڈالر کی ضرورت تھی اور اسے کہیں سے قرض نہیں مل رہا تھا۔ ڈون نے جیب میں ہاتھ ڈال کر نوٹ نکالے لیکن وہ کل چار سو ڈالر تھے۔ اس نے دانت بھینچ کر گہری سانس لی اور ہیگن سے مخاطب ہوا۔ ذرا سو ڈالر ادھار تو دینا، پیر کو میں بینک جائوں گا تو واپس دے دوں گا۔ کوئی بات نہیں چار سو ڈالر سے بھی کام چل جائے گا۔ سائل جلدی سے بولا۔ جب تم نے پانچ سو ڈالر مانگے ہیں تو پانچ سو ڈالر ہی ملیں گے۔ ڈون نے فیصلہ کن انداز میں کہا۔ پھر اس کا لہجہ معذرت خواہانہ ہوگیا۔ دراصل شادی کی تیاریوں کے چکر میں میری جیب میں نقد رقم نہیں رہی۔ ہیگن نے اپنی جیب سے سو ڈالر نکال کر ڈون کی طرف بڑھا دیئے۔ اسے ڈون کا اصول معلوم تھا کہ ذاتی طور پر وہ رقم کے معاملے میں کسی پر احسان کرتا تھا تو اپنی جیب سے نقد رقم نکال کر دیتا تھا، چیک وغیرہ نہیں لکھتا تھا اور نہ ہی اس رقم کا کہیں اندراج ہوتا تھا۔ کپولا جیسے آدمی کیلئے یقیناً یہ ایک بہت بڑا اعزاز تھا کہ ڈون جیسی شخصیت اسے قرض دینے کیلئے خود اپنے ملازم سے ادھار مانگ رہی تھی۔ بے شک ڈون کروڑ پتی تھا لیکن کروڑ پتی بھلا کسی چھوٹے آدمی کے کام آنے کیلئے اتنی زحمت کرسکتے تھے کپولا کے جانے کے بعد ہیگن بولا۔ لوکا براسی کا نام فہرست میں نہیں ہے لیکن وہ بھی تخلیے میں آپ سے ملنا چاہتا ہے۔ شاید وہ خاص طور پر صرف اس بات کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہے کہ آپ نے اسے شادی میں مدعو کیا، اسے اس کی امید نہیں تھی۔ ڈون کے چہرے پر ہلکی سی ناگواری ابھری جیسے وہ محض اس مقصد کیلئے براسی سے ملنا ضروری نہ سمجھتا ہو لیکن پھر وہ گہری سانس لے کر بولا۔ چلو خیر بلا لو اسے بھی۔ باہر باغ میں مائیکل کی منگیتر کے دور سے ہی براسی کو دیکھ کر حیران ہورہی تھی کیونکہ وہ چہرے مہرے سے ہی ایک خطرناک اور خونخوار آدمی نظر آتا تھا۔ وہ مائیکل سے اس کے بارے میں پوچھ رہی تھی۔ مائیکل حقیقت میں اپنی منگیتر کے کو اسی مقصد کیلئے ساتھ لایا تھا کہ وہ اسے دھیرے دھیرے اپنے باپ کی اصل حیثیت اور فیملی کے بارے میں حقائق کو قبول کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار کرسکے۔ وہ اس کے ذہن میں اپنے باپ اور فیملی کا قدرے بہتر تصور بٹھانا چاہتا تھا تاکہ اسے کبھی اچانک کسی قسم کا دھچکا نہ لگے لیکن اسے لگ رہا تھا کے نے حقیقت کو کسی نہ کسی حد تک محسوس کرلیا تھا۔ وہ ایک ذہین لڑکی تھی۔ اس نے غالباً یہ رائے قائم کی تھی کہ ڈون کا سارا ہی بزنس کچھ اتنا زیادہ شریفانہ، معززانہ اور اخلاقی حدود و قیود کے اندر نہیں تھا۔ کہیں نہ کہیں، کچھ نہ کچھ ناخوشگوار پہلو موجود تھے۔ آخر مائیکل نے فیصلہ کیا کہ کے کو آہستگی اور نرمی کے ساتھ مناسب حد تک حقائق سے روشناس کرانا بہتر تھا۔ بہت کھلے اور واضح انداز میں تو نہیں لیکن مبہم اور ذرا ڈھکے چھپے انداز میں یہ کام کرنا ضروری تھا۔ اس نے براسی کے بارے میں کے کو بتایا۔ سنا ہے کہ مشرقی علاقے کی انڈر ورلڈ میں یہ شخص دہشت کی علامت ہے۔ یہ کسی کی بھی مدد کے بغیر کسی کو اس طرح قتل کرسکتا ہے کہ پولیس یا ایف بی آئی کبھی حقیقت کا سراغ نہیں پا سکتی اور کوئی ایسا نقطہ تلاش نہیں کرسکتی جس کی بنا پر وہ اس پر ہاتھ ڈال سکے۔ پھر مائیکل کے چہرے پر قدرے ناگواری ابھر آئی اور ایک لمحے کے توقف کے بعد وہ ذرا ناپسندیدگی سے بولا۔ یہ شخص کسی حد تک میرے والد کا دوست ہے۔ مائیکل نے سر اٹھا کر کے کی طرف دیکھا۔ کے کی آنکھیں پھیلی ہوئی تھیں۔ وہ گویا بے یقینی سے بولی۔ کہیں تم مجھے یہ بتانے کی کوشش تو نہیں کررہے کہ یہ آدمی تمہارے والد کیلئے کام کرتا ہے مائیکل نے دل ہی دل میں مصلحت پسندی پر لعنت بھیجی اور کافی حد تک کھل کر بات کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ بولا۔ تقریباً پندرہ سال پہلے کچھ لوگوں نے میرے والد کے تیل کی امپورٹ کے کاروبار پر قبضہ کرنے کی کوشش کی تھی۔ میرے والد اٹلی سے زیتون کا تیل امپورٹ کرنے والے سب سے بڑے امپورٹر تھے۔ انہوں نے انہیں قتل کرنے کی کوشش کی تھی اور یوں سمجھو کہ وہ اپنے مقصد میں تقریباً کامیاب بھی ہوگئے تھے۔ اس وقت براسی ان سے نمٹنے کیلئے نکلا تھا۔ سنا ہے اس نے دو ہفتوں کے اندر اندر چھ آدمیوں کو قتل کر ڈالا تھا جس کے بعد وہ لڑائی ختم ہوگئی تھی جسے انڈر ورلڈ کی اصطلاح میں اولیو آئل وار کہا جاتا تھا۔ مائیکل نے یہ کہتے ہوئے اس انداز میں مسکرانے کی کوشش کی جیسے اس نے کوئی لطیفہ سنایا ہو۔ کیا گروہ بازوں نے تمہارے والد کو گولی مار دی تھی کے نے دریافت کیا۔ ہاں لیکن یہ پندرہ سال پہلے کی باتیں ہیں تب سے اب تک حالات بالکل پرسکون ہیں۔ اس نے کے کو تسلی دی۔ وہ سوچ رہا تھا کہ کہیں اس نے کے کو ضرورت سے زیادہ تو نہیں بتا دیا اور یہ بات ان کے باہمی تعلق کیلئے نقصان دہ تو ثابت نہیں ہوگی تم اصل میں مجھے ڈرانے کی کوشش کررہے ہو۔ کے نے مسکراتے ہوئے ہولے سے اس کی پسلیوں میں کہنی ماری۔ تم چاہتے ہو کہ میں تم سے شادی سے انکار کردوں۔ مائیکل تحمل سے مسکرایا اور بولا۔ نہیں، میں چاہتا ہوں کہ تم شادی سے پہلے ان باتوں کے بارے میں سوچ لو غور کرلو۔ کیا اس نے واقعی چھ آدمیوں کو قتل کیا تھا کے نے براسی کی طرف دیکھتے ہوئے بے یقینی سے پوچھا۔ اخبارات نے تو یہی لکھا تھا لیکن کوئی بھی اس بات کو ثابت نہیں کرسکا تھا۔ مائیکل نے کہا۔ اس کے بارے میں اس سے بھی زیادہ خوفناک ایک کہانی اور بھی ہے لیکن وہ اخبارات میں نہیں آسکی۔ میرے والد اس کے بارے میں زبان نہیں کھولتے۔ ڈیڈی کا وکیل ٹام ہیگن اس کہانی سے واقف ہے لیکن وہ بھی مجھے کچھ نہیں بتاتا۔ ایک بار میں نے اس سے پوچھا تھا کہ کس عمر میں تم مجھے اس قابل سمجھو گے کہ وہ کہانی سنا سکو تو اس نے جواب دیا کہ جب تم سو سال کے ہوجائو گے۔ یہ کہہ کر مائیکل نے ٹھنڈی سانس لی اور گلاس سے مشروب کی چسکی لے کر بولا۔ نہ جانے وہ کیا کہانی ہوگی براسی درمیانے قد مگر مضبوط جسم کا ایک ایسا آدمی تھا جس کی طرف غور سے دیکھنے پر اچھے بھلے دلیر انسان کے جسم میں بھی کپکپی دوڑنے لگتی تھی۔ اس کے پتلے پتلے ہونٹ سفاکانہ انداز میں بھنچے رہتے تھے اور اس کی آنکھوں سے موت کی سرد مہری جھلکتی تھی۔ انڈرورلڈ کے لوگ بھی اس سے خوف کھاتے تھے لیکن ڈون کارلیون کا وہ بے حد وفادار تھا۔ ڈون سے اس کی یہ وفاداری مثالی تھی اور ڈون کی سلطنت کے ڈھانچے میں وہ ایک اہم ستون تھا۔ لوگوں کا خیال تھا کہ اس طرح کے کردار اب بہت کمیاب تھے۔ براسی دنیا میں کسی سے نہیں ڈرتا تھا البتہ اس نے اپنی مرضی سے گویا خود کو ڈون سے ڈرنے اور اس کی عزت کرنے کا پابند بنا رکھا تھا۔ وہ ہیگن کے ساتھ اس کے کمرے میں داخل ہوا تو ڈون کو سامنے پا کر اس کا انداز نہایت مؤدبانہ ہوگیا۔ اس نے پہلے ڈون کو بیٹی کی شادی کی مبارکباد دی پھر دعا کی کہ اس کی بیٹی کے ہاں پہلی ہو۔ اس کے بعد اس نے موٹا سا ایک لفافہ نکال کر ڈون کی خدمت میں پیش کیا۔ تب ہیگن سمجھ گیا کہ براسی کیوں خاص طور پر ڈون سے تنہائی میں مل کر اسے بیٹی کی شادی کی مبارکباد دینا چاہتا تھا۔ دراصل اس نے اندازے لگا کر اپنی دانست میں تمام مہمانوں سے زیادہ رقم تحفے کے طور پر پیش کرنا تھی۔ اس رقم کا لفافہ وہ براہ راست ڈون ہی کی خدمت میں پیش کرنا چاہتا تھا۔ ڈون نے وہ لفافہ ایک شاہانہ تمکنت کے ساتھ قبول کیا اور اس کے چہرے پر خفیف سی مسکراہٹ آگئی۔ براسی کا سر فخر سے بلند ہوگیا۔ اس کے چہرے کی خشونت اور خونخواری اس لمحے کم ہوگئی۔ اس نے جھک کر نہایت احترام سے ڈون کے ہاتھ کو بوسہ دیا اور دروازے کی طرف چل دیا۔ ہیگن اس کیلئے دروازہ کھولے کھڑا تھا۔ اس کے جانے کے بعد ڈون نے طمانیت کی گہری سانس لی۔ اس کے خیال میں براسی ڈائنامائٹ کی طرح تھا اور اسے احتیاط سے ہینڈل کرنے کی ضرورت تھی تاہم اس کا مطلب یہ بھی نہیں تھا کہ وہ براسی سے کسی قسم کا خوف محسوس کرتا تھا۔ وہ اچھی طرح جانتا تھا کہ ڈائنامائٹ سے بھی خود کو نقصان پہنچائے بغیر اپنے مقاصد کیلئے کس طرح استعمال کیا جاسکتا ہے۔ کیا اب صرف بونا سیرا باقی رہ گیا ہے اس نے پوچھا۔ ہیگن نے اثبات میں سر ہلایا تو ڈون ایک لمحے پرخیال انداز میں چپ رہنے کے بعد بولا۔ اسے بلانے سے پہلے سین نینو کو بھی یہاں بلا لو۔ میں چاہتا ہوں کہ ان باتوں اور ان ملاقاتوں سے وہ بھی کچھ سیکھے۔ ہیگن جلدی سے مضطرب انداز میں باہر چلا گیا۔ اسے اندازہ تھا کہ سین نینو عرف سنی اس وقت کس کمرے میں دلہن کی سہیلی کے ساتھ داد عیش دے رہا ہوگا۔ وہ سوچ رہا تھا کہ اگر یہ بات کھل جائے تو کیا ہنگامہ اٹھ کھڑا ہو۔ اس نے احتیاطاً پہلے اسے نظروں ہی نظروں میں باغ میں تلاش کیا لیکن وہ وہاں نہیں تھا۔ ہیگن نے اسے آدھا گھنٹہ پہلے اوپر کی منزل کی طرف جاتے دیکھا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ وہ ابھی وہیں تھا کیونکہ لوسی بھی کہیں نظر نہیں آرہی تھی۔ اس نے ٹھنڈی سانس لی اور واپس مڑ گیا۔ اس دوران مائیکل کی منگیتر کے نے بھی اسے دیکھ لیا تھا۔ وہ اس کے بارے میں مائیکل سے پوچھنے لگی۔ یہ شخص حقیقت میں کون ہے اس سے جب میری ملاقات ہوئی تو اس نے اپنا تعارف کراتے ہوئے خود کو تمہارا بھائی کہا تھا لیکن اس کی شکل میں تم بھائیوں کی ذرا سی بھی شباہت ہے اور نہ ہی یہ اطالوی معلوم ہوتا ہے۔ یہ اصل میں بارہ سال کی عمر میں ہمارے گھر میں آیا تھا اور یہیں پلا بڑھا ہے۔ مائیکل نے بتایا۔ اس کے والدین مر گئے تھے اور یہ لاوارثوں کی طرح گلیوں میں دھکے کھا رہا تھا۔ انفیکشن سے اس کی ایک آنکھ خراب ہورہی تھی۔ سنی ترس کھا کر اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا بس تب سے یہ یہیں ہے۔ اس کا کوئی ٹھکانہ نہیں تھا جہاں یہ جاتا۔ یہ ہمارے ساتھ ہی پلا بڑھا۔ اس کی آنکھ کا علاج کرایا گیا۔ اسے قانون کی تعلیم دلائی گئی۔ اسے وکیل بننے کا شوق تھا۔ پھر اس کی شادی بھی ہوگئی۔ اب یہ میرے والد کا وکیل ہے۔ حیرت ہے کے نے ایک بار پھر آنکھیں پھیلائیں۔ یہ تو بالکل فلموں اور قصے کہانیوں جیسا واقعہ ہے۔ تمہارے والد یقیناً بہت رحم دل انسان ہیں جو انہوں نے ایک یتیم اور لاوارث لڑکے کو گود لیا اور اتنے اچھے طریقے سے اس کی پرورش کی جبکہ ان کے اپنے بھی کئی بچے تھے۔ انہوں نے اسے گود نہیں لیا تھا، ایڈاپٹ نہیں کیا تھا۔ مائیکل نے اس کی غلط فہمی دور کی۔ بس اس نے ہمارے ہاں پرورش پائی ہے اور اس کی وجہ یہ نہیں تھی کہ میرے والد کے اپنے کئی بچے تھے۔ ہم صرف چار بہن بھائی ہیں اور اطالویوں کے ہاں چار بچوں کو زیادہ نہیں سمجھا جاتا۔ اسے ایڈاپٹ نہ کرنے کی وجہ یہ تھی کہ میرے والد کے خیال میں کسی بھی بچے کو اس کے اصل والدین کے ناموں سے محروم کرکے اپنے نام کے ساتھ نتھی کردینا کوئی اچھی بات نہیں ہے۔ وہ اس کے قائل نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں یہ اصل والدین کی توہین ہے۔ اس دوران انہوں نے دیکھا کہ ہیگن کہیں سے سنی کو تلاش کرکے اپنے ساتھ اندر لے جارہا تھا۔ جاتے جاتے اس نے بونا سیرا کو بھی اندر آنے کا اشارہ کیا۔ بونا سیرا جلدی سے ادھر لپکا۔ یہ دیکھ کر کے کو گویا ایک اور سوال کرنے کا موقع مل گیا۔ آج تمہاری بہن کی شادی ہے۔ آج بھی لوگ تمہارے والد کے پاس کسی نہ کسی کام سے آئے ہوئے ہیں۔ وہ بولی۔ آج تو وہ خاص طور پر آئے ہیں۔ آج کا دن ان کے خیال میں عام دنوں سے زیادہ اچھا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ کوئی بھی روایت پسند اطالوی اپنی بیٹی کی شادی کے دن کسی کی درخواست رد نہیں کرسکتا اور کوئی بھی اطالوی اپنا کام نکالنے کا ایسا موقع ہاتھ سے جانے نہیں دے سکتا۔ مائیکل نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اس دوران ہی لوسی واپس آگئی۔ اس کا چہرہ تمتمایا ہوا تھا۔ وہ دلہن کے قریب آبیٹھی۔ کہاں چلی گئی تھیں تم کونی نے سرگوشی میں پوچھا۔ میں ذرا باتھ روم گئی تھی۔ لوسی نے عذرِلنگ پیش کیا۔ کونی نے گویا حقیقت کا اندازہ کرلینے کے باوجود اس کے عذر کو قبول کرلیا اور نیچی آواز میں بولی۔ اب کہیں مت جانا، میرے پاس ہی بیٹھی رہنا۔ بس تھوڑی دیر کی بات ہے پھر تو تمہیں اپنے دولہا کے سوا کسی کا بھی اپنے پاس بیٹھنا بہت ناگوار گزرے گا۔ لوسی نے شریر لہجے میں کہا اور دولہا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ اس دوران بونا سیرا، ہیگن کے ساتھ اس کے کمرے میں داخل ہوچکا تھا۔ اس نے ڈون کارلیون کو ایک بڑی سی میز کے عقب میں بیٹھے پایا۔ سنی کھڑکی کے قریب کھڑا باہر دیکھ رہا تھا۔ آج کے دن بونا سیرا وہ پہلا فرد تھا جس کے استقبال کے سلسلے میں ڈون نے خاصی سرد مہری کا مظاہرہ کیا۔ اس نے بونا سیرا سے مصافحہ کیا اور نہ ہی اس سے گلے ملنے کیلئے اپنی جگہ سے اٹھا۔ بونا سیرا کیلئے اس کے دل میں کوئی خاص دوستانہ جذبات نہیں تھے۔ اسے شادی کی تقریب میں بھی صرف اس لئے مدعو کرلیا گیا تھا کہ اس کی بیوی سے ڈون کی بیوی کی خاصی دوستی تھی۔ میں شکر گزار ہوں کہ آپ نے مجھے اور میری فیملی کو اس تقریب میں بلا کر عزت بخشی اور معذرت خواہ ہوں کہ میری بیوی اور بیٹی تقریب میں نہیں آسکیں۔ میری بیٹی ابھی تک اسپتال میں ہے۔ بونا سیرا نے ہوشیاری سے گفتگو کا آغاز کیا۔ تمہاری بیٹی جس المیے کا شکار ہوئی، ہم سب اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ ڈون نے سپاٹ لہجے میں کہا۔ اگر تمہیں اس سلسلے میں کسی مدد کی ضرورت ہے تو کہہ ڈالو، تمہیں مایوسی نہیں ہوگی۔ بونا سیرا نے سنی اور ہیگن کی طرف دیکھا۔ پھر ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولا۔ کیا میں آپ سے تخلیے میں بات کرسکتا ہوں نہیں۔ ڈون نے بلاتامل گمبھیر لہجے میں کہا۔ یہ دونوں میرے بازوئوں کی طرح ہیں۔ میری کوئی بات، میرا کوئی معاملہ ان سے چھپا ہوا نہیں ہے۔ میں انہیں باہر بھیج کر ان کی توہین نہیں کرسکتا۔ بونا سیرا نے ایک لمحے کیلئے آنکھیں بند کرلیں۔ پھر گہری سانس لے کر گویا کسی فیصلے پر پہنچتے ہوئے بولا۔ میں امریکا میں رچ بس گیا تھا اور اس ملک کو پسند بھی کرتا تھا۔ یہاں مجھے سکون سے زندگی گزارنے کا موقع ملا اور میں نے پیسہ بھی کمایا۔ میں نے اپنی بیٹی کی پرورش امریکی انداز میں کی تھی اور اسے آزادی دے رکھی تھی تاہم اس نے کبھی ایسا کوئی کام نہیں کیا جس سے میرا سر شرم سے جھک جاتا، تاہم اس کا ایک بوائے فرینڈ ضرور تھا جس کے ساتھ وہ باہر گھومنے پھرنے جاتی تھی۔ وہ لڑکا رشتہ مانگنے کبھی ہمارے گھر نہیں آیا۔ وہ ایک لمحے کیلئے خاموش ہوا پھر گویا گفتگو کے نازک موڑ کی طرف آتے ہوئے بولا۔ ایک روز وہ اس لڑکے کے ساتھ ڈرائیو پر گئی۔ راستے میں لڑکے نے اپنے ایک دوست کو بھی ساتھ لے لیا۔ انہوں نے کسی طرح میری بیٹی کو شراب پینے پر بھی مجبور کیا اور پھر ویرانے میں اس کی عزت لوٹنے کی کوشش کی۔ اس نے شدید مزاحمت کی تو انہوں نے مار مار کر اس کا برا حال کردیا، اس کا جبڑا توڑ ڈالا، ناک بھی توڑ ڈالی۔ اس کے چہرے اور جسم پر نیل پڑ گئے۔ وہ تکلیف سے روتی تھی تو میرا دل بھی خون کے آنسو روتا تھا۔ اس کی آواز رندھ گئی۔ پھر وہ دھیرے دھیرے رونے لگا۔ ڈون نے گویا بادل ناخواستہ ہمدردی اور تاسف سے سر ہلایا۔ اس سے حوصلہ پا کر بونا سیرا شکستہ سے لہجے میں مزید بولا۔ میری بیٹی میری آنکھوں کا تارہ تھی۔ بہت خوبصورت تھی مگر اب شاید وہ زندگی بھر کیلئے بدصورت ہوجائے۔ انسانوں سے اس کا اعتماد شاید ہمیشہ کیلئے اٹھ چکا ہے۔ میں ایک اچھے امریکی کی طرح پولیس کے پاس گیا۔ دونوں لڑکے گرفتار بھی ہوئے۔ مقدمہ بھی چلا۔ ان کے خلاف شہادتیں مضبوط تھیں۔ انہوں نے اپنا جرم تسلیم بھی کرلیا۔ جج نے انہیں تین سال کی سزائے قید بھی سنائی مگر اس پر عملدرآمد معطل رکھا۔ دونوں لڑکے اسی دن رہا بھی ہوگئے اور میں احمقوں کی طرح عدالت میں کھڑا رہ گیا۔ وہ سب فاتح انداز میں میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے رخصت ہوگئے۔ تب میں نے اپنی بیوی سے کہا کہ انصاف کیلئے ہم ڈون کارلیون کے پاس جائیں گے۔ ڈون کا سر گویا بونا سیرا کے دکھ کے احترام میں جھکا ہوا تھا۔ وہ خاموش ہوا تو ڈون نے سر اٹھایا اور سرد لہجے میں بولا۔ تم پولیس کے پاس کیوں گئے اگر تمہیں انصاف چاہئے تھا تو تم پولیس کے پاس جانے کے بجائے میرے پاس کیوں نہیں آگئے بونا سیرا نے مجرمانہ انداز میں سر جھکا لیا۔ ڈون گویا خود ہی اپنے سوال کا جواب دیتے ہوئے بولا۔ اتنے برسوں میں تم نے کبھی مجھ سے کوئی رابطہ نہیں رکھا حالانکہ میری بیوی تمہاری بیوی کی دوست تھی۔ گویا وہ تمہاری بچی کی گاڈ مدر تھی لیکن تم کبھی اس بچی کو ہمارے گھر میں نہیں لائے۔ ہم ایک دوسرے کے بہت پرانے جاننے والے تھے لیکن تم نے کبھی مجھے چائے، کافی پر بھی اپنے گھر مدعو نہیں کیا۔ شاید تمہیں خوف تھا کہ مجھ سے تعلق رکھ کر تم کسی مصیبت میں نہ پھنس جائو۔ تم سمجھتے تھے کہ امریکا ایک جنت ہے جہاں تمہاری طرح شرافت سے زندگی گزارنے والوں کو کوئی خطرہ لاحق نہیں۔ تمہیں مجھ جیسے دوستوں کی ضرورت نہیں تھی۔ تمہارا خیال تھا کہ ضرورت پڑنے پر انصاف اور تحفظ دلانے کیلئے امریکا کی پولیس اور عدالتیں کافی ہیں لیکن جب تمہیں وہاں منہ کی کھانی پڑی تو تم میرے پاس آگئے۔ اتنے برسوں بعد تمہیں ڈون کارلیون یاد آگیا اور اس کے پاس بھی تم دل میں عزت اور احترام کے جذبات لے کر نہیں آئے۔ مجھے پتا چلا ہے کہ تم نے اپنی بیوی سے کہا تھا۔ اگر میں تمہاری مرضی کے مطابق ان لڑکوں کے بارے میں ایسی انتقامی کارروائی کروں جس سے تمہارے دل میں ٹھنڈک پڑ جائے تو اس کیلئے تم بھاری رقم بھی خرچ کرنے کو تیار ہو۔ تم ان لڑکوں کو مروانا چاہتے ہو۔ کیا تم مجھے کرائے کا قاتل سمجھتے ہو کیا میں تمہاری نظر میں اتنا چھوٹا آدمی ہوں مم میں معافی چاہتا ہوں گاڈ فادر بونا سیرا شرمندگی اور گھبراہٹ سے ہکلایا۔ ڈون چند لمحے خاموشی سے اس کی طرف دیکھتا رہا پھر قدرے نرم لہجے میں بولا۔ اب مجھ سے کیا چاہتے ہو میں انصاف چاہتا ہوں۔ میری بیٹی نے جتنی تکلیف اٹھائی ہے، کم ازکم اتنی تکلیف تو ان لڑکوں اور ان کے والدین کو بھی پہنچنی چاہئے۔ بونا سیرا لجاجت سے بولا۔ اس کا چہرہ زرد تھا۔ اگر تم انصاف کیلئے پہلے ہی میرے پاس آجاتے تو تمہیں اتنا خوار نہ ہونا پڑتا اور لوگوں کی نظر میں تماشا نہ بننا پڑتا۔ تم انصاف کیلئے ان وکیلوں کے پاس دھکے کھاتے رہے اور ان ججوں کے سامنے گڑگڑاتے رہے جو بکائو مال ہیں۔ اسی طرح تم کاروبار چلانے کیلئے بھی شروع شروع میں ان بینکوں میں بھکاریوں کی طرح چکر لگاتے رہے جنہوں نے تمہاری ہر چیز کی اچھی طرح چھان پھٹک کرنے کے بعد تمہیں بھاری سود پر قرضہ دیا۔ اگر اس وقت بھی تم نے مجھے اپنا یا خود کو میرا دوست سمجھا ہوتا تو میں منہ مانگی رقم تمہارے ہاتھ پر رکھ دیتا۔ پھر اس نے گہری سانس لی اور بولا۔ بہرحال میری بیوی تمہاری بیٹی کی گاڈ مدر ہے۔ اب جائو، تمہیں انصاف مل جائے گا۔ جب بونا سیرا چلا گیا اور دروازہ اس کے عقب میں بند ہوگیا تو ڈون نے ہیگن کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے کہا یہ معاملہ مینزا کے سپرد کردو۔ اس سے کہنا کہ بھروسے کے آدمیوں سے کام لے، جو لہو کی بو سونگھ کر زیادہ مستی میں نہ آجائیں اور بہت آگے نہ بڑھ جائیں۔ ہم بہرحال کرائے کے قاتل نہیں ہیں۔ سنی جو اس دوران کھڑکی سے باہر باغ کی طرف دیکھ رہا تھا، مڑتے ہوئے بولا۔ جونی بھی شادی میں شرکت کیلئے آن پہنچا ہے۔ میں نے آپ سے کہا تھا نا کہ وہ ضرور آئے گا۔ باہر سے مہمانوں کا شور بھی سنائی دینے لگا تھا شاید کچھ لوگ بہت جوش و خروش سے جونی کا استقبال کررہے تھے۔ ہیگن نے بھی آگے بڑھ کر کھڑکی سے دیکھا۔ پھر ڈون کی طرف مڑتے ہوئے بولا۔ واقعی آپ کا گاڈ سن جونی آیا ہے۔ کیا میں اسے یہاں لے آئوں نہیں۔ ڈون نے مسکراتے ہوئے کہا۔ ابھی ذرا لوگوں کو اس سے مل کر خوش ہولینے دو۔ وہ مشہور آدمی ہے۔ لوگ اس سے ملنے میں خوشی محسوس کرتے ہیں۔ وہ بہرحال ایک اچھا گاڈ سن بھی ہے۔ اس موقع پر وہ میرے پاس آنا نہیں بھولا۔ ہیگن ذرا چبھتے ہوئے لہجے میں بولا۔ ضروری نہیں کہ وہ خاص طور پر آپ سے ملنے یا شادی میں شرکت کرنے کیلئے آیا ہو۔ دو سال سے اس نے پلٹ کر نہیں دیکھا تھا۔ مجھے اندیشہ ہے کہ اب وہ پھر کسی مشکل میں نہ پھنس گیا ہو جس کی وجہ سے اسے آپ کے پاس آنا پڑا ہو۔ ظاہر ہے مشکل یا مصیبت میں وہ مدد کیلئے اپنے گاڈ فادر کے پاس نہیں آئے گا تو کس کے پاس جائے گا ڈون نے خوشدلی سے کہا۔ ٭ ٭ ٭ جونی پر سب سے پہلے کونی کی نظر پڑی تھی اور وہ اپنے دلہن والے تکلفات بالائے طاق رکھتے ہوئے گلا پھاڑ کر چلا اٹھی تھی۔ جونی جونی سیدھا اس کی طرف آیا۔ دونوں بے تکلفی سے گلے ملے۔ دولہا سے بھی اس کا تعارف ہوا۔ چند لمحوں میں جونی سب کی توجہ کا مرکز بن گیا۔ اسی دوران بینڈ اسٹینڈ کی طرف سے آواز آئی۔ جونی آج تو ہم سب کو ایک گانا سنا دو۔ اس شناسا آواز پر جونی نے گھوم کر دیکھا۔ وہ اس کا لڑکپن کا ساتھی نینو تھا جو چند لمحے پہلے تک مینڈولین کی دھن پر کوئی نغمہ سنا رہا تھا۔ کسی زمانے میں جونی اور نینو ہر وقت ساتھ رہتے تھے۔ وہ اکٹھے گاتے تھے، اکٹھے محفلوں میں شرکت کرتے تھے، لڑکیوں سے ملنے اکٹھے جاتے تھے لیکن پھر دھیرے دھیرے جونی زندگی کی دوڑ میں شہرت کے راستوں پر آگے نکل گیا اور نینو پیچھے رہ گیا۔ جونی نے پہلے ریڈیو کیلئے گانا شروع کیا اور جب وہ خاصا مشہور ہوگیا تو اسے گلوکاری کیلئے ہالی وڈ سے بلاوا آگیا۔ وہ فلموں کیلئے گانے لگا اور بڑی کمپنیاں اس کے البم بھی تیار کرنے لگیں۔ اس نے ہالی وڈ سے دو تین مرتبہ نینو کو فون کیا اور اس سے وعدہ کیا کہ وہ اسے کسی اچھے کلب میں سنگر کے طور پر کام دلانے کی کوشش کرے گا۔ یہ وعدہ کبھی پورا نہیں ہوسکا۔ تاہم آج نینو نظر آیا تو جونی اس سے لڑکپن کے اسی پرانے انداز میں گرمجوشی سے ملا۔ اس نے نینو سے مینڈولین لے کر پائوں زور زور سے چوبی فرش پر مارتے ہوئے دلہن کے اعزاز میں ایک گانا شرع کردیا۔ نینو اور دیگر بہت سے مہمان اس کا ساتھ دینے لگے۔ مہمان جونی پر فخر محسوس کررہے تھے۔ وہ گویا ان کا اپنا آدمی تھا جس نے شوبزنس کی دنیا میں اتنا نام کمایا تھا۔ وہ صرف گلوکاری کے میدان میں ہی نہیں، اداکاری کے میدان میں بھی اسٹار بن گیا تھا لیکن گاڈ فادر کے احترام میں وہ بھی تین ہزار میل کا سفر کرکے اس کی بیٹی کی شادی میں شرکت کرنے آن پہنچا تھا اور آتے ہی اس نے سماں باندھ دیا تھا، فضا کو جوش و خروش، مستی اور موسیقی سے بھر دیا تھا۔ آخرکار وہ گاڈ فادر سے ملنے اندر جا پہنچا۔ ڈون کارلیون نے اسے سینے سے لگا کر اس کا استقبال کیا۔ جونی بولا۔ جب مجھے شادی کا دعوت نامہ ملا تو اس احساس سے میرا دل باغ باغ ہوگیا کہ میرا گاڈ فادر مجھ سے اب ناراض نہیں ہے۔ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دینے کے بعد میں نے پانچ مرتبہ آپ کو فون کیا لیکن ہیگن نے ہر بار مجھے یہی بتایا کہ آپ کہیں گئے ہوئے ہیں۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ آپ مجھ سے ناراض ہیں۔ اب میں نے ساری ناراضی بھلا دی ہے۔ ڈون نے مسکراتے ہوئے کہا۔ اگر اب میں تمہارے لئے کچھ کرسکتا ہوں تو بتا دو۔ ابھی تم اتنے مشہور اور بڑے آدمی نہیں بنے کہ میں تمہارے لئے کچھ نہ کرسکوں۔ میں اب اتنا مشہور اور کامیاب آدمی نہیں رہا۔ میں بہت تیزی سے نیچے جارہا ہوں۔ جونی مشروب کا گلاس خالی کرتے ہوئے بولا۔ آپ نے ٹھیک کہا تھا کہ مجھے اپنی پہلی بیوی اور بچوں کو نہیں چھوڑنا چاہئے تھا۔ آپ اس بات پر مجھ سے ناراض ہوئے تھے تو ٹھیک ہی ناراض ہوئے تھے۔ ہالی وڈ کی جس سپر اسٹار سے میں نے شادی کی، وہ کال گرل سے بھی بدتر ثابت ہوئی۔ اس کی صورت فرشتوں جیسی لیکن حرکتیں شیطان کو شرمانے والی ہیں۔ اگر اس کی کوئی فلم کامیاب ہوجاتی ہے تو وہ اس فلم کے ڈائریکٹر، پروڈیوسر سے لے کر لائٹ مین تک کو اپنے حسن سے فیض یاب ہونے کا موقع دے دیتی ہے اور تمہاری سابق بیوی اور بچے کیسے ہیں ڈون نے اس کی بات کاٹتے ہوئے پوچھا۔ میں نے اچھے طریقے سے ان سے علیحدگی اختیار کی تھی۔ جونی نے جواب دیا۔ طلاق کے بعد میں نے انہیں اس سے کہیں زیادہ رقم اور دوسری چیزیں دی تھیں جتنی عدالت نے کہی تھیں۔ ہفتے میں ایک مرتبہ میں ان سے ملنے بھی جاتا ہوں لیکن اب مجھے زندگی میں ان کی کمی محسوس ہوتی ہے۔ اس نے ہیگن سے اپنے لئے مشروب کا ایک اور گلاس بھروایا۔ ایک گھونٹ بھرنے اور سگریٹ کا ایک کش لینے کے بعد بولا۔ میری دوسری بیوی مجھ پر ہنستی ہے اور میں اس کی بدچلنی پر ناراض ہوتا ہوں تو وہ مجھے قدامت پرست قرار دے کر میرا مذاق اڑاتی ہے۔ وہ میرے گانوں کا بھی مذاق اڑاتی ہے۔ ویسے بھی آج کل گلوکاری کے میدان میں مجھے ناکامیوں کا سامنا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ قسمت کے ساتھ ساتھ آواز بھی مجھ پر مہربان نہیں رہی۔ اب مجھ سے گایا بھی نہیں جاتا، میری آواز میرا ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ آنے سے پہلے بھی بیوی سے میرا جھگڑا ہوا۔ میں نے اس کی پٹائی کی لیکن اس کے چہرے پر نہیں مارا کیونکہ ابھی اس کی فلم کی شوٹنگ چل رہی ہے۔ اس نے ایک آہ بھری اور دردناک لہجے میں بولا۔ لگتا ہے اب زندگی میں کوئی کشش کوئی دلچسپی نہیں رہی۔ بھئی ان معاملات میں، میں تمہاری کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ ڈون نے ملائمت سے کہا۔ جس اسٹوڈیو کی فلموں میں میں نے کام کیا تھا، اب وہ بھی مجھے کاسٹ کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ اسٹوڈیو کا مالک شروع سے ہی مجھ سے جلتا تھا، اب گویا اسے مجھ سے انتقام لینے کا بہترین موقع مل گیا ہے۔ وہ مجھ سے نفرت کرتا ہے۔ کیوں ڈون نے دریافت کیا۔ میں نے اس کی ایک خاص محبوبہ کو اس سے چھین لیا تھا حالانکہ ہمیشہ کیلئے نہیں چھینا تھا صرف چند دنوں کی بات تھی اور وہ خود ہی میرے پیچھے آئی تھی۔ اب میں بھلا کیا کرتا ایسا لگتا ہے کہ اب کوئی بھی مجھے قبول کرنے کیلئے تیار نہیں۔ گاڈ فادر میں کیا کروں اور کچھ نہیں کرسکتے تو کم ازکم مرد تو بنو۔ ڈون نے سخت ناگواری سے کہا۔ یہ عورتوں کی طرح رونا دھونا اور فریاد کرنا تو بند کرو۔ جونی نے اس کی ڈانٹ کا برا نہیں منایا اور ہنسنے لگا۔ ڈون کو اس کی یہ عادت اچھی لگتی تھی۔ اس کی اپنی اولاد بھی اس کی ڈانٹ پھٹکار پر کوئی نہ کوئی ناخوشگوار ردعمل ظاہر کرتی تھی لیکن جونی ہنس دیتا تھا اور ڈون کی ڈانٹ پھٹکار کو اپنے حق میں بہتر سمجھتا تھا۔ ڈون نے سلسلۂ کلام جوڑتے ہوئے کہا۔ تم نے اپنے سے زیادہ طاقتور اور بااختیار آدمی سے اس کی محبوبہ چھینی۔ اس کے بعد شکوہ کررہے ہو کہ وہ تمہیں اپنی فلم میں کاسٹ نہیں کررہا۔ تم نے اپنی بیوی اور بچوں کو چھوڑ دیا اور اب شکوہ کرتے ہو کہ وہ تم سے اچھی طرح پیش نہیں آتے۔ اپنی دوسری بیوی کو تم کال گرل سے بدتر قرار دیتے ہو لیکن اس کے منہ پر گھونسہ نہیں مارتے کہ کہیں اس کی شوٹنگ کھٹائی میں نہ پڑ جائے۔ جونی تم ایک احمق انسان ہو اور تمہارا وہی انجام ہوا ہے جو عام طور پر احمقوں کا ہوا کرتا ہے۔ اس میں رونے دھونے کی کیا بات ہے میں اپنی پہلی بیوی جینی سے دوبارہ شادی نہیں کرسکتا کیونکہ اس کی شرائط پوری کرنا میرے بس کی بات نہیں۔ جونی نے فریادی انداز میں اپنی بات جاری رکھی۔ وہ کہتی ہے کہ مجھے جوئے، شراب، عورتوں اور مرد دور رہنا ہوگا۔ جوا اور شراب میں نہیں چھوڑ سکتا۔ عورتیں خود میرے پیچھے آتی ہیں۔ اب میں کیا کروں اس سلسلے میں بھی میں کچھ نہیں کرسکتا۔ ویسے بھی جب میں جینی کے ساتھ زندگی گزار رہا تھا، تب بھی مطمئن نہیں تھا۔ اب میں اسی زندگی کی طرف واپس نہیں جاسکتا۔ میں نے تم سے کب کہا ہے کہ تم جینی سے دوبارہ شادی کرو یا مزید کوئی شادی کرو۔ یہی غنیمت ہے کہ تم نے ایک باپ کی طرح اپنے بچوں کی گزراوقات کا خیال رکھا ہے۔ جو انسان اپنے بچوں کا خیال نہیں رکھتا، میں اسے مرد ہی نہیں سمجھتا لیکن بہرحال تم جن حالات سے دوچار ہو، وہ تمہارے اپنے ہی پیدا کردہ ہیں۔ تم نے اپنے اچھے دوست بھی نہیں بنائے بلکہ لڑکپن کا جو ایک آدھ اچھا دوست تھا، اسے بھی ترقی کے راستے پر آگے نکلتے ہی فراموش کردیا۔ دوست بہت اہم ہوتے ہیں، تقریباً فیملی کی طرح پھر ڈون کارلیون ایک لمحے کیلئے خاموش رہا۔ جونی امید بھری نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ آخر ڈون نرم لہجے میں بولا۔ وہ جو اسٹوڈیو کا مالک ہے جو تمہیں اپنی فلم میں کاسٹ نہیں کررہا، اس کا نام کیا ہے اور وہ کس قسم کا آدمی ہے مجھے اس کے بارے میں ذرا تفصیل سے بتائو۔ اس کا نام جیک والز ہے۔ وہ بہت بڑا بہت دولت مند، طاقتور اور بارسوخ شخص ہے۔ امریکا کے صدر تک سے اس کی شناسائی ہے کیونکہ جنگ کے زمانے میں اس نے پروپیگنڈا فلمیں بھی بنائی تھیں جو دنیا میں امریکا کا امیج بہتر بنانے اور اس کا موقف اجاگر کرنے میں مدد دیتی تھیں۔ صدر اس قسم کے معاملات میں اس سے مشورہ کرتا ہے۔ ایک ماہ پہلے اس نے اب تک کے مشہور ترین اور سب سے زیادہ بکنے والے ناول پر فلم بنانے کے حقوق خریدے ہیں۔ اس کا مرکزی کردار بالکل مجھ جیسا ہے۔ میں اگر ایکٹنگ نہ کروں تب بھی اس کردار کو بہت اچھے طریقے سے کرسکتا ہوں۔ میں اس کردار میں بالکل اسی طرح فٹ ہوں جیسے انگوٹھی میں نگینہ۔ شاید مجھے اس پر اکیڈمی ایوارڈ بھی مل جائے۔ فلمی دنیا کے ہر آدمی کا خیال ہے کہ وہ کردار گویا میرے لئے بنا ہے۔ اگر مجھے اس فلم میں سائن کرلیا جائے تو مجھے گویا دوسری زندگی مل جائے گی لیکن اس مردود جیک والز نے اس بات کو انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ وہ کسی بھی صورت مجھے اس فلم میں کاسٹ کرنے کیلئے تیار نہیں حتیٰ کہ میں نے مفت کام کرنے کی بھی پیشکش کردی لیکن اس کا انکار، اقرار میں نہیں بدلا۔ میں نے ہر کوشش کرکے دیکھ لی ہے۔ ڈون نے متاسفانہ انداز میں سر ہلایا اور کہا۔ مایوسی اور شکستہ دلی کی حالت میں تمہاری بے اعتدالیاں مزید بڑھ گئی ہیں۔ تم زیادہ پینے لگے ہو، سگریٹ بھی پیتے ہو، سونے کیلئے خواب آور گولیاں لیتے ہوگے۔ انہی بے اعتدالیوں کی وجہ سے تمہاری آواز بھی تمہارا ساتھ چھوڑ گئی ہے۔ اب تم میرے احکام سن لو۔ تم ایک ماہ اس گھر میں میرے ساتھ رہو۔ اس دوران تم صحیح طرح کھائو گے، پینا پلانا بالکل چھوڑ دو گے، خواب آور گولیاں نہیں لو گے۔ صحت مندانہ طریقے سے زندگی گزارو گے۔ ایک ماہ بعد تم ہالی وڈ واپس جائو گے اور میرا وعدہ ہے کہ جیک والز تمہیں اپنی فلم میں سائن کرلے گا۔ ٹھیک ہے جاری ہے
null
null
null
null
449
https://www.urduzone.net/sultan-bahu-episode-2/
اس خانقاہ میں ایک دیگ تھی جس کے نیچے ہر وقت آگ جلتی رہتی تھی اور ہلکی آنچ پر دیگ کا پانی چوبیس گھنٹے گرم رہتا تھا۔ جب کوئی طالبان حق آتا تو حضرت شاہ حبیب اللہ قادری اسے دیگ کے پانی میں ہاتھ ڈالنے کا حکم دیتے۔ پھر جیسے ہی وہ شخص پانی میں ہاتھ ڈالتا، صاحب کشف ہوجاتا۔ اس روز بھی کئی طالبان حق حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ درس کے بعد حضرت شاہ صاحب نے ان لوگوں کو دیگ کے گرم پانی میں ہاتھ ڈالنے کا حکم دیا۔ طالبان حق آگے بڑھے اور کسی جھجک کے بغیر ان حضرات نے پانی میں ہاتھ ڈال دیا۔ حضرت سلطان باہو نے بہت غور سے یہ منظر دیکھا۔ گرم پانی سے ان لوگوں کے ہاتھوں کو کسی قسم کا گزند نہیں پہنچا۔ یہی حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کی مشہور کرامت تھی کہ پانی میں ہاتھ ڈالتے ہی طالب حق صاحب کشف ہوجاتا تھا۔ حضرت سلطان باہو کو خاموش بیٹھا دیکھ کر حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے فرمایا۔ صاحبزادے تم یہاں کس مقصد کے لیے آئے ہو حضرت سلطان باہو نے بصد احترام عرض کیا۔ تلاش حق میں گھر سے نکلا ہوں۔ حضرت کے کمالات روحانی کا شہرہ سنا تو حاضر ہوگیا۔ بندئہ خدا تم خاموش کیوں بیٹھے ہو حضرت سلطان باہو کی عرضداشت سن کر حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے فرمایا۔ تم نے دوسرے لوگوں کی طرح دیگ میں ہاتھ کیوں نہیں ڈالا اگر ایسا کرتے تو بامراد ہوجاتے۔ حضرت سلطان باہو نے نہایت ادب کے ساتھ عرض کیا۔ میں دیگ میں ہاتھ ڈالنے والوں کا حال دیکھ رہا تھا، اس سے میری مراد پوری نہیں ہوتی۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے نووارد کوچۂ معرفت کا جواب سنا اور بڑی حیرت سے حضرت سلطان باہو کی طرف دیکھا۔ پھر کیا چاہتے ہو میں تو کسی اور ہی منزل کی تلاش میں ہوں۔ حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ تو پھر اے درویش چند روز خانقاہ میں ٹھہرو۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے فرمایا۔ کچھ دن مجاہدہ کرو اور اس دوران مسجد کا پانی بھرو۔ ٭ ٭ ٭ حضرت سلطان باہو نے وہ رات حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کی خانقاہ میں بسر کی۔ پھر دوسرے دن خانقاہ کے منتظمین سے پانی بھرنے کے لیے مشک طلب کی۔ اس کے بعد حضرت سلطان باہو مشک لے کر دریا کے کنارے پہنچے۔ مشک کو پانی سے لبریز کیا اور خانقاہ میں حاضر ہوئے۔ پھر ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ حضرت سلطان باہو نے ایک ہی مشک میں پورا حمام بھر دیا جبکہ حمام کو بھرنے کے لیے کئی مشکوں کی ضرورت ہوتی تھی۔ باقی پانی سے آپ نے مسجد کا پورا صحن دھو دیا۔ خانقاہ کے منتظمین بڑی حیرت سے یہ منظر دیکھ رہے تھے۔ ایک خادم نے اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوکر یہ واقعہ بیان کیا۔ شیخ اس نوجوان نے تو ایک ہی مشک میں پورا حمام بھر دیا۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کچھ دیر تک خاموش رہے۔ پھر خادم سے فرمایا۔ اس نوجوان کو میرے پاس بھیج دو۔ حضرت سلطان باہو ، حضرت حبیب اللہ قادری کی خدمت میں حاضر ہوئے تو شاہ صاحب نے فرمایا۔ نوجوان کیا تمہارے پاس دنیاوی مال و متاع ہے حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ مجھے والد محترم کی طرف سے زمینی جاگیر ورثے میں ملی ہے۔ مال و متاع کی موجودگی میں تم راہِ حق کی دشوار مسافت کس طرح طے کرسکتے ہو حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے فرمایا۔ تو پھر میرے لیے کیا حکم ہے حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ مالِ دنیا کے ہوتے ہوئے تمہیں یکسوئی قلب حاصل نہیں ہوسکتی۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے فرمایا۔ پہلے مال و متاع سے فارغ ہوجائو، پھر یکسوئی اختیار کرو۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کے حکم پر عمل کرنے کے لیے حضرت سلطان باہو اپنے آبائی وطن شورکوٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ٭ ٭ ٭ ابھی حضرت سلطان باہو راستے میں تھے کہ آپ کی والدہ محترمہ حضرت بی بی راستی نے اپنی چاروں بہوئوں کو طلب کرکے فرمایا۔ تم لوگ ہوشیار ہوجائو۔ حضرت سلطان باہو کی بیویوں نے گھبرا کر ساس محترمہ کی طرف دیکھا۔ آپ کس خطرے کی طرف اشارہ کررہی ہیں میرا بیٹا اور تمہارا شوہر سلطان باہو آرہا ہے۔ حضرت بی بی راستی نے فرمایا۔ بیویوں کے چہروں پر خوشی کا گہرا رنگ نمایاں ہوگیا۔ اُم محترم یہ تو بڑی خوشخبری ہے۔ تمہارے لیے خوشی کی کوئی خبر نہیں۔ حضرت بی بی راستی نے اپنی بہوئوں کو متنبہ کرتے ہوئے فرمایا۔ باہو اپنے پیر و مرشد کے حکم پر سارا مال و متاع لٹانے آرہا ہے۔ حضرت سلطان باہو کی بیویاں نیک تھیں مگر تارک الدنیا نہیں تھیں کہ مادّی دولت سے خوشی کے ساتھ دستبردار ہوجاتیں۔ اس لیے ان کے چہروں سے پریشانی کے آثار جھلکنے لگے۔ بہتر یہی ہے کہ تم اپنی نقدی اور زیور بچا لو۔ حضرت بی بی راستی نے بہوئوں کو ہدایت دیتے ہوئے فرمایا۔ برا وقت کہہ کر نہیں آتا۔ اگر تم میری نصیحت پر عمل کرو گی تو یہی مال و متاع تمہارے کام آئے گا۔ مگر ہم اپنی نقد رقم اور زیورات کو کس طرح بچا سکتے ہیں حضرت سلطان باہو کی چاروں بیویوں نے بیک زبان عرض کیا۔ ان کی سمجھ میں کوئی ترکیب نہیں آرہی تھی۔ تم سب لوگ اپنی نقدی اور زیورات کسی ایسی جگہ دبا دو جہاں باہو کی نظر نہ پہنچ سکے۔ حضرت بی بی راستی نے بہوئوں کو مشورہ دیا۔ حضرت سلطان باہو کی بیویوں نے ایسا ہی کیا اور سارے خطرات سے بے نیاز ہوکر شوہر کا انتظار کرنے لگیں۔ کچھ دن بعد حضرت سلطان باہو شورکوٹ پہنچے اور والدہ محترمہ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ باہو تم اتنی جلدی کیسے لوٹ آئے حضرت بی بی راستی نے فرزند سے پوچھا۔ کیا تمہیں کوئی مرشد نہیں مل سکا مرشد تو مل گیا ہے مگر شیخ نے بیعت کرنے کے لیے ایک کڑی شرط رکھی ہے۔ حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ کیسی شرط حضرت بی بی راستی نے پوچھا۔ اگرچہ آپ اپنے کشف کے سبب صورت حال سے باخبر تھیں مگر حضرت سلطان باہو کی آزمائش کے لیے آپ نے یہ سوال کیا تھا۔ مرشد کا حکم ہے کہ پہلے مال و متاع دنیا سے نجات حاصل کرلوں۔ حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ فرزند حکم شیخ پر عمل کرو۔ حضرت بی بی راستی نے فرمایا۔ حضرت سلطان باہو نے اپنے فرزند اکبر نور محمد کی طرف دیکھا جو گہوارے میں سوئے ہوئے تھے۔ نظربد سے بچانے کے لیے ان کی انگلی میں سونے کی انگوٹھی ڈال دی گئی تھی۔ حضرت سلطان باہو نے آگے بڑھ کر شیرخوار بچے کی انگلی سے وہ انگوٹھی اتار لی اور اسے اپنے مکان کے پیچھے گلی میں پھینک دی۔ مناقب سلطان کی روایت کے مطابق حضرت سلطان باہو نے سونے کی انگوٹھی گلی میں پھینکنے کے بعد اپنی بیویوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اگر گھر میں کچھ اور مال و متاع ہے تو وہ بھی لے آئو تاکہ میں اس سے نجات حاصل کرسکوں۔ بیویاں اس صورت حال سے بہت پریشان تھیں۔ وہ شوہر کی بات کا کوئی جواب نہ دے سکیں۔ ان کی جگہ حضرت بی بی راستی نے فرمایا۔ اس گھر میں مال کہاں حضرت سلطان باہو نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ عرض کیا۔ مادر گرامی آپ فرماتی ہیں کہ یہاں مال کہاں مگر مجھے تو اس گھر سے متاع دنیا کی بو آرہی ہے۔ حضرت بی بی راستی نے بیٹے کی بات سن کر فرمایا۔ باہو اگر تمہیں اس گھر سے متاع دنیا کی بو آرہی ہے تو پھر خود ہی تلاش کرلو۔ حضرت سلطان باہو گھر کے ایک سنسان سے گوشے میں تشریف لے گئے اور زمین میں دبا ہوا سارا زیور نکال کر مکان سے باہر پھینک دیا۔ ٭ ٭ ٭ حضرت سلطان باہو دوبارہ اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیا۔ میں نے حکم شیخ پر تمام مال و زر لٹا دیا۔ ابھی تمہارے پیروں کی زنجیریں باقی ہیں۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے فرمایا۔ مجھے حکم دیجئے۔ حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ میں ان زنجیروں کو بھی کاٹ پھینکوں گا۔ وہ زنجیریں تمہاری بیویاں ہیں۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے فرمایا۔ تم اللہ تعالیٰ کے حقوق ادا کرو گے یا اپنی بیویوں کے بندے پر سب سے پہلا حق اللہ تعالیٰ کا ہے۔ حضرت سلطان باہو نے نہایت جذب کے عالم میں فرمایا۔ اہل دنیا کے حقوق بھی فرموداتِ الٰہی کے سبب ہیں۔ جب کوئی انسان اپنے خالق کے حقوق ادا نہ کرسکے تو پھر کسی حق کی کوئی حیثیت باقی نہیں رہتی۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے آپ کے ذوق آگہی کی تعریف کی اور فرمایا۔ واپس جاکر اپنی بیویوں کو آزاد کردو تاکہ تمہیں مکمل یکسوئی حاصل ہوسکے اور تم پوری طرح راہِ حق پر چلنے کے لیے تیار ہوجائو۔ حضرت سلطان باہو پر شوق دیدارِ الٰہی اس قدر غالب تھا کہ آپ اپنے پیروں کی زنجیریں کاٹنے پر آمادہ ہوگئے۔ پھر جب حضرت سلطان باہو طویل سفر طے کرکے اپنے گھر کے نزدیک پہنچے تو حضرت بی بی راستی نے آپ کی چاروں بیویوں کو جمع کرکے فرمایا۔ اب کی بار میرا بیٹا تم لوگوں سے نجات حاصل کرنے کے لیے آرہا ہے۔ پہلے اس نے مال دنیا سے پیچھا چھڑایا اور اب وہ تم سے اپنا دامن چھڑانا چاہتا ہے۔ ایک شادی شدہ عورت کے لیے دنیا میں طلاق سے زیادہ تکلیف دہ عمل کوئی دوسرا نہیں ہوتا۔ حضرت بی بی راستی کی زبانی یہ انکشاف سن کر حضرت سلطان باہو کی ازواج مطہرات کے ہوش اُڑ گئے۔ حضرت بی بی راستی نے اپنی بہوئوں کی پریشانی دیکھ کر فرمایا۔ باہو بس آنے ہی والا ہے۔ تم لوگ میری پیٹھ کے پیچھے بیٹھ جائو۔ کہیں ایسا نہ ہو کہ شوق معرفت کے سبب وہ تمہارے حق میں کوئی شرعی کلمہ اپنی زبان سے نکال دے۔ شرعی کلمے سے حضرت بی بی راستی کی مراد طلاق کے الفاظ تھے۔ حضرت سلطان باہو کی چاروں بیویاں اپنی محترم ساس کے عقب میں بیٹھ گئیں۔ ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ حضرت سلطان باہو گھر میں داخل ہوئے اور والدہ محترمہ کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ اس سے پہلے کہ حضرت سلطان باہو اپنے ارادے کی تکمیل کرتے، حضرت بی بی راستی نے بیٹے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ باہو میںجانتی ہوں کہ تم کس ارادے سے آئے ہو میرے مرشد کا یہی حکم ہے کہ میں اپنے پیروں کی ان زنجیروں کو کاٹ دوں۔ حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ بات تو حقوق ادا کرنے کی ہے۔ حضرت بی بی راستی نے فرمایا۔ تمہاری کوئی بیوی تمہارے راستے کی رکاوٹ نہیں بنے گی۔ نان نفقہ کے جو حقوق تمہاری طرف ہیں، تم انہیں ادا کرنے سے فارغ ہو۔ تمہاری بیویاں وہ سارے حقوق اللہ کے واسطے بخشتی ہیں۔ اس کے برعکس تمہارے جو حقوق اپنی بیویوں کے ذمے ہیں، وہ بدستور قائم رہیں گے۔ بس اب تم حق کی تلاش میں نکل جائو۔ اگر تم حق کو حاصل کرکے واپس آگئے تو بہتر ہے ورنہ تمہیں اپنی بیویوں کے حقوق ادا کرنے کے لیے آنے کی ضرورت نہیں۔ حضرت سلطان باہو اپنی حیاتِ مبارک میں شریعت کا بہت لحاظ رکھتے تھے، اس لیے آپ پر والدہ محترمہ کے کلام کا بہت زیادہ اثر ہوا۔ پھر آپ نے اپنی بیویوں کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اگر تم اپنے حقوق معاف کردو تو میں تمہیں طلاق دیئے بغیر واپس چلا جائوں گا۔ چاروں بیویوں نے زبانی طور پر اپنے تمام حقوق معاف کردیئے تو حضرت سلطان باہو دوبارہ پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ مناقب سلطانی میں یہ سارے واقعات اسی طرح تحریر کئے گئے ہیں۔ تلاش حق میں سیم و زر اور دنیوی مال و متاع کا لٹا دینا کوئی خلاف شرع امر نہیں بلکہ قرآن کریم کے چوتھے پارے کی تو ابتدا ہی اس آیت مقدسہ سے ہوتی ہے۔ تم اس وقت تک نیکی کو نہیں پا سکتے جب تک کہ اپنی محبوب ترین شے قربان نہ کردو۔ ترجمہ یہی وجہ ہے کہ چند صوفیائے کرام کو چھوڑ کر دنیا کے تمام مشائخ نے بے زری اور فقر و قناعت کی زندگی بسر کی ہے اور اس طرح شدید تکالیف اٹھا کر نیکی کو حاصل کیا ہے۔ یہاں نیکی سے مراد رضائے الٰہی ہے۔ مگر حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کی طرف سے حضرت سلطان باہو کو ترک ازواج کا مشورہ دینا، شریعت اور سنت کی روح کے منافی ہے۔ اگرچہ بہت سے صوفیا نے شادی نہ کرکے پوری زندگی حالت تجرید میں گزاری ہے مگر ان کا یہ انفرادی عمل عام مسلمانوں کے لیے حجت نہیں۔ اردو کے نامور شاعر جگر مرادآبادی کے بقول اس حسن برق وش کے دل سوختہ وہی ہیں شعلوں سے جو کھیلیں، دامن کو بھی بچائیں حقیقی صوفی وہی ہے جو ہر شعبہ حیات میں سرورِ کونین صلی اللہ علیہ وسلم کے طریقے کی پیروی کرتا ہے۔ چونکہ رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی کی اور بے مثال ازدواجی زندگی بسر کی۔ نتیجتاً صوفیا کے لیے بھی اس معروف سنت پر عمل کرنا لازمی ہو جاتا ہے۔ لیکن شادی کے سلسلے میں یہ استثنیٰ موجود ہے کہ اگر کسی شخص کے اقتصادی حالات درست نہیں تو سرکارِ دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنّت کو مجبوراً ترک کرسکتا ہے مگر جو شخص پہلے سے شادی شدہ ہو، اسے بیویوں کو طلاق دینے کی تلقین کرنا، تصوف کا کمال نہیں۔ مناقب سلطانی کے فاضل مصنف نے اس واقعے کی کوئی توجیہ پیش نہیں کی کہ آخر حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے حضرت سلطان باہو کو ترک ازواج کا مشورہ یا حکم کیوں دیا تھا ہمارے ناقص خیال میں حضرت شاہ حبیب اللہ قادری ، حضرت سلطان باہو کے جذبۂ حق پرستی کی آزمائش چاہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مقدس میں اموال اور اولاد کو فتنہ آزمائش قرار دیا ہے چونکہ حضرت سلطان باہو صاحب مال بھی تھے اور صاحب اہل و عیال بھی اس لیے حضرت شاہ حبیب اللہ قادری یہ دیکھنا چاہتے تھے کہ حضرت سلطان باہو طلب حق میں کتنے سچے ہیں اور راہِ حق میں کس قدر استقامت رکھتے ہیں۔ پھر جب حضرت سلطان باہو اس آزمائشی مرحلے سے گزر گئے تو حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے آپ پر خصوصی توجہ فرمائی۔ ٭ ٭ ٭ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری سے بیعت ہونے کے سلسلے میں مناقب سلطانی کے مصنف شیخ سلطان حامد نے بڑے عجیب واقعات تحریر کئے ہیں۔ ہم اپنے قارئین کی معلومات کے لیے وہ سارے واقعات حرف بہ حرف نقل کررہے ہیں۔ واضح رہے کہ حضرت شیخ سلطان حامد ، حضرت سلطان باہو کے پڑپوتے تھے۔ مناقب سلطانی کے فاضل مصنف فرماتے ہیں کہ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے حضرت سلطان باہو پر خصوصی توجہ فرمانے کے کچھ دن بعد آپ سے دریافت کیا۔ اب تمہیں دلی مراد حاصل ہوئی یا نہیں جواب میں حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ شیخ آج جو مقامات مجھ پر منکشف ہوئے ہیں، ان سے تو میں گہوارے جھولے ہی میں گزر چکا تھا۔ اپنے مرید کا جواب سن کر حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کے دل میں خیال گزرا کہ حضرت سلطان باہو کے اس دعوے کی آزمائش کرنی چاہیے۔ چنانچہ آپ حضرت سلطان باہو کی نظر سے غائب ہوگئے۔ حضرت سلطان باہو بھی اپنے پیر و مرشد کے پیچھے مائل پرواز ہوئے۔ یہاں تک کہ آپ اُڑتے اُڑتے کسی ملک کے ایک جنگل میں پہنچے۔ وہاں حضرت سلطان باہو نے اپنے پیر و مرشد حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کو اس شکل میں پایا کہ ایک بوڑھا آدمی بیلوں کی جوڑی لیے ہوئے ہل چلا رہا تھا۔ حضرت سلطان باہو اپنے کاندھے پر خرقہ پوشوں کی طرح ایک اجنبی درویش کی صورت میں اپنے پیر و مرشد کے سامنے آئے اور عرض کیا۔ شیخ آپ کیوں تکلیف اٹھاتے ہیں، آرام فرمائیں۔ میں آپ کی جگہ ہل چلائوں گا۔ یہ سن کر حضرت شاہ حبیب اللہ قادری اپنی اصلی صورت میں ظاہر ہوئے۔ اس کے ساتھ ہی حضرت سلطان باہو نے بھی اپنی حقیقی شکل اختیار کرلی۔ پھر دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ پکڑا اور ایک طرف روانہ ہوگئے۔ پھر راستہ چلتے چلتے حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ حضرت سلطان باہو نے بھی وہی روش اپنائی اور پیر و مرشد کے تعاقب میں گم ہوگئے۔ یہاں تک کہ آپ نے حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کو ہندوئوں کے ایک شہر میں دیکھا۔ اس وقت شاہ صاحب ایک بوڑھے برہمن کی صورت میں جلوہ افروز تھے۔ آپ کے ہاتھوں میں ایک برتن تھا جس میں زعفران اور دوسرے رنگ بھرے ہوئے تھے۔ پھر حضرت سلطان باہو نے دیکھا کہ آپ کے پیر و مرشد بازار میں موجود ہندوئوں کے ماتھوں پر تلک لگا رہے تھے۔ حضرت سلطان باہو نے بھی فوراً اپنا ظاہری حلیہ بدل دیا اور ایک ہندو نوجوان کی صورت اختیار کرکے ایک دکان پر بیٹھ گئے۔ پھر جب حضرت شاہ حبیب اللہ قادری ادھر سے گزرے تو حضرت سلطان باہو دکان سے اتر کر پیر و مرشد کے سامنے کھڑے ہوگئے اور عرض کرنے لگے۔ بابا میری پیشانی پر بھی تلک لگاتے جایئے۔ حضرت حبیب اللہ قادری صورت حال سے واقف ہوکر اپنی اصلی حالت پر آئے اور حضرت سلطان باہو کا ہاتھ پکڑ کر ایک طرف روانہ ہوگئے۔ پھر تیسری بار بھی ایسا ہی ہوا کہ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری اچانک چلتے چلتے نظروں سے غائب ہوگئے۔ حضرت سلطان باہو نے بھی وہی راستہ اختیار کیا اور پیر و مرشد کے پیچھے پیچھے ہولیے۔ اب کی بار حضرت سلطان باہو نے اپنے پیر و مرشد کو ایک اسلامی شہر میں موجود پایا۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری ایک غیرمعروف مسجد میں تشریف فرما تھے اور بہت سے کم سن بچوں کو قرآن کریم کے قاعدے کی تعلیم دے رہے تھے۔ اس واقعے کو بیان کرتے ہوئے مناقب سلطانی کے مصنف نے حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کے ظاہری حلیے کی طرف کوئی اشارہ نہیں کیا ہے۔ جس سے واضح ہوتا ہے کہ حضرت شاہ صاحب اپنی اصلی صورت میں مسجد کے اندر موجود تھے یہ منظر دیکھ کر حضرت سلطان باہو بھی ایک چھوٹے سے بچے کی صورت میں قاعدہ لے کر حاضر ہوئے اور پیر و مرشد سے درخواست کرنے لگے۔ شیخ مجھے بھی تو سبق پڑھایئے۔ یہ سن کر حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے کمسن طالب علم کی طرف دیکھا اور ایک ہی نظر میں پہچان لیا کہ وہ کوئی مقامی بچہ نہیں بلکہ آپ کے مرید حضرت سلطان باہو ہیں۔ حضرت حبیب اللہ قادری مسجد سے باہر تشریف لائے اور حضرت سلطان باہو کا ہاتھ پکڑ کر اپنے گائوں بغداد پنجاب میں آئے۔ پھر حضرت سلطان باہو کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اے درویش تم جس نعمت کے مستحق ہو، وہ ہمارے امکان سے باہر ہے۔ شیخ محترم پھر میں کہاں جائوں حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ ہم تمہاری رہنمائی کرسکتے ہیں۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے فرمایا۔ اب تمہارا مقدر ہے کہ تم وہاں سے کتنا حاصل کرسکتے ہو۔ آپ میری رہنمائی فرمایئے۔ حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ تقدیریں تو اللہ تعالیٰ تحریر کرتا ہے۔ جو کچھ وہ چاہے گا، وہی ظہور پذیر ہوگا۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے فرمایا۔ میرے پیر و مرشد حضرت سیّد عبدالرحمن قادری دہلی میں شاہی منصب دار ہیں۔ تم ان کی خدمت میں حاضر ہوجائو۔ حضرت سلطان باہو نے حضرت شاہ حبیب اللہ قادری سے اجازت لی اور دہلی کی طرف روانہ ہوگئے۔ ہم پہلے عرض کرچکے ہیں کہ مناقب سلطانی کے مصنف حضرت سلطان حامد خود بھی ایک عالم و فاضل صوفی تھے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ حضرت سلطان باہو کے پڑپوتے تھے۔ یہ شیخ حامد کا خاندانی معاملہ تھا، اس لیے ان کی بیان کردہ روایات دوسروں کے مقابلے میں زیادہ معتبر ہوسکتی ہیں مگر کہیں کہیں ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شیخ حامد کے تحریر کردہ واقعات پر قربت و رشتہ داری اور خوش عقیدگی کا رنگ غالب ہے۔ دوسرے یہ کہ جس طرح حضرت شاہ حبیب اللہ قادری نے اپنے مرید کی آزمائش کی اور جس طرح حضرت سلطان باہو اس آزمائشی مرحلے سے گزرے، یہ سارے واقعات پڑھ کر ایک عام انسان کے ذہن میں بہت سی پیچیدگیاں پیدا ہوسکتی ہیں۔ بے شک تصوف کی کتابوں میں اس سے بھی زیادہ محیرالعقول واقعات درج ہیں اور اہل اللہ کے نزدیک یہ کوئی مشکل کام بھی نہیں مگر ان تمام حقائق کے باوجود ایسے واقعات تحریر کرکے حضرت شاہ حبیب اللہ قادری اور حضرت سلطان باہو کے عارفانہ مقام میں اضافہ کیا جاسکتا ہے اور نہ اسلامی تصوف کی کوئی خدمت انجام دی جاسکتی ہے۔ ہوا میں پرواز کرنے والے بے شمار ہندو جوگی اور سنیاسی گزرے ہیں مگر ہمارے صوفیا نے ایسے تمام روحانی کمالات کی نفی کی ہے۔ غوث اعظم حضرت سیّدنا عبدالقادر جیلانی کا مشہور قول ہے۔ اگر کوئی شخص تمہیں ہوا میں بھی اُڑتا ہوا نظر آئے تو اس کی روحانیت کا اعتبار نہ کرنا جب تک اس کا ہر عمل شریعت اور سنت کے تابع نہ ہو۔ مختلف تذکرہ نگاروں نے تحریر کیا ہے کہ حضرت سلطان باہو شریعت و سنّت کا بہت لحاظ رکھتے تھے۔ ہمارے نزدیک یہی آپ کی روحانی عظمت کی پہلی اور آخری دلیل ہے۔ رہا کے خصوصی روحانی مشاہدات اور مکاشفات کا معاملہ، تو انہیں اس طرح بیان کرنا مناسب نہیں۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کا ایک برہمن کے لباس میں ظاہر ہونا اور ہندوئوں کے ماتھے پر تلک لگانے کا واقعہ خواہ کتنا ہی درست ہو، مگر یہ کتابوں میں تحریر کرنے اور مجلسوں میں بیان کرنے کی چیز نہیں۔ اسی بے احتیاطی اور خوش عقیدگی کے باعث پاک و ہند میں لکھی جانے والی کتابوں میں ایسے واقعات کا انبار جمع ہے جو اسلامی تصوف سے کسی طرح بھی میل نہیں کھاتے بلکہ اکثر واقعات پر طلسمی داستانوں کا گمان ہوتا ہے۔ فارسی کے مایہ ناز شاعر حافظ شیرازی کا ایک مشہور شعر ہے جس پر ہمارے دور کے بعض صوفیا سر دھنتے ہیں حافظا گر وصل خواہی صلح کن باخاص و عام با مسلماں اللہ اللہ، با برہمن رام رام اے حافظ اگر تو وصل کی خواہش رکھتا ہے تو ہر خاص و عام کے ساتھ صلح اور دوستی کا رویہ اختیار کر۔ صلح کا طریقہ یہ ہے کہ تو مسلمان کے ساتھ اللہ اللہ اور برہمن کے ساتھ رام رام پکار۔ ترجمہ یہاں حافظ شیرازی کے اس شعر پر کسی بحث کی گنجائش نہیں مگر اتنا ضروری ہے کہ ایک مسلمان کے ہونٹوں پر اللہ کے سوا کسی دوسرے معبود کا نام نہیں آسکتا۔ دیگر مذاہب کے ماننے والوں سے صلح کا طریقہ وہی ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود طے فرمایا ہے۔ تم دوسروں کے معبودوں کو برا مت کہو۔ یا پھر سورۃ الکافرون کی یہ آیتِ مقدسہ تم اپنے دین پر اور ہم اپنے دین پر۔ اللہ اور رام کو مخلوط کردینا، ایک خوفناک نظریۂ حیات ہے جس نے برصغیر پاک و ہند کے مسلمانوں کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ مشائخ کرام کی نظر میں حقیقی صوفی وہی ہے جو اللہ کی شریعت اور سرورِ کونین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنّت مبارکہ پر امکانی حد تک عمل کرے اور اگر کسی مقام پر کوتاہی عمل کا شکار ہوجائے تو خالق کائنات کے سامنے عاجزی کے ساتھ استغفار کرے جو اللہ کے تمام نبیوں اور رسولوں کی سنّت رہی ہے۔ ٭ ٭ ٭ الغرض حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کی ہدایت کے مطابق حضرت سلطان باہو اپنے ایک خادم سلطان حمید کے ساتھ دہلی کی جانب روانہ ہوگئے۔ سلطان حمید کا تعلق بھکر سے تھا جو بعد میں خلافت کے منصب پر فائز ہوئے۔ ابھی حضرت سلطان باہو راستے میں تھے کہ اچانک ایک مجذوب الحال شخص کسی طرف سے نمودار ہوا اور اس نے آتے ہی سلطان حمید کی پشت پر ایک لکڑی ماری۔ اگرچہ لکڑی کی ضرب معمولی تھی لیکن سلطان حمید بے ہوش ہوکر زمین پر گر پڑے۔ مجذوب نے دوبارہ اپنا ہاتھ بلند کیا۔ وہ سلطان حمید کے دوسری لکڑی مارنا چاہتا تھا کہ حضرت سلطان باہو تیزی سے آگے بڑھے اور مجذوب کا ہاتھ پکڑ لیا۔ مجذوب نے شرربار نظروں سے حضرت سلطان باہو کی طرف دیکھا اور نہایت پُرجلال لہجے میں کہا۔ راستے سے ہٹ جا اور ہمارے کام میں مداخلت نہ کر۔ حضرت سلطان باہو نے نرم لہجے میں فرمایا۔ اے صاحب ہم درویش اہل صحو ہیں اور ہمارا تعلق اہلسنّت و الجماعت سے ہے۔ جیسے ہی حضرت سلطان باہو کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے، مجذوب نے اپنا اٹھا ہوا ہاتھ نیچے کرلیا اور خاموشی کے ساتھ ایک طرف روانہ ہوگیا۔ مجذوب کے جانے کے بعد حضرت سلطان باہو نے سلطان حمید کی طرف دیکھا جو بدستور زمین پر بے ہوش پڑے تھے۔ حضرت سلطان باہو نے اپنے خادم خاص پر توجہ فرمائی۔ نتیجتاً کچھ دیر بعد سلطان حمید سکر کی حالت سے صحو کی طرف لوٹے اور مکمل طور پر ہوش میں آئے۔ حضرت سلطان باہو نے خوش ہوتے ہوئے فرمایا۔ حمید اگر ہم اس وقت مجذوب کی طرف متوجہ نہ ہوتے اور وہ دوسری لکڑی مار دیتا تو تمہاری پوری زندگی مستی کی حالت میں گزرتی، پھر ہم بھی کچھ نہیں کرسکتے تھے۔ ٭ ٭ ٭ جب حضرت سلطان باہو دہلی کے قریب پہنچے تو حضرت سیّد عبدالرحمن قادری کی مجلس درس آراستہ تھی۔ مریدین، خدام اور عقیدت مند صفیں باندھے دست بستہ بیٹھے تھے۔ شیخ کی زبان گوہربار سے اسرار و معانی کی بارش ہورہی تھی۔ حاضرین پر کیف و سرور کی عجیب کیفیت طاری تھی۔ یکایک حضرت سیّد عبدالرحمن قادری نے درس روک دیا اور اپنے ایک خادم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ فلاں راستے سے اس حلیے کا ایک درویش آرہا ہے، اسے عزت و احترام کے ساتھ ہماری خانقاہ میں لے آئو۔ حاضرین مجلس نے بڑی حیرت سے شیخ کی بات سنی۔ آخر وہ کون بزرگ ہیں جن کی میزبانی اس طرح کی جارہی ہے مجلس درس میں موجود ہر شخص کا اشتیاق بڑھتا جارہا تھا کہ حضرت سلطان باہو خانقاہ قادریہ میں داخل ہوئے۔ اہل نظر نے فوراً پہچان لیا کہ آنے والا کون تھا۔ حضرت سلطان باہو کے چہرئہ مبارک سے شان ولایت ظاہر تھی مگر جو صاحبان نظر نہیں تھے، انہوں نے آپ کو ایک روایتی درویش سمجھا۔ مناقب سلطانی کے بیان کے مطابق حضرت سلطان باہو نے حضرت سیّد عبدالرحمن قادری اور حاضرین مجلس کی خدمت میں سلام پیش کیا۔ حضرت شیخ جواب دیتے ہوئے اپنی نشست سے اٹھے اور حضرت سلطان باہو کا ہاتھ پکڑ کر خلوت میں لے گئے۔ حضرت سلطان باہو کی رسم بیعت کس طرح ادا ہوئی، اس کے بارے میں فاضل مصنف خاموش ہیں۔ مناقب سلطانی میں بس اتنا درج ہے۔ حضرت سلطان باہو نے ایک قدم میں اور ایک ہی دم میں اپنا ازلی نصیبہ پا لیا۔ ازلی نصیبے سے مصنف کی مراد انسانی تقدیر کا وہ حصہ ہے جو روزِاوّل لوح محفوظ میں تحریر کردیا گیا ہے۔ شیخ سلطان حامد کے بیان کے مطابق حضرت سیّد عبدالرحمن قادری نے حضرت سطان باہو کو چند لمحوں میں ان کا روحانی حصہ عطا کیا اور اسی وقت خانقاہ سے رخصت کردیا۔ وہ جمعے کا دن تھا۔ حضرت سیّد عبدالرحمن قادری سے فیضیاب ہونے کے بعد حضرت سلطان باہو دہلی کے بازاروں میں گشت کرنے لگے۔ مناقب سلطانی کی روایت کے مطابق حضرت سلطان باہو نے ہر خاص و عام پر توجہ کی نظر ڈالنی شروع کردی جس کے نتیجے میں مخلوق خدا بہت زیادہ متاثر ہونے لگی۔ شہر میں ہر طرف غل مچ گیا اور طالبانِ دید کا اس قدر ہجوم ہوا کہ راستے بند ہوگئے۔ پھر یہ خبر اُڑتے اُڑتے حضرت سیّد عبدالرحمن قادری کی خانقاہ تک بھی پہنچ گئی۔ چند خدام نے حضرت شیخ کے حضور میں عرض کیا۔ سیّدی آج کل شہر دہلی میں ایک درویش آیا ہوا ہے اور اس کے فیض روحانی کا چرچا عام ہے۔ حضرت سیّد عبدالرحمن قادری نے اپنے خدام کی بات سنی اور فرمایا۔ وہ درویش دہلی میں کس مقام پر سکونت پذیر ہے خدام نے عرض کیا۔ درویش کا کوئی مستقل مسکن نہیں۔ وہ دہلی کے بازاروں میں گھومتا رہتا ہے اور کھڑے کھڑے معرفت کی دولت لٹا دیتا ہے۔ حضرت سیّد عبدالرحمن قادری نے اپنے خدمت گاروں کو حکم دیتے ہوئے فرمایا۔ اس درویش سے جاکر دریافت کرو کہ وہ کون ہے، کہاں کا رہنے والا ہے، کس خاندان سے ہے اور کس سلسلے سے تعلق رکھتا ہے حضرت سیّد عبدالرحمن قادری کے خدمت گار پیر و مرشد کے حکم سے دہلی کے بازار میں پہنچے۔ وہاں درویش کے عقیدت مندوں کی بھیڑ جمع تھی اور اس تک پہنچنا ایک کارِ دشوار تھا۔ حضرت شیخ قادری کے خدام نے بڑی مشکل سے جگہ بنائی اور درویش تک پہنچنے میں کامیاب ہوگئے مگر جب ان کی نظر درویش کے چہرے پر پڑی تو وہ حیرت زدہ ہوگئے۔ درویش کی صورت دیکھتے ہی حضرت سیّد عبدالرحمن قادری کے خدام اُلٹے قدموں واپس آئے اور پیر و مرشد کی خدمت میں عرض کرنے لگے۔ سیّدی یہ تو وہی درویش ہے جسے آپ نے آج ہی اپنے حلقۂ بیعت میں شامل فرمایا تھا۔ اپنے خدمت گاروں کی زبانی یہ انکشاف سن کر حضرت سیّد عبدالرحمن قادری رنجیدئہ خاطر ہوگئے اور آپ کے چہرئہ مبارک سے اذیت و کرب کے آثار جھلکنے لگے۔ پھر آپ نے اپنے خدمت گاروں سے فرمایا۔ بڑا غضب ہوگیا۔ اس درویش کو فوراً میرے پاس لے کر آئو۔ پیر و مرشد کا دوسرا حکم سن کر خدام تیز رفتاری کے ساتھ بازار میں پہنچے اور حضرت سلطان باہو کو اپنے ہمراہ لے کر خانقاہ میں واپس آئے۔ تم نے یہ کیا کیا حضرت سلطان باہو کو دیکھتے ہی پیر و مرشد نے انتہائی ناخوشگوار لہجے میں فرمایا۔ سیّدی کیا خادم سے کوئی غلطی ہوگئی حضرت سلطان باہو نے بصداحترام عرض کیا۔ کیا ہم نے یہ نعمت خاص تمہیں اس لیے عطا کی تھی کہ تم اسے عام کردو حضرت سیّد عبدالرحمن قادری کے لہجے سے بدستور ناگواری کا رنگ جھلک رہا تھا۔ پیر و مرشد کے اس سوال کے جواب میں حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ سیّدی جب کوئی بوڑھی عورت روٹی پکانے کے لیے بازار سے توا خریدتی ہے تو اسے بجا کر دیکھ لیتی ہے کہ وہ کیسا کام دے گا۔ اسی طرح جب ایک لڑکا کمان خریدتا ہے تو اسے کھینچ کر دیکھ لیتا ہے کہ اس میں مطلوبہ لچک موجود ہے یا نہیں۔ سو مجھے بھی جو نعمت عظمیٰ آپ کی ذات گرامی سے حاصل ہوئی تھی، میں اسی کی آزمائش کررہا تھا۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ مجھے آپ سے کس قدر نعمت عطا ہوئی اور اس کی حقیقت کیا ہے مناقب سلطانی کی روایت کے مطابق حضرت سلطان باہو نے مزید فرمایا۔ آپ نے حکم دیا تھا کہ اسے آزمائو اور فیض کو عام کرو۔ اِن شا اللہ قیامت تک یہ نعمت ترقی پر ہوگی۔ یہ واقعہ رقم کرنے کے بعد شیخ سلطان حامد تحریر کرتے ہیں کہ حضرت سلطان باہو نے اسی وقت اپنے مرشد کامل سے تازہ نعمت اور بے اندازہ فیض حاصل کیا۔ ان تمام واقعات میں بعض جگہ بڑا ابہام اور تضاد پایا جاتا ہے۔ مثال کے طور پر مناقب سلطانی کے مصنف فرماتے ہیں۔ حضرت سلطان باہو نے مرشد کامل سے اپنا ازلی نصیبہ ایک قدم میں اور ایک ہی دم میں پا لیا، پھر اسی وقت آپ کو رخصت کردیا گیا اور وہ جمعے کا دن تھا۔ اگر ایک قدم اور ایک دم کے الفاظ محاورتاً استعمال کئے گئے ہیں تو ان کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت سلطان باہو نے بہت مختصر مدت میں حضرت سیّد عبدالرحمن قادری سے کسب فیض کیا تھا۔ دوسرے بزرگوں کے حوالے سے ایسی دوسری بہت سی مثالیں تاریخ تصوف میں موجود ہیں، اس لیے مناقب سلطانی کی روایت میں کوئی ظاہری سقم نظر نہیں آتا مگر جہاں تک روایت کے دوسرے حصے کا تعلق ہے، وہ کچھ عجیب سا ہے۔ یعنی حضرت سیّد عبدالرحمن قادری نے اسی وقت حضرت سلطان باہو کو رخصت کردیا، پھر بیعت سے شرف یاب کے بعد حضرت سلطان باہو بازار میں تشریف لائے اور پیر و مرشد سے حاصل کردہ روحانی دولت کو عوام پر لٹانے لگے۔ یہاں تک کہ پورے شہر میں شور مچ گیا اور یہ خبر حضرت سیّد عبدالرحمن قادری تک بھی پہنچ گئی۔ پھر حضرت شیخ نے صورت حال جاننے کے لیے اپنے خدمت گاروں کو بازار روانہ کیا۔ راستے بند ہونے کے باوجود خدام حضرت سلطان باہو تک پہنچے اور واپس آکر حضرت سیّد عبدالرحمن قادری کو اطلاع دی کہ یہ تو وہی درویش ہے جسے آج ہی آپ نے تلقین فرمائی تھی۔ واقعات کی کثرت بتا رہی ہے کہ یہ سارے کام چند گھنٹوں میں انجام نہیں پا سکتے۔ حضرت سلطان باہو کے فیض روحانی عام کرنے کی اطلاعات پیر و مرشد تک اس وقت پہنچی تھیں جب پورا شہر ان خبروں کی لپیٹ میں آگیا تھا۔ راستے بند ہوجانے اور دہلی کے کوچے کوچے میں دھوم مچ جانے کا مرحلہ چند گھنٹوں میں نہیں، چند مہینوں میں طے ہوا تھا۔ دراصل یہ سارے واقعات اپنی جگہ درست ہیں مگر ان کے درمیان کی کڑیاں غائب ہیں، اس لیے پڑھنے والوں کے ذہنوں میں ابہام پیدا ہوتا ہے۔ ابہام کے علاوہ ایک روایت میں تضاد بھی پایا جاتا ہے۔ وہ اس طرح کہ جب حضرت سیّد عبدالرحمن قادری نے اپنے خدام کے ذریعے حضرت سلطان باہو کو طلب کرکے دریافت کیا کہ اے درویش ہم نے تجھے نعمت خاص عطا کی اور تو نے عام کردی۔ تو جواب میں حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ مجھے آپ نے حکم دیا تھا کہ اسے آزمائو اور فیض کو عام کرو۔ اب اللہ ہی جانتا ہے کہ یہ کتابت کی غلطی ہے یا پھر مناقب سلطانی کے مؤلف سے ترجمے میں کوتاہی سرزد ہوئی ہے حضرت سلطان باہو کے سلسلے میں ہماری سب سے بڑی مجبوری یہ ہے کہ اتنے بڑے بزرگ پر تحقیقی کام بہت کم کیا گیا ہے۔ ہمیں جس قدر بھی حوالے ملتے ہیں، وہ سب کے سب مناقب سلطانی سے ماخوذ ہیں۔ پنجاب کے صوفی دانشور ایک قابل قدر تصنیف ہے مگر اس کے مصنف قاضی جاوید بھی مناقب سلطانی کے دائرے سے باہر نہیں آتے اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ حضرت سلطان باہو جیسی عظیم المرتبت صوفی پر کی جانے والی تحقیق صرف مناقب سلطانی تک محدود ہے۔ اس کتاب کے مؤلف شاہد القادری فرماتے ہیں۔ مناقب سلطانی کے مصنف حضرت شیخ سلطان حامد اپنے جدامجد حضرت شیخ سلطان باہو کے بعد غالباً اپنے خاندان میں پہلی علمی اور روحانی شخصیت ہیں جنہوں نے سلطان العارفین حضرت سلطان باہو کے حالات و واقعات اور آپ کی تعلیمات کو کتابی شکل میں جمع کرکے آئندہ نسلوں پر احسان فرمایا ہے۔ مناقب سلطانی حضرت سلطان باہو کے حالات زندگی پر پہلی کتاب ہونے کے ساتھ ساتھ انتہائی جامع، مستند اور وقیع ہے۔ آپ نے اس کتاب میں حتیٰ الامکان صحیح ترین حالات کو پوری تحقیق کے ساتھ منضبط فرمایا ہے اور بلاخوف تردید یہ کہا جاسکتا ہے کہ حضرت سلطان العارفین سلطان باہو کے حالات و واقعات پر قلم اٹھانے والا کوئی بھی مؤرخ اس کتاب کو نظرانداز کرنے کی جرأت نہیں کرسکتا۔ شاہد القادری کا یہ دعویٰ حرف بہ حرف درست ہے۔ مضمون لکھتے وقت خود میرے سامنے بھی کئی اہم کتابیں اور بہت سے مضامین موجود ہیں مگر کسی ایک کتاب یا تاریخی دستاویز میں کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مصنفین کے انداز و بیان ضرور مختلف ہیں مگر حالات و واقعات یکساں ہیں۔ کسی مصنف یا تذکرہ نگار نے کسی نئی تحقیق کا دعویٰ نہیں کیا ہے اور اس کی بنیادی وجہ یہی ہے کہ حضرت سلطان باہو کے حوالے سے ہمارے محققین کا سفر مناقب سلطانی کے پہلے ورق سے شروع ہوتا ہے اور آخری صفحے پر ختم ہوجاتا ہے۔ اس لیے تمام تذکرے اور تاریخیں یکسانیت کا شکار ہیں۔ مناقب سلطانی کے دیباچے میں آگے چل کر شاہد القادری فرماتے ہیں یہ کتاب آج سے تقریباً ڈیڑھ سو سال قبل فارسی زبان میں لکھی گئی تھی۔ اب تک صرف ایک ادارے نے اس کا اردو ترجمہ شائع کیا تھا جو نامکمل تھا اور اس میں تقریباً پچاس صفحات کا اردو ترجمہ غائب تھا۔ اب بحمداللہ تعالیٰ حضرت سلطان غلام جیلانی کے والد محترم حضرت شیخ محمد امیر سلطان کے زیرمطالعہ رہنے والے اصل فارسی نسخے کے مطابق حرف بہ حرف شائع کرنے کا شرف مکتبۂ سلطانیہ کو حاصل ہورہا ہے۔ میرے پیش نظر بھی یہی شائع شدہ نسخہ ہے جس میں قدم قدم پر کتابت کی غلطیاں موجود ہیں جس کی وجہ سے کہیں کہیں قاری الجھ جاتا ہے۔ چونکہ مناقب سلطانی کا ترجمہ فارسی سے کیا گیا ہے، اس لیے اردو ترجمے میں سلاست و روانی بھی مفقود ہے اور کہیں کہیں تسلسل کا بھی فقدان نظر آتا ہے۔ مناقب سلطانی کی تصنیف و تالیف کی مختصر تاریخ بیان کرنے کے بعد ہم اصل موضوع کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ ٭ ٭ ٭ مناقب سلطانی کے مصنف نے تو یہی تحریر کیا ہے کہ حضرت سلطان باہو نے ایک دم اور ایک قدم میں حضرت سیّد عبدالرحمن قادری سے فیض روحانی حاصل کیا اور پھر ایک ہی دن میں اس فیض روحانی کو عوام میں لٹا دیا اور اسی روز مغل شہنشاہ محی الدین اورنگزیب عالمگیر کو ہدایت فرمائی اور اسی روز کھڑے کھڑے اورنگزیب کی درخواست پر ایک کتاب اورنگزیب شاہی تحریر کرائی۔ اس کتاب کی تفصیلات آگے پیش کی جائیں گی۔ مناقب سلطانی کی روایت سے قطع نظر حالات و واقعات کی کثرت سے اندازہ ہوتا ہے کہ حضرت سلطان باہو نے کچھ عرصے تک دہلی میں قیام فرمایا تھا۔ اسی دوران یہ واقعہ پیش آگیا جس سے حضرت سلطان باہو کے تصرف روحانی کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ ایک دن سلطان العارفین حضرت سلطان باہو ایک کشادہ راستے پر لیٹے ہوئے تھے۔ اچانک اسی راہ سے ہندو سنیاسیوں کی ایک جماعت گزری۔ حضرت سلطان باہو کو راستے میں لیٹا ہوا دیکھ کر ہندو سنیاسی رک گئے۔ پھر ایک ہندو جوگی نے آپ کو ٹھوکر سے اٹھاتے ہوئے کہا۔ سو رہے ہو مردانِ حق سوتے میں بھی جاگتے ہیں۔ حضرت سلطان باہو نے لیٹے لیٹے فرمایا۔ تو پھر اٹھو اور ہمیں بتائو کہ یہ راستہ کس طرف جاتا ہے ہندو سنیاسیوں نے کہا۔ حضرت سلطان باہو نے اٹھتے ہی فرمایا۔ راستہ تو ایک ہی ہے لاالہ الا اللہ محمد الرسول اللہ۔ ہندو سنیاسی ضرب لاالہ الااللہ کو برداشت نہ کرسکے اور خوف و دہشت کے سبب زمین پر گر پڑے۔ میں نے تمہیں راستہ بتا دیا۔ حضرت سلطان باہو نے ہندو جوگیوں کی حالت دیکھتے ہوئے فرمایا۔ اب تم کس راستے پر جانا چاہتے ہو آپ نے جس راستے کی طرف اشارہ کیا ہے، اسی پر چلیں گے۔ ہندو سنیاسیوں نے لرزتے ہوئے لہجے میں کہا۔ حضرت سلطان باہو نے ہندو جوگیوں پر خصوصی توجہ فرمائی۔ بت پرستوں کے اس گروہ نے اسی وقت اپنے ماتھوں سے قشقے کے نشانات کھرچ ڈالے اور کافرانہ لباس اتار کر پھینک دیا۔ روایت ہے کہ حضرت سلطان باہو کی نظرکرم سے وہ تمام ہندو سنیاسی خدائے واحد پر ایمان لائے اور روحانی سفر اس طرح طے کیا کہ سب کے سب ابدال کے مرتبے پر فائز ہوئے۔ ٭ ٭ ٭ مرشد کامل حضرت سیّد عبدالرحمن قادری سے فیضیاب ہونے کے بعد حضرت سلطان باہو کے جذبات کی وارفتگی میں مزید اضافہ ہوگیا۔ آپ پر ہمہ وقت ایک اضطراب کی سی کیفیت طاری رہتی تھی۔ پھر یہی اضطراب روحانی حضرت سلطان باہو کو پہاڑوں، جنگلوں اور سنسان مقامات کی طرف لے جاتا تھا۔ مشائخ کرام کے مطابق سیر و سیاحت فقرا اور درویشوں کے اعلیٰ مقامات میں سے ہے۔ سیر و سیاحت کی فضیلت کے بارے میں حضرت امام غزالی اپنی شہرئہ آفاق تصانیف احیائے العلوم اور کیمیائے سعادت میں تحریر فرماتے ہیں۔ درویشوں کے لیے پہاڑوں، بیابانوں اور جنگلوں کی سیاحت اس لیے ضروری ہے کہ ہر درخت کے پتے پر اسرارِالٰہی میں سے ایک راز لکھا ہوتا ہے۔ درویش علم لدنی کے ذریعے ان رازوں کو سمجھتے ہیں۔ جاری ہے
null
null
null
null
450
https://www.urduzone.net/neeli-roshni-complete-urdu-story/
ملینا کو بہت عجیب لگ رہا تھا کہ وہ رات کے ساڑھے بارہ بجے ایک عادی چور کے ساتھ ایک نیم تاریک جگہ پر کھڑی تھی۔ اسے اس ملاقات کے لئے کافی تگ و دو کرنی پڑی تھی۔ اسے امید تھی کہ اسے اس شخص سے وہ معلومات حاصل ہوسکیں گی جن کے لئے اس نے دن رات ایک کر رکھا تھا۔ چاروں طرف خاموشی تھی۔ صرف ہوا کے ساتھ زمین پر لڑھکنے والے سوکھے پتوں کی سرسراہٹ تھی یا رات کو جاگ کر گزارنے والے حشرات الارض کی ہلکی ہلکی سی مختلف آوازیں جو وقفے وقفے سے سنائی دینے لگتی تھیں۔ فریڈی بتائو تمہارے پاس کیا معلومات ہیں تم نے جب فون کیا تھا تو کہا تھا کہ تم مجھے کچھ بتانا چاہتے ہو۔ ہاں مس ملینا میں تمہیں وارننگ دینا چاہتا ہوں کہ تم جو کچھ کر رہی ہو اسے بند کردو۔ وہ بولا۔ ملینا نے محسوس کیا کہ اس کی آواز میں کچھ گھبراہٹ اور تیزی ہے۔ یوں جیسے اپنی بات جلد ختم کرنا چاہتا ہو۔ وہ بولی۔ تمہارے مشورے کا شکریہ لیکن میں اس لئے یہاں آئی ہوں کہ تم مجھے کچھ معلومات دو گے۔ تم نے ایک بار مجھ پر جو احسان کیا تھا وہ مجھے اب تک یاد ہے۔ اس لئے میں چاہتا ہوں کہ تم میری بات پر عمل کرو بہتر یہی ہے کہ تم یہاں سے اپنا بوریا بسترا باندھو اور یہ جگہ چھوڑ دو۔ وہ اتنا کہہ کر آگے بڑھ گیا۔ ملینا اس کے پیچھے پیچھے تیز قدم اٹھاتی ہوئی بڑھی۔ سنو فریڈی، میری بات سنو تم میری مدد کرسکتے ہو میں وعدہ بات اس کے منہ میں ہی رہی اور تیز چلتے ہوئے فریڈی کا جسم جیسے سفید روشنی میں نہا گیا۔ کچھ ہلکی سی آوازیں سنائی دیں فریڈی کو ٹھوکر لگی۔ وہ دائیں بائیں لہرایا۔ اس کی جیکٹ پر دو بڑے بڑے گول نشان نظر آئے۔ پھر وہ جھٹکا کھا کر گرا۔ اس کی جیکٹ بھیگنے لگی۔ حالانکہ بارش نہیں ہو رہی تھی۔ ملینا ایک طرف ہٹ کر زمین پر گر پڑی وہ بالکل بے حس و حرکت ایک بڑے ڈسٹ بن کی اوٹ میں بیٹھ گئی۔ فریڈی کا جسم تڑپ رہا تھا۔ ایک وین کے پہیوں کی آواز اور روشنی قریب ہی محسوس ہو رہی تھی۔ اس کے شیشے سے پستول کی نال جھانک رہی تھی۔ اچانک کوئی شخص بالکل اس کے برابر آ کر زمین پر بیٹھ گیا۔ اسے کھینچ کر اس نے کوڑے دان کے دوسری طرف کرلیا۔ وین برابر سے گزر گئی۔ وہ دونوں دبکے ہوئے بیٹھے رہے۔ کافی دیر گزر گئی۔ وین دوبارہ واپس نہیں آئی۔ وہ شخص اس سے مخاطب ہوا۔ آئو ملینا چلتے ہیں اس سے پہلے کہ پھر کوئی تمہارے تعاقب میں چلا آئے۔ ملینا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ تم مجھے جانتے ہو یہ میں بعد میں بتائوں گا فی الحال تم چلو مقصد تمہاری حفاظت ہے۔ تم کون ہو میرا نام انتھونی ہے۔ تم یہاں کیا کر رہے ہو ملینا نے پوچھا۔ جو تم کر رہی ہو اس نے جواب دیا۔ کیا مطلب ہم دونوں کا مقصد ایک ہی ہے۔ یعنی ٹائین۔ وہ بھینچے ہوئے لبوں کے ساتھ بولا۔ ملینا نے قدرے حیرت سے اس کی طرف دیکھا۔ تمہیں کیسے معلوم ہوا۔ تمہارے اخبارات کے بارے میں انٹرنیٹ پہ سب کچھ موجود ہے۔ مجھے پتا ہے سب اور بہتر یہی ہے کہ تم ہوٹل سے اپنا سامان اٹھائو اب وہاں رہنا تمہارے لئے مناسب نہیں تم میرے ساتھ چلو۔ وہاں میں تمہارے باقی سوالات کا جواب دے دوں گا۔ اگر تم مجھے ٹائین کے بارے میں کوئی معلومات دے سکو تو پھر میں تمہارے ساتھ چلنے کے لئے تیار ہوں۔ تو چلو تمہارے پاس پانچ منٹ ہیں اپنا سامان اٹھانے کے لئے۔ وہ بولا۔ تم مجھ سے کیا چاہتے ہو مجھے اندازہ ہے کہ تم میرا پیچھا کر رہے تھے۔ اسی لئے تو تم عین موقعے پر وہاں پہنچ گئے۔ ملینا نے کہا۔ مجھے تمہاری فائل چاہئے۔ ملینا نے چونک کر اس کی طرف دیکھا۔ تم ہوش میں تو ہو۔ ہاں میں جانتا ہوں کہ تمہارے پاس پولیس سے بھی زیادہ معلومات ہیں۔ تم ایک عرصے سے ٹائین کے بارے میں تحقیق کر رہی ہو کچھ معلومات میرے پاس بھی ہیں جو مجھے اس تک لے جا سکتی ہیں۔ اچھا تو تم بھی رپورٹر ہو کس پرچے میں کام کرتے ہو نہیں میں رپورٹر نہیں ہوں نہ ہی صحافت سے میرا کوئی تعلق ہے۔ مجھے دلچسپی ہے تو صرف ٹائین سے ملینا نے غور سے اس کی طرف دیکھا۔ اس کے نقوش میں کرختگی تھی۔ اس نے شانوں تک لمبے بالوں کو ایک بینڈ میں باندھ کر پونی ٹیل سی بنا رکھی تھی۔ اس کے کان میں سونے کی ایک چھوٹی سی بالی تھی۔ میں تمہیں یہ کبھی بھی نہیں بتائوں گی کہ ٹائین کہاں ہے۔ یہ میری اسٹوری ہے۔ میں نے مہینوں اس پر محنت کی ہے۔ جب اس کو گرفتار کیا جائے گا تو میں وہیں ہوں گی۔ تم کیا سمجھ رہی ہو کہ وہ تم سے بے خبر ہے۔ آج کے حملے سے تمہیں پتا چل گیا ہوگا کہ وہ تمہارے کتنے قریب ہیں آج کے حملے میں نشانہ تم بھی تھیں۔ وہ اندر کمرے میں آ کر اپنی چیزیں اکٹھی کرتے ہوئے بولی۔ اگر تم میری فائلیں چرانے کا سوچ رہے ہو تو اس کا تمہیں کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ میں ایسی چیزیں محفوظ کرنے کے لئے کوڈ استعمال کرتی ہوں جو کسی کی سمجھ میں نہیں آسکتا۔ میرا ایسا کوئی ارادہ نہیں ہاں میں یہ ضرور چاہتا ہوں کہ ہم اپنے اپنے کارڈ ایک دوسرے کو دکھائیں تاکہ پتا چل سکے کہ ہم ایک دوسرے کا کس حد تک ساتھ دے سکتے ہیں۔ اگر تمہیں یہ منظور ہے تو ہم ایک جگہ چل کر کافی پیتے ہیں وہیں بات بھی ہو جائے گی۔ ملینا بیگ میں اپنی چیزیں رکھتے ہوئے کچھ دیر اس کی پیشکش پر غور کرتی رہی۔ پھر اس نے ہاتھ میں تھاما ہوا بیگ شانے پر ڈالا۔ انتھونی آگے بڑھا اور بولا۔ لائو میں اٹھا لیتا ہوں۔ نہیں شکریہ میں اپنا بوجھ اٹھانے کی عادی ہوں۔ وہ اس کے برابر سے گزرتی ہوئی باہر چلی آئی۔ انتھونی نے اپنی جیپ کی طرف اشارہ کیا۔ اپنا بیگ پچھلی سیٹ پر رکھ کر وہ اس کے برابر بیٹھ گئی۔ وہ کچھ ایسے راستوں سے جن سے وہ واقف نہیں تھی ہوتا ہوا ایک چھوٹے سے ریسٹورنٹ میں پہنچا۔ جہاں فرنیچر سستا اور صفائی کا معیار اچھا نہیں تھا۔ ویٹر کافی اور سینڈوچز رکھ کر چلا گیا تو ملینا نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ کسی گہری سوچ میں معلوم ہوتا تھا۔ ملینا نے چمچے سے پیالی کو بجا کر اسے متوجہ کیا۔ وہ مسکرایا تو اس کے چہرے کی سنگینی قدرے کم ہوگئی۔ ملینا نے اسے مخاطب کیا۔ ہاں کیا تم مجھے بتا سکتے ہو کہ تم ٹائین کے بارے میں کیا جانتے ہو۔ وہ دوائوں کے ایک گھنائونے کاروبار میں ملوث ہے۔ اس کا تعلق ایسے لوگوں سے بھی تھا جو مختلف تجربات کر کے غیرمعمولی بچے پیدا کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ اس نے ایک خانہ بدوش جوڑے سے معاہدہ کیا کچھ رقم کے عوض انہیں دوائیں استعمال کرائیں۔ وہ چاہتا تھا کہ خانہ بدوشوں کی مخصوص قوتیں ان بچوں میں منتقل ہو جائیں اور انہیں بڑھایا جائے۔ کیسی قوتیں ملینا نے سوال کیا۔ کسی کے دل کی بات جان لینے کی طاقت کسی کو اپنی مرضی کے مطابق کوئی فعل انجام دینے پر مجبور کردینا اور کچھ ایسی ہی پراسرار قوتیں پھر کیا ہوا اس خانہ بدوش عورت کے یہاں تین جڑواں بچے پیدا ہوئے دو لڑکیاں اور ایک لڑکا پھر نہ جانے کیا ہوا کہ ٹائین ایک روز اچانک آیا۔ وہ گرمیوں کی ایک رات تھی۔ اس عورت نے گرمیوں کا ہلکا لباس پہن رکھا تھا پتا نہیں کیا ہوا کہ وہ اس کو بری طرح سے مارنے لگا۔ اس کا لباس خون میں بھر گیا پھر اس نے اپنی جیکٹ اتاری اور اس کے گلے میں ڈال کر پورا زور لگایا۔ اس کا جسم ڈھیلا پڑ گیا۔ انتھونی نے سر جھکا لیا۔ اس کے چہرے پر بلا کا کرب تھا۔ پھر وہ آہ بھر کر بولا۔ یہ آج سے پچیس سال پہلے کی بات ہے۔ میں اس وقت چار سال کا تھا۔ میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا لیکن ٹائین کو اس کی خبر نہیں تھی۔ مگر تم وہاں کیا کر رہے تھے تم نے اتنی چھوٹی سی عمر میں قتل ہوتے ہوئے دیکھا۔ وہ میرا گھر تھا اور وہ خانہ بدوش عورت میری ماں تھی۔ اوہ خدایا میں سوچ بھی نہیں سکتی کہ تمہارے ساتھ ایسا ہوا اوہ یہ سب کتنا افسوسناک ہے انتھونی۔ ملینا نے رنجور ہو کر کہا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کے ساتھ کیسے اظہار ہمدردی کرے۔ میں اور میری دونوں جڑواں بہنیں یتیم خانے لے جائے گئے۔ مختلف لوگوں نے ہماری پرورش کی جیسے ہی میں نے ہوش سنبھالا میں اس شخص کی تلاش میں ہوں۔ اسے اپنے اس جرم کا حساب دینا ہوگا۔ میری ماں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا۔ اس نے ملینا کی طرف دیکھا اور بولا۔ اب تمہاری باری ہے ملینا تمہیں اس کے بارے میں جو کچھ معلوم ہے مجھے بتائو میں اس مردود کو تلاش کرنا چاہتا ہوں۔ ملینا نے چند لمحوں کے لئے سوچا پھر محتاط سے لہجے میں بولی۔ خفیہ ایجنسیوں نے اس کا ڈرگ سسٹم تقریباً ختم کردیا تھا۔ انہوں نے اس کی لیبارٹری پر بھی چھاپہ مارا تھا۔ ان کا خیال تھا کہ وہ اسے گرفتار کرنے میں کامیاب ہو جائیں گے لیکن وہ ان کے ہاتھ نہیں آیا۔ میں تم سے یہ پوچھ رہا ہوں کہ تم نے ذاتی طور پر اس کے بارے میں کیا معلومات اکٹھی کی ہیں۔ وہ اپنی بات پر زور دے کر بولا۔ میں اس بارے میں فی الحال کچھ نہیں بتا سکتی ہاں مجھے اس تک پہنچنے کا ایک راستہ معلوم ہے۔ اگر تم میرے ساتھ چلو تو ہم اس کو ڈھونڈنے میں کامیاب ہوسکتے ہیں۔ وہ کچھ دیر سوچتا رہا پھر بولا۔ تو گویا ہم اس میں حصہ دار بن سکتے ہیں۔ اگر تم پسند کرو تو۔ ملینا نے کہا۔ میں یہ پسند کیوں نہیں کروں گا۔ میں اس سے انتقام لینے کے لئے بے چین ہوں۔ وہ غصے میں ہونٹ بھینچ کر بولا۔ ملینا چونکی مگر تم قانون ہاتھ میں نہیں لو گے ہم پولیس سے رابطہ کریں گے اور یہ خبر میں بریک کروں گی۔ یہ بعد میں دیکھا جائے گا کہ حالات کیا رخ اختیار کرتے ہیں۔ اس نے گمبھیر سنجیدگی سے جواب دیا۔ ملینا نے مزید بحث کو کسی اور وقت کے لئے ملتوی کردیا اور چلنے کے لئے اٹھ کھڑی ہوئی۔ ٭ ٭ ٭ پہاڑی سلسلوں پر دن بھر کا سفر تھکا دینے والا تھا۔ وہ رات گئے ایک چھوٹے سے ہوٹل میں اترے کھانا کھا کر وہ اپنے اپنے کمرے کی طرف بڑھے تو انتھونی برآمدے میں رک گیا ملینا تم ابھی کسی کو فون نہیں کرو گی نہ اپنے آفس نہ خفیہ والوں کو۔ ملینا بھی ٹھہر گئی کیوں ابھی ہمیں کچھ وقت چاہئے کہ ہم ان کے مزید قریب پہنچ جائیں فون کرکے ہم اپنا سراغ انہیں خود دے دیں گے۔ وہ بولا۔ ٹھیک ہے۔ ملینا نے اثبات میں سر ہلایا۔ چاندنی میں لپٹی ہوئی رات میں اس کے کان میں پہنی ہوئی سونے کی چھوٹی سی بالی چمک رہی تھی۔ اس کی سیاہ آنکھوں میں کوئی عکس، کوئی ان کہی بات تھی۔ ملینا ان آنکھوں میں جھانکے بغیر دروازہ کھول کر کمرے میں چلی آئی۔ وہ جانتی تھی کہ ان کا یہ ساتھ اس وقت تک ہی ہے جب تک وہ ٹائین کو تلاش نہیں کر لیتے۔ اس لئے وہ خود کو کسی بھی خوش فہمی میں مبتلا نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ چاہتی تھی کہ جب وہ اپنا مقصد حاصل کرنے میں کامیاب ہوجائیں تو وہ بغیر کسی ملال کے، بغیر کسی پریشانی کے ایک دوسرے سے رخصت ہوجائیں۔ وہ اپنے لیپ ٹاپ میں اپنے ضروری نوٹس دیکھ رہی تھی کہ موبائل میں ارتعاش پیدا ہوا۔ ملینا نے اس کی روشن ہوتی ہوئی اسکرین پر نگاہ ڈالی۔ اس کے ایڈیٹر کا نام چمک رہا تھا۔ ملینا نے موبائل آن کیا۔ ہیلو ملینا تم کہاں ہو ہم تمہاری طرف سے فکرمند ہیں۔ ملینا نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ اگر وہ یہاں بات کرتی تھی تو ساتھ والے کمرے میں انتھونی تک آواز چلے جانے کا اندیشہ تھا۔ اس نے فون کرنے سے منع کیا تھا لیکن وہ یہ بھی چاہتی تھی کہ کم از کم ایڈیٹر کو اس کے بارے میں کچھ خبر ہو تاکہ ہنگامی حالت میں اس سے مدد کے لئے رابطہ قائم کیا جاسکے۔ وہ موبائل لے کر کمرے سے باہر نکلی۔ رات اور گہری ہو چکی تھی۔ باہر خاموشی تھی۔ وہ پارکنگ لاٹ میں آئی اور انتھونی کی جیپ کی اوٹ میں ہو کر اس نے مدھم لہجے میں کہا۔ میں ٹھیک ہوں جیمز میں اپنی اسٹوری کے منطقی انجام کی طرف بڑھ رہی ہوں جلد ہمارے پاس ایک بہت بڑی خبر بریک کرنے کے لئے ہوگی۔ بہت خوب لیکن تم یہ تو بتائو کہ تم کہاں ہو اور تمہارے ساتھ کون ہے میرے ساتھ انتھونی بات اس کے منہ میں ایک بڑے سے ہاتھ نے وہیں روک دی۔ ملینا نے بے ساختہ اپنی کہنیوں سے مزاحمت کرنا چاہی لیکن کسی نے اس کے دونوں بازوئوں کو عقب میں لے جا کر اتنی زور سے پکڑا کہ اس کے بازوئوں میں درد ہونے لگا۔ اس نے اپنے سر کو زور زور سے جھٹک کر خود کو آزاد کرانا چاہا لیکن وہ اپنے منہ سے اس کا ہاتھ ہٹانے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ اس نے اپنی آنکھ کے گوشے سے پیچھے دیکھنے کی کوشش کی۔ اسے اندازہ ہوا کہ وہ دو ہیں۔ ایک نے اس کا بازو پکڑ رکھا ہے اور دوسرے کا ہاتھ اس کے منہ پر ہے اور پستول کی نال اس کی کنپٹی سے لگی ہوئی ہے۔ اس کے موبائل سے ایڈیٹر کی آواز مسلسل آ رہی تھی۔ ملینا کیا تم واقعی وہیں ہو انہوں نے فون اس کے ہاتھ سے چھین لیا۔ پھر اسے پلاسٹک کے ٹوٹنے کی آواز سنائی دی۔ گویا اس کا فون توڑ دیا گیا تھا۔ ملینا نے اپنے پائوں کی ٹھوکروں سے خود کو آزاد کرانے کی کوشش کی مگر لاحاصل اس کے سر کے پچھلے حصے میں کسی نے زور سے ضرب لگائی۔ درد کی ایک شدید لہر نے اسے چکرا کر رکھ دیا۔ اس کی آنکھوں کے سامنے شرارے سے ناچنے لگے رفتہ رفتہ مکمل تاریکی چھا گئی۔ کسی کے زور زور سے جھنجھوڑنے سے وہ ہوشیار ہوئی۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ اس کی آنکھیں ٹھیک طور پر دیکھنے کے قابل نہیں ہوئی تھیں۔ اس کو جگانے والے شخص نے اسے بازو سے پکڑ کر یکلخت سیدھا کھڑا کردیا۔ ملینا کی ٹانگوں میں کھڑے ہونے کی سکت نہیں تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے دوران خون رکا ہوا ہے۔ وہ شخص اسے آگے دھکیلتا ہوا بولا۔ کوئی ہوشیاری دکھانے کی کوشش کی تو تمہارا انجام بھی ایک خبر بن جائے گا۔ اپنی بے بسی پر ملینا کی آنکھوں میں آنسو آ رہے تھے مگر وہ ان کو ضبط کرگئی۔ وہ ان دونوں مسٹنڈوں پر اپنی کسی کمزوری کو ظاہر نہیں کرنا چاہتی تھی۔ وہ چپ چاپ ان کے ساتھ چلنے پر مجبور تھی۔ اس کے ذہن میں کئی سوال ابھر رہے تھے۔ وہ کہاں تھی کیا انتھونی کو بھی یہ لوگ اسی طرح پکڑ کر لے آئے تھے اگر ایسا نہیں تھا تو انتھونی کہاں تھا وہ اسے بچانے کے لئے کیوں نہیں آیا تھا۔ وہ گرد و پیش کو بہت غور سے دیکھ رہی تھی، تاکہ تمام تفصیلات کو یاد رکھ سکے۔ مگر انہیں یاد رکھنا مشکل تھا۔ وہ جس راہداری سے گزرتے ہوئے آگے بڑھ رہے تھے، وہ بھول بھلیاں سی معلوم ہوتی تھی۔ وہاں ایک عجیب سی بو پھیلی ہوئی تھی۔ جس سے معلوم ہوتا تھا کہ یہاں کھڑکیاں یا روشن دان نہیں تھے۔ جہاں سے تازہ ہوا کا کوئی جھونکا ادھر آ سکتا۔ ایسا لگتا تھا جیسے یہ کسی غار کا اندرونی حصہ ہے۔ پھر وہ ایک برقی زینے کے ذریعے نیچے ہی نیچے اترتے گئے۔ یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہ زمین کے پاتال میں ہی پہنچ کر دم لیں گے۔ بالآخر وہ ایک ہال نما کمرے میں داخل ہوئے جو تیز روشنی میں نہایا ہوا تھا درمیان میں ایک بیضوی میز پڑی تھی۔ جس کے اردگرد چار اونچی پشت کی کرسیاں تھیں۔ ایک طرف مکمل کمپیوٹر سسٹم تھا۔ جس کی اسکرین ابھی تاریک پڑی تھی، درمیان والی کرسی پر کوئی بیٹھا تھا۔ ملینا کا دل تیزی سے دھڑک اٹھا۔ اسے یقین تھا کہ وہ شخص ٹائین ہی ہے جس کو تلاش کرنے میں اس نے ایک عرصہ لگایا تھا۔ وہ اس وقت اس سے چند قدموں کے فاصلے پر تھا لیکن وہ مجبور تھی۔ وہ اس نیوز کو بریک نہیں کرسکتی تھی۔ وہ اپنی اس اسٹوری کو مکمل کرنے کے قابل نہیں رہی تھی۔ اس نے سلیٹی رنگ کا بہترین سوٹ پہن رکھا تھا۔ اس کے ہلکے سلیٹی بال بڑے سلیقے سے جمے ہوئے تھے۔ وہ اپنے انداز نشست سے کسی بڑی کمپنی کا ذمہ دار افسر لگتا تھا۔ اسے دیکھ کر کوئی سوچ بھی نہیں سکتا تھا کہ وہ ایک بے رحم قاتل بھی ہوسکتا ہے۔ ملینا کو کچھ اندازہ نہیں تھا کہ اس کے ساتھ کیا سلوک ہونے والا ہے۔ وہ اپنے تنے ہوئے اعصاب کو معمول پر لانے کی کوشش کر رہی تھی کہ حالات کا مقابلہ کرسکے۔ ٹائین کے اشارے پر جو شخص اسے تھامے ہوئے تھا اس نے اسے ایک کرسی پر بٹھا دیا اور اس کے شانوں پر دبائو ڈالا تاکہ اسے یہاں سے اٹھنے کی جرأت نہ ہو۔ ٹائین نے براہ راست اس کی طرف دیکھا، اس کی نگاہوں میں ایک سرد کر دینے والی کیفیت تھی۔ جس سے خوف آتا تھا۔ لیکن ملینا نے خود کو اس کے زیر اثر نہیں آنے دیا اور جرأت کر کے پوچھا۔ تم لوگ مجھے یہاں کیوں لائے ہو فی الوقت تو تمہاری حیثیت ایک جال کی ہے۔ وہ گمبھیر آواز میں بولا۔ لیکن میں تمہاری سرگرمیوں سے اس وقت سے آگاہ ہوں، جب سے تم نے اپنی اس نام نہاد اسٹوری پر کام شروع کیا تھا تمہاری ہر حرکت کا ریکارڈ ہمارے پاس موجود ہے۔ تمہاری ہر کال ہمارے مانیٹر میں موجود ہے ہمیں اس کا بھی علم ہے کہ تم نے کب سے اس احمق انتھونی کے ساتھ مل کر ہمارے ٹھکانے کا سراغ لگانے کا ڈھونگ رچایا ہے تم جتنی بھی کوشش کرلیتے تم قیامت تک اس کوشش میں کامیاب نہیں ہوسکتے تھے۔ انتھونی ہر حال میں تمہیں تلاش کر لے گا۔ تم اس کی ماں کے قاتل ہو۔ یہ ضروری تھا۔ اس عورت نے ہمیں دھوکا دیا تھا۔ ہم نے یہ بچے اس لئے تخلیق کئے تھے کہ ان میں کچھ خصوصیات کو انتہا پر پہنچا سکیں۔ مگر اس عورت نے ہمارے ساتھ تعاون کرنے سے انکار کردیا۔ تب وہ اس انجام سے کیسے بچ سکتی تھی۔ ملینا کو محسوس ہو رہا تھا کہ اس قیمتی سوٹ کے اندر کوئی انسان نہیں وحشی درندہ تھا۔ جس کے نزدیک کسی انسانی جان کی کوئی اہمیت نہیں تھی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھا۔ چھوٹے چھوٹے قدم لیتا اس کی کرسی کے قریب آیا اور اس کے بالوں کی ایک لٹ کو اپنی چٹکی میں مسلتے ہوئے بولا۔ اب وہ تمہاری تلاش میں یہاں آئے گا۔ میرے لوگ اسے یہاں تک آنے کا کھلا راستہ دیں گے جب وہ ایک دفعہ یہاں آ جائے گا تو پھر اس پر ہمارا اختیار ہوگا۔ نہیں وہ نہیں آئے گا۔ اسے کیا پڑی ہے کہ میرے لئے اپنی جان خطرے میں ڈالے۔ ملینا ناپسندیدگی سے سر جھٹک کر بولی۔ یہ تمہیں ابھی پتا چل جائے گا۔ وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔ دروازہ کھلا اور دو گارڈ کسی کو گھسیٹتے ہوئے اندر داخل ہوئے۔ اس شخص کے کپڑے دھول میں اٹے ہوئے تھے۔ اس کے گردن تک لمبے بال اس کے چہرے کے گرد جھول رہے تھے۔ ملینا دھک سے رہ گئی۔ وہ اس کا چہرہ صاف طور پر تو نہیں دیکھ سکتی تھی لیکن اس حالت میں بھی وہ اسے پہچان سکتی تھی وہ انتھونی تھا چھوڑ دو اسے۔ ٹائین نے آرڈر دیا۔ گارڈ پیچھے ہٹ گئے۔ انتھونی گرتے گرتے بچا۔ یوں معلوم ہو رہا تھا جیسے اسے اپنے قدموں پر کھڑا ہونا مشکل ہو رہا ہو۔ اس نے اپنے چہرے سے بال جھٹکے تو ملینا اس کا زخمی چہرہ دیکھ کر کانپ گئی۔ اس کے منہ کے ایک گوشے سے خون کی ایک لکیر سی بہہ رہی تھی۔ اس کے رخسار پر ایک لمبا زخم تھا اس کی دائیں آنکھ سوج کر بند ہوچکی تھی۔ اس کے گرد ایک گہرا سیاہ حلقہ تھا۔ اس نے سر اٹھایا تو اس کی نگاہ ملینا پر پڑی۔ اس نے پوچھا۔ تم ٹھیک ہو ملینا اس کی حالت دیکھ کر اس قدر پریشان ہوچکی تھی کہ اس کے منہ سے کوئی لفظ نہیں نکلا۔ اس نے صرف اثبات میں سر ہلایا۔ انتھونی نے اپنے منہ سے بہتے ہوئے خون کو اپنے ہاتھ سے پونچھا اور ٹائین سے بولا۔ ملینا کو جانے دو میں یہاں آگیا ہوں تمہارا مقصد حاصل ہوگیا ہے۔ ٹائین ہنسا۔ تم اس پوزیشن میں نہیں ہو کہ اپنے مطالبات منوائو۔ پھر اس نے ایک گارڈ کو اشارہ کیا جس نے آگے بڑھ کر پستول ملینا کی کنپٹی سے لگا دیا اور بولا۔ اگر یہ کوئی حماقت کرے تو اس کو فوراً گولی مار دینا۔ ملینا غیرارادی طور پر پیچھے ہٹی۔ تم ہمیں زیادہ دیر قید نہیں رکھ سکتے پولیس تمہیں مس ملینا ٹائین نے اس کی بات کاٹ دی۔ ہم ہر اس محکمے کو کھلاتے پلاتے ہیں جس کی طرف سے کوئی خطرہ ہو سو پولیس یہاں نہیں آ سکتی ویسے میری ہی بنائی ہوئی یہ مخلوق نہیں چاہتی تھی کہ پولیس مجھے گرفتار کرے یہ مجھے خود قتل کرنا چاہتا تھا۔ وہ مذاق اڑاتے ہوئے بولا۔ ہم نے کہا اس بہادر نوجوان کو اس کا موقع ملنا چاہئے۔ انتھونی نے غصے سے دانت بھینچتے ہوئے سوجی ہوئی آنکھ سے اس کی طرف دیکھا۔ اگر تم اتنے ہی مہربان ہو تو مجھے اس کا موقع اپنے ان بندوں سے کہو کہ مجھے چھوڑ دیں۔ اب تمہیں چھوڑنے کے لئے یہاں نہیں لایا گیا تھا۔ اب ہمیں تم سے وہ کام لینا ہے۔ جس کے لئے تمہیں تخلیق کیا گیا تھا۔ اس وقت ہمارا نیٹ ورک اتنا مضبوط نہیں تھا کہ تمہیں اور تمہاری بہنوں کو ہم اپنے زیر تربیت رکھ سکتے مگر اب ہمارے پاس ایک ترقی یافتہ لیبارٹری ہے۔ ہم کامیاب تجربات کر رہے ہیں۔ کیسے کامیاب تجربات ملینا پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔ آئندہ میری بات نہ کاٹنا سمجھیں۔ گارڈ پستول کی نال کو ملینا کی کنپٹی کے ساتھ رگڑا تو وہ لرز گئی۔ وہ پھر انتھونی سے مخاطب ہوا۔ ہم نے تمہاری پرورش کی ہوتی تو تم میں تمہاری خانہ بندوش ماں کی صلاحیتیں پورے عروج پر ہوتیں تم مستقبل کو پہلے سے جان سکتے تھے مگر اب بھی تمہارے اندر وہ صلاحیتیں موجود ہیں ہم اگلی نسل جو پیدا کر رہے ہیں وہ ہر لحاظ سے بہترین صلاحیتوں کی حامل ہوگی پھر مستقبل میرا ہوگا کوئی مجھ سے زیادہ طاقتور نہیں ہوگا۔ تمہارے منصوبے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے۔ خاموش رہو اس نے ڈانٹ کر کہا۔ مجھے تمہاری بکواس نہیں سننا اب تم ہمارے اختیار میں ہو تم باپ بنو گے اور یہ صحافی وہی کام کرے گی جو تمہاری ماں نے کیا تھا۔ ہمارے پاس ایک اضافی صلاحیت یہ بھی ہوگی۔ ٭ ٭ ٭ اوہ خدایا ابھی اس نے کیا سنا تھا ملینا کو اپنی سماعت پر اعتبار نہیں آ رہا تھا جو کچھ ٹائین کہہ کر گیا تھا وہ اس کے رونگٹے کھڑے کردینے کے لئے کافی تھا۔ اس کی آنکھوں سے آنسو بہتے جا رہے تھے۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ آگے کیا ہوگا۔ اس کی ہمت، اس کی بہادری، اس کی جرأت جیسے کافور ہوگئی تھی۔ وہ خود کو بہت بے بس محسوس کر رہی تھی۔ ملینا اپنا نام سن کر چونکی انتھونی اس کے بہت قریب تھا۔ وہ اس کے آنسو صاف کر رہا تھا۔ اب کیا ہوگا انتھونی ملینا نے بے چارگی سے سوال کیا۔ کچھ نہیں ہوگا۔ وہ سر جھٹک کر مضبوط لہجے میں بولا۔ ہم نے ٹائین کو کیفر کردار تک پہنچانے کا عزم کیا تھا اور ہم اس کو پورا کرکے رہیں گے خواہ ہماری جان ہی کیوں نہ چلی جائے مگر ہم اس کے مکروہ ارادوں کو کبھی کامیاب نہیں ہونے دیں گے۔ مگر کیسے ملینا کو حوصلہ ہوا تھا۔ انتھونی نے چاروں طرف نگاہ دوڑائی تو اسے اندازہ ہوا کہ وہ کسی باقاعدہ کمرے میں نہیں تھے، بلکہ وہ ایک ترشی ہوئی چٹان تھی جسے کمرے کی شکل دی گئی تھی جہاں نہ کھڑکی تھی نہ روشندان۔ روشنی کے لئے ایک طاقچے میں مٹی کے تیل کی لالٹین رکھی ہوئی تھی۔ اسی چٹان میں سوراخ کر کے دروازے کے قبضے وہاں مضبوطی سے گاڑھے گئے تھے۔ دونوں گمبھیر خاموشی میں ڈوبے ہوئے چپ چاپ چاروں طرف دیکھ رہے تھے کہ اچانک انتھونی نے جھرجھری سی لی۔ اس کے لبوں سے بے ساختہ نکلا۔ اوہ وہ یہاں آنے میں کامیاب ہوگئے ہیں۔ اس کے ساتھ ہی ملینا کو یوں لگا جیسے کمرے میں کسی خوشبودار ہوا کا جھونکا داخل ہوا ہے جس میں خودرو جنگلی پھولوں کی ایک خوشگوار مہک تھی۔ لالٹین کا شعلہ بھی تھرتھرانے لگا تھا۔ تم کس کی بات کر رہے ہو انتھونی ملینا نے پوچھا۔ میری جڑواں بہنیں ڈینی اور میگی وہ دونوں اس بڑی چٹان کی چوٹی پر ہیں۔ تمہیں کیسے پتا ملینا کو حیرت ہوئی۔ میں انہیں اطلاع دے کر آیا تھا کہ میں ٹائین کی طرف جا رہا ہوں۔ وہ مجھے اپنی طاقت دے رہی ہیں وہ ہر لمحہ میری طاقت میں اضافہ کر رہی ہیں۔ کیا مطلب تمہیں یہ تو معلوم ہے نا کہ ہم خاص بچے ہیں۔ ہماری تخلیق میں ٹائین کے خاص تجربات شامل تھے۔ جس وقت ہم پیدا ہوئے ٹائین کے پاس جدید آلات نہیں تھے۔ اس لئے ہمارے بارے میں اسے معلوم نہ ہوسکا کہ ہم کن صلاحیتوں کے حامل ہیں۔ ہم تینوں جڑواں ایک برقی قوت کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطہ رکھ سکتے ہیں۔ دور کہیں زوردار دھماکہ ہوا انتھونی کے سارے جسم کو جیسے ایک جھٹکا سا لگا چٹانوں میں زلزلے کی سی لرزش محسوس ہونے لگی۔ انتھونی نے اِدھر اُدھر دیکھا۔ وہ بولا تو آواز اس کی اپنی آواز سے بہت مختلف تھی۔ میرا خیال ہے کہ مرکزی جنریٹر کے کیبل کو اڑا دیا گیا ہے۔ کمرے میں پھر ایک ہوا سی پھرنے لگی لالٹین کا شعلہ لرزنے لگا۔ ان دونوں کے دیوار پر پڑتے ہوئے سائے بھی لرزنے لگے۔ ملینا نے انتھونی کی آستین تھام لی۔ اس سارے ماحول سے اسے خوف آنے لگا تھا، لیکن دوسرے ہی لمحے اسے کرنٹ سا لگا۔ انتھونی کی آستین اس کے ہاتھ سے چھوٹ گئی۔ وہ گھبرا کر پیچھے ہٹی۔ ملینا گھبرائو نہیں حوصلہ رکھو ہم تینوں جڑواں برقی لہروں کے ذریعے ایک دوسرے سے رابطے میں ہیں۔ میری بہنیں میری مدد کے لئے یہاں پہنچ چکی ہیں۔ اس کے ساتھ ہی انتھونی نے اپنے جسم کو ایک جھٹکا دیا۔ روشنی کا جھماکا سا ہوا اور دروازے کے اسٹیل کے قبضے خودبخود ٹوٹ گئے۔ دروازہ جھول کر نیچے گرا۔ لالٹین کا بھڑکتا ہوا شعلہ یکبارگی بجھ گیا۔ ہر طرف تاریکی ہی تاریکی کا راج ہوگیا۔ ملینا کو انتھونی کی آواز سنائی دی۔ ابھی آزادی کا راستہ بہت دور ہے۔ ہمیں ابھی چلنا ہوگا۔ دونوں نے ایک دوسرے کا ہاتھ تھام لیا۔ انہیں بہت دور سے محافظوں کے پکارنے اور دوڑنے بھاگنے کی آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ کس طرف چلنا ہوگا انتھونی ملینا نے اندھیرے میں ٹامک ٹوئیاں مارتے ہوئے کہا۔ میں اپنی برقی لہروں سے کام لوں گا تم میرے ساتھ ساتھ رہو۔ وہ بولا۔ ملینا کا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ چاروں طرف کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔ وہ انتھونی کا سہارا لئے اندھیرے کی ان دبیز دیواروں کے درمیان بے سمت سفر کر رہی تھی لیکن اسے اپنے پیروں کے نیچے ڈھلوان محسوس ہو رہی تھی۔ گویا وہ غاروں کے اس جال میں نیچے کی جانب جا رہے تھے۔ وہ گھبرا رہی تھی کہ کہیں وہ تاریکی کی وجہ سے کچھ اور گہرائی میں نہ چلے جائیں۔ ٹھہرو آگے دروازہ ہے۔ انتھونی نے اسے روک لیا اور بولا۔ میں اس کا تالا کھولنے کی کوشش کرتا ہوں۔ تھوڑی کوشش کے بعد ملینا کو دروازہ کھلنے کی آواز سنائی دی۔ وہ انتھونی کے سہارے آہستہ آہستہ چار سیڑھیاں اتری۔ انہیں اندازہ ہو رہا تھا کہ ان کے پائوں کے نیچے سنگ مرمر کا فرش نہیں، قدرتی ناہموار زمین ہے۔ یہ کمرہ خالی معلوم ہوتا تھا، البتہ اس کے آخر میں ایک دروازہ تھا۔ انتھونی نے دروازے کو دھکیلا تو خلاف توقع وہ کھل گیا تھا۔ انہیں ہلکی ہلکی سی زرد روشنی پھیلی ہوئی محسوس ہوئی۔ یہ اطمینان کرکے کہ یہ کمرہ خالی ہے۔ وہ اندر داخل ہوئے۔ ملینا کی جان میں جان آئی۔ اتنی گہری تاریکی کے بعد یہ زرد روشنی کی سنہری سوغات غنیمت معلوم ہوئی تھی۔ انتھونی نے آگے بڑھ کر طاقچے میں رکھی ہوئی لالٹین اٹھا کر چاروں طرف گھمائی۔ ملینا پوچھے بغیر نہیں رہ سکی۔ انتھونی تم کیا دیکھ رہے ہو وہ اس پر لالٹین کی روشنی ڈالتے ہوئے بولا۔ فی الحال تو میں اس لڑکی کو دیکھ رہا ہوں، جس کے بارے میں مجھے اندیشہ ہے کہ کہیں مجھے اس سے محبت نہ ہو جائے۔ ملینا بھونچکی سی رہ گئی اسے اپنے کانوں پر اعتبار نہ آیا انتھونی ہنسا۔ یہ آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر کیا دیکھ رہی ہو ابھی تو صرف اندیشہ ہے۔ ملینا بھی ہنس پڑی۔ جب یقین آ جائے تو مجھے بتانا۔ ان کا اگلا راستہ بہت ڈھلوان تھا۔ دونوں کے قدم پھسلتے جا رہے تھے۔ ملینا کو یاد آ رہا تھا کہ یہ شاید وہی راستہ تھا جس کے ذریعے اسے یہاں تک لایا گیا تھا۔ سرنگوں اور پتھروں میں ترشے ہوئے چھوٹے چھوٹے زینوں پر مشتمل جن پہ بھول بھلیوں کا گمان ہوتا تھا۔ ملینا کے اندر خوف اب بھی حشرات الارض کی طرح رینگ رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ نہ جانے ٹائین کے لوگوں کو ان کے فرار ہونے کی خبر ہوگئی ہے یا نہیں کہیں وہ ان کے راستے میں تو گھات لگا کر نہیں بیٹھے ہوئے۔ لیکن انتھونی پراعتماد تھا۔ وہ سختی کے ساتھ اس کا بازو پکڑے ہوئے قدم آگے بڑھا رہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ آگے یہ زینے اس بلند چوٹی پر پہنچیں گے جہاں سے غاروں کی اس بھول بھلیوں کا آغاز ہوتا تھا۔ اچانک انہیں ایک نسوانی آواز سنائی دی۔ انتھونی تم اور کتنی دیر لگائو گے یوں لگتا تھا جیسے یہ گونجتی ہوئی آواز اس بھول بھلیوں میں چکر لگا رہی ہے۔ کبھی وہ تیز ہو جاتی اور کبھی سرگوشیوں میں بدل جاتی۔ انتھونی ٹھٹھک گیا۔ غور سے سننے لگا۔ پھر ایک اور نسوانی آواز نے پکارا۔ انتھونی ہماری بات کا جواب دو۔ انتھونی جیسے ایک دم ہوش میں آگیا۔ وہ جواباً پکارا۔ ڈینی، میگی ہم یہاں ہیں۔ ایک موڑ سے یکدم تیز روشنی چمکی۔ جیسے کوئی طاقتور فلیش لائٹ ہو۔ اس کے ساتھ ہی دوڑتے ہوئے قدموں کی صدا سنائی دی۔ انتھونی کیا یہ تمہاری بہنیں ہیں ملینا نے پوچھا۔ انتھونی نے ابھی جواب نہیں دیا تھا کہ دو لڑکیاں تیزی کے ساتھ اس موڑ پر نمودار ہوئیں۔ انتھونی پر نگاہ پڑتے ہی وہ آ کر اس سے لپٹ گئیں۔ دونوں کے انتھونی جیسے ہی سیاہ گھنے بال تھے۔ کم روشنی کے باوجود بھی ان تینوں کے نقوش کی مماثلت بڑی واضح تھی۔ انتھونی یہ تم نے اپنا کیا حال بنا رکھا ہے ڈینی نے اس کا رخسار چھوتے ہوئے کہا۔ اب تم دونوں آگئی ہو تو سب ٹھیک ہو جائے گا۔ وہ مسکرا کر بولا۔ تم لوگ ملینا سے ملو میں نے اس کے بارے میں تمہیں بتایا تو تھا۔ ان دونوں نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا اور گرمجوشی سے اس سے ہاتھ ملایا۔ میگی بولی۔ پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ ہم زیر زمین غاروں سے کافی اوپر آ چکے ہیں۔ ڈینی لائٹ لے کر آگے بڑھی اور ملینا کی طرف دیکھ کر شرارت سے بولی۔ تم مجھے بہت ہی خاص لگتی ہو کہ تم نے میرے بھائی کو ان غاروں میں آنے پر مجبور کردیا ہے۔ ملینا بھی مسکرا اٹھی۔ وہ تنگ راستے پر آگے بڑھ گئی جہاں ناہموار زمین پر ایک وقت میں ایک ہی انسان کے گزرنے کی جگہ تھی۔ کیا آگے راستہ محفوظ ہے انتھونی نے پوچھا۔ ہم کچی گولیاں نہیں کھیلے جناب ہم سارا انتظام کر کے آئے ہیں۔ میگی نے اپنے بیلٹ سے ایک چھوٹا علیحدہ کرتے ہوئے کہا۔ تمام علاقہ پولیس کے گھیرے میں ہے۔ وہ صرف اس انتظار میں ہیں کہ تمہیں بحفاظت باہر نکال لیا جائے۔ اس نے ریڈیو آن کیا اور بولی۔ وہ دونوں ہمارے ساتھ ہیں۔ انتھونی نے ملینا سے کہا۔ میگی کا شوہر پولیس کا ایک بڑا آفیسر ہے۔ چند قدم چل کر ہی وہ غار کے دہانے پر نکل آئے۔ تازہ ہوا خوشگوار تھی نیلے آسمان کو دیکھ کر ان کی جان میں جان آئی۔ تاریکی کے بعد آنکھوں کو سورج کی سنہری روشنی بھلی لگی۔ ان کے اردگرد گائوں کے چھوٹے چھوٹے سے گھر دور دور تک پھیلے ہوئے ماچس کی ڈبیوں کی طرح معلوم ہو رہے تھے۔ چٹانوں کے اوپر ہوا تیز معلوم ہوتی تھی۔ عقابوں کی تیز چیخ نما آوازیں ہوا میں تیرتی پھرتی تھیں۔ تقریباً ایک درجن سے کچھ زیادہ ہی پولیس کے اہلکار مخصوص وردیاں پہنے جدید ہتھیار سنبھالے ان کے برابر سے گزرتے ہوئے اندر جا رہے تھے۔ فضا میں ہیلی کاپٹر بھی منڈلا رہا تھا۔ اس کی آواز مسلسل سنائی دے رہی تھی۔ کئی گھنٹوں کے مسلسل شدید دبائو کے بعد یقین نہیں آتا تھا کہ وہ خوفناک لمحے گزر گئے تھے۔ ملینا نے گہرا سانس لے کر اپنے چاروں طرف دیکھا۔ انتھونی اور اس کی دونوں بہنوں کو ایک ساتھ کھڑے دیکھ کر اسے گہرے تحفظ کا احساس ہوا اس نے انتھونی کا بازو پکڑتے ہوئے خوشی کے لہجے میں کہا۔ یہ سب کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ ڈینی مسکرا کر بولی۔ اور مجھے تم دونوں کو ایک ساتھ دیکھ کر بہت اچھا لگ رہا ہے۔ اچانک ان کے برابر سے گزرتے ہوئے اہلکاروں میں سے ایک لپک کر آگے بڑھا۔ اس نے پلک جھپکتے میں ملینا کا بازو پکڑ کر اسے اپنی طرف کھینچ لیا۔ اگلے ہی لمحے پستول کی نال اس کی کنپٹی سے لگی تھی۔ ملینا کے ہونٹوں سے چیخ نکل گئی۔ اس نے غیرارادی طور پر گردن موڑ کر اس کی طرف دیکھا۔ اسے یوں لگا جیسے وہ خوفناک لمحہ پھر زندہ ہوگیا ہے۔ ٹائین اہلکاروں کی یونیفارم پہنے ٹوپی اپنے چہرے پر جھکائے ہوئے اس کے سامنے تھا۔ اس کی سرد کردینے والی نگاہیں ان سب پر گڑھی تھیں۔ ان کے اردگرد کچھ اور بھی اہلکار تھے۔ مگر اب یہ شناخت کرنا مشکل تھا کہ ان میں سے کون ٹائین کا ایجنٹ ہے اور کون نہیں۔ چھوڑ دو اس کو۔ انتھونی نے ایک قدم آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ ٹائین ملینا کا بازو مروڑ کر اس کے پیچھے لے گیا اور سنگین لہجے میں بولا۔ میرے راستے میں نہ آنا ورنہ میں اس کو شوٹ کردوں گا۔ انتھونی فوراً رک گیا۔ سینے پر ہاتھ باندھ کر وہ فیصلہ کن لہجے میں بولا۔ ٹائین سب کچھ ختم ہوچکا ہے تمہارے پاس اب کچھ نہیں رہا۔ پاگل کے بچے کچھ ختم نہیں ہوا۔ وہ غرایا۔ میگی اور ڈینی دونوں بڑھ کر انتھونی کے ساتھ کھڑی ہوگئیں۔ ڈینی نے درشت لہجے میں کہا۔ تم نے جن بچوں کو اپنے مکروہ ارادوں کی تکمیل کے لئے تخلیق کیا تھا وہی آج تمہارے راستے کی دیوار ہیں۔ تم بے بس ہو تم کچھ نہیں کرسکتے۔ میگی نے اسے للکارا۔ وہ ملینا کا بازو اس کی پشت کے پیچھے اس طرح لے گیا کہ وہ درد سے بے حال ہوگئی اور پستول میگی کی طرف سیدھا کرتے ہوئے بولا۔ مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ تم میں سے کسی کو بھی شوٹ کردوں۔ میں نے جس طرح تمہیں تخلیق کیا ہے میں تمہیں ختم بھی کرسکتا ہوں اپنا ریڈیو آن کرکے آفیسر سے کہو کہ مجھے محفوظ راستہ دے۔ تم ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ہم تمہارے کرتوتوں کے سامنے دیوار بنیں گے۔ انتھونی نے پورے یقین سے کہا۔ ملینا نے محسوس کیا کہ چاروں طرف ہوا کی ایک تیز لہر سی پیدا ہوئی۔ انتھونی کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔ اس کے سیاہ بال ہوا میں اڑ رہے تھے۔ اس کے کان میں پہنی ہوئی سونے کی بالی سورج کی روشنی میں چمک رہی تھی۔ یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے وہ تینوں ایک دوسرے سے طاقت حاصل کر رہے تھے۔ بہت ہوگئی ٹائین چلایا۔ اس نے پستول ملینا کی کنپٹی سے ایک بار پھر لگا دیا اور بولا۔ تمہارے پاس تین سیکنڈ ہیں میرے راستے سے ہٹ جائو ایک ملینا کو حیرت تھی کہ موت کو اتنا قریب دیکھ کر بھی اسے خوف نہیں آ رہا تھا۔ اس کی نگاہیں انتھونی پر تھیں اس کی آنکھیں اسے تقویت دے رہی تھیں جو نڈر اور بے خوف تھیں ٹائین گنتی گن رہا تھا۔ دو تین لفظ ابھی پوری طرح سے ادا نہیں ہوا تھا کہ ایک بڑا عقاب نہ جانے اچانک کہاں سے نمودار ہوا۔ وہ اتنی نیچی پرواز کر رہا تھا کہ اس کا پھیلا ہوا پر ٹائین کے چہرے پر بڑے زور سے لگا۔ وہ اس اچانک آفت سے لڑکھڑایا اور ملینا کے بازو پر اس کی گرفت ڈھیلی پڑگئی۔ اس کے ہاتھ میں موجود پستول چل گیا اور دھماکے کے اثر سے وہ چٹان کے بالکل کنارے پر پہنچ گیا۔ اس نے سنبھلنے کے لئے دونوں بازو ہوا میں لہرائے ایک نیلی روشنی کا جھماکا اس کے مکروہ چہرے پر یوں پڑا جیسے بجلی چمکتی ہے۔ اس نے چیخ کر بے ساختہ اپنی آنکھوں کو ڈھانپ لیا۔ پھر ہوا کی ایک اور لہر آئی جس میں ایک عجیب و غریب گونج تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے چٹانیں لرز رہی ہیں۔ ہوا اور گرد کا وہ بگولہ ٹائین کی طرف بڑھا اور اسے اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ گرد کے اس بگولے کا رنگ اچانک سیاہ ہوا اور یوں محسوس ہوا جیسے اس نے ٹائین کو نگل لیا ہو۔ اس کے قدم اکھڑ گئے۔ اس کی ایک بھیانک چیخ فضا میں بلند ہوئی اور نہ جانے کب وہ چٹان سے غائب ہوگیا۔ خوف سے کانپتے ہوئے ملینا نے اپنا چہرہ دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ لیا۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ اس کے اردگرد یہ سب کیا ہو رہا تھا۔ اس کا دل اتنے زور سے دھڑک رہا تھا کہ اس کی آواز اسے اپنے کانوں میں آتی ہوئی سنائی دے رہی تھی۔ پھر اس نے انتھونی کو خود سے بہت قریب محسوس کیا۔ اس کی آواز اسے سکون دے رہی تھی۔ اس کا خوف آہستہ آہستہ کافور ہوتا جا رہا تھا۔ ملینا ہوش میں آئو تم محفوظ ہو سب ٹھیک ہوگیا ہے۔ ملینا نے بے ساختہ اپنے ہاتھ اپنے چہرے سے ہٹائے وہ تینوں بہن بھائی اسے گھیرے کھڑے تھے۔ ان کے چہرے جیسے فتح کی خوشی میں چمک رہے تھے۔ یہ یہ سب کیا تھا انتھونی مسکرایا۔ یہ ہماری خانہ بدوش ماں کی طاقت تھی، جو اس نے ہم میں منتقل کی تھی لیکن وہ نہیں چاہتی تھی کہ ٹائین اسے کسی غلط مقصد کے لئے استعمال کرے۔ کیا واقعی ملینا کو یقین نہیں آ رہا تھا۔ تم نے اپنی آنکھوں سے سب کچھ نہیں دیکھا کیا ڈینی نے ہنس کرکہا۔ دیکھا تو ہے۔ وہ ہونقوں کی طرح بولی۔ لیکن مجھے یقین نہیں آ رہا کہ یہ سب کیسے ہوسکتا ہے۔ یہ اسی طرح ہوسکتا ہے جس طرح تم نے ہمارے پیارے بھائی کے دل میں گھر کر لیا ہے۔ میگی نے معنی خیز لہجے میں کہا۔ کیا واقعی مجھے تو یقین نہیں آ رہا۔ ملینا بے ساختہ کہہ گئی۔ وہ تینوں ایک ساتھ ہنس پڑے انتھونی نے اس کے کان کے قریب ایک مدھر سی سرگوشی کی۔ میرا دل تمہارے پاس ہے اس کا خاص خیال رکھنا۔ ختم شد
null
null
null
null
451
https://www.urduzone.net/rang-asmaa-complete-urdu-story/
ماسٹر شرما کے گیراج میں وہ سفید مرسیڈیز بڑی شان کے ساتھ داخل ہوئی تو انیل داس کی آنکھیں پھیل گئیں۔ وہ پل بھر کے لیے پلکیں جھپکانا بھول گیا۔ اس قسم کی کاریں اس کے گیراج میں مرمت کے لیے نہیں آتی تھیں۔ وہ بس اپنا جلوہ دکھا کر زن سے سامنے والی سڑک سے گزر جاتی تھیں۔ ان کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہوتی تھی۔ انیل داس اس وقت ایک کار کے نیچے گھسا ہوا تھا مگر جب سفید مرسیڈیز سے دو سفید سینڈل باہر نکلے تو اسے مرسیڈیز سے زیادہ اسے چلانے والی میں دلچسپی پیدا ہوگئی۔ وہ جلدی سے کار کے نیچے سے باہر نکلا اور اس بت طناز کی طرف منجمد نظروں سے اس طرح دیکھنے لگا جیسے جاگتے میں کوئی سندر سپنا دیکھ رہا ہو۔ اس حسین پیکر نے سفید لباس پہن رکھا تھا۔ اس کے سینڈل اور بالوں میں بندھا ہوا ربن بھی سفید تھا البتہ آنکھوں پر سیاہ چشمہ تھا اور ہونٹوں پر خون کی سرخی جیسی لالی تھی اور وہ شہد آگیں لگ رہی تھی۔ لڑکی نوجوان تھی۔ اپنی سبک خرامی کے انداز سے کوئی ماڈل لگتی تھی۔ ماسٹر شرما نے آنے والی اس کافر ادا کی طرف دیکھا اور فوراً ہی اس کی طرف بڑھتے ہوئے پوچھا۔ کیا ہوا ہے اس میں اس کا پک اَپ ٹھیک کام نہیں کررہا، کلچ بھی پریشان کررہا ہے۔ لڑکی نے جواب دیا۔ ماسٹر شرما نے لڑکی کی شکایت پر کوئی توجہ نہیں دی اور کار کا بونٹ اٹھا کر اس پر جھک گئے اور تفصیل سے اس کا جائزہ لینے لگے۔ پھر انہوں نے اس کے ایک دو تار چھیڑے اور اس کی طرف دیکھے بغیر بولے۔ اس کے سلنڈر میں خرابی ہوگئی ہے۔ آپ اسے گیراج میں چھوڑ دیں، اس کی خرابی دور کرنے میں سمے لگے گا۔ اوہ کیا کہا میرے لیے گاڑی چھوڑنا بہت مشکل ہوگا۔ اس ماہ پارہ نے ایسا منہ بنایا کہ اس کے چہرے کا جغرافیہ ہی بدل گیا۔ میرے سارے کام ٹھپ ہوکر رہ جائیں گے اوہ بھگوان پھر میں خریداری کیسے کروں گی میں شاپنگ کیے بغیر ایک گھنٹہ بھی نہیں رہ سکتی اور پھر دوستوں سے ملنے کیسے جائوں گی وہ ٹیلیفون کرکے میرا ناک میں دم کردیں گے جانے کے لیے سواری مل جائے گی۔ رکشہ، ٹیکسی اور بس سے بھی جایا جاسکتا ہے۔ ماسٹر شرما نے اس کے نخروں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ یہ کوئی مسئلہ تو ہے نہیں۔ لیکن اب کیسے جائوں گی۔ یہاں دور دور تک سواری دکھائی نہیں دے رہی۔ وہ تنک کر بولی۔ ریلوے اسٹیشن پیدل جانے سے رہی، میں بس میں سفر نہیں کرتی۔ آپ چنتا نہ کریں۔ میرا آدمی آپ کو ماسٹر نے اسے دلاسا دیا۔ پھر وہ انیل داس کی طرف گھوم گئے۔ انیل میری گاڑی لے جائو اور شریمتی جی کو ان کے بنگلے پر چھوڑ کر آجاؤ۔ انیل داس کی گویا دلی مراد بر آئی۔ خوشی سے اس کے دل کی رفتار تیز ہوتی چلی گئی۔ جس لڑکی کے خیالوں میں وہ ڈوبا ہوا تھا اور اس کے ساتھ بلندیوں میں پرواز کررہا تھا، وہ تصور بھی نہیں کرسکتا تھا ماسٹر شرما اسے اس بت کافر کے ساتھ جانے کا موقع عطا کردیں گے۔ انہوں نے اس پر بڑی دیا کی تھی اور اس احسان کا بدلہ شاید ہی وہ کبھی چکا سکے گا۔ پھر اسے خیال آیا کہ کہیں وہ سپنا تو نہیں دیکھ رہا۔ کیا سوچ رہے ہو ماسٹر شرما نے تیز لہجے میں پوچھا تو وہ چونک کر خیالوں کی دنیا سے نکل آیا۔ ماسٹر شرما نے انیل داس کی طرف گہری نظروں سے دیکھا۔ انہوں نے اس کے بشرے سے محسوس کرلیا تھا کہ وہ اس لڑکی کے حسن کا اسیر ہوکر تصورات کی دنیا میں بھٹکنے لگا ہے۔ انہوں نے غیر محسوس انداز میں اس کا شانہ ہلایا اور بولے۔ جلدی جا۔ واپس آکر مکرجی رانا داس کی گاڑی بھی دیکھنی ہے اور آج دن ڈوبنے سے پہلے انہیں پہنچانی بھی ہے۔ کام پر دھیان دے تیرا دماغ فلمیں دیکھ کر ٹھکانے نہیں رہتا ہے۔ آج کل تو بہت سپنے دیکھنے لگا ہے۔ یہ کام نہیں آتے ہیں۔ آسمان میں مت اڑا کر، نیچے دیکھ کر چلا کر تو کامیاب رہے گا ورنہ ٹھوکر لگے گی تو کبھی سنبھل نہ پائے گا۔ یہ جوانی دیوانی تیرا ستیاناس کردے گی۔ انیل داس جب بھی ماسٹر شرما کا لیکچر سنتا تو اس کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتا تھا۔ یہ ان کی عادت تھی۔ جب بھی وہ کسی حسین لڑکی کو ایک ٹک دیکھنے لگتا تو بگڑ جاتے۔ اس کے سامنے تو ایک خوشگوار ہوا کا جھونکا تھا۔ مست کردینے والی خوشبو تھی۔ جس نے اس کا دماغ معطر کردیا تھا۔ اس زلف بنگال نے اس پر جادو کردیا تھا۔ اسے ہوش کہاں تھا۔ انیل داس کی عمر تیس برس ہوچکی تھی۔ وہ ابھی کنوارا تھا۔ وہ بھی دوسرے نوجوانوں کی طرح راتوں رات دولت مند بننے کے سپنے دیکھتا تھا۔ اس کی بڑی تمنا تھی کہ دنیا بھر کی آسائشیں اس کی جھولی میں کسی پکے پھل کی طرح ٹپک پڑیں۔ وہ عملی جوان کبھی نہیں رہا تھا۔ سپنوں کے ذریعے سب کچھ حاصل کرلینا چاہتا تھا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ وہ کوئی اپنا سپنا نہیں پا سکا تھا۔ کبھی ایک کام کرتا اور کبھی اسے چھوڑ کر دوسرا کرنے لگتا۔ حالات اسے ماسٹر شرما کے گیراج میں لے آئے تھے۔ یہاں وہ بڑی محنت سے کام کررہا تھا لیکن سندر سپنوں کی دنیا سے تعلق نہ توڑ سکا تھا۔ اس کی زندگی کے دو سہانے سپنے تھے۔ بے پناہ دولت اور حسین لڑکیوں کی رفاقت لیکن اپنے ان دونوں مقاصد میں ناکام رہا تھا۔ مگر اب اس حسینہ کو دیکھ کر اسے ایسا محسوس ہورہا تھا جیسے اس کا ایک خواب پورا ہونے والا ہے۔ اس شہر میں ہر قوم و نسل کی لڑکیاں موجود تھیں جو بنگالی، آسامی، برمی، پرتگال اور چینی نسل سے تعلق رکھتی تھیں لیکن اس کی کمزوری بنگالی لڑکیاں تھیں۔ وہ بنگالی لڑکیوں میں ایک عجیب دلکشی، کشش اور انفرادیت محسوس کرتا تھا۔ ان کے لمبے چمکیلے کالے بال، بڑی بڑی جادو بھری آنکھیں، پھول جیسے رخسار، شہد آگیں لب، تیکھے نقوش جو اس کی آنکھوں میں جذب ہوکر من کے نہاں خانوں میں نقش ہوجاتے تھے۔ چھریرا اور متناسب بدن جس کے انگ انگ میں بجلیاں بھری ہوتی تھیں۔ وہ انہیں بنگالی ساحرہ کہتا تھا۔ یہ ساحرہ بھی اسے بنگالی لگی تھی۔ بنگالی لڑکیوں میں ایسی دودھیا رنگت آٹے میں نمک کے برابر ہوتی تھی۔ ان کی رنگت زیادہ تر سانولی، گندمی یا نکھری نکھری صندلی ہوتی تھی۔ ان میں ایسا نکھار ہوتا تھا کہ گوری رنگت بھی ماند پڑ جاتی تھی۔ یہ ساحرہ ماسٹر شرما کی پرانی گاڑی کی پچھلی نشست پر اپنا سراپا سمیٹ کر بیٹھ گئی۔ انیل داس نے اندر بیٹھ کر اسٹیئرنگ سنبھالا تو اسے لگا کہ گاڑی مہک رہی ہے۔ یہ مہک کسی سینٹ اور پرفیوم کی نہیں تھی بلکہ اس کے جسم کی تھی۔ گاڑی سبک رفتاری سے پتھر گڑھ کی طرف رواں دواں تھی۔ یہ پہاڑی علاقہ تھا اور جمشید نگر کے شمال میں واقع تھا۔ اس علاقے میں کوٹھیاں، بنگلے اور لگژری فلیٹ تھے۔ ماسٹر شرما نے اسے پتا بتا دیا تھا۔ جہاں اس ساحرہ کا بنگلہ تھا۔ انیل داس نے عقبی آئینے کو اس طرح سیٹ کیا تھا کہ وہ اس کی نظروں سے لمحے بھر کے لیے بھی اوجھل نہ ہوسکے۔ اس کی نظروں میں حسین چہرہ جذب ہوتا رہے۔ وہ بے پروائی سے کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی اور باہر کے مناظر سے لطف اندوز ہورہی تھی۔ اس نے ابھی تک انیل داس سے بات کی تھی اور نہ نگاہیں باہر سے ہٹا کر اسے دیکھا تھا۔ وہ خود ایسا سنسنی خیز اور دلکش نظارہ تھی کہ انیل داس نہیں چاہتا تھا کہ اس ساحرہ کا گھر آجائے۔ اس کا سفید بلائوز سلیولیس تھا۔ ساڑی کا پلو شانے سے پھسل کر اس کی گود میں گرجاتا تو اسے احساس ہی نہیں ہوتا۔ جب خیال آتا تو وہ اسے سینے پر پھیلا لیتی۔ انیل داس کے سینے میں جیسے سرد آہوں کا غبار بھر جاتا۔ وہ پھر سے اس منظر کی تمنا کرنے لگتا۔ کچھ دیر کے بعد وہ اسے راستے کے بارے میں بتانے لگی۔ انیل داس اس کی رہنمائی میں گاڑی کا رخ اس سمت پھیر دیتا۔ وہ ایک کے بعد ایک بڑے میدان سے گزر رہے تھے۔ یہ زمینیں مختلف لوگوں کی ملکیت تھیں۔ ان پر اب تک تعمیر شروع نہیں ہوئی تھی۔ ایک آدھ پلاٹ پر چھوٹا موٹا کمرا بنا ہوا تھا۔ پھر گاڑی ایک بہت بڑے اور خوبصورت بنگلے کے گیٹ پر رک گئی۔ انیل داس نے ہارن بجایا تو لڑکی نے اسے ٹوکتے ہوئے کہا۔ گاڑی اندر لے جانے کی ضرورت نہیں، میں خود چلی جائوں گی۔ انیل داس نے بنگلے کا ناقدانہ نظروں سے جائزہ لیا۔ وہ قدیم اور جدید فن تعمیر کا حسین امتزاج تھا۔ جب یہ بنا ہوگا تو یقیناً شاندار اور پُرشکوہ رہا ہوگا اور اس کی تعمیر پر پیسہ پانی کی طرح بہایا گیا ہوگا مگر اس سمے وہ کسی بوسیدہ اور ویران گھر کی طرح دکھائی دیتا تھا۔ لڑکی نے اپنے سفید چرمی پرس سے چابی نکال کر گیٹ کا بغلی دروازہ کھولا تو معاً اس کی نظر اندر کی طرف گئی۔ وسیع و عریض لان میں مالی گھاس کاٹتا نظر آیا۔ اس کے سوا اسے اور کوئی نظر نہ آیا۔ گیٹ پر چوکیدار بھی نہ تھا۔ یہ مکان میں اسے بہت اچھی طرح پہچانتا ہوں۔ اسے کئی فلموں میں دیکھ چکا ہوں۔ کولکتہ کی کئی فلموں کی شوٹنگ اس بنگلے میں ہوئی ہے۔ مجھے یاد آیا۔ انیل داس نے اپنے سر پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا۔ یہ تو کولکتہ کی فلمی دنیا کے مشہور و معروف ڈائریکٹر ستیہ کمار کا بنگلہ ہے۔ ہے نا لڑکی نے اس کی بات کا جواب نہیں دیا اور آگے بڑھنے لگی تو انیل نے جلدی سے کہا۔ یہ بنگلہ ستیہ کمار نے اپنی پتنی مشہور اداکارہ سمیتا مالا کے لیے تعمیر کرایا تھا اور یہ بنگلہ انہوں نے اسے شادی کے تحفے کے طور پر دیا تھا۔ ہاں تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ لڑکی نے جواب دیا اور برآمدے کی طرف بڑھی۔ سنیئے مس اگر میں غلطی پر نہیں ہوں تو آپ سمیتا مالا کی بیٹی ہیں اس نے سوال کیا۔ لڑکی دلکش انداز سے مسکرائی اور اسے ترچھی نظروں سے دیکھا۔ وہ بولا۔ تب ہی میری نگاہیں آپ کے چہرے سے ہٹ نہیں پا رہی تھیں۔ میں سارے راستے سوچتا رہا کہ یہ مانوس چہرہ کہاں دیکھا ہے۔ دراصل سمیتا مالا کا میں زبردست فین ہوں۔ میں آج بھی ان کا دیوانہ ہوں۔ لڑکی نے اپنا پرس کھولا اور اس میں سے سو روپے کا ایک نوٹ نکال کر انیل داس کی طرف بڑھا دیا۔ یہ آپ کیا کررہی ہیں انیل داس یکدم سے ہنستے ہوئے بولا۔ آپ میری توہین کررہی ہیں۔ یہ میرے لیے بڑے شرم کی بات ہے کہ میں اپنی محبوب اداکارہ کی بیٹی سے بھیک لوں ہرگز نہیں۔ انیل داس نے جس سمے اپنی محبوب اداکارہ کہا تو اس کے لہجے میں بڑا ادب اور احترام نمایاں تھا۔ تم میری ممی کی فلمیں بڑے شوق سے دیکھتے تھے۔ اس وقت تمہاری کیا عمر ہوگی لڑکی نے شوخ لہجے میں سوال کیا۔ یہی کوئی گیارہ، بارہ برس مگر میں نے آپ کی ممی اور آپ کے پاپا کی بنائی کوئی فلم نہیں چھوڑی۔ انیل داس مزید کچھ اور کہنا چاہ رہا تھا کہ لڑکی اندر چلی گئی اور اس نے گیٹ زور سے بند کردیا۔ اس کا صاف مطلب تھا کہ وہ اب مزید بات کرنا نہیں چاہتی تھی۔ ٭ ٭ ٭ ماسٹر شرما کے گیراج واپس پہنچ کر انیل داس نے سوالوں کی بوچھاڑ کردی۔ ماسٹر جی آپ نے مجھے اس لڑکی کے بارے میں کیوں نہیں بتایا۔ آپ جانتے تھے کہ وہ سمیتا مالا اور ستیہ کمار کی بیٹی ہے ماسٹر شرما نے غور سے انیل داس کا بشرہ دیکھا اور بولے۔ میرے نزدیک مرمت کے لیے آنے والی گاڑیوں کی زیادہ اہمیت ہے۔ میں گاڑیوں میں دلچسپی لیتا ہوں، انہیں سڑکوں پر دوڑانا نہ صرف میرا محبوب مشغلہ ہے بلکہ کاروبار بھی ہے یا پھر مجھے ان پیسوں سے دلچسپی ہے جو ان گاڑیوں کو ٹھیک کرانے کے عوض ملتے ہیں۔ میں گاڑی کے مالکان میں کبھی دلچسپی نہیں لیتا۔ اس خاندان سے آپ کی ملاقات کس طرح ہوئی تھی انیل داس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ ایک روز ستیہ کمار کو اپنی کار کا تیل بدلوانے کی ضرورت پڑ گئی تو وہ میرے گیراج پر چلے آئے۔ ماسٹر شرما نے جواب دیا۔ اس بے چارے نے اپنا تعارف کرایا اور اپنی اداکارہ بیوی کے بارے میں بتایا مگر میں چونکہ اس لائن سے کوئی دلچسپی نہیں رکھتا تھا، اس لیے اسے پہچان نہ سکا۔ اس پر ستیہ کمار بہت حیران ہوئے کہ ایک بنگالی فلم سے اس قدر بیگانہ انہیں اس بات پر تعجب تھا میں اس ملک کی سب سے حسین اور ساری دنیا میں دھوم مچانے والی ہیروئن کو نہیں جانتا۔ بنگال کا کون سا ایسا شخص تھا جو اس کا شیدائی نہ ہو۔ وہ جوان لڑکوں کے سپنوں کی رانی اور ان کے دلوں کی دھڑکن تھی۔ اس کے پوسٹرز کس دکان میں آویزاں نہیں تھے۔ مگر میں نے اس کی اس بات کو اپنی توہین نہیں سمجھا بس جب سے وہ سدا کا میرا گاہک بن گیا۔ اب اس کی کار میں جب بھی کوئی خرابی ہوتی ہے تو وہ میرے پاس لائی جاتی ہے۔ مگر اس بے چارے کے ساتھ کیا ہوا تھا ماسٹر انیل داس نے پوچھا۔ ستیہ کمار پولو کے بہت اچھے کھلاڑی تھے۔ اس کھیل کے جنون نے انہیں ٹانگوں سے معذور کردیا۔ پولو کھیلتے ہوئے وہ اپنے گھوڑے سے ایسے گرے کہ پھر انہیں پیروں پر چلنا نصیب نہیں ہوا۔ ان کی دونوں ٹانگیں مفلوج ہوگئیں۔ ماسٹر شرما نے توقف کرکے سرد آہ بھری۔ پھر گہری سانس لیتے ہوئے بولے۔ کل کا مشہور فلمساز اور ہدایتکار آج وہیل چیئر پر زندگی کے دن پورے کررہا ہے۔ ان کی ریڑھ کی ہڈی ٹوٹ گئی تھی۔ کئی برس تک ان کا علاج ہوا، وہ اسپتال جاتے رہے۔ اس دوران انہوں نے دو ایک فلمیں بھی بنائیں جو بدقسمتی سے فلاپ ہوگئیں۔ ناکامی نے جیسے ان کا در دیکھ لیا تھا۔ انہیں ہر جگہ ناکامی ملی اور اس کے نتیجے میں وہ بس گھر میں ہی گوشہ نشین ہوگئے۔ پھر ان کی پتنی کا کیا ہوا انیل داس نے سوال کیا۔ ستیہ کمار کے ساتھ ساتھ اس کا بھی زوال شروع ہوگیا۔ اس لیے کہ ان دونوں کا کیریئر ایک دوسرے سے وابستہ تھا۔ یہ ایک فطری امر تھا کہ ایک ناکام ہوا تو دوسرا بھی متاثر ہوگیا۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ وہ اپنے پتی کو چھوڑ کر کسی ابھرتے ہوئے ہیرو سے شادی کرلے گی۔ اس کے پرستاروں کی کوئی کمی نہ تھی۔ صنعتکار، سرمایہ دار اور فلمساز سبھی اسے اپنا جیون ساتھی بنانا چاہتے تھے۔ اس لیے کہ وہ نہایت حسین اور شعلہ جوالا تھی۔ اسے کئی فلمسازوں نے اپنی فلموں میں کام کرنے کی آفر کی۔ اس نے مسترد کردی۔ اس کی جگہ کوئی اور ہوتی تو وہ کسی کی جیون ساتھی بن جاتی۔ چونکہ ان کی محبت کی شادی تھی اس لیے ایک روایتی عورت کی طرح اس نے اس مصیبت میں ان کا ساتھ دیا۔ اس عورت کی جتنی تعریف کی جائے کم ہے۔ وہ بڑی عظیم عورت ہے۔ ماسٹر شرما ایک ہی سانس میں بہت کچھ بتا گئے۔ ماسٹر جب یہ سفید مرسیڈیز تیار ہوجائے تو اسے میرے ہاتھ بھجوانا۔ انیل داس نے پرجوش انداز میں کہا۔ اس گاڑی کو چھوڑنے میں خود جائوں گا۔ انیل داس تو اتنا جذباتی نہ بن، اپنے کام میں دل لگا کر مہارت پیدا کر۔ ماسٹر شرما نے تیز لہجے میں کہا اور اسے سمجھانے لگے۔ مگر اس کے تصور میں وہ پری گھوم رہی تھی۔ ان کا ایک لفظ اس نے نہیں سنا اور نہ ہی وہ سننا چاہتا تھا۔ ٭ ٭ ٭ انیل داس کو ایسا محسوس ہورہا تھا کہ اسے منزل پانے میں صدیاں درکار ہیں۔ اس کے سامنے جو راستہ تھا، وہ بڑا کٹھن اور ناہموار تھا۔ وہ سخت مضطرب تھا کہ اپنی محبوب اداکارہ سمیتا مالا سے اس کی ملاقات جتنا جلد ہوسکے، وہ اس کے دل کی بے قراری کو ختم کرسکتی تھی۔ اس کی دیرینہ آرزو پوری ہونے والی تھی، اس کا اسے وہم و گمان بھی نہ تھا۔ سفید مرسیڈیز تیار ہوگئی تو ماسٹر شرما نے انیل داس کو بلا کر کہا۔ چونکہ تو نے اس کا بنگلہ دیکھا ہوا ہے، اس لیے تجھے بھیج رہا ہوں ورنہ کسی اور کو بھیج دیتا۔ گاڑی پہنچا کر جتنا جلد ہوسکے واپس آجانا۔ مجھے ستیہ کمار کی پتنی سے شکایت کا موقع نہ ملے۔ ماسٹر آپ کسی بات کی چنتا نہ کریں۔ یوں گیا اور یوں آیا۔ اس نے چٹکی بجا کر کہا۔ دوسرے ہی لمحے وہ سفید مرسیڈیز لے کر ستیہ کمار کے گھر کی طرف جارہا تھا۔ راستہ وہی تھا سنسان اور پرسکون اس راستے سے وہ دو دن پہلے سمیتا مالا کی بیٹی کو لے کر گزرا تھا جس کا نام چاندنی تھا۔ جب وہ ماسٹر شرما کی گاڑی میں اسے گھر چھوڑ کر لوٹا تو اسے ایسا لگا جیسے وہ بہت کچھ کھو آیا ہو۔ وہ آج بھی یہاں سے گزرتے ہوئے ان زمینوں کا جائزہ لے رہا تھا جو پلاٹوں کی شکل میں ہر سمت پھیلی ہوئی تھیں۔ ان زمینوں پر کھدائی کا کام شروع تھا۔ اس سے اندازہ ہوتا تھا کہ تعمیراتی کام شروع ہونے والا ہے۔ پہاڑیاں اور ٹیلے صاف کئے جارہے تھے، زمین کو ہموار کیا جارہا تھا۔ اس کا خیال تھا کہ یہ علاقہ نہ صرف تیزی سے آباد ہوجائے گا بلکہ کولکتہ شہر سے کہیں مہنگا ہوجائے گا۔ پھر یہاں زمین، مکان اور فلیٹ حاصل کرنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوگا۔ کاش اس کے پاس رقم ہوتی تو وہ ایک فلیٹ کی بکنگ کرا لیتا۔ اسے یہ علاقہ بہت اچھا لگا تھا۔ اس علاقے کا اب تک کوئی نام نہیں تھا۔ وہ غیر معروف ہی تھا۔ اس نے سوچا کہ اس علاقے کا نام سمیتا مالا کے نام پر سمیتا نگر ہونا چاہیے۔ اس طرح اس بے مثال اداکارہ کو خراج تحسین پیش کیا جاسکتا تھا۔ اس نے جذباتی اندار میں سوچا۔ ویسے بھی سمیتا مالا کا گھر اس طویل و عریض علاقے کے قریب واقع تھا۔ اس عظیم اداکارہ کی حیثیت مغربی بنگال کے عظیم ورثے جیسی تھی جس پر جتنا ناز اور فخر کیا جائے کم تھا۔ ماضی میں اس اداکارہ کا کوئی ثانی نہیں تھا۔ اس کے حسن اور اداکاری کا کوئی جواب نہ تھا۔ اس کے پرستاروں کی کوئی کمی نہ تھی۔ ماسٹر شرما نے اسے کل ہی اس بات کا اشارہ دے دیا تھا کہ شام تک مرسیڈیز ٹھیک ہوجائے گی۔ اس لیے وہ آج خوب بن سنور کر آیا تھا۔ اس نے نئی پتلون پہنی جو دیوالی پر پہننے کے لیے خریدی تھی۔ پھر گیراج سے لوٹتے وقت بازار سے نئی سفید قمیض خریدی تھی۔ بالوں کو سلیقے سے سنوارا تھا اور کپڑوں پر پرفیوم کا اسپرے کیا تھا۔ گو وہ خوبصورت نہیں تھا لیکن وجیہ تھا اور دراز قد ہونے کے باعث لڑکیاں اس کی طرف متوجہ ہوجاتی تھیں۔ تھوڑی سی توجہ نے اس کے روپ پر سونے پر سہاگے کا کام کیا تھا۔ اس لباس اور وضع قطع میں اس کی شخصیت مزید جاذب نظر ہوگئی تھی۔ جب وہ مرسیڈیز میں سمیتا مالا کے ہاں جارہا تھا تو اس نے محسوس کیا تھا چاندنی کی خوشبو ابھی تک گاڑی میں بسی ہوئی ہے۔ اسے ایسا لگا کہ وہ اس کے برابر والی سیٹ پر براجمان ہے اور اس کا قرب اسے مسحور کررہا ہے۔ اس نے مرسیڈیز بنگلے کے گیٹ پر روک لی پھر اس نے اتر کے اطلاعی گھنٹی بجائی اور دروازہ کھلنے کا انتظار کرنے لگا۔ سفید سوتی ساڑی اور سفید بلائوز میں ملبوس ایک عورت نے دروازہ کھولا۔ بغیر سرخی کے گلابی لبوں پر ایک دل آویز تبسم اور آنکھوں میں شناسائی کی چمک تھی۔ وہ کوئی اور نہیں تھی انیل داس کی من پسند اور اس کی آئیڈیل اداکارہ سمیتا مالا تھی۔ اسے اپنی نظروں کے سامنے دیکھ کر اس کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ اس نے خود کو بڑی مشکل سے سنبھالا۔ وہ نمسکار کرنا بھول گیا۔ میں میں آپ کی کار انیل داس نے کہنا چاہا تو سانس آواز کا ساتھ نہ دے سکی۔ اچھا سمیتا مالا دلکش انداز سے مسکرائی۔ مجھے معلوم ہے تم گاڑی لے کر آئے ہو۔ ماسٹر شرما نے گیراج سے فون کرکے اطلاع دے دی تھی۔ میں انتظار کررہی تھی۔ اسے آپ چیک کرلیں۔ انیل داس نے بوکھلا کر کہا۔ اسے چیک کرنے کی کیا ضرورت ہے سمیتا مالا نے اپنی گھنیری پلکیں جھپکائیں تو انیل داس نے اپنا دل تھام لیا۔ سمیتا مالا کی یہ ادا فلم بینوں کو بے حد پسند تھی۔ پردئہ سیمیں پر جب وہ اس طرح پلکیں جھپکاتی تو دیکھنے والوں کے دلوں پر قیامت ٹوٹ پڑتی تھی۔ ایسی دلنواز مسکراہٹ بنگال کی کسی اداکارہ کی نہیں تھی۔ وہ جی ماسٹر شرما جی نے کہا تھا کہ آپ گاڑی چلا کر چیک کرلیں اگر اس میں کوئی خرابی ہوئی تو وہ ٹھیک کردی جائے گی۔ انیل داس نے دانستہ جھوٹ بولا۔ اچھا اگر ایسا ہے تو میں ابھی چیک کئے لیتی ہوں۔ سمیتا مالا نے سر ہلایا۔ پھر وہ باہر نکلیں۔ گاڑی میں بیٹھ کر انجن اسٹارٹ کیا۔ انہوں نے دو تین خالی پلاٹوں کے اطراف دو تین چکر لگائے۔ پھر وہ اسے کھلے گیٹ سے اندر لے گئیں۔ اس میں جانے کس چیز کی آواز آرہی ہے۔ سمیتا مالانے کہا۔ میں ابھی چیک کرتا ہوں، آپ چنتا نہ کریں۔ وہ بولا۔ انیل داس تو اس کے لیے تیار ہوکر آیا تھا۔ وہ اپنی محبوب اداکارہ کی رفاقت میں زیادہ سے زیادہ وقت گزارنا چاہتا تھا۔ اس نے اپنی قمیض کی جیب سے ایک تہہ کیا ہوا کاغذ نکالا اور اس پر نظر ڈالنے لگا۔ انیل داس قریب کھڑی ہوئی سمیتا مالا کو کن انکھیوں سے بھی دیکھتا جارہا تھا۔ پھر بولا۔ ماسٹر شرما جی نے کچھ باتیں لکھوائی تھیں، ان کے مطابق چیک کروں گا۔ یہ کہہ کر اس نے مرسیڈیز کا بونٹ اٹھایا۔ سمیتا کون ہے کس سے باتیں کررہی ہو تم ایک گرج دار مردانہ آواز سن کر انیل داس اچھل پڑا۔ کا آدمی ہے۔ گاڑی ٹھیک کرکے لایا ہے، اسے چیک کررہی ہوں۔ سمیتا مالا نے جواب دیا۔ انیل داس نے اس آواز کی سمت دیکھا۔ ایک سرخ سفید آدمی وہیل چیئر پر بیٹھا ادھر آتا دکھائی دیا۔ وہ وہیل چیئر کو خاصی تیزی سے چلا رہا تھا اور لگتا نہیں تھا کہ وہ کوئی معذور شخص ہے۔ وہ صحت مند اور توانا دکھائی دے رہا تھا۔ انیل داس نے اس کا جائزہ لیا۔ اس کے بال چاندی کی طرح سفید تھے اور اس کے چہرے پر بڑا رعب تھا اور لہجے میں نخوت تھی جو اسے ناگوار لگی تھی۔ اسے دیکھتے ہی انیل داس نے فوراً پہچان لیا۔ وہ ستیہ کمار تھا، سمیتا مالا کا پتی اور اپنے زمانے کا مشہور فلمساز اور ہدایتکار۔ انیل داس نے اسے دیکھتے ہی سر جھکا کر نمسکار کیا اور پھر بڑے ادب سے بولا۔ سر ماسٹر شرما جی کا حکم تھا کہ آپ کی مرسیڈیز چیک کروا کے واپس آئوں۔ ان کی ہر طرح سے تسلی ہوجائے۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر ستیہ کمار صاحب کے کام میں غلطی کی تو کان پکڑ کر گیراج سے نکال دوں گا۔ انیل داس کی معصومانہ باتیں اور اس کا مودبانہ انداز دیکھ کر ستیہ کمار مسکرانے لگے۔ ان کی آنکھوں سے شکوک و شبہات کی پرچھائیاں دور ہوگئیں۔ سمیتا مالا جانتی تھی کہ مرد کتنا شکی ہوتا ہے حسین جوان عورت کے معاملے میں جبکہ اس نے کتنا ایثار کیا تھا۔ وہ اس عمر میں بھی کسی جوان عورت کی طرح تھی۔ چھریرے متناسب بدن کے باعث کوئی نہیں کہہ سکتا تھا وہ بیالیس برس کی ہے۔ پتی کے معذور ہونے کے بعد وہ چاہتی تو کسی بھی دولت مند ہیرو کی طرف ہاتھ بڑھاتی تو وہ اس کا ہاتھ تھام لیتا لیکن اس نے پتی کی آنکھوں میں دھول جھونکی اور نہ خود کو میلا کیا۔ اس کے باوجود اس کا پتی جب کبھی کسی نوجوان سے اسے بات کرتے دیکھتا تو اس کی آنکھوں میں شکوک و شبہات جنم لینے لگتے۔ وہ اس کی فطرت سے واقف تھی لیکن اس نے کبھی احتجاج نہیں کیا تھا۔ وہ جیسے عادی ہوگئی تھی۔ ستیہ کمار نے اپنی وہیل چیئر آگے بڑھائی اور مرسیڈیز کا معائنہ کرنے لگا۔ پھر اس نے انیل داس کو اس کا انجن اسٹارٹ کرنے کے لیے کہا۔ تھوڑی دیر تک وہ انجن کی آواز سنتا رہا پھر مطمئن ہوکر سر ہلا دیا۔ سر میرے ہاتھ میلے ہوگئے ہیں، میں انہیں دھونا چاہتا ہوں۔ انیل داس نے ستیہ کمار سے جیسے درخواست کی۔ مگر میرے سرونٹ کوارٹرز تو بند ہیں۔ ستیہ کمار نے جواب دیا۔ سب ملازم چھٹی پر گئے ہوئے ہیں، صرف ایک مالی ہے وہ بھی دس بارہ روز میں چکر لگاتا ہے۔ تم ایسا کرو کہ اندر راہداری سے سیدھے چلے جائو، وہاں غسل خانہ ہے۔ اس نے اشارے سے سمجھایا۔ انیل داس اس کی ہدایت پر اندر چلا گیا۔ غسل خانہ پرانا اور جدید سہولتوں سے محروم تھا۔ اس میں لگے ہوئے نل سے مسلسل پانی ٹپک رہا تھا۔ انیل داس نے اس دوران پورے گھر کا جائزہ لے لیا۔ کسی زمانے میں یہ شاندار رہا ہوگا مگر اب اس کی حالت خاصی خستہ ہوچکی تھی۔ پورے گھر میں صرف وہ وسیع و عریض ہال تھا جو نہایت خوبصورتی سے آراستہ تھا۔ اس ہال کی دیواروں پر سمیتا مالا کی فلموں کی بڑی بڑی تصویریں آویزاں تھیں۔ ان میں جذباتی اور رقت آمیز مناظر والی تصویریں بھی تھیں۔ کئی تصویریں سمیتا مالا اور ستیہ کمار کے ساتھ تھیں۔ دونوں کے چہروں سے خوشیاں پھوٹ رہی تھیں۔ تصویریں خستہ ہوچکی تھیں اور ان کا رنگ زرد پڑ گیا تھا لیکن ان میں سمیتا مالا کا حسن آتش فشاں بنا ہوا تھا۔ ان تصویروں کے نیچے سنگ مرمر کے ایک اسٹینڈ پر وہ قومی ایوارڈ سجا ہوا تھا جو سمیتا مالا کو فلموں میں بے مثال اداکاری کرنے پر دیا گیا تھا۔ یکایک اس نے اپنی پشت پر آہٹ محسوس کی تو اس نے سرعت سے پلٹ کر دیکھا تو اسے کسی کی موجودگی کا احساس ہوا۔ سمیتا مالا کھڑی اسے حیرت سے تک رہی تھی۔ میں تمہیں تلاش کررہی تھی۔ میرا خیال صحیح نکلا کہ تم یہاں پہنچ گئے ہو گے۔ سمیتا مالا بولی۔ میں یہاں گھنٹوں کھڑی اپنے سنہری ماضی کو یاد کرتی رہتی ہوں مگر اب سوائے یادوں کے اور کچھ نہیں بچا۔ دل میں ایک عجیب سی کسک جنم لیتی ہے جب ماضی یاد آتا ہے۔ آپ نے ستیہ کمار کی ناکامیوں کے ساتھ خود کو فلمی دنیا سے الگ کیوں کیا اس نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ آپ ایک کامیاب ہیروئن تھیں۔ آپ کی کوئی فلم بھی ایسی نہ تھی جس میں کامیابی نے آپ کے چرن نہ چھوئے ہوں۔ پورے بنگال میں آپ کی پوجا کی جاتی تھی۔ آپ کی مقبولیت میں کوئی کمی آئی تھی اور نہ ہی فلمسازوں نے لینے سے انکار کیا تھا۔ ممبئی کی فلمی دنیا سے بھی آپ کو پیشکش ہوتی رہتی تھی۔ پھر آپ نے کنارہ کشی کیوں اختیار کی، یہ بات سمجھ سے بالاتر تھی۔ میں نے اپنے پتی کا ساتھ دیا تھا۔ سمیتا مالا نے جواب دیا۔ پہلے یہ پولو کھیلتے ہوئے گھوڑے سے گر کر معذور ہوئے اور اس کے بعد جب انہوں نے دوبارہ فلمسازی کا آغاز کیا تو ان کی فلمیں لگاتار ناکام ہوتی رہیں۔ ناکامی سے گھبرا کر انہوں نے گوشہ نشینی اختیار کی تو میں بھی حوصلہ ہار بیٹھی۔ آپ نے نہ صرف اپنے ساتھ بلکہ ہم جیسے پرستاروں کے ساتھ بڑی زیادتی کی ہے جبکہ آپ شہرت کے عروج پر تھیں، کنارہ کشی اختیار کرکے آپ نے دوسری غیر مقبول ہیروئنوں کو آگے بڑھنے کا سنہری موقع فراہم کردیا۔ ان میں ایک بھی آپ کے ہم پلہ ہیروئن نہ تھی۔ آپ کی عدم موجودگی نے جو خلا پیدا کیا، اس سے فائدہ اٹھا کر وہ راتوں رات شہرت کی بلندیوں پر پہنچ گئیں۔ سمیتا مالا نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ خاموشی اور قدرے حیرت سے انیل داس کو دیکھتی رہی۔ شاید اسے انیل داس کی سلجھی ہوئی شستہ گفتگو پر حیرت تھی۔ وہ اسے کیسے بتاتی اسے فلموں کی جو پیشکش پتی کے معذور ہونے کے بعد ہوتی رہی وہ مشروط تھی۔ فلمساز اس شرط پر اسے ہیروئن بنانا چاہتے تھے کہ ان کے ساتھ وقت گزارے۔ اس کے لیے وہ تیار نہ تھی۔ میں آپ کا بہت پرانا پرستار ہوں۔ انیل داس نے سر جھکا کر کہا۔ آپ میرے من کے مندر کی دیوی ہیں۔ میں نے آپ کی جب پہلی فلم دیکھی تب سے آپ کو چاہتا آیا ہوں۔ اس کی شدت میں آج بھی کمی نہیں آئی۔ آپ سے خاموش محبت کی ہے۔ آج اپنی دیوی کو اس حال میں دیکھ کر بہت صدمہ ہوا ہے۔ کیسا صدمہ کس حال میں دیکھ لیا ہے تم نے مجھے سمیتا مالا نے ناگواری سے پوچھا۔ آپ کے پاس ایک پرانے بنگلے کے سوا ہے کیا آپ کے گھر میں ملازم تک نہیں ہیں۔ آپ کے پتی نے مجھے بتایا کہ سب ملازم چھٹی پر گئے ہیں مگر میں آپ کو صاف گوئی سے بتانا چاہتا ہوں کہ انہیں جھوٹ بولنا بھی نہیں آتا۔ آپ کے پاس یہ پرانی مرسیڈیز گاڑی ہے جس کا انجن بیٹھنے والا ہے۔ آپ نے جو کچھ کمایا، وہ اپنے پتی پر لٹا دیا۔ انہوں نے آپ کی دولت سے فلمیں بنائیں جو بری طرح فلاپ ہوگئیں۔ میں بہت کچھ جانتا ہوں سمیتا مالا جی آپ سے محبت کی ہے تو آپ کی ایک ایک بات کی خبر بھی رکھی ہے۔ انیل داس کے لہجے میں تلخی بھر گئی۔ ایسی دل دہلانے والی باتیں مت کرو۔ سمیتا مالا گھبرا کر بولی۔ مجھے اندازہ ہے کہ آپ ایک شوہر پرست پتنی ہیں پتی ورتا ہیں۔ انیل داس نے کہا۔ ان حالات میں بھی ان کا ساتھ دے رہی ہیں لیکن اگر آپ ان کی جگہ معذور یا مفلوج ہوتیں تو آپ کے پتی کب کا آپ کو چھوڑ کر کسی اور کو اپنا لیتے۔ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے مردوں کی فطرت ہی ایسی ہوتی ہے۔ سمیتا مالا نے افسردگی سے کہا۔ مگر میں ایک مشرقی عورت ہوں اور پھر ایک جوان لڑکی کی ماں ہوں۔ میں ایسا کچھ نہیں کرسکتی جس سے میرے پتی، میری اور میری بیٹی کی رسوائی ہو۔ سمیتا جی آپ ایک ویران مقبرے میں رہ رہی ہیں۔ انیل داس نے تیز لہجے میں کہا۔ آپ کو اس مقبرے سے نکلنا ہوگا ورنہ یہ غیر محسوس انداز سے آپ کو نگل جائے گا۔ سمیتا مالا نے اسے بڑی حیرت سے دیکھا۔ کیونکہ وہ سخت جذباتی ہورہا تھا۔ پھر انہوں نے الجھ کر کہا۔ آخر تم چاہتے کیا ہو میں سمجھ نہیں پا رہی آپ اپنے پتی سے طلاق لے لیں تاکہ میں آپ سے بیاہ کرکے آپ کو سہارا دوں۔ کیا تم سٹھیا گئے ہو میری عمر دیکھ رہے ہو آپ بوڑھی نہیںہوئیں۔ اس عمر میں بھی نہ صرف حسین بلکہ کسی نوجوان عورت کی طرح ہیں۔ انیل داس نے اسے اوپر سے نیچے تک ناقدانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ تو آپ خودکشی کررہی ہیں۔ زندگی نہ صرف حسین بلکہ ایک بار ملتی ہے۔ میں جارہا ہوں۔ پھر آئوں گا۔ آپ اچھی طرح ایک حقیقت پسند عورت کی طرح سوچ لیں۔ میں آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا۔ انیل داس چلا تو گیا لیکن جاتے جاتے ایک الجھن میں مبتلا کرگیا۔ وہ اس دیوانے کی باتیں یاد کرکے سوچتی رہی۔ اسے اس کی باتوں میں سچائی نظر آئی۔ وہ حیران تھی کہ انیل داس نے ایک موٹر مکینک ہوتے ہوئے بھی اس ملاقات میں ہی کس جرأت سے اسے شادی کی پیشکش کی تھی۔ اس کے بعد کئی مرتبہ انیل داس کا فون آیا۔ سمیتا مالا کئی بار باہر اس سے ملی۔ وہ اس کے ساتھ مضافات کے ہوٹل میں بھی رہی۔ اب ان کے درمیان کوئی حجاب، دیوار اور فاصلہ نہیں رہا تھا۔ وہ ایک مہربان محبوبہ بن گئی تھی۔ سمیتا مالا جب بھی اس کے ساتھ کسی ہوٹل یا تفریحی مقامات پر جاتی تو اس بات کی کوشش کرتی تھی کہ لوگ اسے شناخت نہ کرسکیں۔ ویسے بھی اب کوئی اسے نہیں پہچانتا تھا کہ وہ ماضی کی اداکارہ تھی۔ آج کل جو ہیروئنیں فلموں میں آرہی تھیں، وہ ان کے سامنے ماند پڑ گئی تھی۔ اب اس کی تصویر چھپتی تھی اور نہ ہی کوئی اس کا نام لیتا تھا۔ انیل داس نے ایک دن اس سے پوچھا کہ ان کی گزر بسر کیسے ہوتی ہے سمیتا مالا نے اسے بتایا کہ ماضی میں جو کمایا، وہ اب بھی اتنا ہے کہ کئی برسوں تک گزر بسر ہوسکتی ہے۔ وہ اس بات پر حیران اور خوش تھا کہ سمیتا مالا اس کی طرف بے اختیار کھنچی چلی آرہی ہے۔ انیل داس اب گاڑی ٹھیک کرنے کے بہانے اس کے پاس باقاعدگی سے آنے لگا تھا۔ پرانی گاڑی تھی، اس لیے کوئی نہ کوئی نقص پیدا ہوجاتا تھا۔ جب وہ آتا تو ستیہ کمار اس پر نظر رکھتا تھا۔ وہ اسے مشتبہ نظروں سے دیکھتا تھا۔ اس دوران انیل داس نے پورے گھر کا بغور جائزہ لے لیا تھا۔ اس گھر میں ایک ڈھلان تھی جس کے اختتام پر ایک دیوار بنی ہوئی تھی۔ دیوار کا مقصد دوسری طرف موجود کھائی سے تحفظ فراہم کرنا تھا۔ اس نے متعدد مرتبہ اس ڈھلان جائزہ لیا تھا۔ وہ جگہ جگہ سے ٹوٹ پھوٹ چکی تھی۔ اگر ڈھلان سے کوئی چیز مثلاً کوئی وہیل چیئر اپنے سوار سمیت تیزی سے دیوار کی طرف آئے تو دیوار کو توڑتے ہوئے دوسری طرف کھائی میں گر جانا لازمی تھا۔ کاش ایسا ہوجائے۔ انیل داس نے سوچا۔ اس کے بعد اس کے راستے میں کوئی پتھر نہیں رہے گا۔ ستیہ کمار بھی انیل داس کے احساسات سے بے خبر نہ تھے۔ انہوں نے اس لڑکے کی دلچسپی اپنی پتنی میں محسوس کرلی تھی۔ وہ کوئی اندھے اور کم عقل نہ تھے صرف معذور تھے۔ اب وہ سمیتا مالا کو بھی دیکھتے تو محسوس کرتے کہ اس لڑکے کی آمدورفت کے بعد سے اس میں غیر محسوس انداز سے تبدیلی آنے لگی تھی۔ پہلے وہ میک اَپ نہیں کرتی تھی، اب ضرورت سے زیادہ بننے، سنورنے اور اس طرح رہنے لگی تھی جیسے شوٹنگ میں حصہ لینے جارہی ہو۔ جب انیل داس اطلاعی گھنٹی بجاتا تو وہ دروازہ کھولنے برقی سرعت سے جاتی تھی لیکن انہوں نے کبھی بھولے سے بھی اپنی پتنی سے بازپرس نہیں کی۔ شاید اس میں ان کی دور اندیشی اور مصلحت پوشیدہ تھی۔ ان کی ملاقاتیں اور تفریحات بڑھنے لگی تھیں۔ انیل داس کا دبائو بھی بڑھتا جارہا تھا۔ آخرکار سمیتا مالا نے وعدہ کرلیا کہ وہ موقع ملتے ہی طلاق کے سلسلے میں اپنے پتی سے بات کرے گی کیونکہ اب وہ میاں، بیوی ہوتے ہوئے بھی اجنبیوں کی طرح رہ رہے تھے۔ ایک روز سمیتا مالا نے انیل داس کو بتایا کہ ایک خوشخبری ہے۔ اس کے پتی نے خود ہی اس سے علیحدگی کے معاملے پر بات کی ہے کیونکہ وہ اپنی زندگی سے مایوس نظر آرہے ہیں۔ ہوسکتا ہے کہ وہ دو ایک دن میں تم سے خود بات کریں۔ یہ سن کر انیل داس کا دل دھک دھک کرنے لگا کیونکہ اسے ستیہ کمار کے سامنے جاتے ہوئے بڑی گھبراہٹ اور ایک انجانا خوف محسوس ہوتا تھا۔ یہ تو بڑا خطرناک اور سنگین معاملہ تھا۔ ایک روز سمیتا مالا نے انیل داس کو بتایا کہ اسے ستیہ کمار نے بلایا ہے تاکہ بات چیت کرسکے۔ میں ان سے کیا بات کروں گا انیل داس نے سراسیمگی سے کہا۔ اس ملاقات پر کیا تم موجود ہوگی ڈرو نہیں میں تمہارے ساتھ ہی ہوں گی۔ سمیتا مالا نے اس کی ہمت افزائی کی۔ اور پھر یہ سب تمہاری خواہش پر تو ہورہا ہے۔ دوسرے دن انیل داس خود پر قابو پا کر ستیہ کمار سے ملنے اس کے گھر پہنچا۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار آچکا تھا۔ آج اس کے قدم نہیں اٹھ رہے تھے۔ اس نے خود کو سنبھالا اور ستیہ کمار کے سامنے بیٹھ گیا۔ ستیہ کمار اپنی وہیل چیئر پر بیٹھا تھا۔ اس کے چہرے پر بڑی اداسی تھی اور وہ برسوں کا بیمار لگ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں کے گرد سیاہ حلقے پڑگئے تھے۔ مایوسی نے اس کی حالت ابتر کردی تھی۔ وہ اس وقت گیلری میں موجود تھا جہاں سمیتا مالا کی تصویریں دیواروں پر آویزاں تھیں۔ وہ بڑی حسرت سے اس کی تصویروں اور اس قومی ایوارڈ کو دیکھ رہا تھا جو سنگ مرمر کے پلیٹ فارم پر رکھا تھا۔ ستیہ کمار نے اپنی اور سمیتا مالا کی تصویروں پر بھی حسرت بھری نظر ڈالی۔ سمیتا مالا اس کے سامنے کھڑی تھی۔ اس کے انداز میں بے خوفی تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے اس نے اپنے پتی سے دوٹوک بات کرلی ہو۔ میری پتنی چاہتی ہے کہ میں اسے طلاق دے دوں۔ اس نے دلگرفتہ لہجے میں کہا۔ کیونکہ یہ تم سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ آخر تمہیں اس میں کیا اعتراض ہے سمیتا مالا کے لہجے میں رعونت تھی۔ میں ساری زندگی تم جیسے معذور آدمی کے ساتھ نہیں رہ سکتی۔ مجھے نہ تمہارے طلاق مانگنے پر اعتراض ہے اور نہ ہی اس سے شادی کرنے پر ستیہ کمار نے شکستہ لہجے میں کہا۔ میں خود تو تمہارے لیے فکرمند تھا کہ میرے مرنے کے بعد کیا ہوگا بینک میں جو رقم ہے، وہ زیادہ دن نہیں چل سکتی اس لیے میں چاہتا ہوں کہ اس نوجوان سے شادی کرکے گھر بسا لو۔ تمہاری اور اس کی شادی کی تقریب نہایت سادگی سے اس بنگلے میں انجام دی جائے گی جس میں چند قریبی لوگ شریک ہوں گے۔ پھر اس نے توقف کرکے انیل داس اور اپنی پتنی کے چہرے کا جائزہ لیا۔ ان دونوں کے چہرے سپاٹ تھے، ہر قسم کے جذبات سے عاری مگر میری ایک شرط ہے۔ ستیہ کمار نے کہا تو وہ دونوں چونک پڑے۔ کیسی شرط انیل داس نے پھنسی پھنسی آواز میں پوچھا۔ اس شہر میں جو قدیم اور سب سے بڑی انشورنس کمپنی ہے۔ اس کا چیئرمین میرے بچپن کا دوست ہے۔ انیل داس تمہیں اپنی زندگی کا بیمہ کرانا ہوگا تاکہ میرے بعد اگر تمہیں کچھ ہوگیا تو سمیتا کو تحفظ حاصل ہو اور اسے اتنی رقم مل جائے کہ اپنی زندگی آرام سے گزار سکے۔ تم انشورنس پالیسی میں سمیتا کو اپنی پتنی نہیں بلکہ اپنا وارث نامزد کرو گے۔ اس طرح کسی کو پتا بھی نہیں چلے گا اور سمیتا تمہاری وارث بن جائے گی۔ اتنا کہہ کر ستیہ کمار خاموش ہوگیا اور انیل داس کی طرف دیکھنے لگا جس کے چہرے پر الجھن کے تاثرات تھے۔ دیکھو انیل داس۔ میں نے تم سے کوئی دولت طلب کی ہے نہ ہی کوئی یقین دہانی چاہی ہے۔ مجھے سمیتا کا تحفظ چاہیے۔ ویسے بھگوان سے میری پرارتھنا ہے کہ تمہارا بال تک بیکا نہ ہو۔ میں نے صرف احتیاطاً یہ مطالبہ تمہارے سامنے رکھا ہے۔ تم سوچ لو اچھی طرح سے پھر اس نے مڑ کر سمیتا مالا سے کہا۔ کیا تم نے فہرست تیار کرلی ہے جو میں نے شادی کی تقریب کے سلسلے میں آج صبح دی تھی ہاں کرلی ہے۔ سمیتا مالا نے جواب دیا۔ اچھا ذرا میز کی دراز سے انشورنس کمپنی کے چیئرمین سبھاش دتہ کا کارڈ تو نکال دو۔ سمیتا مالا نے کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ یہ کارڈ ہے میرے دوست کا، تم ان سے مل لو بلکہ میں انہیں بلوا لیتا ہوں۔ وہ تمہاری دس لاکھ کی بیمہ پالیسی تیار کردیں گے۔ ستیہ کمار نے کہا۔ ویسے تم چاہو تو خود جاکر ان سے مل لو۔ اس نے کہا اور پھر یکایک اس کی آواز بھرا گئی۔ انیل داس کو یقین نہیں آیا کہ ناممکن، اتنی آسانی سے ممکن ہوجائے گا۔ وہ تو یہ سمجھ رہا تھا کہ ستیہ کمار دھمکیاں دے گا، اجرتی بدمعاشوں سے اس کی مرمت کروا کے اسے معذور اور اپاہج کردے گا۔ اس بات کا بھی امکان تھا کہ ان دونوں میں سے کسی ایک کو قتل کرا دے مگر خلاف توقع اس نے جلدی اور آسانی سے ہتھیار ڈال دیے تھے۔ ایک ہفتہ بعد اسی بنگلے میں سبھاش دتہ نے انیل داس کا دس لاکھ کا بیمہ کردیا۔ چونکہ وہ ایک صحت مند اور جواں سال شخص تھا، زیادہ عمر کا نہ تھا چونکہ سبھاش دتہ کا تعاون تھا اس لیے پالیسی لینے میں کوئی دقت پیش نہ آئی۔ اس کے بعد شادی کی تاریخ طے کردی گئی۔ انیل داس نے بنگلے میں ڈیرہ ڈال دیا۔ ہر روز نئے منصوبے بنتے۔ اس دوران انیل داس نے فائدہ اٹھانا چاہا تو وہ بگڑ کر بولی۔ دیکھو مجھے شادی سے پہلے یہ سلسلہ پسند نہیں۔ میں ابھی ستیہ کمار کی پتنی ہوں۔ پہلے وہ مجھے طلاق دے گا، اس کے بعد میں تم سے شادی کروں گی۔ پھر ہم ہنی مون منانے جائیں گے۔ شادی کے بعد میں تمہاری داسی بن کر رہوں گی۔ انیل داس روز اس ڈھلان کا جائزہ لیتا اور اس دیوار کو بھی دیکھتا جس کے دوسری طرف کھائی تھی۔ وہ چشم تصور میں ستیہ کمار کو اس کھائی میں گرتے دیکھتا تھا۔ اس کے لیے ایک دن ہی نہیں، ایک ایک لمحہ صدیوں سے زیادہ بھاری ہورہا تھا۔ اس نے دیوار کی اینٹیں نکال نکال کر پھر سے جما دیں۔ اب وہ صرف ایک ہلکے سے دھکے کی محتاج تھی۔ اب یہ بنگلہ میرا ہوگا میں اس کا مالک ہوں گا۔ انیل داس سوچتا رہتا۔ پھر میں اور سمیتا ایک جان دو قالب ہوں گے۔ جب اسے سمیتا مالا کی بیٹی چاندنی کا خیال آیا۔ اس نے چاندنی کے بارے میں دریافت کیا تو سمیتا مالا نے بتایا کہ وہ امریکا میں تعلیم حاصل کررہی ہے۔ اس کی شادی وہیں ہوگی کیونکہ وہ واپس آنا نہیں چاہتی۔ پھر ایک روز اس نے ستیہ کمار کو قتل کرنے کا منصوبہ بنا لیا۔ وہ رات کے وقت کلوروفارم اسے اور سمیتا کو سنگھا دے گا جب وہ سو رہے ہوں گے اور ستیہ کمار کو وہیل چیئرپر بٹھا کر دیوار کے پاس لے جاکر دھکیل دے گا۔ وہ کھائی کی نذر ہوجائے گا۔ اس قتل کا کوئی عینی گواہ ہوگا اور نہ سمیتا مالا کے علم میں آئے گا کہ یہ قتل اس نے کیا ہے۔ یوں بھی سمیتا مالا خوش ہوجائے گی کہ راستے کا پتھر ہٹ گیا۔ وہ بھی اپنے معذور شوہر سے متنفر تھی جو ان کے ملاپ میں راستے کا پتھر بنا ہوا تھا اور شادی کو مختلف بہانوں سے ٹال رہا تھا۔ ماسٹر شرما جی نے اسے اپنے گھر کسی کام سے بھیجا۔ اس کی بیٹی پائل چھٹی گزارنے کولکتہ سے آئی ہوئی تھی۔ وہ کولکتہ میں ہاسٹل میں رہتی تھی۔ وہ ماسٹر کررہی تھی۔ وہ سمیتا مالا کے عشق میں تقریباً اسے بھول گیا تھا۔ اس نے دو برس کے بعد پائل کو دیکھا تو اپنا دل تھام لیا۔ پائل اس سے بے تکلف ہوگئی۔ پھر اس نے فیصلہ کیا کہ ستیہ کمار کا پتا صاف کرنے کے بعد سمیتا کے ساتھ دو تین سال گزارنے کے بعد اسے بھی کھائی میں گرا دے گا کیونکہ پائل حسین تھی اور اس سے عمر میں چار برس چھوٹی بھی تھی۔ ماسٹر شرما، سمیتا مالا کی موت کے بعد اس کی شادی پائل سے خوشی خوشی کردیں گے۔ اس نے تین چار دن پائل کے ساتھ تفریحات میں گزارے اور پانچویں دن، رات کے دو بجے بنگلے میں داخل ہوا۔ راہداری میں اندھیرا تھا۔ جب وہ دیوار کے پاس سے گزرنے لگا تو سمیتا مالا نے اسے زور سے دھکا دیا۔ وہ اپنا توازن قائم نہ رکھ سکا اور دیوار کو توڑتا ہوا کھائی میں جاگرا۔ ٭ ٭ ٭ سمیتا مالا اور ستیہ کمار، سبھاش دتہ کا بے چینی سے انتظار کررہے تھے۔ کیونکہ انیل داس کی بیمہ پالیسی جو دس لاکھ کی تھی، اس کی دگنی رقم بیس لاکھ کا چیک سبھاش دتہ سے وصول کرنا تھا۔ اس رقم سے بنگلے کی مرمت اور رنگ و روغن کرنے کے بعد دیوار کی تعمیر بھی کرنا تھی۔ بقایا رقم میں دس بارہ برس بڑے آرام سے گزر سکتے ہیں۔ سمیتا مالا بولی۔ پتنی ہو تو ایسی۔ ستیہ کمار نے اسے محبت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔ فلم میں کام کرنے کے مقابلے میں حقیقی زندگی کے اسٹیج پر اداکاری کرنا کس قدر مشکل ہوتا ہے۔ تمہاری اس بے مثال اور لازوال اداکاری نے مستقبل بنا دیا۔ تمہاری جتنی تعریف کی جائے، کم ہے۔ مجھے انجانے راستے سے گزرنا پڑا۔ سمیتا مالا بولی۔ مجھے اس بات کا دکھ اور افسوس ہے۔ تم ملامت تو نہیں کرو گے اس کے سوا چارہ بھی تو نہیں تھا۔ ستیہ کمار نے کہا۔ ہورہی تھیں کہ سبھاش دتہ اندر آیا۔ رسمی باتوں کے بعد ستیہ کمار نے پوچھا۔ کیا سمیتا مالا کے نام چیک لے آئے ہو انیل داس نے اسے وارث نامزد کیا تھا۔ میں وہ چیک ماسٹر شرما جی کی بیٹی پائل کو دے کر آرہا ہوں۔ پائل کو کیوں ستیہ کمار بھونچکا رہ گیا۔ اس لیے کہ موت کی بھینٹ چڑھنے سے دو دن پہلے وہ دفتر آیا اور اس نے کہا کہ بیمہ پالیسی میں وارث پائل کو نامزد کررہا ہے۔ اس نے جو فارم پُر کیا، کیا تم دیکھنا چاہو گے ختم شد
null
null
null
null
452
https://www.urduzone.net/musavvir-episode-1/
پریشانی اور مصیبت میں بری طرح گرفتار نینا آرٹ گیلری پہنچی تو وہ گھنٹہ بھر لیٹ تھی۔ منیجر اس سے زیادہ پریشانی کا شکار تھا۔ اس نے نینا کو دیکھتے ہی کہا۔ سب کچھ غلط ہورہا ہے نینا سب کچھ غلط کوئی کام بھی پوری طرح ٹھیک نہیں ہے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا، آپ فکر نہ کریں۔ نینا نے اپنا کوٹ اتار کر الماری میں پھینکا اور جلدی سے بولی۔ مسٹر ایرچ کب پہنچ رہے ہیں ایک بجے تم سوچ سکتی ہو کہ تین پینٹنگز ابھی پانچ منٹ پہلے پہنچی ہیں۔ نینا جانتی تھی کہ منیجر ایسے موقعوں پر عموماً آدھا پاگل ہوجاتا ہے اسی لئے اس نے تشفی آمیز لہجے میں کہا۔ آپ ذرا خود کو نارمل کریں، تب تک میں سارا کام نمٹا دوں گی۔ کچھ دیر کی بھاگ دوڑ کے بعد نینا ساری تصویریں مناسب جگہوں پر لٹکا چکی تھی۔ منیجر کی بھی جان میں جان آئی۔ وہ گہرا سانس لے کر بولا۔ نینا مجھے پوری امید تھی کہ جب تم آجائو گی تو سارا کام سنبھال لو گی۔ یہ سارا ہنگامہ ایک نئے آرٹسٹ ایرچ کروگر کی وجہ سے ہورہا تھا۔ جو آیا اور چھا گیا تھا۔ اس کی تصویروں کی پہلی نمائش نے ہی میلہ لوٹ لیا تھا۔ گیلری کے لئے بھی وہ نفع بخش ثابت ہوا تھا۔ اس کے پرستاروں کے اصرار پر آج آرٹسٹ کو گیلری میں مدعو کیا گیا تھا۔ منیجر چاہتا تھا کہ اس کے آنے سے پہلے تمام تیاری مکمل ہوجائے۔ ایرچ ایک پیدائشی آرٹسٹ تھا ورنہ اس کا خاندانی پس منظر اس سے کوئی خاص مطابقت نہیں رکھتا تھا۔ وہ ایک دوردراز علاقے میں اپنے فارم ہائوس میں رہتا تھا جو پانچ نسلوں سے آباد تھا۔ ان کا خاندانی پیشہ بہترین مویشی پالنا تھا جو ہمیشہ انعامات حاصل کرتے تھے۔ دو سال پہلے ایک آرٹ ڈیلر نے اسے دریافت کیا تھا۔ اس کی تصویروں کی چار نمائشیں ہوچکی تھیں۔ اس کا کام اور اس کی شخصیت دونوں ہی بہت پرکشش تھیں۔ کسی بھی خاتون کا اسے نظرانداز کرنا ناممکنات میں سے تھا۔ اس کی عمر تیس سال تھی اور وہ ابھی تک غیر شادی شدہ تھا۔ نینا نے اخباروں میں اس کی تصویریں دیکھی تھیں۔ آج اس سے پہلی مرتبہ اس کی ملاقات ہونے والی تھی لیکن وہ اس ساری تقریب کے حوالے سے اتنی مصروف تھی کہ اسے ایرچ کے بارے میں سوچنے کی فرصت ہی نہیں ملی تھی۔ منیجر مطمئن ہوکر اپنی سیٹ پر براجمان ہوچکا تھا۔ نینا سب سے خوبصورت تصویر کو اس شوکیس میں لگانا چاہتی تھی جو باہر سے گزرنے والوں کی نگاہ میں آتا تھا۔ اگر تصویر واقعی پرکشش ہوتی تو اکثر لوگ اسے رک کر دیکھتے تھے اور پھر دروازہ کھول کر اندر آنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ نینا نے ایک تصویر کا انتخاب کیا اور اسے باہر آویزاں کرنے کے لئے لپکی۔ وہ تصویر ایک حسین نوجوان لڑکی کی تھی جو گھر کے پورچ میں لگے جھولے میں بیٹھی تھی۔ اس کے دلکش چہرے کا رخ سورج کی جانب تھا۔ سورج کی روشنی دھنک رنگ بن کر اس کے چہرے پر پھیلی ہوئی تھی۔ سیاہ بالوں کی گھنگھریالی لٹیں اس حسین لڑکی کے چہرے کو ہالے میں لئے ہوئے تھیں۔ دور سے ایک چھوٹا لڑکا اس کی جانب بڑھا چلا آرہا تھا۔ اس کے پائوں برف میں دھنس رہے تھے۔ ایک نظر سارے منظر کو دیکھ کر نینا سوچ رہی تھی کہ اتنی سردی میں یہ حسینہ باہر پورچ میں کیا کررہی تھی، اس کے چہرے پر اداسی کیوں تھی اردگرد کا سارا ماحول اور ڈوبتا ہوا سورج مجموعی طور پر ایک سوگوار سی کیفیت پیدا کررہا تھا لیکن اس کے باوجود یہ تصویر ایک شاہکار تھی۔ اسے نظرانداز کرنا ممکن نہیں تھا۔ نینا اسے مناسب مقام پر لگا کر چند قدم پیچھے ہٹی کہ اس پر ایک آخری نگاہ ڈال کر اندر چلی جائے کہ تصویر اپنے طور پر درست تھی یا نہیں یکدم وہ کسی سے ٹکرائی۔ بے خیالی میں لڑکھڑائی لیکن ایک مضبوط ہاتھ نے اسے تھام کر اسے اس کے پیروں پر کھڑا کردیا۔ تم اتنی سردی میں بغیر کوٹ کے کیوں کھڑی ہو ایک بھاری پرکشش آواز نے پوچھا۔ اوہ نینا الجھ سی گئی۔ وہ چند قدم پیچھے ہٹ گئی۔ اس سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ وہ حیرت سے اس شخص کی طرف دیکھنے لگی جو اس کے روبرو تھا اور اگر وہ غلطی پر نہیں تھی تو وہ مقبول آرٹسٹ ایرچ کروگر تھا جو بڑی دلچسپی سے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔ نینا نے جلدی سے ہاتھ بڑھایا۔ اوہ مسٹر ایرچ معاف کیجئے گا۔ میرا نام نینا ہے، میں گیلری میں کام کرتی ہوں۔ وہ چند لمحے گہری نگاہوں سے اس کی جانب دیکھتا رہا، پھر یکدم چونک کر بولا۔ نہیں کوئی بات نہیں۔ اس دوران نینا بھی اس کا جائزہ لے چکی تھی۔ اسے یہ باور کرنے میں کوئی باک نہیں تھا کہ وہ مردانہ وجاہت کا ایک شاہکار تھا۔ اس کے یونانی دیوتائوں کے جیسے نقوش، سنہری مائل برائون بال اور سمندروں کی انوکھی نیلاہٹیں لئے مسحورکن آنکھیں ایرچ نے جلدی سے کہا۔ نینا چلو اندر، کوٹ کے بغیر تمہیں سردی لگ جائے گی۔ اس نے گیلری کا دروازہ کھولا اور اس کے ساتھ ہی اندر داخل ہوا اور پھر فوراً ہی آگے بڑھ کر تصویروں کا جائزہ لینے لگا۔ نینا اس کے پیچھے پیچھے تھی۔ کچھ تصویروں کو اس نے تھوڑا سیدھا کیا، کچھ کے بارے میں سوالات کئے کہ انہیں کس ترتیب سے لگایا گیا ہے۔ جب وہ ساری تصویریں دیکھ کر اپنے اطمینان کا اظہار کرچکا تو نینا نے گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ مسٹر ایرچ آپ کے لئے کھانا منیجر کے کمرے میں آنے والا ہے۔ میں آپ کو وہاں چھوڑ دیتی ہوں اور میں جلدی سے قریبی ریستوران میں جاکر جلدی جلدی ایک سینڈوچ کھا کر آجاتی ہوں۔ یہ کہہ کر وہ الماری سے اپنا کوٹ نکالنے لگی۔ ایرچ نے کوٹ پہننے میں اس کی مدد کی اور بولا۔ تمہارے منیجر آج اکیلے ہی کھانا کھائیں گے۔ مجھے بہت بھوک لگی ہے، میں تمہارے ساتھ لنچ کروں گا۔ اگر تمہیں کوئی اعتراض نہ ہو تو اس کی نیلی آنکھیں گہرے انداز میں اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ نینا نے نظریں چرا لیں۔ وہ دل ہی دل میں گھبرا رہی تھی۔ منیجر کو یقیناً یہ ناگوار ہوگا کہ ان کے کھانے کا اتنا مہنگا آرڈر بیکار جائے گا اور وہ گیلری کی ایک عام کارکن، اتنے بڑے آرٹسٹ کے ساتھ مزے سے لنچ کرتی پھر رہی ہے۔ نینا کو سوچنے میں کچھ وقت لگ گیا۔ ایرچ اتنا انتظار نہیں کرسکتا تھا۔ اس نے نہایت بے تکلفی سے اس کا بازو پکڑا اور بولا۔ تم تو سوچنے میں ہی گھنٹے لگا دو گی پھر جواب کتنی دیر میں دو گی۔ یہ کوئی اتنی مشکل بات نہیں ہے۔ چلو جلدی کرو۔ وہ اس کے ساتھ چلتا ہوا گیلری سے باہر آگیا۔ ایک قریبی ریسٹورنٹ میں اس نے کلب سینڈوچز کا آرڈر دیا اور میز پر دونوں بازو ٹکا کر تھوڑا سا اس کی طرف جھکتا ہوا بولا۔ نینا مجھے اپنے بارے میں بتائو نینا نے بے ساختہ ہنس کرکہا۔ کیا تم نے وہ کورس کیا ہے جس میں یہ سکھایا جاتا ہے کہ مخاطب کو یہ یقین دلانے کے لئے کہ اسے اہم سمجھا جارہا ہے، اس قسم کے سوالات پوچھے جائیں نہیں میں نے ایسا کوئی کورس نہیں کیا۔ نہ ہی میرا یہ مقصد ہے کہ تم خود کو اہم سمجھو۔ میں بس تمہارے بارے میں جاننا چاہتا ہوں۔ وہ بڑی متانت سے بولا۔ نینا مسکرائی اور کافی کا ایک گھونٹ لیتے ہوئے بولی۔ میرے بارے میں جاننا کچھ زیادہ خوشگوار نہیں ہوگا۔ میری کہانی بس اتنی سی ہے کہ میں اپنی دو بچیوں کے ساتھ ایک چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں رہتی ہوں۔ روتھ تین سال اور تانیہ دو سال کی ہے۔ ان بچیوں کو پروان چڑھانے کے لئے میں اس آرٹ گیلری میں تین سال سے ملازمت کررہی ہوں۔ میں نے شوہر سے طلاق لے لی ہے۔ تم اتنی چھوٹی بچیوں کے ساتھ کس طرح ملازمت کررہی ہو میری دادی نے اس سلسلے میں میری بہت مدد کی۔ اب میں بچیوں کو ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑ دیتی ہوں۔ کیا تمہارا سابقہ شوہر بچیوں کا خرچ اٹھاتا ہے نہیں وہ ایک اداکار ہے جسے فی الحال کوئی خاص کامیابی حاصل نہیں ہوئی۔ اس لئے وہ کوئی مدد نہیں کرسکتا۔ نینا نے جواب دیا اور اس کے مزید سوالات سے بچنے کے لئے اس نے سوال کا سہارا لیا۔ اب تمہاری باری ہے مجھے اپنے بارے میں بتانے کی۔ میرے بارے میں تو تم نے میرے انٹرویو میں پڑھا ہی ہوگا لیکن میں پھر بھی تمہارے سوال کا جواب دیتا ہوں۔ وہ ایک مسحورکن مسکراہٹ کے ساتھ بولا۔ میں اپنے والدین کا اکلوتا بچہ ہوں، میری والدہ ہمارے فارم ہائوس میں ایک حادثے میں ہلاک ہوگئی تھیں۔ میں اس وقت دس سال کا تھا بلکہ اس روز ہی میری دسویں سالگرہ تھی۔ دو سال ہوئے میرے والد کا بھی انتقال ہوگیا ہے۔ میرا منیجر میرے تمام معاملات دیکھتا ہے۔ میرا زیادہ وقت اپنے اسٹوڈیو میں ہی گزرتا ہے۔ تم اپنے خاندان کے پہلے آرٹسٹ ہو نہیں میری والدہ کو بھی پینٹنگ کا شوق تھا اور میرے نانا تو ایک مشہور آرٹسٹ تھے۔ اس نے ان کا نام بتایا۔ اوہ ان کا نام تو میں نے سنا ہے۔ وہ ایک اچھے پینٹر سمجھے جاتے ہیں لیکن تم نے اپنے تعارف میں کبھی ان کا نام نہیں لیا۔ میں کسی کے سہارے آگے نہیں بڑھنا چاہتا۔ یقیناً میں نے یہ فن وراثت میں بھی پایا ہے لیکن اب تک میں نے جو کیا ہے، وہ میری اپنی کوشش کا نتیجہ ہے۔ میری والدہ بہت اچھی آرٹسٹ نہیں تھیں، وہ پینسل سے خاکے وغیرہ بناتی تھیں، مگر میرے والد کو یہ بالکل پسند نہیں تھا۔ وہ ممی کی اس مصروفیت کو اپنا رقیب سمجھتے تھے۔ وہ اکثر انہیں کہتے کہ وہ اپنا وقت اس طرح برباد کرنے کے بجائے کوئی مفید کام کریں۔ اسی لئے جب میں نے مصوری شروع کی تو میں نے اسے اپنے والد پر ظاہر نہیں کیا اور اپنا کام چھپ کر کرتا رہا۔ انہیں مرتے دم تک اس کا علم نہیں ہوا کہ میں بھی مصوری کرتا ہوں۔ دوپہر کا تپتا سورج مغرب کی طرف بڑھ رہا تھا۔ کھڑکی کے شیشوں سے روشنی کی چند کرنیں زاویہ بدل کر ان کی میز تک آگئی تھیں، جس سے نینا کو اندازہ ہوا کہ وقت کافی بیت چکا ہے۔ اس نے گھبرا کر کہا۔ مسٹر ایرچ منیجر کو تو ہارٹ اٹیک ہوجائے گا یہ دیکھ کر کہ میں آپ کے ساتھ باہر لنچ پر چلی گئی۔ بس پلیز اب اٹھ جائو ورنہ میری خیر نہیں۔ ایرچ نے جیسے اس کی بات سنی ہی نہیں۔ مس نینا آج شام تمہاری کوئی مصروفیت ہے بہت بہت بڑی نینا نے دلکش سبز آنکھیں پھیلائیں۔ مجھے بچیوں کو ڈے کیئر سینٹر سے لینا ہے۔ اگر میں دیر سے پہنچی تو مجھے کی باتیں بھی سننا پڑیں گی، کیونکہ وہ ساڑھے پانچ بجے سینٹر بند کردیتی ہے۔ ہوں اس نے سر ہلایا۔ مجھے یقین ہے کہ تمہاری بچیاں بھی تمہاری جیسی خوبصورت ہوں گی۔ وہ گہری نگاہوں سے اس کی طرف دیکھتا ہوا بولا۔ بس اب چلنا چاہئے۔ نینا اپنا بیگ اٹھا کر جلدی سے کھڑی ہوگئی۔ ایرچ کو بھی اٹھنا پڑا، لیکن صاف معلوم ہورہا تھا کہ وہ اٹھنا نہیں چاہتا۔ جب وہ گیلری پہنچے تو منیجر بے تابی سے ٹہل رہا تھا۔ نینا کو معلوم ہورہا تھا کہ وہ غصے میں ہے، لیکن اس سے پہلے کہ وہ اپنی برہمی کا اظہار کرتا، ایرچ نے معاملہ سنبھال لیا۔ منیجر کی تعریف کرکے اس نے اس کا موڈ بحال کردیا۔ آہستہ آہستہ گیلری میں رش بڑھتا گیا۔ لوگ اپنے پسندیدہ آرٹسٹ کو دیکھنے، اس سے بات کرنے اور آٹوگراف لینے کے لئے جوق درجوق آئے تھے۔ تقریب بہت کامیاب رہی، لوگوں کو تصویریں بھی پسند آئی تھیں اور مصور بھی جو بہترین لباس، اپنی مسحورکن شخصیت، رکھ رکھائو اور متاثرکن گفتگو سے سب کو متاثر کررہا تھا۔ نینا کو ہمہ وقت اس کے ساتھ رہنا تھا تاکہ اسے اس کے پرستاروں، نقادوں اور میڈیا کے لوگوں سے ملوا سکے۔ جیسے جیسے گھڑی کی سوئیاں آگے بڑھ رہی تھیں، نینا کی پریشانی بڑھتی جارہی تھی۔ اسے بچیوں کو ڈے کیئر سینٹر سے لینا تھا اور یہی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ منیجر کو معلوم تھا کہ وہ پانچ بجے چھٹی کرلیتی ہے۔ اس وقت سوا پانچ ہوچکے تھے، تقریب ابھی ختم نہیں ہوئی تھی۔ ایرچ کے پرستار اسے گھیرے ہوئے تھے۔ اس کے ساتھ باتیں کرکے ان کا دل نہیں بھر رہا تھا۔ نینا کے لئے اب وہاں مزید ٹھہرنا ناممکن تھا۔ وہ بڑے غیرمحسوس انداز میں ایرچ کو اپنے پرستاروں میں مصروف چھوڑ کر باہر نکلی، اپنا کوٹ پہنا اور خاموشی کے ساتھ پچھلے دروازے سے باہر نکل آئی۔ یہ دیکھ کر وہ پریشان ہوگئی کہ سڑک کے کناروں پر برف موجود تھی۔ گویا کچھ دیر پہلے ہی برف باری ہوئی تھی۔ سواریاں کم تھیں اور معمول سے کم رفتار میں چل رہی تھیں۔ ڈے کیئر سینٹر پہنچنے کی جلدی میں نینا نے پیدل ہی جانے کا فیصلہ کیا لیکن گھڑی کی رفتار دیکھ کر اسے بھاگنا پڑا۔ جب اس نے وہاں پہنچ کر گھنٹی بجائی تو وہ ہانپ رہی تھی اور اس کی گھڑی پونے چھ بجا رہی تھی۔ اس نے خود کو انچارج کی لعنت ملامت سننے کے لئے تیار کرلیا تھا۔ جیسے ہی وہ اندر داخل ہوئی، انچارج نے گلے شکوئوں کے دفتر کھول دیئے۔ تمہاری بچیوں نے تو آج ہمیں پاگل ہی کردیا۔ تانیہ ایک منٹ کے لئے بھی خاموش نہیں ہوئی۔ اس کا رونا چلتا ہی رہا اور روتھ نے آج بہت گندگی پھیلائی اور کسی کی بات نہیں سنی۔ سوری مسز کرٹس دراصل بچیاں یہاں کی ابھی عادی نہیں ہوئیں، وہ جلدی سیکھ جائیں گی۔ بہت مشکل ہے مس نینا یہ بچیاں بہت چھوٹی ہیں اور انہیں سنبھالنا بہت مشکل ہے۔ ہم سارا وقت ان کو نہیں دے سکتے۔ ممی بچیوں میں سے کوئی پکارا۔ نینا انچارج کے شور و ہنگامے کو نظرانداز کرکے بچیوں کی طرف بڑھی جو نیم تاریک لائونج میں ایک صوفے پر بیٹھی ہوئی تھیں۔ نینا نے انہیں گلے سے لگا لیا۔ تانیہ کے گال آنسوئوں سے بھیگے ہوئے تھے۔ ان دونوں کی سبزی مائل آنکھیں اور گھنی پلکیں بالکل ان کے باپ پرگئی تھیں۔ اسے قریب پا کر روتھ نے روداد بیان کرنے کی کوشش کی۔ تانیہ آج ڈر گئی تھی۔ وہ روتی رہی۔ نینا نے جھک کر تانیہ کو اٹھا لیا۔ روتھ بھی اس سے چپک گئی۔ اس ڈر سے کہ وہ کہیں یہیں نہ چھوڑ جائے۔ ہم بچیوں کو ہفتے تک رکھیں گے بس اس سے زیادہ نہیں۔ مسز کرٹس نے فیصلہ سنایا۔ پریشان حال نینا اس کی بات ان سنی کرکے دروازہ کھول کر باہر نکل آئی۔ جہاں تیز ٹھنڈی ہوا نے ان کا استقبال کیا۔ تانیہ نے اپنا چہرہ نینا کی گردن میں گھسا لیا اور روتھ نے اس کے کوٹ سے خود کو ہوا کے تھپیڑوں سے بچانے کی کوشش کی۔ ہم بھیگ جائیں گے۔ وہ بولی۔ فکر مت کرو، ابھی ہم بس میں بیٹھ جائیں گے، پھر سردی نہیں لگے گی۔ نینا نے تسلی دی۔ مگر تین بھری ہوئی بسیں ان کے برابر سے گزر گئیں۔ آخر نینا نے پیدل ہی گھر جانے کا فیصلہ کیا۔ گود میں اٹھائی ہوئی تانیہ اونگھنے لگی تھی۔ اس لئے اس کا بوجھ بہت بڑھ گیا تھا۔ وہ تیز قدم اٹھاتی تھی تو ننھی روتھ اس کے ساتھ گھسٹنے لگتی تھی۔ آخر اس نے ہمت کی اور جھک کر روتھ کو بھی اٹھا لیا۔ ممی میں بڑی ہوں، میں چل سکتی ہوں۔ روتھ نے اس کی گرفت سے نکلنے کی کوشش کی۔ لیکن نینا نے اپنے دونوں ہاتھوں کو مضبوطی سے ایک دوسرے میں جکڑ کر تانیہ اور روتھ دونوں کو سنبھال لیا اور روتھ سے بولی۔ مجھے پتا ہے تم بڑی ہو، مگر اس وقت ہمیں گھر پہنچنے کی جلدی ہے۔ بس تم مضبوطی سے مجھے پکڑو، میں دوڑ لگاتی ہوں۔ ہم بہت جلد گھر پہنچ جائیں گے۔ بس سے بھی پہلے دیکھنا تمہاری ممی کتنا تیز دوڑتی ہے۔ وہ دونوں کو باتوں میں لگاتی تقریباً بھاگ رہی تھی۔ اچانک کوئی بالکل اس کے برابر آگیا۔ نینا نے چونک کر دیکھا۔ ایرچ نے ہاتھ بڑھا کر روتھ کو اس کے بازوئوں سے لے لیا۔ روتھ کچھ خوف زدہ، کچھ حیران سی روہانسی ہوگئی۔ اس کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ اس سے پہلے کہ وہ کوئی احتجاج کرتی، ایرچ انتہائی نرمی سے بولا۔ اگر میں تمہیں اٹھا لوں گا تو ہم جلدی گھر پہنچ جائیں گے۔ چلو ہم ممی اور تانیہ کے ساتھ ریس لگاتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کون جیتتا ہے لیکن نینا نے ہچکچاتے ہوئے کچھ کہنا چاہا۔ تکلف سے کام نہ لو، مجھے مدد کرنے دو میں تانیہ کو بھی اٹھا سکتا ہوں لیکن میرا خیال ہے کہ وہ بہت چھوٹی ہے، میرے پاس نہیں آئے گی۔ شکریہ مسٹر ایرچ لیکن آپ کو یہ تمہارے منیجر نے مجھے دونوں ایڈریس دیئے ہیں۔ میں پیدل ہی تمہارا اپارٹمنٹ ڈھونڈنے چلا تھا کہ راستے میں مجھے ایک خوبصورت لڑکی نظر آگئی جسے مدد کی ضرورت تھی تو میں نے کہا پہلے یہ نیکی کا کام کرنا چاہئے۔ نینا نے مسکرا کر اس کی طرف دیکھا۔ اسے اپنے برابر چلتے ہوئے دیکھ کر اسے تحفظ کا احساس ہورہا تھا۔ اسے اپنی جانب دیکھتے ہوئے پا کر اس نے پوچھا۔ تم ہر روز اسی طرح گھر جاتی ہو نہیں میں عموماً بس لے لیتی ہوں لیکن آج کوئی بس خالی نہیں تھی۔ میں نے کہا کہ موسم خراب ہورہا ہے، انتظار کرنے کے بجائے چلنا چاہئے، فاصلہ اتنا زیادہ نہیں ہے۔ بس وہ سامنے میرا اپارٹمنٹ نظر آرہا ہے۔ گھر کے قریب پہنچ کر نینا نے چاہا کہ وہ روتھ کو گود سے اتار دے اور وہ اس کو گڈ نائٹ کہہ کر رخصت کردے لیکن وہ اپنی جگہ پر ڈٹا ہوا تھا اور اس کا کوئی ارادہ رخصت ہونے کا نہیں تھا۔ کچھ نیم دلی سے نینا نے اسے اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں آنے کے لئے کہا۔ جسے اس نے خوبصورتی سے سجا رکھا تھا۔ دونوں بچیاں گود سے اتر کر کمرے میں دوڑنے لگیں۔ روتھ نے خوش ہوکر کہا۔ ممی میں بہت خوش ہوں کہ ہم گھر پہنچ گئے۔ تانیہ بھی خوش ہے، اس نے رونا بند کردیا ہے۔ ہمارا گھر چھوٹا سا ہے لیکن ہمیں بہت پسند ہے۔ نینا نے ایرچ سے کہا۔ ہاں واقعی یہ ایک خوبصورت اور پرسکون جگہ ہے۔ وہ بولا۔ نینا، روتھ کے بھاری کپڑے اتارنے لگی۔ ایرچ نے تانیہ کا کوٹ اتارنے میں اس کی مدد کی اور بولا۔ ہاں آپ لوگ یہ بات سن لیں کہ میں نے خود کو ڈنر پر مدعو کرلیا ہے۔ اگر آپ لوگوں کا کوئی اور پروگرام ہے تو مجھے کان سے پکڑ کر باہر نکال دیں اور اگر نہیں ہے تو مجھے بتائیں کہ یہاں سب سے اچھی مارکیٹ کون سی ہے دونوں بیک وقت اٹھ کر کھڑے ہوئے تو وہ دونوں ایک دوسرے کے روبرو تھے۔ ایرچ بولا۔ پھر کیا خیال ہے، میں چلا جائوں یا مارکیٹ کا پتا بتائو گی چند لمحے دونوں کی نگاہیں اس طرح الجھ گئیں کہ تھوڑی دیر کے لئے وہ گردوپیش سے بے خبر ہوگئے۔ پھر ایک ننھی آواز نے انہیں چونکایا۔ روتھ اس کی ٹانگ کو تھامے ہوئے کہہ رہی تھی۔ آپ مجھے کہانی پڑھ کر سنا دیں، اگر آپ رکنا چاہتے ہیں تو لو بھئی بچی نے طے کردیا کہ مجھے کیا کرنا ہے۔ اس نے روتھ کو جھک کر گود میں اٹھا لیا۔ میں یہیں رکوں گا اور روتھ کو کہانی پڑھ کر سنائوں گا اور ممی تم نے جو کرنا ہے، کرلو۔ وائو روتھ نے خوشی سے نعرہ مارا۔ اور نینا نے سوچا کہ وہ واقعی ان کے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ وہ اتنی بے تکلفی سے روتھ کو اٹھائے ہوئے کھڑا تھا جیسے نہ جانے کب سے ان کے ساتھ رہتا آیا ہو۔ نینا کو اپنے وجود میں ایک خوشی اور اطمینان کی لہر دوڑتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اس نے ایرچ کو مخاطب کیا۔ مارکیٹ جانے کی کوئی ضرورت نہیں، تمہیں آج گھر کا کھانا ملے گا۔ وائو ایرچ نے روتھ کی نقل اتاری تو روتھ کھلکھلا کر ہنس پڑی۔ نینا اپنے معمول کے کام جلدی جلدی نمٹانے لگی۔ اس نے ایرچ کے لئے ٹی وی کھول دیا، خود بچیوں کو نہلا کر انہیں کھانا کھلایا اور انہیں کہانی سنانے کے لئے ایرچ کے حوالے کردیا۔ اس نے جلدی جلدی کھانا بنایا اور میز پر لگاتے ہوئے وہ چور نگاہ سے ایرچ کا بھی جائزہ لیتی رہی تھی۔ وہ صوفے پر بیٹھا ہوا تھا۔ اس کے دونوں بازوئوں میں دونوں بچیاں سمٹی ہوئی تھیں اور وہ انہیں بڑے ڈرامائی انداز میں کہانی پڑھ کر سنا رہا تھا۔ پھر تانیہ کی آنکھیں بند ہونے لگیں تو ایرچ نے اسے گود میں لٹا لیا۔ روتھ دلچسپی سے کہانی سن رہی تھی۔ کہانی ختم ہوئی تو وہ بولی۔ یہ کہانی بہت اچھی تھی۔ آپ بھی ممی کی طرح ہی کہانی سناتے ہیں، بہت اچھے انداز میں ایرچ نے مسکراتے ہوئے نینا کی طرف دیکھا۔ نینا بھی مسکرائے بغیر نہیں رہ سکی۔ تھوڑی دیر میں روتھ بھی سوگئی تو دونوں نے چھوٹی سی میز پر بیٹھ کر کھانا کھایا۔ کھڑکی کے شیشوں میں سے باہر کا منظر بڑا دلکش معلوم ہورہا تھا۔ درختوں پر جمی ہوئی برف گھر کی پچھلی روشنیوں سے چمک رہی تھی۔ جنگلے پر چڑھی ہوئی بیلیں بلوریں معلوم ہورہی تھیں۔ جب بچیاں سو جاتی ہیں تو میں یہاں بیٹھ کر کافی پیتی ہوں اور باہر کے منظر کو دیکھ کر یہ سوچتی ہوں کہ یہی میرا باغیچہ بھی ہے اور لان بھی ایرچ نے ابھی کچھ جواب نہیں دیا تھا کہ دروازے کی گھنٹی بجی۔ ایرچ کے چہرے پر ناگواری کے آثار نظر آئے۔ نینا نے اٹھتے ہوئے کہا۔ شاید پڑوسن ہے۔ اسے اپنا تجسس دور کرنا ہوگا کہ کون آیا ہے۔ مگر وہ پڑوسن نہیں تھی، وہ کیون تھا۔ قیمتی سوئٹر، لمبے مفلر کے ساتھ وہ لڑکپن کی حد تک لاابالی سا معلوم ہورہا تھا۔ اس کے سرخ بال جدید انداز میں سنورے ہوئے تھے اور چہرے پر تھوڑا سا سانولا پن اس کی خوبصورتی اور وجاہت میں اضافہ کررہا تھا۔ آئو نینا نے دروازے سے پیچھے ہٹ کرکہا۔ اسے اندازہ ہورہا تھا کہ ایرچ بہت غور سے اس کی طرف دیکھ رہا ہے۔ وہ اندر آیا اور کھلنڈرے پن سے بولا۔ بچے سو گئے اوہو میرا خیال تھا کہ میں ان سے بھی مل لوں گا۔ پھر اس کی نگاہ ایرچ پر پڑی۔ اوہ تمہارے ہاں تو مہمان آئے ہوئے ہیں۔ نینا نے دونوں کا تعارف کروایا۔ دونوں نے لئے دیئے انداز میں ایک دوسرے کو ہیلو کہا۔ اوہ بڑی خوشبو آرہی ہے۔ کیون گہرا سانس لے کر بولا۔ یہ تو میں مانتا ہوں کہ تم زبردست کھانا پکاتی ہو تمہارے ہاتھ کا ذائقہ میں ابھی نہیں بھولا یہ بھی مجھ سے حماقت ہوئی۔ تمہیں خواہ مخواہ چھوڑا۔ اچھا نینا ذرا دوسرے کمرے میں چل کر مجھ سے بات کرلو۔ اس نے چٹکی بجا کر اسے دوسرے کمرے میں چلنے کا اشارہ کیا۔ نینا کو معلوم تھا کہ وہ کیا چاہتا ہے۔ اسے معلوم تھا کہ ان تاریخوں میں اسے تنخواہ ملتی ہے۔ نینا نے ایرچ سے نظر بچا کر اپنا پرس بغل میں دبایا اور اس کے ساتھ دوسرے کمرے میں آگئی اور بولی۔ کیون دراصل میں نینا میرا مالک مکان مجھے دھکے دے کر باہر نکالنے والا ہے پلیز مجھے صرف ہفتے بھر کا کرایہ دے دو۔ تم یہ کیسے گوارا کرسکتی ہو کہ تمہاری بچیوں کے باپ کا سامان باہر سڑک پر پھینک دیا جائے۔ لیکن یہ بہت زیادہ ہے۔ پھر میرے لئے کیا بچے گا کچھ خیال کرو میرا نینا آخر ہم نے کبھی محبت کی تھی، کچھ وقت ہم نے اچھا بھی گزارہ ہے۔ اس کی خوشامد کے سامنے وہ بے بس ہوگئی۔ مجبوراً اسے رقم دینا پڑی۔ وہ اپنی جیب میں رقم ٹھونستے ہوئے بولا۔ مجھ سے لکھوا لو نینا یہ جو اندر بن مانس بیٹھا ہوا ہے، وہ تم پر بری طرح فریفتہ ہوچکا ہے۔ وہ تمہیں کبھی ہاتھ سے نہیں جانے دے گا۔ وہ یہ کہتا ہوا پچھلے دروازے سے نکل گیا۔ نینا واپس کمرے میں آئی تو ایرچ میز سے برتن اٹھا کر سنک میں رکھ چکا تھا۔ نینا کو اس کے تبصرے پر دل ہی دل میں ہنسی آرہی تھی۔ اس نے دور ہی سے کہا۔ ٹھہرو میں ابھی برتن دھو لیتی ہوں۔ ایرچ نے اس کی طرف دیکھا اور سنجیدہ لہجے میں بولا۔ تم نے اپنے اس ایکٹر کو کتنی رقم دی ہے نینا نے بتایا تو ایرچ ناگواری سے بولا۔ تم اس شخص کو یہاں آنے کی اجازت کیوں دیتی ہو، جبکہ تمہارا تعلق ختم ہوچکا ہے۔ پھر وہ تم سے رقم بھی اینٹھتا ہے اس کو کرایہ دینا تھا ورنہ اس کا مالک مکان اس کا سامان باہر پھینک دیتا۔ وہ اسی قابل ہے جس نے تمہاری قدر نہیں کی۔ میں چاہتی ہوں کہ بچوں کے ساتھ اس کا رابطہ رہے وہ باپ کی کمی محسوس نہ کریں۔ اس قسم کے باپ کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ وہ جل کر بولا اور دھلے ہوئے برتن خشک کرنے لگا۔ نینا نے اس کی طرف دیکھا۔ وہ اس طرح کام کرتا ہوا گھر کے ایک فرد کی طرح معلوم ہورہا تھا۔ اس کے ہونے سے اکیلے پن کا احساس مٹ گیا تھا۔ اپنا آپ بڑا محفوظ لگ رہا تھا۔ ایرچ نے پلٹ کر اس کی طرف دیکھا۔ تم کیا سوچ رہی ہو نینا نینا مسکرائی۔ نہیں کچھ نہیں۔ ہاں کچھ اطمینان سا ہے، سکون ہاں اور میں بھی شاید کبھی اتنا پرسکون اور مطمئن نہیں ہوا۔ چند لمحے توقف کے بعد وہ بولا۔ نینا کیا تم اب بھی کیون سے محبت کرتی ہو نینا کو ہنسی آگئی۔ اگر ایسا ہوتا تو میں اس سے الگ ہی کیوں ہوتی تو پھر تم اس کو اتنی آسانی سے رقم کیوں دے دیتی ہو اس لئے کہ وہ میری بچیوں کا باپ ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ وہ ان کی زندگی میں رہے۔ وہ اس کی بات پر توجہ دیئے بغیر بولا۔ میں صبح کی فلائٹ سے شہر سے باہر جارہا ہو۔ میں ہفتے کو واپس آئوں گا۔ تم ہفتے کی رات کو مصروف تو نہیں ہوگی نینا کے دل میں ہلچل سی مچی تو وہ گویا اس سے رابطہ رکھنا چاہتا تھا۔ اس نے بے ساختہ کہا۔ ہاں میں فارغ ہوں گی بچیوں کے لئے میں کچھ انتظام کرلوں گی۔ اور اگر تم فارغ ہو تو بچوں کو چڑیا گھر لے کر چلیں میرا خیال ہے اتنی سردی تو نہیں ہوگی بعد میں انہیں لنچ کے لئے ہوٹل لے چلیں گے۔ اس نے ایک مشہور ہوٹل کا نام لیا۔ بچے تویقیناً خوش ہوں گے مگر ایرچ وہ ہچکچائی۔ اچھا میں چلتا ہوں، تم بھی تھکی ہوئی ہو۔ وہ بولا اور دروازے سے باہر نکل گیا۔ ٭ ٭ ٭ صبح ٹھیک آٹھ بجے فون کی گھنٹی بجی۔ رات کیسی گزری ایرچ پوچھ رہا تھا۔ ٹھیک گزری۔ نینا نے اپنے دل کی دھڑکنوں کو سنبھالتے ہوئے کہا۔ میری بھی رات بہت اچھی گزری۔ ایک عرصے بعد میں نے بہت خوشگوار خواب بھی دیکھے اور ہاں نینا آج سے میں نے ایک لیموزین گاڑی کا انتظام کردیا ہے۔ وہ ٹھیک سواآٹھ بجے تمہارے پاس پہنچ جائے گی جو بچوں کو ڈے کیئر سینٹر چھوڑے گی اور تمہیں آرٹ گیلری اور وہ تمہیں واپس بھی لائے گی۔ ڈرائیور کو وقت بتا دینا۔ ایرچ لیکن یہ ایک ناممکن سی بات ہے۔ یہ اچھا نہیں لگتا۔ نینا نے پس و پیش کی۔ نینا پلیز یہ میری طرف سے ایک چھوٹا سا اظہار عقیدت ہے۔ میں نے اس روز جس طرح تمہیں بارش میں دونوں بچیاں اٹھائے ہوئے بھاگتے دیکھا تھا، میں سخت پریشان ہوگیا تھا۔ اگر تم میری یہ پیشکش قبول کرلو گی تو میرے ذہن سے پریشانی کا بہت بڑا بوجھ اتر جائے گا، ورنہ میں تمہارے لئے پریشان رہوں گا۔ لیکن ایرچ اس نے کچھ کہنا چاہا۔ نینا مجھے فلائٹ کے لئے دیر ہورہی ہے۔ ہم اس موضوع پر پھر کبھی بحث کرلیں گے۔ فی الحال میں ایئرپورٹ کے لئے نکلتا ہوں۔ گاڑی عین وقت پر پہنچ گئی۔ وہ ڈے کیئر سینٹر پہنچی تو انچارج کا رویہ ہی بدلا ہوا تھا۔ وہ بڑی خوش اخلاقی سے پیش آئی۔ مس نینا آپ کا دوست تو بہت کمال کا انسان ہے۔ صبح اس کا فون آیا تھا۔ تمہیں یہاں سے بچیوں کو ہٹانے کی ضرورت نہیں۔ میرا خیال ہے کہ چند روز وہ یہاں آتی رہیں گی تو عادی ہوجائیں گی۔ نینا من ہی من میں مسکراتی گیلری پہنچی تو ایرچ کا فون آیا۔ میں ابھی ایئرپورٹ پر اترا ہوں۔ گاڑی وقت پر پہنچ گئی تھی نا اوہ ایرچ میں بہت شکرگزار ہوں۔ بچیوں کو سنبھال سنبھال کر بسوں میں دھکے کھانا اور اس طرح آرام سے ڈے کیئر سینٹر پہنچ جانے میں بہت فرق ہے۔ یہ کسی نعمت سے کم نہیں۔ بس میں یہی چاہتا تھا کہ تمہیں کوئی تکلیف نہ ہو۔ اور ہاں تم نے انچارج سے کیا کہا ہے کہ وہ تو آج بچھی جارہی تھی چلو چھوڑو تم اس بات کو اور مجھے بتا دو کہ ہفتے کی رات تم کہاں کھانا کھانا پسند کرو گی کہیں بھی مجھے اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ نہیں تم کوئی ایسا ریسٹورنٹ منتخب کرو جہاں تم جانا چاہتی ہو۔ کوئی ایسی جگہ جہاں تم کبھی کسی اور کے ساتھ نہیں گئیں۔ اس شہر میں سیکڑوں ریسٹورنٹ ہیں، جہاں میں کبھی نہیں گئی لیکن اچھا تم کبھی وہاں گئی ہو اس نے ایک ریسٹورنٹ کا نام لیا۔ اوہ میرے خدا وہ تو بہت مہنگا ہے۔ نینا بے ساختہ بولی۔ تو بس ٹھیک ہے ہم وہیں کھانا کھائیں گے۔ اس نے اتنا کہہ کر فون بند کردیا۔ آہستہ آہستہ وقت گزر گیا اور جیسے کرشماتی طور پر ہفتے کا دن آگیا۔ دھڑکتے ہوئے دل والا ایک حسین دن ایرچ ٹھیک ساڑھے سات بجے اسے لینے کے لئے آگیا۔ نینا بڑے اہتمام سے تیار ہوئی تھی۔ سیاہ اور سنہری سلک کے لباس میں مناسب زیورات کے ساتھ وہ بہت اچھی لگ رہی تھی۔ ایرچ نے ایک بھرپور نگاہ اس پر ڈالی اور والہانہ انداز میں بولا۔ نینا تم بہت خوبصورت ہو۔ وہ خود بھی نیلے قیمتی سوٹ میں بہت اسمارٹ اور پرکشش دکھائی دے رہا تھا۔ قیمتی لیموزین میں بیٹھ کر وہ نینا سے مخاطب ہوا۔ مجھے تمہاری کمی بہت محسوس ہوئی۔ میری زندگی کے شاید یہ سب سے طویل دن تھے۔ میری کیفیت بھی ایسی ہی تھی۔ نینا نے کہہ تو دیا لیکن فوراً ہی کچھ محجوب سی ہوگئی۔ شاندار ریسٹورنٹ میں وہ داخل ہوئی تو اسے بہت سے چہرے جانے پہچانے لگے۔ یہ مشہور لوگ تھے۔ وہ ایرچ کے ساتھ مخصوص میز پر بیٹھ گئی۔ ایرچ نے کہا۔ تم مسکرا کیوں رہی ہو نینا ہاں میں اپنی زندگی کی سادگی اور اس زندگی کی نمود و نمائش کے فرق پر مسکرا رہی ہوں۔ میں کبھی اتنے بدلے ہوئے ماحول میں نہیں گئی۔ یہ میرے لئے ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔ تمہیں کچھ خاص منگوانا ہے نہیں مجھے اس بارے میں کچھ زیادہ پتا نہیں ہے۔ تم یہاں آتے رہتے ہو، جو اچھا ہو، وہ منگوا لو۔ ٹھیک ہے۔ وہ بولا اور بیرے کو غیر ملکی زبان میں آرڈر دینے لگا۔ بیرا چلا گیا تو نینا نے پوچھا۔ یہ زبان تم نے کہاں سیکھی میں اکثر بیرون ملک جاتا رہتا ہوں لیکن اصل بات یہ ہے کہ میں سب سے زیادہ خوش اور مطمئن اپنے فارم پر رہتا ہوں جب میں پینٹنگ کرتا ہوں، مگر پچھلے چند روز بہت برے گزرے ہیں۔ کیوں میں تمہارے بغیر بہت تنہائی محسوس کرتا رہا۔ اتوار کے روز وہ نینا اور بچوں کے ساتھ چڑیا گھر گیا۔ وہ بچوں کے ساتھ بہت خوش دکھائی دے رہا تھا۔ وہ انہیں باری باری اپنے کندھوں پر سوار کررہا تھا۔ جتنی بار وہ کسی پنجرے کے پاس جانا چاہتی تھیں، اتنی بار وہ انہیں بڑے صبر اور سکون کے ساتھ لے کر جاتا رہا، حالانکہ نینا اس سے بہت جلد اکتا جاتی تھی۔ بچیوں کو کھانا کھلانے میں بھی اس نے بہت مدد کی اور انہیں بہلا کر پورا کھانا کھلا دیا۔ نینا کے منع کرتے کرتے بھی اس نے بچیوں کو قیمتی کھلونے خرید کر دیئے۔ ایک دن وہ بچیوں کے لئے اسکیٹنگ جوتے لے کر آیا اور سب کو اسکیٹنگ کے لئے مشہور ٹریک پر لے گیا، جہاں وہ دیر تک لطف اندوز ہوتے رہے اور اسی شام اس نے نینا کو ایک شاندار ہوٹل میں ڈنر کرایا۔ کافی پیتے ہوئے دونوں بہت خاموش تھے۔ انہیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ یونہی ایک دوسرے کے دل کی دھڑکن سن رہے تھے، آنکھوں سے کہی ہوئی باتیں سمجھ رہے تھے اور ایک دوسرے کی قربت سے لطف اندوز ہورہے تھے۔ پھر ایرچ نے کہا۔ یہ دو دن بہت ہی پرلطف گزرے۔ ہاں نینا نے کھوئے کھوئے سے انداز میں کہا اور سوچنے لگی کہ اس نے کوئی وعدہ تو نہیں کیا کہ وہ پھر کب آئے گا۔ وہ کھڑکی سے باہر دیکھنے لگی، جہاں سے پارک کا منظر اسٹریٹ لائٹس میں بے حد دلکش معلوم ہورہا تھا۔ اس نے یونہی بات کرنے کوکہا۔ یہ پارک کتنا خوبصورت ہے۔ کیا تمہیں یہ یاد آئے گا نینا نے سوالیہ انداز میں اس کی طرف دیکھا کہ اس سوال کا کیا موقع تھا۔ ہمارے شہر کی خوبصورتی اس سے بہت مختلف ہے۔ وہ بولا۔ نینا نے پھر قدرے الجھ کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ ذرا سا آگے جھکا اور اس کی دلکش آنکھوں میں اپنی نیلے سمندروں جیسی آنکھوں سے دیکھتا ہوا بولا۔ شاید تم اسے بہت جلدی کا فیصلہ سمجھو، لیکن میں نے یہ فیصلہ بہت سوچ سمجھ کرکیا ہے اور میں اس پر بہت خوش ہوں۔ اگر تم چاہتی ہو تو میں چھ ماہ تک ہر ہفتے تمہارے شہر میں تم سے ملنے آئوں گا۔ تم چاہو گی تو سال بھر مگر میں اپنے اس فیصلے پر قائم رہوں گا۔ نینا نے ایک جھرجھری سی لی۔ ایرچ تم تو مجھے اچھی طرح جانتے بھی نہیں۔ میں تمہیں بہت اچھی طرح سے جانتا ہوں۔ پانچ سال کی عمر میں تم نے سوئمنگ سیکھ لی تھی، تم ہر کلاس میں اے گریڈ لیتی تھیں۔ ایک مرتبہ تمہیں بہترین تعلیمی ریکارڈ پر میڈل بھی ملا تھا۔ نینا کو ہنسی آگئی۔ یہ تو میرا تعلیمی ریکارڈ ہے یہ کوئی جاننا تو نہیں ہوا نا میرا خیال ہے کہ یہ کافی ہے۔ مجھے خود پر بھروسہ ہے کہ جب میں کسی کے بارے میں رائے قائم کرلیتا ہوں تو وہ ہمیشہ سوفیصد درست ہوتی ہے اور تمہارے بارے میں ایسا ہی ہے۔ اس کی نگاہوں کی تپش نینا کے رخسار دہکا رہی تھی۔ وہ سٹپٹا کر بولی۔ میں پہلے ہی ایک غلطی کرچکی ہوں۔ اس وقت مجھے ایسا ہی لگتا تھا جیسے کیون میں ہر خوبی موجود ہے مگر بعد میں اس نے بات ادھوری چھوڑ کر اپنا گلابی لب دانتوں تلے دبا لیا۔ تم اپنے ساتھ انصاف نہیں کررہیں۔ اس وقت تمہاری عمر بہت کم تھی۔ تمہاری زندگی میں کسی مرد کی کمی تھی۔ تمہارا باپ تھا نہ بھائی صرف ایک دادی تھیں جن کے ساتھ تمہارے شب و روز بسر ہوتے تھے۔ اس لئے تمہارا کیون سے متاثر ہوجانا فطری تھا۔ ہاں شاید تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔ وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔ اب تم اپنی بچیوں کو نظرانداز مت کرو انہیں خوشیاں پانے کا حق ہے۔ تم نے دیکھا کہ وہ دونوں مجھ سے کتنا پیار کرتی ہیں۔ وہ میرے ساتھ بہت خوش رہیں گی۔ بس تم مجھ سے شادی کرلو۔ نینا سوچنے لگی کہ ایک ہفتہ پہلے وہ اس کو جانتی تک نہیں تھی۔ مگر اب وہ اس کی آنکھوں میں ان جذبوں کو دیکھ سکتی تھی جو دل میں اتر جاتے ہیں۔ جو یقین دلاتے ہیں اور جو بالآخر اپنا ہی عکس بن کر ان آنکھوں میں جھلکنے لگتے ہیں۔ اسے اب کوئی شک نہیں رہ گیا تھا کہ اس کا دل کیا چاہتا ہے۔ دونوں صبح ہونے تک برآمدے میں بیٹھے دنیا جہاں کی باتیں کرتے رہے۔ ایرچ اسے بتا رہا تھا۔ میں دونوں بچیوں کو اپنانا چاہتا ہوں ہمیشہ کے لئے میں اپنے وکیل سے کاغذات تیار کروا لوں گا۔ تم کیون سے اس پر دستخط کروا لینا۔ مجھے یقین نہیں ہے کہ وہ بچیوں کو چھوڑنے پر تیار ہوجائے گا۔ لیکن مجھے لگتا ہے کہ وہ آسانی سے مان جائے گا۔ میں تانیہ اور روتھ کو اپنا نام دینا چاہتا ہوں۔ جب ہم اپنی ایک فیملی بنائیں گے تو میں نہیں چاہتا کہ بچیاں اجنبیت محسوس کریں۔ جس طرح ان کے باپ نے انہیں اپنے پیار سے محروم رکھا، میں انہیں باپ کے پیار کی کمی محسوس نہیں ہونے دوں گا۔ میں اپنے فرائض بہت اچھے انداز میں پورے کروں گا۔ اگلے دن ایرچ نے فون کرکے بتایا کہ وہ کیون سے علیحدگی میں بات کرکے معاملے کو آسانی سے سلجھا لے گا۔ اس کے بعد ایرچ کا کوئی پیغام نہیں ملا۔ بچیاں اس کے بارے میں پوچھتی رہیں کہ وہ کب آئے گا اور وہ انہیں بہلاتی رہی۔ ایرچ ایک ہفتے بعد آیا تو دونوں بچیاں دوڑ کر اس کی گود میں چڑھ گئیں اور چہک چہک کر اس سے باتیں کرنے لگیں۔ نینا کا دل اطمینان سے بھر گیا۔ اس کی آنکھیں خوشی کے آنسوئوں سے بھیگ گئیں۔ اب اسے اپنی خوشیوں سے زیادہ بچیوں کی خوشی اور تحفظ کا احساس تھا۔ وہ بچیوں کا ایرچ سے پیار بھرا تعلق دیکھ کر آسودہ ہوگئی تھی۔ رات اس نے ڈنر کے دوران نینا کو بتایا کہ اس نے کیون سے ملاقات میں سب کچھ طے کرلیا ہے۔ کافی بحث کے بعد وہ بچیوں سے دستبردار ہونے پر تیار ہوگیا۔ میں نے اسے قائل کرلیا کہ بچیوں کے لئے یہی سب سے بہتر ہے کیونکہ وہ خود تو انہیں کچھ دے نہیں سکتا۔ پیار، نہ اچھی زندگی کے لوازمات اور نہ ہی تعلیمی سہولتیں اس مہینے کے آخر تک ہم ضروری معاملات طے کرلیں گے۔ بچیوں کا قانونی طور پر وارث بننے میں چھ ماہ کا عرصہ درکار ہوگا۔ یہ تمام قانونی کارروائی مکمل ہونے کے بعد کیون کا بچیوں پر کوئی حق نہیں رہے گا۔ میرا خیال ہے کہ اب تو تمہیں شادی کے لئے ہاں کہنے میں کوئی اعتراض نہیں ہوگا۔ ٭ ٭ ٭ نینا خود بھی حیران تھی کہ یہ سب کچھ کتنی جلدی اور کتنی سہولت سے ہوگیا۔ صرف ایک ماہ کے اندر اس کی زندگی میں یہ انقلاب آگیا تھا۔ وہ اس شہر میں جہاں وہ پیدا ہوئی اور اس نے زندگی کے کتنے ہی ماہ و سال گزارے تھے، سب کچھ چھوڑ چلی تھی۔ صرف دونوں بچیوں کو لے کر ایرچ کی ہمسفر بن گئی تھی۔ اگرچہ وہ کچھ اداس بھی تھی کہ ایرچ کی محبت کو حاصل کرنے کے لئے سب کچھ چھوڑنا ضروری تھا لیکن ایک اچھے مستقبل کے لئے اسے حال کو ہمیشہ کے لئے چھوڑ دینا تھا۔ اس کے سوٹ کیس بہترین لباسوں سے بھرے ہوئے تھے۔ اس کی انگلی میں قیمتی انگوٹھی تھی اور وہ ایرچ کے ساتھ ایک نئی زندگی کی طرف محوپرواز تھی۔ روتھ اور تانیہ سوگئی تھیں۔ ایئرہوسٹس نے ان کی سیٹ کو دونوں کے لئے چھوٹا سا بستر بنا دیا تھا۔ دونوں نے بہت خوبصورت ویلوٹ کے لباس پہن رکھے تھے، جو ایرچ نے ان کے لئے پسند کئے تھے۔ ان کے بیگ بھی قیمتی لباسوں سے بھرے ہوئے تھے۔ دونوں ایک دوسرے کے قریب بڑی پرسکون نیند میں سمٹی ہوئی تھیں۔ ایرچ اس کے قریب بیٹھا اسے راستے میں آنے والے مشہور مقامات کے بارے میں بتا رہا تھا۔ اچانک وہ بولا۔ نینا میں نہیں چاہتا کہ وہ شخص کبھی تم سے ملے۔ کون نینا نے الجھ کر پوچھا۔ کیون وہ بولا۔ میں اس سے حسد کرتا ہوں۔ میں نہیں چاہتا کہ وہ کبھی تمہیں انگلی بھی لگائے۔ وہ بالکل تمہارے لائق نہیں تھا۔ ایسا کیوں ہوگا بھلا مجھے اس سے کیا واسطہ ہاں میں اس کے لئے اس کی ضرور شکرگزار ہوں کہ اس نے بچیوں سے دستبرداری قبول کرلی۔ دولت میں بڑی طاقت ہے نینا کیا مطلب ایرچ کیا تم نے اسے اس کے لئے کوئی رقم دی ہے نہیں کچھ زیادہ نہیں صرف دو لاکھ فی بچی ایک لاکھ یہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کا ایک بہت ہی سستا طریقہ تھا۔ اس نے تمہارے ساتھ اپنی بیٹیوں کا سودا کرلیا نینا نے دکھ اور حیرت سے کہا۔ وہ اتنے پر ہی مان گیا، ورنہ میں تو اسے اس سے چار گنا زیادہ دینے پر بھی تیار تھا۔ تم نے مجھے کیوں نہیں بتایا میں اب بھی تمہیں نہ بتاتا لیکن میں نہیں چاہتا کہ تمہارے دل میں اس کے لئے کوئی معمولی سا جذبہ بھی رہے۔ چلو چھوڑو اس کو کوئی اور بات کرتے ہیں۔ وہ بولا۔ لیکن نینا کچھ نہیں کہہ سکی۔ وہ ابھی تک اس دھچکے سے نہیں نکلی تھی۔ اسے کیون سے یہ امید نہیں تھی کہ وہ اتنا گر جائے گا کہ اپنی بچیوں کی قیمت وصول کرے گا۔ ایرچ نے اس کا ہاتھ چھو کر اسے اپنی جانب متوجہ کیا اور بولا۔ نینا مجھے ہوٹلوں میں رہنا پسند نہیں اور آج رات مجھے بالکل اچھی نیند نہیں آئی۔ میں تمہارے بارے میں سوچ رہا تھا کہ کل تم میرے ساتھ ہوگی تو میں یوں تنہائی کا شکار نہیں ہوں گا۔ نینا اس کی باتوں کے جواب میں یونہی ہوں، ہاں کرتی رہی۔ اس کا دل جیسے یکدم خوشی سے خالی ہوگیا تھا۔ وہ اس طرح اظہار نہیں کرسکتی تھی جس طرح ایرچ کررہا تھا۔ خدا خدا کرکے ایئرپورٹ آیا۔ ایرچ نے تانیہ کو گود میں اٹھا لیا اور روتھ کی انگلی نینا نے تھام لی۔ ایرچ کا ڈرائیور جوئی انہیں لینے کے لئے آیا ہوا تھا۔ وہ انہیں دیکھ کر بہت خوش ہوا۔ نینا نے اپنا تعارف کرواتے ہوئے اس سے ہاتھ ملایا تو وہ بولا۔ مسز ایرچ سب لوگ بڑی بے تابی سے آپ کا انتظار کررہے ہیں۔ شکریہ نینا نے کہا۔ ایرچ نے اسے بازو سے پکڑ کر اتنی تیزی کے ساتھ آگے بڑھایا کہ جوئی کو ایک طرف ہوجانا پڑا۔ جاری ہے
null
null
null
null
453
https://www.urduzone.net/kabhi-dhoop-kabhi-chaoon-teen-auratien-teen-kahaniyan/
میں نے کبھی شوبز میں آنے کا سوچا بھی نہ تھا۔ میں نے ایک اوسط درجے کے قدامت پسند گھرانے میں جنم لیا تھا۔ والدین نیک اور دیندار تھے۔ انہوں نے ہماری پرورش بھی انہی خطوط پر کی تھی۔ ہم تین بہنیں تھیں مجھے ملازمت کی تلاش میں گھر سے قدم نکالنا پڑے۔ حالانکہ والد ڈاکٹر بنانا چاہتے تھے لیکن یہ خواب شرمندئہ تعبیر نہ ہوسکا۔ ایف ایس سی کا آخری پرچہ دے کر گھر آئی کہ والد کے اس جہان فانی سے کوچ کرجانے کی اطلاع آگئی۔ وہ گھر سے سودا سلف لینے مارکیٹ گئے تھے کہ ایک بم دھماکے میں چل بسے۔ آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ رہا۔ گھر کی گاڑی کھینچنا میرے بس کی بات نہ تھی۔ ملازمت کی تلاش میں ماری ماری پھرنے لگی۔ جلد ہی معلوم ہوگیا بغیر سفارش ملازمت ملنا ممکن نہیں ہے۔ باری باری سب رشتے داروں کے گھر گئی، ان سے ملازمت کے لیے کہا، لیکن کسی نے میری بات کو اہمیت نہ دی۔ یہی کہہ دیتے تھے کہ درخواست دے جائو، کہیں جگہ نکلی تو ہم بتا دیں گے۔ کیا بتائوں ان دنوں کے ذہنی کرب کا احوال اسکولوں، دفتروں میں ماری ماری پھرتی۔ ہر جگہ حالات بتاتی کہ میرے لیے نوکری کتنی ناگزیر ہے، کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگتی۔ ہوتے ہوتے تھک کر چُور ہوگئی۔ جب گھر میں ایک پیسہ نہ رہا تو نوبت فاقوں تک پہنچی۔ بہنوں کی تعلیم چھوٹ گئی، بجلی اور پانی کا سلسلہ منقطع ہوگیا۔ یوں لگتا تھا جیسے ہماری زندگیوں کے ٹمٹماتے دیئے آج کل میں بجھ جائیں گے۔ یہ جمعہ کا دن تھا۔ نہا دھو کر نماز پڑھی اور جائے نماز پر بیٹھ کر اللہ کے حضور دامن پھیلا دیا۔ آنسو آج تھمنے کا نام نہیں لے رہے تھے۔ کل رات سے کچھ نہ کھایا تھا۔ چوبیس گھنٹے گزر چکے تھے۔ سوائے پانی کے ایک کھیل بھی اڑ کر منہ میں نہ گئی تھی۔ مجبور ہوکر اماں پڑوس میں ادھار مانگنے چلی گئیں۔ میں آج اتنی مایوس تھی کہ سوچا اب چاہے بھوکے مر جائیں، میں نوکری ڈھونڈنے نہ جائوں گی۔ اچانک در پر دستک ہوئی۔ سمجھی اماں واپس آئی ہیں۔ دیکھا تو دروازے پر بلقیس کھڑی تھی۔ وہ میری کلاس فیلو اور اسکول کے زمانے کی سہیلی تھی۔ اب ہمارے گھر دور دور تھے لہٰذا آنا جانا کم ہوگیا تھا۔ بلقیس پہلے ہمارے محلے میں ہی رہا کرتی تھی۔ اس نے میری سوجی آنکھوں کی طرف دیکھا تو سمجھ گئی کہ میں روئی ہوں۔ ایسا ویسا رونا، میں تو خوب روئی تھی۔ میری سرخ آنکھوں میں جھانک کر بولی۔ خیر تو ہے تحریم کیا تمہاری شادی زبردستی کسی بڈھے سے کر رہے ہیں، جو اتنی آزردہ ہو کیا تم بھول گئی ہو کہ ابو کی وفات کو ابھی سال بھی نہیں ہوا ہے۔ یہ کہہ کر میں سسک پڑی۔ وہ سمجھ گئی مجھے اس وقت کسی غمگسار کی شدید ضرورت ہے۔ گلے سے لگا لیا۔ کافی دیر تسلی دیتی رہی پھر حال پوچھا۔ حال نہ پوچھو، آج ہمارے گھر میں کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ مجھ جیسی خوددار کے منہ سے بے ساختہ حقیقت بیان ہوگئی۔ وہ حیرت سے مجھے دیکھنے لگی۔ تم نے پہلے تو کبھی ذکر نہیں کیا۔ ذکر کیا کرتی، ایسی باتیں بتانے کی نہیں ہوتیں۔ آج تم نے پوچھا تو بتا دیا۔ میرے آنسو اپنے آنچل سے پونچھتے ہوئے بولی۔ کہیں ملازمت کی کوشش کی۔ ابا کے جانے کے بعد سے گیارہ ماہ ہوگئے ہیں، کوئی دن ایسا نہیں گیا جو نوکری ڈھونڈنے نہ نکلی ہوں لیکن اب ہمت ہار دی ہے۔ جتنے اشتہار نوکری کے کاٹ کر رکھے تھے، چولہے میں ڈال دیئے ہیں۔ بھلا ایف ایس سی کو نوکری کہاں ملتی ہے۔ مایوس نہ ہو میرے بھائی اقبال ایک ایڈورٹائزنگ کمپنی میں کام کرتے ہیں۔ کہہ رہے تھے ایک اشتہار کے لیے ماڈل لڑکیوں کی ضرورت ہے۔ اگر تم کہو تو اقبال بھائی سے تمہارے لیے بات کروں۔ تحریم کیا تم ہمارے خاندان کو جانتی نہیں ہو۔ کیسے دقیانوسی قسم کے ہیں میرے چاچا، ماموں، امی ان کے خوف سے کب مجھے اشتہار میں آنے کی اجازت دیں گی۔ تمہارے رشتے دار چاچا، ماما اچھی ملازمتوں پر ہیں نا تو پھر ان سے کہو کہ تمہارے لیے کسی معقول نوکری کا بندوبست کردیں۔ سب کے گھر جا چکی ہوں، سب سے کہہ چکی ہوں۔ جھوٹی تسلی دے کر ٹرخا دیتے ہیں۔ ابھی تک تو کسی نے کچھ نہیں کیا تو وہ آئندہ بھی کچھ نہ کریں گے۔ یہ رشتے دار بھی خوب ہوتے ہیں۔ ان کو باتیں بنانا آتی ہیں، یہ کسی خوش نصیب کے ہی کام آتے ہوں گے۔ تم باتیں بنانے والوں کی پروا نہ کرو۔ میرے گھر آئو۔ اقبال بھائی کو جانتی ہو نا وہ اپنی کمپنی میں تمہارا ہر طرح سے خیال رکھیں گے۔ کیا پتا تمہیں ماڈلنگ نہ کرنی پڑے، کوئی اور اچھی ملازمت مل جائے۔ وہ مجھے اپنی منگنی کا بلاوا دینے آئی تھی اور میں رو کر اس کے گلے لگ گئی۔ تب وہ بچاری اپنی خوشی کو بھول کر میری پریشانیاں جھولی میں بھر کر لوٹ گئی لیکن وعدہ لے گئی ایک بار ضرور میں اس کے گھر آکر بھائی اقبال سے ملوں گی۔ جاتے ہوئے میری چھوٹی بہن کو پانچ سو روپے کا نوٹ بھی دے گئی بہانے سے کہ اپنے لیے سالگرہ کا تحفہ لے لینا۔ اگلے دن ہمت کرکے بلقیس کے گھر چلی گئی۔ چھٹی کا روز تھا، اقبال بھائی گھر پر موجود تھے۔ بہن نے ان کو حالات سے آگاہ کردیا تھا۔ وہ جیسے منتظر تھے۔ کہا میرے ذمے ایک تعلیمی اشتہار ہے، اس میں ایک لڑکی کو چھوٹے بچوں کو پڑھاتے دکھانا ہے۔ تم اس اشتہار کے لیے بالکل موزوں ہو۔ اچھے پیسے ملیں گے۔ خالہ جی سے اجازت لے لو۔ یہ اشتہار میری نگرانی میں بنے گا۔ اس میں اعتراض کی کوئی بات نہیں ہوگی۔ مجھے سوچ کر بتا دینا۔ میں حالات سے ایسی پریشان تھی۔ کہا اقبال بھائی آپ میرے بھی بھائی ہیں۔ آپ کو اطمینان ہے تو مجھے منظور ہے۔ جب تک کوئی اچھی ملازمت نہیں ملتی، ایک دو اشتہاروں میں آجانے سے کیا فرق پڑتا ہے۔ گھر کی دال، روٹی کا مسئلہ حل کرنا ہے۔ گھر جاکر امی سے کہا کہ بلقیس کے بھائی کی کمپنی میں جاب مل گئی ہے۔ فی الحال وقتی ہے بعد میں مستقل ہوجائے گی۔ امی اس گھرانے کو اچھی طرح جانتی تھیں۔ انہوں نے اعتراض نہ کیا۔ بتاتی چلوں کہ زندگی کی بنیادی ضروریات کی خاطر ہمارا گھریلو سامان بھی رفتہ رفتہ بک چکا تھا۔ ٹی وی پچھلے ماہ فروخت کیا تھا۔ سوچا گھر میں ٹی وی تو رہا نہیں، اماں کیسے وہ اشتہار دیکھ پائیں گی جس میں، میں ماڈلنگ کروں گی۔ کسی نے کہا بھی تو کہہ دوں گی کوئی اور ہوگی، مجھ سے ملتی جلتی لڑکی کچھ دن ریہرسل کے لیے جانا تھا پھر اشتہار بن گیا اور ٹی وی پر چل بھی گیا۔ اماں کو پتا نہ چلا۔ وہ خوش تھیں کہ بلقیس کے بھائی کے توسط سے مجھے ایک اچھی ملازمت مل گئی ہے۔ جب وہ اشتہار چلا تو ایک اور اشتہار کی بھی آفر مل گئی۔ پھر تو جیسے جیسے اشتہار چلنے لگے، کام کا تانتا بندھنے لگا۔ یہ ان دنوں کا ذکر ہے جب لڑکیاں کم ہی ماڈلنگ میں آتی تھیں اور اشتہارات میں لڑکیوں کو لانے کے لیے اشتہار بنانے والوں کو بڑے پاپڑ بیلنے پڑتے تھے۔ شوبز کی دنیا کسی سے پوشیدہ رہنے والی چیز نہ تھی۔ جلد شہرت کے ساتھ ساتھ سب کو علم ہوگیا کہ میں نے ان اشتہارات میں ماڈلنگ کی ہے۔ اب زیادہ معاوضے کی پیشکش کے ساتھ کچھ اور طرح کے اشتہارات میں کام کی آفر ہونے لگی جس میں لباس میں جدت اور بالوں کا اسٹائل ماڈرن ہونے کے ساتھ ساتھ فیشن کے تقاضوں کو بھی پورا کرنا لازم تھا۔ ادھر میں کشمکش میں تھی، ادھر سادہ قسم کے اشتہارات میں آنے پر بھی لوگوں نے ہلہ بول دیا تھا، خاص طور پر ہمارے اپنے قریبی رشتے دار اعتراض کرنے لگے کہ حافظ صاحب کی دختر نیک اختر یہ کس راہ پر چل نکلی ہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب فن اور فنکارہ کا کوئی تصور نہ تھا۔ ماڈلنگ میں کام کرنے والی خواتین اور لڑکیوں کو اچھا نہ جانا جاتا تھا۔ نیوز کاسٹرز لڑکیوں کو بھی اداکارہ کہا جاتا تھا۔ خاص طور پر جس طبقے سے میرا تعلق تھا اور جس جگہ ہمارا گھر تھا، وہاں ماڈلنگ ایک جرم تھا جو مجھ سی یتیم اور بے سہارا کے لیے ناقابل معافی تھا۔ پاس پڑوس سے صدائیں آنے لگیں۔ یہ کیا ہورہا ہے، جوان لڑکی کیسے اوٹ پٹانگ کپڑے پہن کر ٹی وی پر آنے لگی ہے۔ آج باپ زندہ ہوتا تو بیٹی کی آزاد خیالی پر خودکشی کرلیتا یا پھر اس کو شوٹ کردیتا۔ میں نے اپنی خوشی سے ماڈلنگ کے پیشے کو نہیں اپنایا تھا۔ اچھی صورت اور موزوں قدکاٹھ کی وجہ سے انہوں نے مجھے منتخب کیا اور میں نے یہ سوچ کر پہلا اشتہار قبول کیا تھا کہ آگے چل کر جب اچھی نوکری مل جائے گی تو یہ کام چھوڑ دوں گی۔ مجھے شوبزنس میں جانے کا شوق نہ تھا، خودنمائی کا بھی شوق قطعی نہ تھا۔ میری مجبوری یہ تھی کہ گھر کا چولہا ٹھنڈا پڑا تھا۔ جب میں نے اس دنیا میں پہلا قدم رکھا اور اقبال بھائی کی تسلی نے ہمت بندھائی۔ وہ میرا بہت خیال رکھتے تھے۔ مجھے اس کام سے ڈر نہ لگا تھا تاہم اپنے اردگرد کے ماحول اور سماج سے بغاوت کرنا، دل گردے کا کام تھا۔ جوں جوں لوگوں کو پتا چلتا جا رہا تھا میں پریشانیوں کے منجدھار میں پھنستی جارہی تھی۔ اماں کو پتا چلا تو وہ دنگ رہ گئیں۔ ایک روز پڑوس میں بیٹھی تھیں۔ ان کا ٹی وی کھلا تھا کہ وہ اشتہار چل گیا جس میں، میں نے ماڈلنگ کی تھی۔ بس پھر کیا تھا ان کے سارے گھر میں شور ہوگیا۔ وہ دیکھو تحریم کو واہ بھئی واہ تمہاری بیٹی نے تو بڑی اونچی اڑان بھری ہے۔ پڑوسن خالہ نے طنزیہ کہا۔ سنبھال کر رکھنا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ٹی وی سے فلموں میں نظر آنے لگے، محلے والے جینے نہ دیں گے تمہیں۔ اماں بیچاری پریشان گھر آئیں۔ بولیں تم کہاں کام کرنے جاتی ہو۔ تمہارے تو اشتہار چل رہے ہیں۔ بڑے بھیا اس روز سے کہہ رہے تھے کہ بیٹی نہیں سنبھلتی تو اس کی شادی کردو آپا تب بھی میں نادان نہ سمجھی مگر آج اپنی آنکھوں سے تمہیں ایک جوتے کے اشتہار میں دیکھ لیا۔ جوتوں کی نمائش کررہی تھیں تم اونچی ایڑی کے سینڈل پہن کر مٹک مٹک کر چل رہی تھیں۔ تم کو ذرّہ بھر بھی شرم نہ آئی۔ یہ کیسا کام ڈھونڈ لیا ہے تم نے اور مجھے بتایا بھی نہیں۔ اماں آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ میں کوئی غلط کام نہیں کررہی ہوں۔ تھوڑا سا کام ہے اور معاوضہ زیادہ ہے۔ صرف صاف ستھرے اشتہار میں کام کرنا ہی قبول کرتی ہوں۔ آپ لوگوں کی پروا نہ کریں۔ یہ کسی کے کام آتے نہیں مگر باتیں بنانے کے ماہر ہوتے ہیں۔ خاص طور پر ہمارے رشتے دار، آپ ہی بتایئے کبھی انہوں نے ہمارے برے وقت میں ایک کوڑی کی بھی مدد کی ہے پھر ان کو حق کیا پہنچتا ہے ایسی باتیں کرنے کا۔ اب کوئی چارہ نہ تھا۔ کام چھوڑ دیتی تو چولہا ٹھنڈا پڑ جاتا۔ ستارہ اور ایمان کی تعلیم بھی ادھوری رہ جاتی۔ شروع شروع میں تو محلے میں باتیں بنیں پھر وہ ہمارے گھر آنے اور طرح طرح کے سوالات کرنے لگیں۔ اشتہار کیسے بناتے ہیں ٹی وی میں کیسے آتے ہیں، کتنے پیسے ملتے ہیں۔ وہاں لوگ تنگ تو نہیں کرتے وغیرہ وغیرہ۔ کچھ مجھے دیکھتے ہی منہ بنا لیتیں کہ وہ دیکھو آزاد خیال لڑکی اب اشتہاروں تک جا پہنچی ہے۔ غیر مردوں کے ساتھ آتی جاتی ہے۔ بے پردہ ہوگئی ہے، بے لحاظ کہیں کی۔ میں ایسی باتوں کو ایک کان سے سنتی، دوسرے سے اڑا دیتی مگر اماں بیچاری بجھ کر رہ جاتیں۔ ان کو دکھ ہوتا آہ بھر کر کہتیں۔ اگر کچھ اور دن کوئی اور نوکری ڈھونڈتی تو مل ہی جاتی، کم ازکم زمانے کی ایسی باتیں تو مجھے نہ سننی پڑتیں۔ تو تو آزاد ہوگئی، اب تیری چھوٹی بہنوں کا کیا ہوگا، ان سے کون شادی کرے گا۔ چند دن کی پریشانی تھی۔ اب تو میں شکر ادا کرنے لگی کہ اچھا ہوا شوبز میں آگئی۔ چھوٹی موٹی نوکری مل بھی جاتی تو کیا معاوضہ ملتا۔ کیسے بہنیں پڑھ پاتیں۔ اتنی مہنگائی میں گزارہ کیونکر ہوتا اور اب ٹی وی ڈراموں میں شرکت کا بھی موقع مل گیا تھا۔ ہر جگہ جانی اور پہچانی جانے لگی۔ میرے بہت سے کام آسانی سے ہوجاتے تھے۔ بہن، بھائی کے اسکول جاتی، استانیاں اور اساتذہ میرے اردگرد جمع ہوجاتے، طالبات آٹوگراف لینے دوڑتیں۔ جہاں جاتی تھی، لوگ پہچان کر پذیرائی کرنے لگتے۔ میرے پاس آکر طرح طرح کے سوالات کرنے لگتے۔ ٹی وی پروڈیوسرز سے واقفیت بڑھی۔ ڈراموں میں کام ملنے لگا۔ معاشی حالات خوب تر ہوتے گئے۔ شوبز میں ایک حلقۂ احباب بنا تو ان لوگوں نے میرے گھر بھی آنا جانا شروع کردیا۔ ان میں خواتین کے ساتھ مرد حضرات بھی ہوتے تھے۔ وہ میرے ساتھی تھے۔ ہم ٹی وی پروگراموں میں حصہ لیتے اور دوستوں کی طرح ایک دوسرے کی خوشیوں اور دکھوں میں شریک ہوتے تھے۔ ہمارے محلے کے تقریباً تمام لوگ دقیانوسی قسم کے تھے۔ ان کو میرے گھر پر مردوں کا آنا جانا کھلتا تھا۔ جب بھی میرے ساتھ کام کرنے والے ساتھی آجاتے، ان کا منہ بن جاتا۔ وہ لوگ گاڑیوں پر آتے۔ جب ان کی گاڑیاں میرے دروازے کے سامنے کھڑی ہوتیں، محلے والوں کو تکلیف شروع ہوجاتی۔ وہ ناک بھوں چڑھانے لگتے۔ جلد ہی انہوں نے کہنا شروع کردیا کہ ان کے گھر غیر مرد آتے ہیں، یہ بہت نامناسب بات ہے۔ یہ لڑکی جانے کدھر جارہی ہے۔ ماں کو تو گردانتی نہیں ہے۔ کمانے کیا لگی ہے، کسی کو خاطر میں نہیں لاتی۔ رشتے داروں نے ان لوگوں سے رشتے ختم کردیئے ہیں۔ میں نے اپنے کام سے کام رکھا۔ اتنی مصروف رہتی تھی کہ محلے میں آنا جانا باقی نہ رہا۔ مجھے اب کسی سے کیا لینا دینا تھا۔ صفِ اوّل کے آرٹسٹوں میں جگہ بنانا چاہتی تھی۔ سوچا جو جیسا کہے، کہتا رہے، میری صحت پر کیا اثر پڑتا ہے۔ اماں البتہ تنہا تنہا سی ہوگئی تھیں۔ محلے والیوں نے میل جول بند کردیا تھا کہ اس کی لڑکی ماڈل گرل بن گئی ہے۔ ایک روز محلے کے دو تین شرفا مل کر آئے اور اماں سے بات کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ انہوں نے ان کو ڈرائنگ روم میں بٹھا دیا اور آنے کا مقصد دریافت کیا۔ وہ بولے ہم کو اب آپ کے یہاں رہنے پر اعتراض ہے، کہیں اور مکان لے لیں تو بہتر ہے۔ آپ بیوہ خاتون ہیں اور بچیاں غیر شادی شدہ ہیں، وہ جوان ہیں۔ آپ کے گھر غیر لوگوں کا آنا جانا ہم سے برداشت نہیں ہوتا۔ امی نے سمجھایا۔ بھائیو میرے گھرانے کی شرافت پر بات نہ کریں، سب جانتے ہیں کہ ہم یہاں مدت سے رہتے ہیں اور کیسے لوگ ہیں۔ میری بچی کی ملازمت مجبوری ہے، وہ اشتہار کی کمپنی میں کام کرتی ہے تو وہ لوگ کام کے سلسلے میں آتے جاتے ہیں۔ وہ بھی شریف لوگ ہیں۔ آپ خواہ مخواہ کسی کو اچھا یا برا کیسے کہہ سکتے ہیں۔ ہم کو کچھ وقت چاہئے، کوئی موزوں مکان کا سودا ہوگیا تو ہم بے شک یہ مکان بیچ کر چلے جائیں گے۔ بہن آپ کی بات صحیح ہے۔ آنا جانا کس گھر میں نہیں ہوتا، آپ کی بچی کا تعلق شوبز سے ہے تو اس شعبے سے متعلق لوگ تو آئیں گے ہی۔ ہم کو اعتراض اس وجہ سے ہے کہ آپ کے گھر میں کوئی مرد نہیں ہے اور بچیاں جوان ہیں۔ امی جان کو اس روز بہت صدمہ ہوا۔ انہوں نے مجھ سے کہا۔ بیٹی اب تمہارا کافی نام ہوچکا ہے، تم اپنے شعبے کو نہیں چھوڑ سکتیں لیکن یہ بات سوچو آج انہوں نے طریقے سے بات کی ہے، کل کسی اور طرح پیش آئیں گے۔ میں ایک بیوہ عورت کیونکر سارے محلے والوں کا مقابلہ کر پائوں گی۔ میں ان کی مخالفت مول نہیں لے سکتی۔ بہتر ہے ہم یہ گھر فروخت کرکے کسی اور جگہ چلے جائیں۔ ان دنوں دل کی عجیب حالت تھی۔ میں کوئی جرم نہ کرکے بھی احساس جرم میں مبتلا کردی گئی تھی۔ اب اگر کوئی رائٹر یا پروڈیوسر یا پھر ساتھی فنکار آجاتا تو عجب سے کرب میں مبتلا ہوجاتی، آنے والا بھی محسوس کرتا تھا۔ ایک دن جبکہ میں گھر سے باہر تھی، ایک ڈرامہ نویس آئے۔ انہوں نے امی کو پریشان دیکھ کر سوال کیا۔ آنٹی آپ کیوں پریشان ہیں۔ امی نے ان کو ساری بات بتا کر کہا۔ بیٹا یہ مکان بکوا دیں، کسی اور جگہ گھر خرید لیں گے۔ وہ بولے۔ آنٹی یہ سستا جائے گا اور دوسرا گھر مہنگا ملے گا یا پھر کسی دور کی جگہ پر آپ کی بچیوں کے ساتھ رہنا دشوار ہوگا۔ بہرحال میں آپ کا مسئلہ حل کرنے کی کوشش کروں گا۔ ان کا نام رضا تھا۔ میں کافی دنوں سے محسوس کررہی تھی کہ رضا مجھ میں غیر معمولی دلچسپی لے رہے ہیں۔ ہمارا مسئلہ جان کر جب وہ دوبارہ آئے تو امی سے میرے رشتے کی بات کی اور یوں میری شادی رضا سے ہوگئی۔ انہوں نے ہمیں بہت سہارا دیا۔ میرے خاندان کو سپورٹ کیا، بہنوں کی شادیوں میں بہت بڑا کردار ادا کیا کہ وہ اچھے گھروں میں بیاہی گئیں۔ میری والدہ کی زندگی میں ایک بیٹے کی جو کمی تھی، وہ رضا نے داماد بن کر پوری کردی۔ مجھے صفِ اوّل کی فنکارہ کا درجہ بھی انہی کی کاوشوں سے ملا۔ آج والدہ حیات نہیں ہیں، بہنیں اپنے گھروں میں آباد ہیں۔ میں نے بھی عرصہ ہوا ٹی وی اور شوبز کی دنیا کو خیرباد کہہ دیا ہے۔ ہماری اپنی ڈرامہ پروڈکشن کمپنی ہے اور میں رضا کے ہمراہ خوش و خرم زندگی بسر کررہی ہوں۔ صد شکر کہ میں پہلے بھی نیک نام تھی، آج بھی نیک نام ہوں۔ اللہ تعالیٰ دکھ کے بعد سکھ دیتا ہے بشرطیکہ انسان ثابت قدم رہے۔ ت کراچی
null
null
null
null
454
https://www.urduzone.net/musavvir-episode-2/
نینا کو ایرچ کی ناپسندیدگی کا اندازہ ہوا۔ گویا وہ نہیں چاہتا تھا کہ نوکروں کے ساتھ دوستانہ رویہ اختیار کیا جائے۔ زندگی آگے بڑھ رہی تھی اور میرا شہر، میرا اپارٹمنٹ اور گیلری سب بہت پیچھے رہ گئے تھے۔ ایرچ نے قیمتی گاڑی کی پچھلی سیٹ پر نینا اور تانیہ کو بٹھایا اور خود اگلی سیٹ پر روتھ کے ساتھ براجمان ہوگیا۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ بڑی شاہراہ پر آگئے۔ ایرچ نے اسے مخاطب کرکے کہا۔ یہاں سے فارم تقریباً تین گھنٹے کی مسافت پر ہے۔ پھر اس نے تانیہ کو اپنے ساتھ بٹھا کر نینا سے بولا۔ ابھی کافی وقت ہے، تم تھوڑا آرام کرلو۔ نینا نے دیکھا کہ تانیہ بڑی آمادگی کے ساتھ ایرچ کی گود میں چلی گئی۔ اسے قدرے اطمینان ہوا کہ کم ازکم بچیاں اس کے ساتھ خوش اور مانوس تھیں۔ گاڑی تیزی سے سفر طے کررہی تھی۔ شاہراہ کی روشنیاں پیچھے رہ گئی تھیں اور گائوں کا علاقہ شروع ہوچکا تھا جو تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ جوئی نے گاڑی کی روشنیاں تیز کردی تھیں۔ سڑک کے ساتھ ساتھ اُگے ہوئے درخت اور جھاڑیاں تیزی کے ساتھ پیچھے کی طرف دوڑتی ہوئی نظر آنے لگی تھیں۔ نینا کا ذہن ابھی پوری طرح سے واضح نہیں تھا کہ اس بارے میں مکمل طور پر سوچ سمجھ سکے۔ اسے ایرچ کی باتیں یاد آرہی تھیں۔ ڈارلنگ ابھی تو ہنی مون کے لئے جانا ممکن نہیں ہوگا۔ بچیوں کے پاس کون رہے گا۔ میں بچیوں کے لئے کوئی تسلی بخش انتظام کرلوں تو پھر ہم باقاعدہ ہنی مون منائیں گے۔ وہ بچیوں پر کتنا مہربان تھا کہ ان کے لئے اس طرح سے سوچتا تھا۔ نینا مستقبل کے بارے میں سوچنے لگی تھی۔ یہ سب کتنا خوبصورت ہوگا کہ صبح تروتازہ ذہن کے ساتھ اٹھنا۔ جب نہ آفس پہنچنے کی جلدی ہوگی اور نہ بچیوں کو تیار کرکے ڈے کیئر سینٹر میں چھوڑنے کا جھنجھٹ ہوگا۔ اب وہ ان کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار سکے گی۔ اپنے چھوٹے سے اپارٹمنٹ کو دیکھ کر وہ سوچا کرتی تھی کہ اگر اس کے پاس گنجائش ہوتی تو وہ سو طریقوں سے سجاتی، سنوارتی۔ اب اس کے پاس فرصت بھی ہوگی اور وسائل بھی وہ اپنے گھر کو بڑی محبت سے آراستہ کرے گی۔ وہ گھر جو ایرچ کی ماں کے انتقال کے بعد شاید کسی خاتون کے جمالیاتی لمس سے بہت زمانے سے محروم تھا۔ اٹھ جائو نینا ہم قریب پہنچ چکے ہیں۔ اسے ایرچ کی آواز سنائی دی۔ کیا میں سو گئی تھی اس نے حیران ہوکر سوال کیا۔ ہاں اچھی بات ہے۔ تم نے آرام کرلیا۔ تانیہ اور روتھ بھی سو رہی ہیں۔ وہ بولا۔ نینا سیدھی ہوکر بولی۔ اب کتنی دیر اور ہے بس ہم قریب ہی ہیں۔ ہمارا فارم سڑک پر دونوں طرف لگی ہوئی باڑ سے شروع ہوگا۔ دایاں حصہ سرمئی جھیل تک جاتا ہے اور دوسری طرف جنگل کا علاقہ ہے جو تقریباً دو سو ایکڑ پر پھیلا ہوا ہے۔ اس کے آخر میں دریا اور وادیوں کی ڈھلانیں جو اس دریا کو دور تک لے جاتی ہیں۔ آگے جاکر یہ سمندر میں ضم ہوجاتا ہے۔ وہ چند لمحے توقف کے بعد بولا۔ یہاں جو تمہیں تعمیراتی حصے نظر آرہے ہیں، وہاں ہم مویشیوں کو سردیوں میں رکھتے ہیں۔ اس سے آگے اصطبل، پرانی مل اور پن چکی وغیرہ ہیں۔ اس موڑ کے بعد تمہیں گھر کا مغربی حصہ نظر آئے گا۔ یہ گھر ایک چھوٹی سی پہاڑی پر بنا ہوا ہے۔ نینا نے اپنا چہرہ گاڑی کے شیشے سے لگا دیا۔ اردگرد گزرتے ہوئے مناظر میں کچھ وہ بھی تھے جو ایرچ کی بعض پینٹنگز میں نظر آتے تھے۔ گھر سرخ اینٹوں سے بنا ہوا تھا اور حویلی نما تھا۔ اس کی تین منزلیں تھیں۔ دور سے روشنی میں ڈوبا ہوا وہ بہت شاندار نظر آرہا تھا۔ لان کے کچھ حصوں پر برف جمی ہوئی تھی جو روشنیوں میں بلوریں سا لگ رہا تھا۔ نینا تمہیں یہ پسند آرہا ہے یہ کسی کو پسند کیوں نہیں آئے گا۔ یہ اتنا شاندار اور خوبصورت ہے کہ میں اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی تھی۔ میں تمہیں حیرت زدہ کرنا چاہتا تھا۔ میں نے منیجر سے کہہ دیا تھا کہ وہ تمام روشنیاں جلا دے تاکہ تم ایک نظر میں اس کی تمام تر خوبصورتی سمیٹ لو۔ نینا اس کے حسن سے اتنی مسحور ہوگئی تھی کہ اس نے کوئی جواب نہیں دیا اور اس کے حسن کو اپنے اندر جذب کرتی رہی۔ کار آہستہ آہستہ چلتی ہوئی ایک وسیع پورچ تک آگئی جو لکڑی سے بنا ہوا تھا جس پر نفیس کام حیرت زدہ کردینے کے لئے کافی تھا۔ یہاں ایک جھولا بھی تھا جو نینا اس کی بہترین پینٹنگ میں دیکھ چکی تھی۔ جسے اس نے فروخت کرنے سے انکار کردیا تھا۔ ہوا کی تیزی کی وجہ سے وہ جھولا آہستگی کے ساتھ یوں آگے پیچھے ہورہا تھا جیسے اس پر کوئی بیٹھا ہوا ہو۔ ایک طرف ایرچ کے خاندانی نام کے ساتھ ایک بڑا سا بورڈ آویزاں تھا۔ کروگر فارمز دوسری طرف جنگل نظر آرہا تھا جو گھنے درختوں سے بھرا ہوا تھا لیکن برف باری کی وجہ سے اکثر درختوں کی شاخیں پتوں سے خالی تھیں۔ گاڑی گھوم کر سنگ مرمر کی سیڑھیوں کے پاس آن رکی۔ جوئی نے بڑھ کر شیشے کے شاندار دروازے کھولے۔ ایرچ نے اس سے کہا۔ تم بچیوں کو لے کر آئو۔ تانیہ اور روتھ دونوں گہری نیند سو چکی تھیں۔ ایرچ نے نینا کا ہاتھ تھام لیا اور سیڑھیاں چڑھ کر اوپر آیا اور دروازے کا لاک کھولا۔ پھر نینا کی طرف پلٹ کر اس کی آنکھوں میں دیکھتا ہوا بولا۔ کاش میں تمہاری ان خوبصورت، حیران آنکھوں کو پینٹ کرسکتا میں اس پینٹنگ کو اپنے گھر کا جادو کا عنوان دیتا۔ تمہارے یہ خوبصورت بال، تمہارے دلکش چہرے پر محبت کی یہ نرمی جو میرے لئے ہے، صرف میرے لئے وہ کہہ رہا تھا بڑے مدھم میٹھے سروں میں مجھ سے وعدہ کرو نینا کہ تم مجھے کبھی چھوڑ کر نہیں جائو گی ایرچ تم اس طرح کیوں سوچ رہے ہو اس طرح کیوں دیکھ رہے ہو نینا نے ملائمت سے کہا اور سوچنے لگی کہ جب سے ان کی شادی ہوئی ہے، اس نے ایک لفظ بھی ایسا نہیں کہا جو اس کی محبت کا عکاس ہو۔ وہ اپنے کاموں میں ہی الجھی ہوئی تھی۔ شاید وہ اسی لئے خود کو پیاسا محسوس کررہا تھا۔ نینا نے رک کر اس کی طرف دیکھا۔ وہ بھی تھم گیا۔ نینا نے وہ اظہار کیا جو وہ اب تک نہیں کرسکی تھی۔ چاندنی اس کی آنکھوں میں چمک رہی تھی۔ اس کے ریشمیں بالوں میں چاندنی کے ریشمی تار تھے، اس کے گلابی تراشیدہ لبوں پر چاندنی افشاں کی مانند دمک اٹھی تھی۔ ایرچ مبہوت سا ہوگیا۔ تم بہت حسین ہو نینا میں تمہاری پرستش کروں گا۔ وہ اس کے ساتھ ہال میں داخل ہوگئی۔ اس کے قدموں تلے لکڑی کا فرش جیومیٹری کی اشکال کے ساتھ مکمل کیا گیا تھا۔ دیواروں پر نفیس کام تھا۔ لکڑی کا ایک خوبصورت زینہ دوسری منزل پر جاتا تھا۔ دیواروں پر ایرچ کی بنائی ہوئی تصویریں سجی تھیں۔ نینا ان تمام چیزوں کو دیکھ کر مسحور ہوگئی تھی۔ ہر طرف اتنا سلیقہ، آراستگی اور حسن تھا جو اس نے ایک مقام پر اکٹھا اس طرح نہیں دیکھا تھا۔ ایرچ اسے مختلف چیزوں کے بارے میں بتا رہا تھا جو اس کے بزرگوں سے وابستہ تھیں۔ جوئی کے ساتھ بچیاں بھی اندر آگئی تھیں۔ ایک لمبی نیند لینے کے بعد وہ خوب تروتازہ اور چونچال تھیں۔ وہ دوڑتی، بھاگتیں ہر طرف بڑے شوق سے دیکھ رہی تھیں۔ نینا نے انہیں تنبیہ کی۔ دیکھو زیادہ تیز مت بھاگو آرام سے کہیں پھسل نہ جانا۔ وہ محسوس کررہی تھی کہ ایرچ کی نگاہ بچیوں پر تھی۔ اسے ان کا ہر چیز سے چھیڑ چھاڑ کرنا اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ نینا نے بڑھ کر انہیں قابو کیا اور ان کی توجہ بٹانے کو بولی۔ چلو ابھی ہمیں باقی گھر دیکھنا ہے۔ ڈائننگ روم میں میز اتنی بڑی تھی کہ اس کے گرد بیس کرسیاں لگی ہوئی تھیں۔ دوسرے کمروں کی طرح یہاں بھی قیمتی چیزیں اسے شاندار اور دلکش بنا رہی تھیں۔ ایک دیوار پر لگی ہوئی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ یہ میری ماں نے بنائی تھی۔ لائبریری کی دیواروں کے ساتھ اخروٹ کی لکڑی سے بنے ہوئے شیلف کتابوں سے بھرے ہوئے تھے۔ نینا نے قریب جاکر کچھ کتابوں کے نام دیکھے۔ سبھی کتابیں بہترین مصنفین کی تھیں۔ نینا نے خوش ہوکر کہا۔ یہاں اتنی اچھی کتابیں ایک جگہ جمع ہیں۔ اوہ یہاں تو وقت گزرنے کا پتا ہی نہیں چلے گا۔ اس لائبریری میں کتنی کتابیں ہیں تقریباً گیارہ سو تئیس۔ وہ بولا۔ کچن بہت بڑا اور تمام سہولتوں سے آراستہ تھا۔ لائونج میں قیمتی سامان اور اعلیٰ ذوق ایک دوسرے میں مدغم ہوگئے تھے۔ ایرچ نے بتایا کہ اس حویلی میں تقریباً بائیس کمرے ہیں۔ ایرچ کے لہجے میں فخر و غرور تھا۔ پھر وہ بولا۔ تم تھکی ہوئی ہو، باقی گھر ہم کل دیکھیں گے۔ اس وقت میں تمہیں بیڈ روم دکھا دیتا ہوں۔ نینا اتنا سب کچھ دیکھ کر خاصی مرعوب ہوگئی تھی۔ اسے لگ رہا تھا جیسے وہ کوئی خواب دیکھ رہی ہے۔ آنکھ کھلے گی تو یہ خوابوں کا دیس نظروں سے اوجھل ہوجائے گا۔ یہ بیڈ روم گھر کے سامنے والے حصے کے دائیں گوشے میں تھا۔ اس کا فرنیچر گہرے رنگ کی مہاگنی سے بنا ہوا تھا۔ جگہ جگہ قیمتی مخمل کا استعمال تھا۔ بیڈ پر قیمتی پلنگ پوش تھا۔ ڈریسنگ ٹیبل بہت ہی خوبصورت تھی۔ کرسٹل کے گلدانوں میں تازہ پھول سجے ہوئے تھے۔ ممی کیا میں اور روتھ یہاں سوئیں گے تانیہ نے پوچھا۔ ایرچ ہنس پڑا۔ نہیں یہ بڑوں کا بیڈ روم ہے بچوں کا بیڈ روم دوسری طرف ہے۔ وہ انہیں دوسرے کمرے میں لے گیا جو بہت شاندار تھا۔ بچیوں کو اپنا کمرہ پسند آیا۔ روتھ نے نینا کا ہاتھ تھام کر کہا۔ ممی ہمیں بھوک لگی ہے۔ روتھ کی بات ایرچ نے بھی سنی۔ وہ جلدی سے بولا۔ اوہو سوری بچو چلو آئو کچن میں چلتے ہیں۔ روتھ اور تانیہ دوڑ کر آگے نکل گئیں۔ ان کے پیروں کی آواز ہال میں پھیل گئی۔ ایرچ نے قدرے ناگواری سے کہا۔ بھاگو مت دیکھنا کوئی چیز توڑ نہ دینا۔ نینا نے گھبرا کر کہا۔ ریفریجریٹر میں بہت کچھ موجود تھا۔ نینا نے بچیوں کو سینڈوچز بنا کر دیئے اور دودھ میں چاکلیٹ ڈالی۔ دونوں کھانے میں مصروف ہوگئیں۔ ایرچ نے معنی خیز نگاہوں سے اس کی طرف دیکھا۔ تم کب فارغ ہوگی نینا نے اس کی نگاہوں کا جواب نگاہوں سے دیا اور اسے یقین دلایا کہ وہ جلد فارغ ہوجائے گی۔ اسی وقت دروازے کی گھنٹی بجی۔ ایرچ نے بڑھ کر دروازہ کھولا۔ اس کا چہرہ کھل اٹھا۔ اوہ مارک یہ تم کہاں سے ٹپک پڑے۔ آئو آئو اندر آجائو۔ نینا نے آنے والے کی طرف دیکھا۔ وہ ایک دراز قد، لمبا چوڑا شخص تھا۔ اس کے بکھرے ہوئے بال دروازے کی چوکھٹ کو چھو رہے تھے۔ اس کے چوڑے شانے اس کی بھاری جیکٹ میں کچھ اور نمایاں ہوگئے تھے۔ اس کی نیلی آنکھیں بہت خوبصورت تھیں۔ یوں لگتا تھا جیسے ان میں دوسروں کے اندر جھانکنے کی صلاحیت موجود ہے۔ نینا ایرچ نے اسے مخاطب کیا۔ یہ مارک ہے۔ میں نے تمہیں اس کے بارے میں بتایا تھا نا ہاں مجھے یاد ہے۔ نینا نے مسکرا کر دونوں کی طرف دیکھا۔ مارک میرے لئے بھائی کی طرح ہے۔ اگر میں شادی نہ کرتا اور مجھے کچھ ہوجاتا تو مارک میرا وارث تھا۔ اس فارم اور میری تمام چیزوں کا چھوڑو ایسی باتیں مت کرو نینا کے سامنے اس نے نینا سے ہاتھ ملایا۔ میں تمہیں خوش آمدید کہتا ہوں۔ اس کا انداز اپنائیت بھرا تھا۔ نینا کو وہ اچھا لگا۔ اس نے بچیوں کا اس سے تعارف کروایا۔ وہ کچھ شرمائی شرمائی سی اس سے ملیں۔ روتھ نے جھجکتے ہوئے کہا۔ آپ بہت لمبے ہیں۔ تو کیا تم مجھ سے ڈر جائو گی کہ میں اتنا لمبا ہوں مارک نے مسکرا کر اس کے بالوں کو چھوا۔ نہیں ہم بہادر لوگ ہیں۔ تانیہ نے آگے بڑھ کر روتھ کے برابر کھڑے ہوکر کہا تو سب کو ہنسی آگئی۔ نینا نے مارک سے کافی کے لئے پوچھا۔ اس نے معذرت کرلی اور ایرچ سے بولا۔ میں دراصل تمہیں ایک اطلاع دینے آیا تھا۔ مناسب یہی تھا کہ یہ بات میرے ذریعے تم تک پہنچتی۔ کیا ایرچ نے سنجیدہ ہوکر اس کی طرف دیکھا۔ دوپہر کو بیرن تھوڑا سا زخمی ہوگیا ہے۔ مارک نے بتایا۔ نینا بھی جانتی تھی کہ بیرن ایرچ کا پسندیدہ گھوڑا تھا جو بہت قیمتی اور اعلیٰ نسل کا تھا۔ ایرچ نے اسے صرف اپنی سواری کے لئے مخصوص کررکھا تھا۔ کوئی ہڈی تو نہیں ٹوٹی ایرچ نے بظاہر بڑے سکون سے پوچھا۔ میں نے اس کا تفصیلی معائنہ کیا ہے۔ ایسی کوئی بات نہیں۔ ہوا کیا تھا مارک کچھ ہچکچایا۔ دراصل اصطبل کا دروازہ کھلا رہ گیا تھا۔ وہ باہر نکل آیا۔ اس نے باڑ پھلانگنے کی کوشش کی اور زخمی ہوگیا۔ اصطبل کا دروازہ کیوں کھلا رہ گیا تھا کس نے اسے کھلا چھوڑا تھا۔ کوئی ملازم یہ الزام اپنے سر لینے پر تیار نہیں اور جوئی کہتا ہے کہ اس نے صبح بیرن کو چارہ کھلا کر دروازہ بند کردیا تھا۔ یہ نام تو ڈرائیور کا ہے۔ نینا نے سوچا۔ یعنی وہ ڈرائیونگ کے علاوہ اصطبل میں بھی کام کرتا تھا۔ نینا نے بچیوں کی طرف دیکھا۔ وہ بالکل خاموش بیٹھی تھیں۔ گویا انہیں ماحول کی تبدیلی کا احساس ہوگیا تھا۔ اب ایرچ کا غصہ چھپا نہیں رہ سکا تھا۔ میں نے ہی جوئی سے کہا تھا کہ وہ اس کا تذکرہ تم سے نہ کرے۔ میں خود تم سے بات کرنا چاہتا تھا کہ تمہیں بیرن کے بارے میں تسلی ہوجائے۔ وہ دو ہفتے میں بالکل ٹھیک ہوجائے گا۔ میرا خیال ہے جوئی سے دروازہ کچھ ڈھیلا رہ گیا حالانکہ وہ لاپروا نہیں ہے اور بیرن سے بہت محبت کرتا ہے۔ اگر بیرن کی ٹانگ میں کوئی نقص رہ گیا تو ایرچ کے لہجے میں سخت غصہ تھا۔ نہیں ایسا کچھ نہیں ہے۔ میں نے اس کی ٹانگ پر پٹی باندھ دی ہے۔ وہ بالکل ٹھیک ہے۔ تم اسے ابھی چل کر دیکھ کیوں نہیں لیتے۔ اس طرح تمہیں اطمینان ہوجائے گا۔ ہاں میں دیکھتا ہوں۔ اس نے کرسی کی پشت پر لٹکا ہوا کوٹ اتارا۔ اس کے چہرے کے تاثرات سے سرد غصہ ظاہر ہورہا تھا۔ مارک بھی اس کے ساتھ چلنے کے لئے اٹھ کھڑا ہوا اور نینا سے بولا۔ نینا میں معذرت خواہ ہوں کہ اس خوشگوار موقع پر میں ایک بری خبر لے کر آیا۔ میں تمہیں ایک مرتبہ پھر خوش آمدید کہتا ہوں۔ اتنا کہہ کر وہ ایرچ کے ساتھ باہر نکل گیا۔ نینا نے جلدی جلدی بچیوں کو گرم پانی سے نہلایا۔ انہیں کہانی سنائی اور وہ بالآخر سو گئیں۔ کمرے میں بچیوں کے سوٹ کیس، ان کے کھلونوں کا بیگ اور کچھ ایسی ہی چیزیں پڑی تھیں لیکن نینا اتنی تھک گئی تھی کہ وہ انہیں اس وقت سنبھال نہیں سکتی تھی۔ کمرہ جو پہلے بڑی ترتیب کے ساتھ آراستہ تھا، اس وقت مکمل بے ترتیبی کا نمونہ پیش کررہا تھا۔ وہ بچیوں کی طرف سے اطمینان کرکے کمرے سے نکل ہی رہی تھی کہ ایرچ واپس آگیا۔ اس نے ایک گہری نگاہ کمرے کی بدلی ہوئی حالت پر ڈالی اور اس کے چہرے کا رنگ کچھ بدلا۔ نینا کو اس کا اندازہ ہوگیا۔ اس نے پرسکون لہجے میں کہا۔ ایرچ میں اس وقت بہت تھک گئی ہوں۔ صبح یہ سب بالکل ٹھیک کردوں گی۔ ایرچ نے نفی میں سر ہلایا اور اپنے لہجے کو عمداً خوشگوار بناتے ہوئے بولا۔ نینا میں یہ سب اس طرح سے چھوڑ کر ٹھیک طرح سو نہیں سکوں گا۔ نینا اس کی طرف دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی اور اس نے سوٹ کیس سے کپڑے نکال کر درازوں میں رکھے، کھلونوں کو سنبھالا، جوتوں کو ترتیب سے رکھا، بچوں کے کوٹ اور سوئٹر ہینگروں میں ڈال کر الماری میں لٹکائے۔ نینا نے کچھ کہنا بیکار سمجھا۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ وہ اس کی بات نہیں سنے گا۔ شور سے اگر بچیاں اٹھ گئیں تو وہ گھنٹوں سونے کا نام نہیں لیں گی۔ سوٹ کیس خالی کرکے ایرچ نے اوپر کے شیلف میں رکھے اور کمرہ ویسا ہی ہوگیا جیسے وہ پہلے تھا۔ بچیاں سکون سے سو رہی تھیں۔ ایرچ اس کے ساتھ کمرے سے باہر آگیا اور دروازہ احتیاط سے بند کردیا۔ باہر آکر اس کا موڈ یکسر تبدیل ہوگیا۔ وہ اس کی طرف دیکھتے ہوئے محبت سے بھیگے ہوئے لہجے میں بولا۔ سوئیٹ ہارٹ مجھے معلوم ہے آج کا دن بہت تھکا دینے والا تھا۔ تم لباس تبدیل کرلو، میں تب تک کھانے کا انتظام کرتا ہوں۔ تم دیکھنا میں جو کچھ بنائوں گا، تمہیں پسند آئے گا۔ نینا جو کچھ بدمزہ سی ہوگئی تھی، وہ دل ہی دل میں کچھ خجل سی ہوئی۔ وہ اتنا خیال رکھنے والا تھا اور وہ اس کے بارے میں اچھا نہیں سوچ رہی تھی۔ اس نے ایرچ کی بات کا جواب مسکرا کر دیا۔ تم کسی خواب کی تعبیر کی طرح بہت اچھے اور ناقابل یقین ہو۔ ٭ ٭ ٭ نینا کو اپنے اپارٹمنٹ میں ٹریفک کے شور اور مختلف آوازیں سنائی دینے کی عادت تھی۔ یہاں خاموش رات میں اسے نیند نہیں آرہی تھی یا وہ بے انتہا خوشی تھی۔ اس نے کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا کہ اس کی زندگی اتنا خوبصورت موڑ لے گی۔ اسے وہ سب کچھ حاصل ہوجائے گا جس کا کبھی اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ محبت، پیار، آسائشیں اور بہت کچھ ایرچ اس کے برابر میٹھی نیند سو رہا تھا۔ نائٹ بلب کی روشنی میں اس کے گھنگھریالے بال چمک رہے تھے۔ وہ اس نئے اور خوبصورت ماحول میں ایرچ کے تحفظ کی چھائوں میں نہ جانے کب سو گئی۔ پھر ایرچ کے اٹھنے سے اس کی آنکھ کھلی۔ وہ بیڈ سے اٹھ کر قالین پر کھڑا اپنے سلیپر پہن رہا تھا۔ ایرچ نینا نے پوری آنکھیں کھول دیں۔ اس کی آنکھوں میں سوال تھا۔ سوری ڈارلنگ میں تمہاری نیند خراب نہیں کرنا چاہتا تھا لیکن میں چند گھنٹوں سے زیادہ نہیں سو سکتا۔ تم آرام کرو، میں ذرا کاٹیج میں جاتا ہوں۔ کچھ پینٹ کرنے کا موڈ ہے۔ میں دوپہر تک واپس آجائوں گا۔ یہ کہہ کر اس نے جھک کر اس کے بال چھوئے اور کمرے سے باہر نکل گیا۔ نینا کو سخت نیند آرہی تھی، جلد ہی وہ گہری نیند سوگئی۔ پھر اس کی آنکھ کھلی تو کمرہ دن کی روشنی سے بھرا ہوا تھا۔ وہ جلدی سے اٹھی اور کھڑکی کا پردہ ہٹایا۔ باہر کا منظر ویسا ہی تھا جیسا ایرچ کی بعض تصویروں میں نظر آتا تھا۔ درختوں کی شاخیں برف سے ڈھکی ہوئی، گودام اور سرونٹ کوارٹروں کی چھتیں برف سے سفید ہورہی تھیں، دور چراگاہ میں جانور چرتے ہوئے نظر آرہے تھے۔ اس نے گھڑی کی طرف دیکھا۔ آٹھ بج رہے تھے۔ نینا کو بچیوں کی فکر ہوئی۔ وہ جاگنے والی ہوں گی۔ خود کو اجنبی ماحول میں دیکھ کر کہیں وہ گھبرا نہ جائیں۔ وہ دروازہ کھول کر کمرے سے باہر نکلی تو اسے راہداری میں بچیوں کے بھاگنے اور پکارنے کی آوازیں سنائی دیں۔ وہ تیزی سے اس طرف لپکی۔ تانیہ اور روتھ اسی طرف دوڑتی ہوئی آرہی تھیں۔ او ممی ہم آپ کو ڈھونڈ رہے تھے۔ روتھ نے ناراضی سے کہا۔ مجھے یہ سب بہت اچھا لگا ہے۔ تانیہ چہکی۔ میں تمہارے پاس ہی آرہی تھی بچو نینا نے کہا۔ اس نے بچیوں کے منہ ہاتھ دھلائے، انہیں دوسرے کپڑے پہنائے۔ روتھ نے پوچھا۔ ممی اسکول نہیں جانا ہاں نینا نے سر ہلایا۔ وہ سیڑھیاں اتر کر نیچے چلی آئیں۔ نینا بھی ان کے پیچھے پیچھے سیڑھیاں اتری۔ اس نے دیکھا کہ صفائی کرنے والی ملازمہ آچکی تھی۔ اس کا نام ایلسا تھا۔ نینا نے اپنا تعارف کروایا۔ وہ ایک مضبوط جسم کی عورت تھی۔ اس کی آنکھیں اندر دھنسی ہوئی نظر آتی تھیں اور بہت چھوٹی چھوٹی تھیں مگر ان میں تیزی اور دور تک دیکھنے کی صلاحیت تھی۔ نینا نے اس سے اپنا تعارف کروایا تو وہ بولی۔ ہاں مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ آپ مسز ایرچ ہیں۔ میں آپ کو خوش آمدید کہتی ہوں۔ نینا نے اس سے ہاتھ نہیں ملایا کیونکہ ایرچ کے رویئے سے اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ وہ نوکروں کے ساتھ گھلنا ملنا پسند نہیں کرتا۔ ڈرائیور جوئی کے ساتھ اس کا ہاتھ ملانا ایرچ کو برا لگا تھا۔ ایلسا دوسرے کمرے میں صفائی کرنے لگی۔ نینا بچیوں کے ساتھ کچن میں آگئی۔ تینوں نے ناشتہ کیا۔ ناشتے کے بعد نینا نے بچیوں کی ڈرائنگ کی کاپیاں اور رنگ نکال کر انہیں مصروف کردیا اور بولی۔ مجھے ایک کپ کافی ذرا سکون سے پی لینے دو پھر ہم باہر چہل قدمی کے لئے جائیں گے۔ کافی پیتے ہوئے وہ اس نئی زندگی کے بارے میں سوچتی رہی جو اس کے ماضی سے یکسر مختلف تھی۔ ایرچ کیون سے کتنا مختلف تھا۔ یوں لگتا تھا جیسے اس کا دل اس کے لئے محبت سے بھرا ہوا ہے۔ وہ بچیوں سے بھی اتنا پیار کرتا تھا جیسے ان کا حقیقی باپ ہو۔ نینا کے لئے سب سے زیادہ اطمینان کا باعث یہی تھی۔ وہ بچیوں کے مستقبل کے بارے میں پرامید ہوگئی تھی۔ وہ تنہا انہیں اتنی آسائشیں نہیں دے سکتی تھی۔ بچیاں اس کے قریب آگئیں۔ وہ باہر جانا چاہتی تھیں۔ نینا نے انہیں برف باری والے کوٹ پہنائے اور ان کے ہاتھ تھام کر باہر نکلی۔ موسم سرد تھا لیکن ٹھنڈی ہوا نہیں چل رہی تھی۔ نینا گھر کے پچھلی طرف چل پڑی، جہاں کھیت تھے۔ وہ نہیں چاہتی تھی کہ اس کا دوسرے ملازموں سے سامنا ہو، شاید ایرچ ان کا تعارف کروانا پسند کرے گا۔ برف ان کے پیروں کے نیچے ٹوٹ کر ایک دلکش آواز پیدا کررہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں وہ شہر سے کافی دور نکل آئے۔ رہائشی حصہ آہستہ آہستہ ان کی نگاہوں سے اوجھل ہوگیا۔ دور سے اس نے ایک طرف چھوٹی چھوٹی سی باڑ لگی ہوئی دیکھی۔ وہ تھوڑا قریب آئی تو اس نے دیکھا کہ یہاں ان کا خاندانی قبرستان تھا، جہاں آدھی درجن سے زیادہ کتبے نظر آرہے تھے۔ ممی یہ کیا ہے روتھ نے سوال کیا۔ نینا نے اس کا گیٹ کھولا اور اندر جاکر کتبے پڑھنے لگی۔ کچھ قبریں تو اٹھارویں صدی کے لوگوں کی تھیں۔ ایک قبر ایرچ کے والد کی معلوم ہوتی تھی۔ تین قبریں چھوٹے بچوں کی تھیں اور ایک قبر دیوار کے ساتھ کچھ فاصلے پر تھی۔ نینا نے کتبے میں نام دیکھے۔ کیرولین برانی نینا کے ذہن میں یہ نام کھٹکا۔ پھر اسے فوراً ہی یاد آگیا کہ کیرولین، ایرچ کی والدہ کا نام تھا جو ایک حادثے میں ہلاک ہوگئی تھی۔ باقی قبروں کے کتبوں پر مٹی جمی ہوئی تھی۔ لگتا تھا کہ انہیں عرصے سے صاف نہیں کیا گیا لیکن کیرولین کی قبر صاف ستھری تھی۔ سنگ مرمر کا کتبہ دھلا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس پر پھولوں کی ایک شاخ پڑی ہوئی تھی۔ نینا کا خیال فوراً ایرچ کی طرف گیا۔ یقیناً قبر کو صاف کرنے والا وہی ہوسکتا ہے۔ اس سے اس کی اپنی ماں کے لئے محبت ظاہر ہوتی تھی مگر قبرستان پر ایک عجیب سی اداسی چھائی ہوئی تھی۔ اگر بچیاں اس کے ساتھ نہ ہوتیں تو شاید وہ اس ماحول سے خوف زدہ ہوجاتی۔ اس نے بچیوں کے ہاتھ تھامے اور انہیں قبرستان سے باہر لے آئی۔ پھر ان سے بولی۔ چلو آئو میرے پیچھے آئو مجھے پکڑو۔ دونوں بچیاں ہنستی ہوئی اس کے پیچھے بھاگنے لگیں۔ وہ انہیں جھکائیاں دیتی پھر قریب آکر انہیں پکڑنے کا موقع دیتی، مگر ان کے ہاتھ آنے سے پہلے ہی وہ دور ہوجاتی۔ وہ کافی دیر تک اس کھیل میں لگی رہیں، یہاں تک کہ ان کا سانس پھول گیا۔ وہ مخملیں سبز گھاس پر بیٹھ کر ہانپنے لگیں۔ بچیوں کے گال سرخ ہورہے تھے، ان کی آنکھیں ستاروں کی طرح چمک رہی تھیں۔ وہ بہت خوش نظر آرہی تھیں۔ ان کا سانس بحال ہوگیا تو نینا نے ان سے کہا۔ آئو اس ٹیلے تک چلتے ہیں۔ دیکھتے ہیں کہ ہم اس پر کہاں تک چڑھ سکتے ہیں۔ تانیہ اور روتھ اس مہم کے لئے فوراً تیار ہوگئیں۔ تینوں آہستہ آہستہ اس پہاڑی ٹیلے پر چڑھ گئیں۔ نینا نے دیکھا کہ دوسری جانب سفید رنگ کا ایک خوبصورت فارم ہائوس تھا۔ اس نے اندازہ لگایا کہ شاید یہ پرانی رہائش ہے۔ یہاں ملازم رہتے ہوں گے۔ وہ ابھی اسے دیکھ ہی رہی تھی کہ اس گھر کا مرکزی دروازہ کھلا، ایک عورت باہر آئی۔ اس کی نگاہ ان تینوں پر پڑی تو اس نے اپنا ہاتھ لہرایا اور انہیں نیچے آنے کے لئے کہا۔ چلو تانیہ، روتھ نیچے چل کر اپنی پہلی پڑوسن سے ملاقات کرتے ہیں۔ نینا دونوں کے ہاتھ تھام کر دوسری طرف اترنے لگی۔ نینا کو لگا جیسے وہ حیرت سے ان کی طرف دیکھ رہی ہے۔ وہ جیسے جیسے نیچے آرہی تھیں، اس عورت کا سراپا نمایاں ہوتا جارہا تھا۔ وہ ایک دبلی پتلی سی عورت تھی جس کی عمر پچاس کے قریب تھی۔ اس کے برائون بالوں میں سفیدی جھلک رہی تھی، جو اس کے سر کے اوپر ایک اونچی پونی ٹیل میں لاپروائی سے بندھے ہوئے تھے۔ عینک کے موٹے شیشوں سے اس کی آنکھیں اداس اور بڑی بڑی نظر آرہی تھیں۔ اس نے ایک لمبا سا ڈھیلا ڈھالا بوسیدہ سوئٹر پہن رکھا تھا جو اس کے کمزور شانوں پر لٹکا ہوا معلوم ہوتا تھا۔ اس کے نقوش خوبصورت تھے شاید جوانی میں وہ خوبصورت لڑکی ہوگی۔ نینا نے نیچے آکر اس سے اپنا اور بچیوں کا تعارف کروایا۔ وہ نسبتاً آہستگی سے کچھ گھبرائے ہوئے انداز میں بولی۔ تم بالکل ویسی ہی ہو جیسی ایرچ نے مجھے بتایا تھا۔ اس نے کہا تھا رونیکا تم جب نینا سے ملو گی تو دیکھنا وہ بالکل کیرولین کی طرح لگے گی جیسے اس کا دوسرا روپ ہو۔ پھر وہ یکدم یوں خاموش ہوگئی جیسے اس کے منہ سے کوئی غلط بات نکل گئی ہو۔ پھر جیسے اپنے آپ سے بولی۔ ایرچ نے مجھے اس بارے میں بات کرنے سے منع کیا تھا۔ نینا چونکی۔ یہ عورت کیا کہہ رہی تھی۔ کیا وہ ایرچ کی ماں کیرولین سے کوئی مشابہت رکھتی تھی کہیں ایسا تو نہیں کہ ایرچ نے اس لئے اس سے شادی کی تھی کہ شکل و صورت اس کی ماں سے ملتی جلتی تھی۔ شاید اسی لئے اس نے لمحے بھر میں فیصلہ کرلیا تھا، بغیر کچھ جانے اور پرکھے۔ رونیکا ابھی تک اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ اس کی آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی تھی۔ نینا نے سر جھٹک کر خود کو ان پراگندہ خیالات سے چھڑایا اور رونیکا سے بولی۔ مجھے ایرچ نے تمہارے بارے میں بتایا تھا رونیکا کہ تمہارا شوہر فارم منیجر ہے لیکن میں ابھی تک اس سے نہیں ملی۔ معلوم ہوتا تھا کہ رونیکا نے جیسے اس کی بات نہیں سنی۔ وہ اس سے پوچھنے لگی۔ تم شہر سے تعلق رکھتی ہو ہاں کون سا شہر اس نے پوچھا۔ نینا نے شہر کا نام بتایا تو وہ بولی۔ تمہاری عمر کیا ہے ستائیس سال میری بیٹی آئرن چھبیس سال کی تھی۔ کلائیڈ کہتا ہے کہ وہ شہر چلی گئی ہے۔ تم بھی اسی شہر میں رہتی تھیں۔ کیا تم کبھی آئرن سے ملی ہو وہ شہر بہت بڑا ہے۔ اگر پتا ہو کہ وہ کہاں کام کرتی ہے، کس علاقے میں رہتی ہے تو پھر اسے تلاش کیا جاسکتا ہے۔ ہمیں نہیں پتا کہ وہ کہاں رہتی ہے۔ وہ دس سال پہلے گھر سے چلی گئی تھی۔ اسے بھلا اس طرح گھر سے بھاگنے کی کیا ضرورت تھی۔ اگر وہ مجھے آرام سے بتا دیتی کہ وہ شہر جانا چاہتی ہے تو میں اسے کبھی نہ روکتی۔ اس کے ڈیڈی کا رویہ اس کے ساتھ ذرا سخت تھا۔ شاید اس کا خیال تھا کہ اس کے ڈیڈی اتنی چھوٹی عمر میں اسے جانے نہیں دیں گے۔ وہ بہت قابل لڑکی تھی۔ وہ اسکول کے کلب کی صدر تھی۔ وہ پڑھائی میں بھی بہت اچھی تھی۔ میرا خیال تھا کہ وہ ہمارے ساتھ بہت خوش ہے لیکن وہ خالی خالی نظروں سے سامنے والی دیوار کی طرف ایک ٹک دیکھ رہی تھی۔ اس پر خودکلامی کی سی کیفیت طاری تھی۔ وہ ہماری اکلوتی اولاد تھی۔ سب کو اس پر بہت پیار آتا تھا۔ وہ تھی ہی اتنی خوبصورت، اسمارٹ اور چلبلی روتھ اور تانیہ کچھ سہم کر نینا کی ٹانگوں سے چپکی ہوئی تھیں۔ اس عورت کی شخصیت نے انہیں خوف زدہ کردیا تھا۔ لگتا تھا کہ اس کی باتوں کو بھی وہ سمجھ نہیں پارہی تھیں لیکن خود نینا کو اس پر بہت ترس آرہا تھا۔ اس کی اکلوتی بیٹی کا دس سال سے کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ اگر وہ اس کی جگہ ہوتی تو شاید پاگل ہوجاتی۔ اس کی یہ دگرگوں حالت یقیناً اس صدمے کی وجہ سے تھی۔ میں سوچتی ہوں کہ شاید اب تک تو اس نے شادی کرلی ہوگی، اس کے پیارے پیارے بچے ہوں گے۔ جب میں نے تمہیں ان بچوں کے ساتھ دیکھا تو مجھے لگا کہ کہیں یہ آئرن تو نہیں جو اچانک ہم سے ملنے چلی آئی ہے۔ اوہ مجھے بہت افسوس ہے۔ نینا نے ہمدردی سے کہا۔ نہیں کوئی بات نہیں اب تو میں آئرن کے بغیر رہنے کی عادی ہوچکی ہوں لیکن دیکھو پلیز ایرچ کو نہ بتانا کہ میں نے تم سے یہ سب کچھ کہا ہے۔ کلائیڈ کہتا ہے کہ یہ ذکر باربار سن کر ایرچ تنگ آچکا ہے اسی لئے ایرچ نے مجھے ملازمت سے بھی ہٹا دیا ہے، حالانکہ میں اس کے گھر کی بہت اچھی دیکھ بھال کرتی تھی، جس طرح کہ میرا اپنا گھر ہو۔ میں اور کلائیڈ اس وقت سے یہاں ہیں جب جان اور کیرولین کی شادی ہوئی تھی۔ کیرولین کو میرا سلیقہ اور صفائی بہت پسند تھی۔ وہ اپنا سارا کام مجھ سے لیتی تھی۔ اس کی المناک موت کے بعد بھی میں نے اس کی تمام چیزیں اسی طرح رکھی تھیں، جس طرح اس کی زندگی میں تھیں۔ بس ایسا احساس ہوتا تھا کہ وہ یہیں کہیں قریب ہی ہے۔ رونیکا نے تھوڑا توقف کیا۔ پھر بولی۔ آئو میرے ساتھ کچن میں چلو میں نے ڈونٹس بنائے ہیں اور کافی بھی بالکل تیار ہے۔ نینا اس کی بات ٹال نہیں سکی۔ وہ اس کے ساتھ کچن میں آگئی۔ عمدہ کافی کی خوشبو نے اسے اپنے حصار میں لے لیا۔ وہ سفید میز کے گرد بیٹھ گئے۔ کچن کا ماحول بہت خوشگوار تھا۔ تانیہ اور روتھ کو رونیکا کے بنائے ہوئے ڈونٹس بہت پسند آئے جو ابھی گرم تھے۔ وہ مزے اور بے تکلفی سے ڈونٹس کھاتی اور دودھ پیتی رہیں جو رونیکا نے ان کے لئے مگ میں بھر کے رکھا تھا۔ مجھے یاد ہے جب ایرچ ان بچیوں کی عمر کا تھا تو اسے یہ ڈونٹس بہت پسند تھے۔ وہ ہر وقت ان کی فرمائش کیا کرتا تھا۔ کیرولین مجھ پر بہت اعتماد کرتی تھی۔ جب وہ شاپنگ یا کسی کام سے باہر جاتی تھی تو ایرچ کو میرے پاس چھوڑ جاتی تھی۔ وہ مجھے اپنے بچوں جیسا ہی لگتا تھا۔ اب بھی وہ مجھے اتنا ہی عزیز ہے۔ میری بیٹی آئرن ہماری شادی کے دس سال بعد پیدا ہوئی لیکن کیرولین کی گود میں ایرچ ایک سال بعد ہی آگیا تھا۔ میں نے کبھی نہیں دیکھا کہ کوئی بچہ اپنی ماں سے اتنی زیادہ محبت کرتا ہو۔ وہ اسے ایک لمحے کے لئے بھی اپنی نگاہوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتا تھا۔ ہر وقت اس کے ساتھ لگا رہتا تھا اور تم نینا وہ چند لمحے ایک ٹک اس کی طرف دیکھتی رہی اور پھر بولی۔ اوہ نینا تم کیرولین سے کس قدر مشابہ ہو۔ تم بالکل اس کے جیسی لگتی ہو۔ اس نے نینا کی پیالی میں اور کافی ڈالی پھر بولی۔ ایرچ کا سلوک ہم سب کے ساتھ بہت اچھا ہے۔ اس نے لاکھوں روپے پرائیویٹ سراغرسانوں پر خرچ کر ڈالے کہ کسی طرح میری بیٹی کا سراغ مل جائے لیکن بدقسمتی سے ایسا نہیں ہوسکا۔ نینا نے اثبات میں سر ہلایا۔ یقیناً ایسا ہی تھا۔ وہ اس کی بچیوں کے ساتھ کتنی محبت کرتا تھا۔ دیوار پر لگے ہوئے کلاک نے وقت کا اعلان کیا۔ نینا فوراً ہی اٹھ کھڑی ہوئی۔ دوپہر ہوچکی تھی اور ایرچ نے دوپہر میں آنے کے لئے کہا تھا۔ وہ گھر آچکا ہوگا اور اسے موجود نہ پا کر پریشان ہوگا۔ رونیکا ہمیں بہت دیر ہوگئی ہے۔ بس اب ہم گھر کی طرف بھاگتے ہیں۔ کافی اور ڈونٹس کے لئے بہت شکریہ دونوں بہت لذیز تھے۔ تم بھی ملنے آنا۔ کلائیڈ نہیں چاہتا کہ میں وہاں جائوں لیکن میں موقع دیکھ کر وہاں کا چکر ضرور لگاتی ہوں۔ یہ دیکھنے کے لئے کہ وہاں سب ٹھیک ٹھاک ہے۔ نینا تم میرے پاس آتی رہنا۔ میں بہت تنہا ہوں، بالکل تنہا وہ انہیں رخصت کرتے ہوئے مسکرائی اور اس مسکراہٹ نے اس کے چہرے کو بدل کر رکھ دیا تھا۔ نینا نے سوچا کہ اس کا اندازہ بالکل درست وہ جوانی میں یقیناً ایک بہت خوبصورت خاتون رہی ہوگی۔ رونیکا نے انہیں ڈونٹس کی ایک پلیٹ ساتھ بھی دے دی۔ اس نے ان کے لئے دروازہ کھولا تو ہوا کا ایک سرد جھونکا اندر داخل ہوکر انہیں کپکپا گیا۔ رونیکا نے اپنے بوسیدہ سوئٹر کے کالر اوپر اٹھاتے ہوئے کہا۔ اوہ کتنی سردی ہوگئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ میں ایک بار پھر آئرن کو تلاش کرنا شروع کروں۔ اس کے چہرے پر نرمی اور ملائمت کے بجائے ایک عجیب وحشت سی اتر آئی تھی۔ دوپہر کو سورج کی روشن تھالی کچھ اور زیادہ سنہری ہوگئی تھی۔ برف پر دوڑتی ہوئی سورج کی کرنیں کہیں کہیں سات رنگوں میں ڈھل گئی تھیں۔ جیسے ہی وہ پہلا موڑ مڑے، انہیں گھر نظر آنے لگا۔ سرخ اینٹوں سے بنا ہوا گھر سورج کی روشنی میں چمک رہا تھا۔ نینا کے دل میں ایک فخر سا پیدا ہوا۔ یہ خوبصورت گھر ایرچ اور اس کا تھا۔ یہ بہت اچھی آنٹی تھیں۔ روتھ نے اس کے ساتھ چلتے چلتے اظہار خیال کیا۔ ہاں واقعی۔ نینا نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی اور بولی۔ اب جلدی جلدی چلو بچو ڈیڈی ہمارا انتظار کررہے ہوں گے۔ کون سے ڈیڈی روتھ نے سوال کیا۔ بس صرف ایک ہی ڈیڈی ہیں۔ نینا نے جواب دیا اور پھر دونوں سے بولی۔ چلو ہم ذرا آہستہ آہستہ چلتے ہیں اور جاکر ڈیڈی کو حیران کردیتے ہیں۔ بچیوں نے چمکتی ہوئی آنکھوں کے ساتھ اس کی طرف دیکھتے ہوئے اثبات میں زور زور سے سر ہلایا۔ نینا نے آہستگی سے دروازے کا ہینڈل گھمایا تاکہ ایرچ کو ان کی آمد کا پتا نہ چلے لیکن دروازہ کھلتے ہی انہیں ایرچ کے غصے میں بولنے کی بلند آواز سنائی دی۔ وہ کسی بات پر ایلسا کو ڈانٹ رہا تھا۔ تم اپنے رویئے پر معذرت کرو یا دفع ہوجائو اور پھر کبھی یہاں نہ آنا۔ پھر ایلسا کی پریشان سی آواز سنائی دی۔ آئی۔ایم سوری مسٹر ایرچ نینا نے جلدی سے دروازہ بند کردیا۔ اسے خواہ مخواہ اس معاملے میں دخل دے کر بدمزگی پیدا کرنے کی کیا ضرورت تھی۔ اسے اندازہ ہوگیا تھا کہ ایرچ اپنی مرضی کے خلاف کوئی بات پسند نہیں کرتا۔ ایرچ کی آواز اتنی بلند تھی کہ بچیوں نے بھی سب کچھ سن لیا تھا۔ وہ حیران بھی تھیں اور سہم بھی گئی تھیں۔ وہ دروازے سے کچھ دور نکل آئیں تو روتھ نے کہا۔ ڈیڈی اتنے غصے میں کیوں ہیں انہیں کیا ہوا ہے ہم جانتے تو نہیں ہیں نا ڈیئر لیکن میری بات بہت غور سے سنو۔ انہوں نے ہمیں نہیں دیکھا نہ ہی انہیں معلوم ہے کہ ہم نے ان کی بات سنی ہے تو ہم ان کے سامنے یہی ظاہر کریں گے کہ ہم نے کچھ نہیں سنا۔ مگر ہم نے تو سنا ہے۔ تانیہ بڑی سنجیدگی سے بولی۔ ہاں میں جانتی ہوں لیکن ہمارا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے تو ہم اس معاملے میں کیوں دخل دیں۔ اچھا چلو آئو، ہم اندر جاتے ہیں۔ اس بار نینا نے اندر داخل ہوتے ہی بلند آواز میں پکارا۔ ہیلو ایرچ اس کے جواب کا انتظار کئے بغیر نینا نے کہا۔ کیا یہاں کوئی شوہر نامدار تشریف رکھتے ہیں اوہ سوئٹ ہارٹ ایرچ مسکراتا ہوا سامنے آیا۔ اس کا موڈ یکدم خوشگوار ہوگیا تھا۔ اب سے پہلے کی تلخی بالکل غائب تھی۔ میں ابھی ایلسا سے پوچھ ہی رہا تھا کہ تم کہاں ہو۔ یہ سن کر مجھے مایوسی ہوئی کہ تم خود ہی باہر چلی گئی ہو حالانکہ میں خود تمہیں سب کچھ دکھانا چاہتا تھا۔ مجھے بھی یہی اچھا لگتا ہے کہ سب تمہارے ساتھ دیکھوں اسی لئے میں بچیوں کے ساتھ کھیتوں کی طرف نکل گئی تھی۔ نینا نے جواب دیا۔ تم سوچ بھی نہیں سکتے کہ مجھے یہ سب کتنا اچھا لگ رہا ہے۔ بجائے اس کے کہ ہر چند میٹر بعد ٹریفک لائٹ دیکھ کر رکنا پڑتا ہے۔ ایرچ کی نگاہ اس پلیٹ پر پڑ چکی تھی جس میں رونیکا نے بچیوں کے لئے ڈونٹس دیئے تھے۔ یہ کیا ہے اس نے پوچھا۔ آنٹی رونیکا نے یہ ممی کو دیئے ہیں۔ روتھ نے بتایا۔ ایرچ یکلخت سنجیدہ ہوگیا۔ نینا کیا تم رونیکا کے گھر گئی تھیں ہم لوگ ٹیلے پر چڑھے تو اس نے ہاتھ ہلا کر ہمیں بلا لیا۔ اب یہ اچھا نہیں لگتا تھا کہ ہم نہ جاتے۔ نینا نے وضاحت کی۔ وہ تو ہر راہ چلتے کو ہاتھ ہلا کر بلالیتی ہے، اسی لئے میں چاہتا تھا کہ تم میرے ساتھ لوگوں سے ملو اور میں تمہیں ان کے بارے میں بتائوں۔ رونیکا ایک نفسیاتی مریض ہے۔ تم اسے ایک انچ جگہ دو گی تو وہ تمہارے سر پر سوار ہوجائے گی۔ میں اسے ریٹائر کرچکا ہوں، مگر وہ پھر بھی یہاں بار بار گھسنے سے باز نہیں آتی، جب بھی اسے موقع ملتا ہے۔ مجھے اس کی حالت پر افسوس ہے۔ خدا اس کی مدد کرے لیکن یہ بھی مناسب نہیں لگتا کہ وہ رات کو ہال میں آکر پھرنے لگے یا میری آنکھ کھلے تو وہ میرے کمرے میں کھڑی ہو۔ وہ یہ کہتے ہوئے روتھ کی طرف مڑا۔ آئو روتھ تمہارا یہ بھاری کوٹ اتارتے ہیں۔ اس نے روتھ کو اٹھا کر ہوا میں اچھالا اور اسے فریج پر بٹھا دیا۔ میں بھی میں بھی تانیہ نے شور مچایا۔ ہاں تم بھی تم بھی وہ اس کے لہجے کی نقل کرتا ہوا بولا۔ اس نے تانیہ کو بھی فریج پر بٹھا دیا اور ان کے جوتے اتارنے لگا۔ نینا قریب آگئی، اس اندیشے سے کہیں بچیوں کا توازن نہ بگڑ جائے لیکن ایرچ نے ان کے بوٹ اتارے اور دونوں کو باری باری نیچے اتار لیا۔ پھر ان کی طرف جھک کر بولا۔ اچھا بتائو میرا نام کیا ہے ڈیڈی تانیہ نے سوالیہ لہجے میں کہا۔ ممی کہتی ہیں کہ صرف آپ ہی ڈیڈی ہیں۔ روتھ نے اسے اطلاع دی۔ اچھا تو ممی ایسا کہتی ہیں اس نے سر ہلایا اور مسکرا کر نینا کی طرف دیکھا۔ تھینک یو ممی ٭ ٭ ٭ نینا بچیوں کو سلا کر نیچے کچن میں آئی تو ایرچ سینڈوچز بنانے کے لئے چکن سلائس کاٹ رہا تھا۔ نینا نے اس کے شانے پر ہاتھ رکھ کر متوجہ کیا۔ ہے مسٹر آج فارم پر ہمارا پہلا کھانا ہے۔ اسے یادگار ہونا چاہئے۔ ہاں کیوں نہیں میں نے جو جو چیزیں تیار کی ہیں، وہ سب تمہیں پسند آئیں گی۔ تم ٹیبل لگائو۔ نینا نے دیکھا کہ اس نے بہت سے کھانے بنا لئے تھے۔ ٹن میں بند چیزوں کو گرم کرلیا تھا اور کافی میکر میں بنتی ہوئی کافی سے بڑی لذیز خوشبو آرہی تھی۔ نینا نے اس کی مدد کی۔ سلاد اور سینڈوچز بھی تیار ہوگئے۔ ایرچ نے اسٹوو جلا دیا۔ کچن میں نرم گرم سی حدت نے ماحول کو بہت سحر انگیز بنا دیا۔ اسٹوو کے نیلے شعلوں کے سامنے پرلطف کھانا بہت مزے لے لے کھایا۔ صبح بچوں کے ساتھ فارم میں گھومتے ہوئے مجھے یہ بے حد اچھا لگا کہ تم یہاں کتنی نسلوں سے رہ رہے ہو اور تم اپنے خاندانی لوگوں سے خوب اچھی طرح واقف ہو۔ مجھے اپنے بزرگوں کے بارے میں کچھ اتنا زیادہ پتا نہیں ہے۔ میرے پاپا کا میرے بچپن میں ہی انتقال ہوگیا تھا اور ممی کی زیادہ رشتہ داری نہیں تھی اور ہاں میں نے تمہارا خاندانی قبرستان بھی دیکھا۔ تم وہاں گئی ہو ہاں تم نے وہاں کیرولین کی قبر بھی دیکھی ہوگی میری ماں کی قبر ہاں نینا نے اثبات میں سر ہلایا۔ اس کا جی چاہا کہ اس سے پوچھے کہ کیا اس نے اس کے ساتھ اس لئے شادی کی کہ اس کی شکل اس کی ماں سے بہت ملتی ہے، لیکن پھر وہ مصلحتاً خاموش رہی۔ یہ سوچ کر کہ ایرچ کو خود ہی موقع دینا چاہئے کہ وہ اسے بتائے۔ تم نے دیکھا ہوگا کہ میرے والدین کی قبریں ایک ساتھ نہیں ہیں جیسی دوسرے میاں، بیوی کی ہیں۔ ہاں مجھے حیرت تو ہوئی تھی۔ دراصل ممی نے وصیت کی تھی کہ انہیں مشرقی جانب دفن کیا جائے جہاں پائین کے درخت ہیں اور میرے والد اپنے والدین کے ساتھ دفن ہونا چاہتے تھے۔ میں نے ان کی خواہش پوری کردی۔ کیرولین زیادہ آزادانہ زندگی گزارنا چاہتی تھی۔ میرے پاپا کو یہ آزادی پسند نہیں تھی۔ میرا خیال ہے کہ بعد میں میرے والد کو پچھتاوا ہوا تھا جب کیرولین نے اپنی اسکیچ بک پھینک دی تھی۔ ایرچ نے ناگواری سے سر جھٹکا۔ بھلا اس میں کیا حرج تھا کہ وہ اپنا شوق پورا کرلیتی پینٹنگ کرتی رہتی، بجائے اس کے کہ گھریلو کاموں میں الجھی رہتی۔ میرے والد کا رویہ غلط تھا۔ سراسر غلط وہ مسلسل شعلوں کی طرف دیکھ رہا تھا۔ نینا کو محسوس ہوا جیسے وہ اپنے ماضی میں اس قدر گم ہوچکا ہے کہ وہ اس کی موجودگی سے بے خبر ہے۔ مگر مگر کیرولین بھی غلط تھی۔ اس نے بھی تو دانشمندی سے کام نہیں لیا۔ اس کی آواز ایک سرگوشی تھی۔ اس وقت نینا کو پہلی مرتبہ علم ہوا کہ ایرچ کے والدین کے آپس میں تعلقات ٹھیک نہیں تھے۔ ٭ ٭ ٭ نینا کا دل یہاں لگ گیا تھا۔ اس نے روزانہ کے کچھ معمولات بنا لئے تھے۔ وہ بچیوں کو زیادہ وقت دینے لگی تھی، جس کی وجہ سے اس نے محسوس کیا تھا کہ روتھ اور تانیہ اس خوشگوار ماحول میں کھل اٹھی تھیں۔ ان کے اندر چھپی ہوئی صلاحیتیں ظاہر ہونے لگی تھیں۔ روتھ موسیقی میں دلچسپی لے رہی تھی۔ وہ پیانو پر بہت جلد نئی دھن سیکھ لیتی تھی۔ تانیہ جسے پہلے رونے کے سوا کوئی کام نہیں تھا، اب پراعتماد ہوگئی تھی۔ اس کی حس مزاح حیرت انگیز طور پر بہت اچھی تھی۔ اب وہ ہنستی ہوئی نظر آتی تھی۔ ایرچ عموماً صبح صبح اپنے کاٹیج چلا جاتا تھا۔ جہاں اس نے اپنا اسٹوڈیو بنا رکھا تھا۔ وہ زیادہ تر تنہائی میں کام کرنا پسند کرتا تھا۔ وہ دوپہر سے پہلے کبھی واپس نہیں آتا تھا۔ نینا بچیوں کے ساتھ ناشتہ کرتی اور جب سورج بلند ہوتا اور ماحول میں ذرا حدت آتی تو وہ تینوں لمبی سیر کے لئے نکل جاتیں۔ یہ سیر بچیوں کے لئے بڑی پرلطف اور مہم جوئی سے بھری ہوتی تھی۔ سب سے پہلے ان کے راستے میں مرغی خانہ آتا تھا جہاں کچھ دیر وہ مرغیوں سے کھیلتیں۔ جاری ہے
null
null
null
null
455
https://www.urduzone.net/kabhi-bhula-na-saki-teen-auratien-teen-kahaniyan/
والد صاحب گائوں سے کراچی اپنے ایک دیرینہ دوست کے کہنے پر شفٹ ہوئے تھے۔ ان کا نام ذکا تھا۔ ذکا صاحب بابا جان کے ساتھ پرائمری سے میٹرک تک گائوں کے اسکول میں زیر تعلیم رہے تھے۔ میٹرک کے بعد وہ اپنی اراضی فروخت کر کے والدین کے ساتھ کراچی چلے گئے جہاں ان کے والد نے کپڑے کا بزنس شروع کر دیا، وقت گزرتا رہا۔ ابو لاہور کالج سے فارغ التحصیل ہوکر گائوں لوٹ آئے۔ ان کی شادی گائوں میں چچا زاد سے ہو گئی، ذکا نے اس شادی میں شرکت کی تھی۔ ابو کی شادی میں ایک دور کی رشتہ دار لڑکی ان کو پسند آ گئی اور وہ خالہ فرخندہ کو میری والدہ کے توسط سے بیاہ کر لے گئے۔ جب تک خالہ فرخندہ زندہ رہیں، وہ جب گائوں آتیں امی سے ملنے ضرور آتیں، پہلوٹی کے بیٹے کو جنم دینے کے بعد ان کو بیماری نے جکڑ لیا اور وہ اپنے لختِ جگر سات سالہ خاورکو اس دنیا میں افسردہ چھوڑ کر چل بسیں۔ بیوی کی وفات کے بعد چار سال تک انکل ذکا نے دوسری شادی نہ کی۔ جب خاور کی عمر گیارہ برس ہو گئی تو اس کو پالنے والی بوڑھی انّا چل بسی جس کو انکل اپنے ساتھ گائوں سے خاور کی پرورش کے لئے لے گئے تھے۔ انّا کی وفات کا صدمہ بھی خاور بیچارے نے اسی طرح جھیلا، جس طرح ماں کی دائمی جدائی کا دکھ اسے سہنا پڑا تھا۔ ذکا انکل کی دوسری شادی ان کی بہن نے کروا دی۔ دوسری شادی کے بعد ذکا انکل نے گائوں آنا تقریباً چھوڑ دیا۔ ان کی نئی بیوی کا تعلق شہر سے تھا، لہٰذا وہ مکمل وہاں کے ہو رہے۔ والد صاحب سے بھی ملنا جلنا اور رابطے کم سے کم ہوتے گئے۔ انکل کا کاروبار وقت کے ساتھ ساتھ وسیع تر ہوتا جا رہا تھا۔ ان کو اب اپنے بزنس سے ہی فرصت نہ ملتی تھی تو دوستوں سے دوستی کیسے نباہتے۔ ابو نے پہلے لاہور میں بزنس کیا۔ پھر فیصل آباد گئے لیکن انہیں کاروبار کا کوئی زیادہ تجربہ نہ تھا۔ باپ دادا کے زمانے سے زمینداری کرتے چلے آ رہے تھے جو بزنس کرتے، ناکام ہوجاتے اور پیسہ برباد ہو جاتا۔ اتفاق سے ایک روز ان کی ملاقات فیصل آباد میں انکل ذکا سے ہو گئی۔ وہ کاروبار کے سلسلے میں کپڑے کے ایک مل اونر کے پاس آئے ہوئے تھے۔ مدت بعد دیرینہ دوست ملے تو والہانہ گلے سے لگ گئے کچھ مصروفیات اور مجبوریوں کا بیان اور کچھ گلے شکوے ہوئے اور پھر حال احوال کے بعد انکل نے بابا جان کو آفر کر دی کہ تم اہل و عیال سمیت کراچی شفٹ ہو جائو۔ میں تمہاری رہائش کا بندوبست کرتا ہوں، میرے بنگلے کے برابر والا مکان بھی میرا ہے۔ وہاں رہائش اختیار کرلینا، تمہیں پریشان ہونے کی ضرورت نہیں۔ تم میرے ساتھ کاروبار میں شریک ہوجائو۔ مجھے تمہارے جیسے قابل اعتماد اور مخلص پارٹنر کی ضرورت ہے، اکیلے اتنا بڑا بزنس نہیںسنبھال سکتا۔ بابا جان پہلے ہی پریشان تھے، جو کام کرتے ناکامی کا منہ دیکھنا پڑتا۔ سرمایہ الگ ضائع ہو جاتا ۔انہوں نے فوراً ہامی بھرلی۔ یوں ہم لوگ گائوں سے کراچی شفٹ ہو گئے۔ انکل ذکا نے ہمیں اپنا مکان رہائش کے لئے دے دیا۔ اس میں سہولت یہ تھی کہ ان کے گھر سے ہمارے گھر کی چار دیواری ملی ہوئی تھی، اتنے بڑے شہر میں بابا جان کو تنہائی کا احساس نہ ہوتا تھا۔ ایک ہفتہ کھانا انکل کے گھر سے آیا، پھر ہمارا کچن سیٹ ہو گیا، بابا جان نے انکل کا شکریہ ادا کرتے ہوئے معذرت کر لی کہ اب کھانا بھجوانے کا تکلف نہ کریں، میری بیوی خود پکا لے گی۔ پندرہ روز بعد امی جان انکل کے گھر گئیں تاکہ ان کی بیگم کا خود شکریہ ادا کریں، وہ ابھی تک ملنے ہمارے گھر نہیں آئی تھیں اور انکل نے وجہ یہ بتائی تھی کہ میری بیگم کی طبیعت ان دنوں کچھ ناساز ہے لہٰذا نہیں آسکتیں۔ امی نے پہلی بار خاور کو وہاں دیکھا۔ ایک پھول سا مگر مرجھایا ہوا، دبلا پتلا لڑکا، زرد اور سہما ہوا سا۔ وہ سمجھیں کہ ان کا گھریلو ملازم بچہ ہے اوپر کے کام کے لئے اکثر لوگ اتنی عمر کے لڑکے ملازم رکھ لیتے ہیں۔ وہ کام بھی ایسے ہی دوڑ دوڑ کر کر رہا تھا جیسے واقعی ملازم ہو۔ انکل کے دوسرے بچے تو حلیے اور لباس سے کسی سیٹھ کے بچے لگتے تھے مگر خاور کسی طور مالک کا فرزند معلوم نہ ہوتا تھا۔ والدہ کی ذکا کی بیوی سے یہ پہلی ملاقات تھی۔ خاتون کافی فیشن ایبل تھیں اور اپنے انداز سے اعلیٰ گھرانے کی لگتی تھیں۔ ان کو پوری طرح یہ احساس تھا کہ وہ امیر زادی ہیں اور امیر شوہر کی بیگم ہیں۔ دولت کبھی کبھی انسان کو ایسا نشہ دیتی ہے کہ وہ خدا اور اس کی خدائی کو بھول جاتا ہے اور بعض مرد بھی اپنی دوسری بیوی کے ایسے غلام ہو جاتے ہیں کہ پہلی بیوی کی اولاد کو اپنی اولاد سمجھنا چھوڑ دیتے ہیں۔ امی انکل کے گھر سے آئی تو حد درجہ افسردہ تھیں، بتایا کہ آج مرحومہ فرخندہ کے بیٹے خاور کو دیکھا۔ کاش نہ دیکھتی اس کے چہرے پر یتیمی اور بے چارگی برستی ہے۔ اس کا حلیہ اور حیثیت بھی افسوس کہ اپنے باپ کے گھر میں ایک ملازم جیسا ہے۔ وہ کسی طور کروڑ پتی باپ کا بیٹا نہیں لگتا۔ خدا جانے ذکا بھائی کو کیا ہو گیا ہے، ان کی حمیت اور غیرت مر گئی ہے۔ یا وہ تھے ہی اتنے سنگدل۔ لیکن سنگدل سے سنگدل باپ بھی اپنی سگی اولاد کے ساتھ ایسا سلوک نہیں کرتا۔ لگتا ہے کہ اس کی دوسری بیوی نے ان پر جادو کر دیا ہے کہ وہ اس کی الفت میں بالکل اندھے ہو گئے ہیں۔ ان کو اپنا معصوم بیٹا نظر ہی نہیں آتا حالانکہ بہت اچھے انسان ہیں۔ کئی فلاحی تنظیموں کو امداد ی رقوم دیتے ہیں لیکن ایسی نیکو کاری کا کیا فائدہ جب چراغ تلے ہی اندھیرا ہو۔ والد صاحب نے اپنی اراضی فروخت کر دی اور کاروبار میں انکل ذکا کے شریک کار ہو گئے۔ دونوں بچپن کے دوست تھے، بزنس میں بھی گاڑی ٹھیک چل پڑی۔ بابا جان کو یہاں آ کر فائدہ ہوا کہ بڑے شہر کی سہولتیں میسرآ گئیں، رزق کے در وا ہوئے۔ برکت خداوندی سے ہم پر خوشحالی مہربان ہوتی چلی گئی۔ میرے بہن بھائی شہر کے اچھے تعلیمی اداروں سے فیض حاصل کرنے لگے۔ ہم کو انکل ذکا کی ہم سائیگی راس آ گئی وہ ہر طرح سے ہمارا خیال رکھتے تھے لیکن سب سے بڑی تکلیف دہ بات خاور کے حالات تھے جس کی وجہ سے میں اور امی خاص طور پر متاثر تھے۔ اب خاور ہمارے گھر آجاتا۔ والدہ اس کو اپنے پاس بٹھا لیتیں، وہ اپنی مرحومہ ماں کے بارے سوالات کرتا۔ میری امی کیسی تھیں آپ کی رشتہ دار تھیں تو آپ کو ان کا بچپن بھی یاد ہو گا۔ امی اس کو اس کی ماں کے بارے میں بتاتیں تو اس کی بجھی بجھی آنکھوں میں چمک آ جاتی۔ وہ میری والدہ کو پہلے خالہ کہتا تھا پھر امی کہنے لگا، امی نے بھی اسے اپنا بیٹا بنا لیا۔ خاور ماں کے پیار کو ترسا ہوا تھا۔ گھر میں اس سے جو سلوک ہوتا تھا دیکھ کر ہماری آنکھوں میں آنسو آ جاتے تھے۔ وہ نہایت شریف، خوش اخلاق اور خوبصورت لڑکا تھا۔ جب امی سے پیار ملا تو اپنے دکھ سکھ ان کے ساتھ بانٹنے لگا۔ بتاتا تھا کہ اس کی سوتیلی ماں اور بہن بھائی اس پر بہت ظلم ڈھاتے ہیں۔ وہ سارا دن بھاگ بھاگ کر ان کے کام کرتا تھا اور رات کو ان لوگوں کا بچا کھچا کھانا کھا کر اپنے ہی گھر کے سرونٹ کوارٹر میں سو جاتا۔ باپ کی شکل تو اسے کبھی کبھی دیکھنی نصیب ہوتی تھی۔ وہ اگر بھولے سے بھی بیٹے کے سر پر ہاتھ پھیر دیتے تو سوتیلی ماں کا موڈ کئی کئی دن آف رہتا۔ تب وہ اس کی الٹی سیدھی شکایت شوہر سے کرتی تھی۔ خاور کبھی کبھی اپنے بدن کے نیل امی کو دکھایا کرتا تھا۔ کہتا اگر آج میری ماں یا سگی کوئی بہن ہوتی میرے دکھتے زخموں پر مرہم رکھتی۔ امی اس کی باتیں سن کر رو دیا کرتیں اور اس کے بدن کی سکائی کرتی تھیں۔ وہ بابا جان کو بھی بتاتی تھیں کہ خاور کا یہ حال ہے، تم ذکا بھائی کو کہو کہ اس پر توجہ دیں، آخر سگے بیٹے سے وہ کیوں ا تنی غفلت برتتے ہیں۔ والد جواب دیتے کہ یہ شخص اپنے کاروباری امور میں اتنا مصروف رہتا ہے کہ اسے سر کھجانے کی بھی فرصت نہیں ہے۔ بچوں کو ان کی ماں ہی دیکھتی ہے اور تمام گھریلو امور چلاتی ہے۔ ضرور بیوی سے باز پرس کرتا ہو گا لیکن بیوی با رسوخ خاندان کی ہے تبھی دبنا پڑتا ہے ایک بچے کی خاطر دیگر چار بچوں اور بیوی کو کیسے چھوڑ سکتا ہے۔ اپنے والد کے منہ سے ایسے الفاظ سن کر دکھ ہوتا، غالباً وہ کسی مصلحت کے تحت خاور کے لئے آواز اٹھانا نہیں چاہتے تھے، ہم جب وہ آتا پیار کرتے، گلے سے لگاتے اور حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ اکثر چپکے سے جیب میں کچھ رقم بھی ڈال دیتے تھے کہ اسکول کی کینٹین سے کچھ کھا لینا۔ امی اکثر کہتی تھیں کہ تم ہمارے پاس آ جائو رشتے کے بھانجے ہوتے ہو، ہم پر حق بنتا ہے تمہارا وہ جواب دیتا، ابو راضی نہ ہوں گے۔ میری وجہ سے آپ لوگوں سے بھی ان کے تعلقات خراب ہو جائیں گے اور امی تو کبھی یہ نہ چاہیں گی۔ میں یہاں رہوں گا تو ان کے کام کون بھاگ بھاگ کر کرے گا۔ اس کے لئے نوکر تو ہیں نا۔ میں کہتی تو جواب ملتا، ارے بہنا تم نہ سمجھو گی، نوکر بے شک ہیں مگر امی کے کام جیسے میںکرتا ہوں ویسے کوئی نہیں کرسکتا۔ جب وہ مجھے بہنا کہتا۔ انجانی سی خوشی کا احساس ہوتا تھا۔ ایک روز میں نے کہا، خاور تم سچ مچ کے بھائی بن جائو، یہ ایک مقدس رشتہ ہے۔ میرے بھائی تو مجھ سے لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں۔ مجھے تم جیسے امن پسند بھائی کی ضرورت ہے۔ میں آپ کا پکا بھائی ہوں بالکل سگے جیسا۔ اس نے خوش ہو کر کہا۔ دراصل میں اسے بہن کے رشتے کی خوشی دینا چاہتی تھی جو اس کی سو تیلی ماں اور سگے باپ کی بیٹیاں نہ دے سکی تھی۔ مجھے اس کے دکھی چہرے سے محبت ہو گئی تھی۔ اس کی پیار کے لئے ترستی آنکھوں اور تشنہ مسکراہٹوں میں میرے لئے انمول چاہت کا جذبہ موجزن رہتا تھا۔ ایک روز جب امی ڈاکٹر کے پاس گئی ہوئی تھیں کسی نے گیٹ پر بیل دی، میں نے پوچھا کون ہے، جواب ملا، بہنا میں ہوں خاور، اس کی آواز میں عجب سی لڑکھڑاہٹ اور عجلت تھی۔ میں نے گیٹ کھول دیا۔ وہ پلک جھپکتے ہی اندر آگیا اور گیٹ بند کردیا۔ اس کی حالت غیر تھی جیسے کسی نے اس کے چہرے پر لگا تار کئی تھپڑ مارے ہوں۔ چہرہ سرخ تھا اور ٹانگیں لڑکھڑا رہی تھیں۔ اس حالت میں دیکھ کر پریشان ہو گئی۔ خاور بھیا۔کیا ہوا ہے۔ کیا کسی نے مارا ہے۔ ہاں ابو نے مارا ہے۔ امی نے میری جھوٹی شکایت کی کہ میں نے ان کے ساتھ بدتمیزی کی ہے حالانکہ میں نے نہیں کی تھی۔ بس اسی قدر کہا تھا کہ مجھے پڑھنے دیں۔ بار بار آوازیں دیتی ہیں، پڑھنے سے اٹھاتی ہیں۔ میں پیپر کی تیاری نہیں کرسکتا۔ کل میرا پرچہ ہے۔ بس اس بات پر انہوں نے ابو سے ایسی شکایتیں لگائیں کہ ان کو غصہ آ گیا۔ انہیںکسی ضروری کام سے جانے کی جلدی تھی، مجھ سے کچھ پوچھا اور نہ سنا، منہ پر تھپڑ لگائے اور دھکا دیا تو میں زمین پر گر پڑا، بہت چوٹ آئی ہے۔ چلا نہیں جارہا تھا۔ وہ چلے گئے تو ادھر آ گیا امی کے پاس، ان سے کچھ کہنا ہے۔ امی سے جو کہنا ہے مجھ سے کہہ دو، وہ گھر پر نہیں ہیں۔ امی ڈاکٹر کے پاس گئی ہیں۔ مجھے کچھ رقم چاہیے۔ رقم کا کیا کرنا ہے تمہیں۔ اپنے استاد کے گھر جانا ہے۔ ان کو میں نے گھر کے سارے حالات بتائے ہوئے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اگر تمہیں گھر پر پڑھنے نہ دیا جائے تو میرے پاس آ جانا۔ سالانہ پرچے میں غفلت نہ کرنا، میں تمہاری تیاری کروا دوں گا اور تمہارے والد سے خود اجازت لے لوں گا۔ میں بس سر منیر کے پاس جانا چاہتا ہوں۔ گھر کہاں ہے ان کا۔ زیادہ دور نہیں ہے۔ ان کا فون نمبر ہے تمہارے پاس نہیں، لیکن تمہیں فون پر بتا دوں گا۔ ٹھیک ہے میں نے اپنے گھر کا فون نمبر اسے ایک پرچے پر لکھ کر دے دیا اور جتنی رقم اس نے کہی وہ بھی دے دی۔ وہ فوراً ہی رقم لے کر چلا گیا۔ معلوم ہوتا کہ رقم لے کر وہ غائب ہو جائے گا اور پھر کبھی گھر نہ لوٹے گا تو میں اسے ایک روپیہ بھی نہ دیتی، میں نے بغیر سوچے سمجھے اسے پیسے دے دیے کہ اس نے پہلی بار اپنی ضرورت کا اظہار کیا تھا۔ اس کے جانے کے بعد انکل ذکا کافی پریشان ہوئے۔ بہت ڈھونڈا خاور کو ملنا تھا نہ ملا۔ ابو امی کو میں نے کچھ نہ بتایا کہ کہیں ڈانٹ نہ پڑ جائے۔ جانتی تھی وہ جس حال میں آیا تھا اس نے گھر سے جانا ہی تھا۔ وہ گھر جہاں وہ رہتا تھا کسی ایک جہنم سے کم نہ تھا۔ انکل تلاش کر کے تھک گئے اور تھک کر خاموش بیٹھ گئے۔ ان کا اپنا کیا دھرا تھا ،کسی سے کیا گلہ کرتے۔ وقت گزرتا جاتا ہے، زخموں کو مندمل کرتا جاتا ہے۔ کہتے ہیں وقت گھائو بھر دیتا ہے۔ لیکن خاور کا گھائو میرے دل میں تازہ ہی رہا۔ وقت سے نہ بھر سکا، پچھتاوا ناسور بن گیا۔ ہر نماز کے بعد دعا کرتی تھی یا اللہ خاور جہاں ہو، اچھے حالات میں ہو، ٹھیک ہو، سلامت رہے، اس کو کوئی غم نہ ستائے۔ اے اللہ اس مسکین غریب بن ماں باپ کے بچے کو خوشیاں اور سکون دے دے۔ وہ وقت بھی آ گیا، جو ہر لڑکی کی زندگی میں آتا ہے۔ میرا رشتہ ایک بہت اچھے گھرانے سے آ گیا اور میں بیاہ کر سسرال آگئی۔ سال بعد میرے شوہر امریکہ چلے گئے اور تین سال بعد انہوں نے مجھے بلوا لیا ۔ شوہر انجینئر تھے۔ امریکہ میں اچھی ملازمت مل گئی۔ معقول رہائش کا انتظام بھی ہو گیا تو مجھے انہوں نے وہاں بلوا لیا تاکہ سکون کی زندگی بسر کر سکیں۔ ہمارا وطن جانا پانچ برس بعد ہو سکا۔ والد صاحب نے اپنا ذاتی مکان خرید لیا تھا۔ میرے پاکستان آتے ہی انہوں نے میری بہن اور بھائی کی شادیاں طے کر دیں کہ میں بھی شریک ہو سکوں۔ بہن کی شادی غیروں میں ہوئی اور بھائی کی دلہن امی گائوں سے لائی تھیں۔ بھابھی ہماری خالہ زاد بہن تھیں۔ بھابھی نے ہی بتایا کہ سالانہ پیپرز دینے کے بعد خاور گائوں آیا تھا۔ باپ کا گھر چھوڑنے کے بعد وہ اپنی خالہ سے ملنے گیا تھا جو فرخندہ کی سگی بہن تھی۔ اس نے بڑی سختی سے منع کیا تھا کہ کسی کو اس کے آنے کا نہ بتائے۔ وہ صرف ایک رات گائوں میں رہ کر دوسرے روز صبح ہی واپس شہر چلا گیا۔ اپنی خالہ کو بتا دیا تھا کہ اب وہ کبھی باپ کے گھر لو ٹ کر نہ جائے گا۔ اس کے استاد نے اس کی ہر طرح مدد کی ہے۔ اور اسے وہی پڑھائے گا لیکن کراچی میں نہیں بلکہ اسلام آباد میںجہاں سر منیر کی ماں اور بھائی رہتے تھے۔ بھائی ان کا یونی ورسٹی میں پروفیسر تھا، بعد میںخاور کو انہی لوگوں نے پڑھنے کے لئے بیرون ملک بھیجا تھا اور استاد صاحب کی بیٹی سے خاور کی شادی ہو گئی۔ یہ حالات جان کر میں نے سوچا اے کاش کہ مجھے علم ہو جائے خاور امریکہ میں کہاں رہتا ہے۔ اس نے مجھے نہیں بتایا تھا تو اللہ تعالیٰ اس مقدس رشتے کے واسطے سے اس زندگی میں ہماری ملاقات بھی کروا دے۔ کہتے ہیں دل سے نکلی دعا ضرور قبول ہو تی ہے۔ میری دعا بھی قبول ہو گئی۔ امریکہ آئے دس برس گزر چکے تھے۔ ایک روز میں ایک شاپنگ مال میں کچھ اشیائے صرف خرید رہی تھی کہ اچانک وہاں ایک کائونٹر پر خاور نظر آ گیا۔ وہ کافی بدل چکا تھا۔ پہلے تو پہچان نہ سکی کہ ایک دبلا پتلا لڑکا اب صحت مند ادھیڑ عمر شخص کے روپ میں ملا تھا۔ میرے بچے اور شوہر بھی ہمراہ تھے۔ جب ذہن پر زور دیا تو دوڑی ہوئی اس کی طرف گئی اور کہا آپ خاور بھائی ہی ہیں نا۔ وہ لمحہ بھر کو ٹھٹکا پھر خوشی سے جیسے اس کا چہرہ گلنار ہو گیا۔ ہاں میں بے اختیار وہ بھی میری طرف بڑھا۔ تب میرے پیچھے آتے شوہر کو دیکھ کر اس نے خود کو روکا اور کہا۔ میری بہنا، تمہیں آج اپنے سامنے دیکھ کر اپنی آنکھوں پر یقین نہیں آ رہا کہ یہ تم ہی ہو۔ کتنی بدل گئی ہو آفرین۔ ہاں بھیا تم بھی تو بدل گئے ہو، دراصل وقت ہر ایک شے کو بدل دیتا ہے۔ ہاں مگر محبت کے سوا۔ میری بہن میرے ساتھ گھر چلو۔ تبھی اس نے میرے شوہر کی طرف دیکھا جو بت کی مانند ساکت ہمیں محوِ گفتگو دیکھ رہے تھے۔ اوہ میں تو تعارف کروانا ہی بھول گئی۔ یہ میرے شریکِ زندگی ہیں نصیر بختیار اور یہ میرا بھائی ہے خاور جو مدتوں بعد ملا ہے۔ نہ جانے کہاں کھو گیا تھا۔ میں ابھی تک جذباتی ہو رہی تھی لیکن نصیر نے پتھریلے چہرے کے ساتھ سرد مہری سے اس کے بڑھے ہوئے ہاتھ سے مصافحہ کیا تو میں اور وہ دونوں سمجھ گئے کہ میرے شوہر کو میرا اس کے ساتھ یوں والہانہ انداز سے بات کرنا اچھا نہیں لگا ہے۔ تبھی خاور نے ہمیں یہ کہہ کر خدا حافظ کہا۔ اچھا بہنا پھر ملیں گے۔ لیکن اس کے بعد ہم پھر کبھی نہ ملے۔ اس نے جو کارڈ میرے شوہر کو تھمایا تھا۔ وہ انہوں نے لاپروائی سے جانے کہاں گرا دیا۔ میرے اصرار کرنے پر بولے۔ میری عزیز از جان شریک حیات بہن بھائی صرف سگے ہوتے ہیں، باقی رشتوں کو دنیا داری کی خاطر نباہنا پڑتا ہے لیکن ہمیں اب اتنی فرصت کہاں ہے کہ یہ رشتے نباہ سکیں۔ خاور صاحب کو جیسے پہلے بھلا دیا تھا اب بھی بھول جائو۔ اتنے بڑے امریکہ میں ہم اب اس کو کیسے ڈھونڈ پائیں گے۔ میں ان کا مطلب سمجھ گئی، تاہم یہ انہیں نہ کہہ سکی کہ میرے جیون ساتھی میں کبھی خاور کو نہیں بھلا سکتی۔ اس کو سچے دل سے بھائی بنایا تھا۔ زندگی نے پھر کبھی ملا دیا وہ میرا بھائی ہی ہو گا اور بھائی ہی رہے گا۔ ک۔ ا امریکہ
null
null
null
null
456
https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-30/
مسعود کی پرورش نیک والدین کے سائے میں ہوئی تھی لیکن بری صحبت نے اسے جوئے اور سٹے تک پہنچا دیا اور وہ دولت کے آسان حصول کی طرف مائل ہوگیا۔ یہی لالچ اتفاقاً اسے کالے جادو کے ماہر بھوریا چرن تک لے گیا۔ بھوریا چرن نے اسے اپنا آلۂ کار بننے کی پیشکش کی لیکن مسعود کو بروقت عقل آگئی اور اس نے کسی بھی شیطانی عمل کا حصہ بننے سے انکار کردیا۔ مسعود کے انکار پر بھوریا چرن اس کا بدترین دشمن بن گیا۔ اس نے مسعود کو در در بھٹکنے پر مجبور کردیا۔ یہی نہیں بلکہ وہ ذہنی اور جسمانی صحت سے بھی محروم ہوگیا۔ اسے کہیں بھی جائے پناہ میسر نہیں تھی۔ نت نئی مشکلات سے نبرد آزما ہوتے ہوئے اس کی ملاقات ایک بزرگ بابا فضل سے ہوئی، انہوں نے نہ صرف بھوریا چرن کے شر سے اس کی حفاظت کی بلکہ اسے روحانی طاقت سے بھی نوازا۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے مسعود کو خلق خدا کے کام آنے کی ہدایت کی تھی۔ مسعود نے ان کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے کئی لوگوں کی مشکلات حل کرنے میں ان کی مدد کی۔ اسی دوران اسے اپنے ماموں ریاض سے ملاقات کی امید نظر آئی تو وہ ان کی تلاش میں لگ گیا۔ اسے اپنے والدین، بہن بھائی اور ماموں کی بہت یاد آتی تھی لہٰذا وہ ہر صورت ان سے ملنا چاہتا تھا۔ اسی جستجو میں وہ ایک ویران حویلی تک جا پہنچا۔ یہ دراصل بھوریا چرن کا بچھایا ہوا جال تھا جس میں وہ گرفتار ہوگیا تھا۔ یہاں اس نے پانی کے دھوکے میں غلیظ خون پی کر اپنے وجود میں نجاست اتار لی۔ اس نے دریا میں چھلانگ لگا کر اپنی زندگی کا خاتمہ کرنا چاہا لیکن کچھ لوگوں نے اس کی جان بچالی۔ بھوریا چرن مسلسل اس کے تعاقب میں تھا۔ وہ مسعود کو پریشان کرنے کیلئے کبھی اپسرائوں کے روپ میں حسین عورتوں کو اس کے پاس بھیجتا تو کبھی عجیب الخلقت لوگوں کا ایک ہجوم اس کے پیچھے لگادیتا جو دراصل اس کے بیر تھے۔ مسعود کو ان بیروں سے گلوخلاصی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی تھی جو اپنے آپ کو اس کا خادم کہتے تھے۔ وہ بے مقصد ادھر ادھر بھٹکتا پھر رہا تھا کہ ایک جوہڑ کے کنارے پہنچ کر اسے یاد آیا کہ بھوریا چرن نے ایک بار اس کی مدد کرنے والے سفلی علم کے ایک ماہر رامانندی کو بوتل میں بند کرکے اسی جوہڑ میں پھینک دیا تھا۔ مسعود نے انہی بیروں کی مدد سے وہ بوتل نکلوائی اور رامانندی کو آزاد کردیا۔ راما نندی مسعود کا بے حد شکرگزار ہوا، دونوں میں بہت سی باتیں ہوئیں اور پھر وہ چلتے چلتے ایک بستی تک جا پہنچے۔ یہاں ایک مسجد دیکھ کر مسعود نماز ادا کرنے کیلئے اندر جانا چاہتا تھا کہ رامانندی نے اسے روک لیا کہ چونکہ اب وہ پاک صاف نہیں اس لئے اندر نہ جائے۔ مسعود نے ناچار اس کی بات مان لی اور ایک باہر درخت کے سائے میں سجدے میں گرگیا۔ راہ گیر اسے دیکھ کر حیران تھے، بالآخر ایک شخص نے تعجب سے سوال کر ہی دیا کہ وہ مسجد کو چھوڑ کر باہر نماز کیوں پڑھ رہا تھا۔ اب آپ آگے پڑھیے میں نے تھوک نگل کر ادھر ادھر دیکھا کیا جواب دیتا اس بات کا لیکن گردن گھمائی تو ایک انوکھا منظر دیکھا۔ رامانندی بھی سجدے میں پڑا ہوا تھا۔ میں ششدر رہ گیا۔ تب ایک لزرتی ہوئی بوڑھی آواز بھری۔ آپ لوگ چلیں ہم پوچھ لیں گے۔ مسافر معلوم ہوتے ہیں امام صاحب ہوسکتا ہے لباس صاف نہ ہوں اس لیے اندر نہ آئے ہوں۔ اگر ایسا ہے تو اس کے گھر کے اس احترام کا جذبہ وہ قبول کرے۔ میاں انہیں اٹھائو، سجدے اتنے طویل مناسب نہیں ہوتے۔ میں نے حکم دینے والے کو دیکھا تقریباً اسی سال کی عمر کے سفید ریش انسان تھے۔ بھنوئوں کے بال بھی سفید تھے ڈھیلے سفید چغے اور عمامے میں ملبوس تھے۔ میں رامانندی کے قریب پہنچا اور اسے جھنجھوڑنے لگا۔ وہ اٹھ کر بیٹھ گیا۔ حالانکہ اچھا خاصا اندھیرا پھیل گیا تھا۔ مگر رامانندی کی سجدہ گاہ بھیگی ہوئی نظر آرہی تھی اس کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی تھیں۔ میری عقل چکرا گئی۔ رامانندی کو کیا ہوگیا۔ اسی وقت نمازیوں میں سے کسی کی آواز سنائی دی۔ مسافروں کے لیے کھانا لے آئوں امام صاحب نہیں میاں خانہ خدا کے مہمان ہیں۔ اس کے ہاں کیا کمی ہے۔ آپ کا بے حد شکریہ۔ گھر میں جو پکا ہے ان کے سامنے رکھ دوں گا۔ لوگ معلوم کرکے چلے گئے۔ امام صاحب ہمارے قریب ہی زمین پر بیٹھ گئے۔ وہ بغور ہمارا جائزہ لے رہے تھے پھر انہوں نے کہا۔ جو کچھ پوچھوں گا تفسیر احوال کیلئے پوچھوں گا۔ جس بات کا جواب دینا ناپسند ہو نہ دینا برا نہیں مانوں گامگر جھوٹ نہ بولنا۔ خانہ خدا کے سامنے ہو۔ نہیں امام صاحب آپ کچھ نہ پوچھیں جواب نہ دے سکیں گے۔ خدائے قدوس کی قسم بغرض تجسس نہیں انسان سے محبت مجبور کررہی ہے۔ کہ تم سے احوال دریافت کروں۔ عمر میں تم سے کہیں زیادہ ہوں۔ بزرگوں کا کہنا ہے کہ کسی مشکل میں مشورہ کرلینا ضروری ہے حل نکل آتا ہے۔ مجھے بتائو بچو حلیے سے مشکل کا شکار معلوم ہوتے ہو کیا بات ہے ہماری داستان طویل ہے۔ عشا تک فراغت ہے مجھے بتائو کیا پریشانی ہے تمہارے نام کیا ہیں۔ میرا نام مسعود احمد ہے اور ان کا رامانندی ہے۔ رامانندی امام صاحب نے سرگوشی کے انداز میں کہا اور پھر گہری نظروں سے رامانندی کو دیکھا پھر بولے۔ جیل سے فرار ہوئے ہو نہیں رامانندی نے جلدی سے کہا۔ کسی قانونی مشکل میں ہو نہیں۔ رامانندی ہی بولا۔ الحمدللہ پھر احوال کہو۔ تم بتائو میاں خاموش کیوں ہو پہلے تم اپنے بارے میں بتائو۔ زبان کھل گئی۔ میں نے اول سے آخر تک داستان امام صاحب کو سنادی اس میں رامانندی کا پورا ذکر بھی آگیا تھا۔ امام صاحب خاموشی سے سنتے رہے تھے۔ میرے خاموش ہونے کے بعد بھی وہ دیر تک خاموش رہے تھے۔ پھر وہ رامانندی سے مخاطب ہوکر بولے۔ عزیزی تمہاری داستان تو معلوم ہوگئی۔ مگر تم سجدے میں کیوں پڑے ہوئے تھے۔ تم کسے سجدہ کررہے تھے ارے جس کی آواز مجھے سنائی دے رہی تھی۔ وہ جس کا کہا آپ بول رہے تھے۔ میں اسے سجدہ کررہا تھا۔ میرے گناہوں نے بھگوان سے تو میرا رشتہ توڑ دیا امام جی مگر میں اس کی پناہ میں آنا چاہتا ہوں جس کی باتیں آپ لوگوں کو سنا رہے تھے۔ میں کالے دھرم سے نکل کر اس کے سائے میں آنا چاہتا ہو۔ رامانندی نے روتے ہوئے کہا۔ اور امام صاحب اٹھ کھڑے ہوئے۔ آئو انہوں نے کہا رامانندی سہما سہما کھڑا ہوگیا تھا میں بھی اٹھ کھڑا ہوا تو امام صاحب نے مڑ کر کہا۔ نہیں تم یہاں رکو تمہیں یہیں رکنا ہوگا۔ مسعود میاں جانا نہیں یہاں سے بہت سی باتیں کرنی ہیں تم سے تاکید کرتا ہوں۔ یہ ناآشنا ہے کہتا ہے بھگوان سے اس کا رشتہ ٹوٹ گیا ہے ارے بائولے نام بدل لینے سے کچھ نہیں ہوتا افکار نہیں بدلنے چاہئیں وہیں سے کفر کی سرحدیں شروع ہوتی ہیں افکار بدل کر نام بدلو تو بری بات ہے سچ کو کچھ بھی کہہ لو سچ رہتا ہے آئو۔ انہوں نے رامانندی کا ہاتھ پکڑا اور اسے مسجد میں لے گئے۔ میں ڈبڈبائی آنکھوں سے ان دونوں کو دیکھتا رہا اندازہ ہورہا تھا اپنے بارے میں اندازہ ہورہا تھا وہ لامذہب مجھ سے بہتر ہے وہ اندر جاسکتا ہے اور میں وہیں سر جھکائے بیٹھا رہا۔ بہت دیر گزر گئی۔ رات ہوگئی پھر وہ واپس آگئے۔ میں نے مسجد سے آنے والی مدھم روشنی میں دیکھا رامانندی کا لباس بدل گیا تھا۔ اس نے شاید امام صاحب کے کپڑے پہنے ہوئے تھے اس کے ہاتھوں میں کھانے کے برتن تھے۔ کھانا کھالو مسعود میاں۔ امام صاحب بولے اور میں نے رامانندی کو بغور دیکھا۔ امام صاحب مسکراکر بولے ہم نے ان کا نام سرفراز رکھا ہے خدا کے فضل سے یہ مشرف بہ اسلام ہوگئے ہیں۔ اوہ اور میں کھانا کھالو۔ میرا کیا تعین ہے امام صاحب کھانے کے بعد پوچھ لینا نہیں میں آپ کا یہ حکم نہیں مان سکوں گا۔ میں نے قطعی لہجے میں کہا۔ سنو، ناآگہی کی معافی ہے اور جو آشنا ہوتے ہیں ان پر امانتوں کا بوجھ ہوتا ہے اس نے ہندو گھرانے میں جنم لیا اور وہی سیکھا جو دیکھاتھا تم نے بھی وہی سیکھا جو دیکھا تھا اور تمہارا دیکھا وہ تھا جو مکمل تھا۔ تمہارا سنا وہ تھا جو حقیقت تھا۔ فرق صرف آشنا نا آشنا کا ہوا۔ مساجد میں عالم دین کتابوں میں وہ بتاتے ہیں جو نجات کی سمت تعین کرتا ہے اور جان کر بھٹکنا بدترین ہے۔ تم نے ملے سے منہ موڑا، بار بار ایک بار نہیں جب تم اس پر بھروسہ کرتے تھے تو خود قدم کیوں بڑھائے تمہیں تو سمت دی گئی تھی اور وہی سمت تمہیں آگے لے جارہی تھی رخ بدل لیا تم نے کوئی کیا کرے۔ بار بار رخ بدلتے ہو۔ اب انتظار کرو اپنی طرف چلنے والی ہوائوں کا۔ ہوا کے صحیح رخ کا اندازہ ہوجائے تو اس سمت چل پڑنا۔ گویا اب میں تنہا ہوں میں نے پوچھا۔ نہیں تمہارے ساتھ توبہ ہے۔ سانسوں کی آخری حد تک۔ موت کے ہوش چھین لینے سے پہلے تک۔ اور میں صرف اتنا کہتا ہوں کہ تمہیں مایوسی نہیں ہوگی۔ ہاں قبولیت تک انتظار کرنا ہوگا۔ میں سکوت کے عالم میں کھڑا رہا۔ پھر میں نے آہستہ سے کہا۔ شکریہ میں چلتا ہوں۔ کہاں پتہ نہیں کھانا نہیں کھائو گے نہیں۔ کیوں یہ برتن گندے ہوجائیں گے۔ ہم انہیں دوبارہ استعمال نہیں کریں گے۔ میں یہ نقصان نہیں کرنا چاہتا میں نے کہا اور امام صاحب خاموش ہوگئے میں پلٹا تو رامانندی بے قرار ہوکر بولا۔ ایک منٹ مسعود ایک منٹ، میں امام صاحب سے اجازت لے لوں۔ امام صاحب میرے لیے کیا حکم ہے اللہ کے احکامات کی تعمیل کرنا بس اس کے سوا کچھ نہیں۔ امام صاحب نے کہا اور کھانے کے برتن واپس لے کر اندر چلے گئے۔ میں نے رامانندی سے کہا۔ راما وہ معاف کرنا سرفراز تمہارا میرے ساتھ چلنا اب مناسب نہیں ہوگا ہم اسے عطیہ الٰہی کہتے ہیں تمہیں جو عطا ہوا وہ بہت قیمتی ہے۔ بہتر ہے کہ امام صاحب کے ساتھ کچھ عرصہ قیام کرکے دینی معلومات حاصل کرو وہ گریز نہیں کریں گے۔ آئو رامانندی نے کہا اور میرا بازو پکڑ کر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ میں ہچکچایا تو اس نے میرے بازو پر گرفت مضبوط کرلی اور پھر مجھے ساتھ لے کر چل پڑا۔ رخ بستی کی طرف تھا۔ کافی دور چلنے کے بعد اس نے کہا تمہیں چھوڑ دوں گا میں۔ ابھی تو میرے اور تمہارے درمیان نیا رشتہ قائم ہوئے دیر بھی نہیں ہوئی۔ نہیں رامانندی بڑا دلچسپ واقعہ ہوگیا ہے۔ میں نے بے اختیار مسکراتے ہوئے کہا۔ کیا ایک مصرع ہے کہیں سنا تھا۔ اس وقت بالکل فٹ بیٹھتا ہے۔ میں ہوا کافر تو وہ کافر مسلماں ہوگیا۔ خدا نہ کرے تم کافر کیسے ہوگئے۔ اب بھی یہ سوال کررہے ہو۔ امام صاحب نے مجھے مسجد میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دی۔ وہ برتن جن میں میں کھانا کھائوں گا ناقابل استعمال ہوجائیں گے۔ سب ٹھیک ہوجائے گا مسعود سب ٹھیک ہوجائے گا۔ پتہ نہیں کیسے ٹھیک ہوجائے گا۔ دین کی بات ہے میں نہیں بول سکتا مگر دماغ کچھ الجھتا ہے میں نے تو وہ سارے کرم کیے تھے جن سے کالا جادو آتا ہے گندے اور غلیظ عمل صحیح معنوں میں تو پاک میں ہوں جبکہ تم نے نہ کالا جادو کیا اور نہ اس کی خواہش کی۔ میں کیسے پاک ہوگیا نہیں میں امام صاحب کی بات سے متفق ہوں۔ گناہ کبیرہ، اور گناہ صغیرہ کا فرق ہے باریک نکتے ہیں کوئی عالم ہی سمجھا سکتا ہے مجھے جگہ جگہ اپنی غلطیوں کی گواہی ملتی ہے بابافضل نے مجھے کچھ نصیحتیں کی تھیں انہوں نے کہا تھا کہ عمل کا ایک راستہ ہوتا ہے۔ تمہارے نفس کی خواہش تحریک شیطانی ہوتی ہے اس سے بچنا۔ محبتوں کے جال میں پھنس کر فرض کو نہ بھولنا۔ مجھے ایک کراماتی کمبل ملا تھا جسے مجھے ہر وقت ساتھ رکھنا تھا مگر رشتوں کے جال میں پھنس کر ہی اسے چھوڑ کر چلا گیا اور کمبل گم ہوگیا۔ میں نے اپنی طاقت کے زعم میں کچھ ایسے عمل بھی کئے جن کے بارے میں یہ اندازہ نہیں کرسکا کہ وہ شیطان کے بچھائے ہوئے جال ہیں۔ مجھ سے ایسی غلطیاں بار بار ہوئی ہیں۔ امام صاحب نے تمہیں توبہ کرنے کے لیے کہا ہے۔ ہاں کروں گا مگر قبولیت کا وقت نہ جانے کونسا ہوگا تم جس رشتے کی بات کررہے ہو افسوس وہ قائم نہیں ہوسکا۔ کیوں اس نے پوچھا۔ اب اور کیسے سمجھائوں۔ بتا تو چکا میں نے کہا۔ یعنی دین کا رشتہ ہاں۔ میں اس رشتے کی بات کہاں کررہا ہوں۔ تو پھر میں نے اسے تعجب سے دیکھا۔ اوہ نہیں میرے بھیا ماں کا رشتہ قائم ہوا ہے میرے اور تیرے درمیان میں نے ماں سے کہا تھا کہ اپنے دوسرے بیٹے کے لیے بھی ہاتھ اٹھالے اس نے ضرور میرے لیے دعا کی ہوگی اور دیکھ لے مسعود مجھے ماں کی دعا سے کیا مل گیا۔ کل ماں نے مجھ سے بھیا کے بارے میں پوچھا تو کیا جواب دوں اسے۔ میں خاموش ہوگیا ہم بستی میں داخل ہوگئے۔ بازار کھلے ہوئے تھے ایک نانبائی کی دکان پر بیٹھ کر اس نے کھانا طلب کیا اور سرگوشی میں مجھ سے بولا۔ تمہیں میری قسم مسعود خاموش رہنا۔ میں نے خاموشی سے کھانا کھالیا تھا اپنی کیفیت کا خود اندازہ نہیں کرپارہا تھا کیا ہورہا ہے مجھے شکایت ہے بغاوت ہے صدمہ ہے نہ جانے کیا ہے نہ جانے اس وقت میری سوچ کیا ہے۔ اب بستی چھوڑ دیں کیا خیال ہے رامانندی بولا۔ نہ جانے کون سی بستی ہے۔ کوئی بھی ہو کیا فرق پڑتا ہے ریلوے اسٹیشن کا پتہ پوچھے لیتے ہیں کہیں بھی نکل چلیں گے۔ تھکن ہوگئی ہے۔ رات گزار لیں کل چلیں گے۔ ضرور ٹھیک ہے وہ سامنے پیپل کا درخت ہے اس کے نیچے چبوترہ بنا ہوا ہے رات گزارنے کے لیے بہترین جگہ ہے۔ ہم دونوں چبوترے پر جا لیٹے پیپل کی جڑ میں ایک مجسمہ رکھا ہوا تھا جس کے پاس مٹھائی کے دونے پڑے ہوئے تھے رامانندی نے مجھے بتایا یہ گوبر دھن پوجا کا سامان ہے صبح جلدی اٹھ جائیں گے یہاں سے ہوسکتا ہے ہندوئوں کو اعتراض ہو۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا تھا۔ تم اب تک الجھے ہوئے ہو ٹھیک ہوجائوں گا کوشش کرکے سوجائو نیند سکون دے گی۔ ہاں میں نے کہا سر کے نیچے ایک اینٹ رکھی اور کروٹ بدل لی۔ کافی دیر خاموش رہنے کے بعد میں نے کہا۔ سوگئے نندی یار مجھے سرفراز کہو سوگئے سرفراز کیا بھوریا چرن کو ان حالات کے بارے میں معلوم ہوگا ہوسکتا ہے اس پر کیا اثر ہوگا اللہ جانتا ہے مجھے اب بالکل پروا نہیں ہے بڑا سکون ملا ہے مجھے مسعود بیان نہیں کرسکتا بھوریاچرن کا پدم معلوم ہے تمہیں یہ کیا ہوتا ہے شناختی نشان مکڑی میں نے پوچھا۔ ہاں جہاں مکڑی دیکھ لو ہوشیار رہنا۔ اس کے بیراسی شکل میں ہوتے ہیں۔ ہاں میرا واسطہ پڑچکا ہے۔ میں نے ٹھنڈی سانس لے کر کہا اور پھر خاموش ہوگیا۔ آنکھوں میں غنودگی تیرنے لگی تھی۔ میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر نیند بھگانے لگا۔ سوگیا تو اپنے مقصد میں کامیاب نہیں ہو سکوں گا رامانندی کی گہری گہری سانسیں سنائی دے رہی تھیں۔ کچھ دیر کے بعد میں اٹھا رامانندی کو ایک نگاہ دیکھا اور پھر بلی کی طرح دبے قدموں وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ بستی کے بارے میں مجھے کچھ نہیں معلوم تھا۔ بس منہ اٹھا کر چل پڑا تھا اور رفتار تیز رکھی تھی تاکہ رامانندی مجھے تلاش نہ کرے۔ میں اس کے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا۔ سڑکوں اور گلیوں میں کتے بھونک رہے تھے۔ بستی کے آخری سرے پر پہنچا تھا کہ سیاہ رنگ کا ایک قد آور کتا مجھ پر جھپٹ پڑا۔ بہت خونخوار کتا تھا اور بہت غصہ ور معلوم ہوتا تھا اچانک ہی غراکر حملہ آور ہوا تھا میں بوکھلا گیا۔ قریب تھا کہ کتا میری ٹانگ پکڑلے لیکن اچانک ہی کسی نے اسے پیچھے سے پکڑ کر گھسیٹ لیا۔ اور پھر اس کی بھیانک چیخیں ابھرنے لگیں۔ میں نے اسے درمیان سے دو ٹکڑے ہوتے ہوئے دیکھا۔ اس کی دونوں ٹانگیں چیر دی گئی تھیں پھر اس کے جسم کی چندھیاں چندھیاں کرکے پھینک دی گئیں۔ اور مجھے سمجھنے میں دیر نہیں لگی کہ وہ میرے بیر تھے میرے محافظ بڑا شاک لگا تھا یہ کالی قوتیں مسلسل میرا ساتھ دے رہی تھیں اور دوسری طرف کچھ نہیں تھا۔ ادھر میں صرف ملعون و مطعون تھا۔ اچانک سارے بیر ظاہر ہوگئے۔ پورنا کی جے کوئی حکم ایک نے آگے بڑھ کر کہا میری رگیں کھینچنے لگیں۔ دماغ میں خون کی گردش تیز ہوگئی اعصاب چٹخنے لگے۔ بمشکل تمام میرے منہ سے نکلا۔ نہیں۔ سواری کورتھ لادیں نہیں تم جائو روپوش ہوجائو۔ جے پورنا وہ سب غائب ہوگئے۔ میں کچھ دیر کھڑا حواس درست کرتا رہا پھر کیفیت کچھ تیز ہوئی تو برق رفتاری سے چلتا وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ رفتار ہیجان کے عالم میں پہلے سے زیادہ تیز ہوگئی تھی بستی پیچھے رہ گئی آگے جنگل کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ میں تاریکی میں ٹھوکریں کھاتا آگے بڑھتا رہا۔ راستے کا کوئی علم نہیں تھا۔ بس قدم اٹھ رہے تھے جنگل ختم ہوگیا میدان نظر آنے لگے اکا دکا خودرد درخت آجاتے تھے۔ چلتا رہا بہت دیر کے بعد کہیں دور سے گڑگڑاہٹ سنائی دی اور پھر ایک تیز روشنی جس کے عقب میں ننھی ننھی روشنیاں ٹمٹماتی گزر رہی تھیں ریل تھی جو کچھ دیر کے بعد آنکھوں سے اوجھل ہوگئی۔ چلتے چلتے تھک گیا تھا رات ابھی خاصی باقی تھی۔ جگہ کیا تلاش کرتا جہاں تھا وہیں بیٹھ گیا تھکن کے مارے برا حال ہورہا تھا نیند کے جھونکے بھی آرہے تھے چنانچہ لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں اور سونے کی کوشش کرنے لگا۔ دماغ کو آزاد چھوڑ دیا تھا اس لیے نیند آنے میں دقت نہ ہوئی اور سکون کی وادیوں میں پہنچ گیا۔ صبح کو پرندوں کی چہچہاہٹ اور جنگلی خرگوشوں کی بھاگ دوڑ سے آنکھ کھل گئی۔ جاگنے کے بعد آس پاس کے مناظر دیکھے بس وہی ویرانہ جو میری تقدیر کی مانند تھا۔ تاحد نگاہ کچھ نظر نہیں آتا تھا سوائے ٹیلی فون کے تاروں کے ان کھمبوں کے جو فاصلے فاصلے سے لگے ہوئے تھے اور ان کے بیچ تاروں کا رابطہ تھا۔ پتہ نہیں آبادی کتنے فاصلے پر ہے لیکن یہ کھمبے کسی آبادی کی جانب میری رہنمائی کرسکتے ہیں اٹھا تو چکر سا آگیا۔ احساس ہوا کہ بھوک اور پیاس نے نڈھال کر رکھا ہے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر سرد آہ بھر کے رہ گیا۔ بھلا اس بے آب و گیاہ ویرانے میں کھانے کا کیا تصور ہوسکتا ہے قدرتی طور پر بھی یہاں کچھ نہیں تھا۔ بس جگہ جگہ بدنما جھاڑیاں اگی نظر آرہی تھیں کہیں کہیں بڑے بڑے جھاڑ تھے جو بعض جگہ خاصے علاقے میں پھیلے ہوئے تھے یہی فیصلہ کیا میں نے کہ ان تاروں کو دیکھتا ہوا آگے بڑھتا رہوں۔ پیٹ میں چوہے دوڑ رہے تھے حلق خشک ہونے لگا لیکن بے کار تھا سب کچھ بے کار تقریباً سو گز کے فاصلے پر ایک جھاڑ اگا ہوا تھا اس کے پیچھے سے گزر کر دوسری سمت پہنچا تو آنکھیں شدت حیرت سے پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ ایک دری بچھی ہوئی تھی جس پر سفید چادر بچھی تھی چادر کے کونے وزنی پتھروں سے دبے ہوئے تھے۔ درمیان میں پھل خشک میوے اور گوشت کے بھنے ہوئے ٹکڑے رکھے ہوئے تھے میں ساکت رہ گیا دور دور تک نظریں دواڑئیں لیکن کیا مجال کہ کسی انسانی وجود کا احساس بھی ہوجائے۔ ساری چیزیں تروتازہ تھی اور اعضا چیخ رہے تھے کہ لپک اور شکم سیر ہوجا لیکن یہ سب آیا کہاں سے دوسرے لمحے اندر سے مایوسی کی ایک گھٹی سانس نکلی اور یاد کرنے پر یاد آیا کہ یہ سب کہاں سے آسکتا ہے بھوکا پیاسا تھا میری خواہش کو میرے بیروں سے زیادہ اور کون جان سکتا تھا ذرا سی دیر کے لئے ذہن کی کیفیت ڈانوں ڈول ہوئی اور دل نے کہا کہ پیٹ جو طلب کررہا ہے اسے نظرانداز مت کر ساری باتیں اس کے بعد شروع ہوتی ہیں چنانچہ پہلے اس مسئلے سے نمٹاجائے اور اس کے بعد سوچا جائے کہ آگے کیا کرنا ہے دو قدم آگے بڑھا تو کانوں میں آواز ابھری کہ توبہ تیرے ساتھ ہے تو تنہا نہیں ہے۔ توبہ کے دروازے اس لمحے تک کھلے رہیں گے جس لمحے تک تیری سانس تیرے بدن میں ہوگی۔ آگے بڑھتے ہوئے قدم رک گئے۔ میں نے آنکھیں بند کرلیں اور اس کے بعد رخ تبدیل کرلیا تیز رفتاری سے وہاں سے دور نکل آیا۔ کافی دور جانے کے بعد جب ایک پتھر سے ٹھوکر لگی تو ایک دم سے آنکھیں کھول کر دیکھا وہ پتھر نہیں تھا بلکہ ایک بڑا سا برتن تھا جس میں کھانے پینے کی اشیا رکھی ہوئی تھیں۔ میں نے پلٹ کر حیرانی سے اسی جھاڑ کو دیکھا اتنا فاصلہ طے کرنے کے بعد بھی میں وہاں سے دور نہیں نکلا لیکن یہاں تو جھاڑ کا نام و نشان نہیں تھا وہ جھاڑ تو بہت پیچھے نظر آرہا تھا مگر پھر برتن میں نے دانت پیسے اور ایک زوردار لات سامنے رکھے ہوئے برتن پر دے ماری۔ اس میں رکھی ہوئی اشیا زمین پر لڑھک گئیں اور میں وہاں سے آگے دوڑنے لگا۔ لیکن اس بار میں نے آنکھیں بند نہیں کی تھیں سینہ دھونکنی بنا ہوا تھا۔ سانس چڑھ رہی تھی بہت دور نکلنے کے بعد جنون میں کسی حد تک کمی واقعی ہوئی تو میں نے ایک اور جھاڑی کو دیکھا جو خاصی سرسبز تھی اور اس میں لیموں جیسے گول گول پھل لگے ہوئے تھے۔ قدم خود بخود رک گئے ایک لمحے کے لئے ذہن نے کچھ سوچا دوسرے لمحے میں اس جھاڑی کے پاس بیٹھ گیا۔ انگلی اور انگوٹھے کی مدد سے پھلوں کو دباکر دیکھا رسیلے تھے اندر سے کیسے ہوں اللہ بہتر جانتا ہے دو پھل توڑے یہ سوچے سمجھے بغیر کہ ان کی خاصیت کیا ہے۔ وہ کیسے پھل ہیں انسانی صحت کے لئے مضر تو نہیں ہیں یہ سب کچھ سوچھے سمجھے بغیر میں نے ایک پھل کو دانتوں سے کاٹا زیادہ سخت نہیں تھا اندر کسی قدر کھٹاس اور کڑواہٹ تھی لیکن لیموں نہیں تھے تاہم ان میں بڑے ریشے موجود تھے میں نے پورا پھل چبالیا پھر دوسرا اور اس کے بعد جھاڑی سے پھل توڑ توڑ کر کھاتا رہا یہ بھی اپنے آپ کو سزا دینے کے مترادف تھا اگر کچھ ہوجاتا ہے ان پھلوں کے کھانے سے تو ہوجائے کیا فرق پڑتا ہے لیکن معدہ پوری طرح پُر ہوگیا تھا۔ بھوک اور پیاس دونوں کی شدت مٹ گئی تھی۔ بدن کو توانائی کا احساس بھی ہورہا تھا آگے بڑھنے کی ہمت بھی پیدا ہوگئی تھی چنانچہ آگے بڑھنے لگا۔ دوپہر تک کے سفر کے دوران دوبارہ ریل گزرتے دیکھی اس کا مطلب ہے کہ فاصلے پر ہی آگے آبادی ضرور مل جائے گی۔ مناظر بدل رہے تھے زمینوں پر کچھ متعدد نشان نظر آئے جو چونے سے بنائے گئے تھے۔ پھر ٹائروں کے نشان بھی نظر آئے اور اس کے بعد ایک باقاعدہ پگڈنڈی مزید کچھ دور چل کر اس پگڈنڈی پر ایک جیپ دیکھی۔ گزرگاہ وہی تھی چنانچہ ادھر سے ہی گزرا مگر یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ جیپ خالی تھی اس کے آس پاس کوئی موجود نہیں تھا۔ حیران کن بات تھی یہاں اس ویرانے میں یہ جیپ کون چھوڑ گیا۔ پھر ایک دم ہنسی آگئی یہ بھی شاید میرے بیروں کا احسان تھا ان کارتھ جدید ہوگیا تھا ابھی یہی سوچ رہا تھا کہ قدموں کی چاپ سنائی دی اور میں نے پلٹ کر دیکھا مضبوط جسم کا مالک کوئی تینتیس چونتیس سالہ شخص تھا جو ہاتھ میں موبل آئل کا ڈبہ سنبھالے آرہا تھا۔ اس نے بھی مجھے دیکھ لیا تھا اور رفتار تیز کردی تھی۔ شاید سوچ رہا تھا کہ کہیں جیپ لے کر نہ بھاگ جائوں قریب پہنچ کر اس نے مشکوک نظروں سے مجھے دیکھا۔ کیا بات ہے اس نے پوچھا۔ کچھ نہیں بھائی ادھر سے گزر رہا تھا کہ یہ جیپ کھڑی ہوئی دیکھی حیران ہورہا تھا کہ اس کا مالک کہاں گیا۔ ریڈی ایٹر خشک ہوگیا تھا یار مصیبت بن گئی۔ دور دور تک پانی کا پتہ نہیں تھا بہت دور جاکر ایک نالی سے پانی ملا لعنت ہے اس نے گردن جھٹکی اور جیپ کا بانٹ کھولنے لگا۔ میں نے آگے بڑھ کر اس کی مدد کی تھی وہ بولا بعض اوقات ایک چھوٹی سی حماقت اتنی بڑی مصیبت بن جاتی ہے کہ بس مزا آجاتا ہے۔ حالانکہ پانی کا گیلن ساتھ رہتا ہے مگر حماقت ہوگئی۔ جانتے ہو کیا اس نے ریڈی ایٹر میں پانی انڈیلتے ہوئے کہا۔ کیا ہوا میں نے پوچھا۔ سائٹ سے چلتے ہوئے میں نے گیلن نکال کر شمسو کو دیا اور کہا کہ پانی بھر لائے وہ گیلن لے کر ادھر گیا اور میں جیپ اسٹارٹ کرکے چل پڑا۔ یاد ہی نہ رہا کہ شمسو کو پانی لانے کے لئے بھیجا ہے۔ وہ تو شکر ہے کہ موبل آئل کا یہ خالی ڈبہ گاڑی میں پڑا مل گیا ورنہ گئے تھے اس نے ریڈی ایٹر فل کیا۔ اور اس کا ڈھکن لگاکر بانٹ گرادیا پھر چونک کر بولا مگر تم کہاں گھوم رہے ہو کیا تلیری سے آرہے ہو۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا تو وہ خود ہی بولا ریل میں بیٹھ گئے ہوتے سوا روپیہ لگتا ہے سانسی کا، سانسی ہی جارہے ہوتا ہاں میرے منہ نے نکلا۔ چلو میں چھوڑ دوں گا آئو بہت دیر ہوگئی۔ میں اس کے ساتھ بیٹھ گیا۔ کہاں رہتے ہو، سانسی میں نہیں اچھا تلیری میں رہتے ہو گے سانسی میں کہاں جانا تھا پہلی بار جارہا ہوں۔ سانسی پہلی بار جارہے ہو ہاں کیوں جارہے ہو اس کے انداز میں تمسخر تھا۔ کسی نوکری کی تلاش میں۔ نہیں ایک خیال کے تحت جلدی سے کہا۔ سانسی۔ اور نوکری کی تلاش میں۔ کسی نے مشورہ دیا تھا کسی نے نہیں۔ اچھا خود ہی چار روٹیاں پکواکر چل پڑے ہوگے۔ چاروں کھاگئے یا کوئی بچی ہے۔ بھلے آدمی سانسی میں نوکری کہاں ملے گی تمہیں۔ کسی سے بات ہوئی ہے نہیں کمال کے آدمی ہو۔ کسی سے پوچھ تو لیا ہوتا۔ کیا نام ہے۔ مسعود احمد میرا نام شاہد علی ہے۔ کنسٹرکشن کا کام کرتا ہوں۔ ایک مصیبت میں پھنس گیا ہوں یار۔ بے تکلف آدمی تھا میں نے اس سے اس کی مصیبت کے بارے میں کچھ نہیں پوچھا تھا۔ اماں کچھ منہ سے تو بولو۔ یہی بات سن کر پریشان ہوگئے ہو گے وہ خود ہی بولا۔ ہاں ایسا ہی ہے۔ چلو ٹھیک ہے دنیا کے کام ایسے ہی چلتے ہیں۔ کیا کام جانتے ہو کچھ نہیں سبحان اللہ۔ سبحان اللہ اماں کیا آدمی ہو۔ کوئی کل سیدھی نہیں لگ رہی کچھ پڑھے لکھے ہو۔ ہاں۔ شکر ہے۔ شکر ہے۔ کتنی تنخواہ میں کام چل جائے گا کوئی آگے پیچھے ہے یا۔ اکیلا ہوں۔ مبارک ہو۔ مبارک ہو۔ تمہیں نہیں انہیں جو تمہارے کوئی بھی نہیں ہیں۔ ورنہ بھوکے مرتے بے چارے۔ بار برا مت ماننا میری بات کا۔ مگر تم تو بہت ہی سیدھے آدھی ہو مجھے وہ شیخ چلی یاد آرے ہیں جو چار روٹیاں باندھ کر نوکری تلاش کرنے چل پڑے تھے۔ ان کا کام ہوا ہو یا نہ ہوا ہو تمہارا کام ہوگیا۔ بس یوں سمجھ لو تمہیں نوکری مل گئی اب پیسوں ویسوں کی بات مت کرنا۔ ذرا اطمینان سے بیٹھیں گے تو یہ مسئلہ بھی حل کرلیں گے ان دنوں تو میں ایک مصیبت میں گرفتار ہوں فی الحال تم یوں کرو کہ میری مصیبت میں شریک ہوجائو، دونوں مل کر مصیبتیں بھگتیں گے، ساتھ کھائیں گے ساتھ پیئیں گے، یار یقین کرو، میں ہنس بول رہا ہوں تمہارے ساتھ، مگر جو مجھ پر بیت رہی ہے میرا دل ہی جانتا ہے۔ یہ آدمی واقعی اچھا معلوم ہوتا تھا، فوراً ہی میں نے اپنے خیالات میں ذراسی تبدیلی پیدا کی تھی نوکری کا تذکرہ یہی سوچ کر کیا تھا کہ جو کچھ گزر رہی ہے وہ تو گزر ہی رہی ہے کم از کم کچھ حلال کی کھائوں، بیچارے پنڈت جی کے ہاں گھر کے کام کاج کی نوکری کی تھی تو وہ گھر ہی چھوڑ بھاگے تھے اب مجھے کیا معلوم تھا کہ ان پر اور مجھ پر کیا مصیبت پڑنے والی ہے لیکن یہ دوسری نوکری جو مجھے مل رہی تھی وہ پہلے سے کسی مصیبت زدہ کے ہاں کی نوکری تھی، دل تو چاہ رہا تھا کہ اس سے اس کی مصیبت کے بارے میں پوچھوں لیکن ہمت نہیں پڑرہی تھی پھر اس نے خود ہی کہا۔ یار کچھ منہ سے تو پھوٹو، سانسی ابھی یہاں سے کافی دور ہے اور میں بہت زیادہ تیز گاڑی نہیں چلا سکتا کچھ گڑبڑ ہے اس کے انجن میں۔ آپ نے اپنی کسی پریشانی کا تذکرہ کیا تھا۔ کیا بات ہے ہاں ہاں اس وقت یہی مسئلہ میری زندگی کا سب سے اہم مسئلہ ہے۔ بس یار ایک انوکھی مشکل میں مبتلا ہوگیا ہوں، اللہ سے دعا کرو کہ مجھے اس مصیبت سے گزارے، ہوا یہ ہے کہ تمہیں بتاچکا ہوں کہ کنسٹرکشن کا کام کرتا ہوں اور عمارتیں وغیرہ بنواتا ہوں، ہمارے ایک جاننے والے ہیں بڑی پرانی شناسائی ہے بس یوں سمجھو کہ اللہ نے پیٹ بھی بھردیا ہے اور تجوریاں بھی، ایک باغ خریدا تھا انہوں نے اسی علاقے میں جدھر سے ہم لوگ گزر رہے تھے، بڑا پرانا باغ پڑا ہوا تھا، موصوف کو وہاں فارم ہائوس بنانے کی سوجھی، ایک عمارت، ٹیوب ویل اور ایک طویل رقبے میں احاطہ بنوانے کا ارادہ کیا اور اس کا ٹھیکہ مجھے دے دیا، پیسے بھی لے لیے میں نے ان سے اور اس کے بعد سارے کام ختم کراکے اس طرف چل پڑا مجھے کیا معلوم تھا کہ وہ باغ آسیب زدہ ہے۔ شاہد علی بولتے ہوئے رک گیا۔ میں خاموشی سے اس کے آگے بولنے کا انتظار کرنے لگا۔ کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد اس نے کہا۔ باغ کا کٹوانا ضروری تھا اور ایسے بھی پرانا باغ تھا سارے درخت سوکھے پڑے ہوئے تھے، کوئی دیکھ بھال کرنے والا موجود نہیں تھا یہاں تک کہ مالی بھی نہیں اور اس کی وجہ یہی تھی کہ باغ آسیب زدہ مشہور تھا درختوں پر پھل نہیں آتے تھے اور اس کا مالک بھی اس سے جان چھڑانا چاہتا تھا۔ کسی ہندو کا باغ تھا۔ بہر طور میں نے کام شروع کرادیا۔ درخت کٹوانے میں بھی دو ڈھائی مہینے لگ گئے۔ اور پھر مصیبت آگئی، مصیبت ایسے آئی کہ بس کیا بتائوں یار۔ پتہ نہیں تم میری باتوں کو مذاق سمجھو یا سچ۔ ایک بہت پرانا درخت تھا وہاں بستی کے آس پاس کے لوگوں کا کہنا تھا کہ اصل میں یہی درخت آسیب زدہ ہے۔ میں نے اس سے پہلے کبھی آسیب وغیرہ دیکھے نہیں تھے۔ مگر کچھ ایسے آثار نمودار ہوئے جس سے مجھے بھی شبہ ہونے لگا کہ لوگوں کا کہنا غلط نہیں ہے، میں نے درخت کی کٹائی شروع کرادی اور اس دن دوپہر کا وقت تھا۔ مزدور جڑیں کھود رہے تھے کہ درخت کی جڑ میں انہیں ایک عجیب و غریب صندوق جیساملا، پتھر کا صندوق تھا مزدوروں نے اس پر کدالیں مارنا شروع کردیں اور اس صندوق کا ڈھکن کھول دیا مجھے اطلاع ملی تو میں فوراً ہی متوجہ ہوگیا بے شمار بار ایسی کھدائیاں کراتے ہوئے دل میں یہ خیال آیا تھا کہ کہیں کوئی خزانہ وزانہ مل جائے۔ اس وقت بھی جب مجھے پتہ چلا کہ درخت کی جڑ میں ایک صندوق برآمد ہوا ہے تو میں نے لگائی دوڑ اور پہنچ گیا وہاں مزدروں کو ہٹاکر میں نے اس چوکور گڑھے میں جھانکا۔ گڑھے میں کسی خاص درخت کے پتے بچھے ہوئے تھے جن میں خاص بات یہ تھی کہ وہ تروتازہ تھے حالانکہ درخت پرانا اور سوکھا ہوا تھا مگر وہ پتے بالکل ہرے تھے اور ان پتوں پر پتھر کی ایک مورتی لیٹی ہوئی تھی۔ میں نے اس مورتی کو غور سے دیکھا ہندوئوں کے دیوی دیوتائوں کے بہت سے بت دیکھے ہیں میں نے مگر وہ مورتی ان میں سے کسی کی نہیں تھی۔ ایک عجیب سی شکل کی تھی وہ میں نے وہ مورتی نکال لی اور مزدوروں سے پورا کنواں کھدوادیا۔ اس لالچ میں کہ شاید یہ کوئی نشانی ہو خزانے کی۔ مگر کچھ نہیں ملا وہاں بڑی مایوسی ہوئی مزدوروں نے وہ درخت بھی گرادیا کوئی ایسی خاص بات نہیں تھی۔ بار کھدائی کراتے ہوئے بہت سی چیزیں ملی تھیں مجھے۔ کمبخت کام کی کوئی چیز آج تک نہیں ملی لیکن اس بار جو مصیبت گلے پڑی ہے اللہ ہی اس سے نکالے۔ وہ جیسے خود ہی اپنی کہانی میں کھوگیا۔ میں خاموشی سے اس کے آگے بولنے کا انتظار کرنے لگا وہ سوچ میں ڈوب کر خاموش ہوگیا تھا پھر کچھ دیر کے بعد اس نے کہا۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کیا کہہ رہا تھا وہ درخت گرادیا گیا۔ میں نے بتایا۔ کونسا درخت جس کے نیچے سے مورتی نکالی گئی تھی۔ معاف کرنا۔ زیب النسا کا خیال آگیا تھا۔ ہاں تو وہ مورتی جو اس پتھر کے صندوق سے نکلی تھی میرے پاس ہی تھی۔ میں نے اسے بس یونہی جیپ میں رکھوالیا تھا۔ پھر میں دوسرے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ شام کو گھر چل پڑا درخت کا واقعہ دوسرے کاموں کی وجہ سے بھول ہی گیا تھا۔ گاڑی سے اترا تو مورتی نظر آگئی۔ اسے اٹھا لایا اور اپنی خواب گاہ کے کارنس پر رکھ دیا۔ زیب النسا کے ساتھ کھانا کھایا بچوں سے باتیں کیں دو بچے ہیں میرے بیٹی بڑی ہے بیٹا چھوٹا دونوں دوسرے کمرے میں سوتے ہیں۔ رات کو ہم میاں بیوی اپنے کمرے میں معمول کے مطابق سوگئے۔ کوئی پونے ایک بجے سوئے تھے اور اس وقت ڈھائی بجے تھے جب ایک دھماکہ سا ہوا اور اس کے ساتھ ہی میری بیوی زیب النسا کی خوف ناک چیخ سنائی دی۔ میں اچھل پڑا۔ کمرے میں مدھم روشنی چل رہی تھی اور زیب النسا فرش پر پڑی ہوئی تھی۔ میں نے مسہری سے چھلانگ لگائی اور اس کے قریب پہنچ گیا۔ زیب النسا پسینے میں ڈوبی ہوئی تھی اس کی آنکھیں دہشت سے پھٹی ہوئی تھیں لیکن وہ ہوش میں تھی اور بار بار انگلی سے کارنس کی طرف اشارہ کررہی تھی میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا بڑی مشکل سے میں اسے اٹھا کر مسہری پر لایا۔ پانی پلایا دلاسے دیئے تو اس کی کیفیت بحال ہوئی۔ اس نے بتایا کہ وہ واش روم گئی تھی باہر نکلی تو مدھم روشنی میں اس نے کارنس پر کوئی تحریک دیکھی۔ وہ سمجھی کوئی چوہا کسی طرح اوپر چڑھ گیا مگر پھر اس نے غور سے دیکھا تو وہ مورتی ہل رہی تھی جسے میں لایا تھا۔ اس کے دیکھتے ہی دیکھتے مورتی اٹھ کر بیٹھ گئی پھر اس کے باریک پائوں نیچے لٹکے اور اتنے لمبے ہوئے کہ زمین تک پہنچ گئے اس کے بعد اس نے گھور کر زیب النسا کو دیکھا اور پھر آہستہ آہستہ آگے بڑھ کر دروازے کے پاس پہنچ گئی۔ پھر اس نے دروازہ کھول اور باہر نکل گئی زیب النسا دہشت سے چیخ کر میری طرف بھاگی اور لباس میں الجھ کر گرپڑی۔ یار میں اسے اس کا وہم سمجھ سکتا تھا مگر دونوں باتیں اس کے بیان کی تصدیق کرتی تھیں۔ مورتی کارنس سے غائب تھی اور دروازہ کھلا ہوا تھا جاری ہے
null
null
null
null
457
https://www.urduzone.net/ounche-khuwab-complete-story/
کمپنی کے مالک مختار احمد نے جب سے نادیہ کو اپنی سیکرٹری کی نوکری دی تھی، پورے آفس میں خوشگوار تبدیلی آگئی تھی۔ آفس کے تمام لڑکے اب پہلے سے بھی کچھ زیادہ بن سنور کر آنے لگے تھے اور ہر لڑکے کی کوشش تھی کہ وہ نادیہ کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب ہوسکے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ نادیہ کو قدرت نے حسن سے مالا مال کیا ہوا تھا لیکن نادیہ کی توجہ محض اپنے کام اور اپنے باس کے احکامات پر ہوتی تھی۔ وہ کسی پر کوئی توجہ نہیں دیتی تھی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وہ لڑکے جو نادیہ کی توجہ حاصل کرنا چاہتے تھے، ان کی کوشش رفتہ رفتہ دم توڑنے لگی لیکن ایک جمال تھا جو بڑی خاموشی اور چور نظروں سے اس کوشش میں اب بھی تھا۔ جمال اس آفس میں پانچ سال سے منیجر کی نوکری کررہا تھا۔ وہ اپنے کام میں بہت ہوشیار اور چالاک تھا۔ اس کا باس مختار احمد اس کے کام سے خوش بھی تھا اور اپنے بہت سے معاملات میں اسی پر اعتماد کرتا تھا۔ جمال کے ساتھ مختار احمد وہ باتیں بھی کرلیتا تھا جو بہت اہم اور راز کی ہوتی تھیں۔ مختار احمد کے اعتماد کو جمال نے کبھی ٹھیس نہیں پہنچائی تھی۔ جمال خوش شکل اور گفتگو کا فن جانتا تھا۔ اس کے علم میں یہ بات تھی کہ کب کون سی بات کرنی چاہئے۔ اسی لئے وہ نادیہ کو احساس دلائے بغیر دل ہی دل میں اسے پسند کئے ہوئے تھا۔ کام کے دوران دن بھر دونوں کئی باتیں کرتے تھے لیکن وہ سب باتیں کام کے متعلق ہی ہوتی تھیں، جمال نے کبھی بھی نادیہ سے کوئی فضول بات نہیں کی تھی۔ اس لئے نادیہ اس بات سے تو متاثر تھی کہ جمال دوسروں کی طرح نہیں ہے۔ نادیہ چور نگاہوں سے جمال کو دیکھتی تھی۔ جمال بھی بے خبر نہیں تھا، وہ بھی غیرمحسوس طریقے سے یہ دیکھ لیتا تھا کہ نادیہ اسے دیکھ رہی ہے۔ اسی دیکھا دیکھی میں جب ایک دن نادیہ ٹکٹکی باندھے جمال کو دیکھ رہی تھی تو اچانک جمال نے اس کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے، آنکھوں سے اشارہ کرتے ہوئے پوچھ لیا۔ کیا بات ہے نادیہ سے جمال نے جیسے ہی اشاروں میں یہ سوال کیا وہ گھبرا سی گئی اور اس نے آنکھیں دائیں بائیں گھما کر ایک فائل اٹھالی اور اسے الٹا کھول لیا۔ پھر اس پر سر ایسے جھکا لیا جیسے وہ بڑے انہماک سے کام کررہی ہو۔ نادیہ کو یہ پتہ بھی نہیں چلا کہ جمال اس کے پاس پہنچ چکا ہے اور اس نے جھک کر پہلے تو فائل سیدھی کی اور پھر بولا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ آپ کا دھیان کسی اور طرف ہے۔ لیکن یہ دھیان جس طرف بھی ہے، کم از کم مجھے بہت اچھا لگتا ہے۔ نادیہ اس کی بات سن کر مسکرا دی اور یہ وہ پہلی بات تھی جو دونوں کے درمیان کام سے ہٹ کر ہوئی تھی۔ جمال نے اپنی کرسی کی طرف جانے سے قبل کہا۔ آفس ٹائم کے بعد اگر آپ ایک کپ میرے ساتھ چائے کا پی لیں تو میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کو بھی اچھا لگے گا۔ نادیہ کے لبوں پر مسکراہٹ آگئی۔ میں چائے نہیں پیتی لیکن آپ کے کہنے پر پی لوں گی۔ آفس ٹائم ختم ہوا تو دونوں قریبی ریسٹورنٹ میں چلے گئے اور دونوں نے ایک ساتھ چائے پیتے ہوئے اپنے بارے میں باتیں کرنا بھی شروع کردیں۔ نادیہ نے بتایا کہ وہ ایک سفید پوش گھرانے سے تعلق رکھتی ہے۔ اس کا باپ سرکاری کلرک تھا لیکن ایک حادثے میں انتقال کے بعد ان کے مالی حالات اور بھی کمزور ہوگئے تھے۔ اس کے بھائی مختلف جگہوں پر کام کرتے ہیں اور وہ گھر کی اکلوتی لڑکی ہے، اسے بھی کام کرنا پڑ رہا ہے۔ گھر کا نظام ایسا ہے کہ سبھی اپنی مرضی کے مالک ہیں اور ایک دوسرے سے لاتعلق سے رہتے ہیں۔ جمال نے بتایا کہ وہ اکیلا ہی رہتا ہے۔ ماں باپ کے انتقال کے بعد بھائیوں نے جائیداد تقسیم کی اور اپنی اپنی دنیا بسالی۔ اس تعارف کے بعد دونوں کے درمیان باتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ آفس میں کام کے دوران وہ کام کے علاوہ کوئی نہ کوئی بات ایک دوسرے سے کہہ دیتے تھے۔ دن اور رات میں وہ کئی بار فون پر بھی بات کرتے تھے۔ دونوں کے درمیان پیار کا رشتہ مضبوط ہوتا جارہا تھا اور دونوں ایک دوسرے کے بارے میں سنجیدگی سے سوچنے لگے تھے۔ ایک شام جمال نے نادیہ کو ایک اچھے ہوٹل میں بلالیا۔ اس دن نادیہ کی سالگرہ تھی۔ میز پر سالگرہ کا کیک سجا ہوا تھا۔ نادیہ وہ سب دیکھ کر متحیر رہ گئی تھی۔ اس نے باتوں باتوں میں ایک دن اپنی سالگرہ کی تاریخ بتائی تھی اور اس کی سالگرہ کا دن آتے ہی جمال نے اہتمام بھی کردیا تھا۔ نادیہ نے کیک کاٹا اور دونوں نے ایک دوسرے کو کیک کھلایا اور پھر جمال نے کہا۔ میں تمہارے لئے سالگرہ کا تحفہ بھی لے کر آیا ہوں۔ نادیہ مسکرائی۔ تم نے میری سالگرہ کا دن یاد رکھا مجھے بہت خوشی ہوئی۔ آج میں تم سے بھی زیادہ خوش ہوں۔ جمال اس کی آنکھوں میں دیکھ رہا تھا۔ مجھے تمہارے چہرے سے لگ رہا ہے۔ میں تمہارے لئے ایک خاص تحفہ لے کر آیا ہوں۔ جمال نے کہا۔ میرے لئے تم ہی خاص ہو۔ نادیہ بولی۔ چلو کہیں اور چلتے ہیں۔ اچانک جمال اپنی جگہ سے اٹھا۔ نادیہ نے حیرت سے دائیں بائیں دیکھا، وہ شہر کے سب سے بڑے ہوٹل کا ڈائننگ ہال تھا۔ وہ بولی۔ کیا اس سے بھی اچھی کوئی جگہ ہوسکتی ہے ہاں کھلی فضا۔ زمین اور اوپر آسمان وہ جگہ اس سے بھی اچھی اور خوبصورت ہے۔ جمال نے کہا۔ نادیہ کو اس کی بات کی سمجھ نہیں آرہی تھی۔ جمال نے بل ادا کیا اور نادیہ کو لے کر ہوٹل سے باہر چلا گیا۔ جمال کے پاس پرانے ماڈل کی کار تھی جس پر جگہ جگہ ڈینٹ بھی پڑے تھے اور کہیں کہیں سے رنگ بھی اترا ہوا تھا۔ لیکن اس کار کا انجن زبردست تھا۔ جمال نے پہلے نادیہ کو کار میں بیٹھایا اور پھر خود ڈرائیونگ سیٹ سنبھال کر کار اس جگہ سے لے گیا۔ اس کی کار ایک ایسی سڑک پر رک گئی جس کے دائیں بائیں خالی پلاٹ تھے اور پلاٹوں کے درمیان سڑکوں کا جال بچھا ہوا تھا۔ وہ نئی کالونی تھی۔ اور اس جگہ ابھی کوئی گھر نہیں بنا تھا۔ جمال اور نادیہ باہر نکلے تو دور تک دیکھتے ہوئے نادیہ نے کہا۔ یہ تم کہاں لے آئے ہو یہاں تم ہو اور میں ہوں۔ اوپر آسمان اور چمکتا ہوا چاند ہے۔ نیچے یہ زمین ہے۔ جمال بولا۔ مجھے تو ڈر لگ رہا ہے۔ میرے ہوتے ہوئے یوں ڈر لگ رہا ہے میری موجودگی میں تمہیں ڈرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس ویرانے میں مجھے عجیب لگ رہا ہے۔ نادیہ کو واقعی اس جگہ خوف سا آرہا تھا اور وہ بار بار دائیں بائیں دیکھ رہی تھی۔ اگر آسمان پر پورا چاند نہ چمک رہا ہوتا تو شاید اس جگہ ایسا اندھیرا ہوتا کہ نادیہ کار سے بھی باہر نہ نکلتی۔ ایک منٹ کے لئے اپنی آنکھیں بند کرو۔ جمال اس کے سامنے کھڑا تھا اور نادیہ نے مسکراتے ہوئے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ جمال نے اپنی جیب سے ایک ڈبیہ نکالی۔ اس کے اندر ایک چمکتی ہوئی انگوٹھی تھی۔ اس نے انگوٹھی نکال کر، نادیہ کا ہاتھ پکڑا اور اس کی انگلی میں ڈال دی۔ آنکھیں کھول دو۔ جمال نے جونہی کہا، نادیہ نے آنکھیں کھولتے ہی اپنی انگلی کی طرف دیکھا تو اس کا چہرہ خوشگوار حیرت سے کھل گیا۔ اتنی خوبصورت انگوٹھی یہ تمہارے لئے ہے۔ جانتی ہو کہ میں تمہیں اس جگہ کیوں لے کر آیا ہوں تاکہ اس ویران جگہ پر ہم دونوں کے علاوہ کوئی بھی نہ ہو۔ تم نے کہا تھا کہ تم اپنی زندگی کا کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے میں خود مختار ہو۔ میں نے اپنے پیار کا تحفہ تمہاری انگلی میں پہنا دیا۔ اب اسے اتار کر اس ویران جگہ پر پھینک دو، یا پھر میرے ساتھ عہد کرو کہ تم ساری زندگی میری بن کر رہو گی۔ جمال کی بات سن کر نادیہ پیار سے مسکرائی اور اس نے انگوٹھی پر اپنے دوسرے ہاتھ کی انگلیاں پھیرتے ہوئے کہا۔ یہ نادیہ ساری زندگی تمہاری بن کر رہے گی اور دونوں کے درمیان کسی کو نہیں آنے دے گی۔ جمال خوش ہوگیا۔ آج میری زندگی کا سب سے حسین دن ہے۔ اب رات ہوچکی ہے۔ کہو کہ یہ میری زندگی کی حسین رات ہے۔ نادیہ نے کہہ کر ہنسی بکھیری۔ اور اب چلو یہاں سے۔ جمال اپنی کار کی طرف گیا اور اس نے کار کا دروازہ کھول کر اشارہ کیا کہ وہ کار میں بیٹھ جائے۔ نادیہ مسکراتی ہوئی کار میں بیٹھ گئی۔ جمال نے کار کا دروازہ بند کیا اور خود بھی کار میں بیٹھ کر گنگناتا ہوا کار اس جگہ سے لے گیا۔ ٭ ٭ ٭ جمال اور نادیہ کا باس مختار احمد کئی دنوں سے پریشان بھی تھا اور ایک بات پر بڑی سنجیدگی سے غور بھی کررہا تھا۔ وہ فیصلہ کرنے میں تذبذب کا شکار تھا۔ وہ کبھی اپنے معاملات دیکھتا اور کبھی اس بات پر غور کرنے بیٹھ جاتا تھا۔ مختار احمد کی عمر ساٹھ سال تھی۔ وہ دل اور شوگر کا مریض تھا۔ اس نے ساری زندگی پیسہ کمانے میں صرف کردی تھی۔ اس نے بہت سی جائیداد بنائی تھی۔ یہ اس کی کمپنی تھی۔ وہ اپنے ماں باپ کی اکلوتی اولاد تھا۔ اب وہ اس دنیا میں اکیلا ہی تھا۔ وہ ایک بڑے بنگلے میں اپنے نوکروں کی فوج کے ساتھ رہائش پذیر تھا، چند ہفتے قبل اس نے اپنے نوکروں کی چھٹی کرا دی تھی۔ صرف ایک خانساماں اور اس کی بیوی کو رہنے دیا تھا۔ وہ اس بنگلے سے ایک لگژری فلیٹ میں منتقل ہوگیا تھا۔ بہت بڑے بنگلے سے اس فلیٹ میں منتقل ہونا مختار احمد کے لئے تکلیف دہ تھا لیکن وہ تنہائی سے تنگ آچکا تھا۔ ڈاکٹر اسے بائی پاس آپریشن کا مشورہ دے چکے تھے اور زندگی کی اس رنگینی کو پانے کی خواہش نے دل میں انگڑائی لے لی تھی جو پیسہ کمانے کی چاہ میں دب گئی تھی۔ مختار احمد شادی کرنا چاہتا تھا۔ اسے یہ خیال بھی آیا تھا کہ وہ زندگی کا شاید آخری حصہ گزار رہا ہے۔ وہ دن بھر میں اتنی خوراک نہیں کھاتا جتنی دوائیاں اپنے حلق سے نیچے اتارتا ہے، ان باتوں کے باوجود وہ زندگی کو خدا حافظ کہنے سے قبل زندگی کے اس حصے سے لطف اندوز ہونا چاہتا تھا۔ مختار احمد نے فیصلہ کرلیا کہ وہ شادی کرے گا۔ کوئی بھی لڑکی اس سے شادی کرنے کو اس لئے تیار ہوجائے گی کیونکہ وہ دولت مند ہے اور اس کی ایک ساکھ ہے۔ اس کا یہ خیال غلط نہیں تھا۔ مختار احمد کی دولت سے متاثر ہوکر کئی خواتین نے اسے شادی کی پیشکش کی تھی۔ اتنی دولت اور پھر اس کا وارث بھی تنہا کون لالچی عورت نہیں چاہے گی کہ اس کی شادی بوڑھے دولت مند مختار احمد سے ہوجائے مگر مختار احمد کی نظر نادیہ پر تھی، وہ اس سے شادی کرنا چاہتا تھا۔ حقیقت یہ تھی کہ نادیہ کے حسن کو دیکھ کر ہی مختار احمد کے دل میں شادی کی امنگ ابھری تھی۔ اس لئے مختار احمد نے نادیہ کو اپنے آفس میں بلایا اور کچھ کام کی باتوں کے بعد اس کی ذاتی زندگی کے متعلق سوالات کرنے شروع کردئیے۔ نادیہ بھی اپنے بارے میں سب کچھ سچ سچ بتانے لگی۔ پھر مختار احمد نے اپنے بارے میں بتایا۔ اس نے بتایا کہ اس کی یہ کمپنی بہت بڑی ہے، تین بنگلے ہیں، ایک لگژری فلیٹ ہے، بینک بیلنس ہے۔ اتنا کچھ ہونے کے باوجود وہ تنہا زندگی گزار رہا ہے۔ نادیہ کو یہ سب سن کر مختار احمد سے ہمدردی سی ہونے لگی۔ مختار احمد کے چہرے پر اداسی بھی چھا گئی تھی۔ اور پھر مختار احمد نے وہ بات کہہ کر نادیہ کو دم بخود کردیا۔ مختار احمد نے وہ سب کہنے کے بعد اچانک کہا۔ کیا تم میرے ساتھ شادی کروگی ایک ایسی بات جس کے بارے میں نادیہ کے ذہن میں کوئی خیال بھی نہیں تھا۔ وہ سب باتیں سنتے ہوئے اس کو یہ گماں نہیں ہوا کہ یہ تمہید کیوں باندھی جارہی ہے۔ اب اچانک جو اس نے یہ سنا تو وہ حیرت سے دم بخود اپنے باس کا چہرہ دیکھنے لگی۔ تم کیا سوچ رہی ہو نادیہ مختار احمد نے اسے خاموش دیکھا تو سوال کیا۔ نادیہ چونکی۔ جی کچھ نہیں سر تو پھر تمہارا کیا خیال ہے کس بارے میں سر نادیہ کو اس حیرت میں یہ بھول ہی گیا تھا کہ ابھی اس کے باس نے اس سے کیا کہا تھا۔ تم مجھ سے شادی کروگی مختار احمد نے ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔ نادیہ کی آنکھوں کے سامنے مختار احمد کی اتنی بڑی کمپنی، اس کے تین بنگلے، ایک لگژری فلیٹ اور گاڑیاں گھوم گئیں، لیکن دوسرے ہی لمحے اس کی آنکھوں کے سامنے جمال کا مسکراتا ہوا چہرہ آگیا جس نے اس کی انگلی میں انگوٹھی ڈالنے کے بعد کہا تھا کہ اب ہمارے درمیان کوئی نہیں آئے گا۔ ایک بار پھر نادیہ کے آگے مختار احمد کی پرآسائش دنیا آگئی اور اس دنیا میں جمال محض ایک تنخواہ دار ملازم تھا۔ سر میں کچھ سوچنا چاہتی ہوں۔ نادیہ نے کہا۔ سوچتے تو وہ ہیں جن کے آگے پیچھے کوئی ہوتا ہے۔ جن کا کوئی نہیں ہوتا، وہ فوری فیصلہ کرتے ہیں۔ ابھی تم نے بتایا تھا کہ تمہاری فیملی ہونے کے باوجود بھی تم اکیلی ہو۔ مختار احمد کے چہرے پر متانت تھی۔ آپ ٹھیک کہہ رہے ہیں سر، پھر بھی میں سوچنا چاہتی ہوں۔ نادیہ کی سمجھ میں فی الحال کچھ نہیں آرہا تھا اس لئے وہ کمرے سے جانا چاہتی تھی۔ کب بتائو گی کل۔ کل کس نے دیکھی ہے تم سوچنے کیلئے ایک دو گھنٹے لے لو۔ ہم آج ہی نئی زندگی کا آغاز کردیں گے۔ مختار احمد بولا۔ نادیہ ہچکچائی۔ جی سر۔ اب تم جاسکتی ہو۔ مختار احمد کی نظریں اس کے چہرے پر مرکوز تھیں۔ نادیہ اٹھ کر جانے لگی تو مختار احمد نے پھر کہا۔ کوئی بھی فیصلہ کرنے سے پہلے سوچ لینا مس نادیہ کہ میرا کوئی نہیں ہے، اور یہ بنگلے، کمپنی، بینک بیلنس سب کچھ تمہارا ہے۔ مختار احمد کیونکہ اس سے شادی کرنے کا فیصلہ کرچکا تھا اور اس کے حسن کا اسیر تھا۔ اس لئے جانے سے قبل اس نے ایک بار پھر نادیہ کو لالچ دیا۔ ایک لمحے کے لئے نادیہ نے سوچا کہ وہ ابھی اقرار کرلے لیکن اس نے کچھ کہنے کے بجائے باہر جانے کو ترجیح دی اور تیزی سے اپنی کرسی کی طرف چلی گئی، جبکہ جمال دیکھ رہا تھا کہ نادیہ نے باس کے کمرے میں دیر بھی لگائی ہے اور جب وہ باہر نکلی ہے تو اس کے چہرے پر کچھ گھبراہٹ بھی تھی۔ نادیہ اپنی میز پر بیٹھ گئی تھی۔ اس نے پانی کے دو گھونٹ پیئے اور پھر کچھ سوچنے کے بعد اپنا موبائل فون اٹھایا اور اختصار سے مختار احمد کی شادی کی پیشکش کے بارے میں لکھ کر جمال کو میسج بھیج دیا۔ جمال نے پڑھا تو وہ چونکا۔ اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئیں۔ کچھ دیر کے لئے تو وہ کام کرنا بھول گیا۔ پھر اس نے وقت دیکھا لنچ بریک میں آدھا گھنٹہ رہ گیا تھا۔ اس وقت آفس میں دو دماغ بڑی تیزی سے سوچنے میں مصروف تھے۔ ایک نادیہ کا دماغ جو یہ فیصلہ کررہی تھی کہ وہ ملازمت پیشہ جمال کو چھوڑ کر کروڑ پتی بوڑھے سے شادی کرلے، جبکہ دوسرا دماغ جمال کا تھا جو کچھ اور ہی سوچ رہا تھا۔ ٭ ٭ ٭ لنچ بریک کے وقت جمال نے لنچ کرنے کی بجائے نادیہ کو میسج کیا کہ وہ نیچے آجائے۔ وہ خود نیچے چلا گیا اور نادیہ بھی کچھ دیر کے بعد اس کے پاس پہنچ گئی۔ اس عمارت کے نیچے ایک طرف لابی تھی۔ جمال ایک طرف بیٹھا ہوا تھا۔ ان کا باس مختار احمد آدھا گھنٹہ پہلے لنچ کے لئے جاچکا تھا۔ نادیہ، جمال کے پاس بیٹھ گئی۔ کیا یہ سچ ہے کہ باس نے یہ بات تم سے کہی ہے جمال نے بغیر وقت ضائع کئے پوچھا۔ میں تم سے جھوٹ کیوں بولوں گی اتنی بڑی پیشکش ہوئی اور تم نے مجھے بتادیا۔ تم چپ چاپ باس سے شادی کرسکتی تھیں اور بیٹھے بیٹھائے کروڑوں کی مالکن بن سکتی تھیں۔ جمال بولا۔ میں تمہیں دھوکا نہیں دے سکتی تھی۔ نادیہ نے کہا۔ مجھے تمہاری یہ ایمانداری اچھی لگی نادیہ۔ تمہاری جگہ کوئی اور ہوتا تو شاید وہ اسی جگہ بیٹھے بیٹھائے فیصلہ کرلیتا۔ ویسے تم نے اب کیا سوچا ہے سچ بات تو یہ ہے کہ میں فیصلہ ہی نہیں کرپائی۔ کیا تمہیں مجھ سے محبت نہیں ہے کہ تم فیصلہ کرنے کی پوزیشن میں آئو تم صاف انکار کرسکتی ہو۔ ہم ایک دوسرے کو پسند کرتے ہیں۔ ہم جلد شادی کرنا چاہتے ہیں۔ جمال نے کہا۔ ٹھیک ہے میں انکار کردیتی ہوں۔ نادیہ سوچوں کے گرداب میں پھنسی ہوئی تھی مگر اس نے کہہ دیا۔ لیکن تم نے یہ سوچا ہے کہ اگر تم انکار کروگی اور کل کو ہم شادی کرلیں گے تو اس کا کیا نتیجہ ہوگا جمال اس کی آنکھوں میں جھانک رہا تھا۔ کیا نتیجہ ہوگا نادیہ کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا۔ باس جب یہ دیکھے گا کہ ہم دونوں نے شادی کرلی ہے تو وہ اسے اپنی بے عزتی خیال کرے گا کہ تم نے ایک کروڑ پتی شخص کو چھوڑ کر اس کے ملازم کو اہمیت دی۔ وہ غصے سے ہم دونوں کو نوکری سے نکال دے گا۔ اور ہم بے روزگار ہوجائیں گے۔ جمال بولا۔ تو پھر کیا کریں یہ بات کہتے ہوئے نادیہ سوچ رہی تھی کہ وہ باس کو بتادے کہ وہ اس سے شادی کرنے کو تیار ہے۔ اس نے غلطی کرلی کہ اس نے جمال کو بتادیا۔ تم باس سے شادی کرلو۔ جمال نے فیصلہ کن انداز میں کہا تو نادیہ چونگی۔ یہ تم کہہ رہے ہو یہ سن کر نادیہ کے دل میں ایک گدگدی سی ہوئی۔ نادیہ جیسی لڑکی کو سب کچھ بیٹھے بیٹھائے مل رہا تھا، وہ اس پرآسائش زندگی سے کیسے فرار ہوسکتی تھی شوہر بوڑھا تھا تو کیا بات تھی، زندگی میں سب کچھ مکمل تو نہیں ملتا۔ کسی میں زیادتی اور کسی چیز میں کمی یہ تو زندگی کا حصہ ہے۔ باس کروڑ پتی ہے۔ اس کا آگے پیچھے کوئی نہیں ہے۔ وہ شوگر، ہائی بلڈ پریشر اور دل کا مریض ہے۔ کتنے دن جی لے گا بوڑھا مرجائے گا تو سب کچھ تمہارا ہوگا، اور ہم پھر ایک ہوجائیں گے۔ سب کچھ ہمارا ہوجائے گا۔ اس کمپنی کو ہم خود چلائیں گے اور عیش و آرام کی زندگی گزاریں گے۔ جمال نے کہا۔ اس کے ہونٹوں پر ایک عجیب سی مسکراہٹ تھی۔ نادیہ کے ذہن میں یہ خیال نہیں آیا تھا کہ وہ سب کچھ حاصل کرنے کے بعد بھی جمال کی ہوسکتی ہے۔ اور اگر وہ بوڑھا کئی سال تک جیتا رہا تو بس تم مجھ سے رابطہ رکھنا۔ مجھے ہر بات بتاتی رہنا۔ اگر باس کی زندگی نے طوالت اختیار کرنا شروع کردی تو ہم اسے خود اپنے ہاتھوں سے موت کی وادی میں پہنچا دیں گے۔ ہم زندگی کا یہ جوا مل کر کھیلیں گے۔ جمال کے لہجے میں پراسراریت تھی۔ نادیہ مبہوت تھی۔ جمال نے پھر کہا۔ باس کی موت کے بعد اس کی کمپنی، جائیداد اور بینک بیلنس کی تم وارث ہوگی۔ ہم دونوں شادی کرلیں گے اور پھر سب کچھ سنبھال کر سکون کی زندگی گزاریں گے۔ جمال کی بات سن کر نادیہ کے چہرے پر مسکراہٹ آگئی۔ جمال کی مسکراہٹ میں مکاری تھی۔ وہ چالاک تھا۔ وہ اکائونٹس کا کام تو نہیں دیکھتا تھا لیکن اسے یہ تو اندازہ تھا کہ مختار احمد کے اکائونٹس میں کروڑوں روپے ہوں گے۔ پھر یہ کمپنی بھی کم نہیں تھی اور مختار احمد کی جائیداد کی قیمتیں بھی آسمان سے باتیں کرتی تھیں، وہ ان سب چیزوں کو نادیہ کے ذریعے حاصل کرنا چاہتا تھا۔ اسے بہت کچھ حاصل کرنے کا سنہری موقع مل رہا تھا۔ وہ نادیہ کو اعتماد کے جھانسے میں رکھ کر اس سے سب کچھ لینے کا فیصلہ کرچکا تھا۔ اور نادیہ کیلئے بھی اس نے ایک جال تیار کرلیا تھا جس میں نادیہ کو پھنسا کر وہ خود بچ نکلنا چاہتا تھا۔ ٭ ٭ ٭ نادیہ نے اسی دن مختار احمد کو یہ بتاکر خوش کردیا کہ وہ اس سے شادی کرنے کو تیار ہے۔ مختار احمد ایسے خوش ہوا جیسے اسے کاروبار میں کوئی بہت بڑا فائدہ ہوا ہو۔ مختار احمد اس سے اسی روز شادی کرنا چاہتا تھا۔ نادیہ نے اپنی ماں کو فون کرکے محض اتنا بتادیا تھا کہ وہ شادی کررہی ہے اور اب گھر نہیں آئے گی۔ اس کی ماں نے سن کر اسے دعا دی تھی اور لاپروائی سے کہا تھا۔ جہاں چاہو مرو۔ اسی شام کو نادیہ کا نکاح مختار احمد سے ہوگیا اور وہ مختار احمد کی بیوی بن کر اس کے لگژری فلیٹ میں آگئی۔ فلیٹ خوبصورت تھا۔ ایسا فلیٹ اس نے پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ فلیٹ کے دونوں ملازمین سے مختار احمد نے تعارف کرایا اور دونوں بیڈ روم میں چلے گئے۔ ملازم نے حسبِ معمول ایک طرف وہ دوائیاں رکھی ہوئی تھیں جو مختار احمد کو سونے سے قبل کھانی تھیں۔ وہ کئی گولیاں تھیں۔ نادیہ نے ان گولیوں کی طرف دیکھا اور ایک طرف بیٹھ گئی۔ مختار احمد نے ایک ایک گولی کھائی اور پھر نادیہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ مجھے ان دوائیوں نے زندہ رکھا ہوا ہے۔ مجھے اپنی جسمانی حالت کا پتہ ہے۔ جانے کب میں دنیا چھوڑ دوں لیکن دل میں شادی کی مچلنے والی خواہش نے تمہیں میری بیوی بنادیا۔ میں نے زندگی میں جو چاہا وہ مجھے ملا۔ دولت کمائی اور خرچ بھی کی۔ بہت کچھ پایا اور بہت کچھ کھو دیا پتہ بھی نہیں چلا کہ کیسے کھودیا۔ جانے کیوں مختار احمد کی آنکھوں میں نمی اتر آئی اور چہرہ اداسی میں ڈوب گیا۔ دوسرے ہی لمحے اس کے چہرے پر آئی اداسی معدوم ہوگئی اور اس نے پھر سلسلہ کلام جوڑا۔ زندگی کے اس حصے میں شادی کی خواہش نے جنم لیا اور میں نے کسی چیز کی پروا کئے بغیر تم سے شادی کرلی۔ اب جو کچھ وہ تمہارا ہے۔ اسی اثنا میں مختار احمد کی نگاہ سامنے بیڈ کی تپائی پر پڑی۔ وہاں ایک بند لفافہ پڑا تھا۔ فلیٹ میں آنے والی ڈاک ملازم اسی جگہ رکھتا تھا۔ یہ مختار احمد کا حکم تھا۔ مختار احمد نے وہ لفافہ اٹھایا اور اسے چاک کرکے اندر سے ایک کاغذ نکالا اور اسے پڑھنے کے بعد مختار احمد نے کانپتے ہاتھوں سے کاغذ پھر لفافے کے اندر رکھا اور اس لفافے کو الماری کھول کر اندرونی دراز میں رکھ دیا۔ اس لفافے میں جانے کیا تھا کہ مختار احمد کے کندھے جھک گئے تھے۔ وہ نادیہ کے پاس ہی بیٹھ گیا۔ آپ کی طبیعت ٹھیک ہے نادیہ نے پوچھا۔ ہاں، میں ٹھیک ہوں۔ مختار احمد نے مرجھائے سے لہجے میں کہا اور اپنے جوتے اتارنے لگا۔ پھر اس نے اپنی جرابیں اتاریں اور کوٹ اتار کر ایک طرف پھینک دیا۔ اس کے بعد وہ بیڈ پر دراز ہوگیا اور اس نے اپنی آنکھیں بند کرلیں۔ نادیہ پاس بیٹھی رہی۔ کچھ ہی دیر میں مختار احمد نیند کی وادی میں چلا گیا۔ نادیہ نے بیزاری سے کمرے کی طرف دیکھا اور اٹھ کر کمرے میں رکھی چیزیں دیکھنے لگی۔ کبھی وہ الماری کھول کر اندر جھانکنے لگتی، اور کبھی وہ کسی سجاوٹ کی چیز کو اٹھا کر دیکھنے لگتی کہ اچانک اس کی نظر کونے میں رکھی کوڑے کی ٹوکری پر چلی گئی۔ کوڑے کی ٹوکری کچھ کاغذات سے بھری ہوئی تھی اور اوپر چیک بک پڑی دکھائی دے رہی تھی۔ نادیہ نے چیک بک اٹھالی۔ اندر آٹھ چیک تھے۔ نادیہ کو حیرت ہوئی کہ یہ چیک بک کوڑے کی ٹوکری میں کیوں پھینکی ہوئی ہے کیا غلطی سے کوڑے کی ٹوکری میں چلی گئی تھی یہی سوچتے ہوئے نادیہ آہستہ سے کمرے سے باہر چلی گئی۔ نادیہ نے دوسرے کمرے میں جاکر جمال کا نمبر ملایا۔ جلدی رابطہ ہوگیا۔ جمال نے فوراً پوچھا۔ خیریت ہے، اس وقت فون کیا ہے نادیہ نے اسے چیک بک والی بات بتائی تو اسے سن کر جمال بھی سوچ میں پڑگیا۔ وہ بینک کے معاملات کو جانتا تھا۔ اگر مختار احمد نے اس بینک کا اکائونٹ بند کیا تھا تو بھی بچ جانے والے چیک اس طرح کوڑے کی ٹوکری میں نہ پھینکتا۔ تم ایسا کرو کہ اس چیک بک کو سنبھال کر رکھ لو اور موقع ملتے ہی ان کا ذکر کرنا اور یہ وجہ جاننے کی کوشش کرنا کہ انہوں نے یہ چیک بک اگر خود پھینکی ہے تو کیوں اور اگر تم کسی طرح سے ان چیکس پر ان کے دستخط لے لو تو کمال ہوجائے گا۔ میں کوشش کروں گی۔ نادیہ نے فون بند کیا اور جونہی وہ واپس کمرے میں گئی تو چونک گئی۔ مختار احمد جاگ رہا تھا۔ کہاں چلی گئی تھیں تم آپ سو گئے تھے تو میں ایسے ہی کمرے سے باہر چلی گئی تھی۔ نادیہ نے اپنی گھبراہٹ پر قابو پاتے ہوئے جواب دیا۔ دروازہ لاک کردو۔ مختار احمد نے کہا۔ ٭٭٭ صبح ناشتے کی میز پر دونوں ناشتے سے فارغ ہوئے تو باتوں باتوں میں نادیہ نے چیک بک کا ذکر کردیا۔ مختار احمد نے حیرانی سے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔ وہ چیک بک تم نے اٹھالی ہے جی میں سمجھی کہ شاید غلطی سے آپ نے پھینک دی تھی۔ غلطی سے نہیں میں نے غصے سے پھینکی تھی۔ مختار احمد بولا۔ اگر ان پر دستخط کرکے پھینکتے تو آپ کی غصے میں پھینکی ہوئی چیک بک میرے کام آجاتی۔ نادیہ نے کہا۔ ابھی لائو میں دستخط کردیتا ہوں۔ مختار احمد نے خوش دلی سے اپنی جیب سے پین نکال کر کہا تو نادیہ نے موقع ضائع نہیں کیا اور چیک بک لاکر مختار احمد کے سامنے رکھ دی۔ مختار احمد نے آٹھوں چیکس پر اپنے دستخط کردئیے اور مسکراتے ہوئے کہا۔ پچاس لاکھ روپے سے زیادہ کا چیک نہ بھرنا۔ بینک میرا پچاس لاکھ روپے تک کا چیک پاس کرنے کا مجاز ہے۔ آپ بے فکر رہیں۔ مجھے اتنی بڑی رقم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ نادیہ تو خوشی سے پھولے نہیں سما رہی تھی۔ مختار احد نے اپنے دونوں ملازمین کو بلایا اور کہا۔ میں نے رات تم لوگوں سے کہا تھا کہ صبح تم دونوں جانے کی تیاری کرلینا۔ کیا تم دونوں تیار ہو جی، ہم تیار ہیں۔ ملازم نے جواب دیا۔ مختار احمد نے اپنی جیب میں ہاتھ ڈالا۔ اس کے ہاتھ میں کچھ نوٹ تھے۔ وہ اس نے ملازم کے ہاتھ پر رکھتے ہوئے کہا۔ تم دونوں نے میری بہت خدمت کی ہے۔ اب تم واپس اپنے گائوں چلے جائو۔ ملازم چپ چاپ اپنی بیوی کے ساتھ چلا گیا۔ پھر مختاراحمد نے ایک فون کیا اور رابطہ ہوتے ہی بولا۔ ہاں، میں بول رہا ہوں ایسا ہے کہ میں آپ کے پاس بارہ بجے کے قریب پہنچوں گا مجھے اپنی وصیت میں تبدیلی کرانی ہے ٹھیک ہے۔ مختار احمد بات ختم کرنے کے بعد اپنے کمرے کی طرف چلا گیا اور نادیہ دم بخود اسی جگہ بیٹھی رہ گئی۔ اس کی کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ اس نے اپنے ملازموں کو چھٹی کیوں دے دی اور وہ اپنی وصیت میں کیا تبدیلی کرنا چاہتا ہے۔ کچھ دیر بعد مختار احمد تیار ہوکر باہر آگیا اور یوں فلیٹ سے باہر نکل گیا جیسے فلیٹ میں اس کے علاوہ کوئی بھی نہیں تھا۔ مختار احمد سوچوں میں مستغرق تھا، اس لئے اسے یہ خیال ہی نہ رہا کہ اب اس فلیٹ میں نادیہ بھی ہے جو اس کی بیوی ہے۔ نادیہ اپنی جگہ سے اٹھی اور یہ سوچتی رہی کہ اچانک مختار احمد کو کیا ہوا کہ اس نے اسے نظر انداز کردیا۔ پھر اس نے جمال کو فون کیا۔ اہم بات سنو۔ میرے ایک بار کہنے سے مختار احمد نے ان چیکوں پر اپنے دستخط کردئیے ہیں۔ کیا واقعی جمال کی خوشگوار حیرت میں ڈوبی ہوئی آواز آئی۔ انہوں نے کہا ہے کہ میں ایک چیک پچاس لاکھ روپے سے زیادہ کا نہ بھروں۔ آٹھ چیک ہیں اور اس طرح ہم چار کروڑ روپیہ بینک سے نکال سکتے ہیں۔ نادیہ بھی خوش تھی۔ مجھے تو حیرانی ہے کہ باس نے اپنے دستخط کردئیے۔ اس سے اندازا ہوتا ہے کہ وہ تمہارے حسن میں کھوکر ہر چیز سے بے نیاز ہوچکا ہے۔ تم وہ چیک بک سنبھال کر رکھنا۔ جمال نے تاکید کی۔ دوسری بات یہ کہ اس نے ابھی اپنے وکیل کو فون کیا تھا اور اسے کہا تھا کہ وہ بارہ بجے اس کے پاس آئے گا۔ وہ اپنی وصیت میں تبدیلی کرانا چاہتا ہے۔ نادیہ نے مزید بتایا۔ مجھے لگتا ہے کہ وہ پہلے اکیلا تھا اس لئے اس نے اس حساب سے وصیت لکھی ہوگی۔ اب تم اس کی زندگی میں آگئی ہو، اس لئے ممکن ہے کہ وصیت کی تبدیلی تمہاری وجہ سے ہورہی ہو۔ تمہارے نام بہت کچھ ہونے والا ہے۔ یہ سب تو ٹھیک ہے لیکن اس سے چھٹکارا کب ملے گا۔ نادیہ بولی۔ اس کا بھی میں بندوبست کرلیتا ہوں۔ تم فکر نہیں کرو۔ جمال نے کہا۔ ٭ ٭ ٭ سہ پہر چار بجے کے قریب تیز بیل نے نادیہ کو چونکا دیا۔ نادیہ نے جاکر دروازہ کھولا تو سامنے وہیل چیئر پر مختار احمد بیٹھا ہوا تھا جبکہ جمال کے ساتھ آفس کے کچھ اور آدمی بھی موجود تھے۔ کیا ہوا انہیں نادیہ نے پوچھا۔ ان کی آفس میں اچانک طبیعت خراب ہوگئی تھی۔ انہیں ڈاکٹر کے پاس لے گئے تھے، دو گھنٹے اپنے پاس رکھنے کے بعد اب انہوں نے چھٹی دی ہے۔ جمال یہ بتاتے ہوئے وہیل چیئر دھکیلتا ہوا اندر لے گیا۔ پھر سب نے مل کر مختار احمد کو اس کے بیڈ روم میں لٹا دیا۔ مختار احمد نیم بے ہوش تھا۔ کچھ دیر کے بعد آفس کے لوگ وہاں سے چلے گئے اور جمال دوائی کھلانے کے بہانے اس جگہ رک گیا۔ دونوں بیڈ روم کے باہر تھے۔ نادیہ نے آہستہ سے پوچھا۔ ہارٹ اٹیک ہوا ہے کیا ہلکا سا ہوا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ اسے کچھ نہیں ہوگا۔ شکر کر، تجھ سے شادی کے ایک دن بعد ہی وہ بستر سے لگ گیا ہے۔ اب باقی کسر میں پوری کروں گا۔ جمال کا لہجہ سفاک ہوگیا تھا۔ کیسے کرو گے بہت آسان ہے۔ تم ایسا کرو، مجھے وہ چیک دکھائو۔ جمال ان چیکس کو حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن یہ دولت بھی بڑی عجیب چیز ہوتی ہے۔ انسان کے دل میں لالچ کے بیج بوتی ہے۔ نادیہ کے دل میں بھی لالچ پیدا ہوگیا تھا۔ وہ مختار احمد سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتی تھی اور مختار احمد کی کمپنی، جائیداد، بینک بیلنس پر خود قابض ہونا چاہتی تھی۔ اسے اس دولت میں جمال کی شراکت داری پسند نہیں تھی۔ جبکہ جمال چیکس دیکھنے کے بہانے ان پر قبضہ جمانا چاہتا تھا۔ اس کے سوال پر نادیہ نے کچھ سوچا اور پھر بولی۔ تم اپنا کام کرو، میں چیک بک تلاش کرتی ہوں۔ تلاش کرتی ہو اس کی بات سن کر جمال چونکا۔ صبح میں نے کہیں رکھ دئیے تھے۔ میں نے کہا بھی تھا کہ سنبھال کر رکھنا۔ غصہ ہونے کی بات نہیں ہے۔ وہ چیک بک اسی فلیٹ میں ہے۔ میں نے کہیں رکھ دی ہے، مجھے یاد نہیں آرہا ہے، ابھی تلاش کرلیتی ہوں۔ نادیہ کی بات سن کر جمال کچھ دیر تک اس کا چہرہ دیکھتا رہا اور پھر اس نے اپنی جیب سے ایک پڑیا نکال کر نادیہ کو دکھاتے ہوئے کہا۔ باس کی دوائی کا وقت ہوگیا ہے۔ اس میں ایک ایسی گولی ہے جو میں اسے دوسری دوائیوں کے ساتھ کھلا دوں گا، اس کا کام ہوجائے گا۔ گولی جانے کب اثر دکھائے، تم اس بیمار کے منہ پر تکیہ رکھ کر کیوں نہیں مار دیتے نادیہ کو اس کا طریقہ پسند نہیں آیا۔ جمال نے سوچا کہ نادیہ ٹھیک کہہ رہی ہے۔ اس حالت میں جبکہ مختار احمد کو آکسیجن کی زیادہ ضرورت ہے وہ اس کے منہ پر تھوڑی دیر تکیہ رکھ کر اسے ہمیشہ کی نیند سلا سکتا ہے۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو۔ جمال نے کہہ کر کمرے کا دروازہ کھولا اور اندر دیکھا۔ مختار احمد جاگ رہا تھا اور وہ لاغری سے دائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔ کون ہے نادیہ دروازے پر آہٹ سن کر مختار احمد نے پوچھتے ہوئے اس جانب دیکھا۔ اسے دیکھنے میں دقت پیش آرہی تھی لیکن دھندلا سا دکھائی دے رہا تھا۔ میں جمال ہوں۔ جب آپ اپنے آفس میں گر کر بے ہوش ہوگئے تھے تو میں ہی آپ کو اٹھا کر ڈاکٹر کے پاس لے کر گیا تھا۔ اور اب آپ کو آپ کے بیڈ روم میں لے آیا ہوں۔ جمال قریب ہی بیٹھ گیا۔ شکریہ۔ خالی شکریے سے کام نہیں چلے گا۔ اس کے لئے مجھے کچھ اور چاہئے۔ کیا چاہتے ہو آپ کی موت۔ جمال کی پھنکارتی ہوئی آواز نے مختار احمد کے جسم میں سراسیمگی بھر دی۔ اس نے متوحش نگاہوں سے جمال کی طرف دیکھا۔ یہ کیا کہہ رہے ہو تم میں ٹھیک کہہ رہا ہوں۔ آپ نے نادیہ سے شادی کی، چپ رہا، حالانکہ اس سے شادی میں کرنا چاہتا تھا۔ نادیہ کو میں نے ہی کہا تھا کہ وہ آپ سے شادی کرلے۔ کیونکہ امیر کبیر بننے کا یہ سنہری موقع تھا۔ اور اس جوئے میں ہماری جیت یقینی ہے۔ اب آپ اس دنیا سے جائیں گے تو وہ پھر میری بنے گی۔ اور آپ کی ساری جائیداد، کمپنی اور بینک بیلنس کی وارث نادیہ ہوگی۔ نادیہ کی ہر چیز میری ہوجائے گی۔ وہ کہہ کر مسکرایا۔ اس کی بات سن کر مختار احمد کے ہونٹوں پر ایک مریل سی مسکراہٹ آگئی۔ میں جانتا تھا کہ تم دونوں ایک دوسرے کو چاہتے ہو۔ بعض اوقات انسان جو سوچتا ہے وہی ہوجاتا ہے۔ میں نے بھی کچھ ایسا ہی سوچا تھا۔ تم نے کیا سوچا تھا بڈھے جمال کے لہجے میں تغیر آگیا تھا۔ اس کا جواب دینے کے بجائے مختار احمد چپ ہوگیا اور ہولے سے مسکراتا رہا۔ اس کی مسکراہٹ اور خاموشی جمال کو زہر لگ رہی تھی۔ لمحہ بالمحہ جمال کا غصہ بڑھنے لگا تھا ۔ کیونکہ مختار احمد بڑی ڈھٹائی سے خاموشی اختیار کئے اس کے سامنے پڑا تھا۔ جمال یکدم اٹھا اور اس نے تکیہ اٹھا کر مختار احمد کے منہ پر رکھ دیا۔ مختار احمد نے کوئی مزاحمت نہیں کی اور ایڑیاں رگڑتا ہوا بے جان ہوگیا۔ اپنا کام کرنے کے بعد جمال نے تکیہ ہٹا دیا اور اپنے ماتھے پر آیا پسینہ صاف کیا، اچھی طرح سے تسلی کی کہ مختار احمد زندہ تو نہیں ہے۔ پھر وہ جونہی گھوما اس کے پیچھے نادیہ کھڑی تھی۔ اس نے جمال کے گھومتے ہی اپنا ایک ہاتھ اپنی کمر کے پیچھے کرلیا تھا۔ نادیہ نے ہاتھ میں مختار احمد کا قیمتی موبائل فون پکڑا ہوا تھا اور اس موبائل فون سے جمال کی قتل کرتے ہوئے ویڈیو بنالی تھی۔ جمال نے یہ پوچھا ہی نہیں کہ اس نے اپنا ہاتھ پشت پر کیوں کیا ہے۔ اس نے اتنی بڑی دولت، جائیداد اور کمپنی کے لئے پہلی بار کسی کی جان لی تھی اس لئے دل میں خوف اور گھبراہٹ تھی۔ اس نے نادیہ کو ہدایت کی۔ تم ایسا کرو ڈاکٹر کی رپورٹس وہ پڑی ہیں۔ ڈاکٹر کو فون کرو کہ مختار احمد کی طبیعت بگڑ گئی ہے اس لئے فوراً گھر آجائیں۔ اور یہ بات گھبرا کرکرنا۔ میں ابھی فون کرتی ہوں۔ نادیہ نے کہہ کر ڈاکٹر کی فائل اٹھائی اور اس پر لکھا ہوا نمبر دیکھ کر باہر چلی گئی۔ جمال بھی اس کے پیچھے تھا۔ فون ایک طرف رکھا ہوا تھا۔ اس جگہ بیٹھتے ہی ہوشیاری سے نادیہ نے موبائل فون دراز میں رکھ دیا اور ریسیور اٹھاکر کان سے لگالیا۔ نمبر نہیں مل رہا ہے۔ ایک دو بار کوشش کرنے کے بعد نادیہ نے کہا۔ اس کے ساتھ ہی نادیہ یکدم چونکی اور اس کی نگاہیں مختار احمد کے بیڈ روم کی طرف تھیں۔ مجھے کوئی آواز آئی ہے۔ جمال گھبرا گیا اور اس نے فوراً پلٹ کر کمرے کی طرف دیکھا اسی اثنا میں نادیہ نے فون کی تار جو نیچے سے آرہی تھی کھینچ دی۔ تار باہر نکل گئی اور فون ڈیڈ ہوگیا۔ تمہارا وہم ہے، کوئی آواز نہیں آرہی ہے۔ جمال نے غور کرنے کے بعد کہا۔ شاید یہ میرا وہم ہی تھا۔ نادیہ نے کہتے ہوئے فون کرنے کے لئے پھر ریسیور اٹھایا تو بولی۔ یہ کیا فون تو ڈیڈ ہوگیا ہے۔ جمال تیزی سے آگے بڑھا۔ اس نے ریسیور اپنے کان سے لگایا اور غصے سے پٹخ دیا۔ تم جلدی سے وہ چیک لے کر آئو تاکہ میں دیکھوں کہ کہیں ان پر دستخط جعلی تو نہیں ہیں۔ مجھے یاد نہیں آرہا ہے کہ میں نے چیک بک کہاں رکھ دی ہے۔ نادیہ نے بظاہر یاد کرنے کی کوشش کی۔ جمال پہلے ہی جھنجھلایا ہوا اور غصے میں تھا۔ اس نے نہ آئو دیکھا اور نہ تائو فوراً نادیہ کے منہ پر تھپڑ رسید کردیا۔ نادیہ یکدم نیچے گری۔ جمال غصے سے بولا۔ مجھ سے جھوٹ بولتی ہو، سب کچھ اکیلی ہڑپ کر جانا چاہتی ہو۔ نادیہ نے اٹھتے ہوئے پتھر کا گلدان پکڑا اور پوری قوت سے جمال کے سر پر دے مارا۔ جمال کا سر پھٹ گیا اور وہ نیچے گرتے ہی ساکت ہوگیا۔ نادیہ کو یکدم احساس ہوا کہ اس نے یہ کیا کردیا۔ نادیہ نے جمال کو ہلایا اور اسے ہوش میں لانے کی کوشش کی۔ لیکن جمال نے کوئی حرکت نہیں کی۔ نادیہ کو لگاکہ اس کے ہاتھ سے جمال کا خون ہوگیا ہے۔ ایک دم وہ چونک گئی کیونکہ کسی نے دروازے پر بیل دی تھی۔ نادیہ کی سانس تیز ہوچکی تھی اور وہ دم بخود دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ پھر وہ اٹھی اور اس نے تھوڑا سا دروازہ کھول کر باہر دیکھا۔ سامنے مختار احمد کا وکیل نصیر کھڑا تھا۔ میرا نام نصیر باجوہ ہے اور میں مختار احمد کا دوست بھی ہوں اور ان کا وکیل بھی ہوں۔ مجھے مختار احمد سے ملنا ہے۔ اس سے پہلے کہ نادیہ کوئی جواب دیتی۔ نصیر کی نظر نادیہ کے ہاتھ پر چلی گئی جس پر اچھا خاصا خون لگا ہوا تھا۔ نصیر نے حیرت سے پوچھا۔ آپ کے ہاتھ پر خون لگا ہے خیریت تو ہے نادیہ نے یکدم اپنا ہاتھ اٹھا کر دیکھا، وہ واقعی خون سے سرخ ہوچکا تھا۔ دروازہ کھل گیا تھا اور نصیر کو اندر ایک انسانی جسم فرش پرپڑا نظر آگیا تھا۔ نصیر جلدی سے آگے بڑھا۔ اس نے جمال کے پاس کھڑے ہوکر اسے غور سے دیکھا۔ یہ تو مختار احمد کی کمپنی کا ملازم ہے آپ نے مارا ہے اسے نادیہ بری طرح گھبرا گئی۔ اس کی سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ وہ اس کا کیا جواب دے۔ پھر ایک دم اس کے دماغ نے کام کیا اور وہ بولی۔ آج ان کی طبیعت سخت خراب تھی۔ وہ دو گھنٹے ڈاکٹر کے پاس رہ کر آئے تھے۔ جمال ہی انہیں ڈاکٹر کے پاس اور پھر یہاں لے کر آیا تھا۔ جانے کیا ہوا کہ جمال نے ان کے منہ پر تکیہ رکھ دیا۔ میں اچانک اندر آئی تو وہ ان کے منہ پر تکیہ رکھ کر انہیں مار رہا تھا۔ میں نے موبائل فون پر ان کی ویڈیو بنانا شروع کردی۔ جمال نے دیکھا تو اس نے مجھ پر بھی حملہ کردیا اور میں نے اپنے آپ کو بچانے کے لئے گلدان اس کے سر پر مار دیا۔ اوہ خدایا نصیر کہہ کر تیزی سے بیڈ روم کی طرف بھاگا۔ مختار احمد کا مردہ جسم پڑا تھا۔ اسے دیکھنے کے بعد نصیر باہر آیا اس نے جمال کو چیک کیا۔ وہ ابھی زندہ تھا۔ اس نے فون کرکے ایمبولینس بلالی۔ ٭ ٭ ٭ مختار احمد کے پوسٹ مارٹم سے یہ بات ثابت ہوچکی تھی کہ اسے قتل کیا گیا تھا۔ جمال بچ تو گیا تھا لیکن قانون کے شکنجے میں آگیا تھا۔ وہ بہت چیخا اور چلایا لیکن نادیہ کو وہ قانون کی گرفت میں لانے میں کامیاب نہیں ہوسکا۔ نادیہ کے خلاف کوئی ثبوت نہیں تھا۔ کچھ ایسے الزامات بھی جمال پر نادیہ نے لگا دئیے تھے کہ جس سے وہ اور بھی شکنجے میں آگیا تھا۔ نادیہ بہت خوش تھی کہ وہ اب تین بنگلوں، ایک فلیٹ اور بڑی کمپنی کی اکیلی مالکن ہے۔ اس کے پاس مختار احمد کے دستخط شدہ آٹھ چیک بھی ہیں جن کی مدد سے وہ کم از کم چار کروڑ روپیہ بینک سے نکلوا سکتی ہے۔ اب اسے بڑی شدت سے انتظار تھا کہ اس کے عدت کے دن پورے ہوں اور وہ شان بے نیازی سے اس کرسی پر بیٹھ سکے جس پر مختار احمد بیٹھتا تھا۔ وہ ایک ایک دن اور ایک ایک لمحہ گن رہی تھی، ابھی اس واقعے کو محض سات دن ہوئے تھے۔ اسی شام کو نصیر باجوہ آگیا۔ نادیہ نے اسے بٹھایا اور نصیرباجوہ نے کہنا شروع کردیا۔ مختار احمد میرا بہت اچھا دوست تھا۔ مجھ سے اپنی ذاتی باتیں کرتا تھا۔ مختار احمد مرنا چاہتا تھا۔ وہ خود کشی کے خلاف تھا۔ وہ حرام موت نہیں مرنا چاہتا تھا۔ ورنہ وہ کب کا اپنی زندگی کا خود خاتمہ کرلیتا۔ وہ بہت ذہین تھا۔ اس نے مرنے کا طریقہ یہ تلاش کیا کہ اس نے تم سے شادی کرلی۔ مرنے کے لئے مجھ سے شادی کرلی نادیہ کی حیرت عروج پر تھی۔ مختار احمد تمہاری اور جمال کی محبت کے بارے میں جانتا تھا۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ دولت کے لالچ میں اس کے ساتھ کوئی بھی شادی کرنے کو تیار ہوسکتا ہے۔ وہ یہ بھی جانتا تھا کہ کوئی بھی نوجوان لڑکی اسے زیادہ دن برداشت نہیں کرسکتی اور اس سے جلدی چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کوئی نہ کوئی حربہ استعمال ضرور کرے گی۔ اپنے خاص تعلق کی وجہ سے وہ تم دونوں کی موبائل فون پر ہونے والی گفتگو بھی سنتا تھا۔ اس بات نے نادیہ کو بری طرح سے چونکا دیا۔ نصیر پھر بولا۔ ویسا ہی ہوا جیسا اس نے سوچا تھا، تم دونوں نے مل کر مختار احمد کو مار دیا۔ جمال کے پاس کوئی ثبوت نہیں تھا لیکن تم نے چالاکی سے اس کی ویڈیو بنالی۔ وہ پھنس گیا اور تم بچ گئیں۔ معلوم نہیں آپ کیا کہہ رہے ہیں۔ نادیہ نے نظریں چرانے کی کوشش کی۔ تمہیں سب معلوم ہے۔ کیا تم یہ نہیں جاننا چاہوگی کہ مختار احمد مرنا کیوں چاہتا تھا نصیر نے کہا۔ نادیہ چپ رہی۔ حالانکہ وہ یہ سوال کرنا چاہتی تھی۔ لیکن وہ جان بوجھ کر چپ تھی اور اس انتظار میں تھی کہ نصیر خود ہی اسے بتادے۔ چلو میں خود ہی بتا دیتا ہوں۔ اصل بات یہ ہے کہ مختار احمد کے تینوں بنگلے مختلف بینکوں کی تحویل میں ہیں۔ مختار احمد کی موت کے بعد ان بینکوں نے اپنے اپنے بنگلے کو اپنے قبضے میں لے لیا ہے۔ نصیر احمد نے انکشاف کیا۔ کیا نادیہ کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ مختار احمد مکمل دیوالیہ ہوچکا تھا، مارکیٹ کا بہت سا پیسہ اس کے سر پر تھا۔ وہ مرنا چاہتا تھا، حرام موت کو گلے لگانے کے بجائے اس نے یہ راستہ اختیار کیا حالانکہ وہ ڈاکٹری نسخے کے مطابق اپنی دوائیاں بھی پوری نہیں کھاتا تھا۔ بنگلے، بینک لے گئے اور اس کی کمپنی کو ایک اور بینک نے اپنے قبضے میں لے لیا ہے کیونکہ وہ بھی بینک کے پاس گروی تھی۔ اس بات نے تو جیسے نادیہ کے اندر سے اس کی جان نکال لی اور وہ دم بخود نصیر کا چہرہ دیکھنے لگی۔ تمہارے پاس جو آٹھ دستخط شدہ چیک ہیں، انہیں بینک لے کر مت جانا کیونکہ وہاں مختار احمد کی پھوٹی کوڑی بھی نہیں ہے اور اس نے غصے سے وہ چیک بک کوڑے کی ٹوکری میں پھینکی تھی۔ یہ بات مجھے مختار احمد نے خود بتائی تھی۔ نصیر نے نئی بات کرکے نادیہ کا مرجھایا ہوا چہرہ دیکھا۔ کچھ توقف کے بعد اس نے کہا۔ جمال تو اپنے انجام کو پہنچ گیا، تم بھی اس کے ساتھ جرم میں پوری شریک ہو، لیکن تم قانون کے شکنجے سے دور ہو۔ اس کی سزا تو تمہیں خدا دے گا اور اس سے بڑھ کر اور کیا سزا ہوسکتی ہے کہ ایک لڑکی دربدر ہوجائے کیونکہ اب اسے اس کے گھر والے بھی قبول نہیں کریں گے۔ میں تمہارے گھر والوں سے مل چکا ہوں۔ نادیہ کا دل خون کے آنسو رو رہا تھا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ لالچ میں نہ آکر اگر وہ جمال کے ساتھ شادی کرلیتی تو دونوں خوش و خرم زندگی گزار رہے ہوتے۔ پھر وہ یکدم بولی۔ میں اپنی ساری زندگی اس فلیٹ میں گزار گی اور کہیں نوکری کرلوں گی۔ اس کی بات سن کر نصیر مسکرایا اور بولا۔ مختار احمد کے بنگلے جب بینک کی تحویل میں چلے گئے تو وہ اس فلیٹ میں آگیا۔ وہ میرا دوست تھا، اب وہ دنیا سے جا چکا ہے۔ یہ فلیٹ میری ملکیت ہے۔ آخری بات مجھے تم سے یہ کہنی ہے کہ براہ مہربانی اپنا سامان پیک کرو اور پندرہ منٹ سے زیادہ وقت نہ لیتے ہوئے میرا فلیٹ خالی کردو۔ نادیہ کو لگا جیسے وہ بے جان ہوگئی ہے اور ابھی گر جائے گی۔
null
null
null
null
458
https://www.urduzone.net/maamta-complete-story/
یہ بات سوزن پر بجلی بن کر گری تھی کہ اس کا شوہر جیف ان کی چار سالہ بیٹی کو اس کے اسکول سے اپنے ساتھ لے گیا تھا۔ جیف کے ساتھ اس کے تعلقات تب سے کشیدہ ہوئے تھے جب اسے اچانک پتا چلا تھا کہ وہ ایک مجرم ہے۔ وہ ہیرے چرانے والے ایک گروہ میں شامل تھا۔ پولیس اس کو ڈھونڈتی ہوئی ان کے گھر تک آگئی تھی لیکن اتفاق سے جیف اس وقت گھر پر نہیں تھا۔ سوزن کے لئے یہ سوہان روح تھا کہ اس نے ایک مجرم سے محبت کی تھی۔ جس نے اسے پتا ہی نہیں چلنے دیا تھا کہ اس کا اصل کاروبار کیا ہے شادی کے بعد اس کا رویہ کچھ اتنا اچھا نہیں تھا لیکن سوزن ننھی جیمی کی وجہ سے اسے برداشت کر رہی تھی۔ وہ اپنی بیٹی کو باپ کی شفقت سے محروم نہیں کرنا چاہتی تھی۔ مگر جیسے ہی اسے جیف کی مجرمانہ سرگرمیوں کی خبر ہوئی تھی اس نے جیف سے علیحدگی اختیار کر لی تھی۔ یہ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ جیمی کو اسکول سے اپنے ساتھ لے جائے گا اور اس کا کہیں سراغ بھی نہیں ملے گا۔ اس پریشانی میں اس کا خاصا وزن کم ہوگیا تھا۔ وہ بار بار خود کو یقین دلاتی تھی کہ جیف جیمی کا باپ ہے۔ وہ اسے کوئی تکلیف نہیں پہنچائے گا لیکن اسے ایک پل بھی چین نہیں آتا تھا۔ سنہری بالوں اور سبزی مائل نیلی آنکھوں والی اس کی گڑیا سی بیٹی نہ جانے کہاں تھی کس حال میں تھی اسے کچھ خبر نہیں تھی۔ اسے یقین تھا کہ وہ اسے کبھی نہ کبھی فون ضرور کرے گی۔ اس نے جیمی کو اپنا فون نمبر خوب اچھی طرح سے یاد کروا رکھا تھا۔ سوزن کی راتیں بے خواب تھیں ایک خوف ہر وقت اس کے ساتھ ساتھ رہتا تھا اگر جیمی کو کچھ ہوگیا تو اگر وہ اسے نہ ملی تو اس کا دل چاہتا تھا کہ زور زور سے چیخے۔ ہر طرف جیمی کو پکارتی پھرے۔ یہاں تک کہ وہ اسے پا لے لیکن ایسا کچھ بھی نہیں ہوا تھا اور پورے سات ماہ گزر گئے تھے۔ پولیس نے کئی جگہ چھاپے مارے تھے۔ مگر جیف کا کچھ پتا نہیں چلا تھا کہ وہ کہاں غائب ہوگیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ جیمی اپنے بیڈ پر سہمی ہوئی سی بیٹھی تھی۔ وہ کوشش کر رہی تھی کہ ان آوازوں کو نہ سنے جو لائونج سے مسلسل آ رہی تھیں۔ ڈیڈی اور تانیا میں پھر جھگڑا ہو رہا تھا۔ دونوں پوری آواز سے چیختے ہوئے ایک دوسرے پر کمرے کی چیزیں پھینک رہے تھے۔ وہ سوچ رہی تھی کہ یہ عورت نہ جانے کون تھی اور ڈیڈی کے گھر میں کیوں رہتی تھی، جبکہ دونوں آپس میں لڑتے ہی رہتے تھے۔ جیمی کوشش کر رہی تھی کہ ممی کے بارے میں سوچے اور ان تمام باتوں کے بارے میں جو اس نے اور ممی نے کرسمس کی شام منانے کے بارے میں طے کی تھیں کہ وہ کہاں کہاں گھومیں گے۔ کون کون سی خریداری کریں گے اور کس طرح چرچ میں جا کر عبادت کریں گے۔ وہ دل ہی دل میں دعائیں مانگ رہی تھی کہ جب کرسمس کی شام آئے تو خدا ممی کو بھی اس کے پاس بھیج دیں اور وہ اس کا ہاتھ تھام کر اسے وہ سب کچھ دکھائیں۔ جس کا انہوں نے پروگرام بنایا تھا۔ ڈیڈی اسے ممی سے بہت دور لے آئے تھے اور آج رات انہیں پھر ایک اور نئے شہر جانا تھا۔ اسے تانیا کی آواز سنائی دی۔ وہ بہت غصے سے اسے پکار رہی تھی۔ جیمی اس کی طرف دیکھتے ہوئے ڈرتی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ تانیا اسے پسند نہیں کرتی تھی۔ وہ ڈرتے ڈرتے کمرے سے باہر آئی۔ ڈیڈی اخبار پڑھ رہے تھے۔ وہ اس کی طرف بالکل متوجہ نہیں ہوئے وہ بہت بدل گئے تھے۔ انہوں نے اسے تھپڑ بھی مارا تھا جب اس نے ممی کو فون کرنے کی کوشش کی تھی۔ ڈیڈی کہتے تھے کہ ممی بہت بیمار ہے۔ وہ اس لئے اسے اپنے ساتھ لے آئے تھے کہ وہ انہیں تنگ نہ کرے۔ جیمی آگے بڑھ کر کرسی پر بیٹھ گئی۔ میز پر اس کے لئے کارن فلیکس اور اورنج جوس کا ایک گلاس لکھا ہوا تھا۔ تانیا ہمیشہ یہی ناشتا اسے کھانے کے لئے دیتی تھی، جس سے اسے نفرت ہوچکی تھی اور جسے کھانے سے اس کا پیٹ نہیں بھرتا تھا۔ ڈیڈی اخبار میں کوئی خبر پڑھ رہے تھے۔ جس میں پولیس کا ذکر تھا۔ تانیا ان کے پیچھے کھڑی ان کے شانے پر سے اخبار دیکھ رہی تھی۔ دونوں سفر کی تیاریوں کے بارے میں بات کر رہے تھے۔ جیمی بے دلی سے کارن فلیکس کھا رہی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ اگر اس نے یہ بدمزہ ناشتا نہ کیا تو دن بھر بھوکی رہے گی۔ تانیا کو اس کی کوئی پروا نہیں تھی کہ اس نے کچھ کھایا یا نہیں کھایا۔ جیسے جیسے وہ جانے کی باتیں کرتے تھے جیمی کا دل گھبراتا تھا۔ یہ بات اسے پریشان کر رہی تھی کہ اس طرح وہ ممی سے اور زیادہ دور چلی جائے گی تو ممی اس تک کیسے پہنچیں گی وہ ابھی ٹیبل پر ہی بیٹھی تھی کہ ڈیڈی اور تانیا بیڈروم میں چلے گئے۔ جیمی بھی اپنے کمرے میں آگئی۔ اس نے جامنی ٹرائوزر اور اس سے ملتی ہوئی شرٹ پہن لی۔ یہ وہ کپڑے تھے جو جیمی نے اس دن پہن رکھے تھے جب ڈیڈی اسے اسکول لینے آئے تھے۔ کیونکہ ممی بیمار تھی۔ اسے یاد آ رہا تھا کہ ممی نے یہ کپڑے اس روز کتنی محبت سے اسے پہنائے تھے۔ کتنے پیار سے اس کے بالوں میں برش کیا تھا۔ یہ کپڑے اسے چھوٹے ہوچکے تھے۔ مگر وہ پھر بھی انہیں پہننا پسند کرتی تھی۔ وہ باہر آئی تو ڈیڈی اور تانیا کہیں جانے کے لئے تیار تھے۔ ڈیڈی نے ایک بریف کیس تھام رکھا تھا۔ جو بھاری معلوم ہوتا تھا۔ اسے دیکھ کر انہوں نے کہا۔ میں اور تانیا تھوڑی دیر کے لئے باہر جا رہے ہیں میں دروازے پر ڈبل لاک لگا دوں گا تاکہ تم محفوظ رہو ہمارے آنے تک تم ٹی وی وغیرہ دیکھنا پھر تانیا تمہیں اپنے ساتھ بازار لے جائے گی تاکہ تمہارے لئے کچھ گرمیوں کے کپڑوں کی خریداری کرسکے۔ ہم جہاںجا رہے ہیں وہاں موسم گرم ہے۔ تم کرسمس کا تحفہ بھی لے لینا اچھا جیمی نے مسکرا کر سر ہلایا۔ اس کا ننھا سا دل دھک دھک کر رہا تھا۔ وہ دیکھ رہی تھی کہ ڈیڈی نے فون کو تالا نہیں لگایا تھا۔ شاید وہ بھول گئے تھے۔ وہ بے چینی سے ان کے جانے کا انتظار کر رہی تھی۔ اسے یقین تھا کہ آج وہ ممی کو فون کرنے میں کامیاب ہو جائے گی۔ وہ چلے گئے تو اس کا دل خوشی سے بلّیوں اچھلنے لگا۔ اس نے کچھ دیر انتظار کیا تاکہ وہ کچھ دور نکل جائیں۔ پھر وہ دوڑ کر ٹیلیفون تک گئی اور اس نے اپنے ننھے ہاتھوں میں ریسیور اٹھایا۔ وہ ہر رات ممی کے نمبر کو کئی بار دہراتی تھی کہ کہیں بھول نہ جائے ممی نے بڑی محنت سے اسے اپنا نمبر یاد کرایا تھا۔ وہ ایک ایک نمبر ملا کر اسے یاد کرنے کے لئے کہتی تھیں۔ اچانک دروازہ کھلا اور اسے ڈیڈی کی آواز سنائی دی۔ ریسیور اس کے ہاتھ سے گرگیا۔ ڈیڈی نے ریسیور اُٹھا کر کان سے لگایا پھر ریسیور پٹخا اور لاک لگاتے ہوئے بولے۔ آج اگر کرسمس کی شام نہ ہوتی تو میں تمہیں زور سے ایک تھپڑ لگاتا۔ وہ لوگ پھر چلے گئے۔ جیمی ایک کرسی پر بیٹھ گئی۔ اس نے اپنے گھٹنوں پر سر رکھ دیا اور خود کو سمجھانے لگی کہ وہ پانچ سال کی بڑی لڑکی ہے۔ ممی کہتی تھیں کہ بڑی لڑکیاں رویا نہیں کرتیں ضبط کی کوشش کے باوجود اس کی آنکھیں نم آلود ہوگئی تھیں اور اس کا نچلا گلابی ہونٹ بار بار کانپنے لگتا تھا۔ اس طرف سے اپنی توجہ ہٹانے کو وہ اس پروگرام کے بارے میں سوچنے لگی جو ممی نے کرسمس کی شام کے لئے بنایا تھا۔ پارک کی سیر، اچھے سے ہوٹل میں کھانا کھلونوں اور کپڑوں کی خریداری وہ خیالوں ہی خیالوں میں ممی کا ہاتھ تھامے ان تمام جگہوں کی سیر کر رہی تھی۔ تانیا اور ڈیڈی جلد واپس آگئے۔ تانیا نے اپنا کوٹ نہیں اتارا اور جیمی سے بولی۔ چلو اٹھو جلدی سے چلو میرے ساتھ میں تمہیں شاپنگ کرا لائوں۔ پھر پیکنگ بھی کرنی ہے۔ جیمی نے جلدی سے اپنا کوٹ پہنا اور اس کے ساتھ چل دی۔ تانیا کو اسے شاپنگ کرانے میں کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ اس نے سیلز گرل سے گرمی کے کچھ کپڑوں کے لئے کہا اور بیزاری سے بولی۔ تمہارے ڈیڈی کہہ رہے تھے کہ تم کچھ کھلونے بھی کرسمس کے تحفے کے طور پر لے سکتی ہو۔ کھلونوں کے سیکشن میں جیمی کے سامنے ڈھیروں کھلونے تھے۔ مگر اس کا دل کچھ بھی خریدنے کو نہیں چاہ رہا تھا۔ ممی کے بجائے اس بیزار عورت کے ساتھ کرسمس کی خریداری کرنے کا اس نے سوچا بھی نہیں تھا۔ اس کی نگاہ اچانک مکی مائوس پر پڑی۔ اسے یاد آیا کہ گھر میں وہ مکی مائوس کو اپنے ساتھ بستر میں سلاتی تھی۔ جیمی نے جب وہ لینا چاہا تو تانیا نے وہ اس کے ہاتھ سے چھین لیا اور بولی۔ یہ اتنا بڑا مکی مائوس ہم جہاز میں کہاں گھسیٹتے پھریں گے۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر اسے دکان سے باہر لے آئی۔ اس نے گھر کے لئے ٹیکسی لے لی۔ جیمی اس کے ساتھ دبک کر بیٹھ گئی ٹیکسی جب گھر کے قریب پہنچی تو تانیا یکدم بہت گھبرا گئی۔ گھر کے باہر پولیس کی دو گاڑیاں کھڑی ہوئی تھیں۔ جیمی نے دیکھا کہ سامنے سے ڈیڈی آ رہے تھے ان کے اردگرد دو پولیس والے تھے اور ان کے ہاتھ میں ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ جیمی حیرت سے ان کی طرف اشارہ کرنے کو تھی کہ تانیا نے اس کے گھٹنے پر زور سے چٹکی کاٹ کر اسے خاموش کروا دیا اور ٹیکسی والے سے بولی۔ میرا ایک ضروری شاپنگ بیگ مارکیٹ میں رہ گیا ہے تم واپس چلو۔ ٹیکسی والے نے گاڑی واپس موڑ لی۔ جیمی کو کچھ پتا نہ چلا کہ ڈیڈی کو پولیس کہاں لے گئی تھی۔ وہ تانیا سے بھی نہیں پوچھ سکتی تھی۔ اس کے چہرے کے نقوش تنے ہوئے تھے اور اس کا ہاتھ ابھی تک جیمی کے گھٹنے پر تھا، جہاں اس نے بڑے زور سے پہلے بھی چٹکی کاٹی تھی۔ جیمی الجھی ہی رہی۔ اس کے اندر خوف گھر کرتا رہا۔ اگر ڈیڈی کو پولیس پکڑ کر لے گئی تو وہ تانیا کے ساتھ کیسے رہے گی جو پہلے ہی اس سے نفرت کرتی تھی۔ مارکیٹ میں تانیا نے اپنے لئے ایک سوٹ کیس، کوٹ، ہیٹ اور سیاہ شیشوں والی ایک بڑی سی عینک خریدی وہ بہت جلدی جلدی سارے کام کر رہی تھی۔ چیزیں خریدنے کے بعد اس نے سیلز گرل سے کہا کہ وہ اپنا نیا لباس تبدیل کرنا چاہتی ہے اور ٹرائی روم میں چلی گئی۔ جب وہ باہر آئی تو جیمی اسے دیکھ کر حیران رہ گئی۔ اس کا حلیہ بالکل تبدیل ہوچکا تھا۔ وہ تانیا کے بجائے کوئی اور عورت لگ رہی تھی۔ اس نے اپنے سارے بال ہیٹ میں چھپا لئے تھے۔ اس کا سیاہ چشمہ اتنا بڑا تھا کہ اس کا چہرہ اس میں تقریباً چھپ گیا تھا۔ جیمی کو بہت بھوک لگی تھی۔ صبح سے اس نے صرف تھوڑے سے کارن فلیکس کھائے تھے۔ راستوں میں کافی رش تھا۔ لوگ کرسمس کی خریداری کے بنڈل سنبھالے اپنے اپنے گھروں کی طرف رواں دواں تھے۔ جگہ جگہ سانتاکلاز کھڑے تھے، جن کے ڈبوں میں لوگ پیسے ڈال رہے تھے۔ ایک کونے میں اسے برگر اور کوک کا ٹھیلا نظر آیا۔ جس پر بڑی سی چھتری لگی ہوئی تھی۔ جیمی نے ڈرتے ڈرتے تانیا کی آستین کھینچ کر اسے متوجہ کیا۔ کیا میں یہ برگر لے سکتی ہوں مجھے بہت بھوک لگی ہے۔ تانیا ٹیکسی کو ٹھہرانے کی کوشش کر رہی تھی۔ وہ غصے سے غرائی۔ تم بھی کیا مصیبت ہو چلو جائو مرو لے لو برگر مگر ذرا جلدی سے جیمی نے ٹھیلے والے کو برگر کے لئے کہا۔ تب تک تانیا ٹیکسی روک چکی تھی۔ برگر والا ابھی اس میں کیچپ لگا ہی رہا تھا کہ تانیا نے آگے بڑھ کر کہا۔ بس کیچپ کو رہنے دو۔ ٹیکسی میں بیٹھ کر جیمی نے برگر کھانے کی کوشش کی تو ٹیکسی والے نے روک دیا کہ گاڑی میں بیٹھ کر کھانے کی اجازت نہیں تھی۔ جیمی کے پیٹ میں بھوک سے مروڑ سے اٹھ رہے تھے۔ اس کے ہاتھ میں برگر کا لفافہ تھا لیکن وہ اسے کھا نہیں سکتی تھی۔ وہ بے چینی سے انتظار کر رہی تھی کہ وہ کب ٹیکسی سے اتریں گے۔ خدا خدا کرکے سفر تمام ہوا اور وہ ایک بڑی سی بلڈنگ کے باہر اترے تانیا اِدھر اُدھر یوں دیکھ رہی تھی جیسے کسی سے خوفزدہ ہو۔ وہ اس کا ہاتھ پکڑ کر وہاں لے آئی جہاں بہت سے لوگ کرسیوں پر بیٹھے تھے۔ ایک گوشے میں ایک بوڑھی عورت سو رہی تھی۔ اس کا ہاتھ اس کے قریب رکھے ہوئے سوٹ کیس پر تھا۔ تانیہ نے جیمی کو اس کے برابر بٹھا دیا اور تاکید سے بولی۔ اچھا جیمی تم یہیں پر میرا انتظار کرو میں ایک گھنٹے تک واپس آتی ہوں۔ تب تک تم اپنا برگر اور کوک ختم کرو۔ یہاں خاموشی سے بیٹھنا کسی سے کوئی بات نہ کرنا۔ اگر کوئی پوچھے تو کہہ دینا کہ تم اس آنٹی کے ساتھ ہو۔ جیمی کے پیٹ میں بھوک سے چوہے دوڑ رہے تھے۔ اس نے اطمینان کا سانس لیا کہ اسے آرام سے بیٹھ کر کھانے کا موقع ملے گا۔ برگر ٹھنڈا ہو چکا تھا۔ اس میں کیچپ بھی نہیں تھا لیکن جیمی کو بھوک اتنی زیادہ لگی ہوئی تھی کہ اسے وہ ٹھنڈا برگر بھی اچھا لگا۔ تانیا اس کے سامنے برقی زینے سے اوپر کی منزل پر چلی گئی۔ برگر ختم ہوگیا۔ جیمی اِدھر اُدھر دیکھتی رہی۔ لوگ آ جا رہے تھے۔ زیادہ تر لوگوں نے سامان اٹھا رکھا تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ وہ کوئی اسٹیشن تھا۔ کافی وقت گزر گیا۔ جیمی کی پلکیں بوجھل ہوگئیں اور وہ اونگھنے لگی۔ پھر شاید سو گئی نہ جانے وہ کب تک سوتی رہی پھر بوڑھی عورت کے جھنجھوڑنے سے وہ بیدار ہوئی۔ وہ اس سے پوچھ رہی تھی۔ بے بی تم اکیلی ہو اس کے چہرے پر تشویش تھی۔ نہیں تانیا ابھی آ رہی ہے۔ جیمی کے لئے نیند کے مارے بات کرنا دشوار تھا۔ تم کافی دیر سے یہاں بیٹھی ہو اس نے پوچھا۔ تانیا ابھی آ جائے گی۔ جیمی نے پھر وہی بات دہرا دی۔ اچھا ٹھیک ہے میں نے اپنی بس پکڑنی ہے میں جا رہی ہوں تم یہاں بیٹھی رہنا کسی سے بات نہ کرنا نہ ہی اٹھ کر کہیں جانا جب تک تانیا نہیں آ جاتی۔ بوڑھی عورت نے اپنا سوٹ کیس اٹھایا اور چلی گئی۔ بہت دیر ہوگئی۔ پھر اس کی نظر وہاں لگی ہوئی گھڑی پر پڑی۔ ممی نے اسے وقت دیکھنا سکھایا تھا۔ چھوٹی سوئی چار پر تھی اور بڑی سوئی ایک پر اس نے بہت سوچ سوچ کر اندازہ لگایا کہ چار بج چکے تھے۔ راستے میں تانیا نے کائونٹر پر سے بس کی روانگی کا ٹائم پوچھا تھا تو کلرک نے دو بجے کا وقت بتایا تھا۔ اس کا مطلب تھا کہ تانیا اسے اپنے ساتھ نہیں لے کر گئی تھی۔ وہ یہاں اکیلی تھی۔ اب اسے کہاں جانا چاہئے۔ اس کی سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا تھا۔ ڈیڈی کو پولیس پکڑ کر لے گئی تھی اور تانیا نہ جانے کہاں چلی گئی تھی۔ وہ ممی کو فون کرسکتی تھی۔ اسے نمبر بھی یاد تھا۔ اب کوئی اسے منع بھی نہیں کرے گا ممی آ جائیں گی تو سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا لیکن اس کے پاس پیسے نہیں تھے کہ وہ فون کرسکتی۔ اسے رونا آ رہا تھا۔ وہ ممی کو کس طرح یہاں بلا سکتی تھی۔ اس کا کوئی طریقہ اسے معلوم نہیں تھا۔ اس نے آنسو بھری آنکھوں سے ڈرتے ڈرتے چاروں طرف دیکھا۔ سامنے ایک بڑا خودکار دروازہ تھا۔ جہاں سے لوگ آ جا رہے تھے۔ اس کا مطلب تھا کہ بلڈنگ سے باہر نکلنے کا یہی راستہ تھا۔ اگر وہ یہاں سے باہر نکل جاتی تو گھر کا راستہ تلاش کرسکتی تھی۔ اس نے ڈیڈی اور تانیا کو ٹیکسی والوں کو ایڈریس بتاتے ہوئے سنا تھا۔ وہاں جا کر وہ ہمسایوں سے ممی کو فون کروا سکتی تھی۔ تانیا خریداری کا لفافہ اس کے پاس ہی چھوڑ گئی تھی۔ اگرچہ وہ بھاری تھا، لیکن جیمی نے جیسے تیسے اسے اٹھا لیا۔ وہ باہر سڑک پر آئی تو ہوا تیز تھی۔ اندھیرا اور ٹھنڈک بڑھ چکی تھی۔ ہیٹ کے بغیر سرد ہوا اس کے سر کو سرد کر رہی تھی۔ اس نے وہاں ایک شخص کو اخبار بیچتے ہوئے دیکھا۔ اسے ممی نے بتایا تھا کہ اگر وہ کبھی گم ہو جائے تو گھبرائے نہیں نہ ہی کسی کو اس کا پتا چلنے دے ان لوگوں کے ساتھ ساتھ چلتی رہے جن کے ساتھ بچے ہوں تاکہ لوگ یہ سمجھیں کہ وہ ان کے ساتھ ہے اکیلی نہیں اس نے کچھ دور ایک عورت کو دیکھا جس نے ایک بچہ اٹھا رکھا تھا اور ایک بچوں کی گاڑی کو کھولنے کی کوشش کر رہی تھی۔ جیمی جلدی سے اخبار والے کے قریب پہنچی اور اس عورت کی طرف اشارہ کرکے بولی۔ مجھے اور ممی کو اس ایڈریس پر جانا ہے۔ اس نے خوداعتمادی سے ایڈریس بتایا۔ بے بی وہ تو بہت دور ہے تمہیں کافی چلنا پڑے گا۔ یہاں سے سیدھے چلتے جائو اور ہر بلاک کا بورڈ دیکھتے جانا۔ جیمی گھبرائی لیکن اسے یہ اطمینان ہوگیا کہ اگر وہ ہمت کرے تو چلتے چلتے آخر گھر تک پہنچ ہی جائے گی۔ اس نے سر جھکایا اور خریداری کا لفافہ تھامے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ ٭ ٭ ٭ سوزن کو پولیس نے اطلاع دی تھی کہ جیف کو گرفتار کر لیا گیا تھا لیکن اس کے اپارٹمنٹ میں جیمی کا کوئی سراغ نہیں ملا تھا۔ اس کی ساتھی تانیا جیمی کو لے کر کہیں غائب ہوگئی تھی۔ سوزن کا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا۔ کیا وہ جیمی سے کبھی نہیں مل سکے گی۔ یہ پریشانی اس کے دل پر آنسو بن کر گر رہی تھی۔ اس نے خود پر قابو پاتے ہوئے پولیس آفیسر سے کہا۔ کیا میں جیف سے مل سکتی ہوں ہم نے ہر طرف ناکے لگا رکھے ہیں۔ ہم آپ کی بیٹی کو تلاش کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔ لیکن میں جیف سے بات کرنا چاہتی ہوں۔ وہ دانت بھینچ کر بولی۔ تھوڑی دیر میں جیف اس کے سامنے تھا۔ دو پولیس والے اس کے دائیں بائیں تھے اور اسے ہتھکڑی لگی ہوئی تھی۔ وہ اس کی طرف دیکھ کر ڈھٹائی سے مسکرایا۔ ہیلو سوزن اتنے عرصے بعد تمہیں دیکھنا اچھا لگا ہے۔ تم کچھ کمزور ہوگئی ہو لیکن پھر بھی خوبصورت لگ رہی ہو۔ وہ یوں بول رہا تھا جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ مجھے بتائو کہ وہ عورت جیمی کو کہاں لے جاسکتی ہے اس نے اپنے دونوں ہاتھوں کو ایک دوسرے میں پھنساتے ہوئے بقیہ مامتا کہا کہ کہیں وہ بڑھ کر اس سنگدل شخص کا چہرہ نہ نوچ لے۔ جیف نے شانے اچکا کر عجیب سی شکل بنائی۔ مجھے کیا پتا جیف اگر جیمی کو کچھ ہوا تو میں تمہیں قتل کردوں گی۔ سوزن اپنی سسکیاں روکتے ہوئے چلائی۔ پولیس اہلکار جیف کو اپنے ہمراہ لے گئے۔ آفیسر اسے ویٹنگ روم میں لے آیا۔ سوزن کے لئے بیٹھنا محال تھا۔ اس نے کافی لینے سے بھی انکار کردیا۔ اس نے دعا مانگنی چاہی لیکن اسے کوئی لفظ نہیں سوجھا اس کے سارے وجود میں بس ایک ہی بات گردش کر رہی تھی۔ جیمی اپنی ممی کے پاس آ جائو جیمی ممی کے پاس آ جائو۔ ایک ایک پل گزارنا مشکل تھا۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ کیا کرے۔ انتظار کی سولی پر ایک ایک لمحہ جانکنی کا تھا۔ پھر آفیسر نے بتایا کہ ایک بس کے اڈے پر ایک عورت کو چھوٹی بچی کے ساتھ دیکھا گیا ہے۔ جس کا حلیہ جیمی سے ملتا جلتا تھا۔ پولیس اسے تلاش کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ تقریباً پون گھنٹے بعد اطلاع ملی کہ تانیا کو ایئرپورٹ سے گرفتار کر لیا گیا ہے۔ اس نے پولیس کو دھوکا دینے کے لئے بس کا ٹکٹ خریدا تھا۔ سوزن بے چین ہو کر اپنی جگہ سے اٹھ گئی۔ کیا اس کے ساتھ جیمی ہے مجھے اس سے ملا دو۔ میری بچی کہاں ہے آنسوئوں میں اس کی آواز گھٹ کر رہ گئی۔ تانیا نے بتایا ہے کہ اس نے جیمی کو بسوں کے اڈے کے ویٹنگ روم میں بٹھا دیا تھا۔ آفیسر نے بتایا۔ اوہ میرے خدا وہ کتنی بے رحم عورت ہے ہم نے پتا چلایا ہے کہ جیمی کے حلیے کی بچی کو دو عورتوں کے ساتھ جاتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔ اب کیا ہوگا ہائے میری بیٹی سوزن نے دل تھام کرکہا۔ مجھے امید ہے آپ کی بیٹی مل جائے گی آج کرسمس کی شام میں ہجوم کی وجہ سے بہت سے بچے اپنے بڑوں سے بچھڑ جاتے ہیں۔ لوگ انہیں ان کے لواحقین تک پہنچا دیتے ہیں۔ آفیسر نے اسے تسلی دی اور اس کی حالت غیر دیکھ کر جلدی سے کہا۔ ہم ٹی وی پر جیمی کی تصویر دے رہے ہیں۔ ہم ریڈیو پر بھی اپیل نشر کریں گے۔ شام کے اخباروں میں بھی اس کی گمشدگی کا اعلان شائع ہوگا۔ اس عورت تانیا کا کہنا ہے کہ جیمی کو گھر کا ایڈریس معلوم ہے۔ اسی لئے ہم نے ایک بندہ اپارٹمنٹ میں بھی بٹھا دیا ہے تاکہ اگر بچی وہاں پہنچ جائے یا فون کرے تو ہمیں فوراً اطلاع ہو جائے۔ سوزن کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہ رہے تھے۔ وہ کچھ بھی کہہ پا نہیں رہی تھی۔ آفیسر نے ہمدردی سے کہا۔ اگر آپ اپارٹمنٹ میں جانا چاہتی ہیں تو وہ یہاں سے تھوڑے ہی فاصلے پر ہے ہماری گاڑی آپ کو وہاں چھوڑ دے گی۔ سوزن، جیف کے اپارٹمنٹ پہنچی تو وہاں موجود پولیس اہلکار ٹی وی دیکھ رہا تھا۔ سوزن کی نگاہ ڈائننگ ٹیبل پر پڑی۔ بچوں کی پلیٹ میں اب تک کچھ کارن فلیکس رکھے ہوئے تھے۔ اورنج جوس کا گلاس آدھا پیا ہوا تھا۔ جیمی کا چھوٹا سا بیڈروم گندا اور بکھرا ہوا تھا۔ بیڈ کی چادر نیچے لٹکی ہوئی تھی قریب میز پر رنگ اور ڈرائنگ بک پڑی تھی۔ کرسی پر ایک چھوٹا نائٹ گائون پڑا ہوا تھا۔ سوزن نے اسے اٹھا کر یوں بازوئوں میں بھینچ لیا جیسے وہ جیمی ہو کاش وہ جیمی کو بھی اسی طرح اپنی بانہوں میں لے سکتی۔ سوزن کا دل کٹا جا رہا تھا۔ جیمی نہ جانے کہاں تھی کس حال میں تھی وہ اس کو کہاں سے ڈھونڈ کر لے آئے اس کی سمجھ میں نہیں آتا تھا۔ اس کا سانس جیسے بند ہو رہا تھا۔ اس نے کھڑکی کھول کر ایک لمبا سانس لیا۔ باہر سڑک پر لوگ اپنے بچوں کے ساتھ خریداری کے لفافے اٹھائے چلے جا رہے تھے۔ سوزن کے دل میں خیال آیا۔ کیا خبر جیمی کہیں راستے میں بھٹک رہی ہو گھر کی تلاش میں وہ پولیس اہلکار کی طرف پلٹی۔ پلیز آپ لوگ جیمی کو راستے میں تلاش کیوں نہیں کرتے کہیں وہ گھر نہ ڈھونڈ رہی ہو پولیس اہلکار نے ٹی وی سے نگاہ ہٹا کر اس کی طرف دیکھا۔ میڈم ہم آپ کی خاطر یہ کوشش بھی کر دیکھتے ہیں۔ ہم بھی چاہتے ہیں کہ کرسمس کی اس شام آپ کی بیٹی آپ کو مل جائے میں ابھی آفیسر کو فون کرتا ہوں۔ پلیز میں بھی تمہارے ساتھ چلوں گی۔ سوزن اپنا کوٹ اٹھاتے ہوئے بولی۔ ٭ ٭ ٭ جیمی کے ننھے پائوں بری طرح سے تھک چکے تھے مگر وہ چلتی جا رہی تھی اس امید پر کہ کبھی تو منزل پر پہنچے گی۔ گھر پہنچ کر وہ سب سے پہلے ممی کو فون کرے گی تو وہ جلدی سے اس کے پاس آ جائیں گی شروع شروع میں جب اس نے چلنا شروع کیا تھا تو وہ ہر بلاک کے شروع ہونے پر اس کا نمبر پڑھ لیتی تھی۔ مگر بعد میں وہ اتنا تھک گئی کہ اس سے بورڈ پر لکھا ہوا نمبر پڑھنا بھی دوبھر ہوگیا۔ وہ اب نمبر پڑھنا بھی نہیں چاہتی تھی۔ کیونکہ انہیں دیکھ کر پتا چلتا تھا کہ وہ بلاک ابھی بہت دور تھا جہاں اس نے جانا ہے۔ وہ یہ احتیاط کر رہی تھی کہ ان لوگوں کے ساتھ ساتھ چلے جن کے ساتھ بچے تھے تاکہ لوگ سمجھیں کہ وہ ان کے ساتھ ہے۔ وہ کسی سے بات نہیں کر رہی تھی تاکہ کسی کو پتا نہ چلے کہ وہ گم ہوچکی ہے اور اس کے ساتھ کوئی بڑا نہیں۔ اچانک ایک شخص اس کے قریب آیا اور اس نے اس کا ہاتھ پکڑ لیا۔ جیمی نے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوئی۔ اس کا ننھا سا دل دھک دھک کرنے لگا۔ بے بی تم اکیلی ہو وہ سرگوشی کے انداز میں بولا۔ بظاہر وہ مسکرا رہا تھا لیکن اس کی مسکراہٹ خوفزدہ کرنے والی تھی۔ اس کی چھوٹی چھوٹی آنکھیں بغور اس کی طرف دیکھ رہی تھیں۔ وہ ایک گندی سی جیکٹ اور تھیلا نما پتلون پہنے ہوئے تھا۔ جیمی کو یاد تھا کہ ممی نے کسی اجنبی سے بات کرنے کو منع کیا تھا۔ اس شخص کا تو حلیہ بھی عجیب تھا جیمی نے ہمت کر کے کہا۔ نہیں میری ممی وہاں سے پیزا خرید رہی ہیں۔ اس نے دکان کی طرف اشارہ کیا جہاں بہت سے لوگ خریداری کر رہے تھے۔ اس شخص نے اس کا ہاتھ چھوڑ دیا اور بولا۔ میرا خیال تھا کہ تمہیں مدد کی ضرورت ہے۔ وہ کچھ دیر وہاں کھڑی دیکھتی رہی جب وہ شخص ایک گلی میں مڑگیا تو اس نے بھاگنا شروع کردیا، یہاں تک کہ اس کا سانس پھول گیا۔ ایک بار پھر اسے رونا آنے لگا لیکن اس نے خود کو سمجھایا کہ ممی کہتی تھیں کہ چھوٹے بچے رویا کرتے ہیں۔ وہ تو اب بڑی ہو گئی تھی۔ اس نے اپنے آنسوئوں پر قابو پایا تھک جانے کی وجہ سے اسے وہ لفافہ بہت بھاری لگ رہا تھا اتنا بوجھ اٹھا کر چلنا بہت مشکل ہو رہا تھا۔ آخر اس نے لفافے کو ایک پتھر کے پیچھے رکھ دیا۔ وہ سوچ رہی تھی کہ اگر کسی نے اس کو اٹھا لیا تو بھی اسے کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ جب ممی مل جائیں گی تو وہ اسے ایسی بہت سی چیزیں لے دیں گی۔ اس کے ہاتھ لفافہ اٹھا اٹھا کر تھک گئے تھے۔ لفافہ چھوڑ دینے سے اسے کافی بہتر محسوس ہو رہا تھا اب وہ پہلے کے مقابلے میں آسانی سے چل سکتی تھی۔ اس نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو اس کے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ گندی جیکٹ والا وہ شخص اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ وہ بہت گھبرا گئی اسی وقت ایک خاندان اس کے برابر سے گزرا۔ ان کے ساتھ دو چھوٹے لڑکے بھی تھے۔ وہ تیز تیز چلتی ان کے ساتھ شامل ہوگئی۔ وہ لوگ کچھ دیر چلتے رہے۔ پھر دائیں جانب مڑ گئے یہ دیکھ کر اس کی جان میں جان آئی کہ سامنے ہی وہ پارک تھا جو ان کے اپارٹمنٹ کے قریب تھا تو گویا وہ درست راستے پر تھی۔ اس نے اپنے قدموں کو تیز کردیا مگر پارک بہت دور تھا یوں لگتا تھا جیسے وہ پارک تک کبھی نہیں پہنچ سکے گی۔ ٭ ٭ ٭ سوزن پاگلوں کی طرح راہ چلتے لوگوں کو جیمی کی تصویر دکھا کر پوچھ رہی تھی کہ انہوں نے اس بچی کو تو نہیں دیکھا۔ وہ اس کی تصویر کو دیکھتے بعض افسوس میں سر ہلاتے کتنی پیاری بچی ہے بالکل ننھا سا فرشتہ لگتی ہے۔ کچھ وعدہ کرتے کہ جیسے ہی انہیں یہ بچی نظر آئی وہ پولیس کو خبر کردیں گے یا بچی کو روک لیں گے سوزن کی امید کبھی بندھتی اور کبھی ٹوٹنے لگتی وہ امید و بیم میں ڈوبتی ابھرتی اپنی سی کوشش کر رہی تھی۔ بچوں کے کھلونوں اور چیزوں والے پلازہ میں اس نے چوکیدار سے لے کر کائونٹر کلرک، سیلزگرل اور وہاں خریداری کرتے ہوئے لوگوں کو جیمی کی تصویر دکھا دکھا کر بار بار پوچھا کہ انہوں نے اس بچی کو کہیں دیکھا تو نہیں لوگ ہمدردی سے اس کی طرف دیکھتے اور انکار میں سر ہلا دیتے وہ ایک مرتبہ پھر کمرہمت باندھ لیتی۔ ٭ ٭ ٭ کھلونوں کے اسٹور میں زیادہ رش نہیں رہا تھا۔ لوگ اپنے گھروں کو جا رہے تھے۔ سڑک کے کونے پر کھڑے کچھ لوگ کرسمس کے گیت گا رہے تھے۔ جیمی کچھ دیر ان کے پاس کھڑی ہوگئی۔ یہ دیکھ کر اس کے اندر خوف کی ایک سرد لہر دوڑ گئی کہ اس کا پیچھا کرنے والا شخص بھی کچھ دور ٹھہر گیا تھا۔ گانا ختم ہوگیا تو ایک گلوکارہ جیمی کی طرف دیکھ کر مسکرائی۔ گڑیا تم اکیلی ہو جیمی ٹھٹھکی پھر اس نے جلدی سے کہا۔ نہیں، میرے ساتھ ممی ہیں۔ اس نے یونہی ایک خاتون کی طرف اشارہ کردیا اور تیزی سے اسی طرف بڑھ گئی۔ اسے چرچ میں بجتی ہوئی گھنٹیاں سنائی دیں تو اسے یاد آیا کہ ممی نے کہا تھا کہ وہ کرسمس کی شام چرچ بھی جائیں گے جہاں جھولے میں ننھے یسوع مسیح کا مجسمہ رکھا جائے گا۔ اس نے سوچا کہ وہ جلدی سے چرچ میں گھس جائے تاکہ گندی جیکٹ والا وہ شخص اس کا تعاقب نہ کرسکے چرچ کو خوبصورت روشنیوں سے سجایا گیا تھا۔ وہاں بہت سے لوگ جھولے کو گھیرے کھڑے تھے۔ مگر ابھی تک وہ خالی تھا۔ ایک شخص کینڈل اسٹینڈ میں نئی موم بتیاں لگا رہا تھا۔ ایک خاتون نے اس سے پوچھا کہ ننھے یسوع مسیح کا مجسمہ کہاں ہے تو وہ شخص بولا۔ جھولے میں مجسمہ آدھی رات کے بعد رکھا جائے گا۔ ابھی وہاں اتنا زیادہ رش نہیں تھا۔ جیمی نے جھولے کے سامنے ایک جگہ لے لی وہ دل ہی دل میں وہ دعا اب بھی دہرا رہی تھی جو وہ بہت دیر سے مانگ رہی تھی۔ پلیز یسوع مسیح جب تم جھولے میں آئو گے تو میری ممی کو بھی لے آنا۔ یہاں بہت سے لوگ آنا شروع ہوگئے تھے۔ آرگن پر مذہبی دھنیں بجائی جا رہی تھیں جو جیمی کو ہمیشہ بہت اچھی لگتی تھیں۔ چرچ ایک آرام دہ جگہ تھی۔ باہر کے مقابلے میں یہاں سردی اور تیز ہوا بھی نہیں تھی۔ سارا چرچ خوب گرم تھا۔ سامنے کرسمس ٹری کی سجاوٹ بہت خوبصورت تھی مگر وہ بہت اونچا تھا۔ جیمی اسے چھو نہیں سکتی تھی۔ وہ اتنا تھک گئی تھی کہ ایک کونے میں ایک کرسی پر چپ چاپ بیٹھ گئی۔ وہ دل ہی دل میں خود کو یہ کہہ کر حوصلہ دے رہی تھی کہ ممی بھی اس کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی ہیں۔ ٭ ٭ ٭ سوزن سڑک پر ماری ماری پھر رہی تھی۔ وہ ہر چھوٹی بچی کا چہرہ دیکھتی کہ کہیں وہ جیمی تو نہیں مگر ہر دفعہ اسے مایوسی ہوتی جیمی کا دور دور تک کوئی پتا نہیں تھا۔ کرسمس کی شام ہونے کی وجہ سے ہر موڑ پر سانتا کلاز اپنے مخصوص شوخ لباس پہنے چندہ جمع کر رہے تھے۔ سوزن نے ہر ایک کو جیمی کی تصویر دکھائی۔ مگر کسی کو کچھ پتا نہیں تھا۔ ایک مقام پر کرسمس کے گیت گانے والی ایک گلوکارہ نے ٹھٹھک کر تصویر کو دیکھا اور بولی۔ ایک ایسی بچی میں نے دیکھی تو تھی مگر وہ کہہ رہی تھی کہ وہ اپنی ماں کے ساتھ ہے۔ سامنے ہی چرچ تھا۔ سوزن نے سوچا کہ چرچ میں جا کر پادری سے دعا کرنے کے لئے کہے اور وہاں موجود لوگوں سے جیمی کے بارے میں معلوم کرے۔ اس نے چرچ کی طرف قدم بڑھائے ہی تھے کہ پولیس آفیسر نے اس کے قریب آ کر گاڑی روکی۔ سوزن نے اس کی آنکھوں میں ہمدردی اور دکھ جھلکتا دیکھا۔ وہ شیشے سے جھانک کر بولا۔ سوزن اس طرح تم اپنا وقت ضائع کر رہی ہو۔ یہ علاقہ اتنا بڑا ہے تم کہاں تک اس کو دیکھو گی کس کس سے پوچھو گی میں اس وقت تک چین سے نہیں بیٹھ سکتی جب تک مجھے جیمی مل نہیں جاتی وہ پتا نہیں کہاں بھٹک رہی ہے کس کے پاس ہے۔ اس کا گلا بھر آیا اور وہ خاموش ہوگئی۔ ابھی ابھی ہمیں ایک بس ڈرائیور نے بتایا ہے کہ اس نے دو عورتوں اور ایک چھوٹی بچی کو ایک اسٹاپ پر اتارا ہے۔ سوزن دل تھام کر رہ گئی۔ اوہ میرے خدا اس نے کچھ بتایا ہے کہ وہ کون سا اسٹاپ تھا ہاں اس نے بتایا ہے اور ہم نے وہاں پولیس کو پوری طرح سے مستعد کردیا ہے۔ وہ جلد اس کا پتا چلا لیں گے ہمارا خیال ہے کہ تم خبروں سے پہلے ٹی وی پر اپیل کرو۔ ہم نے اس کا انتظام کردیا ہے تمہاری اپیل کا یقینا مثبت اثر ہوگا۔ سوزن ان کی گاڑی میں بیٹھ گئی۔ اس نے انہیں رفتار کم رکھنے کے لئے کہا تاکہ وہ دونوں طرف دیکھتی ہوئی جائے آفیسر نے اس کی طرف دیکھا جیسے وہ اسے پاگل سمجھ رہا ہے لیکن سوزن کو خود پر قابو کہاں تھا وہ تو چاہتی تھی کہ ایک ایک انسان کو ٹھہرا کر جیمی کے بارے میں استفسار کرے۔ وہ دونوں طرف شیشوں میں سے جھانک رہی تھی۔ آفیسر نے اس کا شانہ چھو کر کہا۔ سوزن میرا خیال ہے جیمی کو تلاش کرنے کے لئے سب سے مؤثر یہی طریقہ ہے کہ ہم ٹی وی پر اپیل نشر کریں۔ کرسمس ٹری کے پاس بہت سے لوگ کھڑے تھے۔ وہ اتنا بڑا تھا کہ جیمی کو حیرت ہو رہی تھی کہ اس کے اوپر رنگ برنگی روشنیاں کس طرح لگائی گئی تھیں۔ پچھلے سال ممی نے سیڑھی پر کھڑے ہو کر کرسمس ٹری کی سجاوٹ کی تھی۔ جیمی اسے سجاوٹ کی مختلف چیزیں پکڑا رہی تھی۔ جیمی دل ہی دل میں ممی سے باتیں بھی کرتی جا رہی تھی اور یہی سمجھ رہی تھی کہ ممی بھی اس کے ساتھ ہیں۔ پارک بظاہر کافی قریب معلوم ہوتا تھا۔ مگر جب وہ اس کی طرف چلنا شروع کرتی تھی تو لگتا تھا جیسے وہ دور ہی دور ہوتا جا رہا ہے وہ چلتے چلتے تھک گئی تھی۔ چرچ میں کچھ دیر بیٹھنے سے اس کی تھکن قدرے دور ہوگئی تھی۔ اس نے پھر چلنے کا ارادہ کرلیا لیکن جب وہ باہر آئی تو برف باری شروع ہوچکی تھی۔ جیمی نے اپنے ننھے ہاتھ اپنی آستینوں میں گھسا لئے۔ اس نے سر کو جھکا لیا تاکہ برف اس کی آنکھوں میں نہ پڑے۔ اس نے اِدھر اُدھر نہیں دیکھا کہ کہیں اسے وہ گندی جیکٹ والا آدمی نظر نہ آ جائے جو کافی دیر سے اس کا پیچھا کر رہا تھا۔ اس نے تیز تیز قدم اٹھانا شروع کردیئے تاکہ آگے جاتے وگوں کے قریب ہو جائے کوئی یہ نہ سمجھے کہ وہ اکیلی ہے نہ ہی وہ گندی جیکٹ والا آدمی اس کے قریب آسکے۔ ٭ ٭ ٭ پولیس کی گاڑی سوزن کو لے کر ٹی وی اسٹوڈیو پہنچی تو آفیسر اس کے ساتھ اندر گیا۔ وہ اس کے ساتھ بہت تعاون کر رہے تھے۔ سب ہی چاہتے تھے کہ کرسمس کی شام میں اس کی بیٹی اسے مل جائے تاکہ دونوں اکٹھے کرسمس منا سکیں۔ ٹی وی والوں نے انہیں دوسری منزل پر بھیج دیا۔ پروڈکشن انچارج نے اس کو ہدایات دیں۔ ہم پہلے جیمی کی تصویر اسکرین پر دکھائیں گے۔ اس کے بعد آپ ایک خاص اپیل کریں گی۔ اس طرح کہ لوگ متوجہ ہوجائیں۔ سوزن ایک طرف انتظار میں کھڑی تھی۔ اچانک جیسے اس کا دل پھٹنے لگا۔ اسے یوں لگا جیسے جیمی اس کو پکار رہی ہے جیمی کی آواز اس کے سارے وجود میں گونج رہی تھی۔ وہ اسے بلا رہی تھی ممی میرے پاس آ جائو ممی میرے پاس آ جائو۔ اس نے جھپٹ کر آفیسر کا بازو پکڑا اور بولی۔ پلیز یہ اپیل کوئی اور کردے میں واپس جانا چاہتی ہوں۔ شش پروڈکشن منیجر نے خاموش رہنے کا اشارہ کیا غالباً ان کا مائیک کھلا ہوا تھا لیکن سوزن کو اس کی پروا کب تھی۔ اس کے اندر اٹھتی ہوئی آواز اسے بے چین کر رہی تھی۔ اس کے لئے وہاں ایک لمحہ ٹھہرنا بھی محال تھا۔ اس نے اشارے سے انہیں کہا کہ وہ جانا چاہتی ہے۔ پھر بغیر ان کے جواب کا انتظار کئے وہ سیڑھیاں اترنے لگی۔ ٭ ٭ ٭ جیمی کھلونوں کے اسٹور کے پاس رک گئی۔ شو کیس میں مختلف کھلونے خودکار نظام کے تحت اچھل کود کر رہے تھے۔ کچھ گڑیاں باہر کھڑے ہوئے لوگوں کی طرف ہاتھ ہلا رہی تھیں جیمی نے بھی جواباً ہاتھ ہلایا اور دل ہی دل میں کہنے لگی۔ ہم اگلے سال یہاں آئیں گے میری ممی مجھے بہت سے کھلونے خرید کر دیں گی۔ وہ ابھی کچھ دیر اور کھلونوں کی شرارتوں کو دیکھنا چاہتی تھی۔ مگر پھر اسے یاد آیا کہ ممی نے اسے کسی جگہ کھڑے ہونے سے منع کیا تھا۔ اسی لئے وہ کھلونوں کو الوداعی انداز میں ہاتھ ہلا کر آگے چل پڑی۔ برف باری اب بھی ہو رہی تھی۔ اس کی پیشانی اور بال برف کے گالوں سے گیلے گیلے سے ہوگئے تھے۔ اسے اپنے سر اور چہرے پر برفیلی ہوا کی ٹھنڈک محسوس ہو رہی تھی۔ وہ آہستہ آہستہ آگے بڑھ رہی تھی۔ بے بی کیا تم گم ہوگئی ہو اس آواز پر جیمی نے ٹھٹھک کر دیکھا۔ گندی جیکٹ والا وہ شخص قریب آگیا تھا وہ مدھم لہجے میں کہہ رہا تھا اگر تمہیں اپنے گھر کا پتا معلوم ہے تو میں تمہیں تمہارے گھر پہنچا دوں گا۔ جیمی کے اندر ایک امید نے سر اٹھایا کیا پتا یہ شخص اس کی مدد کرنا چاہتا ہو۔ اسے ڈرنا نہیں چاہئے بہادر بن کر اس سے بات کرنی چاہئے۔ جیمی نے ہمت کر کے اس سے کہا۔ کیا آپ میری ممی کو فون کردیں گے مجھے ان کا نمبر یاد ہے۔ ہاں ہاں کیوں نہیں، آئو چل کر انہیں فون کرتے ہیں۔ وہ بولا اور اس کا ہاتھ پکڑنے کو اپنا ہاتھ بڑھایا۔ جیمی ایک دم ڈر گئی وہ بہت تھک چکی تھی۔ سردی اور بھوک نے اسے بے حال کردیا تھا لیکن وہ اس شخص کے ساتھ نہیں جانا چاہتی تھی۔ وہ الٹے قدموں دوڑ کر کھلونوں کے شوکیس کے پاس آگئی۔ وہ زیر لب اپنی دعا دہرا رہی تھی۔ اوہ پلیز یسوع مسیح میری ممی کو میرے پاس بھیج دو میری ممی کو میرے پاس بھیج دو۔ ٭ ٭ ٭ پولیس کی گاڑی سوزن کو واپس لے آئی تھی۔ سوزن نے معذرت خواہانہ لہجے میں کہا۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ مجھے پاگل سمجھ رہے ہیں مگر میں کیا کروں میں مجبور ہوں۔ باہر برف باری ہو رہی تھی اور ہوا بے حد سرد تھی۔ لوگوں نے اپنے کالر اوپر اٹھا رکھے تھے۔ اکثر نے ٹوپیاں پہن لی تھیں اور وہ اسٹور کی کھڑکیوں کے ساتھ لگ کر کھڑے تھے۔ اس انتظار میں کہ برف باری میں کچھ کمی ہو جائے۔ وہاں بہت سے بچے بھی کھڑے تھے۔ مگر ان کے چہرے شوکیس کی طرف تھے۔ جہاں مختلف کھلونوں کے کرتب جاری تھے۔ ایک ایک کا چہرہ قریب جا کر ہی دیکھا جا سکتا تھا۔ سوزن باہر نکلنے کے لئے گاڑی کا دروازہ کھول ہی رہی تھی کہ آفیسر نے اپنے ساتھی سے کہا۔ ڈیوڈ وہ دور تم اس شخص کو دیکھ رہے ہو جو بچوں کے اغوا کے سلسلے میں پولیس کو مطلوب ہے مگر کہیں چھپا بیٹھا تھا یہ آج نظر آیا ہے ذرا دیکھو یہ وہی ہے سوزن حیرت سے ان کی طرف دیکھتی کی دیکھتی رہ گئی۔ انہوں نے گاڑی سے باہر چھلانگ لگائی اور کھلونوں کے شوکیس کی طرف دوڑے تھوڑی ہی دیر میں وہ ایک گندی جیکٹ والے شخص کو پکڑ کر لے آئے۔ وہ شور مچاتا جا رہا تھا کہ اس کا کوئی قصور نہیں اسے خوامخواہ ہی پکڑ لیا گیا ہے۔ حیرت زدہ سوزن کی نگاہ ایک چھوٹی سی بچی پر پڑی۔ اس شخص کی پکڑ دھکڑ میں وہ لڑکھڑا کر گر پڑی تھی۔ اس کے بالوں میں برف کے گالے جگہ جگہ نظر آ رہے تھے۔ یہ سنہرے بال سوزن ٹھٹھک کر ایک ثانیے کے لئے دیکھتی رہی۔ پھر وہ پاگلوں کی طرح اس طرف بھاگی اور اس نے پلک جھپکتے میں بچی کو اٹھا لیا۔ اس کے ہلتے ہوئے ہونٹوں سے ہلکی ہلکی سی آواز نکل رہی تھی۔ پلیز ممی اب آ جائو پلیز ممی اب آ جائو سوزن زمین پر گھٹنوں کے بل جھک گئی۔ اس نے بچی کو اپنے ترسے ہوئے بازوئوں میں بھینچ لیا جیمی جیمی دیکھو میں آگئی ہوں۔ جیمی نے موٹی موٹی نیلی آنکھیں کھولیں ممی کا چہرہ اپنے سامنے دیکھ کر وہ بھونچکی سی رہ گئی۔ اسے یقین نہیں آ رہا تھا کہ ممی آگئی تھیں اور انہوں نے اسے اپنے بازوئوں میں لے رکھا تھا۔ وہ روتے ہوئے اس کا نام بار بار پکار رہی تھیں۔ پھر اسے یقین آگیا اس نے دونوں بازو ممی کی گردن میں ڈال دیئے اور اپنا سر ممی کے شانے اور گردن میں گھسا دیا اس کے آنسوئوں سے ممی کا شانہ بھیگ رہا تھا۔ وہاں کھڑے لوگوں نے ان کے گرد دائرہ بنا لیا تھا وہ خوشی سے تالیاں بجا رہے تھے سیٹیاں بجا رہے تھے اور مختلف فقرے کہہ رہے تھے۔ چاروں طرف خوشی کا ایک گرمجوش سماں تھا۔ جیمی نے ممی کا رخسار چھوتے ہوئے کہا۔ ممی میں جانتی تھی تم ضرور آئو گی۔ شوکیس میں لگی ہوئی سنہری بالوں والی گڑیاں جیسے ان کے لئے نغمے گاتی ان کی طرف ہاتھ ہلا رہی تھیں۔ ختم شد
null
null
null
null
459
https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-29/
میں نے بے بسی سے درخت کی جانب نظر اُٹھائی تو ایک بار پھر ایک دہشت بھری کیفیت کا سامنا کرنا پڑا، ہاں وہ درخت تھا تو درخت ہی لیکن اس کی دو شاخیں جو سامنے کی سمت پھیلی ہوئی تھیں وہ انسانی بازوئوں کی شکل رکھتی تھیں اور اس کا تنا انسانی جسم کی کیفیت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ تنے کے اس حصے پر جہاں سے بقیہ شاخیں مختلف سمتوں کو تقسیم ہو جاتی تھیں بھوریا چرن کا چہرہ نظر آ رہا تھا۔ بھوریا چرن جو مسکرا رہا تھا، ایک طنز بھری شیطانی مسکراہٹ اس کے ہونٹوں پر کھیل رہی تھی۔ یہ بھی نظر کا واہمہ نہیں تھا بلکہ ایک حقیقت تھی جو روشن دوپہر میں چلچلاتی دُھوپ میں میرے سامنے عیاں ہوگئی تھی۔ پھر مجھے بھوریا چرن کی وہی مخصوص مکروہ آواز سنائی دی۔ کیسے ہو میاں جی، کیا حال چال ہیں تمہارے میں نے نفرت بھری نگاہوں سے بھوریا چرن کو دیکھا اور کوئی جواب نہیں دیا بلکہ شدید غصے کے عالم میں اس پر تھوک دیا۔ بھوریا چرن ہنسنے لگا پھر بولا۔ اب تو تمہارا۔ یہ تھوک بھی بڑا قیمتی ہوگیا ہے کبھی کسی پر تھوک کر دیکھ لینا مہاراج مگر بڑے بے ایمان ہو تم، بہت ہی ناشکرے اگر یہ سب کچھ کسی اور کو مل جاتا تو چرن دھو دھو کر پیتا بھوریا چرن کے، ہمارے کسی دھرم والے کو یہ شکتی مل جاتی مہاراج تو نجانے کیا کر ڈالتا وہ۔ گرو مان لیتا ہمیں اپنا۔ مگر تم تم ہو ہی برے خون والے گرو، پر تھوک رہے ہو۔ ارے سات پورن ماشیاں بنائی ہیں ہم نے تمہارے لیے۔ سات پورنیوں کو سترہ انسانوں کا خون دے کر جگایا ہے اور وہ ساری کی ساری اب تمہاری سیوک بن گئی ہیں۔ ایک سو اکہتّر بیر ان کے قبضے میں ہوتے ہیں اور یہ سارے کے سارے تمہارے اُوپر بلیدان ہونے کو تیار ہیں۔ دیکھ لیا تم نے، کس کی مجال ہے کہ تمہاری طرف اُنگلی اُٹھا جائے۔ لڑ مریں گے یہ سُسرے تمہارے لیے اور وہ سات پورنیاں جو اس بائولے جیوتشی کے گھر میں اُتری تھیں۔ سات اَپسرائیں ہیں کسی کو مل جائیں تو وہ آکاش پر قدم رکھنے کی کوشش کرے، آکاش باسی بن جائے، مگر تم تھوک رہے ہو ہمارے اُوپر، یہ ہے ہمارے دیئے کا انجام بھوریا چرن میں ان ساری چیزوں پر لعنت بھیجتا ہوں کمینے کتّے، لعنت بھیجتا ہوں میں تیرے اس دیئے پر۔ میں نے طیش کے عالم میں کہا۔ تو ہم نے کیا کس لیے ہے یہ سب کچھ میاں جی، من کی شانتی چھینی ہے ہم نے تمہاری سمجھے، من کی شانتی چھین لی ہے اب کیا کرو گے بڑی قوتوں کے مالک بن گئے ہو کسی بستی میں قدم رکھو گے تو لوگ پوجا کریں گے تمہاری، چرنوں میں آنکھیں رگڑیں گے مگر تمہارے من کی شانتی کہاں ہے، تم نے ہم سے ہمارا سب کچھ چھینا ہمیں کھنڈولا نہ بننے دیا تو ہم نے بھی تمہارے من کی شانتی چھین لی، بڑے دھرم داس بنے پھرتے تھے ایں۔ بھوریا چرن نفرت بھرے لہجے میں بولا۔ دیکھو بھوریا چرن دیکھو دیکھو۔ ارے کیا دیکھیں، دیکھ لیا سب کچھ، تم نے جو کچھ کیا اس کے نتیجے میں ہم نے تمہارا دھرم بھرشٹ کر دیا اب بھاگتے پھرو سارے سنسار میں، دھرم دھرم چیختے چلاتے کچھ نہ ملے گا جب تک تمہارے بدن میں ہمارے پہنچائے ہوئے خون کا ایک ذرّہ بھی باقی ہے ذرا واپس آ کر دیکھ لو اپنے دھرم میں بھوریا چرن ہے ہمارا نام، شنکھا ہیں، کھنڈولا بنا دیتے تو کیا بگڑ جاتا مہاراج اس وقت بھی یہی شکتی دے دیتے ہم تمہیں سمجھے اور اس شکتی کے ذریعے گھوڑے تمہارے اشارے پر دوڑتے، جوا تمہارے اشارے پر ہوتا، نجانے کیا کیا مل جاتا تمہیں مگر مگر تقدیر کی بات ہے بھاگ کے پھیر ہیں۔ تم اس قابل ہی نہیں تھے، اس قابل ہی نہیں تھے۔ مگر بھوریا چرن اب میں کیا کروں بھاگتے پھرو پاگلوں کی طرح اتنی بڑی طاقت ہے تمہارے پاس مگر تم اسے استعمال نہیں کر سکتے مہاراج سمجھے کیونکہ تم نے مانا ہی نہیں ہے من سے، انہیں۔ جب انہیں استعمال کرو گے تو بات دُوسری ہو جائے گی اور تم بڑے مہان بن جائو گے سمجھے مگر تم ایسا کبھی نہیں کر سکو گے کبھی نہیں۔ من کی شانتی نہیں ملے گی تمہیں یہی ہمارا فیصلہ ہے، یہی بھوریا چرن کا بدلہ ہے۔ بھوریا چرن نے اپنے شاخوں جیسے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اور اس کے بعد اس کے نقوش درخت میں معدوم ہوتے چلے گئے، وہ میری نگاہوں سے اوجھل ہوگیا تھا اس کے دیئے ہوئے بیر اور پورنیاں اب میری سمجھ میں آ رہی تھیں۔ پنڈت کاشی رام نے تو صرف اپنی بیوی کو ڈرانے کیلئے اور یہ سمجھانے کیلئے کہ میں بڑا مہان ہوں، سات پورن ماشیوں کا اور پورنیوں کا ذکر کیا تھا مگر کمبخت بھوریا چرن نے وہ ساری بلائیں میرے اُوپر نازل کر دی تھیں وہیں بیٹھ گیا اور گھٹنوں میں سر دے کر سوچنے میں مصروف ہوگیا، اب تو آنکھیں بھی آنسوئوں سے خشک ہوگئی تھیں اگر میرے دل کا طبّی تجزیہ کیا جاتا تو شاید وہ دُنیا کا طاقتور ترین دل نکلتا کیونکہ اتنا کچھ برداشت کر لینے کی اہلیت تھی اس میں ان تمام مصیبتوں کے باوجود اس کی دھڑکنیں قائم تھیں مگر کچھ سکون بھی ہوا تھا۔ پتہ چل گیا تھا کہ یہ سب کیا ہے بھوریا چرن انتقام کی آگ میں جل رہا تھا اس نے مجھ پر سخت محنت کی تھی اپنے کالے جاو کی ساری قوتیں صرف کر دی تھیں۔ وہ بالکل سچ کہہ رہا تھا کہ اگر وہ اپنے دھرم کے کسی شخص کیلئے یہ سب کچھ کر دیتا اور اسے سات پورنیوں اور ایک سو اکہتّر ناپاک غلاموں کی قوت مل جاتی تو وہ نہ جانے کیا کر ڈالتا مگر مجھ پر یہ سب کچھ حرام تھا، میرے لیے یہ بیکار تھا بلکہ ناقابل برداشت تھا۔ میں تو اسے سزا سمجھتا تھا اب تو اس سزا پر دل دُکھنے لگا تھا، مظلومیت کا احساس ہوتا تھا کیا میں اس کائنات کا سب سے بڑا گناہگار ہوں، دُوسرے لوگ بھی تو گناہ کرتے ہیں، میں نے تو اس کے بعد سے صرف کفارہ ادا کرنے کی کوشش کی ہے۔ ہمیشہ پچھتاتا رہا ہوں لیکن انسان ہوں کہاں تک برداشت کروں، بھوریا چرن نے یہ سب کچھ اس لیے کیا ہے کہ میں بے سکون ہو جائوں اندر کی کیفیت مجھے ان قوتوں سے فائدہ اُٹھانے سے باز رکھے اور بیرونی طور پر سب کچھ میرے قبضے میں ہو آہ نہ جانے مستقبل میں اس ایمان کو قائم رکھ سکوں گا یا نہیں۔ بھاڑ میں جائیں پنڈت کاشی رام میں تو خود ایک مجبور انسان ہوں کیا کر سکتا ہوں میں نے نفرت بھری نظروں سے اس درخت کو دیکھا اور دفعتاً میرے دل میں ایک خیال آیا میں نے گردن ہلائی اور آواز دی۔ میرے بیرو کہاں ہو تم یہیں ہیں مہاراج ہم کہاں جائیں گے۔ سارا مجمع پھر نمودار ہوگیا اب انہیں دیکھ کر میرے دل میں خوف نہیں اُبھرا تھا۔ اس درخت کے ٹکڑے ٹکڑے کر دو۔ میں نے درخت کی طرف اشارہ کیا اور وہ سب بھرا مار کر درخت کی سمت لپکے سب نے مل کر درخت کو جڑ سے اُکھاڑ پھینکا پھر اس کی شاخیں توڑنے لگے ایک ایک پتہ کچل ڈالا انہوں نے تنا اُدھیڑ پھینکا وہ کیڑوں کی طرح اس سے لپٹ گئے تھے، پھر وہ اسی وقت سیدھے ہوئے جب درخت ننھی ننھی لکڑیوں میں تبدیل ہو چکا تھا، اس درخت میں مجھے بھوریا چرن نظر آیا تھا مگر میں خود بھی جانتا تھا کہ اس طرح بھوریا چرن ہلاک نہیں ہو جائے گا وہ شنکھا ہے، ہزاروں رُوپ دھار سکتا ہے، بس ایک نفرت تھی اس کے خلاف جو دل میں اُبھری تھی اور یہ اندازہ بھی ہوگیا تھا کہ یہ بیر سچ مچ میرے اشارے پر سب کچھ کر سکتے ہیں۔ وہ سب اپنے کام سے فارغ ہو کر دوبارہ میرے گرد جمع ہوگئے، میں نے اس بیر کو دیکھا جو سب سے پیش پیش رہتا تھا۔ آگے آ میں نے کہا اور وہ آگے بڑھ آیا۔ کیا نام ہے تیرا۔ کھتوری مہاراج۔ میں کون ہوں ہمارے مالک۔ کیا نام ہے میرا پورن بھگت۔ غلط، میرا یہ نام نہیں ہے۔ ہمیں نام سے کیا لینا مہاراج ہمیں تو کام بتائو۔ بھوریا چرن کہاں ہے۔ میں نے پوچھا اور بیر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ پھر بولا۔ چلے گئے یہاں سے۔ کیا تو بھوریا چرن کو مار سکتا ہے۔ وہ شنکھا ہے سوامی، شنکھا شریر کہاں ہوتا ہے وہ تو ہوا ہوتی ہے اور ہوائوں پر ہمارا بس نہیں ہے۔ اگر بھوریا چرن میرے سامنے ہو تو تم لوگ اس کی مانو گے یا میری۔ تمہاری مہاراج ہم تمہارے داس ہیں۔ رتھ لائو میرے لیے۔ میں نے کہا اور کھتوری نے گردن ہلا دی ذرا سی دیر میں رتھ میرے سامنے آ گیا، میں رتھ میں جا بیٹھا اور کھتوری نے رتھ سنبھال لیا۔ چلو۔ میں نے کہا اور اس نے بیل ہانکنے شروع کر دیئے، پیچھے وہ سب ٹیڑھے میڑھے چل رہے تھے، دل میں ایک لمحے کیلئے خیال آیا کہ اس طاقت سے تہلکہ مچا سکتا ہوں سب کچھ حاصل ہو سکتا ہے مجھے جو چاہوں سامنے لا سکتا ہوں، بہت بڑی طاقت حاصل ہوگئی ہے مجھے مگر نہ جانے کیوں آنکھوں میں نمی آ گئی۔ بے اختیار آنسو نکل پڑے، آنکھوں نے دل کو احساس دلایا تھا کہ یہ سب کیا ہے کالا جادو ہے یہ جسے کرنے والے کافر ہوتے ہیں ان کی بخشش کبھی نہیں ہوسکتی۔ یہ سب کچھ کھونے کے مترادف ہے اور جو کھو گیا اسے دوبارہ نہیں حاصل کیا جا سکتا دل میں گرم گرم لہریں دوڑنے لگیں اعضا میں تنائو پیدا ہوگیا اور میں نے رتھ سے باہر چھلانگ لگا دی لیکن میرے بیروں نے مجھے زمین پر نہیں گرنے دیا تھا وہ زمین پر لیٹ گئے تھے اور میں ان کے اُوپر گرا تھا لیکن میں پھرتی سے اُٹھ کھڑا ہوا، میں نے دیوانوں کی طرح ان پر لاتیں برسانی شروع کر دیں اور وہ اِدھر سے اُدھر لڑھکنے لگے، رونے اور چیخنے لگے مگر کسی نے احتجاج نہیں کیا تھا۔ میں نے کھتوری کے ہاتھ سے سانٹا لیا اور بیلوں پر پل پڑا، بیل ڈکرا کر بھاگے اور کھتوری اُچھل کر سر کے بل نیچے گرا پھر اُٹھ کھڑا ہوا۔ بھاگ جائو تم سب بھاگ جائو یہاں سے ورنہ۔ میں سانٹا لے کر ان پر پل پڑا اور وہ سب بھاگنے لگے کچھ دیر میں وہ بہت دُور نکل گئے اور میری نظروں سے اوجھل ہوگئے۔ بھوریا چرن بھوریا چرن کتّے تو نے میرے خون میں گندگی گھول دی ہے مجھ سے میرا دین چھین لیا ہے مگر میرا دین میرے دل میں ہے کبھی نہیں چھوڑوں گا اسے۔ کر لے جو تجھ سے کیا جا سکے، میں مسلمان پیدا ہوا ہوں مسلمان مروں گا بھوریا چرن کتّے۔ میری آواز ویرانوں میں گونجتی رہی، حلق پھاڑ پھاڑ کر چیخ رہا تھا آواز پھٹ رہی تھی گلا دُکھ رہا تھا چیختا رہا پھر تھک کر خاموش ہوگیا وہاں سے چل پڑا اب میرے گرد سرسراہٹیں نہیں تھیں میرے بیر بھاگ گئے تھے میں نے جو ان سے کہا تھا۔ چلتا رہا، چلتا رہا پھر ایک بستی آئی لوگ نظر آئے مگر میں نہ رُکا اور چلتا رہا، گھاس، پھونس، پتّے جو ملتا کھا لیتا پھر کچھ کھنڈرات نظر آئے ایک ویرانہ تھا اور یہاں کالی کیچڑ اور جوہڑ بھی تھا کچھ جانی پہچانی جگہ محسوس ہوئی پھر یاد آیا یہ تو نیاز اللہ کی بستی تھی عزیزہ رہتی تھی یہاں اور یہ جگہ کیا نام تھا اس کا ہاں شاید رامانندی یہی نام تھا اس کا بھوریا چرن نے اسے ہلاک کر دیا تھا۔ وہ بے چارہ رامانندی اچھا انسان تھا۔ چاروں طرف بھیانک سناٹا چھایا ہوا تھا کھنڈرات پر خوفناک خاموشی طاری تھی، سناٹا چیختا محسوس ہو رہا تھا اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا، میری نظریں جوہڑ کی طرف اُٹھ گئیں، کیچڑ جگہ جگہ سوکھ گئی تھی اور اس پر حشرات الارض رینگ رہے تھے میرے منہ سے آواز نکلی۔ کھتوری بھگت پورن۔ کھتوری میرے نزدیک ظاہر ہوا۔ دُوسرے کہاں ہیں تم سے دُور نہیں مہاراج۔ بلائو سب کو۔ ہم تو یہیں ہیں بھگت۔ ان کا پورا ریوڑ نمودار ہوگیا۔ اس جوہڑ میں ایک شیشے کی بوتل ہے جس میں رامانندی کی لاش ہے اسے تلاش کر کے لائو۔ میں نے کہا اور وہ سب جوہڑ کی طرف دوڑ پڑے پورے جوہڑ میں بھونچال آ گیا مکھیوں اور مچھروں کے غول کالے بادلوں کی طرح اُٹھے اور چاروں طرف پھیل گئے سخت تعفن پیدا ہوگیا تھا کچھ دیر جوہڑ میں ہلچل رہی پھر ایک بیر وہ بوتل نکال لایا۔ یہ رہی بھگت۔ کھول اسے۔ میں نے بوتل کو ہاتھ لگائے بغیر کہا اور اس نے بوتل کھول دی، بوتل سے دُھواں نکلنے لگا پھر یہ دُھواں زمین پر جم گیا اور کچھ دیر کے بعد وہ رامانندی کی شکل اختیار کرگیا۔ رامانندی کھڑے کھڑے جھول رہا تھا اس کی آنکھیں بند تھیں پھر وہ گرتے گرتے سنبھلا اور آنکھیں کھول کر چاروں طرف دیکھنے لگا۔ چلا گیا۔ اس نے سرگوشی کے عالم میں پوچھا۔ کون نظر نہیں آ رہا۔ کسے کہہ رہے ہو۔ شنکھا شنکھا وہی بھوریا چرن۔ تم ٹھیک ہو رامانندی۔ میں نے پوچھا مگر رامانندی نے اب ان بیروں کو دیکھا جو آہستہ آہستہ جوہڑ سے نکل کر جمع ہو رہے تھے۔ یہ کون ہیں تم کون ہو پہلے اس نے مجھ سے اور پھر ان سے پوچھا۔ سیوک ہیں پورن بھگت کے۔ کھتوری بولا۔ پورن بھگت ایں ارے اوں اوہ جے بھگوتی جے پورن مہاراج۔ رامانندی نے میرے سامنے ہاتھ جوڑ دیئے مگر اس کی آنکھیں حیرت سے پھیل گئی تھیں اس نے آنکھیں مسل مسل کر کئی بار مجھے دیکھا پھر حیران لہجے میں بولا۔ تم مہا بھگت، تم وہی ہو نا مسعود احمد وہ نیازاللہ معاف کرنا مجھے نہ جانے کیوں میری بات کا برا مت ماننا وہ دراصل تمہاری صورت کا وہ بار بار ہاتھ جوڑ کر مجھ سے معافی مانگنے لگا۔ راما نندی میں مسعود ہی ہوں آئو اندر چلو آئو پریشان نہ ہو۔ میں نے اس کا بازو پکڑ کر کھنڈرات کی طرف بڑھتے ہوئے کہا۔ ارے وہ مگر تم پورن بھگت یہ ۔ اس نے بیروں کی طرف اشارہ کر کے کہا وہ سارے کے سارے پھر میرے پیچھے لگ گئے تھے۔ تم کہاں آ رہے ہو چلو بھاگ جائو اور جب تک میں نہ بلائوں میرے قریب مت آنا جائو۔ میں گرجا اور وہ خوف زدہ ہوکر ایک دُوسرے کو دھکیلتے ہوئے بھاگنے لگے۔ راما نندی سخت پریشان تھا میں اسے لیے ہوئے کھنڈرات میں آگیا رامانندی سخت اُلجھا ہوا نظر آ رہا تھا کھنڈرات میں جہاں وہ رہتا تھا وہاں کی حالت دیکھ کر وہ ششدر رہ گیا اس نے پھٹی پھٹی آنکھوں سے مجھے دیکھا۔ یہ سب تمہارا کالاجادو ہے، رامانندی تم شاید صورت حال کو سمجھ نہیں پائے تمہیں اندازہ نہیں ہے کہ تم کئی ماہ سے اس شیشی میں بند جوہڑ میں پڑے ہوئے تھے طویل عرصے کے بعد تم اس سے نکلے ہو۔ کئی ماہ سے۔ رامانندی گھٹے گھٹے لہجے میں بولا۔ ہاں کئی ماہ سے بیٹھ جائو میں تمہیں پوری تفصیل بتاتا ہوں، بیٹھ جائو پریشان مت ہو۔ وہ بیٹھ گیا تب میں نے اسے شروع سے اب تک کی ساری کہانی سنائی اور وہ میرا منہ دیکھتا رہ گیا۔ آخر تک کی کہانی سننے کے بعد بھی وہ دیر تک کچھ نہیں بولا تھا۔ اس کے بعد رامانندی تم مجھے بتائو گے کہ اب میں کیا کروں میں نے پوچھا لیکن وہ اس کے بعد بھی دیر تک کچھ نہ بولا اور سوچتا رہا پھرکئی گہری گہری سانسیں لے کر اس نے خود کو سنبھالا اور بولا۔ کالے جادو کے سولہ درجے ہیں ابتدا نرٹھ سے ہوتی ہے نرٹھ پہلا جاپ ہے اس میں گندی اور غلیظ چیزوں سے شریر کو بھنگ کیا جاتا ہے اور اس طرح کالا علم سیکھنے والا خود کو کالی قوتوں کے حوالے کر دیتا ہے، دُوسرا درجہ سگنت کہلاتا ہے اس میں کمال حاصل کرنے کے بعد کیڑے مکوڑوں کا کاٹا اُتارا جاتا ہے اسی طرح جاپ ہوتے رہتے ہی۔ آٹھویں گنتھ میں لونا چماری اور نویں میں کالی دیوی سے واسطہ پڑتا ہے پورنیاں گیارہویں درجے میں آتی ہیں اور جسے پورنیوں کا اختیار حاصل ہو جائے وہ کالے جادو کا گیارہواں ماہر ہوتا ہے۔ سات پورنیوں کے ایک سو اکہتّر بیر ہوتے ہیں جو پورن بھگت کے غلام ہوتے ہیں بارہواں درجہ بھیروں ستوترن ہوتا ہے وہاں سے شنکھا کا سفر شروع ہوتا ہے اور پھر شنکھا یاٹ ہوتے ہیں ایک شنکھا ہی پورن جاپ کر کے اپنا جاپ کسی اور کو دے سکتا ہے کوئی دُوسرا ایسا نہیں کر سکتا مگر تمہیں جو قوت حاصل ہوگئی ہے وہ بہت بڑی ہے تم اس سے نچلے درجے کے سارے دیر داسیوں کو نیچا دکھا سکتے ہو مگر تمہارا معاملہ دُوسرا ہے۔ اس نے دھوکے سے میرے ساتھ یہ کیا۔ ہاں مگر بہت بڑا کام کیا ہے اسے سترہ انسانوں کی بلی دینا پڑی ہوگی۔ تم اب ٹھیک ہو رامانندی۔ ہاں میں ٹھیک ہوں مگر اب میں یہاں نہیں رہوں گا۔ وہ مجھے نہیں چھوڑے گا۔ رامانندی نے کہا اور میں سوچ میں ڈُوب گیا۔ پھر میں نے کہا۔ ایک بات بتائو رامانندی کیا ان بیروں سے میں اپنے ماں باپ اور بہن کا سراغ لگا سکتا ہوں، کیا یہ مجھے بتا سکتے ہیں کہ وہ کہاں اور کس حال میں ہیں۔ بھول کر بھی ایسا مت کرنا۔ کیوں ان سے تم کالے کام لے سکتے ہو صرف کالے کام۔ اگر کوئی ایسا کام لیا ان سے جو کسی طور کالے علم سے تعلق نہ رکھتا ہو تو یوں سمجھ لو وہ شے باقی نہیں رہے گی۔ تمہارے ماتا پتا کا پتہ لگا کر یہ تمہیں خبر دیں گے مگر بعد میں انہیں مار دیں گے۔ ریت ہے کالے جادو کی یہ برائی کیلئے استعمال کیا جاتا ہے کسی نیک اور ضرورت کے کام کیلئے نہیں۔ مثال کے طور پر تم ان سے اپنے کسی دُشمن کو مروا تو سکتے ہو کسی بیمار دوست کیلئے دوا نہیں منگوا سکتے ہو۔ لعنت ہے اس علم پر اپنے لیے میں کیا کر سکتا ہوں راجہ بن جائو، محل بنوا لو، دولت کے ڈھیر لگا لو، سندر ناریاں اُٹھوا لو یہ سب خوشی سے سارے کام کریں گے۔ ایک بار پھر لعنت ہے اب بتائو میں اس مصیبت سے چھٹکارا کیسے حاصل کروں میں نے کہا اور رامانندی سوچ میں ڈُوب گیا پھر بولا۔ بہت مشکل ہے ایک طرح ناممکن ہے۔ رامانندی دل چاہتا ہے رامانندی یہ سب قبول کر لوں دل چاہتا ہے وہی بن جائوں جو بنا دیا گیا ہوں۔ میں نے دانت پیستے ہوئے کہا اور رامانندی چونک کر مجھے دیکھنے لگا پھر وہ آہستہ سے بولا۔ مسعود جی من کیا چاہتا ہے۔ کیا بتائوں میں کیا بتائوں۔ میں ایک مشورہ دوں۔ بولو۔ بڑے کشٹ اُٹھائے ہیں تم نے اپنا دھرم بنائے رکھنے کیلئے اب اسے کھونا اچھا نہیں ہوگا مگر تمہاری اس بات کو میں مانتا ہوں وہی بن جائو جو بنا دیئے گئے ہو۔ میں اُلجھی ہوئی نظروں سے رامانندی کو دیکھنے لگا۔ نہ جانے کیا کہہ رہے ہو۔ بڑے کانٹے کی بات کہہ رہا ہوں بھوریا چرن نے تمہیں اتنا بڑا جاپ دے کر تم سے من کی شانتی چھینی ہے نا۔ ہاں یہی اس کتّے کا مقصد ہے۔ میں نے نفرت سے کہا۔ اور تمہارے من کی شانتی چھن گئی ہے اگر تم اپنا من شانت کر لو تو پھر اس کے من کی شانتی چھن جائے گی وہ سوچے گا کہ یہ تو بات اُلٹی ہوگئی اور پھر وہی کچھ اپائے کرے گا۔ تمہارا مطلب ہے کہ سنسار چرنوں میں جھکا لو، ہنسو، بولو، خوش رہو تمہاری خوشی اسے بھسم کر دے گی وہ تمہیں خوش ہی تو نہیں دیکھنا چاہتا۔ مگر کالے جادو سے کام لے کر میں اپنے لیے جو کچھ کروں گا رامانندی وہ مجھے میرے دین سے دُور سے دُور تر کر دے گا۔ اپنے لیے کچھ نہ کرنا یہ تو اسے جلانے کیلئے ہوگا۔ کسی کنواری کو پریشان نہ کرنا، کسی کو نقصان نہ پہنچانا بس ایسے کام کر لینا جس سے اسے پتہ چلے کہ تم خوش ہو من کے بھید تو کوئی اور ہی جانتا ہے باقی سب عمل کے بھید ہوتے ہیں اور تمہارے عمل کے بھید ہی سامنے آئیں گے۔ میں رامانندی کی بات پر غور کرنے لگا کچھ سمجھ میں آ رہی تھی کچھ نہیں آ رہی تھی وہ بے چارہ میرے دین کی نزاکتوں کو کیا جانے بس ایک معمولی سی لغزش اور کوئی راستہ بھی تو نہیں ہے میرے پاس آخر کروں بھی تو کیا کس سے رہنمائی حاصل کروں اور بھوریا چرن وہ تو میرے سلسلے میں ہمیشہ ہی کامیاب رہا تھا، بڑا عجیب سا دل ہو رہا تھا۔ میں نے رامانندی سے کہا۔ تمہارا کیا ارادہ ہے رامانندی۔ مجھے کہیں منہ چھپانا ہے مسعود جی ہاں اگر تم اپنے ساتھ رکھنا چاہو تو مگر میں مجبور نہیں کروں گا۔ میرے ساتھ مگر بھوریا چرن تمہیں دیکھ لے گا۔ کچھ بگاڑ نہ پائے گا تمہارے ساتھ میرا جیون محفوظ رہے گا ورنہ مجھے خطرہ ہے۔ ٹھیک ہے رامانندی مگر تمہیں میرے ساتھ تکلیفیں رہیں گی۔ اُٹھالوں گا جیون تو بچا رہے گا۔ میں نے گہری سانس لے کر گردن ہلا دی تھی رامانندی نے کہا۔ اب یہاں سے نکل چلو مہاراج مجھے اندیشہ ہے کہ وہ یہاں نہ آ جائے۔ چلو۔ میں نے ٹھنڈی سانس لی اور ہم دونوں کھنڈرات سے باہر نکل آئے جوہڑ کے پاس سے گزر کر ہم دُور نکل آئے میں نے رامانندی سے نیازاللہ صاحب کے بارے میں کہا۔ چلو گے ان کے پاس۔ دل تو چاہتا ہے مگر میرا بھی یہی خیال ہے بھوریا چرن کو ان کی طرف متوجہ مت کرو کہیں نقصان نہ اُٹھا جائیں ویسے اگر تم چاہو تو خاموشی سے انہیں کچھ بتائے بغیر ان سے ملے بغیر ان کی کچھ مدد کر دو۔ اوہ نہیں رامانندی نیازاللہ صاحب ایسے لوگوں میں سے ہیں جنہوں نے فقر و فاقے کی زندگی گزار کر اپنا ایمان قائم رکھا ہے۔ یہ غلط دولت ان پر مسلط کر کے میں ان کی ایماندارانہ زندگی کو داغدار نہیں کروں گا۔ ٹھیک کہتے ہو یہ بات مجھ سے بہتر کون جانتا ہے پھر یوں کرتے ہیں کہ بستی کا رُخ ہی نہیں کرتے کوئی دُوسری سمت اختیار کرتے ہیں، آئو اس طرف چلیں۔ راستے میں میں نے رامانندی سے کہا۔ ہمیں اب کرنا کیا چاہئے رامانندی۔ وقت اور حالات کے ساتھ دیکھنا ہوگا شنکھا تمہیں افسردہ، ملول اور پریشان دیکھنا چاہتا ہوگا تمہیں اس کے برعکس کرنا ہے تا کہ اسے احساس ہو کہ اس نے جو محنت کی وہ بیکار گئی اور پھر کیا سمجھے۔ ہاں سمجھ رہا ہوں۔ بیروں کو بلائو سواری کیلئے کچھ منگوا لو دُور جانا ہوگا ہمیں۔ رامانندی نے کہا اور مجھے ہنسی آ گئی۔ واہ رامانندی دو قدم چل کر ہی بھول گئے میرے ساتھ رہ کر تمہیں کافی پریشانی اُٹھانی پڑے گی میں اس علم کی قوت سے اپنے لیے کوئی آسائش کبھی حاصل نہیں کروں گا سوچ لو۔ اوہ ہاں سچ مچ بھول گیا تھا کوئی بات نہیں چلو رامانندی تم سے پیچھے نہیں ہے۔ رامانندی نے کہا اور ہم چل پڑے کوئی منزل ذہن میں نہیں تھی بس قدم اُٹھ رہے تھے نہ جانے کس طرف رامانندی کا ساتھ بڑا سکون بخش تھا تنہائی سے نجات مل گئی تھی اس سے باتیں کرکے دل کی بھڑاس نکال سکتا تھا۔ کسی بھی قدم کے بارے میں کوئی فیصلہ کرسکتا تھا۔ ہم نے آبادی کا رخ نہیںکیا تھا۔ جان بوجھ کر ویرانوں کی سمت چل پڑے تھے۔ رامانندی نے کہا۔ بھوریاچرن سے کہیں بھی ملاقات ہوسکتی ہے اس کے بیروں نے اسے میرے بارے میں بتا تو دیا ہوگا۔ کیا یہ ممکن ہے ہاں بالکل بیراسے سب کچھ بتاتے رہتے ہیں ان کی حیثیت رپورٹروں جیسی ہوتی ہے پھر وہ تو شتکھا ہے۔ تمہارے خیال میں وہ زیادہ سے زیادہ کیا کرسکتا ہے۔ میں نے پوچھا اور رامانندی سوچ میں ڈوب گیا۔ پھر اس نے کہا۔ تمہارا تو وہ کچھ نہیں بگاڑے گا ویسے یقین کرو مسعود جی تم تقدیر کے دھنی ہو تمہارے بارے میں کچھ باتیں میری سمجھ میں آج تک نہیں آئیں۔ کیا پوری کہانی مجھے معلوم ہے تم عام جوانوں کی طرح زندگی کی آسائشیں چاہتے تھے اور اس کے لیے تم نے دین دھرم کے سارے رشتے توڑ کر ہر ناجائز طریقے سے طاقت حاصل کرنا چاہی۔ بھوریا کو ایک کچے دماغ والے مسلمان لڑکے کی ضرورت تھی جو ایک مقدس مزار کو ناپاک کرکے اس کے غلیظ وجود کو پاک قدموں میں پہنچادے۔ تم نے ایسا نہ کیا اور کھنڈولا بننے سے رہ گیا۔ چلو اس سمے اس نے سوچا تھا کہ تمہیں خوب پریشان کرکے اپنے کام کے لیے مجبور کرلے گا مگر تم اس کے جال میں نہیں آئے۔ بجائے اس کے کہ وہ تمہیں ختم کردیتا اس نے دوسرے کام شروع کردیئے اس نے تمہیں پورنا بنادیا۔ آدھا جیون لگ جاتا ہے کسی کو پورنا بھگتی کرتے ہوئے۔ تب پورنیوں کا حصول ہوتا ہے مگر اس نے تمہیں کالی شکتی دیدی۔ اس طرح وہ میرے دل کا سکون چھیننا چاہتا تھا۔ نہیں مہاراج ایسا کرنے کے لیے وہ تمہیں بلی کتے کا روپ بھی دے سکتا تھا۔ اس نے یہ کیوں نہ کیا تمہارا کیا خیال ہے رامانندی میرا جیون بھر کا تجربہ کہتا ہے مسعود جی پورے جیون کا تجربہ کہتا ہے کہ کوئی مہمان شکتی تمہارے پیچھے ہے۔ کوئی ایسی قوت جو اس کا دماغ پلٹے ہوئے ہے۔ وہ تمہارے لیے برے کام کررہا ہے مگر الٹے سیدھے کام وہ نہیں سوچ پارہا۔ ایسی کوئی قوت ہوسکتی ہے۔ میں نے ایک مقدس مزار کی بے حرمتی کرنے سے گریز کیا تھا کیا مجھے وہاں سے فیض مل رہا ہے۔ اگر ایسا ہے تو وہ بزرگ مجھے اس گندی گرفت سے کیوں نہیں بچاتے۔ میرا کچھ اور خیال ہے مسعود میاں۔ کیا ماں ہے نا تمہاری رامانندی نے سوال کیا اور میرے قدم رک گئے اعصاب پر جیسے بجلی سی گر پڑی میں نے رامانندی کو دیکھتے ہوئے کہا۔ ہاں میرے حلق سے گھٹی گھٹی آواز بھری۔ تو پھر عیش کرو، تمہارا کچھ نہیں بگڑے گا۔ بات سمجھ میں آگئی ہے۔ اس کے علاوہ کچھ اور ہو ہی نہیں سکتا۔ اتنے عرصہ سے اس سے دور ہو اس کے دعا کے لیے اٹھے ہوئے ہاتھ کبھی خالی نہیں رہ سکتے۔ وہ کچھ نہیں جانتی ہوگی تمہارے بارے میں مگر کہتی ہوگی کہ بھگوان تمہیں زندہ سلامت رکھے۔ اور بھگوان تمہیں زندہ سلامت رکھے گا۔ تمہارے دشمن کے دماغ الٹے کرتا رہے گا۔ دل ڈوب گیا۔ آنکھوں سے آنسوئوں کی دھاریں بہنے لگیں حسرت ویاس کلیجہ کاٹنے لگی۔ بالکل سچ تھا ایک لفظ جھوٹ نہیں تھا ماں کی دعائیں آفات سے بچائے ہوئے تھیں باقی جو کچھ تھا وہ کیے کی سزا تھی مگر زندگی ماں کے پھیلے ہوئے ہاتھوں کی مرہون منت تھی۔ ارے ارے۔ مسعود جی سنبھالو خود کو ارے نہیں بھائی روتے نہیں ہیں ملیں گے۔ سب ملیں گے تمہیں بھگوان کے ہاں اندھیر نہیں ہے اور پھر تم تو تم تو اپنی معصومیت کے شکار ہورہے ہو۔ تم اتنے شکتی مان ہونے کے باوجود اس شکتی کو کالی شکتی سمجھ کر قبول نہیں کررہے۔ کچھ ہوگا ضرور کچھ ہوگا تمہارے لیے مگر ارے ارے ارے دفعتاً راما نندی کا حلق بند ہوگیا۔ اس کی آنکھیں خوف سے پھیل گئیں۔ چہرہ سرخ ہوگیا رگیں ابھر آئیں۔ وہ دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ کر بیٹھ گیا میں پریشان ہوگیا۔ اپنی کیفیت بھول کر حیرانی سے اسے دیکھنے لگا نہ جانے اسے کیا ہوگیا تھا میں اس کے قریب بیٹھ گیا پھر میں نے اسے آواز دی۔ رامانندی، رامانندی کیا بات ہے بتائو تو سہی کیا بات ہے کیا ہو گیا رامانندی رامانندی نے آنکھیں بھینچ کر گہری گہری سانسیں لیں اور بولا۔ کچھ نہیں مسعود جی کچھ نہیں، یار عجیب سی بات ہوگئی ہے پتہ نہیں پتہ نہیں میرا کیا بننے والا ہے، پتہ نہیں، بیٹھو یار تم بھی جذباتی ہوگئے اور میں بھی نہ بچ سکا، کچھ ایسی بات ہوگئی، جو بڑی عجیب ہوسکتی ہے۔ آخر کیا۔ میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا، بھوریا چرن کا خوف بہر طور دل پرسوار تھا اس کم بخت کے تصور سے کب جان چھوٹ سکتی تھی اور کچھ نہیں تو رامانندی کی زندگی ہی اس کے لیے تکلیف دہ ہوسکتی تھی رامانندی اس کا اظہار بھی کرچکا تھا کہ بھوریا چرن اسے نہیں چھوڑے گا لیکن اطراف پُرسکون نظر آرہے تھے اور بظاہر بھوریا چرن کہیں قرب و جوار میں محسوس نہیں ہوتا تھا۔ رامانندی نے آنکھیں بند کرکے گردن جھٹکی اور کہنے لگا۔ کالا جادو سیکھنے کے لیے سب سے پہلا کام دھرم کو کھونا ہوتا ہے۔ دھرم کو ناس کرنا ہوتا ہے اور اس کے لیے گندے گندے کام شروع کئے جاتے ہیں اور دھرم دیوتا کا نام کبھی زبان پر آنے نہیںدیا جاتا یہاں تک کہ عادت پڑجاتی ہے کالا جادو بھگوان کے بنائے ہوئے اصولوں کے خلاف ہی تو ایک گندی کوشش ہے جو طاقت شیطان کو مل گئی ہے اسی طاقت کا ساتھی تو بننا ہوتا ہے اور جب انسان شیطان کا ساتھی بن جائے تو پھر اللہ کا نام یا بھگوان کا نام اس کی زبان پر کبھی نہیں آتا یہاں تک کہ اس کا دل پتھر کی مانند سخت ہوجاتا ہے بھگوان اسے یاد ہی نہیں رہتا میں نے بھی تو یہی سب کچھ کیا تھا، بھگوان کے نام سے اپنا من ہٹالیا تھا اور نجانے کتنا عرصہ ہوگیا کہ میں نے بھگوان کا نام نہیں لیا ہمارے کالے جادو کے دھرم میں اگر اس کا کوئی پاپی دھرم ہے تو بھگوان کا نام لینا سخت منع ہے بلکہ کالے جادو کا تھوڑا بہت علم اس وقت آتا ہے جب بھگوان کے نام سے دوری اختیار کرلی جائے۔ آج تمہاری ماں کاذکر کرتے ہوئے میرے منہ سے بار بار بھگوان کا نام نکل گیا۔ یقین کرو یہ نام میں نے نجانے کتنے عرصے سے نہیں لیا۔ یہ تو مجھ ایسے بھول گیا تھا جیسے جیسے بس کیا بتائو تمہیں لیکن تذکرہ ایک ماں کا تھا اور بھگوان کی سوگند ماں بھگوان ہی کا دوسرا روپ ہوتی ہے۔ اس کا مقصد ہے کہ بھگوان پھر سے میرے من میں آگیا۔ بار بار میرے منہ سے اس کا نام نکل رہا ہے۔ آہ اس طرح تو میں بھی تمہارا ساتھی ہی بن گیا۔ مسعود بھیا میں بھی تمہارا ساتھی ہی بن گیا کالے جادو کا گیان تو اب ٹوٹ ہی جائے میرا میں خود بھی اس پر لعنت بھیجتا ہوں۔ کیا پاپا میں نے اس سے۔ ابھی تو مکمل بھی نہیں ہوا تھا چھوٹے موٹے کام کرلیتا تھا اور اس کے بعد جوہڑ میں جاپڑا۔ نجانے کب تک پڑا رہتا۔ اگر تمہارے ہاتھوں نہ نکلتا، کیا ملا مجھے اس کالے جادو سے۔ آج بھگوان میرے من میں پھر سے زندہ ہوا ہے تو اب میں اس کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ مسعود میں کبھی بھگوان کا ساتھ نہیں چھوڑوں گا۔ میں بھی اپنے گناہوں سے توبہ کروں گا میں بھی اپنے پاپوں کا پرائشچت کروں گا۔ لو بھیا ایک نہیں دو کھیل شروع ہوگئے، اور یہ کھیل خود بخود نہیں شروع ہوا۔ ماں بیچ میں آگئی ہے، میری ماں نہیں ہے مگر میں تمہیں بھیا کہتا ہوں۔ ماں اپنے اس دوسرے بیٹے کو بھی اپنی دعائوں میں شامل کرلے، ماں صرف مسعود تیرا بیٹا نہیں ہے ایک بیٹا رامانندی بھی ہے اس کے لیے بھی ہاتھ اٹھالے ماں، اس کے لیے بھی ہاتھ اٹھالے۔ رامانندی ایسا بلک بلک کے رویا کہ میرا دل پانی پانی ہوگیا، میں خود بھی ماں کو یاد کرکے رونے لگا تھا لیکن رامانندی نے کچھ ایسی آہ و زاری کی کہ اپنا سارا دکھ بھول گیا اور اسے دلاسے دیتا رہا۔ ہم دونوں بہت دیر تک روتے رہے تھے۔ رامانندی نے گلوگیر آواز میں کہا۔ میری ماں اس سنسار میں نہیں ہے میں نے تیری ماں کا سہارا طلب کرلیا ہے مسعود بھیا بھیا ہے تو میرا جیون واردوں گا تجھ پر بس اور کیا کہوں، میں ہوں ہی کس قابل۔ بہت دیر تک ہم جذبات میں ڈوبے رہے رامانندی نے کہا۔ چلو چلیں آگے بڑھیں بھوک لگ رہی ہوگی تمہیں بھی میں بھی بھوکا ہوں۔ بھگوان کا دیا کھائیں گے۔ لعنت ہے اس کالی شکتی پر جس کے ذریعے ہمیں سب کچھ مل سکتا ہے مگر ایسا نہیں کریں گے ہم۔ چلو چلتے رہو، چلتے رہو۔ اور ہم وہاں سے چل پڑے۔ دن گزر گیا شام ہوگئی۔ کچھ فاصلے پر ایک بستی کے آثار نظر آئے تھے اور شام کے جھٹپٹے کے بعد جب سورج ڈوبا تو بستی کے کسی گوشے سے آواز بھری۔ اللہ اکبر اللہ اکبر، اللہ اکبر۔ مغرب کا وقت ہوگیا تھا۔ اذان ہورہی تھی۔ قدم رک گئے رامانندی بھی اس آواز کو سننے لگا، میرے دل میں بھی عجیب سی کیفیت پیدا میں پھر آگے بڑھنے لگا، دور سے مسجد کے مینار نظر آرہے تھے۔ اس پر لائوڈ اسپیکر لگا ہوا تھا اور غالباً روشنی بھی کردی گئی تھی مگر صرف مینار پر باقی مسجد بھی قدرتی روشنی میں نہائی ہوئی تھی۔ بے خودی طاری ہوگئی قدم تیزی سے اٹھنے لگے۔ مسجد کے قریب پہنچا تو رامانندی نے شانے پر ہاتھ رکھ کر روک دیا۔ اندر مت جا مسعود تو گندا ہے۔ ایں میں چونک پڑا۔ رامانندی کو دیکھا اور پھر ٹھنڈی سانس لے کر رک گیا۔ گردن ہلائی اور کچھ فاصلے پر ایک درخت کے نیچے پہنچ گیا پھر حسد بھری نظروں سے نمازیوں کو دیکھنے لگا۔ چند ہی لوگ آئے تھے ممکن ہے اس بستی میں مسلمانوں کی آبادی کم ہو۔ اندر نماز شروع ہوئی تو بے اختیار کھڑا ہوگیا۔ نیت بندھی تو میں نے بھی نیت باندھ لی ایک بار پھر ذہن پر زور ڈالا اندر قرأت ہورہی تھی مگر میرا منہ بند تھا۔ ذہن بند تھا پاک کلام گندے ذہن میں نہیں آرہا تھا۔ ہر کوشش ناکام ہورہی تھی۔ سجدے میں پڑگیا بس اسی میں سکون مل رہا تھا۔ نماز ختم ہوگئی نمازی شاید باہر نکل گئے تھے کوئی آواز نہیں آرہی تھی۔ سجدے سے سر ابھارا تو دو تین افراد کو قریب کھڑے دیکھا۔ ان میں سے ایک نے سلام کیا تو اسے جواب دیا۔ مسجد میں تو بہت جگہ ہے آپ لوگ باہر نمازکیوں پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے سوال کیا۔ جاری ہے
null
null
null
null
460
https://www.urduzone.net/god-father-episode-1/
بونا سیرا اس وقت نیویارک کی فوجداری عدالت نمبر تین میں بیٹھا تھا اور انصاف کا منتظر تھا۔ اس کے دل میں اس وقت صرف ایک ہی خواہش تھی وہ یہ کہ ان دو نوجوانوں کو قرار واقعی سزا ملے جنہوں نے بری نیت سے اس کی بیٹی پر حملہ کیا تھا اور جب وہ کسی طرح ان کے قابو میں نہیں آئی تو انہوں نے مار مار کر اس کا برا حال کردیا تھا۔ اس کا جبڑا توڑ ڈالا تھا۔ لڑکی ابھی تک اسپتال میں تھی۔ اس کا جبڑا چاندی کے تاروں کے ذریعے جوڑنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کی چوٹیں اور زخم ابھی ٹھیک نہیں ہوئے تھے۔ اس کی حالت دیکھ کر بونا سیرا کے دل پر جو گزرتی تھی وہ وہی جانتا تھا۔ جج صاحب بھاری بدن کے آدمی تھے۔ ان کے چہرے پر پسینہ تھا۔ انہوں نے آستینیں چڑھا کر اپنے سامنے کھڑے ہوئے دونوں نوجوان ملزموں کو اس طرح گھورا جیسے اٹھ کر، اپنے ہاتھوں سے انہیں عدالت میں ہی سزا دینے کا ارادہ کررہے ہوں۔ ان کے چہرے پر وہی جلال تھا جو کسی ایسے منصف کے چہرے پر ہوسکتا تھا جس کا خون کسی بھی زیادتی اور ظلم کی تفصیل سن کر کھول رہا ہو۔ یہ سب کچھ اپنی جگہ تھا لیکن نہ جانے کیوں بونا سیرا کا دل کسی انجانے اندیشے اور خوف سے گویا ڈوبا جارہا تھا۔ یوں لگ رہا تھا جیسے عدالت میں کوئی چیز کچھ مصنوعی سی ہے۔ جیسے وہاں کچھ کمی ہے، جیسے اس کے ساتھ کوئی دھوکا ہونے والا ہے۔ تم نے جو حرکت کی اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ تم انسان نہیں درندے ہو جج صاحب گرجے۔ بالکل بالکل بونا سیرا نے دل ہی دل میں جج صاحب کی تائید کی۔ بلکہ درندوں سے بھی بدتر وہ نفرت سے ان دونوں نوجوانوں کو گھور رہا تھا جن کے چہروں سے خوشحالی کی چمک عیاں تھی۔ جن کے تراشیدہ بال سلیقے سے جمے ہوئے تھے، جن کے لباس صاف ستھرے تھے۔ وہ گویا ایک انتہائی سنگین جرم کے سلسلے میں ملزم نامزد ہوکر عدالت میں پیش نہیں ہوئے تھے بلکہ کسی تقریب میں شرکت کے لئے آئے تھے۔ انہوں نے گویا بادل ناخواستہ تھوڑی سی شرمندگی کے اظہار کے لئے جج صاحب کے سامنے ایک لمحے کے لئے سر جھکا لیا۔ جج صاحب نے غیظ و غضب کی گھن گرج کے ساتھ سلسلۂ کلام جاری رکھا۔ تمہارا طرزعمل جنگل کے درندوں سے بھی بدتر تھا۔ تمہاری قسمت اچھی ہے کہ تم اس مظلوم لڑکی کی عزت لوٹنے میں کامیاب نہیں ہوئے ورنہ میں تم کو کم ازکم بیس سال کے لئے جیل کی سلاخوں کے پیچھے بھجوادیتا۔ انہوں نے خاموش ہوکر گھنی بھنویں اچکاتے ہوئے غمزدہ بونا سیرا کی طرف دیکھا۔ دوسرے ہی لمحے انہوں نے گویا اس سے نظر چراتے ہوئے اپنے سامنے رکھے ہوئے کاغذات کی موٹی سی گڈی کی طرف دیکھا۔ وہ اسی مقدمے سے متعلق مختلف نوعیت کے کاغذات تھے۔ جج صاحب کی پیشانی پر شکنیں اور موٹے موٹے نقوش میں خفیف سا کھنچائو تھا۔ ان کے اندر گویا ایک زبردست کشمکش جاری تھی۔ چند لمحے کی خاموشی کے بعد آخر وہ کھنکار کر گلا صاف کرتے ہوئے بولے۔ بہرحال تمہاری نوجوانی اور نادانی کی عمر کو دیکھتے ہوئے، تمہارے اعلیٰ خاندانی پس منظر اور صاف ستھرے ریکارڈ کو مدنظر رکھتے ہوئے اور اس حقیقت کو بھی پیش نظر رکھتے ہوئے کہ قانون کا وقار انتقام لینے میں پوشیدہ نہیں ہے۔ میں تمہیں تین سال کی سزائے قید کا حکم سناتا ہوں لیکن اس حکم پر عمل درآمد اس وقت تک معطل رہے گا جب تک عدالت اسے مناسب سمجھے۔ بونا سیرا تکفین و تدفین کا کام کرتا تھا۔ بنیادی طور پر وہ ایک گورکن تھا لیکن برسوں کی محنت کے بعد اپنے پیشے کو زیادہ باعزت صورت دینے میں کامیاب ہوگیا تھا۔ اس کے پاس جو مردے تکفین و تدفین کے لئے لائے جاتے تھے، ان سے اس کا کوئی رشتہ یا قرابت داری نہیں ہوتی تھی لیکن اپنے پیشے کے تقاضوں کو زیادہ بہتر طور پر پورا کرنے کے خیال سے بونا سیرا مرنے والوں کے لواحقین کے غم میں شریک ہوجاتا تھا۔ دکھاوے کے لئے وہ بھی ان کے سامنے غمزدہ صورت بنا لیتا تھا اور کبھی کبھار کوشش کرکے دوچار آنسو بھی بہا لیتا تھا۔ لیکن آج وہ سچ مچ غمزدہ تھا۔ غم کی شدت سے اس کا دل پھٹا جارہا تھا اور جج صاحب کا فیصلہ سننے کے بعد تو اس کا جی چاہا کہ وہ دھاڑیں مار مار کر رونے لگے۔ اپنا سر پیٹ لے۔ اپنے بالوں میں خاک ڈال لے۔ آنسوئوں سے دھندلائی ہوئی اس کی آنکھوں میں بیٹی کا چہرہ نقش تھا جو درحقیقت زندگی سے بھرپور ایک خوبصورت لڑکی تھی لیکن اس وقت بگڑا ہوا چہرہ اور مضروب جسم لئے اسپتال کے بیڈ پر پڑی تھی۔ بونا سیرا نے بمشکل خود کو اپنے جذبات کے اظہار سے باز رکھا اور خود پر ضبط کئے عدالت کا منظر دیکھتا رہا۔ دونوں نوجوانوں کے والدین اٹھ کر اپنے چہیتوں کے قریب آگئے تھے اور انہیں پیار کررہے تھے۔ وہ سب بہت خوش نظر آرہے تھے، مسکرا رہے تھے۔ بونا سیرا کے حلق میں ایک زہریلی سی کڑواہٹ گھل گئی۔ اس کے سینے میں ایک چیخ بگولے کی طرح چکرا رہی تھی۔ اس چیخ سے وہ عدالت کے درودیوار ہلا دینا چاہتا تھا۔ جج صاحب کے کانوں کے پردے پھاڑ ڈالنا چاہتا تھا مگر اس نے اس چیخ کا گلا گھونٹنے کے لئے دانت سختی سے بھینچ لئے اور جیب سے رومال نکال کر منہ پر رکھ لیا۔ دونوں نوجوان اس کے قریب سے گزرتے ہوئے مسکراتے ہوئے اپنے والدین اور رشتے داروں کے ساتھ عدالت کے کمرے سے باہر کی طرف چل دیئے۔ انہوں نے بونا سیرا کی طرف ایک نگاہ غلط انداز ڈالنے کی بھی زحمت نہیں کی تھی۔ وہ گویا ان کے نزدیک نہایت حقیر اور قطعی غیر اہم تھا۔ ان کے چہروں پر دھیمی لیکن فاتحانہ مسکراہٹ تھی۔ تب گویا بونا سیرا مزید ضبط نہ کرسکا۔ وہ ان جاتے ہوئے لوگوں کی طرف منہ کرکے پھٹی پھٹی سی آواز میں چلا اٹھا۔ تم بھی ایک روز اسی طرح روئو گے جس طرح میں رویا ہوں۔ تمہیں بھی اسی طرح رنج اور صدمہ اٹھانا پڑے گا جس طرح تمہارے بچوں کی وجہ سے مجھے اٹھانا پڑا ہے۔ دیکھ لینا میں تمہیں رونے پر مجبور کردوں گا۔ وہ ان لڑکوں کے والدین سے مخاطب تھا۔ کرب اور غصے کی شدت سے اس کی آواز اس کا ساتھ چھوڑ گئی۔ وہ رومال آنکھوں پر رکھ کر پھوٹ پھوٹ کر رو دیا حالانکہ وہ اپنی جگہ سے ہلا بھی نہیں تھا لیکن مضبوط جسم کا ایک عدالتی اہلکار یوں اس کے سامنے آکر کھڑا ہوگیا جیسے اسے اندیشہ ہو کہ وہ رخصت ہوتے ہوئے ملزمان کے والدین پر حملہ کردے گا۔ لڑکوں اور ان کے والدین نے گردنیں گھما کر ترحم آمیز سے انداز میں اس کی طرف دیکھا۔ ان کے ساتھ وکیلوں کا پورا گروپ تھا۔ ان وکیلوں نے یوں انہیں اپنے گھیرے میں لے لیا جیسے وہ ان کے قانونی ہی نہیں جسمانی محافظ بھی ہوں۔ بونا سیرا امریکی نہیں تھا۔ وہ اطالوی تھا اور سسلی سے امریکا آیا تھا لیکن سالہا سال سے یہیں آباد ہونے کی بنا پر وہ یہاں اجنبیت محسوس نہیں کرتا تھا۔ وہ امریکی معاشرت میں رچ بس گیا تھا۔ اس نے یہاں انصاف ہوتے دیکھا۔ یہاں کے قانون اور نظام انصاف پر اس کا یقین بڑا پختہ ہوچکا تھا لیکن آج اس کے اعتماد کو جس طرح ٹھیس پہنچی تھی، اس کے بعد اس کا یقین ریت کے گھروندے کی طرح بکھر گیا تھا۔ اس کے ذہن میں نفرت کی آندھیاں چل رہی تھیں اور اس کے حواس پر غیض و غضب کی سرمئی دھند سی چھا گئی تھی۔ اس کی رگ و پے میں چنگاریاں دوڑ رہی تھیں۔ اس نے چشم تصور سے اپنے آپ کو کہیں سے ایک پستول خریدتے اور پھر ان دونوں نوجوانوں کے جسم گولیوں سے چھلنی کرتے دیکھا۔ تاہم وہ جلد ہی اس خواب کے اثر سے نکل آیا۔ وہ جاگتی آنکھوں سے دیکھ رہا تھا۔ پھر وہ اپنی بیوی کی طرف مڑا جو ایک سادہ سی عورت تھی اور ابھی تک دم بخود بیٹھی تھی۔ اس کی آنکھوں میں حزن و ملال اور چہرے پر مایوسی تھی۔ بونا سیرا گویا اسے حوصلہ دیتے ہوئے بولا۔ تم فکر مت کرو۔ گویا وہ دل ہی دل میں کسی فیصلے پر پہنچ چکا تھا۔ ہمارے ساتھ بے انصافی ہوئی ہے۔ انہوں نے دنیا کے سامنے ہمارا تماشا بنایا ہے۔ ہمارا مذاق اڑایا ہے۔ انصاف حاصل کرنے کے لئے ہم ڈون کارلیون کے پاس جائیں گے۔ ہمیں عدالت سے انصاف نہیں ملا لیکن ڈون کارلیون سے ہمیں ضرور انصاف ملے گا۔ ٭ ٭ ٭ لاس اینجلس کے ایک اعلیٰ درجے کے ہوٹل کا وہ سوئٹ قدرے شوخ سے انداز میں آراستہ تھا۔ اس سوئٹ کے ڈرائنگ روم میں ایک کائوچ پر جونی فونٹا نیم دراز تھا۔ وہ نشے میں دھت تھا اور بوتل اب بھی اس کے ہاتھ میں تھی۔ اس نے ایک اور گھونٹ بھرا۔ اس کے سینے میں گویا ایک بار پھر آگ سی لگ گئی مگر یہ اس آگ سے کہیں کمتر تھی جو پینے سے پہلے ہی اس کے وجود کو جلا رہی تھی۔ وہ رقابت کی آگ تھی۔ اپنی اداکارہ بیوی مارگوٹ ایشٹن کے بارے میں سوچتے ہوئے یہ آگ اس کے ہر مسام جاں سے پھوٹنے لگتی تھی۔ اس وقت صبح کے چار بج رہے تھے اور اسے نہیں معلوم تھا کہ گزشتہ شام سے اس کی بیوی کہاں تھی خمار سے دھندلائے ہوئے ذہن کے ساتھ وہ سوچ رہا تھا کہ مارگوٹ جب واپس آئے گی تو وہ اسے قتل کردے گا۔ وہ یقین سے نہیں کہہ سکتا تھا کہ مارگوٹ کب واپس آئے گی اور آئے گی بھی یا نہیں اس کی پہلی بیوی جسے اس نے چھوڑ دیا تھا۔ اس وقت تو وہ اس سے بھی فون کرکے نہیں پوچھ سکتا تھا کہ اس کا اور اس کے دونوں بچوں کا کیا حال تھا رات کے پچھلے پہر وہ اپنے دوستوں اور جاننے والوں میں سے بھی کسی کو فون کرکے تسلی کا کوئی لفظ سننے کی امید نہیں رکھ سکتا تھا۔ اس وقت تو شاید کوئی اس کا فون ریسیو ہی نہ کرتا اور اگر کرتا بھی تو وہ یقیناً بیزاری یا غصے کا اظہار کرتا کیونکہ جونی اب ایک زوال زدہ شخص تھا۔ کچھ زیادہ پرانی بات نہیں تھی کہ وہ ہالی وڈ کا صف اول کا گلوکار تھا۔ وہ بے حد مقبول راک سنگر تھا۔ بے حد وجیہ بھی تھا۔ عورتیں اس پر مرتی تھیں۔ اسے فلموں میں بھی کام کرنے کی پیشکشیں ہوتی تھیں۔ اس نے چند ایک فلموں میں کام بھی کیا لیکن اسے خود ہی احساس ہوا کہ وہ زیادہ اچھا اداکار نہیں تھا۔ اس لئے اس نے دوبارہ گلوکاری پر ہی توجہ مرتکز کردی۔ پھر کچھ ایسے عوامل پیدا ہوئے کہ بطور گلوکار بھی اس پر بہت تیزی سے زوال آگیا۔ اب وہ نشے میں دھت ہونے کے باوجود صبح کے چار بجے کسی کو فون کرنے کی خود میں ہمت نہیں پاتا تھا۔ کوئی وقت تھا کہ اگر وہ رات کے اس پہر بھی کسی کو فون کرتا تو وہ اس پر فخر محسوس کرتا۔ وہ اپنے حلقۂ احباب میں بیٹھ کر بظاہر سرسری لیکن درحقیقت فخریہ لہجے میں بتاتا کہ جونی فونٹا نے رات کے چار بجے اسے فون کیا تھا۔ کوئی وقت تھا کہ وہ ہالی وڈ کی کئی سپر اسٹارز کے سامنے اپنی پریشانیوں یا مسائل کا بھی تذکرہ کرتا تھا تو وہ نہایت دلچسپی اور حیرت سے آنکھیں پھیلا پھیلا کر سنتی تھیں لیکن اب اگر وہ ان سے رسمی باتیں بھی کرنے کی کوشش کرتا تو شاید وہ اس کے منہ پر ہی کہہ دیتیں کہ وہ انہیں بور کررہا ہے۔ اس نے وہسکی سے لتھڑے ہوئے اپنے ہونٹوں کو الٹے ہاتھ سے صاف کیا اور وقت اور حالات کے اس تغیر کے بارے میں سوچتے ہوئے افسردگی سے مسکرا دیا۔ آخر اسے دروازے کے تالے میں چابی گھومنے کی آواز سنائی دی۔ اس کی بیوی واپس آگئی تھی۔ اس وقت بھی بوتل جونی کے ہونٹوں سے لگی ہوئی تھی۔ اس نے اسے ہٹانے کی کوشش نہیں کی حتیٰ کہ مارگوٹ کمرے میں آگئی اور اس کے سامنے آن کھڑی ہوئی۔ وہ بے پناہ خوبصورت عورت تھی۔ اس کا سراپا قیامت تھا۔ بہت سے خوبصورت لوگ فلم اسکرین پر زیادہ خوبصورت نظر نہیں آتے لیکن وہ اسکرین پر بھی اصل سے خوبصورت دکھائی دیتی تھی۔ کیمرہ اس کے حسن میں چار چاند لگا دیتا تھا۔ اس کے سراپے میں گویا کچھ اور جان پڑ جاتی تھی۔ جونی کے لئے مشکل یہ تھی کہ وہ اب بھی اس حسین بلاخیز کا دیوانہ تھا۔ مارگوٹ کی فلمیں دیکھنے والوں میں سے کم ازکم دس کروڑ مرد اس پر دل و جان سے مرتے تھے اور جونی محسوس کرتا تھا کہ شاید وہ بھی انہی دس کروڑ مردوں میں سے ایک تھا۔ وہ اس کا شوہر نہیں، اس کا پرستار، اس کا عاشق زار تھا۔ وہ جب اس کے سامنے آتی تھی تو وہ اپنا سارا غصہ، برہمی اور نفرت بھول جاتا تھا۔ بالکل بے بس ہوجاتا تھا۔ کہاں تھیں تم اب تک جونی نے اپنی لڑکھڑاتی آواز میں غصہ سمونے کی کوشش کی لیکن اسے اس میں کوئی خاص کامیابی نہیں ہوئی۔ باہر عیش کررہی تھی۔ مارگوٹ نے بے خوفی سے مسکراتے ہوئے جواب دیا۔ وہ گویا اسے چھیڑ رہی تھی۔ چڑانے کی کوشش کررہی تھی۔ اس نے جونی کی مدہوشی کے بارے میں غلط اندازہ لگایا تھا۔ وہ سمجھ رہی تھی کہ شاید جونی میں اپنی جگہ سے ہلنے کی بھی سکت نہیں ہے مگر وہ اچھل کر اٹھ کھڑا ہوا اور اس نے مارگوٹ کا گلا دبوچ لیا لیکن اتنے قریب سے اس حسین چہرے کو دیکھ کر وہ جیسے بالکل ہی بے بس ہوگیا اور پھر کچھ نشے کی زیادتی کے باعث بھی اس کے ہاتھوں میں جان نہیں تھی۔ مارگوٹ کے گلے پر اس کی گرفت ذرا بھی سخت نہیں تھی۔ وہ استہزائیہ انداز میں مسکرا رہی تھی۔ جونی نے گویا اس کے اس انداز سے چڑ کر دوسرا ہاتھ گھونسا رسید کرنے کے لئے بلند کیا تو وہ دونوں ہاتھ اٹھاتے ہوئے چلا اٹھی۔ دیکھو میرے چہرے پر گھونسا ہرگز نہ مارنا۔ ابھی میری شوٹنگ چل رہی ہے۔ فلم ختم نہیں ہوئی۔ ابھی میں اپنے چہرے پر ذرا سا بھی نشان افورڈ نہیں کرسکتی۔ جونی کا ہاتھ اٹھا کا اٹھا رہ گیا۔ وہ اسے گھونسا رسید کرنے سے باز رہا۔ بے بسی اس پر پہلے ہی غالب تھی۔ مارگوٹ اس کی حالت سے لطف اندوز ہوتے ہوئے ہنسنے لگی۔ تب جونی نے اسے قالین پر گرا دیا اور اس کے جسم کے ایسے حصوں پر گھونسے رسید کرنے لگا جہاں اول تو نشان پڑ نہیں سکتے تھے اور اگر پڑتے بھی تو نظر نہیں آسکتے تھے۔ درحقیقت خمار حد سے زیادہ ہونے کی وجہ سے اس کے ہاتھوں میں اتنی طاقت ہی نہیں تھی کہ وہ مارگوٹ کو کوئی گزند پہنچا سکتا۔ وہ اس کے نیچے دبی اس طرح ہنس رہی تھی جیسے جونی اسے مارنے کے بجائے اس کے گدگدی کررہا ہو۔ وہ نہایت نازک اندام نظر آتی تھی۔ اس کا بے داغ مرمریں سراپا گویا ذرا سی رگڑ بھی برداشت نہیں کرسکتا تھا لیکن درحقیقت وہ اتنی نازک اندام بھی نہیں تھی۔ چند لمحوں بعد وہ اسے ایک طرف دھکیل کر اٹھ کھڑی ہوئی اور استہزائیہ لہجے میں بولی۔ تمہارا ہر کام ہی بچکانہ ہوتا ہے۔ تمہیں ڈھنگ سے کچھ بھی کرنا نہیں آتا۔ حتیٰ کہ تم وہ نشے بازوں جیسے فضول اور واہیات گانے گایا کرتے تھے، اب تو تم سے وہ بھی نہیں گائے جاتے۔ پھر اس نے گھڑی دیکھی اور اس کے لہجے میں بیزاری آگئی۔ میں سونے جارہی ہوں۔ خداحافظ اور شب بخیر۔ وہ بیڈ روم میں چلی گئی اور دروازہ اس نے مقفل کرلیا۔ جونی سوئٹ کے ڈرائنگ روم میں ہی پڑا رہ گیا۔ چند لمحے بعد وہ اٹھ بیٹھا اور اس نے دونوں ہاتھوں سے سر تھام لیا۔ اس کا سر گھوم رہا تھا۔ ذلت اور شکستگی کے احساس سے اس کی آنکھیں کچھ اور دھندلائی جارہی تھیں۔ پھر دھیرے دھیرے اس کے دل کے کسی گوشے سے عزم اور ہمت کی ایک لہر سی ابھری۔ وہ عزم اور ہمت جس کی مدد سے اس نے ہالی وڈ کے جنگل میں اپنی بقا کی جنگ لڑی تھی اور اپنا ایک مقام بنایا تھا۔ یہ کوئی آسان کام نہیں تھا۔ اب وہ ایک دلدل میں دھنس چکا تھا۔ دھیرے دھیرے نیچے جارہا تھا۔ ناکامیاں چاروں طرف سے اس پر حملہ آور تھیں۔ ہر قسم کی کامیابی اور ہر قسم کی خوشی گویا اس کی زندگی سے رخصت ہوچکی تھی۔ مگر اسے زندہ رہنا تھا۔ کامیابیوں اور خوشیوں کے حصول کے لئے ہاتھ، پائوں مارنے تھے۔ وہ اتنی آسانی سے شکست تسلیم نہیں کرسکتا تھا۔ اس دنیا میں ابھی ایک فرد موجود تھا جو اس کا ہاتھ تھام سکتا تھا۔ اسے حالات کی دلدل سے نکال سکتا تھا۔ اسے سہارا دے سکتا تھا۔ اسے دوبارہ کامیابیوں کے راستے پر ڈال سکتا تھا اور وہ تھا اس کا مربی اور سرپرست، اس کا گاڈ فادر ڈون کارلیون جس کے لئے جونی منہ بولے بیٹے کی طرح تھا۔ جونی نے فیصلہ کیا کہ وہ نیویارک جائے گا اور گاڈ فادر سے ملے گا۔ اس نے اسی وقت فون اپنی طرف کھسکایا اور نیویارک کے لئے جہاز پر ایک سیٹ بک کرانے کی غرض سے ایئرپورٹ کا نمبر ملانے لگا۔ ٭ ٭ ٭ نیزورین کی بیکری اطالوی چیزوں کے لئے مشہور تھی اور بیکری کی بالائی منزل پر ہی نیزورین اپنی بیوی اور جوان بیٹی کے ساتھ رہتا تھا۔ اس وقت وہ ایپرن باندھے بیکری کے پچھلے حصے میں کھڑا تھا۔ اس کے ہاتھ میدے میں لتھڑے ہوئے تھے اور چہرے پر بھی کہیں کہیں میدہ لگا ہوا تھا۔ اس کے سامنے اس کی بیوی، جوان بیٹی اور بیکری کے کاموں میں کچھ عرصہ پہلے تک اس کا ہاتھ بٹانے والا نوجوان اینزو موجود تھا۔ اینزو خوش شکل اور میانہ قامت تھا۔ وہ ورزشی جسم کا مالک تھا۔ اس کے جسم پر اطالوی جنگی قیدیوں والی مخصوص وردی تھی۔ دوسری جنگ عظیم کے دوران امریکا میں غیر قانونی طور پر مقیم اطالویوں میں سے بیشتر کو پکڑ لیا گیا تھا۔ کچھ چھان بین کے بعد ان میں سے بیشتر کو پیرول پر رہا کردیا گیا تھا اور ان کی صلاحیتوں کے اعتبار سے سرکاری طور پر مختلف مقامات پر کاموں پر لگا دیا گیا تھا جن کا انہیں بہت کم معاوضہ ملتا تھا۔ ان کا کام گویا ایک طرح کی بیگار تھی جو امریکی حکومت ان سے لے رہی تھی۔ ان کی حیثیت جنگی قیدیوں کی سی تھی تاہم وہ کسی قیدخانے یا کیمپ میں نہیں تھے البتہ ان کے لئے اپنے کام کی جگہ پر پہنچنا ضروری تھا۔ عام خیال یہی تھا کہ اب جبکہ جنگ اختتام پذیر تھی، جلد ہی انہیں ان کے وطن واپس بھیج دیا جائے گا۔ اینزو بھی ان دنوں اسی طرح سے دوچار تھا۔ نیزورین خونخوار نظروں سے اسے گھور رہا تھا۔ اس وقت ان چاروں کے درمیان نہایت سنجیدہ گفتگو جاری تھی اور اینزو کو خدشہ تھا کہ اس بحث میں الجھ کر وہ گورنرز آئی لینڈ پہنچنے میں لیٹ ہوجائے گا جہاں اس کی ڈیوٹی لگی ہوئی تھی۔ کام پر پہنچنے میں لیٹ ہونا ایک سنگین مسئلہ تھا۔ اس کے نتیجے میں اس کی پیرول منسوخ ہوسکتی تھی اور اسے قید میں ڈالا جاسکتا تھا جبکہ اس کے لئے رسمی سی آزادی بھی نعمت تھی۔ میں پوچھتا ہوں کہ تم نے میری بیٹی کو محبت کا جھانسہ دے کر اس کی عزت تو برباد نہیں کی نیزورین نے خونخوار لہجے میں اینزو سے دریافت کیا۔ تم کہیں اسے گناہ کی کوئی نشانی تو نہیں دیئے جارہے جنگ ختم ہوتے ہی امریکی حکومت تمہیں تو سسلی تمہارے گائوں واپس بھیج دے گی جہاں گندگی اور غربت کے سوا کچھ نہیں۔ تم دھکے کھانے کے لئے وہاں چلے جائو گے اور میری بیٹی یہاں روتی رہ جائے گی۔ اینزو سینے پر ہاتھ رکھ کر مؤدبانہ انداز میں جھکتے ہوئے اور اپنی آواز کو گلوگیر بنانے کی کوشش کرتے ہوئے مجروح سے لہجے میں بولا۔ یہ آپ کیسی باتیں کررہے ہیں میں نے کبھی آپ کی نوازشات اور آپ کی بیٹی کی محبت کا ناجائز فائدہ اٹھانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں۔ میں مقدس کنواری کی قسم کھا کر کہہ سکتا ہوں کہ میں نے کوئی غلط حرکت نہیں کی۔ میں آپ کی بیٹی سے محبت کرتا ہوں لیکن اس کی عزت بھی مجھے عزیز ہے۔ آپ سب میری نظر میں محترم ہیں۔ میرے دل میں آپ سب کے لئے عزت بھی ہے اور اپنائیت بھی میں باعزت انداز میں آپ کی بیٹی سے شادی کرنا چاہتا ہوں اور یہ کوئی غلط بات نہیں ہے لیکن اگر امریکی حکومت نے جبری طور پر مجھے واپس میرے وطن، میرے گائوں بھیج دیا تو پھر میں کیتھرین سے شادی نہیں کرسکوں گا۔ اس موقع پر نیزورین کی بیوی فیلومینا نے مداخلت کی اور ڈانٹنے کے سے انداز میں اپنے پستہ قد شوہر سے مخاطب ہوئی۔ بے وقوفی کی باتیں چھوڑو اور اصل مسئلے کی طرف دھیان دو۔ ہمیں اینزو کو ہر حال میں امریکا میں رکھنے کا بندوبست کرنا چاہئے۔ اسے فی الحال روپوش ہونے کے لئے اپنے بھائی کے گھر لانگ آئی لینڈ بھیج دو اور اس دوران اس کے کاغذات بنوانے کی کوشش کرو جن کی مدد سے یہ جائز اور قانونی طریقے سے امریکا میں رہ سکے۔ نیزورین خود سسلی کا باشندہ تھا لیکن وہ برسوں سے امریکا میں مقیم تھا اور یہاں کی شہریت حاصل کرچکا تھا۔ اسے سسلی میں واقع اپنے آبائی گائوں سے کوئی دلچسپی نہیں تھی تاہم وہ سسلی کے پرانے اور روایت پسند لوگوں میں سے تھا جن کی پہلی کوشش یہی ہوتی تھی کہ وہ اپنے بچوں کی شادیاں اپنے ہم وطنوں میں کریں۔ نیزورین کو تو ویسے بھی اینزو جیسا خوش شکل اور نوجوان داماد میسر آنا مشکل تھا کیونکہ اس کی بیٹی نہایت عام سی شکل صورت کی مالک اور اچھی خاصی موٹی تھی۔ یہ کہنا بے جا نہیں تھا کہ وہ کسی حد تک بھدے پن کا شکار تھی اور مردوں کی طرح اس کی ناک کے نیچے ہلکا سا رواں بھی تھا جیسے کسی نوعمر لڑکے کی مسیں بھیگ رہی ہوں۔ معلوم نہیں اینزو کس طرح اس پر مہربان ہوگیا تھا۔ جن دنوں وہ بیکری کے کاموں میں ہاتھ بٹا رہا تھا، نیزورین نے اسے اکثر آنکھ بچا کر اپنی بیٹی کے ساتھ اٹکھیلیاں اور چھیڑ چھاڑ کرتے دیکھا تھا۔ کیتھرین پوری گرمجوشی سے اس کی حرکتوں کا جواب دیتی تھی۔ نیزورین کو اندیشہ تھا کہ اگر اس نے ان دونوں پر کڑی نظر نہ رکھی ہوتی تو اس کی بیٹی خود اینزو کی طرف مائل ہوچکی ہوتی۔ کیتھرین اس وقت رو رہی تھی۔ اس کی ماں نے جب اس کے باپ کو ڈانٹا تو کیتھرین نے امید بھری نظروں سے باپ کی طرف دیکھا لیکن جب وہ متذبذب انداز میں خاموش رہا تو کیتھرین چلا اٹھی۔ اگر اینزو کو سسلی بھیجا گیا تو میں بھی اس کے ساتھ وہیں چلی جائوں گی اور وہیں رہوں گی۔ اگر اس کے ساتھ میری شادی نہ کی گئی تو میں اس کے ساتھ بھاگ جائوں گی۔ اگر اسے یہاں نہیں روکا گیا تو اس کے ساتھ رہنے کے لئے میں کچھ بھی کرگزروں گی۔ نیزورین نے ناگواری سے بیٹی کی طرف دیکھا۔ اسے احساس ہوا کہ بیٹی اس کے ہاتھ سے نکل چکی تھی۔ اس پر نوجوانی کے جذبات کا غلبہ تھا۔ اس سلسلے میں صحیح سمت میں قدم اٹھانا ضروری ہوگیا تھا۔ اس کے خیال میں درست اقدام یہی تھا کہ اینزو کو امریکا میں روکا جاتا اور اسے شہریت دلوانے کی کوشش کی جاتی۔ یہ بہت مشکل کام تھا۔ نیزورین کے بس کی بات نہیں تھی۔ فی الحال تو یہ تقریباً ناممکن ہی تھا۔ صرف ایک شخص ایسا تھا جو نیزورین کے خیال میں اس ناممکن کام کو ممکن بنا سکتا تھا اور وہ تھا گاڈ فادر ڈون کارلیون ٭ ٭ ٭ ان سب لوگوں کو ڈون کارلیون کی بیٹی تانزیا کارلیون کی شادی کی تقریب کے دعوت نامے ملے تھے۔ دعوت نامے نہایت خوبصورت تھے اور ان پر طلائی حروف ابھرے ہوئے تھے۔ شادی کے لئے اگست کے آخری سنیچر کا دن مقرر کیا گیا تھا۔ ڈون کارلیون گو کہ اب لانگ آئی لینڈ پر ایک طویل و عریض محل نما مکان میں رہ رہا تھا لیکن وہ تمام اہم تقریبات کے موقع پر اپنے پرانے پڑوسیوں، دوستوں اور عقیدت مندوں کو مدعو کرنا نہیں بھولتا تھا۔ شادی کی ضیافت کا اہتمام اس محل نما مکان میں ہی کیا گیا تھا اور جشن کے سے انداز میں مختلف رسوم کا سلسلہ تمام دن ہی جاری رہتا تھا۔ مدعوئین کے لئے اندازہ کرنا مشکل نہیں تھا کہ یہ ایک یادگار تقریب ہوگی۔ لوگوں کے لئے یہ احساس بھی طمانیت بخش تھا کہ جنگ عظیم تقریباً ختم ہوچکی تھی۔ آخری معرکہ آرائی جاپانیوں سے چل رہی تھی۔ اب وہ بھی اختتام کو پہنچ چکی تھی۔ لوگوں کے بیٹے جو فوج میں بھرتی ہوکر مختلف محاذوں پر گئے ہوئے تھے، گھروں کو لوٹ آئے تھے۔ اب وہ صحیح طور پر کوئی خوشی منا سکتے تھے۔ کسی تقریب سے لطف اندوز ہوسکتے تھے۔ تقریب کے دوران ان کے دل و ذہن پر اس قسم کے تفکرات اور اندیشوں کے سائے نہ ہوتے کہ ان کے بیٹے نہ جانے کن محاذوں پر ہوں گے۔ کس حال میں ہوں گے اور وہ زندہ بھی واپس آئیں گے یا نہیں ان کے خیال میں شادی کی یہ تقریب بہت ہی اچھے موقع پر آئی تھی۔ چنانچہ اس سنیچر کو دن چڑھتے ہی بہت سے لوگ نیویارک سٹی سے لانگ آئی لینڈ کی طرف روانہ ہوچکے تھے۔ ان کے پاس دلہن کو تحفے کے طور پر دینے کے لئے لفافے تھے جن میں ہر ایک نے حسب حیثیت زیادہ سے زیادہ رقم رکھ کر ڈون کارلیون سے اپنی عقیدت اور وابستگی کا اظہار کرنے کی کوشش کی تھی۔ یہ رقوم وہ کسی مجبوری کے تحت نہیں بلکہ حقیقت میں اپنی خوشی سے لے کر جارہے تھے۔ وہ سب ہی کسی نہ کسی وجہ سے ڈون کے لئے اپنے دل میں عقیدت، ممنونیت اور تشکر کے جذبات رکھتے تھے اور ان کے اظہار کا ان کے خیال میں یہ ایک نہایت اچھا موقع اور نہایت اچھا طریقہ تھا۔ ان میں بیشتر وہ لوگ تھے جنہوں نے ہر مشکل گھڑی میں مدد کے لئے ڈون کارلیون کے دروازے پر دستک دی تھی اور انہیں کبھی مایوس نہیں لوٹنا پڑا تھا۔ ڈون نے کبھی ان سے کوئی جھوٹا وعدہ نہیں کیا تھا اور نہ ہی کبھی کسی کی مدد کے سلسلے میں یہ عذر پیش کرنے کی کوشش کی تھی کہ وہ اپنے سے بھی بڑی کسی طاقت کے سامنے مجبور تھا۔ اس کے ہاتھ بندھے ہوئے تھے یا فلاں کام، فلاں ٹھوس وجہ کی بنا پر ممکن ہی نہیں تھا۔ ڈون کارلیون کے منہ سے کبھی کسی نے اس قسم کی بات نہیں سنی تھی۔ اس کے پاس مدد کی غرض سے جانے والے سائل کے لئے یہ بھی ضروری نہیں تھا کہ وہ کوئی اہم آدمی ہوتا یا ڈون اس سے یہ توقع رکھتا کہ کبھی وہ بھی جواب میں اس کے کسی کام آئے گا۔ چھوٹے موٹے، معمولی اور غیر اہم آدمی بھی مدد مانگنے کے لئے ڈون کے پاس جاسکتے تھے۔ شرط صرف یہ تھی کہ ڈون سے ان کی شناسائی، دوستی یا نیاز مندی ہوتی یا وہ ڈون کے پرانے ہم وطن ہوتے اور انہوں نے اس سے رابطہ اور رشتہ کسی نہ کسی صورت میں کسی نہ کسی انداز میں برقرار رکھا ہوتا۔ ڈون ایک روایت پسند آدمی تھا۔ اگر کوئی شخص اس سے تعلق یا قرابت داری کا دعوے دار ہوتا تو ڈون کی یہ بھی خواہش ہوتی کہ وہ کسی نہ کسی انداز میں اس کا اظہار بھی جاری رکھتا۔ ایسا نہیں ہونا چاہئے تھا کہ عام حالات میں تو کوئی ڈون سے برسوں لاتعلق رہتا، کبھی رابطہ نہ رکھتا اور جب کوئی مشکل یا مصیبت پڑتی تو روتا ہوا اس کے پاس پہنچ جاتا۔ اس کے شناسا، دوست، پرانے پڑوسی یا ہم وطن کبھی کبھار اسے کوئی تحفہ بھجواتے رہتے تھے یا کسی اور انداز میں رابطہ رکھتے تھے اور ڈون کو یہ احساس دلاتے رہتے تھے کہ وہ اسے بھولے نہیں تھے تو ڈون بہت خوش ہوتا تھا۔ کسی کے چھوٹے موٹے تحفے کی اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں ہوتی تھی لیکن وہ یہ محسوس کرکے خوش ہوتا تھا کہ تحفہ بھیجنے والے نے اس کی ذات سے اپنی عقیدت، ممنونیت اور تعلقِ خاطر کا اظہار کیا ہے۔ اس کی نظر میں ان چھوٹی چھوٹی باتوں کی بہت اہمیت تھی۔ ممنونیت، عقیدت اور تشکر کے انہی جذبات کے تحت بہت سے لوگ اسے گاڈ فادر کہتے تھے۔ اسے اپنا مربی، سرپرست اور منہ بولا یا روحانی باپ قراردیتے تھے۔ آج کا دن خود ڈون کے لئے بھی یادگار تھا۔ آج اس کی بیٹی کی شادی تھی۔ وہ خود اپنے محل کے صدر دروازے پر مہمانوں کے استقبال کے لئے کھڑا تھا۔ ان میں سے بیشتر ایسے تھے جو ڈون ہی کی کسی نہ کسی نوازش کی وجہ سے کامیابی کے راستے پر گامزن ہوئے تھے۔ وہ تو اس کے روبرو بھی دلی محبت اور عقیدت سے اسے گاڈ فادر کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ محل میں مستقل یا پھر اس خاص موقع پر عارضی طور پر خدمات انجام دینے والوں سے بھی ڈون کا کوئی نہ کوئی پرانا تعلق یا دوستی کا رشتہ تھا۔ مثلاً آج کے دن بار ٹینڈر کے فرائض انجام دینے والا ڈون کا پرانا دوست تھا اور تقریب کیلئے تمام مشروبات کا انتظام اس نے اپنی جیب سے کیا تھا۔ یہ گویا اس کی طرف سے شادی کا تحفہ تھا۔ ویٹرز کے طور پر کام کرنے والے لوگ ڈون کارلیون کے بیٹوں کے دوست تھے اور اس موقع پر ڈون فیملی کی خدمت انجام دے کر خوشی محسوس کررہے تھے۔ ایک ایکڑ پر پھیلے ہوئے خوبصورت اور سرسبز باغ میں بہت سی پکنک ٹیبلز پر طرح طرح کے جو کھانے سجے ہوئے تھے وہ ڈون کی بیوی نے اپنی نگرانی میں ملازمائوں اور اپنی سہیلیوں سے پکوائے تھے۔ اس نے خود بھی ان کے ساتھ کام کیا تھا۔ باغ کی سجاوٹ اور آرائش دلہن کی سہیلیوں نے کی تھی۔ ڈون کارلیون ہر مہمان کا استقبال یکساں احترام اور گرم جوشی سے کر رہا تھا۔ کوئی امیر تھا یا غریب۔ اہم تھا یا غیر اہم۔ بڑے سماجی رتبے کا حامل تھا یا کوئی معمولی کارندہ۔ ڈون کارلیون سب کو یکساں انداز میں خوش آمدید کہہ رہا تھا۔ اس کے رویّے سے کسی مہمان کو اپنے بارے میں گمان بھی نہیں گزر سکتا تھا کہ وہ دوسروں کے مقابلے میں کمتر تھا۔ ڈون کا رویہ ہمیشہ ایسا ہی ہوتا تھا۔ یہ اس کے کردار کا ایک حصہ تھا۔ وہ اس عمر میں بھی اپنے ڈنر سوٹ میں اتنا وجیہ، پروقار اور دلکش نظر آرہا تھا کہ اگر آنے والا کوئی مہمان اس کا صورت آشنا نہ ہوتا تو شاید یہ سمجھتا کہ وہ دولہا ہے۔ اس کے تین بیٹوں میں سے دو اس کے ساتھ صدر دروازے پر کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک سین ٹینو تھا۔ پیدائش کے بعد اس کا نام تو سین ٹینو رکھا گیا تھا لیکن زیادہ تر لوگ اسے سنی کے نام سے جانتے تھے۔ باپ کے سوا تقریباً سبھی اسے اسی نام سے پکارتے تھے۔ ڈون کارلیون کے بچے امریکا میں ہی پیدا ہوئے تھے اور یہیں پلے بڑھے تھے۔ ان کے نقوش پر اطالوی رنگ غالب تھا مگر شخصیت میں امریکی چھب بھی تھی مثلاً سین ٹینو عرف سنی قدکاٹھ اور ہاتھ، پیروں کی ساخت سے امریکی لگتا تھا۔ اس کا قد چھ فٹ اور جسم کسی بیل یا گھوڑے کی طرح مضبوط تھا جبکہ اس کے سنہرے بال نہایت گھنے اور گھنگھریالے تھے۔ اس کاچہرہ کسی حد تک کیوپڈ کی خیالی تصویر سے ملتا تھا۔ عورتوں کے لئے اس میں بے پناہ کشش تھی۔ وہ شادی شدہ اور تین بچوں کا باپ تھا مگر اس پر عورتوں کی نوازشات میں کوئی کمی نہیں آئی تھی اور وہ ان نوازشات سے استفاد کرنے میں چوکتا بھی نہیں تھا۔ جن عورتوں کو اس سے واسطہ پڑتا تھا وہ اس کی بے پناہ کشش پر عرصے تک حیران رہتی تھیں۔ آج بھی بیشتر جوان ملازمائیں اور چھوٹی موٹی دیگر خدمات انجام دینے والی عورتیں آتے جاتے موقع پا کر اسے میٹھی میٹھی نظروں سے دیکھ رہی تھیں لیکن وہ ان کی طرف سے انجان بنا ہوا تھا۔ آج وہ بہن کی شادی کے موقع پر نہایت سنجیدہ اور ذمہ دار طرزعمل کا مظاہرہ کرنا چاہتا تھا تاہم دلہن کی اس وقت کی خاص خادمہ لوسی پر نظر رکھنے سے وہ باز نہیں رہا تھا اور موقع ملنے کا منتظر تھا۔ لوسی دلہن سے کہیں زیادہ خوبصورت اور پرکشش تھی۔ آج کچھ زیادہ ہی اہتمام سے بنی سنوری ہونے کی وجہ سے وہ اور بھی غضب ڈھا رہی تھی۔ وہ خوبصورت گلابی گائون میں تھی اور اس کے ریشمیں سیاہ بالوں میں پھولوں کا تاج سجا ہوا تھا۔ پچھلے ایک ہفتے سے شادی کی تیاریوں اور مختلف رسوم کی ریہرسل کے دوران وہ سنی سے اچھی خاصی بے تکلفی سے بات کرتی رہی تھی اور صبح چرچ میں شادی کی رسم کے دوران اس نے موقع پا کر چپکے سے سنی کا ہاتھ بھی پکڑ لیا تھا۔ سنی کے بارے میں عام خیال یہی تھا کہ اس میں باپ والی بیشتر خصوصیات نہیں تھیں۔ گو کہ وہ فراخدلی اور مستعد آدمی تھا مگر اس میں باپ جیسا تحمل اور معاملہ فہمی نہیں تھی۔ اسی جلدبازی اور تند مزاجی میں وہ غلط فیصلے کر جاتا تھا۔ گو کہ اس وقت وہ باپ کے کاروبار میں ہاتھ بٹا رہا تھا لیکن اس کے بارے میں یہ امید نہیں رکھی جاتی تھی کہ وہ صحیح معنوں میں باپ کا جانشین یا اس کا صحیح وارث ثابت ہوسکے گا۔ ڈون کے دوسرے بیٹے کا نام فریڈ ریکو تھا جسے پیار سے فریڈ کہا جاتا تھا۔ اکثر اطالوی اپنے ہاں اس قسم کا بیٹا پیدا ہونے کی دعا مانگتے تھے۔ وہ آنکھیں بند کرکے باپ کے حکم پر چلنے والا، ہر حال میں اس کا وفادار اور خدمت گار تھا۔ تیس سال کی عمر میں بھی وہ باپ کے ساتھ ہی رہتا تھا۔ وہ سنی جتنا دراز قد اور خوبرو تو نہیں تھا لیکن بہرحال جسمانی اسی کی طرح مضبوط تھا۔ اس کی صورت میں بھی کیوپڈ کی جھلک تھی تاہم اس کی آنکھوں اور چہرے کی ساخت سے سرد مہری جھلکتی تھی۔ وہ کبھی اپنے باپ سے اختلاف نہیں کرتا تھا اور نہ ہی کبھی عورتوں کے بارے میں اس کا کوئی اسکینڈل بنا تھا جس سے اس کے باپ کو شرمندگی اٹھانا پڑتی۔ اس کی یہ خوبیاں اپنی جگہ تھیں مگر اس میں بھی وہ طاقت، وہ خود اعتمادی اور وہ قائدانہ صلاحیتیں نظر نہیں آتی تھیں جو ڈون کارلیون جیسے آدمی کی روایات اور وراثت کو مکمل طور پر سنبھالنے کے لئے ضروری تھیں۔ ڈون کا تیسرا بیٹا مائیکل کارلیون تھا۔ وہ اس وقت اپنے باپ اور دونوں بھائیوں سے الگ تھلگ، باغ کے ایک گوشے میں میز پر بیٹھا تھا لیکن وہاں بھی وہ بہت سے مہمانوں کی توجہ کا مرکز تھا۔ وہ ڈون کا سب سے چھوٹا بیٹا تھا اور اپنے باپ کا سب سے کم فرمانبردار تھا۔ وہ اپنے بھائیوں کی طرح مضبوط اور قدرے بھاری بھرکم سی شخصیت کا مالک نہیں تھا۔ اس کے بال بھی گھنے سنہرے اور گھنگھریالے نہیں بلکہ سیدھے سیاہ ریشمیں تھے۔ وہ چھریرے جسم کا تھا اور بال ذرا لمبے رکھتا تھا۔ اس کی زیتونی جلد میں ہلکی سی زردی تھی۔ ایسی جلد اگر کسی عورت کی ہوتی تو بہت اچھی لگتی۔ مائیکل بھی ایک وجیہ نوجوان تھا لیکن اس کی شخصیت میں کچھ نزاکت تھی۔ جب وہ چھوٹا تھا، اس وقت تو ڈون کو یہ نزاکت کسی حد تک نسوانیت محسوس ہوتی تھی اور اسے اندیشہ تھا کہ شاید اس کے بیٹے میں وہ وجاہت اور مردانگی نہ ہو جو اس کے خاندان کا خاصا تھی لیکن جب مائیکل سترہ سال کا ہوا تو اس کے باپ کی یہ تشویش دور ہوگئی۔ اس وقت بھی مائیکل گویا اپنے اور اپنی فیملی کے درمیان کچھ فاصلہ ظاہر کرنے کے لئے سب سے ہٹ کر، الگ تھلگ بیٹھا ہوا تھا لیکن اکیلا نہیں تھا۔ اس کے ساتھ اس کی دوست ایک امریکی لڑکی موجود تھی جس کا نام کے ریڈمز تھا۔ کارلیون فیملی کے جاننے والوں نے اس لڑکی کے بارے میں سن تو رکھا تھا لیکن آج وہ پہلی بار اسے دیکھ رہے تھے۔ مائیکل اسے ساتھ لئے سب سے الگ تھلگ ضرور بیٹھا تھا لیکن اس نے بدتہذیبی یا ناشائستگی کا مظاہرہ نہیں کیا تھا۔ اس نے کے کو پہلے تمام مہمانوں اور اپنے خاندان کے افراد سے ملوا دیا تھا اور اس کا تعارف بھی کرا دیا تھا۔ اس کے خاندان کے افراد اس سے ذرا بھی متاثر نہیں ہوئے تھے۔ ان کے خیال میں وہ بہت نازک اندام اور بہت دبلی تھی۔ اس کے چہرے سے بہت زیادہ ذہانت جھلکتی تھی اور مائیکل کے خاندان میں عورت کا زیادہ ذہین نظر آنا خوبی نہیں، خامی تھی۔ انہیں تو اس کا نام بھی پسند نہیں آیا تھا۔ کے بھلا یہ بھی کوئی نام ہوا ہر مہمان محسوس کررہا تھا کہ ڈون کارلیون اپنے اس بیٹے کی طرف کوئی خاص توجہ نہیں دے رہا تھا۔ دوسری جنگ عظیم شروع ہونے سے پہلے مائیکل ہی ڈون کا سب سے چہیتا بیٹا تھا اور لوگوں کا خیال تھا کہ مناسب وقت آنے پر ڈون اسے ہی اپنا جانشین قرار دے گا کیونکہ اس میں ایک خاموش ذہانت اور باپ جیسی معاملہ فہمی نظر آتی تھی۔ وہ صحیح وقت پر صحیح فیصلے کرنے کا اہل نظر آتا تھا اور اس میں کوئی ایسی بات تھی کہ لوگ اس کی عزت کرنے پر مجبور ہوجاتے تھے۔ اس کی یہ خوبیاں ظاہر کرتی تھیں کہ اس میں باپ کی زبردست شخصیت کی جھلک موجود تھی۔ خواہ اس کا سراپا باپ سے مختلف نظر آتا تھا مگر جب دوسری جنگ عظیم شروع ہوئی تو مائیکل نے باپ کے حکم کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی مرضی سے اپنا نام فوج میں لکھوا دیا۔ ڈون ابھی تک امریکیوں کو ایک غیر قوم ہی محسوس کرتا تھا اور وہ نہیں چاہتا تھا کہ اس کا سب سے چھوٹا اور سب سے لاڈلا بیٹا ایک غیر قوم کے محافظ کے فرائض انجام دیتے ہوئے کسی دور افتادہ محاذ پر مارا جائے۔ ڈون نے اسے فوج میں جانے سے روکنے کے لئے خفیہ طور پر کوششیں بھی کی تھیں۔ ڈاکٹروں کو رشوت دی گئی تھی کہ وہ اسے فوج کے لئے نااہل قرار دے دیں۔ دوسرے کئی طریقے اختیار کرنے کے لئے بھی بہت رقم خرچ کی گئی تھی لیکن مائیکل کی عمر اکیس سال تھی۔ یعنی قانونی طور پر وہ خود مختار تھا اور رضاکارانہ طور پر فوج میں جانے کے لئے تیار تھا۔ اس لئے اسے روکنے کی تمام ظاہری اور خفیہ کوششیں ناکام ہوئیں۔ فوج میں مائیکل نے کیپٹن کا عہدہ حاصل کیا اور کئی محاذوں پر شجاعت کے ساتھ نمایاں کارنامے انجام دیئے۔ میں اس وقت کے امریکا کے سب سے بڑے میگزین لائف میں جنگی ہیرو کی حیثیت سے اس کی تصویر بھی چھپی۔ ڈون کی اپنی فیملی میں سے تو کسی کو جرأت نہیں ہوئی کہ وہ تصویر اسے دکھاتا البتہ ڈون کے ایک دوست نے اسے وہ میگزین پیش کیا۔ اس کا خیال تھا کہ ڈون اپنے بیٹے پر فخر محسوس کرے گا۔ لائف میں اس طرح تصویر اور کارناموں کا تذکرہ چھپنا بہت بڑا اعزاز تھا۔ لیکن ڈون نے یہ سب کچھ ناگواری سے سرسری انداز میں دیکھا اور میگزین ایک طرف ڈالتے ہوئے بولا۔ کیا فائدہ اس احمق نے یہ کارنامے غیروں اور اجنبیوں کے لئے انجام دیئے ہیں۔ مائیکل کو جنگ میں ایک ایسا زخم بھی آیا تھا جس نے اسے تقریباً معذور کردیا۔ میں جب اسے فوج سے ڈسچارج کردیا گیا تو وہ یہی سمجھا کہ اسے طبی بنیادوں پر سبکدوش کیا گیا ہے۔ اسے نہیں معلوم تھا کہ اس کے باپ نے اسے فوج سے واپس بلوانے کا بندوبست کیا تھا۔ گھر آکر چند ہفتوں بعد جب وہ صحت یاب ہوگیا تو اس نے مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے نیو ہمشائر کے ایک کالج میں داخلہ لے لیا۔ اس وجہ سے وہ ایک بار پھر باپ کا گھر چھوڑ کر چلا گیا۔ اب وہ بہن کی شادی میں شرکت کے لئے خاص طور پر آیا تھا اور اپنے ساتھ اپنی ہونے والی بیوی کو بھی لے آیا تھا تاکہ اسے خاندان کے افراد سے ملوا سکے مگر کسی نے بھی اس لڑکی کو پسند نہیں کیا تھا۔ مگر کے کو اس بات کا احساس نہیں تھا۔ وہ بے چاری ہر ایک سے خوش خلقی سے مل رہی تھی۔ ہر مہمان کے بارے میں مائیکل سے کرید کرید کر پوچھ رہی تھی اور چھوٹی چھوٹی باتوں پر آنکھیں پھیلا کر حیران ہورہی تھی۔ شادی کے لئے اس قدر اہتمام اور تکلفات بھی اس کے لئے گویا انوکھی بات تھی۔ پھر اس کی نظر چند افراد کی ٹولی پر پڑی جو گھر میں تیار کی گئی شراب کے ایک بیرل کے پاس کھڑے تھے۔ ان میں سے ایک تو تکفین و تدفین کا کام کرنے والا بونا سیرا تھا۔ دوسرا ایک بیکری کا مالک نیزورین تھا۔ تیسرے کا نام کپولا اور چوتھے کا براسی تھا۔ کے ایک ذہین لڑکی تھی اور اس کی قوت مشاہدہ تیز تھی۔ اس نے محسوس کرلیا کہ وہ چاروں آدمی اس طرح خوش دکھائی نہیں دے رہے تھے جس طرح شادی میں شرکت کرنے والے دوسرے لوگ نظر آرہے تھے۔ اس نے اس بات کا ذکر مائیکل سے بھی کردیا۔ ہاں وہ واقعی خوش نہیں ہیں۔ مائیکل نے مسکراتے ہوئے اس کے خیال کی تائید کی۔ اس وقت شادی میں شرکت تو ان بے چاروں کے لئے ایک ضمنی کام ہے۔ حقیقت میں یہ اپنے کسی کام سے آئے ہیں۔ غالباً کوئی فریاد لے کر آئے ہیں اور تخلیے میں میرے والد سے ملاقات کے منتظر ہیں۔ مائیکل کی بات صحیح معلوم ہوتی تھی۔ کے دیکھ رہی تھی کہ ان چاروں آدمیوں کی نظریں مسلسل ڈون کے تعاقب میں تھیں۔ مہمان آتے تو ڈون آگے بڑھ کر گیٹ پر ان کا استقبال کرتا۔ اسی دوران سڑک کے دوسری طرف سیاہ رنگ کی ایک بڑی گاڑی آکر رکی۔ اس میں موجود دونوں افراد گاڑی سے اترنے کے بجائے اپنے اپنے کوٹ کی جیب سے ایک ایک نوٹ بک اور قلم نکال کر بیٹھ گئے۔ انہوں نے وہاں موجود گاڑیوں کے نمبر نوٹ کرنے شروع کردیئے۔ انہوں نے اپنی کارروائی کو خفیہ رکھنے کا بھی تکلف نہیں کیا تھا۔ سنی نے گھوم کر باپ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ یہ لوگ یقیناً پولیس والے ہیں۔ ان کا تعلق ایف بی آئی سے ہے۔ ڈون نے بے نیازی سے مسکراتے ہوئے کہا۔ لیکن ہمیں اس سے کیا سڑک تو میری ملکیت نہیں ہے۔ سڑک پر کھڑے ہوکر جس کا جو دل چاہے کرسکتا ہے۔ سنی کا چہرہ غصے سے سرخ ہوگیا۔ اس نے سیاہ کار والوں کو نیچی آواز میں گالی دی اور بولا۔ ان لوگوں کی نظر میں کسی کی کوئی عزت نہیں ہے۔ انہیں موقع محل کا کوئی خیال نہیں ہے۔ پھر وہ غصیلے انداز میں لمبے لمبے ڈگ بھرتا سیاہ کار تک پہنچا اور ڈرائیونگ سیٹ پر موجود شخص کی طرف جھک کر کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس نے ایک کارڈ جیب سے نکال کر اس کے سامنے لہرایا۔ ڈون کا اندازہ ٹھیک ہی تھا۔ ان لوگوں کا تعلق ایف بی آئی سے ہی تھا۔ سنی غالباً انہیں کھری کھری سنانے کے ارادے سے گیا تھا تاہم کارڈ دیکھ کر اس نے ارادہ ملتوی کردیا۔ سیدھا ہوکر وہ ایک لمحے انہیں خونخوار نظروں سے گھورتا رہا پھر اس نے نفرت سے بظاہر تو سڑک پر تھوکا لیکن جان بوجھ کر گردن کو اس طرح جھٹکا دیا کہ تھوک گاڑی کے دروازے پر جاگرا۔ پھر وہ گھوما اور واپس گھر کی طرف چل دیا۔ اس کا خیال تھا کہ ایف بی آئی والے اس کے پیچھے پیچھے آئیں گے مگر وہ نہیں آئے اور نہ ہی ان میں سے کسی نے ایک لفظ بھی کہا۔ گیٹ پر پہنچ کر سنی نے باپ سے کہا۔ آپ کا خیال ٹھیک ہی تھا۔ وہ ایف بی آئی والے ہی ہیں۔ ڈون مربیانہ انداز میں مسکرا دیا۔ گویا اسے اس تصدیق کی ضرورت نہیں تھی۔ سنی بولا۔ وہ خبیث ہمارے ہاں آنے والے ہر مہمان کی گاڑی کا نمبر نوٹ کررہے ہیں۔ ڈون نے اب بھی مربیانہ انداز میں مسکرانے پر ہی اکتفا کیا۔ اس نے بیٹے کو نہیں بتایا کہ اسے اپنے ذرائع سے پہلے ہی اطلاع مل چکی تھی کہ اس موقع پر ایف بی آئی والے آئیں گے اور یہی کام کریں گے۔ چنانچہ اس نے اپنے تمام قریبی جاننے والوں کو یہ پیغام بھجوا دیا تھا کہ شادی میں شرکت کے لئے وہ اپنی گاڑیوں میں نہ آئیں بلکہ ادھر ادھر سے گاڑیوں کا انتظام کرلیں۔ اسے اپنے بیٹے سنی کی طرف سے یوں غصے کا اظہار اچھا نہیں لگا تھا۔ ڈون اس انداز میں کسی بھی معاملے میں اپنا ردعمل ظاہر کرنے والا آدمی نہیں تھا لیکن اس کے خیال میں سنی کی اس حرکت کا ایک فائدہ بھی ہوا تھا۔ اس کے انداز سے ایف بی آئی والوں کو یقین ہوگیا ہوگا کہ ان کی آمد ڈون فیملی کے لئے غیر متوقع تھی۔ اس لئے انہوں نے کوئی احتیاطی تدبیر نہیں کی ہوگی۔ ڈون کارلیون طاقتور ترین دشمن سے انتقام لینے کے لئے بھی اپنے صبر و ضبط اور تحمل کو برقرار رکھنے کا قائل تھا۔ اس لئے وہ اس وقت بھی غصے میں نہیں تھا۔ اسی دوران بینڈ نے طربیہ موسیقی کی دھن چھیڑ دی۔ تمام مہمان آچکے تھے۔ کھانا ہورہا تھا۔ ڈون نے اپنے دونوں بیٹوں کو اپنے ساتھ اندر چلنے کا اشارہ کیا اور وہ باغ کی طرف چل دیئے جہاں کھانے کی میزیں سجی ہوئی تھیں۔ جاری ہے
null
null
null
null
461
https://www.urduzone.net/hawa-ke-dosh-hai-zindagi-ka-chirag-teen-auratien-teen-kahaniyan/
منزہ کالج میں نئی نئی آئی تو آتے ہی اس نے بہت سی لڑکیوں کو اپنا گرویدہ بنا لیا۔ دراصل وہ بڑی شوخ اور چنچل تھی۔ کلاس میں اس کی شوخیاں دوسروں کی توجہ اپنی طرف مبذول کرلیتی تھیں۔ کالج کے کچھ منچلے طالب علموں کو بھی اس نے اپنی جانب متوجہ کرلیا تھا جو اس کے حسن کی تعریف میں رطب اللسان رہتے تھے۔ جب کوئی فری پیریڈ ہوتا، وہ اس کی قربت حاصل کرنے کو اردگرد منڈلانے لگتے لیکن اس لڑکی کا تخیل تو آسمان کی بلندیوں میں پرواز کررہا تھا، پھر یکدم بہت سی توجہ پا کر وہ خود ستائی کا شکار ہوگئی۔ اس کا خیال تھا اتنے بہت سے لوگ مجھ پر مرتے ہیں۔ جب جس کو چاہوں گی، حاصل کرلوں گی۔ ادھر حسن اپنی مثال آپ تھا۔ وہ اپنے نام کی لاج تھا۔ اس کا حسن لڑکیوں کی آرزو بن گیا تھا۔ جس لڑکی سے بات کرلیتا، وہ بس ہوائوں میں اُڑنے لگتی تھی۔ منزہ بھی تواپنے نام کی لاج تھی۔ اس کی صورت، رکھ رکھائو، بے نیازی، کبھی نخوت تو کبھی شوخی اور شرارت اوپر سے اس کی بذلہ سنجی یہ سبھی اوصاف حسن کو بھا گئے۔ ادھر حسن کی مردانہ وجاہت نے اس پری جمال کا دل موہ لیا اور یوں حسن عشق کے در کا سوالی ہوگیا۔ حسن نے منزہ سے وعدہ کرلیا کہ تعلیم مکمل ہوتے ہی وہ اسے اپنا لے گا لیکن تعلیم مکمل ہوتے ہی منزہ گھر میں محصور ہوگئی کیونکہ کالج کا دور تمام ہوگیا تھا اور اب وہ گھر بیٹھ گئی تھی تبھی دونوں کا ملنا محال ہوگیا۔ چچا نے بیٹی کی شادی کیلئے تاریخ مانگی تو حسن کو ہوش آیا کہ اس کی منگنی بچپن میں چچازاد آسیہ سے طے ہوچکی تھی تاہم اس کے دل میں اپنی منگیتر کے لیے محبت کے جذبات موجود نہیں تھے کیونکہ دونوں کو کبھی قریب آنے کا موقع ہی نہ ملا تھا۔ یہی سبب تھا کہ اس کے ذہن پر آسیہ کی شخصیت کے کچھ گہرے نقش ثبت نہ ہوسکے تھے جبکہ منزہ کے ناز و نخرے، گہرے شوخ اور کبھی نہ بھولنے والے تھے۔ حسن دل سے اسے اپنانا چاہتا تھا مگر ملاقات کی دشواری نے اس کے دل کا قرار لوٹ لیا تھا، تبھی آہستہ آہستہ محبت کے رنگ پھیکے پڑنے لگے۔ ادھر گھر والوں نے شدید دبائو ڈالا تو حسن کو سنجیدگی سے اس معاملے پر سوچنا پڑا۔ رشتہ داری کا معاملہ تھا، آسیہ سگے چچا کی بیٹی تھی۔ سبھی نے حسن کو سمجھایا کہ انکار کی صورت میں رشتے داری ٹوٹ جائے گی، غرض وہ یوں حالات کے شکنجے میں کستا گیا کہ بالآخر ایک روز اسے گھر والوں کی مرضی کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑ گئے۔ سب اسے یہی سمجھاتے اور باور کراتے رہتے تھے کہ محبت کچھ نہیں، بس ایک بے نام سا جذبہ ہے۔ یہ وقتی اور جلد بھلا دینے والا جذبہ ہوتا ہے۔ منزہ سے لگائو بھی جذبات کا کھیل تھا اور کچھ نہیں لڑکے دل لگی کرتے ہیں تو وقت لڑکیوں کے گھائو پر مرہم رکھ دیا کرتا ہے۔ دیکھ لینا منزہ بھی جلد تمہیں بھول جائے گی، شادی ہوجائے گی تو چند دنوں میں ہی سب کچھ ٹھیک ہوجائے گا اور آسیہ بیوی بنے گی تو اس کی ادائیں ازخود دل جیت لیں گی۔ جب منزہ کو حسن کی شادی کی خبر ملی، اس کے دل کا شیشہ چکناچور ہورہا۔ وہ یہ سوچ بھی نہ سکتی تھی کہ اس جیسی من موہنی کو کوئی ٹھکرا بھی سکتا ہے۔ اس کے دل میں رقابت کے الائو جل اٹھے۔ سوچنے لگی کہ میری نسوانیت اور محبت کی توہین حسن نے کس آرام اور سکون سے کی ہے کہ خود شادی کرلی اور میری دنیا اجاڑ کر رکھ دی اور خود وہ چین کی بانسری بجا رہا تھا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہ تھا۔ دو آنسو بہا کر وہ دعا دینے والی لڑکی نہ تھی کہ کہتی میرا محبوب سدا خوش رہے اور خوشیوں کے پھول سمیٹتا رہے۔ وہ اپنی اس ہتک کو قیامت تک نہ بھلا سکتی تھی۔ انتقام کی آگ جوالا مکھی بن کر اس کے وجود میں دہک اٹھی۔ منزہ ان دنوں سخت مضطرب تھی۔ ایک دن میرے پاس آئی اور مجھے کہا کہ جب تک میں حسن کی جنت کو اُجاڑ نہ دوں گی، چین سے نہ بیٹھوں گی، اس بات کا میں نے تہیہ کرلیا ہے۔ میں نے اپنے طور پر اسے سمجھانے کی کوشش کی کہ وہ اپنی سوچ کو عملی جامہ پہنانے سے باز رہے۔ اسے کہا کہ انتقام کی آگ اگر دوسرے فریق کو برباد کرتی ہے تو اس سے پہلے انتقام لینے والا خود اپنی آگ میں جھلستا رہتا ہے۔ ایسا نہ ہو کہ یہ بدلے کی آرزو خود تمہارے لیے ایک سزا بن جائے لیکن اس کے دل میں ایک ہی دھن تھی۔ سو اس نے میری باتوں پر کان نہ دھرا۔ اس کے بعد وہ احمر کے فرضی نام سے آسیہ کو خطوط بھجوانے لگی۔ وہ بیچاری سیدھی سادی لڑکی تھی، ایسے پینتروں سے نمٹنا نہیں جانتی تھی لہٰذا شوہر کی بدگمانی کے خوف سے وہ ہر بار یہ خطوط چھپا لیتی، پھر پڑھ کر چولہے میں ڈال دیتی۔ سمجھ رہی تھی جو بھی یہ مذموم حرکت کررہا ہے، بالآخر کچھ دنوں بعد جواب نہ پا کر مایوس ہوجائے گا تو ان خطوط کا سلسلہ آپ ہی بند ہوجائے گا۔ اتفاق یہ کہ آسیہ سے بھی میری اچھی دوستی ہوگئی تھی۔ وہ اچھی لڑکی تھی اور جلد ہی میرا خلوص دیکھتے ہوئے مجھ پر بھروسا کرنے لگی تھی۔ اس نے مجھ سے مشورہ کیا۔ میں نے کہا کہ ایسا کب تک کرو گی، ڈرو نہیں بلکہ ان خطوط کا تذکرہ اپنے شوہر سے کردو اور یہ بات اس کے علم میں لے آئو کہ کوئی تم کو بلیک میل کرنے کی کوشش کررہا ہے، اس سے پہلے کہ گیٹ پر گرا ہوا کوئی خط اس کے ہاتھ لگ جائے۔ آسیہ نے ایک خط مجھے پڑھوایا جس میں تحریر تھا کہ تم نے حسن سے شادی کرکے بے وفائی کی ہے اور اس بے وفائی کا درد اب مجھے بے چین رکھتا ہے۔ خدارا جلدی ملو ورنہ میں تمہارے در پر آکر جان دے دوں گا۔ فقط تمہارا احمر میں بھی یہ خط پڑھ کر پریشان ہوگئی۔ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ آسیہ کو کیا مشورہ دوں اور اس مسئلے کا کیا حل نکالا جائے۔ مجھے یقین تھا کہ آسیہ بے قصور اور معصوم تھی۔ یقینا کوئی اس کا بدترین دشمن تھا جو اس کا گھر اُجاڑنا چاہتا تھا۔ کئی بار مجھے منزہ کا خیال آیا لیکن میں نے اسے اپنے ذہن سے جھٹک دیا کہ اس نے جذباتی ہوکر انتقام والی بات کہی ہوگی ورنہ اس جیسی سمجھ دار اور سنجیدہ لڑکی ایسی حرکت نہیں کرسکتی۔ مجھے معلوم نہ تھا کہ وہ انتقام میں اندھی ہوچکی ہے اور حسن کا گھر اُجاڑنے کے لیے کسی حد تک بھی جاسکتی ہے۔ میں نے مشورہ دیا کہ تم دو چار خطوط محفوظ رکھو اور معلوم کرنے کی کوشش کرو کہ کون یہ خطوط بھیجتا ہے۔ شوہر کو بھی دکھائو تاکہ وہ اس معاملے کا کھوج لگانے میں معاون ہوں۔ بیچاری آسیہ نے یہی کیا۔ اس نے چند خطوط اپنی الماری کے سیف میں رکھ کر الماری کو تالا لگا دیا تاکہ کسی چھٹی کے دن جب اس کے شوہر کا موڈ خوشگوار ہو تو مناسب طریقے سے اعتماد میں لے کر اس سے بات کرے اور ساری بات بتا دے۔ یہ خطوط ایسے وقت میں کوئی گھر کے اندر دروازے کے نیچے سے ڈال جاتا تھا جب حسن گھر میں موجود نہ ہوتا تھا۔ پہلا خط اسے ملا تو اس کے بعد وہ چوکنی رہنے لگی تاکہ ہر خط اسی کے ہاتھ لگے، کوئی اور نہ اٹھا لے کیونکہ وہ بدنامی سے خوف کھاتی تھی۔ گھر میں حسن اور اس کے علاوہ وہ ایک ملازم لڑکا رہتا تھا، پھر ملازمہ تھی جو دوپہر کو آجاتی اور کام کاج سے فارغ ہوکر شام پانچ بجے چلی جاتی تھی۔ یہ دونوں اَن پڑھ تھے۔ جو خط یا بل وغیرہ ہوتے، یہ لا کر آسیہ کو ہی دیتے تھے۔ اس سلسلے میں وہ اس قدر پریشان تھی کہ اس نے سوچا حسن کو بتانے سے پہلے کیوں نہ اپنی کزن سے مشورہ لے۔ عابدہ اس کی بچپن کی سہیلی اور رازدار تھی۔ پس وہ ایک روز اپنی کزن عابدہ کے گھر چلی گئی۔ اسے معلوم تھا کہ حسن شام چار بجے سے قبل آفس سے گھر نہیں لوٹتا لہٰذا وہ صبح گیارہ بجے کے قریب گھر سے نکلی تھی تاکہ کسی طور اس ناگہانی مصیبت سے نجات حاصل کرنے کی ترکیب عابدہ سے پوچھے۔ شامت اعمال کہ اس دن کسی سبب حسن جلد گھر لوٹ آیا۔ اسے کچھ رقم کی ضرورت تھی۔ وہ جانتا تھا کہ رقم اس کی بیوی کے سیف میں موجود ہوتی ہے۔ آتے ہی آسیہ کو پکارا۔ وہ گھر میں ہوتی تو جواب دیتی تبھی، اس نے ملازم لڑکے دینو سے دریافت کیا۔ پتا نہیں بی بی کچھ بتا کر نہیں گئیں۔ لڑکے نے جواب دیا۔ ایسا پہلے کبھی آسیہ نے نہیں کیا تھا۔ اسے کہیں جانا ہوتا تو ضرور بتا کر جاتی تھی، حسن پریشان تو ہوا لیکن اس وقت خاموش ہورہا۔ حسن نے الماری کو کھولنے کی سعی کی مگر اسے تالا لگا ہوا تھا جبکہ آسیہ کی عادت تھی کہ وہ کسی الماری یا بکس وغیرہ کو تالا نہیں لگاتی تھی۔ بہرحال جھنجھلا کر شوہر نے الماری کا تالا توڑ دیا لیکن سیف بھی مقفل تھا۔ تھوڑی سی تلاش کے بعد الماری کے کپڑوں کے نیچے سیف کی چابی مل گئی۔ سیف کھول کر اس نے رقم کے لیے اندر رکھی چیزوں کو جب الٹ پلٹ کیا تو ایک چھوٹے سے ڈبے میں وہ خطوط مل گئے جس کے بارے گمان بھی نہ تھا کہ ایسی جگہ گویا یہ ایٹم بم محفوظ رکھے گئے ہیں۔ حسن جوں جوں خطوط پڑھتا جاتا تھا، اس کا دماغ گھومتا جارہا تھا۔ وہ سمجھنے لگا کہ بیوی کے یوں گھر سے جانے اور الماری کو تالا لگانے کا کیا مطلب نکلتا ہے، تبھی وہ دفتر کو واپس نہ گیا اور گھر بیٹھ کر آسیہ کا انتظار کرنے لگا۔ آسیہ آئی تو شوہر کو منتظر پایا۔ وہ شرمندہ سی ہوگئی کیونکہ جب کہیں جاتی، ہمیشہ شوہر سے اجازت لیتی تھی، آج بن بتلائے غائب تھی تو کھسیانی سی ہورہی تھی جبکہ حسن کے چہرے کا رنگ بدلا ہوا تھا اور آنکھوں سے ایک سفاک فیصلہ مترشح تھا۔ مل آئیں احمر صاحب سے یہ جملہ سن کر آسیہ کے ہوش اُڑ گئے۔ وہ بری طرح ڈر گئی۔ اس سے پہلے کہ اپنی صفائی میں زبان کھولتی، حسن نے خطوط اس کے سامنے کردیئے اور پوچھا۔ یہ کس کے محبت نامے آتے ہیں تمہارے نام اور کب سے آرہے ہیں کب سے میری آنکھوں میں دھول جھونک رہی ہو آسیہ رونے لگی۔ اب کچھ کہتی بھی تو حسن کو کیسے یقین آتا۔ لب کھولنے چاہے تبھی اس نے کہا۔ بس بس اب کچھ کہنے کی ضرورت نہیں، میری طرف سے تم آزاد ہو۔ جب چاہو ان احمر صاحب سے بیاہ رچا سکتی ہو جس کی تم محبوبہ ہو اب بھی آسیہ نے لاکھ سر پٹخا مگر حسن نے ایک نہ سنی اور کھڑے کھڑے اسے گھر سے نکال دیا۔ ان دنوں وہ ماں بننے والی تھی۔ حسن نے اس ہونے والے بچے کو بھی مشکوک قرار دے دیا۔ شوہر کا اعتبار کھو کر وہ نیم پاگل سی ہوگئی۔ گھر سے نکلی تو اس قدر حواس باختہ تھی کہ سڑک عبور کرتے ہوئے تیزی سے گزرتی ٹریفک کے بیچ پھنس کر ایک برق رفتار گاڑی کی زد میں آگئی اور شدید زخمی ہوگئی۔ لوگوں نے اسپتال پہنچایا لیکن وہ جانبر نہ ہوسکی اور بے ہوشی کے عالم میں ہی انتقال کرگئی۔ جب حادثے کی خبر اسپتال سے حسن کو ملی تو وہ بے حد پریشان ہوا۔ اسپتال پہنچا مگر زندگی ہار چکی آسیہ نے ہمیشہ کے لیے اس سے منہ پھیر لیا تھا۔ اب اسے آسیہ کی آہ و زاری تڑپاتی تھی۔ سوچتا تھا کاش بیوی کی بات سن لیتا۔ لیکن حسن کی ناراضی بھی بے جا نہ تھی۔ اسے اس بات کا بے حد صدمہ تھا کہ آسیہ نے وہ خطوط اس قدر سنبھال کر کیوں رکھے جانتا تھا آسیہ اس سے اتنی محبت کرتی ہے کہ اس کے بغیر جی نہ سکے گی لیکن یہ بات تو اس کے وہم و گمان میں نہ تھی کہ موت یوں آناًفاناً اسے اچک لے گی۔ آسیہ کی وفات کے سال بھر بعد بالآخر منزہ، حسن سے ملی اور اس نے بتا دیا کہ تمہاری بیوی بے قصور تھی۔ اسے وہ خطوط میں کسی سے لکھوا کر بھجواتی تھی، اسے ہراساں کرنے کے لیے اور تمہارا سکون اجاڑنے کی خاطر مجھے خبر نہ تھی کہ وہ اس کھیل میں جان سے چلی جائے گی۔ اب تو منزہ بھی پشیمان تھی اور حسن کی تو بری حالت تھی۔ اپنی پیاری اورباوفا بیوی کو جلد بازی میں گھر سے نکال کر جو ستم اس نے توڑا تھا، اس کا ازالہ کیونکر ممکن تھا۔ وہ بیچاری تو جان سے گزر کر وفا کے امتحان میں پوری اتر گئی تھی مگر حسن کے دل پر نہ مٹنے والا گھائو لگا گئی تھی۔ منزہ نے حسن سے بہت معافیاں مانگیں، پائوں پر پڑی، پرانی محبت کے واسطے دیئے، وعدے یاد دلائے جو حسن نے اس سے کئے تھے۔ التجا کی کہ اب مجھ سے شادی کرلو، تمہارے دل کے سب غموں کو بھلا دوں گی۔ ہر طرح سے سکون دوں گی، تم کو حاصل کرنے کی آرزو نے مجھے پاگل کردیا تھا، اب مجھے اپنا لو۔ پہلے بے وفائی تم ہی نے کی تھی۔ حسن پر اس کی باتوں کا کچھ اثر نہ ہوا۔ اس نے منزہ کی جانب سے نفرت سے منہ پھیر لیا۔ بددعا دی کہ خدا تم کو تمہاری صحت اور حسن سے محروم کردے جس طرح تم نے بے قصور آسیہ کو ہراساں کرکے اس کو موت کے گھاٹ اتارا ہے۔ آسیہ کے مرنے کا دکھ صرف حسن کو ہی نہیں ہم سب کو تھا۔ منزہ بھی افسردہ تھی کہ انتقام کی رو میں بہہ کر اس نے کتنی بڑی خطا کی تھی۔ وہ اب بھی خوش نہ تھی۔ حسن نے ایک بار پھر اسے ٹھکرا دیا تھا اس کا عشوہ، غمزہ، نخرہ کچھ بھی کام نہ آیا۔ اسی نے خود مجھے بھی حقیقتِ حال سے آگاہ کیا تھا۔ آج بھی وہ زندہ ہے مگر مُردوں سے برتر ہے۔ اب وہ کینسر کی مریضہ ہے اور زندگی کے آخری دن پورے کررہی ہے۔ ہوا کے ایک ہلکے سے جھونکے سے اس کی زندگی کا چراغ گل ہوسکتا ہے۔ آج وہ قدرت کے انتقام کی دھیمی دھیمی آنچ میں گیلی لکڑی کی طرح سلگ رہی ہے اور جب تک اس کے بدن سے سانس کی ڈور باقی ہے، وہ یونہی سلگتی رہے گی، یہاں تک کہ حیاتی کا آخری لمحہ نہ آجائے۔ خدا ایسی خطائوں سے سب کو بچائے جو کسی معصوم کی جان لے لیتی ہیں۔ سچ ہے انتقام کی آگ بُری ہوتی ہے۔ اس سے لاکھ ہمدردی رکھنے کے باوجود آج اس کے لیے کوئی کچھ نہیں کرسکتا کاش وہ پہلے دن ہی میرے سمجھانے بجھانے پر دھیان دیتی تو معصوم آسیہ کی جان لینے کا عذاب اس کی گردن پر نہ آتا۔ الف۔ ک لاڑکانہ
null
null
null
null
462
https://www.urduzone.net/sultan-bahu-episode/
علوم باطنی کی تکمیل کرتے ہیں، پہاڑوں اور پتھروں پر تحریر شدہ علوم الٰہی کا مطالعہ کرتے ہیں۔ پھر شجر و حجر درخت اور پتھر علوم الٰہی کے اسرار و رموز کے بارے میں درویشوں سے گفتگو اور مکالمہ کرتے ہیں۔ اولیائے کرام سیر و سیاحت کے ذریعے ایک حال سے دوسرے حال میں ترقی کرتے ہیں۔ چنانچہ ذاتِ الٰہی کے علوم کی کوئی حد نہیں ہے اور یہ درویش بھی علم باطنی کے حصول اور سیرفی الذات کرنے کے لیے زیادہ مطالعہ کرتے ہیں تاکہ سیر فی الذات کے احوال اور مقامات سے محروم نہ رہ جائیں۔ تصوف کی اصطلاح میں علم دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ایک اکتسابی جو ظاہری کوششوں اور اساتذہ کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے، دوسرا علم لدنی جس پر انسان کا کوئی اختیار نہیں ہوتا۔ یہ علم اللہ تعالیٰ کی عطائے خاص ہے جو بندوں کو کسی ظاہری کوشش اور سبب کے بغیر بخشا جاتا ہے۔ دوسرے صوفیائے کرام کی طرح حضرت سلطان باہو کو بھی علم لدنی حاصل تھا۔ اگرچہ آپ کی سیر و سیاحت صرف برصغیر پاک و ہند کے علاقوں تک محدود تھی لیکن پھر بھی حضرت سلطان باہو کی حیات مبارک کا بیشتر وقت سیر و سیاحت میں گزرا اور اس دوران آپ نے بے شمار مشاہدات کئے اور بہت سے لوگوں کو اپنی باطنی نعمتوں سے سرفراز فرمایا۔ ٭ ٭ ٭ ایک بار حضرت سلطان باہو کا گزر پنجاب کے علاقے میں دامان کوہ مغربی جبل اسود کی طرف ہوا۔ جہاں آپ نے ایک نوعمر لڑکے کو دیکھا جو گائیں چَرا رہا تھا۔ حضرت سلطان باہو نے اس لڑکے پر نظر ڈالی۔ وہ گائیں چَرانا بھول گیا اور آپ کے گرد پروانہ وار رقص کرنے لگا۔ پھر جب حضرت سلطان باہو نے اس لڑکے پر دوسری نظر ڈالی تو وہ ہوش میں آگیا۔ حضرت باہو اپنے سفر پر روانہ ہوگئے۔ کچھ دور چلنے کے بعد آپ نے مڑ کر دیکھا۔ وہ گوالا لڑکا بھی خاموشی کے ساتھ حضرت سلطان باہو کے پیچھے پیچھے چلا آرہا تھا۔ لڑکے تم اپنا کام کرو اور ہمیں اپنا کام کرنے دو۔ حضرت سلطان باہو نے لڑکے کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اب میرا یہاں کیا کام ہے لڑکے نے عرض کیا۔ تمہاری ان گایوں کا کیا ہوگا حضرت سلطان باہو نے لڑکے سے پوچھا۔ جس کے جانور ہیں، وہ جانیں۔ لڑکے پر عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ حضرت سلطان باہو نے لڑکے کو بہت سمجھایا مگر وہ واپس جانے کے لیے تیار نہیں تھا۔ آخر حضرت شیخ اسے اپنے ساتھ لے کر کوہ شمال کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس لڑکے کا نام کھتران تھا جو آگے چل کر حضرت سلطان نورنگ کے نام سے مشہور ہوئے۔ پھر حضرت سلطان باہو کوہ شمالی کے جنگلوں سے گزر کر ایک زرخیز پہاڑی علاقے میں تشریف لے گئے جس کا نام کلرکہار تھا۔ اس جگہ کی سرسبزی و شادابی دیکھ کر حضرت سلطان باہو پر جذب کی کیفیت طاری ہوگئی۔ پھر آپ کی یہ کیفیت تین دن اور تین رات تک جاری رہی۔ اس ویران اور غیر آباد علاقے میں نہ کھانے کا انتظام تھا اور نہ پانی کا۔ حضرت سلطان باہو کے مرید حضرت سلطان نورنگ کھتران اپنی ریاضت اور مجاہدے کے ابتدائی مرحلے سے گزر رہے تھے، اس لیے بھوک اور پیاس کی شدت برداشت نہ کرسکے اور مضطرب ہوکر شیخ کی خدمت میں فریاد کرنے لگے۔ الجوع الجوع العطش العطش بھوک، بھوک پیاس، پیاس ۔ حضرت سلطان باہو نے اپنے مرید کی فریاد سن کر مراقبے سے سر اٹھایا اور آنکھیں کھول کر حضرت سلطان نورنگ کھتران کی طرف دیکھا۔ فرزند کیا بات ہے شیخ اب بھوک اور پیاس برداشت نہیں ہوتی۔ حضرت سلطان نورنگ کھتران نے انتہائی مضطرب لہجے میں عرض کیا۔ حضرت سلطان باہو نے مسکراتے ہوئے فرمایا۔ برات عاشقان برشاخ آہو۔ عاشقوں کا حصہ ہرن کے سینگوں پر ہوتا ہے۔ ترجمہ جیسے ہی حضرت سلطان باہو کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے، پہاڑ کے ایک گوشے سے ایک ہرن برآمد ہوا جس کے سینگوں پر کھانے کا خوان رکھا ہوا تھا اور اس کی گردن میں پانی سے بھرا ہوا آب خورہ لٹک رہا تھا۔ حضرت سلطان باہو نے اپنے مرید کو حکم دیتے ہوئے فرمایا۔ اللہ کی بخشی ہوئی نعمتوں سے فیض یاب ہو۔ یہ کہہ کر حضرت سلطان باہو نے خود بھی کھانا تناول فرمایا۔ حضرت سلطان نورنگ تیس سال تک اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں رہے۔ سفر و حضر میں شیخ کی اس قدر خدمت کی کہ محبوبیت کی منزل تک پہنچ گئے۔ یہاں تک کہ حضرت سلطان باہو نے آپ کو خلافت سے سرفراز فرمایا۔ حضرت سلطان باہو کے اس قول مبارک سے حضرت نورنگ کھتران کی روحانی عظمت کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ حضرت سلطان باہو نہایت محبت آمیز لہجے میں فرمایا کرتے تھے۔ جتھ اعوان، تتھ کھتران۔ یعنی جہاں اعوان پہنچا، وہیں کھتران پہنچ گیا۔ حضرت سلطان باہو کا تعلق قبیلہ اعوان سے تھا۔ چنانچہ اس قول مبارک کا مطلب یہ ہوا کہ جہاں حضرت سلطان باہو خود پہنچے، وہیں اپنے مرید صادق کو بھی پہنچا دیا۔ کھتران حضرت سلطان نورنگ کی برادری کا نام ہے۔ جب حضرت سلطان نورنگ کو عرفان حاصل ہوگیا تو آپ اپنے پیر و مرشد حضرت سلطان باہو کے فرمائے ہوئے اس مصرع برات عاشقاں بر شاخ آہو کو مکمل شعر میں ڈھال دیا عجب دیدم تماشا شیخ باہو برات عاشقاں بر شاخ آہو اے شیخ میں نے عجیب تماشا دیکھا کہ عاشقوں کا حصہ ہرن کے سینگ پر تھا۔ ترجمہ واضح رہے کہ برات بر آہو فارسی زبان کا ایک محاورہ ہے جس کا مفہوم ہے۔ زبانی جمع خرچ، جھوٹے وعدے۔ مگر جب ہم حضرت سلطان باہو کے حوالے سے اس مصرع کا مطلب سمجھنا چاہیں گے تو وہی مفہوم ہوگا کہ عاشقوں کا حصہ ہرن کے سینگ پر ہوتا ہے۔ حضرت سلطان نورنگ کا مزار مبارک جبل اسود کے دامن میں ڈیرہ اسماعیل خان کے نزدیک قصبہ دھوآ میں آج بھی زیارت گاہ خاص و عام ہے۔ ٭ ٭ ٭ ایک بار کا ذکر ہے کہ حضرت سلطان باہو چند درویش ساتھیوں کے ہمراہ ڈیرہ غازی خان کی طرف سفر کررہے تھے۔ راستے میں چھبری نام کا ایک گائوں پڑتا تھا۔ یہ گائوں اس علاقے کے مشہور بزرگ عادل غیاث الدین تیغ براں کے روضہ مبارک کے قریب ہے۔ جب حضرت سلطان باہو یہاں پہنچے تو چاشت کا وقت تھا۔ ساتھی درویشوں نے عرض کیا۔ اگر حکم ہو تو کچھ دیر گائوں میں ٹھہر کر روٹی پکا لیں۔ حضرت سلطان باہو نے اجازت دے دی اور اس عورت کے گھر تشریف لے گئے جو مسافر درویشوں کی خدمت کیا کرتی تھی۔ حضرت شیخ کے ساتھی درویش اس عورت کے ساتھ مل کر کھانا پکانے میں مشغول ہوگئے۔ عورت کی ایک شیرخوار بچی گہوارے میں سوئی ہوئی تھی۔ اتفاق سے وہ اس وقت جاگ گئی جب ماں کام میں مصروف تھی۔ بچی نے بیدار ہوتے ہی رونا شروع کردیا۔ عورت کام چھوڑ کر بچی کے پاس نہیں جاسکتی تھی، اس لیئے وہیں بیٹھے بیٹھے حضرت باہو سے مخاطب ہوئی۔ بابا میری بچی کے پنگوڑے کو ہلا دے تاکہ یہ خاموش ہوجائے اور میں اطمینان سے اپنا کام کرسکوں۔ حضرت سلطان باہو آگے بڑھے اور بچی کے گہوارے کو آہستہ آہستہ ہلانے لگے اور ساتھ ہی ساتھ بلند آواز میں اللہ ہو، اللہ ہو کہتے رہے۔ بچی خاموش ہوکر سو گئی۔ پھر جب وہ عورت اپنے کام سے فارغ ہوئی تو اس نے حضرت سلطان باہو سے کہا۔ بابا تیرا شکریہ، تیری وجہ سے میری بچی سو گئی اور میں نے اپنے سارے کام ختم کرلیے۔ سلطان باہو نے فرمایا۔ مائی ہم نے صرف گہوارے ہی کو جنبش نہیں دی بلکہ تیری بچی کے دل کو بھی جنبش دی ہے اور ایسی جنبش دی ہے کہ قیامت تک اس میں کمی نہیں آئے گی بلکہ زیادتی ہی ہوتی رہے گی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ حضرت سلطان باہو اپنے سفر پر روانہ ہوگئے مگر ایک مردِحق کی نظر کیمیا اثر نے شیرخوار بچی کی کایا ہی پلٹ دی۔ یہ بچی جوان ہوکر حضرت فاطمہ کے نام سے مشہور ہوئی۔ حضرت فاطمہ کا تعلق بلوچوں کے قبیلے مستوئی سے تھا۔ آپ کا مزار مبارک فتح خان اور قلعہ گڑانگ کے قریب ہے۔ آج بھی لاکھوں زائرین فاتحہ خوانی کے لیے حضرت فاطمہ کے روضے پر جاتے ہیں۔ ٭ ٭ ٭ حضرت سلطان باہو کے بارے میں مشہور ہے کہ جسے بھی خصوصی توجہ کے ساتھ ایک بار دیکھ لیتے، اس پر روحانی فیوض و برکات کے دروازے کھل جاتے۔ اللہ تعالیٰ نے بطور خاص آپ کو یہ صفت بخشی تھی۔ ہم مضمون کے ابتدا میں ذکر کرچکے ہیں کہ عالم طفلی میں بھی حضرت سلطان باہو کی نظر کیمیا اثر کا یہ عالم تھا کہ اگر کسی بت پرست کو دیکھ لیتے تو وہ اپنے صنم خانۂ دل سے ایک ایک باطل معبود کو نکال کر پھینک دیتا اور کلمۂ طیبہ پڑھ کر حلقۂ اسلام میں داخل ہوجاتا۔ ایک بار حضرت سلطان باہو درویشوں کے ساتھ سیر و سیاحت کرتے ہوئے علاقہ سنگھڑ سے گزرے جہاں ایک صاحب حال بزرگ حضرت شیخ اسماعیل قریشی سکونت پذیر تھے۔ حضرت شیخ اسماعیل قریشی ، حضرت بہا الدین زکریا ملتانی کے پوتے، حضرت شیخ رکن الدین ابوالفتح کے خلیفہ، حضرت شیخ موسیٰ والا کی اولاد میں سے تھے۔ حضرت سلطان باہو سنگھڑ سے گزر کر جھنگ تشریف لے گئے اور وہاں رات کو ایک مسجد میں قیام فرمایا۔ اتفاق سے ایک سات سالہ بچہ لعل شاہ، مسجد میں آیا اور حضرت سلطان باہو کے سامنے سے گزرا۔ آپ نے نظر بھر کر لعل شاہ کی طرف دیکھا۔ وہ اپنا سارا کام بھول گیا اور رات بھر حضرت سلطان باہو کی خدمت میں بیٹھا رہا۔ حضرت سلطان باہو نے کئی بار فرمایا۔ بچے تم اپنے گھر جائو۔ تمہارے ماں باپ پریشان ہوں گے۔ لعل شاہ نے بڑے غمزدہ لہجے میں عرض کیا۔ میرے لیے کوئی پریشان نہیں ہوگا۔ اب وہی میرا گھر ہے، جہاں آپ ہیں۔ صبح ہوئی تو لعل شاہ کے عزیز اسے تلاش کرتے ہوئے مسجد پہنچے۔ وہاں جاکر معلوم ہوا کہ لعل شاہ، حضرت سلطان باہو کی خدمت میں حاضر ہے۔ عزیزوں نے بہت منت سماجت کی مگر لعل شاہ کسی طرح بھی اپنے گھر جانے پر رضامند نہیں ہوا۔ عزیز و اقارب نے واپس جاکر لعل شاہ کے والد حضرت شیخ بڈھن شاہ کو صورت حال سے آگاہ کردیا۔ شیخ بڈھن ، حضرت شیخ اسماعیل کی اولاد میں سے تھے۔ یہ خبر سن کر شیخ بڈھن اپنے مریدوں اور دوستوں کے ساتھ مسجد میں حاضر ہوئے اور حضرت سلطان باہو سے عرض کرنے لگے۔ شیخ اس بچے کو اجازت دیں کہ یہ اپنے گھر چلا جائے، لعل شاہ کی ماں بہت پریشان ہے۔ جواب میں حضرت سلطان باہو نے فرمایا۔ بڈھن شاہ یہ بچہ تمہاری ملکیت نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ نے اس کا فیض اور نصیب میرے سپرد فرمایا ہے۔ تم واپس جائو، اب میں ہی لعل شاہ کی تربیت کروں گا۔ شیخ بڈھن پر حضرت سلطان باہو کا اس قدر رعب طاری ہوا کہ وہ دست بستہ عرض کرنے لگے۔ شیخ اب لعل شاہ آپ کے سپرد ہے۔ یہ کہہ کر شیخ بڈھن واپس چلے گئے۔ شیخ بڈھن شاہ کا تعلق بزرگوں کے خانوادے سے تھا اور وہ ایک امیر و کبیر شخص تھے۔ شیخ بڈھن شاہ نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی بیوی سے ایک لڑکا لعل شاہ تھا۔ دوسری بیوی نے آتے ہی شوہر کے دل و دماغ پر قبضہ کرلیا تھا۔ نتیجتاً شیخ بڈھن شاہ نے اپنی پہلی بیوی اور لڑکے لعل شاہ کو لاوارثوں کی طرح گھر کے ایک گوشے میں ڈال دیا تھا۔ جب لعل شاہ کی ماں کو بیٹے کا حال معلوم ہوا تو اس نے حضرت سلطان باہو کی خدمت میں پیغام بھیجا۔ شیخ لعل شاہ میرا ایک ہی بیٹا ہے جس کے سہارے میں اپنی زندگی کے دن گزار رہی ہوں۔ اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں بھی حاضر ہوکر بیٹے کے ساتھ رہوں جواب میں حضرت سلطان باہو نے فرمایا۔ تم ایک پردہ دار خاتون ہو۔ اطمینان سے گھر کی چار دیواری میں بیٹھی رہو۔ لعل شاہ کی والدہ نے دوبارہ اپنے ملازم کی زبانی حضرت سلطان باہو کی خدمت میں عرض کیا۔ جب آپ کا فیض روحانی عام ہے تو پھر مجھے اس نعمت سے کیوں محروم رکھتے ہیں لعل شاہ کی والدہ کی درخواست سن کر حضرت سلطان باہو نے ایک غمزدہ عورت پر توجہ کی اور ملازم کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اپنی مالکہ سے کہو کہ ان کے لیے سورئہ مزمل کا ورد کافی ہے۔ اللہ مدد کرے گا۔ حضرت شیخ اسماعیل کے اہل خاندان کی روایت ہے کہ حضرت سلطان باہو کے اجازت دیتے ہی لعل شاہ کی والدہ صاحب حال ہوگئیں۔ اس روز کے بعد سے ہر وقت ان کی زبان پر سورئہ مزمل کا ورد جاری رہتا تھا۔ دنیاوی کاموں سے بے نیاز ہوگئی تھیں اور دن رات جذب و استغراق کی حالت میں رہتی تھیں۔ اگر کبھی روٹی پکانی پڑ جاتی تو وہ توے پر پڑے پڑے جل جاتی۔ کچھ دن بعد حضرت سلطان باہو ، لعل شاہ کو لے کر اپنے اگلے سفر پر روانہ ہوگئے اور اپنے ایک خادم کو حکم دیتے ہوئے فرمایا۔ میرا کوزہ، مصلے اور مسواک لعل شاہ کے حوالے کردو۔ حضرت لعل شاہ تیس سال تک پیر و مرشد کی خدمت میں رہے۔ اس طویل مدت میں صرف ایک سیاہ کمبل آپ کا لباس تھا جس کا آدھا حصہ زمین پر بچھا کر اسے بستر بنا لیتے تھے اور آدھے حصے کو چادر کے طور پر اوڑھ لیتے تھے۔ حضرت لعل شاہ ہمیشہ ننگے سر اور ننگے پیر رہا کرتے تھے۔ پھر جب تیس سال بعد خلافت سے سرفراز ہوکر حضرت لعل شاہ رخصت ہونے لگے تو آپ نے پیر و مرشد سے عرض کیا۔ سیّدی مجھے کوئی تبرک عطا کیجئے۔ حضرت سلطان باہو نے فرمایا۔ جو لینا چاہتے ہو، لے لو۔ جواب میں حضرت لعل شاہ نے عرض کیا۔ میں آپ کے کوزے، مصلے اور مسواک کا امین رہا ہوں۔ ان ہی میں سے کوئی چیز عنایت کردیجئے تاکہ منزل مراد میں آپ کی کوئی نشانی میرے پاس رہے۔ حضرت سلطان باہو نے اپنی استعمال شدہ مسواک حضرت لعل شاہ کو عنایت کردی۔ حضرت سلطان باہو کے پڑپوتے اور مناقب سلطانی کے مصنف حضرت شیخ سلطان حامد فرماتے ہیں کہ میں نے اس مسواک کو دیکھا ہے۔ وہ پیلو کے درخت کی تھی۔ اس کا منہ ایسا تھا جیسے مسواک کو تازہ تازہ نچوڑا گیا ہو۔ شیخ سلطان حامد نے اپنے پردادا محترم کی عطا کردہ مسواک کو تقریباً ڈیڑھ سو سال بعد دیکھا تھا۔ اس قدر طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی مسواک میں تازگی کا پایا جانا، حضرت سلطان باہو کی کرامت کی روشن دلیل ہے۔ یہ مسواک آج بھی حضرت سلطان باہو کے گھرانے میں بطور تبرک موجود ہے۔ ٭ ٭ ٭ حضرت سلطان باہو کے خلیفہ حضرت سلطان فرماتے ہیں۔ ایک بار پیر و مرشد بھکر کے مقام پر شمال کی طرف سفر کررہے تھے۔ میں بھی حضرت شیخ کے ہمراہ تھا۔ چلتے چلتے پیر و مرشد دامن چول میں ایک ویران ٹیلے پر پہنچے اور ایک گوشے میں بیٹھ گئے۔ ابھی حضرت شیخ کو بیٹھے ہوئے بمشکل چند لمحے گزرے ہوں گے کہ آپ گھبرا کر اٹھ کھڑے ہوئے۔ سیّدی کیا بات ہے سلطان حمید نے عرض کیا۔ حمید اس ٹیلے سے جلدی اترو، یہ کسی ظالم کا مکان ہے۔ حضرت سلطان باہو نے فرمایا اور اس ٹیلے سے اتر کر ریت کے میدان میں قیام فرمایا۔ پھر کچھ دیر آرام کرنے کی غرض سے سلطان حمید کے زانو پر سر مبارک رکھ کر لیٹ گئے۔ جب حضرت سلطان باہو دامن چول کے ریتیلے میدان میں آرام فرما رہے تھے تو سلطان حمید کو خیال گزرا۔ کاش میرے پاس بھی مال و زر ہوتا تو میں بھی اپنے مرشد اور ہادی کے لیے اطلس اور مخمل کا بستر بنواتا چونکہ میں مفلس و نادار ہوں، اس لیے میری وجہ سے حضرت شیخ کا جسم مبارک خاک آلود ہورہا ہے۔ ابھی سلطان حمید دل ہی دل میں اپنی غربت اور محرومی پر اظہارِ افسوس کر رہے تھے کہ حضرت سلطان باہو نے اپنے مرید کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ حمید اپنی آنکھیں بند کرلو، پھر جو کچھ تمہیں نظر آئے، مجھے بتائو۔ سلطان حمید نے پیر و مرشد کے حکم کے مطابق جیسے ہی آنکھیں بند کیں، رنگ و نور کی ایک عجیب محفل نظر آئی۔ سلطان حمید بہ نفس نفیس اس محفل میں موجود تھے اور سامان آرائش کو بڑی حیرت سے دیکھ رہے تھے۔ اچانک محفل کا صدر دروازہ کھلا اور ایک نہایت حسین و جمیل عورت نمودار ہوئی۔ وہ عورت سر سے پائوں تک جڑائو زیور سے آراستہ تھی۔ مختلف اقسام کے ہیروں کی چمک دمک نے عورت کے ظاہری حسن میں مزید اضافہ کردیا تھا۔ عورت بڑے ناز و ادا کے ساتھ سلطان حمید کی طرف بڑھی اور قریب پہنچ کر والہانہ انداز میں کہنے لگی۔ اس دنیا میں بے شمار مرد ہیں جو میری طلب رکھتے ہیں مگر میں تمہاری طلب رکھتی ہوں، اس لیے خود چل کر تمہارے پاس آئی ہوں۔ تم مجھ سے نکاح کرلو۔ عورت کی زبان سے دل بستگی کی باتیں سن کر سلطان حمید گھبرا گئے اور دبی زبان میں کہنے لگے۔ دور ہوجا میری نظروں کے سامنے سے، دور ہوجا۔ میں دنیا والوں کو ٹھکراتی ہوں اور تم مجھے ٹھکرا رہے ہو عورت نے بڑے تعجب سے کہا۔ چلی جا یہاں سے چلی جا سلطان حمید بہت زیادہ پریشان نظر آنے لگے تھے۔ یہ انتہائی ادب کا مقام ہے۔ میں اپنے پیر و مرشد کی خدمت میں حاضر ہوں۔ یہاں سے دور ہوجا دور ہوجا۔ ابھی سلطان حمید کے اس خوبصورت عورت سے یہ مکالمات جاری تھے کہ حضرت سلطان باہو نے اپنے مرید کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ بس حمید آنکھیں کھول دو۔ پھر جیسے ہی حضرت شیخ کے حکم پر سلطان حمید نے آنکھیں کھولیں، وہ دلکش محفل اور وہ ہوشربا عورت غائب تھی۔ حمید ابھی تم کہاں تھے اور تم نے کیا دیکھا حضرت سلطان باہو نے اپنے مرید سے پوچھا۔ سلطان حمید نے سر جھکائے ہوئے تمام واقعہ سنا دیا۔ حضرت سلطان باہو نے فرمایا۔ حمید تم کچھ دیر پہلے مال و دنیا نہ ہونے کی دل ہی دل میں شکایت کررہے تھے اور اپنی اس محرومی پر اظہارِ افسوس بھی کیا تھا۔ سیّدی درست فرماتے ہیں۔ سلطان حمید کی گردن کچھ اور جھک گئی۔ ابھی تم نے جو کچھ دیکھا، وہ دنیا ہی تو تھی جو اپنے پیروں سے چل کر تمہارے پاس آئی تھی۔ حضرت سلطان باہو نے فرمایا۔ پھر تم نے دنیا کو قبول کیوں نہیں کیا اگر قبول کرلیتے تو تمہارا گھر بھی مال و زر سے بھر جاتا۔ سلطان حمید نے عرض کیا۔ سیّدی میں اللہ تعالیٰ سے اس کی ذات کا نور چاہتا ہوں تاکہ میری روح، دل اور دماغ روشن ہوجائیں۔ میں مال و دولت کی خواہش نہیں رکھتا، اسی لیے میں نے عورت کی پیشکش قبول نہیں کی۔ تو پھر اللہ تعالیٰ کی بخشش وعطا پر راضی ہوجائو۔ حضرت سلطان باہو نے فرمایا۔ فقر محمدی کا اثر تمہارے خاندان سے نہیں جائے گا۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ حضرت شیخ سلطان حمید نے اپنی پوری زندگی فقر و قناعت میں بسر کی۔ آپ کے بعد آپ کی اولاد اور نسل پر بھی فقر و قناعت ہی کا رنگ غالب رہا۔ ٭ ٭ ٭ ایک بار حضرت سلطان باہو شہر بھکر تشریف لے گئے۔ اس وقت وہاں ایک صاحبِ کشف بزرگ حضرت شیر شاہ سکونت پذیر تھے۔ حضرت شیر شاہ کے مرید اور خلیفہ شیخ سلطان طیب تھے جو اولاد نرینہ سے محروم تھے۔ شیخ طیب نے اپنے مرشد حضرت شیرشاہ سے بھی اس سلسلے میں کئی بار دعا کرائی تھی مگر قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا پھر جب شیخ سلطان طیب نے حضرت سلطان باہو کی آمد کی خبر سنی تو آپ خدمت عالیہ میں حاضر ہوکر دعا کے طالب ہوئے۔ اس وقت حضرت سلطان باہو کے پاس دو سیب رکھے ہوئے تھے۔ شیخ سلطان طیب کی درخواست سن کر حضرت سلطان باہو نے فرمایا۔ یہ دونوں سیب لے جاکر اپنی بیوی کو کھانے کیلئے دے دو۔ اللہ تعالیٰ تمہیں دو فرزند عطا کرے گا۔ ان فرزندوں میں سے ایک تمہارے لیے ہوگا اور دوسرا ہمارے لیے۔ شیخ میں ان دونوں فرزندوں میں تفریق کیسے کروں گا سلطان طیب نے عرض کیا۔ یہ تمہارا کام نہیں ہے۔ حضرت سلطان باہو نے فرمایا۔ جو فرزند ہمارے کام کا ہوگا، وہ اپنی نشانی لے کر پیدا ہوگا۔ شیخ سلطان طیب دونوں سیب لے کر خوشی خوشی چلے گئے۔ ان سیبوں میں سے ایک سیب کچھ داغدار تھا جسے کسی پرندے نے کھا لیا تھا۔ الغرض شیخ سلطان طیب کے دو فرزند پیدا ہوئے۔ آپ نے ایک کا نام سلطان عبد رکھا اور دوسرے کا نام سلطان سوہارا۔ سلطان عبد پیدائشی مجذوب تھے۔ حضرت سلطان باہو نے اسی نشانی کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ مناقب سلطانی کی روایت کے مطابق حضرت سلطان باہو ذات باری پر توکل فرماتے تھے۔ آپ نے زندگی بھر روزی کمانے کے لیے کوئی دنیاوی شغل اختیار نہیں کیا۔ مغل شہنشاہ شاہجہاں کی طرف سے آپ کے والد محترم سلطان بازید کو ایک وسیع جاگیر عطا ہوئی تھی۔ یہ جاگیر پچاس ہزار بیگھے زمین اور اینٹوں کے ایک قلعے پر مشتمل تھی جس میں کئی کنویں موجود تھے۔ ایک تو وسیع جاگیر کی موجودگی، دوسرے بچپن سے غلبہ عشق الٰہی یہی وہ عوامل تھے جن کے باعث حضرت سلطان باہو فکردنیا سے آزاد رہے۔ پھر بھی آپ کی حیات مبارکہ میں دو مواقع ایسے نظر آتے ہیں جب آپ نے کاروبارہستی میں حصہ لینے کی کوشش کی تھی حضرت سلطان باہو نے دو بار کھیتی باڑی کی غرض سے بیلوں کی جوڑی خریدی۔ پھر خود ہی زمین جوتی مگر جب فصل پکنے کے قریب آئی تو آپ بیلوں کو چھوڑ کر سیر و سیاحت کے لیے کسی طرف نکل گئے۔ جب عزیز و اقارب اور دوستوں میں سے کوئی شخص حضرت سلطان باہو سے اس بے نیازی اور بے رغبتی کی وجہ دریافت کرتا تو آپ نہایت آسودگی اور سرشاری کے لہجے میں فرماتے۔ فاقے کی رات فقیر کے لیے معراج کی رات ہوتی ہے۔ ایک اور موقع پر حضرت سلطان باہو نے فرمایا اندروں از طعام خالی دار تادرآں نور معرفت بینی تو اپنا شکم غذا سے خالی رکھ تاکہ اس میں معرفت کا نور دیکھ سکے۔ ترجمہ یہ اسی زمانے کا واقعہ ہے جب حضرت سلطان باہو کھیتی باڑی میں مصروف تھے۔ پنجاب کے کسی دوردراز علاقے میں ایک خاندانی شخص رہا کرتا تھا جس کی کئی بیٹیاں تھیں جو شادی کے قابل ہوگئی تھیں۔ وہ شخص اپنے گھرانے کا بھرم رکھنے کے لیے اجلا لباس پہنتا تھا جسے دیکھ کر اہل محلہ سمجھتے تھے کہ وہ مالی طور پر آسودہ حال ہے۔ اس شخص کی اسی ظاہری حالت سے متاثر ہوکر اچھے خاندان کے لوگوں نے اس کی بیٹیوں کے لیے رشتے بھیجے تھے مگر وہ اندرونی طور پر اس قابل نہیں تھا کہ بیٹیوں کی شادی کا انتظام کرسکے۔ آخر ایک دن وہ اپنے مسائل سے پریشان ہوکر کسی بزرگ کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شیخ میرا تعلق سادات کے خاندان سے ہے۔ میں نے بہت اچھا وقت گزارہ ہے مگر اب سفید پوشی کے سوا کچھ باقی نہیں۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ میں ایک مالدار شخص ہوں مگر حقیقت یہ ہے کہ دو وقت کی روٹی بھی میسر نہیں۔ میں اپنی زندگی تو گزار چکا مگر بیٹیوں کا بوجھ برداشت نہیں ہوتا۔ قرض خواہ ہر وقت دروازے پر کھڑے رہتے ہیں۔ اب آپ ہی میرے حق میں دعا فرمایئے کہ اللہ تعالیٰ مجھے ان مشکلات سے نجات دے دے۔ بزرگ کچھ دیر تک سیّد زادے کی حالت زار پر غور کرتے رہے تھے۔ پھر معذرت خواہانہ لہجے میں کہنے لگے۔ تمہیں جو بیماری لاحق ہے، اس کی دوا میرے پاس نہیں ہے۔ میں تو دعا کے لیے درخواست کررہا ہوں۔ سیّد زادے نے اداس لہجے میں عرض کیا۔ اب دعا ہی تمہاری دوا ہے اور میری دعا میں اتنی تاثیر نہیں ہے کہ وہ تمہارے سر اور گھر سے گردش وقت کو ٹال دے۔ بزرگ نے صاف صاف کہہ دیا۔ میں نے تو لوگوں سے آپ کے بارے میں بہت کچھ سنا ہے۔ بزرگ کا انکار سن کر وہ کچھ اور دل شکستہ نظر آنے لگے۔ وہ لوگوں کا حسن ظن ہے مگر میں تمہیں حقیقت بتا رہا ہوں۔ بزرگ نے جواب دیتے ہوئے کہا۔ مگر اس کا یہ مطلب بھی نہیں ہے کہ زمین اللہ کے مستجاب الدعوات بندوں سے خالی ہے۔ میں تمہیں ایک ایسے شخص کا پتا دیتا ہوں جس کی زبان میں بہت تاثیر ہے۔ وہ مردحق دریائے چناب کے کنارے قصبہ شورکوٹ میں رہتا ہے۔ اس کے آستانے پر حاضری دو، اللہ تمہاری مشکل آسان کرے گا۔ اُن کے چہرے سے کچھ دیر کے لیے رنج و الم کا غبار دھل گیا اور وہ تیز آندھیوں میں امید کا چراغ جلائے ہوئے شورکوٹ پہنچے۔ اس وقت حضرت سلطان باہو بہت معمولی لباس پہنے اپنی زمین پر ہل چلا رہے تھے۔ اگر کوئی اجنبی شخص حضرت شیخ کو اس حالت میں دیکھتا تو یہی رائے قائم کرتا کہ ہل چلانے والا کوئی مفلس کسان ہے۔ سیّد صاحب نے بھی حضرت سلطان باہو کے بارے میں یہی سوچا اور دل ہی دل میں افسوس کرنے لگے۔ میرا سفر رائیگاں گیا۔ جو شخص خود اتنا پریشان حال ہو، وہ کسی دوسرے کی کیا مدد کرسکتا ہے یہ خیال کرکے سیّد صاحب واپس جانے کے لیے مڑے۔ ابھی سیّد صاحب ایک ہی قدم آگے بڑھے ہوں گے کہ حضرت سلطان باہو کی صدائے دل نواز سنائی دی۔ سیّد اتنا طویل سفر اختیار کیا اور موسم کی سختیاں برداشت کیں، پھر بھی ہم سے ملاقات کئے بغیر واپس جارہے ہو اپنا نام سن کر سیّد صاحب حیرت زدہ رہ گئے۔ فوراً گھوڑے کی پشت سے اترے۔ بڑی عقیدت کے ساتھ حضرت سلطان باہو کی خدمت میں سلام پیش کیا اور سفر کی وجہ بیان کرنے لگے۔ حضرت سلطان باہو نے بہت غور سے سیّد صاحب کی درخواست سنی۔ پھر نہایت شیریں لہجے میں فرمانے لگے۔ سیّد تم میرا کام کردو، میں تمہارا کام کئے دیتا ہوں، اس لیے کہ کام کا بدلہ کام ہے۔ سیّد صاحب نے بڑی حیرت سے حضرت سلطان باہو کی طرف دیکھا۔ شیخ ایک سوالی آپ کے کیا کام آسکتا ہے میں اپنے ایک ضروری کام سے فارغ ہوکر ابھی آتا ہوں، جب تک تم میرا ہل چلائو۔ بس یہی کام ہے۔ اتنا کہہ کر حضرت سلطان باہو تشریف لے گئے۔ اس دوران سیّد صاحب ہل چلاتے رہے۔ حضرت سلطان باہو کی قوت کشف دیکھ کر انہیں یقین ہوگیا تھا کہ وہ یہاں سے خالی ہاتھ نہیں جائیں گے۔ تھوڑی دیر بعد حضرت سلطان باہو واپس آئے اور اپنے سامنے پڑا ہوا مٹی کا ایک ڈھیلا اٹھا کر زمین پر مار دیا۔ سیّد صاحب نے حضرت سلطان باہو کے اس عمل کو بڑی حیرت سے دیکھا مگر دوسرے ہی لمحے ان کی آنکھیں خیرہ ہوگئیں۔ اردگرد کے سارے ڈھیلے سونا بن گئے تھے۔ سیّد اپنی ضرورت کے مطابق سونا اٹھا لو۔ حضرت سلطان باہو نے بے نیازانہ فرمایا۔ سیّد صاحب نے سونا اٹھا لیا۔ پھر حضرت سلطان باہو کے دست مبارک کو بوسہ دیتے ہوئے بڑی وارفتگی کے عالم میں یہ شعر پڑھا نظر جنہاں دی کیمیا، سونا کردے وٹ قوم اتے موقوف نہیں، کیا سیّد کیا جٹ جن لوگوں کی نگاہ کیمیا اثر ہے، وہ ایک ہی نظر سے مٹی کو سونا بنا دیتے ہیں۔ یہ ذات الٰہی کا فیض ہے جو کسی قوم پر موقوف نہیں۔ خواہ وہ سیّد ہو یا جٹ۔ ٭ ٭ ٭ آخر میں ہم اس واقعے کا ذکر کریں گے جس کا تعلق مغل شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر سے ہے۔ مناقب سلطانی کی روایت کے مطابق حضرت سیّد عبدالرحمن قادری سے بیعت ہونے کے بعد حضرت سلطان باہو نے دولت روحانی کو عام لوگوں میں تقسیم کرنا شروع کردیا۔ اتفاق سے اس روز جمعہ تھا۔ حضرت سلطان باہو جامع مسجد دہلی میں نماز پڑھنے کے لیے حاضر ہوئے تو شہنشاہ جہانگیر بھی اپنے ارکان دولت کے ساتھ وہاں موجود تھا۔ جامع مسجد میں نمازیوں کا اس قدر ہجوم تھا کہ کہیں بھی تل دھرنے کو جگہ نہ تھی۔ حضرت سلطان باہو سب سے آخر میں اس مقام پر کھڑے ہوگئے جہاں لوگ اپنی جوتیاں رکھتے تھے۔ نماز ختم ہوئی تو حضرت سطان باہو نے حاضرین پر خصوصی توجہ کی تو مسجد میں ایک شور سا مچ گیا اور تمام نمازیوں پر وجد کی کیفیت طاری ہوگئی مگر تین آدمی یعنی اورنگزیب بادشاہ، قاضی شہر اور کوتوال جذبے کی تاثیر اور نگاہ کے اثر سے غیرمؤثر اور محجوب رہے۔ پھر تینوں حضرت سلطان باہو کی خدمت میں حاضر ہوئے اور دست بستہ عرض کرنے لگے۔ اے ولی اللہ ہمارا کیا گناہ ہے کہ ہمیں اس نعمت سے محروم رکھا اور ہم پر توجہ نہ دی شہنشاہ عالمگیر کی اس درخواست کے جواب میں حضرت سلطان باہو نے فرمایا۔ ہم نے تو توجہ یکساں کی تھی۔ تم پر اس لیے اثر نہیں ہوا کہ تمہارے دل سخت تھے۔ ان تینوں نے پھر دست بستہ ہوکر فیض کے لیے التجا کی تو حضرت سلطان باہو نے فرمایا۔ اس کے لیے شرط یہ ہے کہ تم اور تمہاری اولادیں، ہماری اولاد اور پسماندوں کے لیے دنیاوی احوال کی فکر نہ کریں اور ہمارے مکان پر نہ آئیں تاکہ تمہارے دنیاوی احوال کے سبب ہماری اولاد میں دنیاوی جھگڑے نہ پڑجائیں۔ جب شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر نے اقرار کیا کہ وہ ایسا کرے گا تو حضرت سلطان باہو نے مغل حکمراں پر توجہ کی اور اسے خاص فیض تک پہنچایا۔ پھر جب آپ نے دہلی سے رخصت ہونے کا ارادہ ظاہر کیا تو اورنگزیب عالمگیر نے کسی یادگار کے لیے درخواست کی۔ جواب میں حضرت سلطان باہو نے وہیں کھڑے کھڑے کتاب اورنگزیب شاہی تالیف فرمائی جسے شاہی محرروں نے اسی وقت لکھ لیا اور اس ارشاد نامے کو بطور یادگار رکھا۔ پھر آپ اسی وقت لوٹ آئے۔ یہاں بھی کھڑے کھڑے لکھنے سے مراد وہی ہے کہ حضرت سلطان باہو نے مختصر سے عرصے میں ایک ضخیم کتاب تحریر کرائی ۔ بعض محققین کا دعویٰ ہے کہ شہزادہ دارا شکوہ کے حوالے سے سلسلۂ قادریہ اورنگزیب عالمگیر کے تشدد کا نشانہ بنا ہوا تھا چونکہ حضرت سلطان باہو بھی سلسلۂ قادریہ سے تعلق رکھتے تھے، اس لیے دارالحکومت میں آپ کی موجودگی کو شک و شبے کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔ مناقب سلطانی کی روایت کے مطابق ڈاکٹر لاجونتی رام کرشن لکھتی ہیں کہ اورنگزیب، حضرت سلطان باہو کے بارے میں اپنے مخبروں سے اطلاعات منگواتا رہتا تھا۔ پنجاب کے صوفی دانشور کے مصنف قاضی جاوید کے بقول دوسری روایتوں سے بھی اس بات کی تصدیق ہوتی ہے۔ ہماری نظر میں یہ ساری روایتیں غیر معتبر ہیں اور عالمگیر جیسے بزرگ حکمراں پر کھلی تہمت ہے۔ اورنگزیب اور دارا شکوہ کے درمیان محض اقتدار کی جنگ تھی۔ عالمگیر خود بھی ایک صاحب دل صوفی تھے۔ مغل فرمانروا کو حضرت مجدد الف ثانی کے صاحبزادے اور خلیفہ حضرت خواجہ معصوم سے بیعت کا شرف حاصل تھا۔ پھر یہ کیسے ممکن ہے کہ خزانۂ شاہی کو رعایا کی ملکیت سمجھنے والا، قرآن کریم لکھ کر اور ٹوپیاں سی کر روزی حاصل کرنے والا پابند شریعت اور متقی حکمراں صرف اپنے بھائی دارا شکوہ کی وجہ سے سلسلۂ قادریہ کے تمام بزرگوں پر ستم ڈھاتا، یہ محض بہتان طرازی ہے، اس کے سوا کچھ نہیں۔ عالمگیر کی محرومی یہ ہے کہ انہیں صرف ہندوئوں اور انگریزوں نے ہی بدنام نہیں کیا بلکہ اپنی تنگ نظری اور دنیاداری کے سبب مسلمان مؤرخین اور دانشوروں نے بھی بے جا تنقید کا ہدف بنایا۔ مناقب سلطانی کے مصنف کا یہ تحریر کرنا کہ عالمگیر کا دل سخت تھا، اس لیے ان پر پہلی بار حضرت سلطان باہو کی توجہ کا اثر نہیں ہوا۔ پھر جب مغل شہنشاہ نے دست بستہ درخواست کی تو حضرت سلطان باہو نے انہیں فیض روحانی سے سرفراز کیا۔ ہمارے نزدیک اس روایت پر عقیدت کا شدید غلبہ ہے ورنہ تاریخی حقیقت کچھ اور ہے۔ حضرت شیخ سلطان حامد نے جوش جذبات میں عالمگیر کو روحانیت سے بے بہرہ ایک سنگدل انسان ثابت کردیا مگر یہ نہیں دیکھا کہ خود حضرت سلطان باہو ، اورنگزیب عالمگیر کے بارے میں کیا تحریر کرتے ہیں۔ کلید التوحید حضرت سلطان باہو کی مشہور تصنیف ہے۔ اس کے آغاز میں حضرت شیخ فرماتے ہیں۔ حمد و نعت کے بعد جاننا چاہیے کہ باہو، ولد بازید عرف اعوان ساکن قلعہ شورکوٹ کو محی الدین، تابع علم الیقین، شرع شریف، راسخ الدین شاہ اورنگزیب بادشاہ اسلام کے زمانے میں دیگر رسالوں کے علاوہ اس رسالے کے لکھنے کا بھی اتفاق ہوا۔ محی الدین، اورنگزیب کا خاندانی نام تھا۔ حضرت سلطان باہو نے عالمگیر کو بادشاہ ہند کے بجائے بادشاہ اسلام قرار دیا۔ اسی کتاب کلید التوحید میں ایک اور مقام پر حضرت سلطان باہو فرماتے ہیں برگزیدہ از عباد اللہ الہ شاہ اورنگ زیب غازی بادشاہ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ مقبول بندوں میں سے سلطان اورنگزیب غازی بادشاہ ہے۔ ترجمہ جب حضرت سلطان باہو جیسے عظیم المرتبت صوفی ان الفاظ میں عالمگیر کو خراج تحسین پیش کرتے ہیں تو حرص و ہوس کے اسیر اور دانشوران بے ضمیر کی تحریر کردہ روایتوں کی کیا حیثیت باقی رہ جاتی ہے۔ سال تک کار مسیحائی انجام دینے کے بعد حضرت سلطان باہو میں دنیا سے رخصت ہوئے۔ آپ کو دریائے چناب کے کنارے موضع قہرگان کے قلعے میں سپردخاک کیا گیا۔ سال بعد یعنی ھ میں دریائے چناب شدید طغیانی کی لپیٹ میں آگیا جس کے باعث آپ کے مزار مبارک کے غرق ہوجانے کا خطرہ پیدا ہوا۔ نتیجتاً حضرت سلطان باہو کے جسد مبارک کو بستی سمندری کے قریب منتقل کردیا گیا۔ اس قدر طویل مدت گزر جانے کے بعد بھی آپ کا کفن تک میلا نہیں ہوا تھا۔ پھر سال بعد دریائے چناب میں دوبارہ خوفناک سیلاب آیا، یہاں تک کہ پانی کی سرکش لہریں مزار مبارک کو چھونے لگی تھیں۔ ایک بار پھر آپ کے جسم مبارک کو منتقل کرکے گڑھ مہاراجہ ضلع جھنگ میں آسودئہ خاک کیا گیا۔ اس وقت بھی آپ کا کفن صحیح و سالم تھا۔ حضرت سلطان باہو کی قبر مبارک کی منتقلی میں قدرت کی بڑی عجیب نشانیاں ہیں، اگر لوگ سمجھنے کی کوشش کریں۔ پنجاب کے صوفی دانشور میں میرقاضی جاوید تحریر کرتے ہیں کہ حضرت سلطان باہو کی موجودہ شہرت کا انحصار ان کی پنجابی شاعری پر ہے۔ اسی نے انہیں حیات جادواں عطا کی ہے۔ یہ ایک ادیب، مؤرخ اور تنقید نگار کی ذاتی رائے ہوسکتی ہے مگر جاننے والے جانتے ہیں کہ حضرت سلطان باہو کیوں زندہ ہیں اور تین سو سال گزر جانے کے بعد بھی بے شمار انسانوں کے دلوں میں کیوں دھڑکتے ہیں ہرگز نمیرد آں کہ دلش زندہ شد بعشق ثبت است برجریدیۂ عالم دوام ما ختم شد
null
null
null
null
463
https://www.urduzone.net/haar-episode/
کون فاخر سوال کیا گیا۔ سیٹھ ہارون کا لڑکا جواب ملا۔ دیکھئے مسٹر عمران غصے سے بولا۔ بے مقصد اور بے تکے سوالات کرکے ہمارا اور اپنا وقت ضائع مت کیجئے۔ ہم کسی سیٹھ ہارون سے واقف نہیں ہیں اور نہ ہی اس کے بیٹے سے آپ کی بیگم تو واقف ہوں گی اس بار طفیل نے پوچھا۔ انسپکٹر آپ ایک شریف خاتون پر الزام تراشی کررہے ہیں۔ عمران واقعی غصے میں آگیا۔ آپ کو تہذیب کے دائرے میں رہنا چاہئے۔ خاموش رہئے آپ طفیل نے اسے جھڑکا اور شائستہ سے مخاطب ہوا۔ آپ فاخر کے اپارٹمنٹ میں آخری بار کب گئی تھیں کبھی نہیں گئی۔ شائستہ نے جواب دیا۔ آپ کو معلوم ہوگا کہ سٹی اسکوائر کہاں ہے محکمۂ تعمیرات سے پوچھئے۔ وہ جل کر بولی۔ پلیز الٹے سیدھے سوالات کرکے ہمیں ذہنی کوفت میں مبتلا مت کیجئے۔ عمران تلخ لہجے میں بولا۔ ہم والدہ کی بیماری کی وجہ سے پہلے ہی پریشان ہیں۔ شعیب نے جیب سے تصویر نکال کر سامنے ڈال دی۔ ذرا پہچانئے یہ کس کی تصویر ہے وہ دونوں تصویر کو دیکھ کر اچھل پڑے۔ آنکھوں میں حیرت عود کر آئی اور دم بخود سے ہوگئے۔ حیرت انگیز مماثلت ہے۔ بالآخر شائستہ کے منہ سے نکلا۔ مگر ایک نمایاں فرق ہے کہ اس کے بال ڈارک برائون ہیں۔ بال برائون نہیں ہیں خاتون بلکہ برائون رنگ کی وگ استعمال کی گئی ہے۔ ہوگی۔ عمران نے یہ کہتے ہوئے تصویر ایک جانب کھسکا دی۔ ہمیں اس معاملے سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ آپ کی تصویر نہیں ہے یہ سوال کرتے ہوئے طفیل نے شائستہ کے چہرے پر اپنی نظریں مرکوز کردیں۔ سمجھ میں نہیں آتا کہ آپ کو کیسے یقین دلائوں شائستہ پریشان ہوکر بولی۔ یہ ضرور ہے کہ تصویر مجھ سے بے حد مطابقت رکھتی ہے لیکن دنیا میں ایک سی شکل و صورت کے بہت سے لوگ ہوتے ہیں۔ زیادہ چکر چلانے کی کوشش نہ کریں خاتون انسپکٹر طفیل کو غصہ آگیا۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ تصویر تمہاری ہے۔ بتائو ہمیں کہ قتل کا کیا چکر ہے تمیز سے بات کیجئے انسپکٹر شائستہ طیش میں آگئی۔ وہ کوئی اور ہوگی جو قتل ہوئی ہے۔ مردے زندہ نہیں ہوا کرتے۔ عجیب بات ہے کہ آپ ہم پر بے بنیاد الزامات عائد کرنے کی کوشش کررہے ہیں اور بضد ہیں کہ میں شیلا یا روزی ہوں۔ یہ کہہ کر اس نے غصے کے عالم میں اپنا پرس کھولا اور کوئی چیز نکال کر طفیل کی جانب اچھال دی۔ دیکھ لیجئے میں کون ہوں۔ وہ شناختی کارڈ تھا۔ اسے دیکھ کر طفیل اور شعیب دونوں ہی لاجواب ہوگئے۔ نام کے خانے میں شائستہ عمران لکھا ہوا تھا۔ تصویر بھی تھی اور اس میں بال سیاہ تھے۔ شعیب نے دونوں تصویروں کا موازنہ کیا۔ بس بالوں کا فرق تھا، ورنہ دونوں ایک شخصیت معلوم ہوتی تھیں۔ شائستہ چبھتے ہوئے لہجے میں بولی۔ اب یقین آگیا ہوگا کہ میں شائستہ عمران ہوں۔ آپ کی تصویر سے قطعی علیحدہ شخصیت اور یہ مماثلت محض اتفاقیہ ہے۔ بے شک شعیب کے منہ سے بے ساختہ نکل گیا۔ تاہم چند سوالات کرنے کی اجازت چاہوں گا۔ اب سوالات کی کیا ضرورت باقی رہ جاتی ہے عمران ناگواری سے بولا۔ میری بیوی نے اپنی شناخت کا ناقابل تردید ثبوت پیش کردیا ہے۔ شعیب اور طفیل کچھ نروس سے ہوکر ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ پھر شعیب نے کہا۔ میں ایک فون کرنا چاہوں گا۔ کیوں نہیں۔ عمران نے ایک گوشے میں رکھے ہوئے ٹیلیفون کی طرف اشارہ کیا۔ شعیب نے نمبر ڈائل کئے۔ وہ ایک خاص مقصد کے تحت سیٹھ ہارون سے بات کرنا چاہتا تھا، مگر فون انگیج تھا۔ ریسیور رکھ کے وہ انتظار کرتا رہا۔ قریب ہی ٹیلیفون ڈائریکٹری رکھی ہوئی تھی اور اس کے اوپر ایک کتاب موجود تھی۔ شعیب نے یونہی وقت گزاری کے لئے کتاب کھول لی اور دوسرے ہی لمحے وہ چونک پڑا۔ وہ ایک مجموعۂ کلام تھا جسے رودِخزاں کے نام سے پیش کیا گیا تھا۔ شاعر کوئی غیر معروف یا غیر شناسا شخص نہیں تھا۔ وہ دیوان عابد نومی کا تھا اور پہلے صفحے پر اس کی تصویر بھی موجود تھی۔ اگرچہ کسی پڑھے لکھے گھر میں ایک شاعر کے مجموعۂ کلام کا موجود ہونا کوئی حیران کن بات نہیں تھی لیکن جانے کیوں شعیب کو لاشعوری طور پر کچھ عجیب سا محسوس ہوا۔ اس نے عمران ملک کی جانب دیکھا جو کچھ مضطرب سا نظر آرہا تھا۔ شعیب نے اس سے پوچھا۔ آپ کو شاعری سے خاصا لگائو ہے جی ہاں ٹوٹے پھوٹے اشعار کہہ لیتا ہوں۔ اوہ تو گویا آپ بھی شاعر ہیں۔ یونہی سا گڈ میں سمجھا تھا محض پڑھنے پڑھانے کا شوق ہے۔ آپ تو چھپے رستم نکلے۔ عابد نومی غالباً آپ کا پسندیدہ شاعر ہے وہ اچھے شعر کہتا ہے، اس کی شاعری میں ایک رچائو ہے۔ آپ اس سے ذاتی طور پر تو واقف ہوں گے تھوڑا بہت عمران نے جواب دیا۔ کبھی مشاعرے میں ملاقات ہوجاتی ہے۔ تعلقات وسیع نہیں ہیں۔ شعیب نے صفحہ پلٹا اور اس کی نظریں وہیں جم کر رہ گئیں۔ اس کی آنکھوں میں ایک عجیب سا تجسس تھا اور ہونٹوں پر معنی خیز مسکراہٹ تھی۔ جس چیز نے اسے چونکنے پر مجبور کیا تھا، وہ انتساب تھا۔ ایک خوبصورت حاشیے کے درمیان نمایاں الفاظ میں درج تھا۔ شائستہ کے نام جو وفا شعار ثابت نہ ہوسکی۔ شعیب نے شائستہ کی طرف دیکھا۔ وہ گھبرائی ہوئی اور چور نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہی تھی۔ عابد نومی سے آپ کا گہرا تعلق معلوم ہوتا ہے شعیب کے لہجے میں نشتر کی سی کاٹ تھی۔ میں اس سے زیادہ واقف نہیں ہوں۔ وہ خاصی پریشان ہوگئی تھی۔ مگر خاتون کوئی شاعر یا ادیب اپنی کتاب کو کسی ایسی ہستی سے منسوب کرتا ہے جو اس کے قریب رہی ہو یا کسی قسم کا لگائو ہو۔ آپ کیا کہنا چاہتے ہیں وہ فوراً ہی سنبھل کر تیز لہجے میں بولی۔ میرا مطلب ہے وہ آپ کا رشتہ دار ہے نہیں میں اپنے شوہر کے ساتھ ایک مشاعرے میں موجود تھی، وہاں عابد نومی سے ملاقات ہوئی۔ اس نے مجھے دیکھا اور نہ جانے کیوں یہ درخواست کی کہ اپنے زیرطبع مجموعۂ کلام کا انتساب میرے نام کرنا چاہتا ہے۔ میں نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ درست شعیب نے کہا۔ لیکن مسٹر عمران اس انتساب میں وفا اور جفا کا تذکرہ بڑے تیکھے انداز میں کیا گیا ہے جو اس طرف اشارہ کرتا ہے کہ تعلقات خاص نوعیت کے اور دیرینہ ہیں۔ آپ نے پھر غیر شائستہ گفتگو شروع کردی۔ عمران خفگی کا اظہار کرتا ہوا بولا۔ آپ میری بیوی پر تہمت عائد کررہے ہیں۔ یہ انتہائی غیر شریفانہ فعل ہے۔ طفیل، شعیب کا بازو تھام کر ایک گوشے میں لے گیا۔ وہ کچھ دیر باہم سرگوشی کرتے رہے، پھر طفیل، عمران کو مخاطب کرکے بولا۔ ہمیں اس بات کا مکمل یقین ہوگیا ہے کہ آپ کی بیگم ہماری مطلوبہ شخصیت نہیں ہیں لیکن مماثلت چونکہ حیرت انگیز ہے، اس لئے آپ حضرات کی زندگی کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے۔ چنانچہ ہماری تجویز ہے کہ آپ فی الحال سفر ملتوی کردیں۔ ہمیں کوئی نہیں روک سکتا۔ شائستہ تقریباً چیخ کر بولی۔ آخر آپ کا مقصد کیا ہے ہم آپ کی سلامتی کے خواہاں ہیں۔ شعیب نے کہا۔ ہمیں کسی تحفظ کی ضرورت نہیں۔ لیکن ہمیں ہے۔ طفیل نے جواب دیا۔ ہم پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ معززین کی جان و مال کی حفاظت کریں۔ صورتحال کچھ ایسی ہے کہ آپ کا گھر سے نکلنا کسی طور مناسب نہیں۔ آپ اختیارات کا ناجائز استعمال کررہے ہیں انسپکٹر عمران نے گویا وارننگ دینے والے انداز میں کہا۔ جی نہیں، بلکہ سمجھتا ہوں کہ یہ ضروری ہوگیا ہے کہ یہاں مسلح سپاہیوں کی ڈیوٹی لگا دی جائے۔ مبادا دشمن گھر میں داخل ہوکر حملہ کرنے کی کوشش کرے۔ آپ ہمیں قید کردینا چاہتے ہیں عمران کا پارہ چڑھ گیا۔ میں کمشنر سے آپ کی شکایت کروں گا۔ تحمل سے کام لیجئے۔ شعیب نے اس کے کندھے پر ہاتھ رکھا۔ ہم جو اقدام کررہے ہیں، وہ سراسر آپ کے مفاد میں ہے۔ یہ پیریڈ زیادہ طویل نہ ہوگا۔ ہم بڑی سرگرمی کے ساتھ مجرموں کو تلاش کریں گے۔ طفیل اتنی دیر میں ٹیلیفون کے پاس پہنچ چکا تھا۔ اس نے پولیس اسٹیشن فون کیا اور کوئی پندرہ منٹ بعد دو مسلح سپاہی وہاں پہنچ گئے۔ طفیل انہیں ہدایت دیتے ہوئے کہنے لگا۔ صاحب اور بیگم صاحبہ خطرے میں ہیں، ان کا گھر میں رہنا بہت ضروری ہے اور یہ اٹیچی کیس بھی تمہاری تحویل میں ہے۔ ہماری واپسی تک اسے جوں کا توں رکھا رہنا چاہئے۔ ٭ ٭ ٭ مین روڈ پر پہنچ کر طفیل، عابد نومی کے اپارٹمنٹ کی جانب جیپ کا رخ موڑنے لگا تو شعیب نے اسے روک دیا۔ پہلے پولیس اسٹیشن چلو۔ وہ کس لئے میں چاہتا ہوں جب ہم شاعر کے یہاں پہنچیں تو ہتھکڑیاں ہمارے ساتھ ہوں۔ تمہارے خیال میں عابد نومی ہی قاتل ہے کس کا قتل شعیب معنی خیز انداز میں مسکرایا۔ روزی کا، شیلا کا یا شائستہ عمران کا دونوں ہنس دیئے۔ ٹھیک کہتے ہو۔ طفیل بولا۔ کوئی سرا ملنے کی بجائے کیس لمحہ بہ لمحہ الجھتا جارہا ہے۔ اب شائستہ اور عابد نومی کے درمیان حیرت انگیز تعلق ظاہر ہوا ہے۔ یہ بہت اہم پوائنٹ تھا۔ شعیب پرجوش لہجے میں بولا۔ یہ بات ذہن سے نکال کر ہماری تفتیش اسی نقطے پر مرکوز ہوجانی چاہئے کہ کیس کی کوئی کڑی یہیں سے ہاتھ آئے گی۔ رودخزاں کا شائستہ کے نام انتساب، کوئی معمولی بات نہیں ہے۔ تم خواہ مخواہ خلوص و انکساری کا مجسمہ بنے رہے۔ طفیل نے کہا۔ میں شائستہ اور عمران کے دو دو ہاتھ مار کے ذرا سی دیر میں سب کچھ اگلوا لیتا۔ نری جاہلیت ہوتی یہ شعیب منہ بنا کر بولا۔ عقل استعمال کرنے کی بجائے تشدد کی راہ اختیار کرنا تفتیشی عمل کا انتہائی گھٹیا پہلو ہے۔ یہ ہتھکڑیاں بھی عابد نومی کے ہاتھ میں ڈالنے کے لئے نہیں ہیں بلکہ اس پر دہشت طاری کرکے سچ اگلوانے کی کوشش کی جائے گی۔ اسے ایک نفسیاتی حربہ سمجھ لو اور یہ کام تم کرو گے۔ سمجھا طفیل نے سر ہلا کر کہا۔ لیکن اس پہلو پر بھی غور کرو کہ شہر کے کسی پولیس اسٹیشن میں قتل یا گمشدگی کی کوئی رپورٹ تو درج نہیں کرائی گئی۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ہم سراب کے پیچھے دوڑ رہے ہوں جواد مرزا کے بیان کو کس خانے میں فٹ کرو گے شعیب نے کہا۔ اس نے خود لاش دیکھی ہے۔ جواد مرزا کے بیان کی کسی دوسرے شخص سے تصدیق نہیں ہوسکی۔ طفیل نے جواب دیا۔ وہ ایک بزدل کاروباری آدمی ہے، خون دیکھ کر خوف زدہ ہوگیا ہوگا اور چشم تصور سے ایک لڑکی کی لاش دیکھ لی۔ چلو مان لیا۔ شعیب نے کہا۔ لیکن اپارٹمنٹ میں خون کہاں سے آیا یہ مسئلہ ٹیڑھا ہے۔ طفیل فکرمند لہجے میں بولا۔ مگر ایک بات سمجھ میں آتی ہے خون کی بوتلیں بلڈ بینک سے حاصل کی گئی ہوں گی لہٰذا کمرے میں خون پھیلا کر قتل کے تاثرات پیدا کئے گئے۔ ہوسکتا ہے مجرم اس طرح کسی واقعہ کو کسی خاص مقصد کے تحت غلط رنگ دینے کی کوشش کررہا ہو۔ ویری گڈ تم خودبخود لائن پر آگئے۔ شعیب نے ہلکا سا قہقہہ لگایا۔ گویا کسی واقعے اور اس میں ملوث کسی مجرم کے وجود کو تم تسلیم کرتے ہو میرا مطلب کچھ اور خاموش ہوجائو یار شعیب نے اسے پیار سے جھڑک دیا۔ اگر تم اس موڈ میں ہو کہ کیس کو داخل دفتر کردو تو اس کی اجازت میں ہرگز نہیں دوں گا۔ کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، مجھے بہرحال اپنے کلائنٹ کے لئے کام کرنا ہے اور مسروقہ موتیوں کے ہار کا سراغ لگانا ہے۔ جیپ اتنی دیر میں پولیس اسٹیشن پہنچ چکی تھی۔ طفیل نے ایک سپاہی کو ہتھکڑیوں کی جوڑی لانے کی ہدایت کی اور اس کے بعد وہ سٹی اسکوائر کی جانب روانہ ہوگئے۔ ٭ ٭ ٭ عابد نومی کے اپارٹمنٹ کا دروازہ کھلا ہوا تھا۔ طفیل اور شعیب مشترکہ طور پر پہلے ہی ایک لائحہ عمل ترتیب دے چکے تھے۔ چونکہ گھر میں عورتیں موجود نہیں تھیں، اسی لئے وہ دونوں آہستگی سے اندر داخل ہوگئے۔ عابد نومی اس وقت کچھ لکھنے میں مصروف تھا اور دروازے کی جانب اس کی پشت تھی۔ وہ کام میں منہمک تھا۔ شعیب دروازے پر رک گیا اور طفیل ہتھکڑیاں اٹھائے ہوئے خاموشی سے عابد کی پشت پر پہنچ گیا۔ اس نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر ہتھکڑیاں عابد نومی کے سامنے لہرائیں۔ عابد اچھل پڑا۔ اس نے تیزی سے گھوم کر دیکھا۔ چہرے پر دہشت کے آثار نمایاں ہوگئے۔ وہ خوف زدہ نظروں سے ہتھکڑیوں کو دیکھ رہا تھا۔ پھر سہمی ہوئی آواز میں بولا۔ یہ کیا ہے میں سمجھا نہیں کوئی سمجھ میں نہ آنے والی بات ہی نہیں یہ طفیل نے معنی خیز انداز میں کہا۔ یہ آہنی زیور مجرموں کو پہنایا جاتا ہے۔ تم ان پر ایک نظم کہہ سکتے ہو مگر ذرا انقلابی قسم کی ہو۔ آپ واقعی ہتھکڑیوں پر نظم لکھوانا چاہتے ہیں عابد نومی نے پوچھا۔ سردست ہم تمہارے ہاتھوں میں پہنانا چاہتے ہیں۔ کک کیا عابد کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ شش شاید آپ حضرات مذاق کے موڈ میں ہیں۔ بے وقوف بنانے کی کوشش مت کرو۔ انسپکٹر طفیل نے سخت لہجے میں کہا۔ تم نے ہمارے اعتماد کو ٹھیس پہنچائی ہے اور اب تک جھوٹ بولنے کے سوا کچھ اور نہیں کیا۔ شاید کسی نے میرے خلاف آپ کو بھڑکا دیا ہے۔ وہ نظریں نیچی کرتے ہوئے معصومیت سے بولا۔ میں سچ کہتا ہوں کہ میں نے کوئی جرم نہیں کیا۔ شعیب دروازے سے ہٹ کر اس کے قریب پہنچ گیا اور آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولا۔ مسٹر عابد مجھے ایک بات کا جواب دو، شائستہ سے آپ کا کیا رشتہ ہے کون شائستہ میں شائستہ عمران کی بات کررہا ہوں۔ عابد نومی چابی بھری ڈول کی طرح پلکیں جھپکانے لگا۔ پھر جلدی سے بولا۔ میرے مداحوں میں بہت سے لوگ ہیں، ہوسکتا ہے کوئی شائستہ نامی عورت بھی ہو۔ طفیل کوطیش آگیا۔ اس نے آگے بڑھ کر عابد نومی کا گریبان پکڑ لیا اور جلادی لہجے میں بولا۔ میں تمہیں پھانسی کی سزا دلوائوں گا۔ تم قاتل ہو، تم نے فاخر کے اپارٹمنٹ میں ایک لڑکی کو ہلاک کیا ہے۔ ہمارے پاس اس واقعے کے چشم دید گواہ موجود ہیں۔ تم موت کی سزا سے بچ نہیں سکو گے۔ شعیب نے طفیل کو ایک جانب ہٹا دیا۔ عابد نومی کی بری حالت ہورہی تھی۔ اس کا چہرہ دہشت سے سفید پڑگیا تھا اور آنکھیں پتھرا گئی تھیں۔ کانپتی ہوئی آواز میں بولا۔ میں میں بے قصور ہوں، خدا کی قسم میں نے کسی کو قتل نہیں کیا۔ تم آسانی سے اقبال جرم نہیں کرو گے۔ طفیل غضبناک انداز میں آگے بڑھا۔ میں تمہیں ہتھکڑیاں پہناتا ہوں، پولیس اسٹیشن پہنچ کر تم ریڈیو کی طرح فرفر بولنے لگو گے۔ سوچی سمجھی اسکیم کے مطابق شعیب پھر درمیان میں آگیا۔ ٹھہرو ہتھکڑیاں ڈالنے سے پہلے عابد نومی کو ایک موقع اور دیتے ہیں۔ پھر وہ اس سے مخاطب ہوکر بولا۔ جناب عابد نومی صاحب آپ کے مؤقف میں کسی تبدیلی کا امکان ہے کہ آپ شائستہ عمران کو نہیں جانتے میں اس شائستہ کی بات کررہا ہوں جس کے نام آپ نے اپنے شعری مجموعے رود خزاں کا انتساب کیا ہے۔ یہ سن کر عابد نومی کا منہ لٹک گیا۔ وہ چند لمحے خاموشی سے فرش کو گھورتا رہا۔ پھر شکست خوردہ لہجے میں بولا۔ میرا خیال ہے کہ مجھے تمام واقعات بیان کرنا ہوں گے۔ دراصل یہ چار سال پہلے کی بات ہے جب میری ایک تقریب میں شائستہ صفدر سے ملاقات ہوئی تھی۔ شائستہ عمران ملک شعیب نے تصحیح کی۔ نہیں وہ اس وقت غیر شادی شدہ تھی۔ وہ بولا۔ اور اتنی خوبصورت تھی کہ اشعار میں اس کا ذکر بلامبالغہ کیا جائے۔ ایک شاعر حسن کا شیدائی ہوتا ہے۔ وہ مجھے بہت اچھی لگی۔ اس نے میرے دل کے شہر میں ہلچل پیدا کردی۔ یہ حادثہ یکطرفہ نہیں تھا، دوسری جانب شائستہ بھی مجھ سے اور خصوصاً میری شاعری سے متاثر تھی۔ میرے خوبصورت اشعار اس کے دل کی گہرائیوں میں اتر جاتے۔ میں شہزادہ گلفام تو نہیں، مگر اچھی صورت ضرور رکھتا تھا۔ نوجوان تھا، چنانچہ ملاقاتیں بڑھیں اور ہم نے شادی کرلی۔ شادی کے بعد میں نے محسوس کیاکہ اس میں وہ تمام صفات موجود نہیں ہیں جو ایک کنواری لڑکی میں ہونی چاہئیں۔ میں ایک وسیع النظر انسان ہوں۔ جوانی میں اکثر لغزش ہوجاتی ہے لہٰذا میں نے اسے معاف کردیا۔ میں نہیں چاہتا تھا کہ راز افشا ہو اور اس کی زندگی تباہ ہوجائے۔ میں اس سے محبت کرتا تھا مگر شائستہ نے میرے ایثار کی کوئی قدر نہیں کی۔ کچھ دن سکون سے گزرے۔ پھر وہ جلد ہی میری مفلسی اور قلیل آمدنی سے گھبرا گئی۔ اسے عیش و عشرت اور جدید طرززندگی درکار تھی اور میں اس کا متحمل نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ مجھ سے شادی کرکے وہ پچھتا رہی ہے۔ اس کا مزاج دن بہ دن چڑچڑا ہوتا جارہا تھا جس کے سبب ہمارے درمیان اکثر ناچاقی رہنے لگی۔ میں نے سمجھایا کہ میں فنکار ہوں، سرمایہ دار نہیں ہوں اور یہ بات تمہیں پہلے سے معلوم تھی لیکن اس کی سمجھ میں کوئی بات نہیں آئی۔ وہ عیش و عشرت کی دلدادہ تھی اور میں اس کی خواہشات کی تکمیل سے معذور تھا۔ اسی دوران میری ملاقات عمران سے ہوئی۔ وہ میرا مداح تھا اور خود بھی شاعری کا ذوق رکھتا تھا۔ وہ خاصا امیر آدمی تھا۔ اس کے پاس نئے ماڈل کی کار تھی اور ایک خوبصورت بنگلے میں اس کی رہائش تھی۔ معلوم ہوا کہ وہ امپورٹ ایکسپورٹ کا بزنس کرتا تھا۔ شعر و شاعری سے انتہائی رغبت رکھتا تھا۔ بڑے شاعروں میں پڑھنے کی بے حد تمنا رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں اس نے مجھ سے مدد کی درخواست کی۔ میں نے وضاحت چاہی تو اس نے خواہش ظاہر کی کہ میں اسے تازہ کلام لکھ کر دے دیا کروں جسے وہ اپنے نام سے مشاعروں میں پڑھ سکے۔ مجھے یہ بات کچھ اچھی معلوم نہیں ہوئی لیکن اس کے بے حد اصرار پر رضامند ہونا پڑا۔ عابد نومی یہاں تک بتا کر چند ثانیوں کے لئے رکا اور پھر کہنا شروع کیا۔ جب کسی سے تعلقات استوار ہوتے ہیں تو اس کی شخصیت کے مختلف پہلو اور دیگر حالات کا علم رفتہ رفتہ ہونے لگتا ہے لہٰذا عمران کے بارے میں حیرت انگیز تفصیلات سامنے آئیں، معلوم ہوا کہ وہ اسمگلر ہے اور بڑی خوبصورتی سے خود کو پس منظر میں رکھتے ہوئے کاروبار جاری رکھے ہوئے ہے۔ اس وقت مجھے احساس ہوا کہ اسے شاعری سے لگائو کیوں ہے۔ درحقیقت وہ اپنا سوشل اسٹیٹس بنانا چاہتا تھا اور اپنی اصلیت کو مخفی رکھنے کے لئے قابل احترام شخصیت کے روپ میں خود کو اعلیٰ سوسائٹی سے متعارف کرانے کا خواہشمند تھا۔ چنانچہ وہ تیزی کے ساتھ اہم افراد سے تعلقات بڑھانے لگا۔ بڑے مشاعروں کے روح ورواں عموماً اعلیٰ افسران اور اہم شخصیتیں ہوتی ہیں لہٰذا اپنے مطلب کے افراد کو اس نے شیشے میں اتارنا شروع کردیا اور اپنی حیرت انگیز صلاحیتوں کے باعث ان سے خاطرخواہ فائدہ اٹھانے لگا۔ غزلوں کے حصول کے سلسلے میں وہ اکثر میرے گھر آتا رہتا تھا اور جب بھی آتا، وہ شائستہ کے لئے قیمتی تحائف لاتا۔ میں نے شروع میں تعرض نہیں کیا لیکن جب اس سلسلے میں باقاعدگی اور وسعت پیدا ہونے لگی تو میں چونکا اور شائستہ کو سمجھانے کی کوشش کی مگر وہ بہت آگے نکل چکی تھی۔ عمران کی امارت کا رنگ اس پر بہت گہرا پڑ چکا تھا۔ وہ کار اور پھولے ہوئے بٹوے پر لٹو ہوگئی تھی۔ اگرچہ عمران عمر میں اس کے باپ کے برابر تھا، مگر شائستہ کو ایسی ہی اسامی کی تلاش تھی جو ضرورت سے زیادہ اس کی ناز برداری کرے اور قدموں میں دولت کا انبار لگا دے۔ دراصل دونوں ایک دوسرے کی ضرورت تھے۔ شائستہ کو دولت چاہئے تھی اور عمران کو شائستہ جیسی حسین عورت درکار تھی۔ چنانچہ انہوں نے ایک دوسرے کے ساتھ خفیہ تعلقات قائم کرنا شروع کردیئے۔ یوں عمران میری عدم موجودگی میں بھی گھر آنے لگا۔ بالآخر نتیجہ یہ نکلا کہ شائستہ نے مجھ سے طلاق کا مطالبہ کردیا۔ عمران اسے ورغلانے میں کامیاب ہوگیا تھا یا پھر شائستہ نے اسے پھانس لیا تھا۔ بہرکیف میرا گھر تباہی کے دہانے پر پہنچ گیا تھا اور جب حالات میرے کنٹرول سے باہر ہوگئے اور میں شدید ذہنی اذیت میں مبتلا ہوگیا تو نجات کی یہی راہ نظر آئی کہ طلاق دے دوں۔ اگرچہ میں اس سے بے پناہ محبت کرتا تھا لیکن حالات کے تقاضوں سے مجبور ہوکر میں نے اسے فارغ کردیا۔ عابد نومی کچھ دیر کو خاموش ہوا۔ چند لمحوں بعد متاسفانہ لہجے میں بولا۔ آدمی خواہشات کا غلام ہے۔ ایک خواہش پایۂ تکمیل کو پہنچتی ہے تو دوسری سر ابھارتی ہے اور یہ سلسلہ سانس کی آخری ڈور تک جاری رہتا ہے۔ شائستہ، عمران سے شادی کرنے کے بعد دولت میں تو ضرور کھیلنے لگی تھی لیکن جلد ہی اسے ایک زبردست محرومی کا بھی احساس ہونے لگا۔ عمران ایک عمر رسیدہ شخص تھا۔ ایک بوڑھا اور ایک نوجوان لڑکی کا بھلا کیا میل جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ شائستہ ایک بار پھر بہکنے لگی، کیونکہ انہی دنوں اس کی ملاقات فاخر سے ہوگئی۔ فاخر ایک عیاش اور بگڑا ہوا نوجوان تھا۔ اسے دولت بھی ملی اور عورت بھی وہ اس معاملے میں بڑی صلاحیتوں کا مالک تھا۔ شائستہ اس کی گرویدہ ہوگئی تھی۔ آپ کو ان تمام واقعات کا علم کیسے ہوا شعیب نے دریافت کیا۔ جیسا کہ میں بتا چکا ہوں کہ مجھے شائستہ سے جذباتی لگائو تھا۔ میں ایک شکست خوردہ شخص تھا اور ایک نامعلوم جذبے کی تسکین کے لئے اس کی ٹوہ میں لگا رہتا تھا۔ دراصل میں انتقام لینے کی فکر میں تھا لیکن آپ جانتے ہیں کہ میں ایک لکھنے پڑھنے والا آدمی ہوں۔ مجھے کشت و خون سے کوئی دلچسپی نہیں۔ قلم چلا سکتا ہوں، چاقو یا پستول نہیں مشاعروں میں لہک لہک کر غزل پڑھ سکتا ہوں، چیخ چیخ کر دشمن کو للکار نہیں سکتا۔ اس کے برعکس میرا پورا وجود انتقام کی آگ میں جل رہا تھا۔ میں شائستہ اور عمران دونوں سے انتقام لینے کے لئے بے چین تھا اور کوئی ایسا طریقہ سوچ رہا تھا جس پر عمل پیرا ہوکر انہیں شدید زک پہنچا سکوں اور خود قانون کی دسترس سے محفوظ بھی رہوں۔ میں نہیں کہہ سکتا کہ فاخر اور شائستہ کی ملاقات کب اور کہاں اور کن حالات میں ہوئی، تاہم میں فاخر کے اپارٹمنٹ میں اس کی آمدورفت سے واقف ہوچکا تھا۔ میں نے اپنی موجودگی کو ظاہر نہ کیا۔ میں دراصل کچھ عرصہ قبل ہی یہاں منتقل ہوا ہوں۔ شائستہ کو اس کا علم نہیں تھا کہ میں بھی یہاں رہائش پذیر ہوں۔ میں بہت دنوں تک ان کے تعلقات کی نوعیت پر غور کرتا رہا۔ اچانک میرے ذہن میں ایک منصوبہ آیا۔ منصوبہ اتنا مربوط اور بے داغ تھا کہ کسی کو مجھ پر شبہ نہیں ہوسکتا تھا۔ میں نے سوچا کہ مصلحت اسی میں ہے کہ موقع سے فائدہ اٹھایا جائے۔ چنانچہ گزشتہ شب جب شائستہ، فاخر کے اپارٹمنٹ میں داخل ہوئی اور دروازہ بند ہوگیا تو میں نے عمران کو گمنام فون کیا اور تمام حالات سے آگاہ کردیا کہ اس کی بیوی ایک نوجوان سے ملاقاتیں کرتی پھر رہی ہے۔ میں جانتا تھا کہ عورت کے معاملے میں مرد کس قدر حساس واقع ہوا ہے، وہ فوراً لڑنے مرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ بہرطور میرے گمنام فون کرنے کے کوئی پندرہ بیس منٹ بعد ہی کمپائونڈ میں ایک کار کے رکنے کی آواز آئی اور میں چوکنا ہوگیا۔ آپ دیکھ ہی رہے ہیں کہ میرا اپارٹمنٹ ایک ایسی جگہ پر واقع ہے کہ روشندان کے ذریعے زینہ اور راہداری میں ہونے والی سرگرمیاں بآسانی دیکھی جاسکتی ہیں۔ کچھ دیر بعد دروازہ کھل گیا۔ دروازہ کس نے کھولا، یہ میں نہیں دیکھ سکا۔ چند سرگوشیوں کے بعد عمران اندر داخل ہوگیا۔ پھر فاخر کے اپارٹمنٹ سے تیز لہجے میں گفتگو کرنے کی آوازیں آنے لگیں۔ اس کے بعد اچانک نسوانی چیخ گونجی پھر ایک مردانہ کراہ سنائی دی اور اس کے بعد گہرا سکوت چھا گیا۔ میں روشندان سے نیچے آگیا اور سوچنے لگا کسی کا کام تمام ہوگیا ہے۔ دفعتاً دروازہ کھلنے اور پھر راہداری میں بھاری قدموں کی آوازیں بھی سنائی دیں۔ میں پھر روشندان پر پہنچا اور دوسرے ہی لمحے حیرت کے سمندر میں غرق ہوگیا۔ حیرت مجھے اس بات پر نہیں تھی کہ عمران کے کندھے پر ایک لاش تھی، جسے وہ یقینا ٹھکانے لگانے کے لئے لے جارہا تھا، بلکہ تعجب خیز واقعہ یہ تھا کہ میری توقع کے مطابق اس کے کندھے پر شائستہ کی لاش نہیں تھی بلکہ فاخر کا بے جان جسم تھا۔ فاخر کا جسم شعیب اور طفیل دونوں ہی چونک پڑے۔ تمہاری بات ہماری سمجھ میں نہیں آئی۔ اس وقت یہ بات میری سمجھ میں بھی نہیں آئی تھی۔ عابد نے جواب دیا۔ لیکن جب غور کیا تو معاملہ صاف ہوگیا۔ کسی مصلحت کے تحت عمران نے فاخر کو ہلاک کردیا تھا۔ مگر وہ نسوانی چیخ طفیل نے غیر یقینی لہجے میں پوچھا۔ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں کہہ سکتا۔ عابد بولا۔ ممکن ہے فاخر کو قتل ہوتا دیکھ کر شائستہ خوف زدہ ہوگئی ہو اور بے ساختہ اس کی چیخ نکل گئی ہو۔ بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ شعیب پرسوچ لہجے میں بولا۔ خیر پھر کیا ہوا عابد نومی نے سگریٹ جلائی اور بولا۔ عمران، فاخر کی لاش اٹھائے ہوئے تیزی سے زینہ عبور کررہا تھا لیکن دو تین منٹ بعد ہی وہ پھر واپس آیا۔ اس وقت وہ خالی ہاتھ تھا اور بہت عجلت میں معلوم ہوتا تھا، جیسے کچھ بھول گیا ہو یا شائستہ سے کوئی خاص بات کہنا چاہتا ہو جو اس وقت تک اپارٹمنٹ کے اندر ہی تھی۔ عمران جلد ہی باہر آگیا اور تیزی کے ساتھ سیڑھیاں اترنے لگا۔ یہی وہ وقت تھا جب میرے پڑوسی جواد مرزا اوپر آتے ہوئے نظر آئے۔ عمران ان سے ٹکرا گیا اور رکے بغیر تیزی سے نکل گیا۔ اس کے بعد کے واقعات غالباً جواد مرزا نے بیان کردیئے ہوں گے۔ ہاں مگر جواد مرزا کا بیان ہے کہ اس نے کمرے میں ایک نوجوان لڑکی کی لاش دیکھی تھی، مزید برآں اس نے کمپائونڈ میں کسی کار کا تذکرہ نہیں کیا۔ شعیب نے کہا۔ ممکن ہے عمران نے اپنی کار احتیاط کے طور پر کسی تاریک گوشے میں کھڑی کی ہو۔ عابد نومی نے جواب دیا۔ رہا لاش کا مسئلہ تو یہ میں خود حیران ہوں کہ اس نے کمرے میں کس لڑکی کی لاش دیکھی، تاہم اس واردات کا ایک اہم پہلو ابھی باقی ہے۔ عمران بیس منٹ بعد پھر فاخر کے اپارٹمنٹ میں پہنچا اور کچھ دیر بعد باہر نکلا تو شائستہ اس کے ساتھ تھی۔ وہ دونوں زینہ عبور کرکے تاریکی میں غائب ہوگئے۔ اس تمام کارروائی میں زیادہ سے زیادہ ایک گھنٹہ صرف ہوا، دو بجے کے بعد آپ خود یہاں پہنچ گئے تھے۔ عجیب کیس ہے۔ کوئی جناتی چکر معلوم ہوتا ہے۔ ہر لمحے حالات پلٹ رہے ہیں۔ طفیل نے کہا۔ پھر وہ عابد نومی سے مخاطب ہوا۔ اچھا اگر تمہارا بیان درست تسلیم کرلیا جائے تو اس کا مطلب ہوگا کہ تم جرم کا اعتراف کررہے ہو۔ سارا منصوبہ تمہارا تھا اور بالواسطہ طور پر تم اس واردات میں ملوث ہو۔ تمہارا پلان یہ تھا کہ عمران فون سننے کے بعد فاخر کے اپارٹمنٹ پہنچے اور بدچلن بیوی کو قتل کرکے خود سولی پر چڑھ جائے۔ اس طرح تم ایک تیر سے دو شکار کرنا چاہتے تھے۔ بالکل ٹھیک کہا ہے نا میں نے عابد نومی کے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ وہ نیم جاں لہجے میں بولا۔ اس میں میرے ارادے کا کوئی دخل نہیں تھا۔ یہ جو کچھ ہوا، لاشعوری طور پر ہوا۔ لاشعوری طور پر ہرگز نہیں ہوا۔ طفیل نے سخت لہجے میں کہا۔ تم نے جان بوجھ کر اور پوری منصوبہ بندی کے ساتھ ایسے حالات پیدا کئے کہ قتل کی واردات رونما ہو۔ یہ دوسری بات ہے کہ تمہارے ہدف کے بجائے ایک دوسرا شخص قتل ہوگیا۔ تم یقیناً عدالت میں اس پوائنٹ سے فائدہ اٹھا سکتے ہو لیکن فی الحال یہ ہتھکڑیاں ٹھہرو شعیب نے اسے روک دیا۔ یہ ایک معزز آدمی ہے۔ ابھی ہتھکڑیاں نہ پہنائو۔ میں ضمانت دیتا ہوں کہ یہ فرار نہیں ہوگا۔ پھر وہ سرگوشی میں بولا۔ اس طرح ہم اس کا اعتماد کھو بیٹھیں گے۔ علاوہ ازیں اسے سلطانی گواہ بھی بنایا جاسکتا ہے اور تم اصل مجرموں کو آسانی سے سزا دلا سکو گے۔ اوکے طفیل نے اس کی تجویز سے اتفاق کیا۔ اب کیا ارادہ ہے ہم شائستہ عمران کے گھر چل رہے ہیں۔ شعیب نے کہا۔ اور عابد نومی ہمارے ساتھ ہوگا۔ تم کچھ دیر یہیں ٹھہر کر میرا انتظار کرو۔ طفیل بولا۔ میں سرچ وارنٹ حاصل کرلوں۔ وہ چالاک آدمی ہے، جھگڑا کھڑا کرسکتا ہے۔ طفیل رخصت ہونے لگا تو عابد نے اسے آواز دے کر روک لیا۔ غالباً آپ مجھے سلطانی گواہ بنانے کی بات کررہے تھے اپنا مطلب بیان کرو۔ طفیل نے خشک لہجے میں کہا۔ اگر ایسا ہے تو قانون سے تعاون کرتے ہوئے میں واردات کے ناقابل تردید ثبوت پیش کرسکتا ہوں۔ چلو ٹھیک ہے۔ آگے بولو عابد نے الماری کھولی اور ایک کیمرہ نکال لیا اور طفیل کی طرف بڑھاتا ہوا بولا۔ اس آٹومیٹک کیمرے میں واردات کے تمام اہم پوز موجود ہیں۔ ویری گڈ طفیل نے پرجوش انداز میں کہا۔ تم تو بہت کام کے آدمی نکلے۔ پھر وہ شعیب سے مخاطب ہوا۔ میں واپسی میں ان کے پازیٹو بھی نکلواتا لائوں گا۔ ان تصاویر کی موجودگی میں مسٹر عابد نومی کی ضرورت بھی نہیں پڑے گی۔ ٭ ٭ ٭ اس بار شائستہ نے طفیل اور شعیب کا بڑی دلفریب مسکراہٹ کے ساتھ استقبال کیا تھا۔ اس نے خوب میک اَپ کیا ہوا تھا۔ یوں بھی وہ بلاکی حسین تھی اور اس پر طرہ یہ کہ لباس بھی دیدہ زیب پہن رکھا تھا۔ اندر تشریف لے آیئے۔ اس نے دلفریب مسکراہٹ سے کہا۔ ان دونوں نے ایک دوسرے کی جانب دیکھا اور پھر اس کے ساتھ ڈرائنگ روم میں آگئے۔ عمران موجود نہیں تھا۔ شعیب نے استفسار کیا تو وہ کہنے لگی۔ ان کی طبیعت ٹھیک نہیں ہے پلیز ان کو زحمت نہ دیں۔ میں آپ کو مطمئن کرسکتی ہوں۔ عمران صاحب کی موجودگی ضروری ہے خاتون براہ کرم انہیں کچھ دیر کے لئے بلا لیجئے۔ وہ بادل نخواستہ اٹھی اور بیڈ روم میں چلی گئی۔ واپس آئی تو عمران اس کے ساتھ تھا۔ وہ واقعی پژمردہ اور تھکا تھکا سا نظر آرہا تھا۔ شعیب کی تجربہ کار نظروں نے تاڑ لیا کہ وہ بیمار نہیں خوف زدہ ہے۔ اس نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کی اور صوفے پر بیٹھتا ہوا بولا۔ میں دراصل والدہ کی بیماری کے سلسلے میں بے حد پریشان ہوں۔ غالباً اب ہمیں سفر کرنے کی اجازت ہوگی شاید مجرموں کو آپ نے پکڑ لیا ہوگا ہم مجرموں کے بہت قریب پہنچ گئے ہیں۔ شعیب نے کہا۔ انسپکٹر طفیل اگر اکیلا ہوتا تو مجرموں کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں ڈال چکا ہوتا، لیکن میں مجرم پر اس وقت ہاتھ ڈالتا ہوں جب اسے باور کرا دوں کہ وہ مجرم ہے۔ جی جی ایسا ہی ہونا چاہئے۔ عمران کو اپنے لہجے پر قابو نہ رہا تھا۔ ایسا ہی ہوگا۔ شعیب نے معنی خیز انداز آپ میرے ایک سوال کا جواب دے دیجئے۔ ہاں ہاں پوچھئے۔ مسٹر عمران شعیب اس کے اور قریب ہوگیا۔ تم نے فاخر کو قتل کرکے اس کی لاش کہاں چھپائی ہے اس سوال پر عمران پر چند لمحوں کے لئے سکتہ طاری ہوگیا، لیکن اگلے ہی لمحے وہ بوکھلا کر اٹھ کھڑا ہوا اور تیز لہجے میں بولا۔ یہ کیا مذاق ہے۔ میں کسی فاخر کو نہیں جانتا۔ آج آپ لوگوں نے ایک اور شوشا چھوڑ دیا۔ غالباً میں اپنی بات واضح طور پر نہیں بیان کرسکا۔ شعیب معصومیت سے بولا۔ میں سیٹھ ہارون کے بیٹے فاخر کی لاش کے بارے میں پوچھ رہا ہوں جو آپ کی بیوی کا دوست تھا اور جسے آپ دونوں نے مل کر قتل کردیا۔ مسٹر عمران اس کے پاس موتیوں کا ہار بھی تھا اور اس قیمتی ہار کے بارے میں آپ یقیناً پوری واقفیت رکھتے ہوں گے آپ لوگوں کا دماغ خراب ہوگیا ہے۔ عمران غضب کی اداکاری کررہا تھا۔ آپ پہلے میری بیوی کو روزی، شیلا اور پتا نہیں کیا کیا ثابت کرنے کی کوشش کرتے رہے اور آج مجھے قاتل گردان رہے ہیں۔ انسپکٹر طفیل، عمران کی ہٹ دھرمی برداشت نہ کرسکا۔ الٹے ہاتھ کا اس نے ایک زوردار تھپڑ اس کے منہ پر مارا نتیجے میں عمران کا نچلا ہونٹ پھٹ گیا اور خون بہنے لگا۔ یہ یہ ایک شریف انسان کے ساتھ انتہائی وحشت ناک حرکت ہے۔ شائستہ کہتی ہوئی طفیل کی طرف بڑھی۔ آپ میرے شوہر پر قتل کا بے بنیاد الزام کیوں عائد کرنا چاہتے ہیں کیا ثبوت ہے آپ کے پاس انسپکٹر طفیل، شائستہ کے بھی ایک تھپڑ مارنا چاہتا تھا مگر شعیب نے روک دیا۔ عمران کو ثبوت دکھائو۔ طفیل نے پوسٹ کارڈ سائز کی تصویر ان کے سامنے کردی۔ تصویر دیکھتے ہی چہرہ فق ہوگیا اور آنکھوں سے دہشت جھانکنے لگی۔ یہ یہ یہ تصویر شائستہ اس سے آگے نہ بول سکی۔ یہ تصویر گزشتہ شب عابد نومی کے آٹومیٹک کیمرے سے اتاری گئی ہے۔ طفیل نے بالآخر وضاحت کردی۔ کہہ دو کہ یہ تمہارے شوہر کی تصویر نہیں ہے اور یہ بھی اس کا کوئی ہم شکل ہے۔ اس حقیقت سے بھی انکار کردو کہ عابد نومی سے واقف نہیں ہو اور مزید یہ کہ وہ تمہارا سابقہ شوہر نہیں ہے وہ دونوں میاں، بیوی ابھی تک تصویر کو حیرت و خوف سے دیکھ رہے تھے، جس میں عمران، فاخر کی لاش کو کاندھے پر اٹھائے ہوئے تھا۔ طفیل نے کچھ اور تصویریں نکالیں اور ان دونوں کے جسم پسینے میں ڈوب گئے، ہاتھ کانپنے لگے۔ مسٹر عمران تمہاری بہتری اسی میں ہی ہے کہ سچ اگل دو۔ طفیل نے کرخت لہجے میں کہا۔ میں دیکھ رہا ہوں کہ تمہارا جسم تشدد برداشت کرنے کی اہلیت نہیں رکھتا۔ یہ بات بھی ذہن میں رکھو کہ عابد نومی کی زبانی بہت سی تفصیلات پہلے ہی ہمیں معلوم ہوچکی ہیں۔ عمران برسوں کا بیمار اور خوف زدہ نظر آنے لگا۔ شائستہ بھی ٹوٹ پھوٹ گئی۔ وہ دونوں بے جان ہوکر صوفے پر گرگئے۔ پھر عمران نے اسی میں عافیت سمجھی کہ طفیل کی ہدایت پر عمل کرے، لہٰذا اس نے بھرائی ہوئی سی آواز میں کہنا شروع کیا۔ میرا منصوبہ جتنا سادہ تھا، اتنا ہی مربوط اور جاندار درحقیقت میں پہلے بزنس کی آڑ میں غیر قانونی دھندا کیا کرتا تھا اور جلد ہی اینٹی کرپشن والوں کی گرفت میں آگیا۔ کیس لڑتے لڑتے میں اپنا سب کچھ گنوا بیٹھا۔ شائستہ میرے ساتھ تھی۔ ہم جیل جانے سے تو بچ گئے، مگر کنگال ہوکر رہ گئے۔ انہی دنوں شائستہ نے سیٹھ ہارون کے ہاں نوکری کرلی لیکن تھوڑے ہی دنوں بعد شائستہ نے حالات بدلنے کا ایک موقع تلاش کرلیا۔ اس نے نوکری چھوڑ دی اور روزی بن کر ایک ڈارک برائون وگ لگا کر دوبارہ سیٹھ ہارون کے ہاں ملازمت کرلی۔ دراصل اس کی نگاہ اس کی بیوی کے قیمتی ہار پر تھی، وہ اسے اڑانا چاہتی تھی۔ میں بیمار رہنے لگا تھا۔ مجھے نہیں معلوم تھا کہ شائستہ کیا گل کھلاتی پھر رہی ہے۔ پھر میں بھی حادثاتی طور پر اس جرم میں شریک ہوگیا۔ ہوا یوں کہ مجھے کسی نے گمنام کال کی عابد نومی نے کہ میری بیوی سٹی اسکوائر کے ایک اپارٹمنٹ میں اجنبی مرد کے ساتھ موجود ہے۔ میں مجرمانہ ذہن کا ضرور ہوں مگر بے غیرت نہیں۔ غصے میں اٹھا اور اس اپارٹمنٹ میں پہنچا تو وہاں معاملہ کچھ اور تھا۔ وہاں میری بیوی شائستہ اور فاخر کے درمیان ہار پر ففٹی ففٹی پر سودے بازی چل رہی تھی۔ شائستہ اور فاخر نے مل کر یہ ہار اڑانے کی سازش تیار کی تھی جسے فاخر نے کالے دستانے پہن کر سیٹھ ہارون کی بیوی یعنی اپنی سوتیلی ماں کے گلے سے اتار لیا۔ فاخر کو اپنے باپ پر پہلے ہی غصہ تھا کہ اس نے اسے عاق کردیا تھا اور پیسے بھی نہیں دیتا تھا۔ میرے ذہن میں ایک منصوبہ آیا کہ کیوں نا فاخر کو ہی قتل کرکے ہار اڑا لیا جائے۔ میں نے فاخر کو قتل کردیا۔ شائستہ اس گھنائونے منصوبے میں میرے ساتھ شامل تھی۔ اسی دوران مجھے کسی کے قدموں کی چاپ زینے میں سنائی دی۔ لاش ٹھکانے لگانے سے پہلے میں نے دروازے کی جھری سے جھانکا تو ایک شخص جواد مرزا کسی کو یہ کہتے ہوئے نیچے اتر رہا تھا کہ میں ابھی نیچے سے سگریٹ لے کر منٹوں میں آتا ہوں تو میرے ذہن میں فوراً ہی پولیس کو بھٹکانے کا ایک اور منصوبہ آیا، مجھے پتا تھا کہ یہ شخص جواد مرزا دوبارہ ضرور اوپر آئے گا۔ سوئے اتفاق کسی کام سے مجھے بھی نیچے اترنا پڑا تھا تو میں اس سے ٹکرا گیا، مگر اس سے پہلے میں شائستہ سے یہ کہہ چکا تھا کہ یہ آدمی جواد مرزا دوبارہ اوپر آئے تو تم صوفے پر اس طرح لیٹنا کہ وہ تمہیں مقتول سمجھے اور دروازہ بھی تھوڑا کھلا رکھنا تاکہ لوگ یہی سمجھیں کہ فاخر، شائستہ کو قتل کرکے فرار ہوگیا ہے۔ منصوبہ تو تمہارا شاندار تھا۔ طفیل بولا۔ اب یہ بتائو فاخر کی لاش کہاں ہے بلاشرکت غیرے ہار حاصل کرنے کے بعد ہم دونوں نے ایک غیر ملکی ایئرلائن کے ذریعے ملک سے فرار ہونے کا پروگرام بنایا اور آپ سے والدہ کی بیماری کا جھوٹ بولا۔ عمران نے لاش کے بارے میں بتانے سے پہلے اپنی بات پوری کی اور آخر میں بتایا کہ ہار اس کے اٹیچی کیس اور فاخر کی لاش ایک قبرستان کی ٹوٹی شکستہ قبر میں موجود ہے۔ ساری کہانی سننے کے بعد طفیل اور شعیب نے ایک دوسرے کی طرف دیکھ کر اپنے سر کو جنبش دی تھی۔ ٭ ٭ ٭ سیٹھ ہارون کو اپنے ناخلف بیٹے کی موت کا دکھ تھا۔ جب شعیب موتیوں کا قیمتی ہار اسے دینے پہنچا تو وہ بھرائی آواز میں بولا۔ میں نے اپنے بیٹے کو اس لئے عاق کیا تھا کہ وہ سدھر جائے اور غلط سوسائٹی اور برے کاموں سے باز آجائے، مگر وہ تو جرم کی دلدل میں پھنستا ہی چلا گیا۔ اسی وقت مسز ہارون خوشی خوشی ان کے پاس آئی اور ہار برآمد ہونے پر وہ شعیب کا شکریہ ادا کرنے لگی۔ اسے اپنے شوہر سیٹھ ہارون کی بھیگی ہوئی آنکھوں اور اس کے دکھ سے کوئی غرض نہ تھی۔ ختم شد
null
null
null
null
464
https://www.urduzone.net/grift-complete-urdu-story/
مون ہوٹل کے ڈائننگ ہال میں کھانا ختم کرنے والا آخری جوڑا شانتی اور اس کے شوہر انیل داس تھے۔ ہوٹل کے منیجر نے داخلی دروازے پر پہلے ہی ہوٹل بند ہونے کی اطلاع دینے والی تختی آویزاں کردی تھی۔ اس ہوٹل میں صرف دو ملازم تھے۔ ایک ہوٹل کا منیجر اور دوسری اس کی بیوی۔ منیجر کی بیوی کھانا پکاتی تھی اور منیجر کھانا میزوں پر سرو کردیتا تھا۔ اس ہوٹل میں بہت کم مسافر قیام کرنا پسند کرتے تھے۔ کمروں کی صفائی کے لئے دن کے وقت بڑھیا آتی تھی۔ شانتی اور انیل، مون ہوٹل کی چوتھی منزل پر ٹھہرے ہوئے تھے، جس وقت انہوں نے کھانا ختم کیا اس وقت ہوٹل کا منیجر اور اس کی بیوی ڈائننگ ہال کی صفائی تقریباً مکمل کرچکے تھے۔ انیل داس دونوں پیروں سے معذور تھے اور وہ وہیل چیئر پر بیٹھے ہوئے تھے۔ شانتی نے آگے بڑھ کر لابی کا دروازہ کھولا اور اپنے شوہر کا انتظار کرنے لگی۔ وہ آہستہ آہستہ وہیل چیئر چلاتا ہوا دروازے کی طرف بڑھ رہا تھا۔ انیل داس عموماً اپنی بیوی کو وہیل چیئر دھکیلنے کی اجازت نہیں دیتے تھے۔ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ اس طرح وہیل چیئر سے اچھی خاصی ورزش ہو جاتی ہے۔ انیل داس روزانہ سویرے قریب ترین جمنازیم میں ہاتھوں کے بل ورزش کیا کرتے تھے۔ اس لئے نچلا دھڑ بے کار ہونے کے باوجود ان کا اوپری جسم تندرست اور پرکشش تھا۔ وہ خوبصورت تھے اور اپنی عمر سے دس برس چھوٹے نظر آتے تھے شانتی سارا کام اپنے ہاتھوں سے انجام دیتی تھی۔ وہ اکہرے بدن کی ایک پرکشش عورت تھی۔ انیل داس نے آگے بڑھ کر لفٹ کا دروازہ کھولا اور جب شانتی کو اطمینان ہوگیا کہ اس کا شوہر بحفاظت لفٹ میں داخل ہوگیا ہے تو اس نے چوتھی منزل کا بٹن دبا دیا اور جب وہ اپنے کمرے میں داخل ہوئے تو انیل داس نے پائپ میں تمباکو بھرا اور لائٹر کے لئے جیبیں ٹٹولنے لگے۔ جان من انہوں نے معذرت آمیز انداز میں کہا۔ میرا خیال ہے کہ میں اپنا لائٹر نیچے میز پر چھوڑ آیا ہوں۔ اوہ میں لے کر آتی ہوں۔ شانتی کمرے سے باہر نکل گئی۔ جب وہ لفٹ سے نکل کر ڈائننگ ہال میں آئی تو منیجر اور اس کی بیوی صفائی ختم کرکے جا چکے تھے۔ جس میز پر انہوں نے کھانا کھایا تھا وہ صاف پڑی تھی۔ ہوٹل کا کچن ڈائننگ ہال سے ملحق تھا۔ شانتی نے کچن کا دروازہ کھولا اور جھانک کر اندر دیکھا۔ کچن میں ایک میز رکھی تھی، اس کے گرد تین افراد بیٹھے ہوئے تھے۔ منیجر، اس کی بیوی اور ایک اجنبی آدمی۔ اسے شانتی نے کبھی نہیں دیکھا تھا۔ اجنبی کی عمر چالیس برس کے لگ بھگ ہوگی۔ وہ دہرے جسم کا ایک درازقد آدمی تھا۔ اس کے چہرے کے دائیں جانب آنکھ کے پاس سے جبڑے کے نچلے حصے تک زخم کا ایک لمبا سا نشان تھا۔ اجنبی کی آنکھیں بے حد سرد تھیں۔ میز پر ایک سوٹ کیس کھلا ہوا رکھا تھا اور اجنبی اس میں سے لال نوٹوں کی موٹی موٹی گڈیاں نکال کے تین حصوں میں تقسیم کر رہا تھا۔ پورا سوٹ کیس نوٹوں سے بھرا ہوا تھا۔ شانتی نے اپنی زندگی میں کبھی ایک جگہ اتنے سارے نوٹ نہیں دیکھے تھے۔ جیسے ہی اس نے دروازہ کھولا تو کئی آنکھیں اس پر مرکوز ہوگئیں۔ اجنبی نے پھرتی سے نوٹوں کی گڈیاں اٹھا کر دوبارہ سوٹ کیس میں ڈالیں، حالانکہ وہ تیسرا شخص اس کے لئے قطعاً اجنبی تھا۔ اس نے فوراً ہی سوٹ کیس بند کردیا۔ شانتی کا دل زور زور سے دھڑکنے لگا۔ شانتی نے دوسرے لمحے اسے پہچان لیا تھا۔ ابھی تین روز پہلے اس نے اخبار میں اس شخص کا اسکیچ دیکھا تھا جو پولیس کے مصور نے بچی کے بیان کی مدد سے بنایا تھا۔ اخباروں میں دو اسکیچ اور شائع ہوئے تھے لیکن وہ دونوں اسکیچ واضح نہیں تھے۔ وہ منیجر اور اس کی بیوی سے ہلکی سی مشابہت رکھتے تھے۔ اگر شانتی نے اس وقت منیجر اور اس کی بیوی کو اس اجنبی کے ساتھ بیٹھا ہوا نہ دیکھا ہوتا تو وہ کبھی ان دونوں اسکیچوں میں ان کی مطابقت نہیں ڈھونڈ سکتی تھی۔ چوں کہ دونوں اس اجنبی کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے، اس لئے یہ ثابت ہوتا تھا کہ اس بچی کو اغوا کرنے والے مجرموں میں منیجر اور اس کی بیوی بھی شامل تھے۔ شانتی کو فوراً احساس ہوگیا کہ وہ بہت غلط وقت پرکچن میں داخل ہوئی ہے۔ صاف ظاہر تھا کہ مجرم بچی کے اغوا سے ملنے والی دو لاکھ کی رقم آپس میں بانٹ رہے تھے۔ اغوا ہونے والی بچی کی عمر چھ برس تھی۔ وہ ایک بڑے اور معروف صنعت کار کی بیٹی تھی۔ مجرموں نے لڑکی کے باپ سے دو لاکھ روپے کا مطالبہ کیا تھا۔ اس نے پولیس کو اطلاع دیئے بغیر یہ رقم ادا کردی تھی۔ مجرموں نے وعدے کے مطابق بچی کو چھوڑ دیا تھا۔ بظاہر ایسا معلوم ہوتا تھا کہ بچی کی کم عمری دیکھتے ہوئے مجرموں کو یقین تھا کہ وہ واپس جا کر ان کے حلیوں سے آگاہ نہیں کرسکے گی۔ شاید اسی لئے انہوں نے بچی کے سامنے اپنے چہرے چھپانے کی کوئی ضرورت محسوس نہیں کی تھی، لیکن ان کا خیال غلط ثابت ہوا۔ وہ بچی بلا کی ذہین تھی۔ وہ پولیس کو زیادہ معلومات فراہم نہیں کرسکی لیکن اس نے یہ ضرور بتا دیا کہ اسے ایک لمبے چوڑے تہہ خانے میں رکھا گیا تھا۔ اس نے خصوصاً مجرموں کے حلیے کافی تفصیل سے پولیس کو بتائے تھے۔ ان حلیوں کی مدد سے پولیس کے آرٹسٹ نے مجرموں کی خیالی تصویریں بنائی تھیں۔ یہ تصویریں شام کے اخبارات نے شائع کی تھیں۔ ہندوستان میں نابالغ بچوں کا اغوا قتل سے بھی زیادہ بھیانک جرم تصور کیا جاتا ہے۔ اس لئے مجرموں کو گرفتار کرنے کے لئے عوام اور اخبارات پولیس سے ہرممکن تعاون کرتے ہیں۔ شانتی نے یہ ظاہر کرنے کی کوشش کی کہ اس نے سوٹ کیس اور نوٹ نہیں دیکھے ہیں۔ اس نے سوٹ کیس نظرانداز کرتے ہوئے منیجر کی طرف دیکھا۔ اس کا حلق خشک ہو رہا تھا۔ میرے شوہر اپنا لائٹر میز پر بھول گئے تھے مسٹر رندھیر کیا آپ کو وہ لائٹر ملا ہے منیجر رندھیر شانتی کو اس طرح دیکھ رہا تھا، جیسے شیر پنجرے میں بند ہوجائے تو راہ فرار تلاش کرتا ہے۔ شانتی کے لہجے نے یہ امید پیدا کردی تھی کہ اس نے نوٹوں کی گڈیاں نہیں دیکھیں، اگر دیکھیں تو ان کی اہمیت نہیں سمجھ پائی۔ اس لئے منیجر نے زبردستی مسکرانے کی کوشش کرتے ہوئے اپنی جیب سے لائٹر نکالا اور بولا۔ جی ہاں مسز انیل داس یہ رہا آپ کے شوہر کا لائٹر منیجر شانتی کو لائٹر دینے کے لئے اٹھنے لگا۔ ٹھیک اسی وقت اجنبی نے غیر متوقع طور پر حیرت انگیز پھرتی کا مظاہرہ کیا، اس نے کرسی کھسکائی اور آگے بڑھ کر شانتی کو تیزی سے اندر گھسیٹا اور اسے کچن کے درمیان کھڑا کرکے خود دروازے پر کھڑا ہوگیا تاکہ وہ وہاں سے فرار نہ ہوسکے۔ تم احمق ہو رندھیر اجنبی منیجر نے کہا۔ یہ عورت بڑی چالاک معلوم ہوتی ہے مجھے یقین ہے کہ اس نے مجھے دیکھتے ہی پہچان لیا تھا۔ لعنت ہے اس تصویر اور لڑکی پر منیجر کی بیوی نے غصے سے اپنے شوہر کی طرف دیکھا۔ میں پہلے ہی کہہ رہی تھی کہ اس لڑکی کو چھوٹا سمجھنا مناسب نہیں۔ وہ اتنی بھولی نہیں تھی جتنی نظر آتی تھی۔ منیجر کی بیوی کے الفاظ سن کر شانتی کو زبردست ذہنی دھچکا لگا۔ اس کے اس جملے سے صاف ظاہر تھا کہ وہ اس بچی کو رہا کرنے کے خلاف تھی اور اسے ہلاک کرنے کے حق میں تھی۔ منیجر نے اپنی بیوی کو نظرانداز کرتے ہوئے شانتی کو دیکھا اور پھر اجنبی کی طرف دیکھ کر بولا۔ اب کیا کیا جائے یہ کون ہے اجنبی نے شانتی کو اوپر سے نیچے تک گھورتے ہوئے منیجر سے پوچھا۔ یہ اپنے شوہر کے ساتھ چوتھی منزل پر بیس نمبر کمرے میں ٹھہری ہوئی ہے۔ دونوں کو یہاں آئے ہوئے صرف ایک ہفتہ ہوا ہے۔ اس کے شوہر مسٹر انیل داس گولڈن نائٹ کلب میں کسی قسم کا مظاہرہ کرتے ہوئے روزی کماتے ہیں۔ خوب اجنبی نے کلائی پر بندھی ہوئی گھڑی دیکھتے ہوئے کہا۔ دس بج چکے ہیں۔ آخر یہ لوگ ابھی تک یہاں کیوں موجود ہیں آج پیر ہے پیر کی رات کو گولڈن نائٹ کلب بند رہتا ہے۔ منیجر نے جواب دیا۔ اجنبی بہت غور سے شانتی کا جائزہ لینے لگا۔ کچھ دیر کمرے میں خاموشی طاری رہی۔ مسٹر انیل داس کا نچلا دھڑ مفلوج ہے، لہٰذا وہ ہر وقت وہیل چیئر پر بیٹھے رہتے ہیں۔ منیجر نے خاموشی کا قفل توڑتے ہوئے کہا۔ خوب اجنبی نے بھنویں اونچی کرکے شانتی کو دیکھا۔ اگر اس کا شوہر اپاہج ہے تو وہ کلب میں کس قسم کا مظاہرہ کرتا ہے شعبدے بازی مسٹر انیل داس خیالات پڑھنے کے ماہر کی حیثیت سے مشہور ہیں۔ کسی زمانے میں جب سرکس کا رواج تھا اس میں وہ کرتب دکھاتے تھے۔ اجنبی نے منیجر کی بیوی کو غور سے دیکھا۔ تم بتائو کرن اب کیا کیا جائے میں کیا بتائوں کرن نے جواب دیا۔ لیکن میں ایک پیش گوئی کرسکتی ہوں کہ اگر ہم نے شانتی کو یہاں روکے رکھا تو اس کا شوہر جلد ہی نیچے فون کرکے اپنی بیوی کے متعلق دریافت کرے گا۔ اسے معلوم ہے کہ یہ نیچے لائٹر لینے آئی تھی۔ اسے یہ جواب دیا کہ ہم نے اس کی بیوی کو نہیں دیکھا تو چوں کہ وہ اپاہج اور خود اپنی بیوی کو تلاش نہیں کرسکتا، اس لئے فوراً پولیس کو ٹیلی فون کردے گا اور دس منٹ بعد ہوٹل کے چپے چپے پر پولیس موجود ہوگی۔ اجنبی نے اثبات میں سر ہلایا اور کچھ سوچنے لگا۔ چند لمحوں بعد بولا۔ تم ٹھیک کہہ رہی ہو، گویا اب یہ ضروری ہوگیا ہے کہ ہم اس کے شوہر کو بھی اس معاملے میں شامل کرلیں۔ نہیں شانتی نے جلدی سے کہا۔ میرے شوہر کو اس معاملے میں شامل مت کرو۔ میں وعدہ کرتی ہوں کہ اپنی زبان بند رکھوں گی۔ اجنبی نے سرد نظروں سے شانتی کو گھورا۔ اس کی آنکھوں سے بے یقینی کے آثار جھلک رہے تھے۔ شاید تم یہ کہنا چاہتی ہو کہ اگر ہم تمہیں چھوڑ دیں تو تم اس کمرے سے باہر نکل کر پولیس کو فون کروگی اور نہ ہی اپنے شوہر کو اس معاملے کی اطلاع دو گی کیوں شانتی نے کوئی جواب نہیں دیا۔ وہ جانتی تھی کہ خواہ وہ کچھ بھی کہے یہ لوگ اسے کسی قیمت پر نہیں چھوڑتے۔ اس لئے اس نے اس قسم کی کوشش کرنے کا خیال ہی ترک کردیا۔ اجنبی نے کوٹ کی اندرونی جیب سے ریوالور نکال کر شانتی کو نشانے پر رکھتے ہوئے بولا۔ امید ہے تم مجھے یہ چلانے پر مجبور نہیں کرو گی رندھیر شانتی کو لائٹر دے دو۔ ہم تینوں اس کے ساتھ چل کے اس کے شوہر سے ملتے ہیں۔ منیجر نے لائٹر شانتی کے حوالے کردیا۔ جب وہ بیسمنٹ میں داخل ہو رہے تھے تو کرن نے اجنبی سے کہا۔ جگدیش وعدہ کرو کہ تم ہوٹل میں کوئی غلط حرکت نہیں کرو گے شاید ہمیں کوئی غلط حرکت کرنے کی ضرورت پیش نہ آئے۔ جگدیش نے جواب دیا۔ پہلے ہم انیل داس کو پیسوں سے رام کرنے کی کوشش کریں گے اس کے بعد دیکھا جائے گا۔ تمہارا مطلب یہ ہے کہ کیا تم اسے بھی حصے دار بنائو گے جگدیش کرن نے حیرت سے کہا۔ پورا حصے دار نہیں۔ جگدیش نے اسے سمجھاتے ہوئے کہا۔ اسے صرف چند ہزار روپے دیں گے تاکہ یہ لوگ اپنی زبان بند رکھیں۔ راہ داری میں انہیں کسی نے نہیں دیکھا۔ منیجر رندھیر نے کمرے کا دروازہ اپنی چابی سے کھولا۔ وہ سب اندر داخل ہوگئے۔ انیل داس ٹی وی دیکھتے ہوئے مزے سے پائپ کے کش لے رہے تھے۔ انہیں کمرے میں شاید ماچس مل گئی تھی۔ انہوں نے گردن موڑ کر حیرت بھری نظروں سے اپنی بیوی شانتی کے ساتھ منیجر اور اس کی بیوی کو دیکھا۔ ان کے چہرے پر مسکراہٹ پھیل گئی۔ جگدیش نے دروازہ بند کیا اور شانتی نے آگے بڑھ کر ٹی وی آف کردیا۔ خوش آمدید مسٹر رندھیر انیل داس نے مسکراتے ہوئے کہا۔ پھر ان کی نظریں جگدیش کے چہرے پر پڑیں تو ان کی مسکراہٹ ایک دم رخصت ہوگئی۔ اپنی بیوی کی طرح وہ بھی جگدیش کو دیکھتے ہی پہچان گئے تھے۔ پھر فوراً انہیں اپنی بیوی کے غیر معمولی طرز عمل کا بھی احساس ہوا۔ انہوں نے سوالیہ نظروں سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ تم نے ٹھیک پہچانا جان شانتی نے اپنے شوہر سے کہا۔ مسٹر اور مسز رندھیر وہی مجرم ہیں جن کے اسکیچ اخباروں میں چھپے تھے آپ مسٹر رندھیر انیل داس نے شدید حیرت سے منیجر کو دیکھا۔ منیجر کا چہرہ ندامت سے سرخ ہوگیا۔ جہاں تک آپ کی بیوی کا تعلق ہے میں سمجھ سکتا ہوں کہ وہ آخر کیوں جرم کی طرف راغب ہوئی۔ انیل داس بولے۔ میں بڑی صاف گوئی سے یہ کہوں گا کہ جب پہلی مرتبہ میں نے آپ کی بیوی کو دیکھا تھا تو ان کے متعلق میرا تاثر یہی تھا کہ یہ عورت دولت کی بھوکی ہے اور دولت کے حصول کے لئے کوئی بھی کام کرسکتی ہے، لیکن آپ مسٹر رندھیر آخر آپ ایسے جرم کی جانب مائل کیوں ہوگئے منیجر رندھیر نے سر ہلاتے ہوئے جگدیش کی طرف دیکھا اور وضاحت کے انداز میں بولا۔ جگدیش میری بیوی کا کزن ہے۔ اوہ انیل داس نے کہا۔ تو آپ کو خراب صحبت نے تباہ کیا۔ یہ کہہ کر انہوں نے مڑکر جگدیش کی طرف دیکھا اور بولے۔ آپ کو شرم آنی چاہئے۔ جگدیش نے چند لمحوں تک انیل داس کو خاموشی سے گھورتے ہوئے ان کی بیوی کو مخاطب کیا۔ آپ کے شوہر تو اچھے خاصے کامیڈین ہیں۔ شریمتی میرا خیال تھا کہ یہ خیالات پڑھنے کے ماہر ہیں۔ ہاں لیکن اس میں شعبدے بازی کا زیادہ دخل ہوتا ہے، جس انداز میں ہم اپنا شو پیش کرتے ہیں اسے دیکھنے والے بہت پسند کرتے ہیں۔ شانتی نے آگے بڑھ کر اپنے شوہر کی جیب میں لائٹر ڈالتے ہوئے جواب دیا۔ تم ان لوگوں میں کیسے پھنس گئیں شانتی انیل داس نے اپنی بیوی سے پوچھا۔ بدقسمتی سے میں اس وقت ان کے پاس ملنے گئی، جب یہ لوگ آپس میں رقم تقسیم کر رہے تھے۔ اتفاق سے جگدیش کے پاس ریوالور بھی ہے۔ شانتی نے جگدیش کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے شوہر کو متنبہ کیا۔ خیر اگر اس کے پاس ریوالور نہ بھی ہو تب بھی یہ تنہا ہم دونوں سے آسانی سے نمٹ سکتا ہے۔ انیل داس نے پرسکون لہجے میں کہا۔ ویسے ان کے کیا ارادے ہیں کیا یہ ہمیں قتل کرنا چاہتے ہیں نہیں بظاہر ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ ہماری خاموشی دولت کے عوض خریدنا چاہتے ہیں۔ انیل داس نے بغور اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ ان دونوں کی نظریں چند لمحوں کے لئے ملیں۔ یوں محسوس ہوتا تھا جیسے ان دونوں میں نظروں کے ملاپ کے ذریعے خیالات کا تبادلہ ہو رہا ہے۔ پھر انیل داس نے جگدیش کی طرف دیکھا اور بولا۔ تمہارے خیال میں ہماری خاموشی کی مناسب قیمت کیا ہوسکتی ہے مسٹر جگدیش ابھی میں نے اس مسئلے پر غور نہیں کیا۔ جگدیش نے جواب دیا۔ اس کا انحصار تمہاری معاشی حالت پر ہے، تم اپنی شعبدے بازی سے کتنا کما لیتے ہو بس گزر اوقات ہوجاتی ہے۔ یقیناً اگر تمہارے پاس معقول رقم ہوتی تو تم کبھی اس ہوٹل میں قیام نہ کرتے۔ جگدیش نے کمرے پر ایک طائرانہ نظر ڈالتے ہوئے کہا۔ اگر بالفرض تمہیں چند ماہ تک کوئی کام نہ ملے تو تمہاری مالی حالت کیا ہوگی اکثر ایسا ہوتا رہتا ہے۔ میں اس صورت میں معذوروں کی مدد کرنے والے ادارے سے الائونس لے کر گزارہ کرتا ہوں۔ انیل داس نے خشک لہجے میں جواب دیا۔ اس سے یہ ثابت ہوا کہ تمہاری معاشی حالت بہت نازک ہے میرے نزدیک ہر شخص کی ایک قیمت ہوتی ہے۔ تمہارا خیال درست بھی ہے اور غلط بھی انیل داس کہنے لگا۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ جس بچی کو اغوا کیا گیا تھا وہ زندہ سلامت اپنے والدین کے پاس موجود ہے۔ بچی کا باپ کروڑپتی ہے، اس لئے اس نے آسانی سے دو لاکھ کی رقم ادا کردی۔ دو لاکھ روپے اس کے لئے حقیقت نہیں رکھتے۔ ہاں اگر صورت حال اس کے برعکس ہوتی اور بچی کو قتل کردیا جاتا تو میں ایک لمحے کے لئے تم لوگوں سے کسی قسم کی مفاہمت کے بارے میں غور نہ کرتا۔ خیر مجھے خوشی ہے کہ تم ہم سے سمجھوتا کرکے اپنے ضمیر کے ہاتھوں تکلیف نہیں اٹھائو گے۔ اس لئے میں تمہاری قیمت جاننا چاہتا ہوں۔ جگدیش نے لمبا سانس لے کرکہا۔ لیکن اس سے پہلے میں ایک بات واضح کردوں۔ میرے نزدیک اس مسئلے کا آسان حل یہ ہے کہ تم دونوں کو قتل کردیا جائے۔ مگر اس میں ذرا سی قباحت ہے۔ قتل کے بعد دو لاشیں ٹھکانے لگانا آسان کام نہیں ہوگا اور اس کے بعد ممکن ہے پولیس تمہاری تلاش میں یہاں بھی آئے۔ اس سے بھی نمٹنا پڑے گا۔ لہٰذا میں سوچ رہا ہوں کہ اگر تین چار ہزار کی رقم سے تمہارا منہ بند ہوسکتا ہے تو ان مصیبتوں میں پڑنے کی کیا ضرورت ہے انیل داس بڑی سجیدگی سے کچھ دیر غور کرتے رہے۔ پھر بولے۔ تمہارا نقطۂ نظر بہت معقول ہے جگدیش جس خوبصورتی سے تم نے حالات کا تجزیہ کیا ہے، اس کے پیش نظر میں مجبور ہوگیا ہوں کہ میں مباحثے سے کام نہ لوں۔ میری ٹانگیں دیکھ رہے ہو یہ ایک حادثے کا نتیجہ ہیں۔ آٹھ برس پہلے میں ایک سرکس میں ملازم تھا۔ تب یہ حادثہ پیش آیا تھا۔ میری ٹانگیں اب بھی درست ہوسکتی ہیں لیکن اس کے لئے آٹھ ہزار روپے درکار ہیں، دو ہزار اور شامل کرلو۔ کیونکہ میں آپریشن کے کچھ عرصے تک کوئی کام نہیں کرسکوں گا۔ یہ رقم دس ہزار ہوئی۔ میرا خیال ہے کہ ہماری خاموشی کی یہ قیمت زیادہ نہیں ہے۔ دس ہزار روپے جگدیش نے منیجر کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ قتل جیسا جرم کرنے سے بہتر ہے کہ دس ہزار کی رقم ادا کردی جائے منیجر نے اس کی نظروں کا مطلب سمجھتے ہوئے جواب دیا۔ یہ میرا ذاتی خیال ہے کرن سے بھی پوچھ لو وہ کیا کہتی ہے کرن کو مارو گولی۔ جگدیش نے کہا۔ اگر وہ کوئی گڑبڑ کرے تو اس کے دو چار دانت توڑ دینا، بلکہ یہ حرکت تو تمہیں برسوں پہلے کردینی چاہئے تھی ہاں شریمتی شانتی آپ کا کیا خیال ہے اس سودے کے بارے میں۔ ہمارے سارے فیصلے میرے شوہر کرتے ہیں۔ شانتی نے جواب دیا۔ خوب۔ جگدیش نے کہا۔ رندھیر تم اور کرن نیچے جائو اور سوٹ کیس سے دس ہزار روپے نکال لائو۔ اگر کرن بکواس کرے تو ایک گھونسا میری طرف فوراً مار دیتا۔ کرن نے خونخوار نظروں سے جگدیش کی طرف دیکھا اور پیر پٹختی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔ اس کے پیچھے منیجر بھی تھا۔ کمرے میں جگدیش، شانتی اور انیل داس رہ گئے۔ تینوں خاموشی سے منیجر کی واپسی کا انتظار کرنے لگے۔ دس منٹ گزر گئے جگدیش بے چینی سے کمرے میں ٹہلنے لگا۔ میرا خیال ہے کہ کرن ضرور کوئی بکواس کر رہی ہے، ورنہ رندھیر کو اتنی دیر نہیں لگ سکتی تھی۔ جگدیش نے بڑبڑاتے ہوئے کہا۔ اگر رندھیر مزید پانچ منٹ تک نہ آیا تو مجھے نیچے جانا پڑے گا۔ تمہاری کزن کرن بے حد لالچی عورت ہے۔ انیل داس نے کہا۔ ہاں لیکن اگر اس وقت کرن کی رائے کی کوئی اہمیت ہوتی تو تم دونوں اس وقت مردہ ہوتے۔ میرا خیال ہے کہ وہ اس بچی کو بھی قتل کرنے کے حق میں تھی شانتی نے کہا۔ بے شک۔ جگدیش نے جواب دیا۔ کرن غلط مقام اور غلط وقت پر پیدا ہوئی ہے اسے تو جرمنی میں ہٹلر کے دور حکومت میں پیدا ہونا چاہئے تھا۔ میں خود بھی کوئی اچھا آدمی نہیں ہوں لیکن قتل و غارت گری سے ہمیشہ احتراز کرتا ہوں۔ اگر مجھے یقین ہو جاتا کہ تم دونوں کی آزادی میرے لئے خطرناک ہوگی تو میں کسی تکلف کے بغیر تم دونوں کو ہلاک کر دیتا۔ اس صورت میں یہ اقدام قتل نہ کہلاتا۔ میں اپنے دفاع کے لئے سب کچھ کرسکتا ہوں۔ ظاہر تھا کہ جگدیش اس جملے سے ان دونوں پر یہ ثابت کرنا چاہتا تھا کہ وہ ڈرپوک قسم کا آدمی نہیں ہے اور مستقبل میں کبھی انہوں نے غداری کی کوشش کی تو وہ انہیں بے تکلف قتل کردے گا۔ بے شک خود حفاظتی اقدام کی نوعیت دوسری ہوتی ہے۔ انیل داس نے کہا۔ اس کے علاوہ تم لوگوں کو دس ہزار روپے دینے میں میرا حصہ صرف تین ہزار، تین سو اور تینتیس روپے ہوگا۔ میں یہ معمولی سی رقم بچانے کے لئے آخر قتل جیسے جرم کا ارتکاب کیوں کروں جب کہ میرے پاس چھیاسٹھ ہزار سے زیادہ رقم موجود ہے۔ کیوں نہ میں سوا تین ہزار دے کر اطمینان سے آزادی کی زندگی بسر کروں اور جو دولت میرے حصے میں آئی ہے اس سے لطف اٹھائوں۔ جگدیش تمہاری سوچ بے حد منطقی ہے۔ انیل داس نے کہا۔ یہ فیصلہ سب کے لئے بہتر ہوگا۔ اس کے علاوہ ہمیں قتل کرنا تمہارے لئے بے حد نقصان دہ ثابت ہوگا۔ کیونکہ پولیس قتل کا سراغ لگا کر تم لوگوں تک پہنچ سکتی ہے۔ ہاں ایسا ہوسکتا ہے اور میں اس نکتے پر بھی غور کرچکا ہوں۔ اس وقت منیجر رندھیر کمرے میں داخل ہوا۔ اس کے ہاتھ میں کاغذ کی ایک تھیلی تھی اور چہرے پر تازہ خراشوں کے نشانات تھے۔ مجھے کرن کو سبق دینا پڑا جگدیش وہ مان نہیں رہی تھی۔ منیجر نے فخریہ لہجے میں کہا اور کاغذ کا تھیلا کے حوالے کردیا۔ شادی کی پہلی ہی رات تمہیں کرن کو ایسا سبق دے دینا چاہئے تھا، وہ اسی سلوک کی مستحق ہے۔ جگدیش نے تیزی سے کہا۔ پھر اس نے لفافہ کھول کر نوٹوں کی گڈیاں نکالتے ہوئے ان کی گنتی کی۔ اس میں چھوٹے بڑے نوٹوں کی گڈیاں تھیں لیکن بڑے نوٹوں کی گڈیاں زیادہ تھیں۔ اس نے نوٹوں کی گڈیوں کو بغور معائنہ کرنے کے بعد دوبارہ تھیلی میں ڈال دیا۔ اس تھیلی میں ایک اور تھیلی تھی، جس میں دس ہزار روپے رکھ کے وہ تھیلی اس نے انیل داس کی گود میں پھینک دی۔ نوٹ نئے اور اصلی ہیں۔ پھر بھی احتیاطاً آپ لوگ انہیں استعمال کرنے سے پہلے دو چار مہینے انتظار کرلیں۔ شاید بینک والوں نے ان کے نمبر اخبار میں شائع کروا دیئے ہوں۔ ٹھیک ہے، جہاں آٹھ برس انتظار کیا ہے وہاں دو چار مہینے اور سہی۔ انیل داس بولے۔ کچھ دیر کمرے میں خاموشی طاری رہی۔ پھر منیجر نے جگدیش سے پوچھا۔ جگدیش اب تمہارا کیا ارادہ ہے کیا سوچ رہے ہو میں کل صبح ہی اس شہر سے چلا جائوں گا۔ جگدیش نے جواب دیا۔ کیوں کہ اس تصویر کی اشاعت نے اس شہر میں میرا رہنا دوبھر کردیا ہے۔ چند لمحوں کے بعد وہ دونوں انیل داس سے مصافحہ کرکے رخصت ہوگئے۔ شانتی نے دروازہ بند کردیا اور اپنے شوہر کے سامنے کھڑی ہوگئی۔ دونوں کی نظریں ملیں۔ کیا تمہارے پاس ریزگاری ہے انیل داس نے چند لمحوں کے بعد سرگوشی میں پوچھا۔ شانتی نے اپنا پرس اٹھا کر ایک سکہ نکالا جو پانچ روپے کا تھا۔ ابھی ٹھہر جائو۔ ممکن ہے۔ وہ دونوں باہر کھڑے ہوئے لفٹ کا انتظار کر رہے ہوں۔ انیل داس نے دھیمے لہجے میں کہا۔ وہ جس ہوٹل میں ٹھہرے ہوئے تھے وہاں ہر کمرے میں ٹیلی فون کی سہولت موجود نہیں تھی۔ البتہ ہر منزل پر دیوار کے ساتھ ایک ٹیلی فون لگا ہوا تھا۔ اس میں پانچ روپے کا سکہ ڈال کر ٹیلی فون کیا جاسکتا تھا۔ شانتی نے دس منٹ تک انتظار کیا، پھر بڑی احتیاط کے ساتھ تھوڑا سا دروازہ کھول کر راہداری میں نظر ڈالی۔ راہداری سنسان پڑی تھی۔ وہ کمرے سے باہر نکلی اور پھرتی سے راہداری عبور کرکے ہال کی جانب بڑھی۔ وہاں ٹیلی فون لگا ہوا تھا۔ ٹیلیفون کے قریب آگ بجھانے والا آلہ رکھا تھا اور آگ لگنے کی صورت میں جان بچانے کے لئے شیشے کے بکس میں ایک کلہاڑی لٹکی ہوئی تھی۔ شانتی نے سکہ سوراخ میں ڈال دیا اور زیرو ڈائل کیا۔ ہیلو آپریٹر شانتی نے دھیمے لہجے میں کہا۔ کسی قریبی پولیس اسٹیشن سے رابطہ قائم کرا دو۔ آپریٹر نے فوراً حکم کی تعمیل کی۔ دوسری جانب تین مرتبہ گھنٹی بجنے کے بعد کسی نے ریسیور اٹھایا۔ ہیلو پولیس ہیڈ کوارٹر میں سب انسپکٹر پرکاش آنند بول رہا ہوں۔ ایک مردانہ آواز ابھری۔ سب انسپکٹر شانتی نے جلدی سے کہا۔ میں کلینک اغوا کیس کے مجرموں کا نام اور پتا جانتی ہوں۔ آپ فوراً نوٹ کرلیں۔ آپ کون ہیں شریمتی جی سب انسپکٹر نے تیز لہجے میں دریافت کیا۔ اس سے پہلے کہ شانتی کوئی جواب دیتی ایک ہاتھ نے پیچھے سے ٹیلی فون کا ہک دبا کر سلسلہ منقطع کردیا اور دوسرے ہاتھ نے شانتی سے ریسیور چھین لیا۔ دوسرے ہی لمحے شانتی اور منیجر کی بیوی کرن آپس میں بلیوں کی طرح گتھم گتھا ہوگئیں۔ وہ بری طرح ایک دوسرے کو نوچ کھسوٹ رہی تھیں اور لاتیں مار رہی تھیں۔ تھپڑوں نے ان کے چہرے سرخ کردیئے تھے۔ موقع پاتے ہی شانتی نے ایک مرتبہ خود کو کرن کی گرفت سے آزاد کر لیا اور تیزی کے ساتھ الٹے قدموں اپنے کمرے کی جانب بھاگنے لگی۔ پھر ایک جگہ وہ کسی چیز سے ٹھوکر کھا کر بری طرح فرش پر گر پڑی۔ کرن نے موقع سے فائدہ اٹھایا۔ وہ بھاگتی ہوئی ٹیلیفون کے پاس گئی۔ اس نے شیشے کا بکس کھول کر اندر کلہاڑی نکالی اور اسے دونوں ہاتھوں سے سر سے بلند کرکے شانتی کی طرف لپکی۔ شانتی چند لمحے دہشت زدہ نظروں سے کرن کو اپنی طرف آتا ہوا دیکھتی رہی۔ پھر وہ تیزی سے اپنے کمرے کی طرف بھاگی۔ خوف اور دہشت کی وجہ سے اس کی ٹانگوں میں بلا کی پھرتی آگئی تھی۔ وہ اتنا تیز بھاگنے کے بارے میں کبھی سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ جب وہ اپنے کمرے کے دروازے پر پہنچی تو کرن سے چھ فٹ کے فاصلے پر تھی۔ ان چند لمحوں میں شانتی پھرتی سے دروازہ کھول کر اندر داخل ہوئی، پلٹی اور دروازہ بند کرلیا۔ اس کی سانس بری طرح پھولی ہوئی تھی۔ وہ دروازے سے ٹیک لگا کر اپنا تنفس درست کرنے لگی۔ پھر اچانک اس نے دروازے میں چابی گھومنے کی آواز سنی۔ کرن ماسٹر چابی کی مدد سے دروازے کا قفل کھول رہی تھی۔ شانتی نے دہشت بھری نظروں سے دروازے کی طرف دیکھا۔ دروازے میں چٹخنی نہیں تھی، البتہ اندر کی طرف ایک کنڈی جھول رہی تھی۔ شانتی نے پھرتی سے کنڈی لگا دی۔ ایک لمحے کے بعد دروازہ کھلا لیکن کنڈی لگنے کے باعث دروازہ چند انچ سے زیادہ نہ کھل سکا۔ کرن دروازے سے منہ لگائے خونخوار نظروں سے شانتی کو دیکھ کر دانت پیس رہی تھی۔ شانتی دروازے سے دور ہٹ گئی۔ اچانک کرن نے دروازہ بند کردیا۔ خودکار قفل بند ہوگیا۔ کیا ہو رہا ہے انیل داس وہیل چیئر گھماتے ہوئے دروازے کے پاس آگئے۔ جب میں فون کر رہی تھی تو کرن نے مجھے جکڑ لیا۔ شانتی نے جواب دیا۔ مجھے اس کی آمد کا پتا نہیں چل سکا۔ اس نے میرے ہاتھ سے ریسیور چھین کر سلسلہ منقطع کردیا اور پھر مجھے ہلاک کرنے کے لئے کلہاڑی لے کر میرے پیچھے بھاگی۔ کیا تم نے پولیس کو پیغام دے دیا ہے نہیں۔ شانتی نے نفی میں سر ہلایا۔ اس کا موقع نہیں مل سکا۔ مجھے یقین ہے کہ کرن نے میری گفتگو سن لی تھی۔ اس لئے ہمیں فوراً کچھ نہ کچھ کرنا چاہئے۔ شانتی بڑھ کر دروازہ کھولنے لگی۔ ابھی نہیں انیل داس نے تنبیہ کی۔ ممکن ہے وہ باہر انتظار کر رہی ہوگی۔ میں دروازہ نہیں کھول رہی۔ کنڈی تو لگی ہوئی ہے۔ میں ذرا سا دروازہ کھول کر دیکھ رہی ہوں کہ وہ کیا کر رہی ہے شانتی نے ادھ کھلے دروازے سے باہر کی طرف دیکھا۔ منیجر کی بیوی ٹیلی فون استعمال کر رہی تھی۔ وہ ٹیلی فون کر رہی ہے۔ شانتی نے دروازہ بند کرتے ہوئے بتایا۔ میرا خیال ہے کہ وہ جگدیش اور رندھیر کو نیچے سے اپنی مدد کے لئے بلا رہی ہے۔ افسوس انیل داس افسردگی سے بولے۔ کاش کرن کے پاس پانچ روپے کا سکہ نہ ہوتا اور اسے ان لوگوں کو بلانے کے لئے نیچے جانا پڑتا ایسی صورت میں تم موقع سے فائدہ اٹھا کر پولیس کو فون کرسکتی تھیں یا کسی اور کو اپنی مدد کے لئے بلا سکتی تھیں۔ شانتی چند لمحوں تک غور کرتی رہی۔ ممکن ہے کوئی مسافر ہمارے دروازے کے سامنے سے گزرے تو ہم اسے پکار کر مدد کے لئے بلا سکتے ہیں۔ ہمیں یہاں ٹھہرے ہوئے ایک ہفتہ ہوچکا ہے۔ اس عرصے میں تم نے یہاں کتنے مسافروں کو آتے جاتے دیکھا ہے اس سوال نے شانتی کو مایوس کردیا۔ یہ حقیقت تھی کہ وہ ہوٹل چھوٹا اور قدیم ہونے کے باعث آدھے سے زیادہ خالی تھا۔ بعض بوڑھے وہاں مستقل مقیم تھے، مگر وہ رات کو بہت جلد سو جایا کرتے تھے۔ اب کیا کیا جائے شانتی نے سوالیہ نظروں سے دیکھا۔ میرا خیال ہے کہ ہمیں سب سے پہلے کھڑکی سے باہر دیکھنا چاہئے ذرا اس کمرے کی کھڑکی تو کھولو۔ شانتی نے کھڑکی کھولی اور باہر جھانک کر دیکھا۔ کھڑکی ایک گلی میں کھلتی تھی۔ بالکل سنسان پڑی تھی۔ اس وقت رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ وہ علاقہ اندھیرا ہوتے ہی سنسان ہو جاتا تھا۔ کیوں کہ اندھیرا ہوتے ہی وہاں لچوں لفنگوں کی حکمرانی شروع ہوجاتی تھی۔ اس کے علاوہ وہ پیر کی رات تھی، اس دن علاقے کے تمام گھٹیا شراب خانے بند ہوتے تھے۔ اس لئے وہاں اور بھی سناٹا تھا۔ شانتی نے کمرے کی کھڑکی بند کر کے خواب گاہ کی کھڑکی کھولی۔ خواب گاہ کی کھڑکی ایک بڑی شاہراہ پر کھلتی تھی۔ مگر نیچے اسے ایک بھی راہ گیر نظر نہیں آیا، البتہ موٹریں اور اسکوٹرز آتے جاتے نظر آ رہے تھے۔ باہر ہوا کافی تیز چل رہی تھی۔ اس لئے شانتی کسی گاڑی یا اسکوٹر والے کو چلا کر اپنی طرف متوجہ کرنے کی کوشش کرتی تو ناکام رہتی تیز ہوا کی بنا پر اس کی آواز چوتھی منزل سے نیچے نہیں پہنچ سکتی تھی۔ اس نے سڑک کی طرف سے مایوس ہو کر نچلی منزل پر دائیں بائیں کھڑکیوں کی طرف دیکھا۔ سخت سردی کے باعث تمام کھڑکیاں بند تھیں۔ اگر وہ پوری آواز سے بھی چلاتی تو کسی کمرے میں آواز پہنچنے کی امید نہیں تھی، اس نے مایوس ہو کر کھڑکی بند کردی۔ کیا ہماری دونوں سمتوں میں کمرے ہیں اس نے اپنے شوہر سے دریافت کیا۔ معلوم نہیں انیل داس نے جواب دیا۔ اگر تم اس امکان پر غور کر رہی ہو کہ پڑوسیوں کو متوجہ کر لو گی تو یہ خیال ترک کردو۔ یہ ہوٹل پرانے زمانے کا بنا ہوا ہے۔ اس وقت بے حد ٹھوس اور موٹی دیواریں تعمیر کرنے کا رواج تھا کیا تم نے کبھی برابر کے کمرے سے کسی قسم کی آواز آتی ہوئی محسوس کی ہے نہیں شانتی نے یادداشت پر زور دینے کے بعد اقرار کیا۔ بس اب ایک ہی ترکیب ہے کہ کھڑکی کھول کر راہ گیر کا انتظار کیا جائے اور جب کوئی شخص گزرے تو چلا کر اپنی طرف متوجہ کیا جائے شانتی کھڑکی کھول کر باہر جھانکنے لگی۔ اس نے اچانک کمرے کا داخلی دروازہ کھلنے کی آواز سنی۔ کنڈی ہلنے کی کھنکھناہٹ ہو رہی تھی۔ شانتی دوڑتی ہوئی خواب گاہ سے نکلی اور ڈرائنگ روم میں داخل ہوگئی۔ انیل داس اس کے پیچھے تھا۔ دروازہ چند انچ کھلا ہوا تھا، صرف لوہے کی کنڈی نے اسے پورا کھلنے سے روکے رکھا تھا۔ انیل داس نے ایک مضبوط ہاتھ دیکھا، جس میں نٹ بولٹ کاٹنے والا آلہ نظر آ رہا تھا۔ یہ لوگ کٹر سے کنڈی کاٹ رہے ہیں۔ شانتی نے تشویش سے اپنے شوہر سے کہا۔ پھر اس نے پلٹ کر اپنے شوہر کی وہیل چیئر زور سے دھکیلی۔ وہیل چیئر پھسلتی ہوئی خواب گاہ میں داخل ہوگئی۔ شانتی خود بھی دوڑ کر خواب گاہ میں آگئی۔ اس نے خواب گاہ کا دروازہ بند کردیا۔ خواب گاہ کے دروازے کا قفل بھی خودکار تھا، لیکن اس کا مقفل کرنے اور کھولنے کا نظام اندر کی طرف تھا۔ ایک چھوٹا سا بٹن اوپر نیچے کرکے تالا کھولا یا بند کیا جاسکتا تھا۔ اس دروازے کے خودکار قفل میں باہر یا اندر کی جانب چابی ڈالنے کا کوئی سوراخ نہیں یہ ایک پرانے طرز کا مضبوط تالا تھا۔ شانتی نے خواب گاہ میں رکھی ہوئی میز کھسکا کر دروازے کے آگے لگا دی۔ اس نے دروازہ پہلے ہی اندر کی طرف سے بٹن اونچا کرکے مقفل کردیا تھا۔ پھر وہ حالات کی نئی کروٹ کا انتظار کرنے لگی۔ چند لمحوں کے بعد کنڈی ٹوٹنے کی آواز آئی۔ پھر قدموں کی آہٹیں خواب گاہ کے دروازے پر آ کے رک گئیں۔ کسی نے پوری قوت سے کندھے کا زور لگا کر دروازہ توڑنے کی کوشش کی لیکن دروازہ بہت مضبوط تھا۔ پھر شانتی دروازے سے کان لگا کر باہر ہونے والی گفتگو سننے لگی۔ کرن کہہ رہی تھی کہ دروازہ کلہاڑی سے توڑ دیا جائے۔ جگدیش نے اس تجویز کی مخالفت کی اور اس کا کہنا تھا کہ دروازے پر کلہاڑی آزمانے سے بہت زیادہ شور ہوگا۔ ممکن ہے دوسرے مسافر شور سن کر معاملے کی تحقیق کے لئے آجائیں۔ باہر چند لمحے خاموشی طاری رہی۔ پھر جگدیش نے اچانک منیجر کو یاد دلایا کہ اس کے گودام میں سوراخ کرنے کی ایک مشین اور بجلی سے چلنے والی ایک بہت باریک آری ہے۔ کیوں نہ مشین کے ذریعے پہلے دروازے میں سوراخ کیا جائے۔ پھر آری کے ذریعے تالے کے چاروں طرف کی لکڑی کاٹ دی جائے۔ تالا باہر نکلتے ہی دروازہ کھل جائے گا۔ کرن نے فوراً اس تجویز کی تائید کی۔ شانتی نے کسی کے واپس جانے کی چاپ سنی۔ منیجر مطلوبہ اوزار لینے گودام میں جا رہا تھا۔ شانتی نے اپنے شوہر کو ان کا منصوبہ بتانے کے بعد پوچھا۔ اب کیا کیا جائے انیل داس خاموشی سے کچھ سوچتے رہے۔ شانتی نے کھڑکی سے جھانک کر نیچے دیکھا۔ سڑک اب بھی خالی تھی۔ دور دور تک کوئی راہ گیر نظر نہیں آ رہا تھا، البتہ گاڑیوں کی آمد و رفت جاری تھی۔ کوئی راہ گیر نظر نہیں آیا شانتی نے مایوسی سے پلٹ کر کہا۔ تمہارے خیال میں ان لوگوں کو سوراخ کرتے اور تالا کاٹنے میں کتنی دیر لگے گی۔ رندھیر ابھی نیچے گیا ہے اسے اوزار تلاش کرنے میں چند منٹ لگیں گے، پھر وہ اوپر آنے لگا۔ دروازے کی لکڑی بہت مضبوط اور موٹی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اس پورے کام میں بیس منٹ ضرور لگیں گے انیل داس نے حساب کرتے ہوئے جواب دیا۔ شانتی ایک مرتبہ پھر کھڑکی سے باہر جھانک کر دیکھنے لگی۔ انیل داس اپنی وہیل چیئر بالکل اس کے قریب لے آئے۔ شانتی نے پلٹ کر عجیب لہجے میں اپنے شوہر سے پوچھا۔ آپ کے خیال میں اس کھڑکی اور سڑک کے درمیان کتنا فاصلہ ہوگا انیل داس نے کرسی کھڑکی کے قریب کی اور باہر جھانک کر نیچے دیکھا۔ ہر کمرے کی چھت دس فٹ اونچی ہے۔ انیل داس حساب لگاتے ہوئے کہنے لگے۔ اس طرح نچلی تین منزلوں کی اونچائی تیس فٹ ہوگئی۔ ان کے درمیان ایک ایک فٹ موٹی چھت بھی لگا لو۔ تینتیس فٹ، گرائونڈ فلور کا فرش سڑک سے کم از کم چار فٹ اونچا ہے۔ کل سینتیس فٹ ہوئے۔ اور یہ کھڑکی اس کمرے کے فرش سے تین فٹ اونچی ہے۔ لیلیٰ کل چالیس منٹ شانتی نے کچھ سوچتے ہوئے کہا۔ آخر تمہارا کیا ارادہ ہے انیل داس نے حیرت سے اپنی بیوی کی طرف دیکھا۔ شانتی نے اپنے شوہر کا سوال نظرانداز کرتے ہوئے ایک بار پھر کھڑکی سے نیچے جھانک کر دیکھا۔ آپ وہ تار دیکھ رہے ہیں شانتی نے نیچے کی طرف اشارہ کیا۔ وہ سب سے نچلا تار جو بہت موٹا ہے۔ وہ اندازاً سڑک سے کتنا اوپر ہوگا انیل داس نے کرسی کے ہتھوں پر کہنیوں کے بل جھک کر نیچے دیکھا۔ انہیں سڑک کے موڑ پر ایک کھمبا نظر آیا۔ کھمبے پر اوپر کی طرف دو باریک تار کھنچے ہوئے تھے۔ ان سے چند فٹ نیچے تین چار تار اور گزر رہے تھے اور ان تاروں سے تقریباً چھ فٹ نیچے ایک خاصا موٹا تار جا رہا تھا، جس کا قطر آدھے انچ سے کم نظر نہیں آتا تھا۔ وہ کچھ دیر موٹے تار اور سڑک کے درمیان کا فاصلہ دیکھتے رہے۔ میرا خیال ہے کہ سڑک کا درمیانی فاصلہ پندرہ فٹ سے کم نہیں ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ موٹے تار اور اس کھڑکی کا درمیانی فاصلہ پچیس فٹ ہے۔ شانتی نے کہا۔ کیا اس تار میں کرنٹ ہوگا نہیں۔ انیل داس نے جواب دیا۔ یہ بجلی کے تار نہیں ہیں۔ ٹیلی فون کے تار ہیں، مگر تمہارا ارادہ وہی ہے جو میں سمجھ رہا ہوں تو اس ارادے سے باز آ جائو۔ ایسی کوشش خودکشی کے مترادف ہوگی۔ اگر تم یہ سوچ رہی ہو کہ یہاں سے چھلانگ لگا کر وہ موٹا تار پکڑ لو گی تو ممکن ہے تم اس تک پہنچنے میں کامیاب ہو جائو لیکن اتنے اوپر سے چھلانگ لگانے پر تم تار پکڑو گی تو تمہارے ہاتھوں کو زبردست جھٹکا لگے گا اور وہ جھٹکا تم برداشت نہیں کرسکو گی، تمہارے ہاتھوں سے تالا چھوٹ جائے گا اور تم سیدھی سڑک پر جا گرو گی۔ لیکن جب تم سرکس میں ملازم تھے اور اس قسم کی قلابازیاں کھایا کرتے تھے تو میں تمہیں بڑے غور سے دیکھتی تھی تمہاری ایک ایک جنبش میرے ذہن میں محفوظ ہے۔ میرا خیال ہے کہ میں بڑی کامیابی سے تمہاری نقل کرلوں گی اور پھر مجھے تیرنا بھی تو آتا ہے۔ مگر میں کبھی اتنے فاصلے سے قلابازی نہیں کھاتا تھا۔ یہ واقعہ آٹھ برس پہلے کا ہے۔ تم یقیناً بہت سی باتیں بھول چکی ہوگی، نہ وہ مہارت ہے نہ تمہارے بدن میں پھرتی اور نہ تمہارے اندازے اتنے درست ہیں کہ یہاں سے چھلانگ لگا کر اس تار تک پہنچ سکو۔ یہ خیال ذہن سے نکال دو۔ تم دیکھ رہی ہو ایک مرتبہ میرا اندازہ غلط نکلا اور میں آٹھ برس سے وہیل چیئر پر بیٹھا ہوں۔ اگر تمہارا اندازہ غلط ثابت ہوگیا تو تمہاری ایک ہڈی بھی سلامت نہیں رہے گی۔ کوشش کرنے میں کیا حرج ہے شانتی نے کہا۔ یہیں بیٹھے بیٹھے اپنے قتل کئے جانے کا انتظار کرنا کون سی دانش مندی ہے۔ کیوں نہ ایک کوشش کی جائے۔ اگر میں اس کوشش میں کامیاب ہوگئی تو ہم دونوں زندہ بچ جائیں گے۔ دوسری صورت میں زندہ بچنے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ شانتی نے لمحے بھر کی دیر نہیں کی۔ اس نے فوراً ہی الماری سے انیل داس کی جینز اور جرسی نکال کر پہنی۔ اتفاق سے یہ جوڑا سرکس کے زمانے کا تھا جو ابھی تک کسی وجہ سے رکھا ہوا تھا۔ وہ بولی۔ شادی کے بعد سے عام غذا اور گھریلو کام کاج کے باعث میرا جسم ابھی تک متناسب اور چھریرا ہے، جس کے باعث یہ لباس قدرے ڈھیلا ہے لیکن اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آج سے پہلے تم نے کبھی چھلانگ نہیں لگائی۔ البتہ سوئمنگ پول میں جا کر تیرتی رہی ہو۔ کودنے اور نہانے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ پاگل نہ بنو۔ اس طرح خودکشی کرنے سے کیا فائدہ اس طرح قتل ہونے سے بھی کیا فائدہ شانتی نے تکرار کے انداز میں کہا۔ اگر میں اپنی کوشش میں کامیاب ہوگئی، جس کی پچاس فیصد سے زیادہ امید ہے تو ہم دونوں بچ جائیں گے، ورنہ دوسری صورت میں ہمارا زندہ رہنا ناممکنات میں سے ہے۔ آری چلنے کی آواز نے دونوں کو چونکا دیا۔ بجلی سے چلنے والی وہ باریک آری دروازے کو اس طرح کاٹ رہی تھی جس طرح چھری مکھن کی ٹکیہ کاٹتی ہے۔ شانتی فوراً جھک کر جذباتی لہجے میں بولی۔ گڈبائی۔ میری جان مجھے یاد رکھنا۔ میں نے ہمیشہ تم سے محبت کی ہے۔ انیل داس کی آنکھوں میں آنسو تیرنے لگے۔ وہ اپنی بیوی کو کھڑکی کے دوسری طرف چھجے پر اترتا ہوا دیکھنے لگے۔ چند لمحوں کے بعد کسی نے ان کے عقب میں زور سے دھکا دے کر دروازہ کھول دیا۔ دروازے پر لگی ہوئی میز کھسک گئی۔ انیل داس نے اس طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ وہ پرسکون انداز میں اپنی بیوی کو دیکھتے رہے جو چھجے پر کھڑی ہوئی تھی۔ خواب گاہ میں داخل ہونے والا پہلا شخص جگدیش تھا۔ وہ دوڑ کر اندر داخل ہوا تھا لیکن درمیان میں اچانک اس کے قدم رک گئے اور وہ منہ پھاڑ کے کھڑکی کی طرف دیکھنے لگا۔ دوسرے ہی لمحے منیجر اپنی بیوی کے ساتھ اندر داخل ہوا۔ وہ دونوں بھی دندناتے ہوئے اندر گھس آئے تھے لیکن جیسے ہی ان کی نظر کھڑکی پر پڑی ان کے قدم بھی رک گئے۔ شانتی کھڑکی کے باہر سفید چست لباس میں ملبوس کھڑی تھی۔ اس کا رخ سڑک کی طرف تھا۔ وہ اپنے دونوں ہاتھوں سے کھڑکی کی اوپری چوکھٹ پکڑے ہوئے تھی، نیچے چھلانگ لگانے سے قبل شانتی نے پلٹ کر تینوں مجرموں کی طرف دیکھا اور پھر مسکراتے ہوئے فضا میں چھلانگ لگا دی۔ تینوں مجرموں نے بہ مشکل اپنی حیرت پر قابو پایا اور بجلی کی طرح کھڑکی کی طرف لپکے۔ شانتی کا بدن فضا میں کسی بگلے کی طرح ساکت نظر آیا۔ اس کی مرمریں کمر کمان کی طرح مڑی ہوئی تھی اور اس کے دونوں ہاتھ آگے کی طرف پھیلے ہوئے تھے، جیسے سوئمنگ پول میں چھلانگ لگا رہی ہو۔ موت سے پندرہ منٹ کے فاصلے پر شانتی کے ہاتھوں نے سب سے نچلا اور موٹا تار پکڑ لیا۔ نہایت تیزی سے نیچے کی طرف گرنے کی وجہ سے اس عمل میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ اس کا بدن ایک جھٹکا کھا کر آسمان کی طرف بلند ہونے لگا اور اس کی ٹانگیں نوے ڈگری کے زاویے سے بالکل سیدھی آسمان کی طرف اٹھ گئیں۔ چند لمحوں تک اس کا بدن اسی طرح فضا میں ساکت رہا۔ پھر اس نے بڑی پھرتی سے ٹانگیں نیچے کیں اور اس موٹے تار پر بیٹھ گئی۔ اس نے چوتھی منزل کی کھڑکی کی طرف منہ اٹھا کر ہاتھ ہلایا۔ یہ یہ عورت جگدیش نے خوف زدہ آواز میں کہا۔ پھر وہ کوٹ کی اندرونی جیب سے ریوالور نکال کر شانتی کا نشانہ لینے لگا۔ انیل داس جگدیش کے بالکل پیچھے تھے۔ انہوں نے وہیل چیئر کی پشت سے ٹک کر پوری قوت سے پہیے آگے کی طرف گھمائے۔ وہیل چیئر آگے بڑھ کر جگدیش کی پشت سے ٹکرائی۔ جگدیش کے منہ سے بے ساختہ ایک چیخ نکل گئی۔ اس کے ہاتھ سے ریوالور چھوٹ کر کھڑکی سے باہر گرگیا۔ اگر وہ فوراً چوکھٹ نہ پکڑ لیتا تو سر کے بل کھڑکی سے باہر گرتا۔ منیجر اور کرن نے فوراً جگدیش کو سہارا دے کر پیچھے ہٹایا۔ جگدیش نے گھوم کر پوری قوت سے انیل داس کی طرف گھونسا گھمایا۔ انیل داس اس حملے کے لئے تیار تھے۔ پہیے انہوں نے بڑی تیزی سے پیچھے لگا دیئے تھے۔ ان کی کرسی پھسلتی ہوئی خواب گاہ کے باہر ڈرائنگ روم میں آگئی۔ دیکھو دیکھو وہ کیا کر رہی ہے منیجر رندھیر نے چلا کر کہا۔ جگدیش نے انیل داس کے تعاقب میں جانے کا ارادہ ملتوی کردیا اور کھڑکی کے قریب آ کر نیچے دیکھنے لگا۔ شانتی موٹا تار دونوں ہاتھوں سے پکڑے ہوئے تھی۔ اس کا بدن فضا میں جھول رہا تھا۔ وہ ہاتھوں کی مدد سے آہستہ آہستہ کھمبے کی طرف بڑھ رہی تھی۔ کئی گاڑیاں چلتے چلتے سڑک پر کھڑی ہوگئیں اور لوگ گاڑیوں سے باہر نکل کر آسمان کی طرف سر اٹھائے حیرت بھری نظروں سے وہ منظر دیکھ رہے تھے اور گاڑیاں بھی رک رہی تھیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے شانتی کے نیچے اچھا خاصا ہجوم ہوگیا۔ شانتی آہستہ آہستہ کھمبے کے پاس پہنچ گئی۔ اس نے تار چھوڑ کر کھمبا پکڑ لیا اور کھمبے سے پھسلتی ہوئی سڑک پر کھڑی ہوگئی۔ ٹھیک اسی وقت مخالف سمت سے پولیس کی ایک جیپ پوری رفتار کے ساتھ چلتی ہوئی آئی اور شانتی کے بالکل قریب آ کر رک گئی۔ اندر سے دو پولیس والے چھلانگ لگا کے باہر نکلے۔ پولیس کو دیکھتے ہی شانتی ان کی طرف بڑھی۔ جلدی جلدی انہیں کچھ بتانے لگی۔ یہ منظر دیکھ کر وہاں سے بھاگنے والا پہلا شخص جگدیش تھا۔ اس کے پیچھے کرن تھی اور سب سے آخر میں ہوٹل کا منیجر رندھیر انیل داس نے انہیں بھاگتے ہوئے دیکھ کر مجرموں پر کوئی توجہ نہیں دی۔ انہیں بھاگتے ہوئے دیکھ کر پہلے ہی اپنی کرسی راستے سے ہٹا لی تھی۔ وہ تینوں کمان سے نکلے ہوئے تیروں کی طرح سنسناتے ہوئے ان کے قریب سے گزر گئے۔ ان لوگوں کا پکڑے جانا یقینی ہے۔ انیل داس نے سوچا۔ ممکن ہے یہ ہوٹل سے فرار ہو جائیں لیکن چوں کہ اب ان کی شناخت ہوچکی ہے اس لئے شہر سے فرار نہیں ہوسکیں گے۔ پھر ان کے ذہن میں ایک خیال اور بھی آیا۔ ظاہر ہے ان کی گرفتاری کے بعد پولیس کو دو لاکھ کی رقم دستیاب ہوجائے گی یا اس رقم میں سے بیشتر حصہ مل جائے گا۔ یہ رقم اغوا کی جانے والی بچی کے باپ کو واپس کردی جائے۔ اس طرح انیل داس کی رقم بھی اسے واپس ملنی چاہئے۔ ختم شد
null
null
null
null
465
https://www.urduzone.net/duniya-tera-jawab-nahi-teen-auratien-teen-kahaniyan/
تاجی ایک معصوم سی کمسن لڑکی تھی جو شہر کی سینٹرل جیل میں بند تھی، اس کا مکھڑا حسن کے نور سے روشن مگر آنکھیں بجھی بجھی تھیں۔ میں نے سوال کیا، یہاں کیسے آئی ہو وہ جواب دینے سے ہچکچا رہی تھی۔ میرے دوستانہ انداز گفتگو سے اس کی جھجک ختم ہو گئی، میرے اصرار پر بتایا میں نے جام پور کے ایک چھوٹے سے گائوں میں جنم لیا۔ برس کی تھی تو میرا نکاح چچازاد گل رخ سے کر دیا گیا۔ وہ مجھ سے برس بڑا تھا۔ اس سے بڑا ڈر لگتا تھا۔ وہ ہم عمر ساتھی نہ تھا۔ میری ذہنی حالت کو سمجھ نہ سکتا تھا۔ ہر کام میں میری نہ کو ہاں میں بدلنے کے لئے اس کے پاس مجھے آنکھیں دکھانے کے سوا چارہ نہ تھا۔ ہوا یوں کہ جب زلیخا کا نکاح میرے بھائی سے ہوا وہ سولہ، سترہ سال کی تھی، جبکہ میں آٹھ، نو برس کی، ہمارے چچا نے شرط رکھی ہماری بیٹی لو اور اپنی بیٹی دو۔ ابا تو ہر صورت بھائی کی بیٹی کو بہو بنانا چاہتے تھے، انہوں نے یہ شرط منظور کر لی۔ مجھ چھوٹی سی بچی کا نکاح اپنے بھتیجے گل رخ سے پڑھوا دیا اور بدلے میں زلیخا کو بہو بنا کر لے آئے۔ گلیوں میں بھاگتی اور گڑیوں سے کھیلتی کو بھلا شادی کے تقاضوں کا کیا پتا تھا۔ چچا کے گھر جاتے ہی رونے لگی۔ چچی نے پیار کیا، دلاسا دیا کہ آج میرے پاس رہ جا، وعدہ ہے کل تمہارے گھر لے جائوں گی۔ مجھ ننھی منی دلہن نے وہ رات اپنی چچی کے پہلو میں سو کر گزاری۔ یہ تو ایک شرط تھی چچا کی، ورنہ میری رخصتی کا ابھی وقت نہیں آیا تھا۔ اماں نے اگلے دن منت سماجت کر کے دیورانی سے منوا لیا کہ فی الحال کچھ دن اسے ہمارے پاس چھوڑ دو، سمجھا بجھا کر واپس لے آئوں گی، نکاح تو کر دیا ہے، اب ڈر کس بات کا ہے، تمہاری ہی بہو ہے۔ صد شکر کہ چچی نے اماں کی بات مان لی، ورنہ ان کو ایک کم عمر نوکرانی کی اشد ضرورت تھی۔ سوچا کہ اگر تاجی کو کچھ عرصہ ماں کے گھر رہنے دوں تو اس کی ماں احسان مند ہو گی اور میری بیٹی سے شفقت بھرا سلوک کرے گی۔ ایسا ہی ہوا ماں نے زلیخا کے معاملے میں نرمی سے کام لیا، ورنہ انہیں بھی باندی کی اشد ضرورت تھی۔ اب میں بھابی کے ساتھ کام میں ہاتھ بٹاتی تو اسے آرام ملتا۔ چچی نے گل رخ کو سمجھا دیا تھا بیٹا ایک، دو سال بعد رخصتی لے لیں گے، ابھی وہ چھوٹی ہے، یہاں لا کر قید کیا تو گھبرائے گی، پریشان کرے گی، ہم بھی بے سکون رہیں گے اور وہ بھی، وہاں تیری بہن کے ساتھ کام کرا لیتی ہے۔ میری بیٹی کو آرام ملتا ہے اور ساس بھی اسی کارن زلیخا پر مہربان رہتی ہے۔ سچ ہے وقت اپنے پروں پر محو سفر رہتا ہے۔ دو سال پلک جھپکتے گزر گئے۔ جب میں بارہ سال کی ہونے کو تھی، ساس، سسر مجھے باقاعدہ رخصت کرا کے لے گئے۔ میرا اب بھی سسرال میں جی گھبراتا تھا لیکن وہ سب کہتے تھے کہ اب یہ بڑی ہوگئی ہے، آخر تو گھر بسانا ہے۔ میرے سسرال آنے کے بعد اماں نے گھر کا تمام کام زلیخا پر ڈال دیا۔ اب وہ اسے میکے بھی آنے نہ دیتی تھیں۔ یہ بات چچی کو ناگوار گزرتی، انہوں نے بھی مجھ پر سختی شروع کر دی۔ زلیخا اور مجھ پر دونوں طرف سے سختیوں کا دور شروع ہو گیا، گویا یہ بدلے کی شادی نہ تھی، عذاب دینے کا مقابلہ تھا۔ میری بھابی بھی اماں کے کم ظلم نہ سہہ رہی تھی۔ صبح منہ اندھیرے اٹھنا، جانوروں کو چارہ ڈالنا، دودھ دوہنا، لسّی بلونا، آٹا گوندھ کر سارے ٹبّر کا ناشتہ تیار کرنا، دو چھوٹے بچّوں کو سنبھالنا اور ایسے ہی ڈھیر سارے کام صبح سے رات تک وہ مشین کی طرح جتی رہتی، لیکن کام ختم نہ ہوتے، اس پر شوہر کی جھڑکیاں اور ساس کے طعنے الگ تھے۔ جب میری ساس کو اماں کے سخت رویّوں کی اطلاع ملتی وہ بھی مجھ پر جوتا اٹھا لیتیں اور توقع کرتیں کہ گھر کا تمام کام میں اکیلی کروں۔ بارہ برس کی لڑکی بچی ہی ہوتی ہے، مگر ان کی نظروں میں، میں اب بچی نہ تھی۔ اماں کا گھر قریب ہی تھا مگر ساس جانے نہ دیتیں، کیونکہ زلیخا کو بھی بغیر اجازت میکے آنے کی اجازت نہ تھی۔ جب میں وہاں تھی بھابی خوش تھی لیکن اب میں نہیں جانتی تھی کہ زلیخا میرے بھائی کے ساتھ خوش رہتی ہے یا نہیں۔ لیکن میرا یہ حال تھا کہ جیسے خوشی مجھ سے چھن گئی تھی۔ بھلا گیارہ، بارہ برس کی لڑکی اپنا گھر چھوڑ کر کسی اور گھر میں کیوں کر خوش رہ سکتی ہے۔ رفتہ رفتہ چچی کا دل مٹی سے پتھر جیسا ہوگیا۔ اس کو مجھ پر ذرا بھی ترس نہ آتا۔ وہ اب مجھ سے اتنا کام لیتی کہ میں چلچلاتی دھوپ میں کنبے بھر کی روٹیاں پکاتے پکاتے بے ہوش ہوجاتی۔ ایسا وہ اس لئے کرتی تھی کہ میرے باپ کے گھر میں اس کی بیٹی پر بھی میری ماں ایسی ہی سختیاں کرتی تھی۔ دیہات کی عورتوں کی زندگی آج کے اس جدید دور میں بھی صدیوں قبل جیسی مشقّت بھری ہے۔ شہر کی عورتیں ایک دن ان جیسا گزار لیں تو ان کے پسینے چھوٹ جائیں۔ وہاں اب بھی بہوئوں سے ایسے ہی کام لیا جاتا ہے جس طرح خرکاروں کے کیمپوں میں اغوا شدہ افراد سختی اور زیادتی برداشت کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ میں اپنے سگے چچا کی بہو تھی مگر ظلم سہنے پر اس لئے مجبور تھی کہ ان کی بیٹی بھی ہمارے گھر میں سکھی نہیں تھی۔ ان حالات سے گھبرا کر میں نے گھر سے بھاگنا شروع کر دیا۔ جب موقع ملتا بھاگ کر ماں کے گھر جا چھپتی۔ تب ہی ساس امّی کے پاس آ کر مطالبہ کرتی، اپنی لڑکی رکھ لو اور ہماری بیٹی واپس کر دو۔ ماں کیسے زلیخا کو واپس کر سکتی تھی، وہ تین بچّوں کی ماں بن چکی تھی، مگر شوہر کو میرا ایک دن میکے رہ جانا گوارا نہ تھا جبکہ میں شادی کی رفاقتوں سے نفرت کرتی تھی۔ یہ عذاب سہتے میری حالت قابل رحم ہو گئی۔ میں ایک ایسے ماحول میں سانس لے رہی تھی کہ جہاں عورت کو جانور سمجھا جاتا تھا۔ عذاب سہتے سہتے میں امید سے ہو گئی۔ ایک بیٹے کو جنم دے کر ماں تو بن گئی لیکن بچّہ سنبھالنا میرے بس سے باہر تھا۔ دن کو ساس ہی اس کو سنبھالتی، رات کو وہ اسے میرے حوالے کر دیتی۔ بچّہ شب بھر میں کئی بار اٹھتا، روتا رہتا اور مجھ پر نیند کا غلبہ طاری ہو جاتا تو گل رخ غصّے میں اٹھ کر مجھ سوتی کے بال پکڑ لیتا۔ اس کی نیند بار بار ٹوٹتی تھی، تب وہ پاگل سا ہو جاتا۔ آدھی رات کو مجھے دھنک کر رکھ دیتا کہ بچّے کو چپ کرا، اسے بھوک لگی ہے، اسے دودھ پلا۔ ایسے حالات میں کوئی مرد کیسے خوش رہ سکتا ہے۔ گل رخ نے اپنی ناآسودگی کا حل تلاش کر لیا۔ گائوں کی ایک الھڑ مٹیار سے دوستی کی پینگیں بڑھا لیں۔ یہ عورت وقوفہ تھی۔ شادی کے ایک سال بعد شوہر نے طلاق دے دی تھی۔ گل رخ نے اس کے والد سے بات کی۔ اس کے باپ اور بھائی اس شرط پر رشتہ دینے پر راضی ہوئے کہ بدلے میں وقوفہ کے بھائی ظہور کو وہ اپنی بہن کا رشتہ دے گا۔ گل رخ کی ایک ہی بہن تھی زلیخا جو بیاہی جا چکی تھی اور تین بچّوں کی ماں بن چکی تھی لیکن یہاں معاملہ دل کا تھا۔ وہ ہر قیمت پر اپنے دل کی آرزو پوری کرنا چاہتا تھا چاہے بیاہتا بہن کا گھر برباد ہو جائے۔ اس نے باپ سے فریاد کی۔ ابا تم نے اتنی چھوٹی لڑکی سے میرا بیاہ کر کے کس جرم کی سزا دی ہے۔ یہ میرے پاس بسنے کو تیار ہی نہیں ہے، مجھے اس سے سکون کی بجائے کوفت ملتی ہے۔ اب اگر تم نے میری بات نہ مانی تو میں ریل کی پٹری پر جا کر لیٹ جائوں گا۔ آخر چاہتے کیا ہو چچا نے بیٹے سے سوال کیا۔ پہلے یہ بتائو کہ تمہارے بھائی کے گھر تمہاری بیٹی سکھی ہے، کیا وہ لوگ تمہاری لڑکی سے کوئی رو رعایت کرتے ہیں تم نے بیٹی اسی کارن بھائی کے گھر دی تھی کہ اپنے ہیں اور زلیخا کا خیال کریں گے تو کتنا خیال کیا ہے اس کی زندگی برباد کر کے رکھ دی ہے اور مجھے کیا ملا ہے، تمہاری بیوقوف بھتیجی سے شادی کر کے، جو ہر روز بچّہ چھوڑ کر ماں کے گھر بھاگ جاتی ہے اور ابھی تک گڑیوں سے کھیلنے کے ارمان کرتی ہے۔ تم آخر کیا چاہتے ہو پتر بتائو میں چاہتا ہوں کہ تم اپنی لڑکی ان سے واپس لے آئو اور تاجی کو ان کو لوٹا دو۔ بے شک وہ اپنے بچّے رکھ لیں، ہم بھی اپنا بچّہ رکھ لیتے ہیں۔ دو گھر برباد کر بھی دوں تو پھر کیا ہوگا بہت اچھا ہو جائے گا، نورنگ والے اپنی لڑکی کا رشتہ دینے کو تیار ہیں، مگر بدلے میں اپنی لڑکی تو دینی پڑے گی۔ زلیخا کو دے کر وقوفہ کو لے آئیں گے۔ میرا بھائی ایسا کبھی نہ مانے گا پتر زلیخا کے اب تین بچّے ہیں۔ لاکھ ظلم سہے گی اپنے بچّے وہ بھی نہ چھوڑے گی۔ یہ ممکن نہیں ہے، مگر تو دھیرج رکھ میں کوئی اور تدبیر کرتا ہوں۔ فضل دین نے بھائی سے مشورہ کیا، وہ بولا تمہاری لڑکی نہیں بستی، ہماری لڑکی تو بس رہی ہے نا، اس کا گھر کیوں برباد کرتے ہو۔ اپنی لڑکی کو طلاق دلوانی ہے تو کوئی اور تدبیر ڈھونڈو، ہم مفت میں اپنی بہو کیوں دیں۔ میرا بیٹا پھر کیا کرے گا، اس کی اگر بیوی لے جائو گے۔ اتنے پیسے بھی نہیں ہیں ہمارے پاس کہ اس کے لئے کسی لڑکی کا رشتہ خرید لیں۔ گل رخ نے دیکھا اس کا تایا بڑا کائیاں بن رہا ہے۔ اس نے خود جا کر میرے ابا سے بات کی، بولا تایا جی سنو تمہاری لڑکی وہاں سے بھاگتی ہے لہٰذا میں دوسری شادی کرنا چاہتا ہوں، ہماری بہن واپس کر دو، نہیں تو اپنی بیٹی کو کسی اور جگہ بیاہ کر بدلے میں ان کی لڑکی ہمیں لا دو۔ میں وقوفہ کے بھائی سے اس کی شادی کرا کر ان کی شرط پوری کر دوں گا تو وہ وقوفہ کا نکاح میرے ساتھ کر دیں گے۔ قریبی رشتہ داری تھی، زلیخا کا باپ تنازعہ بڑھانا نہ چاہتا تھا، ورنہ بہو کے ساتھ پوتے پوتیاں بھی جدا ہو جاتے۔ اس نے کہا ٹھیک ہے تم تاجی کو طلاق دو میں اس کو کہیں اور بیاہ کر بدلے میں لڑکی لا کر وقوفہ کے باپ کی شرط پوری کر دوں گا۔ اس گائوں میں یہ کیسا بدلے کا رواج تھا کہ اس کے بغیر کوئی نوجوان شادی نہ کر سکتا تھا۔ اگر بدلے کا رشتہ موجود نہ ہوتا تو بدلے کی شرط پوری کرنے کو رقم یا زمین دینی پڑتی تھی اور یہ دونوں چیزیں فضل دین اور فاضل کے پاس نہ تھیں۔ بھائی آپس میں جدا نہ ہوں، اس کے لئے اولاد کی قربانی تو دینی پڑتی ہے اور بیٹوں کے مقابلے میں بیٹیوں کی قربانی دینا ایک باپ کے لئے آسان بات تھی۔ تایا اور چچا کی باہمی رضامندی سے تاجی کو طلاق ہو گئی اور فیصلہ یہ ہوا کہ ساتھ والے گائوں کے منظور کے لڑکے سے اس کی شادی کے عوض ایک لاکھ روپے کی رقم لے کر وقوفہ کے باپ کو دے دی جائے تاکہ وہ اس رقم سے اپنے بیٹے کے لئے کسی لڑکی کا رشتہ خرید کر گھر بسا سکے۔ یہ صورتحال وقوفہ کے والد اور بھائیوں کے آگے رکھی گئی تو اتنی بڑی رقم دیکھ کر ان کے منہ میں پانی بھر آیا۔ بولے ہمیں یہ منظور ہے کہ ایک لاکھ کے بدلے میں آپ وقوفہ سے گل رخ کا نکاح کرالیں۔ ہم آپ کی دی ہوئی رقم سے اپنے بیٹے کے لئے رشتہ لے لیں گے۔ جب تاجی نے سنا کہ اس کے دام لے کر اسے ساتھ والے گائوں بھیجا جا رہا ہے تو وہ بہت پریشان ہوئی۔ وہ تمام رات سو نہ سکی۔ لاکھ چھوٹی عمر سہی پھر بھی وہ ایک ماں تو تھی اور وہ اس کے بچّے کو جدا کرکے بالکل اجنبی لوگوں کے سپرد کر رہے تھے جن سے وہ کبھی ملی تھی اور نہ جن کو کبھی دیکھا تھا۔ شادی وٹے سٹے کی ہوتی تو میکے سسرال کا ناتا قائم رہ جاتا، یہ تو رقم کے بدلے کی شادی تھی گویا وہ اب میکے والوں کے لئے مر گئی تھی۔ وہ مجھے مار دیتے یا بیچ دیتے، میں کچھ نہ کر سکتی تھی، اپنوں سے فریاد کرنے اور ان تک رسائی کے سارے رستے بند ہو رہے تھے۔ اس نے راتوں رات ایک عجیب فیصلہ کر لیا۔ آدھی رات کو اپنے بچّے کو سینے سے لگا کر گھر سے نکل گئی۔ نہیں جانتی تھی کہ اس کی منزل کہاں ہے لیکن وہ بس چلتی جا رہی تھی، سوچ رہی تھی صبح جب شہر پہنچ جائے گی تو وہاں کسی شہر والے سے بپتا سنا کر مدد کی درخواست کرے گی۔ سن رکھا تھا کہ شہر میں ایک جگہ دارالامان بھی ہے جہاں لاوارث اور مظلوم لڑکیوں کو پناہ دی جاتی ہے۔ ابھی اس نے ایک میل کا رستہ بھی طے نہ کیا تھا کہ اپنے تعاقب میں لوگوں کے دوڑنے کی آوازیں سنائی دیں۔ یقیناً یہ اس کے والد، تایا، بھائی اور چچازاد تھے، ان کو معلوم ہو چکا تھا کہ وہ رات کو گھر سے نکل پڑی ہے۔ اس نے بھاگنے میں پورا زور لگا دیا، مگر ایک کمزور لڑکی کب تک بھاگ سکتی ہے۔ وہ ایک ایسی دہشت زدہ ہرنی تھی کہ جس کے پائوں زخمی تھے اور طاقت جواب دے چکی تھی۔ ایک جگہ پتھر سے پائوں ٹکرایا اور وہ لڑکھڑا کر گر پڑی اور بچّہ اس کے ہاتھ سے چھوٹ کر زمین پر گرگیا۔ بڑی مشکل سے اٹھی کہ قریب سے کتوں کا ایک غول اس پر جھپٹا۔ وہ حواس باختہ ہو کر بھاگی اور بچّے کو نہ اٹھا سکی کہ خونخوار جنگلی کتّے اس کے نزدیک آ چکے تھے۔ انہوں نے بچّے کی بو سونگھ لی تھی۔ وہ اس کا تعاقب چھوڑ کر اس پر جھپٹنے لگے۔ اس کے دل کی کیا حالت ہوئی، وہ خود کو بچاتی یا بچّے کو، اگر ان کتوں کو پرے کرتی تو کیوں کر، اس کے پاس تو کوئی لاٹھی بھی نہ تھی۔ تعاقب میں آنے والوں کے قدموں کی آوازیں بہت نزدیک آ چکی تھیں۔ وہ کتوں کو لاٹھیوں سے مارنے لگے اور اسے وہاں سے نکل بھاگنے کا موقع مل گیا۔ چادر گری دیکھ کر وہ سمجھے کہ وہ گر پڑی ہے اور کتّے اسے بھنبھوڑ رہے ہیں لیکن وہ اس کے معصوم لخت جگر کو بھنبھوڑ رہے تھے۔ اسے خبر نہ رہی وہاں کیا ہوا۔ کتوں کو انہوں نے بھگا دیا اور وہ سرپٹ بھاگتی پکّی سڑک تک پہنچ گئی، جہاں ایک پرانی ویگن نہ جانے کب سے کھڑی تھی۔ وین کے ڈھانچے میں چھپ کر بیٹھ گئی۔ سمجھ رہی تھی کہ وارثین نے کتوں کو بھگا کر اس کے لخت جگر کو اٹھا لیا ہوگا۔ وہ اس کی سلامتی کی دعا کر رہی تھی۔ صبح تک بس یہی دعا کرتی رہی لیکن دعا پوری طرح قبول نہ ہوئی۔ انہوں نے بچّے کو اٹھا لیا مگر وہ صحیح سلامت نہ رہا تھا۔ کتّوں نے اس کو بھنبھوڑ دیا تھا، وہ نہ بچ سکا۔ صبح ایک ٹریفک پولیس کا ٹرک ادھر سے گزرا، انہوں نے برباد وین کے ڈھانچے کے پاس اپنا ٹرک روک دیا، شاید کہ اسے دیکھ لیا تھا۔ پولیس والے پہلے اسے تھانے لائے، پھر مجسٹریٹ کے پاس بیان ہوا۔ اس کے والد بھائی، تایا اور گل رخ بھی کچہری آ چکے تھے۔ گل رخ نے درخواست دی کہ میری بیوی آدھی رات کو میرا بچّہ لے کر گھر سے نہ جانے کس کی خاطر بھاگی تھی، بچّے کو خاردار ویرانے میں پھینک دیا اور کتوں نے معصوم کو بھنبھوڑ کر اس کی جان لے لی۔ یہ میرے بچّے کی قاتلہ ہے۔ بس اسی جرم میں وہ جیل میں تھی۔ اس نے اپنی کہانی سنا کر کہا باجی آپ یہ بتایئے کیا کوئی ماں اپنے بچّے کی قاتلہ ہو سکتی ہے۔ میں گھر سے نکلی ہی اس لئے تھی کہ اپنے بچّے سے جدا نہ ہونا چاہتی تھی۔ مجھے اس کی جدائی گوارا نہ تھی۔ تاجی کی زبانی اس کی داستان غم سن کر میں بہت افسردہ تھی۔ بعد میں کیا ہوا نہیں معلوم، وہ رہا ہوئی کہ اسے سزا ہوئی لیکن مجھے ایک ایسی کہانی مل گئی جس میں وہ لوگ اپنا چہرہ دیکھ سکتے ہیں جو آج بھی بیٹوں کی خوشیاں پوری کرنے کے لئے بیٹیوں کی قربانیاں دیتے ہیں، جو آج بھی بدلے کی رسم کو رواج دیتے ہوئے عورت کو ایک بکنے والی شے سمجھتے ہیں۔ کاش ہمارے دیہاتوں میں علم کی روشنی پھیل جائے تاکہ جہالت کے اندھیرے ختم ہوں۔ س الف ڈیرہ غازی خان
null
null
null
null
466
https://www.urduzone.net/sultan-bahu-episode-1/
ولادت ھ شورکوٹ وفات ھ مزار مبارک دریائے چناب کے کنارے موضع قہرگان۔ خاندانی نام سلطان محمد باہو قبیلۂ اعوان سے تعلق رکھتے تھے۔ والد گرامی حضرت بایزید محمد ، مغل شہنشاہ شاہ جہاں کے منصب دار تھے۔ حضرت سلطان باہو سلسلۂ قادریہ کے مشہور عالم و فاضل بزرگ تھے۔ آپ نے تصوف کے موضوع پر فارسی زبان میں ڈیڑھ سو کے قریب کتابیں تصنیف کیں۔ حضرت سلطان باہو کی یہ کتابیں ایک طالب معرفت کے لیے ایک مرشد کامل کا درجہ رکھتی ہیں۔ ٭ ٭ ٭ کربلا کے المناک واقعے کے بعد سادات بنی فاطمہ گوشہ نشیں ہوگئے تھے اور ان کا سارا وقت عبادت میں گزرتا تھا۔ باقی علوی خلافت کے دعویدار تھے، اس لیے وہ ایران سے ہوتے ہوئے خراساں آئے، پھر علویوں میں سے ایک بہادر شخص شاہ حسین نے ہرات پر قبضہ کرلیا۔ شاہ حسین کے بعد ان کے فرزند امان شاہ تخت نشیں ہوئے۔ امان شاہ سادات بنی فاطمہ کی بہت زیادہ اعانت کرتے تھے، اس لیے ان کی اولاد اعوان کے لقب سے مشہور ہوئی۔ پھر سادات بنی فاطمہ اور اعوان تین چار پشتوں تک ہرات میں رہے۔ اس کے بعد عباسیوں کے آخری عہد میں اعوان نے پنجاب کا رخ کیا۔ سادات بنی فاطمہ نے اچ، چوہا سیدن اور دندا شاہ بلاول کو اپنا مسکن بنایا اور عبادت و ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ قبیلہ اعوان کے لوگ کالا باغ کی طرف بڑھے۔ اس وقت گردونواح کے علاقے ہندو راجائوں کے قبضے میں تھے۔ قبیلہ اعوان کے افراد فطرتاً شجاع اور جانباز تھے، اس لیے انہیں ہندوئوں کی برتری قبول نہیں تھی۔ نتیجتاً مقامی راجائوں اور اعوان کے درمیان کئی خونریز معرکے ہوئے، انجام کار اعوان غالب آگئے۔ پھر اعوان نے اپنے شہر اور گائوں الگ آباد کئے۔ ان شہروں میں پنڈ دادن خان اور احمد آباد مشہور ہیں۔ اسی قبیلہ اعوان میں ایک بزرگ سلطان بایزید محمد تھے۔ شہاب الدین شاہ جہاں اس خاندان کی بہت عزت و تکریم کرتا تھا۔ مغل فرمانروا نے سلطان بایزید کی خدمات کے صلے میں انہیں شورکوٹ ضلع جھنگ میں ایک گائوں بطور انعام دیا تھا۔ اس گائوں کا نام قہرگان تھا۔ اس کے علاوہ دربار شاہی کی طرف سے پچاس ہزار بیگھے زمین اور چند آباد کنویں بھی جاگیر کے طور پر عطا کئے گئے تھے۔ سلطان بایزید کے بارے میں مناقب سلطانی کے مصنف حضرت شیخ سلطان حامد کا بیان ہے کہ آپ سلطنت دہلی کے منصب دار تھے۔ سلطان بایزید نے اولاد کی خاطر اپنے خاندان کی ایک متقی اور پرہیزگار خاتون بی بی راستی سے شادی کی۔ بی بی راستی اپنے دور کی عابدہ تھیں۔ سلطان بایزید اپنی شریک حیات کے زہد و تقویٰ سے اس قدر متاثر ہوئے کہ شادی کے چند روز بعد ہی اپنی عمر گزشتہ پر اظہار تاسف کرنے لگے۔ انہوں نے کہا۔ افسوس میں نے اپنی زندگی کا بیشتر وقت دنیاوی ہنگاموں میں برباد کردیا۔ یہ کوئی مردانگی نہیں کہ بیوی تو خدا دوست ہو اور شوہر دنیا کی حرص و ہوس میں مبتلا ہوکر دردر بھٹکتا رہے۔ یہ ایک غیبی تنبیہ تھی۔ آخر سلطان بایزید نے قدرت کے اشارے کو سمجھا اور ترک دنیا کا فیصلہ کرلیا۔ پھر آپ اپنا منصب چھوڑ کر ملتان کی طرف روانہ ہوگئے۔ پھر جب سلطان بایزید ملتان کے گھاٹ پر پہنچے تو نگراں نے آپ کو حاکم ملتان کے سامنے پیش کیا۔ سلطان بایزید کے چہرے سے امارت کے آثار نمایاں تھے مگر آپ نے صورت حال کو حاکم ملتان سے چھپایا۔ کیا چاہتے ہو حاکم ملتان نے سلطان بایزید سے پوچھا۔ گزر اوقات کے لیے ایک معمولی ملازمت۔ سلطان بایزید نے جواباً کہا۔ بالآخر حاکم ملتان نے دو روپے ماہانہ سلطان بایزید کی تنخواہ مقرر کردی اور آپ گوشہ نشیں ہوکر یادِالٰہی میں مشغول ہوگئے۔ مناقب سلطانی کے مطالعے سے یہ پتا نہیں چلتا کہ سلطان بایزید کس کام پر ملازم ہوئے تھے۔ حضرت شیخ سلطان حامد کے بقول سلطان بایزید نے ملتان کے ایک گوشہ تنہائی میں شدید ریاضتیں کیں اور روحانیت کے بلند درجے پر فائز ہوئے۔ چونکہ سلطان بایزید اطلاع دیئے بغیر اپنا عہدہ چھوڑ کر چلے آئے تھے، اس لیے شہنشاہ شاہ جہاں کے حکم پر ان کی تلاش شروع ہوئی۔ دربارِ شاہی کے کارندے شورکوٹ پہنچے اور سلطان بایزید کی شریک حیات بی بی راستی کو شاہ جہاں کا حکم پڑھ کر سنایا۔ بی بی راستی کے دو حقیقی بھائی اسی وقت سلطان بایزید کی جستجو میں روانہ ہوگئے۔ ادھر ملتان میں ایک عجیب واقعہ پیش آیا۔ دریائے ستلج کے مشرقی کنارے اور بیکانیر کے ریگستان کے بارے میں راجہ مروٹ اور حاکم ملتان کے درمیان شدید تنازع کھڑا ہوگیا اور نوبت جنگ تک پہنچ گئی۔ سلطان بایزید کو اس واقعے کی خبر پہنچی تو آپ اپنے عبادت کے کمرے سے باہر آئے۔ جسم پر ہتھیار سجائے اور اپنی گھوڑی پر سوار ہوکر حاکم ملتان کے دربار میں پہنچے۔ مناقب سلطانی کے مصنف نے اس گھوڑی کا نام سون پوری تحریر کیا ہے۔ میں راجہ مروٹ کا مقابلہ کرنا چاہتا ہوں۔ دربار میں پہنچ کر سلطان بایزید نے کہا۔ حاکم ملتان اور دوسرے درباریوں نے آپ کو بڑی حیرت سے دیکھا۔ سلطان بایزید تم اکیلے راجہ مروٹ کا مقابلہ کس طرح کرو گے چونکہ میں آپ کی دی ہوئی تنخواہ اکیلا ہی کھاتا رہا ہوں، اس لیے مقابلہ بھی تنہا کروں گا۔ سلطان بایزید کے لہجے میں جوش و غرور کے بجائے انکسار کا رنگ شامل تھا۔ سلطان بایزید کی بات سن کر درباری مسکرانے لگے مگر آپ نے ان لوگوں کے استہزائی طرزعمل پر کوئی دھیان نہیں دیا۔ بس آپ ایک ایسے خدمت گار کو میرے ساتھ روانہ کردیں جو راجہ مروٹ کے علاقے کی طرف میری رہنمائی کرسکے۔ سلطان بایزید نے حاکم ملتان کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ باقی کام اللہ پر چھوڑ یں۔ وہ جس طرح چاہے گا، میرے اور راجہ مروٹ کے درمیان معاملے طے کردے گا۔ حاکم ملتان نے اپنے ایک معتمد شہسوار کو سلطان بایزید کے ساتھ روانہ کردیا مگر یہ بات اس کی عقل سے بالاتر تھی کہ سلطان بایزید تن تنہا راجہ مروٹ کا مقابلہ کس طرح کریں گے جب آپ مروٹ کے قریب پہنچے تو آپ نے اپنے رہنما ساتھی کو رخصت کردیا اور پھر سلطان بایزید اکیلے شہر کی طرف بڑھے۔ یہاں تک کہ قلعے کے نزدیک جا پہنچے۔ آپ کی ظاہری شخصیت پر کسی ایلچی کا گمان ہوتا تھا اس لیے پہریداروں نے قلعے کا دروازہ کھول دیا۔ سلطان بایزید گھوڑی کی لگام پکڑے ہوئے قلعے کے اندر داخل ہوئے اور پھر اپنی گھوڑی کو ایک طرف باندھ کر راجہ مروٹ کے دربار میں پہنچے۔ درباریوں نے بڑی حیرت سے ایک اجنبی مسلمان کو بے نیازانہ آگے بڑھتے ہوئے دیکھا مگر کسی میں اتنی ہمت نہیں تھی کہ آنے والے کو روک کر اس سے پوچھتے کہ تو کون ہے اور کس مقصد سے یہاں آیا ہے یہ حضرت سلطان بایزید محمد کا جلال روحانی تھا کہ حاضرین دربار کی زبانیں گنگ ہوکر رہ گئی تھیں۔ آپ بڑی استقامت کے ساتھ آگے بڑھے اور راجہ مروٹ کے تخت کے قریب پہنچ کر ٹھہر گئے۔ راجہ مروٹ نے بڑے تعجب سے ایک مسلح مسلمان کی طرف دیکھا۔ پھر غضب ناک لہجے میں بولا۔ تم کون ہو اور تمہیں یہاں آنے کی اجازت کس نے دی ہم اہل حق ہیں اور ہمیں اہل باطل سے اجازت لینے کی ضرورت نہیں ہوتی۔ یہ کہہ کر سلطان بایزید نے نیام سے تلوار کھینچ لی۔ اجنبی مسلمان کے بگڑے ہوئے تیور دیکھ کر راجہ مروٹ ہذیانی انداز میں چیخا۔ بدبختو اس ظالم کو روکو جو موت بن کر میرے سر پر آپہنچا ہے۔ راجہ مروٹ کی ہذیانی چیخیں سن کر مسلح محافظوں نے آگے بڑھنے کی کوشش کی مگر وہ اپنی جگہ سے جنبش تک نہ کرسکے۔ حضرت سلطان بایزید محمد برق کی طرح لپکے اور آپ نے ایک ہی وار میں راجہ مروٹ کا کام تمام کردیا۔ پھر اس کا کٹا ہوا سر لے کر اسی شان بے نیازی کے ساتھ واپس جانے لگے۔ حاضرین دربار اور راجہ مروٹ کے مسلح پہریدار پتھر کے مجسمے بن کر رہ گئے تھے۔ وہ کھلی آنکھوں سے اپنے حکمراں کا انجام دیکھ رہے تھے مگر اپنے اندر راجہ مروٹ کے قاتل کو پکڑنے کی طاقت نہیں رکھتے تھے۔ جب حضرت سلطان بایزید ، راجہ مروٹ کا کٹا ہوا سر لے کر قلعے کے دروازے کے قریب پہنچے تو محل میں کہرام برپا ہوگیا۔ قوت گویائی اور جسمانی حرکت سے محروم ہوجانے والے درباری چیختے ہوئے صدر دروازے کی طرف دوڑے۔ راجہ کے قاتل کو روکو اور باہر جانے والے تمام راستے بند کردو۔ اس اثنا میں حضرت سلطان بایزید گھوڑی کی پشت پر سوار ہوچکے تھے۔ قلعے کے مکینوں کی چیخیں سن کر پہریداروں نے صدر دروازہ بند کردیا مگر جب حضرت سلطان بایزید محمد دروازے کے قریب پہنچے تو وہ خودبخود کھل گیا۔ راجہ مروٹ کے مسلح شہسواروں نے حضرت سلطان بایزید محمد کا بہت دور تک تعاقب کیا مگر آپ کی برق رفتار گھوڑی کفار کی دسترس سے محفوظ رہی اور کسی آندھی کے جھونکے کی طرح ملتان پہنچ گئی۔ حضرت سلطان بایزید محمد نے راجہ مروٹ کا کٹا ہوا سر والیٔ ملتان کی خدمت میں پیش کردیا۔ مناقب سلطانی میں یہ واقعہ اسی طرح تحریر کیا گیا ہے جس کے متعلق خود مصنف کا یہ بیان موجود ہے۔ اگرچہ محالات کا ذکر کرنا اچھا نہیں لیکن معذور ہوں کیونکہ میں نے بزرگوں سے ایسا ہی سنا ہے۔ اسی کتاب میں دوسرے مقام پر درج ہے کہ حاکم ملتان کا لشکر ابھی راستے میں تھا کہ حضرت بایزید محمد ، راجہ مروٹ کا سر لے کر دربار میں پہنچے اور یہ عجیب کام ظہور میں آیا۔ بظاہر یہ ایک محیرالعقول واقعہ ہے جس کے بارے میں خود مصنف کو بھی خدشہ ہے کہ اسے پڑھ کر مخالفین نکتہ چینی کریں گے مگر کرامت اسی کو کہتے ہیں جو عادت کے خلاف ہو اور جسے سمجھنے سے انسانی عقل قاصر رہے۔ اس کے ساتھ یہ بھی ممکن ہے کہ حاکم ملتان اور راجہ مروٹ کے لشکروں کے درمیان خونریز جنگ ہوئی ہو اور ایک ملازم کی حیثیت سے حضرت سلطان بایزید محمد اس جنگ میں شریک ہوئے ہوں اور آپ نے اپنی تلوار سے راجہ مروٹ کا سر کاٹ کر والیٔ ملتان کی خدمت میں پیش کیا ہو۔ پھر وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اپنے پیر کی شان میں غلو کرنے والے مریدوں نے اصل واقعے کو خرق عادت کا رنگ دے دیا ہو۔ بہرحال ہم نے دونوں صورتیں پیش کردی ہیں۔ راجہ مروٹ کے سر کاٹنے کی شہرت شاہ جہاں کے دربار تک پہنچی تو اس نے اپنے کارندوں کو ملتان بھیجا۔ ان لوگوں نے پہچان لیا کہ ی وہی سلطان بایزید محمد ہیں جو اپنا منصب چھوڑ کر روپوش ہوگئے تھے۔ کارندوں نے شاہ جہاں کو اطلاع دی تو دربار شاہی سے والیٔ ملتان کے نام حکم صادر ہوا۔ بایزید محمد کو ان کے علاقے میں واپس بھیج دو تاکہ وہ دوبارہ اپنی ذمہ داریاں سنبھال سکیں۔ حاکم ملتان نے سلطان بایزید محمد کو اپنے دربار میں طلب کیا اور فرمانروائے ہندوستان شاہ جہاں کا حکم پڑھ کر سنایا۔ جواب میں حضرت سلطان بایزید محمد نے شہنشاہ شاہ جہاں کے نام ایک خط تحریر کیا۔ میں والیٔ ہندوستان کی عنایاتِ خسروانہ کا تہہ دل سے قائل ہوں مگر اب یوں محسوس ہوتا ہے کہ یہ کمزور کاندھے اس بارگراں کو نہیں اٹھا سکیں گے، عمر گریزاں بھی خفا خفا سی معلوم ہوتی ہے۔ پتا نہیں کس وقت میرا ساتھ چھوڑ جائے، اس لیے مالک حقیقی کی بارگاہ کی طرف جارہا ہوں۔ اللہ مجھے توفیق عمل دے اور آپ کو اس حسن سلوک کے لیے جزائے خیر عطا کرے۔ مجھے دربار شاہی میں حاضر ہونے سے معذور تصور کیا جائے۔ فرمانروائے ہند شاہ جہاں نے سلطان بایزید محمد کا خط پڑھا اور ان کے لیے مزید سرکاری خدمات موقوف کردیں۔ پھر بھی سابقہ خدمات کے صلے میں ایک پورا گائوں اور تقریباً پچاس ہزار بیگھے زمین حضرت سلطان بایزید محمد کے نام کردی۔ کچھ دن بعد بی بی راستی کے دونوں بھائی بھی حضرت سلطان بایزید محمد کو تلاش کرتے کرتے ملتان پہنچ گئے اور آپ سے گھر واپس چلنے کے لیے درخواست کی۔ جواب میں حضرت سلطان بایزید محمد نے فرمایا۔ تم اپنی بہن سے پوچھ کر بتائو کہ وہ کیا چاہتی ہیں اگر بی بی راستی کی خواہش ہے تو میں گھر واپس آجائوں گا۔ حضرت سلطان بایزید محمد کا پیغام لے کر آپ کے دونوں برادران نسبتی واپس آئے اور بی بی راستی کو صورت حال سے آگاہ کیا۔ اگر بی بی راستی چاہتیں تو سلطان بایزید محمد کو گھر بلا سکتی تھیں مگر آپ ایک دیندار خاتون تھیں، اس لیے آپ نے شوہر کی خدمت میں حاضر ہونے کو ترجیح دی۔ اس وقت بی بی راستی حاملہ تھیں مگر اس کے باوجود آپ طویل سفر طے کرکے ملتان پہنچیں اور شوہر کو اس واقعے کی اطلاع دی۔ حضرت سلطان بایزید محمد نے اسی دن کے لیے بے شمار دعائیں مانگی تھیں۔ آپ کو وارث کی آرزو تھی۔ بی بی راستی نے وارث کی آمد کی خبر دی تو حضرت سلطان بایزید محمد سجدے میں چلے گئے۔ پھر نہایت جوش جذب کے عالم میں آیت مبارکہ تلاوت کرتے رہے جس کا ترجمہ ہے۔ اور آپ بہتر وارث دینے والے ہیں۔ اس کے بعد حضرت سلطان بایزید محمد شورکوٹ منتقل ہوگئے جو پرگنہ ملتان میں واقع ہے۔ ٭ ٭ ٭ ابھی حضرت سلطان بایزید محمد کو شورکوٹ میں قیام کئے چند ماہ ہی ہوئے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایک ایسے انعام سے نوازا کہ جس کے آگے ہندوستان کی بڑی سے بڑی جاگیر کوئی حیثیت نہیں رکھتی تھی۔ دنیا کا اقتدار اور مال و متاع تو فتنے میں مبتلا کردینے والی چیزیں ہیں مگر خالق کائنات نے آپ کو ایک ایسی نعمت سے نوازا جس سے آخرت اور دنیا دونوں سنور جاتی ہیں اور نعمت عظیم تھے سلطان بایزید محمد کے فرزند حضرت سلطان باہو ۔ اگرچہ قرآن کریم نے اولاد کو بھی فتنہ آزمائش قرار دیا ہے لیکن حضرت سلطان باہو پیدائشی ولی تھے، اس لیے آپ کو والدین کے حق میں نعمت عظمیٰ قرار دیا جاسکتا ہے۔ حضرت سلطان باہو شورکوٹ کے مقام پر ھ میں پیدا ہوئے۔ یہ فرمانروائے ہندوستان شاہ جہاں کی حکومت کا آخری زمانہ تھا۔ عام طور پر باپ ہی اپنی اولادوں کے نام تجویز کرتا ہے مگر حضرت سلطان باہو کا نام آپ کی والدہ محترمہ بی بی راستی نے تجویز کیا تھا۔ چنانچہ حضرت سلطان باہو اپنی تصنیف عین الفقرا میں ایک مقام پر اپنی والدہ ماجدہ کی تعریف کرتے ہوئے فرماتے ہیں رحمت حق برروان راستی راستی از راستی آ راستی راستی کی جان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو۔ اے راستی تو نے مجھے راستی سچائی سے آراستہ کیا پھر لکھتے ہیں کہ میری والدہ پر اللہ اپنا فضل کرے جنہوں نے میرا نام باہو رکھا جو ایک ہی نقطے سے یاہو ہوجاتا ہے۔ اکثر تذکرہ نگاروں کے مطابق حضرت سلطان باہو پیدائشی ولی تھے۔ آپ کی ولایت کی پہلی پہچان یہ تھی کہ جب شیرخوارگی کے زمانے میں رمضان المبارک کا مہینہ آیا تو حضرت سلطان باہو نے روزے کے اوقات میں دودھ نہیں پیا۔ حضرت سلطان بایزید نے گھبرا کر کسی طبیب کو بلایا۔ طبیب نے ایک شیرخوار بچے کا معائنہ کیا۔ پھر اپنے تجربات کی روشنی میں حضرت سلطان بایزید محمد کو بتایا۔ بظاہر آپ کے فرزند کو کوئی بیماری نہیں ہے۔ کبھی کبھی یوں ہوتا ہے کہ بچہ کسی وجہ کے بغیر دودھ نہیں پیتا۔ اگر مسلسل چوبیس گھنٹے تک بچے کی یہی کیفیت رہے تو مجھے بتایئے گا۔ یہ کہہ کر طبیب چلا گیا۔ حضرت سلطان باہو نے دن بھر دودھ نہیں پیا۔ پھر جب افطار کے بعد نماز مغرب سے فارغ ہوکر بی بی راستی نے حضرت سلطان باہو کو دودھ پلایا تو آپ نے ذوق و شوق سے پی لیا۔ دوسرے دن بھی یہی واقعہ پیش آیا۔ حضرت سلطان بایزید محمد ایک بار پھر پریشان ہوکر طبیب کے پاس جانے لگے تو بی بی راستی نے شوہر کو روکتے ہوئے فرمایا۔ آپ پریشان نہ ہوں۔ آپ کا بیٹا کسی مرض میں مبتلا نہیں بلکہ اس کا روزہ ہے اور کوئی روزہ دار دن کے وقت کس طرح کھا پی سکتا ہے۔ حضرت سلطان بایزید محمد نے بڑی حیرت سے شریک حیات کی بات سنی۔ آپ دیکھ لینا کہ افطار کے بعد آپ کا بیٹا باہو بھی دودھ پی لے گا۔ حضرت بی بی راستی نے شوہر کو تسلی دیتے ہوئے کہا۔ اور پھر ایسا ہی ہوا۔ مغرب کے بعد حسب سابق حضرت سلطان باہو نے پیٹ بھر کے دودھ پیا اور سلطان بایزید محمد کو یقین آگیا کہ ان کا بیٹا پیدائشی ولی ہے۔ پھر یہ بات آس پاس کے علاقوں میں مشہور ہوگئی اور لوگ اس وقت حضرت سلطان باہو کے چہرئہ مبارک کی زیارت کرنے کے لیے آنے لگے جب آپ شیر خوارگی کے زمانے سے گزر رہے تھے۔ ٭ ٭ ٭ جب حضرت سلطان باہو چلنے پھرنے کے قابل ہوگئے تو شورکوٹ میں ایک ہنگامہ کھڑا ہوگیا۔ حضرت سلطان باہو کی بچپن سے عادت تھی کہ آپ سر جھکا کر چلتے تھے لیکن اگر راستہ چلتے وقت آپ نے نظر اٹھا کر کسی مسلمان کو دیکھ لیا تو اس کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا اور وہ بے اختیار ہوکر پکار اٹھتا تھا۔ واللہ یہ کوئی عام بچہ نہیں ہے۔ اس کی آنکھوں میں عجیب روشنی ہے۔ ایسی روشنی جو براہ راست دلوں کو متاثر کرتی ہے۔ اور اگر آپ کی نظر کسی بت پرست پر پڑ جاتی تو وہ اپنے آبائی مذہب کو فراموش کر بیٹھتا اور کلمۂ طیبہ پڑھ کر حلقۂ اسلام میں داخل ہوجاتا۔ جب اس طرح کے کئی واقعات پیش آئے تو مقامی ہندوئوں کی ایک جماعت حضرت سلطان بایزید محمد کی خدمت میں حاضر ہوئی اور آپ سے حضرت سلطان باہو کی شکایت کرنے لگی۔ آخر میرے معصوم بچے نے آپ لوگوں کا کیا بگاڑا ہے حضرت سلطان بایزید محمد نے ہندوئوں کی جماعت سے پوچھا۔ یہ تو ابھی کسی پر ہاتھ اٹھانے کے قابل بھی نہیں ہے۔ اگر وہ ہم پر ہاتھ اٹھا لیتا تو زیادہ اچھا تھا۔ شورکوٹ کے ایک سرکردہ ہندو نے کہا۔ پھر تمہیں میرے بیٹے سے کیا گلہ ہے حضرت سلطان بایزید محمد نے حیران ہوکر پوچھا۔ آپ کا بچہ جس ہندو کو نظر بھر کے دیکھ لیتا ہے، وہ مسلمان ہوجاتا ہے۔ ہندوئوں کے سربراہ نے غمزدہ لہجے میں کہا۔ آپ کے بچے کی وجہ سے شورکوٹ کے ہندوئوں کا مذہب خطرے میں پڑ گیا ہے۔ بڑی عجیب شکایت تھی۔ حضرت سلطان بایزید محمد کچھ دیر تک سوچتے رہے۔ پھر ہندوئوں کی جماعت سے مخاطب ہوئے۔ اب آپ ہی بتائیں کہ میں اس سلسلے میں کیا کرسکتا ہوں کمزوری تو ان لوگوں کی ہے جو اپنا مذہب بدل دیتے ہیں۔ اس میں میرے بیٹے کا کیا قصور ہے میں اسے نظر اٹھا کر دیکھنے سے کس طرح باز رکھ سکتا ہوں قصور تو بچے کی دایہ کا ہے جو اسے وقت بے وقت بازار لے جاتی ہے۔ ہندوئوں کے سربراہ نے کہا۔ آپ لوگ بڑا عجیب مطالبہ کررہے ہیں۔ حضرت سلطان بایزید محمد نے فرمایا۔ دایہ کے بازار جانے پر کس طرح پابندی لگائی جاسکتی ہے ہماری گزارش ہے کہ آپ بچے کی سیر کے لیے ایک وقت مقرر کردیں۔ شورکوٹ کے ہندوئوں نے درخواست کی۔ بالآخر حضرت سلطان بایزید محمد نے سختی کے ساتھ دایہ کو ہدایت کردی کہ وہ ایک وقت مقررہ پر حضرت سلطان باہو کو بازار لے جایا کرے۔ ایک روایت یہ بھی ہے کہ ہندوئوں کی شکایت پر حضرت باہو کے پیروں میں چھوٹی چھوٹی گھنٹیاں باندھ دی گئیں تاکہ اگر کبھی وہ وقت بے وقت گھر سے نکلیں تو لوگ گھنٹیوں کی آواز سن کر پہچان لیں کہ حضرت باہو آرہے ہیں۔ بہرحال ہندوئوں کی جماعت مطمئن ہوکر چلی گئی مگر پھر بھی انہیں حضرت سلطان باہو کی طرف سے ایک انجانا خوف لاحق رہتا تھا۔ پتا نہیں کب اس حق پرست بچے کی نظر اٹھے اور کسی ہندو کے ماتھے سے چھاپ اور تلک کے کافرانہ نشانات کھرچ ڈالے۔ شورکوٹ کے ہندوئوں نے ایک مومن کی نظر سے محفوظ رہنے کے لیے عجیب عجیب انتظامات کئے تھے۔ کئی لوگوں کو خاص طور پر اس لیے ملازم رکھا گیا تھا کہ جب حضرت سلطان باہو کی ملازمہ آپ کو لے کر بازار کی طرف آئے تو وہ لوگ بہ آواز بلند اعلان کردیں۔ چنانچہ حضرت سلطان باہو جب بھی اپنی خادمہ کے ساتھ بازار کی طرف روانہ ہوتے، ہندوئوں کے نقیب شور مچانے لگتے۔ ہوشیار ہوجائو بچہ بازار کی طرف آرہا ہے۔ جیسے ہی یہ شور بلند ہوتا، تمام ہندو اپنی اپنی دکانوں میں گھس کر دروازے بند کرلیتے تاکہ حضرت سلطان باہو کی انقلاب آفریں نظر سے محفوظ رہ سکیں۔ راستہ چلنے والے ہندو بھی نقیبوں کی آوازیں سن کر ہوشیار ہوجاتے تھے۔ انہیں شورکوٹ کے پنڈتوں کی طرف سے ہدایت تھی کہ یہ بچہ جہاں بھی نظر آجائے، اس کی طرف دیکھنے سے گریز کریں اور پیٹھ موڑ کر کھڑے ہوجائیں۔ الغرض اس قدر بندشوں اور احتیاطوں کے باوجود جب بھی کوئی بت پرست، حضرت سلطان باہو کی نظر کی زد میں آجاتا، وہ مسلمان ہوئے بغیر نہ رہتا۔ تذکرہ نگاروں کے بیان کے مطابق شورکوٹ اور دوسرے علاقوں کے سیکڑوں ہندو اس طرح مسلمان ہوئے کہ حضرت سلطان باہو نے انہیں ایک نظر دیکھا اور وہ اپنے ماتھوں سے قشقہ کھرچ اور زنار گردن میں پڑا ہوا دھاگا توڑ کر کلمۂ طیبہ پڑھنے لگے۔ یہ حضرت سلطان باہو کی سب سے بڑی کرامت تھی۔ آپ کی آنکھوں کی یہ انقلاب آفریں روشنی، سرورِ کونین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس حدیث پاک کے مطابق تھی۔ مومن کی فراست سے ڈرو کہ وہ اللہ کے نور سے دیکھتا ہے۔ اور اللہ تعالیٰ نے حضرت سلطان باہو کی آنکھوں کو یہ نور پیدائشی طور پر بخشا تھا۔ ٭ ٭ ٭ کسی معتبر کتاب سے پتا نہیں چلتا کہ حضرت سلطان باہو نے ظاہری تعلیم کہاں سے حاصل کی اور آپ کے اساتذہ کون تھے۔ بعض تذکرہ نگاروں کے خیال میں آپ ظاہری علوم سے بے بہرہ تھے۔ شاید اس قیاس آرائی کی وجہ یہ ہو کہ خود حضرت سلطان باہو نے اپنے ظاہری علم کی نفی کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ مجھے ظاہری علم حاصل نہیں تھا لیکن واردات غیبی کے سبب علم باطن کی فتوحات اس قدر تھیں کہ انہیں بیان کرنے کے لیے کئی دفتر درکار ہیں۔ ایک اور موقع پر حضرت سلطان باہو نے اپنے ایک شعر میں علم ظاہری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے فرمایا تھا۔ اگرچہ میں ظاہری علوم سے محروم ہوں لیکن علم باطنی نے میری زندگی پاک کردی ہے۔ آپ کے اسی قول مبارک کی بنیاد پر تذکرہ نگاروں کو مغالطہ ہوا کہ حضرت سلطان باہو ظاہری علوم سے ناواقف تھے مگر جب ہم آپ کی کتابوں کی طویل فہرست دیکھتے ہیں تو خودبخود اس بات کی نفی ہوجاتی ہے کہ حضرت سلطان باہو نے اپنے زمانے کے مروجہ علوم حاصل نہیں کئے تھے۔ آپ کی تصانیف میں عین الفقر کبیر، عین الفقر صغیر، عقل بیدار کبیر، عقل بیدار صغیر، مجالستہ النبی، اسرار قادری، توفیق الہدایت، شمس العارفین، رسالہ روحی اورنگ شاہی، امیر الکونین، دیوان اردو، دیوان فارسی اور دیوان پنجابی زیادہ شہرت رکھتی ہیں۔ تمام مستند تذکرہ نگاروں کے مطابق حضرت سلطان باہو کی تصانیف کی تعداد ایک سو چالیس سے لے کر ایک سو پچاس تک ہے۔ اتنی کتابوں کا مصنف ظاہری علوم سے کس طرح بے بہرہ ہوسکتا ہے۔ بعض تذکرہ نگاروں نے حضرت سلطان باہو کی عربی تصانیف کا بھی حوالہ دیا ہے۔ ان تمام روایتوں کی روشنی میں ظاہر ہوتا ہے کہ حضرت سلطان باہو عربی، فارسی، اردو اور پنجابی زبانوں پر عبور رکھتے تھے۔ ایک ولی کے لیے جہاں روحانی کمالات ضروری ہوتے ہیں، وہاں اس کے لیے اپنے علاقے اور عہد کی زبانوں سے آگاہی حاصل کرنا بھی لازمی ہوتا ہے۔ اگرچہ روحانیت کی کوئی زبان نہیں ہوتی، اس کی زبان سے ناآشنا ہونے کے باوجود عوام الناس ایک مردِ حق کو پہچان لیتے ہیں اور وہ جو پیغام دینا چاہتا ہے، اسے آسانی سے سمجھ لیتے ہیں مگر کبھی کبھی وہ لمحات بھی آجاتے ہیں جب پیغام حق دینے کے لیے ایک ولی کو غیرمذہب و ملت کے لوگوں سے مخاطب ہونا پڑتا ہے۔ انہیں روحانیت کے اسرار و رموز ان ہی کی زبان میں سمجھانے پڑتے ہیں۔ مثال کے طور پر جب سلطان الہند حضرت خواجہ معین الدین چشتی نے پیغام حق سنانے کے لیے ہندوستان کے صنم خانوں کی طرف رخ کیا تو آپ نے چار سال تک ملتان میں قیام فرمایا اور اس دوران سنسکرت اور ہندی زبان کی تعلیم حاصل کی۔ اس وقت یہی سنسکرت اور ہندی ہندوستان کی سرکاری اور عوامی زبانیں تھیں۔ پھر آپ اہل باطل سے ان ہی کی زبان میں مخاطب ہوئے۔ اسی طرح حضرت سلطان باہو نے بھی اپنے دور کی مروجہ زبانوں پر دسترس حاصل کی مگر یہ بات پایہ ثبوت کو نہ پہنچ سکی کہ ان علوم میں آپ کے اساتذہ کون تھے۔ حضرت سلطان باہو نے اپنے کلام اور ملفوظات میں علوم ظاہری سے محروم ہونے کا جو اعلان کیا ہے، اس کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ آپ نے حدیث، فقہ، منطق اور ریاضی وغیرہ کی تعلیم اس انداز میں حاصل نہیں کی جیسا کہ زمانۂ سابق کا دستور تھا اس لیے آپ نے فرمایا تھا۔ اگرچہ میں ظاہری علوم سے محروم ہوں لیکن علم باطنی نے میری زندگی پاک کردی ہے۔ ٭ ٭ ٭ اور جہاں تک علوم باطنی حاصل کرنے کا معاملہ ہے تو حضرت سلطان باہو کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستی اپنے وقت کی بہت بڑی عابدہ تھیں۔ آپ نے بہت دن تک مادرگرامی سے اکتساب فیض کیا۔ پھر ایک دن وہ منزل بھی آگئی کہ حضرت سلطان باہو باقاعدہ بیعت کے لیے والدہ محترمہ سے درخواست گزار ہوئے۔ جواب میں حضرت بی بی راستی نے فرمایا۔ فرزند میرے دامن میں جتنی دعائیں تھیں، وہ سب تمہاری بھلائی مانگنے میں صرف ہوگئیں مگر میں تمہیں اپنا مرید نہیں بنا سکتی۔ حضرت سلطان باہو والدہ ماجدہ کی محبت میں غرق تھے، اس لیے حیران ہوکر عرض کرنے لگے۔ آخر اس میں کیا حرج ہے۔ آپ جیسی شفیق و مہربان ماں سے بہتر مرشد کون ہوسکتا ہے یہ تمہاری شدید محبت اور سعادت مندی ہے مگر ہمارے مذہب کے چند بنیادی اصول ہیں جنہیں کوئی صحیح العقیدہ مسلمان تبدیل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا۔ حضرت بی بی راستی نے فرمایا۔ تمہاری نظروں میں میرا درجہ کتنا ہی بلند سہی مگر ایک عورت روحانی پیشوائی کے منصب پر فائز نہیں ہوسکتی۔ تمہیں اپنی روحانیت کی تکمیل کے لیے کسی مرشد کامل کے آستانے پر حاضری دینی ہوگی۔ وہی مردِ حق تمہیں معرفت کے بقیہ رمز سمجھائے گا۔ میرے پاس جس قدر سرمایہ تھا، وہ سب میں نے تم پر لٹا دیا۔ مادر گرامی کا جواب سن کر حضرت سلطان باہو مرشد کی تلاش میں گھر سے نکل کھڑے ہوئے۔ ٭ ٭ ٭ یہاں اس بات کی وضاحت بھی ضروری ہے کہ حضرت سلطان باہو کی معاشرتی زندگی ان صوفیا کی طرح نہیں تھی جو تجرد کی زندگی بسر کرتے ہیں یا پھر ویران جنگلوں یا سنسان غاروں میں چلہ کش ہوجاتے ہیں۔ مرشد کی جستجو میں روانہ ہونے سے پہلے حضرت سلطان باہو تین شادیاں کرچکے تھے اور ظاہری طور پر یہ سنت کی تکمیل تھی۔ آپ کو والد محترم کی طرف سے ورثے میں ایک گائوں اور پچاس ہزار بیگھے زمین ملی تھی، اس لیے آپ آسودہ زندگی بسر کررہے تھے مگر پھر بھی روح میں ایک اضطراب پوشیدہ تھا جس کی وجہ سے آپ مردانِ حق کی صحبتیں ڈھونڈتے تھے۔ حضرت سلطان باہو مختلف بزرگوں کے مزاراتِ مبارکہ پر حاضری دیتے ہوئے حضرت مخدوم بہا الدین زکریا کے آستانہ عالیہ پر حاضر ہوئے۔ بہت دیر مراقبے کی حالت میں بیٹھے رہے۔ اسی دوران حضرت سلطان باہو پر نیند کا غلبہ ہوگیا۔ آپ نے خواب کی حالت میں دیکھا۔ سامنے حضرت مخدوم بہا الدین زکریا ملتانی تشریف فرما تھے۔ مجھے حضرت غوث اعظم کی بارگاہ سے حکم ہوا ہے کہ تمہاری دلداری کروں۔ حضرت مخدوم بہا الدین زکریا ملتانی نے حضرت سلطان باہو کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ فرزند مجھے بتائو کہ تمہیں کس چیز کی ضرورت ہے مخدوم مجھے کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ جب آئے ہو تو خالی ہاتھ کیسے جائو گے حضرت مخدوم بہا الدین زکریا ملتانی نے فرمایا۔ میں کسی چیز کی ضرورت محسوس نہیں کرتا۔ حضرت سلطان باہو نے نہایت ادب و احترام کے ساتھ عرض کیا۔ بس آپ کے چہرئہ مبارک کی زیارت منظور تھی، سو مقصد حاصل ہوگیا۔ حضرت مخدوم بہا الدین زکریا ملتانی نے تیسری بار فرمایا۔ فرزند اپنی حاجت بیان کرو حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ مخدوم اگر ایسا ہی ہے تو پھر اپنے شہر سے کسی پاکیزہ آدمی کا بازو عطا کیجئے۔ اِن شا اللہ تمہاری یہ خواہش بہت جلد پوری ہوجائے گی۔ حضرت مخدوم بہا الدین زکریا ملتانی نے فرمایا اور تشریف لے گئے۔ حضرت سلطان باہو کی آنکھ کھلی تو آپ نے حضرت مخدوم بہا الدین زکریا ملتانی کی روح کو ایصال ثواب کیا اور مزار مبارک کے احاطے سے باہر نکل آئے، پھر شمال کی جانب روانہ ہوگئے۔ ظہر کی نماز کا وقت آیا تو حضرت سلطان باہو نے دریا کے کنارے وضو کیا۔ ابھی آپ نماز کی نیت باندھنا ہی چاہتے تھے کہ آپ کو اپنی پشت کی طرف کسی متنفس کی موجودگی کا احساس ہوا۔ حضرت سلطان باہو نے پلٹ کر دیکھا۔ ایک خوبصورت ہندو دوشیزہ ہاتھ میں جوتے لیے ہوئے کھڑی تھی۔ حضرت سلطان باہو نے فوراً نظریں جھکا لیں اور نامحرم خاتون سے پوچھا۔ تم کون ہو اور یہاں کیوں آئی ہو آپ کے پیچھے چلتے چلتے میرے پائوں آبلوں سے بھر گئے ہیں۔ ہندو دوشیزہ نے اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے عرض کیا۔ خاتون آخر تمہیں میرے تعاقب کی ضرورت کیوں پیش آئی حضرت سلطان باہو نے بدستور نظریں جھکائے ہوئے دریافت کیا۔ میں ملتان کے ساہوکار کی بیٹی ہوں۔ ہندو دوشیزہ نے عرض کیا۔ بہت دنوں سے میرے دل میں ایک عجیب سی خلش تھی۔ مجھے اپنے ہم مذہبوں کی پوجا کا یہ انداز پسند نہیں تھا کہ انسان ہوتے ہوئے پتھر کے مجسموں کے آگے سر جھکا دوں۔ پھر یہی خلش مجھے حضرت غوث الملک مخدوم بہا الدین زکریا کے مزار مبارک پر لے گئی۔ میں نے یہاں کے مسلمانوں سے سنا ہے کہ غوث الملک کے دربار سے بے شمار لوگ فیضیاب ہوچکے ہیں۔ میں بھی اپنے دل میں یہی خواہش لے کر آئی تھی کہ شاید میرا مقدر بھی جاگ جائے۔ حضرت سلطان باہو نے آسمان کی طرف دیکھا اور پھر فرمایا۔ کہیں ظہر کا وقت تنگ نہ ہوجائے، اس لیے تم تھوڑا سا انتظار کرلو۔ میں نماز ادا کرلوں پھر تمہارے خلش و اضطراب کا حال سنوںگا۔ یہ کہہ کر حضرت سلطان باہو نماز کے لیے کھڑے ہوگئے۔ ہندو دوشیزہ بہت قریب سے ایک مردِ مومن کی عبادت کے انداز دیکھتی رہی۔ اسے یہ سب رکوع و سجود بہت عجیب معلوم ہورہے تھے۔ پھر جب حضرت سلطان باہو نماز سے فارغ ہوگئے تو آپ نے ہندو دوشیزہ سے پوچھا۔ تمہاری ذہنی خلش اور تڑپ اپنی جگہ مگر تم مجھ سے کیا چاہتی ہو ایک داسی کنیز اپنے مالک سے اس کے سوا اور کیا چاہے گی کہ وہ اسے اپنے قدموں میں پڑا رہنے دے۔ ہندو دوشیزہ نے دونوں ہاتھ جوڑتے ہوئے عرض کیا۔ میں نے آپ کو غوث الملک حضرت بہا الدین زکریا ملتانی کے مزار مبارک میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا تھا، پھر جب آپ باہر تشریف لائے تو میں آپ کا چہرہ دیکھتے ہی مسلمان ہوگئی کیونکہ مجھے غوث الملک کے دربار سے حکم ملا تھا کہ میں آپ کی لونڈی بن جائوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں ایک داسی کی طرح اپنے مالک کے پیچھے پیچھے چل رہی ہوں۔ ہندو دوشیزہ کا بیان سن کر حضرت سلطان باہو کو شدید حیرت ہوئی۔ پھر آپ نے کچھ دیر مراقبہ فرمایا۔ مراقبے کے دوران ہی حضرت سلطان باہو کو اپنے الفاظ یاد آئے جب آپ نے حضرت مخدوم بہا الدین زکریا کی جناب میں عرض کیا تھا۔ مخدوم اگر ایسا ہی ہے تو اپنے شہر سے کسی پاکیزہ آدمی کا بازو عطا کیجئے۔ یہ خیال آتے ہی حضرت سلطان باہو نے ہندو دوشیزہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ جب غوث الملک کا حکم ہے تو یہ خادم اسے کیسے ٹال سکتا ہے۔ تم مطمئن ہوجائو کہ اللہ تعالیٰ نے تمہیں تمہاری منزل تک پہنچا دیا۔ اس کے بعد حضرت سلطان باہو نے ہندو دوشیزہ کو کلمۂ طیبہ کی تلقین کی۔ پھر جب وہ لڑکی اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور خاتم النبین حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت کا اقرار کرچکی تو حضرت سلطان باہو اسے اپنے ہمراہ لے کر شہر کی طرف آئے اور اس علاقے کے اکابرین کی موجودگی میں آپ نے اس سے نکاح کرلیا۔ پھر اپنے آبائی وطن شورکوٹ کی طرف روانہ ہوگئے۔ ٭ ٭ ٭ حضرت سلطان باہو کی والدہ ماجدہ خود بھی ایک صاحب کشف خاتون تھیں۔ آپ حضرت سلطان باہو کی تینوں بیویوں کو مخاطب کرکے اکثر فرمایا کرتی تھیں۔ میرا بیٹا تمہارے لیے ایک اور سوکن لے آئے گا مگر تم رنجیدہ خاطر نہ ہونا کہ تمہارا شوہر ایک ولی ہے اور اسی کے ذریعے تمہیں نجات حاصل ہوگی۔ حضرت بی بی راستی کا ارشاد سن کر حضرت سلطان باہو کی تینوں بیویاں سر تسلیم خم کردیتی تھیں۔ پھر جس دن حضرت سلطان باہو نے چوتھی عورت کو اپنے نکاح میں داخل کیا تو آپ نے تینوں بہوئوں کو مخاطب کرکے فرمایا۔ تم آزردہ خاطر نہ ہونا کہ میرا بیٹا تمہاری ایک اور سوکن لے کر آرہا ہے۔ حضرت سلطان باہو کی تینوں بیویاں حیران ہوئیں کہ ان کے شوہر تو تلاش مرشد میں نکلے ہیں، پھر یہ سوکن کہاں سے آگئی دراصل ان عورتوں کو حضرت بی بی راستی کی قوت کشف کا اندازہ نہیں تھا۔ وہ انہیں محض ایک مہربان اور نیک دل ساس سمجھتی تھیں۔ پھر جب حضرت سلطان باہو اپنی نئی شریک حیات کو لے کر والدہ ماجدہ کی خدمت میں حاضر ہوئے تو حضرت بی بی راستی نے نہایت ناخوشگوار لہجے میں فرمایا۔ باہو کیا تجھے اللہ تعالیٰ نے بہت سی عورتیں جمع کرنے کے لیے پیدا کیا ہے یا تیری پیدائش کا مقصد کچھ اور ہے والدہ ماجدہ کی تلخ گفتگو سن کر حضرت سلطان باہو کچھ گھبرا گئے۔ آپ نے پوچھا۔ پھر آپ ہی بتایئے کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے کس کام کے لیے پیدا کیا ہے اپنی معرفت کے لیے، نہ کہ بہت سی شادیاں کرنے کے لیے۔ حضرت بی بی راستی نے فرمایا۔ آپ کے چہرئہ مبارک پر ناخوشگواری کے آثار صاف نمایاں تھے۔ اُم محترم مجھے معرفت الٰہی حاصل ہے۔ حضرت سلطان باہو نے بصد احترام عرض کیا۔ جواب میں آپ کی والدہ ماجدہ حضرت بی بی راستی نے فرمایا۔ جب تک کسی مرشد کے ہاتھ میں اپنا ہاتھ نہیں دو گے، تمہیں معرفت حاصل نہیں ہوگی۔ اب آپ ہی بتائیں کہ میں اپنے مرشد کو کہاں تلاش کروں والدہ ماجدہ نے فرمایا۔ روئے زمین پر ڈھونڈو۔ حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ اُم محترم اللہ کی زمین تو بہت وسیع ہے۔ حضرت بی بی راستی نے فرمایا۔ بے شک اللہ تعالیٰ نے اپنی زمین کو بہت وسعت بخشی ہے مگر اس کے ساتھ ہی اپنے بندوں کے حوصلے بھی بہت بلند کئے ہیں۔ انہیں نہ صرف ذوق جستجو عطا کیا ہے بلکہ زمین کو ان کے لیے مسخر بھی کردیا ہے۔ پھر بھی کچھ تو نشاندہی فرمایئے۔ حضرت سلطان باہو نے عرض کیا۔ حضرت بی بی راستی نے مراقبہ کیا اور پھر فرزند کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اس طرف سے تمہارے مرشد کی خوشبو آتی ہے۔ حضرت بی بی راستی نے مشرق کی طرف اشارہ کیا تھا۔ بالآخر حضرت سلطان باہو اپنی والدہ محترمہ کی دعائوں کے سائے میں مشرق کی طرف روانہ ہوگئے۔ ٭ ٭ ٭ حضرت سلطان باہو شورکوٹ سے رخصت ہوکر دریائے راوی کے کنارے پہنچے۔ یہاں آپ نے مقامی لوگوں سے ایک بزرگ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کے بارے میں سنا۔ حضرت شاہ صاحب کی بہت سی کرامات مشہور تھیں۔ حضرت سلطان باہو کو آپ کی ذات میں ایک خاص کشش محسوس ہوئی۔ حضرت شاہ حبیب اللہ قادری پنجاب کے ایک گائوں بغداد میں رہتے تھے مگر اب یہ گائوں پاکستان کے نقشے پر موجود نہیں۔ حضرت سلطان باہو نے مقامی باشندوں سے بغداد گائوں کا پتا پوچھا اور حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کی خدمت میں حاضر ہوگئے۔ اس وقت حضرت شاہ صاحب کی مجلس روحانی میں سیکڑوں طالبانِ حق موجود تھے۔ حضرت سلطان باہو بھی ادب اور خاموشی کے ساتھ مجلس میں بیٹھ گئے۔ بہت دیر تک حضرت شاہ حبیب اللہ قادری کا درس جاری رہا۔ پھر حضرت سلطان باہو نے اس خانقاہ کی ایک عجیب رسم دیکھی۔ جاری ہے
null
null
null
null
467
https://www.urduzone.net/yaha-koi-apna-nahe-teen-auratien-teen-kahaniyan/
جب ہوش سنبھالا گھر میں اماں کو سلائی کرتے اور ماموں کو سودا سلف لاتے دیکھا۔ ان دونوں کے منہ سے مرحوم ابا کا ذکر بھی سنا کرتی تھی کہ بہت شریف الطبع اور نفیس آدمی تھے،کتابوں کی دکان تھی، علم دوست تھے، محلے میں سبھی ان کی عزت کرتے تھے لیکن زندگی نے وفا نہ کی اور انہیں کم سن ماموں کے سہارے چھوڑ کرچل بسے۔ دکھ سکھ کے دن جوں توں کر کے گزرتے رہے۔ میں اسکول میں پڑھتی رہی اور ماں سلائی کرتی رہیں۔ گھر میں روز محلے کی عورتوں کا آنا جانا رہتا تھا۔ کیونکہ امی بہت عمدہ سلائی کرتی تھیں۔انہوں نے گورنمنٹ ووکیشنل سینٹر سے دو سالہ ڈپلوما کیا تھا، کچھ اپنا شوق تھا کہ کٹنگ میں طاق تھیں۔ کیا جانتی تھیں کہ ایسا وقت آ پڑے گا کہ یہ شوق ان کے لیے گزر اوقات کا وسیلہ بن جائے گا۔ بیشک محلے میں ان کے مقابلے کا کوئی نہ تھا، ہنر مندی اور سلائی میں ٹیلر ماسٹر کو بھی پیچھے چھوڑ دیا تھا۔ درزی اس دور میں ایک سوٹ کا چار سو روپیہ لیتا تو یہ ایک سو میں اس سے اچھا سی کر دیا کرتی تھیں۔ تبھی سارے محلے کے کپڑے سلنے ان کے پاس آنے لگے۔ ماں کی مشین سے ایسی سنگت ہو گئی کے سر کھجانے کی فرصت نہ رہی، عام دنوں کے علاوہ عید شادی کے موسموں میں عورتوں کا ہمارے گھر تانتا بندھ جاتا۔ اور ڈھیروں ڈھیر کپڑے سلنے کو آ جاتے۔ میں بہ مشکل میٹرک کر سکی، ماں نے مجھے گھرداری سنبھالنے کے مشن پر جو لگا دیا تھا، انہیں اب میری شادی کی فکر تھی جس کے لیے ان کے خیال میں جہیز ضروری تھا، ورنہ کسی معقول گھرانے سے رشتے کی امید نہ رکھی جا سکتی تھی۔ ماموں نے ایف ایس سی کرنے کے بعد ادویات کے اسٹور پر ملازمت کرنے کی خاطر ضروری کورس کیا، پھر فارمیسی اسٹور پر سیلز مین ہو گئے، ماموں بھی کمانے لگے، ہمارے گھر کے مالی حالات سنبھل گئے۔ والدہ چاہتی تھیں کہ اپنے بھائی کی شادی کر دیں اور بھابھی گھر سنبھال لے۔ لیکن ماموں راضی نہ ہوئے۔ ان کا کہنا تھا پہلے نازیہ کی شادی ہو جائے اس کے بعد میں اپنا گھر آباد کرنے کے بارے میں سوچوں گا۔ محلے کی تمام خواتین سے والدہ کی اچھی واقفیت تھی کہ ان کا برسوں کا آنا جانا تھا۔ جب وہ کپڑے سلوانے آتیں، تھوڑی دیر بیٹھ کر میری ماں سے دکھ سکھ بھی کر لیتیں۔ اکثر خواتین اپنے جواں سال بچوں کے رشتے کے بارے میں تفکر کا اظہار کرتیں۔ بہن اگر کوئی اچھا رشتہ ہو تو بتانا۔ ایسا کہنے کا مطلب یہ ہوتا کہ کسی دوسری خاتون نے اگر یہی پیغام دیا ہے تو وہ دونوں طرف بات پہنچا دیں۔ والدہ یہ کام بخوبی کر سکتی تھیں جب ایک بی بی کہتیں مجھے بیٹی کے لیے اچھا لڑکا مطلوب ہے تو دوسری جب آتی وہ اپنے بیٹے کے لیے کسی پڑھی لکھی لڑکی کے رشتہ کی طالب ہوتی، والدہ اسے بتا دیتیں کہ فلاں بی بی نے مجھے کہا تھا تمہارا تذکرہ ضرور ان سے کروں گی۔ قسمت میں ہو گا تو رشتہ مل جائے گا۔ رشتے ناتے ایسے ہی کسی وسیلے سے ہوتے ہیں۔ جب دو خواتین کی ضرورت کا تذکرہ والدہ کی زبانی ہو جاتا تو وہ ایک دوسرے سے رابطہ کر لیتیں یوں کئی رشتے بنتے اور شادیاں ہو جاتیں۔ والدہ سلائی والی خالہ کے بعد رشتہ کرانے والی خالہ مشہور ہوگئیں۔ حالانکہ امی جان کا اس میں کوئی شعوری عمل دخل نہ تھا۔ وہ فی سبیل اللہ تذکرہ کرتی تھیں۔ شاید کسی کا کام ہو جائے اگر دعائوں سے تقدیریں بدلتی ہیں تو ممکن ہے کسی کی دعا کے صدقے میں ان کی بیٹی کا نصیب بھی کھل جائے۔ جتنی خواتین کپڑے سلوانے آتیں وہ اب زیادہ اس غرض سے آنے لگیںکہ کلثوم بی بی کو بہت سے اچھے گھرانے کی بیبیاں جانتی ہیں ان کے ذریعے رشتے ہو جاتے ہیں، لہٰذا ہم بھی ان سے جا کر مدعا کہیں گے تو ہماری بچیوں کے نصیب کھل جائیں گے۔ ادھر امی جان کو روز و شب میری فکر گھلا رہی تھی۔کہتی تھیں یہ خیر سے اپنے گھر کی ہو جائے تو میں چین سے مر سکوں گی۔ یوں ماں اور ماموں کسی رشتے کے انتظار میں روز جیتے اور روز مرتے رہے والدہ کے توسط سے درجنوں لڑکیوں کے رشتے ہوئے لیکن میرے لیے وہ نہ آیا جو مجھے ڈولی میں بٹھا کر اپنے گھر لے جاتا۔ والدہ ہر خاتون کو رشتہ بتاتیں مگر اپنی بیٹی کے لیے زبان نہ کھلتی، انہیں لحاظ آتا تھا۔ سوچتی ضرور تھیں کہ یہ رشتہ ڈھونڈتی پھرتی ہیں مجھ سے بار بار کہتی ہیں کہ ہمارا بیٹا پڑھ لکھ گیا ہے، بر سر روزگار ہے، بزنس ہے۔ یہ ہے وہ ہے، آخر انہیں میری بیٹی کیوں نظر نہیں آتی۔ غربت گھر کی باندی ہو جائے تو اچھے رشتے بھی مشکل سے آتے ہیں۔ محلے والے کچھ امیر کبیر، کچھ کھاتے پیتے اور خوشحال لوگ تھے۔ اماں ہر کسی سے دکھ سکھ کرتیں۔ جانے کتنے لڑکے پڑھ لکھ کر جوان ہو گئے۔ افسر بھی ہو گئے لیکن یہ کسی نے نہ پوچھا کہ تم نے اب تک نازو کا رشتہ کیوں نہیں کیا، آخرکب تک گھر میں بٹھائے رکھو گی۔ کلثوم کی بیٹی پر کسی کی نظر نہ ٹکی حالانکہ میں خوب سلیقہ مند، سگھڑ،خوبصورت اور با ادب تھی جو آتی کہتی،کلثوم تیری بیٹی لاکھوں میں ایک ہے، اللہ نصیبہ اچھا کرے، صاحب نصیب ہو۔ اس دعا پر اماں اب خود منہ سے کہنے لگی تھیں کوئی اچھا رشتہ آجائے میری نازو کے لیے بھی بس یہی دعا کرو۔ جواب ملتا اللہ نے چاہا تو نصیبہ کھل جائے گا۔ وقت گزرتا گیا، محلے کی کئی لڑکیاں سہاگنیں اور لڑکے دولہا بنے۔ پھر بچوں کے ماں باپ بھی بن گئے تھے مگر میرا نصیبہ نہ کھلا۔ میری عمر تیزی سے پکے سن کی طرف منازل طے کرتی جارہی تھی اور ماں عمر رسیدگی سے بڑھاپے کی طرف محو سفر تھیں، ماموں کی گھر بسانے کی آرزو تھکنے لگی۔ ان کے سر میں بھی چاندی کے بال چمکنے لگے لیکن میرے لیے کوئی اچھا رشتہ نہ آیا۔ اب دونوں کے لیے میرے وجود کا پہاڑ ایسا بوجھ اٹھانا مشکل ہو گیا۔ وہ اب اٹھتے بیٹھتے کہتیں جانے کتنے رشتے کرائے کسی کی دعا نہ لگی، میری بیٹی کے بھاگ نہ کھلے۔ اماں بیچاری اسی فکر میں سٹھیانے لگیں اور ماموں باہر ملنے جلنے والوں کے بیچ میرے رشتے کے لیے التجا آمیز لہجے میں باتیں کرنے لگے۔ والد حیات تھے تو گھر میں کسی شے کی کمی نہ تھی۔ ماں نے محنت کا دامن تھاما، عزت میں فرق نہ آیا مگر حیثیت میں بہت بڑا فرق آگیا۔ پہلے لوگ ان کو فاروق کی بیگم کہتے تھے۔ پھر سلائی والی خالہ نام پڑ گیا اور اب وہ رشتے کرانے والی مشہور ہو گئیں۔ تبھی میرے لیے کوئی رشتہ لے کر نہ آتا۔ ہمارا گھر بھی کیا تھا۔ کئی برسوں سے سفیدی ہوئی اور نہ ٹوٹ پھوٹ کی مرمت ہو سکی، اب یہ گھر ایک کھنڈر کی سی شکل اختیار کرتا جا رہا تھا۔ دیواروں سے پلستر اکھڑ گیا تھا، نل ٹوٹ گئے تھے، پانی چھت کی ٹنکی اور دیواروں سے بہتا تھا، بارش میں اس کمرے کی چھت جہاں پانی کی ٹنکی بنی تھی جھر جھر بہنے لگتی تھی۔ فرنیچر چالیس برس پرانا لگتا۔ ایسے گھر کی لڑکی لینے کون آتا ہے۔ اگرچہ اماں نے پیسہ پیسہ جوڑ کر اچھا خاصا جہیز جمع کر کے اسٹور میں بھر دیا تھا۔ ایک وقت ہوتا ہے کہ لڑکی سنہرے خواب دیکھتی ہے گھر بسانے کے، ا سے سجانے کے، یہ خواب فطرت کا تحفہ ہوتے ہیں لیکن مجھ پر وہ وقت آ چکا تھا کہ میں ان خوابوں کو خدا حافظ کہہ چکی تھی۔ ماموں ایک روز اخبار پڑھتے پڑھتے امی جان سے مخاطب ہوئے۔ کلثوم باجی روز اخبار میں طرح طرح کے اشتہارات نظر سے گزرتے ہیں۔ آج ضرورت رشتہ کا ایک اشتہار پڑھا، خیال آ گیا کیوں نہ ہم نازو بیٹی کے لیے اس اشتہار کنندہ سے رابطہ کرلیں۔ ممکن ہے اس طرح ہماری بیٹی کی قسمت کھل جائے۔ جیسی تمہاری مرضی، ماں نے بے دلی سے جواب دیا اور سلائی میں مشغول رہیں۔ ماموں نے اپنے طور پر ان لوگوں سے رابطہ کر لیا اور ہفتہ بعد ان کا جواب بھی آ گیا۔ ایک رشتہ میرے لائق تھا اور لڑکے والے لڑکی کو دیکھنے آنا چاہتے تھے۔ ماموں نے پتا سمجھایا، اگلے روز دو خواتین ایک نوجوان کے ہمراہ آ گئیں۔ نوجوان تیس برس کا لگتا تھا، ممکن ہے دو چار سال زیادہ عمر کا ہو، میں بھی کب نوخیز لڑکی رہ گئی تھی۔ ستائیس سال کی ہو چکی تھی، نازو کے لیے تو اس عمر کا رشتہ موزوں رہے گا، امی بولیں، دیکھ منے بھیا کہیں پہلے سے شادی شدہ نہ ہو۔ اچھی طرح چھان بین کروں گا باجی۔ ماموں بھلا کیا چھان بین کرتے، قطعی اجنبی لوگ تھے وہ، کوئی جان نہ پہچان، لڑکے کی والدہ اور بہن نے یقین دلایا کہ ہمارا بیٹا بہت نیک، شریف اور تابع دار ہے، خوب کمائو بھی ہے۔ گھر میں اللہ کا دیا سب ہی کچھ ہے اور آپ لوگ چل کر ہمارا گھر دیکھ لیں۔ ماموں ناتجربہ کار، عقل بھی ایسی کہ جو کچھ کوئی کہتا یقین کر لیتے۔ وہی ان لوگوں کا گھر دیکھنے گئے اور بڑی تعریفیں کیںکہ امیر لوگ ہیں۔ ہماری نازو کی خوش قسمتی ہے جو ہم جیسے غریب لوگوں میں رشتہ کرنے کو تیار ہیں۔ ورنہ ایسے ٹوٹے پھوٹے گھر میں کون آتا ہے۔ والدہ کچھ تذبذب میں تھیں کہ لڑکا اچھی شکل کا ہے۔ پڑھا لکھا ہے۔ امیر لوگ ہیں گھر بھی شاندار ہے۔ کسی شے کی کمی نہیں ہے۔ خوب کمائو ہے، شریف ہے تو پھر کیوں غیروں میں ایک غریب گھر کی لڑکی پسند کر لی، کیا انہیں اپنے ہم پلہ رشتے نہیں ملا۔ آپی آپ بہت شکی ہیں، عجیب و غریب باتیں سوچتی ہیں، بھئی لوگ سبھی ایک سے نہیں ہوتے۔ کچھ لوگوں کے نزدیک امیری غریبی کی تفریق پسندیدہ بات نہیں ہوتی۔ شرافت اور لڑکی کا طور طریقہ، سیرت، سلیقہ ان کے لیے اہمیت رکھتا ہے۔ ہماری نازو میں کیا کمی ہے۔ انہوں نے ایک نظر لڑکی کو دیکھا اور پسند کر لیا۔ بس یہی کافی ہے۔ باجی یہ رشتہ مت ٹھکرایئے گا۔ بڑی مشکل سے نازو کے بیاہنے کی سبیل نکلی ہے،آج یہ بھی رد کر دیا،کیا خبر کل کوئی دوسرا رشتہ آئے نہ آئے۔ اتنے عرصے سے والدہ بھی نماز میں وظیفے کا سہارا لیے تھیں اب رشتہ آ گیا تھا، دل مضبوط کر کے ان لوگوں کو ہاں کہہ دی۔ میری شادی منیر سے ہو گئی۔ انہوں نے میرے ساتھ ایک ماہ گزارہ۔ میکے آئی تو بڑی سی گاڑی میں، محلے والے حیران کہ رشتے کرانے والی خالہ کی بیٹی کی کس طرح اتنے امیر لوگوں میں شادی ہو گئی۔ ایک ماہ بعد منیر نے بتایا کہ وہ دبئی جا رہے ہیں وہاں کاروبار کرتے ہیں، چھٹی پر آئے تھے۔ اب لوٹ کر جانا ناگزیر ہے۔ لیکن کب تک واپس آنا ہو گا آپ کے بنا یہاں اکیلی کیسے رہوں گی اکیلے کیوں رہو گی۔ تم کو تمہارے میکے چھوڑوں گا، وہاں جاکر بلانے کی کوشش کروں گا۔ زیادہ انتظار نہ کرنا پڑے گا بہت جلد میرے پاس آ جائو گی۔ بتاتی چلوں کہ مجھے دو خواتین ان کے ساتھ رشتہ دیکھنے آئی تھیں شادی کے بعد ان کے ساتھ چار دن رکھا پھر مجھے کراچی لے آئے، بولے،میرا مین دفتر یہاں ہے اور ایک فلیٹ بھی ہے۔ تم یہاں رہو گی میرے ساتھ۔ دبئی جانے لگے تو کہا کہ ایک دوست کے گھر چھوڑ کر جا رہا ہوں، یہی تم کو میرے پاس دبئی پہنچا دے گا۔ چاہو تو میکے جاکر رہ لو لیکن خانیوال کافی دور ہے، سوچ لو۔ کہاں رہنا چاہو گی۔ جہاں آپ مناسب سمجھیں وہیں رہ لو ں گی۔ میرے خیال میں تو فصیح کے گھر پر رہنا بہتر ہوگا۔ وہ تمہارا پاسپورٹ ضروری کا غذات بنوائے گا اور تم کو میرے پاس بھجوانے کا بندوبست کرے گا۔ لازم ہے کہ تم کراچی میں موجود رہو۔ ہاں چاہو تو چند روز کے لیے ماں سے مل آنا۔ فصیح تمہیں لے کر جائے گا، وہ فصیح کے گھر مجھے لے گئے جہاں ایک بوڑھی عورت اور ملازم تھا۔ بتایا کہ یہ عورت فصیح کی خالہ ہے۔ بھانجے کے پاس رہتی ہے۔ تم ان کے پاس رہو گی۔ جو بھی حالات تھے قبول کرنا تھے۔ اپنے شوہر کی خاطر منیر دبئی چلے گئے اور میں فصیح کی خالہ کے پاس آ گئی، یہاں سے دوچار بار امی سے بات ہو ئی، وہ مطمئن تھیں کہ مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے۔ پوچھا کہ تمہارے ماموں کو بھیجوں، ابھی نہیںجب میرا ویزا آ جائے گا فون پر بتا دوں گی آپ اور ماموں آ کر مل جانا۔ ایک ماہ پلک جھپکتے گزر گیا۔ اس دوران دو بار فصیح ہفتے ہفتے بھر گھر نہ آیا۔ اس کے ملازم نے بتایا کہ کاروبار کے سلسلے میں جاتے رہتے ہیں۔ کھانا ان کی خالہ بناتی تھیں اور ملازم سودا وغیرہ لاتا، اوپر کے بہت سے کام کرتا تھا۔ مجھے انہوں نے الگ سے ایک کمرہ دے دیا تھا، فصیح کو گئے دس دن ہو گئے تھے۔ پھر ایک دن اچانک وہ آ گیا اور کہا کہ ویزا آ گیا ہے تیاری کر لیں۔ دبئی جانا ہے۔ منیر تو نہیں آسکا۔ میرے ساتھ دبئی جائیں گی آپ۔ جانے کا وقت بھی آ گیا۔ امی سے فون پر بات ہوئی، یہ سب اچانک ہوا اور امی سے ملنے کا ٹائم بھی نہ ملا۔ میں فصیح کے ہمراہ دبئی روانہ ہو گئی۔ ایئرپورٹ پر منیر لینے آیا ہوا تھا اسے دیکھتے ہی خوش ہو گئی۔ میں نے کہا کہ امی کو فون پر بتا دو میں آپ کے پاس بخیریت پہنچ گئی ہوں۔ وہ فکر مند تھیں۔ بولے کہ ہاں ابھی ہوٹل چل کر بات کرا دیتا ہوں۔ میں نے کہا ہوٹل کیوں کیا گھر نہیں ہے۔ جواب دیا، ہوٹل چل کر ذرا فریش ہو جائو،کھانا وغیرہ کھا لیں پھر گھر بھی چلتے ہیں، گھر یہاں سے کافی دور ہے۔ سو میل سے کچھ زیادہ فاصلہ ہے تھکن ہو جائے گی۔ یہ دونوں مجھے ہوٹل لے آئے۔ کھانا وغیرہ کھایا۔ پھر کہا اب تم تھوڑا آرام کر لو۔ تب تک ہم ایک کام سے جاتے ہیں دوچار گھنٹے تک واپس آئیں گے۔ امی سے تو بات کروا دو۔ ہاں، ابھی کراتا ہوں۔ بھول ہی گیا تھا۔ انہوں نے میری بات کروا دی۔ امی کافی پریشان تھیں کیونکہ ملاقات بھی نہ ہو سکی تھی۔ میں نے تسلی دی۔ بولیں میری منیر سے بات کرائو۔ اسے کہا کہ میری بیٹی کو پردیس لے گئے ہو۔ بہت خیال رکھنا، اسے کوئی تکلیف نہ دینا۔ جواب دیا بے فکر رہیے خالہ جی۔ آپ کی بیٹی ہے تو میری بھی شریک زندگی ہے۔ اسے کوئی تکلیف نہ ہو گی۔ والدہ بے چاری کیا کہہ سکتی تھیں سوائے دعا کے اور کیا کرسکتی تھیں۔ اب میں ان سے دور جا چکی تھی اور کسی اور کے بس میں تھی۔ مغرب کے بعد یہ لوگ آئے۔ کہا تیار ہو چلنا ہے میں نے منہ دھوکر کپڑے بدل لیے۔ وہ مجھے ایک شاندار گھر لے آئے۔ گھر کیا تھا محل تھا اور ہر چیز قیمتی و اعلیٰ تھی۔ ہر شے سے امارت ٹپک رہی تھی میں تو جیسے خوابوں کی دنیا میں پہنچ گئی تھی۔ یہ خواب یوں ٹوٹا کہ یہ گھر میرا گھر نہ تھا، اور منیر میرا شوہر میرا نہ تھا۔ یہ لوگ غلط لوگ تھے اور غلط کام ان کا کاروبار تھا۔ یہ اپنے وطن سے غریب اور لاوارث لڑکیاں لاتے۔ یہاں ان کو دوسروں کے ہاتھوں میں سونپ کر روپیہ کمانے کا ذریعہ بناتے تھے۔ یہ لوگ دیکھ بھال کر ایسی چڑیا پکڑتے جن کے پیچھے کوئی مضبوط آدمی نہ ہوتا۔ آگے کیا ہوا۔ میںکن کن کٹھنائیوں سے گزری، یہ ایک طویل کہانی ہے اور مجھ میں رقم کرنے کی بھی تاب نہیں ہے۔ سنتی تھی کہ بنگلہ دیشی عورتوں کو ملازمت اور اچھی زندگی کا جھانسا دے کر لوگ دوسرے ملکوں حتیٰ کہ ہمارے وطن میں ناجائز طریقوں سے لے آتے ہیں۔ اور یہاں لا کر فروخت کر دیتے ہیں۔ ان سے مذموم کام بھی لیتے ہیں۔ ان کی باقاعدہ منڈی لگتی ہے جہاں خریدنے والے ان کو خرید کر لے جاتے ہیں۔ گائوں میں ایسی کئی بنگلہ دیشی لڑکیاں اور عورتیں دیکھی تھی، جن کو دیہاتی اپنے لیے شادی کے غرض سے خرید کر لائے تھے۔ ان میں بہت سی بے چاری شادی شدہ اور بچوں والی تھیں۔ و ہ اپنے نصیبوں کو روتی تھیں، آج میرا حال ان سے برا تھا۔ مجھ ایسی اور بھی تھیں جن کو میری طرح خرید کر یہاں لایا گیا تھا۔ کسی سے شادی کر کے،کسی کو ملازمت کا جھانسا دے کر اور اب وہ دلدل میں پھنسی تھیں۔ کچھ دولت کی چمک کی وجہ سے اس دلدل میں رہنے کی عادی ہوچکی تھی لیکن میری جیسی کے دل میں عزت کی پامالی کا درد ناسور بنتا جا رہا تھا۔ دن رات دعا کرتی تھی۔ آخر اللہ نے سن لی اور ایک روز ایک ایسا ہمدرد انسان مل گیا جس کی مدد سے میں اس دلدل سے نکل کر اپنے وطن لوٹ آنے میں کامیاب ہو گئی۔ یقین نہ آتا تھا کہ اپنے گھر آ چکی ہوں۔ بڑی حیرت تھی کہ کیسے معجزہ ہوگیا۔ اور میں واپس اپنی ماں کے پاس آ گئی۔ اماں نے حال سنا تو روتے روتے نڈھال ہو گئیں لیکن منہ پر تالا لگا لیا کہ اپنی عزت خود اچھالنا نہیں چاہتی تھیں۔ ہم نے خاموشی اختیار کر لی، اب بھی عورتیں سلائی کرانے کے لیے کپڑے لاتیں، میرے بارے میں اماں سے سوال کرتیں اور والدہ جواب دیتیں، جو اللہ کو منظور تھا ہو گیا۔ بیٹی کی شادی ایک جوا ہے، منافع ہو کہ خسارہ برداشت کرنا پڑتا ہے۔ وہ بہت ہمدردی کرتیں لیکن یہ خیر خواہ بیبیاں باہر جاکر کہتیں۔ بے چاری نازو اتنی اچھی لڑکی کی قسمت پھوٹ گئی۔ خالہ جی نے دسیوں رشتے کرائے اپنی ایک بیٹی کا رشتہ صحیح جگہ نہ کرا سکیں۔ ہمیں تو پہلے ہی خدشہ تھا کہ امیر گھرانے میںدی ہے خدا خیر کرے۔ اپنے سے ا ونچے لوگوں میں رشتہ جوڑیں گی تو ایسا ہی ہو گا، بیٹی کو طلاق ہو گئی نا آخر۔ کسی غریب کے گھرمیں دیا ہوتا دو وقت کی روٹی ملتی مگر گھر تو ہوتا۔ والدہ کے کانوں میں جب ایسی باتیں پڑتیں تو وہ خاموشی سے آنسو پونچھ کر مشین پر جھک جاتیں۔ بھلا کیا مقابلہ تھا اس دنیا سے۔ سلائی مشین سے سنگت تھی سو نباہ رہی تھیں۔ دنیا بڑی سفاک جگہ ہے اور لوگوں کی گز بھرزبانیں ہیں۔ کسی کو جواب دینا ہم جیسے غریبوں کے بس کی بات نہیں۔ ع۔الف۔ خان پور
null
null
null
null
468
https://www.urduzone.net/dard-ashna-complete-urdu-story/
تم یہ آئینہ توڑ کیوں نہیں ڈالتیں عامر نے ہاتھ میں پکڑا ہوا اخبار زور سے میز پر پٹخا اور کمرے سے نکل گیا۔ ماریہ اس کی بات سن کر اپنی جگہ ساکت بیٹھی رہ گئی۔ عامر کا یہ انداز اس کیلئے نیا تھا۔ وہ اس لہجے میں بات کرنے کا عادی نہیں تھا۔ پھر اس کی سمجھ میں یہ نہیں آرہا تھا کہ آخر عامر نے اس ردعمل کا اظہار کس لئے کیا تھا اور اس کی ناراضی کی وجہ دراصل کیا تھی۔ ماریہ نے اپنا بایاں ہاتھ بے اختیار دل پر رکھ لیا جو زور زور سے دھک دھک کررہا تھا۔ اس شاک سے سنبھلنا اس کیلئے مشکل ہورہا تھا کیونکہ عامر نے کبھی اس سے اس لہجے میں بات نہیں کی تھی۔ اسے یکدم یہ خیال ستانے لگا کہ کہیں عامر کے ساتھ کوئی بڑا مسئلہ تو پیش نہیں آگیا تھا جس کی وجہ سے وہ اس قدر پریشان تھا۔ ماریہ اس وقت یہ سوچنا نہیں چاہتی تھی کہ وہ اس سے کچھ چھپانے کی کوشش کررہا تھا۔ اس نے اپنا سر جھٹکا اور اپنا دھیان بٹانے کیلئے اس لسٹ کی طرف متوجہ ہوگئی جو کچھ دیر پہلے اس نے بنائی تھی۔ عامر کے اچانک غصے میں آجانے سے پہلے وہ اسی لسٹ کے بارے میں اس سے تبادلۂ خیال کررہی تھی۔ ماریہ اور عامر کی شادی چھ سال پہلے ہوئی تھی۔ گو کہ ان دونوں کی شادی ارینجڈ تھی تاہم یہ ان کی خوش قسمتی تھی کہ وہ ایک دوسرے کیلئے اچھے جیون ساتھی ثابت ہوئے تھے اور چھ سال کے عرصے میں ان کے درمیان مکمل ہم آہنگی قائم ہوچکی تھی۔ یہی وجہ تھی کی ان کے دوست احباب انہیں پرفیکٹ میچ قرار دیتے تھے۔ ماریہ اور عامر کے والد آپس میں دوست تھے۔ ان کی دونوں کی دوستی لڑکپن کے دور سے چلی آرہی تھی۔ عامر اپنے والدین کا اکلوتا بیٹا تھا۔ اس کے والد انجینئر تھے اور ایک پرائیویٹ ادارے میں اچھے عہدے پر فائز تھے۔ عامر کی پرورش انہوں نے بڑے ناز و نعم سے کی تھی اور اچھے سے اچھے اداروں میں اسے تعلیم دلوائی تھی۔ لاڈلا ہونے کے باوجود والدین نے اس کی تربیت اچھے خطوط پر کی تھی اور خود عامر کا مزاج بھی شروع ہی سے بہت سلجھا ہوا تھا۔ زندگی سکون اور آرام کے ساتھ گزر رہی تھی کہ اچانک اس سکون میں ارتعاش پیدا ہوا اور سب کچھ درہم برہم ہو کر رہ گیا۔ عامر کی والدہ جو انتہائی صحت مند اور ہنس مکھ خاتون تھیں، بلڈ کینسر کا شکار ہوکر ایک سال کے اندر اندر دنیا سے چل بسیں۔ عامر اس وقت میڑک کا طالبعلم تھا۔ اس موقع پر ماریہ اپنے والدین کے ہمراہ تعزیت کیلئے ان کے گھر آئی تھی۔ تب ہی اس نے پہلی بار عامر کو دیکھا تھا۔ اس وقت وہ دبلا پتلا سا پندرہ سال کا لڑکا تھا جو اپنی پیار کرنے والی ماں کی ناگہانی موت پر بالکل گم سم سا تھا۔ ماریہ کی عمر اس وقت بارہ سال سے بھی کم تھی لیکن تب اس نے عامر کیلئے اپنے دل میں ہمدردی کا جذبہ محسوس کیا تھا۔ یہ نرم گوشہ شاید ہر عورت کے دل میں موجود ہوتا ہے، خواہ اس کی عمر کچھ بھی ہو۔ تب ماریہ نے سوچا بھی نہیں تھا کہ یہی عامر ایک دن اس کی زندگی کا ساتھی بنے گا۔ گھر آنے کے بعد کچھ دیر تک انہی کا ذکر رہا پھر چند گھنٹوں کے بعد وہ اس بارے میں سب کچھ بھول بھال گئی اور گھر اور اسکول لائف میں مگن ہوگئی۔ اسکول میں اس کے بہت سے دوست اور گھر پر ایک بڑا بھائی اور ایک چھوٹی بہن اس کی توجہ بٹانے اور مصروف رکھنے کیلئے موجود تھے۔ پھر چند سال بعد اس نے گھر میں ذکر سنا کہ عامر کے والد ناصر احمد نے دوسری شادی کرلی تھی۔ انہوں نے اپنی ایک کولیگ سے شادی کی تھی جو برسوں سے ان کے ساتھ کام کررہی تھیں۔ ان کے شوہر کا انتقال چند سال پہلے ہوا تھا لیکن ان کی کوئی اولاد نہیں تھی۔ عامر کے والد کو یہ خاتون جن کا نام شائستہ تھے، اپنے گھر کی ویرانی دور کرنے اور اسے ایک بار پھر آباد کرنے کیلئے موزوں لگیں لہٰذا بیٹے سے مشورہ کرنے کے بعد انہوں نے ان سے نکاح کرلیا۔ شائستہ کے گھر میں آنے سے ان دونوں باپ بیٹے کو بہت سکون ملا۔ انہوں نے کبھی اپنے شوہر کو کسی شکایت کا موقع نہیں دیا۔ عامر کی وہ سوتیلی ماں تھیں اور سوتیلی ماں کا تو نام ہی برا سمجھا جاتا ہے لیکن انہوں نے روایتی سوتیلی ماں کا سا کردار نبھانے کی کوشش نہیں کی اور ابتدا میں حتی الامکان عامر کا خیال رکھا۔ عامر اب نوجوانی کی حدود میں قدم رکھ چکا تھا، وہ کم گو اور اپنے کام سے کام رکھنے والا لڑکا تھا۔ اس نے شائستہ بیگم کو اپنے گھر میں قبول کرلیا تھا لیکن ان کے درمیان ضرورت کے مطابق ہی بات چیت ہوا کرتی تھی۔ اس کی سلجھی ہوئی عادتیں دیکھتے ہوئے شائستہ بیگم نے بھی بلاضرورت اس پر حاوی ہونے کی کوشش نہیں کی لیکن اس کی لاتعلقی انہیں اچھی نہیں لگتی تھی۔ انہیں ایسا محسوس ہوتا تھا کہ عامر انہیں ناپسند کرتا ہے۔ جبکہ عامر کا مزاج ہی ایسا تھا، وہ اپنی دنیا میں رہنے والا لڑکا تھا۔ ان کے گھر کے معاملات بظاہر خوش اسلوبی کے ساتھ چلتے رہے لیکن کبھی کبھی عامر کو اپنے ہی گھر میں اجنبیت کا سا احساس ہوتا تھا کیونکہ اس کے اور شائستہ بیگم کے درمیان ایک غیرمحسوس سا کھنچائو تھا۔ بہرحال وقت گزرتا رہا اور عامر نے ایم بی اے مکمل کرکے ایک ملٹی نیشنل کمپنی جوائن کرلی۔ محنتی اور ذہین تو وہ تھا ہی لیکن قسمت بھی اس پر مہربان تھی لہٰذا اس نے بڑی تیزی کے ساتھ ترقی کی منازل طے کیں۔ پھر جب اس نے اپنا الگ گھر بنا لیا اور اپنی گاڑی بھی خرید لی تو ناصر احمد کو اس کی شادی کی فکر لاحق ہوئی۔ انہوں نے عامر کیلئے کئی لڑکیاں دیکھیں اور بالآخر ان کی نظر انتخاب ماریہ پر آکر ٹہر گئی۔ عامر نے اس معاملے کو مکمل طور پر والد کی پسند اور مرضی پر چھوڑ دیا تھا۔ ماریہ نے اسی سال گریجویشن مکمل کیا تھا لہٰذا اتنے اچھے اور دیکھے بھالے گھرانے کا رشتہ نظر انداز نہیں کیا جاسکتا تھا۔ سو، دونوں جانب سے بات طے ہونے کے دو ماہ بعد ہی وہ دلہن بن کر عامر کے گھر آگئی جو اب اپنے علیحدہ مکان میں رہنے لگا تھا۔ ناصر احمد اور شائستہ بیگم نے اس کے الگ ہونے پر اعتراض نہیں کیا، ناصر احمد نہیں چاہتے تھے کہ اس کی خوشیوں میں دخل دیں کیونکہ اس نے ہمیشہ فرمانبردار بیٹے کا رول نبھایا تھا اور انہیں کسی شکایت کا موقع نہیں دیا تھا۔ لہٰذا اب اگر وہ خودمختار زندگی گزارنے کا خواہاں تھا تو وہ اس کے راستے میں نہیں آنا چاہتے تھے۔ ناصر احمد اور شائستہ بیگم اپنے گھر میں خوش تھے۔ شائستہ بیگم ملازمت چھوڑ چکی تھیں اور ناصر احمد بھی ریٹائر ہونے والے تھے تاہم ان دونوں کو روپے پیسے کی کوئی کمی نہیں تھی۔ گھر کے کام کاج کیلئے انہوں نے دو ملازم رکھے ہوئے تھے۔ ایک خاتون رضیہ جو گھر کا کام انتظام سنبھالتی تھیں اور ایک لڑکا جو باہر کے کام انجام دیا کرتا تھا اور ضرورت پڑنے پر ڈرائیور کے فرائض بھی انجام دیتا تھا۔ شائستہ بیگم کو اب جوڑوں کا درد رہنے لگا تھا لہٰذا اب ان سے زیادہ کام کاج نہیں ہوتا تھا۔ گھر کے بیشتر کام وہی خاتون کرتی تھیں جو کئی سال سے ان کے پاس تھیں۔ ٭ ٭ ٭ ماریہ کئی منٹوں سے اپنے ہاتھ میں وہ لسٹ لئے اس پر اپنی نظریں جمائے تصورات کی دنیا میں کھوئی ہوئی تھی۔ عامر اپنے کمرے میں تھا اور آفس جانے کیلئے تیار ہورہا تھا۔ یہ لسٹ گھر کے ساز و سامان پر مشتمل تھی، وہ سامان جو شائستہ بیگم نے گزرے ہوئے سالوں کے دوران اپنے گھر کیلئے بڑے شوق سے لیا تھا تاہم اب یہ سامان، فاضل اشیا کی صورت اختیار کرچکا تھا کیونکہ اسے استعمال کرنے والا کوئی نہیں رہا تھا۔ شائستہ بیگم کو چند روز پہلے ہی دل کا دوسرا دورہ پڑا تھا اور وہ اسپتال میں داخل تھیں۔ ناصر احمد کے انتقال کے بعد وہ اچانک بڑی تیزی کے ساتھ بوڑھی ہوئی تھیں۔ ناصر احمد چند ماہ بیمار رہنے کے بعد دنیا سے رخت سفر باندھ چکے تھے۔ انہیں نمونیے کا اٹیک ہوا تھا جو ان کی جان لے کر ہی رہا۔ ان کی موت کے بعد شائستہ بیگم ایک دم جیسے ڈھے سی گئی تھیں۔ جوڑوں کے درد اور ذیابطیس میں تو وہ پہلے ہی مبتلا ہوچکی تھیں، اب ان کے دل نے بھی صحیح رفتار سے کام کرنا چھوڑ دیا تھا۔ دل کا دوسرا دورہ سہنے کے بعد ان کی حالت نازک ہوچکی تھی۔ لہٰذا اب انہیں ہمہ وقت دیکھ بھال کی ضرورت تھی۔ ان کی حالت پر عامر خاصا فکرمند تھا، اس نے ان کے بارے میں ڈاکڑز سے بھی مشورہ کیا تھا۔ ڈاکٹرز کا یہی کہنا تھا کہ انہیں اکیلے گھر میں نہ رہنے دیا جائے۔ شائستہ بیگم جو اب ہارٹ اٹیک سے قدرے سنبھل چکی تھیں، خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھ رہی تھیں۔ انہوں نے عامر اور ماریہ کو اپنے پاس بلایا اور جیسے ایک دم اپنا فیصلہ سنا دیا کہ اب وہ اولڈ ہوم میں رہیں گی۔ نہ جانے کب انہوں نے شہر میں قائم ایک اچھے اولڈ ہوم کے بارے میں معلومات حاصل کرلی تھیں جسے جدید خطوط پر استوار کیا گیا تھا اور وہاں معمر افراد کے لئے تمام سہولتیں موجود تھیں۔ اخراجات کا انہیں مسئلہ نہیں تھا کیونکہ اس کیلئے شوہر کی اور خود ان کی پنشن کافی تھی۔ اس کے علاوہ انہوں نے گھر کو کرائے پر اٹھانے کیلئے بھی کہہ دیا تھا۔ فی الحال رضیہ ہی ان کے گھر کی دیکھ بھال کررہی تھی اور وہیں ٹہری ہوئی تھی لیکن اسے جلد ہی اپنے گائوں واپس جانا تھا کیونکہ اب اس کا بیٹا اسے واپس بلا رہا تھا۔ اس کی عمر بھی اب خاصی ہوچکی تھی لہٰذا بیٹا جو اب اپنے پیروں پر کھڑا ہوچکا تھا، نہیں چاہتا تھا کہ اس کی ماں مزید نوکری کرے۔ سب کچھ طے پاچکا تھا، ماریہ نے شائستہ بیگم کے کہنے پر ان کے گھر میں موجود سامان کی فہرست تیار کرلی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ اس میں سے وہ جو سامان لینا چاہیں، لے لیں اور رضیہ اگر کچھ لے جانا چاہے تو وہ لے جاسکتی ہے۔ اضافی سامان کے بارے میں وہ خود فیصلہ کرلیں کہ اس کا کیا کرنا تھا۔ ماریہ خالی خالی نظروں سے سامان کی فہرست کو گھور رہی تھی اور یہی سوچے جارہی تھی کہ عامر نے آخر آئینہ توڑنے کی بات کیوں کی اور اس بات سے اس کا کیا مطلب تھا وہ کم از کم اتنا تو جانتی تھی کہ عامر کی کوئی بات بلامقصد نہیں ہوتی تھی۔ کیا اس بات سے اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ آئینہ دیکھنا یعنی خودنمائی چھوڑ دے لیکن اس میں یہ عادت کب تھی ماریہ نے اپنا سر جھٹکا، گویا ذہن میں در آنے والی سوچوں سے پیچھا چھڑانا چاہ رہی ہو اور ایک بار پھر فہرست کی جانب متوجہ ہوگئی۔ شائستہ بیگم کے گھر کا تقریباً سارا فرنیچر پرانی طرز کا اور بھاری تھا۔ شیشم کی لکڑی کی بنی ہوئی الماری اور رائٹنگ ٹیبل۔ بھاری بھرکم ڈریسر اور آرام کرسیاں۔ یہ سب چیزیں اس کے کام کی تھیں اور نہ ہی انہیں اولڈ ہوم منتقل کیا جاسکتا تھا کیونکہ وہاں انہیں ایک چھوٹے سے کمرے میں رہنا تھا۔ میں جارہا ہوں عامر نے کمرے سے نمودار ہوتے ہوئے کہا۔ وہ آفس جانے کیلئے تیار ہوچکا تھا۔ واپسی پر میں ماما سے ملتا ہوا آئوں گا۔ ماریہ نے اس کی بات کے جواب میں گردن ہلائی۔ وہ جانے کیلئے آگے بڑھا مگر پھر اس کی جانب پلٹا اور بولا۔ اس سے پہلے کہ تم آئینہ توڑو، اس میں اچھی طرح اپنے آپ کو دیکھ لینا اس کی آواز حسب عادت دھیمی لیکن لہجہ چبھتا ہوا تھا۔ ماریہ اس کی بات پر ایک بار پھر اس کی جانب دیکھتی رہ گئی۔ چند لمحوں کے بعد اس نے خود کو سنبھالتے ہوئے پوچھا۔ تم آخر کہنا کیا چاہتے ہو کون سا آئینہ کیا یہ شائستہ ماما کا کوئی آئینہ ہے نہیں ماریہ اس نے ماریہ کی حیرانی کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔ یہ تمہارا آئینہ ہے۔ دوسری تمام چیزوں کی طرح تمہارا اپنا آئینہ یہ کہہ کر وہ ہموار قدم اٹھاتا باہر کی جانب چل دیا۔ وہ سخت ذہنی الجھن میں گرفتار تھی۔ اسے یہ سب کچھ بالکل اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ اس نے عامر کو کبھی اتنے برے موڈ میں نہیں دیکھا تھا۔ پھر وہ جس طرح اس سے پیش آرہا تھا، وہ بھی اس کیلئے تکلیف وہ تھا۔ وہ پلٹی اور سٹنگ ہال میں چلی آئی، یہاں دیوار کے ساتھ ایک قد آدم آئینہ آویزاں تھا۔ آئینے پر نظر پڑتے ہی وہ ٹھٹھک کر اس میں اپنا عکس دیکھنے لگی۔ اضطراب کے عالم میں اسے اپنا عکس بھی اجنبی محسوس ہورہا تھا۔ ماتھے پر پڑی ہوئی لکیریں، حیران و پریشان آنکھیں اور پھیکی رنگت۔ یہ سب اس کیلئے نامانوس سا تھا۔ اپنی سوچوں سے الجھتے ہوئے اس نے آئینے کے خوبصورت فریم کی طرف ہاتھ بڑھایا اس کی انگلیاں فریم پر تراشے گئے خوبصورت نقش و نگار سے ٹکرائیں۔ یہ آئینہ خاصا پرانا تھا لیکن آج بھی اس کی آب و تاب روز اول کی مانند قائم تھی۔ عامر کے والد نے یہ آئینہ اس کی حقیقی والدہ کیلئے خصوصی طور پر بلجیم سے منگوایا تھا۔ اپنے گھر میں شفٹ ہوتے وقت عامر اسے اپنے ساتھ لے آیا تھا۔ اسے ایسا محسوس ہوتا تھا جیسے شائستہ بیگم کو یہ آئینہ پسند نہیں تھا۔ انہیں اچھا نہیں لگتا تھا کہ وہ اس آئینے میں اپنا عکس دیکھیں جو ناصر احمد نے اپنی پہلی بیوی کو بطور تحفہ پیش کیا تھا۔ اس کے برعکس ماریہ کو یہ آئینہ بہت اچھا لگتا تھا اور عامر بھی اس بات سے واقف تھا۔ اس کا ذہن اب تک اسی بات میں الجھا ہوا تھا کہ آئینہ توڑنے سے عامر کی کیا مراد تھی۔ دفعتاً اس نے ایک جھرجھری سی لی ادھوری بات جاننے یا کسی بھی معاملے کی تہہ تک نہ پہنچ پانے سے اسے ہمیشہ سے بہت کوفت ہوتی تھی۔ اپنی توجہ بٹانے کیلئے اس نے بالوں میں لگا ہوا کلپ نکال کر انہیں سنوارنا شروع کردیا۔ ابھی وہ بالوں کو صحیح طور سے باندھنے بھی نہیں پائی تھی کہ اطلاعی گھنٹی بج اٹھی۔ اس نے دروازے پر جا کر دیکھا، وہاں ایک نوجوان کھڑا تھا جس نے آنکھوں پر رنگین چمکدار شیشوں والا دھوپ کا چشمہ لگایا ہوا تھا۔ کیا نادر صاحب کا گھر یہی ہے اس نے پوچھا۔ نہیں اس نے مختصراً کہا۔ تو پھر ان کا گھر کون سا ہے وہ ڈھیٹ بنا اپنا جگہ کھڑا تھا۔ ایک تو تم نوجوانوں کو نہ جانے کیوں اس قدر فضول چشمے لگانے کا شوق ہوتا ہے۔ کم از کم کسی سے بات کرتے وقت تو اس چشمے کو اتار دینا چاہیئے۔ یہ سراسر بدتہذیبی کی علامت ہے کہ آپ تو پوری ڈھٹائی کے ساتھ کسی کی آنکھوں میں جھانکتے رہیں اور دوسرا آپ کی آنکھوں کی بجائے ان شیشوں میں اپنی ہی شکل دیکھتا رہے۔ اس نے گویا اپنی ساری جھنجھلاہٹ اس نوجوان پر نکال دی جو شرمندہ ہونے کی بجائے دانت نکالے اس کی تقریر سے محظوظ ہورہا تھا۔ اس نے اپنا چشمہ اتارا اور ماریہ کی آنکھوں میں جھانکتا ہوا بولا۔ سوری ڈئیر ایکسکیوز می ماریہ اس کی بے باکی پر جھلس کر رہ گئی۔ زیادہ بے تکلف ہونے کی ضرورت نہیں، تمیز سے بات کرو۔ جی اچھا اس نے سعادت مندی سے کہا اور ایک بار پھر اپنا سوال دہرایا۔ نادر صاحب کا گھر وہ بالکل سامنے والا۔ اس نے بادل ناخواستہ بتایا۔ تھینک یو۔ اس نے اپنا چشمہ ناک پر ٹکایا اور ہاتھ ہلاتا ہوا اپنی کار کی طرف بڑھ گیا۔ ماریہ نے دروازہ بند کرکے لاک لگایا اور نوجوان کے انداز و اطوار پر پیچ و تاب کھاتی ہوئی اندر چلی آئی۔ بدتمیز وہ بڑبڑائی۔ کتنا عجیب لگتا ہے کسی سے بات کرتے ہوئے اس کے چشمے میں اپنا عکس دیکھتے رہنا، اس نے سوچا۔ معاً اس کے کانوں میں عامر کا کہا ہوا جملہ گونجا۔ تم یہ آئینہ توڑ کیوں نہیں ڈالتیں اس کی نظر ایک بار پھر بے اختیار ہال کی دیوار پر آویزاں آئینے کی طرف اٹھ گئیں۔ آئینے میں اسے اپنا عکس دکھائی دے رہا تھا۔ اس نے اپنی آنکھوں میں جھانکا تو اس نوجوان کی آنکھوں پر لگا فصول سا چشمہ یاد آیا جس کے شیشوں میں اسے اپنا عکس نظر آرہا تھا۔ اس نے سوچا کہ اسے اپنا عکس دیکھ کر جھنجھلاہٹ کیوں محسوس ہورہی تھی شاید اس لئے کہ وہ اس لمحے اپنے عکس کی بجائے نوجوان کی آنکھیں دیکھنا چاہتی تھی تاکہ اس سے بات کرتے وقت ذہنی رابطہ قائم رکھ سکے۔ میرے خدا اس کے منہ سے بے اختیار نکلا۔ حقیقت اس پر عیاں ہوتی جارہی تھی۔ اس کے کانوں میں جیسے کسی نے سرگوشی کی۔ محض اپنی طرف نہیں بلکہ دوسروں کی طرف بھی دیکھو۔ اس آئینے کو توڑ ڈالو جو تمہیں اپنی طرف سے نظر نہیں ہٹانے دیتا اور تمہیں دوسروں کو دیکھنے کا موقع ہی نہیں ملتا اب عامر کی کہی ہوئی بات کا مطلب اس کی سمجھ میںآرہا تھا کہ اسے اپنی ذات کے محور سے نکل کر دوسروں کی جانب توجہ دینی چاہیئے۔ عامر نے اسے وہی سمجھانا چاہا تھا جو اس نے کیا تھا۔ یہ الگ بات تھی کہ وہ اسے واضح الفاظ میں اپنا مطلب سمجھانے کا حوصلہ نہیں کرپایا تھا۔ وہ ایک نرم دل انسان تھا جو انسانوں کا دردآشنا تھا۔ ماریہ نے اپنی آنکھیں ملتے ہوئے سوچا۔ وہ ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کرتا تھا۔ اپنی سوتیلی ماں کے چھوٹے موٹے کام وہ اب بھی بخوشی نمٹایا کرتا تھا۔ اس کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ وہ انہیں کسی متوقع زحمت سے بچا لے۔ اس کی یہی کوشش ہوتی تھی کہ اگر وہ کسی کی مشکل حل کرسکتا ہے تو ضرور کرے۔ سو، وہ یہ کیسے گوارا کرسکتا تھا کہ اپنی سوتیلی ماں کو اس کے حال پر چھوڑ دے۔ یہ سب باتیں سوچ کر شدت جذبات کے باعث ماریہ کو اپنا چہرہ تپتا ہوا سا محسوس ہورہا تھا۔ گویا وہ اسی بات پر ماریہ سے خفا تھا کہ وہ اس سارے قصے کے دوران خاموش تماشائی بنی رہی تھی اور اس نے ایک بار بھی یہ نہیں کہا تھا کہ وہ شائستہ بیگم کو اپنے ہاں رکھ لیں گے۔ وہ اپنی فطری شرافت کے سبب بیوی کو مجبور کرنا نہیں چاہتا تھا تاہم اس کی خواہش تھی کہ اسے خود اس بات کا احساس ہوجائے۔ ٭ ٭ ٭ اس نے جلدی جلدی شائستہ بیگم کیلئے کھانے کی کچھ چیزیں تیار کیں اور انہیں پیک کرکے اسپتال جانے کیلئے تیار ہوگئی۔ شائستہ بیگم اسے دیکھ کر بہت خوش ہوئیں۔ اس نے اصرار کرکے انہیں ہاتھ سے تھوڑا سا دلیہ کھلایا۔ اسی اثنا میں عامر بھی وہاں پہنچ گیا۔ اس نے شائستہ بیگم کی مزاج پرسی کی، انہوں نے اسے دعائیں دیں تو وہ کچھ خفیف سا نظر آنے لگا۔ ماریہ نے دیکھا وہ اپنی سوتیلی ماں سے نظریں چرا رہا تھا۔ ماریہ نے دل ہی دل میں شرمندگی محسوس کی۔ پھر اس نے اپنی تمام تر ہمت مجتمع کرکے شائستہ بیگم کو مخاطب کیا۔ ماما، کل رات میں نے اور عامر نے آپس میں بات کی اور یہ فیصلہ کیا کہ آپ کو اپنے گھر لے جائیں۔اب آپ ہمارے ساتھ رہیں گی۔ وہ عامر کی طرف دیکھنے سے گریز کررہی تھی جو حیرت زدہ انداز میں اس کا چہرہ تک رہا تھا۔ ماریہ کی نظریں اس وقت شائستہ بیگم کے جھریوں بھرے چہرے پر مرکوز تھی جو خوشی کے باعث جھلملا سا رہا تھا۔ نہیں ، نہیں انہوں نے اپنے ہاتھ کو حرکت دیتے ہوئے کہا۔ تم لوگوں کو بلاوجہ میری وجہ سے تکلیف ہوگی۔ ماریہ نے آگے بڑھ کر ان کی پیشانی پر بوسہ دیا۔ ماں بھی کبھی کسی کیلئے تکلیف کا باعث بنتی ہے۔ وہ پیچھے ہٹی تو اس کی نظریں عامر کی طرف اٹھ ہی گئیں۔ اس کی آنکھیں اس لمحے ستاروں کی مانند جھلملا رہی تھیں جن میں اسے خوش آئند مستقبل کا عکس دکھائی دے رہا تھا۔ ختم شد
null
null
null
null
469
https://www.urduzone.net/yeh-muhabbat-ki-mari-larkian-teen-auratien-teen-kahaniyan/
یں نے میٹرک کا امتحان دیا۔ رزلٹ کا انتظار تھا۔ دن کاٹے نہ کٹتے تھے، میں نے مناہل کو فون کیا کیوں نہ ہم انگلش امپروو کرنے کے لئے اکیڈمی میں داخلہ لے لیں۔ وہ بھی بور ہو رہی تھی فوراً بولی ہاں آئیڈیا تو اچھا ہے لیکن کلاسز شام کو ہوتی ہیں کیا اجازت مل جائے گی ہم دونوں نے والدین سے بات کی۔ کچھ ردو قدح کے بعد اس شرط پر اجازت ملی کہ ہم ساتھ جائیںگی، ساتھ واپس آئیں گی۔ گھر پاس پاس تھے، پہلے بھی اکٹھی اسکول آتی جاتی تھیں۔ خوشی سے باچھیں کھل گئیں۔ کئی دنوں بعد ملاقات ہوتی تھی اب روز ملا کریں گے میرے گھر آکر مناہل نے خوشی کا اظہار کیا۔ میری کوئی بہن نہ تھی، تبھی بوریت ہوتی مناہل کی وجہ سے بہن کی کمی پوری ہوجاتی۔ اس کے ابو کی آمدنی کافی اچھی تھی، یہ خوشحال لوگ تھے۔ کنبہ بھی مختصر تھا۔ ایک چھوٹا بھائی مناہل اور ماں باپ ان کا گھر جنت جیسا تھا۔ محلے میں ان کی بڑی عزت تھی۔ ہم روز شام کو چار بجے ساتھ اکیڈمی جانے لگیں۔ یہاں صرف انگلش پڑھائی جاتی۔ آدھا گھنٹہ انگریزی بولنے کی پریکٹس بھی کروائی جاتی تھی۔ اکیڈمی میں استاد کے پاس ان کا ایک سابقہ شاگرد بھی آیا کرتا تھا۔ جب کلاسز ختم ہوتیں وہ آجاتا، غالباً وہ اسے پک اینڈ ڈراپ کی سہولت دیتے تھے۔ ایک روز جونہی ہم کلاس سے نکلیں وہ سامنے آگیا۔ ہمیں بغور دیکھا۔ مجھے برا لگا، اس کا یوں تاکنا، نظریں نیچی کر لیں۔ کچھ دنوں بعد مناہل بولی، لگتا ہے وہ نوجوان جو سر حمید کے پاس آتا ہے اب ہمارا پیچھا کرتا ہے۔ اکیڈمی تک آتا ہے اندر نہیں جاتا۔ باہر کہیں رک جاتا ہے اور جب ہم اکیڈمی سے آگے نکلتی ہیں ہمارے پیچھے چلنے لگتا ہے۔ تم مڑ مڑ کر دیکھتی ہو نا، اس لئے۔ آخر تم پیچھے کیوں دیکھتی ہو اگر ایسا کرو گی تو وہ آتا رہے گا اور کبھی پیچھا نہیں چھوڑے گا۔ کچھ دن بعد مناہل نے اندیشہ ظاہر کیا کہ اگر ہم نے اس سے بات کر کے تعاقب کرنے کی وجہ نہ پوچھی تو لازم ہے کسی روز گھر تک پہنچ جائے گا۔ ہمارا گھر دیکھ لے گا ابھی تو آدھے راستے کے بعد دائیں گلی میں مڑ جاتا ہے۔ دائیںگلی سے راستہ اس کے گھر جاتا ہوگا تبھی مڑ جاتا ہے نادان۔ وہ ہمارے گھر تک کیوں آئے گا، ہمارا اس کا راستہ ایک ہے۔ اس لئے پیچھے چلتا رہتا ہے، چلنے دو۔ کسی روز تھک کر بیٹھ جائے گا۔ نہیں، ایسا نہیں ہوگا۔ میری بات مانو نازو۔ وہ ہم سے کوئی بات کرنا چاہتا ہے۔ وہ نہیں تم اس سے بات کرنا چاہتی ہو۔ دیکھو مصیبت کو آواز نہ دو۔ مناہل نہ مانی۔ اس سے بات کرنے پر اصرار کرتی رہی۔ میں اسے چھوڑ کر آگے بڑھ گئی کہ اسے بڑا شوق ہے لڑکے سے بات کرنے کا تو کر لے مجھے کیا وہ میرے تیز تیز چلنے پربھی تیز نہ چلی بلکہ اپنی رفتار اور آہستہ کر لی۔ اگلے دن جب ملاقات ہوئی، اس نے مجھے کچھ نہیں بتایا، میں نے بھی نہ کریدا۔ اگلے دن چھٹی تھی۔ شام کو وہ میرے گھر آگئی جیسے بات کو دل میں نہ رکھ پا رہی ہو، خود ہی بتانے لگی۔ جب تم آگے بڑھ گئیں تو وہ میری طرف آیا اوربولا۔ بہت دنوں سے آپ سے بات کرنا چاہتا تھا۔ آپ کی ساتھی ساتھ ہوتی ہیں موقع نہ مل رہا تھا۔ اپنا مدعا بیان کرنے کا۔ آج موقع ہے برا نہ لگے تو بات کر لوں۔ ہاں کہو روز پیچھے آتے ہو پھر آدھے رستے سے گلی میں مڑ کر غائب ہو جاتے ہو۔بڑی الجھن ہوتی ہے۔ میں خود تم سے بات کرنا چاہتی تھی تاکہ یہ مسئلہ حل ہو۔ کیا یہاں ٹھہر کر بتائوں، سڑک کنارے یا پھر یہ کہہ کر اس نے سامنے ایک چھوٹے سے کیفے کی طرف دیکھا جس میں فیملی روم بھی تھا۔ میں نے سوچا سڑک سے اور طالب علم بھی گزرتے ہیں جو اکیڈمی میںہمارے ساتھ پڑھتے ہیں۔ واقعی یہاں بات کرنا مناسب نہیں ہے تبھی کہا، مختصر بات کر لو۔ وجہ بتا دو ہمارے پیچھے آنے کی اور جائو۔ کیفے میں بیٹھ کر کوئی داستان تو نہیںسنانی ہے تمہیں، اور نہ میں نے سننی ہے۔ داستان ہی سنانی ہے یعنی بات تھوڑی لمبی ہے۔ دس بارہ منٹ لگیں گے۔ ایسی کون سی بات ہے اپنی مشکل بتا نا چاہتا ہوں دراصل میں بہت غریب اور ضرورت مند لڑکا ہوں معلوم ہوا ہے کہ آپ کے والد محکمۂ تعلیم میں اس جگہ کام کرتے ہیں جہاں غریب طالب علموں کو وظیفے دیئے جاتے ہیں۔ یہاں ہم زیادہ نہیں ٹھہر سکتے، ادھر سے اکیڈمی کے ٹیوٹر بھی گزرتے ہیں۔ میں نے اس سے کہا کہ وہ سامنے کیفے میں چل کر بیٹھے میں آتی ہوں۔ تو کیا تم اس کے ساتھ کیفے میں بیٹھی تھیں مناہل ہاں تو اور کیا کرتی پھر کیا بات کی اس نے۔ اس نے کہا کہ وہ بہت دکھی انسان ہے ۔ یتیم ہے۔ بی اے کے آخری سال میںرقم نہ ہونے کے سبب تعلیم کو ادھورا چھوڑنا پڑا۔ پہلے اکیڈمی آتا تھا سر بھی کچھ مالی مدد کر دیا کرتے تھے۔ اب نہیں کر سکتے۔ انہوں نے بتایا کہ آپ کے والد مجھے محکمہ تعلیم سے وظیفہ دلوا سکتے ہیں، امید کی ایک کرن دل میں جاگی مگر بات کرنے کا حوصلہ نہ ہوتا تھا، اسی لئے آپ کے پیچھے آتا کہ کسی دن آپ خود توجہ دیں گی تو شاید مجھ غریب کو گریجویشن کرنے کا موقع مل جائے گا۔ مجھے اس کی باتیں سن کر بہت دکھ ہوا ہے ۔ تو کیا تم اس کے لئے ابو سے بات کر سکو گی ابو سے نہیں امی سے بات کروں گی۔ وہ ابو کو کہہ کر وظیفہ دلوا دیں گی۔ ٹھیک ہے۔ میں نے لمبی سانس کھنچ کر کہا ۔ اللہ کرے اس نے جو کہا ہے سچ ہو، ویسے وہ لباس اور وضع قطع سے ضرورت مند لگتا نہیں ہے۔ اب تم مجھے نیکی کرنے سے مت روکنا۔ مناہل برا مان کر بولی میں نہیں روکتی۔ روکوں گی بھی تو تم کون سا رک جائو گی لیکن ایسی باتیں مصیبت لا سکتی ہیں۔ میں پھر کہتی ہوں کسی پر جلدی بھروسہ نہیں کرنا چاہئے، وہ بھی ایک اجنبی پر۔ میری بات کا اس پر الٹا اثر ہوا۔ مناہل نے مجھ سے ملنا چھوڑ دیا۔ گریزاں رہنے لگی۔ وہ کوشش کرتی کہ گھر سے ساتھ چلنے کے بعد علیحدہ ہو جائے۔ کبھی کہتی آج پائوں میں درد ہے۔آہستہ آہستہ چلوں گی، تمہیں دیر نہ ہو جائے سر کی ڈانٹ پڑ جائے گی تم آگے نکلو۔ وقت پر پہنچو میں آرہی ہوں دو منٹ بعد۔ اکیڈمی زیادہ دور نہ تھی، گھر سے اکیڈمی تک درمیان میں ایک بس اسٹاپ آتا تھا، جب مناہل کا ایسا رویہ دیکھا تو مجھے دکھ ہوا۔ اب میں اسٹاپ کی طرف چلی جاتی اور بس میں سفر کر کے اکیڈمی پہنچ جاتی۔ وہ آدھ گھنٹہ لیٹ آتی یا کبھی پندرہ بیس منٹ بعد۔ میں کوئی سوال نہ کرتی، جانتی تھی کہ ایسا کیوں ہو رہا ہے پھر مزید سوال کر کے کیوں اس کو پریشان کرتی۔ سوال بھی کرنا چھوڑ دیا، معلوم تھا کہ جواب مناہل سے بن نہ پڑے گا۔ وہ میری سہیلی تھی آج کی نہیں بچپن کی۔ کیسے غافل رہ سکتی تھی، انجام پر میری نظر تھی تو آغاز پر اس کی۔ بہرحال کچھ دن بعد بالآخر خود پوچھ لیا کہ مناہل تم نے رضی کو کیا جواب دیا۔ میں نے اسے کہا ہے کہ ہر حال میں تمہارا ساتھ دوں گی، مالی مدد بھی جو ہوسکی کروں گی تاکہ تم تعلیم مکمل کر سکو۔ اب یہ اس کا معمول ہوگیا روز راستے میں رک کر رضی سے باتیں کرنا۔ میں تنگ آنے لگی، دوستی ختم کرنے کی دھمکی بھی دی۔ اس پر اثر نہ ہوا۔ اس نے اپنی راہ مجھ سے الگ کر لی، روز گھر سے اکیڈمی دس پندرہ منٹ دیر سے پہنچتی، اس نے میرے ساتھ چلنا چھوڑ دیا تھا۔ ایک روز پریشان ہو کر آنٹی ہمارے گھر آئیں ۔ مجھ سے دریافت کیا تم آگئی ہو۔ مناہل کہاں رہ گئی ہے مجھے آج جلدی گھر آنا تھا آنٹی، تبھی سر سے چھٹی لے کر آگئی ہوں، طبیعت خراب ہو گئی تھی۔ وہ آتی ہی ہوگی۔ کیا اکیڈمی کی چھٹی کا ٹائم بڑھ گیا ہے وہ اب روز ہی لیٹ آنے لگی ہے۔ جی آنٹی جب کبھی ٹیسٹ وغیرہ کی تیاری کرنی ہوتی ہے ہم لوگ کچھ لیٹ ہو جاتے ہیں۔ میں نے بات بنا دی حالانکہ جی نہ چاہتا تھا مناہل کا پردہ رکھوں لیکن پھر دوستی کا خیال آگیا۔ سوچا اگر سچ کہہ دیا تو اس کا اکیڈمی جانا بند ہو جائے گا۔ رفتہ رفتہ مناہل سے میری دوستی اور بات چیت ختم ہو گئی، ہمارے راستے الگ ہوگئے، ابھی کالج کے داخلے میںدیر تھی لہٰذا اس وقت کو میں ہر حال میں اکیڈمی جا کر اپنی انگلش کو بہتر کرنے میں صرف کرنا چاہتی تھی۔ امی کو بتا دیا کہ اصل معاملہ کیا ہے۔ اماں نے کہا۔ کیوں نہ میں صفیہ کو باخبر کردوں۔ میں نے منع کر دیا۔ نہیں امی تھوڑے دنوں کی بات ہے، ابو کو پتا چلا تو وہ مجھے بھی جانے سے روک دیں گے۔ ویسے بھی وہ اب باز آنے والی نہیں ہے، اس کا فون پر بھی رضی سے رابطہ رہتا ہے۔ جلد خود بخود اس کے والدین کو پتا چل جائے گا۔ رزلٹ آگیا۔ میں نے کالج میں داخلہ لے لیا۔ مناہل سے بات چیت نہ رہی تھی۔ اس کی امی کبھی آتیں تو کہتیں جانے اسے کیا ہو گیاہے روزانہ دیر سے گھر آتی ہے۔ وہی ہوا جس کا ڈر تھا۔ ایک روز اس کے والد نے اسے رضی کے ساتھ کہیں باہر دیکھ لیا۔ وہ تو بھاگ گیا لیکن مناہل نہ بھاگ سکی، وہ ساتھ لے آئے اور خوب ڈانٹا۔ گھر سے باہر نکلنا بند ہوگیا۔اس واقعہ کے اگلے دن انکل ہمارے گھر آئے، ابو سے کہا میری بیٹی آپ کی بیٹی کے ساتھ جاتی تھی، کیا اس نے کبھی ذکر نہیں کیا۔ اس نے ذکر کیا تھا۔ مناہل کو بھی کافی روکا لیکن تمہاری صاحبزادی نے کسی کی بات نہیں سنی تو ناز نے اس کے ساتھ دوستی ختم کر دی۔ میں آج کل میں آپ کو آگاہ کرنے ہی والا تھا۔ ابو نے انکل کو سمجھایا، دیکھو ساجد تم نے بیٹی کا رشتہ کہیں نہ کہیں توکرنا ہے۔ اب زمانہ بدل گیا ہے، روک ٹوک پر اولاد باغی ہونے لگتی ہے۔ مار سے نہیں پیار سے پوچھو بلکہ میرا مشورہ ہے کہ لڑکے سے ملو اگر اچھا لڑکا ہے شریف خاندان سے ہے تو جہاں تمہاری لڑکی چاہتی ہے وہاں رشتہ کر دو۔ کسی اور سے زبردستی شادی کی تو ممکن ہے بعد میں زیادہ مسائل کھڑے ہو جائیں یا پھر بچی ناخوش رہے۔ انکل تو غصے میں بھرے آئے تھے لیکن ابو کے سمجھانے پر غصہ تھوڑا ٹھنڈا ہوگیا۔ سوچ میں پڑ گئے کہ محی الدین بات تو صحیح کر رہے ہیں۔ لڑکیوں کو گھر سے نکلنے کی آزادی دی ہے تو اب شادی میں مرضی کا حق بھی دینا چاہئے۔ انکل نے مناہل سے کہا اس لڑکے کے گھر کا اتہ پتہ بتا دو تاکہ میں چھان بین کر لوں، لڑکے کے والدین سے ملوں۔ اگر ٹھیک گھرانہ ہے توسوچتا ہوں کوئی اس مسئلے کا حل۔ مناہل کو امید نہ تھی کہ وہ ایسا کریں گے وہ سخت مزاج کہلاتے تھے۔ خوش ہوگئی۔ فون پر رضی کو بتایا کہ ابو مان گئے ہیں۔ تم فوراً اپنے والدین کو بھیجو، وہ ان سے ملنے کے بعد تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ ضرور لائوں گا ایک دو روز بعد بتا دوں گا کب آرہے ہیں۔ دن پر دن گزرتے گئے، وہ بہانے کرتا رہا لیکن والدین کو نہ لایا۔ مناہل نے تنگ آکر رضی کو فون کرنا بند کردیا تو وہ خود اسے فون کرنے لگا حالانکہ مناہل نے سختی سے منع کیا تھا۔ میںموقع دیکھ کر خود تم کو فون کرلیا کروں گی تم نہ کرنا۔ کبھی بھائی اور کبھی ابو سامنے بیٹھے ہوتے ہیں، انہوں نے فون اٹھا لیا تو میری شامت آجائے گی۔ رضی فون کرنے سے باز نہ آیا جب جی چاہتا نمبر ڈائل کر دیتا۔ وقت بے وقت گھنٹیاں بجتی رہتیں۔ مناہل کے والد اور بھائی موجود ہوتے تو وہ فون نہ اٹھاتی۔ وہ اٹھاتے تب جواب نہ ملتا۔ وہ فون بند کر دیتا۔ وہ شک میں پڑ گئے تب آنٹی فون اٹھانے لگیں۔ ایک روز کہا یہ کیاطریقہ ہے۔ شادی کرنا چاہتے ہو تو والدین سے ملائو ورنہ تمہاری پولیس میں رپورٹ کرتے ہیں۔ خوف کی وجہ سے وہ اپنی والدہ کو لے آیا۔ آنٹی نے رضی کی والدہ سے کہا بہن تم اتوار کے دن اپنے بیٹے اور شوہر کے ساتھ آجانا۔ مناہل کے والد اور تایا کو روک لوں گی۔ مردوں سے مرد بات کر لیں گے بعد میں ہم جواب دیں گے کہ آپ لوگوں سے ناتا جوڑنا ہے یا نہیں۔ اتوار کو وہ لوگ نہ آئے۔ مناہل کی امی کو بہت غصہ آیا کہ یہ کس قسم کے لوگ ہیں۔ انہوں نے اپنے بھائی سے کہا اس سے پہلے کوئی بڑا مسئلہ کھڑا ہو جائے تم اپنے طور پر لڑکے کا پتا کرو اور اس کی رپورٹ دو کہ ان لوگوں کو بات چیت کے لئے گھر بلانا بھی چاہئے یا نہیں۔ ماموں نے چھان بین کی۔ رضی کے محلے میں جا کر پڑوسیوں سے معلومات لیں، پتا چلا کہ رضی کی شادی ہوئی تھی لیکن کچھ عرصہ بعد طلاق ہو گئی۔ اس کا باپ حیات نہیں ہے گھر کا خرچہ تایا چلاتا ہے، جس کی بیٹی سے یہ لوگ منگنی کر چکے ہیں۔ جانے کیوں ابھی تک لڑکی کو رخصت کر کے نہیں لا رہے۔ لڑکا ایک پرائمری اسکول چلاتا ہے۔ مزید کیا سرگرمیاںہیں معلوم نہیں ابھی تک کوئی ایسی ویسی بات تو اس کے بارے میں سنی نہیں ہے۔ جانے پڑوسیوں نے صحیح کہا تھا یا پھر ایک اجنبی سے رضی کا پردہ رکھ لیا تھا۔ کچھ عرصہ خاموشی سے گزر گیا۔ مناہل نے ماں سے کہا رضی کے والد نہیںہیں،کوئی بزرگ رشتے دار ساتھ نہیںہوتا، اس کے تایا تو اپنی بیٹی دینا چاہتے ہیں اور رضی کی ماںآپ کے گھر آچکی ہیں دوبارہ وہی آئیں گی۔ رشتے کے لئے آپ ابو کو منا لیں کہ دیگر رشتہ داروں کو لانے کی شرط نہ لگائیں۔ رضی کی مجبوری ہے ۔ رشتہ داروں سے ان لوگوں کا جھگڑا ہے۔ لڑکی بیٹیوں کے رشتے اس طرح طے نہیں کئے جاتے، اسے کسی نہ کسی بزرگ کو لانا پڑے گا۔ شادی ہنسی کھیل نہیں ہے، جب تک صحیح طریقہ سے وہ رشتے کے لئے نہیں آتے۔ تمہارے ابو اکیلے رضی کو منہ نہیں لگائیںگے بہتر ہے کہ تم آگ کے اس کھیل سے باز رہو ورنہ رضی سے تمہاری شادی نہیں ہو سکتی۔ مناہل ماں باپ کی طرف سے مایوس ہوگئی تو ایک روز موقع پاکر گھر سے نکل گئی ۔ صبح سے دوپہر، پھر شام ہونے کو آگئی۔ اس کے والد کے گھر لوٹ آنے کا ٹائم ہونے لگا۔ آنٹی سخت پریشان تھیں، گھبرا کر ہمارے گھر آئیں اور مجھ سے پوچھا بیٹی اب تو اس کاکالج جانا تک بند کرا دیا تھا اس کے ابو نے، تمام وقت گھر میں آنکھوں کے سامنے رہتی تھی۔ اچانک آج صبح سے غائب ہے۔ جانے کہاں چلی گئی ہے، بہت پریشان ہوں۔ تمہارے انکل آتے ہی ہوں گے وہ پوچھیں گے کیا جواب دوں گی۔ کہاں گئی ہے۔ ایک خیال تھا کہ شاید ادھر آگئی ہو تم سے ملنے لیکن یہاں بھی نہیں ہے۔ آنٹی وہ تو کافی دنوں سے نہیں آئی، مجھ سے اس کی ملاقات نہیں رہی ہے۔ تو پھر کہاں گئی ہوگی۔ وہ بیچاری ہانپتی کانپتی چلی گئیں۔ مجھے ڈر لگا کہیں آنٹی کو کچھ ہو نہ جائے۔ رات گزر گئی، مناہل کا کوئی سراغ نہ ملا۔ یقین تھا کہ وہ رضی کے چکر میں نکلی ہے۔ اس کو تلاش کیا وہ بھی گھر سے غائب تھا، گھر کو تالا لگا تھا۔ اور اسکول بند تھا۔ سخت گرمی کی وجہ سے سرکار نے پرائمری اسکولوں کو پندرہ دن قبل چھٹی دے دی تھی کہ چھوٹے بچے بے ہوش نہ ہوجائیں کیونکہ اکثر اسکولوں میں پنکھے اور ٹھنڈے پانی کی سہولت بھی نہیں ہوتی۔ ہفتہ گزرا کہ رضی کی ماں کا فون آگیا۔ امی سے بات کی۔ بتایا کہ ان دونوں نالائقوں نے بزرگوں کی عزت کا بھی پاس نہیں کیا اور اپنی مرضی سے کورٹ میرج کر لی ہے۔ اب مناہل آپ لوگوںکے پاس آنا چاہتی ہے، معافی مانگنے کے لئے مجھے فون کیا تھا۔ لیکن یہ نہیں بتایا کہ کہاں ہیں ۔میں اپنی بہن کے انتقال پر فیصل آباد گئی ہوئی تھی، میرے پیچھے انہوں نے یہ کارنامہ سرا نجام دیا ہے۔ ماں نے شوہر سے بنتی کی، پیروں کو ہاتھ لگایا کہ آنے دو مناہل کو کم از کم مزید بھٹکنے سے تو ہم اس کو بچا لیں گے۔ رضی معلوم نہیں مناہل کا کیا انجام کرے۔ پہلے انکل راضی نہ ہو رہے تھے، پھر بولے چلو آنے کا کہہ دو رضی کی ماں کو ہم تک پہنچنے دو۔ بعد میں دیکھ لیں گے۔ آنٹی نے رضی کی والدہ کو فون کر کے کہا کہ ان کو کہو آجائیں۔ دو روز بعد ایک دن در پر دستک ہوئی ۔ مناہل کا بھائی گھر پر تھا اس نے در کھولا۔ سامنے وہ بنی سنوری کھڑی تھی۔ بھائی نے دیکھ کر دہلیز پر نفرت سے تھوک دیا اور کہا خبردار اندر مت آنا۔ جہاں سے آئی ہو واپس چلی جائو تمہارے لئے اب اس گھر میں کوئی گنجائش نہیں ہے۔وہ بولی میں آئوںگی دیکھتی ہوں تم کیسے روکتے ہو مجھے باپ کے گھر آنے سے۔ تبھی بھائی نے اسے دھکا دیا اور دروازہ بند کر دیا۔ آواز سن کر انکل کمرے سے باہر نکلے اور پوچھا کون ہے بد بخت مناہل آئی تھی ابو۔ میں نے دھکا دے کر دروازہ بندہ کر دیا ہے آنے نہیں دیا۔ انکل نے دروازہ کھولا وہ ابھی تک کھڑی ہوئی تھی اندر آگئی۔ ماں اسے کمرے میں لے آئی۔ آنٹی روتی تھیں اور ساتھ لعن طعن بھی کرتی جاتی تھیں۔ انکل اپنے کمرے میں چلے گئے۔ بیٹی سے بات نہ کی۔ مناہل اس روز گھر سے نہ گئی۔ رات کو انکل سے بیوی نے کہا کہ اس کم عقل کو گھر سے دھکے دے کر نکالنے کی بجائے آپ عزت سے رخصت کر دیں۔ ابھی محلے میں بات نہیں پھیلی ہے۔ نکاح تو وہ اپنی مرضی سے کر چکی ہے۔ یہ بات اگر پھیل گئی آپ کی عزت مٹی میں ملے گی اور یہ بھی عمر بھر رضی کے رحم و کرم پر ایک لاوارث لڑکی کی طرح زندگی گزارے گی۔ آپ کا ہاتھ مناہل کے سر پر نہ ہوا تو جانے وہ اس کا کیا حال کرے۔ ہفتہ بعد مناہل کی رخصتی سادگی سے کر دی گئی، محلے سے چند شرفا کو مدعو کیا گیا۔ رشتہ داروں کو انکل اور آنٹی نے نہ بلایا۔ وہ رخصت ہو کر رضی کے گھر چلی گئی۔ اب ماں باپ بیٹی سے ملنے نہیں جاتے تھے۔ مناہل ہی دو ماہ بعد خود آجاتی۔ بھائی اور باپ منہ نہ لگاتے لیکن ماں ممتا سے مجبور تھی، وہ بیٹی کو گلے لگا لیتی، تاہم ابھی تک انکل نے داماد کو گھر آنے کی اجازت نہ دی تھی۔ ابھی پہلا زخم نہ بھرا تھا کہ ایک روز وہ پژمردہ نڈھال ماں کے گھر آئی اور بستر پر گر گئی۔ ماں نے پوچھا کیا ہوا خیر تو ہے روتے ہوئے بتایا کہ رضی نے مجھے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا ہے۔ جسم پر مار پیٹ کی وجہ سے نیل پڑے ہوئے تھے۔ آنٹی نے بیٹی کی حالت دیکھی تو دل پکڑ لیا۔ باپ گھر آیا بیٹی کا حال دیکھا کہا مجھے پہلے ہی خبر تھی کہ کم اصل سے وفا نہیں۔ جس لڑکے کا خاندانی پس منظر ایسا ہو وہ جو کرے کم ہے۔ عمر بھر کا گھائو لگا کر مناہل نے میکے میں پناہ لی۔ خدا کا شکر کہ باپ نے پناہ دے دی، ورنہ کہاں جاتی کہ جن لڑکیوں کے وارث نہ ہوں ان کا انجام بخیر نہیں ہوتا۔ ن لاہور
null
null
null
null
470
https://www.urduzone.net/babul-ka-ghar-teen-auratien-teen-kahaniyan/
والد کے ساتھ امی یونیورسٹی میں پڑھتی تھیں۔ دونوں نے وہاں ایک دوسرے کو پسند کیا پھر ابو رشتے کے لیے نانی کے پاس آئے۔ ہماری نانی نے کچھ ردوقدح کے بعد بیٹی کی پسند کا خیال کرتے ہوئے رشتہ قبول کرلیا۔ یوں ابو کی شادی میری ماں سے انجام پا گئی۔ بے شک یہ ان کی محبت کی شادی تھی لیکن میرے والد بے حد شکی مزاج تھے، خاص طور پر وہ میری ماں کو میکے جانے سے روکتے تھے۔ اس بات پر امی دلگرفتہ ہوتیں تب بادل نخواستہ جانے کی اجازت دے دیتے۔ دونوں میں یہی ایک اختلاف تھا جس نے ان کی زندگیوں میں تلخی گھول دی۔ امی جان کو میک اَپ پسند تھا۔ وہ فیشن کی دلدادہ تھیں۔ یہ بات ابو کو شادی سے پہلے معلوم تھی تب تو کچھ نہ سوچا مگر جب شادی ہوگئی، وہ میری ماں کو فیشن کرنے سے منع کرتے اور میک اپ سے روکتے تھے۔ ان کا کہنا تھا بری عورتیں میک اَپ کرتی ہیں۔ امی اپنی یہ آرزو میکے میں پوری کرلیا کرتی تھیں۔ ان کی خالہ کا بیوٹی پارلر تھا۔ جب نانی کے گھر آتیں، خالہ کے بیوٹی پارلر پر جاکر بھنویں بنواتیں، بال سیٹ کرواتیں اور میک اَپ کے ارمان بھی پورے کرلیتیں۔ ایک روز والد ان کو لینے نانی کے گھر آئے۔ امی کو معلوم نہ تھا کہ یہ اچانک آجائیں گے کیونکہ انہوں نے جمعہ کا کہا تھا مگر جمعرات کو آگئے کہ کچھ مہمان آئے تھے، گھر میں امی کی ضرورت تھی۔ والدہ گھر پر نہ تھیں۔ نانی کو بتانا پڑا کہ خالدہ اپنی خالہ کے گھر گئی ہے۔ والد سخت برہم ہوئے کیونکہ جانتے تھے کہ خالہ کا بیوٹی پارلر ہے۔ جس بات سے چڑ تھی، وہی ہوا۔ وہ سیدھے بیوٹی پارلر پہنچے۔ امی جان وہاں چہرے کا فیشل کروا رہی تھیں۔ اس وقت تو مجبوری تھی، مہمان آچکے تھے۔ والد امی کو گھر لے آئے لیکن اس واقعے کے بعد زندگی اجیرن کردی۔ ہر وقت کہتے کہ نجانے تم چھپ چھپ کر بیوٹی پارلر کس کے لیے جاتی ہو۔ جب میک اپ ناپسند ہے تو کس کے لیے کرتی ہو۔ انہی حالات میں سال بیت گیا اور میری پیدائش متوقع ہوگئی۔ میری پیدائش سے دو ماہ قبل امی، نانی کے گھر چلی گئیں جبکہ ابو یہ نہیں چاہتے تھے کہ وہ وہاں جاکر رہیں مگر نانی نے ضد کرکے بیٹی کو روک لیا کہ پہلوٹی کی اولاد کا جنم ہوگا۔ ماں کے علاوہ اور کون خیال رکھ سکتا ہے۔ خیر میں نے جنم لیا تو نانی نے والد کو اطلاع کرا دی۔ کسی گھر میں پہلا بچہ جنم لے تو خوشیاں منائی جاتی ہیں مگر جب میں پیدا ہوئی تو والد نے امی پر الزام لگا دیا کہ تم میکے میں زیادہ رہتی تھیں، نجانے یہ بچی میری اولاد ہے بھی کہ نہیں۔ یہ ایسی بات تھی جو معمولی نہ تھی۔ امی اور نانی کے دل پر میرے باپ کے یہ جملے تیر بن کر لگے۔ بیٹی کی خوشی خاک ہوگئی اور وہ غم سے نڈھال ہوگئیں۔ یوں میری ماں شوہر سے اتنی ناراض ہوئیں کہ پھر وہ پلٹ کر سسرال نہ گئیں۔ کچھ دن تک والد امی کو مناتے رہے مگر جب ان کا غصہ ٹھنڈا نہ ہوا تو ابو کو احساس ہوا کہ ان سے کتنی بڑی بھول سرزد ہوئی ہے۔ پہلی بار بیٹی کی صورت دیکھتے ہی اللہ تعالیٰ کے کرم کا شکر ادا کرنے کی بجائے انہوں نے کیسے غلط الفاظ منہ سے نکال دیئے تھے۔ سچ کہتے ہیں کہ زبان سے نکلے الفاظ اور کمان سے نکلا تیر واپس نہیں آتے۔ ماں کے دل پر شوہر کی زبان کا ایسا گھائو لگا کہ انہوں نے والد سے علیحدگی کا فیصلہ کرلیا۔ وہ پلٹ کر شوہر کے گھر نہ گئیں حالانکہ وہ کئی بار منانے آئے۔ میں بدنصیب باپ کی شفقت سے تو محروم ہوئی ہی تھی، ماں کی محبت سے بھی دور کردی گئی۔ جب والد نے امی کو طلاق بھجوا دی۔ دو سال بعد نانا، نانی نے امی کی دوسری شادی کردی۔ والدہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں مگر نانا نے اپنے عزیز کے بیٹے راحیل سے لکھوا لیا کہ اس صورت میں نکاح ہوگا اگر وہ مجھے سگے باپ کا پیار دیں گے اور کبھی مجھے میری ماں سے جدا رہنے پر مجبور نہ کریں گے۔ راحیل نے جو نانا کے رشتے میں بھتیجے ہوتے تھے، ان شرائط کو مان لیا اور امی جان سے ان کی شادی ہوگئی۔ یہ ان کی دوسری شادی تھی۔ پہلی بیوی دو بچے چھوڑ کر فوت ہوگئی تھی۔ امی نے ان بچوں کو ماں کا پیار دیا اور یوں بھی بہت خیال رکھتی تھیں کہ راحیل اس کے عوض مجھ کو بیٹی جیسا رکھیں گے اور باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دیں گے۔ شادی کے بعد شروع دنوں میں نانی کے پاس رہی تاکہ والدہ اپنے نئے گھر میں قدم جما لیں۔ میں بہت چھوٹی تھی اور ماں کے لیے روتی تھی، ان کی سخت کمی محسوس کرتی تھی۔ جب تین برس کی ہوگئی تو ایک روز امی مجھے آکر اپنے گھر لے گئیں۔ راحیل نے کچھ عرصہ پیار دیا، بلکہ پیار جتلاتے تھے اور خیال بھی رکھتے تھے لیکن کسی اور کے بچے سے پیار کرنا، ان کی فطرت میں شامل نہ تھا۔ رفتہ رفتہ ان کا مزاج بدلنے لگا۔ وہ مجھ سے کٹے کٹے رہنے لگے۔ والدہ نے جلد ہی ان کے مزاج کے بدلائو کو محسوس کرلیا۔ ان کے سامنے میری پرورش اور پڑھائی سب سے بڑا مسئلہ تھا۔ وہ خود اتنی تعلیم یافتہ تھیں کہ کوئی اچھی ملازمت کرسکتی تھیں مگر راحیل نے اجازت نہ دی وہ بولے۔ میں نے نکاح ثانی اس وجہ سے کیا ہے کہ میرا گھر اور بچے دیکھنے والی ہو۔ اگر تم ملازمت کرو گی تو بچے اور گھر نظرانداز ہوگا۔ امی نے شوہر کی خوشنودی کی خاطر ان کی ہر بات مانی تاکہ وہ مجھے برداشت کرلیں اور معصوم بچی کو ماں سے جدا نہ ہونا پڑے۔ امی بہت اچھی فطرت کی خاتون تھیں جبکہ راحیل تنگ نظر اور عجیب فطرت کے مالک تھے۔ ابتدا میں اچھا سلوک کیا بعد میں ان کی فطرت ظاہر ہوگئی۔ وہ مجھ معصوم سے کھلم کھلا دشمنی پر اتر آئے۔ اپنے بچوں کو میرے سامنے پیار کرتے، بہت محبت اور شفقت سے کھلاتے اور میں بیٹھی منہ دیکھا کرتی۔ وہ مجھے نہ پوچھتے اور نہ اپنے پاس بلاتے بلکہ دور بھگا دیتے۔ امی کاموں میں مصروف ہوتیں۔ میں ایک کونے میں دبکی باپ اور بچوں کی محبت کے یہ انداز دیکھتی اور سوچتی کاش مجھے بھی باپ کی محبت نصیب ہوتی۔ مجھے پتا چل چکا تھا یہ میرے سگے والد نہیں ہیں بلکہ سوتیلے باپ ہیں۔ یہ خود انہوں نے ہی باور کرا دیا تھا تاکہ میں بے تکلف ہوکر ان کی گود میں نہ چڑھوں جیسے ان کے بچے چڑھتے تھے۔ والدہ ان کے اس رویے پر شاکی تھیں مگر خاموش رہتی تھیں۔ نانی سے کہتی تھیں آخر اس نے بڑے ہونا ہے، اسے پتا لگنا ہی ہے کہ یہ اس کا سگا باپ نہیں ہے تو ابھی سے پتا چل جائے، کیا حرج ہے۔ میں پانچ سال کی چھوٹی بچی ایسی باتیں کیا سمجھتی۔ مجھے تو بس ایک احساس محرومی جلانے لگتا جب وہ اپنے بچوں کو ٹافیاں، بسکٹ دیتے، کھلونے لا کر دیتے یا پیسے دیتے تب میری ماں میرے لیے اور زیادہ چیزیں لاتیں اور کہتیں۔ نِکی غم نہ کر میں ان کے بچوں سے زیادہ دوں گی۔ اب میں تیری ماں ہوں اور میں ہی تیرا باپ ہوں۔ تمہیں کبھی باپ کی کمی محسوس نہ ہونے دوں گی۔ جوں جوں وقت گزرتا گیا، عقل آتی گئی۔ اب میں ماں کی بے بسی کو سمجھ سکتی تھی اور سوتیلے باپ کی فطرت کو بھی کبھی ماں کے پیار سے جی بہل جاتا، کبھی دل خون ہوجاتا۔ وقت کے ساتھ ساتھ راحیل کے رویے میں میرے لیے سخت بیزاری، بیگانگی اور روکھا پن آتا جا رہا تھا۔ وہ ہر بات پر روکتے ٹوکتے۔ یہ کرو، یہ نہ کرو جبکہ اپنے دونوں بچوں کو ہاتھوں کا چھالا بنا کر رکھتے تھے۔ ان کے اس سلوک سے میرے ذہن پر بہت برا اثر پڑ رہا تھا کیونکہ وہ کسی وقت بھی مجھے چین سے نہ رہنے دیتے تھے۔ ماں اب راحیل سے میری خاطر کنارہ کشی اختیار نہ کرسکتی تھیں کیونکہ وہ ان کے ایک اور بچے کو جنم دینے والی تھیں تبھی انہوں نے فیصلہ کیا کہ وہ مجھے میری نانی کے گھر بھجوا دیں گی۔ نانی مجھ سے بہت پیار کرتی تھیں، خالہ بھی بہت چاہتی تھیں۔ میں اتنی سمجھدار ہوچکی تھی کہ ماں کی مجبوریاں سمجھنے لگی تھی۔ نانی کا پیار بھی ماں کے پیار کی طرح مجھے سکون دیتا تھا۔ ماموں، ممانی خیال رکھتے تھے۔ راحیل کی عقابی نگاہوں میں چھپی حقارت کی تپش کو اب برداشت نہ کرسکتی تھی۔ نانی کے یہاں زیادہ سکون ملتا تبھی ماں کی جدائی کو برداشت کرلیا۔ ان دنوں چھٹی جماعت میں تھی جب نانی کے گھر مستقل رہنے آگئی۔ امی ہفتہ میں ایک بار گھنٹے دو گھنٹے کے لیے آکر مل جاتی تھیں۔ ماموں اور نانی نے میری تعلیم جاری رکھی، وہی میرا خرچہ برداشت کرتے تاکہ سوتیلا باپ یہ نہ کہے کہ میں نے فائزہ کی تعلیم پر خرچہ کیا ہے۔ جہاں تک ماں کا بس چلا، میرا خیال رکھا مگر جب گھر میں ایک فرد کی نگاہوں میں نفرت ہو تو دل و ذہن پر بہت برا اثر پڑتا ہے۔ میری سوتیلی بہن کا نام ارم تھا۔ وہ مجھ سے پیار کرتی تھی، وہ میری جدائی کو بہت محسوس کرتی تھی۔ واپس گھر لانے کے لیے والدہ سے اصرار بھی کرتی تھی مگر نانی، خالہ اور ماموں نے جانے نہ دیا۔ میں نے بھی سوتیلے باپ کے گھر لوٹ کر جانا گوارا نہ کیا۔ ارم کو باجی کہتی تھی۔ ان کی منگنی میٹرک کے بعد پھوپی کے بیٹے سے کردی گئی۔ امی نے جب تیسرے بچے کو جنم دیا تو وہ زندگی کی بازی ہار گئیں۔ وہ بچہ بھی وفات پا گیا۔ ارم باجی کا جہیز امی نے اپنے ہاتھوں بنایا تھا۔ ارم باجی کی شادی ہوگئی۔ وہ رخصتی کے وقت اپنی ماں کو نہیں بلکہ میری ماں کو یاد کر بہت روئی تھیں۔ ماں رہی اور نہ باپ پہلے نانی کے گھر پر تھی۔ امی کے باقی دونوں چھوٹے بچے بھی ان کو اپنے گھر لانے پڑ گئے۔ میں ان دنوں سمجھدار ہوچکی تھی۔ خالہ کی شادی ہونے والی تھی اور اب ان بچوں کو فی الحال نانی کے ساتھ مجھے سنبھالنا تھا۔ قدرت بھی کیسے عجیب کھیل کھیلتی ہے۔ راحیل کو میرا وجود برداشت نہ تھا، ان کے اپنے دو بچے اللہ نے پھر سے بن ماں کردیئے تھے۔ اگرچہ وہ میری ماں کی کوکھ سے پیدا ہوئے تھے، مجھے وہ پیارے تھے لیکن ان بچوں کے ساتھ ساتھ میری دنیا بھی اندھیر ہوگئی تھی کیونکہ وہی ماں تھیں اور وہی میرا باپ تھیں۔ میرے پاس تو ان دونوں میں سے کسی ایک کا بھی پیار نہ رہا تھا۔ نانی دو سال بعد چل بسیں۔ اب میں صحیح معنوں میں لاوارث ہوگئی۔ نانا ضعیف اور صاحب فراش تھے، بہوئیں ان کی خدمت سے قاصر تھیں۔ ان کو خالہ اپنے گھر لے گئیں۔ چھوٹے دو بچے راحیل واپس لے گئے اور میں اکیلی ماموں، ممانی کے پاس رہ گئی۔ ان دنوں آٹھویں میں تھی۔ اسکول سے آکر ممانی کے گھر کے کام کاج میں ہاتھ بٹاتی۔ میں ان پر بوجھ نہ تھی۔ وہ میرا خیال رکھتیں اور میں ان کا۔ ان کے بھی بچے تھے، جی ان سے بہلاتی مگر اپنی ماں کے بچے بہت زیادہ آتے تھے جن کی دو سال میں نے دیکھ بھال کی تھی اور اب وہ ارم باجی کے پاس تھے۔ راحیل کے اکیلے ہونے کے سبب باجی اور ان کے شوہر راحیل کے گھر آکر رہنے لگے تھے جبکہ باجی کا اپنا بھائی پڑھنے کی خاطر ہاسٹل چلا گیا تھا۔ حیرت کی بات تھی اتنی مدت تک سگے باپ اور دادی وغیرہ نے کبھی مجھے یاد نہ کیا لیکن اب پھوپی میرے بارے میں ممانی کو فون کرنے لگی تھیں کہ فائزہ کیسی ہے، اس سے ملنے اور بات کرنے کو جی چاہتا ہے۔ میرے لیے رشتے دار اجنبی تھے۔ یہ رشتہ دار اور ان کی رشتہ داری بھی میرے لیے کوئی معنی نہ رکھتی تھی۔ میں تو یہی کہوں گی ایسے رشتہ دار محبت نہیں بانٹتے، وہ صرف تماشبین ہوتے ہیں اور ان کا تصور ایسا ہی سہانہ جیسے دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں۔ البتہ کبھی کبھی ارم باجی اصرار کرتیں تو راحیل سے نفرت کے باوجود میں ان کے گھر چلی جاتی۔ صرف اپنی ماں کے دو بچوں سے ملنے کے لیے کیونکہ ارم باجی کو میری ماں کا پیار بھولا نہ تھا تبھی وہ مجھے پیار دیتی تھیں اور اپنے باپ کو بھی سمجھاتی تھیں کہ اس سے پیار کرو۔ اصل معنی میں تو یہ یتیم ہے۔ ماں کا پیار ہے اور نہ باپ کا پیار اس کے پاس رہا ہے۔ ان باتوں کا اس شخص کے دل پر کبھی اثر نہ ہوا۔ وہ ہمیشہ کہتا تھا۔ میری دو بیٹیاں ہیں ارم اور کرن وہ مجھے بیٹی کہتا ہی نہ تھا۔ اس بات کا بہت گلہ تھا۔ بے شک باپ کا پیار اس کے پاس میرے لیے نہ تھا کم ازکم زبان سے بیٹی کہہ دیتا تو بھی میں سمجھتی کہ میرے دوسرے بہن، بھائیوں کے ناتے اس کا مجھ سے ایک مقدس رشتہ ہے۔ ایک روز میں ارم باجی کے گھر سے دو دن بعد ماموں کے گھر آئی تو ممانی نے بتایا کہ تمہاری پھوپی تم سے ملنے آنا چاہتی ہیں۔ یہ میری سگی پھوپی کی بات ہورہی تھی جن کو کبھی دیکھا نہ تھا۔ وہ دراصل میری ممانی کی بڑی بہن کی سہیلی تھیں، ان کے ساتھ پڑھا تھا، اسی توسط سے ممانی سے بات ہوجاتی تھی۔ آپ بڑی ہیں، جیسا مناسب سمجھیں۔ میں نے ممانی سے کہا تھا۔ پھوپی سے مل لو تو اچھا ہے بیٹی ٹوٹے رشتے جڑنے سے انسان بالکل تنہا نہیں رہ جاتا۔ انہوں نے سمجھایا اور اگلے دن پھوپی کو آنے کی اجازت دے دی۔ وہ بہت خوش ہوکر ملیں، دیر تک گلے لگا کر روتی رہیں۔ بولیں۔ ہمارے بھائی سے ذرا سی غلطی کیا ہوئی، تمہاری ماں نے ان کو اتنی بڑی سزا دے دی۔ تم کو بھی باپ کی محبت سے محروم کیا اور ہم کو بھی تم سے دور کردیا۔ اللہ تعالیٰ مرحومہ کی مغفرت کرے۔ بہت زیادتی ہوئی ہے ان کی ضد کے کارن میری بچی تمہارے ساتھ۔ میں اپنی مرحومہ ماں کے بارے میں ایسی بات ہرگز سننا نہ چاہتی تھی۔ پہلی ملاقات تھی ان سے لہٰذا صبر کیا اور چپ رہی۔ کچھ دیر بیٹھ کر چلی گئیں۔ میرے لیے کچھ تحفے تحائف بھی لائی تھیں جو ممانی نے ان کی دلجوئی کو رکھ لیے تھے۔ کچھ دنوں بعد پھر ان کا فون آیا کہ میری بیٹی کی شادی ہے فائزہ اور آپ اس شادی میں ضرور شرکت کریں۔ اپنی بہن سے بھی فون کرایا جو ممانی کی کلاس فیلو تھیں۔ ممانی نے سہیلی کی خاطر ہامی بھر لی اور مجھے بھی شادی میں لے گئیں شاید وہ چاہتی تھیں میں اپنی ددھیال کو دیکھ لوں۔ شادی کی تقریب میں ایک گریس فل آدمی سے پھوپی نے مجھے یہ کہہ کر ملوایا کہ یہ ہیں تمہارے والد اور ان سے کہا جمال بھائی یہ ہے تمہاری بیٹی فائزہ اچانک اس بات نے مجھے سخت جھٹکا دیا اور بڑی مشکل سے اپنے جذبات پر قابو رکھ سکی۔ یوں لگا یہ سب کچھ پھوپی نے ایک سوچی سمجھی اسکیم کے تحت کیا تھا باپ اور بیٹی کو ملانے کے لیے۔ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ روئوں یا ہنسوں ابو نے آگے بڑھ کر گلے سے لگا لیا۔ شفقت پدری نے جوش مارا۔ وہ اب مُصر تھے کہ اپنی بیٹی کو ساتھ لے کر جائوں گا، بہت جدائی سہہ لی ہے، اب ہمارے ساتھ رہے گی یہ اپنے باپ کے گھر میں۔ مجھے کیا چاہئے تھا۔ میں خود پریشان اور بے آسرا تھی۔ آج خدا نے میرے سگے والد سے ملا دیا تھا اور انہیں مجھ پر مہربان بھی کردیا تھا۔ والد نے ماموں سے بات کی اور ایک شرط رکھی کہ فائزہ آپ لوگوں کے گھر آئے گی مگر کبھی اپنے سوتیلے باپ کے گھر نہ جائے گی۔ ماموں کو بھلا اس بات پر کیا اعتراض ہوسکتا تھا۔ وہ چاہتے تھے کہ میری شادی میرے سگے والد کریں اور میں اپنے ابو کے گھر سے رخصت ہوں۔ جب والد کے ساتھ ان کے گھر آگئی۔ انہوں نے میری بہت قدر و منزلت اپنی بیوی اور بچوں سے کروائی۔ وہ بھی بہت پیار سے ملے۔ لگا میں واقعی اپنوں میں آگئی ہوں۔ پچھلے سارے غم بھول جائوں گی۔ بچے غلطیاں کرتے ہیں اور ماں، باپ درگزر کرتے ہیں، مگر میرے ساتھ ایسا نہ ہوا۔ مجھے والد کے گھر بہت پیار ملا مگر معافی نہ ملی۔ مجھ سے غلطی ہوگئی کہ میں نے والد کے حکم کا پاس نہ رکھا اور سوتیلے باپ کے گھر چلی گئی۔ مجھے یہاں آئے سال ہوا تھا ایک روز ارم باجی ہمارے گھر آئیں۔ وہ مجھ سے گلے مل کر خوب روئیں اور کہا کہ تمہارے دونوں چھوٹے بہن، بھائی تم کو بہت یاد کرتے ہیں۔ کرن بیمار ہے، وہ رو رو کر تم کو پکارتی ہے، ایک بار آکر اس سے مل لو۔ میں نے کہا۔ ارم باجی ابو نے منع کیا ہے آپ لوگوں سے ملنے سے آپ ان کو یہاں لے آیئے۔ میں آپ کے والد کے گھر نہ جائوں گی۔ وہ بولیں۔ ان کا نہیں میرا گھر ہے، تم میرے گھر آئو۔ اپنے بہن بھائی سے ملنے میرے ابو سے تمہارا کیا واسطہ۔ بس ایک بار چند منٹوں کے لیے آجانا۔ میں نے وعدہ کرلیا کہ ماموں کے گھر آئی تو آپ کو فون کردوں گی۔ ماموں کے گھر گئی تب ارم باجی کو فون کیا کہ میں یہاں ہوں، آپ کرن اور ندیم کو لے آیئے۔ وہ بولیں۔ کرن بہت بیمار ہے، ابھی نہیں لاسکتی، تم دوچار منٹ کو یہاں آجائو۔ تمہارے والد کو بھلا کون بتائے گا۔ ہم ممانی سے منع کردیں گے۔ ارم باجی کے اکسانے پر میں ان کے گھر چلی گئی۔ سمجھ رہی تھی بس ایک بار کے بعد دوبارہ نہ جائوں گی مگر میری ایک بار کی غلطی پکڑی گئی۔ ابو کو خبر ہوگئی کہ میں سوتیلے باپ کے گھر ان کے منع کرنے کے باوجود گئی ہوں۔ بس یہ میرے لیے ان کی محبت کا آخری دن ثابت ہوا۔ انہوں نے مجھے اپنے پاس رکھنے سے انکار کردیا۔ میں نے معافی مانگی۔ میری طرف سے ماموں اور ممانی بولے۔ پھوپی نے ان کو بہت سمجھایا کہ بچی ہے، غلطی ہوگئی ہے، معاف کردو۔ کافی عرصے ان کے ساتھ رہی ہے، بچوں کی آپس میں ساتھ رہنے کی وجہ سے محبت ہے۔ ایسا کیا جرم ہوا ہے کہ سزا دینی لازم ہے۔ پہلے ماں نے اسے سزا دی، اب تم باپ ہو کر سزا دے رہے ہو۔ والد کا دل تو جیسے پتھر کا بنا ہوا تھا، موم ہوا، نہ پگھلا۔ میرے آنسو بھی اس پتھر پر کوئی اثر نہ کرسکے۔ میں نے ان کا پیار، اپنا گھر اس کا سکون پا کر کھو دیا۔ اس نعمت کو تو ہرگز کھونا نہ چاہتی تھی۔ ایک بار پھر سے بے آسرا نہ ہونا چاہتی تھی۔ میرے باپ کا ہاتھ میرے سر پر ایک نعمت تھا اور ان کا پیار جو پیدائش کے بعد اب ملا تھا، وہ بھولتا نہ تھا۔ بہت روتی تھی یہاں تک کہ سوتیلی ماں کو بھی مجھ پر ترس آگیا۔ انہوں نے بھی ابو کو بہت سمجھایا کہ بچوں کی غلطیوں کو معاف کرنا والدین کا کام ہے۔ معاف کردیجئے، یہ دوبارہ آپ کی اجازت کے بغیر قدم باہر نہ رکھے گی مگر والد جانے کس مٹی کے بنے تھے، انہوں نے منہ پھیر لیا اور یہ کہہ کر چلے گئے اس کو واپس اس کے ماموں کے گھر بھجوا دو۔ یہ ان ہی لوگوں کے لیے پیدا ہوئی تھی۔ مجھے ایسی نافرمان بیٹی کی ضرورت نہیں ہے۔ ماموں ہی پہلے بھی سہارا تھے، وہی پھر سہارا بنے۔ میں نے ان کے پاس رہ کر میٹرک کیا، ایف اے کیا پھر ممانی کی کوششوں سے ایک اوسط گھرانے میں شادی ہوگئی۔ دوبارہ والد نے بلایا اور نہ اپنے گھر آنے کی اجازت دی۔ آج بھی جب اپنے باپ کے پیار بھرے گھر کو یاد کرتی ہوں تو رو دیتی ہوں۔ اپنا گھر لاکھ اپنا ہے لیکن بابل کا گھر بابل کے گھر آنگن کی تو بات ہی کیا ہے۔ سبھی بیٹیوں کو بابل کے گھر کا مان ہوتا ہے۔ سسرال میں بھی وہ اس گھر کے مان سے با عزت رہتی ہیں لیکن مجھ بدنصیب کو آج تک یہ مان نصیب نہیں ہوا۔ یہ مان میری قسمت میں نہ تھا۔ ن ملتان
null
null
null
null
471
https://www.urduzone.net/khojh-episode-21/
عبداللہ نے پوری کوشش کی کہ تعلیم خراب نہ کرو۔ علم ضروری ہے، علم بندے کی جہالت کا تعین کرتا ہے۔ علم شعور و انسانیت سکھاتا ہے، مگر طالبِ علموں کا اصرار تھا کہ جاہل رہ جائیں گے لیکن فیس بک اور یوٹیوب بند کروا کر ہی دم لیں گے۔ ایک طالبِ علم آگے بڑھا اور نعرہ مارا، ہم اُمی نبی کے اُمی پیروکار ہیں، کیا ہوا اگر جاہل رہ گئے۔ عبداللہ کے کانوں میں تو جیسے کسی نے پگھلا ہوا سیسہ ہی ڈال دیا ہو۔ شدتِ غم سے وہ زمین پہ بیٹھ گیا۔ زبان خاموش ہوگئی اور آنکھوں نے بولنا شروع کردیا۔ دوست نے جلدی سے گاڑی میں ڈالا اور واپسی کی راہ لی۔ اسے ڈر تھا کہ عبداللہ نے اگر پھر کچھ بول دیا تو لڑکے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔ عبداللہ راستے بھر سوچتا رہا اور روتا رہا کہ اُمی کے معنی جاہل، اَن پڑھ یا غافل کیسے ہوگئے قرآن میں وادئ مکہ کے لیے اُمّ القریٰ کے الفاظ بار آئے ہیں تو مطلب ہوا اُمی کا، مکہ کا رہنے والا۔ اُمی ہر اُس چیز کو بھی کہتے ہیں جو دوسروں کی تربیت کرسکے۔ ماں کو اُم کہتے ہیں۔ رسالتِ پناہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم پوری کائنات کے مصلح و مربی بنے۔ اور ہم کیا کہہ رہے ہیں۔ اللہ نے محمد کو پوری دنیا کے لئے ہدایت کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ اب اگر کسی شخص کو ان کے تلقین کردہ فرمودات سے بھی ہدایت و یقین نہ ملے تو اُسے بے یقین ہی مرجانا چاہیئے۔ وہ سوچنے لگا کہ آج کل کے دورِ فِتن میں اسلام کو سب سے زیادہ خطرہ مسلمانوں سے ہے۔ غلامی رسول میں موت بھی قبول ہے، کا نعرہ لگانے والے یہ کیوں نہیں کہتے کہ غلامی رسول میں علم قبول ہے۔ جھوٹ سے نفرت ہے۔ اب کیا ٹریفک لائٹ پر رُکنے کے لیے بھی اِسلامی مملکت کا اِنتظار ہے یا لائن بنانے کے لیے بھی امیر المومنین کی ضرورت ہے مسلسل خواب کی تعبیر کیا ہو تمہارے جاگنے پر بات ہوگی ۔۔۔ ۔۔۔ آج اعتکاف کا پہلا دن تھا اس بار عبداللہ کے کوئی سوال نہیں تھے۔ وہ جب مفتی صاحب کے سامنے جاتا تو سوال خود بخود غائب ہوجاتے۔ پچھلے سال اور اِس سال کے عبداللہ میں بڑا فرق تھا۔ مفتی صاحب کہہ رہے تھے کہ حضرت حسن بصری نے کہا کہ فقیہہ وہ شخص ہوتا ہے جس کا دل دُنیا کی محبت سے پاک ہو۔ اپنے دین اور مسلک سے صحیح معنوں میں باخبر ہو اور ہمیشہ اپنے پروردگار کی عبادت میں لگا رہے۔ عبداللہ خاموشی سے عبادت میں لگا رہا، بہت بہترین لوگ تھے، بہت عمدہ ماحول۔ عبداللہ کے ساتھ ایک نابینا شخص اعتکاف میں بیٹھے تھے، عبداللہ کی اُن سے خوب بنی۔ وہ ہر وقت پوچھتا رہتا کہ آپ اپنے احساسات سے دنیا کو کیسے دیکھتے ہیں عبداللہ فجر کے بعد بھی کافی دیر سے سویا اور جب آنکھ کھلی تو نچلی منزل سے اقامت کی آواز آ رہی تھی، بھاگم بھاگ جاکر نماز میں شامِل ہوا، اور بڑا افسوس ہوا دیر سے پہنچنے کا۔ کہیں میں وقت سے پہلے بھی جایا کرتا تھا آج اعتکاف کا نواں دن تھا۔ دن کب گذرے پتہ ہی نہ چلا۔ عبداللہ کچھ پریشان تھا سوچ رہا تھا اگر معافی نہ ملی تو ساری محنت اکارت جائے گی۔ اس نے سوچا کہ کسی سخی کے دروازے پہ کوئی بیٹھ جائے دن تک تو اسے بھی بھیک مل جاتی ہوگی۔ وہ بھی در پہ پڑا ہے۔ انشا اللہ معافی لے کر ہی جائے گا۔ ان شا اللہ شک کے بدلے، ثبوت کے طور پر بولا جائے تو دُعا کی تاثیر بدل جاتی ہے۔ انہیں سوچوں میں جماعت کھڑی ہوگئی۔ عبداللہ تیزی سے دسترخوان پھلانگتے ہوئے چلا گیا اور جماعت میں شامل ہوگیا۔ اُسے بعد میں اپنی حرکت کا بڑا دُکھ ہوا کہ دسترخوان پھلانگنا نہیں چاہیئے تھا۔ اگلے روز مفتی صاحب نے اسے بلا بھیجا فجر کے بعد اور کہنے لگے، کیا آپ کو بھی بتانا پڑے گا کہ دسترخوان نہیں پھلانگتے۔ عبداللہ کے منہ سے کچھ نہیں نکلا۔ وہ سوچنے لگا کہ یااللہ میں کب کب کہاں کہاں کون سی حدیں پھلانگتا ہوں۔ انہیں کیا پتہ لیکن آج کے بعد شاید کچھ بھی نہ پھلانگ سکوں کہ ان کا یہ جملہ یاد آئے گا۔ اعتکاف ختم ہونے میں کچھ ہی گھنٹے رہ گئے تھے۔ عبداللہ نے دُعا کے لئے ہاتھ اُٹھائے۔ اے اللہ میں تیرے ہر عیب سے پاک ہونے کے ساتھ ساتھ تیری حمد و ثنا بیان کرتا ہوں اور ایسی پاکیزگی و حمد و ثنا جس کی تعداد تیری مخلوق کے برابر ہو اور ایسی پاکیزگی و حمد و ثنا جس سے تو خوش ہوجائے اور ایسی پاکیزگی و حمد و ثنا جو اپنے وزن میں عرش کے وزن کے مساوی ہو اور ایسی حمد و ثنا جسے لکھنے کے لئے اتنی ہی روشنائی درکار ہو جتنی روشنائی تیری تعریف کے جملوں کو لکھنے کے لئے مطلوب ہے۔ اے اللہ معاف فرما دے۔ اعتکاف قبول کرلیں۔ پروردگار لوگ بھول گئے ہیں۔ تو تو نہیں بھولا۔ اللہ دل پتہ نہیں کس کس کی عبادت میں گرفتار ہے، مجھے سب سے چھڑا کر صرف اپنا بنالے۔ اے اللہ، سفر درپیش ہے۔ اذان کی نیت ہے۔ میرے اللہ کمپنی چلا دے پیسوں میں سے تیری راہ پہ بھی لگاؤں گا اِنشا اللہ۔ اللہ دعویٰ دلیل مانگتا ہے، مجھے میرے وعدے پہ قائم رکھیو۔ اللہ کبر سے بچا، تیرا نام لے لے کر اپنی تعریفیں کرنے سے بچا، تیرے ذمہ کوئی جھوٹ لگاؤں اِس سے بچا، تقویٰ کی تشہیر سے بچا، محبت کے چھٹ جانے سے بچا۔ نعمتوں کے چھن جانے سے بچا۔ تو مولا ہے، میں تیرا بندہ، تجھ سے نہ کہوں تو کدھر جاؤں۔ اللہ پورے ملک میں کوئی تمیز کا اسکول باقی نہیں بچا۔ اللہ تیاری کرنی ہے۔ مالک جب نوکر کو سبزی لینے بھیجتا ہے تو پیسے دے کر بھیجتا ہے، مجھے بھی پیسے دے، فضل کر، برکت ڈال میرے وقت میں میرے مولا۔ صرف تیرے در پہ بھیک مانگتا ہوں۔ اللہ سائیں، میں ایک ہوٹل میں گیا تو پتہ لگا کہ سالن آپ کوئی سا بھی لے لو روٹی ساتھ میں مفت گریوی میں۔ اے اللہ تو مجھے اپنی معرفت دے۔ اپنی صفتِ علم سے میری ٹریننگ فرما، مجھے اِخلاص دے، مجھے اُمت کا درد دے، مجھے اپنے پیارے حبیب صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی محبت دے، اور گریوی میں دُنیا بھی دے دے میرے مالک۔ اللہ تیری ہی طرف ہجرت کر رہا ہوں تجھے تو پتہ ہے۔ تو قبول فرما۔ آمین ثم آمین عبداللہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ ہوائی جہاز میں بیٹھا تھا اور اُس کا قلم پھر چل رہا تھا۔ یہ گوانتانا موبے سے چھٹنے والا ہر قیدی مولوی کیسے بن جاتا ہے کہ دُنیا گھوم گھوم کے لیکچرز دیتا ہے یہ امریکہ کی مسجدوں میں جو درس دیتے ہیں کہ سوائے اپنے بیوی بچوں کے علاوہ کچھ نہ سوچو تو اِنہیں اِمام منتخب ہی کون کرتا ہے ایسے لوگ جو اپنی ذات سے ایک اِنچ آگے نہ سوچ سکیں انھیں امامت ملنی ہی نہیں چاہیئے ایسا کیوں ہوتا ہے کہ بار بار نماز کی تلقین کرنے کے باوجود نماز نہ پڑھنے والا بچہ، بغیر یاد دہانی کے اسکول کا ہوم ورک کر لیتا ہے یہ تکبر کی کون سی قسم ہے جس میں بندہ کہتا ہے کہ نہیں نہیں، میں اِس قابل کہاں، میں تو ایک گناہگار شخص ہوں جو زندگی غفلت میں گذر جائے اس کی سزا کیا ہو جسے اللہ نہیں ملتا اُسے کون ملتا ہے جسے اللہ مِل جائے اُسے کیا نہیں چاہئیے ہوتا کیسے ہوتے ہیں وہ لوگ جن سے اللہ راضی ہوجاتے ہیں وہ گناہ جو اللہ کے خوف سے ادھورے رہ گئے ان کا زیادہ ثواب ہے یا وہ نیکیاں جو دِکھاوے میں پوری ہوگئیں اللہ سے اللہ کو کیسے مانگتے ہیں پائلٹ نے جہاز جان ایف کینڈی ایئرپورٹ پر اُترنے کی اناؤنسمنٹ کی۔ ۔۔۔ ۔۔۔ نیا ملک، نئے لوگ، نئی مصروفیات، نئی زندگی، ان تمام نئی چیزوں میں صرف عبداللہ پرانا لگتا تھا۔ امریکہ پہنچ کر گھر لینے، سامان شفٹ کرنے، ڈرائیونگ لائسنس بنوانے، بینک اکاؤنٹ کھولنے، بچوں کے اسکول میں داخلے سے لے کر درجنوں ایسی چیزیں اور اہم کام تھے کہ ماہ کہاں گئے پتہ ہی نہیں لگا۔ عبداللہ جلد از جلد ان تمام کاموں سے فارغ ہوکر اپنی نئی کمپنی پر توجہ دینا چاہتا تھا مگر روز مرہ کے کاموں کی مصروفیت اور خانگی کام اسے فرصت ہی نہ لینے دیتے۔ اُسے جب وقت ملتا وہ کوشش کرتا کہ اپنے کمرے میں بیٹھ کر اپنے آپ کو سنے، اندر کی خاموشی کا شور سب سے زیادہ ہوتا ہے اور عبداللہ کی زندگی آج کل اسی شور میں گذر رہی تھی۔ ٹونی اور مارتھا اور بہت سے لوگ اپنے تئیں ہر ممکن کوششیں کر رہے تھے کہ عبداللہ اور اس کی فیملی کو کہیں کوئی مشکل پیش نہ آئے اور اس کی نئے ملک میں سیٹنگ آرام سے ہوجائے۔ مگر عبداللہ کے ذہن میں اٹھنے والے سوالات اسے چین سے بیٹھنے ہی نہ دیتے۔ وہ سوچتا رہتا کہ کہیں وہ پھر کسی گرداب میں تو نہیں پھسنے جارہا، کہیں وہ پھر سے کسی اَن دیکھی کا حصہ تو نہیں بن رہا، کہیں ایسا تو نہیں ہے کہ دین کا سوچتے سوچتے وہ ایک بار پھر دنیا کے جال میں پھنس گیا ہے۔ جب وہ گھر میں اچھی طرح سے سیٹل ہوگیا، گاڑی مل گئی، کمپنی رجسٹرڈ ہوگئی اور آفس مل گیا تو اس نے سوچا کہ اللہ سائیں کو خط لکھ دے کہ نیت کی گواہی باقی رہے۔ آج عبداللہ نے آفس سے چھٹی لی اور پورا دن کمرے سے باہر ہی نہیں نکلا۔ پتہ نہیں کیا کچھ سوچتا رہا۔ اُسے رہ رہ کر اپنی بے مائیگی کا احساس ہوتا کہ وہ جس کام کو کرنے جا رہا ہے اُس میں اُس کو کیا کمال حاصل ہے۔ صرف اللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات پر کامل یقین اور کچھ نہیں۔ عبداللہ نے لرزتے ہاتھوں اور پُرنم آنکھوں سے لکھنا شروع کیا۔ اے اللہ سائیں کافی عرصہ ہوا، آپ کو خط ہی نہیں لکھا، معافی چاہتا ہوں، میں ٹھیک ہوں، شاید نہیں، پتہ نہیں، میں چاہتا ہوں تیرا بندہ بن کر رہوں، تیرا بن کر رہوں، تیرے لئے جیوں، صرف تجھ سے باتیں کروں اور کچھ نہ کروں، مگر فیملی اور معاش کے دھندے ایسا ہونے نہیں دیتے۔ بے شک یہ سارے تو نے ہی عطا فرمائے ہیں اور ان پر لگنے والا ٹائم بھی نیکی میں شمار ہوگا۔ تو میری کمی کوتاہی معاف کردینا میرے مالک۔میرے تھوڑے سے اعمال کو بہت کرلینا، میری چھوٹی نیکیوں کو بھاری کردینا، وہ فارسی میں کہتے ہیں نا بہ قامت کہتر، بہ قیمت بہتر ۔ بس ایسے ہی میرے اللہ میرا خیال رکھ لینا۔ اے اللہ، تُو جانتا ہے میں اس ملک میں خوشی سے نہیں آیا، میں تو یہاں کبھی رہنا ہی نہیں چاہتا تھا، کس کو گوارا تھا کہ پھپھی سے اتنی دور ہوکر رہوں، مفتی صاحب کا ساتھ چھوڑوں، اپنے لوگوں سے دور جاؤں۔ میرے طالب علم بہت اچھے تھے انہیں پڑھا کر سکون ملتا تھا۔ تھوڑے زیادہ جو بھی پیسے ملتے تھے گذارہ ہو جاتا تھا مگر میرے اللہ، تو جانتا ہے کہ کیا ہوا۔ میرے لوگ مجھے جینے ہی نہیں دیتے، نہ مرنے دیتے ہیں، نہ کچھ کرنے دیتے ہیں۔ جملے کستے ہیں، حسد کرتے ہیں، طنز کرتے ہیں، کامیابی پہ جلن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ناکامی پہ تمسخر اُڑاتے ہیں، اور جان سے مارنے کی دھمکیاں الگ، وہاں رہتا تو زندگی پریشانی میں گذر جاتی۔ خوف، ناکامی اور غربت دماغی صلاحیتوں کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہیں۔ یہاں اس لئے آگیا ہوں کہ سکون سے کام کرسکوں، دل لگا کے یکسوئی کے ساتھ، میں پیسہ دیکھ کے نہیں آیا نہ ہی ملک کی ترقی و چکا چوند دیکھ کر، تُو تو جانتا ہے میرے اللہ میں تو دو دو ہفتے گھر سے باہر نہیں نکلتا، پیسہ دیکھ کر آتا تو حشر میں کیا جواب دیتا کہ غریب طالب علموں کو اس لئے چھوڑ دیا کہ امیروں کو پڑھا سکوں، نہیں میرے مالک، تُو تو دلوں کو خوب جانتا ہے، میں انہیں ای میل پر پر پڑھا لوں گا۔ اے اللہ، میں تو اذان کی نیت سے آیا ہوں کہ اپنے کردار اور عمل سے دین کی تبلیغ کرسکوں۔ جہاں دنیا داڑھی والوں کو دہشتگرد اور ہر مسلمان کو متشدد سمجھتی ہے وہاں ایک مثال پیش کرسکوں جو شاید کسی کو ایک بار ٹھنڈے دل سے سوچنے کا موقع دے سکے۔ اے اللہ، میں جانتا ہوں، میں ایک ہوں اور یہاں ملین لوگ بستے ہیں۔ میں کیا اور میرا شمار کیا۔ مگر پھر سوچتا ہوں میں ایک ہوں کس کا، تیرا میرے اللہ، تیرا نام لیوا، تیرا ہی تو دم بھرتا ہوں تیرے ہی سے دوستی کی اُمید ہے، مجھے معلوم ہے تو تنہا نہیں چھوڑتا، تو بھولتا نہیں ہے۔ اے نوح کی کشتی کو پار لگانے والے، اے ابراہیم کو آگ سے بچانے والے، اسماعیل کے لئے زم زم نکالنے والے، اے یوسف کی کنویں اور جیل میں مدد کرنے والے، اے موسی کی فرعون کے مقابلے میں مدد کرنے والے، اے ایوب کی بیماری میں خبرگیری کرنے والے، اے یونس کی مچھلی کے پیٹ میں مدد کرنے والے، اے چادر والے کی محبت کی قسم کھانے والے، اے بدر کے کے رکھوالے، اے اصحاب صُفّہ کے خُدا، اے میرے اللہ مجھے بھی تنہا نہ چھوڑیو، میں نے ہر ایک سے یہی سُنا ہے کہ تُو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتا، میری بھی مدد کرنا۔ میرا نفس، میری نیتوں کا قاتل ہے، مجھے اس کے شر سے بچا مجھ کو مجھ سے بچا میرے اللہ۔ مجھ کو اپنا بنا میرے اللہ۔ اے اللہ، کمپنی بنوا دے پھر اسے فروخت بھی کروا دے۔ اے اللہ مفتی صاحب کی مسجد میں چھوٹے چھوٹے معصوم بچے ہیں، ملک میں بے گھر و بے آسرا بچے ہیں، تو جانتا ہے نا، میری دوست کو، وہ بے گھر بچوں کیلئے کام کرتی ہے، اے اللہ ایسی یونیورسٹی بنانا چاہتا ہوں جہاں انسان تیار ہوں جہاں ساری سہولتیں موجود ہوں۔ جہاں فیس نہ دینی پڑے اور ملک بھر سے بہترین بچوں کا انتخاب کرکے دنیا کو کچھ ایسے انسان دیئے جاسکیں جو نفع بخش ہوں، نفع خور نہیں۔ اور میرے اللہ کچھ اتنا پیسہ بچ جائے کہ بِلو کو دے سکوں اور وہ اس کے لئے اور بچوں کے لئے زندگی بھر کو کافی ہوجائے تاکہ میں سکون سے پڑھ سکوں، تیرا ذکر کرسکوں، کچھ لکھ سکوں۔ بڑی ضرورت ہے دنیا کو دین کی، ان کی اپنی زبان میں، اس بات کی کہ اسلام پر لگائے جانے والے فضول الزامات کا تحقیق کے ساتھ ان ہی کی زبان میں جواب دیا جاسکے۔ میں بالکل فارغ ہوں میرے اللہ، جاب لیس ہوں، تُو کرلے اتنی بڑی دنیا میں ایک آدھ آسامی تو خالی ہوگی ہی نا موذن کی، تو اُس پر رکھ لے۔ دل سے اذان دوں گا میرے مالک، روح سے اذان دوں گا، جان سے اذان دوں گا، اپنے خون سے اذان دوں گا، تو ہائر کرلے، تو تربیت کردے، تو اذان سکھا دے اور اس کی آواز کو چار سو پھیلا دے۔ جاری ہے
null
null
null
null
472
https://www.urduzone.net/hazrat-mian-mir-lahori-episode/
حضرت میاں میر نے جس فقیر کے متعلق فرمایا تھا، وہ کوئی اور شخص ہوگا۔ ابھی خرقہ پوش درویش یہ سوچ ہی رہا تھا کہ اس فقیر نے سر اُٹھایا اور بڑے عجیب انداز میں بولا۔ ہاں میں ایک مزدور ہوں مگر اس بوجھ کو اُٹھاتا ہوں جس کے لیے حضرت میاں میر نے تجھے یہاں بھیجا ہے۔ اپنی ہمیانی پہچان کر اُٹھا لے۔ جب خرقہ پوش درویش نے کشتی پر نگاہ کی تو وہاں بہت سی ہمیانیاں موجود تھیں۔ اس نے اپنی ہمیانی اُٹھا لی۔ فقیر نے اسے دوبارہ مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ پوری رقم گن لے۔ خرقہ پوش درویش نے رقم گنی تو پورے ایک سو ساڑھے بائیس روپے تھے۔ وہ خوشی خوشی اپنی ہمیانی لے کر حضرت میاں میر کی خدمت میں واپس آیا اور شکریہ ادا کرنے لگا کہ آپ کی توجہ سے مجھے میری کھوئی ہوئی رقم دوبارہ مل گئی۔ لالچی درویش کو رقم تو مل گئی لیکن گردش وقت کے سبب وہ اس کے کام نہ آ سکی۔ روپے گم ہو جانے کا درویش کو اس قدر صدمہ پہنچا تھا کہ اسے خونی اسہال کی بیماری لاحق ہوگئی۔ پھر اسی بیماری میں اس کا انتقال ہوگیا۔ درویش کے مرنے کے بعد اس رقم پر اس کے ایک خدمت گار نے قبضہ کر لیا اور فرار ہوگیا۔ پھر جب دُوسرے خدمت گار کو اس بات کا پتا چلا تو اس نے پہلے خادم کو راستے میں جا لیا اور قتل کر ڈالا۔ راہ گیروں نے یہ منظر دیکھا تو درویش کے دُوسرے خادم کو پکڑ لیا اور قصاص کے طور پر اسے بھی مار ڈالا۔ جب لاہور کے باشندوں کو اس المناک واقعے کی خبر ملی تو انہیں حضرت میاں میر کا ارشاد گرامی یاد آیا۔ یہ ہوسِ زر درویش کو مار ڈالے گی۔ اور جس شکستہ حال شخص کو حضرت میاں میر نے بتیس روپے دیئے تھے، وہ شاہجہاں کا ملازم ہوا اور اس کا گھر سیم و زر سے بھر گیا۔ حضرت میاں میر کا طریقہ تھا کہ اپنی مجلس میں ذکرِ الٰہی پر بہت زور دیتے۔ اپنے مریدوں کو اسم ذات اللہ کے ذکر کی بار بار تلقین فرماتے۔ کبھی کسی مرید کے دِل میں یہ خیال آتا کہ پیر و مرشد نے کوئی مشکل وظیفہ کیوں نہیں بتایا تو حضرت میاں میر اپنی تقریر کے دوران اشارات و کنایات میں اسم ذات کی اس طرح وضاحت فرماتے کہ حاضرین مجلس پر وجد کی کیفیت طاری ہو جاتی۔ ایک بار آپ نے طالبان ذوق کو مخاطب کر کے فرمایا۔ حضرت جنید بغدادی وہ بزرگ تھے کہ تیس سال تک راتوں کو کھڑے ہو کر اللہ اللہ کیا کرتے تھے۔ ایک اور موقع پر حضرت میاں میر لاہوری نے فرمایا۔ حضرت شیخ ابوبکر شبلی کا بھی یہی دستور تھا کہ اسم ذات کا ذکر کرتے اور آپ پر استغراق کی ایسی کیفیت طاری ہو جاتی کہ دُنیا و مافیہا سے بے خبر ہو جاتے۔ جب بغداد میں گناہ حد سے زیادہ بڑھ گئے تو ایک بار آپ کو عالم خواب میں صدائے غیب سُنائی دی۔ اے شبلی اگر تو بغداد میں نہ ہوتا اور اللہ اللہ نہ کرتا تو اس زمین پر ایک ایسی بلا نازل ہوتی کہ جس کے ہولناک اثرات سے پورا شہر ہلاک ہو جاتا۔ ایک دن حضرت شیخ ابوبکر شبلی نے عبدالرحمن خراسانی سے پوچھا۔ کیا تو نے شبلی کے سوا کسی شخص کو دیکھا ہے جو فقط اللہ ہی اللہ کہتا ہو۔ عبدالرحمن خراسانی نے کسی تکلف کے بغیر جواب دیتے ہوئے کہا۔ میں نے شبلی کو بھی اللہ اللہ کہتے نہیں سُنا۔ عبدالرحمن خراسانی کا جواب سن کر حضرت شیخ ابوبکر شبلی کی حالت غیر ہوگئی۔ پھر آپ نے نہایت پُرسوز لہجے میں فرمایا۔ جس وقت تو اللہ کہے، اس وقت بھی وہ اللہ ہے اور جب تو چپ رہے تو بھی وہ اللہ ہے اور تو نہیں جانتا کہ اللہ کون ہے وہ پاک، وحدہٗ لاشریک ہے۔ یہ کہہ کر حضرت شیخ ابوبکر شبلی بے ہوش ہوگئے اور زمین پر گر پڑے۔ یہ واقعہ بیان کرنے کے بعد حضرت میاں میر نے فرمایا۔ حضرت شیخ ابوبکر شبلی ہمیشہ اللہ اللہ کہا کرتے تھے۔ ایک دن کسی شخص نے برسرمجلس ٹوکتے ہوئے کہا۔ شیخ آپ لا الٰہ الا اللہ کیوں نہیں کہتے اس شخص کا سوال سن کر حضرت شیخ ابوبکر شبلی نے فرمایا۔ مجھے اس کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ پھر میں کس کی نفی کروں یہ اقرار اور محبت کی آخری منزل ہے کہ بندہ اس ذات واحد کے تصور میں اس طرح گم ہو جاتا ہے کہ اسے اپنے مالک کے سوا کچھ نظر نہیں آتا۔ پھر وہ کس چیز کا انکار کرے حضرت شیخ ابوبکر شبلی کے قول مبارک کا بھی یہی مفہوم ہے۔ حضرت میاں میر لاہوری بھی ہم مجلسوں سے بہت کم کلام کرتے تھے۔ آپ کا بیشتر وقت سکوت اور خاموشی میں گزرتا۔ اگر کبھی کسی جگہ تشریف لے جاتے تو راستے بھر خاموش رہتے۔ اگر دوست اور خدمت گار سرِ راہ گفتگو کرتے تو انہیں واضح الفاظ میں منع فرماتے۔ بات چیت کم کیا کرو کہ اس طرح انسان ذکرِ الٰہی سے محروم رہ جاتا ہے۔ کبھی حاضرین مجلس کو مخاطب کر کے فرماتے۔ اگر تم راستوں اور بازاروں میں تنہا جائو گے تو ذکر الٰہی میں مشغول رہ سکو گے۔ حضرت میاں میر کا طریقہ تھا کہ امرا کی محفلوں میں جانے سے گریز فرماتے تھے۔ تاریخ کے حوالے سے آپ کی حیات مبارکہ میں بس ایک ہی واقعہ نظر آتا ہے کہ جب مغل شہنشاہ جہانگیر نے بار بار درخواست کی تھی اور آپ فرمانروائے ہندوستان کی نیازمندی سے مجبور ہو کر قصرِ شاہی تشریف لے گئے تھے، ورنہ حضرت میاں میر کسی شخص کے گھر یا مجلس میں جانا پسند نہیں کرتے تھے۔ اگر کوئی عقیدت مند التجا کرتا کہ شیخ اپنے وجود مسعود سے اس کے غریب خانے کو منور فرما دیں تو آپ ناراض ہو جاتے اور انتہائی ناخوشگوار لہجے میں فرماتے۔ جو شخص اپنے گھر میں دُوسروں کی آمد برداشت نہ کرتا ہو، وہ کسی دُوسرے کے گھر جانا کب پسند کرے گا۔ حضرت میاں میر کی نظر میں اہلِ دُنیا کی کوئی وقعت نہیں تھی۔ ساری زندگی اللہ کے سہارے بسر کی اور مادہ پرستوں پر اس آیتِ مقدسہ کا مفہوم ثابت کر دیا۔ ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد چاہتے ہیں۔ ترجمہ الفاتحہ ایک دن حضرت میاں میر کی مجلس آراستہ تھی۔ ایک عقیدت مند نے دست بستہ عرض کیا۔ شیخ جب آپ کو اپنے رَبّ کی بارگاہ میں حضوری حاصل ہو تو میرا بھی خیال رکھنا۔ اس شخص کی درخواست سن کر حضرت میاں میر لاہوری کو اپنے پیر و مرشد حضرت شیخ خضر سیوستانی یاد آ گئے۔ اس قسم کی درخواست سن کر حضرت شیخ نے فرمایا تھا۔ اللہ مجھے اس وقت کے لیے زندہ نہ رکھے جب اس کے سوا مجھے کسی دُوسرے کا خیال آئے۔ حضرت میاں میر نے بھی اس شخص کی التجا سن کر اپنے پیر و مرشد کی طرح کم و بیش یہی الفاظ فرمائے۔ ایسے وقت پر خاک، جس میں اللہ کے سوا مجھے کوئی دُوسرا یاد آئے۔ حضرت میاں میر کا یہی انداز اللہ طلبی تھا کہ جس نے آپ کو ہر شے سے بے نیاز کر دیا تھا اور جب بندہ ماسوا سے بے نیاز ہو جاتا ہے تو پھر اسے خالق کائنات کی طرف سے خوشخبری دی جاتی ہے۔ ہم اس کی آنکھ بن جاتے ہیں، ہم اس کی زبان بن جاتے ہیں اور ہم اس کا ہاتھ بن جاتے ہیں۔ ترجمہ علامہ اقبال نے اپنے ایک شعر میں مرد مومن کی اسی شان کی طرف اشارہ کیا ہے ہاتھ ہے اللہ کا بندئہ مومن کا ہاتھ غالب و کار آفریں، کارکشا، کارساز حضرت میاں میر لاہوری کی بھی یہی شان عارفانہ تھی۔ جس بات کے لیے زبان مبارک سے ارشاد فرما دیتے، اللہ تعالیٰ اسے پورا کر دیتا۔ جس شخص کے لیے اپنا دامن مراد پھیلا دیتے، اللہ اسے اپنی رحمتوں اور نعمتوں سے بھر دیتا۔ ٭ ٭ ٭ شیخ عبدالواحد ، حضرت میاں میر لاہوری کے مرید خاص تھے۔ حضرت شیخ ان پر نہایت شفقت فرماتے تھے۔ انہی شیخ عبدالواحد کا بیان ہے کہ ایک دن پیر و مرشد مرزا کامران کے باغ کے سامنے دریا کے کنارے لیٹے ہوئے تھے اور میں حضرت شیخ کے پائوں دبا رہا تھا کیونکہ آپ کو جوڑوں کے درد کا عارضہ لاحق تھا۔ میں نے اسی اثنا میں ایک بہت بڑے کالے سانپ کو اپنی طرف آتے ہوئے دیکھا۔ خوف سے میرے چہرے کا رنگ متغیر ہوگیا۔ میری یہ حالت دیکھ کر حضرت شیخ نے فرمایا۔ عبدالواحد کیا بات ہے میں تمہارے چہرے پر خوف اور بے چینی کے آثار دیکھ رہا ہوں۔ سیّدی ایک بڑا کالا سانپ ہماری طرف آ رہا ہے۔ چہرے کے ساتھ ساتھ میرے لہجے سے بھی پریشانی کا اظہار ہو رہا تھا۔ حضرت میاں میر لاہوری نے نہایت پُرسکون لہجے میں فرمایا۔ آنے دو اسے ہم لوگوں سے کوئی کام ہوگا۔ شیخ عبدالواحد کہتے ہیں کہ میں پیر و مرشد کا ارشادِ گرامی سن کر خاموش تو ہوگیا مگر اس خوفناک زہریلے جانور کی دہشت مجھ پر طاری رہی۔ سانپ آہستہ آہستہ آگے بڑھتا رہا اور حضرت میاں میر اطمینان سے لیٹے رہے۔ پھر جب وہ سانپ سامنے آ کرکھڑا ہو گیا تو پیر و مرشد اُٹھ کر بیٹھ گئے۔ پھر میری آنکھوں نے عجیب و غریب منظر دیکھا۔ سانپ نے آگے بڑھ کر اپنا پھن حضرت میاں میر کے قدموں کے قریب رکھ دیا۔ مجھے ایسا لگا جیسے وہ زہریلا جانور ایک مردِ خدا کے سامنے اپنی عقیدت کا اظہار کر رہا ہو۔ پھر چند لمحوں بعد وہ سانپ سیدھا ہوا اور اس کے منہ سے عجیب سی آوازیں نکلنے لگیں۔ حضرت شیخ کا انداز نشست ایسا تھا جیسے آپ ہمہ تن گوش ہوکر سانپ کی گفتگو سن رہے ہوں۔ پھر جب سانپ کے منہ سے آوازیں نکلنا بند ہوگئیں تو حضرت میاں میر نے فرمایا۔ ٹھیک ہے، اسی طرح سہی۔ جیسے ہی پیر و مرشد کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے، سانپ اپنی جگہ سے اُٹھا اور اس نے حضرت میاں میر کے گرد تین چکر لگائے اور خاموشی کے ساتھ چلا گیا۔ شیخ عبدالواحد مجسمۂ حیرت بنے بیٹھے تھے۔ جب وہ سانپ رُخصت ہوگیا تو پیر و مرشد کی خدمت میں عرض کرنے لگے۔ سیّدی یہ کیا راز تھا حضرت میاں میر نے فرمایا۔ کوئی راز نہیں تھا۔ اس سانپ نے قسم کھائی تھی کہ وہ جب بھی مجھے دیکھے گا، میرے گرد تین چکر لگائے گا۔ جواب میں، میں نے اس سے کہا، ٹھیک ہے، اسی طرح سہی۔ ٭ ٭ ٭ ان ہی شیخ عبدالواحد کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت میاں میر زنجان کے باغ میں قیام فرما تھے اور یادِ الٰہی میں مشغول تھے۔ میں بھی حاضر خدمت تھا کہ ایک فاختہ کہیں سے اُڑتی ہوئی آئی اور قریب کے ایک درخت پر بیٹھ کر بولنے لگی۔ پیر و مرشد نے میری طرف دیکھا اور فرمایا۔ عبدالواحد غور سے سنو کہ یہ فاختہ کس شیرینی اور فصاحت کے ساتھ اپنے خالق کا نام لے رہی ہے۔ میں نے غور سے سنا۔ واقعتاً وہ فاختہ بڑے والہانہ انداز میں بول رہی تھی۔ سنسان جنگل میں فاختہ کی آواز سے سحرانگیز سماں پیدا ہوگیا تھا۔ میں نے پیر و مرشد کی طرف دیکھا تو آپ پر وجد کی سی کیفیت طاری نظر آئی۔ اتنے میں اچانک کسی سمت سے ایک شکاری غلیل ہاتھ میں لئے ہوئے آیا۔ اس نے فاختہ کا نشانہ لیا اور دیکھتے ہی دیکھتے غُلّہ چھوڑ دیا۔ دُوسرے ہی لمحے فاختہ زمین پر گری اور مر گئی۔ شکاری دوڑتا ہوا پرندے کے پاس گیا اور اسے اُٹھا کر دیکھنے لگا۔ شرعی اعتبار سے شکار کیا جانے والا جانور اگر ذبح کئے جانے سے پہلے مر جائے تو وہ حرام اور مُردار کہلاتا ہے۔ اس فاختہ کا بھی یہی حال تھا۔ وہ زمین پر گرتے ہی مر گئی تھی، اس لیے شکاری اسے مُردہ حالت میں چھوڑ کر واپس چلا گیا۔ حضرت میاں میر کو شکاری کے اس عمل سے سخت اذیت پہنچی۔ پھر جب وہ چلا گیا تو آپ نے اپنے مرید خاص کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ عبدالواحد اس معصوم پرندے کو اُٹھا لائو جو کچھ دیر پہلے اپنے رَب کی تسبیح بیان کر رہا تھا اور جسے ایک انسان کے دست جفاکار نے خاموش کر دیا۔ پیر و مرشد کا حکم سنتے ہی میں دوڑتا ہوا وہاں پہنچا اور مُردہ فاختہ کو اُٹھا لایا۔ حضرت میاں میر اس خوبصورت پرندے کو ہاتھ میں لے کر چند لمحوں تک دیکھتے رہے۔ پھر آپ نے فاختہ کے مُردہ جسم پر اپنا دستِ مبارک پھیرتے ہوئے فرمایا۔ اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا اور اپنے رَب کی پاکی بیان کر۔ جیسے ہی حضرت میاں میر کی زبان مبارک سے یہ الفاظ ادا ہوئے، فاختہ کے تنِ مُردہ میں حرکت پیدا ہوئی اور دُوسرے ہی لمحے وہ اُڑ کر درخت کی شاخ پر جا بیٹھی اور اسی والہانہ انداز میں بولنے لگی۔ شکاری جو پرندوں کی تلاش میں تھا، فاختہ کی آواز سن کر واپس لوٹا۔ حضرت میاں میر نے اسے آتے ہوئے دیکھا تو نہایت پُرجلال لہجے میں مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ عبدالواحد اس سنگدل شکاری سے کہہ دو کہ اگر دوبارہ اس پرندے کو کوئی ضرر پہنچا تو نتیجہ اچھا نہیں ہوگا۔ جب شیخ عبدالواحد نے پیر و مرشد کا پیغام شکاری کو پہنچایا تو وہ عاقبت نااندیش انسان ایک درویش کے کلام کا مذاق اُڑانے لگا۔ میں برسوں سے شکار کھیل رہا ہوں مگر آج تک میرا کچھ نہیں بگڑا۔ اگر کوئی نقصان پہنچے گا تو اسی فاختہ کو پہنچے گا۔ شکاری نے نہایت درشت لہجے میں کہا اور پوری طاقت سے غلیل کھینچی اور دُوسرے ہی لمحے اس کی دردناک چیخ فضا میں بلند ہوئی اور وہ زمین پر گر کر تڑپنے لگا۔ دراصل واقعہ یوں ہوا تھا کہ غلیل کھینچتے وقت اس کے ہاتھ کانپ گئے تھے اور نشانہ خطا ہو گیا تھا۔ پتھر کا غلہ فاختہ کے لگنے کے بجائے اس کے اپنے انگوٹھے پر لگا اور وہ درد کی شدت سے تڑپنے لگا۔ شیخ عبدالواحد اپنے پیر و مرشد کے پاس پہنچے اور سارا ماجرا بیان کر دیا۔ جواب میں حضرت میاں میر نے فرمایا۔ یہ وہ درد نہیں ہے جو کسی دوا یا تدبیر سے ٹھیک ہو جائے۔ یہ لاعلاج ہے اور لاعلاج ہی رہے گا۔ فقیر نے تو اسے پہلے ہی تنبیہ کر دی تھی۔ اب اگر کوئی آفات و مصائب کے کنویں میں گر جائے تو اسے کون بچا سکتا ہے شیخ عبدالواحد دوبارہ شکاری کے پاس پہنچے اور آپ نے پیر و مرشد کے الفاظ اس کے سامنے دُہرا دیئے۔ شکاری درد کی شدت سے چیخ رہا تھا۔ شیخ عبدالواحد کی بات سن کر وہ زمین سے اُٹھا اور تیزی کے ساتھ حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہوا۔ شیخ میری حالت پر رحم کھائو۔ یہ درد مجھے مار ڈالے گا۔ جو انسان اپنی حالت پر رحم نہیں کھاتا، اس پر کوئی دُوسرا کیسے رحم کھائے گا حضرت میاں میر نے شکاری کی آہ و زاری سن کر فرمایا۔ اے شخص کیا تو بھوکا تھا جو پرندے کو شکار کر رہا تھا شکاری نے نفی میں جواب دیا تو حضرت میاں میر نے انتہائی پُرجلال لہجے میں دوبارہ فرمایا۔ شریعت نے شکار اسی لیے جائز قرار دیا ہے کہ انسان بھوک اور ضرورت کے وقت چرندوں اور پرندوں کو مار کر اپنے استعمال میں لائے۔ سیر و تفریح اور نفس کی تسکین کے لیے اللہ کی مخلوق کا خون بہانا مناسب نہیں۔ درد کی شدت اور حضرت میاں میر کی پُرجلال گفتگو سن کر شکاری کا اندازِ فکر بدل گیا اور وہ گڑگڑاتے ہوئے کہنے لگا۔ شیخ اگر میرے ہاتھ کا درد چلا جائے تو میں ہمیشہ کے لیے شکار سے تائب ہو جائوں گا۔ تو پھر اللہ تعالیٰ بھی تجھے کسی قسم کی اذیت نہیں دے گا۔ ابھی فضا میں حضرت میاں میر کے الفاظ کی بازگشت باقی تھی کہ شکاری کے ہاتھ کا درد اس طرح رفع ہوگیا جیسے کبھی یہ شکایت پیدا ہی نہیں ہوئی تھی۔ حضرت میاں میر کی اس کرامت پر دُنیا داروں کو حیران نہیں ہونا چاہیے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اپنے دست مقدس سے مٹی کے پرندے بناتے تھے اور اس پر پھونک مار دیا کرتے تھے۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ پرندے ہوا میں پرواز کرنے لگتے۔ اس کے علاوہ جب کبھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سامنے کسی مُردہ شخص کو لایا جاتا تو آپ باآواز بلند فرماتے قمہ باذن اللہ اللہ کے حکم سے زندہ ہو جا اور وہ مُردہ شخص دوبارہ زندہ ہو کر سرگرم عمل ہو جاتا۔ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے یہ دونوں معجزات تاریخ عالم میں شہرت عام کا درجہ رکھتے ہیں۔ یہ ایک پیغمبر جلیل کی ذاتی طاقت نہیں تھی کہ وہ مُردہ انسانوں کو زندہ کر دیتے اور مٹی کے بے جان پرندوں کو پھونک مار کر اُڑا دیتے۔ یہ خالق کائنات کی بخشی ہوئی صفت خاص تھی جس کے اثر سے ناممکن العمل باتیں بھی سہل اور ممکن نظر آتی تھیں۔ اب اگر کسی مرد خدا سے یہ کرامت ظاہر ہو جائے تو اسے انبیائے کرام علیہ الصلوٰۃ والسلام کی مخصوص سنّت کہا جائے گا۔ جس ذات بے نیاز نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو معجزات بخشے تھے، اسی بے حساب دینے والے نے حضرت میاں میر کو بھی یہ کرامت عطا کی تھی کہ آپ کی دُعا سے مُردہ فاختہ جی اُٹھی تھی اور اپنے رَب کی پاکی بیان کرنے لگی تھی۔ اس سلسلے میں اکثر حضرات کا یہ کہنا کہ اس قسم کی باتیں ماورائے عقل ہیں، تو انہیں معلوم ہونا چاہیے کہ معجزہ اور کرامت کا مفہوم ہی یہ ہے کہ ان کے بارے میں سوچتے ہوئے انسانی عقل عاجز آ جائے۔ سائنس کی بے شمار موشگافیاں ایسی ہیں جن کے متعلق غور کرتے ہوئے عام انسانی ذہن تھک جاتا ہے اور پھر شدید جھنجھلاہٹ کے عالم میں کہہ دیا جاتا ہے کہ ان چیزوں کا کوئی وجود نہیں۔ سطحی ذہن رکھنے والوں کے انکار سے سائنس کی عظمتوں پر کوئی حرف نہیں آتا۔ اسی طرح معجزات اور کرامات کی حقیقت کو بھی اس وقت تک نہیں سمجھا جا سکتا جب تک اللہ تعالیٰ بطور خاص اپنے بندوں کو ادراک اور مشاہدے کی طاقت نہ بخشے۔ یہاں یہ بات بھی واضح رہے کہ معجزہ اور کرامات سائنس سے بہت آگے کی چیز ہے۔ ٭ ٭ ٭ حاجی محمد بھی حضرت میاں میر کے مریدوں میں شامل تھے۔ انہی کی روایت ہے کہ ایک دن حضرت میاں میر حاضرین مجلس کو یہ واقعہ سنا رہے تھے۔ ایک بار چار آدمی مل کر پہاڑ کا سفر کر رہے تھے۔ اتفاق سے تین دن تک ان لوگوں کو کھانے کے لیے کچھ نہیں ملا۔ پھر چاروں مسافر آپس میں مشورہ کرنے لگے کہ ہمیں حصولِ رزق کے لیے بھرپور کوشش کرنی چاہیے ورنہ بھوک کی شدت ہمیں مار ڈالے گی۔ آخر غور و فکر اور مشورے کے بعد تین مسافر اُٹھ کھڑے ہوئے اور چوتھے مسافر سے کہنے لگے۔ ہم تلاش رزق میں آگے جاتے ہیں۔ تم بھی ہمارے ساتھ چلو۔ چوتھا مسافر اپنی جگہ بیٹھا رہا۔ پھر جب اس کے ساتھیوں نے آگے چلنے کے لیے اصرار کیا تو وہ بولا۔ تم جائو۔ اگر کھانے کے لیے کچھ مل جائے تو میرا حصہ لیتے آنا۔ الغرض تینوں مسافر اپنے ساتھی کو چھوڑ کر آگے بڑھ گئے۔ پھر ان لوگوں نے تھوڑا ہی فاصلہ طے کیا ہوگا کہ راستے میں میوئوں سے لدا ہوا ایک درخت نظر آیا جس کے نیچے میٹھے پانی کی نہر جاری تھی۔ تینوں مسافروں نے بڑی حیرت سے اس میوہ دار درخت کو دیکھا جس کی شاخیں پانی پر جھکی ہوئی تھیں۔ قصہ مختصر کہ ان بھوکے مسافروں نے جی بھر کے میوے کھائے اور نہر کا آب شیریں پیا۔ یہ میوہ دُنیاوی میوئوں کی سی لذت نہیں رکھتا۔ یہ تو بہشت کا میوہ معلوم ہوتا ہے۔ شکم سیر ہونے کے بعد تینوں مسافر حیرت و استعجاب کے عالم میں کھڑے رہے۔ پھر ان لوگوں نے اپنے چوتھے ساتھی کے لیے کچھ میوے توڑے اور انہیں ایک کپڑے میں باندھ کر واپس لوٹ آئے۔ اگر تم بھی ہمارے ساتھ چلتے تو بہت لطف آتا۔ تینوں مسافروں نے اپنے چوتھے ساتھی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ ہم نے ایسے لذیذ پھل آج تک نہیں دیکھے۔ یوں لگتا تھا جیسے جنت کے میوے زمین پر اُتر آئے ہوں۔ چوتھا مسافر خاموشی کے ساتھ اپنے ساتھیوں کی گفتگو سنتا رہا اور اس نے چہرے سے کسی قسم کا تاثر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ کیا تمہیں ہماری باتیں سن کر حیرت نہیں ہوئی تینوں مسافروں نے بیک زبان اپنے ساتھی سے کہا۔ اس میں حیرت کی کیا بات ہے چوتھے مسافر نے اپنے ساتھیوں کے سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔ قدرت جس طرح چاہتی ہے اپنے بندوں کو نعمتوں اور راحتوں سے سرفراز کرتی ہے۔ تینوں مسافروں نے اپنے چوتھے ساتھی کی باتوں کی گہرائی پر غور نہیں کیا اور ازراہِ احسان کپڑے میں بندھے ہوئے میوے اس کے سامنے رکھتے ہوئے کہنے لگے۔ لو تم بھی انہیں چکھ لو۔ تم نے اپنی پوری زندگی میں ایسے لذیذ میوے نہیں کھائے ہوں گے۔ چوتھے مسافر نے بڑی بے نیازی کے ساتھ ان میوئوں کی طرف دیکھا اور اپنے ساتھیوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اللہ نے تمہاری بھوک مٹا دی، بس یہی کافی ہے۔ اور تم جو تین دن سے بھوکے ہو تینوں مسافروں نے حیرت زدہ لہجے میں کہا۔ تم لوگ میری بھوک کی کیوں فکر کرتے ہو چوتھے مسافر نے بے نیازانہ کہا۔ تم لوگ ان میوئوں کو بچا کر رکھ لو۔ پھر کام آئیں گے، مجھے ان کی حاجت نہیں ہے۔ یہ واقعہ سنانے کے بعد حضرت میاں میر خاموش ہوگئے۔ حاضرین مجلس میں سے کسی شخص نے عرض کیا۔ حضرت وہ چوتھا مسافر کون تھا جس نے شدید بھوک کے عالم میں بھی اس بے نیازی کا مظاہرہ کیا حضرت میاں میر نے اپنے مخصوص تبسم کے ساتھ فرمایا۔ بابا وہ چوتھا مسافر کس طرح میوے کھاتا کہ وہ خود ہی درخت تھا، خود ہی میوہ اور خود ہی بہتا ہوا چشمہ۔ حضرت میاں میر کی زبان مبارک سے یہ انکشاف سن کر حاضرین مجلس زدہ رہ گئے۔ اس واقعے کے راوی میاں حاجی محمد کہتے ہیں کہ وہ چوتھے مسافر خود حضرت میاں میر تھے ۔ جہاں میں اہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں اُدھر ڈُوبے اِدھر نکلے، اِدھر ڈُوبے، اُدھر نکلے ٭ ٭ ٭ حضرت میاں میر کے ایک اور خدمت گار میر محمد خوانی فرماتے ہیں کہ حاجی علی ایک نہایت پرہیزگار انسان تھے جنہیں حضرت میاں میر سے بے پناہ عقیدت تھی۔ حاجی علی ہر پانچویں سال لاہور سے اپنے وطن جایا کرتے تھے اور میر محمد خوانی کے والد کے یہاں قیام کرتے تھے۔ ایک دن حاجی علی نے میر محمد خوانی کو یہ واقعہ سناتے ہوئے کہا۔ ایک بار میں اور میرے ساتھی سفر میں تھے۔ ہم لوگ ایران جا رہے تھے۔ پھر جب قافلے والوں کو شدید تھکن محسوس ہوئی تو اصفہان اور نیرو کے درمیان خیمہ زن ہوگئے۔ اس وقت شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ نیلا آسمان صاف نظر آ رہا تھا اور سورج کی تیز کرنیں انسانی جسموں کو جلائے ڈالتی تھیں۔ میں اور میرے چند ساتھی دوپہر کا کھانا پکانے میں مشغول تھے۔ اچانک میری نظر اُٹھی تو مجھے دُور سے ایک بزرگ خیمے کی طرف آتے ہوئے نظر آئے۔ میں اس وقت آٹا گوندھ رہا تھا مگر میری نظریں بزرگ پر جمی ہوئی تھیں۔ پھرجب فاصلہ کم ہوا تو میں نے بڑی حیرت سے دیکھا۔ آنے والے بزرگ حضرت میاں میر تھے۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ پیر و مرشد یہاں کیسے تشریف لے آئے کہاں اصفہان اور کہاں لاہور چند لمحوں کے لیے مجھے خیال گزرا کہ آنے والے بزرگ ظاہری طور پر پیر و مرشد سے مشابہت رکھتے ہوں گے۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت شیخ کچھ اور قریب آ گئے۔ اب آپ کے خد و خال واضح ہو چکے تھے۔ میں نے انہیں پہچان لیا۔ وہ حضرت میاں میر ہی تھے اور مجھے اپنے قریب آنے کا اشارہ کر رہے تھے۔ میں اسی حالت میں سارے کام چھوڑ کر اُٹھا اور حضرت شیخ کے قریب پہنچ کر دست بوسی کی سعادت سے سرفراز ہوا۔ حضرت میاں میر نے اپنے اسی اندازِ کریمانہ کا مظاہرہ کرتے ہوئے گلے لگا لیا۔ پھر میں نے دست بستہ عرض کیا۔ سیّدی آپ یہاں کیسے تشریف لائے حضرت میاں میر نے کچھ دیر تامل کیا اور پھر مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ حاجی علی تم بہت بری جگہ خیمہ زن ہوئے ہو۔ پھر غلام کے لیے کیا حکم ہے میں نے دست بستہ عرض کیا۔ یہ اہل قافلہ کے لیے وادیٔ ہلاکت ہے۔ حضرت میاں میر نے فرمایا۔ ابھی کچھ دیر میں یہاں ایک خوفناک طوفان آنے والا ہے۔ جلدی کرو اپنا مال و اسباب اور خیمہ و قنات اُٹھا کر کسی اُونچی جگہ لے جائو اور اس کی اطلاع قافلے کے دُوسرے لوگوں کو بھی کر دو۔ میں چاہتا تھا کہ پیر و مرشد سے اس سرزمین پر تشریف لانے کا سبب پوچھوں کہ اچانک مجھے اپنے ساتھی کی تیز آواز سنائی دی۔ میں اس طرف متوجہ ہوگیا اور پھر جب پلٹ کر دیکھا تو حضرت میاں میر وہاں موجود نہیں تھے۔ مجھے دُکھ بھی ہوا اور حیرت بھی۔ دُکھ اس لیے کہ حضرت شیخ کی محبت اور گفتگو سے محروم ہوگیا اور حیرت اس لیے کہ جب میں لاہور سے چلا تھا تو پیر و مرشد اپنے حجرئہ مبارک میں موجود تھے۔ پھر آپ اتنے دُور دراز علاقے میں کسی سواری کے بغیر کس طرح تشریف لائے میں کچھ دیر تک ان ہی خیالات میں اُلجھا رہا۔ پھر یکایک مجھے پیر و مرشد کے ارشاداتِ گرامی یاد آئے اور میں نے جلدی جلدی اپنا مال و اسباب اُٹھا کر بلندی پر پہنچانا شروع کر دیا۔ میری یہ سرگرمی دیکھ کر میرے دُوسرے ساتھی حیرت کا اظہار کرنے لگے۔ تم بھی اپنے خیمے اُکھاڑ لو اور بلندی پر منتقل ہو جائو۔ میں نے نام لئے بغیر پیر و مرشد کی ہدایت اہلِ قافلہ کے گوش گزار کر دی۔ ہم دریا کے قریب انتہائی نشیبی علاقے میں خیمہ زَن ہیں۔ ابھی کچھ دیر بعد یہاں ایک خوفناک طوفان آنے والا ہے۔ اگر بروقت ہم نے کوئی مناسب انتظام نہیں کیا تو ہلاکت و بربادی کے عمل کو کوئی نہیں روک سکے گا۔ یہ تم کہہ رہے ہو، پیر روشن ضمیر اہلِ قافلہ نے میرے ساتھ تمسخر شروع کر دیا۔ اس موسم میں طوفان کہاں سے آئے گا ایک ساتھی نے نیلے آسمان کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ سورج کس قدر آب و تاب کے ساتھ چمک رہا ہے۔ ہوا ساکت ہے، فلک کی وسعتوں میں بادل کا ہلکا سا ٹکڑا بھی موجود نہیں، اور تم کسی طوفان کی آمد کی پیش گوئی کر رہے ہو میں نے ان لوگوں کی استہزائیہ گفتگو سنی اور انتہائی دردمندانہ لہجے میں کہا۔ میں خود تو پیر روشن ضمیر نہیں ہوں مگر جس بزرگ نے مجھ سے یہ بات کہی ہے، وہ ہندوستان کا بہت بڑا روشن ضمیر ہے۔ میں نے اہل قافلہ کو بہت سمجھایا مگر اکثر لوگوں نے میری بات نہیں مانی۔ کچھ ہم سفروں نے عذر پیش کرتے ہوئے کہا۔ ہم اس طویل اور دُشوارگزار سفر میں تھک کر چور ہو چکے ہیں۔ اتنی شدید گرمی میں پہاڑ پر چڑھنا ہمارے بس کی بات نہیں۔ الغرض چند لوگوں نے میری بات مان لی اور اپنا سامان اُٹھا کر بلندی پر لے گئے۔ باقی افراد طوفان بلاخیز سے بے خبر اپنے اپنے خیموں میں آرام سے لیٹے رہے اور میں نیلے آسمان کی طرف دیکھتا رہا جو سورج کی تمازت سے جل رہا تھا۔ ابھی کچھ دیر ہی گزری تھی کہ یکایک ایک سیاہ بادل اُٹھا اور پورے آسمان پر چھا گیا۔ اہلِ قافلہ جو شدید گرمی سے بے حال تھے، قدرت کا یہ پُرلطف منظر دیکھنے کے لیے اپنے اپنے خیموں سے باہر نکل آئے۔ پھر اچانک تیز ہوائیں چلنے لگیں۔ مسافروں کی خوشی میں مزید اضافہ ہوگیا مگر میں دل ہی دل میں اپنے اللہ کی پناہ مانگ رہا تھا۔ میرے ساتھی بھی پریشان تھے اور انہیں میری پیش گوئی پوری ہوتی نظر آ رہی تھی۔ پھر ایسا ہی ہوا۔ آناً فاناً بارش اور ہوا کا خوفناک طوفان آگیا۔ پھر دیکھتے ہی دیکھتے دریا بھی اُبل پڑا۔ ہر طرف گہرا اندھیرا چھایا ہوا تھا۔ مسافروں نے محفوظ پناہ گاہوں کی طرف بھاگنے کی کوشش کی مگر نشیبی علاقے میں ایسی کوئی پناہ گاہ نہیں تھی جہاں انسانی جسم آفاتِ ارضی و سماوی سے محفوظ رہ سکیں۔ مسافروں کے خیمے اُڑ چکے تھے اور ان کا مال و اسباب دریا برد ہو چکا تھا۔ پھر دریا کے کنارے بھی ٹوٹ گئے۔ پھر خوں آشام سیلاب نے ان تمام مسافروں کو نگل لیا جو نشیبی علاقوں میں خیمہ زن تھے۔ جن ساتھیوں نے میری بات مان لی تھی، وہ بار بار اللہ کا شکر ادا کر رہے تھے اور میری روحانی عظمت کا اعتراف کرتے ہوئے کہہ رہے تھے۔ شیخ اگر آپ بروقت ہمیں خبردار نہ کرتے تو اس وقت ہم بھی لقمۂ اجل بن چکے ہوتے۔ میں نے ساتھیوں کی بات کی تردید کرتے ہوئے کہا۔ میں کوئی شیخ نہیں بلکہ ایک عام گناہ گار انسان ہوں۔ یہ تو میرے مرشد کا فیض روحانی ہے جس نے مجھے طوفان آنے سے پہلے تنبیہ کی۔ میرے ساتھی حضرت شیخ کے بارے میں پوچھنے لگے تو میں نے اُنہیں بتایا کہ وہ اس وقت لاہور میں قیام فرما ہیں۔ مسافروں کو میری بات کا یقین نہیں آیا اور سچ تو یہ ہے کہ میں خود بھی تذبذب کا شکار تھا۔ پھر جب میں کئی ماہ بعد لاہور آیا اور میں نے خانقاہ عالیہ کے دُوسرے خدمت گاروں سے پوچھا کہ کیا پیر و مرشد کچھ دن کے لیے اصفہان ایران تشریف لے گئے تھے، تو خدام نے انتہائی حیرت کا اظہار کرتے ہوئے کہا۔ اس دوران میں حضرت شیخ خانقاہ سے باہر تشریف نہیں لے گئے اور تم اصفہان جانے کی بات کر رہے ہو آخر ایک دن میں نے خلوت میں عرض کیا۔ سیّدی میں نے کھلی آنکھوں سے آپ کو اصفہان میں جلوہ افروز دیکھا تھا۔ آخر یہ کیا راز ہے اپنے مرید کی بات سن کر حضرت میاں میر نے نہایت رازدارانہ انداز میں فرمایا۔ حاجی علی تم نے جاگتی آنکھوں سے جو منظر دیکھا، سمجھ لو کہ کچھ نہیں دیکھا۔ یہ راز اپنے سینے میں رکھو اور اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرو کہ اس نے تمہیں بڑی آفت سے بچا لیا۔ ٭ ٭ ٭ اپنے آخری ایّام میں مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر کشمیر میں سکونت پذیر تھا۔ بعض مصاحبوں نے مشہور بزرگ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور حضرت خواجہ محمد باقی کے مرید مرزا حسام الدین کے خلاف بادشاہ کے کان بھرے۔ جہانگیر نے بلاتاخیر حکم جاری کر دیا کہ دونوں بزرگ کشمیر میں حاضر ہو جائیں۔ الغرض حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور مرزا حسام الدین مغل شہنشاہ کی خدمت میں پہنچے۔ مغل شہنشاہ نے انتہائی ناخوشگوار نظروں سے دونوں بزرگوں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ مرزا حسام الدین تمہاری سزا یہ ہے کہ تم اپنے وطن دہلی سے دُور کشمیر میں میری نظروں کے سامنے رہو۔ مغل شہنشاہ کا لہجہ غضب ناک تھا۔ میں تمہاری جلالت علمی کو دیکھتے ہوئے صرف اسی سزا پر اکتفا کرتا ہوں ورنہ حکومت کے خلاف سازش کرنا ایک ناقابل معافی جرم ہے۔ اپنی صفائی پیش کرتے ہوئے مرزا حسام الدین نے فرمایا۔ شہنشاہ میں اس تہمت سے بری الذمہ ہوں جو میرے دُشمنوں نے مجھ پر لگائی ہے۔ اسی طرح حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے بھی اپنی صفائی پیش کی مگر مغل شہنشاہ نے دونوں بزرگوں میں سے کسی کا عذر قبول نہیں کیا اور نہایت درشت لہجے میں حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا۔ اور تمہاری سزا یہ ہے کہ تم اور تمہارا بیٹا شیخ نورالحق کابل چلے جائو اور میری نظروں سے دُور ہو جائو۔ حکم شاہی سن کر حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی بہت آزردہ ہوئے مگر اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ آپ ہندوستان چھوڑ کر کابل چلے جائیں۔ پھر جب حضرت شیخ کابل جانے کے لیے لاہور پہنچے تو انہیں اچانک خیال آیا کہ یہاں حضرت میاں میر قیام فرما ہیں۔ اس خیال سے حضرت عبدالحق محدث دہلوی کو ایک اطمینان سا حاصل ہوا اور پھر آپ حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ اپنے دور کے عظیم محدث کو دیکھ کر حضرت میاں میر بہت خوش ہوئے اور آپ نے نہایت والہانہ انداز میں حضرت شیخ عبدالحق کا استقبال کیا۔ پہلے رسم خانقاہ کے مطابق حضرت میاں میر نے مہمان کی تواضع کی۔ پھر حضرت عبدالحق محدث دہلوی کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ شیخ کیا بات ہے آپ چہرے سے بہت پریشان نظر آ رہے ہیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی چند لمحوں تک خاموش رہے۔ پھر افسردہ لہجے میں کہنے لگے۔ حضرت کیا عرض کروں عتاب شاہی کے زیر اثر ہوں۔ حکم ہوا ہے کہ میں اور میرا بیٹا نورالحق اسی وقت ہندوستان چھوڑ کر کابل چلے جائیں۔ حضرت میاں میر نے حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی کی گفتگو سن کر کچھ دیر کے لیے سکوت اختیار کیا۔ پھر مسکراتے ہوئے فرمایا۔ شیخ اِن شا اللہ آپ بھی دہلی میں رہیں گے اور آپ کا فرزند بھی۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اس راز سے باخبر تھے کہ مغل شہنشاہ جہانگیر، حضرت میاں میر کا بہت احترام کرتا ہے، اس لیے حضرت شیخ نے یہی سمجھا کہ حضرت میاں میر جہانگیر سے ان کی سفارش کریں گے۔ تو پھر حضرت اس کام میں ذرا جلدی کیجئے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے کہا۔ کس کام میں عجلت کروں حضرت میاں میر نے حضرت عبدالحق محدث دہلوی کی طرف دیکھتے ہوئے فرمایا۔ یہی کہ آپ سفارش میں جلدی کیجئے تا کہ میں اور میرا بیٹا سفر کی صعوبتوں سے بچ جائیں۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے کہا۔ میں بادشاہ سے تمہاری سفارش کیوں کروں حضرت میاں میر نے پُرجلال لہجے میں فرمایا۔ مجھے جس سے کہنا ہے، اسی سے کہوں گا۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے حضرت میاں میر کا ارشادِ گرامی سنا مگر ان کے چہرے سے بے اطمینانی کا اظہار ہو رہا تھا۔ حضرت میاں میر نے حضرت محدث دہلوی کی اس کیفیت کو محسوس کر لیا اور پھر ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے فرمایا۔ شیخ آپ مطمئن رہیں۔ میں آپ کا اور آپ کے بیٹے کا ذمہ لیتا ہوں۔ آپ اور آپ کا فرزند، بادشاہ کو دیکھے بغیر، اِن شا اللہ دہلی ہی میں رہیں گے۔ حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی حضرت میاں میر لاہوری کا رنگ جلال دیکھ کر مطمئن ہوگئے۔ پھر حاضرین مجلس نے دیکھا کہ جب حضرت شیخ واپس جا رہے تھے تو ان کے چہرے پر خوشی کا گہرا رنگ نمایاں تھا۔ ابھی حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور ان کے فرزند نورالحق لاہور ہی میں مقیم تھے کہ چوتھے دن ہندوستان کی ایک ایک گلی شور ماتم سے گونج اُٹھی۔ مغل شہنشاہ نورالدین جہانگیر شدید عالم بے بسی میں دُنیا سے رُخصت ہو گیا اور حضرت شیخ عبدالحق اپنے بیٹے کے ساتھ دہلی روانہ ہوگئے۔ ٭ ٭ ٭ ایک بار شہر لاہور میں طاعون کی سخت وبا پھیلی۔ جب اس بیماری میں گھر کے گھر ویران ہوگئے تو لاہور کے ایک اور بزرگ شیخ پیر نبی ، حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کرنے لگے۔ شیخ آئیں، ہم دونوں مل کر اس وبا کو دفع کرنے کے لیے کوشش کریں۔ شیخ پیر نبی کی بات سن کرحضرت میاں میر نے فرمایا۔ شیخ جب لوگوں کی قضا آجاتی ہے تو پھر کوئی دُعا کارگر ثابت نہیں ہوتی۔ شیخ پیر نبی نے حضرت میاں میر کی بات پر توجہ نہیں دی اور اکیلے ہی دفع بلا کے لیے ریاضت میں مشغول ہوگئے۔ ابھی شیخ پیر نبی کو وظیفہ پڑھتے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ان پر بے ہوشی طاری ہوگئی۔ روایت ہے کہ شیخ پیر نبی تین دن اور تین رات تک بے ہوش رہے جس کے سبب ان کی تمام نمازیں قضا ہوگئیں۔ پھر جب چوتھے روز شیخ پیر نبی کو ہوش آیا تو دوبارہ حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ شیخ پیر نبی کے چہرے پر ندامت و شرمساری کے آثار نظر آ رہے تھے۔ شیخ میری ساری کوششیں رائیگاں گئیں اور فرض نمازوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا۔ پیر نبی کے لہجے میں انتہائی شکستگی کا اظہار ہورہا تھا۔ پیر نبی کا احوال سن کر حضرت میاں میر نے فرمایا۔ شیخ تم نے دلیری تو بہت کی مگر اس سے خلق خدا کو کوئی فائدہ نہیں پہنچا۔ حضرت میاں میر کی ذات گرامی سے بے شمار کرامات ظاہر ہوئیں مگر آپ اظہارِ کرامت کو پسند نہیں فرماتے تھے۔ آپ کا قول مبارک ہے کہ جہاں تک ہو سکے اللہ کی بخشی ہوئی اس نعمت کو پوشیدہ رکھا جائے۔ مغل شہزادہ دارا شکوہ اپنی مشہور تصنیف سکینۃ الاولیا میں لکھتا ہے کہ حضرت میاں میر کا چہرئہ مبارک دیکھ کر آنکھوں میں نور آ جاتا تھا۔ آپ کا رنگ گندمی تھا جس میں بہت زیادہ ملاحت موجود تھی۔ حضرت میاں میر کی پیشانی بلند تھی جس سے کرامت و سعادت کے آثار نمایاں تھے۔ آپ کی ریش مبارک شرع کے مطابق مٹھی بھر تھی جو آخری عمر میں سفید ہو گئی تھی۔ حضرت میاں میر کا قد درمیانہ تھا اور آپ کثرت ریاضت کے سبب بہت کمزور ہوگئے تھے۔ جب حضرت شیخ سو سال کے قریب ہوئے تو پیروں کے درد اور ضعیفی کے سبب بیٹھ کر نماز ادا کیا کرتے تھے۔ آخری دنوں میں حضرت میاں میر کی بینائی اتنی کمزور ہوگئی تھی کہ آپ کوئی کتاب یا خط نہیں پڑھ سکتے تھے مگر پھر بھی دل کی آنکھیں روشن تھیں۔ ایک دن شہزادہ دارا شکوہ کے اُستاد حضرت اخوند میرک ، حضرت میاں میر کی زیارت کرنے کے لیے خدمت عالیہ میں حاضر ہوئے۔ رُخصت ہوتے وقت شہزادہ داراشکوہ نے اپنے اُستاد کو رقعہ دیا کہ اسے حضرت شیخ کی خدمت میں پیش کر دیا جائے۔ حضرت اخوند صاحب فرماتے ہیں کہ جب میں حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے مجھے اپنے نزدیک بٹھایا اور بڑی شفقت سے پیش آئے۔ شہزادہ داراشکوہ کا دیا ہوا خط میری دستار میں موجود تھا مگر میرے ذہن سے اُتر گیا تھا۔ حضرت شیخ گفتگو کے دوران معرفت کے اسرار و رموز کھولتے رہے۔ اچانک مجھے خیال آیا کہ میں نے آج تک حضرت شیخ کی کوئی کرامت نہیں دیکھی، ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ حضرت میاں میر نے دست مبارک بڑھا کر میری دستار سے شہزادہ داراشکوہ کا رُقعہ نکال لیا اور اوّل سے آخر تک لفظ بہ لفظ میرے سامنے پڑھ کر سنا دیا۔ جب آپ پورا خط پڑھ چکے تو مجھے مخاطب کرتے ہوئے فرمایا۔ اس کام سے فقیر کا مطلب اظہارِ کرامت نہیں تھا۔ کرامت کا اظہار تو اس گروہ کے لیے نہایت آسان کام ہے۔ حضرت میاں میر کا لباس فقیروں اور درویشوں کی طرح نہیں تھا۔ آپ خرقہ اور مرقع نہیں پہنتے تھے بلکہ بہت کم قیمت کپڑے کی ایک پگڑی سر پر اور موٹے کپڑے کا کرتا زیب تن فرمایا کرتے تھے۔ جب کبھی آپ کا لباس میلا یا ناپاک ہو جاتا تو عام طورپر دریا کے کنارے جا کر اپنے ہاتھ سے صاف کرتے۔ حضرت میاں میر کے مریدوں اور خدمت گاروں کا لباس بھی آپ ہی جیسا تھا، یعنی جامہ اور دستار۔ حضرت شیخ کے کسی مرید نے خرقہ نہیں پہنا۔ آپ کے مسلک میں گدڑی پہننے کا رواج نہیں۔ حضرت میاں میر فرمایا کرتے تھے۔ لباس اس قسم کا ہونا چاہیے کہ کوئی شخص فقیر اور عام انسان میں تمیز نہ کرسکے۔ حضرت میاں میر کے مرید خاص میاں حاجی محمد بڑا بے تکلف لباس پہنا کرتے تھے۔ جب آپ سے پوچھا گیا تو فرمایا کہ میرا لباس حضرت شیخ کے فرمان کے مطابق ہے۔ یہی میاں حاجی محمد کہتے ہیں کہ جب پیر و مرشد نے میرے حال پر توجہ فرمائی تو میں نے گدڑی پہن لی۔ پھر ایک مدت کے بعد وہ گدڑی پارہ پارہ ہوگئی۔ ایک دن میں بازار سے گزر رہا تھا کہ لوگ میرے گرد جمع ہوگئے۔ اتفاق سے حضرت میاں میر اس طرف تشریف لے آئے اور مجھے دیکھتے ہی فرمانے لگے۔ حاجی محمد یہ کیا حالت بنا رکھی ہے میں نے پیر و مرشد کی بات سن کر دست بستہ عرض کیا۔ سیّدی میں نے جان بوجھ کر یہ حالت نہیں بنائی ہے۔ میں اس سلسلے میں بے اختیار ہوں۔ حضرت میاں میر نے فرمایا۔ جب تجھے اپنے آپ پر اختیار نہیں ہے تو پھر اس لباس کو اُتار دے اور کوئی ایسا لباس پہن جس سے تیری پہچان ظاہر نہ ہو۔ حضرت میاں میر کے گھر کا فرش پرانے بوریا کا تھا۔آپ کو دُنیاوی ساز و سامان سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ حضرت میاں میر فقیروں کو دولت مندوں سے افضل جانتے تھے اور اگر کوئی درویش مالی آسودگی حاصل کرلیتا تو اس پر سخت اعتراض کرتے۔ حضرت میاں میر برملا فرماتے تھے کہ زیادہ روزے رکھنے اور نمازیں ادا کرنے کا نام درویشی نہیں۔ نماز، روزہ اور شب بیداری، یہ سب بندگی کے اسباب ہیں۔ درویشی تو لوگوں کو خوش کرنے کا نام ہے، اگر تو دولت حاصل کرے گا تو واصل جہنم ہو جائے گا۔ حضرت میاں میر سماع سُنا کرتے تھے اور تمام راگوں میں ہندی راگ کو بہت زیادہ پسند فرماتے تھے۔ اگر کوئی قوّال آ جاتا تو سماع سنتے ورنہ یہ ضروری نہ تھا کہ قوّال ہر وقت آپ کی خانقاہ میں موجود رہیں۔ حضرت میاں میر پر جب سماع کے دوران وجد کی کیفیت طاری ہوتی تو آپ کا چہرئہ مبارک چمکنے لگتا لیکن بلند حوصلگی اور وقار و تمکنت کے سبب آپ رقص کی حالت سے دُور رہتے۔ یہاں تک کہ کسی شخص نے آپ کو ہاتھ اُٹھاتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ حضرت میاں میر کا خلق اس درجے کا تھا کہ اگر کوئی شخص گھڑی بھر بھی آپ کی خدمت میں حاضر رہتا تو اس پر اس قدر عنایت و شفقت فرماتے کہ جیسے اس سے زیادہ آپ کو کوئی دُوسرا عزیز نہیں۔ ابوجعفر حداد فرماتے ہیں کہ اگر عقل مرد کی شکل میں نظر آتی تو حضرت شیخ جنید بغدادی کی صورت میں ہوتی۔ حضرت میاں میر کے خلق کے بارے میں داراشکوہ لکھتا ہے کہ اگر خلق کسی مرد کی شکل میں ہوتا تو حضرت میاں میر کی صورت میں نظر آتا۔ حضرت میاں میر جس شخص پر عنایت فرماتے اسے یار اور عزیز کے لفظ سے مخاطب کرتے۔ اپنے کسی مرید کو کبھی مرید نہ کہتے بلکہ یوں فرماتے۔ یہ سب میرے یار ہیں۔ جب شہر لاہور میں حضرت میاں میر کے قیام کو ساٹھ سال سے زیادہ کا عرصہ گزر گیا تو آپ کو اسہال کا عارضہ لاحق ہوا اور پانچ روز تک جاری رہا۔ جب آپ کی بیماری کا علم حاکم شہر وزیر خاں کو ہوا تو وہ خدمت عالیہ میں حاضر ہوا مگر آپ نے اس سے ملنے سے انکار کر دیا۔ پھر جب مریدوں نے عرض کیا کہ وزیر خاں عیادت کے لیے حاضر ہوا ہے تو آپ نے فرمایا کہ وہ اندر آجائے مگر زیادہ دیر نہ ٹھہرے۔ وزیر خاں نے حجرئہ مبارک میں حاضر ہو کر عرض کیا کہ وہ ایک طبیب حاذق کو اپنے ساتھ لے کر آیا ہے۔ اگر حضرت شیخ اجازت دیں تو حکیم علاج شروع کرے۔ حضرت میاں میر نے وزیر خاں کی درخواست سن کر فرمایا۔ بس اب تم جائو مجھے حکیم مطلق ہی کافی ہے۔ آخری وقت میں میاں شیخ لاہوری حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر تھے۔ ان کا بیان ہے کہ میں نے حضرت شیخ کو نزع کی حالت میں دیکھا۔ آپ کا دہن مبارک آہستہ آہستہ جنبش کر رہا تھا۔ پھر جب میں قریب پہنچا تو حضرت میاں میر کے چہرئہ مبارک پر ہلکا سا اضطراب نظر آیا۔ پھر ہونٹوں کو جنبش ہوئی، میں نے دو بار اللہ کا لفظ سنا اور پھر معرفت کا یہ سورج غروب ہوگیا۔ یہ ربیع الاوّل ھ کا دن تھا جب ایک صدی تک بادشاہانِ وقت کی نفی کرنے والا، شہنشاہِ حقیقی میں حاضر ہوا۔ وصال سے پہلے اپنے بعض مریدوں کو مخاطب کر کے فرمایا کرتے تھے۔ دیکھو میری موت کے بعد میری ہڈیوں کو فروخت نہ کرنا اور دُوسرے لوگوں کی طرح دُکان نہ سجا لینا۔ حضرت میاں میر کی وفات کے بعد داراشکوہ نے روضۂ مبارک کی تعمیر کے لیے مسالا وغیرہ جمع کیا مگر وقت نے اسے تعمیر کا موقع نہ دیا اور وہ اپنے چھوٹے بھائی اورنگزیب عالمگیر کے ہاتھوں مارا گیا۔ اس کے بعد عالمگیر خود قبر مبارک پر حاضر ہوا اور اسی نے حضرت میاں میر کا مزار تعمیر کرایا۔ روضۂ مبارک کی چار دیواری میں اتنی زیادہ قبریں ہیں کہ وہ اچھا خاصا قبرستان بن گیا۔ یہ قبریں زیادہ تر حضرت میاں میر کے عزیزوں، خادموں اور سجادہ نشینوں کی ہیں۔ ان ہی قبروں میں حضرت شیخ کی دو بہنوں کی قبریں بھی ہیں۔ ایک قبر شاہجہاں کی بیٹی اور داراشکوہ کی بہن نادرہ بیگم کی ہے۔ یہ قبر بارہ دری کے نام سے مشہور ہے اور حضرت میاں میر کی زندگی میں تعمیر ہوئی تھی۔ نادرہ بیگم نو سال کی تھی، جب وہ حضرت میاں میر کی خدمت میں حاضر ہوئی۔ مغل شہزادی دو سال تک ایک مرد درویش کی خدمت انجام دیتی رہی۔ پھر ایک دن حضرت میاں میر نے نادرہ بیگم کو اپنی خدمت گزاری سے روک دیا اور فرمایا۔ شہزادی اب تم جوان ہوگئی ہو۔ اس لئے اپنے گھر چلی جائو۔ نادرہ بیگم قصرِ شاہی واپس چلی گئی مگر بارہویں سال میں قدم رکھنے سے پہلے ہجری میں اس کا انتقال ہوگیا۔ اہلِ نظر کہتے ہیں کہ اپنے گھر جانے سے حضرت میاں میر کی مراد سفرِ آخرت تھا۔ شہزادی نادرہ بیگم کی دو سالہ خدمت کا صلہ یہ ہے کہ وہ شہنشاہِ معرفت کے دربار کے ایک گوشے میں محوِ خواب ہے، جہاں ہر وقت اللہ کی رحمتوں کا نزول رہتا ہے۔ ختم شد
null
null
null
null
473
https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-28/
میں عجیب سی نظروں سے کاشی رام جی کو دیکھتا رہا، انہوں نے اپنی بیوی کے خوف سے میرا نام پربھو رکھ لیا تھا اور اب مجھے اسی نام سے پکار رہے تھے، ویسے سیدھا سچا آدمی معلوم ہوتا تھا، کام بھی میرے سپرد کر دیا تھا، اس کے نتیجے میں اگر روٹیاں مل جائیں تو کوئی ہرج تو نہیں ہے ویسے بھی اب کون سا میرا سلیکشن رہ گیا تھا کہ یہ کام کروں اور وہ کام نہ کروں۔ زندگی اگر تھوڑی سی سکون سے گزر جائے تو کیا ہرج ہے اب تو کوئی بات بھی اپنے بارے میں سوچنا مضحکہ خیز لگتا تھا۔ یہ کروں، وہ کروں، سب بے کار ہے بس زندگی کی سانسیں پوری ہو جائیں، موت اپنی مرضی سے مجھ تک پہنچ جائے بس یہی میری زندگی کا مصرف رہ گیا ہے۔ اب اس میں کوئی تبدیلی بے کار ہے، کوئی مجھے پربھو کے نام سے پکارے یا مسعود کے نام سے، جب زندگی کا کوئی مقصد ہی نہیںرہ گیا تو ان ناموں میں بھی کیا رکھا ہے، ٹھیک ہے مسعود احمد ٹھیک ہے، اب وقت جو کچھ کہہ رہا ہے وہی مناسب ہے۔ میں نے کاشی رام سے کہا آپ کی دیا ہے مہاراج۔ دیا ہے آپ کی۔ میں تیار ہوں ارے تو پھر بات ہی کیا رہ گئی مگر ذرا ناشتہ کر لینا اس کے بعد بتائیں گے یہ بات اسے، پہلے سے پتا چل گئی تو سوچے گی کہ گھر کے نوکر کی، خاطر مدارت ہو رہی ہے اور ناشتہ اُٹھا کر لے جائے گی کھا پی لینا، بعد میں بتائیں گے اسے کہ تم کون ہو اور ہم کون ہیں میں نے گہری سانس لے کر گردن ہلا دی تھی۔ دونوں کردار دلچسپ تھے، دونوں خاصے پرلطف میاں بیوی معلوم ہوتے تھے۔ چلو اچھا ہے ذہن بٹانے میں آسانی ہو گی اب دل پر لدے ہوئے اس بوجھ کو کہاں تک اپنے آپ پر لادے رکھوں، ٹھیک ہے، ٹھیک ہے جیسے بھی گزرے وقت کی آواز ہے، وقت جو کچھ کہے گا وہی سب سے مناسب ہوگا، کچھ دیر کے بعد کاشی رام کی دھرم پتنی نے ناشتہ لا کر رکھ دیا، گرم پوریاں اور آلو کی بھاجی۔ بہت بھوکا تھا پل پڑا کاشی رام جی کوئی بھجن گنگنانے لگے تھے۔ آپ ناشتہ نہیں کریں گے پنڈت جی میں نے پوچھا۔ ڈٹے رہو ڈٹے رہو پربھو مہاراج بھگوان نے اپنے بھاگ میں بس بھینس لکھ دی ہے اسی پر گزارا کر رہے ہیں۔ پنڈت جی نے کہا پنڈتائن مزید گرم پوریاں لے کر اندر داخل ہوئی تھیں، پنڈت جی کی پشت ان کی جانب تھی اور وہ اس وقت یہی الفاظ ادا کر رہے تھے، پنڈتائن کچھ اور سمجھیں، پوریاں بڑی زور سے سامنے رکھی ہوئی تھالی میں پٹخیں اور غرائے ہوئے لہجے میں بولی۔ آج فیصلہ ہو ہی جائے پنڈت جی، اب دُوسروں کے سامنے بھی تمہاری زبان کھلنے لگی ہے، میں بھینس ہوں، بھینس پر گزارہ کر رہے ہو تم ہرے رام، ہرے رام، ارے کیا بک رہی ہے، کون بھینس کیسی بھینس، ارے پربھو بھیّا گڑ بڑ ہوگئی۔ ذرا سمجھائو ان دیوی جی کو ہم کیا کہہ رہے تھے، ارے دیورانی، ہم تو یہ کہہ رہے تھے کہ ہم ناشتہ واشتہ نہیں کرتے بلکہ ویدی جی نے پیٹ کی بیماری ٹھیک کرنے کے لیے ان بند کر دیا ہے اور بھینس کے دُودھ پر گزارہ ہے۔ پنڈت جی کسی اور کو چترائو، تمہارے منہ سے کئی بار یہ بات سن چکی ہوں۔ پنڈتائن نے غرّا کر کہا۔ ارے پربھو جی اب پوریاں منہ میں ٹھونسے جا رہے ہو یا کچھ بولو گے بھی، ذرا بتائو تم ان پنڈتائن کو کہ بات کس کی ہو رہی تھی ان کی یا بھینس کی جج جی ہاں، جی ہاں جی ہاں، جی ہاں جی ہاں جی ہاں ارے بھائی میں ان پوریوں میں سے ایک بھی پوری نہیں چھوئوں گا، میری جان تو چھڑا دے تو، پنڈتائن بھگوان کی سوگند، میں تمہیں بھینس نہیں کہہ رہا تھا بلکہ بلکہ، ذکر ہو رہا تھا ناشتے کا، میں نے کہا بھائی اپنے بھاگ میں بس بھینس کا دُودھ لکھا ہے اس پر گزارہ کر رہے ہیں۔ ہرے رام تو تو ہوائوں سے لڑتی ہے۔ پنڈت جی زبان سنبھال کر بات کیا کرو اپنی، میں بھی کسی ایسے ویسے گھر کی نہیں ہوں۔ تم سے کھرے تھے میرے پتا، کیا سمجھتے ہو تم مجھے کھرے پنڈت کی بیٹی اور کیا کاشی رام نے جلدی سے کہا اور مجھے ہنسی آنے لگی۔ پنڈتائن بکتی جھکتی اندر چلی گئی تھیں اور پنڈت جی سینے پر پھونکیں مار رہے تھے پھر انہوں نے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔ پربھو جی تم بھی بس اپنے گن کے پکے ہو، ناشتہ کئے جا رہے ہو، میری کوئی مدد نہیں کی تم نے، اب تین دن تک اس کا منہ پھولا رہے گا، ویسے چلو اچھا ہے تم سے ذرا اطمینان سے باتیں ہو جائیں گی پنڈت جی کافی دلچسپ آدمی تھے، میرا بھی جی لگنے لگا پنڈتائن نے بس آ کر برتن اُٹھائے تھے اور پنڈت جی ان کا چہرہ دیکھتے رہے تھے، دیر کے بعد پنڈت جی نے کہا۔ تو پھر پربھو بھیّا آئو ہمارے ساتھ، گھر کے پچھواڑے ہم نے اپنی دُکان کھولی ہوئی ہے، آ جائو آ جائو، وہیں بیٹھ کر تمہارے ساتھ ساری باتیں کریں گے۔ گھرکا یہ پچھواڑا ایک چوڑی گلی تھا اور یہاں پنڈت جی نے واقعی اپنے بیٹھنے کے لیے ایک بڑے سے کمرے جیسی جگہ بنا رکھی تھی، ایک چھوٹا سا ڈیسک رکھا ہوا تھا وہاں پر چادر بچھی ہوئی تھی، دری چاندنی تھی، پنڈت جی ڈیسک کے پیچھے بیٹھ گئے اور میں ان سے تھوڑے فاصلے پر پھر میں نے ان سے پوچھا آپ کیا کرتے ہیں پنڈت جی بڑے مہان ہیں ہم بس بھگوان جس کام سے دو روٹی دے دیتا ہے وہی کر لیتے ہیں، جیوتش ودیا بھی جانتے ہیں حالانکہ ستاروں سے ہماری کبھی نہیں بنی، ہمیں دیکھ کر ہمیشہ اُلٹے سیدھے ہو جاتے ہیں اور مجال ہے جو کبھی صحیح بات بتا دیں، مگر ایک بات ہے ان کا اُلٹا سیدھا پن بھی اپنے کام آ جاتا ہے ہم بھی لوگوں کو ان کے ہاتھوں کی ریکھائیں دیکھ کر اُلٹی سیدھی باتیں ہی بتا دیتے ہیں۔ بس جیسے ستارے ویسی بات، کام چل جاتا ہے اس کے علاوہ کبھی کسی کے گھر میں بھجن کیرتن ہوں تو بھلا پنڈت کاشی رام کے بغیر کیسے ہو سکتے ہیں، دچھنا بھی ٹھیک ٹھاک ہی مل جاتی ہے، کتھا کہہ دی، کام چل گیا، شادی بیاہ کی مہورتیں نکال دیں جس کا جو کام ہوا کر ڈالا، ویسے اپنا صحیح دھندہ جیوتش ہی ہے اور پھر پربھو جی نمک کھا چکے ہو اپنا اس لیے وشواش ہے کہ نمک حرامی نہیں کرو گے۔ بتا چکے ہیں ہم تمہیں کہ ہمیں جیوتش ویوتش نہیں آتی، کہو کیسی رہی پنڈت جی ہنسنے لگے، پھر بولے اب تین دن تک تو تم عیش کی اُڑائو، مہمان کہہ ہی دیا ہے ہم نے تمہیں، اس میں ساری برائیاں ہیں مگر سب سے بڑی اچھائی یہ ہے کہ جو بات ایک بار کہہ دی جائے، اس میں منہ پھلا لے سو پھلا لے، کوتاہی نہیں کرتی، تین دن تک تو مزے سے ہمارے مہمان رہو اور چوتھے دن جب اس کا منہ بگڑے تو کام دھندہ شروع کر دینا۔ میں پنڈت جی کی باتوں پر ہنستا ہی رہا تھا۔ پھر میں نے ان کے پاس بیٹھ کر یہ بھی دیکھا کہ ان کا کاروبار ٹھیک ٹھاک چل رہا ہے اِکّا دُکّا لوگ ہاتھ دکھانے بھی آ جاتے ہیں اور پنڈت جی پوری کہکشاں زمین پر اُتار کر اس کا جائزہ لے کر اس شخص کے ستارے نکالتے ہیں اور پھر ان ستاروں کے بارے میں ایسی باتیں بتاتے ہیں اپنے گاہکوں کو کہ نہ خود پنڈت جی کی سمجھ میں آئیں نہ ان کی سمجھ میں آئیں۔ بحالت مجبوری وہ بے چارے پنڈت جی کی فیس ادا کر کے اپنی جان چھڑا کر چلے جاتے تھے۔ اگر پنڈت جی کی دی ہوئی ہدایات میں سے کچھ باتیں واقعی کارآمد ثابت ہوگئیں تو بس پنڈت جی کا بول بالا۔ دن بڑا دلچسپ گزارا تھا شام کو پنڈت جی کو کتھا کہنے کہیں جانا تھا مجھ سے کہنے لگے۔ چلو میرے ساتھ چلو، کتھا میں بڑا مزاہ آتا ہے اپنی کتھا بھی بس ایسی ہی ہوتی ہے لوگوں کو کبھی کبھی اعتراض بھی ہو جاتا ہے، بھئی دیکھو نا اب پڑھے لکھے تو ہیں نہیں جو رامائن کا ہر صفحہ کھنگال ڈالیں گیتا کو ایک ایک لفظ کر کے پڑھ لیں جو جی میں آتی ہے سنا دیتے ہیں پبلک کو، کچھ لوگ مطمئن ہو جاتے ہیں اور کچھ تحقیقات کرنے نکل جاتے ہیں۔ ایک دو دفعہ ایسا بھی ہوا کہ تحقیقات کرنے والوں نے گلا پکڑ لیا مگر تجربہ ہے ہمارا زبانیں بند کرنا آتا ہے چلو گے کتھا میں پھر کسی دن چلوں گا پنڈت جی، آج رہنے دیجئے۔ اچھا ٹھیک ہے تمہارے آرام کی جگہ بتا دیتے ہیں۔ پیپل کا ایک درخت جو پنڈت جی کے گھر کے صحن کے ایک گوشے میں تھا میری رہائش گاہ قرار دیا گیا۔ اس کے نیچے بانوں کی چارپائی بچھا دی گئی ایک لٹیا رکھ دی گئی۔ بس اس کے علاوہ اور کیا درکار تھا لیکن اسی شام میں نے یہاں اپنی کارکردگی کا مظاہرہ شروع کر دیا، صحن میں پیپل کے درخت کے پتے بکھرے ہوئے تھے۔ جھاڑو لے کر ان کی صفائی پر تل گیا اور پنڈتائن کے چہرے کی لکیروں میں کچھ کمی واقع ہوئی۔ میں نے پورا صحن صاف کر دیا تھا اور رات ہونے پر چارپائی پر جا لیٹا تھا۔ دماغ کو ایک عجیب سی بند بند سی کیفیت کا احساس ہو رہا تھا اور میں ہر احساس کو ذہن سے جھٹک کر آنکھیں بند کر کے سونے کی کوشش کر رہا تھا۔ پنڈت جی کے گھر دُوسرا، تیسرا اور چوتھا دن گزر گیا۔ بڑے دلچسپ آدمی تھے، میں انہی تک محدود تھا اور میں نے باہر جا کر کچھ دیکھنا ضروری نہیں سمجھا تھا جو کچھ دیکھ چکا تھا وہی کافی تھا، چوتھے دن پنڈتائن ، ساڑھی کا پلّو کمرے کے گرد اُڑسے پنڈت جی کے سامنے آ کھڑی ہوئیں۔ ایک دن کا مہمان، دو دن کا مہمان، تین دن کا مہمان، کیا تمہارا یہ مہمان ہمارے لیے بلائے جان نہیں ہوگیا۔ انہوں نے آنکھیں نکالتے ہوئے کہا۔ ارے ارے ارے بکے جا رہی ہے بکے جا رہی ہے یہ بات پیچھے بھی تو کی جا سکتی تھی۔ میں عورت ہوں کھری، جو کہتی ہوں سامنے کہتی ہوں کب تک یہ مہمان رہے گا ہمارے ہاں یہ مہمان ہے کہاں پنڈتائن میں نے تو اسے گھر کے کام کاج کے لیے رکھ لیا ہے، دو روٹی کھائے گا سال سوا سال میں ایک دو جوڑی کپڑے بنا دیں گے اور بس۔ پنڈت جی نے کہا اور پنڈتائن اس بات سے خوش ہوگئیں۔ انہوں نے اس حقیقت سے مجھے بخوشی قبول کرلیا تھا کیا برا تھا ویسے بھی کون سے تیر مار رہا تھا بس بیکار زندگی کا بوجھ جسے کہیں بھی رہ کر گھسیٹا جا سکتا تھا۔ اب تو آرزوئیں بھی مرتی جا رہی تھیں۔ کب تک زندہ رکھتا اپنے آپ کو کیسے زندہ رکھتا صحن کی جھاڑو اس کے بعد بھینس کی دیکھ بھال اس کے لیے کٹی کرنا، سانی بنانا، اسے نہلانا۔ پھر گھر کی ساری صفائی بازار کا سودا سلف لانا۔ یہ میری ذمہ داری بن چکی تھی ویسے ذمہ داری معمولی نہیں تھی۔ صبح منہ اندھیرے اُٹھتا تو شام ہی ہو جاتی تھی اب تو پنڈت جی کا ساتھ بھی مشکل ہی سے ملتا تھا۔ البتہ وہ جب بھی مجھ سے ملتے ان کی آنکھوں میں تاسف کے آثار نظر آنے لگتے تھے میرا حلیہ خراب سے خراب تر ہوگیا تھا پنڈت جی نے ایک شام مجھ سے کہا۔ ایسے تو تیری اَرتھی نکل جائے گی پربھو، مرجائے گا تو تو کام کاج کرتے کرتے یہ آج کل کچھ زیادہ ہی کام ہونے لگا ہے دیکھا تو نے عورتیں ایسی ہوتی ہیں، شادی مت کریو، کبھی بالک یہ ہماری ہدایت ہے تجھے ورنہ اس سے زیادہ کام پڑ جائیں گے مگر کچھ کرنا پڑے گا تیرے لیے کچھ کرنا پڑے گا، تجھے اتنا کام کرتے دیکھ کر تو ہمیں بڑا ہی افسوس ہوتا ہے۔ نہیں پنڈت جی ایسی کوئی بات نہیں۔ کاموں میں تو جی لگ جاتا ہے اور دن گزرنے کا پتا بھی نہیں چلتا۔ انگ انگ جو ٹوٹ جاتا ہوگا اس کی بات کبھی نہیں کرے گا ویسے آدمی تو شریف ہے پربھو، اس میں کوئی شک نہیں ہے سوچیں گے تیرے لیے سوچیں گے کہ کیا کریں پنڈت جی اگر سوچ رہے ہوں تو سوچ رہے ہوں۔ میں کچھ نہیںسوچ رہا تھا۔ یہاں رہ کر دل و دماغ کو ایک عجیب سا سکون ملا تھا میں نے ساری سوچیں بھی ذہن سے نکال ڈالی تھیں۔ وہ رشتے وہ ناتے جن کی تڑپ نے دل کو مایوسیوں کے اندھیروں میں ڈبو دیا تھا سب کچھ بھلا دیا تھا میں نے صبح جاگتا اور اپنے کاموں کا آغاز کر دیتا۔ پنڈت جی کے بھجن سننے کو ملتے اور پنڈتائن کی جھڑکیاں اور گالیاں، انہوں نے سب کچھ بھول کر بس ایک مالکن کا رویہ اختیار کرلیا تھا۔ ایک بے حد بدمزاج مالکن کا، ہر کام میں کیڑے نکالتی تھیں۔ بات بات پر جھڑکیاں سناتی تھیں لیکن مجھے کوئی بات بری نہیں لگتی تھی۔ میں جانتا تھا کہ میری تذلیل ہو رہی ہے اور ہو سکتا ہے یہی چیز میرے لیے باعث نجات بن جائے مگر پنڈت کے انداز میں اب سنجیدگی پیدا ہوگئی تھی۔ پنڈتائن سے عموماً ڈرے ڈرے رہتے تھے۔ کچھ کہنے کی مجال نہیں ہوتی تھی کوئی ایسی ترکیب سوچ رہے تھے شاید جس سے بقول ان کے میرا کلیان ہو سکے۔ پھر ایک دن چھٹی کا دن تھا غالباً کوئی ہلکا پھلکا تہوار بھی تھا۔ پنڈتائن نے صبح ہی صبح مجھ سے سارے گھر کی صفائی کرائی تھی اور میرے سر پر کھڑے ہو کر ایک ایک چیز کی نگرانی کرتی رہی تھیں۔ پنڈت جی بیٹھے ہوئے تھے اچانک ہی انہوں نے مجھ سے کہا۔ پربھو، تو نے اپنا ہاتھ نہیں دکھایا کبھی مجھے ہاتھ میں نے پنڈت جی کو دیکھا۔ ہاں دیکھیں تو سہی تیری ریکھائیں کیا کہتی ہیں بس بس ، دماغ مت خراب کرو اس کا پنڈت جی اس کی ریکھائیں جوکچھ کہتی ہیں وہ تمہیں کبھی نہیں معلوم ہوگا، بیکار اس کا من خراب کرو گے کام کرنے دو اسے۔ اری بھاگوان کچھ پتا تو چلنا چاہیے کہ کون کتنے پانی میں ہے، میں تو یہ دیکھنا چاہتا تھا کہ اس کے ہاتھ میں چوری کی لکیر ہے یا نہیں۔ چوری کی تو اور کیا گھر کھلا رہتا ہے کسی دن بھینس لے کر نکل گیا تو بتا کیا تو مجھے دُوسری بھینس خرید کر دے سکے گی پنڈتائن ہول کر خاموش ہو گئیں، پنڈت جی نے ایک آنکھ دبائی اور میرا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے کر سامنے کرلیا، کان سے پینسل نکال کر کاغذ پر لکیریں کھینچنے لگے اور پھرایک دَم اُچھل پڑے۔ ہے بھگوان، ہے بھگوان یہ میں نے کیا کیا۔ پنڈتائن قریب ہی کھڑی ہوئی تھیں چونک کر بولیں۔ ہائے رام کیا ہوگیا اری تیرا ستیاناس، تو نے اپنے ساتھ میری بھی لٹیا ڈبو دی۔ پنڈت جی انتہائی خوف زدہ لہجے میں بولے، پنڈتائن کے چہرے کا رنگ بھی بدل گیا تھا، قریب آ کر بیٹھ گئیں اور بولیں۔ کیا ہو گیا کیا ہوگیا بس یہ سمجھ لے جو ہو گیا وہ بہت بُرا ہوگیا اور جو ہو چکا ہے اس سے آگے کچھ نہیں ہونا چاہیے، ہے پربھو جی ہے معاف کر دیں ہمیں شما کر دیں غلطی ہوگئی پربھوجی غلطی ہوگئی جو کچھ ہوا اس کی غلطی ہوگئی۔ میں پھٹی پھٹی آنکھوں سے پنڈت جی کو دیکھنے لگا تو پنڈت جی اپنی پتنی کی جانب رُخ کر کے بولے۔ پربھو مہاراج کا ہاتھ تو دیکھ ذرا، نظر تو ڈال ایک اس پر سات ستارے جگمگا رہے ہیں ان کی ریکھائوں میں یہ دیکھ ایک دو تین۔ وہ پینسل سے اشارہ کر کے ستارے گنوانے لگے اور پنڈتائن میرے ہاتھوں میں ستارے تلاش کرنے لگیں جبکہ مجھے خود ان ستاروں کی جھلک کہیں نظر نہیں آ رہی تھی۔ ایسے لوگ مہان ہوتے ہیں سات پورنیاں ہیں ان کی ریکھائوں میں اور کسی بھی سمے ساتوں پورنیاں ان کا گھیرا کرسکتی ہیں اور ایسے لوگ اچانک ہی دیوتا بن جاتے ہیں پربھو مہاراج آپ تو دیوتا ہیں، ہمارے لیے ہمارے بھاگ بھی بدل دیں پربھو مہاراج جے بھگوتی جے بھگوتی۔ پنڈت جی دونوں ہاتھ جوڑ کراوندھے ہوگئے، پنڈتائن کے چہرے پر بھی کسی قدر خوف کے آثار نظر آنے لگے تھے، انہوں نے آہستہ سے کہا۔ مجھے کیا معلوم تھا یہ تو ہیں ہی ایسے مگر مگر یہ سات پورنیاں ارے تمہاری ایسی تیسی، مجھے بھی اُلّو بنا رہے ہو تمہاری جیوتش اور میں اسے مان لوں کبھی کوئی بات سچ بھی کہی ہے تم نے۔ پنڈت جی سیدھے ہو کر پنڈتائن کو گھورتے ہوئے بولے۔ دیکھ دیورانی ساری باتیں مان لیں میں نے تیری جیون بھر تیری مانتا رہا ہوں مگر مگر اس بات میں تو نے کوئی برائی نکالی تو مجھ سے برا کوئی نہیں ہوگا۔ کیوں اسے بہکا رہے ہو کام کاج سے بھی جائے گا سُسرا۔ پنڈتائن نے کہا۔ تیری مرضی ہے۔ سوچ لے دیکھ لے جتنا اسے ستائے گی بعد میں اتنا ہی نتیجہ بھگتنا ہوگا تجھے، اب تو جانے اور تیرا کام، مجھے ضرور شما کر دیں مہاراج بلکہ پورن مہاراج، پورنیاں آپ کا گھیرا ضرور ڈالیں گی، کسی بھی دن کسی بھی سمے، یہ میں کہے دیتا ہوں مگر اس سمے آپ صرف دیورانی کی طرف رُخ کریں گے جو آپ کے ساتھ زیادتی کرتی ہے میرا کوئی دوش نہیں ہوگا اس میں۔ لو میں کونسی زیادتی کرتی ہوں گھر کے کام کاج ہی تو کرا لیتی ہوں، ٹھیک طریقے سے، نہ کریں ہم کونسا کہتے ہیں ان سے ہم خود کرلیا کرتے ہیں اپنا یہ کام، ارے واہ سات پورنیاں گھیرا ڈالیں گی دیکھیں گے کیسے گھیرا ڈالیں گی پنڈتائن نے کہا اور پائوں پٹختی ہوئی چلی گئیں میں پنڈت جی کا چہرہ دیکھ رہا تھا، پنڈت جی بولے۔ بس سمجھ لے تیرا کام بن گیا، خود تھوڑا بہت کام کر دیا کر بلکہ ہماری بھینس سنبھال لے تو گھر کے کام کاج سے تو چھٹی مل گئی پنڈتائن سامنے کی بہادر ہیں اندر جا کر جب سوچیں گی تو حلیہ خراب ہو جائے گا کیا سمجھا۔ اور پنڈت جی کا کہنا کافی حد تک دُرست ہی ثابت ہوا، پنڈتائن کی زبان ایک دم بند ہوگئی تھی مجھے خود بھی گھر کے کام کاج سے دلچسپی تھی اپنی پسند سے سارے کام کر لیتا تھا لیکن اب پنڈتائن نے میرا پیچھا کرنا چھوڑ دیا تھا اور عموماً مجھ سے دُور ہی دُور رہنے لگی تھیں۔ پنڈت جی کے اس ناٹک پر مجھے اکثر ہنسی آ جاتی تھی مگر میں خود گھر کے کاموں میں اُلجھ کر اپنا ذہن بٹائے رکھتا تھا، پنڈت جی سچے جیوشی تھے یا نہیں میں نہیں جانتا تھا، دال روٹی البتہ کما لیا کرتے تھے اور لوگ ان کے پاس آتے رہتے تھے۔ مگر پورن ماشی کی رات عجیب واقعہ ہوا، پورے چاند کی روشنی بکھری ہوئی تھی۔ میں پیپل کے درخت کے نیچے بیٹھا ہوا تھا پنڈت جی پوتھی سجائے بیٹھے تھے، پنڈتائن کسی بات پر ان سے اُلجھ رہی تھیں کہ اچانک صحن میں عجیب سی روشنی پھیل گئی۔ اتنی روشنی کہ پورا گھر جگمگانے لگا۔ دھنک کے سات رنگوں میں بٹی ہوئی سات حسین دوشیزائیں نہ جانے کہاں سے نمودار ہوئی تھیں ان کے ہاتھوں میں طرح طرح کے غیرمانوس ساز تھے اور ہونٹوں پر دلفریب مسکراہٹ، میں نے آنکھیں پھاڑ کر پنڈت جی کو دیکھا کہ یہ شاید میرا وہم ہو۔ مگر پنڈت جی اور پنڈتائن کی آنکھیں بھی پھٹی ہوئی تھیں اور دونوں تھر تھر کانپ رہے تھے۔ میں نے پریشان نظروں سے ان عورتوں کو دیکھا۔ ایک سے ایک بڑھ کر حسین تھی، انہوں نے جگمگاتے ہوئے لباس پہن رکھے تھے۔ سب کی آنکھیں مجھ پر جمی ہوئی تھیں۔ وہ پیپل کے درخت کے نیچے میرے چاروں طرف دوزانو ہو کر بیٹھ گئیں۔ اپنے ساز انہوں نے سامنے رکھ لیے اور پھر فضا میں ان سازوں کی آوز اُبھرنے لگی۔ ایک ایسا سحرانگیز نغمہ پھوٹنے لگا کہ دِل کھنچ جائے۔ کچھ دیر سازوں کی آواز اُبھرتی رہی۔ پھر ان کی آوازیں بلند ہوئیں۔ وہ کچھ گا رہی تھیں۔ سُر حسین تھے، آوازیں درد بھری لیکن بول نامعلوم۔ کچھ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا، بس دماغ سوتا ہوا محسوس ہو رہا تھا۔ پنڈت کاشی رام اور دیومتی جی بھی نگاہوں سے اوجھل ہوگئی تھیں۔ دیر تک یہ نغمہ جاری رہا۔ پھر وہ اُٹھ کھڑی ہوئیں۔ انہوں نے ساز بلند کیے اور وہ ان کے ہاتھوں سے غائب ہوگئے۔ پھر اچانک ان کے ہاتھوں میں چراغوں سے جگمگاتی چاندی کی تھالیاں آ گئیں۔ تھالیوں میں سات سات چراغ روشن تھے۔ وہ تھالیاں کندھے تک بلند کیے میرے گرد رقص کرنے لگیں۔ رقص کا یہ انداز بھی بے حد دلنشیں تھا۔ ایک ایک میرے سامنے آتی تھالی کو میرے سر سے چھوتی پیروں تک لے جاتی، پھر دُوسری کے لیے جگہ خالی کر دیتی۔ یہ شغل بھی خوب دیر تک جاری رہا۔ چاند آدھے سے زیادہ سفر کر چکا تو انہوں نے اپنا یہ مشغلہ ختم کر دیا اور پھر میں نے آخری حیرت انگیز منظر دیکھا۔ وہ اچانک زمین سے بلند ہونے لگیں، ان کے پیروں نے زمین چھوڑ دی۔ ساتوں کی ساتوں بلند ہورہی تھیں۔ وہ پیپل کے درخت سے اُونچی ہوگئیں اور اُونچی۔ پھر اور اُونچی یوں لگ رہا تھا جیسے سات قندیلیں فضا میں اُوپر اُٹھتی چلی جا رہی ہوں۔ یہاں تک کہ وہ ٹمٹماتے ہوئے مدھم ستاروں کی مانند ہوگئیں پھر یہ ستارے بھی ڈُوب گئے۔ میں خود بھی اس انوکھے منظر میں اتنا کھو سا گیا تھا کہ باقی سب میری نظر سے اوجھل ہوگیا تھا۔ پنڈت کاشی رام اور ان کی دھرم پتنی بھی یاد نہیں رہے تھے۔ جب سب کچھ نظروں سے دُور ہوگیا تو مجھے وہ دونوں یاد آئے اور میری نظریں ان کی طرف اُٹھ گئیں۔ پنڈتائن تو اوندھی پڑی ہوئی تھیں اور پنڈت جی کو جاڑا چڑھا ہوا تھا۔ بالکل ایسے ہی کانپ رہے تھے وہ جیسے سخت سردی لگ رہی ہو۔ میں اپنی جگہ سے اُٹھا اور پنڈت جی کی طرف چل پڑا۔ جیسے جیسے میں آگے بڑھ رہا تھا پنڈت جی سمٹتے جا رہے تھے۔ وہ منہ ہی منہ میں کچھ بُدبُدا بھی رہے تھے۔ یہ سب یہ سب کیا تھا پنڈت جی میں نے پوچھا۔ شما شما شما کرو مہاراج۔ اندھے ہیں ہم۔ اندھے ہیں۔ تم تو دیوتا ہو۔ ہے مہاراج ہے بھگوتی ہمیں شما کر دو شما کر دو ہمیں۔ کاشی رام جی میرے پیروں کی طرف لپکے۔ ارے ارے کاشی رام جی یہ کیا کر رہے ہیں آپ میں جلدی سے پیچھے ہٹ گیا۔ جے بھگوتی۔ شما کر دو ہمیں۔ اسے بھی شما کر دو۔ ہم نے تو ٹھٹھول کیا تھا ہمیں کیا معلوم تھا کہ تم سچ مچ پورن بھگت ہو۔ ہے پورن بھگت ہمیں شما کر دو۔ اَری اُٹھ اندر چل۔ یہ بے ہوش ہوگئی ہے مہاراج اسے معاف کر دو ہم سنسار باسی کیا جانیں کون کس رُوپ میں ہے۔ میری بات تو سنیں پنڈت جی میں نے پریشان ہو کر کہا۔ بس ایک بار مہاراج ہم سچے جیوتشی نہیں ہیں۔ ناٹک کرتے ہیں پیٹ بھرنے کے لیے۔ دیومتی۔ اَری اُٹھ جا کم بخت۔ اَری اُٹھ جا ورنہ ماری جائے گی۔ پنڈت جی دہشت کے عالم میں بے ہوش پنڈتائن کو جھنجھوڑنے لگے۔ وہ میری کچھ نہیں سن رہے تھے بس اپنی کہے جا رہے تھے۔ میں پانی لاتا ہوں۔ میں نے کہا اور پانی لینے چل پڑا۔ خود میری سمجھ میں کچھ نہیں آیا تھا۔ پانی لایا پنڈتائن کو خوب نہلایا گیا۔ تب کہیں جا کر وہ ہوش میں آئیں۔ مجھے دیکھ کر چیخ ماری اور پنڈت جی سے لپٹ گئیں۔ ارے ارے۔ گرائے گی کیا۔ ہتھنی کی ہتھنی ہو رہی ہے۔ اری سیدھی ہو چل اندر چل پنڈت جی نے انہیں دھکا دیا وہ خود میری طرف نہیں دیکھ رہے تھے۔ بمشکل تمام وہ پنڈتائن کو سنبھالے اندر داخل ہوگئے۔ پھر انہوں نے دروازہ بھی اندر سے بند کرلیا۔ حالانکہ اس سے پہلے یہ دروازہ کبھی بند نہیں ہوتا تھا۔ میں بے بسی سے یہ سب کچھ دیکھتا رہا۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ ان لوگوں کو کیسے سمجھائوں میں تو خود ان سے سمجھنا چاہتا تھا۔ پھر کچھ نہ بن سکا تو واپس آ کر اپنی چارپائی پر لیٹ گیا۔ وہ انوکھا منظر بار بار آنکھوں میں آ رہا تھا۔ نہ جانے وہ کون تھیں اوریہ سب کچھ کیا کر رہی تھیں۔ پیپل کے پتوں کو تکتے تکتے نیند آ گئی اور پھر گہری نیند نے سب کچھ بھلا دیا۔ صبح کوہمیشہ جلدی آنکھ کھل جاتی تھی۔ عادت پڑ گئی تھی اس کی۔ پنڈتائن دُودھ دوہنے کی بالٹی ایک مخصوص جگہ رکھ دیا کرتی تھیں اور میں جاگ کر پہلا کام یہی کیا کرتا تھا۔ اس وقت بھی جاگ کر ادھر ہی رُخ کیا مگر دُودھ کا برتن اپنی جگہ موجود نہیںتھا اور اسے نہ پا کر مجھے رات کے واقعات ایک دَم یاد آ گئے تھے۔ میں اُچھل پڑا آنکھیں زور زور سے بند کر کے کھولیں۔ رات کے واقعات خواب نہیں تھے۔ پنڈت جی خوفزدہ ہو کر اندر جا گھسے تھے اور انہوں نے دروازہ بند کر لیا تھا اور شاید اسی خوف کے عالم میں آج دُودھ کا برتن بھی اپنی جگہ نہیں پہنچا تھا۔ کچھ دیر سوچتا رہا پھر آگے بڑھ کر بند دروازے کے قریب پہنچ گیا مگر قریب پہنچ کراندازہ ہوا کہ وہ دروازہ کھلا ہوا ہے۔ پنڈت جی چاچی جی۔ دُودھ کی بالٹی دے دیں۔ میں نے آواز لگائی مگر اندر خاموشی ہی رہی۔ دروازے کو دھکیل کر میں اندر داخل ہوگیا۔ پہلے بھی اندر آ چکا تھا۔ دُوسری اور تیسری بار بھی آواز دینے پر جواب نہیں ملا تو یہ خیال گزرا کہ دونوں گھر میں نہیں ہیں۔ رسوئی سے دُودھ کی بالٹی لے کر بھینس کے پاس آ گیا اور اپنا کام مکمل کر کے دُودھ گرم کر کے چولہے پر رکھ دیا۔ بھوک لگ رہی تھی۔ دُودھ کا ایک گلاس پی کر باہر نکل آیا۔ احاطہ صاف کیا۔ پنڈت جی اور پنڈتائن نہ جانے کہاں چلے گئے تھے۔ انتظار کرتا رہا۔ دس بجے پھر بارہ۔ پھر ایک اور دو اب بات پریشانی کی تھی۔ کہاں گئے وہ دونوں پہلے تو سوچا تھا کہ ہو سکتا ہے کسی کام سے نکل گئے ہوں مگر اب تو آدھا دن گزر چکا تھا۔ اچانک دِل میں خیال آیا کہ کہیں وہ خوفزدہ ہو کر گھر سے بھاگ تو نہیں گئے۔ اس تصوّر سے خود حیرت زدہ رہ گیا۔ گھر ان کا تھا۔ ان کے بغیر تو یہاں رہنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا تھا۔ آہ ایسا ہی ہوا ہے اب انہیں کہاں تلاش کروں۔ وہ اس گھر کے مالک ہیں، اگر میری وجہ سے خوفزدہ ہوئے ہیں تو مجھے گھر چھوڑ دینا چاہئے۔ وہ کہاں چلے گئے۔ انہیں کہاں تلاش کروں۔ ہو سکتا ہے کسی سے پوچھنے سے پتہ چل جائے۔ احاطے میں دُھوپ چلچلا رہی تھی۔ انتہائی گرم دن تھا مگر اس خیال کے بعد گھر میں بیٹھے رہنا بھی ممکن نہیں تھا، چنانچہ احاطہ عبور کر کے دروازے پر آ گیا۔ گرم لُو کے تھپیڑوں نے مزاج پوچھا۔ اندر تو پھر بھی پیپل کی وجہ سے اَمن تھا مگر باہر پھر دفعتہ ان بے شمار لوگوں پر نظر پڑی جو پنڈت جی کے گھر کے سامنے والے میدان میں سر نیہوڑائے بیٹھے ہوئے تھے۔ میلے کچیلے چیتھڑوں میں ملبوس وہ قطاریں بنائے بیٹھے ہوئے تھے بالکل خاموش۔ حیرانی سے آگے بڑھا اور ابھی ان سے چند قدم دُور تھا کہ اچانک وہ اُچھل اُچھل کر کھڑے ہونے لگے۔ تب میں نے انہیں بغور دیکھا اور میرے بدن میں خون کی گردش رُک گئی۔ آہ وہ انسان نہیں تھے۔ لاتعداد بھیانک صورتیں میرے سامنے تھیں۔ چھوٹے بڑے قد، چیتھڑوں میں لپٹے، پتلی ٹانگیں، سوکھے ہاتھ، گنجے سر اور بڑی کھوپڑیاں۔ گول آنکھیں ہیبت ناک انداز میں پھٹی ہوئیں۔ دہشت کے عالم میں پلٹا اور دروازے سے اندر گھس جانا چاہا مگر دروازہ وہاں تو کوئی دروازہ نہیں تھا۔ پنڈت جی کا گھر ہی غائب ہوگیا تھا۔ پیچھے وسیع میدان نظر آ رہا تھا۔ میں آنکھیں پھاڑ کر رہ گیا۔ پنڈت جی کا مکان کہاں رہ گیا۔ آہ پھر گڑ بڑ شروع ہوگئی۔ پھر کسی نئی مصیبت نے میری طرف رُخ کیا۔ اب کیا کروں کیا پوری بستی ہی غائب ہوگئی۔ کیا مگر سامنے کے رُخ پر بہت دُور مکانات نظر آ رہے تھے اور میرے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا کہ اب ان کے درمیان سے گزر کر آگے بڑھوں۔ لرزتے دل کو سنبھال کر آگے بڑھا اور وہ اس طرح اَدب سے پیچھے ہٹ گئے جیسے مجھے راستہ دینا چاہتے ہوں۔ میں ان کے بیچ سے نکل کر آگے بڑھا تو پورا مجمع میرے ساتھ ہولیا۔ وہ مارچ پاسٹ کرتے میرے پیچھے آ رہے تھے۔ دم ہی نکلا جا رہا تھا۔ خوف کے عالم میں سوچنے سمجھنے کی قوتیں گم ہوگئی تھیں۔ دفعتہ ٹھوکر لگی اور گرنے سے بچنے کے لیے کئی قدم دوڑنا پڑا۔ شیطانی گروہ پیچھے رہ گیا اورمیں نے اس موقع سے فائدہ اُٹھایا۔ ایک دَم دوڑ لگا دی تھی مگر خدا کی پناہ۔ انہوں نے بھی دوڑنا شروع کر دیا تھا۔ ان کے قدموں کی دھمک اور ہولناک آوازیں سن کر گھروں کے دروازے کھلنے لگے۔ مگر جب میں ان گھروں کے درمیان سے گزرا تو ہر گھر سے دہشت بھری چیخیں اُبھرنے لگیں۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ دُوسروں کو بھی نظر آ رہے تھے۔ کون ہیں یہ کون ہیں۔ یقیناً یہ بھیانک وجود انسان نہیں تھے۔ میں دوڑتا ہوا ایک بازار میں پہنچ گیا۔ دُکانیں کھلی ہوئی تھیں۔ دُھوپ اور گرم ہوا کی وجہ سے خریداری تو نہیں ہو رہی تھی مگر دکاندار دُکانوں میں موجود تھے۔ انہوں نے حیرانی سے اس جلوس کو دیکھا اور پھر ان کا بھی وہی حشر ہوا۔ بہت سوں نے دُکانوں کے شٹر گرائے اور بہت سے دکانوں سے اُتر کر بھاگے۔ میں نے رفتار سست کی تو میرے پیچھے دوڑنے والوں کی رفتار بھی سست ہوگئی۔ وہ میرا پیچھا چھوڑنے پر تیار نہیں تھے۔ دوڑنا ترک کر کے سست قدمی اختیار کی مگر ان سے پیچھا چھڑانا ناممکن نظر آ رہا تھا۔ پھر کسی طرح پولیس کو خبر ہوگئی۔ جونہی بازار ختم ہوا اور ایک بڑی سڑک آئی میں نے سامنے سے پولیس کی دو گاڑیاں آتے ہوئے دیکھیں۔ پولیس کو دیکھ کر میری جان ہی نکل گئی۔ اب آئی میری شامت۔ میں نے سوچا اور رُک گیا۔ پولیس گاڑیاں تیز رفتاری سے ہمارے قریب پہنچ گئیں اور ان سے لاٹھی بردار پولیس والے نیچے کودنے لگے۔ دونوں گاڑیوں سے پولیس افسر بھی نیچے اُترے تھے۔ ارے۔ کون ہو تم اور ایک افسر نے کڑک کر مجھے اور پھر میرے پیچھے مجمع کو دیکھتے ہوئے کہا مگر پھر وہ صرف انہیں دیکھتا رہ گیا۔ میرا تعاقب کرنے والے ہولناک بھوتوں نے بولنا اور منمنانا شروع کر دیا تھا۔ وہ دَبی دَبی آواز میں ہنسنے بھی لگے۔ ان کی صورتیں اور حلیے ہی کونسے کم بھیانک تھے کہ انہوں نے ایک اور عمل بھی شروع کر دیا وہ دُور تک پھیل گئے۔ پھر ان میں سے ایک نے اپنی کھوپڑی شانوں سے اُتار کر دُوسرے کی طرف پھینکی اور دُوسرے نے اسے گیند کی طرح لپک لیا۔ پھر اس نے وہ کھوپڑی تیسرے کی طرف پھینک دی پھر وہ سب کے سب ہی یہ کھیلنے لگے۔ دوپہر کا وقت ہُو کا عالم۔ اور یہ بھیانک کھیل۔ پولیس کے جوانوں نے پہلے تو آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر یہ کھیل دیکھا پھر حلق پھاڑ پھاڑ کر چیختے ہوئے جدھر منہ اُٹھا دوڑ پڑے۔ افسر جہاں تک ممکن ہو سکا دلیری کا مظاہرہ کرتے رہے۔ پھر ان میں سے ایک چیختا ہوا ایک پولیس گاڑی کے نیچے گھس گیا اور دُوسرا جان توڑ کر مخالف سمت بھاگا۔ میں نے بھی موقع سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کی اور اسی پولیس افسر کی طرف دوڑ پڑا۔ میں اس کے ساتھ نکل جانا چاہتا تھا مگر افسر کچھ اور ہی سمجھا۔ اس نے مجھے اپنا پیچھا کرتے دیکھ کر بُری طرح چیخنا شروع کر دیا۔ ہرے، ہرے، مر گیا رے، ہرے، مم، میں ہرے بچائو ہرے بچائو بچائو۔ رام دیال ہرے رامورے، ہوئے ہوئے ہوئے۔ وہ ٹھوکر کھا کر گر پڑا اور میں چونکہ اس کی سیدھ میں دوڑ رہا تھا اس لیے اس سے اُلجھ کر میں اس کے اُوپر ہی گرا تھا۔ افسر ذبح ہونے والے بکرے کی طرح چیخا اور ساکت ہوگیا مگر میں چوٹوں کو بھول کر پھر اُٹھا تھا۔ نگاہ پیچھے بھی اُٹھی تھی۔ وہ اپنے اپنے سر دُوسروں سے مانگ کر اس طرح شانوں پر رکھ رہے تھے جیسے ٹوپیاں پہن رہے ہوں، اور پھر وہ مستعدی سے دوبارہ میرے پیچھے لگ گئے۔ میں پولیس افسر کو بھول کر پھر دوڑ پڑا تھا۔ آبادی ختم ہوگئی اور کچھ دُور جا کر سڑک بھی ختم ہوگئی۔ آگے کچا راستہ آ گیا تھا اور اس سے آگے کھیتوں کا سلسلہ شروع ہوگیا تھا۔ نہ جانے کس طرح میں خود کو سنبھالے ہوئے تھا ورنہ اس عالم میں حرکت قلب بھی بند ہو سکتی تھی۔ نکلا تھا پنڈت جی اور پنڈتائن کو ڈھونڈنے اور یہاں یہ آفت گلے پڑ گئی تھی۔ میں نے ایک لمحے کے لیے رُک کر کھیتوں پر نظر دوڑائی، کھیتوں کے بیچوں بیچ مجھے ایک پگڈنڈی نظر آئی تو میں اس پگڈنڈی پر ہوگیا۔ لیکن صاحب کہاں، میرے جاں نثار بدستور میرا تعاقب کر رہے تھے، وہ کھیت روند رہے تھے۔ انہوں نے اپنی گردنیں شانوں سے اُتار کر مضبوطی سے اپنے بازوئوں میں پکڑ لی تھیں تا کہ کہیں وہ گر نہ جائیں اور وہ میرا پیچھا کر رہے تھے۔ کھیتوں کا سلسلہ تو تاحد نگاہ چلا گیا تھا۔ چیخیں کھیتوں میں بھی سنائی دیں۔ یہ ان غریب کسانوں کی چیخیں تھیں جو کھیتوں میں کام کر رہے تھے، عورتیں بھی چیخی تھیں، مرد بھی چیخ رہے تھے مگر میرا پیچھا کسی طرح رہا تھا۔ بہت فاصلہ طے ہوگیا اور اب میرے دوڑنے کی قوت بھی جواب دے گئی تھی۔ کہاں تک دوڑتا سانس بُری طرح پھول گیا تھا، چہرہ سرخ ہوگیا تھا، بمشکل تمام میں نے خود کو زمین پر گرنے سے بچایا اور ایک جگہ بیٹھ کر بُری طرح ہانپنے لگا۔ وہ سب پھر میرے گرد مجمع لگا کر اکٹھے ہوگئے اور عجیب و غریب انداز میں اُچھلنے کودنے لگے۔ پھر شاید کچھ اور ہوا، تھوڑی دیر کے بعد بیلوں کی گھنٹیوں کی آوازیں سنائی دی تھیں اور میں نے ایک بہت ہی خوبصورت رَتھ دیکھا۔ یہ رتھ آہستہ آہستہ قریب آ رہا تھا۔ ساز و سامان سے سجا ہوا تھا اور بڑی خوبصورتی سے اسے بنایا گیا تھا۔ رتھ قریب آ گیا اور رتھ سے ایک رتھ بان نیچے اُترا۔ یہ اچھی خاصی شکل و صورت کا مالک تھا پیلے رنگ کی دھوتی اور کرتا پہنا ہوا تھا۔ گلے میں مالائیں پڑی ہوئی تھیں، بڑی بڑی مونچیں بڑی بڑی آنکھیں ماتھے پر تلک، میرے سامنے آ کر اس نے دونوں ہاتھ سینے پر باندھے اور نیچے جھک کر بولا۔ رتھ حاضر ہے مہاراج جہاں بھی چلنا ہو رتھ میں بیٹھ جایئے ہمیں آگیا دیجئے ہم لے چلیں گے آپ کو بھاگ جائو میں کہتا ہوں بھاگ جائو، بھاگ جائو، یہاں سے، لے جائو یہ رتھ مجھے نہیں بیٹھنا اس میں، میں کہتا ہوں بھاگ جائو رتھ بان نے خوفزدہ سی شکل بنائی۔ گردن خم کی اور مرے مرے قدموں سے چلتا ہوا واپس رتھ میں جا بیٹھا اور اس کے بعد اس نے بیلوں کو واپس ہانک دیا۔ کچھ دیر کے بعد یہ رتھ میری نگاہوں سے غائب ہوگیا تھا لیکن وہ مجمع پیچھا نہیں چھوڑ رہا تھا، میں نے تھک ہار کر ان سے کہا۔ آخر تم کون لوگ ہو، کیوں میرے پیچھے لگے ہوئے ہو، کیوں لگے ہوئے ہو میرے پیچھے ان میں سے ایک خوفناک شکل کا شخص آگے بڑھا اس کی گردن شانوں پر ہی تھی۔ اس نے منمناتی آواز میں کہا۔ بیر ہیں مہاراج آپ کے، ایک سو اکہتّر ہیں پورے، ہمیں آپ کی سیوا کا حکم دیا گیا ہے، کہا گیا ہے کہ ہر سمے آپ کی سیوا میں رہیں۔ اور اس طرح مجھے دوڑاتے رہو مہاراج آپ کا ساتھ تو دینا ہی تھا آپ چلے سو ہم چلے، آپ دوڑے سو ہم دوڑے، ہم تو بیر ہیں آپ کے، آپ کی پرجا ہیں مہاراج، آپ کی پرجا ہیں ہم۔ کیا تم اپنی یہ صورتیں گم نہیں کر سکتے میں نے غرّاتے ہوئے لہجے میں کہا۔ کرسکتے ہیں۔ اس شخص نے معصومیت سے جواب دیا اسے شخص کہنا اس کے لیے عجیب سا بے شک لگتا ہے لیکن میں کسی ایسے جاندار کو کیا کہوں جس کے دو ہاتھ دو پائوں سر گردن آنکھیں سب کچھ ہوں بس ذرا ہیئت بدلی ہوئی ہو، میرے ان الفاظ کے ساتھ ہی اچانک ہی سارا مجمع نگاہوں سے اوجھل ہوگیا اورمیں منہ پھاڑ پھاڑ کر اِدھر اُدھر دیکھنے لگا۔ بڑی عجیب و غریب صورت حال تھی۔ لگ رہا تھا کہ وہ سب کے سب یہیں موجود ہیں لیکن بس آنکھوں سے اوجھل ہوگئے ہیں۔ آہ کیا کروں میں کیا کروں۔ میں نے دونوں ہاتھوں سے سر پکڑ لیا، اتنا دوڑا تھا کہ بھوک لگنے لگی تھی، ایک گلاس دُودھ ہی تو پیا تھا۔ بھلا اس سے کیا بھلاہوتا، میں نے خشک ہونٹوں پر زبان پھیر کر ادھر اُدھر دیکھا اور اسی وقت وہ شخص پھر نمودار ہوگیا۔ بھوجن لگا دیتے ہیں مہاراج۔ اس نے میرے اندر کی آواز سن لی تھی، آہ بڑا خوفناک وقت آ پڑا تھا مجھ پر۔ میں نے کوئی جواب بھی نہیں دیا تھا کہ دفعتہ ہی میں نے اپنے سامنے ایک قالین کھلتے ہوئے دیکھا بڑا خوبصورت قالین تھا وہ اور وہیں کچی زمین پر کھل گیا تھا اور پھر قالین پر بے شمار پھل اور کھانے پینے کی دُوسری اشیا سجنے لگیں۔ میں حیران نگاہوں سے یہ سب کچھ دیکھ رہا تھا۔ پورا قالین کھانے پینے کی چیزوں سے بھر گیا تھا، ہنسی بھی آ رہی تھی اپنے آپ پر اور اپنے ان بیروں پر جو نجانے کہاں سے میرے بیر بن گئے تھے۔ میں بڑی پریشانی کے عالم میں انہیں دیکھتا رہا۔ وہ شخص اب بھی میرے سامنے اس طرح ہاتھ باندھے کھڑا ہوا تھا جیسے میرے دُوسرے حکم کا انتظار کر رہا ہو۔ یہ سارے کے سارے بڑی انکساری کا مظاہرہ کر رہے تھے لیکن جو چیز حقیقت ہی نہ ہو اسے تسلیم کرنا ناممکنات میں سے ہوتا ہے، میں تو انہیں حقیقت ہی ماننے کو تیار نہیں تھا۔ سب کالا جادو تھا سب کالا جادو اور یہ سب جو میرے سامنے آ کر سجا تھا یہ بھی کالے جادو ہی کے زیر اثر تھا۔ حرام اور ناپاک چیز میں اسے اپنے شکم میں نہیں اُتار سکتا، آہ جو غلاظت میرے وجود میں داخل ہوگئی ہے وہی کونسی کم ہے کہ میں اپنی بھوک کا شکار ہو کر مزید غلاظت اپنے وجود میں اُتار لوں۔ میں نے دانت پیستے ہوئے کہا۔ اُٹھا لو، اس سب کو اُٹھا لو مجھے نہیں چاہیے یہ سب کچھ، سمجھے اُٹھا لو، ورنہ میں اسے اُٹھا کر پھینک دوں گا۔ میں نے جھک کر قالین کے دونوں سرے پکڑے اور اسے اُلٹ دیا۔ ساری چیزیں اوندھی ہوگئی تھیں اور سہما ہوا بیر پیچھے ہٹ گیا تھا، اس نے مایوس نگاہوں سے اِدھر اُدھر دیکھا دُوسرا کوئی میرے سامنے نہیں تھا لیکن ان سب کی موجودگی کا احساس مسلسل ہو رہا تھا۔ میں جانتا تھا کہ وہ سب موجود ہیں۔ بہرحال یہ کھانا پھینک دیا گیا اور میری نگاہیں سامنے کھیتوں میں ان پھوٹوں پر پڑیں جو خودرو تھیں، کھیتوں میں اُگ آئی تھیں، بھوک واقعی لگ رہی تھی، جو واقعات پیش آئے تھے اب ان میں ایڈجسٹ ہوتا جا رہا تھا، آگے بڑھا، ایک پھوٹ توڑی اور اس کا چھلکا دانتوں ہی سے اُتار کر اسے آہستہ آہستہ کھانے لگا۔ پھوٹ نے شکم سیر کر دیا تھا لیکن جس مصیبت میں گرفتار ہوگیا تھا اس سے چھٹکارے کا کوئی ذریعہ نہیںتھا۔ دل میں سوچا کہ یہاں سے آگے بڑھوں اور چند قدم آگے بڑھائے لیکن اچانک ہی یوں محسوس ہوا جیسے زمین سے اُوپر اُٹھتا چلا جا رہا ہوں اور میں زمین سے خاصا اُونچا اُٹھ گیا، میرے منہ سے بوکھلاہٹ بھری آوازیں نکل رہی تھیں۔ ارے ارے، یہ کک کون، کون کیا کیا ہے جواب میں مجھے آواز سنائی دی۔ ہم اپنے کندھوں پر آپ کو لے کر چل رہے ہیں مہاراج آپ تھک گئے ہیں دھرتی پر سفر نہیں کر سکیں گے، بیٹھے رہیں، بیٹھے رہیں ہم آپ کو گرنے نہیں دیں گے۔ نیچے اُتارو مجھے، میں کہتا ہوں مجھے نیچے اُتارو میں نے کہا اور مجھے نیچے اُتار کر کھڑا کر دیا گیا۔ وہ میری وجہ سے پریشان تھے اور میں ان کی وجہ سے پریشان تھا۔ ان بیروں کے بارے میں کچھ بھی تو نہیں جانتا تھا۔ دل کی حالت بڑی عجیب ہو رہی تھی۔ سخت پریشان ہو رہا تھا۔ نیچے اُترا اور ایک لمحے کھڑا رہا۔ پھر چند قدم آگے بڑھا لیکن جیسے ہی پیر آگے بڑھایا پائوں کے نیچے کوئی لجلجی سی شے محسوس ہوئی۔ دُوسرا پائوں آگے بڑھایا تو اس کے نیچے بھی بالکل ایسا ہی لگا۔ پھر یہ ہوا کہ میں قدم نہیں بڑھا رہا تھا لیکن آگے بڑھتا چلا جا رہا تھا۔ پھٹی پھٹی آنکھوں سے اپنے پیروں کے نیچے اس ذریعے کو دیکھا جو مجھے آگے بڑھا رہا تھا تو ایک بار پھر میرے حلق سے دہشت بھری چیخ نکل گئی۔ وہ بڑی بڑی مکڑیاں تھیں اتنی بڑی کہ میرے پائوں بآسانی ان کے جسموں پر ٹکے ہوئے تھے اور وہ اپنے بے شمار قدموں سے مجھے آگے بڑھا رہی تھیں۔ میں نے خوفناک چیخ کے ساتھ چھلانگ لگائی لیکن جہاں گرا تھا وہاں بھی ایک مکڑی کی پشت پر ہی گرا تھا۔ اس کے پائوں میرے وزن سے پھیل گئے لیکن رفتہ رفتہ وہ پھر پائوں جما کر کھڑی ہوگئی، دُوسرا پائوں آگے بڑھایا تو پھر وہی مکڑی آ گئی، میں نے تھکے تھکے لہجے میں کہا۔ آہ مجھے آزاد کر دو، مجھے آزاد کرو میں، میں تھک گیا ہوں، میں تنگ آ گیا ہوں۔ سامنے ہی ایک درخت نظر آ رہا تھا اس کی شاخیں پھیلی ہوئی تھیں، میں مکڑیوں سے پائوں اُتار کر جہاں بھی قدم رکھتا ایک نئی مکڑی نمودار ہو جاتی اور میرا پائوں اس کی پشت پر ہی پڑتا۔ میں بری طرح بدحواس ہوگیا تھا۔ بھلا اس لجلجی اور منحوس شے پر کیسے سفر کرتا، کس عذاب میں گرفتار ہوگیا آہ کس عذاب میں گرفتار ہوگیا ہوں۔ جاری ہے
null
null
null
null
474
https://www.urduzone.net/bhanwra-complete-urdu-story/
میں بس سے کراچی جارہی تھی۔ کھڑکی کے پاس ایک عورت بیٹھی تھی، وہ میری طرح اکیلی ہی سفر کررہی تھی۔ مجھے تعجب ہوا تھا، عموماً جوان عورتیں تنہا سفر نہیں کرتیں۔ کیونکہ بعض شکاری مرد ایسے شکار کی گھات میں ہوتے ہیں اور پولیس ان سے فائدہ اٹھانے کے لیے خوف زدہ اور ہراساں کرتی ہے۔ یہ کوئی معمر عورت نہ تھی۔ بھرپور جوان عورت تھی۔ خیر معمولی خوب صورت تھی۔ نقش و نگار تیکھے تیکھے اور دل کو متاثر کرنے والے تھے۔ میں نے اس کے چہرے سے اندازہ کیا کہ اس کی عمر چوبیس برس کے لگ بھگ ہوگی۔ وہ اپنے لباس سے آسودہ حال گھرانے کی لگ رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ بس چلنے کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہوگی۔ وہ خود کو متعارف کرائے گی تاکہ سفر آسانی سے کٹ جائے۔ ایسا سفر میں اکثر ہوتا تھا۔ ہم سفر بوریت سے بچنے کے لیے باتوں کا سہارا لیتے تھے اور سفر ختم ہونے کے بعد اپنی اپنی راہ لیتے تھے۔ اس نے میری طرف دیکھا اور نہ ہی مجھ سے بات کرنے کی کوشش کی۔ وہ کھڑکی سے باہر جھانک رہی تھی۔ اس کی بڑی بڑی سیاہ آنکھیں خلا میں ایک ٹک دیکھ رہی تھیں۔ اس کے چہرے پر کرب اور آنکھوں میں درد کی پرچھائیاں تھیں۔ جانے اُسے کیا غم تھا، اس کے دل میں کون سا درد چھپا تھا۔ کچھ دیر بعد اس نے اپنی آنکھوں پر گھنیری پلکوں کی چلمن گرا کے بند کرلیں اور سیٹ کی پشت پر سر ٹکا دیا۔ اس کے چہرے پر غم کی پرچھائیاں پھیل گئیں۔ چند لمحوں بعد اس کی بند آنکھوں سے آنسو بہنے لگے جو اس کے گلابی رخساروں سے ڈھلک کر اس کے دامن میں جذب ہورہے تھے۔ جانے کیوں مجھ سے رہا نہیں گیا۔ میں نے اپنے پرس سے رومال نکالا اور بہنے والے ان صاف و شفاف موتیوں کو جذب کرنے لگی۔ اگلے لمحے اس نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور مجھے حیرت سے دیکھنے لگی۔ کیا بات ہے بہن میں نے اس کی آنسو بھری آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔ کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ آپ کیوں رو رہی ہیں جب آپ نے مجھے بہن کہا ہے تو میں بتاتی ہوں کہ بات کیا ہے۔ وہ سسکتی ہوئی بولی۔ اس نے اپنی چادر میں اپنے آنسوئوں کو جذب کیا۔ اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ چند ثانیوں کے بعد وہ اپنی آواز اور آنسوئوں پر قابو پا کر ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی۔ مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی ہے۔ کیسی قیامت عورت اسی لیے پیدا ہوتی ہے کہ اس پر کوئی نہ کوئی قیامت ٹوٹتی رہے۔ میں نے جذباتی لہجے میں کہا۔ آپ بھی دکھی معلوم ہوتی ہیں۔ اس نے میرے چہرے پر اپنی نگاہیں مرکوز کردیں۔ اس لیے آپ نے میرے دکھ کو محسوس کیا ہے۔ جی ہاں میں نے سر ہلایا۔ ہر عورت کے نصیب میں کوئی نہ کوئی دکھ لکھا ہوتا ہے وہ کوئی نہ کوئی زہر پیتی رہتی ہے۔ جو درد آشنا ہوتا ہے وہی درد بھی محسوس کرتا ہے۔ عورت، عورت کو سمجھتی ہے۔ مرد، عورت کو کبھی نہیں سمجھ سکتا۔ لیکن آپ اس بات کو تسلیم کریں گی کہ عورت ہی عورت کا گھر اُجاڑتی ہے۔ وہ عورت کو اس طرح کاٹتی ہے جیسے ہیرا ہیرے کو کاٹتا ہے۔ جی ہاں یہ بات بھی اپنی جگہ صحیح ہے۔ اس کی بات سن کر میرے دل پر چوٹ سی لگی۔ سویا ہوا درد جاگ اٹھا۔ کیا کسی عورت نے آپ کا گھر اُجاڑا ہے جی وہ بڑے کرب سے بولی۔ میری دیرینہ سہیلی نے میرے شوہر سے شادی رچالی ہے۔ میرا گھر اور میرا شوہر چھین لیا ہے۔ گویا وہ آستین کا سانپ نکلی کیا آپ کو اس کا احساس نہیں ہوسکا تھا کیا آپ نے اپنی آنکھیں کھلی نہیں رکھی تھیں کوئی عورت یہ کیسے جان سکتی ہے کہ اس کا شوہر گھر سے باہر کیا کررہا ہے کسی کی زلف کا اسیر ہوچکا ہے اگر مجھے ذرہ برابر بھی شک ہوجاتا کہ میری سہیلی آستین کا سانپ بنی ہوئی ہے تو شاید کوئی تدبیر کرکے اپنا گھر بچا لیتی۔ تم کیا تدبیر کرتیں میں نے تجسّس سے پوچھا۔ میں اپنا گھر بچانے کے لیے اس کے چہرے پر تیزاب پھینک دیتی۔ اس نے سپاٹ لہجے میں جواب دیا۔ یہ سن کر میری آنکھیں حیرت اور خوف سے پھیل گئیں۔ یہ بہت بڑا جرم ہوتا کیا آپ نے یہ سوچا تھا کہ اس کی پاداش میں آپ کو جیل ہوجاتی ہاں یہ سنگین جرم ہے۔ اس نے سر ہلایا۔ مجھے اس بات سے انکار نہیں۔ مجھے زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دو برس کی سزا ہوجاتی قید، جدائی کے جہنم سے بہتر ہوتی۔ اچھا پھر آپ نے شادی کے بعد کیا کیا کیا اس دوسری شادی کو قبول کرکے حالات سے سمجھوتہ کرلیا میں نے پوچھا۔ جی جنگ اور محبت میں ہر چیز جائز ہوتی ہے۔ وہ بولی۔ مجھے اطلاع ملی تھی کہ میرے شوہر نے حیدرآباد میں چوری چھپے شادی کرلی ہے۔ میں وہاں گئی تھی کہ اس کے منہ پر تھوکوں گی لیکن وہ مجھے نہیں ملی، اپنے کسی رشتے دار کے ہاں جاکر چھپ گئی۔ اُسے کسی نے میری کراچی سے روانگی کی اطلاع دے دی تھی۔ بے وفا، بے غیرت شوہر سے ملاقات ہوئی۔ اس نے کہا کہ میں تمہیں طلاق نہیں دوں گا، تم اسی گھر میں رہو گی لیکن اگر تم طلاق لینے پر بضد ہو تو طلاق دے دوں گا۔ حق مہر میں مکان لکھ دوں گا۔ اس کی آواز بھرا گئی تھی۔ وہ بولتے بولتے رک گئی جیسے آواز حلق میں اٹک گئی ہو۔ پھر میں نے چند ثانیوں کے بعد اس سے پوچھا۔ آپ نے کیا سوچا کیا فیصلہ کیا طلاق کے بارے میں میں نے ایک تلخ اور حقیقت پسندانہ فیصلہ کیا ہے۔ اس نے ایک گہری سانس لی۔ میں نے اس سے کہہ دیا ہے کہ مجھے طلاق نہیں چاہیے۔ لیکن یہ حقیقت پسندانہ فیصلہ انتہائی کڑوا کسیلا ہے۔ اس کی کڑواہٹ آپ ساری زندگی برداشت کرتی رہیں گی۔ یہ سوچا آپ نے تھوڑی دیر پہلے آپ نے کہا تھا کہ عورت کو کوئی نہ کوئی دکھ سہنا پڑتا ہے۔ عورت کوئی نہ کوئی زہر پیتی رہتی ہے۔ اس لیے میں نے یہ زہر پینا پسند کرلیا۔ میں سب کچھ برداشت کرسکتی ہوں لیکن شوہر سے جدائی نہیں گو وہ ایک سرد مہر شوہر ثابت ہوگا لیکن مجھے اس کی کوئی پروا نہیں۔ لیکن میرے خیال میں آپ نے طلاق نہ لینے کا فیصلہ کرکے بڑی غلطی کی ہے۔ آپ نے اپنے پیروں پر کلہاڑی ماری ہے۔ اس میں غلطی کی کیا بات ہے اس نے ساکت پلکوں سے مجھے دیکھا۔ اس لیے کہ آپ جوان ہیں، خوبصورت بھی ہیں۔ مردوں کی تصوراتی عورت کی طرح میں یہ کہوں تو بے جا نہ ہوگا کہ آپ ہزاروں میں نہیں بلکہ لاکھوں میں ایک مثالی حسین عورت ہیں۔ آپ سے کوئی بھی آنکھ بند کرکے شادی کرسکتا ہے۔ میں نے جو کچھ کہا، اس میں مبالغہ یا دل رکھنے والی بات نہ تھی۔ میں نے یہ فیصلہ بڑے سوچ بچار اور حالات کو دیکھتے ہوئے کیا ہے اور جذباتی طور پر نہیں کیا۔ وہ کہنے لگی۔ اس طرح میرے سر پر ایک سائبان تو رہے گا۔ معاشرے میں عزت تو رہے گی۔ کیا معلوم کب اور کس وقت میرے شوہر کا اپنی دوسری بیوی سے دل بھر جائے اور وہ اُسے چھوڑ دے۔ نہ بھی چھوڑے، اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ آپ نے دیکھا ہوگا کہ معاشرے میں ایک مطلقہ عورت کی کوئی عزت نہیں ہوتی۔ وہ چاہے لاکھ حسین اور بلاکی پُرکشش کیوں نہ ہو، وہ داغ دار پھل کی طرح نظر آتی ہے۔ چاہے اس عورت کی کوئی غلطی نہ ہو اور پھر جب کسی مطلقہ عورت کی شادی ہوتی ہے تو ایسے مردوں سے ہوتی ہے جو بوڑھے اور بال بچے دار ہوتے ہیں۔ ان کے بچوں کو بھی پالو اور ان کے طعنے بھی سنو۔ اس کی حیثیت ایک نوکرانی سے بھی بدتر ہوتی ہے۔ میں ایسا ہرگز نہیں چاہتی۔ اس کی باتیں میرے دل کو لگیں جو سچ اور حقیقت پسندانہ تھیں۔ پھر میری نظروں میں جمیلہ، نسیم، شاداں اور شبانہ کے چہرے گھوم گئے جو مطلقہ تھیں اور ان کا شادی کے بعد کوئی عزت تھی، نہ مقام میں نے اپنے سینے میں ایک وحشت سی محسوس کی۔ میں نے لمحے بھر کے لیے سوچا۔ کل میری زندگی میں بھی ایک ایسا ہی وقت آنے والا ہے۔ خدانخواستہ وہ دن آیا تو کیا میں بھی یہی حقیقت پسندانہ اور دوراندیشی کا فیصلہ کروں گی کیا یہ فیصلہ درست ہوگا اس کا نام فرحانہ تھا۔ سفر کے دوران ہم دونوں ایک دوسرے سے اس قدر قریب آگئیں کہ جیسے جنم جنم کی ساتھی ہوں۔ وہ دل کی ساری بھڑاس نکال کر نارمل ہوگئی تھی۔ اب وہ ہنسنے، بولنے لگی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ کسی لڑکی کو محبت کی شادی ہرگز نہیں کرنی چاہیے۔ وہ جلد ہی جھاگ کی طرح بیٹھ جاتی ہے اور اپنی کشش کھو دیتی ہے۔ ایسی شادیوں کا انجام بڑا حسرت ناک ہوتا ہے۔ مجھے اس کی باتوں سے اتفاق تھا۔ میں نے اُسے اپنے دکھ کے بارے میں نہیں بتایا تھا۔ ہم دونوں کے درمیان آج کل کی لڑکیوں کی بے راہ روی، موبائل فون کا جنون، جو انہیں لیلیٰ مجنوں بنا رہا تھا اور وہ داغدار ہورہی تھیں اور آئے دن اخبارات میں گھر سے فرار کی شرمناک خبریں چھپ رہی تھیں، ان موضوعات پر کھل کر گفتگو ہوتی رہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ اس بُرائی میں فلموں، انٹرنیٹ اور موبائل فون سے زیادہ والدین کی کوتاہی اور غفلت کا زیادہ دخل ہے۔ وقت گزرنے کا احساس ہی نہ ہوسکا۔ ہم دونوں نے ایک دوسرے کے پتوں کا تبادلہ کیا۔ وہ واٹر پمپ کے بس اسٹاپ پر اُتر گئی۔ اُترنے سے قبل اس نے کہا۔ آپ کس قدر حسین، پُرکشش اور پیاری ہیں۔ ٹیکسی تیزی سے گھر کی جانب رواں دواں تھی۔ اس وقت میرے ذہن پر فرحانہ اور اس کی باتیں چھائی ہوئی تھیں۔ میں اس کے فیصلے کے بارے میں سنجیدگی اور گہرائی سے سوچ رہی تھی۔ بعض عورتیں شوہر کی خواہش کے باوجود دوسری بیوی بن کر رہنا پسند نہیں کرتیں۔ اس طرح ان کی تذلیل ہوتی ہے۔ کیونکہ شادی معاشرے کا ایک اہم اور سنگین مسئلہ ہے۔ ٭ ٭ ٭ اس وقت بڑا حبس تھا، ہوا بالکل بند تھی۔ لیکن مشرقی اُفق پر سیاہ گہرے بادل چھائے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ایک دو گھنٹے کے بعد موسلادھار بارش ہوسکتی ہے۔ بادل ہر طرف سے آسمان کو ڈھکنے کے لیے بڑھ رہے تھے۔ میں دو تین مہینے بعد اپنے میکے کچھ دن رہنے جاتی تھی۔ میرے شوہر کی جانب سے مجھے پندرہ دن رہنے کی اجازت تھی۔ میں جب بھی اپنے میکے سے لوٹتی، اس وقت مجھ پر ایک سرشاری سی طاری ہوتی تھی۔ یوں لگتا تھا جیسے شادی ہال سے رخصت ہوکر سسرال جارہی ہوں۔ لیکن آج اپنے گھر جاتے ہوئے میرے دل کے کسی کونے میں خوشی کی رمق تک نہ تھی۔ دل اندر سے بجھا بجھا تھا۔ میں اپنے آپ کو ٹوٹی ٹوٹی سی محسوس کررہی تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ ٹیکسی اسی طرح دوڑتی رہے، میرا گھر نہ آئے۔ جب میں گھر پہنچتی تھی تو ریاض میری آنکھوں میں جھانک کر کہتے تھے۔ آج تم بہت خوش دکھائی دیتی ہو۔ میں شرما کر سر جھکا لیتی۔ پھر ان سے کہتی۔ اتنے دنوں کے بعد جو گھر آئی ہوں تو کیا مجھے خوشی نہ ہوگی آپ کو دیکھنے کے لیے آنکھیں ترس رہی تھیں۔ یہ بات ہے۔ وہ قہقہہ مار کے ہنس پڑتے۔ تم پوری لیلیٰ ہوگئی ہو۔ تم سے پندرہ دنوں کی جدائی بھی برداشت نہیں ہوتی۔ آپ کے لیے بے شک یہ پندرہ دن ہوں گے مگر میرے لیے یہ دن، پندرہ صدیوں سے کم نہیں تھے۔ آپ کیا جانیں میری محبت کو۔ میں ٹیکسی سے اُتر کے پرس میں سے کرایہ نکالنے لگی تو ٹیکسی ڈرائیور نے ڈگی کھول کر میرا سوٹ کیس اور دستی بیگ نکال کر باہر رکھا تو بچوں نے سنبھال لیا۔ جب میں کرایہ دے چکی تو میرے بیٹے نے کہا۔ امی ابو گھر پر نہیں ہیں، دروازے پر تالا پڑا ہے۔ ایک چابی آپ کے پاس بھی ہے نا میں نے دروازے کی طرف دیکھا۔ اس پر تالا پڑا تھا۔ ویسے میرے علم میں یہ بات تھی کہ گھر مقفل ہوگا۔ میں نے کراچی واپسی کا پروگرام رات کو اچانک ہی بنا لیا تھا۔ مجھے میکے آئے ہوئے ابھی پانچ دن ہوئے تھے۔ جبکہ میں پندرہ دنوں کے لیے آئی تھی۔ نجانے کیوں میں ایک دن بھی اپنے میکے میں رہنا نہیں چاہتی تھی۔ جب سے میں یہاں آئی تھی میرے اندر ایک عجیب سی بے قراری اور سینے میں وحشت بھر گئی تھی۔ وسوسوں اور اندیشوں کے پھنکارتے ہوئے زہریلے سانپوں نے مجھے ڈسنا شروع کردیا تھا۔ میرا چین غارت ہوگیا تھا۔ مجھے ایک لمحے کو کسی پہلو چین نہیں تھا۔ رات جب میں نے واپسی کے بارے میں بتایا تو گھر والوں کو یقین نہیں آیا۔ انہیں بڑی حیرت ہوئی۔ ابو کو دکھ ہوا کیونکہ وہ مجھے بے انتہا چاہتے تھے۔ میں نے اپنی اچانک اور غیر متوقع روانگی کا بہانہ ڈھونڈ رکھا تھا جسے سن کر گھر والوں نے جانے کی اجازت دے دی تھی۔ میں ساری رات انگاروں پر لوٹتی رہی تھی۔ میں نے صبح ہوتے ہی جانے کی تیاری کرلی۔ ریاض کو دانستہ ٹیلیفون پر اطلاع نہیں دی تھی۔ اب ریاض میں پہلی جیسی بات نہیں رہی تھی۔ اگر میں انہیں اپنی آمد کی اطلاع دے بھی دیتی تو وہ مجھے لینے کے لیے بس اسٹاپ پر نہ آتے اور گھر بند ہی ملتا۔ چند برس پہلے تک تو وہ مجھے اور بچوں کو لینے بس اسٹاپ پر آجاتے تھے۔ اب انہیں میری واپسی کا انتظار نہیں رہتا تھا اور میں ان کی بیزاری محسوس کرنے لگی تھی چونکہ ہم دونوں کی شادی کو دس برس ہوگئے تھے۔ میں اب کوئی نوجوان لڑکی یا نئی نویلی دلہن نہیں رہی تھی۔ میں تینتیس برس کی عورت اور دو بچوں کی ماں تھی۔ اس عمر میں عورت کے شباب کا رنگ اُترنے لگتا ہے اور مرد غیر محسوس انداز سے اس سے دور ہوتا جاتا ہے۔ ایک رسمی سا تعلق رہ جاتا ہے جبکہ میں ان سے کچھ زیادہ ہی محبت کرنے لگی تھی۔ آج بھی میری چاہت میں سرد مہری نہیں گرم جوشی تھی۔ ان دس برسوں میں پہلی بار میں بغیر اطلاع دیئے میکے سے گھر آئی تھی۔ میرا میکہ حیدرآباد میں تھا۔ شادی کے بعد ایک ڈیڑھ برس تک میں ماں نہ بن سکی تھی۔ مجھے لینے کے لیے کوئی نہ کوئی میکے سے آجاتا تھا۔ لیکن چند دنوں بعد ہی وہ مجھے لینے کے لیے پہنچ جاتے تھے کیونکہ ان سے میری دوری برداشت نہ ہوپاتی تھی۔ جب میں دو بچوں کی ماں بن گئی۔ میرا بیٹا چھ برس کا اور بیٹی چار برس کی ہوگئی تو میں ان بچوں کے ہمراہ میکے چلی جاتی اور واپس بھی آجاتی۔ میرے اندر اعتماد پیدا ہوگیا تھا۔ دن کے سفر میں ڈر اور خوف کی کوئی بات نہیں تھی۔ بچوں کے ساتھ آنے جانے میں خود کو محفوظ سمجھتی تھی۔ گو بچے چھوٹے تھے مگر ان کی موجودگی سے مجھے ایک تحفظ کا سا احساس ہوتا تھا۔ پھر میں اس لمبے سفر کی عادی ہوگئی۔ گھر میں گھستے ہی بچے اپنے کمرے میں جاکر لیٹ گئے۔ کیونکہ ان کا سفر کی تھکان اور گرمی سے بُرا حال ہوگیا تھا۔ مگر گھر میں قدم رکھتے ہی مجھے ایک عجیب قسم کی وحشت اور تنہائی کا احساس ہوا۔ ایسا لگا کہ میں کسی ویرانے میں اکیلی کھڑی ہوں۔ گھر خالی خالی سا لگ رہا تھا۔ میں نے پہلے کبھی واپس آکر ایسا محسوس نہیں کیا تھا۔ میں نے سوچا کہ کیا ریاض کو دفتر ٹیلیفون کرکے اپنی آمد کی اطلاع دے دوں وہ میرے اتنی جلدی واپس آجانے پر خوشی کا اظہار کریں گے۔ پھر موسم بدل رہا تھا۔ سہانا ہوتا جارہا تھا اور ایک انجانی سی سرشاری محسوس ہونے لگی تھی۔ ایک دو گھنٹے کے بعد بارش ہوگی۔ ہم دونوں اور بچے بارش کا لطف لیں گے۔ میں گرم گرم پکوڑے بنائوںگی، جو ریاض کو بہت مرغوب ہیں۔ وہ کچے دھاگے سے بندھے فوراً چلے آئیں گے۔ لیکن میں نے دوسرے لمحے اپنا ارادہ بدل دیا کیونکہ میں جانتی تھی کہ اب پہلے جیسی بات نہیں رہی اور میں ان کی نظر میں جیسے بے کشش ہوگئی تھی۔ انہیں میرے اس قدر جلد اور اچانک واپس آنے پر خوشی اور حیرانی سے زیادہ غصہ آئے گا۔ میں نے سوچا کہ پہلے نہا لوں لیکن گھر کی حالت دیکھ کر نہانے کا ارادہ ترک کردیا۔کیونکہ گھر کا نقشہ ہی بدلا ہوا تھا۔ تین چار دن میں اس گھر کی جو حالت ہوئی تھی اس کا یقین نہیں آیا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا گھر جیسے تین چار ماہ سے بند پڑا ہو۔ میں نے ماسی نہیں رکھی تھی۔ میں اپنے گھر کا سارا کام خود ہی کرتی تھی۔ میں کام کی عادی ہوچکی تھی۔ اس لیے کسی ملازم کی محتاجی محسوس نہیں ہوتی تھی۔ میں چاق و چوبند رہتی اور وقت ایسا کٹتا کہ پتا ہی نہیں چلتا تھا۔ ریاض بہت بے پروا طبیعت کے مالک تھے، وہ پانی تک اٹھ کر نہیں پیتے تھے۔ ان کا مزاج افسرانہ تھا۔ انہیں میرے کام کی تکلیف اور مصروفیت کا احساس تک نہیں ہوتا تھا۔ انہوں نے کبھی بھولے سے بھی میرے کسی کام میں ہاتھ نہیں بٹایا تھا جیسے میں کوئی ملازمہ ہوں بیوی نہیں۔ وہ گھر میں بھی کسی سرکاری افسر کی طرح رہتے تھے۔ شوہر معلوم نہیں ہوتے تھے۔ گریڈ بڑھتے ہی ان کا مزاج ساتویں آسمان پر جا پہنچا تھا۔ میں گھر کی صفائی میں لگ گئی۔ ایک ڈیڑھ گھنٹے میں، میں نے گھر کا نقشہ ہی بدل کر رکھ دیا۔ گھر آئینے کی طرح چمک اٹھا۔ پھر میں نے بچوں کو جگا کر کھانا کھلایا جو امی نے ساتھ کردیا تھا۔ بریانی، شامی کباب، چکن کڑاہی اور روغنی روٹیاں تھیں۔ بچے کھانا کھا کر پھر سو گئے کیونکہ ان کی نیند پوری نہیں ہوئی تھی۔ میں خواب گاہ میں آئی، سنگھار میز کے سامنے کھڑے ہوکر میں نے اپنے آپ کو دیکھا۔ گھر کی صفائی کرتے ہوئے میں بھوت بن گئی تھی۔ میں نے سوچا کہ فوراً نہا لینا چاہیے۔ گرمی میں اضافہ ہوگیا تھا لیکن بارش ہونے کا نام نہیں لے رہی تھی۔ میں غسل خانے میں گھس گئی، بیس منٹ نہانے میں صرف کرکے نکلی تو موسم کی تبدیلی کا احساس ہوا۔ باہر گھپ اندھیرا چھا گیا تھا۔ ابھی سہ پہر کا ہی وقت تھا لیکن آدھی رات کا گمان ہونے لگا تھا۔ تیز ہوا کے جھکڑ چل رہے تھے، طوفان آیا ہوا تھا۔ میں نے کھڑکی کے پاس جاکر باہر جھانکا۔ آسمان کالے کالے بادلوں سے ڈھک گیا تھا۔ مشرقی اُفق پر سرخ آندھی اُٹھتی ہوئی نظر آئی تھی۔ میں نے جلدی جلدی کمروں کی کھڑکیاں اور دروازے بند کئے۔ چند لمحوں کے بعد آسمان پر چھائے ہوئے بادلوں میں بجلیاں کوندنے لگیں۔ ان کی دھمک سے فضا اور زمین لرزنے لگی۔ پھر موسلادھار بارش شروع ہوگئی۔ میری زندگی میں ایک ایسا ہی طوفان آنے کے لیے پر تول رہا تھا، باہر جیسا گھپ اندھیرا میرے وجود میں تھا۔ میں اپنے بال ڈرائیر سے خشک کرکے کھڑکی کے پاس آکھڑی ہوئی۔ بالوں میں برش پھیرتے ہوئے میں نے پردے کا کونا ذرا سا ہٹا کے باہر جھانکا۔ بارش لمحہ بہ لمحہ تیز ہوتی جارہی تھی۔ اس چانک بارش کی وجہ سے گرمی اور حبس سے نجات مل گئی تھی۔ موسم خوشگوار ہوگیا تھا، ہوا میں خنکی سی تھی جو خوابیدہ سپنے جگا رہی تھی۔ مجھے ریاض کی یاد ستانے لگی۔ اس وقت وہ گھر میں ہوتے تو کتنا اچھا ہوتا۔ پھر میں نے کمرے کا دروازہ بند کرکے آئینے میں اپنے آپ کو ناقدانہ نظروں سے دیکھا۔ میں کوئی موٹی، بھدی اور بے کشش نہیں ہوگئی تھی۔ میں دو بچوں کی ماں بھی نہیں لگتی تھی۔ میں نے اپنی جوانی کو متاثر نہیں ہونے دیا تھاکہ کہیں میرا شوہر مجھ میں دلچسپی لینا بند کردے۔ لیکن یک لخت اس روز کا خیال آتے ہی میں نے اپنے سینے میں ایک خنجر سا اُترتا محسوس کیا۔ میں نے ریاض کے پرس میں ایک نوجوان لڑکی کی تصویر دیکھی تھی۔ یہ چھ سات مہینے پہلے کی بات تھی۔ ریاض نہا رہے تھے۔ میرے پاس سبزی والے کو دینے کے لیے دس روپے کا نوٹ نہیں تھا، سو روپے کا تھا۔ سبزی والے کے پاس کھلا نہیں تھا۔ میں نے دس روپے لینے کے لیے ریاض کی پتلون کی جیب سے بٹوا نکالا۔ بٹوا کھولتے ہی مجھے ایسا لگا کہ اس کے اندر کوئی زہریلی ناگن چھپی بیٹھی ہے جو مجھے دیکھ کر پھنکار رہی ہے کہ اب میں نہ صرف تمہیں بلکہ تمہارے بچوں کو بھی ڈس لوں گی میرا کاٹا پانی نہیں مانگتا ہے۔ وہ ناگن بڑی حسین و جمیل تھی۔ وہ بیس برس سے کم کی ہی لگ رہی تھی۔ خدوخال تیکھے اور بے ساختہ دل میں اُتر جانے والے تھے۔ اس پر جوانی ٹوٹ کر برس رہی تھی۔ میں نے دس روپے کا نوٹ نکال کر بٹوا فوراً ہی واپس جیب میں رکھ دیا جیسے وہ انگارہ ہو۔ سبزی والے کو پیسے دے کر اندر آئی۔ دروازہ بند کرکے ٹیک لگا کر کھڑی ہوگئی۔ میرے سینے میں سانس دھونکنی کی طرح چل رہی تھی۔ یوں لگ رہا تھا جیسے کوئی بھونچال آگیا ہے۔ زمین لرز رہی ہے، سارا گھر گھوم رہا ہے۔ اب مجھ پر یہ انکشاف ہوا تھا کہ ان کی محبت میں سرد مہری کیوں آگئی ہے مجھ سے قریب ہوکر بھی دور کیوں ہیں بستر پر دراز ہوتے ہی اجنبی کیوں بن جاتے ہیں۔ اتوار کا دن باہر کیوں گزارتے ہیں۔ میں نے ایک لمحے کے لیے سوچا کہ ریاض کا گریبان پکڑ کے پوچھوں کہ یہ ڈائن کون ہے یہ میرا حق تھا، میں ان کی بیوی تھی۔ اس گھر کی مالکن تھی۔ میں اپنے گھر اور بچوں کو تباہ ہوتے ہوئے دیکھ نہیں سکتی تھی۔ پھر میں نے سوچا۔ یہ موقع نہیں ہے۔ مناسب وقت نہیں ہے۔ رات کے وقت جب بچے سو جائیں گے تب میں ان سے بات کروں گی۔ پوچھوں گی کہ یہ ڈائن کون ہے جس کی تصویر آپ کے بٹوے میں ہے۔ لیکن میں نے ریاض سے اس لڑکی کے بارے میں کبھی نہیں پوچھا اور نہ ان پر ظاہر ہونے دیا کہ میں جان چکی ہوں کہ وہ کسی لڑکی میں دلچسپی لے رہے ہیں۔ میرے سینے میں خلش کا جو خنجر پیوست ہوگیا تھا، اُسے میں باوجود کوشش کے نکال نہ سکی تھی۔ یہ خنجر وہ خود ہی نکال سکتے تھے۔ وہ اس لڑکی کی تصویر اب بھی اپنے بٹوے میں لیے پھر رہے تھے۔ میں نے ایک دو مرتبہ حوصلہ کیا کہ ان سے اس لڑکی کے بارے میں پوچھوں مگر ہمت نہ ہوئی۔ میں ریاض سے دانستہ اس لڑکی کے بارے میں پوچھنے سے گریز کرتی چلی آرہی تھی۔ اگر میں ان سے پوچھ لیتی تو جلتی پر تیل گر جاتا۔ میں نے انجان بنے رہنے میں ہی بہتری سمجھی۔ میں یہ دیکھنا چاہتی تھی کہ کیا ریاض مجھے اس لڑکی کے بارے میں بتائیں گے میرے پوچھنے پر شاید وہ ڈھیٹ بن جائیں۔ پھر ان کے لیے ایک دروازہ کھل جاتا، کوئی راستہ مل جاتا۔ کچھ دیر کے بعد بارش تھم گئی۔ میں نے چند لقمے زہر مار کئے۔ جب برتن دھو رہی تھی تو پھر سے بارش شروع ہوگئی۔ میں کام ختم کرکے نشست گاہ میں آگئی کہ شاید اس سہانے موسم کی وجہ سے ریاض گھر آجائیں۔ تھوڑی دیر بعد اطلاعی گھنٹی بجی تو میں دروازے کی طرف لپک گئی۔ اس طرح جس طرح شادی کے بعد لپکتی تھی۔ دروازے کے پاس پہنچتے ہی خیال آیا کہ ریاض تو گاڑی میں آتے ہیں اور ہارن بجاتے ہیں پھر اس وقت بارش میں بھیگتا ہوا کون آیا ہوگا میں نے دروازے کے پاس پہنچ کر اونچی آواز میں پوچھا۔ کون ہے جی میں ایک لڑکی ہوں۔ باہر سے ایک دلکش آواز آئی۔ کیا آپ مجھے بارش تھمنے تک اپنے ہاں پناہ دے سکتی ہیں پلیز میں نے بادل نخواستہ دروازہ کھول دیا۔ میری نظروں کے سامنے ایک غیر معمولی حسین لڑکی کھڑی تھی۔ اس کے چہرے پر بلا کی معصومیت تھی۔ میں نے نیم وا دروازے کی اوٹ سے لڑکی سے پوچھا۔ کیا آپ اکیلی ہیں یا آپ کے ساتھ کوئی اور بھی ہے میں نے باہر جھانکا۔ مجھے اندھیرے میں اس کے سوا کوئی اور دکھائی نہیں دیا۔ جی میں اکیلی ہوں۔ اس نے مترنم لہجے میں جواب دیا۔ میں کچھ دیر کے لیے آپ کو زحمت دینا چاہتی ہوں۔ آپ خیال نہ کریں تو اندر آجائوں میں نے اس کے بشرے سے محسوس کیا کہ وہ کچھ پریشان اور نروس سی لگ رہی ہے۔ میں سمجھ گئی کہ وہ گھر میں مردوں کی موجودگی کے خیال سے متفکر ہورہی تھی۔ میں نے لڑکی کے قریب ہوکر کہا۔ آپ میرے گھر میں بڑے سکون اور اطمینان سے اس وقت تک بیٹھی رہیں جب تک بارش تھم نہیں جاتی گھر میں دو چھوٹے بچوں اور میرے سوا کوئی نہیں ہے۔ بچے اپنے کمرے میں سو رہے ہیں۔ میرے شوہردیر سے گھر آتے ہیں۔ دس، گیارہ بجے سے پہلے نہیں آئیں گے۔ لڑکی اندر آئی۔ میں نے روشنی میں اُسے دیکھا۔ لڑکی بارش میں بُری طرح بھیگی ہوئی تھی۔ اس کے نفاست سے ترشے ہوئے سیاہ بالوں سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔ میں نے ایک ہی نظر میں اس کے چہرے اور وضع قطع سے اندازہ کرلیا کہ لڑکی کا تعلق کسی اچھے گھرانے سے ہے اور وہ تعلیم یافتہ بھی ہے۔ اس کے اندر آنے کے بعد میں نے دروازہ بند کرکے کہا۔ آپ کے کپڑے بہت زیادہ بھیگ چکے ہیں۔ آپ ایسا کیجئے کہ میرے کپڑے پہن لیں۔ جتنی دیر میں بارش تھمے گی، آپ کے کپڑے بھی سوکھ جائیں گے۔ جی جی نہیں میرے کپڑے زیادہ گیلے نہیں ہوئے ہیں۔ وہ اپنے لباس پر ایک نظر ڈال کر انکساری سے بولی۔ پلیز آپ تکلیف نہ کریں۔ میں بالکل ٹھیک ہوں۔ لڑکی کے اس تکلف کے باوجود میں نے اپنا ایک جوڑا اُسے دیا۔ لڑکی غسل خانے میں جاکر نہ صرف اپنے بال خشک کرکے آئی بلکہ اپنے گیلے کپڑے بھی بدل آئی۔ میں نے اس کے کپڑے کھانے کی میز پر پھیلا کر ٹیبل فین پوری رفتار سے چلا دیا۔ پھر میں نے ایک رسالہ اس کی طرف بڑھاتے ہوئے کہا۔ آپ آرام سے بیٹھ کر پڑھیں، میں کافی بنا کر لے آتی ہوں۔ ویسے اس وقت بلیک کافی مل سکتی ہے کیونکہ گھر میں دودھ نہیں ہے۔ آپ کے اس خلوص کا بہت شکریہ لڑکی رسالہ گود میں رکھ کر ممنونیت سے بولی۔ آپ بہت زیادہ تکلف سے کام لے رہی ہیں۔ میں زیرِ لب مسکراتی ہوئی باورچی خانے میں داخل ہوگئی۔ جلدی سے کافی بنائی اور نمکو ٹرے میں رکھ کر نشست گاہ میں پہنچی تو لڑکی کوئی کہانی بڑی محویت سے پڑھ رہی تھی۔ جب ہم دونوں کافی پینے لگیں تو میں نے اس سے پوچھا۔ کیا آپ کسی رشتے دار سے ملنے آئی ہیں رشتے دار جی نہیں۔ لڑکی کا چہرہ کسی انجانے خیال سے دمک اٹھا۔ میں ٹیکسی سے اُتر کے ایک صاحب کا پتا تلاش کررہی تھی کہ ایک دم بارش شروع ہوگئی۔ میں نے ایک قریبی دکان میں پناہ لی۔ جب تھوڑی دیر کے بعد بارش تھم گئی تو پھر ان کا پتا تلاش کرنے لگی۔ دو تین اُوباش قسم کے لڑکے میرے تعاقب میں لگ گئے۔ میری سمجھ میں نہیں آیا کیا کروں بارش کی وجہ سے سناٹا چھا گیا تھا اور گلیوں میں ایک بچہ بھی موجود نہیں تھا۔ راستے میں ایسا کوئی مکان دکھائی نہیں دیا کہ اس کا دروازہ کھٹکھٹائوں۔ پھر میں نے آپ کے گھر کا احاطہ بغیر گیٹ کے دیکھا تو آپ کے گھر کا دروازہ کھٹکھٹا دیا۔ آپ کو زحمت دی، میں بہت شرمندہ ہوں۔ آپ کا نام کیا ہے میں نے اس کی طرف چپس کی پلیٹ بڑھاتے ہوئے پوچھا۔ کیا آپ زیرِ تعلیم ہیں میرا نام شازیہ رفیق ہے۔ لڑکی نے جواب دیا۔ میں ایک معروف دواساز کمپنی میں ملازمت کرتی ہوں۔ آج ہفتہ ہونے کی وجہ سے میرے دفتر کی چھٹی ہے۔ تو کیا آپ یہاں کسی عزیز کا پتا تلاش کررہی تھیں میں نے اس کے چہرے پر نظریں مرکوز کرکے پوچھا۔ اس کے چہرے پر حیا، سرخی بن کر دوڑ گئی جس نے اس کے چہرے کے حُسن کو مزید نکھار دیا۔ اس نے اپنی نگاہیں اس طرح نیچی کرلیں جیسے کسی مرد کی محبت بھری نگاہیں اس کے چہرے پر مرکوز ہوگئی ہوں اور کانوں میں پیار بھرے الفاظ نے رس گھول دیا ہو۔ اس نے اپنی حیا آلود پلکیں اوپر اٹھا کے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ آپ انہیں عزیز ہی سمجھ لیں۔ وہ میرے بہت دور کے کزن ہوتے ہیں۔ لڑکی کے چہرے پر پھر حیا چھا گئی۔ اس نے اپنا جملہ ادھورا چھوڑ دیا تھا جیسے یہ جملہ غیر ارادی طور پر اس کی زبان سے نکل گیا ہو۔ اوہ کیا آپ محبت کی شادی کررہی ہیں میں نے اس کی کیفیت بھانپتے ہوئے پوچھا۔ جی ہاں لڑکی نے جو اپنی پلکیں نیچی کرلی تھیں، اوپر اٹھا کر مجھے دیکھا۔ میں نے اس کی بڑی بڑی آنکھوں میں محبت کے ان گنت دیئے جلتے ہوئے محسوس کیے۔ آپ کا اندازہ درست ہے۔ کیا وہ اسی محلے میں رہتے ہیں میں نے اس کی طرف حیرت سے دیکھا۔ وہ آپ کے کزن ہیں اور آپ ان کا گھر نہیں جانتی ہیں میرے گھر والوں کے تعلقات ان سے برسوں سے کشیدہ تھے بلکہ آج بھی ہیں۔ انہوں نے دو ماہ پیشتر اس محلے میں نیا مکان لیا ہے۔ تو گویا آپ ان سے شادی اپنے والدین کی مرضی کے بغیر کررہی ہیں میں بولی۔ جی ہاں۔ لڑکی نے اثبات میں سر ہلایا۔ میرے والدین چونکہ بڑے تنگ نظر اور دقیانوسی خیالات کے ہیں۔ اس لیے میں ان کی اجازت کے بغیر شادی کررہی ہوں۔ مجھے آپ کے انتخاب، گھر کے ماحول اور والدین کے بارے میں کچھ نہیں معلوم۔ میں ناصحانہ انداز میں کہنے لگی۔ مگر میں اتنا ضرور جانتی ہوں کہ والدین اپنی اولاد کی بہتری کے لیے سوچتے ہیں۔ وہ چاہتے ہیں کہ ان کی لڑکی کسی ایسے گھر میں بہو بن کر جائے جہاں وہ اپنی ساری زندگی خوشیوں سے بھرپور گزارے۔ ان کی نیت بالکل صاف اور بے لوث جذبے سے پُر ہوتی ہے۔ ایسی لڑکیاں جو ماں، باپ کی مرضی سے شادی کرتی ہیں، سدا خوش رہتی ہیں۔ یہ بات کہتے ہوئے میرے دل میں دکھ کی لہر اٹھی کہ میں کون سی خوش ہوں۔ مجھے آپ کی اس بات سے انکار نہیں۔ لڑکی نے سر ہلایا۔ میرے والدین میری شادی ایک ایسے لڑکے سے کرنا چاہتے ہیں جو ایک بینک میں سیکنڈ آفیسر ہے، جبکہ میرا آئیڈیل کچھ اور ہے۔ کم ازکم وہ شخص انجینئر، ڈاکٹر یا کوئی افسر ہو یا پھر کسی کمپنی میں ایم ڈی ہو۔ آج کل لڑکیوں نے آئیڈیل کے پیچھے اندھادھند بھاگ کر اپنی زندگیاں تباہ کرلی ہیں۔ میں بولی۔ میں ایسی بہت ساری لڑکیوں کو جانتی ہوں جو اپنے آئیڈیل سے شادی کرکے پچھتا رہی ہیں۔ خوابوں اور عملی زندگی میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تمام مرد ایک جیسے نہیں ہوتے۔ لڑکی نے اپنا دفاع کیا۔ میری دو سہیلیاں اپنے آئیڈیل مردوں سے شادی کرکے بہت خوش ہیں۔ آپ کے کزن کا کیا نام ہے میں نے پوچھا۔ شاید ان کا نام میں نے سنا ہو۔ کیونکہ میں اس محلے میں دس گیارہ برسوں سے رہ رہی ہوں۔ ان کا نام ریاض احمد ہے۔ وہ ایک اعلیٰ سرکاری افسر ہیں اور بہت جلد ملازمت چھوڑ کر ایک ملٹی نیشنل کمپنی میں ایم ڈی کے عہدے پر فائز ہونے والے ہیں۔ ریاض احمد مجھ پر جیسے بجلی سی گری۔ میں سُن سی ہوگئی۔ میری رگوں میں لہو منجمد ہونے لگا۔ پھر مجھے دفعتاً یاد آیا کہ میں نے ان کے پرس میں جو تصویر دیکھی تھی وہ اسی لڑکی کی تھی۔ میں نے اس تصویر کو صرف ایک نظر دیکھا تھا، اس لیے اس کا چہرہ ذہن میں نہیں رہا تھا۔ تصویر پاسپورٹ سائز کی تھی اسی لیے پوری طرح اندازہ نہ ہوسکا کہ یہ لڑکی کیسی ہے۔ یہ لڑکی نہیں بلکہ قیامت تھی۔ معلوم نہیں کیسے ریاض کی اسیر ہوگئی تھی۔ لڑکی مجھے سکتے کی کیفیت میں پا کر حیرت سے دیکھ رہی تھی۔ شاید وہ میرا بشرہ بھانپنے کی کوشش کررہی تھی۔ اس نے پوچھا۔ کیا آپ انہیں جانتی ہیں میرے لیے یہ بات غیر متوقع تھی۔ اس لیے میں نے جلدی سے خود پر قابو پا کر کہا۔ جی ہاں اتفاق سے میں انہیں بہت قریب سے جانتی ہوں مگر وہ تو شادی شدہ ہیں اور دو بچوں کے باپ بھی ہیں۔ کیا یہ بات آپ کو ریاض صاحب نے بتائی ہے جی ہاں یہ بات میرے علم میں ہے۔ انہوں نے مجھے سب کچھ صاف صاف بتا دیا تھا۔ مجھ سے کوئی بات نہیں چھپائی۔ وہ بڑے اطمینان سے بولی۔ آپ ان کے بارے میں سب کچھ جانتے بوجھتے بھی آنکھیں بند کرکے کنویں میں چھلانگ لگا رہی ہیں میں نے تحیر زدہ لہجے میں کہا۔ ایک شادی شدہ مرد سے شادی کررہی ہیں آخر اس میں حرج ہی کیا ہے لڑکی میں ذرا بھی جھجک نہیں تھی اور نہ کوئی تذبذب تھا۔ حرج کیوں نہیں ہے۔ مرد دوسری شادی کرنے کے بعد تقسیم ہوکر رہ جاتا ہے۔ ان دونوں بیویوں میں سے پوری طرح کسی ایک کا ہوکر نہیں رہتا۔ اگر آپ بیگم ریاض خان کو یہ بات نہ بتانے کا وعدہ کریں تو میں آپ کو راز کی ایک بات بتائوں۔ پلیز آپ اپنے تک ہی رکھیں۔ اس نے التجا کے سے انداز میں کہا۔ آپ مجھ پر پورا پورا بھروسہ کرسکتی ہیں۔ آپ کے اور میرے درمیان جو گفتگو ہورہی ہے، اس کی بھنک اس کے تو کیا میرے شوہر کے کان میں تک نہیں پڑے گی۔ ریاض نے مجھ سے وعدہ کیا ہے کہ وہ شادی کرنے کے بعد اپنی بیوی کو طلاق دے دیں گے کیونکہ ایک نیام میں دو تلواریں نہیں رہ سکتی ہیں۔ طلاق کا سن کر میں اس طرح اُچھل پڑی جیسے مجھے دہکتے انگاروں پر پھینک دیا گیا ہو۔ میں سناٹے میں آگئی، میرا دل اس بُری طرح دھڑکنے لگا جیسے سینہ شق کرکے نکل آئے گا۔ مجھے ایسا محسوس ہوا کہ میری حالت غیر ہورہی ہے اور میں فرش پر گر پڑوں گی۔ میں نے خود کو بہ دِقّت سنبھالا اور ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولی۔ بالفرضِ محال وہ اپنی بیوی کو طلاق دے دیتے ہیں لیکن کیا آپ نے اس بات کو نوٹ کیا کہ آپ کی اور ان کی عمروں میں کتنا فرق ہے وہ زیادہ عمر کے تو نہیں معلوم ہوتے میں نے ان سے کبھی ان کی عمر نہیں پوچھی ویسے میرا اندازہ ہے کہ ان کی عمر تیس اور چھتیس برس کے درمیان ہوگی۔ ان کی عمر چھتیس برس نہیں بلکہ اڑتالیس برس ہے چونکہ وہ وجیہ، دراز قد، اسمارٹ اور خوش پوش شخص ہیں۔ اس لیے ان کی صحیح عمر کا اندازہ نہیں ہوتا۔ ان کی عمر کے بارے میں اکثر لوگ دھوکا کھا جاتے ہیں خصوصاً عورتیں ایسا لگتا ہے کہ آپ انہیں بہت قریب سے جانتی ہیں وہ اپنی پلکیں جھپکاتی ہوئی بولی۔ جی ہاں کچھ زیادہ ہی قریب سے۔ میرا لہجہ نیزے کی طرح چبھتا ہوا سا تھا۔ سینے میں حسد کی آگ بھڑک اٹھی تھی۔ دراصل ان کی بیوی میری بچپن کی دوست ہے ۔ ریاض احمد کا مکان پچھلی گلی میں ہے۔ وہ تقریباً روز ہی مجھ سے ملنے آتی ہے۔ شاید میں ان کی اچھی صحت اور چھریرے بدن کی وجہ سے دھوکا کھاتی رہی ہوں۔ لیکن عمروں کے فرق سے کیا ہوتا ہے۔ محبت میں یہ کہاں دیکھا جاتا ہے۔ مگر ایک سمجھدار اور نوجوان لڑکی کو صرف عملی زندگی میں ہی نہیں بلکہ محبت کے معاملے میں بھی پھونک پھونک کر قدم رکھنا چاہیے۔ اگر پڑھی لکھی لڑکی حقیقت پسند نہ ہو تو وہ ساری زندگی پچھتاتی رہے گی۔ میرے اندازے کے مطابق آپ کی عمر بیس برس سے زیادہ نہیں ہوگی۔ کیوں میں نے سانس لینے کے لیے توقف کیا۔ لڑکی نے سر ہلا کر میرے اندازے کی توثیق کی۔ پھر میں نے اپنی بات جاری رکھی۔ اگر آپ کی عمر پورے بیس برس ہے تو آپ سے ریاض پورے اٹھائیس برس بڑے ہیں۔ آپ کی زندگی، حُسن اور جوانی کا سب سے خوبصورت دور یہی ہے۔ جبکہ ریاض ایک ایسی پُرشکوہ اور عظیم الشان عمارت ہے جو اندر سے کھوکھلی ہے۔ دس برس کے بعد وہ آپ کے شوہر نہیں باپ معلوم ہوں گے ان کے سر کے بال سفید ہورہے ہوں گے، دانت بھی گر رہے ہوں گے۔ ان کی محبت اور جذبات میں وہ گرم جوشی جس کی ضرورت ایک عورت محسوس کرتی ہے وہ نہ ہوگی۔ دس برس کے بعد آپ میں ایک عورت کی حقیقی آرزوئوں کا ہی نہیں بلکہ پُرجوش محبت کا آغاز ہوگا۔ پھر ان کے پاس وہ عہدہ، وہ حیثیت اور شان و شوکت نہ ہوگی۔ وہ خواب نہ ہوں گے جو آپ آج دیکھ رہی ہیں۔ پھر آپ کو یہ گھر چلانے کے لیے اپنے کندھوں پر یہ بوجھ اٹھانا ہوگا۔ آپ نے یہ سب کچھ سوچنے کی کبھی کوشش کی لڑکی میری ہر بات بڑے غور سے سن رہی تھی۔ میں نے اس کے بشرے کے بدلتے تاثرات سے محسوس کیا کہ میرا ایک ایک لفظ جیسے اس کے دل کی گہرائیوں میں اُترتا جارہا ہے۔ اس نے جیسے پہلے کبھی اس پہلو پر سوچا نہ تھا۔ وہ اپنی جگہ بے حس و حرکت سی ہوگئی تھی۔ میں نے اُسے گنگ پا کر پوچھا۔ کیا میں نے غلط کہا ہے لڑکی چونک کر سوچوں کی دنیا سے نکل آئی۔ اس نے نفی میں اپنا سر ہلایا اور بولی۔ میں نے تصویر کا دوسرارخ کبھی نہیں دیکھا اور نہ کچھ سوچنے کی کوشش کی سچ پوچھیے تو میں ریاض پر مر مٹی ہوں ان کی شخصیت ہی ایسی دلکش ہے آپ میرے اس خیال سے اتفاق کریں گی۔ آپ سچ کہتی ہیں ریاض احمد واقعی کہانیوں کے شہزادے کی طرح ہیں۔ لڑکیوں کے تصوراتی محبوب جس کی وہ تمنا کرتی اور سپنے دیکھتی ہیں۔ وہ آج بھی جوان معلوم ہوتے ہیں لیکن یہ سب چیزیں عارضی ہیں۔ حُسن و جوانی ڈھلنے والی چیزیں ہوتی ہیں۔ میں نے بولتے بولتے ایک لمحے کے لیے توقف کیا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکا۔ ریاض کے نام پر جو دیئے جل اٹھے تھے، وہ اب ایک ایک کرکے بجھ رہے تھے۔ اس کے حسین چہرے پر ایک کرب سا چھا گیا تھا۔ اس کی آنکھوں میں حزن و ملال تھا۔ میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا۔ آپ نے کبھی ریاض سے پوچھا کہ وہ برسوں سے بسا بسایا گھر کیوں اُجاڑ رہے ہیں بیوی، بچوں کو کس بات کی سزا دے رہے ہیں جی ایک بار پوچھا تھا۔ لڑکی نے جواب دیا۔ انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ ان کے والدین نے ایک ایسی عورت سے زبردستی شادی کردی جو نہ صرف پھوہڑ اور جاہل ہے بلکہ بد زبان اور بد مزاج بھی ہے۔ اس عورت نے گھر جہنم بنا کر رکھ دیا ہے۔ میری زندگی عذاب بن کر رہ گئی ہے۔ انہیں دس گیارہ برسوں کے بعد اس کا خیال آیا وہ اتنے برسوں تک اپنی بیوی کو برداشت کرتے رہے اور عذاب جھیلتے رہے تو کیا آپ کے خیال میں ریاض نے اپنی بیوی کے بارے میں مجھ سے غلط بیانی کی ہے اس میں کوئی صداقت نہیں ہے لڑکی نے حیرانی سے دریافت کیا۔ جی ہاں۔ میں کہنے لگی۔ ان کی بیوی گریجویٹ ہے اور ایک اعلیٰ خاندان سے تعلق رکھتی ہے۔ سلیقہ شعار ہے۔ خوبصورت اور پُرکشش ہے۔ شائستہ اور نفیس مزاج کی ہے۔ اس نے اپنے گھر کو جنت کا نمونہ بنا رکھا ہے اگر آپ کو میری بات کا یقین نہیں ہے تو بارش رکنے کے بعد میرے ساتھ اس کے ہاں چلیں، اس سے ملیں، اس کے گھر کو دیکھیں۔ اگر اُسے یہ بتا دیا جائے کہ آپ اس کے شوہر کی ہونے والی دوسری بیوی ہیں تو اس کی پیشانی پر بل تک نہیں آئے گا۔ وہ نہ صرف آپ سے کھلے دل بلکہ خندہ پیشانی سے ملے گی۔ کیا آپ چلیں گی میرے ساتھ اس سے ملنے کے لیے جی نہیں۔ اس کی پیشانی عرق آلود ہوگئی تھی۔ ریاض نے مجھ سے اس قدر دروغ گوئی کیوں کی کس لیے کی یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ اس لیے کہ مرد کی ذات کسی ناگ سے کم نہیں ہوتی وہ پرائی لڑکیوں اور عورتوں کو محبت کا فریب دے کر ڈسنے سے کبھی نہیں چوکتا ہے۔ میری آنکھیں کھلتی جارہی ہیں۔ وہ بولی۔ آپ سے ملاقات نہ ہوتی تو میں راستہ بھول جاتی۔ کسی دلدل میں گر جاتی۔ آپ ریاض سے ملنے اس کے گھر کیوں جارہی تھیں میں نے اُسے ٹٹولا۔ انہوں نے آج مجھے تین بجے گھر پر ملنے کے لیے بلایا تھا تاکہ اطمینان سے بیٹھ کر شادی کا پروگرام بنا سکیں۔ ان کی بیوی حیدرآباد گئی ہوئی ہے۔ شادی سے پہلے میں اس گھر کو ایک نظر دیکھنا چاہتی تھی جہاں مجھے زندگی گزارنی تھی۔ ایک اتفاق نے مجھے آپ کے ہاں پہنچا دیا۔ کیا آپ یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریاض سے ملنے ان کے گھر جارہی تھیں کہ وہ اکیلے ہوں گے اتفاق سے آج ان کی بیوی اچانک حیدرآباد سے واپس آگئی ہے۔ اچھا ہوا آپ ان کے گھر نہیں پہنچیں۔ ریاض کو بیوی کی واپسی کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ میں نے کہا۔ اگر وہ مخلص ہوتے اور ان کی نیت میں فتور نہیں ہوتا تو وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق دے کر آپ کے لیے، اپنے لیے راستہ صاف کرتے وہ اپنی پہلی بیوی کو طلاق نہیں دے سکتے۔ کیوں طلاق نہیں دے سکتے انہوں نے مجھ سے کہا تھا کہ میں کھڑے کھڑے طلاق دے سکتا ہوں۔ اس لیے کہ ان کی بیوی کا خاندان بڑا با رسوخ ہے۔ پھر وہ اپنی بیوی، بچوں سے بہت محبت کرتے ہیں ایک شخص طویل رفاقت کے بعد اس سے اُکتاتا نہیں بلکہ اور قریب ہوجاتا ہے کیونکہ بیوی ہم مزاج اور ہم نفس بن جاتی ہے۔ پھر ریاض نے کس لیے مجھ سے شادی کا وعدہ کیا وہ افسردگی سے بولی۔ آپ خود سمجھتی ہیں کہ بھونرے کا کیا کام ہے مرد ایک بھونرا ہی تو ہوتا ہے۔ لڑکی یکلخت اٹھ کھڑی ہوئی۔ اس نے کھڑکی کا پٹ کھول کر باہر جھانکا پھر پٹ بند کرکے میرے پاس آئی اور بولی۔ بارش فی الحال تھم گئی ہے۔ ویسے آثار اچھے نہیں ہیں پھر شروع ہوسکتی ہے یہ سلسلہ شاید رات تک چلے۔ پھر اس نے میز سے کپڑے اٹھائے اور غسل خانے میں جاکر بدل آئی۔ رخصت ہوتے وقت ممنونیت سے بولی۔ آپ نے میری آنکھیں کھول کر مجھ پر جو احسان کیا ہے، میں اُسے زندگی بھر بھلا نہ سکوں گی۔ آپ مجھ پر ایک احسان اور کریں۔ رکشا یا ٹیکسی منگوا دیں۔ کہیں وہ اُوباش لڑکے باہر نہ کھڑے ہوں۔ اتفاق سے ایک رکشا گلی میں آکر رکا۔ میں نے اُسے اس میں سوار کرا دیا۔ میں اُسے اس وقت تک دیکھتی رہی جب تک وہ نظروں سے اوجھل نہیں ہوگئی۔ میں سوچ رہی تھی کہ احسان کس نے کیا احسان تو اس نے راستہ بھول کر مجھ پر اور میرے بچوں پر کیا اگر وہ راستہ نہ بھولتی تو پھر کیا ہوتا میں یہ سوچ کر لرزہ براندام ہوتی رہی میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے۔ یہ خوشی کے آنسو تھے۔ ختم شد
null
null
null
null
475
https://www.urduzone.net/sukoon-dil-ki-khatir-teen-auratien-teen-kahaniyan/
میرے شوہر اظہار ایک سرکاری آفیسر تھے۔ وہ انتہائی ایماندار اور فرض شناس اور اُصول پسند شخص تھے۔ ایمانداری ان کی گھٹی میں پڑی تھی، تبھی پریشان رہتے تھے کیونکہ ان کے باس رشوت کے بغیر کسی کا کام نہیں کرتے تھے۔ وہ اظہار کو بھی رشوت لینے پر مجبور کرتے۔ اظہار جیسے سچے، محنت کش کا رشتہ، دیانتداری کے ساتھ مضبوطی سے جڑا ہوا تھا لہٰذا وہ اپنے باس کو خوش نہ رکھ سکے۔ نتیجے میں ان کا ٹرانسفر کر دیا گیا۔ وہاں بھی حالات پہلے جیسے تھے۔ غرض ان کا کئی ایسی جگہوں پر ٹرانسفر کیا گیا جہاں کوئی جانا پسند نہیں کرتا تھا۔ ایک طویل عرصے کی جفاکشی کے بعد بھی ترقی نہ ہو سکی۔ آخرکار انہیں ایک ایسے کیس میں ملوث کر دیا گیا کہ جس کا ان سے کوئی واسطہ نہ تھا۔ یہ ایک غبن کا کیس تھا، وہ ان حالات کو زیادہ عرصہ نہ جھیل پائے، دل کے مریض ہوگئے۔ بالآخر ایک روز خالق حقیقی سے جا ملے۔ میرے شریک زندگی کو تو جلد دکھوں سے نجات مل گئی لیکن میرے بیٹے جو اپنے حصے کے دُکھ لینے والوں کی قطار میں لگ گئے تھے، اب ان کی باری آگئی۔ میرے دو ہی بیٹے تھے۔ اظہر اور اطہر۔ ان کے دامن میں بھی باپ نے ورثے میں ایمانداری کی دولت چھوڑی تھی۔ جس روز اظہار نے وفات پائی، گھر میں پھوٹی کوڑی نہ تھی۔ میں نے اپنی سونے کی دو چوڑیاں فروخت کر کے ان کے کفن دفن کا انتظام کیا۔باپ کی وفات کا یہ نقصان ہوا کہ میرے دونوں لڑکے تعلیم کی جنت سے نکلنے پر مجبور ہوگئے اور وقت نے ان کو زندگی کے میدانِ کارزار میں تہی دست دھکیل دیا۔ ایک روز میرے بڑے لڑکے نے چھوٹے سے کہا۔ اطہر تم تعلیم مت چھوڑو، محنت کرو اور آفیسر بنو میں نہیں بن سکتا۔ ہمارا باپ آفیسر تھا لیکن وہ بہت جلد ہمت ہار کر اس جہان سے چلا گیا۔ میں ایماندار آفیسر بن کر جلد مرنا نہیں چاہتا۔ چھوٹے بھائی کو دوبارہ اسکول میں داخل کروانے کے بعد اظہر گھر سے چلا گیا۔ وہ آٹھویں میں پڑھ رہا تھا جب نوکری کرنے گھر سے نکلا تھا۔ اس کی ملاقات لاری اڈّے پر ایک شخص نصر سے ہوئی۔ نصر ٹرک چلاتا تھا۔ اس کا کام ٹرکوں کے ذریعے تجارتی مال کو اِدھر سے اُدھر پہنچانا تھا۔ اظہر بھلا یہ کیوں کر جان پاتا کہ نصر کا اصل دھندا کیا ہے، اُسے تو بس نوکری چاہیے تھی اور نصر کو اپنے چھوٹے موٹے کاموں کے لیے ایک لڑکے کی ضرورت تھی۔نصر کافی کرخت اور ترش مزاج شخص تھا مگر آدم شناس تھا۔ اس نے پہلی نظر میں ہی اظہر کو منتخب کر لیا اور اپنے پاس ملازم رکھ لیا۔ میرا بیٹا اس شخص کے پاس پانچ برس رہا اور ان پانچ برسوں میں وہ اس کا ہر حکم نہایت فرمانبرداری سے بجا لایا۔ کام جو وہ ذمہ لگا دیتا، میرا بچہ محنت سے کرتا۔ یہاں تک کہ اس شخص کو یقین ہوگیا کہ کسی گڈری کا لعل اس کے ہاتھ لگ گیا ہے۔ اس نے اظہر سے کہا کہ تم کوئی ہنر سیکھ لو کیونکہ ہنرمند کبھی بھوکا نہیں مرتا، تم ڈرائیونگ سیکھ لو تاکہ میرے مال بردار ٹرک چلا سکو۔ اظہر نے نصر کے حکم کی تعمیل کی۔ اُسے ماں اور چھوٹے بھائی کے اخراجات بھی برداشت کرنے تھے، وہ نہیں جانتا تھا کہ نصر کس قسم کی تجارت کرتا ہے۔ بس اتنا جانتا تھا کہ وہ پھلوں کا تاجر ہے۔ پانچ سال گزر گئے۔ اظہر اب بیس برس کا ہو چکا تھا اور نصر کا سب سے معتبر ملازم تھا۔ مالک کے لاکھوں روپے اس کے پاس پڑے رہتے تھے۔ کبھی ایک پائی کا بھی ہیرپھیر نہیں کیا تھا۔ نصر کو اظہر پر اندھا اعتماد تھا۔ وہ جانتا تھا کہ اگر وہ لاکھوں دے کر بھول جائے، تب بھی اظہر ایک روپے کی خیانت کا مرتکب نہ ہوگا۔ ایسے ملازم خوش قسمت لوگوں کو ہی ملتے ہیں۔ اظہر بھی نصر کے مان کو عزیز رکھتا تھا۔ ایک یہی ورثہ تو اس کو اس کے باپ سے ملا تھا کہ ہر حال میں دیانتداری کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا ہے۔ نصر کی ایک بیٹی تھی۔ رخشندہ نام تھا۔ وہ اُسے بہت عزیز تھی۔ وہ اس کی شادی کسی اچھے انسان سے کرنا چاہتا تھا۔ اظہر سے اُسے اب ایسی محبت ہوگئی تھی جیسے کسی باپ کو اپنی اولاد سے ہوتی ہے۔ دس برس کے طویل عرصے میں اُسے اس لڑکے کی تمام عادات و خصائل کا علم ہوچکا تھا۔ بلاشبہ اظہر کی رگوں میں ایک شریف باپ کا خون دوڑ رہا تھا۔ ایک روز اس نے میرے بیٹے کو بلا کر کہا۔ اظہر میری ایک ہی بیٹی ہے اور میں اُس کو کسی لالچی کے حوالے کرنے کی بجائے کسی شریف خاندان کے لڑکے کی منکوحہ دیکھنا چاہتا ہوں، کیا تم گھر داماد بننا پسند کرو گے اظہر نے کہا۔ والد صاحب کی وفات کے بعد آپ کے پاس ملازم ہوا اور اب تک آپ کے ساتھ ہوں، میری خوش نصیبی ہوگی آپ کا سایہ عمر بھر کے لئے مل جائے لیکن والدہ سے اجازت ضروری ہے۔ مجھے چند دن کی چھٹی درکار ہوگی تاکہ والدہ کی اجازت حاصل کر سکوں۔ اظہر کافی عرصے بعد چھٹی لے کر گھر آیا تھا۔ میری خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ وہ باقاعدگی سے اپنی تنخواہ بھجوا دیتا تھا لیکن گھر کم ہی آ پاتا تھا۔ اُس نے اپنے آنے کا مقصد بیان کیا تو میں سوچ میں پڑ گئی۔ ایک امیر آدمی کی بیٹی سے شادی خطرے کی بات ہو سکتی تھی، کل جانے کیا ہو جائے۔ اس کی لڑکی میرے غریب بیٹے کے ساتھ خوش رہ سکے یا نہ رہ سکے۔ ایسے کئی سوالات تھے جو اندیشے بن کر مجھے پریشان کر رہے تھے، تاہم میرا بیٹا میرے اندیشوں کو بھانپ چکا تھا۔ بولا، ماں آپ فکر نہ کریں، میں نصر اور وہ مجھے اچھی طرح جان گئے ہیں۔ اب پریشانی کی کوئی بات نہیں ہے۔ آپ اجازت دے دیں۔ یوں میری اجازت سے اس کی شادی نصر کی بیٹی رخشندہ سے ہوگئی۔ نصر کا کوئی بیٹا نہ تھا لہٰذا میرا بیٹا ہی اب اس کی اُمیدوں کا مرکز تھا۔ اظہر بھی مزید محنت اور لگن سے کام کرنے لگا تاکہ نصر اس سے خوش رہے۔ اب دولت نصر پر بارش کی طرح برس رہی تھی اور یہ ساری کمائی اُس کی بیٹی اور داماد کی ملکیت ہی تو تھی۔ جب دو ماہ بعد اظہر گھر لوٹا تو ہر کوئی اس کی شان و شوکت دیکھ کر حیران رہ گیا۔ وہ آٹھویں پاس بھی نہ تھا مگر اپنی سوچ کے لحاظ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ لگتا تھا۔اطہر کو بھائی پر رشک آ رہا تھا۔ اس نے یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور کلرکی کے لیے بھی پاپڑ بیلنے پڑے۔ اس نے خود کو اپنے بڑے بھائی کے مقابل بہت ناکام و نامراد پایا۔ اطہر کو نوکری نہ ملی تو ایل ایل بی کیا اور اپنے شہر میں وکالت کی پریکٹس شروع کر کے مقدر آزمانے لگا۔ میں شادی پر پہلی بار نصر کے گھر گئی تھی۔ اظہر سُسر کے پاس رہتا تھا، وہ کبھی کبھار آتا۔ اس کی بیوی بس ایک بار آئی تھی صرف ایک دن کے لیے۔ وہ گھر داماد تھا۔ ہمارے ساتھ نہیں رہ سکتا تھا لیکن رابطہ رکھتا تھا۔ ایک دن ایسا آیا کہ یہ رابطہ بھی ختم ہوگیا۔ اب میں اطہر کو کہتی تھی کہ کسی طور بھائی سے رابطہ کرو، اُسے ڈھونڈو تو سہی آخرکار کیوں ہم سے رابطے توڑ لئے ہیں، کوئی تو وجہ ہوگی۔ اظہر کہتا کچھ کیس نمٹانے ہیں، فارغ ہو لوں تو جائوں گا۔ بالآخر وہ وقت نکال کر گیا۔ معلوم ہوا کہ اظہر اپنی بیوی اور بچوں کے ہمراہ لورالائی چلا گیا ہے کیونکہ اب اس کے کاروبار کا مرکز لورالائی ہوگیا تھا۔ بڑے بھائی سے ملے بغیر اطہر واپس آ گیا اور کہا کہ کچھ دن بعد لورالائی جا کر معلوم کروں گا۔ ایک سال گزر گیا۔ اظہر کی کچھ خبر نہ تھی۔ میرا جی بہت گھبراتا تھا۔ بار بار چھوٹے کو کہتی کہ جا کر بڑے بھائی کا حال معلوم کرو۔ آخر وہ کیوں ہم سے رابطہ نہیں کرتا۔ ایک روز لورالائی سے ایک شخص نے اطلاع دی کہ پھلوں کا ٹرک لاتے ہوئے راستے میں ڈاکوئوں سے تصادم ہوگیا تو انہوں نے گولی چلا دی اور اظہر ایک ڈاکو کی گولی کا نشانہ بن گیا۔ یہ ایک بہت بُری خبر تھی۔ اس کی میں متحمل نہ ہو سکتی تھی۔ بہرحال اطہر نے کسی طرح مجھے اس المیے سے آگاہ کیا تو میں پچھاڑ کھا کر گر گئی۔ دو پوتے اور ایک پوتی رخشندہ کے بطن سے تھے جو اپنے نانا نصر کے پاس تھے۔ اُسے بھی داماد کی ناگہانی موت کا ازحد صدمہ تھا۔ وہ ایسا لاتعلق ہوگیا تھا جیسے اس دُنیا سے ناتا ختم کر بیٹھا ہو۔ داماد کی وفات نے اس کی کمر توڑ کر رکھ دی تھی۔ اس کی سمجھ میں نہ آتا تھا کہ اپنا کاروبار کس کے سپرد کرے۔ بالآخر اس نے اپنے برادر نسبتی کو بلایا اور کاروبار اس کے حوالے کر کے کہا کہ جب تک میرے نواسے جوان نہیں ہو جاتے، تم اسے سنبھالو۔ یہ میرے نواسوں کی امانت ہے۔ میرے مرنے کے بعد خیانت مت کرنا۔ ہاں آدھا منافع تم لے سکتے ہو۔ نصر بوڑھا ہو چکا تھا۔ وہ دُنیا سے کنارہ کش ہوگیا۔ اب ہر وقت یاد اللہ میں مصروف رہنے لگا۔ رخشندہ اپنے ماموں پر اعتبار کرتی تھی۔ اس نے کبھی کاروبار میں مداخلت نہ کی اور نہ آمدنی اور خرچ کا حساب لیا۔ جب تک نصر زندہ رہا، اس کی موجودگی بڑا سہارا تھی۔ باپ کی آنکھیں بند ہوتے ہی ماموں نے بھی اس سے آنکھیں پھیر لیں۔ اتنا سرمایہ پا کر اس کی نیت بدل گئی تھی۔ میرے پوتے ابھی اس قابل نہ ہوئے تھے کہ باپ اور نانا کا کاروبار سنبھال سکتے۔ رخشندہ کو اندازہ ہوگیا کہ ماموں اُس کے یتیم بچوں کا سب مال و متاع ہڑپ کرلینا چاہتا ہے۔ اس نے ماموں سے بازپرس کی، حساب کتاب مانگا اور جب اس نے آنا کانی کی تو بھانجی نے جرگہ بلانے کی دھمکی دے دی۔اس دھمکی سے ماموں ڈر گیا۔ اس نے کہا کہ اگر تم یہ کاروبار مجھ سے واپس لینا چاہتی ہو تو لے لو لیکن یہ بتائو کہ اسے کس کے سپرد کرو گی، کون اسے سنبھالے گا میں اپنے دیور کو بلانے کا ارادہ رکھتی ہوں بلکہ خود اظہر کی والدہ کے گھر جا کر اپنے خاوند کے چھوٹے بھائی سے استدعا کروں گی کہ وہ آ کر ہمارا کاروبار سنبھال لے۔ میرے بچوں کو اب اپنے چچا اور دادی کی شفقت کی ضرورت ہے۔ میں نے اپنے دیور کو خط لکھا تھا، وہ ہمیں لینے آنے والا ہے۔ رخشندہ کا ماموں اُس کا مطلب سمجھ گیا۔ اس نے اعتراض کیا۔ تم یہ کیسے کر سکتی ہو جبکہ اس کاروبار کو بڑھانے میں، میں نے کم محنت نہیں کی ہے، اس میں میرا حصہ بھی ہے۔ تمہارا جو حصہ بنتا ہے بتائو۔ اگر صحیح حساب کتاب رکھا ہے تو تمہارا حصہ تم کو دے دوں گی۔ ماموں کو کسی طور پر بھانجی کے تیور نہ بھائے، تاہم اُسے یقین تھا کہ وہ اپنے دیور کو نہیں بلائے گی۔ یہ محض ایک دھمکی ہے لیکن یہ دھمکی نہ تھی رخشندہ نے واقعی اطہر کو خط لکھ دیا تھا۔ جب خط ملا۔ اُس نے مجھ سے صلاح کی۔ ماں بھابی مجھے بلا رہی ہے۔ تمہاری کیا صلاح ہے ضرور جا کر اس کی خبرگیری کرو بیٹا۔ میں تو دل سے چاہ رہی تھی کہ وہ ہم سے رابطہ کرے۔ میں اپنے پوتوں اور پوتی کے لیے تڑپ رہی ہوں۔ میں نے اصرار کر کے اپنے چھوٹے بیٹے کو لورالائی بھیج دیا۔ وہ پہلی بار وہاں گیا تھا۔ اس کو گئے ہفتہ ہی بمشکل گزرا تھا کہ وہاں سے کسی نے اس حادثے کی اطلاع دی کہ اطہر اور اس کی بھابی کو کسی نے قتل کر کے لاشیں پہاڑی علاقے میں پھینک دی ہیں۔ میرے تو اوسان خطا ہوگئے۔ ایک بیٹا پہلے بچھڑ گیا تھا، اب دُوسرا بھی دے بیٹھی۔ اے کاش میں اُسے وہاں نہ بھیجتی۔ مجھے کیا خبر تھی کہ اس کی بھابھی نے نہیں بلکہ موت نے آواز دی ہے۔ وہاں کے لوگوں کے بیان کے مطابق اطہر کو اپنی بھابھی کے ساتھ غلط مراسم کے الزام میں ہلاک کیا گیا تھا۔ رخشندہ کے ماموں نے یہ جرم محض اُس کی دولت حاصل کرنے کی خاطر کیا تھا۔ اس نے سب کو یہی بتایا کہ وقوعے کی رات جبکہ بھانجی گھر سے غائب تھی، اُس کو شک گزرا اور قریبی پہاڑی پر اُسے تلاش کیا جہاں وہ اپنے دیور سے ملنے گئی تھی۔ اُس کی غیرت سے یہ برداشت نہ ہو سکا اور اس نے دونوں کو جائے وقوع پر ہی ڈھیر کر دیا۔ جرگے نے قبائلی قانون کے تحت ماموں کو معاف کر دیا لیکن وہ قانون کے شکنجے سے نہ بچ سکا۔ وہاں تعینات اعلیٰ انتظامی آفیسرز نے تحقیقات کرائی تو پتا چلا کہ بھابھی اور دیور کو الگ الگ جگہ گولی ماری گئی تھی۔ رخشندہ نے رات کے وقت گھر سے باہر قدم نہ رکھا تھا جبکہ دیور تو سوتا ہی مہمان خانے میں تھا، جو گھر سے کافی فاصلے پر تھا۔ ماموں نے واردات کے بعد اپنے ایک ساتھی کی مدد سے دونوں کے مردہ جسم قریبی پہاڑی کے دامن میں لا کر ڈال دیئے تھے تاکہ وہاں کے مکینوں کو یہی تاثر ملے کہ دونوں کسی غلط ارادے سے رات کی تاریکی میں یہاں آئے تھے۔ تمام شواہد سے ظاہر ہوگیا کہ ان دونوں بے گناہوں کو ناحق قتل کیا گیا تھا، محض دولت کے لیے اور یہ دولت ہی تھی جس نے ماموں کی آنکھوں پر لالچ کی پٹی باندھ دی تھی۔ تمام تفصیلات سے علاقے کے اس اعلیٰ آفیسر نے مجھے گھر آ کر آگاہ کیا اور پوچھا کہ کیا میں رخشندہ کے بچے اپنے پاس رکھنا چاہوں گی۔ ان بچوں کے سوا اب اور کون رہ گیا تھا، اب یہی میرا سہارا تھے۔ آفیسر سے منت کی کہ وہ جلد از جلد میرے پوتوں اور پوتی کو میرے پاس لانے کی تدبیر کرے۔ آفیسر نے تینوں بچوں کو میرے حوالے کر دیا اور میں نے اپنے جگر گوشے کے ان بچوں سے اپنے سونے گھر کو سجا لیا۔ حکومت نے ان کا اثاثہ امانتاً اپنی تحویل میں لے لیا اور بالغ ہونے تک مقررہ رقم وہ مجھے ادا کرتے رہے۔ وقت تیزی سے گزرتا رہا میرے دونوں پوتے اور پوتی بڑے ہوگئے۔ وہ اب بالغ تھے۔ ان کے والد کا اثاثہ اور ترکہ ان کو مل گیا اور میں نے زندگی کے باقی دن ان کے ساتھ گزارنے کا عہد کرلیا۔ وہ لوٹ کر اپنے نانا کے گائوں آ گئے۔ میں ان کے ساتھ آنا نہیں چاہتی تھی لیکن مجبوراً آنا پڑا۔ میں ان کے بغیر اور وہ میرے بغیر نہیں رہ سکتے تھے۔ دونوں پوتوں کی شادیاں ہوگئیں، ان کی بیویاں آ گئیں، جو ان کے ننھیال سے تھیں۔ پوتی دلنشین کی بھی شادی ہوگئی جو بیاہ کر اپنے گھر چلی گئی۔ یہ سب اپنی زندگی میں خوش اور مگن ہیں لیکن میں آج بھی اپنے مرحوم بیٹوں کی محبت کے کھونٹے سے بندھی ان کے پاس رہتی ہوں کیونکہ میرے دونوں لخت جگر بھی اسی گائوں کی مٹی میں دفن ہیں۔ میری عمر اسّی سال ہے۔ یہاں رہنے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ قبرستان پاس ہے اور میں روز اپنے بیٹوں اور بہو کی قبروں پر فاتحہ کے لئے جاتی ہوں تو دل کو سکون مل جاتا ہے۔ دُعا ہے کہ کسی ماں کے بچّے اس طرح اس سے جدا نہ ہوں۔ س لورالائی
null
null
null
null
476
https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-18/
اُن دونوں نے دو الگ الگ کہانیاں سنائی تھیں۔ سونم یہ فیصلہ کرنے سے قاصر تھی کہ سچا کون ہے، جلیل شاہ یا دلکش سچائی کی تصدیق کا بس ایک ہی ذریعہ تھا کہ عدیل شاہ سے مل کر حقائق جاننے کی کوشش کی جائے۔ شروع میں وہ دلکش کی کسی بھی بات کو سچ ماننے کے لیے آمادہ نہیں تھی مگر اب وقت گزرنے کے ساتھ اس کے اندر ایک ٹھہرائو سا آتا جا رہا تھا۔ دلکش اس کی دوست تھی اگر واقعی اس کے ساتھ کوئی زیادتی ہوئی تھی تو ایک اچھی دوست ہونے کے ناتے اس کا فرض بنتا تھا کہ وہ مظلوم کو حق دلانے میں اس کا ساتھ دے۔ اُس نے اپنا موبائل اُٹھا کر عدیل کا نمبر ملایا۔ میں تم سے فوراً ملنا چاہتی ہوں۔ اُس نے بنا کسی تمہید کے کہا۔ کافی ہائوس میں، میں تمہارا انتظار کر رہی ہوں۔ وہ جیسے ہی کافی ہائوس پہنچی عدیل بھی آ گئے۔ عدیل میں ایک بے حد ضروری مسئلے پر بات کرنا چاہتی ہوں۔ کونے کی ٹیبل پر بیٹھنے کے بعد سونم نے عدیل کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ سونم خیریت تو ہے مسئلہ کیا ہے عدیل نے حیران ہو کر پوچھا۔ کیا یہ سچ ہے کہ تمہارا نکاح دلکش کے ساتھ ہوا تھا تمہیں کیسے پتا عدیل نے گہرا سانس لیا۔ تم اُسے کیسے جانتی ہو۔ بتاتی ہوں۔ سونم نے جب بتایا کہ وہ اس کی دوست ہے تو عدیل نے دلکش کو دیکھنے، نکاح، رُخصتی اور فون آنے کے بعد اپنے شہر جانے تک کی تمام کہانی من و عن بیان کر دی۔ اُف۔ اُس نے دونوں ہاتھوں سے اپنا سر تھام لیا۔ دلکش کے ساتھ کیسا ظلم ہوا تھا۔ اس کی نانی اور ماں کے بہیمانہ قتل اور سجیلہ کی گمشدگی کا سوچ کر اس کا دل بھر آیا۔ وہ کتنی بے حس اور خود غرض ہوگئی تھی کہ دلکش کی بات کو تسلیم کرنے کی بجائے اُلٹا اُس سے حسد کرنے لگی تھی، سونم کو خود سے کراہیت اور نفرت محسوس ہو رہی تھی۔ میری سمجھ میں نہیں آتا کہ میں دلکش کی بات پر کس طرح یقین کروں ایک راستہ ہے۔ سونم نے پُرسوچ لہجے میں کہا۔ اُس نے جن کھنڈرات میں تمہارے والد کی موجودگی کی نشان دہی کی ہے تم دلکش کے ساتھ وہاں جا کر تصدیق کر سکتے ہو، اگر وہاں تمہیں عقیل شاہ مل جاتے ہیں تو اس طرح جلیل شاہ کے کردار کی سچائی کھل کر سامنے آ جائے گی۔ عدیل شاہ نے تائید بھرے انداز میں سر ہلا کر کہا۔ مجھے یہ کرنا ہی پڑے گا۔ ٹھیک ہے۔ سونم اُٹھ کھڑی ہوئی۔ اب میں چلتی ہوں۔ اس کے ساتھ ہی عدیل بھی کافی ہائوس سے باہر آگئے۔ گھر پہنچتے ہی سونم کچن میں چلی گئی تھی۔ اعظم خان نے سلمان علی کو بتایا تھا کہ اُن کی بیٹی بہت اچھا چائینیز بناتی ہے، اسے باپ کے اس دعوے کو سچ ثابت کرنا تھا، اسی لیے وہ آج بہت اہتمام سے کھانا تیار کر رہی تھی۔ ہے سونو بٹیا۔ اسے اپنے چاہنے والے باپ اعظم خان کی آواز سنائی دی۔ کتنی دیر ہے بھئی بس پاپا، اب کوئی دیر نہیں۔ وہ پھول کی طرح شگفتہ و شاداب مسکراتی ہوئی باہر نکلی۔ بس میں کھانا لگوانے جا رہی ہوں۔ جانے سے پہلے میرے سوال کا جواب تو دے دو بٹیا۔ اعظم خان نے دھیمی آواز میں پوچھا۔ بابا، اگر سلمان کو کوئی اعتراض نہیں تو مجھے بھی یہ رشتہ منظور ہے۔ اُس نے نگاہیں جھکا کر اپنا جملہ مکمل کیا۔ جیتی رہو بیٹی، مجھے تم سے یہی اُمید تھی۔ سونم گھبرا کر کچن کی طرف بھاگ گئی تھی اور ڈی آئی جی اعظم خان قہقہہ لگاتے ہوئے ڈرائنگ رُوم کی طرف بڑھ گئے، سونم کی رضامندی کی خوش خبری ابھی سلمان علی کو بھی تو سنانی تھی۔ ٭ ٭ ٭ خوشگوار صبح کا آغاز ہو چکا تھا۔ نماز کے بعد فوزیہ بیگم کچن میں آ گئیں۔ کل رات ہی اُن کی آذر سے بات ہوئی تھی۔ آذر نے کہا تھا آج آفس جاتے ہوئے وہ فریحہ کو چھوڑ جائیں گے اور واپسی پر ساتھ لے جائیں گے۔ اور ہاں امی ہم دونوں بنا ناشتہ کیے آئیں گے تا کہ آپ لوگوں کے ساتھ ناشتہ کر سکیں۔ وہ پیار بھرے لہجے میں بولے۔ ضرور بیٹا۔ فوزیہ بیگم نے نہال ہوتے ہوئے جواب دیا۔ اتنا لائق، تعلیم یافتہ اور دولت مند ہونے کے ساتھ اس قدر سادہ اور معصوم داماد پا کر وہ اللہ کی بے حد شکرگزار تھیں، مگر وہ خالہ خیرن کی بھی احسان مند تھیں۔ تب ہی آج انہوں نے خالہ خیرن کو بھی بلا بھیجا تھا۔ وہ نماز کے بعد ہی کچن میں آ گئی تھیں تاکہ داماد کے لیے زبردست ناشتہ تیار کر سکیں۔ مجھے بھی کوئی کام بتایئے۔ صفیہ مسکراتی ہوئی کچن میں داخل ہوئیں۔ اشعر نے بتایا کہ آج ناشتے پر آذر اور فریحہ آ رہے ہیں تو میں نے سوچا آپ کا کچھ ہاتھ ہی بٹا دوں۔ عزیز از جان بہن انوشہ کی اچانک موت اور بے حد پیار کرنے والی ماں صاعقہ تیمور کے اس حادثے کے بعد کومے میں چلے جانے کے بعد آذر ایک طرح سے جیتے جی مرگئے تھے اگر فریحہ جیسی بے حد محبت کرنے والی اور خدمت گزار بیوی نہ ہوتی اور آنے والے نئے مہمان کی اُمید نہ ہوتی تو شاید وہ اتنی جلدی زندگی کی طرف نہیں لوٹ سکتے تھے۔ اس حادثے کو کئی مہینے بیت گئے تھے۔ انوشہ نے غلطی سے زیادہ نیند کی گولیاں کھا لی تھیں اور اس کی ناگہانی موت بے حد محبت کرنے والی ماں برداشت نہ کر سکی تھیں اور ہوش و خرد کی دُنیا چھوڑ کر ایک گہری نیند میں چلی گئی تھیں۔ آذر اور دُنیا والوں کو یہی پتا تھا حارب پھر نہیں آیا تھا۔آذر کا خیال تھا کہ انوشہ کی حادثاتی موت نے اسے بھی توڑ کر رکھ دیا ہوگا اور وہ کہیں جنگلوں میں مارا مارا پھر رہا ہوگا اور جہاں تک اُن کا تعلق تھا اگر فریحہ اور اس کے گھر والے اتنی محبت، اپنائیت اور خلوص دل سے اس کا ساتھ نہ دیتے تو شاید وہ آج اس قدر نارمل نہ ہوتے۔ کچھ ہی دنوں بعد وہ باپ بننے والے تھے، اس اُمید نے بھی انہیں زندگی سے کنارہ کش ہونے نہیں دیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ حالات دھیرے دھیرے بہتر ہوتے جارہے تھے، جیسے تیز لہروں میں ہچکولے لیتی کشتی آخرکار ساحل سے آ لگی ہو وہ اشعر جو ہر وقت اپنے دولت مند دوستوں کے ساتھ پھرا کرتا تھا اور اپنی زندگی کی ناآسودگی پر کڑھتا رہتا تھا، آخر انور ضیا کے سمجھانے پر راہ راست پر آ گیا۔ اب پابندی سے اسکول جانے لگا تھا اور شام کا وقت اظفر کی دُکان پر گزارنے لگا تھا۔ وہی دکان جو اسے کبھی چھوٹی اور حقیر لگا کرتی تھی۔ خود صفیہ بیگم کے خیالات میں بھی انقلابی تبدیلی آئی تھی۔ پہلے وہ سمجھا کرتی تھیں کہ اظفر اتنی تعلیم حاصل کر کے ایک معمولی سی دکان کھول کر تعلیم کو ضائع کر رہا تھا۔ مگر اب وہ اس بات پر خوش تھیں کہ اُن کا بیٹا نوکری کی درخواست اُٹھائے دَر دَر مارے پھرنے کی بجائے اپنا کام کر رہا تھا اور اللہ کے فضل سے دن بہ دن ترقی اور برکت ہو رہی تھی۔ اور اب وہ کہتی تھیں کہ محنت ہی میں عظمت ہے اور کوئی بھی کام چھوٹا یا بڑا نہیں ہوتا، بس بُرے کام میں بُرائی ہے۔ کچھ ہی دیر میں خالہ خیرن بھی آ گئی تھیں۔ فریحہ نے جھک کر اَدب سے انہیں سلام کیا۔ سکھی رہو۔ انہوں نے محبت بھرے لہجے میں دُعائیں دیں، پھر وہ فوزیہ بیگم کی طرف متوجہ ہو کر گویا ہوئی تھیں۔ اے بڑی دُلہن، فاریہ کو بدیس گئے اب تو کافی وقت گزر گیا واپس کب آ رہی ہے۔ جی آپ کی دُعا سے بس چند ہی مہینوں میں آیا چاہتی ہے۔ فوزیہ بیگم نے مسرور لہجے میں بتایا۔ میں اور صفیہ شادی کی تیاریوں میں لگے ہوئے ہیں۔ آپ دیکھ ہی رہی ہیں۔ ہاں واقعی وقت گزرتے پتا ہی نہیں چلتا دیکھتے ہی دیکھتے یہ دن آ گئے ماشا اللہ چھوٹی فروا بھی کتنی بڑی ہوگئی ہے۔ خالہ خیرن نے فروا کو غور سے دیکھتے ہوئے سرگوشی کی۔ اس کے لیے کوئی اچھا رشتہ دیکھوں کیا ابھی تو چند ماہ بعد فاریہ آنے والی ہے۔ فوزیہ بیگم نے رسان بھرے لہجے میں کہا۔ پہلے میں فاریہ اور اظفر کا بیاہ کروں گی پھر ان شا اللہ جب وقت آئے گا فروا کا بھی نصیب کھل جائے گا۔ کھڑکی کے اُس پار کھڑے اظفر سوچ رہے تھے۔ اُن کی اور فاریہ کی راہ میں کتنے مسائل آئے تھے۔ خود اُن کی والدہ کا خیال تھا کہ فاریہ ڈاکٹریٹ کی ڈگری لینے کے بعد ایک معمولی دُکاندار سے شادی سے انکار کر دے گی یا باہر جا کر واپس پلٹ کر نہیں آئے گی مگر سارے خدشات غلط ثابت ہوئے تھے۔ اُن کے سچے جذبے جیت گئے تھے۔ اُن کے دل میں سلگتی محبت کی آگ نے فاریہ کے دل تک رسائی حاصل کر لی تھی اور اب وہ واپس آ رہی تھی۔ پی ایچ ڈی کا تمغہ لگائے اور دامن میں محبت کے انمول پھول سمیٹے۔ ٭ ٭ ٭ مصعب کی زندگی یکسر تبدیل ہوگئی تھی۔ وہ پوری طرح زندگی کی طرف لوٹ آئے تھے۔ کرن کی محبت اور سجیلہ کا پیار پا کر اُن کی ویران اور بے رنگ زندگی ایک دَم سرسبز و شاداب ہوگئی تھی۔ اِک عمر انہوں نے تنہائی کے دشت میں آبلہ پا چلتے گزاری تھی۔ اب تقدیر نے اُن کے لیے محبت کا ٹھنڈا نخلستان عطا کر دیا تھا۔ تقدیر کی اس مہربانی پر وہ بے حد خوش تھے۔ سجیلہ کی خواہش پر گھر کی آرائش کا کام جاری تھا۔ لان کی ازسرنو آبیاری کی جا رہی تھی۔ کیاریوں میں خوش رنگ پودے لگائے گئے تھے۔ ڈرائنگ رُوم کے لیے پردے، قالین اور نیا فرنیچر خریدا گیا تھا، لائونج کی بھی ازسرنو ڈیکوریشن کی گئی تھی۔ شہر کے کاروباری علاقے میں ایک معروف بلڈنگ میں مصعب کا دفتر موجود تھا جو پچھلے دس گیارہ سالوں سے بند پڑا تھا۔ اب اُسے بھی کھولا گیا تھا۔ وہاں بھی رنگ و روغن جاری تھا اور اب ہنی مون سے واپس آتے ہی مصعب کا وکالت شروع کرنے کا ارادہ تھا۔ باجی آپ بھی ساتھ چلیے نا۔ سجیلہ دو روز سے دلکش سے اصرار کیے جا رہی تھی۔ کرن بھی تو ساتھ جا رہی ہے آپ بھی چلیں گی تو اچھا لگے گا۔ پاگل تو نہیں ہوگئی ہو، سجو بات کو سمجھ نہیں رہیں۔ دلکش نے پیار بھرے انداز میں ڈانٹتے ہوئے کہا۔ کرن کو تم لوگ اس لیے ساتھ لے جا رہے ہو کہ وہاں سوئٹزرلینڈ میں کسی اچھے ڈاکٹر سے اس کی معذوری کے بارے میں مشورہ کر سکو ویسے بھی وہ بچی ہے گھوم پھر کر خوش ہوگی، بھلا تمہارے ہنی مون ٹور پر میرا ساتھ جانے کا کیا جواز ہے۔ کیا ہو رہا ہے بھئی مصعب کرن کا ہاتھ تھامے کمرے میں داخل ہوئے۔ آپ دونوں یوں خاموش کیوں بیٹھی ہیں انہوں نے باری باری دلکش اور سجو کے چہروں کی طرف دیکھتے ہوئے حیرانی سے سوال کیا۔ میں باجی سے کہہ رہی ہوں کہ یہ بھی ہمارے ساتھ سوئٹزرلینڈ چلیں۔ سجو نے منہ پھلائے مصعب کو بتایا۔ ہمارے ساتھ ہنی مون پر مصعب نے حیرت سے سجیلہ کی طرف دیکھا۔ تو کیا ہوا سجیلہ نے تنک کر مصعب کی طرف دیکھا۔ نہیں ہوا تو کچھ نہیں مصعب جلدی سے گھبرا کر بولے۔ اگر دلکش چلنا چاہیں تو موسٹ ویلکم۔ آپ بھی نا مصعب بھائی۔ دلکش بے ساختہ ہنس پڑی۔ دو دن میں جورو کے غلام بن گئے ہیں۔ بیگم کی ہر بات میں ہاں میں ہاں ملانے لگے۔ شادی کے بعد آپ دونوں کا یہ پہلا سفر ہے۔ آپ دونوں کو اکیلے ہی جانا چاہیے تاکہ ایک دُوسرے کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزار کر ایک دُوسرے کو سمجھ سکیں۔ مصعب نے شوخ نظروں سے سجیلہ کی طرف دیکھا۔ اُن کی آنکھوں کی شرارت کو محسوس کر کے اُس نے شرما کر نظریں جھکا لی تھیں۔ اگلی صبح مصعب، سجیلہ اور کرن روانہ ہوگئے۔ اب گھر میں صرف فضلو بابا اور دلکش رہ گئے تھے۔ مصعب، سجو اورکرن کے جانے کے بعد گھر میں ایک بار پھر ایک دَم سنّاٹے اُتر آئے تھے۔ فضلو بابا حسب معمول گھر کے کام کاج میں لگے رہتے اور وہ اپنے کمرے میں بیٹھی لاحاصل سوچوں میں کھوئی رہتی۔ کتنی تگ و دو اور تلاش بسیار کے بعد وہ عدیل سے ملنے میں کامیاب ہوئی تھی۔ اس کا خیال تھا کہ عدیل سے ملنے اور سچائی اُن کے گوش گزار کرنے کے بعد حالات میں بہتری آئے گی مگر اس کا یہ خیال خام ثابت ہوا تھا۔ انہوں نے اس کی کسی بات کا یقین نہیں کیا تھا۔ یہی کیا کم تھا کہ انہوں نے اپنے چچا پر اتنے سنگین الزامات لگانے کے باوجود اسے واپس جانے دیا تھا۔ گھر آنے کے بعد دلکش اور زیادہ افسردہ اور مضطرب ہوگئی تھی، اُس نے عدیل کو جب جب دیکھا تھا اس کے اضطراب میں اضافہ ہی ہوا تھا۔ وہ سمجھتی تھی وہ عدیل کو سچائی تسلیم کرنے پر مجبورکر دے گی مگر وہ ایسا نہیں کر سکی تھی۔ عدیل نے اس کی کسی بات پر یقین نہیں کیا تھا۔ وہ اپنا فون نمبر چھوڑ آئی تھی مگر انہوں نے اب تک اُس سے رابطہ کرنے کی کوشش نہیں کی تھی۔ اب اس بات کو بھی کتنے دن بیت گئے تھے۔ شروع شروع میں تو فون کی ہر گھنٹی پر اس کا دل دھڑک اُٹھتا تھا۔ مگر جوں جوں وقت گزرتا جا رہا تھا، اس کی آس کے دیے مایوسی کے اندھیروں میں گم ہوتے جا رہے تھے۔ میں تو کہتا ہوں بٹیا اب ہمیں جلیل شاہ اور عدیل میاں پر مقدمہ دائر کر دینا چاہیے۔ فضلو بابا کی یہی رائے تھی اور مصعب بھی کسی قدر اس رائے سے متفق تھے۔ پر اس سے کیا ہوگا فضلو بابا دلکش اس رائے کے حق میں نہیں تھی۔ اس طرح تو میں انہیں ہمیشہ کے لیے کھو دوں گی۔ وہ کرب بھرے لہجے میں کہتی۔ وہ کسی بھی قیمت پر عدیل کو کھونا نہیں چاہتی تھی۔ وہ اس کے شوہر تھے، اس کا سہاگ تھے، وہ رشتے کی اس قید سے آزاد نہیں ہونا چاہتی تھی۔ اسے مایوسی کے گرداب میں گھرے دیکھ کر فضلو بابا اسے سمجھانے بیٹھ جاتے۔ دیکھو بیٹا اللہ سے ہمیشہ اچھی اُمید رکھنا چاہیے، کوئی سوچ بھی نہیں سکتا کہ مصعب میاں کی زندگی میں یوں چھم سے بہار آ جائے گی۔ جس بچی کا نام سن کر وہ چیخنے، دھاڑنے لگتے تھے آج اُسی بچی کو وہ سینے سے لگائے پھرتے ہیں۔ وقت کروٹ بدلتا ہے تو سب کچھ بدل جاتا ہے۔ مجھے یقین ہے تمہیں اپنا شوہر اس کی محبت اور وفائیں سب کچھ ملیں گی۔ یونہی اُمید و بیم کی کیفیت میں کتنے دن اور گزر گئے اور تب ایک دن بالکل اچانک ہی عدیل کا فون آ گیا۔ فون فضلو بابا نے ریسیو کیا تھا۔ دلکش سے ملنے کے بعد عدیل بہت اَپ سیٹ ہوگئے تھے۔ اُس نے جو باتیں بتائی تھیں اُن پر یقین کر لینا اتنا آسان نہیں تھا۔ جس جلیل شاہ کو وہ بچپن سے آج تک دیوتا مان کر پوجتے چلے آ رہے تھے۔ وہ جلیل شاہ اتنا کمینہ بھی ہو سکتا ہے۔ وہ اُن کی ماں کا قاتل اور باپ کی گمشدگی کا ذمّے دار بھی ہو سکتا ہے۔ اُن کا دل ان باتوں پر یقین کرنے کو آمادہ نہیں تھا۔ مگر سونم کی زبانی دلکش کے بارے میں جان کر اُن کے اضطراب میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ سونم نے انہیں مشورہ دیا تھا کہ وہ دلکش کے ساتھ اُن کھنڈرات میں جا کر اپنے والد عقیل شاہ سے جا کر ملے۔ پھر کافی سوچ بچار کے بعد انہوں نے کھنڈرات جانے کا فیصلہ کیا تھا۔ یہ سوچ کر اُن کے ہاتھ فون کی طرف بڑھ گئے تھے۔ دلکش کا دیا ہوا نمبر اُن کے پاس محفوظ تھا۔ دُوسری طرف فون فضلو بابا نے اُٹھایا تھا۔ وہ اُن کا نام سن کر حیرت بھری مسرت سے دوچار ہو گئے۔ عدیل شاہ میرا مطلب ہے آپ عدیل میاں بات کر رہے ہیں نا میرا مطلب ہے کہ دلکش بٹیا کے شوہر بات کر رہے ہیں نا جی۔ عدیل نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ کیا اُن سے بات کی جا سکتی ہے ہاں کیوں نہیں۔ فضلو بابا جلدی سے بولے۔ میں ابھی بلاتا ہوں۔ فضلو بابا۔ فون بند کر کے دلکش نے مشتاق نظروں سے اپنی جانب دیکھتے فضلو بابا کو مخاطب کیا۔ عدیل مجھے کھنڈرات والے تہہ خانے تک لے جانا چاہتے ہیں۔ دلکش نے دھیمی آواز میں انہیں بتایا۔ وہ اپنے والد عقیل شاہ سے مل کر میری باتوں کی سچائی کو پرکھنا چاہتے ہیں۔ یہ تو بہت اچھی بات ہے۔ فضلو بابا جلدی سے بولے۔ تم انہیں فون کر کے بلا لو ہم تمہیں وہاں لے چلیں گے۔ فضلو بابا دلکش کو لے کر جب مقررہ جگہ پر پہنچے تو عدیل پہلے سے ہی وہاں موجود تھے۔ فضلو بابا یہ عدیل صاحب ہیں۔ انہیں دیکھتے ہی دلکش نے جلدی سے عدیل کا تعارف کروایا۔ اور یہ ہمارے فضلو بابا ہیں۔ اُس دن میں نے ان کے بارے میں آپ کو بتایا تھا نا عدیل نے سر کی جنبش سے انہیں سلام کیا۔ فضلو بابا عدیل شاہ کو دیکھ کر حیران ہونے کے ساتھ خوش بھی ہوگئے تھے۔ یوں تو ایک دو بار انہوں نے عدیل کی جھلک دیکھی تھی۔ آج انہیں اپنے سامنے اتنا قریب کھڑے دیکھ کر اُن کی وجاہت کے قائل ہوگئے تھے۔ دلکش کے ساتھ کھڑے وہ کتنے اچھے لگ رہے تھے۔ دونوں کی جوڑی چاند سورج کی جوڑی محسوس ہو رہی تھی۔ میں انہیں ساتھ لے کر گائوں کے پرانے کھنڈرات تک جانا چاہتا ہوں۔ عدیل نے اجازت طلب لہجے میں فضلو بابا سے کہا۔ آپ سے میرا وعدہ ہے کہ انہیں بہ حفاظت واپس آپ تک پہنچا دوں گا۔ ہاں ہاں فضلو بابا نے اثبات میں زور زور سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ کیوں نہیں۔ دلکش بیٹی آپ کی امانت ہے۔ اللہ آپ کی جوڑی سلامت رکھے۔ عدیل کے ساتھ کار کی طرف بڑھنا دلکش کو اچھا لگ رہا تھا۔ عدیل نے اس کے لیے فرنٹ سیٹ کا دروازہ کھولا تو دلکش نے آہستگی سے کہا۔ میرا خیال ہے کہ پیچھے بیٹھنا مناسب ہوگا۔ راستے میں کوئی بھی مل سکتا ہے۔ عدیل کسی بات کو سچ نہیں سمجھ رہے تھے مگر دلکش، جلیل شاہ اور اس کے گرگوں سے محتاط رہنا چاہتی تھی۔ جیساآپ چاہیں۔ عدیل نے بے نیازی سے کندھے اُچکاتے ہوئے جواب دیا اور وہ پچھلا دروازہ کھول کر اندر بیٹھ گئی۔ اس کے بیٹھتے ہی عدیل نے کار اسٹارٹ کر دی۔ عدیل اور دلکش کے جانے کے بعد فضلو بابا بھی جیپ میں آ بیٹھے تھے۔ ہر سمت ایک پُراسرار سکوت پھیلا ہوا تھا۔ دلکش متوحش نظروں سے چاروں طرف دیکھتے ہوئی کھنڈر کے دروازے کی طرف بڑھی، عدیل اس کے ہم قدم تھے۔ دلکش کے ہاتھ لگاتے ہی دروازہ کھلتا چلا گیا۔ یہ کیا دروازہ تو کھلا ہوا ہے۔ عدیل حیران ہوئے۔ اگر اس دروازے کے اُس پار تہہ خانے میں کسی کو قید کر کے رکھا گیا تھا تو کم از کم دروازہ تو لاک کرنا چاہیے تھا۔ ویسے بھی وہ سوچ رہے تھے کوئی بھی ذی شعور آدمی اتنا بڑا جرم کرنے کے بعد گائوں کے اتنی قریب جگہ کا انتخاب کیونکر کر سکتا ہے انہیں خود پر غصہ آنے لگا کہ وہ بلاوجہ دلکش کی باتوں میں آ کر یہاں آ گئے۔ ہر سمت پھیلی خاموشی اس بات کی غماز تھی کہ یہاں کوئی ذی نفس موجود نہیں ہے۔ وہ دلکش کے ساتھ سیڑھیاں اُترتے تہہ خانے میں آ گئے۔ یہ ایک درمیانی سائز کا ہال نما کمرہ تھا جس کے تینوں جانب دروازے تھے۔ دلکش دائیں جانب والے دروازے کی طرف بڑھی۔ یہاں تو کوئی بھی موجود نہیں عدیل نے خالی ہال کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ اس کمرے میں دلکش نے اشارے سے بتایا اور تیزی سے دروازہ کھولتی اندر داخل ہوگئی۔ وہ کمرہ بھی خالی پڑا تھا۔ وہاں کوئی ایسی چیز بھی موجود نہیں تھی جس کی وجہ سے وہاں کسی انسان کے موجود ہونے کے شواہد مل سکتے۔ دلکش تمہیں یقیناً غلط فہمی ہوئی ہے۔ عدیل نے خشک لہجے میں کہا۔ پورا تہہ خانہ خالی پڑا ہے اور آثار بتا رہے ہیں کہ برسوں سے یہاں کوئی نہیں آیا۔ آپ یقین کیجیے یہیں میری ملاقات آپ کے والد عقیل شاہ اور دینو بابا سے ہوئی تھی۔ دینو بابا۔ نام سن کر عدیل اُچھل پڑے۔ او مائی گاڈ دلکش تمہیں ضرور کوئی نفسیاتی عارضہ لاحق ہے۔ تم جس شخص کا نام لے رہی ہو برسوں پہلے اس کا انتقال ہو چکا ہے میرے امریکہ جانے سے بھی پہلے۔ نہیں عدیل، دُنیا کی آنکھوں میں دُھول جھونکنے کے لیے وہ جلیل شاہ کا کوئی فریب ہوگا۔ دینو بابا زندہ ہیں اور آپ کے والد کے ساتھ ہیں۔ بس بہت ہو چکا۔ عدیل رُک گئے۔ مجھے افسوس ہے کہ میں تمہاری باتوں میں آ کر یہاں کیوں آ گیا، چلو اب واپس چلو۔ عدیل وہ سامنے والا کمرہ اس کمرے میں عقیل شاہ بابا کا بستر لگا ہوا تھا۔ پلیز فار گاڈ سیک دلکش۔ عدیل عاجز کن لہجے میں بولے۔ یہاں کوئی موجود نہیں ہے یہاں کسی کا بستر نہیں تھا۔ یہ قید خانہ برسوں سے خالی پڑا ہے اور ساری کہانی محض تمہاری ذہنی اختراع ہے۔ جھوٹ پر مبنی ہے۔ وہ پائوں پٹختے سیڑھیوں کی طرف بڑھے۔ پلیز عدیل ایک منٹ رُکیے۔ دلکش کی التجا بھری آواز انہیں اپنے پیچھے سے آتی سُنائی دی۔ پھر وہ رُکے نہیں، پائوں پٹختے سیڑھیاں چڑھتے چلے گئے۔ دلکش جونہی اُن کی جانب لپکی کسی نے اپنا مضبوط ہاتھ اس کے منہ پر رکھ کر اُسے بازوئوں میں دبوچ لیا۔ عدیل اُوپر پہنچ چکے تھے، اُوپر پہنچ کر چند لمحوں تک انہوں نے دلکش کی واپسی کا انتظار کیا مگر اسے واپس آتے نہ دیکھ کر وہ اپنی کار میں جا بیٹھے تھے۔ کار اسٹارٹ کرنے سے پہلے کچھ لمحوں تک انہوں نے دلکش کی راہ دیکھی مگر وہ اُوپر آنے کا نام ہی نہیں لے رہی تھی۔ انہیں اس وقت دلکش پر بہت غصہ آ رہا تھا۔ اُس سے زیادہ انہیں اپنے آپ پر غصہ تھا۔ آخر وہ کیوں اس لڑکی کی باتوں میں آ گئے۔ انہوں نے کرب بھرے انداز میں سوچا اور ایک دَم کار اسٹارٹ کر دی۔ کار اسٹارٹ ہونے کی آواز سن کر دلکش نے تڑپ کر گرفت سے نکلنے کی کوشش کی مگر گرفت بہت سخت تھی۔ گاڑی اسٹارٹ ہو کر جب تک دُور نہیں چلی گئی اُس نے دلکش کو اسی طرح دبوچے رکھا۔ پھر اس کی گرفت ڈھیلی پڑ گئی۔ بابا اس بلبل کے ہاتھ باندھ دے اور منہ میں کپڑا ٹھونس دے۔ عدیل کے چلے جانے کے بعد اسے دبوچنے والے شخص نے پیچھے کی جانب دیکھ کر کہا اور اگلے ہی لمحے حمید اُسے لیے آگے بڑھا۔ شکر ہے کہ آج ہم اس چھلاوہ کو پکڑنے میں کامیاب ہوگئے۔ مرید خان نے مسرت بھرے لہجے میں حمید اور مٹھل کو مخاطب کر کے کہا۔ اب چل، جلدی سے اسے جیپ میں ڈال تاکہ جلد از جلد سائیں کے سامنے پیش کر دیں۔ حمید اسے گھسیٹتا چل دیا۔ جیپ کھنڈرات سے نیچے ڈھلواں جگہ پر اس طرح کھڑی کی گئی تھی کہ دُور سے دکھائی نہیں دیتی تھی۔ بابا مٹھل چھوکری کو پکڑ کر بیٹھنا۔ مرید خاں نے پیچھے دیکھے بناحکم صادر کیا۔ کہیں یہ بھی اپنی بہن کی طرح باہر کود کر فرار نہ ہو جائے ویسے بھی اسے نکل بھاگنے کا بہت تجربہ ہے۔ جیپ تیز رفتاری سے چلتی ہوئی حویلی کے پچھلے گیٹ کے سامنے آ رُکی تھی۔ مرید خان نے مٹھل کو چابیوں کا گچھا دے کر تالا کھولنے کا حکم دیا۔ مٹھل نے دلکش کو کھینچ کر جیپ سے نیچے اُتارا۔ وہ وحشت زدہ نظروں سے اُس گیٹ کی طرف دیکھ رہی تھی، جسے کچھ عرصے قبل وہ پھلانگ کر بھاگی تھی۔ آج وہ پھر اُسی گیٹ سے اندر لائی گئی تھی۔ سامنے کی جانب برآمدے کے آخری سرے پر خوفناک خوابگاہ تھی جہاں اُس نے جلیل شاہ کو زخمی کر کے اپنی عزت بچائی تھی۔ اُس نے خوفزدہ نظروں سے خواب گاہ کی طرف دیکھا تھا، پر مرید خان اور اس کے ساتھی اسے خواب گاہ کی طرف لے جانے کی بجائے سامنے کی طرف بڑھتے چلے گئے۔ سامنے طویل برآمدے کے آگے لائن سے کئی گیراج بنے تھے۔ ایک گیراج کے سامنے رُک کر حمید نے لوہے کا شٹر اُٹھایا تو وہ سب گیراج میں داخل ہوگئے۔ گیراج کے بیچوں بیچ دونوں جانب اُونچے قدمچے سے بنے تھے اور درمیان میں ایک گہرا خانہ بنا تھا۔ وہ تینوں دلکش کو دھکیلتے ہوئے اس کے اندر داخل ہوگئے۔ کونے میں ایک چوکور لکڑی کا تختہ تھا۔ اس کے اُٹھاتے ہی نیچے سیڑھیاں نمودار ہوگئی تھیں۔ مرید خان مٹھل اور حمید دلکش کو دھکیلتے سیڑھیاں اُترتے تہہ خانے میں داخل ہوگئے۔ یہ ایک بڑا کمرہ تھا۔ دروازے کے ساتھ ہی ایک صوفہ تھا جس پر جلیل شاہ پائوں پسارے بیٹھا تھا۔ سامنے کونے کی جانب آخری سرے پر ایک ستون کے ساتھ عقیل شاہ اور دوسرے ستون کے ساتھ دینو بابا بندھے ہوئے تھے۔ دلکش نے وحشت زدہ نظروں سے اُن دونوں کی طرف دیکھا۔ وہ دونوں بھی اسے بے بس اور دُکھی نظروں سے دیکھ رہے تھے۔ سائیں وڈا آپ کی مجرم حاضر ہے۔ مرید خان نے آگے بڑھ کر دلکش کے منہ سے کپڑا اُتارتے ہوئے قدرے فخریہ انداز میں کہا۔ جلیل شاہ نے گھوم کر دلکش کی طرف دیکھا، اس کے چہرے کی طرف دیکھتے ہوئے بولا۔ مجرم تو ہے مرید خان مگر چاند کا ٹکڑا ہے بلکہ چودھویں کا پورا چاند۔ پہلی ہی نگاہ میں ہم اس چاند چہرے پر فدا ہوگئے تھے مگر یہ ہمیں زخمی کر کے فرار ہوگئی تھی۔ ہم نے فیصلہ کر لیا تھا کہ جب بھی سامنے آئی اسے گولی سے اُڑا دیں گے مگر آج سامنے دیکھ کر ہم اپنا فیصلہ تو کیا خود کو بھی بھلا بیٹھے ہیں۔ پر سائیں میری سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آپ کو یہ بات کیسے پتا پڑی، کہ یہ چھوکری ادھر تہہ خانے میں وڈے سائیں عقیل شاہ سے ملی تھی اور اُن سے دوبارہ آنے کا وعدہ کر گئی تھی۔ وہ سوال جو بہت دیر سے مرید خان کے ذہن میں چبھ رہا تھا آخر لبوں تک آ گیا۔ اس دینو نے بھنگ کے نشے میں میرے سامنے سب بک دیا تھا۔ جلیل شاہ نے سامنے ستون سے بندھے دینو کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بتایا۔ بس اُسی شام میں نے ان دونوں کو کھنڈر والے تہہ خانے سے حویلی کے اس تہہ خانے میں منتقل کر دیا تھا اور تم لوگوں کی ڈیوٹی اس کھنڈر پر لگا دی تھی۔ مجھے پتا تھا کبھی نہ کبھی یہ اس کھنڈر پر ضرور آئے گی اور تم لوگوں نے دیکھا میرا اندازہ کتنا دُرست تھا۔ واہ سائیں کمال ہے۔ مٹھل نے خوشامدی انداز میں سر ہلایا۔ سائیں اب اس چھوکری کا کیا کرنا ہے آپ کہیں تو جس طرح آپ کے حکم پر مٹھل نے نوشابہ بیگم کو گولی سے اُڑا دیا تھا، اسی طرح اسے بھی میں نہیں مرید خان ابھی نہیں۔ جلیل شاہ نے دھیمے لہجے میں کہا۔ جس طرح ہم نے عقیل شاہ کو زندہ رکھا ہے اسی طرح ابھی کچھ عرصے اسے بھی زندہ رکھیں گے۔ کیوں سائیں۔ مرید خان نے سوال کیا۔ مرید خان کی آج تک یہ بات سمجھ میں نہیں آئی تھی کہ آخر عقیل شاہ کو کیوں زندہ رکھا ہے۔ اپنے وکیل دوست اور عقیل شاہ کی بیگم نوشابہ کی طرح قتل کیوں نہیں کروا دیا۔ اس کے سوال پر جلیل شاہ قہقہہ لگاتے ہوئے بولا۔ میں نے اپنے بھائی کو اس لیے اس کی بیوی کے ساتھ نہیں بھیجا کہ اگر اس کا بیٹا بڑا ہو کر اپنی جائداد میرے نام کرنے سے انکاری ہو تو میں عدیل شاہ کو قتل کروا کر اپنے اس پاگل بھائی عقیل شاہ کو منظرعام پر لا کر اس کی ساری دولت اپنے نام کروا لوں اب سمجھا جی سائیں۔ مرید شاہ نے سر ہلایا۔ اُسی وقت سیڑھیوں پر چاپ اُبھری اور اگلے ہی لمحے دھڑ سے دروازہ کھول کر کوئی اندر داخل ہوا۔ عدیل دلکش نے وحشت زدہ انداز میں ان کا نام لیا۔ آپ یہاں کیوں آئے عدیل نے اس کی طرف توجہ نہیں دی۔ وہ آنکھوں میں نفرت لیے جلیل شاہ کی طرف دیکھے جا رہے تھے۔ یہ آپ ہیں چند لمحوں بعد عدیل کے حلق سے گھٹی گھٹی آواز نکلی۔ اور تم تمہیں یہاں دیکھ کر مجھے حیرت ہو رہی ہے۔ جلیل شاہ عدیل کو اچانک اپنے سامنے دیکھ کر کچھ نروس ہو گیا تھا۔ کاش میں نے آپ کا یہ کریہہ اور بدنما چہرہ نہ دیکھا ہوتا۔ عدیل اذیت بھرے لہجے میں بولے۔ آپ اندر سے اتنے غلیظ اور کمینے ہو سکتے ہیں میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ عقیل شاہ ٹکٹکی باندھے عدیل کی طرف دیکھ رہے تھے۔ عدیل نے اپنے چہرے پر اُن کی نظروں کی تپش کو محسوس کرتے ہوئے پلٹ کر اُن کی طرف دیکھا تھا۔ میرا دل یہ بات کسی طرح ماننے کو تیار نہیں تھا کہ آپ نے میرے بابا کو نیم پاگل کر کے برسوں سے ایک تہہ خانے میں بند کر رکھا ہے۔ آپ نے میری ماں کو قتل کروایا اور دلکش سے میری شادی صرف اس لیے کروائی کہ خود آپ کی اُس پر نظر تھی میں آپ کو دیوتا سمجھتا تھا مگر آپ تو انسان کہلانے کے بھی لائق نہیں آپ تو شیطان سے بھی بڑے شیطان ہیں۔ اوہ اب جبکہ تم نے میرا اصل چہرہ دیکھ لیا ہے تو میرا خیال ہے کہ اب مجھے اُس کام میں دیر نہیں کرنی چاہیے جس کے لیے میں برسوں سے محنت کر رہا ہوں۔ پھر اُس نے مرید خان کو مخاطب کر کے حکم دیا۔ مرید خان وکیل کو فون کرو۔ اُس سے کہو کہ جائداد اور کاروبار کے کاغذات لے کے فوراً آ جائے ہمارا پیارا بھتیجا عدیل شاہ اپنی ساری دولت و جائداد اپنے پیارے چاچا کے نام کرنے جا رہا ہے۔ آپ کو دولت و جائداد چاہیے تھی نا عدیل شاہ کرب بھرے انداز میں بولے۔ اسی کی خاطر آپ اپنوں کی جان لیتے رہے۔ آپ نے ایک اشارہ کیا ہوتا مجھ سے پہلے میرے ماں باپ یہ سب آپ کے نام کر دیتے آپ ایک بار کہہ کر تو دیکھتے یہ دولت کیا چیز ہے میں اپنی جان بھی آپ پر نثار کر دیتا۔ تمہاری جان دینے کی یہ آرزو بھی ہم ضرور پوری کریں گے۔ جلیل شاہ سفّاکی سے مسکرایا۔ جب تم اپنی ساری دولت میرے نام لکھ دو گے تو تمہیں، تمہارے بوڑھے نیم پاگل باپ اور تمہاری بیوی کو میں موت کی نیند سُلا دوں گا تم لوگ دُنیا میں تو ساتھ نہیں رہ سکے مگر دُنیا سے ایک ساتھ جائو گے۔ عدیل نے پلٹ کر دلکش کی طرف دیکھا۔ وہ اسے تہہ خانے میں چھوڑ کر کار اسٹارٹ کر کے شہر کی طرف روانہ ہوگئے تھے۔ انہیں دلکش سے زیادہ خود پر غصہ تھا مگر کچھ دُور جا کر انہیں خیال آیا کہ وہ فضلو بابا سے وعدہ کر کے آئے ہیں کہ دلکش کو بہ حفاظت واپس اُن کے حوالے کریں گے۔ بھلا وہ اکیلی ان کھنڈرات سے کس طرح شہر پہنچ پائے گی یہی سوچ کر وہ واپس پلٹ آئے تھے اور جب کھنڈرات کے قریب پہنچے تو انہوں نے مرید خان، مٹھل اور حمید کو دلکش کو گھسیٹتے ہوئے جیپ کی طرف لے جاتے ہوئے دیکھا۔ وہ اپنی جگہ سُن ہوگئے تھے۔ پھر مرید خان کی جیپ سے کچھ فاصلہ رکھ کر اس کے پیچھے چلتے، اس تہہ خانے تک آ پہنچے تھے اور دروازے پر رُک کر جلیل شاہ کی زبانی اس کے کارنامے سنے تھے۔ کتنی دیر وہ سکتے کی سی کیفیت میں کھڑے رہ گئے تھے۔ انہیں اپنی سماعت پر یقین نہیں آ رہا تھا۔ دلکش کی بتائی ہوئی ایک ایک بات سچ ثابت ہوئی تھی۔ وہ دُکھ تاسف اور اذیّت کے ریلے میں بہہ کر اندر چلے آئے۔ یہاں انہوں نے ستون سے بندھے اُس بوڑھے شخص کو دیکھا جو اُن کا باپ عقیل شاہ تھا۔ اُن کے ساتھ دینو بابا تھا جن کے انتقال کی خبر برسوں پہلے خود جلیل شاہ نے پھیلائی تھی اور اُن سے چند قدموں کے فاصلے پر وہ لڑکی کھڑی تھی جس کا نام دلکش تھا۔ اور قدرت نے اس کا نام اُن کے نام سے جوڑ دیا تھا۔ اُن کی شریک زندگی بننے کے بعد، وہ آج تک دُکھ جھیلتی آئی تھی۔ اس شادی کے طفیل اس کا پورا خاندان مٹ گیا تھا۔ اتنا سب ہونے کے باوجود اس کے دل میں اُن کے لیے احترام تھا، محبت تھی۔ وہ انہیں پانا چاہتی تھی۔ اللہ نے انہیں اُس کا جیون ساتھی بنا دیا تھا۔ وہ اُن کے قدموں میں اپنا جیون گزارنا چاہتی تھی اسی لیے انہیں سچائی تک پہنچانے کے جتن میں لگی تھی۔ پہلی بار دیکھنے پر انہیں دلکش اچھی لگی تھی۔ اس کے گھر کے اَدھ کھلے کواڑ سے جھانکتا اس کا کومل چہرہ دل میں اُترتا محسوس ہوا تھا۔ پر بعد میں جلیل شاہ سے اس کے خلاف باتیں سن کر اُن کے دل میں دلکش کے لیے ایک دُوری آ گئی تھی پھر بھی چاہنے کے باوجود وہ اُس سے نفرت نہیں کرسکے تھے۔ اس پل انہیں اپنے دل میں دلکش کے لیے ایک نئے انجانے جذبے کا احساس ہو رہا تھا۔ مرید خان جلیل شاہ نے مرید خان کو مخاطب کیا۔ جب تک وکیل آتا ہے تو ہمارے بھتیجے کو بھی کی دُلہن کے ساتھ ستون سے باندھ دے۔ بندھے رہ کر ہی سہی کچھ دیر تو دونوں ساتھ وقت گزار لیں۔ مرید خان کو اپنی جانب بڑھتے دیکھ کر عدیل نے اسے گھور کردیکھا تو وہ اپنی جگہ سہم کر رُک گیا اور عدیل باوقار انداز میں چلتے دلکش کے قریب جا کھڑے ہوئے۔ اُن سے کچھ فاصلے پر عقیل شاہ موجود تھے، اُن کا دل چاہ رہا تھا کہ وہ باپ کے سینے سے جا لگیں مگر وہ ضبط کیے دلکش کے قریب کھڑے رہے۔ دلکش نے متاسف لہجے میں کہا۔ آپ آپ کیوں آئے یہاں یہاں نہ آتا تو کیسے جان پاتا کہ تم نے سچ بولا تھا۔ عدیل نے دھیمے اور نرم لہجے میں جواب دیا۔ مجھے افسوس ہے دلکش کہ تمہاری زندگی کی تمام مشکلات کی وجہ میں ہوں۔ ایسا مت کہیئے۔ دلکش تڑپتے لہجے میں بولی۔ آپ ہی کی وجہ سے تو میں آج تک زندہ ہوں۔ آپ کو پا لینے کا یقین نہ ہوتا تو میں کب کی موت کی گود میں جا سوئی ہوتی۔ دلکش میں نے جب تمہیں پہلی بار دیکھا تھا تو تمہارے ساتھ زندگی گزارنے کی خواہش نے میرے دل میں جنم لیا تھا۔ یہ خواہش شاید پوری نہ ہو سکے لیکن مجھے خوشی ہے زندگی نہ سہی موت کو ہم ایک ساتھ گلے لگائیں گے تمہیں ڈر تو نہیں لگ رہا آپ کے قدموں میں زندگی گزرے یا آپ کے ساتھ موت آئے اس سے بڑھ کر بھلا میں اور کیا چاہ سکتی ہوں۔ عدیل نے آنکھوں میں جہان بھر کا پیار سمیٹ کر دلکش کی طرف دیکھا۔ دلکش کی حیا بار نگاہیں گلنار رُخساروں پر جھک گئی تھیں۔ ٹھیک اسی لمحے سیڑھیوں پر کچھ کھٹر پٹر ہوئی اور کوئی تیزی سے اندر داخل ہوا۔ کون ہو تم مرید خان نے ڈپٹ کر پوچھا۔ یہاں کیسے آئے اس دروازے سے۔ فضلو بابا نے بڑی معصومیت سے دروازے کی طرف اشارہ کیا۔ ارے بدبختو تم لوگوں نے اس پوشیدہ تہہ خان کو شاہراہ عام بنا دیا ہے۔ جلیل شاہ غصے سے بولا۔ کیا اُوپر کے سارے دروازے کھلے چھوڑ آئے ہو کہ جس کا دل چاہے منہ اُٹھا کر یہاں پہنچ جائے۔ تب ہی ایک بار پھر دھڑ سے دروازہ کھلا اور یکے بعد دیگرے کئی پولیس والے اندر داخل ہوئے۔ سب سے آگے ڈی آئی جی اعظم خان تھے۔ خبردار کوئی بھی اپنی جگہ سے نہ ہلے۔ اعظم خان کی کراری آواز گونجی۔ انہوں نے ہاتھ میں پستول تانا ہوا تھا۔ اعظم خان کو دیکھ کر جلیل شاہ اُچھل پڑا۔ اعظم خان سارے گرگوں کی گرفتاری کا آرڈر دیتے جلیل شاہ کی طرف متوجہ ہوئے۔ جلیل شاہ میں تمہیں گرفتار کرتا ہوں۔ اعظم خان میں تمہارا دوست ہوں۔ جلیل شاہ نے ہتھکڑی دیکھ کر گھبرائے ہوئے لہجے میں یاد دلایا۔ مجھے اس بات کا ہمیشہ افسوس رہے گا کہ میں تمہارے اندر موجود شیطان صفت انسان کو نہ پہچان سکا اور تم جیسے کریہہ انسان کی دوستی کا دَم بھرتا رہا۔ اعظم خان نے متاسف لہجے میں کہا۔ ایک پولیس مین نے دینو بابا، عقیل شاہ اور دلکش کو بندھنوں سے آزاد کر دیا۔ عقیل شاہ نے ہاتھ پھیلا کر عدیل کو پکارا۔ میرے بچّے میرے عدیل۔ اور عدیل اُن کے سینے میں جا سمائے۔ جلیل شاہ اور اس کے گرگوں کو ہتھکڑیاں پہنا کر دیگر پولیس والوں کے حوالے کر کے اعظم خان عدیل اورعقیل شاہ کے قریب آگئے۔ تھینک یو انکل۔ عدیل نے انہیں مخاطب کر کے ممنون لہجے میں کہا۔ ارے بھائی شکریہ تم میرا نہیں، فضلو بابا کا ادا کرو۔ وہ فضلو بابا کی پیٹھ تھپک کر بولے۔ تم دونوں کے جانے کے بعد یہ بہت پریشان ہوگئے تھے ان کی سمجھ میں جب کچھ نہیں آیا تو یہ میرے گھر چلے آئے اور سونم سے قصہ بیان کیا۔ سونم نے میرے پاس آ کر ساری بات بتائی اور مجھے فوراً اندازہ ہو گیا کہ تمہارے ساتھ دلکش کی زندگی بھی خطرے میں ہے سو میں پولیس نفری لے کے فوراً نکل پڑا اورتم دیکھ رہے ہو میرا اندازہ کتنا دُرست ثابت ہوا۔ جلیل شاہ کی جرائم کی فہرست اتنی طویل تھی کہ اس کے بچ نکلنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔ مرید خان سلطانی گواہ بن گیا۔ اس کی گواہی پر جلیل شاہ پر نوشابہ بیگم کے والد اور نوشابہ بیگم کے قتل کے علاوہ دلکش کی نانی اور سوتیلی ماں کے قتل کے کیس بھی بنے۔ مصعب کو پورا یقین تھا کہ جلیل شاہ کو پھانسی سے کم سزا نہیں ہوگی۔ دلکش کے کیس کی وہی پیروی کر رہے تھے۔ خبر ملتے ہی مصعب اور سجیلہ فوراً واپس آ گئے تھے۔ عقیل شاہ کی خواہش تھی کہ کیونکہ دلکش اور عدیل کی پہلے ہی شادی ہو چکی تھی اس لیے اب وہ دونوں اُن کے ساتھ حویلی میں رہیں۔ مگر سجیلہ کی خواہش تھی کہ دلکش کو ایک بار پھر دُلہن بنا کر اپنے گھر سے رُخصت کرے۔ اس کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے ایک مہکتی ہوئی شام کو عدیل اپنے والد عقیل شاہ کے ساتھ مصعب کے گھر بارات لے کے پہنچے، شادی میں شرکت کے لیے سونم اپنے منگیتر ایس ایس پی سلمان علی کے ساتھ آئی تھی۔ منگنی مبارک ہو۔ دلکش نے سونم کے گلے لگتے ہوئے سرگوشی کی۔ کیسے ہیں سلمان بھائی بہت اچھے ہیں۔ سونم مسکراتے لہجے میں بولی۔ بہت ہی اچھے ہیں تمہارے سلمان بھائی مگر ہمارے عدیل بھائی سے زیادہ اچھے نہیں ہیں۔ دلکش بے ساختہ ہنس پڑی۔ اس کی ہنسی میں زندگی سے بھرپور سونم کا قہقہہ بھی شامل تھا۔ حویلی کی پہلی منزل پر ایک وسیع و کشادہ خوابگاہ کو بے حد خوبصورتی سے سجایا گیا تھا۔ دلکش دُلہن بنی نگاہیں جھکائے عدیل کی منتظر تھی۔ تب ہی آہستگی سے دروازہ کھلا۔ کوئی آہستگی سے چلتا اس کے قریب چلا آیا تھا۔ پھر دو ہاتھ آگے بڑھے اور عدیل نے اس کا گھونگھٹ اُلٹ دیا۔ دلکش نے پٹ سے بند آنکھیں کھول دی تھیں، اس کے سامنے عدیل کا مسکراتا ہوا چہرہ تھا۔ عدیل نے بانہیں پھیلا کر دلکش کو اپنی محبت کی پناہوں میں لے لیا۔ رات دبے پائوں گزرتی جا رہی تھی۔ مہکتے لمحے چپکے چپکے سرکتے جارہے تھے۔ اسیرانِ عشق وصل کی شوخ اور آزاد فضائوں میں ملاپ کے خوش رنگ پھول چُن رہے تھے۔ پتا ہی نہیں چلا کب رات بیت گئی۔ دُور مشرقی اُفق سے جھانکتی صبح، اپنی سنہری پوروں سے خواب ریزے چُنتی حویلی کے خوابیدہ در و دیوار کی طرف بڑھ رہی تھی۔ ختم شد
null
null
null
null
477
https://www.urduzone.net/kya-khoya-kya-paya-teen-auratien-teen-kahaniyan-2/
صفیہ کا تعلق ایک ایسے خاندان سے تھا جو پرانی روایات کا پابند تھا۔ مشرقی تہذیب کی پروردہ صفیہ کے خاندان میں شادیاں کم سنی میں کر دی جاتی تھیں۔ ان کا نکاح بھی ان کے چچا زاد قادر سے ہوگیا۔جب یہ نکاح ہوا، صفیہ کی عمر بارہ برس تھی اور رخصتی تین سال بعد ہونا قرار پائی تھی۔ قادر زیر تعلیم تھے۔ تین سال بعد جب رخصتی کا وقت آیا، قادر کے چچا نے اپنے بڑے بھائی کوخط تحریر کیا کہ قادر کو میرے پاس انگلینڈ بھجوا دو تاکہ یہاں رہ کر اعلیٰ تعلیم حاصل کر لے، میں اس کے اخراجات کی ساری ذمہ داری لیتا ہوں۔ یہ چچا کافی عرصہ سے برطانیہ میں مقیم تھے اور وہاں خوشحال زندگی بسر کر رہے تھے۔ ان کے پاس روپے پیسے کی کمی نہ تھی، زندگی کی دیگر سہولیات ان کو حاصل تھیں۔ جب قادر کو علم ہوا کہ چچا ان کو برطانیہ بلوانا چاہتے ہیں، وہ والد کے سر ہوگئے۔نوجوان تھے، لندن دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ وہاں ایک اچھی یونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم کا موقع مل رہا تھا۔ باپ نے مخالفت بھی کی کہ تمہارا نکاح ہو چکا ہے اور بہو کی رخصتی ہونا باقی ہے۔ یہ مرحلہ طے ہو جائے تو چلے جانا لیکن وہ نہ مانے کہا کہ ابھی رخصتی کا معاملہ نہ اٹھایئے، پہلے میں ایک چکر برطانیہ کا لگاآئوں پھر صفیہ کو رخصت کرا کے گھر لے آئیں گے۔ یوں وہ اپنی منکوحہ کو چھوڑ کر لندن چلے گئے۔ ان کے چچا نے وہاں بھتیجے کا ایک اچھی یونیورسٹی میں داخلہ کرا دیا اور اخراجات کی تمام ذمہ داریاں سنبھال لیں۔ ایک اعلیٰ تعلیمی ادارے میں پڑھنے کا موقع ملا تھا، اس موقع سے فائدہ نہ اٹھانا بے وقوفی تھی۔ انہوںنے منکوحہ اور رخصتی والا قصہ بھلا دیا اور جی جان سے تعلیم کے حصول میں لگ گئے۔ صحیح کہتے ہیں جو وہاں آ جاتا ہے وہیں کا ہو رہتا ہے۔ برس پر برس گزرتے چلے گئے۔ انہوں نے تعلیم مکمل کی لیکن واپس لوٹنے کا نام نہ لیا۔ کبھی بھول کر بھی اپنی منکوحہ کا خیال نہ کیا۔ وہاں کی رنگینیوں میں پوری طرح گم ہو گئے۔ وقت تیزی سے گزرتا گیا۔ قادر ایک فرنگی حسینہ کی دوستی میں ایسے کھوئے کہ صفیہ کی یاد باقی نہ رہی۔ انہوں نے اس ہوش ربا سے شادی کر لی۔ قادر نے اپنی انگریز بیوی پر یہ آشکار نہ ہونے دیا کہ وطن میں ان کی تایازاد ان کے نکاح میں ہے اور انتظار کر رہی ہے کہ کب بالما آئے گا اور ان کو بیاہ کر اپنے گھر کے آنگن کا سنگھار بنائے گا۔ قادر نے اپنی شادی کو صفیہ کے گھر والوں سے چھپائے رکھا۔ والدین کو علم ہوا تو وہ بھی مصلحتاً چپ رہے کہ جانے فرنگی عورت سے شادی کب تک قائم رہتی ہے۔آخر لوٹ کر بدھو گھر کو آتے ہیں، ایسا نہ ہو کہ صفیہ کے گھر والے جذبات میں آ کر نکاح ختم کرانے کا مطالبہ کردیں۔ حالانکہ ایسا نہ تھا، ان کے ہاں حالات جو بھی ہوں، بیٹی کو طلاق نہیں دلواتے تھے۔ اس واقعہ کے چھ برس بعد قادر والدین سے ملنے آئے لیکن ہوٹل میں ٹھہرے، ایک رات گھر آئے اور چلے گئے۔ عقلمندوں کے لئے اشارہ کافی ہوتا ہے۔ یہ بات سب کی سمجھ میں آ گئی کہ انہوں نے ایسا کیوں کیا۔ دراصل وہ اپنی شادی کے راز کا افشا نہ چاہتے تھے اور ان کے والدین کو بھی ابھی تک یہی خوف لاحق تھا کہ دیکھئے یہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ ایسا نہ ہو صفیہ کے والدین بگڑ جائیں۔ ایسا کچھ نہ ہوا۔ فرنگن اور قادر صاحب کی خوب بن گئی اور نباہ ہوتا رہا۔ ان کے تین بچے ہو گئے۔ دو بیٹے اور ایک بیٹی۔ بیٹوں کے نام شہزاد اور مراد تھے جبکہ بیٹی کا نام مریم رکھا گیا۔ باپ مریم پکارتے تھے مگر ماں اسے ماریہ کہتی تھی۔ قادر صاحب نے لندن میں بھی اپنی روایات کا خیال رکھا۔ بچوں کی پرورش مشرقی خطوط پر کرنے کی پوری کوشش کرتے تھے۔ یہ عمل ان کی نیک نیتی پر مبنی تھا کہ چاہتے تھے کہ بچے مغربی تہذیب کی وجہ سے بے راہ رو نہ ہو جائیں، وہ اپنی مشرقی اقدار سے بھی واقف ہوں، اس کے لیے بچوں پر روک ٹوک رکھتے۔ یہ بات ان کی بیوی میری کو قطعی پسند نہ آئی۔ اگر میاں بیوی میں اختلاف ہوتا تو بس اس بات پر کہ وہ بچوں کو فجر کے وقت جگا کر نماز کا طریقہ سکھاتے، اپنے ساتھ جائے نماز پر کھڑا کرتے۔ میری کہتی وہ ان کو سکون سے ان کی مرضی کی زندگی گزارنے نہیں دیتے۔ کچھ عرصہ انہوں نے بیوی کی مخالفت کی پروا نہ کی۔ جب بچوں کو بیزار ہوتے دیکھا تو ان کو ان کے حال پر چھوڑ دیا۔ ادھر کچھ رشتہ داروں نے نانا اور نانی کو سمجھایا کہ کب تک جوان لڑکی کو بغیر رخصتی بٹھائے رکھو گے۔ بہتر ہوگا کہ طلاق لے لو اور کہیں اور رشتہ کر دو کیونکہ نکاح ہوا ہے، رخصتی تو نہیں ہوئی۔ وہ بے وفا لوٹ کر نہ آئے گا۔آیا بھی تو صفیہ کو نہ اپنائے گا کیونکہ وہاں وہ اپنے بچوں میں خوش وخرم زندگی گزار رہا ہے۔ بات تو صحیح تھی۔ والدین نے بیٹی سے رائے لی۔ صفیہ راضی نہ ہوئی، کہا کہ عمر بھر ایسے ہی رہوں گی۔ طلاق نہیں لوں گی۔ آپ لوگ مجھے میری قسمت کے حوالے کر دیں، اللہ تعالیٰ کوئی بہتر راہ نکال دے گا۔ والدین بیٹی کا فیصلہ سن کر خاموش رہنے پر مجبور ہو گئے۔ ادھر قادر لندن میں اپنی ا نگریز زوجہ کے ہمراہ خوش وخرم زندگی گزار رہے تھے۔ ان کو یاد بھی نہ رہا کہ ایک معصوم لڑکی ان کے نکاح میں بندھی، ان کے نام پر زندگی کے دن گزار رہی ہے۔وقت پَر لگا کر اُڑتا رہا۔ قادر کا بیٹا شہزاد بارہ سال کا، مراد دس برس کا اور مریم آٹھ سال کی ہوگئی۔ جب تک بچے کم سن تھے، وہ باپ کا کہا مان لیتے تھے، اب ماحول کے رنگ نے اثر دکھانا شروع کر دیا اور بچوں نے فلک کی جانب پرواز کے لیے پَر تولنا شروع کر دیئے۔ یہ چار سال قادر کے لیے بڑے کٹھن تھے۔ جوں جوں ان کی اولاد جوان ہو رہی تھی، وہ آزادی کے متوالے ہوتے جا رہے تھے۔ ایک وہ دن آیا کہ بیٹے اور بیٹی بالکل ان کے اختیار میں نہ رہے۔ وہ جب چاہتے اپنے دوستوں کے ہمراہ چلے جاتے۔ لڑکوں نے لڑکیوںسے ایسی دوستیاں کر رکھی تھیں کہ جن کا تصور ہی ایک پاکستانی والد کے لیے سوہانِ روح تھا جبکہ بیٹی جو اب سولہ برس کی ہو گئی تھی، اپنے بوائے فرینڈ کو گھر لانے لگی۔ جی چاہتا تو اس کے ساتھ کسی نامعلوم تفریحی مقام پر چلی جاتی اور اپنی مرضی سے واپس آتی۔قادر نے بیوی سے شکوہ کیا کہ اس نے بچوں کے معاملے میں بہت نرم رویہ اختیار کر رکھا ہے جس کے نتائج اچھے نہ ہوں گے اور بعد میںجب بچے دکھوں کی گھاٹی میں اتر جائیں گے تو ماں باپ کو بھی دکھ کا سامنا کرنا پڑے گا۔ میری نے کہا۔ زندگی اسی کا نام ہے۔ ہمارے بچوں کو خوشی کی زندگی بسر کرنے کا حق ہے، یہی عمر ہے دوستوں کے ہمراہ انجوائے کرنے کی۔ ہم نے بہت زیادہ روک ٹوک کی تو وہ باغی ہو جائیں گے۔ ہم سے متنفر ہو کر گھر چھوڑ دیں گے، تب آپ کیا کریں گے۔ قادر نے انگریز خاتون سے شادی تو کر لی تھی لیکن آج کے دن کا نہیں سوچا تھا۔ اب پتا چلا کہ جب اولاد جوان ہو جائے، خاص طور پر بچیاں تو والد کی غیرت اتنی آزادی کو برداشت نہیں کر سکتی۔ انگریز کا معاشرہ زیادہ تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ سہی مگر ایک پاکستانی باپ کے لیے یہ بات ایک امتحان سے کم نہیں ہوتی کہ اس کی جوان بچی کسی غیر لڑکے کے ساتھ اکیلے گھر میں بغیر شادی کئے رات دن گزارے۔ یہ بات ان کو کسی صورت گوارا نہ تھی۔ اب اس بات پر میاں بیوی میں کھنچائو رہنے لگا۔ قادر بچوں کو وطن لے جانا چاہتے تھے اور ماں اس بات کے لیے آمادہ نہ تھی۔ ادھر بچے بھی آئے دن کی چخ چخ سے بیزار ہوتے جا رہے تھے۔ بالٓاخر اس کشاکش کا انجام ہوگیا۔ میری نے قادر کو چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس نے کہا۔ تمہارے ساتھ تمہاری حسب منشا زندگی صرف تمہارے دیس کی عورت ہی گزار سکتی ہے۔ میں نے سولہ برس گزار لیے، میری ہمت ہے لیکن میرے بچے اب تمہارے عجیب و غریب اور بیمار قسم کے خیالات کا دبائو برداشت نہیں کر سکتے۔ ہم سب نے تم کو چھوڑ کر جانے کا فیصلہ کرلیا ہے، تاہم تم چاہو جو اولاد تمہارے ساتھ رہنا چاہے، وہ رہ سکتی ہے۔ اپنے ہر بچے سے پوچھ لو کہ کون تمہارے ساتھ رہنا چاہتا ہے۔ قادر سکتے میں آ گئے کہ میری نے اتنے برس ساتھ رہ کر بھی بالآخر علیحدگی کا فیصلہ کر لیا تھا۔باوجود سمجھانے کے میری نے اپنا فیصلہ نہ بدلا۔ اس نے کہا اگر تم نے زیادہ مجبور کیا تو میں کورٹ سے رجوع کر لوں گی۔ بہتر ہے جو سچ ہے اسے قبول کر لو۔ میں جا رہی ہوں، بچے بھی میرے ساتھ جا رہے ہیں، تم نے ملنا ہو تو میری والدہ کے گھر آ کر مل جانا۔ قادر ساس کے گھر گئے۔ بہت منت کی، بچوں کو بھی سمجھایا کہ تم لوگ میرے ساتھ چلو مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ میری نے کہا۔ میں نے جو فیصلہ کیا ہے بہت سوچ سمجھ کر کیا ہے۔ ہمارا نباہ نہیں ہو سکتا۔ قادر اس علیحدگی کے صدمے سے بری طرح ٹوٹ گئے۔ وہ بچوں پر زبردستی نہ کرسکتے تھے کیونکہ بچے اگر پولیس میں جا کر شکایت کر دیتے تو ان کی شامت آ سکتی تھی۔ دونوں لڑکوں نے برملا کہہ دیا کہ آپ ہماری خوشیوں سے حسد کرتے ہیں۔ ہر وقت گناہ، ثواب کی باتیں کرکے ہمارے دماغ کو اذیت پہنچاتے ہیں، آپ بہت ظالم ہیں، ہم آپ کے ساتھ نہیں ر ہ سکتے۔ قادر آنکھوں میں آنسو بھرے لوٹ رہے تھے کہ ان کی بیٹی مریم کو اپنے والد پر ترس آ گیا۔ ڈیڈی میں اس شرط پر آپ کے ساتھ چلوں گی کہ جب کہوں گی مجھے واپس یہاں لے آئیں گے۔ وہ اسے لے کر گھر آ گئے۔ لیکن لڑکی بہت پریشان تھی، وہ ماں کے زیادہ قریب تھی۔ دو دن بمشکل باپ کے پاس رہی۔ قادر نے محسوس کیا کہ وہ اکیلے بیٹی کے ہمراہ نہیں رہ سکیں گے۔ دوستوں نے مشورہ دیا کہ بچی کو کسی طرح راضی کرو اپنے وطن کے لئے اور اس کو لے کر پاکستان چلے جائو، بیٹوں کو لندن میں رہنے دو۔ باپ نے بیٹی سے بات کی کہ میں چاہتا ہوں کہ ہم کچھ عرصہ پاکستان چل کر رہیںکیونکہ تمہاری والدہ کی علیحدگی کے فیصلے سے بہت زیادہ مغموم اور ڈسٹرب ہوں۔ اگر تم کچھ دنوں کے لیے میرا ساتھ دو تو میں اس صدمے کی کیفیت سے نکل سکتا ہوں، نارمل ہو جائوں تو تم ماںکے پاس واپس آ نا چاہو تو لوٹ آنا۔ پاکستان میں تم اپنے ددھیالی رشتہ داروں، دادا، دادی، پھوپھی، چچا وغیرہ سب سے مل سکو گی۔ ان لوگوں سے ملو گی تو تم کو بے حد خوشی ہوگی کیونکہ وہ بھی تمہیں دیکھنا اور تم سے ملنا چاہتے ہیں۔ بچی تھی، وہ باپ کی باتوں میں آ گئی۔ اس نے ماں سے اجازت مانگی تو میری نے نہیں روکا۔ وہ سمجھتی تھی کہ بیٹی باپ سے اتنا ہی پیار کرتی ہے جتنا اس سے۔ وہ یہ بھی جانتی تھی کہ مریم اگر وہاں اداس ہوئی تو قادر بیٹی کو واپس لے آئے گا۔ وہ بیٹی کو زبردستی اپنے وطن میں رہنے پر مجبور نہیں کر سکتا۔ ددھیا ل سے ملنے اور پاکستان دیکھنے کے شوق میں مریم، قادر کے ہمراہ آ گئی۔ بچی کا سواگت ددھیالی رشتے داروں نے جوش و خروش سے کیا اور بہت پیار دیا۔ مریم یہاں آ کر خوش ہو گئی۔قادر نے تمام احوال اپنے والدین کے گوش گزار کر دیا، تب ان کی ماں نے یاد دلایا کہ پچیس برس سے بھی زیادہ کا عرصہ سے تمہاری منکوحہ یہاں تمہاری راہ دیکھ رہی ہے۔ اپنی خوشیوں میں ایسے کھوئے کہ اس معصوم لڑکی کا تم کو ایک بار بھی خیال نہ آیا جو اتنے عرصہ سے تمہارے نام پر بیٹھی ہے۔ اس کو طلاق دے کر آزاد بھی نہ کیا، کس بات کی سزا دی ہے۔ اللہ تعالیٰ کی لاٹھی بے آواز ہوتی ہے۔ شاید اسی سبب آج یہ دن دیکھنا پڑا ہے۔ بہتر ہے کہ اس کو رخصت کرا کے گھر لے آئو اور اپنا گھر پھر سے بنا لو۔ اس فرنگن کو بھول جائو۔ بیٹی تو ہے تمہارے پاس، بیٹوں کی کیا فکر، وہ تو لڑکے ہیں۔ قادرنے خاموشی سے ماں کی باتیں سنیں اور بولے۔ ماں میری ہمت نہیں پڑتی کہ تایا ابو سے جا کر کچھ کہوں۔ آپ مناسب سمجھتی ہیں تو بات کر لیں۔ ماں اور باپ نے جا کر بڑے بھائی سے بات کی۔ وہ لوگ تو پہلے ہی راضی نہ تھے۔ جب صفیہ سے پوچھا تو وہ بولی۔ مجھے اسی دن کا انتظار تھا۔ اس نے سر تسلیم خم کر دیا تو اس کے صابر و شاکر والدین نے بھی بھتیجے کو معاف کر دیا اور سادگی سے بیٹی کو رخصت کر دیا۔ صفیہ نے سوچا بھی نہ تھا کہ اس کی زندگی میں کبھی یہ دن بھی آئے گا لیکن اللہ ہر صبر کرنے والے کی ضرور سنتا ہے۔ اس نے صفیہ کے صبر کی بھی لاج رکھ لی۔بتاتی چلوں کہ صفیہ میری بڑی خالہ تھیں۔ وہ بیاہ کر قادرخالو کے ہمراہ لندن آ گئیں۔ پہلی بار خالو کو احساس ہوا کہ اصل جیون ساتھی کیا ہوتا ہے۔ گھر کا آرام اور دل کے سکون سے کیسی راحت ملتی ہے۔ مریم کے لئے یہ اچھا ہوا کہ اس نے نہ صرف ددھیال میں اچھا وقت گزارہ، بطور نئی ماں صفیہ کو بھی قبول کر لیا۔اب وہ کبھی اپنی حقیقی ماں کے پاس چلی جاتی اور کبھی باپ کے پاس لوٹ آتی۔ خالہ صفیہ سے قادر انکل کے ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہوئے۔ ان کا گھر پھر سے آباد ہو گیا۔ میری نے بھی اپنے ایک پرانے دوست سے شادی کر لی، لڑکوں نے حالات کی پروا نہ کی۔ وہ اپنی زندگی میں کھوئے ہوئے ہیں۔ لیکن مریم نے بہت اثر قبول کیا۔ وہ ماں کے ساتھ خوش رہتی تھی اور نہ باپ کے پاس، اس کی زندگی دوحصوں میں بٹ گئی تھی۔ خالہ صفیہ نے اسے بہت پیار دیا اور کچھ اپنے ڈھب پر بھی لانے کی کوشش کی لیکن اس کی عادتیں پختہ ہو چکی تھیں۔ ماں اور باپ کی علیحدگی کے بعد وہ پہلی جیسی نہ رہی تھی۔ بے سکون رہتی تھی۔ اس بے سکونی کا اس نے یہ علاج ڈھونڈ لیا کہ دوبارہ اپنے بوائے فرینڈ سے ملنے لگی۔ایک انگریز لڑکے کی محبت میں گرفتار ہوگئی تو کم سنی میں ہی وہ پوری عورت بن گئی۔ اپنے فیصلے خود کرنے لگی۔ ایک دن وہ باپ کے گھر سے چلی گئی اور اپنے محبوب دوست کے ہمراہ رہنے لگی۔ وہ بغیر شادی کے اس کے ساتھ رہتی تھی۔ میرے خالو کی غیرت کا جنازہ نکل گیا۔ وہ صدمے سے نڈھال ہوگئے، تب خالہ صفیہ نے سمجھایا کہ وہ جیسی زندگی گزارنا چاہتی ہے، گزارنے دو۔ آپ اس کو روک نہیں سکتے کیونکہ اس معاشرے کی روایات ہمارے معاشرے سے بہت مختلف ہیں۔ آپ اب اپنی چھوٹی بچی کا خیال کریں۔ جانتا ہوں کہ میری چھوٹی بیٹی صحیح راہ پر رہے گی کیونکہ اس کی ماں تم ہو لیکن بڑی کو بھی میں نہیں بھلا سکتا۔ اس کا غم مجھے مارے ڈالتا ہے۔ یہ پہلے سوچ لینا چاہیے تھا جب انگریز عورت سے شادی کی تھی۔ بچوں کو بھی تو اسی معاشرے میں پلنا تھا، اپنی اقدار کو اپنانا تھا۔ ان کو جوان بھی ہونا تھا، جوانی کے کچھ تقاضے ہوتے ہیں۔ ہمارے یہاں بچپن سے والدین اپنے بچوں کو تربیت دیتے ہیں۔ وہ تربیت ان کو یہاں انگریز ماں نہیں دے سکتی۔ اب غم کرنے سے بچے واپس نہیں لوٹ سکتے۔ قادر خالو نے باقی ماندہ زندگی بہت سکون کے ساتھ خالہ صفیہ کے ساتھ گزاری۔ ان کے بچے جو خالہ صفیہ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے، وہ مشرقی اقدار سے واقف تھے۔ جیسا ماں باپ چاہتے تھے ویسا کرتے۔ میری والے بچے ایسے قادر کے آشیانے سے اُڑ کر گئے کہ پھر کبھی پلٹ کر نہ آئے۔انہوں نے اپنی پسند کی دنیا آباد کر لی۔ قادر خالو کو اپنے بڑے تینوں بچوں کا بہت دکھ تھا۔ وہ کچھ ایسی زندگی جی رہے تھے جس کی اجازت ہمارا دین اور نہ اخلاق دیتا تھا۔ لڑکی نے بغیر شادی اولاد پیدا کر لی اور لڑکوں میں سے ایک نے اپنے جیسے لڑکے کے ہمراہ زندگی اختیار کر لی۔ ایسا کچھ سوچ کر بھی ہم پر کپکپی طاری ہو جاتی تھی۔ آجکل جو ہمارے ہم وطن وہاں رہتے ہیں، وہ پہلے جا کر آباد ہونے والوں سے یوں بہتر ہیں کہ انہوں نے پچھلے تجربات سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ وہ اب اپنے بچوں کی اخلاقیات پر بہت زیادہ توجہ دے رہے ہیں۔ یہ کہانی ان دنوں کی رقم کی ہے جب ابھی پاکستان نیا نیا بنا تھا اور برطانیہ جانا نسبتاً آسان تھا، تب تارکین وطن کا وہاں جا کر بسنے کا شوق بھی نیا نیا تھا لہٰذا کچھ لوگوں نے اپنی اولاد کو پیش آنے والے مسائل کے بارے میں پیشگی نہ سوچا۔ تبھی ایسی کہانیوں نے جنم لیا۔ آج اللہ کا شکر ہے ہمارے ہم وطن دوراندیشی سے کام لے رہے ہیں اور مشرقی اقدار کو روشناس کروانے میںکم ہی کوتاہی برتی جا رہی ہے۔ میں پھر بھی یہ بات ضرور کہوں گی کہ ہمارے ہم وطنوں کو دیارِغیر میں جیون ساتھی کا انتخاب کرتے وقت بہت زیادہ سوچنا سمجھنا چاہیے تاکہ ان کی آنے والی نسلیں مزید پریشانیوں کا شکار نہ ہوں اور وہ بڑھاپے میں تنہائی کے عذاب سے بچ جائیں۔ مسز ن۔ الف کراچی
null
null
null
null
478
https://www.urduzone.net/khojh-episode-26/
عبداللہ کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی جیسے اُس نے کوئی لطیفہ سُن لیا ہو۔ اُس نے جلدی سے ٹونی اور مارتھا کو خدا حافظ کیا اور خاموشی سے اس شخص کے ساتھ جا کر بیٹھ گیا۔ کوئی منٹ گذر گئے مگر اس شخص نے تو جیسے بات نہ کرنے کی قسم کھائی ہوئی تھی۔ عبداللہ کو بھی کوئی جلدی نہیں تھی وہ جمعہ کی چھٹی کرتا تھا کام سے۔ جب مسجد خالی ہوگئی تو وہ شخص جانے کے لئے اُٹھا تو عبداللہ نے ہاتھ پکڑ کے سلام کیا اور کہا بھائی بہت بھوک لگی ہے۔ اکیلے کھانے کا جی نہیں چاہ رہا۔ آپ ساتھ چلو گے تو بڑا احسان مند رہوں گا، اس شخص نے سر ہلا کر حامی بھرلی۔ کھانا کھاتے ہوئے اُس شخص نے عبداللہ سے کہا۔ لگتا ہے نئے آئے ہو، کمیونٹی نے میرا بائیکاٹ کردیا ہے۔ میں سال جیل میں رہ کر آیا ہوں، اچھا آدمی نہیں ہوں، تم بھی آئندہ نہ ملنا۔ عبداللہ نے کہا، ارے واہ چلیں ہاتھ اُٹھائیں میرے واسطے دعا کردیں، اللہ مجھے آپ کے صدقے سے قبول کرلیں۔ آدمی حیران و پریشان عبداللہ کو دیکھتا رہا، کہنے لگا سماعت میں خلل ہے کیا، عمرہ کرکے نہیں جیل سے آ رہا ہوں، تم دعا کا کہتے ہو۔ عبداللہ نے کہا، دیکھئے جناب جیل میں تو آدمی تنہا ہوتا ہے۔ اوپر خُدا ہوتا ہے اور نیچے اُس کا پچھتاوا، اِس حالت میں کوئی سال گذار دے تو دوسروں کی زندگیوں پر بھاری ہے۔ آپ نے خوب دل لگا کر یکسوئی کے ساتھ دعائیں مانگی ہوں گی۔ اُس شخص نے گھورتی آنکھوں سے بے یقینی کی سی کیفیت میں عبداللہ کو دیکھا اور کہنے لگا کہ آپ فلاں آدمی کو تو جانتے ہوں گے۔ مسجد میں بڑے مشہور ہیں اور بڑا پڑھا لکھا ہے انہوں نے اِسلام کو۔ وہ تو ابھی کہہ رہے تھے کہ مِسٹر قدرت تم سے اِنتقام لے گی، اللہ بُھولتا نہیں ہے وہ بدلہ لے گا اور جہنم میں فلاں فلاں سزائیں ملیں گی اور اللہ بڑا ہے اِس بات سے کہ وہ تم جیسے لوگوں کو سُنے وہ بے نیاز ہے ۔ اب کیا کہو گے عبداللہ۔ انہوں نے تو حدیث سے بھی اور تفسیر سے بھی ثابت کردیا کہ میری دنیا بھی گئی اور دین بھی۔ عبداللہ کی آنکھوں سے آنسوؤں کی لڑی لگ گئی، وہ کہنے لگا سبحان اللہ، اگر اللہ نہیں سُنے گا تو کون ہے کائنات میں جو سُنے وہ سمیع و بصیر ہے۔ آپ فکر نہ کریں ان صاحب کو علم کی بد ہضمی ہوگئی ہے۔ جہالت سے گمراہی آتی ہے۔ علم سے کِبر آتا ہے۔ جہالت کی گمراہی کا علاج بہت آسان ہے، علم کے کِبر کا بڑا مشکل ہے۔ اندھیرے میں کسی کو نظر نہ آئے تو آدمی روشنی کردے، روشنی کسی کو اندھا کردے تو کیا کیا جائے جو شخص اللہ کو جانتا نہیں ہے وہ آخر تفسیر بیان کرتا ہی کیوں ہے اللہ کسی مصلحت کا محتاج نہیں ہے، وہ پاک ہے اِس بات سے کہ بدلہ لے۔ ہم دِن میں سے ہزار بار سانس لیتے ہیں، ڈیڑھ سے دو لاکھ مرتبہ دِل دھڑکتا ہے، عین گناہ کے بیچ میں وہ چاہے تو سانس روک لے، دھڑکنیں آگے پیچھے کردے، مگر وہ دیکھتا رہتا ہے کہ بندہ واپس آجائے، توبہ کرے۔ آپ فکر نہ کریں، اللہ معاف کرے گا، جو کتاب شروع الحمد للہ سے ہوتی ہے۔ یہ چاہتے ہیں کہ بندہ اس سے بھی نااُمید ہوجائے یہ کوئی ٹھیکیدار ہیں اللہ کی رحمت کے کہ لوگوں کو اِس سے بھی محروم کردیں خیر عبداللہ نے بڑی ہمت بندھائی اُس شخص کی، اس کی حتی الاامکان مالی مدد کی اور وعدہ لیا کہ وہ آج سے نئی زندگی کا آغاز کرے گا۔ اُس کے جانے کے بعد عبداللہ سوچنے لگا کہ کیا اِسلام میں صرف اندھے گاؤں میں کانا راجہ کے مصداق صرف کانے رہ گئے ہیں اِن جذباتی لوگوں کو پتہ نہیں کہ اُسی اللہ کے پاس واپس جانا ہے اُس نے پوچھ لیا تو کیا کہیں گے جذبات اور صرف جذبات، ہر وقت ایک چاہیئے۔ سان فرانسِسکو کے بیٹ مین بچے کی طرح جس نے مرنے سے کچھ روز قبل خواہش کی کہ اُسے بیٹ مین بننا ہے۔ پورا شہر بند ہوگیا اور لاکھوں ڈالر خرچ ہوئے۔ دنیا نے پیسے لٹائے کہ بچہ نظر آ رہا تھا اور اِسی دنیا میں ہزاروں بچے روز مرتے ہیں مگر کیونکہ ان کی اِسٹوری اتنی دلچسپ نہیں ہوتی لہٰذا اُن کے لئے کسی کے پاس کچھ نہیں ہوتا۔ یہ جذبات نبوّت سے ٹکرا جائیں تو نبوّت فارغ اور اللہ سے ٹکرا جائیں تو ریاست اور چرچ الگ الگ ہیں کا راگ الاپنا شروع۔ عبداللہ ایک بار پھر دکھی دل کے ساتھ عصر پڑھنے چلا گیا۔ آج عبداللہ کی سان فرانسسکو کی فلائیٹ تھی وہ ایک ڈیٹا سائنسز کی کانفرنس میں شرکت کے لئے وہاں جارہا تھا۔ فلائیٹ کے پہلے کنکشن میں بزنس کلاس میں ایک بوڑھا آدمی اس کے ساتھ بیٹھا تھا۔ بات چیت شروع ہوئی۔ عبداللہ ایک کتاب پڑھ رہا تھا اور اسے جلد از جلد ختم کرنا چاہ رہا تھا، لہٰذا رسمی باتوں کے بعد چپ ہو رہا۔ اُس شخص نے کئی بار ہمت کرنے کی کوشش کی مگرعبداللہ ہوں، ہاں سے آگے نہ گیا۔ جب فلائٹ نے ہیوسٹن لینڈ کیا اور مسافر جہاز سے نکلے تو عبداللہ کو معلوم ہوا کہ ساتھ بیٹھا شخص ریاست ٹیکساس کا گورنر تھا۔ کافی لوگ ایئرپورٹ پر ان سے ہاتھ ملاتے رہے۔ عبداللہ نے جلد ہی اپنا دوسرا کنکشن پکڑا اور جہاز سان فرانسسکو کی طرف روانہ ہوا۔ مگر وہ راستے بھر سوچتا رہا کہ اگر اُسے پہلے سے پتہ ہوتا کہ ساتھ والا شخص کون ہے تو کیا اس کا رویہ، سوالات و جوالات ایسے ہی ہوتے جواب نفی میں آیا۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ کتنا ضروری ہے کہ آپ جس سے بات کر رہے ہیں جس سے سوال کر رہے ہیں اس کے بارے میں جانتے بھی ہوں۔ جتنی جانکاری زیادہ ہوگی گفتگو اتنی ہی بامعنی ہوگی اور جتنی اس کے بارے میں جاننے کی طلب ہوگی اتنا ہی سوالوں پر نکھار آئے گا۔ وہ سوچنے لگا دعا کے لئے اللہ کو جاننا کتنا ضروری ہے۔ ہم نے تو بھلا ہی دیا ہے کہ دنیا کو بنانے والا اور دنیا کو چلانے والا ایک ہی ہے۔ وہ دنیا بنا کے بھول نہیں گیا ہے۔ بقیہ سفر دعا میں گذر گیا کہ اے اللہ مجھے آج تک اتنی فرصت نہ ملی کہ تجھے ہی جان سکتا، مجھے معاف کردے میرے مالک مجھے معاف کردے۔ کانفرنس میں پہنچتے ہی لوگ عبداللہ کے پاس آئے، کسی نے اُس سے حلال کھانے کے ریسٹورنٹ کے بارے میں پوچھا تو کسی نے قبلہ کا رُخ، کتنی عجیب بات ہے کہ لوگ صرف شکل سے ہی گمان کر لیتے ہیں کہ کس کے پاس کونسی معلومات ہوں گی۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ رول ماڈل بننا یا نہ بننا کوئی چوائس نہیں ہوتی، آپ ہر وقت کسی نہ کسی کے تو رول ماڈل ہوتے ہی ہیں، کوئی طالب علم، کوئی کولیگ اور کچھ نہیں تو کوئی دوست، آن لائن فرینڈز، بیوی، بچے، سوال تو یہ ہے کہ آپ کس قسم کا رول ماڈل بننا چاہتے ہیں۔ دنیا کو بھی شاید کسی رول ماڈل کی تلاش ہے، کسی بھی شخص کو رول ماڈل بنائیں گے تو آخر میں بیزار ہوجائیں گے، سوائے رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کے، مگر یہ بات انہیں ان کی زبان میں سمجھائے کون عبداللہ کو کامیاب لوگوں کی سوانح حیات پڑھنے کا بڑا شوق تھا، شاید ہی کوئی نوبل پرائز ونر ایسا ہو جسے عبداللہ نے نہ پڑھا ہو، اس کے علاوہ اپنی فیلڈ کے لوگ مثلاً بل گیٹس، اسٹیو جابز اور عالمی رہنماؤں مثلاً نیلسن منڈیلا، محمد علی جناح، مہاتما گاندھی۔ وہ کچھ باتوں پہ بڑا حیران ہوتا۔ پہلی تو یہ کہ بظاہر نظر آنے والی صلاحیتوں کا لئے جانے والے کاموں سے کوئی خاص تعلق نہیں ہے۔ نہ ہی اس شخص کے پاس موجود وسائل کا۔ مثلاً تاریخ اُٹھا کر دیکھیں تو کتنے بڑے بڑے کام مفلوک الحال، لاغر اور کوئی بہت زیادہ صحت مند لوگوں نے انجام نہیں دیئے۔ مادام کیوری کو بار نوبل پرائز ملا، ان کے پاس کھانے تک کے پیسے نہیں ہوتے تھے، سردی میں ٹھنڈ سے بچنے کے لئے کچھ میسر نہ تھا، اسٹیو جابز کو ان کا باپ حمل کے دوران ہی چھوڑ گیا تھا اور وہ راستوں سے بوتلوں کے خالی ڈبے اُٹھاتا تھا۔ بل گیٹس کا بچپن ہو یا صدر اوباما کا، عبدالستار ایدھی ہوں یا صدر الدین ہاشوانی کوئی بھی منہ میں سونے کا چمچ لے کر پیدا نہیں ہوا۔ آپ گاندھی جی اور جناح صاحب کو دیکھ لیں، کہ قدرت نے کمزور ترین آدمیوں کو پورے برصغیر میں چُنا۔ ایک حبشی غلام کو بلال حبشی رضی اللہ تعالیٰ عنہ، کا درجہ دے دیا۔ نوبل پرائز ونرز کی سوانح حیات پاکستان کے ہر اسکول کی لائبریری اور کورس کا حصہ ہونی چاہیئے۔ کوئی تو بات ہے، ذہانت، صلاحیتوں اورعلم کے علاوہ جس کی وجہ سے بندہ چُن لیا جاتا ہے۔ دوسری کامن بات جو عبداللہ کو حیران کرتی وہ ان ہستیوں کی پرورش ہے۔ عرصے تک گمنام ہی رہتے ہیں، زمانے کے اونچ و نیچ سے گزرتے، مشکلات و آزمائشیں جھیلتے پروان چڑھتے رہتے ہیں اور پھر ایک دن سورج کی طرح ایسے طلوع ہوتے ہیں کہ رہتی دنیا تک زوال نہ ہو۔ ایک اور بات کہ بہت سے کامیاب و مشہور لوگوں کی خانگی زندگی کوئی بہت اچھی نہیں گذری، بہت سوں کی تو علیحدگی ہی ہو گئی۔ خواہ وہ امریکی صدر الگور ہوں یا اسٹیو جابز، مائیک ٹائی سن ہوں یا نیلسن منڈیلا۔ اِس زاویے سے دیکھا جائے تو رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی قوت برداشت اور صبر دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور اُمہات المومنین کی دل کی وسعت بھی سب سے زیادہ۔ ایک کامیاب آدمی کے ساتھ زندگی گزارنا کہ دو جہاں ان کی تعریف کرے اور آپ کا ان سے کوئی موازنہ ہی نہ ہو، دل گردے کا کام ہے۔ جو مٹ جائے وہ نبھائے ورنہ تو دنیا بھری پڑی ہے ان مثالوں سے۔ وہ سوچتا کاش کوئی اس موضوع پر اس کے ساتھ کام کرسکے کہ اسے عربی نہیں آتی اور کتابوں کا ایک وسیع ذخیرہ جس سے اسے مدد مل سکے عربی میں ہے۔ ۔۔۔ ۔۔۔ عبداللہ واپس اپنے شہر پہنچ کر کمپنی اور اس کے کاموں میں مصروف ہوگیا۔ اُس نے ڈیٹا سائنٹسٹ کیسے بنتے ہیں، پر ایک مضمون بھی لکھ دیا۔ وہ چاہتا تھا کہ کچھ تو اچھے ڈیٹا سائنٹسٹ تیار ہو پائیں تاکہ وہ کُھل کے کام کرسکے۔ دن گزرتے چلے گئے اور عبداللہ اپنے کاموں میں مگن، کبھی فرصت مل جاتی تو مفتی صاحب سے بات کرلیتا یا کمرہ بند کرکے آنکھیں بند کرکے اپنی تسبیح پڑھتا رہتا، ایسا کرنے سے اُسے بہت سکون ملتا۔ ۔۔۔ ۔۔۔ آج جمعہ کا دن تھا، عبداللہ نے ہر جمعہ کی طرح سورۃ کہف مکمل کی اور مسجد چلا گیا۔ یہاں کی مسجد اسے بہت پسند تھی، امام صاحب بھی نپی تُلی بات کرتے تھے اور بلاوجہ کی جذباتیت سے دور ہی رہتے تھے۔ نماز سے فارغ ہوا تو پچھلی صف میں دو آدمیوں کو لڑتے پایا۔ وہ بہت اونچا بول رہے تھے۔ غالباً کوئی پارکنگ کا مسئلہ تھا کہ ایک نے گاڑی لگا دی جب کہ دوسرا لگانا چاہتا تھا۔ اتنی سی بات مگر لہجوں اور جملوں سے یوں لگتا تھا کہ جیسے آسمان ٹوٹ پڑا ہو۔ غیظ و غضب کا یہ عالم کہ شاید ایک دوسرے کو جان سے مار دیں تو بھی چین نہ آئے۔ خیر لوگوں نے آ کر بیچ بچاؤ کرا دیا۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ کسی اور کے دل میں غیظ و غضب رکھ کے آدمی دعا میں رحم کیسے مانگتا ہے۔ اُسے آپس میں لڑتے ہوئے مسلمان بالکل بھی پسند نہیں تھے۔ اس پر طرہ یہ کہ ہر شخص منصف کا کردارادا کرنے آن پہنچتا ہے۔ مصلح بننے کا شوق انسان کی بد ترین عادتوں میں سے ایک ہے۔ عبداللہ بھاری دل کے ساتھ گھر واپس آگیا۔ دل بہلانے کو سوچا کہ یو ٹیوب پر کوئی اسلامی بیان سن لیا جائے۔ تفسیر سننے سے وہ ڈرتا ہی تھا کہ جس تعداد میں مفسر قرآن انٹرنیٹ نے پچھلے سالوں میں پیدا کئے اتنے تو اُمت مسلمہ سو سالوں میں نہ کر سکی۔ خدا خدا کرکے کچھ لیکچرز ملے، عبداللہ نے سننا شروع کیا۔ بہت اچھے لیکچرز تھے۔ کوئی آئیڈیل مسلمان کا زائچہ کھینچ رہا تھا تو کوئی شرم و حیا کی باتیں بیان فرما رہا تھا، کوئی اسلاف کے کارناموں کی گنتی کر رہا تھا تو کوئی آج کل کے مسلمانوں کو ملائکہ سے افضل قرار دے رہا تھا۔ کسی نے زندگی بھر جھوٹ نہ بولنے کی قسم کھائی، تو کسی نے صاحب ترتیب اور کئی عشروں کی تہجد نہ چھٹنے کا یقین دلایا۔ کوئی کہہ رہا تھا کہ سدھار اوپر سے آئے گا جب اہل و ایماندار حکمران آئیں گے تو کوئی ہر شخص کو صحیح کرکے ان اکائیوں سے معاشرے کی از سر نو تعمیر کا متمنی تھا۔ عبداللہ سب سنتا رہا اور پھر اور سنتا رہا اور پھر یہاں تک کے رات پڑگئی۔ عبداللہ کبھی کبھی بہت پریشان ہوجاتا کہ اس کا دل و دماغ سیدھی سادھی بات قبول کیوں نہیں کرتا کیوں اسے ہر چیز پر کوئی نہ کوئی اعتراض ہوجاتا ہے ایسا کیوں ہے کہ ہر جواب کی تلاش میں سوالوں کی ایک نئی فصل پک کر تیار کھڑی ہوتی ہے۔ اُسے چین کیوں نہیں ملتا اُس نے سوچا، آج رت جگا کرتے ہیں۔ کیوں نہ اُسی سے پوچھیں، جو سارے سوال و جواب کا مالک ہے۔ عبداللہ نے دو رکعت صلوۃ الحاجۃ دل کے قفل ٹوٹ جانے کے مانے اور نماز شروع کردی۔ آج ہر ممکن کوشش کے باوجود عبداللہ کے منہ سے الفاظ ہی نہیں نکل رہے تھے۔ وہ صرف رو رہا تھا۔ رکوع میں بھی، سجدوں میں بھی، قیام میں بھی، تشہد میں بھی، اس کے دل سے دھونکنی کی طرح آوازیں آ رہی تھیں۔ وہ تنگ آ چکا تھا، ان سوالوں سے اور وہ آج جواب چاہتا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ خدا کی کائنات میں گھومے کہ دنیا میں رہ کر اب اس کا دم گھٹ رہا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ اللہ کی صناعی دیکھے کہ دنیا سے دل بھر چکا تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ علم اب کہیں اور سے ملے کہ یوٹیوب اور کتابیں اسے بے معنی لگنے لگے تھے۔ وہ چاہتا تھا کہ وہ محبت ملے جو اسے بھر دے۔ اُسے رنگ دے، اسے سیراب کر دے، وہ چاہتا تھا کہ ایسا نشہ کرے کہ حشر میں ہی جا کر ہوش آئے۔ ساری دنیا سے نا اُمید عبداللہ، ایسی دنیا میں جو آج تک اس کے سوال ہی ختم نہ کر پائی، ایسی دنیا جسے اس کے سوال سمجھ ہی نہیں آتے ہیں ان سب سے وہ ایک بار ہی چھٹکارا پاناچاہتا تھا۔ آج زبان گنگ ہو گئی تھی، آنکھیں بول رہی تھیں، نماز ختم کرکے عبداللہ نے اپنے ہاتھ بلند کئے۔ اے اللہ سائیں اے اللہ میرا کیا ہوگا میرا کیا ہوگا میرے مالک یہ میرے دل کا شور کب تھمے گا کیا میں پاگل ہونے جا رہا ہوں کیا مجھے فالج ہوجائے گا کیا میں مرنے والا ہوں وہ تمام باتیں جو سب کو سمجھ آجاتی ہیں وہ مجھے کیوں نہیں آتیں ہر جواب کا ایک وقت ہوتا ہے سوال کا کیوں نہیں ہوتا یہ بیان دینے والے تیرے نیک بندے کیا کہتے ہیں یہ معصوم لوگ ہیں اللہ، یہ کیا جانیں گناہ کسے کہتے ہیں۔ انہیں کیا معلوم جب نفس ضد پر آجائے تو کیا ہوتا ہے، انہیں خبر ہی نہیں کہ ایک عمر ایسی بھی آتی ہے کہ کوئی بیان اثر نہیں کرتا، بندہ جہنم تک سے نہیں ڈرتا، انہیں کیا معلوم جذبات کے گلستان میں ایک دہکتا جملہ کیا آگ لگاتا ہے، جنس کی خاموش جھیل میں ایک کنکر کیا بھنور پیدا کرتا ہے۔ انہیں پتہ ہی نہیں میرے رب، انسان، انسانوں سے کتنی دور آ پڑا ہے۔ ستاروں کے جھمگٹوں میں رہنے والے یہ تیرے پاک بندے، کیا جانیں ہم جذبات کے بیوپاری کن اندھیروں میں رہتے ہیں۔ نیکیوں کے گھڑسوار معصیتوں کے پیادوں کی رفتار کیا جانیں۔ کس سے جا کر کہوں میرے مالک، کس سے رونا رؤں، تیرے نیک و پاکیزہ بندوں کی دنیا میں، میں اکیلا سیاہ کار ہوں، اِن آنسوؤں کی لاج رکھ میرے مولا، یہ آنسو کبھی یتیم نہیں ہوتے، تو ہے ناں ان کا مالک۔ اے یتیموں کے وارث اللہ، ٹوٹے ہوئے، اُجڑے ہوئے، بھوکے پیاسوں کے اللہ، اے ذوالجلال والاکرام، کسی گنہگار کو ولی بنادے کسی مبغوض کو مفتی کر دے، کسی بدکار کو داعی کا منصب دے دے، کسی سیاہ کار کو تبلیغ پر لگا دے کہ انہیں کم از کم ہمارے مسائل اور نافرمانیوں کا ادراک تو ہو، انہیں یہ تو پتہ ہو کہ جب نفس ضد پر آجائے تو کچھ اثر نہیں کرتا، وہ شاید بتا سکیں کہ گناہ کی عادت اور توبہ کی تکرار میں جیت آخر کس کی ہوتی ہے اور شرمندگی و ندامت کی وہ کون سی انتہا ہے جو رحمت کو کھینچ لاتی ہے اے دلوں کو قرار بخشنے والے، ان بے قراروں، ان گنہگارں کی بھی سن لے۔ اے اللہ، مجھے مجھ سے بچا لے۔ یہ دل تیرے ذکر سے خالی ہے۔ یہ نفس کا کمیشن ایجنٹ بن چکا ہے۔ اے اللہ، نہ یہ تیرے ڈر سے رُکتا ہے نہ شکر کے احساس سے، میں اس کا ماتم نہ کروں تو کیا کروں۔ اے اللہ، اس سے بڑا المیہ کیا ہو کہ جسم موٹا ہوجائے اور روح بھوکی مرجائے، جسم کو رزق دینے والے رزاق، کچھ روح کی بھوک کا بھی سامان ہو۔ اے اللہ آدمی کبھی لوگوں کو دکھانے کے لئے کام کرتا ہے کبھی خود کو دکھانے کے لئے، عمر گزر جاتی ہے ریا کاری نہیں جاتی، مجھے ان فریبوں سے بچا، مجھے نفس کی چالاکیوں سے بچا۔ آسانی والا معاملہ کر دے۔ یہ مولوی صاحب کیا کہہ رہے تھے میرے اللہ، یہ عاجزی کیا ہے عاجزی کی بھی بریک ہونی چاہئے ناں، اتنی عاجزی کہ بندہ کسی کام کا نہ رہے میرے مالک کس کام کی اللہ مجھے بچالے۔ گناہوں کی سوچ سے، سوچ کے گناہوں سے، وسوسوں سے اور پلاننگ سے، اللہ بے شک تیری قدرت و رحمت میرے مسائل سے بڑھ کر ہے۔ اے اللہ وہ کہاں جا کے رہے جو کہیں کا نہ رہے اے اللہ ہمیشہ سے ہی معدودے چند لوگ ہی ہوتے ہیں جو وقت کی کلائی ہاتھ میں رکھتے ہیں، سارے کے سارے ملک تو کبھی بھی حق پر نہ چلے، نہ ہی سارے کے سارے حکمران، میرے مالک ان تھوڑوں میں سے کردے جو تیرے پسندیدہ ہوں، جن سے تُو ایسا راضی ہوجائے کہ پھر کبھی ناراض نہ ہو۔ میرے اللہ معاف کردے، میرے سوالوں کے جواب بخش۔ میرے حال پہ رحم کر، اب تُو نہ ملا تو مارا جاؤں گا یہاں بھی وہاں بھی۔ یا تو مجھے اپنے پاس بلا لے یا مجھے چُن لے، اب تیرے بغیر نہیں جینا۔ بہت ہوگئی، میں تھک گیا اللہ، میں گرگیا اللہ، میری سانس اُکھڑ گئی، چاروں شانے چت پڑا ہوں، کون سی راہ ہے معلوم نہیں، نہ سمت کا پتہ ہے، نہ منزل کا، نہ ہم سفر کا، نہ راہبر کا، نظر صرف تیری رحمت پر ہے۔ مدد کر میرے مالک مدد کر اَنت مولانا ، اَنت مولانا، اَنت مولانا۔ ۔۔۔ ۔۔۔ عبداللہ صبح دیر سے سو کر اُٹھا، موبائل پر کئی مس کالز تھیں۔ ای میل چیک کی تو پتہ لگا کہ اقوام متحدہ نے سافٹ ویئرکی ڈیل منظور کرلی ہے اور دو دن بعد اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹرز میں پریس کانفرنس کے لئے بلایا ہے۔ ساتھ میں انگلستان کے سابق وزیراعظم سے ملاقات بھی طے ہے۔ عبداللہ جلدی جلدی تیار ہوکر آفس پہنچا کہ کمپنی کے بورڈ اور ٹونی اور مارتھا سے ڈسکس کرسکے۔ عبداللہ بہت خوش تھا، نہ صرف یہ کہ اقوام متحدہ اس کا سافٹ ویئر اور سروسز ہائر کر رہی تھی بلکہ سافٹ ویئر کی پہلی اسائنمنٹ بھی پاکستان تھا۔ اس کا اپنا ملک جہاں پچھلے سالوں میں سے زائد اسکول دہشتگرد حملوں کی نذر ہو گئے۔ انگلستان کے سابق وزیراعظم نے خود فون پر بات کرکے مبارکباد دی اور کہا کہ وہ پاکستانی وزیراعظم سے بھی بات کریں گے۔ شام سے پہلے پہلے عبداللہ کو اپنے ملک کے وزیراعظم کی طرف سے ملاقات کا دعوت نامہ مل چکا تھا اور یہ کہ وہ بہت خوش ہیں کہ جو ٹیکنالوجی عبداللہ نے تیار کی ہے وہ اسے استعمال کر پائیں گے۔ عبداللہ مسکرانے لگا کہ کیا ہی عجیب دن دیکھنے کو ملا زندگی میں سال ملک میں دھکے کھاتا رہا، کسی نے کمیشن مانگا، کسی نے گرانٹ روک لی، کسی نے بے کار پراڈکٹ کہہ کر ملنے تک سے انکار کردیا تو کسی نے جھوٹے وعدوں پر ٹرخا دیا، کون سا در تھا جو اِس نے نہ کھٹکھٹایا ہو، مگر جواب ندارد اور آج جب وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر واپس امریکہ آگیا ہے تو وہی لوگ اسے واپس بلا رہے ہیں جو کہتے تھے کہ ڈاکٹر عبداللہ، اب اگر ایک دن بھی رہے تو زندگی کی ضمانت نہیں۔ کیا بات ہے میرے اللہ۔ تیرا اسکرپٹ سب پر بھاری۔ عبداللہ اگلے دو روز تک ایک ہی شعر گنگناتا رہا۔ تیرا رتبہ بہت بلند سہی دیکھ میں بھی خدا کا بندہ ہوں عبداللہ ہوٹل کے کمرے میں سوٹ پہنے تیار بیٹھا تھا، لیپ ٹاپ، ڈیمو، پریزنٹیشن سب ریڈی تھا، آج اس کی زندگی کا ایک بڑا دن تھا، آج اُسے چاچا دینو، سر عبدالرحمن، رفیع صاحب، ابو، امی، پھوپھی، مفتی صاحب سب یاد آ رہے تھے، بِلّو واٹس اَپ پر ہر ہر لمحہ ساتھ تھی۔ عبداللہ نے دعا کو ہاتھ بلند کئے، کیا بات ہے میرے اللہ، کیا کہنے، کون یقین کرسکتا ہے کہ پیلے کپڑوں سے پڑھنے والوں کو تو یہاں لائے گا، اے کمزوروں کے وارث اللہ، تیری وہ تعریف کروں جو کسی نے بھی نہ کی ہو، اُمیدوں کے مالک اللہ، دلوں کے جاننے والے رب تیرا شکریہ، تو مجھے بھولا نہیں، تو نے کرم کیا، تو نے عزت بخشی، تو عنایت کرتا کہ میں بھی تجھے کبھی نہ بھولوں، آج سے ایک نیا دور شروع کر میرے اللہ تو آگے راستے دکھا۔ میں آنکھ بند کر کے پیچھے چلتا ہوں۔ میرے اللہ بچپن میں مجھے لگتا تھا شرک سب سے بڑا گناہ ہے۔ بس آدمی اس سے بچ جائے باقی سب آسان باتیں ہیں۔ لڑکپن میں آیا تو اندازہ ہوا جھوٹ سے بڑا گناہ کوئی نہیں، جوانی میں جنس کے علاوہ کوئی گناہ ماننے کو دل تیار ہی نہیں تھا، ایسے لگتا تھا کہ جنس کے علاوہ کائنات میں کچھ ہے ہی نہیں۔ آج لگتا ہے کہ سب سے بڑا گناہ میں خود ہوں، میرا ہونا ہی گناہ ہے کہ اپنے وحدہٗ لاشریک مالک کو سمجھ ہی نہیں پایا۔ تو واحد ہے، تو باقی ہے، ہر وہ چیز جو تیری سلطنت میں وجود رکھتی ہے بہ نفسہ گناہ ہے تو مجھے میرے ہونے پر بخش دے میرے مالک۔ مجھ سے خفا نہ ہونا، مجھے اپنے سے قریب رکھنا ۔ ۔۔۔ ۔۔۔ کچھ دیر بعد عبداللہ اقوام متحدہ کے ہیڈ کوارٹر میں بیٹھا ہوا تھا، وزیراعظم صاحب سے ملاقات اور پریس کانفرنس خوب رہی، انہوں نے جاتے جاتے عبداللہ کے ہاتھ پر پہنی تسبیح کو دیکھ کر کہا کہ یہ کیا ہے عبداللہ نے اُن کے ہاتھ پر بندھے بینڈ کی طرف اشارہ کرکے پوچھا یہ کیا ہے وہ کہنے لگے دوست کا تحفہ ہے اس کی یاد دلاتا ہے۔ عبداللہ نے ہنستے ہوئے جواب دیا یہ بھی دوست کی نشانی ہے اس کی یاد دلاتی ہے۔ اقوام متحدہ کی اناؤنسمنٹ کے بعد میڈیا انٹرویوز اور کسٹمرز کا جو تانتا بندھا تو رُکنے کا نام ہی نہیں۔ کچھ ہی دنوں میں عبداللہ شدید اُکتاہٹ کا شکار ہوگیا۔ کچھ ہی دنوں بعد وہ ایک کانفرنس میں تقریر کرنے ریاست ورجنیا جارہا تھا۔ اسکا موضوع اس کی فیلڈ میں تھی جو کہ بہت اچھی گئی، اس کے سیشن کے بعد چائے پر اس کی گورنر سے ملاقات ہوئی جن کے ساتھ بہت سے ملٹری جرنلز اور قانونی اداروں کے لوگ تھے کہ یہ کانفرنس ڈیفنس کی ہی تھی اور پوری کانفرنس میں افراد میں عبداللہ واحد مسلمان۔ عبداللہ دل ہی دل میں سوچ رہا تھا کہ اللہ کی شان ہے۔ وہ اکیلا اپنے کام کی بنا پر پر بھاری پڑ رہا ہے۔ وقفے کے دوران گورنر نے اس سے سوال پوچھا، ڈاکٹر عبداللہ، آپ کو امریکہ کو دیکھ کے حیرت نہیں ہوتی، کیا بڑا طاقتور ملک ہے، کیسے کیسے سافٹ ویئر، جنگی سامان، مجسمہ آزادی، ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ، وال اسٹریٹ ایک نیا ہی جہان ہے۔ جی بالکل، ہوئی ہے مگر صرف شروع میں، ایک دو بار، پہلی بار مجسمہ آزادی کو دیکھا تو مبہوت ہی ہوگیا تھا۔ دوسری بار اچھی لگی، تیسری بار کے بعد سے حیرت ختم ہوگئی۔ کیا آپ نے کبھی کوئی چیز ایسی بھی دیکھی ہے کہ ہر بار حیرت میں اضافہ ہوجائے عبداللہ نے سوال کیا۔ میں نے تو نہیں دیکھی، کیا آپ نے دیکھی ہے عبداللہ جی بالکل، اللہ کی ذات اور اُس کی قدرت، آدمی جب سوچتا ہے، حیرت کے مارے بول بھی نہیں پاتا۔ گو رنرنے کچھ نہ سمجھتے ہوئے جواب دیا، ارے آپ تو کوئی صوفی ٹائپ کے لگتے ہیں۔ یہ مراقبات کیا ہوتے ہیں جی کچھ نہیں، مراقبات اور مربہّ جات میں زیادہ فرق نہیں ہوتا، ایک روح کی غذا ہے ایک جسم کی۔ چلیں میں آپ کو حیرت انگیز مثال دیتا ہوں آسان سی۔ قرآن پاک کی غالباً آٹھویں سورۃ ہے۔ سورۃ الانفال۔ اس کی ویں آیت بڑی حیرت انگیز ہے، سمجھ میں ہی نہیں آتی، جب پڑھتا ہوں سر دھنتا ہوں۔ اللہ فرماتے ہیں۔ اور جو لوگ کافر ہیں وہ بھی ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ تو مومنو اگر تم یہ کام نہ کرو گے تو ملک میں فتنہ برپا ہوجائے گا اور بڑا فساد مچے گا۔ آیت آپ ملاحظہ کریں۔ مدینے سے ہجرت کرنے والے ڈھائی تین سو افراد ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کل ملا کے ڈھائی ہزار اور کیا۔ اللہ کہتے ہیں تم اپنی نئی وحدت قائم کرو۔ قرآن و حدیث کی روشنی میں، رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی سر پرستی میں اور اگر ایسا نہ کیا تو بڑا فتنہ، فسادِ عظیم پیدا ہوگا۔ یا اللہ کیا ماجرا ہے، کس سے کہا جا رہا ہے، کیا کہا جا رہا ہے، کب کہا جا رہا ہے، کہاں کہا رہا ہے۔ کچھ مفلوک الحال اجنبی سے لوگ اپنی وحدت قائم کریں۔ کس کے مقابلے میں قیصر و کسریٰ کے مقابلے میں، رومن ایمپائر کے مقابلے میں، پوری پوری فوجیں ہیں، تہذیب ہے، تمدن ہے، دنیا فیشن ان سے لیتی ہے، ہتھیار بنانا ان سے سیکھتی ہے، رومن لا کا طوطی کُل جہان میں بولتا ہے، فن تعمیر وہاں سے آتا ہے اور اگر نہ کیا تو فساد عظیم پیدا ہوگا۔ یہ تو ایسے ہے جیسے کوئی مجھ سے آکر کہے کہ تم یہ کرو ورنہ امریکہ میں فتنہ ہوگا۔ کہاں میں کہاں ملین لوگ۔ مگر پھر ایسا ہوا، ایسا تاریخ نے دیکھا گورنر صاحب، مٹھی بھر چند لوگوں کی کاوش لے ڈوبی قیصر و کسریٰ کو، رومن ایمپائر کو۔ ہے نا حیرت والی بات گورنر صاحب کچھ نہ سمجھتے ہوئے پھیکی سی ہنسی ہنس کے چلے گئے۔ عبداللہ یہ شعر گنگناتے ہوئے واپس چلا آیا۔ جو دِکھ رہا ہے اُسی کے اندر جو اَن دکھا ہے وہ شاعری ہے جو کہہ سکا تھا وہ کہہ چکا ہوں جو رہ گیا ہے وہ شاعری ہے دِلوں کے مابین گفتگو میں تمام باتیں اضافتیں ہیں تمہاری باتوں کا ہر توقف جو بولتا ہے وہ شاعری ہے عبداللہ گھر آکے سوگیا، صبح اُٹھا تو طبیعت بہت خوش تھی، شاید کسی خواب کا اثر تھا جو اِسے یاد نہیں رہا مگر اس کا انگ انگ مسرت سے اُچھل رہا تھا۔ وہ آج دِن بھر ناز خیالوی کے یہ مصرعے دہراتا رہا مرکزِ جستجو، عالمِ رنگ و بو دم بہ دم جلوہ گر، تو ہی تو چار سُو ہُو کے ماحول میں، کچھ نہیں اِلاھُو تم بہت دلربا، تم بہت خُوبرو عرش کی عظمتیں ، فرش کی آبرو تم ہو کونین کا حاصلِ آرزو آنکھ نے کر لیا آنسوؤں سے وضو اب تو کر دو عطا دِید کا ایک سبو آؤ پردے سے تم آنکھ کے روبرو چند لمحے مِلن، دو گھڑی گفتگو ناز جپتا پھرے، جا بہ جا کو بہ کو وحدہٗ وحدہٗ، لا شریک لہ، اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو، اللہ ہو ۔۔۔ ۔۔۔ آج عبداللہ جہاز میں بیٹھا سِری لنکا کی طرف جا رہا تھا کہ کمپنی کا ایک آفس وہاں بھی کھول سکے اور اُس کا قلم پھر سے سوالات لکھ رہا تھا۔ یا اللہ، سال سے ایک ہی ذکر پر ہوں۔ بہت کاہلی برتی، لگتا ہے تمام عمر اِسی پر رہوں گا۔ تُو قبول فرما لے۔ اے وہ اللہ جو زمان و مکان کی قید سے پاک ہے۔ میں منزلوں کا مسافر ہوں، تُو تو نہیں، تو آکے مِل جا۔ اے اللہ جن کا موت سے پہلے دل دنیا سے اچاٹ ہوجائے، اُن کے لئے کوئی سرائے ہے کیا وہ کون سی نیکی ہے جو گارنٹی دے کہ بندہ چن لیا جائے گا جن کے سوال گم ہوجائیں، ان سے کوئی جواب مانگے تو وہ کیا کریں اے اللہ کیا روحانیت کا بھی کوئی نصاب اور امتحان کا طریقۂ کار ہے۔ یا تیری مرضی جب چاہا، جیسے چاہا، جسے چاہا دے دیا اے دیکھنے والے، میں سوالوں کی مالا توڑ بیٹھا ہوں۔ میں تو اتنا بھی سمجھنے سے رہا ہوں قاصر راہ تکنے کے سوا آنکھ کا مقصد کیا ہے ختم شدہ
null
null
null
null
479
https://www.urduzone.net/khojh-episode-22/
تو میری لکھائی کو قبولیت بخش، میرے بولنے میں اثر دے، میرے دل میں ذکر دے، میری آنکھ میں حیا دے، میری شخصیت میں وزن دے کر جب میں اسلام کی بات کروں، تیرے دین کی، تیرے محبوب صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی تو دنیا رد نہ کرسکے، یہ نہ کہہ سکے کہ کہنے والے کا تو کوئی معیار ہی نہیں ہے۔ بات میری نہیں میرے اللہ، میں جن کا ذکر کرنے جا رہا ہوں اُن کی ہی ہے، وہ تو تیرے ہیں۔ میں بھی تو تیرا ہوں، تو وزن ڈال میرے اللہ میرے پلڑے میں، کہ ایک طرف میں ہوں تو پورے ملک پر بھاری پڑ جاؤں۔ اے آسمانوں و زمین کے مالک اللہ، اے وہ اللہ جس کا ذکر سب سے بھاری ہے، کُل کائنات میں واحد ذات جس کے لئے اذان دی جاتی ہے، مجھے وزن دے میری اذان کو دوام بخش اس موذن کی رہنمائی کر، جھوٹ زندگی سے نکال دے کہ تیرا نام لینے جا رہا ہوں، لوگ جھوٹا نہ بولیں، امہات المومنین پر کتاب لکھنے جا رہا ہوں، اس امتی کو اس قابل کر کہ ماؤں پر کچھ لکھ سکوں۔ یہ خط تیرے نام، یہ آواز تیرے نام، یہ قلم کتاب تیرے نام، عبداللہ تیرے نام۔ آج امریکہ میں ہیلو وین کا تہوار تھا۔ مذہبی حیثیت تو اسکی بالکل ہی ختم ہوگئی تھی اگر کبھی کوئی تھی بھی تو فی الحال تو یہ صرف بچوں کا ایک کھیل بن کر رہ گیا تھا جس میں وہ گھر گھر جا کر ٹافیاں جمع کرتے تھے اور ڈراؤنے کرداروں مثلاً ڈریکولا کے کپڑے پہن کر میک اپ کرتے تھے۔ عبداللہ نے سوچا اچھا موقع ہے پڑوسیوں سے ملنے کا، ویسے بھی عبداللہ کی فیملی اس پورے محلے میں واحد مسلمان اور پاکستانی فیملی تھی کہ یہ بہت امیروں کا علاقہ تھا اور کوئی کوئی ہی یہاں رہنا افورڈ کرسکتا تھا۔ مگر یوٹیوب اور فیس بک بھرے پڑے تھے ان بیانات سے کہ ہیلووین منانا شیطان کو ماننے کے مترادف ہے اور کفر و الحاد کے فتوے الگ۔ عبداللہ نے بہت سوچا کہ گھر پر بچے آئیں گے، پہلی بار کسی مسلمان سے سابقہ پڑے گا، خالی ہاتھ بھیجنا مناسب نہیں، وہ بہت ساری ٹافیاں لے آیا، اس کے اپنے بیوی بچے ٹافیاں لینے چلے گئے اور وہ لگا ٹافیاں بانٹنے۔ جو بھی گھر آیا وہ ٹافیوں کے سائز اور مقدار پر حیران ہوا کہ عبداللہ دل کھول کر بانٹ رہا تھا، کچھ نے تو کہہ بھی دیا کہ انہیں اس گھر سے کچھ ملنے کی اُمید ہی نہیں تھی، عبداللہ نے بچوں کے ساتھ آئے والدین کو بھی سلام کیا اور خیریت پوچھی۔ اس بہانے اس کا پورے محلے سے تعارف ہوگیا اور محلے والوں پر بھی مسلمانوں کا شاید کوئی نیوٹرل امیج بن سکا ہو۔ عبداللہ کو سمجھ نہ آتی تھی کہ صرف کفر و الحاد کے فتوے لگا کر اور غیرمسلموں کی ہر چیز کو بُرا بھلا کہہ کر آپ کیونکر تبلیغ کر سکتے ہیں۔ داعی کی صرف نظر میں ہی وسعت نہیں ہونی چائیے بلکہ دل بھی بڑا ہونا چاہیے جو اُن چھوٹی باتوں کو نظرانداز کرکے منزل کو دیکھ سکے۔ عبداللہ آج کی رات سونے لیٹا تو اسے ایک خیال آیا، اُس نے جمع ہونے والی ساری ٹافیاں نکال کر بستر پر ڈھیر کردیں اور لکھنے لگا کہ کس گھر والے نے کون سی اور کس قسم کی ٹافیاں دی ہیں۔ جلد ہی وہ ایک پروگرام لکھنے کے قابل ہوگیا، کمپیوٹر میں جس سے وہ ملنے والی ٹافیوں کو ان کے گھروں سے لنک کرسکتا تھا، پھر اس نے درجنوں کے حساب سے آن لائن پبلک ڈیٹا سیٹس کو کھنگالا اور وہ ٹافیوں کی مدد سے یہاں تک معلوم کرلیا کہ دینے والوں کی سالانہ تنخواہ، آمدنی کتنی ہے، گھر میں کوئی بچی، بیٹی بھی ہے یا نہیں اور گذشتہ الیکشن میں انہوں نے ووٹ کس کو دیا تھا۔ عبداللہ نے صبح ہونے سے پہلے پہلے ایک مفصل مضمون لکھ کر انٹرنیٹ پر ڈال دیا، اور اس کے بعد زیادہ دیر نہیں لگی کہ اس کے شہر میں اس کا چرچا ہونے لگا، بہت سے دوست بنے، بہت سے ملنے کے لئے آئے اور عبداللہ خندہ پیشانی سے ان کے سوالات کے جوابات دیتا رہا۔ عبداللہ کو اس اجنبی ماحول میں یہ مانوسیت بڑی بھلی لگی۔ ابھی اس تہوار کو گزرے کچھ ہی دن ہوئے ہوں گے کہ عبداللہ کو اپنے ملک سے ایک دوست کی بڑی کڑا کے دار ای میل موصول ہوئی۔ ڈاکٹر عبداللہ آپ کے لئے دل میں بڑا احترام تھا اور ایک باطل خیال تھا کہ آپ مسلمان ہیں، مگر آپ کی ہیلو وین کی حالیہ عیاشیاں دیکھ کر اور آپ کے اس تہوار میں جوش و خروش کو دیکھ کر آپ کی دینی بے غیرتی کا احساس ہوا۔ تمہیں پتہ ہے عبداللہ کہ تم اتنے ذلیل و خوار کیوں ہو اس لئے کہ تم سوچتے بہت ہو، لعنت ہو تم پر کہ بھگوڑے کی طرح بھاگ کر منہ چھپائے امریکہ میں بیٹھے ہو، تمہارے ان منحوس سوالات کی وجہ سے تم عبدالستار ایدھی نہ بن سکے، نہ ہی ٹاٹا کی طرح کوئی کمپنی ہی بنا سکے۔ جس دینی بے غیرتی کا مظاہرہ آپ نے کیا ہے اس کی اُمید تو مجھے غیرمسلموں سے بھی نہ تھی، خیر ملکی غدار اور غیر ملک کے ٹکڑوں پر پلنے والے ایجنٹس کیسے ہوتے ہیں، آج پتہ لگا۔ خدا آپ کو جہنم واصل کرے ۔ عبداللہ کے لئے نہ اِس قسم کی ای میلز نئی تھیں اور نہ طنز و طعنے میں ڈوبی تحریریں کوئی اچنبھے کی بات تھی کہ ملک کے طبقہ اشرافیہ سے اس زبان میں گفتگو ہوگی نہ ہی ملال اس بات کا کہ جہنم کا ایک پروانہ اور ملا۔ عبداللہ پریشان اس بات پر تھا کہ یہ آخر دینی غیرت کہتے کسے ہیں یہ دینی غیرت ہوتی کیا ہے اور اس غیرت کے ہونے نا ہونے سے فرق کیا پڑتا ہے کیا دینی غیرت صرف اس بات کا نام ہے کہ آدمی شلوار قمیض پہن لے سر پر ٹوپی رکھ لے اور دنیا کی ہر ہر چیز کا بائیکاٹ کردے یا اس بات کا کہ غیر مسلموں سے بات چیت ختم کرے اُن سے اُن کے ملکوں سے، انکی ہر چیز سے نفرت کرے اور پھر بھی دینی غیرت کے الاؤ کی آگ ٹھنڈی نہ پڑے تو چھری اپنے مسلمان بھائیوں پر چلائے، فرقوں میں بانٹے کفر و الحاد کے فتوے جاری کرے، یہ دھارا یونہی بہتی رہی تو ایک دن دنیا میں کوئی بھی غیرت مند نہ بچے گا۔ یہ دینی غیرت کہاں چلی جاتی ہے جب پوری قوم کشکول لئے کے سامنے بھیک مانگتی ہے، یہ دینی غیرت کہاں چلی جاتی ہے جب ورلڈ بینک قسط روک لیتا ہے اور ملک میں بجلی سے لے کر پٹرول تک اور چینی سے لے کر آٹے تک کا قحط پڑجاتا ہے۔ یہ دینی غیرت اُس قوم میں نظر کیوں نہیں آتی جو اپنے ایک انچ رقبے کے لئے تو ملک سے لڑجاتی ہے مگر پورے مستقبل کی پلاننگ کسی اور سے کرواتی ہے۔ یہ دینی غیرت کہاں چلی جاتی ہے جب عقلیں گروی رکھوا دی جاتی ہیں۔ ملکی باشندوں کو بیچ دیا جاتا ہے۔ غیر ملکی اپنے ہی ملک میں گھس کر میزائل داغ کر چلے جاتے ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا، یہ دینی غیرت کہاں سو رہی ہوتی ہے جب ہزار لوگ سالانہ ملک میں بھوک سے مرجاتے ہیں۔ سے اجتماعی زیادتی ہوجاتی ہے۔ سینکڑوں کا ریپ ہوجاتا ہے، چرچوں اور مسجدوں میں دھماکے ہوجاتے ہیں۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ ان دینی غیرت کے دعویداروں کا گریبان نہیں دامن پکڑنا چاہیئے۔ پاؤں پکڑنے چاہئیں کہ حضرت خدا کے واسطے رحم کریں۔ خود بھی کام کریں دوسروں کو بھی کرنے دیں۔ جتنی زندگی میں آپ نے گالیاں اور طعنے دیئے ہیں اتنی دعائیں ہی دے دی ہوتیں تو شاید ایک آدھ دینی غیرت مند آپ کے خاندان سے ہی نکل گیا ہوتا۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ جب شخصیت پختہ ہو تو آدمی بھوک اور افلاس کی پرواہ کئے بغیر نظریئے پر کام کرتا ہے۔ نظریہ تمام فطری تقاضوں کی طرح ایک ازلی بھوک اور طلب ہے۔ جب شخصیت پختہ نہ ہو تو آدمی کو چاہیئے کہ آرام و سکون سے ضروریات زندگی پر توّجہ دے اور جب معاشی بے فکری ہوجائے تو وژن کی بات کرے۔ تحریکوں پر پلی ہوئی قوم جس کا حافظہ آدھے گھنٹے کا نہ ہو سوائے تنقید کے کر بھی کیا سکتی ہے ـــآج عبداللہ کی کمپنی کی بورڈ میٹنگ تھی جس میں کمپنی کی فنانسنگ، اخراجات اور اسٹافنگ پر بات ہونی تھی، کچھ کلائنٹس کی طرف سے ممکنہ پراجیکٹس بھی زیربحث تھے۔ عبداللہ نے کمپنی کے بنیادی اصول طے کرتے ہوئے سب پر بات واضح کردی کہ نہ تو ہم سود پر کوئی پیسہ لیں گے اور نہ ہی کسی ایسے کلائنٹ کے لئے کام کریں گے جس کا شریعت سے براہ راست کوئی اختلاف ہو۔ شروع کے ملنے والے کچھ کلائنٹس میں ایک کمپنی تھی جو کہ ڈیٹا سائنس کو استعمال کرکے یہ معلوم کرنا چاہتی تھی کہ کون شخص کس قسم کی شراب کو پسند کرے گا تاکہ اُسے آئی فون کے ذریعے پسندیدہ شراب تجویز کی جا سکے۔ ایک اور کلائنٹ چاہتا تھا کہ وہ جوئے کے بزنس میں مدد کریں اور اس جیسے بہت سے پراجیکٹس عبداللہ اپنے بورڈ کے ساتھ رد کرتا چلا گیا۔ اُسے امریکہ میں پہلی شریعہ بورڈ میٹنگ دیکھ کر بڑی مسرت ہو رہی تھی۔ بورڈ نے بڑا زور لگایا کہ باقی کلائنٹس تو ٹھیک ہیں مگر شراب والے میں کیا قباحت ہے ہم تو صارفین کی خریداری کی ہسٹری دیکھ کر صرف یہ بتا رہے ہیں کہ وہ آئندہ کیا خریدنا پسند کریں گے۔ اب جہاں وہ ہزاروں دوسری اشیا پسند کرتے ہیں وہاں شراب بھی سہی۔ نہ تو ہم پی رہے ہیں نہ پینے کا کہہ رہے ہیں نہ بیچ رہے ہیں، مگر عبداللہ کا دل نہ ماننا تھا سو وہ نہ مانا۔ ابھی میٹنگ کو ہوئے کچھ دن ہی گذرے ہوں گے کہ عبداللہ سے ملنے اسکے پڑوسی آگئے۔ میاں بیوی اور ایک عدد ان کا کتا، میاں بیوی نے ویک اینڈ نائٹ کی مناسبت سے لباس پہنا ہوا تھا اور شراب کی بوتلیں ان کے ہاتھ میں، کہنے لگے ہم کلب جا رہے ہیں سوچا کہ آپ کو ساتھ لیتے چلیں۔ عبداللہ نے کہا جی ضرور، آئیے تھوڑی دیر بیٹھ کے بات کرلیتے ہیں پھر طبیعت میں ہوا تو ضرور چلیں گے۔ عبداللہ نے نہ صرف انہیں گھر میں بلا لیا بلکہ ان کے کتے کو بھی، بِلّو نے کتے کو پیالے میں کچھ دودھ اور کھانا دے کر سائیڈ پر بٹھا دیا۔ وہ عبداللہ پر شدید حیران تھی کہ کہاں تو کل تک وہ شراب کا نام بھی نہیں سننا چاہتا تھا اور کہاں آج گھر میں بٹھا کر شراب پیتا دیکھ رہا ہے۔ مگر وہ ہمیشہ کی طرح صرف دیکھتی رہی۔ عبداللہ نے بات شروع کی۔ آپ لوگوں نے یہاں آکر بہت اچھا کیا، مجھے آپ کے ملک اور کلچر کے بارے میں جاننے کا بڑا شوق ہے۔ آپ کا ملک بہت اچھا ہے، امن ہے، سکون ہے، اور یہ محلہ تو مجھے بہت ہی پسند ہے، امریکہ کے دنیا پر کتنے احسانات ہیں، یہ ساری ایجادات، میڈیکل سائنس، کمپیوٹر اور انفارمیشن ٹیکنالوجی اتنی ذہین اور باہمت قوم سے صرف اچھے کی ہی اُمید کرسکتے ہیں۔ یہ قوم لگتا ہے اپنے ہر منٹ کا حساب رکھتی ہے اور خرافات کے لئے تو جیسے اس کے پاس وقت ہی کوئی نہیں ہے۔ پھر مہمانوں نے امریکی کلچر کے بارے میں کچھ دیر گفتگو کی۔ شراب کی بوتلیں ختم ہوچکی تھیں جنہیں بِلّو نے کب کا کچرے میں پھینک دیا تھا اور اس کے بدلے گرین ٹی وہ ان کے سامنے رکھ چکی تھی۔ مہمان جب اپنی کہہ چکے تو کہنے لگے۔ ڈاکٹر عبداللہ، اپنے کلچر اور مسلمانوں کے بارے میں تو کچھ بتائیے یہ کیوں ذرا ذرا سی بات پر سیخ پا ہوجاتے ہیں۔ یہ کارٹون بنانے والا کیا معاملہ ہے، آپ کا دین کیسا ہے اور آپ کو کیا سکھاتا ہے۔ عبداللہ نے بڑے مفصل انداز سے اسلام کا ایک مختصر مگر جامع تعارف کروا دیا اور رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم کی انسانیت پر خدمات کو بھی تاریخ و جغرافیہ کی روشنی میں بیان کر دیا۔ دونوں مہمان اس گفتگو سے بڑے متاثر ہوئے کہنے لگے دو سوال اور، عبداللہ نے کہا جی فرمائیے۔ جی پہلا سوال تو یہ ہے کہ کیا یہ صحیح ہے کہ مسلمان غیر مسلموں سے جزیہ لیتے ہیں اور اگر اسلامی مملکت آگئی تو وہاں رہنے والوں کی ساری کمائی مسلمان ہتھیا لیں گے اور دوسرا اسلام اتنی چھوٹی عمر میں شادی کی اجازت کیسے دے سکتا ہے۔ یہ تو معصوم بچیوں پر سراسر ظلم ہے۔ سوالات کی نوعیت دیکھتے ہوئے عبداللہ سمجھ گیا کہ ان مہمانوں نے یقیناً اسلام کا مطالعہ ضرور کیا ہے یا کم از کم اسلام کے خلاف لکھے جانے والے مضامین اور انٹرنیٹ بلاگز ضرور پڑھے ہیں۔ آپ انٹرنیٹ پر موجود تمام بلاگز کھنگال لیں اور اسلام کے خلاف موجود تمام کتابیں اور لٹریچر پڑھ ڈالیں۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے آج تک، کوئی لگ بھگ سو سالوں میں لکھے جانے والے اعتراضات کی اصل کوئی صرف ، ہی سوال ہیں جس کو ہر دور، ہر ملک میں اسلام کے خلاف لکھنے والوں نے، معترضین اور حاسدین نے گھما پھرا کر بڑھا چڑھا کر پیش کیا۔ کتاب لکھتے وقت تو کم از کم مصنف کچھ حوالہ جات اور مآخذ کا خیال رکھتا ہے، انٹرنیٹ بلاگز پر تو اس قید کی بھی پوری چھوٹ ہے۔ جو چاہے لکھ دو کس نے جانچنا ہے اور کس نے مناظرہ کرنا ہے۔ سوال تو سوال ان پر دیئے جانے والے جواب بھی پڑھ کر آدمی ماتم ہی کر لے تو اچھا ہے۔ نہ سوال لکھنے والے نے کبھی ٹھنڈے دل سے پڑھنے کی کوشش کی اور نہ جذباتی جواب دینے والوں نے تحقیق کی محنت کی، جس زبان میں آج کل کے نوجوان مشرکین کو جواب دیتے ہیں اس سے بدر جہا بہتر زبان تو دِلّی کی طوائف بولتی تھیں۔ عبداللہ نے لمبی آہ بھری اور مہمانوں سے مخاطب ہوا۔ جناب طویل بحث ہے انشا اللہ کچھ لکھ کر ضرور چھپوا دوں گا کچھ آسان باتیں عرض کردیتا ہوں عبداللہ نے دل ہی دل میں تین بار یہ دعا پڑھ لی۔ ترجمہ اے میرے رب میرا سینہ کھول دے اور میرے لئے میرا کام آسان کردے اور میری زبان کی گرہ کھول دے تاکہ لوگ میری بات سمجھ سکیں۔ سورۃ طحہٰ اسلامی معاشرے میں غیر مسلم کے حقوق مسلمانوں سے زیادہ ہیں۔ ان کی جان و مال کا تحفظ اسلامی مملکت کے فرائض میں شامل ہے۔ رسالت پناہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآل وسلم نے فرمایا کہ اگر اسلامی مملکت میں غیر مسلم کا قتل ہوگیا تو قیامت کے دن میں ان کا وکیل بن جاؤں گا۔ غیر مسلموں کو اپنے مذہب پر چلنے کی مکمل آزادی ہے، عبادت گاہیں بنانے اور آباد رکھنے کی بھی اور ہر قسم کا پیشہ اختیار کرنے کی بھی، جو اسلامی تعلیمات کے منافی نہ ہو۔ جنگ کی صورت میں اسلام اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ ایک غیر مسلم اپنے ہی بھائی بہنوں، ہم مذہب کے خلاف محاذ آرا ہو، اُس کی دینی حمیت اُسے شاید اس بات کی اجازت نہ دے اور ضمیر الگ کچوکے لگاتا رہے۔ تو ایک تو اسے مکمل حفاظت دی گئی دوسرا یہ کہ جو خطرے والا کام تھا اس سے بھی رعایت بخشی گئی تو اس رعایت کی وجہ سے ایک معمولی سا اضافی ٹیکس ہے جسے جزیہ کہتے ہیں اور بس، اگر اسلام اسی طرح غیر مسلموں کی املاک ہڑپ کرتا تو رسالت پناہ صلی اللہ علیہ وآل وسلم اور خلفائے راشدین اور صحابہ کرام اجمعین کو کیا ضرورت تھی کہ یہودیوں سے قرضہ لیں اور جہاں تک اضافی ٹیکس کا سوال ہے یہ تو آج تک رائج ہے، مسلمان تو کیا غیر مسلمان ملکوں میں بھی مثلاً امریکہ میں، کیونکہ میں امریکی شہری نہیں ہوں تو میری تمام تر آمدنی پر اضافی ٹیکس کٹتا ہے اور ٹیکس ریٹرن میں چھوٹ بھی کم ملتی ہے اگر آپ کے بچے امریکن ہوں تو کی ملتی ہے ورنہ نہیں اور ایسی ہی بیسیوں معاہدے تمام ملکوں کے درمیان اقوام متحدہ کے زیرِ سایہ آج بھی موجود ہیں بلکہ پھل پھول رہی ہیں۔ اب اگر میں یہ کہوں کہ امریکہ غیر امریکیوں پر ظلم کر رہا ہے یا اُن کا مال ہڑپ کرنے کے در پہ رہتا ہے تو یہ کہاں کا انصاف ہوگا جس قانون جس تہذیب میں آپ رہتے ہیں اُن کے قوانین تو ماننے پڑتے ہیں۔ کاش کوئی مسلمان کا طالب علم آج کل کے بین الاقوامی قوانین اور معاہدوں کے مطابق ہارورڈ جیسی یونیورسٹی میں آکر تمام اسلامی قوانین کا موازنہ کرے تو یقین جانیے اگر ٹھنڈے دل سے اور بہترین دماغ سے سوچا جائے تو امریکہ اسلامی قوانین لاگو کر دے۔ ویسے بھی درجنوں ایسے قوانین امریکہ میں آج تک رائج ہیں جو سراسر اسلامی ہیں مثلاً رئیل اسٹیٹ اور پڑوسیوں کے حقوق کا چارٹرڈ لگتا ہے۔ کاش کوئی اس پر کام کرسکے۔ دوسرے سوال کا جواب تو آپ خود ہی دے سکتے ہیں صرف تھوڑی سے کامن سینس کی ضرورت ہے۔ اجازت اور حکم میں بڑا فرق ہے۔ جاری ہے
null
null
null
null
480
https://www.urduzone.net/ghar-barbad-mat-karo-teen-auratien-teen-kahaniyan/
عفت میری رشتہ میں بھتیجی ہوتی تھی۔ گرچہ دور کا رشتہ تھا، پھر بھی اس کے والد قدیر بھائی کبھی کبھار ہماری خیریت دریافت کرنے آجاتے تھے۔ جب سنا کہ ان کی بیٹی بنگلہ دیش سے آئی ہے تو میں اس سے ملنے چلی گئی۔ وہ معصوم سی لڑکی تھی جو ڈھاکہ فال کے بعد وہاں ماں کے پاس رہ گئی تھی۔ ان دنوں قدیر بھائی مغربی پاکستان میں کاروبار کے سلسلے میں مقیم تھے۔ یوں وہ مشرقی پاکستان کے بنگلہ دیش بن جانے کے سبب واپس اپنے کنبے میں نہ جاسکے اور یہاں ٹھہر کر حالات کے سدھرنے کا انتظار کرنے لگے۔ اس دوران انہوں نے اپنا کاروبار شروع کرنے پر توجہ مرکوز رکھی تاکہ جب مناسب وقت آنے پر بیوی بچوں کو لائیں تو ان کی رہائش اور روزی روٹی کا بہتر انتظام موجود ہو۔ حالات کے سدھرنے میں وقت لگ گیا۔ عفت جو ننھی منی سی تھی، بڑی ہوگئی لیکن اپنے باپ کو نہ بھولی جب اس کی ماں فوٹو دکھاتیں تو وہ کہتی۔ یہ میرے ابو ہیں اور مجھے ان کے پاس جانا ہے۔ عفت کی یادداشت غضب کی تھی اور وہ اپنے والد کو بہت یاد کرتی، تبھی اس کی نانی کہتی تھیں کہ ایک بار بچی کو باپ سے ملا لائو تاکہ اس کے دل کو سکون ملے۔ قدیر بھائی بھی دل سے چاہتے تھے کہ وہ اپنے بیٹے اور بیٹی سے ملیں لیکن ان کی بیوی بنگلہ دیش چھوڑ کر نہیں آنا چاہتی تھیں۔ وہ ڈھاکہ کی تھیں اور بنگلہ بولتی تھیں۔ ان کی خواہش تھی کہ قدیر واپس آجائے لیکن یہ نہ گئے البتہ بچوں کو یاد کرکے اُداس رہنے لگے۔ قدیر بھائی لاہور کے رہنے والے تھے۔ ان کے دادا اور والد نے ڈھاکہ میں بزنس کیا اور سکونت اختیار کرلی تھی۔ ان کی شادی ایک بنگالی گھرانے میں ہوئی۔ وہ بنگلہ زبان بولتے تھے۔ حالات کچھ درست ہوئے تو فون پر رابطہ رہنے لگا، تبھی قدیر نے سسر سے کہا کہ وہ صغیر اور عفت کو ملانے لے آئیں۔ کچھ دن میرے بچے ساتھ رہیں گے، پھر واپس ماں کے پاس بھجوا دوں گا۔ سسر بوڑھے آدمی تھے، وہ خود نہیں آسکتے تھے۔ وعدہ کرلیا کہ اگر تمہارا کوئی رشتہ دار آ جائے تو ہم بچوں کو تمہارے پاس چند روز کے لیے بھجوا دیں گے، واپس خود آکر چھوڑ جانا۔ قدیر نے منظور کرلیا۔ وہ کاروبار بند کرکے نہیں جاسکتے تھے البتہ ان کا چچا زاد اکثر مال خریدنے قریبی ممالک جایا کرتا تھا، اس کا نام شعیب تھا۔ وہ کبھی کبھار بنگلہ دیش بھی جاتا تھا۔ شعیب اور قدیر بھائی نے مل کر ایک فلیٹ خریدا تھا کیونکہ کرائے کی رہائش سے تنگ آ چکے تھے کہ جب چاہتا مالک مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیتا۔ فلیٹ چھوٹا سا تھا۔ اچھی حالت میں تھا اور پانی وغیرہ کی قلت بھی نہ تھی جب سے یہ رہائش لی تھی، دونوں کو سکون مل گیا تھا۔ شعیب شادی شدہ تھا، اس کی بیوی بھی بنگالی تھی لہٰذا اس نے مغربی پاکستان آنے سے انکار کردیا تھا۔ گویا دونوں کا مسئلہ ایک ہی تھا۔ رشتہ داری کے علاوہ یہاں کاروباری شراکت بھی کرلی۔ تبھی ایک رہائش ان کے لیے اچھی رہی۔ اس بار شعیب کا دورہ بنگلہ دیش کا نکل آیا۔ اس نے کہا کہ میرا وہاں پندرہ روز کا قیام ہے ۔ اپنی بیوی کو سمجھانے کی کوشش کروں گا کہ میرے ساتھ کراچی آ جائے، شاید سمجھ جائے ورنہ میں اس کو آزاد کردوں گا کیونکہ وہاں اتنا زیادہ خون خرابہ ہوا ہے کہ اب دوبارہ ادھر کاروبار جمانے کو دل نہیں چاہتا۔ کاش میں بھی اپنی بیوی کو سمجھا سکتا۔ فی الحال تم میرے سسر سے ملنا اور استدعا کرنا کہ اگر کنچن نہیں آتی تو کچھ عرصے کے لیے میرے بچوں کو یہاں بھجوا دیں۔ میں ان کیلئے بہت اداس ہوں۔ شعیب نے وعدہ کرلیا کہ وہ پوری کوشش کرے گا۔ اگر انہوں نے بچوں کو بھیجنے کی ہامی بھرلی تو بچوں کو لانے اور واپس بھجوانے کی کوئی سبیل ہوجائے گی۔ کچھ ضروری کاغذات نکاح نامہ اور برتھ سرٹیفکیٹ وغیرہ لے کر وہ بنگلہ دیش چلا گیا۔ قدیر بھائی کو امید نہ تھی، اس کی بیوی بچوں کو چند روز کے لیے پاکستان بھجوائے گی مگر جب شعیب نے منت سماجت کی اور واپس پہنچانے کا وعدہ بھی کیا تو اس خاتون نے عفت کو جو اس وقت نو، دس برس کی ہوگی، شعیب کے ساتھ بھیج دیا۔ بچی جب والد سے ملی تو بہت خوش ہوئی اور بھائی قدیر بھی نہال تھے کہ میری بچی آگئی ہے۔ اس کی بیوی نے بیٹے کو نہ بھیجا کہ کہیں دونوں بچوں کو پا کر قدیر اسے بھول ہی نہ جائے۔ بچوں کی وجہ سے ناتا جڑا ہوا تھا، امید تھی کہ کبھی واپس آ جائے گا۔ جب مجھے پتا چلا کہ بھائی قدیر کی بیٹی آئی ہے تو میں ملنے گئی۔ بہت پیاری وہ معصوم سی بچی تھی۔ اپنے باپ کو پاکر خوش نظر آرہی تھی۔ قدیر بھائی نے ایک بوڑھی ملازمہ رکھی ہوئی تھی۔ شعیب اور قدیر کے فلیٹ کی صفائی کرتی اور ان کے لیے کھانا بھی بناتی تھی۔ تمام گھریلو کام سرانجام دیتی۔ بوڑھی عورت کا ایک بیٹا تھا۔ وہ کسی فساد میں ہلاک ہوگیا تھا۔ اس کا کوئی نہ رہا تھا۔ قدیر کے گھر پناہ لے لی اور اس کو بیٹا بنا لیا۔ رات دن یہاں رہنے لگی۔ ان لوگوں کو بھی اپنے گھریلو کاموں کے لیے ایک بوڑھی اماں کی ضرورت تھی۔ دونوں اس کی ضروریات پوری کرتے اور اس کا خیال رکھتے تھے۔ وہ رات کو ان کے فلیٹ کے ٹی وی لائونج میں سو جاتی تھی۔ جب بچی آگئی تو اماں رضیہ خوش ہوگئی۔ دن بھر اکیلے رہنے کی وجہ سے اس کا دل گھبرا گیا تھا۔ بچی کی آمد اس کی زندگی میں بہار کی ہوا کا جھونکا تھا۔ وہ کچن میں کام کرتی اور عفت سے باتیں بھی کرتی جاتی۔ اس کو کہتی تم اپنے ابا سے بہت پیار کرتی ہو، ان کے پاس رہنا چاہتی ہو تو میں خود بنگلہ دیش جاکر تمہاری ماں کو سمجھائوں گی کہ وہ تمہارے ابا کے پاس یہاں آ جائیں۔ عفت کہتی، ہاں دادی ماں آپ ضرور میرے ساتھ بنگلہ دیش چلنا، میری اماں کو سمجھانا، مجھے ابا کے ساتھ رہنا اچھا لگتا ہے لیکن میں اماں اور بھیا کے لیے بھی اداس رہتی ہوں۔ ان کے بغیر بھی نہیں رہنا چاہتی۔ عفت دو چار دنوں میں رضیہ اماں کے ساتھ گھل مل گئی۔ حالات بدلتے دیر نہیں لگتی۔ ابھی عفت کو آئے کچھ ماہ ہوئے تھے کہ اس کی والدہ کے فون آنے لگے۔ قدیر میں نے اپنا وعدہ پورا کیا۔ اب تم بھی اپنا وعدہ پورا کرو۔ بچی کو لے کر آجائو۔ میں عفت کے لیے اداس ہوں۔ قدیر نے بیوی کو ٹالنا شروع کردیا کہ اب آیا، تب آیا، صبر کرو، اتنے سال میں نے صبر کیا۔ ایک آدھ ماہ تم سے نہیں ہوتا۔ دراصل قدیر بھائی کی نیت بدل گئی تھی، وہ عفت کو لوٹانا نہیں چاہتے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ بیٹا کنچن کے پاس رہنے دیں گے اور بیٹی کو اپنے پاس رکھ لیں گے، مجھ سے بھی مشورہ کیا۔ میں نے کہا۔ قدیر بھائی اگر ایسا ارادہ کرلیا ہے تو دوسری شادی بھی کرلو تاکہ بچی کو ماں مل جائے، اکیلی بچی تمہارے پاس کیسے رہے گی۔ ابھی تو اکیلی نہیں ہے، رضیہ اماں اس کے پاس ہوتی ہے۔ جب بڑی ہوگی تو کسی اچھے گھر میں شادی کردوں گا۔اگر بچی نے واپسی کی ضد کی تو اسے ماں کے پاس بھجوا دوں گا۔ فی الحال تو رضیہ اماں سے بہل گئی ہے۔ تم اکیلے فلیٹ کے مالک نہیں ہو، شعیب بھی ہے۔ بے شک تمہارا قابل اعتبار دوست اور منہ بولا بھائی ہے اور عفت اس کو چچا سمجھتی ہے لیکن وہ اس کا سگا چچا نہیں ہے، آج تمہیں اس کا ساتھ دینا مناسب لگ رہا ہے، کل نہیں لگے گا۔ میں فلیٹ اس کو بیچ دوں گا یا خود لے لوں گا، وہ کہیں اور چلا جائے گا۔ گویا قدیر بھائی کے پاس ہر بات کا جواب موجود تھا۔ بیٹی کی محبت میں ایسے سرشار تھے کہ بچی کو ماں سے جدا کر رکھا تھا لیکن اسے خود سے جدا کرنا گوارا نہ تھا۔ اماں رضیہ عفت کا بہت خیال رکھتیں اور اس کو بہلانے میں کوئی کسر نہ رکھتی تھی۔ اسی بزرگ خاتون کا پیار پاکر عفت بھی ٹکی ہوئی تھی۔ دو سال گزر گئے اور قدیر بھائی نے بنگلہ دیش واپس نہ بھیجا۔ جب وہ آتے، کہتے کسی اچھی خاتون کو تلاش کردو۔ میں نکاح کرکے گھر بسانا چاہتا ہوں۔ بیٹی میرے پاس آگئی ہے، سکون قلب حاصل ہوگیا ہے، بیٹا رہے ماں کے پاس۔ مجھے پروا نہیں لیکن بیٹی کو میں وہاں نہیں چھوڑ سکتا۔ مجھے عفت کے بارے میں سوچ کر دکھ ہوتا تھا کہ وہ بیچاری دو پاٹوں کے بیچ پس گئی تھی، جب آتی اس کی بات ماں سے فون پر کروا دیا کرتی اور کنچن کو تسلی دیتی کہ فکر نہ کرو ایک روز قدیر کو راضی کرلوں گی، وہ عفت کو تمہارے پاس پہنچا دے بلکہ میں خود لے آئوں گی۔ وہ بیچاری دکھی ہوتی تھی کہتی کاش میں بچی کو اس کے باپ سے ملانے نہ بھجواتی لیکن کیا کرتی، خود عفت اصرار کرتی تھی کہ اس نے ابا کے پاس جانا ہے تبھی بھجوا دیا تھا۔ وقت گزرتے پتا نہیں چلتا۔ عفت سولہ برس کی ہوچکی تھی کہ اماں رضیہ کا ایک روز ہارٹ فیل ہوجانے سے انتقال ہوگیا۔قدیر بھائی کو ابھی تک کوئی مناسب رشتہ دوسری شادی کے لیے نہ مل سکا تھا۔ اب ان کو بھی عفت کی فکر رہنے لگی کہ اکیلی ہوگئی تھی۔جب سے اماں رضیہ کا انتقال ہوا تھا، عفت اداس رہنے لگی تھی۔ تمام گھریلو کام جو اماں رضیہ کرتی تھی، اب اس کو سرانجام دینے پڑتے تھے۔ کھانا بنانا، گھر کی صفائی اور والد اور چچا کے کپڑے وغیرہ دھونا، استری کرنا۔ کبھی کبھی تھک جاتی تو تنہائی سے اکتا کر رونے لگتی، تبھی قدیر نے ارادہ کرلیا کہ وہ اب بنگلہ دیش جاکر عفت کو ماں کے حوالے کردے گا۔ اس عرصے میں اس کا کاروبار خوب جم چکا تھا، روپے پیسے کی کمی نہ رہی تھی۔ وہ باآسانی بذریعہ ہوائی جہاز ایک ملک سے دوسرے ملک آجا سکتا تھا۔ وہ بیٹی کو بھی تسلی دیتا تھا، میری بچی بس چند دن اور صبر کرلو، ہم جلد بنگلہ دیش جائیں گے اور تم اپنی ماں اور بھائی سے مل سکو گی۔ عفت خوش نہ تھی۔ قدیر بھی اس کے دکھ کو محسوس کرنے لگا تھا مگر وہ سخت کاروباری آدمی بن چکا تھا۔ بیٹی کو زیادہ وقت نہ دے سکتا تھا۔ رات گئے وہ اور شعیب گھر آتے تو ان کے آتے ہی وہ سو جاتی۔ وہ بھی دن بھر کے تھکے ماندے اپنے کمروں میں جاکر سو رہتے، صبح سویرے پھر کام پر نکل جاتے۔ کچھ دنوں سے شعیب کا رویہ عفت سے بدل گیا تھا اور بچی کو اپنے اس منہ بولے چچا سے خوف سا آنے لگا تھا۔ پہلے کبھی وہ اکیلے گھر میں نہ آتا تھا لیکن چند دنوں سے طبیعت کی خرابی کا کہہ کر وہ قدیر سے پہلے آجاتا، پھر اپنا کمرہ بند کرلیتا اور نشہ کرکے سو جاتا تھا۔ ایک روز میں مارکیٹ جاتے ہوئے قدیر کے فلیٹ کے نیچے سے گزری تو مجھے عفت کا خیال آگیا اور میں اوپر چلی گئی۔ میں نے بیل دی، اس نے دروازے کے اندر بنے سوراخ پر آنکھ لگا کر دیکھا۔ میں دکھائی دی تو دروازہ کھول دیا۔ اس وقت اس کی حالت قابل رحم تھی۔ وہ روکر مجھ سے لپٹ گئی اور بولی۔ پھپھو مجھے ابھی اور اسی وقت اپنے گھر لے چلو، میں اب یہاں نہیں رہوںگی۔ میں نے گلے لگا کر اسے تسلی دی، تب اس نے گھبراہٹ کی وجہ بتائی۔ کہا پھپھو اچھا ہوا آپ آگئیں، میں یہی دعا کررہی تھی۔ چند دنوں سے چچا شعیب جلد گھر آجاتے ہیں جبکہ ابا بعد میں آتے ہیں۔ چچا نشہ کیے ہوتے ہیں، میری طرف دیکھتے ہیں تو مجھے خوف آتا ہے۔ آج وہ دوپہر کو آگئے تھے۔ اپنے کمرے میں بیٹھ کر نشہ کرتے رہے۔ شام کو باہر نکلے تو اول فول بکنے لگے۔ تبھی میں دروازہ کھول کر پڑوسن خالہ شفق کے پاس چلی گئی اور جب تک ابا گھر نہیں آگئے وہاں بیٹھی رہی۔ جب ان کی آواز سنی تو گھر آئی، رونے کی وجہ سے آنکھیں سرخ تھیں۔ ابا نے پوچھا کیا ہوا ہے۔ میں نے کہا نزلہ زکام ہوگیا ہے، خالہ شفق کو بھی یہی کہا تھا۔ میری بات سن کر شعیب چچا بولے۔ ہر وقت بلڈنگ کے گھروں میں جاتی ہے، کوئی گھر کیسا کوئی کیسا۔ جب میں نے روکا تو رونے لگی اور پڑوس میں جاکر بیٹھ گئی۔ بھائی قدیر ان کے بیٹے جوان ہیں وہاں روز روز نہ جایا کرے۔ تم اس کو اس کی ماں کے پاس پہنچا آئو یا پھر اس کی شادی کردو۔ اب اس کا اکیلے گھر میں رہنا ٹھیک نہیں ہے۔ ابا اس دم تو چپ ہوگئے۔ آج کا کہا تھا کہ شام کو آجائوں گا اور تم کو پھپھو سلمیٰ کے گھر چھوڑ دوں گا۔ اچھا ہوا کہ آپ خود آگئیں، اب میں آپ کے ساتھ جائوں گی، یہاں اکیلی نہ رہوں گی، مجھے ڈر لگتا ہے۔ عفت بے شک بچی تھی مگر اتنی بچی بھی نہ رہی تھی، کافی سمجھ دار ہوچکی تھی۔ باپ سے کچھ نہ کہا مگر مجھ سے اپنے اندر کے خوف کا برملا اظہار کردیا کہ وہ شعیب کی نگاہوں سے ڈرنے لگی ہے۔ میں شام تک عفت کے پاس رہی اور جب قدیر بھائی آگئے تو میں نے ان سے کہا کہ عفت کو میرے ساتھ بھیج دیں۔ جب تک آپ بنگلہ دیش جانے کا پروگرام فائنل نہیں کرتے، یہ میرے پاس رہے گی۔ انہوں نے کہا ٹھیک ہے، میں ہاتھ منہ دھو لوں، خود آپ لوگوں کو چھوڑ آتا ہوں۔ ایک ماہ عفت میرے پاس رہی، پھر قدیر بھائی اس کو بنگلہ دیش لے گئے اور اس کی والدہ کے پاس چھوڑ کر آگئے۔ واپس آئے تو مجھ سے ملنے آئے۔ بولے، تم ہر دم کہتی تھیں عفت کو ماں کے حوالے کرآئو۔ لو خوش ہوجائو، اس کو ماں کے حوالے کر آیا ہوں۔ اچھا کیا ہے، مائیں ہی بچیوں کی صحیح حفاظت کرسکتی ہیں، اب تمہیں کیسا لگ رہا ہے۔ بہت پُرسکون ہوں۔ دل سے ایک بڑا بوجھ اُتر گیا ہے۔ اب سکون سے سو سکوں گا۔ اس کا مطلب ہے کہ تم نے سمجھ لیا بیٹی ماں کے پاس رہے تو ٹھیک ہے ورنہ اس کی فکر سے تم بھی سکون کی نیند نہ سو سکتے تھے۔ ہاں، کنچن کو بہت سمجھایا کہ میرے ساتھ چلو، بچوں کو باپ سے جدا مت کرو، ہمارا گھر کب سے برباد ہے، بالکل برباد مت کرو۔ لیکن اس نے میری ہر التجا کو رد کردیا۔ کہنے لگی تم اپنے دیس میں خوش تو میں اپنے دیس میں خوش ہوں۔ میں اپنے والدین کو نہیں چھوڑ سکتی۔ بے شک مجھے طلاق دے دو، دوسری شادی کرلو۔ دوسری بیوی سے اولاد ہوجائے گی تو تمہاری ادھوری زندگی مکمل ہوجائے گی۔ صغیر اور عفت جب خودمختار ہوجائیں گے، تم سے ملنے آجائیں گے یا پھر تم جب چاہو آکر مل جانا۔ میں نہ روکوں گی لیکن میرے سامنے آئندہ جانے کی بات نہ کرنا۔ مجھے وہاں جاکر رہنا منظور نہیں۔ تبھی مایوس ہوکر میں نے اسے طلاق دی ورنہ کون خوشی سے اپنا گھر برباد کرتا ہے۔ یہ کہہ کر قدیر بھائی انتہائی افسردہ ہوگئے اور ان کی آنکھوں سے بے اختیار آنسو ٹپک پڑے۔ ایک قدیر بھائی ہی نہیں، جانے کتنے گھرانوں کو ملک کے ٹکڑے ہوجانے سے برباد ہوجانا پڑا اور ایسے المیوں سے گزرنا پڑا جن کا ذکر شاید تاریخ میں کبھی نہ آئے۔ ق۔م لاہور
null
null
null
null
481
https://www.urduzone.net/mujhe-tum-fakhar-hai-teen-auratien-teen-kahaniyan/
میں سب سے بڑی تھی۔ میر ے بعد مریم کا نمبر تھا۔ خالہ زاد سے میری شادی ہوئی تو مہندی والے دن پھوپی نے فیصلہ کرلیا کہ وہ مریم کا رشتہ افتخار کے لیے لیں گی۔ شادی میں مریم بہت خوبصورت لگ رہی تھی۔ افتخار نے بھی ماں کے فیصلہ پر خوشی کا اظہارکیا۔ ہم چاروں بہنوں میں بلاشبہ اللہ تعالیٰ نے مریم کو سب سے زیادہ حسن کی دولت سے نوازا تھا۔ میکے میں شادی کے بعد ہماری پہلی دعوت پھپھو نے کی اور اپنے فیصلہ سے آگاہ کیا۔ یہ تو ہماری خوش قسمتی ہے پھپھو کہ آپ نے مریم کو بہو بنانے کا ارادہ کیا ہے۔ ورنہ یتیم لڑکیوں کو کب جلد اچھے رشتے ملتے ہیں۔ ان دنوں وہ زیادہ امیر نہ تھیں لیکن ہم سے خوشحال تھیں کیونکہ میرے والد کی وفات کو چھ برس سے زیادہ عرصہ گزر چکا تھا۔ مرحوم ایک سرکاری محکمے میں کلرک تھے۔ ان دنوں کلرک کی تنخواہ کم ہوا کرتی تھی اور ایمانداری کے سبب ہمارا گزارہ والد صاحب کی تنخواہ پر مشکل سے ہوتا تھا۔ بس سفید پوشی کا بھرم قائم تھا۔ لیکن کچھ پس انداز نہ کرسکے تھے۔ ابو کے بعد ہم نے کٹھن وقت دیکھا۔ مگر امی نے سفید پوشی کا بھرم قائم رکھا تھا۔ پھپھو نے جب مریم کا رشتہ مانگا تو امی خوش ہوگئیں۔ خیر سے مریم کی منگنی پھپھو کے بیٹے افتخار سے ہوگئی تو امی کی فکر میں کمی آئی۔ اب مطمئن تھیں، باقی دو چھوٹی بیٹیاں تو ابھی پڑھ رہی تھیں۔ ایک چھٹی اور دوسری ساتویں میں تھی۔ افتخار کا مستقبل روشن تھا۔ اس کا انجینئرنگ کا آخری سال تھا۔ امی سے کہا گیا تھا کہ جونہی ہمارا بیٹا سالانہ امتحان دے گا شادی کی تاریخ رکھ دیں گے۔ افتخار بھائی کے فائنل پیپرز ہوچکے۔ انہوں نے کہا تھوڑا سا وقت اور چاہیے۔ اچھی نوکری ملنے کی جلد توقع ہے۔ ملازمت ملتے ہی شادیانے بجائیں گے۔ مریم کو اپنے منگیتر سے محبت ہوگئی تھی۔ امی چپکے چپکے تھوڑا بہت جہیز بنانے میں لگی تھیں۔ انہی دنوں افتخار کواچانک بیرون ملک جانے کا چانس مل گیا۔ وہ اس موقع کوگنوانا نہ چاہتا تھا اور مریم کو اس کی جدائی سے اندیشے ڈراتے تھے۔ ایسی کئی کہانیاں سن رکھی تھیں کہ لڑکا بیرون ملک گیا تو وہاں کا ہوکر رہ گیا۔ وہاں کسی اور سے شادی کرلی۔ منگیتر یا منکوحہ انتظار کی آگ میں جلتی رہ گئی۔ والدہ نے پھپھو سے بات کی وہ بولیں ایک دفعہ جانے دیں۔ ایک سال بعد آئے گا تب تک اچھی تیاری کرلیں گے۔ ہم کوئی غیر نہیں کہ آپ کو ہم پر بھروسہ نہیں ہے۔ فکر نہ کرو بھابھی ایک سال تو پلک جھپکتے گزر جاتا ہے۔ میں زبان دے کر پھرنے والی نہیں۔ پھپھو کی تسلیوں پر امی نے اعتماد کر لیا۔ افتخار بیرون ملک چلا گیا اور میری بہن اس کے انتظار میں اپنے اندیشوں سے لڑنے کے لیے اکیلی رہ گئی۔ افتخار بھائی نے سعودی عربیہ جاتے ہی اپنے دوسرے بھائی کو بھی بلا لیا۔ اس کا ایک غیر ملکی کمپنی سے تین سال کا معاہدہ ہوگیا۔ دونوں بھائی خوب کما رہے تھے اور وہ تقریباً ساری کمائی گھر بھجوا رہے تھے۔ اس کمائی سے ان کے گھریلو حالات خوب سے خوب تر ہوتے چلے گئے۔ دولت سے انسان کی آزمائش ہوتی ہے۔ ان کے تو مزاج ہی ساتویں آسمان پر پہنچ گئے۔ اب جب پھپھو آتیں اس قسم کی باتیں کرتیں فلاں نے بیٹی کو جہیز میں گاڑی، بنگلہ دیا ہے۔ لڑکی بھی ڈاکٹر ہے۔ لوگ سوچ سمجھ کر رشتے کرتے ہیں۔کبھی فرماتیں ساس نندوں کو بھی زیور دیے جاتے ہیں۔ لڑکی والوں کی طرف سے میں ایک شادی میں گئی تو لڑکی والوں کی فراخ دلی پر حیران رہ گئی ساس کو دس تولے کے کڑے اور ہر نند کو دو دو تولے کے دیے اور تمام رشتے داروں کو قیمتی جوڑے دیے۔ لوگ بڑی دھوم دھام سے بیٹیاں رخصت کرتے ہیں۔ امی ان کی باتیں سنتی تو دل تھام لیتیں۔ سوچتیں یہ ان کو کیا ہوتا جارہا ہے۔ کیا دولت آجانے سے انسانوں کے مزاج اتنے بدل جاتے ہیں طرح طرح کی باتیں سن کر بھی امی خاموش تھیں۔ کہتی تھیں کہ دیکھتی ہوں کب بلی تھیلے سے باہر آتی ہے۔ آخرکار ان باتوں کا مقصد سمجھ میں آگیا۔ انہوں نے ایک امیر گھرانے کی لڑکی دیکھ رکھی تھی۔ اور اب کسی بہانے یہ رشتہ ختم کرنا چاہتی تھیں۔ وہ جب بھی آتیں ہر بار نئی آگ لگا جاتیں تاکہ بھاوج کا دل کسی طور برا ہوجائے۔ جب پھپھو آتیں میرا دل سناٹے میںآجاتا کہ جانے اب کیا کہنے آئی ہیں امی بیچاری مقدور بھر ان کی خاطر مدارات کرتیں۔ عزت و تکریم میں بھی ہمارے گھر والے کوئی کسر نہ اٹھا رکھتے کہ ہوتا وہی ہے جو نصیب میں لکھا ہوتا ہے۔ ایک سال بعد افتخار گھر آگیا۔ پھپھو نے اس کا دل ہم سے پھیرنے کو اپنی طرف سے باتیں جڑیں کہ یہ لوگ عجیب شرطیں لگا رہے ہیں، شاید رشتہ نہیں دینا چاہ رہے تب افتخار نے کہا کہ میں خود جاکر ممانی سے بات کرتا ہوں۔ افتخار کے تیور دیکھ کر پھپھو سہم گئیں۔ کہا کہ یہ بڑوں کا معاملہ ہے تم مجھ پر چھوڑ دو، میں خود سنبھال لوں گی، تمہیں ان سے بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ تم معاملہ اور خراب کردو گے۔ اور ہم ہلکے پڑ جائیں گے۔ وہ اگر شرائط کی بات کررہی ہیں تو ہم بھی کچھ شرطیں لگا دیں گے۔ وہ خود ہی راہ راست پر آجائیں گے۔ اتنے عرصے منگنی رہی ہے اب رشتہ توڑنا کوئی مذاق تو نہیں ہے۔ افتخار ایک فرمانبردار بیٹا تھا۔ اس نے ماں سے زیادہ بات کرنے کی ضرورت محسوس نہ کی وہ تو آیا ہی اسی واسطے تھا کہ اپنے وعدے کا پالن کرسکے۔ وہ اپنی منگیتر کو نہیں بھولا تھا۔ انہی دنوں امی جان سے مکان خالی کروا لیا گیا تو وہ ایک دوسرے محلے میں کرائے کے مکان میں شفٹ ہوگئیں۔ پرانے محلے میں ساری خواتین امی سے ہی کپڑے سلواتی تھیں۔ یہاں آکر مالی حالات دگرگوں ہوگئے۔ کسی سے بھی واقفیت نہ تھی۔ والد صاحب نے اپنی زندگی میں دو پلاٹ خریدے تھے جن کی قسطیں وہ تقریباً دس سال تک بھرتے رہے تھے۔ ان کا خیال تھا کہ ایک پلاٹ کو فروخت کرکے دوسرے پر مکان تعمیر کرالیں گے۔ چھوٹے بھائی کا آخری تعلیمی سال تھا۔ امی کو انتظار تھا کہ وہ ملازمت پر لگے تو پھر ایک پلاٹ بیچ کر اس رقم سے دوسرے پر گھر تعمیر کرالیں گے۔ بیٹے کے مجبور کرنے پر پھپھو شادی کی تاریخ لینے آگئیں، ساتھ یہ بھی سنا گئیں کہ اب ہمارا سوسائٹی میں خاص مقام ہے۔ دیکھو لڑکی کو خالی ہاتھ نہ بھیج دینا ورنہ لوگ باتیں بنائیں گے اور ساس نندوں کو بھی کچھ زیور دینا ہوگا ورنہ ہمارے مہمان ہنسیں گے کہ کن لوگوں میں رشتہ کردیا ہے۔ امی نے ان کی باتوں کو تحمل سے سنا۔ انہوں نے پائی پائی جوڑ کر مہمانوں کے لیے کھانے کا انتظام اور شادی کا خرچہ اکٹھا کیا تھا۔ امی نے ہم سے مشورہ کیا سوائے مریم کے بھائی نے کہا۔ ماں میں منزل سے بہت قریب ہوں آپ فکر نہ کریں۔ ایک پلاٹ بیچ دیں اور پھپھو کی حیثیت کے مطابق مریم کی شادی کریں تاکہ ان کی جگ ہنسائی نہ ہو۔ جب میں کمانے لگوں گا مکان کو تعمیر کرانے کی سبیل بھی نکل آئے گی۔ بیٹی کی زندگی اور خوشی کا معاملہ تھا۔ افتخار بہت اچھا لڑکا تھا۔ اس کا مستقبل تابناک تھا۔ والدہ نے کچھ غور و خوض کے بعد بھائی کو پلاٹ فروخت کرنے کی ہدایت کردی۔ بھائی نے بھاگ دوڑ کرکے پلاٹ کو اونے پونے بیچ دیا کہ مریم کی شادی کی تاریخ رکھی جاچکی تھی۔ والدہ نے پھپھو اور ان کی بیٹیوں کے لیے سونے کے ہلکے پھلکے زیور بھی بنوانے کو دے دیے۔ ان کا خیال تھا یہ سب کرکے بیٹی کے لیے زندگی بھر کی انمول خوشیاں خرید لیں گے۔ ادھر مریم ماں کی فضول خرچی پر سلگ رہی تھی تو ادھر افتخار کے فرشتوں کو بھی خبر نہ تھی کہ اس کی والدہ صاحبہ کیا گل کھلاتی پھر رہی ہیں۔ مریم مایوں کا ابٹن لگانے سے پہلے ہی زرد پڑ گئی ڈھولک کی تھاپ پر اس کا دل یوں دھڑکتا تھا جیسے اسے اس کی آواز میں توپوں کی گھن گرج سنائی دیتی ہو۔ ہم سمجھ رہے تھے افتخار کو ساری حقیقت معلوم ہے۔ کیوں کہ اس کی ماں ایسا تاثر دے رہی تھی جیسے وہی اپنی ماں کو نئی نئی ہدایت دے کر ہمارے گھر بھیج رہا ہو۔ مریم کو بھی اب رہ رہ کر اس پر غصہ آرہا تھا کہ یہ کیا ہم غریبوں کے ساتھ کیا جارہا ہے۔ کیا اپنے ایسا سلوک کرتے ہیں اپنوں کے ساتھ مہندی والے دن پھپھو بڑی دھوم دھام سے اپنے مہمانوں کے ساتھ آگئیں۔ مہندی کی رسم سے قبل انہوں نے خاموشی سے امی کا ہاتھ پکڑا اور بولیں بھابھی اسے پڑھ لو پھر مہندی کی رسم شروع کرتے ہیں۔ امی نے کاغذ کھول کر پڑھا، یہ کچھ چیزوں کی فہرست تھی۔ فرنیچر،گاڑی اور ایک پلاٹ کا مطالبہ تھا۔ امی کے ہاتھ کانپنے لگے۔ منہ کھلا کا کھلا رہ گیا آپ کا یہ بھاری مطالبہ میں کیسے پورا کرسکتی ہوں۔ آخر تمہیں ہوکیا گیا ہے۔ اگر یہ سب درکار تھا تو پہلے کہا ہوتا۔ تم ہماری مالی حالت سے واقف ہو اگر نہ دے سکتے تو رشتہ ختم کرلیتے۔ اب تو کارڈ بھی سب جگہ چلے گئے ہیں۔ اس وقت ایسا مطالبہ نہ کرو جو میں پورا نہ کرسکوں کیوں اپنی اور ہماری عزت سے کھیل رہی ہو۔ اگر یہ سب چیزیں نہیں ہوں گی تو بھی ہماری عزت میں کمی آئے گی۔ دیکھو بھابھی مجھے معلوم ہے بھائی جان مرحوم نے اپنی زندگی میں دو پلاٹ خریدے تھے۔ وہ کس دن کے لیے رکھے ہیں۔ یہی وقت ہے اپنی عزت بنانے اور شان و شوکت دکھانے کا، ارے بھئی ان کو بیچ دو۔ شبو ایک بیچ دیا ہے۔ تبھی شادی کے اخراجات پورے ہورہے ہیں۔ دوسرا کیسے بیچ دوں۔ اتنی جلدی کیوں کر بکے گا کچھ تو خدا کا خوف کرو۔ قیمت لگوالو میںخرید لیتی ہوں۔ نہیں تو کار بعد میں دے دینا۔ فی الحال پلاٹ اور فرنیچر سے کام چلا لیں گے۔ ارے بھئی جو چیزیں دلہن لائے گی ان کو وہی استعمال کرے گی۔ ہمارے پاس پہلے اللہ کا دیا سب کچھ ہے توآپ لوگوں کی عزت بنانے والا معاملہ ہے۔ امی اس سے زیادہ نہ سن سکیں وہ پلنگ پر بیٹھ گئیں اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگیں۔ امی کو روتا پاکر میں ان کے پاس گئی۔ جب حال معلوم ہوا تو میں نے پھپھو سے کہا کہ آپ نے بہت کم وقت میں ہمیں امتحان میں ڈالا ہے بہرحال آپ بیٹھیے تھوڑی دیر میں اپنے شوہر سے بات کرتی ہوں۔ مریم ایک طرف مایوں بیٹھی تھی۔ اس کی سہیلیاں پاس تھیں۔ میں نے ان کو ذرا دیر کے لیے کمرے سے باہر بھیج دیا کہ ضروری بات کرنی ہے۔ مریم کو بتایا کہ پھپھو پلاٹ ہتھیانا چاہتی ہیں۔ جہیز میں کوئی کام کی چیز نہیںہے بیٹی کو پلاٹ دے دو تم کیا کہتی ہو، مریم کا زرد چہرہ غصہ سے سرخ ہوگیا۔ جانے اس کے بدن میں اس وقت کہاں سے خون آگیا تھا۔آخر انہوں نے کیا کہا ہے۔ انہوں نے کہا ہے تم نے پلاٹ بیچا ہے تو بیٹی کو ہرچیز دے کر عزت سے رخصت کردو۔ اب تمہارے پاس روپے پیسے کی کمی نہیں ہے۔ عجب بات ہے، کیا اپنے مرحوم بھائی کی بیوہ کے ساتھ ایک نند ایسا سلوک کرسکتی ہے۔ یہ سن کر مریم نے دوپٹہ سر سے اتار پھینکا بولی۔ میں کرتی ہوں جاکر پھپھو سے بات، نیت خراب تھی تو اس مرحلے تک کیوں پہنچایا، اب باراتیوں کے سامنے ہمیں بے عزت کرنا چاہتی ہیں۔ مریم کے خطرناک تیور دیکھ کر میں نے کہا تماشا نہ بنائو ذرا صبر سے کام لو۔ مجھے تھوڑی سی مہلت دے دو۔ دوسرے کمرے میں آکر میں نے افتخار کو فون کیا، اس نے کہا کہ آپ فہرست کا کاغذ لے کر میرے پاس آجائیں، مجھے اس معاملے سے امی نے بے خبر رکھا ہے۔گاڑی گلی میں کھڑی تھی، ایک منٹ کو دولہا کے گھر جانا ہے۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا۔ آدھ گھنٹے میں ہم افتخار کے سامنے بیٹھے تھے۔ اس نے کاغذ پر نظر ڈالی پھر قلم اور کاغذ نکالا اور میرے شوہر سے کہا۔ میں بولتا جاتا ہوں آپ لکھتے جائیے پھپھو جان آپ کوبھاری فرنیچر، برتنوں کے سیٹ، ریفریجریٹر حتیٰ کہ کار تک جہیز میں مل جائے گی لیکن میری بھی ایک شرط ہے۔ آپ کو ڈیفنس میں میرے لیے دوکنال کی کوٹھی خریدنا ہوگی جہاں میں اپنے بھاری جہیز کو سجائوں گی۔ اس گھر میں صرف میں اور افتخار رہیں گے اگر آپ کو میری فرمائش منظور نہیں تو پھر ہمیں بھی آپ کا مطالبہ منظور نہیں ہے فقط مریم۔ افتخار نے کہا یہ خط آپ امی کو دے دیجیے آگے میں سنبھال لوں گا۔ یہ تحریر مریم کی طرف سے پھپھو کو پہنچی تو وہ چکرا گئیں۔ دوڑی ہوئی بیٹے کے پاس گئیں کہ دیکھو ان لوگوں کی شرافت ایک تو غربت کے باوجود ہم ان کی لڑکی لے رہے ہیں اوپر سے ان کے ایسے نخرے، اتنی بڑی شرط لگا دی۔ افتخار نے آپے سے باہر ہوتی ماں کوتھاما۔ وہ بولا۔ آپ نے بھی تو ایک فہرست ممانی جان کو دی ہے۔ انہوں نے تو انکار نہیں کیا۔ ابھی باجی کے شوہر آئے تھے وہ کہہ گئے ہیں بیٹا جو فہرست تم نے بھجوائی ہے ہم سب اشیا دے رہے ہیں فکر مت کریں۔ تو امی جان جب غریب ہوکر وہ اپنی عزت رکھ رہے ہیں تو ہم صاحب حیثیت ہوتے ہوئے ان کا ایک مطالبہ کیوں نہ مان لیں ہم اپنی یہ کوٹھی مریم کے نام کردیتے ہیں۔ ہرگز نہیں کیا ہم کو دربدر کرنے کا ارادہ ہے۔ ٹھیک ہے تو پھر نہ ہم ان سے کچھ لیتے ہیں اور نہ انہیں کچھ دیتے ہیں۔ سادگی سے شادی ہوجانے دیجیے۔ مجھے سرے سے یہ رشتہ منظور نہیں ہے۔ ابھی جاکر اسے ختم کرنے کا اعلان کرتی ہوں، جب دروازے سے بارات لوٹ جائے گی تب دیکھتی ہوں کیسے کرتی ہے ہماری بھاوج مریم کی شادی ہماری کیا جگ ہنسائی ہوگی جو ان کی ہوگی۔ رخصتی میں دو دن باقی ہیں امی جان۔ میں ہرگز ایسا نہ ہونے دوں گا۔ افتخار کے والد نے بھی بیٹے کا ساتھ دیا۔ بیگم یہ ٹھیک کہہ رہا ہے۔ دنیا والوں کا نہیں، کم ازکم اپنے مرحوم بھائی کا خیال کرو۔ بیگم کیا ہوگیا ہے تمہیں، بیٹے کے سامنے پھپھو کوہار ماننا پڑگئی۔ نکاح مردانے میں مردوں کے درمیان ہوا۔ افتخار نے نکاح نامے پر یہ بھی لکھوا دیا کہ اگر خدانخواستہ لڑکی کو طلاق ہوگئی تو دولہا پچاس تولہ سونا اور کوٹھی لڑکی کو دے گا اور اگر اس گھر میں لڑکی کو کوئی جسمانی گزند پہنچا تو دلہن کے ورثا قانونی چارہ جوئی کے مجاز ہوں گے۔ اس شرط کا علم پھپھو کو بعد میں ہوا۔ وہ خوب چلائیں تو بیٹے نے کہا اکثر جہیز نہ لانے پر سسرال میں بہو کے ساتھ انتقامی کارروائی کے واقعات سننے کو ملتے ہیں لہٰذا میں نے اس رحجان کی حوصلہ شکنی کی خاطر یہ لکھوا دیا ہے۔ یہ پھپھو کے لیے سخت توہین کا باعث تھا مگر اب صبر کا گھونٹ پینا ہی تھا۔ مریم کو بھی ہم نے سمجھا دیا کہ افتخار بے قصور ہے۔ اس کی نیت میں کوئی کھوٹ نہ تھا۔ پھوپھا کی سوچ بھی صحیح تھی، لہٰذا اب تم نے سسرال میں جاکر سب کے ساتھ عزت و اخلاق سے پیش آنا ہے۔ پھپھو کچھ کڑوی کسیلی کہیں تو درگزر کرنا۔ افتخار نے بھی اسے پہلے دن سمجھایا کہ بڑوں کی عزت کرنا لازم ہے۔ تمہاری فرمانبرداری اور تحمل نیکی بن کر تمہارے نصیب سنوارے گا۔ سچ کہا تھا افتخار نے، چند دن پھپھو کا منہ پھولا رہا بعد میں انہیں احساس ہوگیا کہ وہ غلطی پر تھیں۔ مریم کو سینے سے لگا لیا۔ ایک پل اس کے بنا نہ رہ پاتی تھیں۔ کہتی تھیں کہ کتنی نادان تھی میں جو اتنی اچھی بچی کو ٹھکرا رہی تھی۔ میری آنکھوں پر لالچ کی پٹی بندھ گئی تھی۔ پھوپھا نے بھی افتخار سے کہا۔ شاباش بیٹے تم تعلیم یافتہ ہو اسی لیے انسانیت کے پاسدار ہو مجھے تمہارے جیسے بیٹے کا باپ ہونے پر فخر ہے۔ یہ ایک تعلیم یافتہ نوجوان کی فراست تھی جس نے مریم جیسی محبت کرنے والی خوب سیرت لڑکی کی زندگی میں دکھوں کی بجائے خوشیاں بھردیں، ورنہ ہماری پھوپی نے توکوئی کسر نہ چھوڑی تھی۔ ک۔ ل لاہور
null
null
null
null
482
https://www.urduzone.net/aisa-sochna-bhe-nahi-teen-auratien-teen-kahaniyan/
میری اکلوتی پھپھو شادی کے چھ سال بعد بیوہ ہوگئیں تو والد صاحب انہیں اپنے ساتھ گھر لے آئے، کیونکہ جٹھانی اور جیٹھ نے ساتھ رکھنے سے انکار کردیا تھا۔ ساس سسر وفات پاچکے تھے اب وہ کس کے سہارے سسرال میں بیوگی کی زندگی کاٹتیں۔ پھپھو کا ایک ہی بیٹا تھا جو باپ کی وفات پر پانچ برس کا تھا۔ یہ ایک مجبوری تھی۔ وہ بیٹے کو خود سے جدا نہ کرسکتی تھیں لہٰذا عدت کے بعد جتنے رشتے آئے انہوں نے ٹھکرادیئے۔ والد سے التجا کی کہ عمر بھر آپ کے بیوی بچوں کی سیوا کروں گی۔ مجھے اپنے گھر میں رہنے دیں اور دوسری شادی پر مجبور نہ کریں، میرا بیٹا طارق میرے لئے سب کچھ ہے۔ اسی کے آسرے پہ عمر کاٹ دوں گی۔ ابو، بہن سے محبت کرتے تھے۔ ان کو دکھ نہ دینا چاہتے تھے۔ انہوں نے پھپھو کو دوسری شادی پر مجبور نہ کیا، امی کو بھی سمجھایا کہ عقیلہ کا ہمارے سوا کوئی نہیں ہے، تم دل چھوٹا نہ کرنا، اسے یہیں رہنا ہے تو خوش خلقی سے رہنے دو، اللہ تعالیٰ ہمیں اس کا اجر دے گا۔ والدہ بڑی خاموش مزاج تھیں۔ بحث و مباحثہ میں نہ الجھتیں لیکن جو دل میں ٹھانی ہوتی وہ کسی پر ظاہر کئے بغیر اپنے مشن کی تکمیل میں لگی رہتیں۔ بالآخر اپنی سی کرکے رہتیں۔ پھپھو کے معاملے میں بھی ایسا ہی ہوا۔ انہوں نے بظاہر شوہر کی مخالفت کی اور نہ نند سے کچھ کہا، بڑی منصوبہ بندی سے نند کو بیزار کرنے کی تدبیریں کرتی رہیں۔ بیچاری پھپھو نے امی کا ہر وار خاموشی سے سہا لیکن ابو سے کبھی شکایت نہ کی۔ انہوں نے بھی ٹھان لی تھی۔ بے شک بھاوج ریشم میں لپیٹ کر عمر بھر جوتے مارتی رہے وہ اس در کی دہلیز سے باہر قدم نہ رکھیں گی کہ گھر کے اندر کے سو عذاب، بھیڑیوں سے بھرے جنگل میں گم ہوجانے سے بہتر ہے۔ وہ زیادہ پڑھی لکھی نہ تھیں، مڈل پاس تھیں۔ اچھی نوکری بھی مڈل پاس کو کہاں ملتی ہے۔ امی کے گھر کے سارے کام کرکے ان کو بس دو وقت کی روٹی درکار تھی۔ والدہ کو شاید یہ سودا مہنگا نہ لگتا لیکن طارق ان کے لئے کانٹے کے جھاڑ جیسا تھا۔ والد اپنے یتیم بھانجے پر جاں نثار کرتے جو اپنے بچوں کے لئے لاتے وہی طارق کو بھی لاکر دیتے تاکہ وہ احساس کمتری کا شکار نہ ہو۔ اسے بھی اچھے اسکول میں داخل کرایا جس کی فیس کافی تھی۔ طارق ان کے لئے بوجھ نہ تھا بلکہ ان کی آنکھوں کا تارا تھا لیکن یہ سات برس کا بچہ میری والدہ کے دل پر پتھر کی سل کی طرح رکھا تھا۔ کم ہی عورتیں ایسی فراغ دل ہوتی ہیں جو کسی کے بچے کو یتیم پاکر اپنے بچوں جیسا درجہ دیں، ورنہ زیادہ زبانی کلامی ہی اللہ کو راضی کرتی رہتی ہیں، عملاً اپنی اولاد سے غرض رکھتی ہیں۔ والدہ کا دل اس معاملے میں بڑا نہ تھا، بلکہ تنگ دل کہوں تو بے جانہ ہوگا۔ والد سے مخالفت کھلم کھلا مول لینا ان کے بس کی بات نہ تھی، لیکن وہ چپکے چپکے طارق کے معاملے میں پھپھو کو آزردہ دل کرتی رہتی تھیں۔ میری صابر پھپھو نے پھر بھی اف نہ کی، امی نے تھک ہار کر والد کو تجویز پیش کردی کہ اپنی بہن کو اب گھر کے اندر یعنی انیکسی میں شفٹ کردو تو بہتر ہے ان کا لڑکا بڑا ہورہا ہے۔ ہمارا لڑکیوں بھرا گھر ہے مسئلے مسائل ہوں گے تو ہم نند بھاوج میں بدمزگی ہوجائے گی۔ والد نے بیوی کے ارادے کو بھانپ لیا اور پھپھو کو انیکسی میں منتقل کردیا۔ یہ انیکسی کیا تھی دو کمروں کا کوارٹر نما سوٹ تھا۔ جس میں غسل خانہ اور کچن بھی ملحق تھا اور برآمدے کے آگے تھوڑا سا صحن بنا کر چار دیواری بنادی گئی تھی۔ کبھی اس کو اسٹور کے طور پر اور کبھی سرونٹ کوارٹر کے طور پر استعمال میں لایا جاتا تھا۔ آج کل یہاں والد صاحب کی پرانی موٹر سائیکل اور میرے دونوں بھائیوں کی بے کار سائیکلیں پڑی تھیں اور کچھ ایسا ہی کباڑ تھا جس کو ایک کباڑی کے سپرد کرکے والد نے انیکسی کو وائٹ واش کرادیا اور ضرورت کا سامان بھی خرید کر پھپھو کو دے دیا۔ اب وہ اور ان کا بیٹا زیادہ وقت ان کی نظروں سے اوجھل رہتے تو میری ماں کے دل کا بوجھ کم ہوگیا تھا۔ پھپھو طارق کو اسکول روانہ کرنے کے بعد آجاتیں، امی کا ہاتھ بٹادیتیں اور پھر دوپہر کو اپنے ٹھکانے پر لوٹ جاتیں۔ اب وہ اپنا کھانا علیحدہ تیار کرتی تھیں۔ والد صاحب کے پاس اللہ کا دیا بہت کچھ تھا۔ وہ ان کو راشن ڈلوادیا کرتے تھے تاکہ خود کو بھاوج کی محتاج محسوس نہ کریں۔ وقت گزرتا رہا۔ ہم اسکول سے کالج تک پہنچ گئے۔ طارق کو روز شام میں ابو اپنے پاس بلالیتے اور اس کا ہوم ورک چیک کرتے، پھر اپنے ساتھ ٹی وی دکھانے یا گھمانے پھرانے لے جاتے۔ میرے والد کا معمول تھا۔ پھپھو بھی شام کو آجاتیں رات کا کھانا بنانے میں امی کا ہاتھ بٹاتیں، یوں طارق ہمارے ساتھ ہی رہتا تھا۔ میرے بھائی شرجیل سے اس کی بہت بنتی تھی ، دونوں کلاس فیلو تھے اور دوستی بھی تھی۔ مجھے بھی طارق کو دیکھ کر سکون ملتا تھا۔ بچپن ساتھ گزرا، جب ہم نے ہوش سنبھالا تب بھی اسے اپنے گھر ہی پایا۔ جب تک اسے دیکھ نہ لیتی چین نہ آتا تھا۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس کی محبت کی بیل میرے وجود پر چھاگئی۔ یقین تھا کہ ابو ہمارا رشتہ کردیں گے۔ طارق سے ان کے پیار کی سن گن سارے خاندان کو تھی۔ اسی لئے کسی نے رشتہ نہ بھیجا۔ شاید والد صاحب نے خاندان میں کچھ لوگوں سے تذکرہ بھی کردیا تھا کہ مدیحہ کا رشتہ طارق سے کروں گا۔ حقیقت یہی تھی ابو دل سے یہی چاہتے تھے اور پھپھو بھی لیکن امی کے دل کی کسی کو خبر نہ تھی۔ وہ بظاہر جب سکون کا سمندر نظر آتیں لیکن اپنے اندر طوفان چھپائے ہوتی تھیں۔ جانتی تھی کہ امی کو پھپھو اور ابو کی محبت ایک آنکھ نہیں بھاتی لیکن کبھی اس بارے میں زبان نہ کھولتیں۔ بڑی دھیرج والی اور دنیا دار تھیں۔ میں، پھپھو اور طارق اپنی جگہ مطمئن تھے کیونکہ ہمیں ابو کی طرف سے یقین تھا۔ امی نے کبھی طارق کو گھر آنے سے نہ روکا، نہ ہمیں آپس میں بات چیت سے منع کیا۔ میں نے اور طارق نے گریجویشن مکمل کرلی۔ اب ہمارے خوابوں کے پورا ہونے کا وقت آگیا تھا۔ پھپھو نے سوچا پہلے بھاوج کو راضی کروں تاکہ وہ اپنی اہمیت کو محسوس کریں اور بعد میں رشتہ میں کوئی اڑچن کھڑی نہ کردیں۔ انہوں نے دھیمے انداز میں امی جان سے تذکرہ کیا کہ بچے اب بڑے ہوگئے ہیں، طارق کے لئے مدیحہ بیٹی کا ہاتھ مانگنے کی آرزو دل میں ہے، آپ بھائی جان سے ذکر کریں، ہم اپنے ہیں ہمیشہ اپنے رہیں گے، میرے بیٹے کے سر پر ماموں کا ہاتھ رہے گا تو زندگی میں اس کو کوئی کمی محسوس نہ ہوگی۔ یہ سن کر امی جان کی تیوری پر بل پڑگئے۔ بولیں۔ عقیلہ بیگم، میرا بڑا حوصلہ ہے، برسوں تمہیں برداشت کیا اور کبھی تمہارے بیٹے کے بارے میں ایک لفظ منہ سے نہیں نکالا تاکہ میرے شوہر کا دل تم سے برا نہ ہو لیکن یہ بات ایسی ہے کہ اب چپ رہ نہیں سکتی۔ آج تم نے خود ذکر چھیڑا ہے تو جی چاہتا ہے کہ تمہارے لڑکے کی پول کھول دوں۔ امی کی بات سن کر پھپھو دنگ رہ گئیں، کہا یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں کیسی پول میری تو کچھ سمجھ نہیں آرہا۔ میں بھی اپنے کمرے کی کھڑکی سے ان دونوں کی گفتگو سن رہی تھی۔ دل دھک سے رہ گیا۔ سوچا کہ میری والدہ بڑی سیاست دان ہیں، نہ جانے اب کیسا الزام طارق پر دھرنے والی ہیں۔ اصرار کے باوجود انہوں نے ان باتوں کا انکشاف نہ کیا جن کو وہ طارق کی پول کھلنے کا رنگ دے رہی تھیں۔ پھپھو دل مسوس کر چلی گئیں۔ کچھ دن خاموشی رہی۔ گزر بسر معمول کے مطابق چلتی رہی لیکن والد کی بہن کے دل میں کھٹک تو آگئی تھی، ان کو چین نہ آرہا تھا۔ بالٓاخر ایک روز پھر انہوں نے بات چھیڑی، تب والدہ بھڑک اٹھیں بولیں۔ میرے صبروتحمل سے کام لینے پر بھی تمہیں چین نہیں آیا تو بتائے دیتی ہوں کہ تمہارا بیٹا مدیحہ سے شادی کا امیدوار ہے اور عشق فرمانے کی کوشش کرچکا ہے۔ فریحہ سے یہ سن کر جیسے پھپھو پر بم گرگیا کیا کہہ رہی ہیں بھابی طارق دن رات آپ کے سامنے رہتا ہے آپ کے ہاتھوں پلا بڑھا ہے اس کی ایسی جرأت کیوں کر ہوسکتی ہے کہ گھر کے اندر اپنی بہنوں جیسی ماموں زادیوں سے کوئی گری پڑی یا مذموم حرکت کرے۔ خدارا اگر کوئی غلط فہمی ہے تو کم از کم مجھے تو آگاہ کیجئے۔ امی نے فریحہ کو پہلے ہی سکھا پڑھا دیا تھا۔ وہ تو نادان سی چودہ برس کی بچی تھی، جیسا ماں نے کہا ویسا ہی اس نے پھپھو کے سامنے کہہ دیا کہ طارق بھائی مجھ سے غلط باتیں کرتے تھے کہتے تھے کہ تم سے محبت کرتا ہوں تم سے شادی کروں گا اور نہ جانے کیا کیا جب میں نے امی کو بتانے کی دھمکی دی تو باز آگئے۔ میں اور طارق خوب جانتے تھے یہ امی کی چال ہے، ایسا کوئی معاملہ نہ تھا وہ مجھ کو پسند کرتا تھا۔ اپنی والدہ اور میرے والد کی خواہش کے مطابق سمجھتا تھا کہ ہماری شادی ہوگی، لیکن کبھی مجھ سے اس نے کوئی ایسی ویسی بات نہ کہی تھی، جبکہ ایک گھر میں رہتے ہوئے ہمیں ہزار مواقع ملے تھے لیکن طارق نے نہ کہا کہ مدیحہ میں تم کو پسند کرتا ہوں یا محبت کرتا ہوں۔ امی نے ایسی بات اس لئے کہی کہ بھائی کے دل سے بہن اور بھانجے کا بھرم اور عزت جاتی رہے اور عقیلہ بیگم دوبارہ ایسا خواب دیکھنے کی کوشش نہ کرسکیں یہ ایک طرح کی دھمکی تھی بیوہ نند کو کہ اگر زیادہ توقع کی تو تمہیں اور تمہارے بیٹے کو اوقات یاد دلوادوں گی کہ اب بھی ہمارے ٹکڑوں پر پل رہے ہو۔ خطرے کی گھنٹی بج گئی پھپھو نے سمجھ لیا کہ اس خاموش مگر خطرناک قسم کی بھابی سے ٹکر لینا کوئی آسان کام نہیں۔ انہوں نے فریحہ کی گواہی کو مدنظر رکھتے ہوئے میرا رشتہ لینے کا بھی ارادہ ترک کردیا۔ ایک روز اکیلے میں فریحہ سے میں نے پیار سے پوچھا۔ سچ بتادے کہ طارق نے کیا تم سے کبھی ایسا کچھ کہا تھا جو تم نے پھپھو کے سامنے کہا۔ وہ بولی۔ باجی کبھی طارق بھائی نے مجھے ایسا کچھ نہیں کہا۔ وہ تو مجھ سے بات بھی کم کرتے ہیں یہ امی نے مجھے سکھایا تھا کہ تم نے پھپھو کے سامنے یہ کہنا ہے۔ جو انہوں نے سکھایا وہ کہہ دیا۔ باجی اس میں میرا کیا قصور اگر امی کا کہنا نہ مانتی وہ مجھے مارتیں۔ فریحہ نے صحیح کہا تھا امی اپنا مقصد حاصل کرنے کے لئے کچھ بھی کرسکتی تھیں۔ وہ طارق کو پسند نہیں کرتی تھیں، پھر کیسے داماد کے روپ میں قبول کرلیتیں جو محبت والد صاحب کو اپنے بھانجے سے تھی ویسی ان کے دل میں کیوں کر ڈالی جاسکتی تھی ۔ طارق نے ہماری طرف آنا بند کردیا۔ میں پہلے ہی پھپھو کی طرف نہیں جاتی تھی۔ میں اور طارق ایک دوسرے کی صورت دیکھنے کو ترس گئے۔ میری ماں نے جو تیر پھینکا تھا وہ ایسا نشانے پر لگا کہ طارق اور اس کی ماں سہم کر خاموش ہوبیٹھے۔ انہی دنوں پھپھو کی جٹھانی ان سے ملنے آئیں۔ وہ کبھی کبھار جب شہر آتیں ان سے ملنے بھی آجاتی تھیں۔ پھپھو کو پریشان دیکھ کر پوچھا۔ کیا بات ہے کیسی پریشانی ہے۔ بیٹے کی شادی کے لئے فکرمند ہوں۔ اور تو کوئی پریشانی نہیں ہے کوئی لڑکی دیکھی نہیں ابھی تک تو نہیں دیکھی ہے۔ میری رمشا لے لو اپنی بچی ہے اور اپنا بچہ ہے طارق بھی۔ یہ تو قسمت نے تم کو ہم سے الگ کردیا، ورنہ دلوں میں دوری نہیں ہے، اگر چاہو پھر سے اپنے گھر کی مالکہ بن سکتی ہو۔ بیٹے کو میری بیٹی سے بیاہ دوگی تو اسی وسیلے سے آکر ہمارے پاس آباد ہوجائو گی، تمہارے جیٹھ بھی یہی چاہتے ہیں۔ اگر ارادہ ہو بتادینا۔ ٹھیک ہے بھائی سے مشورہ کرلوں بتادوں گی۔ ابو سے بھی میری ماں نے اشاروں کنایوں میں جتلا دیا کہ وہ طارق کو داماد کے روپ میں دیکھنا نہیں چاہتیں، کھل کر بات نہ کی تھی۔ جب پھپھو نے ابو سے اپنی جٹھانی کے آنے اور رشتہ کی بات بتائی تو والد نے کہا۔ جیسی تمہاری خوشی بہن وہاں بھی تم عزت سے بڑھاپا گزارو گی اور یہاں بھی عمر بھر رہو تو میرے لئے سر آنکھوں پر تمہاری جگہ دل میں ہے۔ چاہتی تو تھی کہ مدیحہ لوں مگر بھابی کی مرضی نہیںہے۔ بات کرکے دیکھ لی ہے ان کی ناراضی سے رشتہ ہوا یا انہوں نے دل سے اس رشتے کو قبول نہ کیا تو بعد میں کچھ مسئلے نہ بن جائیں، آگے بھائی جان آپ سمجھدار ہیں۔ ٹھیک ہے میں بیوی سے بات کرلوں تم پھر اپنی جٹھانی کو ہاں کہنا۔ ابو نے امی کو راضی کرنا چاہا وہ روتے روتے بیہوش ہوگئیں اور بیمار پڑگئیں، والد کو یقین ہوگیا کہ یہ بیل منڈھے چڑھنے نہ دیں گی ۔ زبردستی کی تو بھی میری بہن اور بھانجے کو جوتیوں میں جگہ دے گی۔ اپنی شریک حیات کے مزاج کو وہ خوب سمجھتے تھے۔ یہ سوچ کر بہن کو اجازت دے دی کہ جیٹھ کی بیٹی کو بہو بنانے سے طارق کے مرحوم باپ کا گھر اور بہت کچھ واپس میری بیوہ بہن کو مل جائے گا۔ ادھر بیوی سے زبردستی منوا بھی لیا تو سکون سے بیٹی داماد کو جینے نہ دیں گی، والدہ کی کینہ پروری خاندان میں ضرب المثل تھی۔ پھپھو نے یہ سوچ کر کہ جیٹھ جٹھانی کی نیت نہ بدل جائے فوراً ان سے رابطہ کرکے ہاں کہہ دی۔ طارق کی شادی اس کی تایازاد سے ہوگئی۔ بی اے کے بعد ملازمت کا حصول اس کے لئے ممکن نہ تھا۔ والد داماد بنا کر کاروبار میں شریک کرنا چاہتے تھے اس ارادہ کو امی نے ناکام بنادیا۔ تبھی طارق شادی کے بعد اپنی والدہ کو لے کر آبائی گائوں چلا گیا جہاں اس کے مرحوم باپ کا گھر اس کے لئے موجود تھا۔ اس گھر کو تالا لگا ہوا تھا اور مرحوم کے بھائی اس انتظار میں تھے کہ طارق بالغ ہو تو اس کو اس کے باپ کا گھر واپس کردیں۔ بیٹی کو اس کے نکاح میں دے کر تایا نے بھتیجے کو واپس بلالیا تھا۔ اراضی میں جو اس کا حصہ بنتا تھا دے دیا، طارق کو روزی روٹی کے لئے نوکری کرنے کی بھی ضرورت نہ رہی۔ پھپھو کا مسئلہ اللہ تعالیٰ نے حل کر دیا۔ میرے یا طارق کے دل پر کیا گزری یہ کسی کو نہیں معلوم۔ امی جان نہال تھیں، کہ ازخود بلا ٹل گئی جو عمر بھر کی ذمہ داری بن کر ہمارے گلے پڑگئی تھی۔ انیکسی خالی ہوئی تو انہوں نے پھر سے اس میں کاٹھ کباڑ بھر دیا۔ طارق کی شادی کے روز میں اور ابو بہت افسردہ تھے۔ ہمیں پھپھو سے والہانہ محبت تھی ادھر امی نے اپنی بہن کو سندیسہ بھجوایا کہ آکر رشتے کی بات کرلو جو تم نے کہا، میں نے کردیا اب تمہاری باری ہے مدیحہ کو بہو بنا کر لے جائو۔ خالہ آگئیں ان کا بیٹا بھی ساتھ آیا۔ جس سے وہ مجھے بیاہنے کے خواب دیکھ رہی تھیں۔ وہ سول سروس کا امتحان پاس کرکے آفیسر لگ چکا تھا۔ ہماری خالہ کے بیٹے مسعود میں بھی کوئی کمی نہ تھی۔ لمبے چوڑے خوبصورت اور پھر آفیسر لیکن انہوں نے مجھے دیکھا تو یہ کہہ کر ماں کی آرزو پر پانی پھیر دیا کہ مدیحہ سانولی ہے، مجھے گوری لڑکی کا رشتہ چاہئے فریحہ سے کردیں تو قبول ہے، ورنہ نہیں۔ ابو بولے بڑی تین لڑکیاں چھوڑ کر چوتھی کا کیسے رشتہ کردوں، جبکہ ابھی اس نے میٹرک بھی پاس نہیں کیا ہے۔ بھلا یہ کوئی تک ہے ان لوگوں کی رشتہ لینا ہے تو مدیحہ کا لیں جو لڑکے کی ہم عمر ہے، ورنہ چلتے بنیں۔ اب ان کو بھی ہوش آیا کہ بہن نے کیا روپ دکھادیا۔ عرصے تک رشتے کے لئے کہتی رہیں کہ مدیحہ لوں گی اور اب آخری والی پسند آرہی ہے یہ بات ان کو بھی ناگوار ہوئی۔ خالہ سے کہا اگر مدیحہ نہیں تو فرحانہ لے لو۔ کیا کروں بیٹا نہیں مانتا۔ اس کی رضا ہو تب نا اس نے کہہ دیا ہے کہ فریحہ دیں گی تو رشتہ ہوگا ورنہ نہیں تو پھر تم جانو اور تمہارا بیٹا، فرحانہ کے لئے تو شاید اپنے خاوند کو منا بھی لیتی۔ فریحہ ابھی بہت چھوٹی ہے اور اس کی شادی سے پہلے بڑی بہن کو بیاہنا لازم ہے۔ خالہ کے افسر بیٹے کا دماغ بھی ساتویں آسمان پر تھا۔ وہ نہ مانے خالی ہاتھ خالہ منہ لٹکائے چلی گئیں کہ امی نے کہہ دیا تھا، میری بیٹیاں بیٹیاں ہیں، بھیڑ بکریاں نہیں کہ لڑکے آکر خود چنیں اور لے جائیں، پھر بزرگوں کا کیا کام۔ تمہارا بیٹا آفیسر صحیح لیکن یہ طریقہ نہیں رشتے ناتے جوڑنے کا، اس سے طارق اور اس کی ماں کیا برے تھے۔ لڑکا ہمارے ہاتھوں پلا بڑھا تھا۔ کاروبار کرادیتے، عمر بھر احسان مند رہتا۔ تم لوگوں کی خاطر میں نے اس پر تہمت دھری اور تم نے میرا مان مٹی میں ملا دیا۔ خالہ بیچاری مجبور تھیں، ان کے صاحبزادے پر ہماری اماں کی باتوں کا کوئی اثر نہ ہوا، شاید ان کو کسی اونچے گھرانے کی تلاش تھی، تبھی میرے سانولے رنگ کو بہانہ بنا کر انکار کرگئے۔ میرے دل پہ تو چوٹ لگی ہی تھی، ماں نے بھی چوٹ کھائی لیکن اب پچھتائے کیا ہوت جب چڑیاں چک گئیں کھیت۔ والد نے اپنے ہی خاندان میں مجھ سمیت چھوٹی بیٹیوں کے بھی رشتے کردیئے۔ ان کو ان کے ہم عمر مل گئے۔ میری قسمت میں جوڑ کا رشتہ نہ تھا، ابو کے کزن کا بیٹا جلیل یوں تو صحیح بندہ تھا مگر عمر میں مجھ سے پندرہ برس بڑا تھا۔ پہلی بیوی بیٹے کو جنم دیتے وقت فوت ہوگئی۔ ان کو اس بچے کیلئے ماں چاہئے تھی۔ مجھے جلیل سے محبت نہ ہوسکی، مگر شوہر کے رشتے سے احترام کرتی تھی، البتہ ان کے بچے کو گود میں بھرلیا اور کبھی ماں کی کمی محسوس نہ ہونے دی۔ مجھے احساس تھا کہ کسی بچے کا باپ اس دنیا میں نہ رہے یا ماں نہ رہے تو اس یتیم کی حالت قابل رحم ہوجاتی ہے جس کی مثال طارق تھا، صد شکر میرے والد سنگدل ثابت نہ ہوئے، ورنہ جانے طارق کا کیا حال ہوتا۔ آج تک طارق پر بیتے دن یاد ہیں مجھے، جو میری ماں اس کے ساتھ ڈھکے چھپے انداز سے بے انصافیاں کرتی تھیں اور پھپھو صبر کے گھونٹ بھر کر خاموش ہوجاتی تھیں۔ آج پھپھو تو خوش ہیں مگر امی جان افسردہ رہتی ہیں۔ م۔ راجن پور
null
null
null
null
483
https://www.urduzone.net/khojh-episode-25/
میرے مالک جب منبروں سے سچ کی سپلائی منقطع ہوجائے تو محلوں سے اولیا اللہ نہیں نکلا کرتے، میرے مالک گناہوں میں حصہ ڈال آیا ہوں۔ میں کہہ رہا تھا کہ مجھے آج کل کی نسل کو دیکھ کر حیرانی ہوتی ہے۔ مالک معاف کردے۔ اگر آدمی اپنے نفس کو دیکھ لے تو نہ پھر کسی پہ غصہ آئے نہ ہی کوئی حیرانی ہوتی ہے۔ ساری حیرانی اور غصہ اپنے لئے ہی پورا پڑ جاتا ہے۔ اے اللہ مجھے نیکی کی خماریوں سے بچا۔ بے شک گناہوں پر ندامت اور توبہ کا احساس اس سے کہیں بہتر ہے۔ میرے مالک ساری صلاحیتیں تیری ہی دی ہوئی ہیں۔ یہ ذہانت، یہ حافظہ، یہ طرز بیان، یہ تحریر، یہ لکھنے کی سکت، یہ تخیل کی پرواز، تو جب چاہے واپس لے لے اور میں ایک بدبو دار بوسیدہ ڈھانچہ باقی رہ جاؤں، میں نے غلط استعمال کیا۔ میرے اللہ، مجھے معاف کردے۔ اے اللہ، تو نے حضرت سلیمان کو بہت کچھ دیا اور کہا کہ وہ خرچ کریں تو ان کی مرضی، نہ کریں تو ان کی مرضی، تو ان سے راضی ہے۔ میرے اللہ، مجھ سے بھی بلاوجہ راضی ہوجا۔ تو شہنشاہ ہے، بادشاہ کبھی گن کر نہیں دیتا۔ تو بے نیاز ہے میرے مالک، او اذان کے حق دار اللہ، او وارث و مالک اللہ، ماجد اللہ، جوّاد اللہ، غلطی ہوگئی، شدید ڈرا ہوا ہوں۔ ملک میں اجنبی ہوں، بہک گیا تھا، درگزر فرما دیں۔ اے اللہ، باتونی آدمی ہوں تو چپ لگا دے، باتونی آدمی اگر غلطی سے اپنے آپ سے بات کرلے تو گونگا ہوجائے۔ اے اللہ، تیری قدرت کی تجلی دکھا کہ اس میں محو ہو کر یہ میں ٹوٹے، اے اللہ، ذکر سے خالی دل اور ذکر سے خالی زبان، بولے بھی تو کیا بولے تو مجھے سکھا کہ میں تجھ سے کیسے معافی مانگوں، مجھے الفاظ دے پھر انہی الفاظ کو میں تیری طرف لوٹاؤں پھر تو مجھے معاف کردے۔ یہ تو سخاوت، جو دو کبریائی کی تکمیل ہے اور تیرے سوا کوئی نہیں جو یہ کرسکے، کردے میرے مولا۔ اے اللہ زبان تو حرف اظہار کا ذریعہ ہے بات تو دل کرتا ہے اس پر نظر ہونی چاہیئے اسی پر سے ہٹ گئی معاف کردے۔ معاف کر دے، میرے مولا۔ محبت میں فنا بھی راستے کی ایک منزل ہے نہ سر ہوگا، نہ در ہوگا نہ سنگِ آستاں ہوگا مولانا عبدالرحمن حافظ ۔۔۔ ۔۔۔ عبداللہ کو اس واقعہ کے بعد سے چپ سی لگ گئی، وہ صبح شام سر جھکائے کمپنی کا کام کرتا رہتا اور رات کو جب موقع ملتا تو اپنے اللہ سے کچھ باتیں کرلیتا کہ دل ہلکا ہو۔ اسے بڑی حیرت ہوتی ان لوگوں پر جو کہتے ہم نے ہرممکن کوشش کی مگر فلاں کام نہ ہوا، گاہک نہیں ملا، کمپنی نہیں چلی، جاب نہیں لگی، پیسے نہیں ملے وغیرہ۔ عبداللہ سوچتا کہ جس نے تہجد نہیں پڑھی، اللہ سے رو رو کر نہیں مانگا اسے یہ جملہ کہنا ہی نہیں چاہیئے کہ کتنی غلط بات ہے۔ وہ سوچتا انسان کو سب سے پہلے اپنے رب سے کنیکٹ ہونا چاہیئے، وہ جب کرے گا تو معاملات خودبخود چل پڑیں گے۔ کہتے ہیں گئے وقتوں میں ایک نواب صاحب تھے۔ شدید جاڑے کے موسم میں نکلے چہل قدمی کو تو غلام ساتھ تھا۔ مگر سردی سے بچاؤ کے لئے تن پر کچھ نہ تھا۔ کسی نے روک کر پوچھا تو غلام نے عرض کی کہ کیا نواب صاحب کو نظر نہیں آتا۔ یہ سن کر ایک مجذوب ڈانس کرنے لگا۔ تو جب اللہ کرلیں گے تو کام بھی وہی لیں گے اور اس کام کو کرنے کے وسائل بھی وہی مہیا کریں گے۔ مگر سب اسی کی مرضی ہے، کسی کی لائف بھاگ رہی ہوتی ہے تو کسی کی ساکت و جامد رک جاتی ہے۔ وہ سجدے میں جاتا ہے اور واپس نہیں آتا۔ وہ پے در پے حیرت کے ایسے مراحل سے گزرتا ہے کہ برسوں بول نہیں پاتا۔ اللہ کی صنّاعی کا، اُس کی قدرت کا، اس کی کائنات کا وہ نشہ چڑھتا ہے جو حشر میں جا کے اُترے، بظاہر چل پھر رہا ہوتا ہے، کھا پی رہا ہوتا ہے صرف دو نشانیاں باقی بچتی ہیں دیکھنے والوں کے لئے جو پول کھول دیتی ہیں مگر دیکھنے والے بھی کہاں باقی بچے۔ ایک اُن کی آنکھیں جو ہجوم سے ہٹ کر ری ایکشن دیتی ہیں، جب لوگ ہنس رہے ہوتے ہیں تو وہ رو رہی ہوتی ہیں اور جب جنازے اٹھتے ہیں تو وہ جھوم رہی ہوتی ہیں۔ کسے خبر کون کب کہاں، کس حال میں، کس کے پاس بیٹھا ہے اور دوسری نشانی اُن کی دعا، مگر کبھی کبھار زندگی سہم جاتی ہے، ڈر جاتی ہے، سامنا نہیں کر پاتی، فالج سا لگتا ہے، اس کی مرضی جب تک چاہے رکھے، اس حال میں۔ عبداللہ سوچنے لگا کہ مفتی اور منیجر میں کوئی زیادہ فرق نہیں ہے۔ مفتی بھی اصول و ضوابط کو دیکھتے ہوئے، شریعت کے قانون کے مطابق، نظم و نسق قائم رکھنے کے لئے فتویٰ دیتا ہے۔ اصل میں جنت اور جہنم میں کون جائے گا سوائے اللہ کے کون فیصلہ دے سکتا ہے عبداللہ کو تین شوق تھے۔ کتابیں پڑھنا، پیسہ کمانا اور اپنے آپ سے سوال کرنا کہ نفس کی دیکھ بھال رہے۔ وہ پیسہ کمانا چاہتا تھا کہ اس کے خیال میں آج اُمّت کو سب سے زیادہ ضرورت پیسوں کی تھی۔ عبداللہ کی نہ ختم ہونے والی سوچ کو بِلّو کی بیماری نے توڑا۔ بِلّو کو گردے میں پتھری ہوگئی اور وہ اسپتال میں ایڈمٹ ہوگئی۔ گھر اور بچوں کی ساری ذمہ داری عبداللہ پر آگئی۔ اسے رہ رہ کر خیال آتا کہ بِلّو کتنی ضروری ہے اس کی زندگی میں۔ اس کی ترقی پر لوگ اُسے شاباش دیتے ہیں یہ نہیں سوچتے کہ اگر بِلّو نے تمام تر ذمہ داریاں نہ اُٹھائی ہوتیں تو وہ کب پڑھتا، کب لکھتا، کب کام کرتا، کب اللہ سائیں سے باتیں کرتا۔ عبداللہ جیسے بن پڑا ویسے گھر کے کام کرتا رہا۔ پیزا بنانے سے بچوں کو پک اینڈ ڈراپ دینے تک اور گھر کی صفائی سے لے کر بچوں کے ہوم ورک تک۔ ہمارے معاشرے میں بھی مردوں کو کم ازکم ایک دن مہینے میں خواتین والے کام کرنے چاہئیں۔ اس سے ہمیں ان کے ورک لوڈ کا اندازہ بھی ہوتا ہے اور سارے آئیڈیاز بھی آتے ہیں گھریلو زندگی کو آسان اور آرام دہ بنانے کے۔ بچوّں کے ساتھ وقت گزرا تو عبداللہ نے ان سے بھی کئی باتیں کیں مگر اُس کا رنگ نہ بدلا۔ وہ بچوں سے شام کی واک پہ کہنے لگا کہ بچّو مجھے بڑا شوق رہتا ہے کہ تمہارے ساتھ وقت گزاروں، تمہیں دیکھوں۔ بالکل اِسی طرح اللہ کو بھی شوق رہتا ہے اپنے بندوں سے ملنے کا، اور وہ ایسا نماز میں کرتا ہے۔ دیکھو تم بڑے ہو رہے ہو۔ کپڑوں اور جسم کی پاکیزگی کا خیال رکھا کرو اور نماز میں دل لگاؤ، جس کی نماز اچھّی ہوجاتی ہے اُس کے نیکیوں کے مٹکے بھرے رہتے ہیں۔ نماز میں اللہ بندوں سے چھپ کر ملتا ہے، اگر وہ ظاہر ہو تو اس کی روشنی سے بندہ مرجائے۔ اِس لئے ظاہر نہیں ہوتا۔ مگر اِس کے پاس آتا ضرور ہے اور جو خوب دِل لگا کر نماز پڑھتا ہے تو خُدا کی خوشبو اُس کو معلوم ہوجاتی ہے اور اُردو خوب دِل لگا کر پڑھو، ہماری قوم اُردو سے کٹ گئی تو سارا دینی سرمایہ دھرا پڑا رہ جائے گا۔ چلو اب واپس چلتے ہیں مغرب ہونے کو ہے۔ عبداللہ رات کو سونے لیٹا تو اسے اپنے بیٹے کی اسکول ٹیچر کی ای میل ملی۔ مجھے آپ کی بیوی کی علالت کا سن کر بہت دکھ ہوا۔ میں روز صبح آپ کے گھر کے سامنے سے ہی گزر کر اسکول جاتی ہوں۔ اگر آپ کے لئے کوئی آسانی کر سکوں تو مجھے خوشی ہوگی۔ میں روز آپ کے بیٹے کو سکول لے جایا کروں گی اور واپس چھوڑ بھی دوں گی۔ مجھے اندازہ ہے آپ اس وقت کتنے پریشان ہوں گے۔ میں آپ لوگوں کے لئے کل رات کا کھانا بنا رہی ہوں۔ مجھے معلوم ہے کہ آپ پورک اور گوشت نہیں کھا سکتے اگر حلال نہ ہو۔ میں آپ کے لئے پاستا اور سبزیوں کا سالن بنا رہی ہوں اور کچھ چاکلیٹ چپ کوکینز۔ اُمید ہے آپ برا نہ منائیں گے اور قبول کریں گے۔ اسی طرح سے شاید میں آپ کے مشکل وقت میں کوئی کام آ سکوں۔ اگر کوئی اور کام ہو تو پلیز بتا دیں۔ میرے پاس کھانوں کی کئی ایک تراکیب موجود ہیں اور میں کئی روز تک آپ لوگوں کے لئے کھانا بنا سکتی ہوں۔ میں کل اسکول سے واپسی پر آپ کے بیٹے اور کھانا ڈراپ کردوں گی۔ میں گھر کے اندر نہیں آؤں گی مجھے پتہ ہے آپ کمپیوٹر پر مصروف ہوں گے اور میں آپ کا وقت ضائع نہیں کرنا چاہتی۔ دعاگو ہوں کہ آپ کی بیگم کو خدا جلد صحت یاب کرے۔ مسز آرنلڈ ۔ اگلے روز کھانا بھی آگیا اور ایک اور پڑوسی گھر پر آکر سارے بچوں کے کپڑے لے گئی اور دھو کر استری کرکے، تہہ کرکے، واپس بچوں کے کمرے میں رکھ گئیں۔ عبداللہ سوچتا رہ گیا کہ یا اللہ کیسے لوگ ہیں، کاش وہ مسز آرنلڈ کی ای میل ہر پاکستانی اسکول کے نوٹس بورڈ پر لگا سکتا کہ استاد جب تک بچوں کو ان کے ماں باپ کی طرح نہ سوچیں وہ اچھے استاد بن ہی نہیں سکتے۔ عبداللہ نے خوش خوش ٹیچر کی ای میل فیس بک پر شیئر کی اور کچھ ہی منٹوں میں اسے کفار کی محبت اور امریکہ کے رنگ میں رنگ جانے کے طعنے ملنے شروع ہوگئے۔ ایک موصوف نے تو خاتون استاد کی نامحرم ای میل تک پر فتویٰ دے دیا۔ جنہوں نے کبھی کتاب کی شکل بھی نہ دیکھی ہو وہ بھی فتویٰ دینے لگ جاتے ہیں۔ عبداللہ کا بس چلے تو وہ پاکستان میں ہر اُس فتوے دینے والے پر سال قید کی سزا لگا دے جو صاحب علم نے نہ دیا ہو۔ عبداللہ نے بوجھل دل کے ساتھ قلم اُٹھایا اور امریکہ کے مشہور ٹی وی چینل کی ویب سائٹ کے لئے ایک چھوٹا سا مضمون لکھ دیا۔ اسے پتہ تھا کہ لوگوں کے طنز اور باتیں اسے برداشت کرنی پڑیں گی مگر ضمیر کا بوجھ تو ہلکا ہوگا۔ نفس اور ضمیر انسان کے دو اُستاد ہوتے ہیں اور وہ ایک وقت میں کسی ایک ہی کی کلاس میں بیٹھ سکتا ہے۔ مضمون کا عنوان تھا، میں مسلمان ہوں، آپکی کیا خدمت کرسکتا ہوں میں پچھلے سالوں سے مسلمان ہوں، میں یہاں سوائے اپنے کسی کی بھی نمائندگی نہیں کر رہا۔ میں ایک مسلمان ملک پاکستان میں پلا بڑھا اور آج کل امریکہ میں اپنی کمپنی بنانے کی کوششوں میں لگا ہوا ہوں۔ جب لوگ مجھے دیکھتے ہیں وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں سوچتے ہیں۔ میں دنیا کو صرف اتنا بتانا چاہتا ہوں کہ وقت کے ساتھ ساتھ میں اس عام فہم درجہ بندی سے کہیں زیادہ پیچیدہ ہوچکا ہوں۔ اسلام نے پیدائش پر مجھے مذہبی شناخت دی، ملک اور خاندان نے پچھلے سالوں میں رسم و رواج دیئے اور امریکہ نے ماسٹرز اور پی ایچ ڈی کے دوران مجھے سکھایا کہ مجھے دنیا سے کیا چاہیئے اور دنیا کو مجھ سے کیا چاہیئے۔ میں نے انگریزی امریکی ڈراموں کو دیکھ کر سیکھی اور داڑھی امریکہ میں آنے کے بعد رکھی کہ انسانوں کے اس جنگل میں کوئی تو شناخت باقی رہے۔ میں آج جہاں بھی ہوں اس میں میرے معاشرے کا، میری پڑھائی کا، صحبت کا، ملنے والے مواقع کا، زندگی میں فیصلوں کے انتخاب کا اور تقدیر کا بڑا ہاتھ ہے۔ میں نے اسلام بڑے غیر روایتی طریقے سے سیکھا۔ ملکوں ملکوں کے سفر کے دوران غیر مسلموں نے جو سوالات پوچھے ان کے جوابات کی کھوج مجھے اسلام سے قریب لے آئی۔ یقین جانئے میں آج زیادہ مسلمان اس لئے نہیں ہوں کہ میں پاکستان میں پیدا ہوا بلکہ میں زیادہ مسلمان اس لئے ہوں کہ میں امریکہ میں پڑھا۔ میں آج یہ مضمون کسی چیز، کسی بات کا دفاع کرنے کے لئے نہیں لکھ رہا۔ ہم مسلمان اسلام سے اتنا دور ہوگئے ہیں کہ ہمیں خود بھی نہیں پتہ کہ ہم چلے کہاں سے تھے۔ ہم نے اپنی اقدار، اپنے خواب، اپنے اخلاق، اپنے اصول، پسند و نا پسند، جینے کا سلیقہ، مرنے کی ریت، رہبری کے اطوار، تقلید کی مثال سب بھلا دیئے۔ کوئی تعجب نہیں کہ آج دنیا ہمیں تنقید، تعصب اور ناانصافی کی نظر سے دیکھتی ہے۔ اپنی اس حالت کے ہم خود ذمہ دار ہیں۔ ہم ہی نے دنیا کو اپنی حرکتوں سے اس بات کی اجازت دی ہے کہ یہ رویہ روا رکھا جائے۔ صرف اپنے غیر مسلم دوستوں کے لئے ایک نصیحت ہے اگر آپ اسلام کو پڑھنا چاہتے ہیں تو اسلام کو سمجھیں، مسلمانوں کو نہیں۔ مجھے تو اب بُرا بھی نہیں لگتا جب ایئرپورٹ پر سینکڑوں لوگوں کے درمیان میں سے مجھے مزید چیکنگ کے لئے علیحدہ کردیا جاتا ہے۔ مجھے عجیب نہیں لگتا کہ الٹے سیدھے سوالوں کا نشانہ میں ہی کیوں بنتا ہوں اور مجھے دُکھ بھی نہیں ہوتا کہ چبھتے ہوئے طنز اور آرپار ہوتی نظروں کا مسکن میں ہی کیوں بنا مجھے معلوم ہے مجھے ایک لمبا سفر کرنا ہے اپنی کھوئی ہوئی شناخت واپس لانے کے لئے، اپنے وجود کی گواہی کے لئے، دنیا کو یہ باور کروانے کے لئے کہ میں کس طرح اسے فائدہ پہنچا سکتا ہوں، اور دنیا مسلمانوں کے بغیر کیا رہ جائے گی۔ اُمتوں کا مزاج صدیوں میں بنتا ہے، اتنی جلدی کیا ہے، مجھے وقت چاہیئے۔ میں اس پر لگا ہوا ہوں۔ طوفان یا سیلاب، بارش یا آگ، سردی یا گرمی، ورک ڈے یا چھٹی، دن یا رات، میں لگا ہوا ہوں اور میں جلد یا بدیر آخر اپنی منزل کو پاہی لوں گا اور پھر میں اچھا بھی لگوں گا دنیا کے سوالات کا جواب دیتے۔ تھوڑا صبر کریں، کچھ مہلت دیں، ایک دوسرا موقع، کہ ہم سوچ سکیں کہ کیا کر بیٹھے ہیں، کہاں پر غلطی ہوئی، کہاں پر بہکائے گئے، کہاں راہزنوں نے لوٹا، کہاں چلے گئے، کہاں لوٹ جانا تھا، کیسے بہتری لائیں، جس دن ہم یہ سیکھ گئے اس دن ایک بہترین دنیا ہوگی، میرے لئے، آپ کے لئے، ہم سب کے لئے۔ میں اُس دنیا کا خواب دیکھتا ہوں جہاں مسلمانوں کو یہ نہ بتانا پڑے کہ ہم کون ہیں کہاں سے آئے ہیں کیا کرتے ہیں اور ہم آپ کی مدد کیسے کریں ٹونی اور مارتھا عبداللہ کی باتوں کو بہت سنجیدگی سے نوٹ کرتے، انہیں بڑی حیرانی ہوتی کہ اچھا خاصا دنیا دار بندہ اچھا بھلا کام کرتے کرتے یہ کِن سوالوں اور جوابوں کی دنیا میں نکل جاتا ہے۔ یہ آخر اپنی زندگی کو کیوں خود ہی مشکل بنا رہا ہے لائف کو اِنجوائے کرے، سب چلتا ہے۔ آج جمعہ کا دن تھا، دونوں نے فرمائش کی کہ ہمیں بھی مسجد لے چلو، ہم بھی تو دیکھیں کہ کون ہے جو تمہاری نیندیں حرام رکھتا ہے۔ عبداللہ نے سوچا اچھی بات ہے، نماز ہدایت و توفیق کی دعا کا نام ہے۔ چلیں گے تو کچھ اچھا ہی سیکھ کر آئیں گے۔ وہ ڈرتا ڈرتا انہیں مسجد لے گیا کہ کوئی کسی قسم کا جملہ نہ کس دے۔ آج اِمام صاحب نے بڑا شاندار بیان دیا ہے کہ قرآن میں اِنسان کی تعریف کیا ہے۔ ٹونی نے عبداللہ اور مارتھا نے بِلّو کے ساتھ پہلی صف میں نماز ادا کی۔ ٹونی کو خطبہ بہت پسند آیا وہ کئی عرصے تک عبداللہ سے کہتا رہا غصّہ نہیں کرنا چاہیئے۔ قرآن نے اِس سے منع کیا ہے۔ عبداللہ سوچتا رہا کہ مجھ سے زیادہ خطبہ تو اِس نے یاد کرلیا ہے۔ مسجد سے نکلتے وقت عبداللہ کی نظر دروازے کے پاس بیٹھے ایک شخص پر پڑی، وہ کونے میں بہت اُداس بیٹھا ہوا تھا اور بار بار نظر اُٹھا کے آسمان کو دیکھتا تھا۔ عبداللہ کو لوگوں میں پتہ نہیں کیا نظر آجاتا تھا، وہ کہا کرتا تھا مظلومیت دِل تک محدود نہیں رہتی، آدمی کا پورا وجود مظلومیت کی گواہی دیتا ہے۔ عبداللہ اُس کی طرف جانے کے لئے بڑھا تو پاس کھڑے شخص نے ٹوکا کہ یہ آدمی سال جیل میں کاٹ کر آیا ہے۔ لہٰذا مسلم کمیونٹی نے اِس کا سوشل بائیکاٹ کر رکھا ہے تم بھی وقت برباد نہ کرو۔ جاری ہے
null
null
null
null
484
https://www.urduzone.net/haar-part-2/
پستول کا رخ طفیل اور شعیب کی جانب تھا۔ لڑکی کا انداز البتہ جارحانہ نہیں تھا۔ اس کی بجائے اس کے چہرے سے خوف اور معصومیت ٹپک رہی تھی۔ پستول پکڑنے کا انداز بھی غیر ماہرانہ تھا اور ہاتھ بری طرح کانپ رہا تھا۔ وہ چند لمحے ان دونوں کو گھورتی رہی پھر غصیلی آواز میں بولی۔ خبردار کسی نے اندر آنے کی کوشش کی تو گولی مار دوں گی۔ شعیب اس نوخیز، ناتجربہ کار لڑکی کے ہاتھ میں پستول دیکھ کر مسکرا دیا۔ اس نے نرم لہجے میں سمجھاتے ہوئے کہا۔ پستول رکھ دو لڑکی اور کسی قسم کا خوف محسوس نہ کرو۔ ہم پولیس کے لوگ ہیں اور قتل کی تفتیش کے سلسلے میں تمہیں زحمت دی ہے۔ قتل لڑکی کا پستول والا ہاتھ حیرت اور خوف کے ملے جلے جذبات تلے خودبخود نیچے گرگیا اور تب ہی بے اختیار اس کے منہ سے نکلا۔ کیا وہ قتل کردی گئی کون شعیب نے پوچھا۔ وہی جس کی چیخ کی آواز کچھ دیر قبل سنائی دی تھی۔ کچھ دوسری قسم کی آوازیں بھی سنی تھیں آپ نے طفیل نے سوال کیا۔ کس قسم کی لڑکی نے پوچھا۔ لیکن ٹھہرو آج کل نقلی پولیس والے شہر میں بہت پھرتے ہیں۔ کیا پتا تم بھی مجرموں کے ساتھی ہو اور قانون سے بچنے کے لئے سوانگ بھر رکھا ہو اس لئے پہلے تم دونوں مجھے اپنے شناختی کارڈ دکھائو۔ تیز معلوم ہوتی ہے۔ طفیل نے دل میں سوچا اور شناختی کارڈ نکال کر اس کی طرف بڑھا دیا۔ لڑکی مطمئن ہوگئی اور پستول پیٹی کوٹ میں اڑس لیا۔ آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں میں شعیب نے کہا۔ زرمینہ اشفاق مس زرمینہ امید ہے آپ ہم سے تعاون کریں گی۔ ہم کچھ معلومات حاصل کرنا چاہتے ہیں، اگر گھر میں کوئی اور فرد ہو تو براہ کرم اسے بلا لیں۔ گھر میں کوئی نہیں ہے۔ والدین ایک عزیز کی میت میں شرکت کی غرض سے گئے ہوئے ہیں۔ میں ہوم اکنامکس کی طالبہ ہوں اور آج کل امتحان ہورہے ہیں۔ پولیس کو بیان دے کر میں کسی مصیبت میں نہیں پڑنا چاہتی۔ وہ بولی۔ آپ کو کوئی پریشانی نہیں ہوگی۔ شعیب نے کہا۔ ہم اپنے بھرپور تعاون کا یقین دلاتے ہیں۔ دراصل قتل کا معاملہ ہے اور آپ کا بیان نہایت ضروری ہے۔ تاہم آپ کو تمام پریشانیوں اور الجھنوں سے دور رکھنے کی کوشش کی جائے گی۔ دونوں کی نظریں لڑکی کے چہرے پر جمی ہوئی تھیں اور آثار سے وہ آمادہ نظر آرہی تھی۔ وہ بولی۔ پوچھئے آپ کیا معلوم کرنا چاہتے ہیں سردست آپ نے جو کچھ دیکھا یا سنا ہو، بلاکم و کاست بیان کردیں۔ طفیل نے کہا۔ زرمینہ نے ایک گہری سانس لی آنکھوں میں خوف کے آثار نمایاں ہوئے اور پھر وہ بتانے لگی تھی۔ امتحان کی تیاری کے سلسلے میں آج کل میں رات گئے تک جاگتی ہوں، چنانچہ حسب معمول اسٹڈی میں مصروف تھی کہ یکایک ایک بج کر بیس منٹ پر ایک عورت کی چیخ کی آواز سنی۔ کچھ دیر بعد بھاگتے ہوئے قدموں کی آوازیں بھی آئیں۔ اس سے زیادہ مجھے کچھ نہیں معلوم آپ اس آواز کو پہچانتی ہیں طفیل نے پوچھا۔ جی نہیں دراصل وہ کربناک چیخ ایک ہی بار سنائی دی تھی اور دور سے سنی ہوئی کسی آواز کے بارے میں یقین سے کچھ کہنا مشکل ہے۔ آپ نے کسی کو بھاگتے ہوئے دیکھا طفیل نے پوچھا جبکہ شعیب کو طفیل کا یہ سوال بالکل بچکانہ اور بے تکا محسوس ہوا تھا۔ میں باہر ہی نہیں نکلی تھی، خطرناک حالات میں دروازہ کیسے کھول سکتی تھی۔ آپ فاخر کے بارے میں کچھ جانتی ہیں شعیب نے کہا۔ جی نہیں کبھی دیکھا تو اسے ضرور ہوگا کبھی نہیں، البتہ یہ سنا ہے کہ وہ اچھا آدمی نہیں ہے۔ جبکہ پڑوسی ایک دوسرے کے بارے میں بہت کچھ جانتے ہیں بلکہ اپنے حالات سے کچھ زیادہ ہمسائیوں کے حالات سے باخبر ہوتے ہیں۔ شعیب کو انسپکٹر طفیل کا یہ سوال غیر شائستہ سا لگا۔ یہی وجہ تھی کہ اس بار لڑکی نے بھی کچھ ناگواری سے جواب دیا۔ ہم ایسے لوگ نہیں ہیں۔ میرا یہ مطلب نہیں تھا۔ طفیل کو اپنے الفاظ کی چبھن کا احساس ہوا۔ ممکن ہے کہ آپ کے گھر والے کسی حد تک اسے جانتے ہوں ہمارے گھر میں اسے کوئی نہیں جانتا۔ زرمینہ نے جواب دیا۔ اس اپارٹمنٹ میں چونکہ کوئی عورت نہیں ہے، اس لئے تعلقات استوار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، اس کے علاوہ لوگ اس سے خائف ہیں۔ وہ یہاں پراسرار آدمی کے نام سے مشہور ہے۔ آپ کے والدین کی واپسی کب ہوگی کل زرمینہ نے جواب دیا۔ اگر ضرورت محسوس ہوئی تو ایک بار آپ کے والدین کو بھی زحمت دیں گے۔ اس بار شعیب نے کہا۔ اس تعاون کا شکریہ اب آپ دروازہ بند کرسکتی ہیں۔ زرمینہ نے فوراً دروازہ بند کرلیا۔ شعیب بولا۔ اس لڑکی کے بیان سے جواد مرزا کے بیان کی تائید ہوتی ہے لیکن کوئی خاص بات معلوم نہ ہوسکی۔ ابھی ایک گھر باقی ہے۔ طفیل نے کہا اور پھر وہ تیسرے اور آخری اپارٹمنٹ کی گھنٹی بجانے لگا۔ دروازہ کھلنے میں حسب معمول یہاں بھی تاخیر ہوئی لیکن زیادہ نہیں۔ تیسری یا چوتھی بیل پر دروازہ کھل گیا اور ایک قبول صورت اور پرکشش نوجوان جس کی عمر پچیس تیس کے درمیان رہی ہوگی، آنکھیں ملتا ہوا برآمد ہوا۔ دوسرے لوگوں کے مقابلے میں وہ خوشحال نظر نہیں آرہا تھا۔ اس کی داڑھی بڑھی ہوئی تھی، سر کے بال بے ترتیب اور ناتراشیدہ تھے۔ اس کا لباس بھی زیادہ قیمتی نہیں تھا، تاہم چہرے سے سنجیدگی اور ذہانت ہویدا تھی۔ وہ دوسروں سے کچھ الگ ہی معلوم ہورہا تھا۔ پولیس کو دروازے پر دیکھ کر اس نے کسی قسم کی بوکھلاہٹ یا پریشانی کا اظہار نہیں کیا اور خشک لہجے میں پوچھا۔ فرمایئے میں آپ کی کیا خدمت کرسکتا ہوں ہمیں افسوس ہے کہ ہماری آمد سے آپ کے آرام میں خلل واقع ہوا۔ شعیب نے منکسرالمزاجی کا مظاہرہ کیا۔ میں آپ کا نام پوچھ سکتا ہوں عابد نومی اس نے بتایا۔ خوب غالباً آپ شاعر یا ادیب ہیں۔ یہ نام میں کہیں پڑھ چکا ہوں۔ میں شاعر ہوں۔ اس کے لہجے میں ناگواری تھی۔ لیکن یہ معلوم کرنے کے لئے آپ دن میں تشریف لا سکتے تھے۔ یہ آدھی رات کے وقت ہم ایک اہم مسئلے پر گفتگو کرنا چاہتے ہیں۔ طفیل نے اس کا جملہ کاٹ دیا۔ اوہ وہ عجیب سے انداز میں ہنسا۔ کیا میری کسی نظم پر عریانی کا لیبل لگ گیا ہے نہیں ہم ایک قتل کے سلسلے میں سوال کرنا چاہتے ہیں۔ قتل میں سمجھا نہیں عابد نومی بوکھلا گیا۔ گھبرایئے نہیں۔ شعیب نے اسے تسلی دی۔ اس فلور کے ایک اپارٹمنٹ میں ایک نوجوان لڑکی کو قتل کردیا گیا ہے۔ نوجوان لڑکی قتل وہ اس طرح چونکا جیسے اسے ہزار واٹ کا کرنٹ لگا دیا گیا ہو۔ کیا آپ اس لڑکی کو جانتے ہیں طفیل نے سوال کیا۔ جی جی بالکل نہیں میں کسی ایسی لڑکی سے واقف نہیں ہوں جس کے قتل ہونے کے امکانات ہوتے۔ مگر آپ چونکے اس طرح تھے جیسے اس سے آپ کے قریبی تعلقات ہوں شعیب نے کہا۔ دراصل قتل کا نام ہی خوف و دہشت کا مظہر ہے۔ آدمی خواہ مخواہ خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ ذرا سوچ کر بتایئے۔ شعیب نے اس کی جانب غور سے دیکھتے ہوئے کہا۔ کوئی گہرے برائون بالوں والی لڑکی فاخر کے فلیٹ میں آتی رہی ہے۔ کیا گزشتہ روز اسے اندر داخل ہوتے دیکھا گیا ہے نہیں عابد نومی نے مختصر سا جواب دیا۔ سوچ کر بتایئے شعیب نے پوچھا۔ میں اپنے دیوان کی تکمیل کے سلسلے میں آج صبح سے شام تک گھر میں موجود رہا ہوں۔ اس لئے باہر کی سرگرمیوں کا مجھے کوئی علم نہیں۔ اگر آپ گھر میں رہے ہیں تو ایک اور دو بجے کے درمیان یقیناً کسی عورت کی چیخ کی آواز سنی ہوگی میں جب کام میں مصروف ہوتا ہوں تو دنیا و مافیہا سے بے خبر ہوجاتا ہوں۔ کیا مطلب شعیب نے تعجب خیز لہجے میں کہا۔ آپ نے چیخ کی آواز سنی ہی نہیں نہیں عابد نومی نے پرسکون لہجے میں کہا۔ اور غالباً اس کی وجہ یہ رہی ہوگی کہ میں فاخر کے اپارٹمنٹ سے دور ہوں۔ ہوں طفیل نے پرسوچ انداز میں ہنکاری بھری اور ہونٹ سکیڑے پھر مستفسر ہوا۔ راہداری میں دوڑتے ہوئے قدموں کی آواز کے بارے میں آپ کا کیا خیال ہے، جبکہ آپ کا اپارٹمنٹ زینے کے قریب ہے آخر آپ اس امر پر کیوں بضد ہیں کہ میں نے ضرور کسی کی آواز سنی تھی یا مجھے سننا چاہئے تھی عابد نومی نے ناگواری سے کہا۔ میں فنکار ہوں اور ایک فنکار جب اپنے فن میں ڈوب جاتا ہے تو اسے کسی بات کی خبر نہیں رہتی۔ طفیل اور شعیب الجھے ہوئے انداز میں ایک دوسرے کی طرف دیکھنے لگے۔ عابد نومی دیدہ و دانستہ غلط بیانی سے کام لے رہا تھا اور دو افراد کے بیان کو جھٹلانے کی کوشش کررہا تھا۔ انسپکٹر طفیل کی آنکھوں میں تشکیک کے سائے لہرانے لگے اور وہ اس کی طرف کچھ مشکوک نظروں سے گھورتا رہا اور پھر اسی انداز میں مستفسر ہوا۔ عابد صاحب ہمیں آپ کا تفصیلی بیان لینا ہوگا۔ لیکن جناب اس کے لہجے میں کسی قدر گھبراہٹ عود کر آئی تھی۔ میں ایک ادبی شخصیت ہوں۔ قتل و غارت سے کبھی میرا کوئی واسطہ نہیں رہا۔ غالباً میرے کسی مخالف نے شرارت کی ہے۔ یہ کوئی پبلشر بھی ہوسکتا ہے۔ کون پبلشر وہ میری رائلٹی دینے سے انکار کررہا ہے اور میں نے اسے مقدمہ دائر کرنے کی دھمکی دی تھی۔ جی نہیں طفیل نے کہا۔ آپ کے پبلشر نے آپ کے خلاف کوئی سازش نہیں کی ہے۔ نہ ہی ہمیں اس معاملے سے کوئی دلچسپی ہے۔ ہم صرف اتنا چاہتے ہیں کہ قتل کے سلسلے میں اگر آپ کو کسی قسم کی معلومات ہوں تو ہمیں آگاہ کیجئے۔ مسٹر فاخر سے آپ ضرور واقف ہوں گے ہاں لیکن کچھ زیادہ نہیں، سرراہ کبھی سلام دعا ہوجاتی ہے۔ آپ اس کے کسی دوست کو جانتے ہیں عرض کرچکا ہوں، میں اس سے پوری طرح واقف نہیں ہوں۔ گویا آپ اپنے اس مؤقف پر قائم ہیں کہ آپ نے نسوانی چیخ اور بھاری قدموں کی آوازیں نہیں سنیں، جبکہ اپنے بیان کے مطابق آپ جاگ رہے تھے میں نے جو کہا ہے، اس میں کسی قسم کا شک و شبہ نہیں ہونا چاہئے۔ آخر ایک اہم معاملے میں غلط بیانی کی مجھے کیا ضرورت ہے یقیناً شعیب نے تائید کی۔ لیکن اپنے ذہن کو ذرا ٹٹولئے ممکن ہے ذہن کے کسی گوشے میں وہ آوازیں محفوظ ہوں۔ ہم دوبارہ فاخر کے اپارٹمنٹ میں جارہے ہیں، تقریباً نصف گھنٹے بعد واپسی ہوگی شاید اس وقت تک آپ کو کچھ یاد آجائے۔ اس کی بات سن کر عابد نومی حیران و فکرمند کھڑا رہ گیا جبکہ شعیب، طفیل کا بازو تھام کر فاخر کے اپارٹمنٹ کی طرف چل دیا۔ کیا حماقت ہے۔ طفیل بولا۔ وہ موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے فرار ہوجائے گا۔ کبھی عقل سے بھی کام لیا کرو۔ شعیب نے بیزاری سے کہا۔ اگر وہ کسی طور ملوث ہے تو اتنا احمق نہیں ہے کہ خود کو مشکوک ثابت کرتے ہوئے راہ فرار اختیار کرے۔ درحقیقت میں اسے تنہائی میں ٹھنڈے دل و دماغ کے ساتھ سوچنے کا موقع دینا چاہتا ہوں تاکہ وہ محسوس کرے کہ اس کے لئے کیا بہتر ہے اور کیا غیر مناسب بہرطور وہ اس ضمن میں کچھ نہ کچھ جانتا ضرور ہے۔ وہ دونوں اندر داخل ہوئے تو کمرے کے ماحول میں کوئی تبدیلی واقع نہیں ہوئی تھی۔ شعیب بستر کا جائزہ لینے لگا جس پر سلوٹیں پڑی ہوئی تھیں اور یہ اس بات کی علامت تھی کہ وہ کافی دیر سے بے تکلفانہ انداز میں زیراستعمال رہا ہے۔ اچانک اسے تکیئے پر چند بال چپکے ہوئے نظر آئے۔ شعیب جھک کر بہت غور سے دیکھنے لگا۔ ان کا رنگ گہرا برائون تھا اور ان کی تعداد چار تھی۔ اس کے چہرے پر مسرت کی لہر دوڑ گئی۔ وہ پرجوش لہجے میں بولا۔ طفیل یہ دیکھو۔ طفیل فوراً اس کی طرف متوجہ ہوا اور بغور بالوں کو دیکھنے لگا۔ پھر خیال انگیز لہجے میں کہا۔ اسی لڑکی کے معلوم ہوتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے ان کے درمیان خاصی کشمکش رہی ہے جس کے سبب سر کے چند بال ٹوٹ گئے۔ بستر کی سلوٹیں بھی یہی ظاہر کرتی ہیں۔ ہاں ان کے درمیان کوئی کشاکش رہی ہے۔ موتیوں کے ہار کا حصول یا کچھ اور اس نے معنی خیز انداز میں کہا۔ تمہاری بات درست ہے۔ طفیل نے کہا۔ ان کے درمیان یقیناً انڈر اسٹینڈنگ تھی۔ اب کیا ارادے ہیں شعیب نے پوچھا۔ پولیس ہیڈ کوارٹر کو اس واردات کی اطلاع دینا ضروری ہے تاکہ فاخر کی گرفتاری کے لئے اہم علاقوں کی ناکہ بندی کردی جائے اور برائون بالوں والی لڑکی کی لاش بھی تلاش کی جائے۔ یہ کام آغاز میں ہی ہونا چاہئے تھا۔ کچھ زیادہ تاخیر نہیں ہوئی۔ طفیل نے کہا۔ جواد مرزا کے بیان کے بعد حقیقت حال سامنے آئی ہے۔ ہاں شعیب نے سوچتے ہوئے کہا۔ سنو اگر روزی کے لواحقین کا پتا چل جائے تو فاخر کے بارے میں معلومات مہیا ہوسکتی ہیں۔ ممکن ہے وہ ان کے گھر آتا جاتا ہو اور وہ لوگ اس کے بارے میں کچھ جانتے ہوں۔ ضرور جانتے ہوں گے۔ طفیل بولا۔ لیکن لواحقین کا سراغ کیونکر ملے۔ اگر اس کا موجودہ پتا معلوم ہوتا تو کوئی قباحت نہیں تھی۔ میرا خیال ہے عابد نومی، روزی کے بارے میں بہت کچھ جانتا ہے۔ اگر کسی طرح اس کی زبان کھلوائی جائے تو کامیابی کی امید ہے۔ یہ کیا مشکل ہے، ابھی لو۔ طفیل، عابد نومی کے دروازے کی طرف بڑھا۔ ٹھہرو شعیب نے ہاتھ اٹھا کر کہا۔ میرا مطلب تشدد نہیں ہے بلکہ یہ معاملہ تم مجھ پر چھوڑ دو۔ میرا طریقۂ کار مختلف ہے۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں۔ طفیل نے کہا۔ آئو اس کے اپارٹمنٹ میں چلتے ہیں۔ ہیڈ کوارٹر فون بھی وہیں سے کرلوں گا۔ ذرا ٹھہرو شعیب برائون بالوں کو بہت غور سے دیکھ رہا تھا۔ اس کی آنکھوں سے تجسس و حیرت مترشح تھی۔ کوئی خاص بات طفیل نے اس کے قریب پہنچ کر پوچھا۔ بہت ہی خاص شعیب رازدارانہ لہجے میں بولا۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ بال مقتولہ کے سر سے نہیں گرے۔ پھر کہاں سے آئے طفیل نے حیرت سے پوچھا۔ اور تم نے کس بنیاد پر یہ رائے قائم کی ہے اس بنیاد پر کہ بالوں کی جڑیں نہیں ہیں۔ بالوں کی جڑیں میں سمجھا نہیں بات صاف ہے۔ شعیب بولا۔ میرے اکھڑے ہوئے بالوں کی جڑ ضرور ہوگی۔ یوں سمجھ لو بال کے نچلے سرے پر جو کھوپڑی میں پیوست ہوتا ہے، ایک گومڑی سی نظر آتی ہے نیز جڑ کا وہ حصہ کسی قدر موٹا اور سفیدی مائل ہوتا ہے۔ تم ٹرائی کرسکتے ہو۔ طفیل نے فوراً سر سے چند بال توڑے۔ شعیب کا نظریہ درست ثابت ہوا۔ ٹھیک ہے۔ وہ بولا۔ تم اس سے کیا ثابت کرنا چاہتے ہو دو باتیں سمجھ میں آئی ہیں۔ شعیب نے وضاحت کی۔ پہلی یہ کہ تفتیش کا رخ موڑنے کی خاطر برائون بال کہیں اور سے حاصل کرکے بستر پر ڈال دیئے گئے۔ اس کے علاوہ یہ بھی امکان ہے کہ روزی کے بال قدرتی نہ ہوں۔ تمہارا مطلب ہے وہ برائون بالوں کی وگ استعمال کرتی تھی طفیل نے کہا۔ یقیناً اور اس نظریئے کو تقویت اس بات سے پہنچتی ہے کہ ہمارے یہاں عورتوں کے بال اتنے گہرے برائون نہیں ہوتے۔ ایکسیلنٹ طفیل تعریف کے انداز میں بولا۔ بہت اچھا پوائنٹ تلاش کیا ہے تم نے لیکن یہ پہلو کیس پر کس طرح اثرانداز ہوسکتا ہے سنو شعیب پرزور لہجے میں بولا۔ اگر یہ بات طے کرلی جائے اور میرے خیال میں حقیقت بھی یہی ہے کہ روزی وگ استعمال کرتی تھی تو اس کے لواحقین کی تلاش بہت آسان ہوجائے گی۔ کس طرح طفیل نے سوال کیا۔ اس طرح کہ ہمارے یہاں وگ کا رواج اتنا عام نہیں ہے لہٰذا شہر میں وگ فروخت کرنے والی زیادہ سے زیادہ چار پانچ دکانیں ہوں گی اور چونکہ قلیل ڈیمانڈ والا آئٹم ہے اس لئے دکاندار ان گاہکوں کی تعداد انگلیوں پر گن سکتا ہے جنہوں نے سال چھ مہینے کے دوران وگ خریدی ہوگی۔ ممکن ہے ان کے پتے اور ٹیلیفون نمبر بھی موجود ہوں، کیونکہ اکثر و بیشتر وگ پسند کے مطابق آرڈر پر تیار کی جاتی ہیں اور دکاندار و گاہک کے درمیان مختلف ذرائع سے کافی دنوں تک رابطہ قائم رہتا ہے۔ شہر میں صرف ایک بازار ایسا ہے جہاں جدید آرائشی اشیا فروخت ہوتی ہیں۔ اگر ہم ان دکانوں سے رابطہ قائم کریں تو روزی کی رہائش گاہ کا پتا چلنے کی قوی امید ہے۔ طفیل نے تائید کی اور برائون بال ایک کاغذ میں لپیٹ کر احتیاط سے جیب میں رکھ لئے۔ کچھ دیر بعد وہ پھر عابد نومی کے دروازے پر تھے۔ شعیب نے کال بیل کا بٹن دبایا۔ پہلی ہی گھنٹی پر دروازہ کھل گیا۔ اس وقت سورج طلوع ہورہا تھا اور دھوپ لمحہ بہ لمحہ پھیلتی جارہی تھی۔ طفیل نے غور سے دیکھا۔ عابد نومی کے چہرے پر کسی قسم کے تاثرات نہیں تھے۔ اس نے پوچھا۔ آپ کے یہاں فون تو ہوگا جی ہاں اگر ضرورت ہے تو اندر تشریف لے آیئے۔ عابد دروازے سے ہٹ گیا۔ وہ دونوں اندر داخل ہوئے اور ایک ایسے اجاڑ کمرے میں پہنچ گئے جہاں بے شمار گرد آلود کتابوں، ایک میز اور چند کرسیوں کے سوا کوئی اور قابل ذکر چیز نہیں تھی۔ آپ خاصا علمی ذوق رکھتے ہیں۔ شعیب نے پرستائش لہجے میں کہا۔ یونہی سا وہ انکساری سے بولا۔ آپ تشریف رکھئے، میں ناشتے کا بندوبست کرتا ہوں۔ اس کی ضرورت نہیں۔ طفیل نے فوراً کہا۔ ہم لوگ قریبی ریسٹورنٹ میں ناشتہ کرنے کا پروگرام بنا چکے ہیں۔ میں صرف فون کرنا چاہوں گا۔ ضرور ضرور عابد نومی اس کے پاس فون اٹھا لایا۔ آپ فون کیجئے، میں اتنے میں ناشتہ لاتا ہوں۔ دیکھئے انکار نہ کیجئے گا۔ پھر جواب کا انتظار کئے بغیر وہ کمرے سے نکل گیا۔ طفیل نے پہلے اپنے پولیس اسٹیشن فون کیا اور ڈیوٹی آفیسر کو چند سپاہیوں کے ساتھ جائے واردات پر پہنچنے کی ہدایت کی۔ بعدازاں ہیڈ کوارٹر کا نمبر ملایا اور واردات کی تفصیلی رپورٹ دیتے ہوئے فنگر پرنٹس کے عملے کو بھیجنے کی درخواست کی۔ طفیل فارغ ہوا تو عابد نومی ناشتہ لے آیا جو مکھن، ٹوسٹ، ابلے ہوئے انڈوں اور چائے پر مشتمل تھا۔ انہوں نے لاکھ انکار کیا لیکن عابد بضد رہا اور اس کے خلوص نے انہیں ناشتہ کرنے پر مجبور کردیا۔ آپ کی بیگم شاید کہیں گئی ہوئی ہیں شعیب نے پوچھا۔ بیگم وہ گڑبڑا گیا۔ میں اپنی بیوی کو طلاق دے چکا ہوں۔ اوہ شعیب نے اس موضوع کو وہیں ختم کردیا۔ ناشتے سے فارغ ہوکر انہوں نے سگریٹ جلائی۔ پھر طفیل، عابد نومی سے مخاطب ہوا۔ ہمیں یقین ہے کہ اس وقفے میں آپ کو قتل سے متعلق کچھ واقعات ضرور یاد آگئے ہوں گے۔ عابد نومی نے فوری طور پر جواب نہیں دیا، تاہم کچھ دیر بعد دھیمے اور شرمسار لہجے میں بولا۔ انسپکٹر میں غلط بیانی کی معافی چاہتا ہوں۔ مجھے کچھ زیادہ معلوم نہیں لیکن جتنا جانتا ہوں، گوش گزار کئے دیتا ہوں۔ گویا آپ نے نسوانی چیخ سنی تھی جی ہاں اور بھاگتے ہوئے قدموں کی دھمک بھی بہت واضح طور پر پھر آپ صحیح واقعات بیان کرنے سے کیوں گریزاں تھے دیکھئے جناب عابد نومی بولا۔ ہماری پولیس اور عدالتوں کا طریقہ کار اس قدر پیچیدہ، طویل المیعاد اور بیزار کن ہوتا ہے کہ ایک شریف آدمی پولیس اور کورٹ کا نام سنتے ہی پریشان ہوجاتا ہے اور میں لکھنے پڑھنے والا ایک آزاد منش انسان ہوں، عدالتی کارروائی کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ محض میری بات نہیں ہے، عام لوگ بھی مقدمات سے گھبراتے ہیں اور شہادت دینے سے احتراز کرتے ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مجرم شک کا فائدہ اٹھا کر بری ہوجاتے ہیں یا کم سے کم سزا پاتے ہیں۔ میں ایسے کئی سماج دشمن عناصر کو جانتا ہوں جو قتل جیسے سنگین جرائم میں ملوث تھے۔ لیکن مناسب شہادتیں نہ ملنے کی بنا پر بری کردیئے گئے۔ آپ نے درست فرمایا۔ شعیب نے تائید کی۔ تاہم موجودہ دور میں عدالتی طریقۂ کار کا ازسرنو جائزہ لیا جارہا ہے اور اسے سہل اور مختصر بنانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ اگر ایسا ہوجائے تو لوگ صحیح معنوں میں عدالتوں سے انصاف حاصل کرسکیں گے۔ عابد نومی نے کہا۔ جج صاحبان کو بھی فیصلہ کرنے میں دشواری نہیں ہوگی۔ یقیناً طفیل اصل موضوع کی طرف آتا ہوا بولا۔ بہرطور قتل کے سلسلے میں اگر آپ مزید کچھ جانتے ہوں تو براہ کرم بیان کردیں۔ مجھے اسی قدر معلوم تھا۔ عابد نے جواب دیا۔ طفیل اور شعیب اٹھ کھڑے ہوئے۔ اگرچہ عابد نومی نے دوٹوک باتیں کی تھیں لیکن شعیب اس کی جانب سے اب بھی مطمئن نہیں تھا۔ اس کی چھٹی حس کہہ رہی تھی کہ وہ قتل کی واردات میں کسی نہ کسی طور ملوث ہے یا جو بیان کیا ہے، اس سے زیادہ جانتا ہے۔ وہ دونوں اس کے اپارٹمنٹ سے باہر آئے تو ڈیوٹی آفیسر دو سپاہیوں کے ساتھ نیچے پہنچ چکا تھا۔ کچھ دیر بعد فنگر پرنٹس کا عملہ بھی آگیا اور نشانات محفوظ کئے جانے لگے۔ لاش چونکہ موجود نہیں تھی جس کے پوسٹ مارٹم کا سوال پیدا ہوتا، چنانچہ خون کا نمونہ لیبارٹری روانہ کردیا گیا۔ گیارہ بجے تک تمام کارروائی مکمل ہوگئی۔ فنگر پرنٹس کا عملہ اپنا کام ختم کرکے واپس جا چکا تھا۔ طفیل نے وہاں ایک سپاہی کو متعین کیا اور باقی اسٹاف کو واپس پولیس اسٹیشن بھیج دیا۔ جس سپاہی کی ڈیوٹی لگائی گئی تھی، اسے یہ ہدایت بھی کردی گئی تھی کہ عابد نومی پر نظر رکھے۔ ٭ ٭ ٭ شہر کے اس جدید شاپنگ مال میں وگ فروخت کرنے والی پانچ دکانیں تھیں۔ چاروں دکانوں کو چیک کیا جا چکا تھا اور وہاں سے کوئی قابل ذکر بات معلوم نہیں ہوئی۔ مالکان کا بیان تھا کہ گزشتہ ڈھائی برس کے دوران کوئی ڈارک برائون وگ فروخت نہیں کی گئی اور اس کی ایک ٹھوس وجہ یہ بتائی گئی کہ چونکہ انہی برسوں میں کاسمیٹکس مارکیٹ میں جو نئی غیر ملکی ڈائی متعارف کروائی گئی، وہ اسی کلر میں تھی، یعنی ڈارک برائون لہٰذا جب خواتین کی میک اَپ کٹ میں یہ ڈائی ہر وقت موجود رہے گی تو وہ اتنی بھاری اور مصنوعی وگ کا سہارا لینے کی ضرورت کیوں محسوس کریں گی۔ اسی کلر سے اپنے اصل بالوں کو ڈائی کیا اور کام ہوگیا۔ اب پانچویں اور آخری دکان باقی رہ گئی تھی۔ یہ ایک بڑا ڈپارٹمنٹل اسٹور تھا۔ یہاں ضرورت کی ہر چیز موجود تھی۔ اسٹور میں اس وقت چند گاہک خریداری کررہے تھے۔ طفیل اور شعیب ایک جانب کھڑے ہوکر انتظار کرنے لگے۔ دفعتاً شعیب کی نظر ایک شوکیس پر پڑی جس میں جدید وضع کی چند وگیں سجی ہوئی تھیں اور ان میں ایک سنہری تھی۔ شعیب سوچنے لگا یہاں کامیابی کی امید ہے۔ بھیڑ چھٹی تو ایک سیلزمین ان کی جانب متوجہ ہوا۔ فرمایئے کیا پیش کیا جائے ہم گاہک نہیں ہیں۔ طفیل نے جواب دیا۔ اسٹور کے مالک سے ملنا چاہتے ہیں۔ وہ سیلزمین ان کی رہنمائی کرتا ہوا ایک ایئرکنڈیشن کمرے میں لے گیا۔ یہاں اسٹور کا پختہ عمر پروپرائٹر ایک بڑی میز کے پیچھے بیٹھا حساب کی کتابیں چیک کرنے میں مصروف تھا۔ پولیس انسپکٹر کو دیکھ کر وہ چونکا پھر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولا۔ میرے لائق کوئی خدمت اگر زحمت نہ ہو تو ہم آپ سے کچھ معلومات حاصل کرنا چاہیں گے۔ کس سلسلے میں ایک عورت قتل کردی گئی ہے۔ قتل اسٹور کا مالک اچھل پڑا۔ اس کے چہرے پر پریشانی کے آثار نمایاں ہوگئے تھے۔ گھبرایئے نہیں۔ شعیب نے حوصلہ دیا۔ آپ کا واردات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ ماضی قریب میں آپ کی دکان سے ڈارک برائون بالوں کی کوئی وگ فروخت کی گئی ہے ڈارک برائون وگ وہ سوچتے ہوئے بولا۔ جی ہاں کوئی چار ماہ قبل ایک ڈارک برائون وگ کا آرڈر ملا تھا۔ حیرت ہے آپ کو یہ بات ابھی تک یاد ہے، جبکہ اس رنگ کی آپ اب تک درجنوں وگیں فروخت کرچکے ہوں گے شعیب نے مسکرا کر کہا۔ اسٹور مالک جس نے اپنا نام احسان خان بتایا تھا، پورے اعتماد سے بولا۔ آپ کی بات بجا ہے۔ یہ مجھے اسی لئے یاد رہی کہ یہ ایک بہت کم چلنے والا کلر تھا اور اسی لئے اس رنگ کی وگ کو صرف آرڈر پر ہی تیار کیا جاتا تھا۔ باقی کلرز کی وگیں جو زیادہ چلنے والے آئٹم میں شمار ہوتی ہیں، ہم انہیں کافی تعداد میں بنا کر شوکیس میں سجا لیا کرتے تھے، مگر یہ وگ صرف آرڈر پر ہی تیار ہوتی تھی۔ یہ وگ صرف دو ہی بنائی گئی تھیں۔ ایک کسٹمر لے گیا تھا، دوسری ہنوز پڑی ہے۔ آپ کا گاہک کوئی مرد تھا یا عورت عورت ایک نوجوان لڑکی نام بتا سکتے ہیں نام تو یاد نہیں، البتہ آرڈر میں تمام تفصیلات درج ہوں گی۔ وہ بھی میں یقین سے نہیں کہہ سکتا اگرچہ ہم اپنے کسٹمر کا پرانا ریکارڈ رکھتے ہیں۔ اگر زحمت نہ ہو تو اس سلسلے میں ہماری مدد کریں۔ بہت بہتر اس نے خندہ پیشانی سے جواب دیا پھر کلرک کو طلب کرکے سابقہ آرڈر بل لانے کی ہدایت کی۔ اگر اس لڑکی کی تصویر آپ کو دکھائی جائے تو پہچان لیں گے شعیب نے پوچھا۔ ضرور پہچان لوں گا۔ دراصل وہ وگ کے حصول کے سلسلے میں کافی دنوں تک یہاں آتی رہی تھی۔ شعیب نے روزی کی تصویر اس کے سامنے رکھ دی۔ تصویر پر نظر پڑتے ہی اس نے شناخت کرلیا۔ بولا۔ جی جناب سوفیصد وہی لڑکی ہے۔ فرق صرف یہ ہے کہ اس وقت سر پر اس کے سیاہ بال تھے اور تصویر میں ڈارک برائون وگ لگا رکھی ہے۔ میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ وہی وگ ہے جو اس نے ہماری دکان سے خریدی تھی۔ اسی اثنا میں کلرک آرڈر بک لے آیا۔ اسٹور کے مالک نے معمولی سی کوشش کے بعد مطلوبہ صفحہ تلاش کرلیا اور عینک درست کرتے ہوئے بولا۔ اس کا نام شیلا تھا۔ احسان نے جیسے دھماکا کیا۔ طفیل اور شعیب دونوں ہی بیک وقت چونکے۔ شیلا جی ہاں پتا اور ٹیلیفون نمبر بھی درج ہے۔ آپ کو مغالطہ تو نہیں ہوا کہیں غلطی سے دوسرا صفحہ نہ کھول بیٹھے ہوں ہرگز نہیں جناب میں نے درست پیج کھولا ہے۔ اسٹور کا مالک احسان خان پورے وثوق سے بولا۔ کیونکہ یہ خاتون ہماری مستقل گاہک ہیں۔ آپ کو یاد ہے وہ آخری بار کب دکان پر آئی تھیں شعیب نے دریافت کیا۔ زیادہ عرصہ نہیں گزرا شاید پندرہ بیس دنوں کی بات ہے۔ انہوں نے سنگِ مرمر کے چار گلدان خریدے تھے۔ تعجب ہے۔ طفیل کے لہجے میں بے پناہ حیرت تھی۔ خیر آپ شیلا کا پتا نوٹ کرا دیں۔ کوئی فائدہ نہیں۔ شعیب نے کہا۔ ظاہر ہے اس آرڈر بک میں چار ماہ قبل کی رہائشگاہ کا پتا درج ہوگا، جبکہ سیٹھ ہارون کے مطابق روزی ایک ہفتہ قبل ہی مکان تبدیل کرچکی تھی۔ میرے پاس موجودہ ایڈریس بھی ہے۔ اسٹور کا مالک بھرپور تعاون کررہا تھا۔ اس نے چند گلدان خریدے تھے اور ہم اکثر اوقات اپنے کرم فرمائوں کے گھروں پر ڈلیوری پہنچاتے ہیں چنانچہ ڈلیوری آرڈر پر موجودہ پتا ضرور درج ہوگا۔ یہ کہہ کر اس نے ایک فائل کھولی اور پتا نوٹ کرانے لگا۔ طفیل نے پتا نوٹ کرلیا پھر انہوں نے اسٹور کے مالک کا شکریہ ادا کیا اور باہر آگئے۔ یہاں تو سارا معاملہ ہی الٹ گیا۔ شعیب تردد آمیز لہجے میں بولا۔ یہ روزی اچانک شیلا کا روپ اختیار کرگئی۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ روزی اور شیلا دو مختلف شخصیتیں ہیں یا ایک ہی عورت کے دو نام ہیں صیغہ ماضی میں اس کا ذکر کرو۔ طفیل نے تصحیح کی۔ وہ شیلا تھی یا روزی بہرحال اب قتل ہوچکی ہے۔ بات صرف اتنی ہے کہ ان دو میں سے اس کا اصلی نام کون سا ہے مسئلہ یہ ہے کہ اسے فرضی نام رکھنے کی ضرورت کیوں پیش آئی۔ شعیب نے کہا۔ ممکن ہے محض موتیوں کا ہار چرانے کی غرض سے اس نے سیٹھ ہارون کے ہاں ملازمت اختیار کی۔ اس مقصد کے تحت نام تبدیل کرنا ضروری تھا۔ گویا روزی اس کا فرضی نام تھا ہاں بلکہ اپنی شخصیت کو تبدیل کرنے کے لئے اس نے وگ بھی استعمال کی۔ تمہارا استدلال ٹھیک ہے۔ شعیب نے کہا۔ لیکن یہ عقدہ اسی وقت ہی کھل سکتا ہے جب ہم مقتولہ کے والدین، اس کے شوہر یا دیگر لواحقین سے ملیں۔ اس میں کیا قباحت ہے۔ طفیل بولا۔ پتا ہمارے پاس موجود ہے، ابھی چلتے ہیں۔ ٭ ٭ ٭ مہران سوسائٹی کا ایک دیدہ زیب بنگلہ جس کی شان و شوکت سے ظاہر ہوتا تھا کہ مکین اونچے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ مین گیٹ بند تھا البتہ کال بیل کا بٹن نظر آرہا تھا۔ شعیب نے گھنٹی بجائی اور کچھ دیر بعد قدموں کی چاپ سنائی دی اور جب دروازہ کھلا تو وہ دونوں یوں اچھل پڑے گویا دہکتے ہوئے انگاروں پر پیر پڑگیا ہو۔ جو کچھ وہ اپنی پھیلی ہوئی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے، وہ ان کے لئے ناقابل یقین تھا۔ شعیب باربار پلکیں جھپکا رہا تھا۔ طفیل اس سے زیادہ حیران و ششدر تھا لیکن یہ سوفیصد اٹل حقیقت تھی کہ دروازہ کھولنے والی عورت خود روزی یا شیلا تھی۔ فرق وہی تھا جو اسٹور کے مالک نے بیان کیا تھا۔ اس وقت اس کے سر پر برائون بالوں کی وگ نہیں تھی بلکہ بال قدرتی اور سیاہ تھے۔ آپ کس سے ملنا چاہتے ہیں وہ پولیس انسپکٹر کو دیکھ کر چونک گئی۔ ہم شیلا کو زحمت دینا چاہیں گے۔ شعیب نے بغور اس کا جائزہ لیا۔ شیلا وہ حیران ہوگئی۔ اس نام کی کوئی عورت یہاں نہیں رہتی۔ شعیب اور طفیل ہونقوں کی طرح ایک دوسرے کی جانب دیکھنے لگے۔ پھر شعیب بولا۔ پھر ہمیں روزی صاحبہ سے ملوا دیجئے۔ آپ غلط جگہ پر آگئے ہیں۔ لڑکی نے قدرے ناگواری سے کہا۔ اس نام کی عورت کو ہم قطعی نہیں جانتے۔ آپ کی تعریف میں شائستہ عمران ہوں۔ عمران صاحب آپ کے شعیب نے استفساریہ انداز میں دانستہ اپنا جملہ ادھورا چھوڑا۔ میرے ہزبینڈ ہیں۔ وہ گھر پر موجود ہیں ہاں مگر یہ سب آپ کس لئے پوچھ رہے ہیں ہمیں ایک لڑکی کی تلاش ہے، جس کی شکل ہوبہو آپ سے ملتی ہے۔ مجھ سے ملتی ہے میں آپ کا مطلب نہیں سمجھی ہمیں روزی یا شیلا کی تلاش ہے جسے گزشتہ شب قتل کردیا گیا ہے۔ قتل کردیا گیا ہے اس کی آنکھوں میں دہشت تیر گئی۔ تعجب ہے ایک ایسی لڑکی کو جو قتل کردی گئی ہے، آپ ڈھونڈتے پھر رہے ہیں ممکن ہے ہمیں مغالطہ ہوا ہو۔ یقیناً مغالطہ ہوا ہے۔ خیر آپ کو مجھ سے کیا کام ہے ہم آپ سے چند سوالات کرنا چاہیں گے۔ کس سلسلے میں قتل کے سلسلے میں ہمارا کسی ایسی لڑکی سے کوئی واسطہ نہیں جو شیلا یا روزی ہو اور قتل بھی کردی گئی ہو۔ اس نے ٹھوس لہجے میں کہا۔ ہمیں آپ کی بات سے اتفاق ہے، لیکن چند اہم سوالات ضروری ہیں۔ معاف کیجئے گا، میں آپ کے کسی سوال کا جواب دینے کے لئے تیار نہیں ہوں، تاوقتیکہ اپنے قانونی مشیر کو طلب نہ کرلوں۔ اسی وقت ایک منحنی سا شخص اندر سے برآمد ہوا۔ وہ پچپن ساٹھ برس کا ایک گھاگ اور تجربہ کار بوڑھا تھا۔ اس کی آنکھیں گول، چھوٹی اور بہت چمکیلی تھیں۔ پولیس کو دیکھ کر وہ لمحے بھر کے لئے جھجکا اور استفہامیہ نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگا۔ آپ مسٹر عمران ہیں شعیب نے پوچھا۔ جی مگر آپ کی آمد کا مقصد ہم ایک قتل کی تفتیش کے سلسلے میں آئے ہیں۔ ہم آپ کو قاتل نظر آتے ہیں وہ طنزیہ لہجے میں بولا۔ ہمارا یہ مقصد نہیں ہے بلکہ ہم آپ کا مقصد ہے قاتل ہمارے گھر چھپا بیٹھا ہے اس کا موڈ بدستور آف تھا۔ آپ سمجھ نہیں رہے۔ شعیب نے کہا۔ ہم چند سوالات کریں گے، زیادہ وقت نہیں لیں گے۔ کس قسم کے سوالات آپ کے یہاں ملاقات کا کوئی کمرہ ضرور ہوگا طفیل نے الٹا سوال جڑ دیا۔ زبردستی گھسنا چاہتے ہیں آپ لوگ ہم درخواست کررہے ہیں۔ اگر آپ کی درخواست رد کردی جائے میرے خیال میں آپ کو ایسا نہیں کرنا چاہئے۔ شعیب نے کہا۔ پولیس سے تعاون ایک اچھے شہری کی ذمہ داری ہے۔ بوڑھے نے چند لمحے غور کیا، پھر بے بسی کے انداز میں بولا۔ آجائیں مگر ہم زیادہ وقت نہیں دے سکیں گے۔ اس وقت ہم کہیں جارہے ہیں۔ طفیل اور شعیب ڈرائنگ روم میں پہنچے تو بوڑھے عمران کی بات درست ثابت ہوئی۔ دو اٹیچی کیس اور کچھ سامان پیک کیا ہوا رکھا تھا۔ شعیب کو اس جانب متوجہ پا کر عمران بولا۔ میں نے کہا نا ہم لوگ چند روز کے لئے دوسرے شہر جارہے ہیں۔ میری والدہ کی حالت نازک ہے۔ آپ نے سیٹھ ہارون کی ملازمت کیوں ترک کردی شعیب نے اچانک شائستہ عمران سے سوال کیا۔ کون سیٹھ ہارون وہ چونکی۔ میں نیشنل ٹریڈنگ کمپنی کی بات کررہا ہوں۔ میرا اس کمپنی سے کبھی کوئی تعلق نہیں رہا۔ وہ بولی۔ میں نے آج تک کسی کی ملازمت نہیں کی۔ ہم خوشحال لوگ ہیں۔ بڑی خوشی کی بات ہے۔ شعیب مسکرایا۔ ویسے آپ کے بال کچھ زیادہ پرکشش نہیں ہیں اور چونکہ آپ خوشحال ہیں، اس لئے وگ ضرور استعمال کرتی ہوں گی۔ کیا مطلب وہ تیز لہجے میں بولی۔ میرا مطلب ہے سیاہ یا ڈارک برائون وگ دیکھئے مسٹر اس بار عمران نے دخل اندازی کی۔ آپ کو میری بیوی کے ذاتی معاملات سے دلچسپی نہیں ہونا چاہئے۔ سیٹھ ہارون کی سیکرٹری ڈارک برائون وگ استعمال کرتی تھی۔ شعیب نے اس کی تنبیہ کو نظرانداز کرکے معنی خیز انداز میں کہا۔ ضرور استعمال کرتی ہوگی۔ عمران نے جواب دیا۔ عورتیں عموماً وگ پہنتی ہیں۔ اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں ہونی چاہئے۔ اس کا نام روزی تھا۔ شعیب پھر اس کی بات نظرانداز کرکے بولا۔ وہ آپ کی ہم شکل تھی اور موتیوں کے ہار کی چوری میں ملوث ہے۔ ہم اس سلسلے میں کچھ نہیں جانتے۔ شائستہ نے بات ختم کرنے کی کوشش کی۔ فاخر کو تو ضرور جانتی ہوں گی آپ جاری ہے
null
null
null
null
485
https://www.urduzone.net/khojh-episode-24/
عبداللہ کال ختم ہونے پر کافی دیر سوچتا رہا کہ وہ کیا کرے کہ ذکر کے لئے وقت نکل سکے۔ ڈیڑھ سال سے وہ پہلے ہی ذکر پہ تھا لاالہ الا اللہ اور کوئی ایسا ٹائم نہ نکال سکا کہ پابندی سے لگا تار کرسکے۔ جب وقت ملا کرلیا۔ جب مصروف ہوا تو کم کردیا۔ عبداللہ کے ہاتھ میں اس کی پسند کی کتاب لگ جائے یا لیپ ٹاپ ہاتھ میں آجائے پھر تو وہ کھانا کھانا تک بھول جاتا تھا۔ عبداللہ نے ہمیشہ کی طرح اس بار بھی بِلو سے مشورہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ بِلّو بِلّو عبداللہ دہراتا ہوا نچلے فلور کی جانب لپکا۔ عبداللہ خیر تو ہے آج بِلّو کی یاد کیسے آ گئی۔ بِلّو نے ہنستے ہوئے پھبتی کسی۔ بِلّو یار تنگ نہ کر، میں پریشان ہوں۔ مفتی صاحب سے بات ہوئی وہ کہتے ہیں ذکر کرو، میرے پاس ٹائم ہی نہیں ہے۔ وہ کہتے ہیں لکھو، اب بتا، مجھے کہاں لکھنا آتا ہے، میں کمپیوٹر سائنس کے علاوہ لکھوں بھی تو کیا لکھوں اور کیوں لکھوں۔ مفتی صاحب کو تو مجھ سے شاید حسنِ ظن ہوگیا ہے۔ لکھوں گا تو لوگ جوتے ماریں گے اور رہی سہی عزت بھی جاتی رہے گی۔ تو بتا، کوئی حل ہے کیا بِلّو کچھ دیر کو خاموش ہوگئی، عبداللہ کو ویسے ہی پریشانی تھی، اس نے بِلّو کو زور سے چٹکی بھرلی، بس پھر کیا تھا پورے گھر میں عبداللہ آگے آگے اور بِلّو پیپسی کی خالی بوتل لئے پیچھے پیچھے، دمے کا مریض عبداللہ کتنا بھاگتا، بِلّو نے جلد ہی جالیا۔ خیر جب ہنس ہنس کے دونوں کا حال برا ہوگیا تو بلو نے کہا۔ عبداللہ، بچوں کو دیکھا کرو، ماں انہیں مارتی ہے مگر وہ ماں کے پاس ہی جاتے ہیں کہ وہ ہی بچا سکتی ہے۔ اللہ سے ڈرتے ہو تو بھاگو مت، اسی کے پاس جا کے بیٹھو۔ اللہ کو اللہ سے مانگ لو۔ ذکر یہ تھوڑی ہے کہ کونے میں بیٹھ کے مالا جپ لی۔ ہر سیکنڈ ہر وقت اللہ سامنے رہے۔ جو بھی کرو نیت اس کو راضی کرنے کی ہو۔ اسی کی رضا آنکھوں کے سامنے ہو۔ وہ موجود ہے اس بات کا گمان دل میں رہے، وہ دیکھ رہا ہے، اس بات کا یقین ہو، وہ تمہیں چاہتا ہے اس بات کو پختہ کرلو۔ عبداللہ لا الہ الا اللہ کا ذکر ملا ہے نا لا الہ الا اللہ تو اُمید کا کاروان ہے۔ اس سے ناامید نہیں ہوتے۔ تم بس یہ کرو۔ تمہاری ذات چلتی پھرتی ذکر بن جائے گی۔ جس نے تم کو دیکھا اسے بھی ذکر یاد آجائے گا۔ جس کو چھوؤ گے وہ بھی تمہارے ذکر میں شامل ہو جائے گا۔ چلتے پھرتے ذاکر بن جاؤ گے۔ عبداللہ، اتنا نہ سوچا کرو بس جتنا ہوسکے وہ کرلیا کرو۔ بِلّو کے الفاظ عبداللہ کے دل پر بجلی کی طرح طرح گر رہے تھے وہ سوچ رہا تھا کہ اس نے تو اپنی زندگی کمپیوٹر پروگرامنگ کی نذر کردی اور ایک یہ کھلنڈری بِلّو ہے جو چلتا پھرتا ذکر بنی گھوم رہی ہے۔ بِلّو نے بات جاری رکھی۔ دیکھ عبداللہ، مجھے نہیں پتہ تجھے لکھنا آتا ہے کہ نہیں مگر آدمی جس کی مانے سو پوری مانے، مفتی صاحب نے کہا ہے کہ لکھ تو لکھ، زیادہ نہ سوچ، کاغذ قلم اُٹھا اور شروع ہو جا۔ جس نے کہا ہے وہ جانے اور ان کا رب کہ کیا لکھوانا ہے کس کے لئے اور کیوں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ کسی کے لئے بھی نہ ہو، کوئی بھی نہ پڑھے۔ یہ سب کچھ صرف تیرے ہی لئے ہو کہ تو لکھے تو اپنا آپ نظر آئے، آئینے کی طرح اور معلوم ہو کہ ابھی کتنا دور چلنا ہے۔ لکھ لے عبداللہ، جس خدا کے لئے لکھے گا وہ تنہا نہیں چھوڑے گا۔ بِلّو ہنستی مسکراتی اچھلتی کودتی چلی گئی مگر عبداللہ کی آنکھوں سے جو برسات لگی وہ تو رکی ہی نہیں۔ ۔۔۔ ۔۔۔ آج عبداللہ کی پھر سے بورڈ میٹنگ تھی۔ تمام لوگ کمپنی کی پروگریس سے مطمئن تھے۔ باتوں باتوں میں ایک ڈائریکٹر نے جو خود ایک بڑی ملٹی نیشنل میں وائس پریذیڈنٹ تھے، نے پوچھا ڈاکٹر عبداللہ، آپ نے جو وہ دہشتگردوں سے بچاؤ کے لئے سافٹ ویئر بنائے تھے ان کا کیا ایک تو شاید رسک میں کام آتا ہے اور دوسرا میں۔ جی وہ تو بس ویسے کہ ویسے ہی پڑے ہیں۔ اپنے ملک میں کوئی لیتا نہیں اور یہاں بیچنے کے لئے تو امریکی شہریت اور ٹاپ سیکورٹی کلیئرنس چاہیئے ہوتی ہے وہ میرے پاس ہے نہیں۔ مگر عبداللہ، تمہیں پتہ ہے کہ اسے استعمال کرکے تم کتنی انسانی جانیں بچا سکتے ہو کیا تم نے کبھی سوچا کہ تم اس کو مفت میں اقوام متحدہ کو تحفہ دے دو۔ عبداللہ نے کہا، مگر سافٹ ویئر انسٹال کرنے کے لئے مشین چاہئیے ہوتی ہے۔ ٹرینڈ اسٹاف، سفر کے اخراجات، روزمرہ کی دیکھ بھال۔ ہاں بھئی، یہ سب تو آپریشنل اخراجات ہیں یہ تو اقوام متحدہ دے گا ہی، میں تو صرف سافٹ ویئر لائسنس کی بات کر رہا ہوں۔ جی بالکل اگر ایسا ہوجائے تو مجھے کوئی اعتراض نہیں ہے مگر سب سے پہلے اس کا استعمال میرے ملک میں ہو۔ ٹھیک ہے میں بات کرتا ہوں۔ ایڈوائزر نے جواب دیا اور میٹنگ ختم۔ عبداللہ کمپنی کے کام سے نیو یارک جا رہا تھا۔ ہوائی جہاز میں ساتھ بیٹھے مسافر سے بات چیت شروع ہوئی۔ مسافر نے خوشی خوشی بتایا کہ وہ ہے یعنی کسی خدا پہ یقین نہیں رکھتا۔ عبداللہ نے کہا کہ وہ اللہ پر بالکل یقین رکھتا ہے۔ تھوڑی دیر میں اِدھر اُدھر کی باتوں کے بعد مسافر نے ایک سوال داغا۔ کیا تم نے کبھی اللہ کو دیکھا ہے عبداللہ نے لمبی سانس لی، آنکھیں جانے کب نم ہوگئیں۔ اس نے بڑی ٹھہری آواز میں جواب دیا۔ نہیں، اب تک نہیں، مگر ایک دن آئے گا جب میں دیکھوں گا اور تم بھی دیکھو گے، فرق صرف اتنا ہوگا کہ مجھے معلوم ہوگا کہ یہ میرا اللہ ہے جس کو میں ساری زندگی یاد کرتا رہا۔ جس سے ڈرتا رہا، جس کی رضا کے لئے پریشان رہا، جس کی خوشی کے لئے روتا رہا، جس سے گناہوں کی معافی مانگتا رہا، جس کو خط لکھتا رہا، جس سے باتیں کرتا رہا، تم بتاؤ، تم اس دن کیا کرو گے مسافر نے حتی الامکان کوشش کی کہ کوئی جواب بن پڑے مگر یا تو وہ شاید جواب دینا نہیں چاہتا تھا یا عبداللہ کے لہجے کی گرج یا تڑپ تھی کہ اسکی زبان گونگی ہوگئی اور جہاز ایئرپورٹ پر لینڈ کرگیا۔ ۔۔۔ ۔۔۔ عبداللہ کو نیویارک کبھی بھی پسند نہ آیا تھا۔ بھاگتی دوڑتی زندگی، نفسا نفسی کا عالم، وال اسٹریٹ کا شہر اور پھر اس میں بھوکے بے گھر لوگ، عبداللہ نیویارک کو ہمیشہ منافقتان کہتا اور خوب ہنستا۔ عبداللہ میٹنگنز سے فارغ ہوا تو کھانے کی سوجھی، وہ ڈھونڈتا ڈھانڈتا ایک اچھے سے مڈل ایسٹرن ہوٹل میں داخل ہوا۔ عبداللہ نے کاؤنٹر پر کھڑے شخص سے پوچھ لیا کہ کیا کھانا حلال ہے یہ سنتے ہی وہ غصہ ہوگیا۔ کہنے لگا امریکہ میں خوش آمدید۔ یہاں ہم ان چیزوں کی پرواہ نہیں کرتے اور اتنا ٹائم نہیں کہ ایسی باتوں پر فوکس کریں۔ عبداللہ کو بڑی بدمزگی ہوئی وہ بوجھل دل سے باہر آگیا۔ کچھ دور ہی اُسے نظر آیا جہاں سبزیوں کا سینڈوچ مل جاتا تھا۔ عبداللہ نے وہاں جانے کے لئے چلنا شروع کیا۔ کے باہر اسے کالے امریکی نظر آئے جو لوگوں سے کچھ مانگ رہے تھے کہ کھانا کھا سکیں۔ عبداللہ ہمیشہ کوشش کرتا کہ زندگی میں جب کوئی سخت بات یا واقعہ پیش آجائے تو وہ فوراً کوئی اچھا کام کر لے۔ وہ کہتا کہ اعمال بھی گیند کی طرح ہوتے ہیں۔ ہوکر واپس ضرور آتے ہیں۔ اس نے اُن چاروں سے کہا کہ آج میرے مہمان بن جائیں تو مجھے خوشی ہوگی اور چاروں کو لے کر ریسٹورنٹ میں آگیا۔ ان لوگوں نے اسے بڑی دعائیں دیں۔ ہوٹل میں موجود لوگ عبداللہ کو ایسے دیکھ رہے تھے جیسے وہ کوئی کسی اور دنیا کی مخلوق ہو۔ عبداللہ کا نظریہ تھا کہ اللہ کی زمین پر اگر اچھائی کرو تو برائی نہیں ملتی۔ وہ ہمیشہ نئے شہر میں کوئی نہ کوئی نیکی ضرور کرتا اور کہتا کہ لو بھئی انشورنس ہوگئی، اب فکر نہیں۔ پچھلے واقعہ کی کدورت دل سے صاف ہوچکی تھی۔ عبداللہ نے سوچا ایک آدھ دن رک کر نیویارک گھوم لے۔ وہ تھوڑا ہی آگے چلا ہوگا کہ اس نے پولیس کو ایک افریقین امریکی کو رگیدتے ہوئے دیکھا وہ اُسے گھسیٹتے ہوئے ہتھکڑی لگائے گاڑی کی طرف لے جا رہے تھے اور وہ چیختے ہوئے کہہ رہا تھا۔ آج تین دن ہوگئے ہیں میں نے کھانا کھایا تھا عبدللہ کو معلوم کرنے میں زیادہ دیر نہیں لگی کہ اس نے پاس والی بیکری سے کچھ چرانے کی کوشش کی اور بیکری والے نے پکڑ کر پولیس کو کال کردی۔ عبداللہ نے بڑی منت سماجت کی کہ وہ پیسے اس سے لے لیں مگر اس آدمی کو چھوڑ دیں مگر بیکری کے مالک نے چارجز ڈراپ کرنے سے معذرت کرلی۔ کہنے لگا چوری چوری ہے ہر شخص اپنی حالت اور کرتوتوں کا خود ذمہ دار ہے۔ قانونی طور پر یہ بات صحیح ہی ہو مگر عبداللہ کے دل میں اس کا جملہ چبھ سا گیا، وہ سوچنے لگا کہ حضرت عمرفاروق نے قحط میں چوری کی سزا معاف کردی تھی۔ یہ کیونکر ممکن ہوا کہ افغانستان و عراق میں جنگوں پر ٹریلین ڈالر لگانے والا امریکہ ایک انتہائی مختصر آبادی کو کھانا نہیں کھلا پاتا۔ سلیکون ویلی میں دنیا کے کتنے ہی ارب پتی ہیں مگر وہاں بھی لوگ بے گھر اور بھوکے سوتے ہیں۔ اسی امریکہ میں پراہیتومیسا جیسی آباد کاریاں بھی ہیں۔ جہاں رہنے والوں کے کوئی حقوق نہیں۔ عبداللہ سوچتا غلطی کبھی بانجھ نہیں ہوتی۔ اس کے بچے ضرور ہوتے ہیں اور امریکہ انہی بچوں کو آج کل بھگت رہا ہے۔ عبداللہ زیادہ دیر نیویارک میں نہ رک سکا اور واپسی کے لئے ایئرپورٹ روانہ ہوگیا۔ پورے راستے جاوید اختر کی نظم بھوک اسکے دماغ میں سنسناتی رہی۔ وہ سوچنے لگا کہ بھوک کو ایک مکمل مضمون کی صورت میں دنیا میں پڑھانا چاہیئے اور اُسے وقت ملا تو وہ اس پر مضمون ضرور لکھے گا۔ ۔۔۔ ۔۔۔ آج عبداللہ کو ایک یونیورسٹی میں گڈ گورنس پر بات کرنے کے لئے بلایا گیا۔ عبداللہ نے رات بھر خوب تیاری کی اور دنیا کے بہترین دماغوں کو اس موضوع پر پڑھا۔ صبح وہ جانے سے پہلے لیکچر کا مکمل خاکہ بنا چکا تھا۔ مگر وہ جیسے ہی کلاس روم میں پہنچا اس کا دماغ بالکل صاف ہوگیا۔ وہ بڑا پریشان ہوا کہ یااللہ کیا کروں گا۔ لاج رکھ لے۔ اسٹیج پر بیٹھا ہوں۔ اُسے رہ رہ کر خیال آتا کہ بات کسی اور ٹاپک پر ہونی چاہیئے۔ اسی شش و پنج میں مائیک اس کے ہاتھ میں تھا۔ عبداللہ نے بات شروع کی۔ گڈگورننس اور دنیا کے ملکوں کو چلانے کے بہترین طور طریقے اور حکومتی معاملات پہ بات کرنے سے پہلے آئیے ایک قدم پیچھے اُٹھاتے ہیں۔ ہمارا جسم بھی تو ہماری مملکت ہے اور اس پر کسی نہ کسی حکومت کا راج ہوتا ہے۔ ہم بڑی محنت کرکے یا تو نفس امارہ کو ووٹ دیتے ہیں جو ہماری مملکت کو بُرائی کے کاموں میں لگا دیتا ہے یا نفس لوامہ کو جو ہر بری بات پر سرزنش کرتا رہتا ہے۔ ٹوکتا رہتا ہے۔ میں اپنے ہاتھ سے دل کا گلا دبا دوں گا میرے خلاف یہی سازشوں میں رہتا ہے آئیے نفسوں کے اس الیکشن کی بات کرتے ہیں، بات کرتے ہیں نفس امارہ اور نفس لوامہ کی تقاریر کی، جلسہ عام کی، بات کرتے ہیں ووٹنگ کے طریقہ کار کی اور بات کرتے ہیں انقلاب کی۔ آئیے بات کرتے ہیں کہ نفس کے خلاف دھرنا کیسے دیا جاتا ہے، اکاؤنٹیبلٹی کیا ہے۔ ٹرانسپرنسی کسے کہتے ہیں اور کیسے آپ دنیا کو ایک اچھی مملکت انسان دے سکتے ہیں۔ عبداللہ بولنے پر آیا تو بولتا ہی چلا گیا۔ وہ گھنٹوں بعد اسٹیج سے اُترا تو اس کی خوب پذیرائی ہوئی۔ تمام طالب علم اور استاد حیران بھی تھے کہ گڈ گورننس کی یہ تعریف تو ان کے لئے بھی نئی تھی۔ عبداللہ پر خود بھی اس لیکچر کا خاصا اثر ہوا۔ پہلی بات تو یہ کہ ایسا کبھی نہیں ہوا تھا کہ اس نے تیاری کچھ اور کی ہو، اور بولا کچھ اور ہو اور وہ بھی اتنا اچھا۔ دوسرا وہ سوچنے لگا کہ جو کچھ وہ جوش خطابت میں بول آیا ہے اس پر وہ خود کتنا عمل کرتا ہے عبداللہ اپنے کہے ہوئے جملے جیسے جیسے سوچتا چلا گیا اسے اپنا وجود زمین میں گڑتا ہوا محسوس ہوا۔ نفس امارہ، نفس لوامہ، حدیث دل اکاؤنٹیبلٹی، ٹرانسپرنسی اور اس جیسے نجانے کتنے بڑے بڑے لفظ اب انگارے بن کر عبداللہ کے دل میں سلگ رہے تھے۔ نام اور مثالیں شاہ ولی اللہ، بایزیذ بسطامی اور جنید بغدادی کی اور اپنے اعمال عجب، تکبر و غرور اور تالیوں کے شوق میں فرعون کو بھی پیچھے چھوڑ دیا۔ عبداللہ کو اپنی سانس رکتی ہوئی محسوس ہوئی۔ اُسے مفتی صاحب کا جملہ بار بار یاد آتا کہ دسترخوان نہ پھلانگنا ۔ وہ سوچتا رہا کہ کیا ہوگیا ہے اب معافی کیسے ملے یہاں وہ اپنے گناہوں پر رو رہا تھا وہاں تعریفی ای میلز اور میسجز کا سلسلہ جاری تھا۔ ایسا پہلے بھی ہوا کہ عبداللہ نے کچھ لکھا اور لکھ کر اپنے کرتوتوں کا ماتم کرنے بیٹھا اور لوگ سمجھتے رہے کہ کیا بات ہے۔ کوئی نیک آدمی ہی ایسے لکھ سکتا ہے۔ آج اُسے سارے لکھنے والوں اور بولنے والوں اور بیان دینے والوں سے ہمدردی ہو رہی تھی۔ اُسے آج پتہ لگا کہ بیان دینے کے بعد اُن کا کیا حال ہوتا ہوگا۔ عبداللہ نے کانپتے ہاتھوں، لرزتی آواز اور روتی آنکھوں سے دعا کو ہاتھ اُٹھائے۔ اے اللہ سائیں دیکھ میں کیا کر آیا ہوں، میں اپنی تباہی کے لئے خود ہی کافی ہوں یااللہ، میں خود تھا اپنی ذات کے پیچھے پڑا ہوا میرا شمار بھی تو میرے دشمنوں میں تھا اے اللہ، معاف کر دے۔ گیدڑ کی موت آتی ہے تو وہ شہر کی طرف بھاگتا ہے۔ بندے کی موت آتی ہے تو وہ بن جاتا ہے۔ میں نے کلاس میں کہا کوئی پریشانی ہو تو مجھے ای میل کر دیں۔ میں تو آج تک اپنی پریشانیوں کو حل نہ کرسکا۔ میرے اللہ تو ہی مدد کر ان طالب علموں کی، اے اللہ، یہ مصلح بننے کا شوق جو بار بار سر چڑھتا ہے اسے غارت کردے، مجھے مجھ سے بچا لے میرے اللہ، یہ نفس تو ناک کے نیچے سے شکار کھینچ لیتا ہے۔ میرے اللہ یہ کِبر جو عاجزی پہ پلتا ہے، او میرے مالک یہ غرور جو فقر میں بستا ہے، او اللہ سائیں یہ میں جو روز منہ کالا کرواتی ہے۔ اے مالک دو جہان تو واحد ذات ہے جو نفس اور میرے بیچ میں آسکتی ہے۔ مجھے ان گناہوں سے بچا لے جو نیکی کے روپ میں آتے ہیں۔ اے اللہ، نفس چاہتا ہے کہ شرک کرے، لوگ اِسے پوجیں، اِس کی واہ واہ کریں، اِس سے دعاؤں کی درخواست کریں۔ اِس کے مرید بنیں، بندہ جب ضبط کرکے اپنے آپ کو اِس سے باز رکھتا ہے تو نفس رُوح سے اِنتقام لیتا ہے اور اِسے کہتا ہے کہ جس طرح لوگوں نے میری پرواہ نہیں کی تُو بھی اپنے مالک کی پرواہ نہ کر اور چھوڑ دے بندگی، تیری صفات کا ذکر اور دعا وہ ہتھیار ہیں جو اِس مڈھ بھیڑ میں بندے کے کام آتی ہیں۔ جاری ہے
null
null
null
null
486
https://www.urduzone.net/ek-zindagi-aur-chahye-teen-auratien-teen-kahaniyan/
یہ آج سے پینتالیس برس پہلے کا قصہ ہے جب ہم کوہ سلمان کے پہاڑوں میں واقع ایک گائوں میں رہا کرتے تھے۔ میرے خاندان کا تعلق ایک قدیم پہاڑی قبیلے سے تھا کہ جن کے دل انہی بے آب و گیا پہاڑوں کی طرح سخت تھے۔ ان دنوں عورتوں کا شہروں میں جانے کا رواج نہ تھا کیونکہ گائوں کے نزدیک اسکول ہی نہ تھا۔ میرے والد میٹرک پاس تھے کیونکہ دادا ایک بڑے انگریز افسر کے پاس ملازم ہوگئے تھے۔ وہ افسر شکار کا شوقین تھا۔ دادا ان کی بندوقوں اور ہتھیاروں کی دیکھ بھال پر مامور تھے۔ اسی وجہ سے نزدیک شہر ڈیرہ غازی خان فورٹ منرو آنا جانا رہتا تھا۔ انگریزوں کے ماحول میں رہ کر دادا جان کو بھی تعلیم کی افادیت کا احساس ہوا اور انہوں نے میرے والد کو شہرلے جاکر میٹرک تک پڑھایا۔ میرے والد ہمارے خاندان کے پہلے میٹرک پاس آدمی تھے۔ تعلیم سے شناسائی کی وجہ سے ہمارے خاندان کے مردوں کے طرز زندگی میں کچھ تبدیلی آئی لیکن ہم عورتوں کی زندگی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ جب میرا بھائی محمدیار خان سکول جانے کے لائق ہوا تو والد صاحب کو خیال آیا کہ اس کی تعلیم کی خاطر نزدیک شہر چل کر رہنا چاہیے کہ جہاں لڑکوں کا اسکول ہو۔ لہٰذا ہم پہاڑوں کی سنگلاخ زندگی کو خیرباد کہہ کر شہر ڈیرہ غازی خان میں جابسے، جہاں لڑکوں کا ایک ہائی اسکول تھا۔ابا جان نے اسکول کے نزدیک ایک مکان کرائے پر لیا اور ہم اس میں آباد ہوگئے۔ والد صاحب کا کام اب لورا لائی سے فروٹ لاکر شہر میں فروخت کرنا تھا۔ مجھے اور میری والدہ کو شہر کی زندگی بہت اچھی لگی کیونکہ یہاں سہولتیں تھیں۔ بجلی بھی تھی اور پانی بھی چشموں سے بھر کر نہ لانا پڑتا تھا۔ گھر کے آنگن میں ہاتھ کا نلکا لگا ہوا تھا، گندم آسانی سے مل جاتی تھی۔ ہمارے گھر کے پاس لالہ انور کا مکان تھا۔ ان کے بیٹے کا نام امیر محمد تھا جس کو پیار سے امیرو بلاتے تھے۔ جب بابا اپنے کام کے سلسلے میں شہر سے باہر جاتے تو والدہ سودا سلف لانے کے لیے امیرو کو بلالیتی تھیں۔ اس طرح ہمارے گھر میں اس پڑوسی لڑکے کا آنا جانا ہوگیا۔ والدہ لڑکے صرف والد کی غیرموجودگی میں مجبوری سے ہی بلاتی تھی کیونکہ اس زمانے میں شہر میں بھی پردے کا رواج تھا اور عورت کا گھر سے نکلنا بطور خاص دکانوں پر جانا برا سمجھا جاتا تھا۔ جب امیرو گھر میں آتا مجھے خوشی محسوس ہوتی۔ اس سے بات کرنے کی کوشش کرتی۔ شروع میں وہ مجھ سے ہمکلام نہیں ہوتا تھا۔ رفتہ رفتہ حجاب کھلا تو وہ مجھ سے بات چیت کرنے لگا، میں بھی اس کے ساتھ مانوس ہوتی گئی۔ میں اور امیر محمد اگرچہ الگ الگ تہذیبوں سے تعلق رکھتے تھے لیکن ہمارے گھروں میں زیادہ فاصلہ نہ تھا، اس لیے ہمیں ملنے میں آسانی تھی۔ والد کی اجازت سے امی نے ایک استانی کا بندوبست گھر پر کرلیا جو مجھے شام کو ایک گھنٹہ پڑھانے آتی تھی۔ یہ امیرو کی بہن تھی جو ایک نزدیکی پرائمری اسکول میں ٹیچر تھی۔ اس کا نام زینب تھا۔ اس کی بدولت دونوں گھرانوں میں روابط بڑھ گئے۔ میں نے گھر پر زینب آپا سے پانچویں تک پڑھا۔ اسی اثنا میں میرے بھائی نے میٹرک پاس کرلیا اور والد کے ساتھ کاروبار میں ہاتھ بٹانے لگا۔ میرے اور امیرو کے والدین آپس میں ہمیشہ بہت اچھے ہمسایوں کی طرح رہے، کبھی بھی دونوں خاندانوں میں ناراضگی نہ ہوئی۔ غم اور خوشی میں ایک دوسرے کے یہاں آنا جانا رہتا تھا۔ اب میں اور امیرو بھی بڑے ہوچکے تھے۔ ہمارا بچپن کا لگائو گہری چاہت میں بدل چکا تھا۔ ہماری اس چاہت کا علم دونوں کے والدین کو بخوبی تھا، تبھی امیر محمد نے اپنے والدین کو رضامند کرلیا اور وہ ایک روز میرا رشتہ مانگنے آئے۔ بابا نے اندازہ کرلیا تھا کہ میں امیرو کو کس حد تک چاہتی تھی اور وہ بھی مجھ پرجان چھڑکتا تھا۔ لہٰذا انہوں نے اس شادی پر ایک کڑی شرط رکھ دی۔ امیرو کے والدین سے کہا کہ اپنا پندرہ مرلے کا گھر میری بیٹی کے نام کردو تو ہم رشتہ آپ کو دے دیں گے۔ حالانکہ اس مکان میں امیرو کے دیگر بہن بھائی بھی حصہ دار تھے مگر بیٹے کی خوشی کی خاطر اس کے والدین نے یہ قربانی دی کہ اپنا بڑا سا دو منزلہ پختہ مکان جس کی مالیت اس زمانے میں بھی کم نہ تھی اور شہر میں پکے مکان تھے ہی کتنے یہ جائداد میرے نام کردی، اس شرط پر کہ جس روز مکان کے کاغذات میرے نام ہوں گے، نکاح بھی اسی روز ہوگا، البتہ رخصتی بعد میں ہوجائے گی۔ مکان والدین نے میرے نام لکھوالیا مگر نکاح کی بجائے منگنی پر اکتفا کیا۔ میرمحمد کے والدین شریف لوگ تھے، انہیں میرے والد پر بے اعتباری نہ تھی، وہ مان گئے۔ میں اور امیرو بہت خوش تھے۔ ہم سوچ بھی نہ سکتے تھے کہ ہمیں اتنی جلدی دلی مراد مل جائے گی۔ ہم رخصتی کے دن کے انتظار میں آنے والے زمانے کے خوابوں سے سجا رہے تھے۔ میں تو سوچا کرتی تھی کہ امیرو اور ان کے والدین کی اتنی خدمت کروں گی کہ زمانے پر یہ ثابت ہوجائے کہ محبت کی شادی کامیاب رہتی ہے۔ یہی سوچ کر دن گزار رہی تھی بے چین تھی کہ وہ دن کب آئے گا جب ہم دونوں ہمیشہ کے لیے ایک ہوجائیں گے۔ خبر نہ تھی کہ میرے والد نے نہایت گہری چال چلی ہے۔ انہوں نے بڑی مصلحت اور نرم مزاجی سے کام لیا تھا کہ حتیٰ کہ شادی کا دن بھی مقرر کرلیا تھا۔ شادی کی تاریخ سے ایک دن پہلے چچا جان کے گھر ہماری دعوت تھی۔ چچا جان نے اس دعوت میں امیرو اور اس کے گھر والوں کو بھی بلایا تھا۔ یہ لوگ پہلے بھی کئی بار چچا جان کے گھر جاچکے تھے۔ ہم لوگ تقریباً اکٹھے ہی وہاں پہنچے مگر گھر والوں کی موجودگی کی وجہ سے میری امیرو سے کوئی بات نہ ہوئی کیونکہ جس روز سے منگنی اور کاغذی کارروائیاں ہوئی تھیں، میرا اس سے پردہ کرادیا گیا تھا۔ چچا کے گھر پہنچتے ہی عورتوں کے کمرے میں چلی گئی۔ میرے ساتھ میری ایک سہیلی بھی تھی۔ اس کمرے میں داخل ہوتے ہی میری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔ گھر میں رشتے دار عورتیں جمع تھیں اور بڑے کمرے میں چچا کا لڑکا دولہا بنا بیٹھا تھا۔ کچھ قریبی رشتہ دار مرد اس کے آس پاس موجود تھے۔ ان مردوں میں بابا جان نے کے علاوہ مولوی صاحب بھی تھے۔ پھر جب چاچی نے زری گوٹے والا دوپٹہ میرے سر پر ڈالا تو ساری کہانی سمجھ گئی اور مجھ پر سکتہ طاری ہوگیا۔ ماں نے پکڑ کر کمرے کے ایک کونے میں بٹھادیا جہاں قالین بچھا ہوا تھا اور گائو تکیے رکھے تھے۔ مجھے لگا کہ جیسے میرے جسم سے جان نکل گئی ہو، ماں سے کچھ کہنا چاہا اس نے سختی سے چپ کرادیا۔ گھر رشتے دار عورتوں سے بھرا ہوا تھا اور اب تو میں کچھ بول بھی نہیں سکتی تھی۔ حیران آنکھوں سے یہ منظر دیکھ رہی تھی اور وہاں نکاح کی کارروائیاں شروع ہوچکی تھیں۔ مجھ سے یہ ساری رسم زبردستی کرائی گئی جبکہ میرا دل آمادہ نہ تھا اور نہ ہی ذہن آمادہ تھا۔ سوچ بغاوت چاہتی تھی لیکن میں جانتی تھی کہ اب شہر میں نہیں بلکہ سیاہ اور سنگلاخ چٹانوں کی آغوش میں ہوں جہاں لڑکیوں کو بغاوت کی سزا بندوق کی گولیوں سے دی جاتی ہے۔ رسم نکاح سے فارغ ہونے کے بعد میرے والد، چچا اور ان کے تمام بیٹے بندوقیں اٹھائے مہمان خانے میں چلے گئے جہاں امیر محمد اور اس کے والدین کو ٹھہرایاگیا تھا۔ بابا نے کہا انور لالہ ہم بھائیوں کے رشتے بہت گہرے اور اٹوٹ ہیں، سارے خاندان کے اصرار پر ہم نے بیٹی کا نکاح اپنے ہی خاندان میں کرلیا ہے۔ آپ کھانا کھا کر باعزت طور پر یہاں سے چلے جائیے، یہ کھانا دراصل نکاح کی دعوت جانیے۔ معذرت خواہ ہوں کہ مجھے ایسا کرنا پڑا۔ ایسا نہ کرتا تو ضرور لڑکے اور لڑکی کی طرف سے کسی غلط جسارت کا اندیشہ تھا۔ چونکہ میں پڑھا لکھا ہوں اور قتل و غارت کے حق میں نہیں ہوں۔ اگر بچوں سے کوئی غلطی ہوجاتی تو مجبوراً بچوں کو کالا اور کالی قبائلی رسموں کے مطابق کیا جاتا۔ اس لیے ہم نے اپنی لڑکی کو قابو کرلیا، آپ بھی اپنے بیٹے کو قابو کریں۔ اب اگراس نے کوئی ایسی حرکت کی تو ہمارے لوگ آپ لوگوں کا جینا دوبھر کردیں گے۔ رہ گیا آپ کے مکان کی ملکیت کا معاملہ تو ہم آپ کا مکان واپس کردیں گے۔ امیر محمد کے والد منہ تکتے رہ گئے کہ وہ یہ کیا سن رہے ہیں انہیں اپنے کانوں پر اعتبار نہیں آرہا تھا۔ اس وقت تو انہوں نے خاموشی ہی مناسب سمجھی اور کھانا کھائے بغیر اٹھ کر چلے گئے۔ ان کے جانے کے بعد بابا میرے پاس آئے اور کہا۔ دیکھ لڑکی اب تیرا نکاح اپنے چچا زاد سے ہوچکا ہے، اب اگر تم نے کچھ غلط بھی سوچا تو تم کو گولیاں مار کر ختم کردیا جائے گا۔ بابا کو میری تندخوئی کا علم تھا، اسی لیے انہوں نے خوب اچھی طرح پیش بندی کردی تھی اور مجھے اپنے خاندان والوں کی سنگ دلی کا علم تھا۔ جانتی تھی کہ اگر دو بول بھی اپنا شرعی اور قانونی حق مانگنے کے لیے لبوں سے نکالے تو یہ لوگ وہ سب کچھ گزریں گے جو یہ کہہ رہے ہیں۔ یوں مجھ ہنس مکھ اور زندہ دل لڑکی کو میرے اپنوں نے زندہ درگور کردیا۔ سب سے بڑا قصوروار میرا چچا تھا جس نے جانتے بوجھتے اپنے بیٹے کے سر پر سہرا سجالیا جبکہ دلاور مجھے سخت ناپسند تھا۔ والدین اور چچا کو پہلے میں نے بتا دیا تھا کہ میں اس کو پسند نہیں کرتی۔ اب میں اپنی زندگی کے دن دلاور کے ساتھ گزارنے پر مجبور تھی مگر میرے دل میں امیرو کی یاد رہتی تھی۔ سوچتی تھی کہ میرا بابا پڑھا لکھا تھا مگر اس پر بھی تعلیم نے اثر نہ کیا۔ خدا جانے کب تک ہمارے قبیلے کے لوگ اپنی اولاد کی خوشیوں کا قتل کرتے رہیں گے۔ آخر کب تک ہم لڑکیوں کو ہمارا شرعی حق نہیں دیں گے اور ہمیں دنیا سے ہنستے کھیلتے اٹھا کر زندہ قبر میں دفن کرتے رہیں گے۔ برسوں امیرو نے شادی نہ کی۔ وہ ہڈیوں کا ڈھانچا بن کر رہ گیا تھا، پاگلوں کی طرح پھرتا تھا اور میں بھی نیم پاگل سی گھر میں قید تھی۔ بھلا ہم جیسے افراد معاشرے کو کیا مثبت انداز دیں گے جو زندگی کو ایک بوجھ کی طرح اٹھانے پر مجبور ہوئے۔ میں ایک عورت ہوں جس سے دنیا کی ہر خوشی چھینی جاچکی ہے۔ کالے پہاڑوں کے درمیان محبوس آج مجھے یہ دنیا بالکل سنسان اور ویران آرزوئوں کا قبرستان لگتی ہے اور یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کبھی کوئی خوشی میرے پاس سے بھی نہیں گزری تھی۔ یہ دنیا میرے لیے ایک تاریک زنداں سے کم نہیں جس میں نہ ہوا ہے اور نہ روشنی، جس طرح کسی انسان کو جیتے جی قبر میں اتاردیا جائے اور وہ عمر بھر اس اندھیری کوٹھری میں روشنی کی ایک کرن کو تڑپتا رہے آخر یہ سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ کسی صورت تو رہائی ممکن ہو۔ آخر اس کڑی سزا کا جواز کیا ہے کیا میری زندگی، میری زندگی نہ تھی، اگر تھی تو اس کو دوسروںکے حوالے کرنے کا یہ اتنا بڑا جبر کیوں میں نے کیا قصور کیا تھا کہ مجھے دنیا کی ہر خوشی سے بیگانہ کردیا گیا۔ ایسے ہی سوالات میرے لیے سوہان روح سے کم نہیں۔ میں آج زندگی کے اس موڑ پر ہوں کہ جہاں سے نہ پیچھے مڑ کر دیکھ سکتی ہوں نہ آگے سفر کرنے کو دل کرتا ہے۔ پہلے ماں باپ کی عزت کا خیال کرنا ایک مجبوری تھی، اب شوہر کی عزت کا خیال کرنا ایک مجبوری ہے۔ اپنی مذہبی تعلیمات کا بھی خیال ہے جو اپنی پہاڑ جیسی زندگی کا بوجھ اٹھانے پر مجبور ہوں۔ تاہم اتنا ضرور کہوں گی کہ اس مذہب کا خیال میرے والدین کو بھی تو کرنا چاہیے تھا مگر انہوں نے نہیں کیا اور میری مرضی کے خلاف شادی کے نام پر مجھے زندہ قبر میں اتاردیا۔ میں نے کوشش تو بہت کی کہ خوش رہوں، شوہر کو بھی خوش رکھوں اور ماضی کی یاد کو دل سے مٹادوں مگر اس کے لیے ایک زندگی اور چاہیے۔ س۔ش ڈیرہ غازی خان
null
null
null
null
487
https://www.urduzone.net/ham-khata-kar-na-thay-teen-auratien-teen-kahaniyan/
دادا جان کے پاس دولت کی کمی نہ تھی لہٰذا والد صاحب کی پرورش بہت لاڈ پیار اور نازونعم سے ہوئی۔ جب انسان پر کوئی روک ٹوک نہ ہو اور پیسے کی فراوانی بھی ہو تو وہ منفی کاموں کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ۔ ابا جان بھی آوارگی کی جانب مائل ہوگئے۔ اس کا حل دادی جان نے یہ نکالا کہ ان کی شادی اپنی بھتیجی سائرہ سے کردی۔ لیکن ابا جان کو میری ماں اپنے دام الفت کا اسیر نہ بناسکیں۔ ان کی بے اعتدالیاں شادی کے بعد بھی جاری رہیں۔ امی صبروشکر سے اپنے سسر اور ساس کے پاس گائوں میں رہتی تھیں، جبکہ ابا جان شہر والے بنگلے میں رنگین مزاج دوستوں کی محفلوں میں خوش و خرم رہتے تھے۔ جہاں رقص و سرود کی محفلیں ہوتیں اور دولت دونوں ہاتھوں سے لٹائی جاتی۔ والد صاحب کا جب جی چاہتا گائوں آتے اور چند دن میری والدہ اور دادی کے پاس رہ کر پھر چلے جاتے۔ دادا جان انہیں سمجھاتے تھے۔ مگر وہ کسی کی نہیں سنتے تھے۔ یونہی دن گزرتے گئے اور ہم دونوں بہنیں سمجھ دار ہوگئیں۔ ابا جان جب بھی گھر آتے، میری ماں کو یہی طعنہ دیتے کہ تم نے صرف بیٹیاں ہی پیدا کی ہیں۔ بیٹا ہوتا تو میں تمہاری قدر کرتا اور دوستوں کی محفلیں ترک کردیتا۔ ماں ان کی یہ بات سن کر چپ ہوجاتی تھیں۔ بھلا وہ اس معاملے میں کیا کرسکتی تھیں ، یہ تو قدرت کے بس میں تھا اور وہ بے بس تھیں۔ پھر اللہ تعالیٰ نے ماں کی خاموش التجا سن لی اور شادی کے پندرہ برس بعد بیٹے سے نواز دیا۔ یہ خوشی بھی میرے باپ کو راہ راست پر نہ لاسکی۔ کیونکہ انہیں عیاشی کی لت پڑ چکی تھی، انہیں دادی جان سمجھاتی تھیں۔ لیکن وہ نصیحتوں سے اور چڑ جاتے۔ پھر مہینوں گھر نہیں آتے تھے۔ دادا جان نے بیٹے کے برے اعمال سے مایوس ہو کر ننھے منے پوتے یعنی میرے بھائی کامران سے دل لگا لیا۔ وہ کہا کرتے تھے۔ مرنے سے پہلے میں اپنی ساری جائداد پوتے کے نام لکھ جائوں گا۔ میری زندگی میں میرا بیٹا جس قدر چاہے عیش کرلے۔ دادا جان کچھ عرصے بعد فوت ہوگئے۔ فوت ہونے سے پہلے وہ آدھی دولت اور جائداد اپنے پوتے کے نام کرگئے تاکہ بیٹا ساری جائداد نہ اڑا سکے۔ خدا کا کرنا کہ دادا جان کے فوت ہونے کے بعد ابا جان کو بھی اپنی تباہی کا احساس ہوگیا اور وہ مستقل طور پر گائوں میں رہنے لگے،کیونکہ بیوی بچے بھی اکیلے ہوگئے تھے۔ اور زمینوں سے دور رہ کر زمیندار اپنی ساکھ برقرار نہیں رکھ سکتا۔ بظاہر ابا جان ٹھیک ہوگئے تھے۔ وہ گھر کا پہلے کی نسبت بہت خیال رکھتے تھے۔ ماں بھی خوش تھیں کہ شوہر پردیسی نہیں رہا بلکہ گھر میں رہتا ہے۔ کئی مسئلے ایسے ہوتے ہیں کہ شوہر موجود نہ ہو تو بیوی کو بہت پریشانی ہوتی ہے۔ ان دنوں میں بیس برس کی ہوچکی تھی۔ کامران ابھی چھوٹا تھاکہ اچانک گائوں میں ایک غلغلہ سا اٹھا۔ ہماری زمین پر علی محمد نامی مزارع کام کرتا تھا۔ یہ ہمارا پرانا نمک خوار تھا۔ دادا جان بھی اس کی عزت کرتے تھے کیونکہ اس کے باپ نے میرے پر دادا کی خدمت میں عمر گزاری تھی۔ اور یہ لوگ نسلوں سے ہماری زمین پر محنت کا بیج بوتے آئے تھے۔ علی محمد جس کو ہم سب علی بابا کہتے تھے، ہمارے گھر کے فرد کی طرح تھا۔ اس سے ہم خواتین پردہ نہیں کرتی تھیں۔ جب کام ہوتا ہمارے گھر کے اندر آسکتا تھا۔ علی بابا کی ایک لڑکی شاداں تھی، جو میری چھوٹی بہن کی ہم عمر تھی۔ وہ بہت خوبصورت تھی۔ کبھی کبھی اس وقت ہمارے گھر آتی تھی، جب میری والدہ کام سے اسے بلوایا کرتی تھیں۔ کام کرنے شاداں کی ماں اور پھوپھیاں مستقل ہمارے گھر آیا کرتی تھیں۔ دادی اور اماں انہیں اپنی اولاد کی طرح سمجھتی تھیں۔ ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ میرے والد صاحب سے ایسی مذموم حرکت سرزد ہو جائے گی کہ جس سے گائوں میں خاندان کی عزت ناموس کو بٹہ لگ جائے گا۔ نہ جانے کب میرے والد صاحب شاداں کو پسند کرنے لگے۔ بس اتنا معلوم ہوا کہ علی بابا کے گھر آنے جانے لگے ہیں۔ وہ پرانا نمک خوار پہلے تو اس بات کو اپنی عزت افزائی سمجھا کہ مالک اتنا بڑا دولت مند ہو کر اس غریب کی کچی مٹی کی چار دیواری میں آکر بیٹھتا ہے، اس کے گھر کے مسائل میں دلچسپی لیتا ہے۔ لیکن جب ابا جان نے شاداں پر نظریں مرکوز رکھیں تو سارا معاملہ سمجھ آگیا۔ تاہم اس کی یہ مجال نہ تھی کہ وہ دادی جان یا میری امی سے آکر شکایت کرتا۔ کیونکہ اس طرح ابا جان اس سے نہایت بری طرح پیش آسکتے تھے۔ وہ اندر ہی اندر غیرت کے مارے گھٹنے لگا اور ساتھ ہی ساتھ وہ شاداں کے رشتے کے لئے تگ و دو کرنے لگا۔ تاکہ اس کو جلد سے جلد اپنے گھر کا کردے۔ جونہی اس نے شاداں کی شادی کرنے کا اعلان کیا۔ ابا جان نے اس کو سختی سے روک دیا، کہ تم ہماری مرضی کے بغیر بیٹی کی شادی نہیں کرسکتے۔ اس کی شادی ہم خود کریں گے۔ علی بابا، مالک کا یہ حکم سن کر سٹپٹا گیا۔ اس نے بیٹی کی شادی کا ارادہ ملتوی کردیا کیونکہ مالک کا مقابلہ کرنے کی سکت اس میں نہیں تھی۔ تاہم اندر ہی اندر لاوا پکنے لگا۔ ابا جان نے بھی اس کے بعد شاداں کے ساتھ اس کے گھر والوں کی پروا کئے بغیر رسم و راہ پڑھانی شروع کردی۔ وہ شاداں کے لئے قیمتی تحائف غیرملکی پرفیوم ، خوشبودار صابن اور ریشمی کپڑے لے جانے لگے۔ یہ تحائف وہ اس طرح جبراً دیتے کہ شاداں کی ماں کو ڈر کے مارے قبول کرنے پڑتے۔ شاداں ایک خوبصورت مگر غریب لڑکی تھی۔ وہ اور کیا چاہ سکتی تھی۔ اس کا آئیڈیل اس کے مالک جیسا ہی ہوسکتا تھا اور مالک خود اس پر مہربان تھا۔ لڑکی کی ماں خوش تھی۔ صرف علی بابا ان حالات سے پریشان تھا۔ شاداں اور اس کی ماں ابا جان کی عنایات سے خوش تھیں۔ یہی وجہ تھی کہ جب علی بابا کو ابا جان دور کی زمینوں پر بھیجتے تو ماں خود بیٹی کو ایسے مواقع فراہم کرتی کہ ابا جان اور شاداں اکھٹے رہ سکیں۔ گناہ زیادہ دنوں تک نہیں چھپا رہ سکتا۔ اس کا خمیازہ بھی آخرکار بھگتنا پڑتا ہے۔ شاداں ان حالات میں امید سے ہوگئی تو علی بابا کی عزت پر بن گئی۔ وہ غریب ضرور تھا لیکن کیا غریب کی عزت نہیں ہوتی۔ علی بابا روتا پیٹتا ابا جان کے پاس آیا اور گڑگڑا کر بولا، مالک اب تم شاداں سے شادی کرلو ورنہ میں گائوں میں کہیں منہ دکھانے کے قابل نہیں رہوںگا۔ ابا جان نے جواب دیا۔ پائوں کی جوتی سر پر نہیں رکھی جاسکتی، البتہ اس مسئلے کا حل نکال لوں گا۔ تم بے فکر ہو کر سوجائو۔ تمہیں واویلا کرنے کی ضرورت نہیں۔ ہم خود معاملے کو سنبھال لیں گے۔ علی بابا اب کس طرح چین کی نیند سو سکتا تھا۔ اس نے ابا جان سے کہا کہ شاداں سے نکاح کرلو ورنہ میں اسے مار ڈالوں گا۔ اباجان یہی سمجھے کہ یہ غریب مزارع یونہی ڈرا رہا ہے۔ انہوں نے پائوں سے جوتا اتار کر علی بابا کو کھینچ مارا اور کہا۔ بک بک بند کر اور جو تیرے جی میں آتا ہے کرلے لیکن اب دوبارہ یہ بکواس آکر میرے سامنے مت دہرانا۔ دل ہی دل میں بدعائیں دیتا اور روتا علی بابا ابا جان کی بیٹھک سے نکلا۔ گھر جاکر اس نے سامان، بیل گاڑی پر لادا اور کنبے کے سب لوگوں کو حکم دیا کہ چلو یہاں سے کوچ کرو۔ ملک کا ظلم اب حد سے بڑھ چکا ہے۔ میں یہ نہیں سہہ سکتا۔ کل میری دوسری بیٹی جوان ہوگی تب بھی یہی ہوگا کیونکہ سانپ کی فطرت میں ڈسنا ہے تو وہ ڈسے گا ہی۔ راتوں رات علی بابا کا خاندان ہماری زمین چھوڑ کر چلاگیا۔ جب گائوں کی حدود ختم ہونے لگیں تو علی بابا اور اس کے بیٹے نے شاداں کو نہر میں ڈال کر اس سے نجات حاصل کرلی اور آگے کسی نامعلوم منزل کی طرف روانہ ہوگئے۔ تیسرے روز شاداں کی پھولی ہوئی لاش پانی کے اوپر آگئی تو اس راز پر سے پردہ اٹھا کر شاداں کو بدنامی کے خوف سے نہر میں ڈال دیا گیا تھا۔ ابا جان نے علی بابا کے خلاف پرچہ کٹوا کر اس کو جیل بھجوادیا۔ وہ روتا چلاتا رہا کہ اس قتل کا اصل مجرم خود یہی زمیندار ہے۔ مگر اس کی کون سنتا۔ بھلا وہ میرے ابا جان سے کیسے ٹکر لے سکتا تھا۔ کہتے ہیں مظلوم کی آہ خالی نہیں جاتی تو سچ ہی کہتے ہیں۔ کیونکہ اس واقعے کے دس برس بعد ایک اور واقعہ پیش آیا۔ جس نے اس بات کو ثابت کردکھایا۔ ان دنوں میری عمر تیس برس ہوچکی تھی۔ اور صبا اٹھائیس سال کی تھی۔ اس کے باوجود ہم دونوں بہنوں کے ابھی تک رشتے نہ ہوسکے تھے اور ہم بن بیاہی گھر بیٹھی تھیں۔ ماں کو ہماری بہت فکر تھی۔ ابا جان نے بھی کوششیں کیں، مگر ہم پلہ خاندانوں میں میرے ابا جان کی بری شہرت کی وجہ سے ہمارے رشتے نہ ہوسکے۔ اپنے سے کم حیثیت لوگوں میں ہمیں بیاہنا ابا جان نے خود گوارا نہ کیا اور ہم دونوں بہنیں آہستہ آہستہ بڑھاپے کی طرف سفر کرنے لگیں۔ ایک رات جب آسمان پر بادل چھائے ہوئے تھے۔ فضا میں کچھ گھٹن سی تھی۔ شاید اگست کا مہینہ تھا۔ گرمی کی وجہ سے نیند نہیں آرہی تھی۔ میں اور صبا اپنے اپنے بستروں پر کروٹیں بدل رہی تھیں۔ اسی وقت ابا جان کے قدموں کی آہٹ ہوئی۔ وہ آج گھر دیر سے آئے تھے۔ وہ جب رات گئے گھر آتے، تھکے ہوئے ہوتے تھے۔ آتے ہی بستر پر لیٹتے اور سوجاتے۔ اس وقت بھی صبا نے یہی سمجھا کہ اباجان سوچکے ہیں۔ باقی لوگ بھی سور رہے تھے۔ جب اس کو یقین ہوگیا کہ سب سو چکے ہیں تو وہ اٹھ بیٹھی۔ میں اپنی آنکھوں پر دوپٹہ رکھے سو رہی تھی۔ میں نے اس سے کلام کرنا مناسب نہ سمجھا کیونکہ یہی سمجھ رہی تھی کہ وہ پانی پینے کو اٹھی ہے یا باتھ روم کی طرف جارہی ہے۔ ہم سب صحن میں سورہے تھے۔ جب کہ ابا جان پرآمدے میں لیٹے ہوئے تھے۔ صبا کو برآمدے سے گزر کر باتھ روم جانا تھا مگر وہ ادھر نہیں گئی، بلکہ صحن عبور کرکے دبے قدموں سے بیرونی دروازے تک گئی اور دروازے کی کنڈی کھول کر گھر سے نکل گئی۔ ابا جان شاید کچی نیند میں تھے۔ انہوں نے ایک ہیولے کو صحن پار کرکے گھر سے جاتے دیکھا تو پہلے وہ سمجھے کہ میرا بھائی باہر گیا ہے۔ کچھ دیر لیٹے اس کے واپس لوٹنے کا انتظار کرتے رہے۔ لیکن جب آدھا گھنٹہ گزر گیا تو وہ خود کو روک نہ سکے، بستر سے اٹھ بیٹھے، انہوں نے بندوق کندھے پر لٹکائی جو وہ ہمیشہ سرہانے رکھ کر سوتے تھے، پھر صحن میں آکر ہم سب کو دیکھا۔ میرا بھائی سورہا تھا۔ ماں اور میں بھی اپنے اپنے بستر پر موجود تھیں۔ صرف صبا کا بستر خالی تھا۔ ٹارچ اٹھا کر وہ گھر سے باہر نکل گئے۔ وہ ٹارچ کی روشنی زمین پر ڈالتے جاتے تھے اس طرح صبا کے پیروں کا تعاقب کرتے ہوئے گھر کے ساتھ بنی ہوئی مسجد کے عقب میں پہنچ گئے۔ جس کے قریب ہی کچھ دکانیں تھیں۔ گائوں میں کچے راستے ہوتے ہیں، جو بھی ان پر سے گزرتا ہے، پائوں کے نشان مٹی پر بنتے جاتے ہیں۔ لہٰذا جانے والے کا فوراً تعاقب کیا جاسکتا ہے کہ وہ کس راستے سے گیا ہے۔ صبا کے بھی نقش قدم ابا جان کو مسجد کے اس طرف بنی ہوئی ایک دکان پر لے گئے۔ دکان بند تھی۔ ابا جان نے بند دکان کا در کھٹکھٹایا اور آواز دی باہر نکلو ورنہ شوٹ کردوں گا۔ باپ کی آواز سن کر صبا تھرتھراگئی اور اس کی چیخ نکل گئی۔ اباجان کا تو رعب ہی اتنا تھا کہ سارا گائوں کانپتا تھا۔ دروازہ جب نہ کھلا تو بندوق کا بٹ مار کر دکان کی کھڑکی کو توڑ ڈالا اور کھڑکی سے اندر داخل ہوگئے۔ ٹارچ کی روشنی میں اب انہیں ایک کی بجائے دو خوف زدہ چہرے نظر آئے ۔ ایک چہرہ صبا کا تھا اور دوسرا اس نوجوان کا تھا جس کے باپ کی یہ دکان تھی۔ اپنی بیٹی کے ساتھ ایک اجنبی نوجوان کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا، تبھی ایک بھی لمحہ ضائع کئے بغیر دو فائر کردیئے۔ چشم زدن میں دو جسم زمین پر گر کر خاک و خون میں تڑپنے لگے۔ فائر کی آواز گھر تک سنائی دی۔ آواز سنتے ہی میں لرز گئی۔ ماں کو جگایا، بھائی بھی اٹھ بیٹھا۔ ہم سب صبا کی خالی چارپائی دیکھ کر سمجھ گئے کہ فائر کی آواز کا کیا مقصد تھا۔ اب کسی کو کچھ کہنے سننے کی ضرورت نہ تھی۔ جو ہوچکا تھا ہم سب پر عیاں تھا۔ چند منٹ بعد جب ابا جان گھر لوٹے تو کسی نے ان کے چہرے کی طرف دیکھنے کی جرأت نہ کی۔ ماں دوپٹے کا پلو منہ پر رکھے چپکے چپکے رو رہی تھی اور ہم سب بے جان بتوں کی مانند ساکت بیٹھے تھے۔ ابا جان کی ٹوٹی ہوئی بھاری آواز بمشکل حلق سے نکلی وہ میری ماں سے کہہ رہے تھے۔ تم گھر کا خیال رکھنا، میں تھانے جارہا ہوں۔ پھر وہ مڑ کر میرے بھائی سے کہنے لگے صبا کی لاش ایک بدبخت کے ساتھ دکان کے اندر پڑی ہے، تم لاش کو کندھا نہ دینا نہ اس کا منہ دیکھنا۔ یہ کہہ کر وہ گھر سے نکل گئے۔ تھانے جاکر کسی نامعلوم دشمن کے خلاف انہوں نے رپورٹ لکھوائی اور پھر باقی زندگی مردوں سے بدتر گزاری۔ کسی سے کلام کرتے تھے نہ کسی سے ملتے۔ قیدیوں کی طرح بس چوبیس گھنٹے اپنے کمرے میں بند رہتے تھے۔ یونہی ان کی عمر تمام ہوگئی۔ ہماری زندگی میں یہ اندوہناک واقعہ لکھا تھا۔ جس کے وقوع پذیر ہونے کے بعد ہماری حویلی نے کبھی خوشیوں کا منہ نہیں دیکھا۔ میں بن بیاہی ادھیڑ عمر سے بوڑھی ہوگئی اور بھائی دلبرداشتہ ہو کر امریکہ جابسا۔ ماں بیٹی کا غم دل میں دبائے سسک سسک کر مرگئی۔ اب تو ابا جان بھی اس دنیا میں نہیں رہے۔ میں آج زندگی کی آخری سرحد پر ہوں اور سوچتی ہوں کہ واقعی لوگ سچ کہتے ہیں کہ برائی کا انجام برا ہوتا ہے۔ تاہم ایک سوال ضرور ذہن کو پریشان کرتا رہتا ہے کہ ماں باپ کی خطائوں کی سزا آخر اولاد کو کیوں ملتی ہے ن ۔س فیصل آباد
null
null
null
null
488
https://www.urduzone.net/maine-pyar-chaha-tha-teen-auratien-teen-kahaniyan/
نہیں جانتی باپ کی شفقت کیا چیز ہوتی ہے لیکن بڑے بھائی نے ہمارے سروں پر اپنے پیار کا سایہ کردیا۔ ہم نے باپ کی محبت بھی انہی سے پائی تحفظ کا احساس ہمیں پروان چڑھانے تک بھائی جان سے ملا۔ ہماری کفالت کرتے ان کی عمر سال ہوگئی تو ماں کو بیاہ کی فکر لاحق ہوئی۔ وہ کہتے تھے جب تک بہنوں کو ان کے گھر کا نہ کرلوں شادی نہ کروں گا۔ مگر ہم بہنیں ہی پیچھے پڑ گئیں کہ بھائی ہمیں اپنے گھر میں پیاری سی بھابی دیکھنے کی چاہ ہے۔ بالآخر ہماری ضد سے انہوں نے ہار مان لی اور امی بڑے چائو سے بہو کو بیاہ لائیں۔ ہم بہنوں کی خوشی کا ٹھکانہ نہ تھا۔ چاند سی بھابی گھر لانے کا شوق کس کو نہیں ہوتا اور بھائی بھی ایسا کہ جس کے گن ہیروں جیسے ہوں۔ ذکیہ بھابی بہت خوبصورت تھیں۔ سلیقہ شعار، ہنس مکھ، ملنسار۔ ان کے آنے سے گھر میں چاندنی سی بھرگئی۔ رات کے اندھیرے میں بھی گھر میں دن کا اجالا محسوس ہوتا تھا۔ بہت جلد انہوں نے ہمارے دلوں میں گھر کرلیا۔ ہم نندوں کو وہ اپنی چھوٹی بہنیں سمجھتی تھیں۔ اور امی جان کو ماں کی جگہ جانتی تھیں۔ بھیا کی خدمت اور پیار و محبت کا اس قدر خیال رکھتی تھیں کہ میرے بھائی بھابی میں کھو کر گویا سارے جہان کو بھول جانا چاہتے تھے۔ بھائی ہمہ وقت بیوی میں کھوئے رہنے لگے۔ پہلے ان کا معمول تھا جب گھر آتے سیدھے امی جان کے کمرے میں آتے۔ اب آتے ہی اپنے کمرے کا رخ کرتے۔ جہاں بھابی بیٹھی ہوتیں۔ تنخواہ آدھی سے زیادہ دلہن کے چائو چونچلوں میں خرچ ہونے لگی۔ اب کھانے کی میز پر ہم سب بیٹھتے تو ہمیں نظر انداز کرکے بس ذکیہ ذکیہ کی رٹ لگا دیتے۔ امی کبھی کہتیں کہ اشعر بیٹا ذرا آپے میں رہو ایسے بیوی کے دیوانے بنوگے تو لوگ زن مرید کہنے لگیں گے۔ سارے خاندان میں تمہاری بردباری اور سمجھ داری مشہور ہے۔ رشتے دار اس حال میں تمہیں دیکھیں گے تو سو طرح کی باتیں بنائیں گے۔ مگر بھائی جان پر تو اپنی دلہن کا ایسا جادو چل گیا تھا جو سر چڑھ کر بول رہا تھا۔ انہیں اپنا ہوش رہا اور نہ ہمارا۔ ذرا ذرا سی بات پر بیوی کی خاطر ہم بہنوں سے الجھنے لگے۔ کئی بار امی جان سے گستاخی کر ڈالی۔ ان باتوں سے ہمارا دل بھابی جان سے برا ہوگیا۔ حالانکہ ہمیں ان سے تو کوئی شکایت نہ تھی۔ وہ ہمارے ساتھ اخلاق اور محبت سے پیش آتی تھیں۔ ہمارا بہت خیال رکھتی تھیں۔ کبھی انہوں نے امی جان کے سامنے زبان نہ کھولی۔ گھر میں کبھی کسی کی دل آزاری نہیں کی۔ جب کبھی بھائی ان کو شاپنگ کے لئے لے جاتے ہمارے لئے بھی کچھ نہ کچھ ضرور خرید کر لاتیں لیکن ہم کیا کرتے، جب بھائی کا رویہ ہم سے بدل گیا اور ہم پیار کے دو بول سننے کو بھی ترس گئے۔ تب ان سے جی برا ہونا ہی تھا۔ رفتہ رفتہ گھر میں کھنچائو بڑھنے لگا۔ بھابی جان اپنے دل میں ہمارے لئے محبت کا جام بھر کے لاتیں، ہم منہ پھیر لیتے۔ وہ حیرت سے ہماری طرف دیکھتیں اور میں سوچتی کتنی چالاک عورت ہے۔ خود اچھی بنی ہوئی ہے اور ہمارے بھائی کو ہم سے چھین لیا ہے۔ اس طرح کہ بھیا ہماری نظروں میں برے بن کر رہ گئے ہیں۔ وہ بھائی کہ جن کی محبت کا ہم دم بھرتے تھے۔ بھلا ان کے لئے ہمارے دل میں برائی آسکتی تھی۔ برائی آئی تو بھابی کی طرف سے ہی ہمارے دلوں میں آئی۔ تبھی سب نے بھابی کا سوشل بائیکاٹ کر ڈالا۔ یہی نہیں ان کے ساتھ بدسلوکی ہونے لگی۔ جس کا بس چلتا طعنے سے کام لیتا لیکن ذکیہ بھابی نے ہر کسی کا سلوک تحمل سے برداشت کیا۔ اندر ہی اندر ہمارے دل جل کر کوئلہ ہو کر رہ گئے۔ ہمیں بھائی کی پہلے جیسی محبت اور توجہ نصیب نہ رہی تھی۔ آخر ہم بہنوں نے باہم مشورہ کیا کہ جب تک بھائی کا دل بھابی کی طرف سے میلا نہ ہوگا۔ وہ کسی صورت ہمارے نہ بن سکیں گے۔ جلد ہی ہمیں اسی منصوبے پر عمل پیرا ہونے کا موقع بھی ہاتھ آگیا۔ انہی دنوں ایک روز بھابی کے چچازاد بھائی ان کے میکے سے ایک سندیسہ لے کر آئے۔ جس وقت وہ آئے بھیا آفس جانے کے لئے تیار ہوچکے تھے۔ کہنے لگے، ذکیہ اپنے مہمان کی اچھی طرح خاطر مدارات کرنا۔ میں آفس سے واپس آکر محمود بھائی سے گپ شپ کروں گا۔ ابھی میں جلدی میں ہوں۔ یہ کہہ کر بھائی جان، محمود کو چھوڑ کر چلے گئے۔ بھابی کے کزن محمود کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا وہ انہوں نے ذکیہ بھابی کو دیا اور بولے چھوٹی بہن کی شادی کا بلاوا ہے ضرور آنا ہوگا۔ بھابی نے وعدہ کرلیا۔ وقت کم تھا محمود، اشعر بھائی کی واپسی کانتظارکئے بغیر چلے گئے۔ ذکیہ بھابی غسل خانے میں تھیں جب میں نے ان کی سنگھار میز پر لفافہ رکھا دیکھا، کھولا تو ان کی امی کی طرف سے خط تھا۔ تاکید کی گئی تھی کہ شادی میں اپنی ساس نندوں کو بھی ضرور لانا۔ میں نے وہ خط نکال لیا اور اس کی جگہ اپنی گھر آئی سہیلی سے ایک خط لکھوایا جو بھابی کے کزن کی طرف سے لکھا گیا تھا۔ اس میں ماضی کی محبت کا افسانہ تھا۔ لفافہ میں نے بھائی جان کی ایک کتاب میں رکھ کر اس کتاب کو میز کے نیچے ڈال دیا۔ یہ میز ہمیشہ بھائی جان اور بھابی کی مسہری کے داہنی جانب رکھی رہتی تھی۔ اور بھائی جان اکثر رات کے وقت لکھنے پڑھنے کا کام اسی میز پر بیٹھ کر کرتے تھے۔ وہ دن گزر گیا، بھائی کو بھابی جان نے بتایا محمود شادی کا بلاوا دینے آئے تھے۔ لفافے میں امی جان کا دستی خط بھی تھا پھر وہ خط انہوں نے میز پر سرسری طور پر ڈھونڈا بھی مگر انہیں نہیں ملا۔ دوسرے دن شام کو بھابی جان اپنی سہیلی سلمٰی کے ہاں چلی گئیں۔ بھائی کی عادت تھی شام کو چائے اپنے بستر پر نیم دراز ہوکر پیتے تھے اور کسی نہ کسی کتاب کی ورق گردانی کرتے جاتے تھے۔ شام کی چائے میں ہی انہیں دیا کرتی تھی۔ اس روز جب میں انہیں چائے دینے گئی تو پیالی ان کو تھما کر دانستہ زمین پر جھک کر کچھ ڈھونڈنے لگی وہ بولے۔ کیا ڈھونڈ رہی ہو میں نے کہا کچھ نہیں بھابی کی لپ اسٹک گری ہوئی تھی وہی اٹھا رہی تھی۔ اسی دوران میں نے فرش پر گری کتاب اٹھاکر ان کے سامنے تپائی پر رکھ دی اور کمرے سے نکل گئی۔ وہ کتاب اٹھاکر ورق گردانی کرنے لگے۔ رات کو بھابی آئیں، حسب معمول بھائی اور بھابی نے ہمارے ساتھ کھانا کھایا۔ تاہم سبھی نے محسوس کیا کہ بھائی جان چپ چپ ہیں۔ وہ ذکیہ بھابی سے ہنسی مذاق بھی نہیں کررہے تھے۔ اندازہ کرلیا کہ تیر نشانے پر بیٹھا ہے، آج پہلی بار میرا بھائی اپنی بیوی کو بری طرح نظرانداز کررہا تھا۔ اس رات پھر جھگڑا شروع ہوگیا۔ بھائی کچھ کہے جارہے تھے اور بھابی رو رہیں تھیں۔ سسکیوں کی آواز ہم سب نے سنی مگر کوئی ان کے کمرے تک نہیں گیا۔ شادی کے بعد یہ ان کی پہلی لڑائی تھی۔ میاں بیوی کا معاملہ تھا بھلا کوئی کیوں مداخلت کرتا۔ لیکن بات یہ نہ تھی اصل بات تو یہ تھی کہ بھابی کی سسکیاں آج ہم سب کے دلوں کو راحت بخش رہی تھیں۔ اس کے بعد تو جیسے مہکتے ہوئے چمن میں آگ ہی لگ گئی، بھابی کا پھول کی طرح کھلا ہوا چہرہ مرجھا کر رہ گیا اور بھیا چپ چپ رہنے لگے۔ اب وہ دفتر سے آتے ہی سیدھے ہمارے کمرے میں آجاتے۔ ہم سے ہنستے بولتے پہلے کی طرح امی جان کے گلے میں بانہیں ڈال دیتے۔ جونہی بھابی آجاتیں، چپ ہوجاتے۔ تیوری پر بل پڑ جاتے تو بھابی جان تلملا کر رہ جاتیں۔ میں جی ہی جی میں خوش ہوتی کہ اب آیا مزہ کہ محبت چھن جائے تو کیسی تکلیف ہوتی ہے۔ ہم سے ہمارا بھائی چھین کر ذرا بھی خیال نہ آتا تھا کہ ہمارے دلوں پر کیا گزرتی ہوگی۔ ایک روز پھر ہنگامہ ہوا پتہ چلا کہ اشعر بھائی نے اپنی بیوی پر محمود سے ماضی میں محبت کا الزام لگایا ہے اور شک کا کھلم کھلا اظہار کردیا ہے۔ بھابی نے قرآن پاک اٹھا کر یقین دلایا کہ یہ سب جھوٹ ہے، بہتان ہے۔ لیکن وہ یہی سوال کرتے تھے کہ پھر یہ خط کہاں سے آیا ہے مگر بھابی کے پاس اس بات کا کوئی جواب نہ تھا۔ بھابی کیسے یہ کہہ دیتیں کہ تمہاری اماں بہنوں نے ایسا کیا ہوگا بھلا یہ بات سننی اشعر بھائی کو کب گوارا ہوتی۔ جوں توں کرکے بھابی اپنی اجڑی ہوئی خوشی کے دن تمام کرنے لگیں۔ ہزار بار قسمیں کھالیں لیکن بھائی کا دل پہلے جیسا صاف نہ ہوسکا۔ عجب اتفاق کہ انہی دنوں ناصر نے مجھے مجبور کیا میں رات کو اس سے ملوں۔ ناصر ہمارے پڑوس میں رہتا تھا۔ اس کے اور ہمارے گھر کی چھت سے چھت ملی ہوئی تھی۔ وہ بچپن سے مجھے پسند کرتا تھا اور ہمیشہ میری توجہ حاصل کرنے کی کوشش میں رہتا تھا۔ بالآخر میں بھی اس کی جانب ملتفت ہو ہی گئی اور وہ مجھے اچھا لگنے لگا۔ یہاں تک کہ ہم دونوں نے ساتھ جینے مرنے کی قسمیں بھی کھائی تھیں۔ لیکن اس بارے میں ہمارے گھر والوں کو کچھ معلوم نہیں تھا۔ معلوم ہو جاتا تو کم ازکم میری تو شامت آجاتی۔ دن میں تو کسی نہ کسی بہانے اپنی سہیلی کی مدد سے مل لیا کرتی تھی مگر رات کو ملنے کا یہ پہلا موقع تھا۔ ناصر نے کہا کہ تم چھت پر آجانا اور میں اپنی چھت سے پھلانگ کر تمہاری چھت پر آجائوں گا۔ رات کے بارہ بجے میں چھت پر پہنچی، وہ میرا منتظر تھا۔ ہم دنیا و مافیہا سے بے خبر اپنی باتوں میں گم ہوگئے۔ مجھے خبر نہ ہوئی کہ کب بھابی وہاں پر آگئیں۔ ہوش تب آیا جب ہم نے انہیں اپنے سامنے پایا۔ کہنے لگیں تمہارے بھائی آرہے ہیں ناصر جلدی سے اپنی چھت پر واپس چلے جائو۔ تبھی وہ فوراً منڈیر سے دوسری جانب کود گیا۔ بھابی مجھ سے بات کر ہی رہی تھیں کہ بھائی اوپر آگئے۔ کہنے لگے آج بڑی گرمی ہے چھت پر سونے کو جی چاہتا ہے۔ مگر شبانہ تم یہاں کیسے اس پر بھابی نے جواب دیا یہ جاگ رہی تھی مجھ سے بستر اٹھایا نہ جارہا تھا۔ میں نے کہا تھا کہ بستر لے چلو میں پانی وغیرہ لئے چلتی ہوں۔ میں تو گھبرائی سی جلدی سے نیچے آگئی۔ رات بہت دیر تک سوچتی رہی کہ اگر بھابی نے پردہ رکھ نہ لیا ہوتا تو بھائی جان میرا کیا حشر کرتے صبح بھابی نے بتایا کہ تم لڑکیاں آنگن میں سو رہی تھیں تبھی ہم دونوں نے چھت پر سونے کا فیصلہ کیا تھا۔ کیا خبر تھی کہ تم اور ناصر اوپر ہو۔ میں نے ہاتھ جوڑ کر بھابی سے منت کی اور معافی مانگی۔ دل نے ان کی عظمت کو سلام کیا کہ انہوں نے میری خطا کا پردہ فاش نہیں کیا اور مجھے اپنے پیارے بھائی کی نظروں میں گرنے سے بچالیا۔ ورنہ میں عمر بھر ان کو منہ دکھانے کے قابل نہ رہتی۔ گوکہ بھابی جان کو پہلے ہی اندازہ تھا کہ یہ خط والی حرکت بھی میری ہی تھی، پھر بھی انہوں نے تحمل سے کام لیا اور موقع ملنے کے باوجود میری اس گری ہوئی حرکت کا بدلہ مجھ سے نہ لیا۔ یہی نہیں بلکہ بھابی نے بعد میں اپنی کوششوں سے میری شادی ناصر سے کرا دی۔ اب میرا ضمیر مجھے پریشان رکھتا تھا، تبھی ایک دن میں نے اپنی بھابی پر سے الزام دھو ڈالا اور بھائی کو صاف صاف بتادیا کہ اس دن کتاب میں خط میں نے ہی رکھا تھا۔ کیونکہ میں اپنے بھائی کی محبت حاصل کرنا چاہتی تھی۔ یہ بتاکر خوب روئی کہ میرا ارادہ ان کا گھر اجاڑنا نہیں صرف ان کی کھوئی ہوئی محبت حاصل کرنا تھا۔ بھائی نے کہا بھابی سے معافی مانگو جب بھابی نے معاف کردیا تو بھیا نے بھی معاف کردیا۔ کیونکہ وہ جانتے تھے کہ محبت اور جنگ میں ایسا بھی ہوتا ہے۔ البتہ بھابی نے کہا تھا کہ خدا کی مہربانی تھی کہ میرا گھر اجڑنے سے بچ گیا ورنہ نادانی میں تم نے تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ سچ ہے کہ انسان کا دل شک کا گھروندا ہے۔ دل کے شیشے میں اگر ایک بار بال آجائے تو کبھی جاتا نہیں۔ خاص طور پر شوہر اور بیوی کے درمیان اعتبار کا پل اگر گر جائے تب زندگی برباد اور تباہی لازم ہوجاتی ہے۔ صد شکر کہ اللہ تعالٰی نے بھائی اور بھابی کو تحمل عطا کیا کہ وہ اجڑنے سے بچ گئے، ورنہ شاید میں خود کو کبھی معاف نہ کرپاتی۔ ش ملتان
null
null
null
null
489
https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-27/
وہ کیسے بھوریا چرن۔ میں نے خود کو سنبھال کر پوچھا۔ بتائیں گے سسر۔ سب کچھ بتائیں گے، تجھے بھی تو کچھ دکھ ہو، تو بھی تو ہماری طرح کلسے۔ بتائو بھوریا چرن۔ دیوتا بن رہے تھے مہاراج مہان پرش بن رہے تھے، سنسار کو دکھوں سے دور کرنے جا رہے تھے، اپنے دین دھرم کے بارے میں کچھ جانتے ہو۔ تم جانتے ہو کیوں نہیں ہمیں سب سے پہلے دشمنوں سے ہوشیار رہنے کی سکھشا دی جاتی ہے اس کے لیے دوسرے دھرموں کے بارے میں جاننا ہوتا ہے۔ میرے دین کے بارے میں تم کیا جانتے ہو جتنا جانتے ہیں وہ تجھ سے زیادہ ہے۔ تیرے دھرم میں ایک نکتہ ہے، سب سے بڑی چیز ایک نکتہ ہے۔ وہ کیا ساری ہم سے پوچھ لے گا کیوں بتائیں تجھے۔ اس لیے کہ تم نے میرے دین کو جاننے کا دعویٰ کیا ہے۔ میں نے کہا۔ ہاں ہم جانتے ہیں نکتے کی بات بالکل ٹھیک کہی ہم نے، تیرے دھرم میں واسنائوں کی گنجائش نہیں، نفس کی موت کو پہلا درجہ حاصل ہے اور جو نفس کے جال میں پھنسا ڈوب گیا، تجھے ڈبونا ضروری ہو گیا تھا ہمارے لیے دھن کے چکر سے تو نکل گیا، سندر ناریاں تجھے متاثر نہیں کر سکتی تھیں اور ہمارا کام اس سمے تک نہیں بن سکتا تھا جب تک تو ایسے کسی پھیر میں نہ پڑے۔ سو ہم لگے رہے تیری تاک میں اور موقع مل گیا ہمیں، بڑا دین دیال بنا ہوا تھا تو اور لوگوں کے بڑے کام آ رہا تھا، ہم نے حساب کتاب لگایا اور کام میں مصروف ہو گئے، بائولے وہ مٹکا جو تجھے درخت کی جڑ میں نظر آیا تھا کسی کا دبایا ہوا خزانہ نہیں تھا وہ تو ہم نے سونے کی مہروں سے بھر کر وہاں گاڑ دیا تھا سو تجھے وہ نظر آ گیا، وہیں پر ہمارا کام بن گیا، تو وہ نکتہ بھول بیٹھا، تجھے بتایا گیا تھا یاد ہے نا تجھ سے کہا گیا تھا کہ پہلا کام انسانوں کے کام آنا ہے، دوسرا کام اپنے نفس کو مار کر اپنی منزل کی تلاش۔ اس کے بغیر مہانتا مکمل نہیں ہوتی، اگر تو اپنی خواہشوں کے جال میں پھنس گیا تو کچھ نہیں حاصل کر سکے گا اس سنسار میں۔ بول یہی بتایا گیا تھا ناں تجھے سو یوں ہوا کہ تو نے دیکھا اس آدمی الیاس خان کو اور تجھے یاد آ گئے اپنے ماماجی۔ ارے ہم نے سوچا کہ اس سے بڑھیا موقع ملنا تو ممکن ہی نہیں ہے۔ ماما جی کے پھیر میں تو لمبے سے لمبے پھیر میں پڑ سکتا ہے اور بات بن گئی بھیا ہماری۔ سونے کا وہ مٹکا تو نے الیاس خان کو دے دیا اس لیے کہ وہ تیرے ماما جی کا پتا تجھے بتا دے، بس کام تو وہیں سے ہو گیا تھا ہمارا۔ تو خود سوچ دھرتی تو بہت بڑی ہے نہ جانے کتنے خزانے بھرے ہوئے ہیں اس دھرتی میں اور سب کے سب آ جاتے تیری آنکھوں میں کیونکہ تجھے آہستہ آہستہ روشنی مل رہی تھی تو تو بہت بڑا بن جاتا بھائی مگر راستے روکنا ہی تھے سو تو نے وہی کیا جو ہم نے چاہا اور نکل گیا تو ان پابندیوں سے جو تجھ پر قائم کی گئی تھیں بس ایک کے بعد ایک، ہمارا کام بنتا رہا اور پھر بن گئے ہم تیرے ماما جی۔ تم میں خوف سے آنکھیں پھاڑ کر بولا۔ ہاں رے اس سمے تو یہی سب کچھ کرنا تھا، لگا لائے تجھے اپنے پیچھے ہم اور سب کچھ بھول گیا تو جو کچھ تجھے دیا گیا تھا اسے بھول کر تو پڑ گیا اپنے ماماجی کے پھیر میں، ماتا پتا کے جال میں اور یہی ہم چاہتے تھے اور یہ جگہ اب جہاں تو آیا ہے، کہلاتی ہے بیر منڈل۔ یہاں سارے کے سارے ہمارے بیر رہتے ہیں۔ وہ مکڑیاں جو تیرے ماما جی کی لاش سے چمٹی ہوئی تھیں، تیرا کیا خیال ہے مار دیں تو نے، ارے جا بائولے بیر کہیں مرتے ہیں وہ تو اپنا کام کر رہے تھے ہمارے کہنے سے اور پھر ہم نے وہ خون تیرے شریر میں اتار دیا جو ہم نے سات پورن ماشیاں منتر پڑھ پڑھ کر تیار کیا تھا۔ سترہ آدمیوں کا خون جنہیں ہم نے اپنے ہاتھوں سے مارا تھا اور جن پر سات پورن ماشیاں منتر پڑھا تھا ہم نے، کالے جادو کا وہ سب سے بڑا منتر جس سے بڑا منتر اور کوئی نہیں ہوتا اور جو ایک شنکھا ہی کو معلوم ہوتا ہے بس وہ خون پانی سمجھ کر پی لیا تو نے اور تیرے اندر سے سب کچھ صاف ہو گیا، کچھ نہیں ہے اب تیرے پاس، سمجھا، تو ایک کورے مٹکے کی طرح ہے جو اندر سے خالی ہے اور کورا ہے۔ یقین نہ آئے تو آزما لے اپنی کسی بھی بات کو۔ ارے پاگل تیری ساری تپسیا ایک لمحے میں ختم ہو گئی، اس طرح کم از کم ہمارا ایک کام تو بنا، ایک کام سے تو فارغ ہوئے ہم، نہ تو اپنے دھرم کا رہا اور نہ اس سنسار کا اب جا بھاڑ چولہے میں ہمارا کام کر دیتا تو بہت کچھ مل جاتا، نہیں کیا تو ہمارا کیا بگاڑ لیا ہم شنکھا تو ہیں نا مگر تو کیا ہے، تو کیا رہ گیا اب اگر کہے تو کتا بنا کر باہر نکال دیں تجھے یہاں سے۔ بول کیا کریں تیرے ساتھ میں بھوریا چرن کو دیکھتا رہا جو کچھ اس نے بتایا تھا، دل میں اتر رہا تھا۔ کمبخت اپنے مقصد میں کامیاب ہو گیا تھا، نہ جانے کیا کیا جتن کئے اس نے اپنے کام کے لیے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ اس کا کہنا بالکل درست تھا۔ ایک نکتہ صرف ایک نکتہ ہی تو اصل حیات ہوتا ہے۔ بڑے بڑے عالم دین، بڑے بڑے ولی، درویش، قلندر اپنے آپ کو تیاگ کر کچھ حاصل کرتے ہیں۔ اپنی خواہشوں کے آگے سر جھکا دیا، اپنی محبتوں کے ہاتھوں دیوانے ہو گئے تو پھر کیا باقی رہ گیا۔ عام انسان بھی تو یہی سب کچھ کرتا ہے۔ میرا تو آزمائشی دور تھا اور میں اس امتحان میں نامکمل رہ گیا۔ میں نے وہ نعمتیں ٹھکرا دیں جو مجھے دی گئی تھیں، اتنی ساری نعمتیں دے کر صرف ایک ہدایت کی گئی تھی مجھے کہ اپنی خواہشوں کا غلام نہ بنوں، وہ نہ مانگوں جن کا دینا ابھی آسمانوں میں منظور نہیں ہوا ہے لیکن کر ڈالا میں نے وہ سب کچھ ماموں ریاض کے چکر میں پڑ کر وہ کمبل بھی وہیں چھوڑ آیا جس نے میری آنکھوں کو روشن کر دیا تھا، جس نے میرے دل و دماغ کو منور کر دیا تھا۔ بھوریا چرن قہقہے لگانے لگا۔ پھر بولا۔ اور اب جا مر اس سنسار میں۔ جا دیکھوں آگے تو کیا کرتا ہے، چھوڑوں گا نہیں تجھے پاپی، ہتھیارے تو نے میرے راستے روکے ہیں، میں سنسار کے سارے راستے تجھ پر بند کر دوں گا، چل بھاگ رے یہاں سے اب تو مٹی کا ڈھیر ہے میرے لیے کچھ نہیں رہا۔ میں گردن جھکائے وہاں سے واپس پلٹ پڑا۔ اندر سے یہ احساس ہو رہا تھا کہ درحقیقت خالی ہو چکا ہوں اور اب کچھ نہیں ہے میرے پاس۔ ایک بار پھر یہ دنیا میرے لیے امتحان گاہ بن گئی تھی اور اس بار میں نے خود کو اس امتحان میں ڈالا تھا، بلاشبہ یہی ہوا تھا یہی سب کچھ ہوا تھا آہ میں نے اپنے ہاتھوں اپنے منصب گنوا دیئے تھے، یہ میرا گناہ تھا صرف میرا گناہ اس میں کسی کا قصور نہیں تھا، مجھے تو جگہ جگہ سمجھایا گیا تھا، مجھ سے کہا گیا تھا کہ پہلے پھل چکھوں پھر کھانے کو ملے گا۔ بھوریا چرن نے بالکل درست کہا تھا میرا مذہب سچا ہے، انہیں چھوٹ ہے جو کچھ نہیں جانتے لیکن جو واقف ہوں ان پر ذمہ داری ہوتی ہے۔ مجھے بتایا گیا تھا مگر میں نے اپنی خواہشوں کو اوّل قرار دیا، اس بار سارے راستے کھلے ہوئے تھے۔ میں باہر نکل آیا۔ باہر گہری رات چھا چکی تھی نہ جانے کیا بج گیا تھا، چاروں طرف ہُو کا عالم طاری تھا، جگہ جگہ درخت بکھرے ہوئے تھے۔ میں آگے بڑھتا رہا کچھ سوچے بغیر اب تو کچھ سوچنے کی ہمت بھی نہیں تھی۔ کچھ فاصلے پر دریا کا شور ابھر رہا تھا۔ آواز میرے کانوں تک آ رہی تھی مگر احساس کچھ نہیں تھا۔ تھک گیا تو جہاں تھا وہیں لیٹ گیا، وہیں سو گیا، خوب گہری نیند آ گئی تھی۔ صبح کو اس وقت جاگا جب کہیں دور سے اذان کی آواز سنائی دی۔ اس آواز نے اعضا میں تھرتھری سی پیدا کر دی۔ بے اختیار اٹھ گیا، دماغ کھویا کھویا سا تھا، دل کچھ چاہ رہا تھا، اعضا کچھ طلب کر رہے تھے مگر کیا یاد نہیں آ رہا تھا۔ کھڑا ہو گیا اسی جگہ کھڑا ہو گیا، دونوں ہاتھ نیت کے انداز میں بندھ گئے مگر اب اب کیا کروں آہ اب کیا کروں کچھ یاد نہیں آ رہا تھا، کچھ بھی یاد نہیں آ رہا تھا، بہت کوشش کی مگر سب کچھ بھول گیا تھا، جھکا پھر گھٹنوں کے بل بیٹھ کر سجدے میں گر پڑا، آنکھوں سے آنسو ابل پڑے، بلک بلک کر رونے لگا، بھول جانے کا غم تھا، یاد کرنا چاہ رہا تھا مگر یادداشت ساتھ چھوڑ چکی تھی، سارے آنسو بہہ گئے، آنکھیں خشک ہو گئیں تو اٹھ کھڑا ہوا، کانوں میں ایک آواز ابھری۔ گیا شیطان مارا ایک سجدے کے نہ کرنے سے اگر لاکھوں برس سجدے میں سر مارا تو کیا مارا میری عمر ہی کیا ہے آہ چند لمحے میری بخشش کا ذریعہ تو نہیں بن سکیں گے مگر یہ زندگی جو ایک سزا ہے، یہ تو میرے لیے مزید گناہوں کا باعث بن جائے گی مزید گناہ نہیں اور گناہ نہیں اور گناہ نہیں اس سزا کو ختم ہو جانا چاہیے، برائی میرے لیے نہیں ہے، میں برائی کے قابل نہیں ہوں اور گناہ کرنے کے لیے مجھے اس دنیا میں نہیں رہنا چاہیے، مر جانا چاہیے مجھے مر جانا چاہیے ہاں مجھے مر جانا چاہیے۔ میں نے وحشت ناک نظروں سے چاروں طرف دیکھا پھر میری سماعت نے مجھے اس شور کی طرف متوجہ کیا جو مجھ سے زیادہ فاصلے پر نہیں تھا۔ میرے قدم تیزوتند دریا کی طرف بڑھ گئے۔ میں عالم بے خودی میں اس طرف چل پڑا۔ وسیع و عریض چوڑا پاٹ میرے سامنے تھا۔ پانی برق رفتاری سے اپنا سفر طے کر رہا تھا، مٹیالی لہریں جھاگ اڑا رہی تھیں۔ میں دریا میں اتر گیا، آگے اور آگے اور آگے اور پھر پانی نے میرا وزن سنبھال لیا، ایسی پٹخی لگائی کہ سر نیچے، پائوں اوپر ہو گئے، دوسری پٹخنی اور اس کے بعد تاریکی گہری اور پرسکون تاریکی پھر روشنی دھندلی روشنی پھر ایک آواز۔ ہل رہا ہے کاکا ہل رہا ہے کراہ بھی رہا ہے۔ ماتھو ارے دیکھ بٹو اوکا ہوس آئے رہے۔ آت رہیں کاکا ابھو آت رہیں۔ اب کا کرت ہے جانکی۔ آنکھیں پٹپٹا رہا ہے۔ ہیں اب آئی سسروا کو ہوس اری جانکی دودھ گرم کر لئی ہے کا ہاں کاکا ہنڈیا چولہے پر رکھی ہے۔ بھر دو کٹورے ماں وید جی اے ہی کہہ گئے تھے، جاری جلدی کر یہ ساری باتیں سن رہا تھا۔ ہوش میں تھا، سوچ رہا تھا کہ اب کہاں ہوں، یہ بھی یاد آ گیا کہ دریا میں کود کر جان دینا چاہی تھی۔ یہ بھی سمجھ میں آ گیا تھا کہ موت نے قبول نہیں کیا ہے۔ یہ بھی یاد تھا کہ مسعود احمد نام ہے میرا اور بھوریا چرن بھی یاد تھا۔ کہاں ہوس آئی کاکا۔ ایک مردانہ آواز سنائی دی۔ نا آئی۔ جانکی ہی بولت رہی۔ دوسری آواز نے کہا اور میں نے آنکھیں کھول دیں۔ اتنی دیر میں ایک لڑکی بڑا سا کٹورا لیے اندر آ گئی جس سے بھاپ اٹھ رہی تھی۔ نوجوان مجھے دیکھ کر مسکرا دیا پھر بولا۔ جائو کاکا دودھ کی کھس بو پڑتے ہی ہوس آ گئی انجائی کو۔ چل ببوا دودھ پی لے۔ اس نے سہارے سے مجھے اٹھاتے ہوئے کہا۔ سخت بھوکا تھا۔ لڑکی نے کٹورا میرے ہاتھ میں دیتے ہوئے اپنی اوڑھنی کا ایک حصہ گرم کٹورے کے نیچے رکھ دیا۔ باقی اوڑھنی اس کے شانوں پر تھی اور اسے نیچے اس طرح جھکنا پڑا تھا کہ اس کا چہرہ میرے عین سامنے آ گیا تھا۔ دودھ کا گھونٹ لیتے ہوئے میں نے اسے دیکھا سانولا سلونا چہرہ سادہ سے نقوش، انیس بیس سال کی عمر، جوانی کی تمازت سے تپتے ہوئے سانس، کاجل بھری آنکھوں میں دوڑتی زندگی۔ مجھے اپنی طرف دیکھتے پا کر آنکھیں جھکیں چہرے کا رنگ بدلا پھر آنکھیں اٹھیں، کڑے انداز میں مجھے دیکھا، پرکھا اور پھر جھک گئیں۔ ہونٹ آہستہ سے کپکپائے جیسے انہوں نے کچھ کہا ہو۔ مگر بے آواز۔ میں کچھ بدحواس ہو گیا مگر گرم دودھ کے دو بڑے گھونٹوں نے سنبھال لیا، آنتیں تک جل گئی تھیں۔ دودھ پیوت ہے کہ نا کاکا پھر بولا۔ ہرے سب ڈکوس گئی سسر۔ نوجوان نے ہنستے ہوئے کہا۔ لڑکی نے جلدی سے کٹورا میرے ہاتھ سے لے کر اپنی اوڑھنی سنبھال لی اور پھر کٹورا لیے باہر نکل گئی۔ میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا تھا۔ بہت سی لڑکیاں دیکھی تھیں، شکنتا نے مجھ سے اظہار عشق کیا تھا، کشنا میری دیوانی تھی، یہ لڑکی ان کے مقابلے میں کچھ نہیں تھی مگر نہ جانے دل اس کی طرف مائل کیوں ہو رہا تھا۔ وہ باہر نکل گئی تو اس کی جگہ کا جائزہ لیا، کچی مٹی کی دیواروں سے بنا کمرہ تھا۔ چھت پھونس کے چھپر سے بنی ہوئی تھی۔ تین چارپائیاں کل کائنات تھیں جن میں سے ایک پر ایک بوڑھا شخص بیٹھا تھا، وہ غالباً اندھا تھا، یہی احساس ہوا تھا۔ ہاں بھائی ٹیسو رام۔ اب بولو جمنا ماں کا کر رئے تھے۔ نوجوان نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔ جمنا میں ارے تو اور کا۔ کا اندر مہاراج کے رتھ ماں سیر کر رئے تھے۔ نہیں بس کنارے پر تھا پائوں پھسل گیا۔ بھلے پھسلے ببوا۔ اور ہم نا نکالتے تو مر جاتا۔ میں نے کہا اور ایک بیکس مسکراہٹ میرے ہونٹوں پر پھیل گئی۔ اس نے عجیب سی نظروں سے مجھے دیکھا۔ لیو کاکا۔ ببو مرن لیے گرے تھے جمنا ماں۔ کاہے ٹبؤ۔ جیون بھاری ہو گیا کا۔ ہاں چاچا۔ دکھی لاگو ہو۔ ارے نا تھورے۔ مہمان بنالو اپنا اسے جی بہل جائے تو جان دینا۔ ارے ای کہاں جائے رہے اب کاکا۔ ہم محنت کری ہے اس پر، ایسے کاہے جانے دیں گے سسروا کو۔ بس ٹھیک ہے۔ بوڑھے نے کہا۔ دھوبیوں کی آبادی تھی۔ جمنا گھاٹ پر آباد تھی۔ بستی کا نام تھا پوریا۔ کوئی سو گھر تھے پوری بستی میں۔ بوڑھے شخص کا نام راگھو تھا۔ بیٹے کا ناتھو اور لڑکی کا نام جانکی تھا۔ ناتھو گھاٹ پر چھیؤرام کر رہا تھا کہ میں بہتا ہوا اس کے سامنے سے گزرا اور اس نے مجھے نکال لیا۔ جانکی کی نگرانی میں پیٹھ پر لادھ کر مجھے اپنے جھونپڑے میں لے آیا۔ کچھ فاصلے پر ایک بڑا شہر تھا جہاں سے یہ لوگ بیل گاڑیوں پر گھروں کے کپڑے دھونے لاتے تھے اور پھر وقت پر انہیں ان کے مالکوں کے پاس پہنچا دیا کرتے تھے۔ سادہ سی زندگی۔ جو روکھا سوکھا ملا کھا لیا اور خوش۔ کیا عجیب بات ہے بس اسے تقدیر ہی کہا جا سکتا ہے۔ نمود ہوتی ہے اور کوئی طلب نہیں ہوتی کہ کون کہاں پیدا ہو۔ لیکن اس کے بعد کی کہانیاں انوکھی ہوتی ہیں۔ سادگی کی حد یہ تھی کہ مجھ سے میرا نام تک نہ پوچھا گیا اور ناتھو نے مجھے ٹیسو کہا تو سب اس نام سے پکارنے لگے۔ یہ بستی بڑی اچھی لگی تھی۔ میں یہاں رہ پڑا۔ کہاں جاتا، کیا طلب کرتا جو مانگا وہ گناہ بن گیا۔ اور اب یہ سوچا تھا کہ کچھ نہیں مانگوں گا جو ملے گا قبول کر لوں گا۔ بھول جائوں گا سب کو۔ کوئی فائدہ نہیں کسی کو یاد کرنے سے، وہ بھی مجھے بھول گئے ہوںگے۔ صبر کر لیا ہو گا، مجھے خدا کرے محمود اپنی کوشش میں کامیاب ہو جائے، خدا کرے اس کا ماں باپ سے رابطہ ہو جائے۔ خدا کرے میری بہن شمسہ اپنا مستقبل پا لے، میں تو ان کا قاتل تھا۔ اب کیا کروں گا ان کے پاس جا کر۔ جو چھن گیا تھا وہ نہیں ملا تھا۔ آہ جب بھی وقت ملتا جب دوسروں کی نظروں سے محفوظ ہوتا قبلہ رو کھڑا ہو جاتا، ہاتھ باندھ لیتا پھر سجدے میں چلا جاتا لیکن جو چھن گیا تھا یاد نہ آتا۔ ایسے لمحوں میں ذہن سو جاتا تھا۔ راگھو بابا۔ میں کپڑے دھوئوں گا۔ کاہے بٹؤ اسی بستی میں رہوں گا میں۔ رہو بٹؤ تمہارا کھاتا رہوں۔ سو کا ہے۔ ٹھیک تو کہے ہے کاکا۔ دئی مٹی ہو جاوے گی۔ کام کرنے دے اسے۔ ناتھو نے کہا اور وہ میرا استاد بن گیا۔ میں اس کے ساتھ کپڑے دھونے لگا۔ اس کا کام بڑھ گیا تھا۔ ایک دن جانکی نے شرماتے ہوئے کہا۔ کچھ معلوم ہے تجھے ٹیسوا۔ کیا کاکا اور بھیا ہمارے بیاہ کی بات کر رہے تھے۔ کاکا کہہ رہا تھا کہ چھورا بڑھیا ہے، کام بھی کرے ہے۔ جانکی کے ساتھ پھیرے کرا دیں اس کے چوکھا رہے گا۔ میرے ہاتھ رک گئے۔ میں عجیب سی نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔ جانکی مجھے اچھی لگتی تھی، اس کی قربت سے ایک نشہ سا چھایا رہتا مجھ پر۔ وہ بھی میرا بہت خیال رکھتی تھی، مجھے چاہتی تھی جس کا صاف اظہار ہوتا تھا مگر وہ میری ہم مذہب نہیں تھی۔ کچھ بھی تھا، مجھے اپنا نام یاد تھا، اپنا مذہب یاد تھا اور مجھے اس سے محبت تھی۔ جو کچھ مجھ سے چھن گیا تھا وہ میری بدقسمتی تھی لیکن باقی سب کیا کیا خود کو بھول جائوں۔ جانکی نے کہا۔ کیا سوچنے لگا۔ کچھ نہیں جانکی۔ اپنے یاد آ رہے ہوں گے۔ ہاں سب کچھ بھلا دوں گی تجھے۔ سب کچھ۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا مگر میں بہت بے چین ہو گیا تھا۔ اس رات میں بہت بے کل تھا۔ ساری رات بے کلی میں گزری۔ صبح کو اٹھا۔ دل کی بے چینی کسی طور دور نہیں ہو رہی تھی۔ ایک گوشہ تلاش کیا اور بے کسی سے کھڑا ہو گیا، ہاتھ باندھ لیے پھر سجدے میں گر گیا۔ بہت دیر گزر گئی، چہرہ آنسوئوں سے بھیگا ہوا تھا۔ اٹھا تو ناتھو پر نظر پڑی۔ وہ اچنبھے سے مجھے گھور رہا تھا۔ اس کے منہ سے سرسراتی آواز نکلی۔ کیا تو مسلمان ہے پورا وجود مجسم آواز بن گیا۔ رُواں رُواں پکارنے لگا۔ ہاں، ہاں، ہاں۔ اور یہ کہتے ہوئے جو سکون ملا تھا اس کی قیمت کائنات کے سارے خزانے نہیں تھے۔ یہ الفاظ میری گمشدہ بینائی تھے۔ مسلمان ہے تو۔ ناتھو نے اس بار کڑک کر پوچھا۔ ہاں میں مسلمان ہوں۔ میں مسلمان ہوں۔ میں نے عجیب سی کیفیت میں کہا۔ ہم کا دھوکا کاہے دیت رہے تے۔ ہمارے سامنے ٹیسو کاہے بنا رہے۔ نہیں ناتھو۔ نہیں۔ میں کچھ نہیں بنا۔ میں تو مصیبت کا مارا ہوں ناتھو میں نے تو میں نے تو ہمار بہنیا سے بیاہ کرنے لاگا تھا تے۔ ارے ہم سب کی آنکھن ما دُھول جھونک رہے رے۔ ناتھو، تم لوگوں نے جمنا سے مجھے اس وقت نکالا جب میں بیہوش تھا۔ میں تو خود اپنی زندگی ختم کرنے کے لیے دریا میں گرا تھا، میں کسی اور کو اپنی زندگی میں شامل کیسے کر سکتا ہوں۔ تمہیں معلوم ہے ناتھو، تم جانتے ہو کہ مجھے اس بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ کل جانکی نے مجھے بتایا کہ تم لوگ ایسا سوچ رہے ہو۔ میں ایسا کبھی نہ کرتا۔ اپنے اُوپر احسان کرنے والوں کو میں کبھی دھوکا نہ دیتا۔ اگر میں تمہیں حقیقت نہ بتاتا تو کم از کم یہاں سے چلا جاتا۔ اور جانکی سے بیاہ نہ کرتا۔ کبھی نہیں ناتھو، کبھی نہیں۔ ناتھو میرا چہرہ دیکھتا رہا۔ وہ ان سچائیوں پر غور کر رہا تھا، بات اس کی سمجھ میں آ گئی تھی۔ اس نے پریشانی سے سر ہلاتے ہوئے کہا۔ بڑی بکٹ بات ہوگئی رہے ٹیسوا۔ جانکی تیرے سپنے دیکھن لاگی رہے اس نے اپنی سکھیوں کو بھی بتا دیا ہے۔ اب بات برادری ما نکل جئی ہے تو ہم پر کرپا کر بیرا۔ کرپا کر ہم پر رے۔ تو یہاں سے چلا جا، چپ چاپ چلا جا۔ سب سوچیں گے کہ تے بھاگ گیا۔ ہم کہہ دئی ہے کہ تے ہمارے روپے لے کر بھاگ گیا۔ ہماری عجت بچ جئی ہے۔ لوگ تو کا برا بھلا کہہ کر کھاموس ہو جئی ہے۔ تیرا کچھ نا بگڑے گا۔ ہماری مان لے، ہماری عجت بچا لے بیرا۔ ناتھو نے ہاتھ جوڑ دیئے۔ میں جا رہا ہوں۔ ابھی جا رہا ہوں ناتھو میرے بھائی۔ تیری عزت مجھے زندگی سے زیادہ پیاری ہے۔ ابھی چلا جاتا ہوں میں۔ ابھی زیادہ وقت بھی نہیں گزرا ہے۔ میں نے اس کے جڑے ہوئے ہاتھ الگ کئے اور پھر وہاں سے آگے بڑھ گیا۔ وہ اپنی جگہ ساکت کھڑا تھا۔ میں نے پلٹ کر اسے نہیں دیکھا تھا۔ بستی بہت چھوٹی تھی۔ میں آخری مکان سے بھی گزر گیا، آگے کھیت بکھرے ہوئے تھے اِکّا دُکّا لوگ نظر آ رہے تھے کسی نے توجہ نہیں دی۔ میں نے رفتار تیز رکھی تھی کسی رُخ کا تعین نہیں کیا تھا۔ رُخ کدھر کرتا، کہاں جاتا۔ بس چل پڑا تھا، ناتھو اور دُوسرے دھوبی کسی بستی کا تذکرہ کرتے تھے کہتے تھے کوئی بڑا شہر ہے جہاں سے وہ کپڑے لاتے ہیں اور دھو کر ان کے مالکوں کو پہنچا دیتے ہیں۔ مگر میں نے کبھی اس شہر کے بارے میں کسی سے نہیں پوچھا تھا۔ اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا۔ چلتا رہا اس وقت صرف ناتھو رام کی عزت پیش نگاہ تھی اور کچھ نہیں سوچ رہا تھا۔ چلتے چلتے دوپہر ہوگئی۔ اب ویران جنگلوں کے سوا کچھ نہیں تھا، درخت نظر آ رہے تھے، پرندے پرواز کر رہے تھے، آسمان شفاف تھا، دُھوپ پھیلی ہوئی تھی۔ جب پیروں نے جواب دے دیا تو ایک درخت کے نیچے پناہ لی اور زمین پر بیٹھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ نیند تو نہیں آئی تھی البتہ نقاہت نے غنودگی طاری کر دی تھی، بدن کو سکون ملا۔ پچھلے کچھ دن آرام سے گزارے تھے اس لیے برداشت کی قوت میں کمی نہیں ہوئی تھی۔ سورج ڈھلے اُٹھا اور پھر چل پڑا۔ شام جھلک آئی اور پھر میں نے سیاہ رنگ کی ایک عمارت دیکھی۔ ٹوٹی دیواریں، بکھری ہوئی زمینوں کے ڈھیر، ایک بڑا سا گنبد۔ قدم اسی جانب بڑھ گئے۔ کچھ دیر کے بعد وہاں پہنچ گیا۔ کوئی قدیم مسجد تھی۔ سیڑھیاں تک سلامت نہیں تھیں۔ بڑا سا صحن تھا جو میری طرح اُدھڑا ہوا تھا۔ چاروں طرف پتّے بکھرے تھے۔ دل میں عقیدت کا ایک جذبہ اُبھر آیا۔ پیار اُبھر آیا یہ سب مجھ سے رُوٹھے ہوئے تھے۔ گناہ گار تو تھا میں لیکن لیکن مجھے پیار تھا اس احساس سے پیار تھا کہ میں مسلمان ہوں۔ کوئی ایسی چیز نظر نہیں آئی جس سے یہ صحن صاف کرتا۔ قمیض اُتاری اورصحن کی صفائی میں مصروف ہو گیا۔ وسیع و عریض صحن کو صاف کرتے کرتے اتنی دیر ہوگئی کہ رات ہوگئی۔ سوکھے پتّے سمیٹ کر میں نے مسجد کے پچھلے حصے میں پھینکے اور وہاں ایسے پتّوں کے انبار دیکھ کر حیران رہ گیا۔ یوں لگا جیسے کوئی باقاعدگی سے صحن صاف کر کے یہ پتّے یہاں پھینکتا ہو۔ نہ جانے کون، کچھ سمجھ میں نہیں آیا۔ زیادہ غور بھی نہیں کیا۔ اب کوئی کام نہیں تھا۔ سیڑھیوں کے پاس آ کر ایک جگہ صاف کی اور لیٹ گیا۔ بھوک لگ رہی تھی، دن بھر پیاس کی شدت بھی رہی تھی کہیں سے پانی بھی نہیں پیا تھا۔ بس چلتا رہا تھا اور یہاں آ کر اس مسجد کے پاس کام میں مصروف ہوگیا تھا۔ بھوک پیاس بے شک تھی لیکن اسے رفع کرنے کا کوئی ذریعہ سامنے نہیں آیا تھا۔ لیٹے لیٹے ایک بار پھر غنودگی کی سی کیفیت طاری ہوگئی اور شاید سو گیا۔ نجانے کتنا وقت گزرا تھا عالم ہوش میں نہیں تھا کہ دفعتاً کچھ آہٹیں سنائی دیں۔ شاید ان آہٹوں سے نہیں جاگا تھا کہ بلکہ کسی نے پائوں پکڑ کر جھنجھوڑا بھی تھا۔ چونک پڑا، اِدھر اُدھر دیکھا۔ تین چار آدمی نزدیک کھڑے ہوئے تھے۔ چاند نکلا ہوا تھا اور مسجد کا پورا ماحول روشن تھا ان میں سے ایک نے کہا۔ یہ سونے کی جگہ نہیں ہے میاں صاحب، یہاں کیوں سو رہے ہو، راستہ ہے گزر گاہ ہے۔ میں ہڑبڑا کر کھڑا ہو گیا اس ویرانے میں اس وقت مسجد میں آنے والے کون ہیں، جن لوگوں نے مجھے جگایا تھا، وہ آگے بڑھ گئے تھے۔ میں ادھر اُدھر نگاہیں دوڑانے لگا۔ سفید لباسوں میں ملبوس پاکیزہ نورانی چہرے والے بزرگ، نوجوان اور چھوٹی عمر کے لوگ جوق دَر جوق مسجد کی جانب آ رہے تھے اور اندر مسجد میں بڑا اہتمام تھا، میں پُرشوق انداز میں آگے بڑھ گیا۔ اس وقت یہ اجتماع کیوں ہوا ہے۔ یہ تجسس میرے دل میں جاگ اُٹھا تھا۔ لوگ صفیں بنا کر بیٹھے تھے، میں بھی ایک سمت بیٹھ گیا۔ سامنے ہی ایک منبر لگایا گیا تھا، پہلے یہاں موجود نہیں تھا، غالباً یہاں آنے والے اپنے ساتھ لائے تھے۔ میں نے قریب بیٹھے ہوئے ایک نوجوان آدمی سے جس کی داڑھی سیاہ تھی اور رنگ سفید تھا مدھم لہجے میں پوچھا۔ یہاں کیا ہو رہا ہے اس نے چونک کر مجھے دیکھا اور بولا۔ درس، کیا تم درس میں شرکت کے لیے نہیں آئے میں نے نہ سمجھنے والے انداز میں گردن ہلا دی تھی، پھر میں نے ایک معمر شخص کو دیکھا، ٹخنوں تک چغہ پہنا ہوا تھا۔ سر پر سفید عمامہ تھا۔ براق سفید داڑھی جو سینے تک لٹکی ہوئی تھی۔ بھنویں تک سفید تھیں، وہ منبر کی جانب بڑھے اور پھر منبر پر جا بیٹھے اور اس کے بعد انہوں نے وہاں موجود تمام لوگوں کو سلام کیا سب نے بلند آواز میں جواب دیا اور معمر بزرگ کہنے لگے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے آج تو مسجد پوری بھری ہوئی ہے سبھی آ گئے ہیں۔ جی امام صاحب، آج ایک عجیب واقعہ بھی ہوا ہے۔ ایک شخص نے کہا۔ کیا ہمارے آنے سے پہلے ہی کسی نے مسجد کا صحن صاف کر دیا ہے۔ جب ہم یہاں پہنچے تو صحن صاف ملا تھا۔ ہوگا کوئی بندئہ خدا، خدا کے بندے کہاں موجود نہیں ہوتے۔ ایک اجنبی شخص کو ہم نے سیڑھیوں کے پاس پڑے پایا، سو رہا تھا۔ غالباً اسی شخص نے صحن صاف کیا ہوگا۔ کہاں ہے وہ جن بزرگ کو امام صاحب کہہ کر پکارا گیا تھا انہوں نے اِدھر اُدھر دیکھتے ہوئے کہا اور پھر کسی کے بتائے بغیر ان کی نگاہیں میری جانب اُٹھ گئیں۔ فاصلہ کافی تھا لیکن مجھے یوں محسوس ہو رہا تھا جیسے ان آنکھوں سے روشنی کی ایک لکیر نکل کر آگے بڑھی ہو اور مجھ تک پہنچ گئی ہو۔ اس روشنی نے میرا احاطہ کرلیا تھا اور اس کے بعد مجھے امام صاحب کی گونج دار آواز سنائی دی تھی۔ آگے آئو۔ کون ہو تم مجھے یوں لگا جیسے کچھ نادیدہ ہاتھوں نے میری بغلوں میں ہاتھ ڈال کر مجھے اُٹھا کر کھڑا کیا ہو۔ قدم بھی خودبخود ہی آگے بڑھے تھے۔ درمیان میں آنے والوں نے مجھے امام صاحب تک پہنچنے کا راستہ دیا تھا اور میں وہاں تک پہنچ گیا تھا۔ جونہی میں امام صاحب کے قریب پہنچا، انہوں نے عمامے کا لٹکتا ہوا حصہ بائیں ہاتھ میں پکڑ کر ناک پر رکھ لیا۔ پیشانی پر ناگواری کی شکنیں نمودار ہوگئی تھیں۔ انہوں نے کڑی نگاہوں سے مجھے گھورتے ہوئے کہا۔ کون ہے تو، اور یہاں کیا کر رہا ہے میں نے بولنے کی کوشش کی لیکن آواز نہیں نکل سکی تھی، امام صاحب کہنے لگے۔ کیا تو نے اس مسجد کا صحن صاف کیا تھا میرے منہ سے تو آواز نہ نکل سکی البتہ گردن ہل گئی تھی۔ کیا تجھے علم نہیں ہے کہ یہ مسلمانوں کی مسجد ہے میں نے امام صاحب کو دیکھا ان کی نگاہیں مجھ پر گڑھی ہوئی تھیں میری آنکھوں میں نجانے کیا کیا کیفیات تھیں، وہ چونک کر بولے۔ مسلمان ہے تو ہاں، ہاں میرے حلق سے جیسے رُکی ہوئی بے شمار آوازیں نکل گئیں۔ مگر تیرے جسم سے تو بدبو اُٹھ رہی ہے، ایک ایسی بدبو جو کبھی کسی مسلمان کے جسم میں نہیں ہوتی۔ ایسا کیسے ہوا، نہیں نوجوان تو صاحب ایمان نہیں ہے، یہ بدبو جو تیرے بدن سے اُٹھ رہی ہے، کسی ایمان والے کے جسم سے نہیں اُٹھ سکتی، یہ تو ، یہ تو غلاظت کی بو ہے، براہ کرم صحن مسجد سے باہر نکل جا، یہاں درس الٰہی ہوگا اور اس کے بعد نماز تہجد، تجھ جیسے کسی بے ایمان شخص کوہم اپنے درمیان جگہ نہیں دے سکتے۔ براہ کرم باہر نکل جا اس سے پہلے کہ تجھے مسجد کے صحن کو ناپاک کرنے کی سزا دی جائے۔ یہ سزا تجھے صرف اس لیے نہیں دی جائے گی کہ تو نے کسی بھی جذبے کے تحت سہی، صحن مسجد کو صاف کیا ہے مگر تجھے اپنے درمیان جگہ نہیں دیں گے ہم۔ میں بلک بلک کر رو پڑا میں نے گھٹنوں کے بل بیٹھ کر کہا۔ سارے زمانے کا ٹھکرایا ہوا ہوں میں، میں ایک بدنصیب انسان ہوں، مجھے سہارا چاہیے، میں قصوروار ہوں، لاکھوں گناہ کیے ہیں میں نے، تائب ہو رہا ہوں۔ میری مدد کرو، خدا کے لیے میری مدد کرو۔ تمام لوگ اپنی اپنی جگہ سے کھڑے ہوگئے تھے کسی نے چیخ کر کہا۔ اس ملحد کو دھکے دے کر مسجد سے باہر نکال دو، اس بدنما شخص کو مسجد میں داخل ہونے کی سزا دو، آخر یہ یہاں آیا کیوں ہے نکالو اسے، نکالو اسے۔ امام صاحب نے ہاتھ اُٹھا کر کہا۔ ایمان والو ایمان والوں جیسی باتیں کرو، وہ جو کچھ بھی ہے اس نے کوئی دُشمنی نہیں کی ہے، کوئی بھولے سے اگر خدا کے گھر میں داخل ہوگیا ہے تو خدا کے گھر سے اسے دھکے دے کر نہیں نکالا جا سکتا، کیسی باتیں کر رہے ہو تم لوگ چاروں طرف سناٹا چھا گیا، لوگ خاموش ہوگئے کسی کے منہ سے ہلکی سی آواز بھی نہیں نکلی، امام صاحب نے کہا۔ اور تو کہتا ہے کہ تو مسلمان ہے، مگر کیا یہ بتا سکے گا کہ یہ بدبو تیرے جسم میں کیسے داخل ہوئی یہ میرے گناہوں کا پھل ہے۔ یہ میرے گناہوں کا پھل ہے، میری مدد کرو، میری مدد کرو۔ میں گڑگڑا کر بولا۔ گناہوں کے لیے توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں، مگر یہ کیسا گناہ ہے جس سے تیرے جسم میں کفر کی بدبو پھیل گئی ہے۔ خدا کے لیے ہمارے ان لمحات کو ضائع نہ کر۔ ہم نے اپنے طور پر جو انتظام کیا ہے اور جس مقصد کے لیے کیا ہے ہمیں اس کی تکمیل کرنے دے تو باہر جا، تیرے لیے توبہ کے دروازے کھلے ہوئے ہیں اور یہ دروازے کبھی بند نہیں ہوتے۔ جب بھی بارگاہ ایزدی میں تیری توبہ قبول ہوگئی تجھے تیری مشکلات کا حل مل جائے گا لیکن تو جا یہاں سے۔ یہاں سے چلا جا، فوراً چلا جا۔ ہم اپنی عبادت میں تیری مداخلت پسند نہیں کرتے، اسے راستہ دو امام صاحب نے فیصلہ کن لہجے میں کہا۔ مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ اب مجھے ان کے درمیان جگہ نہیں ملے گی۔ پھر یہاں رُکنا بے مقصد ہی ہے۔ نڈھال اور مضمحل قدموں سے وہاں سے واپس پلٹا تو امام صاحب نے کہا۔ سیدھے راستے پر چلے جانا کافی دُور جا کر تجھے ایک درخت نظر آئے گا اس درخت میں پھل ہوں گے۔ ان پھلوں سے تو اپنی شکم سیری کر سکتا ہے بس اس سے زیادہ اور تیری کوئی مدد نہیں کی جا سکتی۔ میں نے کچھ نہ سنا نجانے کیسے کیسے خیالات دِل میں آ رہے تھے، جو کچھ ہوا تھا اس پر غور بھی نہیں کر پا رہا تھا۔ بس یہ احساس تھا کہ میرے جسم سے ایک ایسی بو اُٹھنے لگی جو کسی مسلمان کے جسم میں کبھی نہیں پیدا ہوتی اور اس بو کی وجہ میں جانتا تھا، بھوریا چرن نے میرے وجود میں کفر اُتار دیا تھا۔ یہ کفر میرے دل پر تو اثرانداز نہیں ہو سکتا تھا، میرے دماغ تک نہیں پہنچ سکا تھا لیکن جسم غلیظ ہوگیا تھا اور بقول امام صاحب اس جسم سے وہ بُو اُٹھ رہی تھی جو ان کے لیے ناقابل برداشت تھی، آہ جو کچھ ہوا ہے، جو کچھ بھی ہوا ہے اس میں کافی حد تک میرا قصور ہے بلکہ قصور ہی میرا ہے، بلاشبہ انسان کو اس کی حیثیت سے زیادہ مل جائے تو وہ بھول جاتا ہے اپنے آپ کو کھو جاتا ہے، لیکن ایک لمحہ صرف ایک لمحہ ایسا آتا ہے جس کے بعد ساری عمر کی توبہ بھی ناکافی ثابت ہوتی ہے، جو ہوگیا تھا وہ ہو گیا تھا، بے عزت کر کے ہر جگہ سے نکالا جا رہا تھا، پوریا بستی سے بھی اور اب اس مسجد سے بھی، آہ یہ سب کچھ میرے لیے ازحد ضروری تھا، گناہوں کی سزا میں جس قدر تذلیل ہو کم ہے۔ وہاں سے بھی چل پڑا کوئی منزل تو تھی نہیں بس چلتا رہا اور پھر کسی شہری آبادی کے آثار نظر آئے تھے، اُجالا پھیل رہا تھا۔ قدم اس طرف بڑھ گئے بستی کے پہلے مکان سے سنکھ بجنے کی آواز سنائی دی، اس کے بعد پیتل کا گھنٹہ کئی بار بجا اور پھر ایک موٹی بھدّی آواز سنائی دی۔ بھجن قسم کی کوئی چیز تھی، لیکن اس کے بول بڑے دل ہلا دینے والے تھے اور ان کا مفہوم میری سمجھ میں آ رہا تھا۔ جب تک ہنس ریو چولا میں، چولا جب تک بنوریو، جسم میں جب تک رُوح رہی، جسم برقرار رہا اڑگیو ہنس رہ گئی ماٹی بولن ہارو کدر گیو، رُوح جسم سے نکل گئی تو بس مٹی کا بدن رہ جاتا ہے، اور جب تک چراغ میں تیل رہتا ہے چراغ جلتا رہتا ہے، تیل ختم ہوا چراغ کی بتی جل گئی، تب پھر اس روشنی کو پیدا کرنے والا کون ہو سکتا ہے بھجن کے ان الفاظ نے ذہن کے نجانے کون سے گوشوں کو چھو لیا تھا۔ دیر تک وہیں کھڑا ان الفاظ پر غور کرتا رہا جب گردن گھمائی تو اُوپر سے برہنہ جسم کے مالک، دھوتی باندھے ہوئے، ماتھے پر تلک لگائے، ایک بھاری بدن کے شخص کو دیکھا، چہرے پر شوخی سی چھائی ہوئی تھی، دونوں ہاتھ کمر پر رکھے مجھے گھور رہا تھا، مجھ سے نگاہ ملی تو گردن مٹکاتے ہوئے بولا۔ آج بھی رہ گئے مہاراج، آج بھی کامیابی نہیں ہوئی تمہیں۔ جی میں نے حیران نگاہوں سے اسے دیکھتے ہوئے کہا۔ بھینس کھولنے آئے تھے نا پنڈت کاشی رام کی، ارے بہت دن سے تم ہماری بھینس کی تاک میں ہو اور ہم تمہاری تاک میں، آج ملاپ ہو ہی گیا، ارے دیا کرو مہاراج دیا کرو۔ غریب آدمی ہیں، اس بھینس کے علاوہ اس سنسار میں اپنا کوئی نہیں ہے، ارے اسی کے دُودھ پر اپنا جیون گزار رہے ہیں، کیا کرو گے اسے لے جا کر۔ ہنسی آ گئی، میں نے آہستہ سے کہا۔ نہیں پنڈت جی، میں نے تو آپ کی بھینس دیکھی بھی نہیں بھلا اسے چرانے کا خیال کیسے آتا میرے دل میں۔ تو پھر کیا یہاں پوجا کررہے ہو کھڑے ہوئے۔ وہ کسی قدر طنزیہ لہجے میں بولا۔ آپ بھجن گا رہے تھے، اسے سننے کھڑا ہوگیا تھا۔ ارے ارے ارے ، بھجن سننا ہے تو بیٹھ کر سنو بھیّا، ایسے کیوں کھڑے ہو، جیسے بھینس چرانے آئے ہو، آئو آئو تمہیں اور بھی بہت سے بھجن سنائیں گے، ایک تم ہو کہ ہمارا بھجن سن کر چلتے چلتے رُک گئے اور ایک وہ ہے جو کہتی ہے کہ بھینس کی اور ہماری آواز میں کوئی فرق ہی نہیں ہے، ذرا آئو بتائو اسے، کیا بھجن گاتے ہیں ہم اس نے آگے بڑھ کر میرا ہاتھ پکڑا اور احاطے سے اندر لے گیا۔ چھوٹا سا مکان تھا بڑا سا دروازہ، اسی چھوٹے سے احاطے کے ایک گوشے میں بھینس بندھی ہوئی تھی، اس کے آگے کھانے پینے کا سامان پڑا ہوا تھا، ایک طرف بانوں سے بنی ہوئی جھلنگا چارپائی جو بیٹھنے کے لیے تھی اور کاشی رام جی نے مجھے اسی چارپائی پر بٹھا دیا اور خود مجھ سے کچھ فاصلے پر پتھر سے بنی ہوئی ایک سل پر بیٹھ گئے اور اس کے بعد انہوں نے لہک لہک کر پھر سے اپنا بھجن شروع کر دیا۔ کافی زوردار آواز میں گا رہے تھے، آواز میں ذرّہ برابر دلکشی نہیں تھی لیکن بول مست کر دینے والے تھے پھرکاشی رام جی اس وقت چپ ہوئے، جب اندر سے ایک دھاڑ سنائی دی۔ کسے پکڑ لائے تم صبح ہی صبح۔ اور کیوں بھینس کی طرح ڈکرائے جارہے ہو، میں کہتی ہوں تمہاری کھوپڑی بالکل ہی خراب ہوگئی ہے ارے تو کون ہے رے میں نے اور کاشی رام دونوں ہی نے چونک کر اس بھیانک آواز کو سنا تھا اور گردن موڑ کر دیکھا تھا، چہرہ تو اتنا بھیانک نہیں تھا، لیکن آواز اور جسامت خوفزدہ کر دینے والی تھی، سفید دھوتی باندھے، ماتھے پر تلک لگائے، آنکھیں نکالے کھڑی، وہ ہم دونوں کو گھور رہی تھی۔ کاشی رام اُچھل کر کھڑے ہوگئے اور خاتون آگے بڑھ کر ہمارے سامنے پہنچ گئیں، پھر ایک پوز بنا کر دونوں ہاتھ کمر پر رکھے اور باری باری ہم دونوں کو گھورتے ہوئے بولیں۔ یہ تم دونوں صبح ہی صبح کیا کر رہے ہو ارے وہ، دیورانی، دیورانی جی، یہ بے چارہ مسافر ہے، بھجن سن کر کھڑا ہوگیا تھا کہنے لگا کہ من کھنچ رہا ہے، یہ بھجن سن کر، اب سب تیرے جیسے ہی تو نہیں ہوتے کہ کاشی رام کی آواز پسند ہی نہ آئے اب اس سے پوچھ کیا حال ہوا ہے اس کا میرا بھجن سن کر۔ اور جو حال میں کروں گی اس کا وہ کون دیکھے گا پنڈت جی۔ خاتون نے کہا اور اِدھر اور اُدھر کوئی چیز تلاش کرنے لگی، اصولاً تو مجھے بھاگ جانا چاہیے تھا، لیکن کاشی رام جی میرے سامنے آ گئے۔ دیکھو دیومتی، گھر کی بات گھر تک رہنی چاہیے، بے چارہ باہر سے آیا ہے، کیا سوچے گا ہمارے بارے میں۔ ارے پربھو بھیّا یہ دیومتی جی ہیں دیورانی، پرنام کرو انہیں۔ کہنے کو تو ہماری دھرم پتنی ہیں، مگر مگر اصل میں یہ ہمارے دھرم پتی ہیں، سمجھ رہے ہو نا، ارے پرنام کر لو انہیں پرنام کرو۔ کون ہو تم، کیوں آئے ہو یہاں بس وہ دیوی جی، میں، میں۔ تو اور کیا، صورت سے نہیں لگتا تمہیں، کچھ شرم کرو دیومتی، بھگوان نے صبح ہی صبح تمہارے گھر مہمان بھیجا اور تم اس کے ساتھ یہ سلوک کر رہی ہو۔ اور تم بڑا اچھا سلوک کر رہے ہو اس کے ساتھ اپنی پھٹے ڈھول جیسی آواز سے اسے بھجن سنائے جا رہے ہو، کاشی رام جی بھینس نے دُودھ دینا چھوڑ دیا ہے، جب سے تم نے یہ بھجن وجن گانے شروع کیے ہیں۔ ہرے رام ہرے رام، سن رہے ہو پربھو بھیّا، بھینس نے دُودھ دینا چھوڑ دیا ہے۔ اچھا اب تو جا، زیادہ باتیں نہیں کرتے، پتنی ہے، پتنی ہی رہ، میری ماتا بننے کی کوشش مت کر جا مہمان کے لیے بھوجن تیار کر، اری جاتی ہے یا نہیں۔ کاشی رام جی غرّائے اور خاتون کچھ ڈھیلی پڑ گئیں، اس کے بعد مڑیں اور پائوں پٹختی ہوئی اندر چلی گئیں۔ کاشی رام انہیں جاتے دیکھ رہے تھے۔ پھر انہوں نے رازداری سے کہا۔ ایسا بھی کبھی کبھی ہی ہوتا ہے، پتا نہیں کیوں تم بتا سکتے ہو کہ اس وقت میرے چہرے پر کیسے تاثرات تھے کاشی رام کا انداز عجیب سا تھا، میں کچھ نہیں سمجھ پایا تھا، میں نے آہستہ سے کہا۔ سمجھا نہیں کاشی رام جی۔ ارے بھائی یہ دیومتی ہے میری دھرم پتنی، مگر دیومتی ہی نہیں دیونی بھی ہے، تم نے دیکھا، ایک ہاتھ کسی پر پڑ جائے تو بھگوان کی سوگند گھنٹوں بیٹھا گال سہلائے، وہ تو کبھی کبھی میری دھونس میں آ جاتی ہے، پر کبھی کبھی ہی ایسا ہوتا ہے، اس سمے بھی ایسا ہی ہوا ہے، میں یہی تو پوچھ رہا تھا تم سے کہ میں نے کیسا چہرہ بنایا تھا جس کی وجہ سے یہ ڈر کر اندر چلی گئی، ایسا کم ہی ہوتا ہے، ارے بیٹھو، بس اب سب ٹھیک ہوگیا ہے، اب ہمت نہیں پڑے گی اس کی، تو تمہیں میرا بھجن پسند آیا ہاں کاشی رام جی۔ بھگوان تمہیں سکھی رکھے، کچھ دن ہمارے مہمان رہو، ارے لیکن یہ صبح ہی صبح تم آئے کہاں سے ہو مسافر ہوں، بس اس بستی میں نکل آیا، دراصل یہاں نوکری کی تلاش میں آیا ہوں، کچھ کرنا چاہتا ہوں۔ نوکری کیسی نوکری صرف ایسی نوکری کاشی رام جی، جس میں دو روٹیاں اور بدن ڈھکنے کے لیے لباس مل جائے لو تو پھر تم کون سی غلط جگہ آئے، سیدھے نوکری کے پاس چلے آئے نوکری مل گئی تمہیں۔ کاشی رام جی بولے۔ جی میں نے حیرانی سے منہ پھاڑ کر کہا۔ جی کاشی رام نے گردن جھکا کر مسخرے پن سے کہا۔ کاشی رام جی اگر اگر مجھے واقعی نوکری مل جائے تو میں ہر قسم کی نوکری کر لوں گا۔ دیکھ پربھو بھیّا بات اصل میں یہ ہے کہ ہم تو بڑے اچھے آدمی ہیں لیکن عورتیں عام طور سے بُری ہوتی ہیں اور دھرم پتنیاں بن کر تو وہ بہت ہی بُری ہو جاتی ہیں، بس یوں سمجھ لو کہ دھرم پتنی بن کر دھرم کے علاوہ اور سب کچھ ہوتا ہے ان کے پاس، تو ایسا کرتے ہیں پربھو جی کہ ہم تمہیں نوکر کہہ کر اپنے گھر میں رکھ لیتے ہیں، روٹی اور کپڑے کی تو بالکل چنتا مت کرنا۔ خرچ کے پیسے بھی لے لیا کرنا ہم سے، کوئی مشکل بات نہیں، مگر ذرا ان دیومتی کو برداشت کرنا ہوگا۔ بھینس کے کام کرنا آتے ہیں تمہیں آپ فکر نہ کریں، میں بھینس کا کام تمام کر دوں گا۔ میں نے کہا ارے ارے ارے، نا بھیا نا، اس بھینس پر تو جیتے ہیں ہم، کچھ نہیں کھاتے پیتے بس دُودھ پیتے ہیں اور جیتے ہیں۔ تھوڑی سی گھر کی صفائی ستھرائی، بازار کا سودا سلف اور کوئی کام نہیں ہے، رسوئی میں وہ اپنے علاوہ اور کسی کو نہیں جانے دیتی، پکاتی کھاتی بھی اپنا ہی ہے، بچہ وچہ کوئی نہیں ہے ہمارے ہاں، بس یہ کام ہوگا تمہارا اور اس کے بعد مزے ہی مزے ہم تمہیں بھی بھجن سکھا دیں گے پربھو بھیّا۔ جاری ہے
null
null
null
null
490
https://www.urduzone.net/aseer-ishq-episode-17/
نہیں وہ برہان کو عدیل سے اس سوال کی توقع نہیں تھی اس لیے بری طرح کنفیوژ ہوگیا۔ اچھا آئو اندر تو آئو باہر کیوں کھڑے ہو عدیل نے راستہ دیتے ہوئے کہا اور وہ دونوں بے تابانہ کمرے میں داخل ہوئے۔ ان کی تیز نگاہیں کمرے میں گردش کررہی تھیں۔ کمرے کا طائرانہ جائزہ لینے کے بعد انہیں مایوسی ہوئی۔ چلو پھر ٹھیک ہے، ہم نیچے چلتے ہیں۔ چند لمحوں بعد ہی برہان نے کہا۔ اب وہ جلدازجلد اس کمرے سے باہر نکل کر دلکش کو ڈھونڈنا چاہتا تھا۔ ان دونوں کے جانے کے بعد عدیل نے الماری کے دروازے پر ہلکی سی دستک دے کر اسے باہر نکلنے کا اذن دیا اور وہ ماتھے سے پسینہ پونچھتی باہر نکل آئی۔ عدیل اس کی طرف متوجہ ہوتے ہوئے جلدی سے بولے۔ پلیز بتائیے یہ سب کیا ہے آپ مجھ سے ملنا کیوں چاہ رہی تھیں اور آپ ہیں کون دلکش کا جسم چادر میں چھپا ہوا تھا صرف آنکھیں دکھائی دے رہی تھیں۔ میں دلکش ہوں دلکش نے دھیمی آواز میں کہا۔ کون دلکش انہوں نے الجھے ہوئے لہجے میں پوچھا۔ تب دلکش نے چہرے سے چادر ہٹا دی۔ عدیل نے اس کی طرف چونک کر دیکھا اور پھر دیکھتے ہی رہ گئے۔ اس چہرے کو آج سے قبل انہوں نے صرف دو بار دیکھا تھا۔ جلیل شاہ نے اس کے بارے میں جو کہانی سنائی تھی، اس پر یقین کرنے کے بعد انہوں نے بارہا اس چہرے سے نفرت کرنے کی کوشش کی تھی مگر اپنی اس کوشش میں وہ ہمیشہ ناکام رہے تھے۔ جلیل شاہ کی ہر بات پر یقین کرنے کے باوجود ان کا دل اس لڑکی کو فریب کار اور جرائم پیشہ ماننے کو تیار نہ تھا۔ دلکش نگاہیں جھکائے شکستہ سی کھڑی تھی۔ میں دلکش زوار حسین ہوں اور اس شام آپ سے نکاح کے بعد اب دلکش عدیل شاہ ہوں۔ مگر اس شام اس رات کو دلکش کے بیوی ہونے کے پُر یقین دعوے کو سن کر عدیل گڑبڑا گئے تھے۔ اور انہیں اس شام پیش آنے والے سارے واقعات یاد آگئے۔ مجھے نہیں معلوم جلیل شاہ نے آپ کو کیا بتایا ہے۔ دلکش نے ان کا جملہ مکمل ہونے سے پہلے ہی انہیں روک دیا۔ لیکن میں پورے یقین سے کہہ سکتی ہوں، اس نے آپ کو ایک جھوٹی اور من گھڑت کہانی سنائی ہے۔ تو سچ کیا ہے عدیل کے سوال پر دلکش نے کرب بھرے لہجے میں جواب دیا۔ سچ اتنا بھیانک ہے کہ شاید آپ سن نہ سکیں، اگر سن لیں تو یقین نہ کریں، مگر میں آپ کو سب بتانا چاہتی ہوں۔ بس ایک گزارش ہے کہ آپ خاموشی سے میری پوری بات سن لیجیے۔ اس کے بعد آپ کا جو دل چاہے، کہیے گا۔ پھر دلکش نے دھیمی آواز میں اپنی اندوہناک کہانی سنانی شروع کی۔ عدیل آنکھوں میں حیرت اور بے یقینی لیے اس کی بات سن رہے تھے۔ ساری بات سن لینے کے بعد بھی ان کی بے یقینی قائم رہی۔ اس کہانی کو وہ بھلا کس طرح سچ مان سکتے تھے۔ ہوش سنبھالنے کے بعد جلیل شاہ نے انہیں جس توجہ اور محبت سے نوازا تھا، جس طرح ان کی تعلیم و تربیت کے ساتھ ان کے والدین کی چھوڑی ہوئی دولت و جائداد کا خیال رکھا تھا ان اقدام نے جلیل شاہ کو ان کی نگاہ میں محترم بنا دیا تھا مگر یہ لڑکی جو ان کی منکوحہ ہونے کی داعی تھی، اس بت کو چکناچُور کرنے کے درپے تھی۔ اس کی کہانی کو سچ ماننے کے لیے ان کا دل آمادہ نہیں تھا اور یہ بات تو انہیں بالکل ہضم نہیں ہوئی تھی کہ ان کے والد عقیل شاہ کہیں گم نہیں ہوئے بلکہ جلیل شاہ نے انہیں کھنڈرات میں قید کرکے رکھا ہوا ہے اور انہیں دوائیں دے کے مسلسل نیم غنودگی اور پاگل پن کی کیفیت میں رکھا جاتا ہے۔ اپنے والد کے بارے میں خبر سن کر ان کے رگ و پے میں ایک اضطراب جاگ اٹھا تھا۔ تم جو کہہ رہی ہو، ثابت کرسکتی ہو انہوں نے خشک ہوتے لبوں پر زبان پھیر کر پوچھا۔ جی میں آپ کو ان کھنڈرات میں لے جاسکتی ہوں۔ ایک بات ثابت ہوجائے گی تو دوسری باتیں خودبخود صاف ہوجائیں گی۔ عدیل کو بے یقین انداز میں دیکھ کر دلکش نے ملتجی لہجے میں مزید کہا۔ یقین کریں میں نے جو کچھ بتایا ہے وہ سب صحیح ہے۔ جلیل شاہ ایک بدنیت، بدفطرت اور کمینہ انسان ہے جس کے نزدیک رشتوں کی کوئی اہمیت نہیں ہے۔ چپ ہوجائو۔ عدیل شاہ سر تھام کر کسی کٹے ہوئے شہتیر کی طرح صوفے پر ڈھیر ہوگئے۔ چلی جائو خدا کے لیے چلی جائو یہاں سے۔ ایسا نہ ہو، میں کچھ غلط کر بیٹھوں۔ وہ کرب بھرے انداز میں کہہ رہے تھے۔ دلکش نے اپنے بیگ سے کاغذ نکال کر قلم سے اس پر کچھ لکھا۔ پھر وہ کاغذ ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بولی۔ یہ مصعب صاحب کے گھر کا نمبر ہے۔ آپ جب اپنے والد سے ملنا چاہیں، اس نمبر پر مجھ سے رابطہ کرلیجیے گا۔ کاغذ ان کے ہاتھ میں تھما کر وہ دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ وہ جانتی تھی برہان اور اس کے گُرگے اس کے لیے گھات لگائے بیٹھے ہوں گے۔ چنانچہ اس نے باہر نکلنے کے لیے کچن کی راہداری کا انتخاب کیا۔ وہ ہوٹل کے عقب سے ہوتی پچھلے گیٹ سے روڈ پر نکل آئی، پھر جلد ہی اس کو رکشہ مل گیا تھا۔ دلکش کے جانے کے بعد عدیل نے آنکھیں کھول کر نمبر کی طرف دیکھا تھا۔ سب جھوٹ ہے، بالکل جھوٹ۔ انہوں نے کاغذ کا پرزہ دور پھینک دیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ بیگم تیمور نے حارب کو ذلیل کرکے گھر سے نکال دیا تھا مگر وہ مایوس نہیں ہوا تھا۔ اس کے پاس ابھی ترپ کے کئی پتے موجود تھے۔ اور اسے یقین تھا کہ آج نہیں تو کل بیگم تیمور کو اسے داماد کے روپ میں قبول کرنا ہی ہوگا۔ اسی لیے انوشہ کے پوچھنے پر امید بھرے لہجے میں کہا تھا۔ مجھے یقین ہے وہ جلد ہی یہ بات تسلیم کرلیں گی کہ ان کی چہیتی بیٹی کو مجھ سے زیادہ چاہنے والا شوہر مل ہی نہیں سکتا۔ اور وہ اس کی بات سن کر مطمئن ہوگئی تھی۔ اس صبح ناشتے کی ٹیبل پر گھر کے سب افراد موجود تھے۔ مگر فریحہ اب تک اپنے کمرے میں تھی۔ کئی دنوں سے اس کی طبیعت گری گری سی تھی۔ بیگم صاعقہ تیمور نے نور جہاں کو مخاطب کرکے فریحہ کے بارے میں پوچھا تو اس نے بتایا کہ دلہن بیگم کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں ہے۔ تب ہی فریحہ ڈائننگ روم میں داخل ہوئی۔ اس کی زرد رنگت اور اترے چہرے نے سب کو متوجہ کرلیا۔ اتنے میں خالہ خیرن لائونج میں داخل ہوئی تھیں۔ بیگم تیمور نے آج انہیں انوشہ کے لیے کوئی اچھا رشتہ ڈھونڈنے کے لیے بلوایا تھا۔ خالہ خیرن بھی فریحہ کا بجھا چہرہ دیکھ کر قدرے حیران ہوئیں۔ چند لمحے اس کا چہرہ دیکھتی رہیں۔ پھر مسکرا کر بولیں۔ فکر کی کوئی بات نہیں بلکہ خوشی کی بات ہے آپ دادی بننے والی ہیں۔ آذر نے بے ساختہ چونک کر فریحہ کی طرف دیکھا اور بیگم تیمور کا منہ کھلا کا کھلا رہ گیا۔ آذر کے والد تیمور احمد کی وصیت کے مطابق آذر کا پہلا بچہ ہوتے ہی تمام جائداد اور کاروبار آذر کے نام منتقل ہوجاتا۔ ان کا بس چلتا تو وہ ساری زندگی آذر کی شادی ہی نہ کرتیں۔ کنزہ کے درمیان میں آجانے کے باعث وہ آذر کی شادی کرنے پر مجبور ہوگئی تھیں۔ اب صاعقہ تیمور آنے والے حالات پر غور کررہی تھیں اور ایسے میں انہیں سلطان کی سخت یاد آرہی تھی۔ اس کی خدمات اور وفاداریاں گو کہ بہت زیادہ تھیں مگر اب ایسا بھی نہیں تھا کہ وہ اپنی اکلوتی بیٹی کا ہاتھ اس کے ہاتھ میں دے دیتیں مگر اب انہیں لگ رہا تھا کہ حارب سلطان سے سمجھوتہ کرنا ہی پڑے گا۔ سو بہت غور و خوض کے بعد انہوں نے اپنا موبائل اٹھایا اور حارب سلطان کا نمبر ملانے لگیں۔ دوسری طرف سے سلطان کی مستعد اور مودبانہ آواز سنائی دی۔ جی بیگم صاحبہ سلطان میں تمہیں ایک کام سونپ رہی ہوں، اس کا ہونا بے حد ضروری ہے۔ میری بھی ایک شرط ہے۔ حارب سلطان نے دھیمے مگر مضبوط لہجے میں کہا۔ آپ کو میرے سوال پر غور کرنا ہوگا۔ ٹھیک ہے، ٹھیک ہے۔ بیگم تیمور نے اکتائے ہوئے لہجے میں کہا۔ میں سوچوں گی مگر پہلے تمہیں میرا کام کرنا ہوگا۔ آپ کام بتایئے۔ حارب سلطان مضبوط لہجے میں بولا۔ اچھا میری بات غور سے سنو۔ بیگم تیمور کی آواز دھیمی ہوتی سرگوشی میں ڈھل گئی۔ ساری بات سن کر حارب ایک لمحے کو حیران رہ گیا مگر پھر بھی اس نے اگلے دن یہ کام کرنے کا وعدہ کرلیا۔ آذر نے جب سے یہ خبر سنی تھی کہ وہ باپ بننے والے ہیں تو ایک عجب سی خوشی انہیں اپنے رگ و پے میں سرسراتی محسوس ہورہی تھی۔ بیگم تیمور نے فون کرکے گائناکالوجسٹ سے فریحہ کے لیے ٹائم لے لیا تھا اور کل صبح دس بجے فریحہ کو اپنے ساتھ لے کر ڈاکٹر کے پاس جانے والی تھیں۔ وہ رات ان پر بہت بھاری تھی۔ دولت کی خاطر انہوں نے کیا کچھ نہیں کیا تھا مگر تیمور احمد مرتے وقت یہ ساری دولت اپنے اکلوتے بیٹے آذر کے نام لکھ گئے تھے۔ اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ بہت پہلے آذر سے بھی جان چھڑا لیتیں یا آذر کی ماں طاہرہ تیمور کی طرح اسے بھی کسی طرح نظروں سے دور کردیتیں۔ مگر تیمور احمد کی وصیت نے انہیں یہ سب کرنے سے باز رکھا تھا اس بے تحاشا دولت کی خاطر ہی انہوں نے آذر کے والد سیٹھ تیمور احمد کی پہلی بیوی طاہرہ کو راستے سے ہٹایا تھا۔ گو کہ وہ ابھی حیات تھی مگر منظر سے غائب تھی۔ پھر خود بیگم تیمور بن کر ہر چیز کی مالک بن بیٹھی تھیں، مگر مالک بن کر بھی وہ ہر چیز کی محض نگراں تھیں۔ مگر اب جبکہ آذر بچے کے باپ بن جاتے تو ان کی یہ نگراں والی حیثیت بھی ختم ہوجاتی سب کچھ آذر کے نام ہوجاتا اور ان کی اس طویل تگ و دو کے صلے میں ان کے ہاتھ کچھ نہ آتا۔ یہ انہیں منظور نہ تھا۔ اسی لیے انہوں نے سوچا کہ جس شاخ پر پھول کھلنے والا ہے، وہ شاخ ہی کاٹ دی جائے۔ سو اگلے دن فریحہ ڈرائیور کے ساتھ اسپتال کے لیے روانہ ہوئی۔ ابھی وہ زیادہ دور نہ گئی تھی کہ ایک سیاہ گاڑی دائیں جانب سے اچانک سامنے آگئی۔ ڈرائیور نے سائیڈ لینے کی کوشش کی مگر آنے والی گاڑی کسی آندھی طوفان کی طرح فریحہ کی کار سے ٹکرائی۔ ٹکر سے فریحہ کسی گیند کی طرح سیٹ سے اچھلی اور ایک چیخ کے ساتھ بے ہوش ہوگئی۔ بیگم صاحبہ آپ کا کام ہوگیا آپ فوراً بہروز اسپتال پہنچیں۔ سلطان کے فون پر وہ چونک کر سیدھی ہوئی تھیں۔ ان کا ڈرائیور اکبر، فریحہ کو لے کر چیک اَپ کے لیے اسپتال روانہ ہوا تھا۔ وہ بے چینی سے سلطان کے فون کا انتظار کررہی تھیں۔ ٭ ٭ ٭ ڈاکٹر تارہ زخمی خاتون کو آپریشن تھیٹر میں پہنچا دیا ہے۔ نرس کی آواز پر ڈاکٹر تارہ حسن نے نگاہ اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔ بہت زیادہ چوٹیں نہیں آئی ہیں مگر کیونکہ وہ حاملہ تھی، اس لیے آپریشن کرنا پڑے گا۔ نرس نے مزید بتایا۔ اوہ تو اس کا مطلب ہے کہ بچہ ضائع ہوگیا۔ ڈاکٹر تارہ افسوس بھرے انداز میں اپنی جگہ سے اٹھی۔ تم چلو، میں آرہی ہوں۔ تارہ نے چند چیزیں جلدی جلدی دراز میں رکھیں اور نرس کے جاتے ہی خود بھی دروازے کی طرف بڑھی۔ تب ہی دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور ایک شخص اندر داخل ہوا۔ اس کے پیچھے ایک باوقار متکبر سی خاتون بھی تھی۔ مجھے سلطان کہتے ہیں۔ اس شخص نے اپنا تعارف کرایا۔ اور یہ بیگم تیمور ہیں۔ ہم اس زخمی خاتون کے سلسلے میں آپ سے تعاون چاہتے ہیں۔ پہلے یہ بتائیں اس کی طبیعت کیسی ہے میں نے اسے ابھی دیکھا نہیں۔ تارہ نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ مگر وہ خطرے سے باہر ہے۔ بس مس کیریج ہوا ہے۔ یہی تو ہم چاہتے تھے۔ سلطان سفاکی سے بولا۔ جو ہم چاہتے تھے، وہ تو ہوگیا۔ اب آپ کو ایک چھوٹا سا کام کرنا ہوگا تاکہ وہ آئندہ کبھی ماں نہ بن سکے۔ واٹ۔ تارہ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔ اس عمر میں ایسا آپریشن خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ میں یہ نہیں کروں گی۔ تارہ کے انکار پر سلطان نے پستول نکال لیا تھا۔ وہ پستول دیکھ کر خوف زدہ ہوگئی۔ سلطان اسے پستول کی زد میں آپریشن تھیٹر تک لایا۔ آپ کو باہر ہی رکنا ہوگا۔ تارہ نے خشک لہجے میں کہا۔ آپ نے جو کہا ہے، ہوجائے گا۔ وہ جونہی آپریشن ٹیبل کے قریب آئی تو فریحہ کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔ اسے تو بتایا گیا تھا فریحہ اپنے گھر میں بہت خوش ہے۔ اس کا میاں جان چھڑکتا ہے۔ ساس واری صدقے جاتی ہے مگر یہاں تو کہانی ہی کچھ اور تھی۔ اس کی ساس اور اس کا کرائے کا غنڈہ، فریحہ کو ہمیشہ کے لیے بانجھ کرنے کے درپے تھے۔ پہلے اس نے سوچا کہ انتظامیہ کو بلائے یا پولیس کو فون کرے مگر سلطان کے ہاتھ میں موجود پستول نے اسے ہر بات سے باز رکھا۔ آپریشن کے بعد بیگم تیمور، فریحہ کو ڈسچارج کروا کر لے گئی۔ اس بات کو بھی دو روز گزر چکے تھے اور ڈاکٹر تارہ حسن اب تک شش و پنج کا شکار تھی۔ کئی بار اس نے سوچا اس بارے میں کسی کو بتائے، کم ازکم شہروز سے ہی ذکر کرے۔ مگر اس کے دل نے اسے سمجھایا کہ تارہ کس مشکل اور جتن سے شہری، فریحہ کو بھول پایا ہے اور تم ہو کہ پھر اسے اس کی یاد دلانے چلی ہو۔ سو اس نے دل پر پتھر رکھ کر فیصلہ کرلیا کہ اس واقعے کے بارے میں وہ کسی کو کبھی کچھ نہیں بتائے گی۔ فریحہ کے لیے جو وہ کرسکتی تھی، اس نے کردیا تھا۔ بس اتنا ہی کافی تھا۔ ٭ ٭ ٭ اگلے دن صبح بیگم تمنا آغا کے رفاہی ادارے میں جانے سے قبل دلکش نے فون کرلینا مناسب سمجھا۔ وہ جلد از جلد سجیلہ سے ملنے کے لیے بے تاب تھی۔ ادھر خود سجیلہ بھی دلکش کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ میری بہن کا نام بھی تو دلکش ہی تھا۔ ارے بٹیا تم یہاں بیٹھی ہو، ادھر مصعب صاحب، فضلو بابا اور ان کی بہن آئے بیٹھے ہیں۔ رضیہ نے اطلاع دی۔ سجو کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آفس کی طرف چل دی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی سجیلہ کی نگاہ سب سے پہلے دلکش پر پڑی تھی۔ دلکش بھی منتظر نگاہوں سے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ان دونوں کی نگاہیں ملیں تو ان کی آنکھیں حیرت اور بے یقینی سے پھیلتی چلی گئیں۔ سجو میری بہن۔ دلکش اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی طرف لپکی۔ میری بہن، میری جان تم کہاں کھو گئی تھیں۔ اس نے سجو کو اپنے بازوئوں میں بھر لیا۔ باجی میری باجی تم زندہ ہو میرا دل کہتا تھا تم مر نہیں سکتیں۔ نانی اور ماں کی طرح تم مجھے چھوڑ کے نہیں جاسکتیں۔ سجیلہ نے زار و قطار روتے ہوئے کہا اور سجو کی ہچکیوں میں دلکش کی سسکیاں بھی شامل ہوگئی تھیں۔ دلکش نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سجو اسے یوں بھی مل سکتی ہے اب وہ مل گئی تھی تو وہ اسے اور کرن کو گھڑی کی چوتھائی میں گھر لے جانا چاہتی تھی۔ ہر پل، ہر لمحہ اسے اپنے سینے سے لگا کر رکھنا چاہتی تھی۔ ٭ ٭ ٭ رنگ و روغن کے بعد گھر دمک اٹھا تھا۔ مصعب کے بیڈ روم کو جدید طرز کے بیڈ روم سیٹ نے، چار چاند لگا دیے تھے۔ دلکش اپنی ہر پریشانی بھول کر سجو کی خوشی میں لگ گئی تھی۔ عدیل نے اس ملاقات کا کیا اثر لیا، کیا فیصلہ کیا، اسے کچھ پتا نہیں تھا۔ وہ انہیں گھر کا نمبر دے آئی تھی مگر کتنے ہی دن بیت گئے تھے۔ انہوں نے پلٹ کر خبر تک نہیں لی تھی۔ یہ سب الجھنیں اور پریشانیاں اپنی جگہ تھیں مگر تقدیر نے اسے اس کی بچھڑی بہن سے ملا دیا تھا۔ اب وہ مصعب کی شریک حیات بن کر اس گھر میں آنے والی تھی۔ وہ جانتی تھی مصعب، سجیلہ کے لیے بہت اچھے جیون ساتھی ثابت ہوں گے۔ اس خوشی میں وہ اپنا غم بھلا بیٹھی تھی اور رات، دن شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ بالآخر وہ مبارک گھڑی آگئی۔ مصعب، سجیلہ کو دلہن بنا کر اپنے گھر، اپنی دنیا میں لے آئے۔ کرن دلہن بنی سجیلہ کے پہلو میں بیٹھی اسے پرشوق نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ کرن دلکش نے پیار بھرے لہجے میں کرن کو مخاطب کیا۔ آئو میرے ساتھ، میں تمہیں تمہارا گھر دکھاتی ہوں اور تمہارا کمرہ بھی چلیے۔ کرن پرشوق انداز میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ پاپا آپ یہاں بیٹھ کر امی سے باتیں کیجیے، میں پھوپھی کے ساتھ اپنا کمرہ دیکھنے جارہی ہوں۔ اس نے دروازے میں ایستادہ مصعب کو مخاطب کرکے کہا اور دلکش کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔ کرن اور دلکش کے جانے کے بعد مصعب نے سجیلہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ کرن بہت خوش ہے۔ اور آپ سجیلہ نے شرمیلے لہجے میں پوچھا۔ مجھے مسرت بھی ہے اور حیرت بھی۔ مصعب مسکراتے ہوئے بولے۔ سچ پوچھو تو میں نے کبھی زندگی کے اس رخ کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا لیکن اب وہ کہتے کہتے رک گئے۔ اب کیا چند لمحوں کے انتظار کے بعد سجیلہ نے بے تاب لہجے میں پوچھا۔ اب۔ مصعب نے شوخ نظروں سے سجیلہ کی طرف دیکھا۔ بتاتا ہوں۔ پھر وہ آہستگی سے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ اگلے ہی لمحے وہ دروازہ بند کرکے سجیلہ کے قریب آگئے تھے۔ ٭ ٭ ٭ کوئی بھی شریف اور خاندانی مرد گھر میں ایک وفادار اور محبت کرنے والی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت کے عشق میں زیادہ دیر تک مبتلا نہیں رہ سکتا۔ کنزہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ پوری طرح آذر کو اپنی طرف راغب کرنے میں بری طرح ناکام رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے میاں، بیوی کا رشتہ اپنی تمام تر توانائیوں اور سچائیوں کے ساتھ آذر پر مسلط ہوتا جارہا تھا اور غیر محسوس طور پر وہ بیوی کی چاہتوں کی ان دیکھی زنجیروں میں پوری طرح جکڑ گئے تھے۔ فریحہ کے ایکسیڈنٹ کی خبر سن کر آذر جس دیوانہ وار انداز میں سارے کام چھوڑ کر اسپتال کی طرف روانہ ہوئے تھے، کنزہ وہ سب دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ اسقاط کا انہیں صدمہ ہوا تھا مگر فریحہ کے صحیح سلامت بچ جانے پر انہیں یک گونہ خوشی تھی۔ فریحہ انہیں دیکھ کر بے اختیار رو دی تھی۔ جس بچے کی خبر سن کر وہ کل بے حد خوش تھے، آج وہ تہی دامن لوٹ آئی تھی۔ گو کہ ابھی وہ اس خبر سے بے خبر تھی کہ اب وہ کبھی ماں نہیں بن سکتی جبکہ یہ خبر درست نہیں تھی کیونکہ ڈاکٹر تارہ حسن نے صاعقہ تیمور اور سلطان کے حکم کی تعمیل نہیں کی تھی مگر انہیں یہی بتایا تھا کہ آپ کے حکم کے مطابق کام ہوگیا ہے۔ بیگم تیمور بے حد خوش اور مطمئن تھیں۔ انہوں نے جائداد کے وارث کی راہ ہمیشہ کے لیے مسدود کردی تھی۔ اب جو کچھ بھی تھا، ان کا اور ان کی چہیتی بیٹی کا تھا۔ بیگم تیمور کو تو قرار مل گیا تھا مگر کنزہ حق کو کسی طور قرار نہیں تھا۔ دن بہ دن اس پر قنوطیت طاری ہوتی جارہی تھی۔ وہ ہر بار محبت پانے میں ناکام رہی تھی۔ کل حارب اسے چھوڑ گیا تھا اور آج آذر واپسی کے سفر پر تھے۔ فریحہ کے ایکسیڈنٹ کے بعد کتنے ہی دن بیت گئے تھے وہ آفس نہیں آئے تھے۔ ظاہر ہے بیوی کی تیمار داری میں لگے تھے۔ کنزہ ٹھنڈی سانس لے کر اپنے کیبن میں آبیٹھی تھی۔ تب ہی غفور نے حارب کی آمد کی خبر دی تھی۔ حارب اور کنزہ کو باہم بچھڑے کئی برس بیت چکے تھے۔ حارب کی دل کی دنیا میں داخل ہونے والی کنزہ پہلی لڑکی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ انہیں کسی دولت کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ دونوں کسی چھوٹے سے گھر میں خوش رہ سکتے تھے مگر اپنی ماں صابرہ کے انکار کے سامنے حارب نے ہار مان لی تھی۔ اور کنزہ کو چھوڑ دیا تھا اور وہ اس کی بے وفائی کا داغ لے کر شہر بھی چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اور اس کے جانے کے بعد اسے احساس ہوا تھا کہ اس نے کیا کھو دیا ہے۔ وہ ماں پر بہت بگڑا اور ماں کو چھوڑ کر اس بڑے شہر میں چلا آیا تھا۔ یہاں اس کی ملاقات صاعقہ تیمور سے ہوئی۔ اس کا باپ احمد سلطان بھی بیگم تیمور کا خدمت گار رہ چکا تھا۔ بیگم صاعقہ تیمور نے اسے کام کی آفر کی مگر یہ کام ایسے نہیں تھے جنہیں وہ آسانی سے قبول کرلیتا۔ مگر پھر ایک شام اس نے صاعقہ تیمور کے ساتھ اس کی اکلوتی بیٹی انوشہ کو دیکھا تو اسے دیکھتے ہی اسے ماں کے خواب کا خیال آیا اور یوں وہ انوشہ کی طرف راغب ہوگیا اور اس نے بیگم تیمور کی آفر بھی قبول کرلی۔ جلد ہی انوشہ اس کی محبت میں ڈوب گئی۔ تب اس نے رشتے کی بات کی اور بیگم تیمور کی طرف سے تحقیر آمیز انکار کے بعد اب اس میں ایک غصہ اور ضد پیدا ہوگئی تھی۔ وہ صاعقہ تیمور کے ماضی کو کھنگالتا پھر رہا تھا اور جب اس پر اس عورت کی حقیقت آشکار ہوئی تو حیرت زدہ رہ گیا۔ تیمور گروپ آف کمپنیز کی ایک ڈسپنسری کی معمولی سی نرس صاعقہ کس طرح سیٹھ تیمور کی بیوی طاہرہ تیمور کو راستے سے ہٹا کر اس کے دس سالہ بیٹے آذر اور سیٹھ آذر کو اپنا بنا کر ساری دولت و جائداد پر ناگن کی طرح قابض ہوگئی تھی۔ بیگم تیمور کا حکم تھا کہ کنزہ کو ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا دیا جائے۔ اوّل تو حارب کسی کو قتل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ کم ازکم کنزہ کو کسی صورت جان سے نہیں مار سکتا تھا۔ دونوں کے راستے الگ ہوجانے کے باوجود ایک تعلق باقی تھا۔ آج وہ کنزہ سے ملنے آیا تو اس نے اس کا مسکرا کر استقبال کیا۔ وہ نگاہ اٹھا کر اس کی جانب دیکھا تھا۔ بہت زیادہ چوٹیں نہیں آئی ہیں مگر کیونکہ وہ حاملہ تھی، اس لیے آپریشن کرنا پڑے گا۔ نرس نے مزید بتایا۔ اوہ تو اس کا مطلب ہے کہ بچہ ضائع ہوگیا۔ ڈاکٹر تارہ افسوس بھرے انداز میں اپنی جگہ سے اٹھی۔ تم چلو، میں آرہی ہوں۔ تارہ نے چند چیزیں جلدی جلدی دراز میں رکھیں اور نرس کے جاتے ہی خود بھی دروازے کی طرف بڑھی۔ تب ہی دروازہ ایک جھٹکے سے کھلا اور ایک شخص اندر داخل ہوا۔ اس کے پیچھے ایک باوقار متکبر سی خاتون بھی تھی۔ مجھے سلطان کہتے ہیں۔ اس شخص نے اپنا تعارف کرایا۔ اور یہ بیگم تیمور ہیں۔ ہم اس زخمی خاتون کے سلسلے میں آپ سے تعاون چاہتے ہیں۔ پہلے یہ بتائیں اس کی طبیعت کیسی ہے میں نے اسے ابھی دیکھا نہیں۔ تارہ نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ مگر وہ خطرے سے باہر ہے۔ بس مس کیریج ہوا ہے۔ یہی تو ہم چاہتے تھے۔ سلطان سفاکی سے بولا۔ جو ہم چاہتے تھے، وہ تو ہوگیا۔ اب آپ کو ایک چھوٹا سا کام کرنا ہوگا تاکہ وہ آئندہ کبھی ماں نہ بن سکے۔ واٹ۔ تارہ نے حیرت بھرے لہجے میں کہا۔ اس عمر میں ایسا آپریشن خطرناک ثابت ہوسکتا ہے۔ میں یہ نہیں کروں گی۔ تارہ کے انکار پر سلطان نے پستول نکال لیا تھا۔ وہ پستول دیکھ کر خوف زدہ ہوگئی۔ سلطان اسے پستول کی زد میں آپریشن تھیٹر تک لایا۔ آپ کو باہر ہی رکنا ہوگا۔ تارہ نے خشک لہجے میں کہا۔ آپ نے جو کہا ہے، ہوجائے گا۔ وہ جونہی آپریشن ٹیبل کے قریب آئی تو فریحہ کو دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔ اسے تو بتایا گیا تھا فریحہ اپنے گھر میں بہت خوش ہے۔ اس کا میاں جان چھڑکتا ہے۔ ساس واری صدقے جاتی ہے مگر یہاں تو کہانی ہی کچھ اور تھی۔ اس کی ساس اور اس کا کرائے کا غنڈہ، فریحہ کو ہمیشہ کے لیے بانجھ کرنے کے درپے تھے۔ پہلے اس نے سوچا کہ انتظامیہ کو بلائے یا پولیس کو فون کرے مگر سلطان کے ہاتھ میں موجود پستول نے اسے ہر بات سے باز رکھا۔ آپریشن کے بعد بیگم تیمور، فریحہ کو ڈسچارج کروا کر لے گئی۔ اس بات کو بھی دو روز گزر چکے تھے اور ڈاکٹر تارہ حسن اب تک شش و پنج کا شکار تھی۔ کئی بار اس نے سوچا اس بارے میں کسی کو بتائے، کم ازکم شہروز سے ہی ذکر کرے۔ مگر اس کے دل نے اسے سمجھایا کہ تارہ کس مشکل اور جتن سے شہری، فریحہ کو بھول پایا ہے اور تم ہو کہ پھر اسے اس کی یاد دلانے چلی ہو۔ سو اس نے دل پر پتھر رکھ کر فیصلہ کرلیا کہ اس واقعے کے بارے میں وہ کسی کو کبھی کچھ نہیں بتائے گی۔ فریحہ کے لیے جو وہ کرسکتی تھی، اس نے کردیا تھا۔ بس اتنا ہی کافی تھا۔ ٭ ٭ ٭ اگلے دن صبح بیگم تمنا آغا کے رفاہی ادارے میں جانے سے قبل دلکش نے فون کرلینا مناسب سمجھا۔ وہ جلد از جلد سجیلہ سے ملنے کے لیے بے تاب تھی۔ ادھر خود سجیلہ بھی دلکش کے بارے میں سوچ رہی تھی۔ میری بہن کا نام بھی تو دلکش ہی تھا۔ ارے بٹیا تم یہاں بیٹھی ہو، ادھر مصعب صاحب، فضلو بابا اور ان کی بہن آئے بیٹھے ہیں۔ رضیہ نے اطلاع دی۔ سجو کے چہرے پر مسکراہٹ بکھر گئی۔ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر آفس کی طرف چل دی۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی سجیلہ کی نگاہ سب سے پہلے دلکش پر پڑی تھی۔ دلکش بھی منتظر نگاہوں سے دروازے کی طرف دیکھ رہی تھی۔ ان دونوں کی نگاہیں ملیں تو ان کی آنکھیں حیرت اور بے یقینی سے پھیلتی چلی گئیں۔ سجو میری بہن۔ دلکش اپنی جگہ سے اٹھ کر اس کی طرف لپکی۔ میری بہن، میری جان تم کہاں کھو گئی تھیں۔ اس نے سجو کو اپنے بازوئوں میں بھر لیا۔ باجی میری باجی تم زندہ ہو میرا دل کہتا تھا تم مر نہیں سکتیں۔ نانی اور ماں کی طرح تم مجھے چھوڑ کے نہیں جاسکتیں۔ سجیلہ نے زار و قطار روتے ہوئے کہا اور سجو کی ہچکیوں میں دلکش کی سسکیاں بھی شامل ہوگئی تھیں۔ دلکش نے کبھی سوچا بھی نہیں تھا کہ سجو اسے یوں بھی مل سکتی ہے اب وہ مل گئی تھی تو وہ اسے اور کرن کو گھڑی کی چوتھائی میں گھر لے جانا چاہتی تھی۔ ہر پل، ہر لمحہ اسے اپنے سینے سے لگا کر رکھنا چاہتی تھی۔ ٭ ٭ ٭ رنگ و روغن کے بعد گھر دمک اٹھا تھا۔ مصعب کے بیڈ روم کو جدید طرز کے بیڈ روم سیٹ نے، چار چاند لگا دیے تھے۔ دلکش اپنی ہر پریشانی بھول کر سجو کی خوشی میں لگ گئی تھی۔ عدیل نے اس ملاقات کا کیا اثر لیا، کیا فیصلہ کیا، اسے کچھ پتا نہیں تھا۔ وہ انہیں گھر کا نمبر دے آئی تھی مگر کتنے ہی دن بیت گئے تھے۔ انہوں نے پلٹ کر خبر تک نہیں لی تھی۔ یہ سب الجھنیں اور پریشانیاں اپنی جگہ تھیں مگر تقدیر نے اسے اس کی بچھڑی بہن سے ملا دیا تھا۔ اب وہ مصعب کی شریک حیات بن کر اس گھر میں آنے والی تھی۔ وہ جانتی تھی مصعب، سجیلہ کے لیے بہت اچھے جیون ساتھی ثابت ہوں گے۔ اس خوشی میں وہ اپنا غم بھلا بیٹھی تھی اور رات، دن شادی کی تیاریوں میں مصروف تھی۔ بالآخر وہ مبارک گھڑی آگئی۔ مصعب، سجیلہ کو دلہن بنا کر اپنے گھر، اپنی دنیا میں لے آئے۔ کرن دلہن بنی سجیلہ کے پہلو میں بیٹھی اسے پرشوق نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ کرن دلکش نے پیار بھرے لہجے میں کرن کو مخاطب کیا۔ آئو میرے ساتھ، میں تمہیں تمہارا گھر دکھاتی ہوں اور تمہارا کمرہ بھی چلیے۔ کرن پرشوق انداز میں اٹھ کھڑی ہوئی۔ پاپا آپ یہاں بیٹھ کر امی سے باتیں کیجیے، میں پھوپھی کے ساتھ اپنا کمرہ دیکھنے جارہی ہوں۔ اس نے دروازے میں ایستادہ مصعب کو مخاطب کرکے کہا اور دلکش کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئی۔ کرن اور دلکش کے جانے کے بعد مصعب نے سجیلہ کی طرف دیکھ کر کہا۔ کرن بہت خوش ہے۔ اور آپ سجیلہ نے شرمیلے لہجے میں پوچھا۔ مجھے مسرت بھی ہے اور حیرت بھی۔ مصعب مسکراتے ہوئے بولے۔ سچ پوچھو تو میں نے کبھی زندگی کے اس رخ کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا لیکن اب وہ کہتے کہتے رک گئے۔ اب کیا چند لمحوں کے انتظار کے بعد سجیلہ نے بے تاب لہجے میں پوچھا۔ اب۔ مصعب نے شوخ نظروں سے سجیلہ کی طرف دیکھا۔ بتاتا ہوں۔ پھر وہ آہستگی سے دروازے کی طرف بڑھ گئے۔ اگلے ہی لمحے وہ دروازہ بند کرکے سجیلہ کے قریب آگئے تھے۔ ٭ ٭ ٭ کوئی بھی شریف اور خاندانی مرد گھر میں ایک وفادار اور محبت کرنے والی بیوی کے ہوتے ہوئے کسی دوسری عورت کے عشق میں زیادہ دیر تک مبتلا نہیں رہ سکتا۔ کنزہ اس حقیقت سے اچھی طرح واقف تھی۔ یہی وجہ تھی کہ اپنی تمام تر کوششوں کے باوجود وہ پوری طرح آذر کو اپنی طرف راغب کرنے میں بری طرح ناکام رہی تھی۔ دیکھتے ہی دیکھتے میاں، بیوی کا رشتہ اپنی تمام تر توانائیوں اور سچائیوں کے ساتھ آذر پر مسلط ہوتا جارہا تھا اور غیر محسوس طور پر وہ بیوی کی چاہتوں کی ان دیکھی زنجیروں میں پوری طرح جکڑ گئے تھے۔ فریحہ کے ایکسیڈنٹ کی خبر سن کر آذر جس دیوانہ وار انداز میں سارے کام چھوڑ کر اسپتال کی طرف روانہ ہوئے تھے، کنزہ وہ سب دیکھ کر حیران رہ گئی تھی۔ اسقاط کا انہیں صدمہ ہوا تھا مگر فریحہ کے صحیح سلامت بچ جانے پر انہیں یک گونہ خوشی تھی۔ فریحہ انہیں دیکھ کر بے اختیار رو دی تھی۔ جس بچے کی خبر سن کر وہ کل بے حد خوش تھے، آج وہ تہی دامن لوٹ آئی تھی۔ گو کہ ابھی وہ اس خبر سے بے خبر تھی کہ اب وہ کبھی ماں نہیں بن سکتی جبکہ یہ خبر درست نہیں تھی کیونکہ ڈاکٹر تارہ حسن نے صاعقہ تیمور اور سلطان کے حکم کی تعمیل نہیں کی تھی مگر انہیں یہی بتایا تھا کہ آپ کے حکم کے مطابق کام ہوگیا ہے۔ بیگم تیمور بے حد خوش اور مطمئن تھیں۔ انہوں نے جائداد کے وارث کی راہ ہمیشہ کے لیے مسدود کردی تھی۔ اب جو کچھ بھی تھا، ان کا اور ان کی چہیتی بیٹی کا تھا۔ بیگم تیمور کو تو قرار مل گیا تھا مگر کنزہ حق کو کسی طور قرار نہیں تھا۔ دن بہ دن اس پر قنوطیت طاری ہوتی جارہی تھی۔ وہ ہر بار محبت پانے میں ناکام رہی تھی۔ کل حارب اسے چھوڑ گیا تھا اور آج آذر واپسی کے سفر پر تھے۔ فریحہ کے ایکسیڈنٹ کے بعد کتنے ہی دن بیت گئے تھے وہ آفس نہیں آئے تھے۔ ظاہر ہے بیوی کی تیمار داری میں لگے تھے۔ کنزہ ٹھنڈی سانس لے کر اپنے کیبن میں آبیٹھی تھی۔ تب ہی غفور نے حارب کی آمد کی خبر دی تھی۔ حارب اور کنزہ کو باہم بچھڑے کئی برس بیت چکے تھے۔ حارب کی دل کی دنیا میں داخل ہونے والی کنزہ پہلی لڑکی تھی۔ وہ دونوں ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ انہیں کسی دولت کی ضرورت نہیں تھی۔ وہ دونوں کسی چھوٹے سے گھر میں خوش رہ سکتے تھے مگر اپنی ماں صابرہ کے انکار کے سامنے حارب نے ہار مان لی تھی۔ اور کنزہ کو چھوڑ دیا تھا اور وہ اس کی بے وفائی کا داغ لے کر شہر بھی چھوڑ کر چلی گئی تھی۔ اور اس کے جانے کے بعد اسے احساس ہوا تھا کہ اس نے کیا کھو دیا ہے۔ وہ ماں پر بہت بگڑا اور ماں کو چھوڑ کر اس بڑے شہر میں چلا آیا تھا۔ یہاں اس کی ملاقات صاعقہ تیمور سے ہوئی۔ اس کا باپ احمد سلطان بھی بیگم تیمور کا خدمت گار رہ چکا تھا۔ بیگم صاعقہ تیمور نے اسے کام کی آفر کی مگر یہ کام ایسے نہیں تھے جنہیں وہ آسانی سے قبول کرلیتا۔ مگر پھر ایک شام اس نے صاعقہ تیمور کے ساتھ اس کی اکلوتی بیٹی انوشہ کو دیکھا تو اسے دیکھتے ہی اسے ماں کے خواب کا خیال آیا اور یوں وہ انوشہ کی طرف راغب ہوگیا اور اس نے بیگم تیمور کی آفر بھی قبول کرلی۔ جلد ہی انوشہ اس کی محبت میں ڈوب گئی۔ تب اس نے رشتے کی بات کی اور بیگم تیمور کی طرف سے تحقیر آمیز انکار کے بعد اب اس میں ایک غصہ اور ضد پیدا ہوگئی تھی۔ وہ صاعقہ تیمور کے ماضی کو کھنگالتا پھر رہا تھا اور جب اس پر اس عورت کی حقیقت آشکار ہوئی تو حیرت زدہ رہ گیا۔ تیمور گروپ آف کمپنیز کی ایک ڈسپنسری کی معمولی سی نرس صاعقہ کس طرح سیٹھ تیمور کی بیوی طاہرہ تیمور کو راستے سے ہٹا کر اس کے دس سالہ بیٹے آذر اور سیٹھ آذر کو اپنا بنا کر ساری دولت و جائداد پر ناگن کی طرح قابض ہوگئی تھی۔ بیگم تیمور کا حکم تھا کہ کنزہ کو ہمیشہ کے لیے راستے سے ہٹا دیا جائے۔ اوّل تو حارب کسی کو قتل کرنے کے بارے میں سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ وہ کم ازکم کنزہ کو کسی صورت جان سے نہیں مار سکتا تھا۔ دونوں کے راستے الگ ہوجانے کے باوجود ایک تعلق باقی تھا۔ آج وہ کنزہ سے ملنے آیا تو اس نے اس کا مسکرا کر استقبال کیا۔ وہ اور اترے ہوئے چہرے سے تھکن کا اظہار ہورہا تھا۔ وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔ یہاں آنے سے میں نے تمہیں منع کیا تھا۔ بیگم تیمور نے دھاڑتی آواز میں اسے مخاطب کیا۔ مگر مجھے آپ کا جواب چاہیے تھا اس لیے یہاں آنا پڑا۔ حارب نے نرم لہجے میں جواب دیا۔ شاید آپ کو یاد نہیں میں نے آپ سے آپ کی بیٹی کا ہاتھ مانگا تھا۔ اور میں نے تمہارے اس سوال کا جواب انکار میں دے دیا تھا۔ صاعقہ تیمور کی پھنکارتی ہوئی آواز پر انوشہ نے چونک کر ماں کی طرف دیکھا۔ میں نے تم سے کہہ دیا تھا کہ تم اس قابل نہیں ہو کہ میں اپنی بیٹی کا ہاتھ تمہارے ہاتھ میں دے سکوں۔ انوشہ تم نے سن لیا۔ حارب نے افسردہ لہجے میں انوشہ کو مخاطب کیا۔ اسی دن کے لیے میں شادی کی بات سے خوف زدہ رہتا تھا۔ بہرحال تم نے اپنے کانوں سے سن لیا کہ تمہاری مام اس رشتے سے انکاری ہیں۔ سلطان میری بیٹی سے بات کرنے کی ضرورت نہیں۔ بیگم تیمور نے غصیلے لہجے میں کہا۔ تم پہلے بھی اسے بہت بے وقوف بنا چکے ہو۔ اگر میں تمہاری حقیقت اسے بتا دوں تو میری طرح یہ بھی تم سے نفرت کرنے لگے گی۔ اور اگر آپ کی حقیقت میں اسے بتا دوں تو پہلی بار حارب سلطان کے لبوں پر سفاکانہ مسکراہٹ جاگی۔ انوشہ تم اپنے کمرے میں جائو۔ صاعقہ تیمور نے سخت لہجے میں انوشہ کو مخاطب کیا اور وہ تیزی سے اٹھ کر اندر کی طرف چلی گئی۔ آپ نے کنزہ کے ساتھ کیا کیا اور کنزہ کو چھوڑیے اپنی بہو فریحہ کے ساتھ کیا کیا انوشہ کے جاتے ہی حارب نے اس کے ایک ایک گناہ کی تفصیل بیان کرنا شروع کی۔ اور صاعقہ تیمور حیرت اور غصے سے اسے تکے جارہی تھی۔ میں کہتی ہوں دفع ہوجائو یہاں سے آخرکار اس کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا۔ میں جارہا ہوں۔ دل کی بھڑاس نکال لینے کے بعد حارب نے پرسکون لہجے میں کہا۔ آپ کو آپ کی دولت اور بیٹی دونوں مبارک ہوں۔ آپ نے مجھ سے ہمیشہ کہا کہ آپ اپنی بیٹی کی شادی مجھ سے نہیں کرسکتیں لیکن آج میں آپ سے کہہ رہا ہوں مجھے آپ جیسی ماں کی بیٹی سے شادی نہیں کرنی۔ وہ تیزی سے دروازے کی طرف پلٹ گیا۔ حارب پلیز حارب۔ پچھلی جانب ستون کے پیچھے کھڑی انوشہ تیزی سے حارب کی طرف لپکی۔ حارب مجھے اس طرح چھوڑ کے مت جائو۔ حارب تم جانتے ہو میں تمہارے بغیر زندہ نہیں رہ سکتی۔ مگر حارب نے پلٹ کر بھی نہیں دیکھا تھا اور تیزی سے دروازے سے نکلتا چلا گیا۔ انوشہ حیرت، اذیت اور وحشت کے ملے جلے احساس کے ساتھ ادھ کھلے دروازے کی طرف دیکھتی رہ گئی۔ اسے ماں کی نخوت اور نفرت بھری آواز سنائی دی تھی۔ میں نے تو پہلے ہی کہا تھا وہ بہت برا ہے اور آپ انوشہ نے پلٹ کر ماں کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے پوچھا۔ وہ ستون کے پیچھے کھڑی حارب کی تمام باتیں سن رہی تھی۔ اس کے دل کے سنگھاسن پر دھرا اس کی ماں کا بلند و بالا بت لحظہ بھر میں پاش پاش ہوکر زمیں بوس ہوگیا تھا۔ اسے یقین نہیں آرہا تھا کہ اس کی ماں نے دولت کی خاطر آذر کی ماں کو پاگل بنا کر پاگل خانے میں داخل کروا دیا تھا اور آذر کے بچے کو ضائع کروانے کے لیے فریحہ کا ایکسیڈنٹ کروایا تھا۔ میں کبھی ایسا سوچ بھی نہیں سکتی تھی۔ وہ تیزی سے اندر کی طرف دوڑتی چلی گئی۔ نورجہاں ذرا اسے دیکھو۔ صاعقہ تیمور نے گھبرا کر نورجہاں کو آواز دی۔ مگر نورجہاں کے انوشہ کے کمرے میں پہنچنے تک اس نے خواب آور گولیوں کی پوری شیشی حلق سے اتار لی تھی۔ اسے چکرا کر بستر پر گرتے دیکھ کر نورجہاں نے چیخ کر صاعقہ تیمور کو پکارا۔ بیگم صاحبہ۔ کیا ہوا کیا ہوا صاعقہ تیمور گھبرائے ہوئے انداز میں دوڑتی ہوئی اندر آئیں۔ انوشہ بٹیا نے نیند کی ساری گولیاں کھا لی ہیں۔ نور جہاں کا جواب سن کر وہ لپک کر فون کی طرف بڑھی تھیں مگر ڈاکٹر کے آنے سے پہلے ہی انوشہ کی روح قفس عنصری سے پرواز کر گئی تھی۔ ایک ہی وقت میں دو بڑے سانحے اس کے ننھے سے دل پر گزر گئے تھے۔ ماں کا اصل اور کریہہ چہرہ دیکھنے کے بعد اس کا ہر چیز سے ایمان اٹھ گیا۔ اور حارب سے بچھڑنے کے بعد زندہ رہنے کا جواز ہی باقی نہیں رہا تھا۔ سو لمحوں میں اس نے مرنے کا فیصلہ کرکے موت کو گلے سے لگا لیا تھا۔ اپنی جس چہیتی بیٹی کے لیے دولت حاصل کرنے کے لیے وہ کتنے جوڑ توڑ میں لگی تھیں اب وہی چہیتی بیٹی سب کچھ چھوڑ کر لمحوں میں ملک عدم کو سدھار گئی تھی۔ کاش وہ جان سکتیں کہ حارب اس کے لیے اتنا اہم تھا تو شاید وہ کبھی حارب کو ٹھکرانے کی غلطی نہ کرتیں۔ پر اب تو سب کچھ ختم ہوگیا تھا۔ ٭ ٭ ٭ کوچ تیز رفتاری سے حیدرآباد کی جانب اُڑی جارہی تھی۔ حارب نے فون کرکے ماں کو اپنی اور کنزہ کی آمد کی اطلاع دے دی تھی۔ اس کی ماں بہو کے استقبال کی تیاریاں کررہی تھی۔ اور وہ آنکھوں میں جہاں بھر کا پیار سمیٹے اپنے پہلو میں بیٹھی کنزہ کو تکے جارہا تھا۔ اس کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ اس کے لوٹ آنے کے بعد تیمور ہائوس پر کیا قیامت ٹوٹی تھی۔ اسے دل کی گہرائیوں سے چاہنے والی انوشہ اس کی جدائی کا زخم نہ سہتے ہوئے موت کی وادی میں اتر گئی تھی اور اپنی دولت، طاقت اور ذہانت پر ناز کرنے والی صاعقہ تیمور کومے میں چلی گئی تھی۔ ٭ ٭ ٭ ڈی آئی جی اعظم خان کی جیپ کے ساتھ پورچ میں ایک اور پولیس جیپ کھڑی تھی۔ غالباً پاپا سے ملنے کوئی پولیس آفیسر آیا ہوا ہے۔ سونم نے جیپ کی طرف دیکھ کر سوچا اور کار سے اتر کر اپنے کمرے کی طرف چل دی۔ تب ہی زیتون نے اسے اطلاع دی تھی۔ صاحب آپ کو ڈرائنگ روم میں بلا رہے ہیں۔ سونم نے ایک نظر خود پر ڈالی، ہاتھوں سے بالوں کو پیچھے کرتی وہ ڈرائنگ روم کی طرف بڑھ گئی۔ آئو آئو بیٹی۔ اسے دیکھتے ہی اعظم خان کھڑے ہوگئے۔ ان کے ساتھ ہی سامنے صوفے پر بیٹھا پولیس آفیسر بھی کھڑا ہوگیا تھا۔ بیٹی ان سے ملو۔ اعظم خان نے مسرور انداز میں اپنے سامنے کھڑے پولیس آفیسر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔ تمہیں وہ ہمارے دوست رحمان علی خان تو یاد ہوں گے، وہی جو کئی سال پہلے امریکا شفٹ ہوگئے تھے۔ جی سونم نے اثبات میں سر ہلایا۔ ہنس مکھ، خوش اخلاق اور بے حد محبت کرنے والے انکل رحمان اسے آج بھی یاد تھے۔ یہ سلمان علی تمہارے انہی رحمان انکل کے اکلوتے صاحبزادے ہیں۔ سونم نے چونک کر سلمان کی طرف دیکھا۔ لمبے قد، مضبوط جسم کے ساتھ ایس ایس پی کی وردی میں وہ بہت شاندار جوان دکھائی دے رہا تھا۔ امریکا سے کرمنالوجی میں ماسٹرز کرنے کے بعد مقابلے کا امتحان پاس کرکے یہ حال ہی میں ایس ایس پی بنے ہیں۔ بہت ذہین اور بہادر آفیسر ہیں۔ پولیس کے محکمے کو ان سے بڑی امیدیں وابستہ ہیں۔ اوہ تو پاپا نے اسے جلیل شاہ کے کیس کو حل کرنے کے لیے بلایا ہے۔ سونم نے نگاہ اٹھا کر سلمان کی طرف دیکھا۔ اس کا سادہ، معصوم سا چہرہ اور شفاف بے ریا آنکھیں اس کے اچھے انسان ہونے کی غماز تھیں۔ جانے کیوں پہلی ہی نگاہ میں سونم کو سلمان علی اچھا لگا تھا۔ وہ یک ٹک اسے دیکھے گئی۔ وہ اس کے اس طرح دیکھنے پر کچھ کنفیوژ ہوگیا تھا۔ اسے احساس ہوا تو وہ خود بھی نروس ہوگئی۔ وہ پایا میں ذرا اس نے اجازت طلب لہجے میں کہا۔ ہاں کیوں نہیں۔ اعظم خان نے فراخدلانہ انداز میں کہا۔ تم جاکر آرام سے فریش ہو کر آجائو، سلمان تو ابھی یہیں ہیں۔ میں نے انہیں ڈنر کے لیے روک لیا ہے اور ہاں سونو میں نے انہیں بتایا ہے کہ ہماری سونو بٹیا بہت اچھا چائنیز بناتی ہے۔ ہمارے اس دعوے کی عزت اب تمہارے ہاتھ میں ہے۔ جی اعظم خان کی اس بات پر سونم کے ساتھ سلمان علی کے لبوں پر بھی مسکراہٹ بکھر گئی۔ وہ معذرت خواہانہ انداز میں ہاتھ سے اشارہ کرتی دروازے کی طرف بڑھ گئی۔ ابھی وہ نہا کر باتھ روم سے نکلی ہی تھی کہ دروازے پر ہلکی سی دستک دیتے اعظم خان اندر چلے آئے۔ سونو بیٹی مجھے تم سے ایک ضروری بات کرنی ہے۔ وہ بلا تمہید بولے۔ تم ابھی سلمان سے ملی ہونا، تمہیں وہ کیسا لگا کیا مطلب سونم حیران ہوئی۔ بیٹی سال بھر قبل جب سلمان نے پولیس کے محکمے کو جوائن کیا تھا تب ہی اس کے والد رحمان نے تمہارے لیے مجھ سے بات کی تھی۔ اعظم نے پرسوچ نظروں سے سونم کو دیکھتے ہوئے بتایا۔ مگر میں نے کہہ دیا تھا جب تک میری بیٹی سلمان کو دیکھ کر اوکے نہیں کردیتی، میں اس سلسلے میں کوئی جواب نہیں دے سکتا۔ پھر وہ لحظہ بھر کو تھمے۔ بیٹی سلمان ایک اعلیٰ خاندان کا تعلیم یافتہ اور باصلاحیت نوجوان ہے۔ کروڑ پتی باپ کا اکلوتا بیٹا ہے۔ اخلاق و کردار میں بھی بے مثل ہے۔ شکل و صورت تو تم نے دیکھ ہی لی ہے۔ اب بولو تمہارا کیا خیال ہے جی سونم نروس ہوگئی۔ میں کیا کہہ سکتی ہوں۔ بیٹی، سلمان مجھے ہر لحاظ سے پسند آیا ہے۔ اعظم خان بولے۔ لیکن اگر تمہاری پسند کوئی اور ہے تو مجھے اس پر بھی کوئی اعتراض نہ ہوگا۔ بس تمہارا جو بھی فیصلہ ہو، مجھے جلد ازجلد بتا دو کیونکہ اب میں تمہارے فرض سے سبکدوش ہوجانا چاہتا ہوں۔ اعظم خان کمرے سے جا چکے تھے۔ وہ ڈریسنگ ٹیبل کے اسٹول پر گم صم بیٹھی تھی۔ اسے عدیل پسند تھے۔ اس پسند کو اس نے اکثر محبت کا نام دینے کی کوشش کی تھی مگر پھر دلکش ایک سوالیہ نشان بن کے اس کے اور عدیل شاہ کے بیچ آکھڑی ہوئی تھی۔ جاری ہے
null
null
null
null
491
https://www.urduzone.net/dil-ke-dagh-episode-8/
null
null
null
null
null
492
https://www.urduzone.net/dil-ke-dagh-episode-9/
null
null
null
null
null
493
https://www.urduzone.net/dil-ke-dagh-episode-16/
null
null
null
null
null
494
https://www.urduzone.net/kala-jadu-episode-52/
تمہارے سامنے بیاہ کر آئی تھی وہ یہاں میں نے پوچھا۔ ہاں مسافر بھیّا سامنے کا گھر ہی تو ہے رتن لال کا۔ بھرا پرا گھر تھا، ہم جی چھوٹے ہی سے تھے، رتن بھیّا سے بچپن ہی سے یاد اللہ تھی۔ بھلا آدمی تھا بے چارہ کام سے کام رکھنے والا، شادی ہوئی تھی اس کی گوناپور میں، بھاگ بھری بیچاری وہیں کی تھی۔ ایک بہت ہی غریب آدمی کی بیٹی جس نے پتہ نہیں کیسے کیسے کر کے اپنی بٹیا کی شادی کری تھی۔ بھاگ بھری رتن لال کے گھر آ گئی۔ رتن لال بے چارہ خود بھی غریب آدمی تھا، بس محنت مزدوری کرتا تھا اور زندگی گزارتا تھا پر ٹھیک ٹھاک زندگی چل رہی تھی۔ ان کے بیٹے ہوئے تھے ایک ایک کر کے تین اور پل بڑھ رہے تھے، بھاگ بھری کوسب ہی اچھا کہتے تھے۔ ہماری اماں تو اسے بہت ہی پسند کرتی تھیں۔ ہماری شادی میں بھی اس نے گھر کے سارے کام کاج کرے تھے بھیّا بہت اچھی تھی وہ۔ اللہ جانے کس کی نظر کھا گئی بے چاری کو۔ بڑا بیٹا کوئی آٹھ سال کا ہوگا، چھوٹا کوئی چار سال کا اور اس سے چھوٹا کوئی تین سال کا رتن لال کام پر گیا ہوا تھا، تینوں بچّے نکل گئے پوکھر پر اور بھینس کی پیٹھ پر بیٹھ کر پوکھر میں گھس گئے، بس بھیّا وہیں سے کام خراب ہوگیا۔ بھینس پوکھر میں بیٹھ گئی اور بچّے جو اس کی پیٹھ پر بیٹھے ہوئے تھے، پوکھر ہی میں ڈوب مرے۔ وہ تو رمضان گھسیارے نے دُور سے بچوں کو بھینس کی پیٹھ پر بیٹھے دیکھ لیا تھا اور اسے پتہ چل گیا تھا مگر تیرنا وہ بھی نہیں جانتا تھا، دوڑا دوڑا بستی آیا۔ گھر میں خبر دی پھر رتن لال کو بتایا۔ پوری بستی ہی پہنچ گئی تھی پوکھر پر رتن لال کے تینوں پوت پوکھر میں ڈوب گئے تھے۔ معمولی بات تونہیں تھی، رتن لال پاگل ہوگیا۔ کھٹ سے چھلانگ لگا دی پوکھر میں اور بھیّا پوکھر میں چھ کنویں ہیں، دیکھا تو کسی نے ناہیں البتہ پُرکھوں سے یہی سنتے چلے آئے ہیں کہ بارہ سال کے بعد بھینٹ لیتے ہیں یہ کنویں اور کوئی نہ کوئی ڈوب ہی جاتا ہے۔ بارہ سال پورے ہو چکے تھے، بھینٹ لے لی مگر اس بار تین بچوں کی بھینٹ لی تھی ان کنوئوں نے اور چوتھا رتن لال نیچے گیا تو واپس اُوپر نہ آیا۔ بھلا کس کی مجال تھی کہ پوکھر میں گھس کر رتن لال اور اس کے بچوں کی لاشوں کو تلاش کرتا۔ وہیں کے وہیں دفن ہو کر رہ گئے بے چارے، تین بیٹے اور ایک باپ۔ تم خود سوچ لو مسافر بھیّا، کیا بیتی ہوگی ماں پر اس بیچ بے چارہ تلسی بھی آ چکا تھا۔ تلسی اصل میں بھاگ بھری کا چھوٹا بھیّا تھا۔ جب گوناپور میں اس کے پتا جی مر گئے تو رتن لال خود جا کر تلسیا کو اپنے ساتھ لے آیا اور اپنے بچوں ہی کی طرح پالنے پوسنے لگا اسے تلسیا یہیں رہتا تھا اور بھاگ بھری کو بس اسی کا سہارا مل گیا تھا۔ تینوں بچّے اور پتی کے مر جانے کے بعد بھلا ہوش و حواس کیسے قائم رکھتی۔ سر پھوڑ لیا اپنا اور اس کے بعد پاگل ہوگئی۔ سر میں چوٹ لگ گئی تھی، بھیّا غریب غربا کی بستی ہے کون کس کوسہارا دے سکے ہے۔ لوگوں نے کہا اس کا علاج ہو سکتا ہے دماغ ٹھیک ہو جائے گا مگر غریبوں کیلئے تو پیٹ بھرنا ہی مشکل ہو جاتا ہے، دوا دارو کہاں سے کریں۔ بے چارہ تلسیا محنت مزدوری کرتا ہے، بستی بھر کی چاکری کر کے جو چار روٹی کما لے ہے اس سے پاگل بہن کا اور اپنا پیٹ بھرتا تھا۔ سنسار میں اس کا بھی کوئی نہیں ہے، اپنی اس پگلی بہن کے سوا۔ بھاگ بھری پوری بستی میں بھاگتی پھرتی ہے۔ کبھی بچّے اس کا پیچھا کریں تو انہیں پتھر مار دیتی تھی۔ بس اس سے زیادہ اس نے کسی کا کچھ نہیں بگاڑا مگر بھیّا پھر یہ ہوا کہ سب سے پہلا چھوکرا رام لال کا تھا جو بے چارہ ڈائن کا شکار ہوا۔ رات ہی کا وقت تھا۔ مغرب کی اذان ہوئی ہوگی، تیل لینے باہر نکلا تھا کہ غائب ہوگیا۔ بے چارہ رام لال ایک ایک سے پوچھتا پھرا کہ کسی نے اس کے چھورا کو تو نہیں دیکھا۔ کسی نے نہ بتایا۔ صبح کو بھیّا ہریا کے کھیت کی مینڈھ پر رام لال کے چھوکرے کی لاش ملی، ساری چھاتی اُدھیڑ کر رکھ دی تھی کسی نے۔ سب یہی سمجھے کہ بگھرا لگ گیا۔ کبھی کبھی بھیّا بستی کے آس پاس جنگلوں سے بگھرا نکل آوے ہے اور اگر انسانی خون کا لاگو ہو جاوے تو پھر گھروں سے بچّے اُٹھا لے جائے ہے۔ چرواہوں کی بکریوں کو مار ڈالے ہے، بچوں کو لے جا کر کھا پی کر برابر کر دیوے ہے۔ پہرہ دینا پڑے ہے ایسے دنوں میں، چار پانچ بگھرے مارے جا چکے ہیں اس طرح۔ سب لوگ یہی سمجھے کہ بگھرا لگ گیا۔ رام لال کا گھر تو لٹ ہی گیا تھا، راتوں کو پہرے ہونے لگے۔ لوگ لٹھیا لے کر رات بھر اپنے اپنے حساب سے بستی کے چاروں طرف پہرہ دیا کرتے تھے لیکن کوئی ڈیڑھ مہینے کے بعد ہی دُوسرا واقعہ بھی ہوگیا اور اس بار منشی امام دین کا بیٹا بگھرے کے ہاتھ لگا تھا۔ لوگوں نے دیکھا کہ اس کا بھی کلیجہ نکال لیا گیا تھا پھر دھنو نے یہ بتایا کہ یہ کام بگھرے کا نہیں ہے کیونکہ بگھرا کسی گھر میں نہیں گھسا تھا۔ چرواہوں کی بکریوں کو اس نے کوئی نقصان نہیں پہنچایا تھا، کہیں اس کے پنجوں کے نشان نہیں ملے تھے۔ کہیں نہ کہیں سے تو پتہ چلتا۔ جہاں لاشیں پڑی ہوئی تھیں وہاں پر بھی بگھرے کے پیروں کے نشان نہ ملتے تھے جبکہ پہلے کبھی ایسا ہوا تو جگہ جگہ بگھرے کے پیروں کے نشانات دیکھے گئے پھر جب تیسری لاش ملی تو دھنو نے آخری بات کہہ دی کہ یہ کام کسی ڈائن کا ہے جو بچوں کے کلیجے نکال کر چبا جاتی ہے۔ بھیّا جمال گڑھی والوں کو پہلے کبھی کسی ڈائن کا سامنا نہیں کرنا پڑا تھا۔ خوف پھیل گیا، پوری بستی میں لوگ کام دھندے چھوڑ کر ڈائن کی تلاش میں لگ گئے۔ بھاگ بھری کی طرف تو کسی کا خیال بھی نہیں گیا تھا۔ کسی کو کیا پتہ تھا کہ وہ بھاگ بھری نہیں، بھاگ جلی ہے اور وہ ڈائن بن گئی ہے۔ بستی کی پگلی کہلاتی تھی، کسی نے روٹی دے دی تو کھا لی۔ کسی نے کپڑے پہنا دیئے تو پہن لئے ورنہ اسے اپنا ہوش کدھر تھا۔ بے چارہ تلسیا ہی تھا جو بہن کو سنبھالے سنبھالے پھرتا تھا۔ ادھر چاکری کرتا تھا اُدھر بہن کی تیمارداری۔ پر بھیّا یہ تو بڑی ہی غضب ہوگیا چوتھا بچہ بھی اس کا شکار ہوگیا اور جمال گڑھی میں ان دنوں بھیّا بس یوں سمجھ لو شام ڈھلی اور سناٹا ہوگیا۔ لوگوں نے گھروں کے دروازے بند کئے، دن میں سونا شروع کر دیا گیا اور راتوں میں جاگنا مگر ڈائن نظر نہیں آئی۔ کیا پتہ تھا کسی کو کہ بھاگ بھری ڈائن ہوگی۔ بے چارے رگھبیر رام کا بیٹا پرکاش بھی رات ہی کو کھویا تھا اور چاروں طرف ڈھونڈ مچی ہوئی تھی۔ سب ڈھنڈیا کر رہے تھے۔ سارے بستی والے لاٹھیاں سنبھالے رات بھر ادھر سے اُدھر پھرتے رہے اور اب صبح کو اس کی لاش مل گئی مگر تم نے بتا دیا بستی والوں کو کہ ڈائن کون ہے۔ ارے بھیّا ہاتھ نہیں لگی وہ جنک رام کے جنک رام بھی بڑا بکٹ ہے اگر مل جاتی کہیں بھاگ بھری تو لٹھیا مار مار کر جان نکال لیتا اس کی۔ بڑا پریم کرتا تھا اپنے بھتیجے سے اور رہتا بھی تو رگھبیر رام کے ساتھ ہی تھا۔ رگھبیر رام بے چارے کا بھی اکیلا ہی بیٹا تھا پرکاش، بڑا برا ہوا مگر اب اب سمجھ میں نہ آوے آگے کیا ہوگا۔ یہ تو پتہ چل گیا کہ بھاگ بھری ڈائن ہوگئی ہے۔ پتہ نہیں کیوں ہم نے تو پہلے کچھ سنا بھی نہیں۔ میں خاموشی سے یہ کہانی سنتا رہا۔ بڑی دردناک کہانی تھی، ایک لمحے کیلئے یہ احساس بھی دل سے گزرا تھا کہ کہیں میرا یہ انکشاف غلط تو نہیں ہے اور ایک انسان بلکہ دو انسان میرے اس انکشاف کا شکار ہو جائیں گے۔ خدا نہ کرے ایسا ہو۔ خدا کرے جو کچھ میں نے دیکھا ہے وہی سچ نکلے۔ یہاں کسی خبیث رُوح کا معاملہ نہیں تھا بلکہ ایک انسان ہی کا معاملہ تھا، پتہ نہیں اب کیا ہوگا۔ بہرطور بھٹیارے اللہ دین نے یہ کہانی سنائی۔ مجھے خاص نگاہوں سے دیکھا جا رہا تھا۔ تھوڑی دیر کے بعد اللہ دین واپس آیا اور ایک روپیہ میرے حوالے کر گیا۔ کہنے لگا۔ بھیّا ڈیڑھ روپے روز کا کوٹھا ملا ہے تمہیں، ہم نے اَٹھنّی کی رعایت کر دی ہے۔ اب ایک روپے روز پر تم یہاں رہ سکتے ہو۔ دیکھو بھیّا ہمارے ساتھ بھی تو پیٹ لگا ہوا ہے مجبوری ہے۔ ورنہ تم سے کچھ نہ لیتے۔ نہیں اللہ دین تمہارا شکریہ کہ تم نے رعایت کر دی میرے ساتھ، اب کھانا کھلوا دو۔ دوپہر کا کھانا جو دال روٹی پر مشتمل تھا، کھا کر فراغت حاصل کی تھی کہ شور شرابہ سنائی دیا۔ باہر نکل آیا دیکھا تو بہت سے لوگ سامنے کے گھر پر جمع تھے۔ یہ تو پتہ چل ہی گیا تھا کہ یہ گھر تلسی یا بستی والے جسے تلسیا کہتے تھے کا ہے۔ شاید بھاگ بھری گھر واپس آئی تھی اور پکڑی گئی تھی، اللہ دین اور زبیدہ بیگم بھی باہر نکل آئیں، پتہ یہ چلا کہ جنک رام اپنے آدمیوں کے ساتھ آیا تھا اور تلسی کو پکڑ کر لے گیا ہے۔ یہ تو ناانصافی ہے اللہ دین، جنک رام، تلسی کو کیوں پکڑ کر لے گیا بھیّا خون سوار ہے جنک رام پر بھی، بھتیجا مر گیا ہے۔ کریا کرم کر کے لوٹے تھے کہ بے چارہ تلسیا گھر پر مل گیا، لے گئے اسے پکڑ کے اب وہ کیا کریں گے اس کا اللہ جانے تم بیٹھو میں معلوم کر کے آئوں۔ میں بھی چلوں مرضی ہے تمہاری چلنا چاہو تو چلو۔ نا بھیّا مسافر تمہاری بڑی مہربانی ہوگی یہیں پر ٹک جائو۔ میری تو جان نکلی جاوے ہے، ارے کہیں بھاگ بھری میرے ہی گھر میں نہ گھس آئے۔ اللہ میرے کلو کو اپنی امان میں رکھے۔ کلو، اللہ دین اور زبیدہ بیگم کی واحد اولاد تھی۔ وقت گزرتا رہا۔ میں سرائے کے کوٹھے میں آرام کرتے ہوئے یہ سوچتا رہا کہ مجھے جمال گڑھی آنے کی ہدایت کیا اسی سلسلے میں کی گئی ہے اور اگر یہی بات ہے تو میرا کیا عمل ہونا چاہیے۔ یہ تو بالکل ہی الگ سا واقعہ ہوگیا، ایک زندہ عورت انسانی خون کی لاگو ہوگئی تھی۔ میں اس کے خلاف کیا کر سکوں گا۔ کوئی بھوت پریت کا معاملہ تو تھا نہیں، شام کے تقریباً ساڑھے چار بجے ہوں گے کہ باہر سے باتیں کرنے کی آواز سنائی دی اور پھر کسی نے میرے اس کوٹھے یا کمرے کی کنڈی بجائی۔ باہر نکلا تو بیگم اللہ دین کھڑی ہوئی تھیں، چہرے پر خوف کے آثار تھے۔ کہنے لگیں۔ مسافر بھیّا ٹھاکر جی کے آدمی آئے ہیں، تمہیں بلانے کیلئے۔ باہر کھڑے ہوئے ہیں۔ کون ٹھاکر جی ارے اپنی بستی کے مکھیا ہیں کوہلی رام مہاراج۔ زبیدہ بیگم نے بتایا۔ میں نے جلدی سے جوتے وغیرہ پہنے باہر نکل آیا۔ دو آدمی کھڑے ہوئے تھے۔ کہنے لگے۔ بھائی صاحب آپ کو ٹھاکر جی نے بلایا ہے۔ بھاگ بھری کے بارے میں معلومات حاصل کرنے کیلئے۔ اچھا اچھا چلو چل رہا ہوں اللہ دین ابھی تک واپس نہیں آیا تھا۔ واقعی مست مولا آدمی تھا۔ گھر کی کوئی پروا نہیں تھی اسے زبیدہ بیگم نے میرے باہر نکلتے ہی دروازہ مضبوطی سے بند کر لیا، میں ان دونوں کے ساتھ آگے بڑھتا رہا اور جمال گڑھی کے چھوٹے چھوٹے گھروں کے درمیان سے گزرتا ہوا ایک بڑے سے گھر کے سامنے آ رُکا جو لال رنگ کی اینٹوں سے بنایا گیا تھا اور یقیناً یہی کوہلی رام جی کا گھر تھا۔ بڑے سے گھر کے سامنے جمال گڑھی کے سیکڑوں افراد جمع تھے، ہر ایک اپنی اپنی کہہ رہا تھا۔ دونوں آدمی میرے لیے ان کے درمیان راستہ بنانے لگے اور میں گھر کے سامنے پہنچ گیا، بڑی سی پتھر کی چوکی بنی ہوئی تھی جس پر مکھیا جی بیٹھے ہوئے تھے، صورت ہی سے مغرور آدمی نظر آتے تھے۔ دُوسرے تخت سے نیچے ہی کھڑے ہوئے تھے۔ بائیں طرف ایک مفلوک الحال نوجوان نظر آیا جسے رسّی سے کس دیا گیا تھا۔ اس کا رُخسار نیلا پڑا ہوا تھا، ایک آنکھ بھی نیلی ہو رہی تھی۔ ہونٹ سوجے ہوئے تھے، پیشانی پر خون جما ہوا تھا۔ کپڑے پھٹے ہوئے تھے۔ صاف لگتا تھا کہ اسے بہت مارا گیا ہے۔ میں نے فوراً اندازہ لگا لیا کہ یہ تلسی یا ان لوگوں کی زبان میں تلسیا تھا، قابل رحم اور شریف معلوم ہوتا تھا۔ سلام کرو ٹھاکر جی کو۔ مجھے لانے والوں نے کہا۔ میں نے سرد نظروں سے ان دونوں کو دیکھا پھر ٹھاکر کو جو مجھے دیکھتے ہوئے بائیں مونچھ پر ہاتھ پھیرنے لگا تھا۔ ٹھاکر جی یہ مسافر ہیں۔ مجھے لانے والے دُوسرے آدمی نے کہا۔ کہاں سے آئے ہو ٹھاکر نے پوچھا۔ بہت دُور سے۔ جگہ کا نام تو ہوگا۔ ہاں ہے مگر بتانا ضروری نہیں ہے۔ ارے ارے ٹھاکر جی پوچھ رہے ہیں بتائو۔ انہی دونوں میں سے ایک نے سرگوشی کی۔ تم بکواس بند نہیں رکھ سکتے۔ میں نے غرا کر کہا اور وہ شخص بغلیں جھانکنے لگا۔ داروغہ لگے ہو کہیں کے، کوئی نام تو ہوگا تمہارا ٹھاکر نے کہا۔ تم نے مجھے میرے بارے میں پوچھنے کیلئے بلایا تھا، ٹھاکر پوچھ لیا تو کیا برائی ہے۔ بس مسافر ہوں اتنا کافی ہے اصل بات کرو۔ کہاں ٹھہرا ہے یہ ٹھاکر نے دُوسرے لوگوں سے پوچھا۔ اللہ دین کی سرائے میں۔ ہوں، مسلمان ہے۔ ٹھاکر نے دُوسری مونچھ پر ہاتھ پھیرا۔ کیا دیکھا بھئی تو نے ان لوگوں نے تمہیں بتا دیا ہوگا۔ مجھے اس شخص پر غصّہ آ گیا تھا۔ تو بتا۔ بس اتنا دیکھا تھا کہ وہ عورت لاش کے پاس بیٹھی تھی۔ مجھے دیکھ کر کھڑی ہوگئی اور چیخ مار کر بھاگی پھر کھیتوں میں جا گھسی بعد میں جنک رام نے اسے وہیں دیکھا تھا۔ وہ لڑکے کا کلیجہ چبا رہی تھی ٹھاکر نے پوچھا۔ یہ میں نے نہیں دیکھا۔ اس کی پیٹھ میری طرف تھی۔ ٹھاکر جی اس کے ہاتھ خون سے رنگے ہوئے تھے۔ منہ پر بھی خون لگا ہوا تھا۔ جنک رام نے کہا تب میں نے اسے دیکھا۔ وہ بھی مجمع میں موجود تھا۔ چلو مان لیا میں نے، بھاگ بھری ڈائن بن گئی ہے مگر تلسی کا اس میں کیا دوش ہے یہ اس کا بھائی ہے۔ ہیرا بولا۔ ارے تو یہ تو نہیں کہتا اس سے کچھ، اس بیچارے کو تم نے کیوں مارا۔ ٹھاکر بولا۔ اس سے کہو ٹھاکر کہ تلاش کر کے لائے اپنی بہن کو، اسے پکڑ کر لائے بستی والوں کے سامنے۔ جنک رام بولا۔ اور تم سب چوڑیاں پہن کر گھروں میں جا گھسو۔ ٹھاکر آنکھیں نکال کر بولا۔ ہمارے دل میں جو چتا سلگ رہی ہے ٹھاکر تم اسے نہیں دیکھ رہے۔ جنک رام بولا۔ سب کچھ دیکھ رہا ہوں، بہت کچھ خبر ہے مجھے۔ دل کا حال بھی جانتا ہوں مگر یہ اس کی ذمہ داری نہیں ہے۔ تم سب مل کر ڈھونڈو اسے یہ بھی ڈھونڈے گا۔ تمہارے بیچ کچھ نہیں بولے گا، کھولو اسے اور خبردار اس کے بعد کسی نے اسے ہاتھ لگایا، ارے مادھو کھول دے اسے۔ ایک دُبلا پتلا آدمی تلسیا کے بدن سے رسّی کھولنے لگا۔ اور تم جائو داروغہ جی بس پوچھ لیا ہم نے تم سے۔ اس بار ٹھاکر نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا پھر اپنے نوکر مادھو سے بولا۔ اسے اندر لے جا ہلدی چونا لگا دے، مار مار کر حلیہ بگاڑ دیا سسرے کا ابے شکل کیا دیکھ رہا ہے میری لے جا اندر۔ آخر میں ٹھاکر جی نے کڑک کر مادھو سے کہا اور مادھو تلسی کا ہاتھ پکڑ کر اندر جانے کیلئے مڑ گیا۔ ٹھاکر صاحب دوسروں سے بولے۔ جائو بھائیو گھروں کو جائو۔ پہلے بھی برا ہوا تھا، اب بھی برا ہوا ہے مگر بات ایسے کیسے بنے گی۔ گدھے پر بس نہیں چلا گدھیا کے کان اینٹھے۔ اب تو ڈائن کا پتہ بھی چل گیا، بھاگ بھری کو پکڑ لو مگر سنو جو میں کہہ رہا ہوں، میں مکھیا ہوں جمال گڑھی کا، خود فیصلہ مت کر بیٹھنا پولیس بلوا لوں گا، بھاگ بھری مل جائے تو باندھ کر میرے پاس لے آنا سسری کو۔ لوگ منتشر ہونے لگے، میں بھی پلٹ پڑا۔ تھوڑی دُور چلا تھا کہ اللہ دین میرے قریب آ گیا۔ خوب آئے بھیّا مسافر تم ہماری جمال گڑھی میں، کھیل ہی نیارے ہوگئے۔ ارے تم اللہ دین کہاں غائب ہوگئے تھے۔ ارے بس مسافر بھیّا بہتیرے کام تھے رگھبیر رام کے بیٹے کے کریا کرم میں شمشان گئے تھے پھر بے چارے تلسیا کی گھڑنت دیکھتے رہے، ٹھاکر کے آدمی نہ پہنچ جاتے تو جنک رام اس کا بھی کریا کرم کرا دیتا۔ بڑا لٹھیت ہے وہ۔ تلسی کو مارنا تو غلط تھا۔ میں نے اس کے ساتھ آگے بڑھتے ہوئے کہا۔ وہ تو ہے پر جنک رام پر تو خون سوار ہے۔ میرے خیال میں بری بات تھی۔ تمہارا یہ مکھیا عجیب نہیں ہے۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ اسی نے تلسی کو پٹوایا ہوگا۔ ارے مسافر بھیّا، تم نے تو اسے دو کوڑی کا کر کے رکھ دیا۔ اللہ دین نے قہقہہ لگایا۔ منہ دیکھتا رہ گیا تمہارا۔ متعصب آدمی معلوم ہوتا ہے، عجیب سے انداز میں کہہ رہا تھا کہ میں مسلمان ہوں۔ نا مسافر بھیّا نا آدمی برا نہیں ہے۔ اصل بات بتائوں کیا۔ ذات کا ٹھاکر نہیں ہے، بنا ہوا ہے۔ کیا مطلب اہیر ہے ہرنام پور کا، ٹھکرائن گیتا نندی کا من بھایا تھا۔ انہوں نے ماں باپ کی مرضی کے بغیر شادی کرلی ان سے ہرنام پور کے ٹھاکر سدھا نندی نے دولت جائداد دے کر دُور جمال گڑھی میں پھنکوا دیا۔ یہاں ٹھاکر کہلایا، اپنے آپ مکھیا بن گیا۔ دولت کے آگے کون بولے، سب نے مکھیا مان لیا۔ سوچے ہے سب سلام کریں، سر جھکائیں اور کوئی بات نہیں ہے۔ اور کوئی سر نہیں جھکائے تو خود جھک جائے ہے۔ سب کو پتہ چل گیا ہے کہ کیسا آدمی ہے، اس لیے لوگ اس کا مان رکھ لیں ہیں۔ دلچسپ بات ہے۔ اب ہوگا کیا یہ تو مولا ہی جانے ہے مگر سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔ بھاگ بھری پاگل تو ہے مگر مولا جانے ایسی کیوں ہوگئی۔ چھوڑیں گے نا یہ لوگ اسے۔ سسری بستی سے بھاگ ہی جائے تو اچھا ہے۔ اللہ دین نے دُکھی لہجے میں کہا۔ سرائے آ گئی تھی۔ زبیدہ بہن کھانا پکایا ہے کیا ہاں مونگ کی دال میں پالک ڈالاہے۔ مگر پیسے نہیں دیئے تھے تم نے۔ اری خدا کی بندی۔ اری خدا کی بندی۔ کچھ تو آنکھ کی شرم رکھا کر لو گھوڑا گھاس سے یاری کرے تو کھائے کیا۔ بہن ٹھیک کہہ رہی ہیں اللہ دین بھائی۔ آپ نے ویسے ہی میرے ساتھ رعایت کرا دی ہے۔ یہ پیسے بہن میں نے مطلوبہ پیسے دے دیئے بلکہ باقی پیسے بھی دے دیئے اور کہا کہ کل مزید پیسے دوں گا۔ ورنہ یہاں سے چلا جائوں گا۔ رات ہوگئی۔ چاروں طرف سناٹا پھیل گیا۔ باہر مٹی کے تیل کا اسٹریٹ لیمپ روشن تھا جس کی روشنی ایک کھڑکی کے شیشے سے چھن کر آ رہی تھی۔ میں بستر پر لیٹا سوچ رہا تھا کہ اب مجھے کیا کرنا چاہئے۔ حکم ملا تھا جمال گڑھی جائوں وہاں سے بلاوا ہے۔ آ گیا تھا۔ واقعہ بھی میرے ہمرکاب تھا۔ اس سلسلے میں مجھے کیا کرنا چاہیے۔ نہ جانے کتنا وقت انہی سوچوں میں گزر گیا پھر ذہن نے فیصلہ کیا اور اُٹھ گیا۔ مٹکے میں پانی موجود تھا، لوٹا بھی تھا۔ وضو کر کے فارغ ہی ہوا تھا کہ بری طرح اُچھل پڑا، لینا پکڑنا۔ جانے نہ پائے، پکڑو۔ کی بھیانک آوازیں سنائی دے رہی تھیں۔ بے اختیار باہر لپکا اور دروازہ کھول کر نکل آیا۔ دس پندرہ افراد پتھرائو کر رہے تھے، کوئی زمین پر پڑا ہوا تھا۔ غور سے دیکھا تو ایک دلدوز منظر نظر آیا۔ وہی عورت بھاگ بھری، تلسی کے نیچے دبی ہوئی تھی۔ تلسی شاید اسے بچانے کیلئے اس کے اُوپر گر پڑا تھا اور پتھر کھا رہا تھا۔ اس نے اپنا سر دونوں بازوئوں میں چھپا رکھا تھا اور پتھر اس کے بدن پر پڑ رہے تھے۔ پورا جسم تھرا کر رہ گیا۔ بے بسی سے دیکھتا رہا، کیا کرتا۔ اچانک تلسی اُچھل کر دُور جا گرا۔ بھاگ بھری نے اسے اُچھال دیا تھا۔ پھر اس نے بھیانک چیخ ماری، اس کا چہرہ اور سر کے بال خون سے رنگین ہو رہے تھے اور اتنی بھیانک لگ رہی تھی کہ بیان سے باہر ہے۔ اس نے ایک دُوسری منمناتی ہوئی چیخ ماری اور پتھرائو کرنے والوں کی طرف لپکی۔ سارے کے سارے سورما اس طرح پلٹ کر بھاگے کہ ہنسی آ جائے۔ دس بارہ تھے اور بڑھتے جارہے تھے، مگر سب جی چھوڑ بھاگے۔ بھاگ بھری نے دو تین لمبی لمبی چھلانگیں ماریں اور پھرایک طرف مڑ گئی۔ کچھ دیر کے لیے سناٹا چھا گیا۔ میرے پیچھے اللہ دین آ کھڑا ہوا تھا۔ کیا ہوگیا، کیا ہوا مسافر بھیّا شاید بھاگ بھری آئی تھی۔ پھر لوگوں نے اسے پتھر مارے، جب وہ ان پر دوڑی تو وہ بھی بھاگ گئے اور بھاگ بھری بھی غائب ہوگئی۔ ارے، وہ تلسی ہے اسے کیا ہوگیا۔ تلسی ارے او تلسیا ٹھور مار دئی بھیّا، جان نکال دی ہائے رام۔ تلسی رونے اور کراہنے لگا اور اللہ دین اس کے پاس پہنچ گیا۔ ارے ارے یہ پتھر، کیا انہوں نے پتھر مارے ہیں تجھے بھی ابھی اللہ دین نے اتنا ہی کہا تھا کہ مارنے والے شور مچاتے ہوئے دوبارہ آ گئے۔ وہ سب غصّے سے پھنکار رہے تھے۔ کہاں گئی بھاگ بھری، کہاں چھپا دیا ہے۔ گھر میں گھسی ہے۔ نکال لائو، جائو۔ ہاں نہیں تو مار مار کر ہماری جان نکال دئی۔ تلسی نے روتے ہوئے کہا۔ تو نے اسے بھگایا ہے، تو نے اسے پتھروں سے بچایا ہے۔ نہیں تو آج وہ ماری جاتی۔ کسی نے کہا۔ تو رک کاہے گئے، مار مار پتھر ہماری چورن بنائے دیو، کون روکے ہے تمکا۔ تلسی بولا۔ تو نے مکھیا جی کے سامنے وعدہ کیا تھا کہ تو بھاگ بھری کو پکڑوائے گا۔ بستی کے دُوسرے لوگوں کی طرح مگر تو نے اس کی حفاظت کی۔ ایک اور شخص نے الزام لگایا۔ ارے توہار حفاجت۔ چلو جرا تم لوگ مکھیا کے پاس، ہم اسے بتائیں کہ ہم بھاگ بھری کو دبوچ لیئں کہ وہ لمبی نہ ہو جائے پر ای سب نے ہمکا پتھر مار مار کر ہٹا دین اور اوکا نکلوا دین۔ تلسی نے بدستور روتے ہوئے کہا۔ اس بات پر سب کو سانپ سونگھ گیا۔ پھر ان میں سے ایک نے آگے بڑھ کر تلسی سے ہمدردی سے کہا۔ تو نے اس لیے پکڑا تھا تلسی ارے جائو بس جائو تم لوگ بڑے سورما ہو، مرے کو مارو ہو۔ لوگ ایک ایک کر کے کھسکنے لگے۔ پھر سناٹا ہوگیا۔ تلسی اب بھی رو رہا تھا، بچوں کی طرح ہیں ہیں کر کے اور نہ جانے کیوں میرا دل کٹ رہا تھا۔ اللہ دین آگے بڑھ کر اس کے پاس پہنچ گیا۔ اُٹھ تلسیا۔ اس نے تلسی کا بازو پکڑ کر اُٹھاتے ہوئے کہا اور وہ اُٹھ گیا۔ بڑا مارا ہے ہمکا سب نے دینو بھیّا، صبح سے مار رہے ہیں وہ بدستور روتا ہوا بولا۔ آ میرے ساتھ اندر آ جا۔ اللہ دین اسے سرائے میں لے آیا۔ اندر لا کر بٹھایا اور پھر آواز دی۔ زبیدہ اری کیا گھوڑے بیچ کر سوئی ہے، ایک پیالہ دُودھ لے آ ہم نا پی ہے دینو بھیّا، جی نہ چاہ رہا بھیّا۔ تلسی اب بھی اسی طرح رو رہا تھا۔ چپ تو ہو جا تلسی، کیا زیادہ چوٹ لگی ہے اللہ دین نے ہمدردی سے کہا۔ ارے ہم چوٹ پر نا رو رہے۔ ہمار من تو بہنیا کے لیے رووے ہے، ماتا کی سوگند دیکھو بھیّا ہمار بہنیا ڈائن نہ ہے۔ ہم اسے جانیں ہیں۔ او سسری تو کھود بھاگ جلی ہے۔ اولاد کے دُکھ کی ماری۔ تم کھود دیکھت رہے ہو بچّے اسے پتھر ماریں ہیں۔ وہ ان سے کچھ کہے ہے کبھی۔ مگر تلسی صبح کو اسے مسافر بھیّا نے دیکھا تھا۔ اللہ دین بولا۔ ارے پگلیا تو ہے ہی، ڈولت ڈولت پھرے ہے۔ شریر پڑا دیکھا ہوگا رگھبیرا کے چھورا کا۔ بیٹھ گئی ہوگی۔ ٹٹولنے لگی ہوگی۔ کھون لگ گیا ہاتھ منہ پر، کسی نے اسے کلیجہ کھاتے ہوئے دیکھا میرا دل دھک سے ہوگیا۔ ایسا ہو سکتا تھا، یہ ممکن تھا۔ یہ انکشاف میں نے کیا تھا۔ بستی والوں کو میرے ذریعہ یہ سب ہوا تھا، میں پتھرا گیا۔ تلسی کہہ رہا تھا۔ اب اللہ دین بھیّا لاگو ہوگئے ہیں، مار ڈالیں گے ہمار بہنیا کو سب مل کر نہیں تلسی۔ ایسا نہیں ہوگا۔ میرے منہ سے نکلا۔ ایسا ہی ہوگا ہمکا پتہ ہے۔ اگر بھاگ بھری نے دیوانگی میں، ان بچوں کو مار کر ان کا کلیجہ نہیں کھا لیا ہے تلسی تو میں وعدہ کرتا ہوں جمال گڑھی والوں کی یہ غلط فہمی دُور کر دوں گا۔ اگر اس نے ایسا کیا ہے تو پھر مجبوری ہے۔ تو یہیں سو جا تلسی اپنے گھر مت جا۔ نا دینو بھیّا گھر جانے دو اگر وہ پھر آ گئی تو۔ دینو بھیّا ہم کوئی اسے پکڑ تھوڑی رہے تھے۔ ہم تو اسے بچا رہے تھے۔ اس پر پڑنے والے پتھر کھا رہے تھے۔ بہنیا ہے ہمار وہ۔ ارے ہم اسے نا مرنے دیں گے اسے۔ چلے بھیّا تمہاری مہربانی۔ وہ وہاں سے چلا گیا۔ بہت دیر خاموشی رہی۔ پھر میں نے کہا۔ اللہ دین بھائی تمہارا کیا خیال ہے۔ کیا وہ ڈائن ہے۔ مولا جانے۔ اللہ دین گہری سانس لے کر بولا۔ ایک بات بتائو اللہ دین۔ ہوں۔ بستی والے مکھیا کی بات مانتے ہیں بہت، کسی بات پر ٹیڑھا ہو جائے تو سب سیدھے ہو جاتے ہیں۔ میں مکھیا سے ملوں گا۔ اس سے کہوں گا کہ وہ بستی والوں کا جنون ختم کرے۔ ان سے کہے کہ وہ خود کھوج کر رہا ہے۔ پتہ چل گیا کہ بھاگ بھری ہی ڈائن ہے تو وہ خود اسے سزا دے گا۔ اس نے بستی والوں سے یہ بات کہی بھی تھی۔ میں نے یہ جملے کہے ہی تھے کہ اندر سے زبیدہ کی آواز سنائی دی۔ ارے اب اندر آئو گے یا باہر ہی رہو گے۔ میں کب سے بیٹھی ہوں۔ جاگ رہی ہے اچھا مسافر بھیّا آرام کرو۔ اللہ دین اندر چلا گیا۔ میں اپنے کمرے میں آ گیا۔ باوضو تھا اور اس ہنگامے سے پہلے ایک ارادہ کر کے اُٹھا تھا چنانچہ اس پرعمل کا فیصلہ کرلیا۔ ایک صاف ستھری جگہ منتخب کی اور وہاں دو زانو بیٹھ کر آنکھیں بند کرلیں۔ مجھے درود شریف بخشا گیا تھا۔ یوں تو کلام الٰہی کا ہر زیر زبر پیش مد اور جزم اپنی جگہ آسمان ہے مگر مجھے رہنمائی کے لیے درود پاک عطا کیا گیا تھا، چنانچہ آنکھیں بند کر کے میں نے ورد شروع کر دیا۔ پڑھتا رہا ذہن سو سا گیا مگر ہونٹوں سے درود پاک جاری رہا۔ تب میرے ذہن میں کچھ خاکے اُبھرنے لگے۔ ایک بندر کی شکل اُبھری جو تاج پہنے ہوئے تھا پھر ایک عمارت کا خاکہ اُبھرنے لگا۔ بندر کے قدموں میں کوئی سیاہ سی شے پھڑک رہی تھی، سمجھ میں نہ آ سکا کیا ہے۔ عمارت کے محراب نما دروازے پھر ایک چہرہ۔ پہلے آنکھیں پھر ناک اور ہونٹ پھر پورا چہرہ۔ ایک مکمل چہرہ جو کسی عورت کا تھا۔ اس کے بعد دماغ کو جھٹکا سا لگا اور میں جیسے جاگ گیا۔ میری پیشانی شکن آلود ہوگئی۔ کچھ سمجھ نہیں پا رہا تھا۔ وہ چہرہ یاد تھا، عمارت کے نقوش یاد تھے اور بس۔ دیر تک اس کے بارے میں سوچتا رہا اس کے بعد دوبارہ درود شریف پڑھنا شروع کیا۔ اور وضاحت چاہتا تھا لیکن شاید اس سے زیادہ کچھ نہیں بتایا جانا تھا اس لیے نیند آ گئی اور وہیں لڑھک کر سو گیا۔ نہ جانے کتنا وقت گزرا تھا سوتے ہوئے کہ اچانک ایک بھیانک چیخ سنائی دی اور پھر مسلسل چیخیں اُبھرنے لگیں۔ ایک لمحے تو دماغ سناٹے میں رہا پھر احساس ہوا کہ چیخوں کی آوازیں زبیدہ اور اللہ دین کی ہیں۔ اٹھا اور دوڑتا ہوا کمرے سے باہر نکل آیا۔ زبیدہ ہی تھی اور اس کے منہ سے آوازیں نکل رہی تھیں۔ ہو، ہو، ہو۔ اس کا حلیہ بگڑا ہوا تھا۔ چہرہ خوف کے مارے سرخ ہو رہا تھا۔ آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ اس کا ایک ہاتھ کمرے کے دروازے کی طرف اٹھا ہوا تھا اور وہ کچھ کہنا چاہ رہی تھی مگر دہشت نے زبان لڑکھڑا دی تھی۔ چیخوں کی آواز کے سوا کچھ منہ سے نہیں نکل پا رہا تھا۔ اللہ دین بھیّا کی حالت بھی اس سے مختلف نہیں تھی۔ ان دونوں کو سنبھالنا تو مشکل تھا مگر یہ اندازہ ہوگیا تھا کہ جو کچھ بھی ہے اس کمرے میں ہے جس میں یہ سوتے ہیں چنانچہ اللہ کا نام لے کر کمرے کے کھلے دروازے سے اندر داخل ہوگیا۔ اندر لالٹین ٹمٹما رہی تھی اور اس کی مدھم ملگجی روشنی کمرے کے ماحول کو اور خوفناک بنا رہی تھی۔ بستر پر کلو بے سُدھ پڑا ہوا تھا۔ اچانک میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے۔ دل اُچھل کر حلق میں آ گیا۔ کلو کلو ساکت ہے اتنے شور و شرابے کے باوجود اس کے بدن میں جنبش نہیں ہے۔ تو کیا وہ مگر یہ سوچ مکمل بھی نہیں ہوئی تھی کہ اچانک چوڑے پلنگ کے نیچے سے دو ہاتھ باہر نکلے اور انہوں نے برق رفتاری سے میرے دونوں پائوں پکڑ کر کھینچے۔ میں توازن نہ سنبھال سکا اور دھڑام سے نیچے آ رہا۔ میرے گرتے ہی ایک بھیانک وجود پلنگ کے نیچے سے نکل آیا۔ وہ وحشیانہ انداز میں میرے سینے پر آ چڑھا تھا اور میرے اعضا بالکل ساکت ہوگئے تھے۔ خوفناک وجود ایک لمحے میرے سینے پر سوار رہا پھر اس نے ایک اور چیخ ماری اور میرے سینے سے اتر کر دروازے کی طرف لپکا اور جھپاک سے باہر نکل گیا۔ اللہ دین دوبارہ چیخا۔ زبیدہ دھڑام سے زمین پر گر پڑی۔ وہ شاید بے ہوش ہوگئی تھی۔ میں سنبھل کر کھڑا ہوگیا۔ اللہ دین خوف زدہ لہجے میں بولا۔ نکل گئی، نکل گئی۔ میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور پہلے اللہ دین کے بیٹے کلو کو دیکھا۔ بغور دیکھنے سے اندازہ ہوگیا کہ بچہ گہری نیند سو رہا ہے اور کوئی بات نہیں ہے۔ اندازے سے میں نے ایک خوفناک وجود کو بھی پہچان لیا تھا۔ وہ بھاگ بھری ہی ہوسکتی تھی۔ اللہ دین ایک طرف بیوی کو سنبھال رہا تھا اور دوسری طرف بیٹے کیلئے فکرمند تھا۔ تمہارا بیٹا سو رہا ہے اور بالکل ٹھیک ہے۔ میں نے اسے بتایا۔ ارے زبیدہ، ہوش میں آ کلو ٹھیک ہے، اسے کچھ نہیں ہوا۔ اللہ دین نے اسے اٹھا کر چارپائی پر لٹایا اور میرے پاس آکر کلو کو دیکھنے لگا۔ پھر ہاتھ جوڑ کر بولا۔ مولا تیرا شکر ہے۔ وہ بھاگ بھری تھی میں نے پوچھا۔ ارے ہاں اس سسری نے تو ناک میں دم ہی کردیا۔ لو یہاں بھی آگھسی۔ اب کیا ہوگا مولا نہ کرے اگر ہم جاگ نہ جاتے تو کیا ہوا تھا بس مسافر بھیا یہ دھماچوکڑی ہوئی تو دروازہ کھلا رہ گیا۔ ہم سو گئے تھے، کسی کھٹکے سے آنکھ کھلی تو اس بھیڑنی کو دیکھا، کلو پر جھکی ہوئی تھی۔ ہم سمجھے کہ مولا نہ کرے مولا تیرا لاکھ لاکھ شکر ہے۔ اللہ دین سجدے کرنے لگا۔ کچھ دیر کے بعد زبیدہ بیگم ہوش میں آگئیں۔ چیخیں مار کر رونے لگیں۔ بڑی مشکل سے انہیں یقین آیا کہ کلو زندہ ہے۔ نہ جانے کیا کیا اول فول بکنے لگیں۔ میں واپس اپنے کمرے میں آگیا تھا۔ رات تقریباً پوری گزر چکی تھی۔ اس کے بعد نیند نہیں آئی۔ نماز سے فراغت پا کر باہر نکل آیا۔ بڑی خوشگوار صبح تھی۔ ننھے منے پرندے چہلیں کررہے تھے۔ اللہ دین بھی میرے پاس آگیا۔ میں نے مسکرا کر اسے دیکھا تو وہ فکرمندی سے بولا۔ بڑی مشکل آگئی مسافر بھیا اب ہوگا کیا سب ٹھیک ہوجائے گا، فکر مت کرو۔ گھر والی تو بری طرح ڈر گئی ہے۔ بخار آگیا ہے بے چاری کو ویسے اب تو کچھ گڑبڑ لگے ہی ہے مسافر بھیا کیا بھاگ بھری ڈائن بن ہی گئی۔ بال بال بچ گیا ہمارا کلو اللہ دین نے کہا۔ میرے پاس کہنے کیلئے کچھ نہیں تھا، کیا کہتا۔ کوئی فیصلہ کن بات کہنا مشکل ہی تھا۔ چائے بنا لیں، ناشتے میں کیا کھائو گے جو بھی مل جائے۔ میں نے کہا اور اللہ دین چلا گیا۔ میں خیالات میں کھو گیا۔ وہ چہرہ اور وہ عمارت یاد تھی جسے مراقبے کے عالم میں دیکھا تھا۔ ہدایت کی گئی تھی کہ اب خود پر بھروسہ کروں۔ کمبل واپس لے لیا گیا تھا۔ امتحان تھا مگر دل کو یقین تھا کہ امتحان میں پورا اتارنے والی بھی وہی ذات باری ہے جس نے اس امتحان کا کیا ہے۔ خیالوں میں جیب میں ہاتھ چلا گیا۔ کوئی مانوس شے نظر آئی، نکال کر دیکھا تو چار روپے تھے ۔یہ تائید غیبی تھی۔ مجھے اس اعتماد پر یقین دلایا گیا تھا جو میرے دل میں تھا۔ میرا وظیفہ مجھے عطا کردیا گیا تھا۔ بڑی تقویت ملی۔ دل کو اور اطمینان ہوگیا کہ جو کچھ ہوگا، بہتر ہوگا۔ چائے پیتے ہوئے تین روپے اللہ دین کو دے دیئے۔ وہ بولا۔ شرمندہ کررہے ہو مسافر بھیا مگر اتنے کاہے کو بس حساب رکھنا، کل پھر دوں گا۔ اللہ دین نے شرمندگی سے سر جھکا لیا تھا۔ کوئی نو بجے ہوں گے کہ تلسی کراہتا ہوا آگیا۔ بخار چڑھ گیا ہے سسرا بھیا دینو، ایک اٹھنی ادھار دے دو گے ہاں ہاں کیوں نہیں، یہ لو۔ اللہ دین نے جیب سے اٹھنی نکال لی۔ یہ روپیہ بھی لے تو تلسی فالتو پڑا ہے میری جیب میں۔ میں نے جیب سے روپیہ نکال کر تلسی کو دیا جو اس نے بڑی مشکل سے لیا تھا۔ گیارہ بجے کے قریب میں بستی گھومنے نکل گیا۔ آبادی بہت چھوٹی تھی۔ ایک مسجد بھی بنی ہوئی تھی مگر نہایت شکستہ حالت میں، کوئی دیکھ بھال کرنے والا بھی نہیں نظر آیا۔ اندر داخل ہوگیا، صفائی ستھرائی کی۔ اذان بھی نہیں ہوئی، میں نے خود اذان دی لیکن ایک بھی نمازی نہ آیا۔ نماز سے فارغ ہوکر گھومنے نکل گیا۔ کھیتوں اور جنگلوں کے سوا کچھ نہیں تھا۔ ہاں کافی دور نکل آنے کے بعد ایک مٹھ نظر آیا۔ اس کے عقب میں ایک سیاہ رنگت عمارت بھی نظر آئی تھی۔ قدم اسی جانب اٹھ گئے۔ عمارت کے اطراف میں انسانی قد سے اونچی جھاڑیاں نظر آرہی تھیں۔ ان کے درمیان پیلی سی پگڈنڈی بھی پھیلی ہوئی تھی جو اسی عمارت تک جاتی تھی۔ میں اسی پگڈنڈی پر آگے بڑھتا رہا۔ راستے میں کئی جگہ سانپوں کی سرسراہٹ بھی سنائی دی تھی۔ یقیناً ان جھاڑیوں میں سانپ موجود تھے۔ ویرانے میں بنی ہوئی یہ عمارت بڑی عجیب نظر آرہی تھی لیکن میرے لئے بہت دلچسپی کا باعث تھی۔ چنانچہ میں آگے بڑھتا ہوا اس کے دروازے پر پہنچ گیا اور پھر اچانک ہی میرے دماغ کو ایک جھٹکا سا لگا۔ عالم استغراق میں جو عمارت میں نے دیکھی تھی، اس وقت یقیناً وہی میری نگاہوں کے سامنے تھی۔ کم ازکم اس سلسلے میں مجھے اپنی یادداشت پر بھروسہ تھا۔ میرا دل تیزی سے دھڑکنے لگا۔ اس کا مقصد ہے کہ جو نشاندہی کی گئی تھی، وہ بالکل مکمل تھی اور یقینی طور پر مجھے یہاں سے کوئی رہنمائی ملے گی۔ وہی محرابیں، وہی انداز آگے بڑھتا ہوا اس بڑے سے ٹھنڈے ہال میں پہنچ گیا جو نیم تاریک تھا، روشن دانوں سے جھلکنے والی کچھ روشنی نے ماحول کو تھوڑا سا منور کردیا تھا ورنہ شاید نظر بھی نہ آتا۔ درمیان میں ہنومان کا بت استادہ تھا۔ ہاتھ میں گرز لئے، ہنومان کا بت بہت خوفناک نظر آرہا تھا اور اس سنسان ماحول میں یوں لگ رہا تھا جیسے ابھی بت اپنی جگہ سے آگے بڑھے گا اور مجھ پر حملہ کردے گا۔ میں نے اس کی آنکھوں میں غیر معمولی چمک دیکھی حالانکہ پتھر کا تراشا ہوا بت تھا لیکن آنکھیں جاندار معلوم ہوتی تھیں۔ میں ان آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتا رہا لیکن بت میں کوئی جنبش نہیں ہوئی تھی۔ یہ صرف تنہائی اور ماحول کا دیا ہوا ایک تصور تھا البتہ یہ بات میں اچھی طرح جانتا تھا کہ میری رہنمائی بے مقصد نہ کی گئی ہوگی۔ آگے بڑھ کر بت کے بالکل قریب پہنچ گیا۔ ہلکی ہلکی سرسراہٹوں سے یوں محسوس ہوا تھا جیسے آس پاس کہیں کوئی موجود ہے لیکن نظر کوئی بھی نہیں آرہا تھا۔ میں نے بت کے قدموں میں دیکھا اور دوزانو بیٹھ کر دیکھنے لگا۔ جاری ہے
null